• ابتداء
  • پچھلا
  • 77 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26516 / ڈاؤنلوڈ: 3902
سائز سائز سائز
توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اب آئیے دیکھتے ہیں  کہ ”معائنے“ کے لمحے میں توبہ کیوں قبول نہیں  ہوتیقرآن واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ :

فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْآ ٰامَنَّا بِاﷲِ وَحْدَه وَ کَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِه مُشْرِکِیْنَ

پھر جب انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم خدائے یکتا پر ایمان لائے ہیں  اور جن باتوں کا شرک کیا کرتے تھے سب کا انکار کر رہے ہیں (سورہ مومن۴۰آیت ۸۴)

یعنی جوں ہی انہوں نے ہمارے انتقام کودیکھا، توبہ کرنا چاہی، ہم اُن کی توبہ قبول نہیں  کریں گےجس لمحے ہمارا انتقام ان کے سر پر پہنچے، اس لمحے ان کا اظہارِ ایمان کرنا، اظہارِتوبہ کرنا بے فائدہ ہوگا

کیوں؟ اسلئے کہ توبہ صرف پشیمانی اورصرف پلٹنے کا نام نہیں  ہےیعنی اگر انسان کسی بھی سبب سے صرف اپنی گمراہی سے لوٹ آئے، تو اسے توبہ شمار نہیں  کیا جائے گاتوبہ اس وقت ہوگی جب انسان کے اندر ایک اندرونی انقلاب پیدا ہوجائےیعنی انسان کی شہوانی، غضبی اور شیطانی قوتیں اُس کی تباہکاریوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں، اور انسان کے وجود کی مملکت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیںیہ ہیں  توبہ کے معنیتوبہ یعنی انسان کا اندرونی انقلاب

ایک مرحلے پر پہنچنے کے بعد، جب انسان کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ موت کے چنگل میں پھنس چکا ہے اور عذاب ِ الٰہی اسے اپنے سامنے نظر آتا ہے، ظاہر ہے وہ ایسے موقع پر اظہارِ ایمان کرتا ہے، لیکن ایمان کا یہ اظہار اُس کے اندر پیدا ہونے والا مقدس انقلاب نہیں  ہوتاقرآن، فرعون کے بارے میں کہتا ہے :

۴۱

حَتّٰی اِذَآ اَدْرَکَهُ الْغَرَقُلا قَالَ ٰامَنْتُ اَنَّه لااَآ اِٰلهَ اِلَّا الَّذِیْ ٰامَنَتْ بِه بَنُوْآ اِسْرَآئِیْلَ

یہاں تک کہ جب غرق ہونے کے قریب پہنچ گیا تو اس نے آواز دی کہ میں اس خدائے واحد ہٗ لا شریک پر ایمان لے آیا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں (سورہ یونس۱۰آیت ۹۰)

فرعون جب تک دنیا میں ہے اوراس کے جسم کو دنیا کی ہوالگ رہی ہے وہ فرعونیت کا مظاہرہ کرتا ہے، کوئی دلیل نہیں  مانتا، کسی وعظ و نصیحت کوقبول نہیں  کرتا، موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلے منعقد کرواتا ہے، خود جادوگر ایمان لے آتے ہیں  لیکن وہ مزید سرکشی کا اظہار کرتا ہے، موسیٰ اور ان کی قوم کے قتل کے درپے ہوجاتاہے، اُن کا تعاقب کرتا ہےجب وہ دریا میں ڈوبنے لگتا ہے، پانی اسے گھیر لیتا ہے، اُسے اپنی زندگی کا اختتام نظر آنے لگتا ہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اب اُس کے پاس بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں  رہا، تو کہتا ہے:قَالَ امَنْتُ اَنَّه لااَآ اِٰلهَ اِلَّاالَّذِیْ ٰامَنَتْ بِه بَنُوْآ اِسْرَآئِیْل ہاں، میں اب موسیٰ کے خدا پر ایمان لے آیا

اب یہاں پہنچ کر اس کی توبہ قبول نہیں  ہوگی

خدا اس کی توبہ کیوں قبول نہیں  کرے گا؟

کیا خدا بخل سے کام لے رہا ہے؟

نہیں ، اگر توبہ ہو تووہ قبول کرے! یہ توبہ ہی نہیں  ہےتوبہ، یعنی باطن میں پیدا ہونے والا ایک مقدس انقلابیہ مقدس باطنی انقلاب نہیں  ہے

۴۲

ایک ایسا انسان جو دریا کی تہہ میں ہو، جس کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہو، وہ جس طرف بھی نگاہ اٹھائے اُسے پانی ہی دکھائی دے، اور اس حال میں وہ توبہ کا اظہار کرے، تو ایسے شخص کا ضمیر منقلب نہیں  ہوا ہے، اُس کی فطرت زندہ نہیں  ہوئی ہے، اُس نے خود اپنے خلاف قیام نہیں  کیا ہےبلکہ اب اس حال میں جب وہ اپنے آپ کوبے بس اور لاچار محسوس کر رہا ہے، تو مجبوراً اظہارِ تسلیم کر رہا ہےلہٰذا اُس سے کہتے ہیں  کہ: ٰٓالْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْل

تو آواز آئی کہ اب جبکہ تو پہلے نافرمانی کر چکا ہے(سورہ یونس ۱۰آیت ۹۱)

لمحے بھر پہلے جب تم آزاد تھے، اُس وقت تم نے یہ بات کیوں نہ کہی؟ گھڑی بھر پہلے جب تم آزاد تھے، اگر اُس وقت یہ کہا ہوتا، تو پتا چلتاکہ تمہارے اندر ایک مقدس انقلاب پیدا ہوا ہےلیکن اب جب یہ کہتے ہو، تو یہ، کسی مقدس انقلاب کی وجہ سے نہیں  ہے، بلکہ مجبوری اور بے بسی کی بنا پرہے

دنیا کا کونسامجرم ایسا ہے جو عدالت کے کٹہرے میں آنے کے بعد پشیمانی کا اظہار نہیں  کرتا؟ لیکن یہ پشیمانی نہیں  ہے، اصلاح نہیں  ہے، راہِ راست پرآنے کی علامت نہیں  ہےاگرگرفتار ہونے سے پہلے خودمجرم کے اندر انقلاب پیدا ہو جائے اور اس کے پاس جرم کرنے کاموقع ہو، اُس کے باوجود جرم کا مرتکب نہ ہو، تواس کا نام توبہ اور مخلصانہ رجوع ہےپس آخری لمحات میں، اس حال میں کہ جب انسان کو دوسری دنیا نظر آنے لگتی ہے اُس کی توبہ قبول نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ توبہ ہوتی ہی نہیں ایسا نہیں  ہوتا کہ وہ توبہ ہے لیکن اسے قبول نہیں  کیا جاتا، نہیں ، یہ اصلاً توبہ ہوتی ہی نہیں  ہے

 رہی بات یہ کہ اُس دوسری دنیا میں انسان کی توبہ کیوں قبول نہیں  ہوتی؟ توپہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا جواب اسی پہلے جواب سے واضح ہےکیونکہ اُس دنیا میں بھی انسان ہر چیز کو دیکھ لیتا ہے، سب کچھ اُس کے سامنے ہوتا ہےلہٰذا جب وہ وہاں پرتوبہ کا اظہار کرتا ہے

۴۳

اور کہتا ہے کہ خدایا! میں پشیمان ہوں، تو اُس کا یہ اظہارِ پشیمانی اُس میں پیدا ہونے والے باطنی مقدس انقلاب کی وجہ سے نہیں  ہے، ایک آزاد انقلاب نہیں  ہے

دوسری بات یہ کہ جوں ہی انسان اس دنیا سے قدم باہر رکھتا ہے، اُسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اب اُس کی حیثیت کیاہےاُس کی حیثیت اُس پھل کی سی ہے جو ایک درخت پر تھااور اب پک کریا کسی بھی وجہ سے درخت سے جدا ہو گیا ہے

پھل جب تک درخت پر رہتا ہے، اُس وقت تک درخت کے نظام کا تابع ہوتا ہےاگر اُس کی نشوونما ہوتی ہے، تو درخت کے ذریعے ہوتی ہےاگر اُس تک پانی پہنچتا ہے، تو درخت کی جڑوں کے راستے پہنچتا ہےاگر غذائی مواد اُس تک پہنچتا ہے، تو درخت کے ذریعے پہنچتا ہےاگر وہ ہوا سے استفادہ کرتا ہے، تو درخت کے ذریعے استفادہ کرتا ہےاگر اُس کا ذائقہ میٹھا ہوتا ہے، تو اُس عمل اور ردِ عمل کا نتیجہ ہوتا ہے جو درخت میں انجام پاتا ہےاگر اُس کا رنگ بدلتا ہے، تو یہ بھی درخت ہی کے ذریعے ہوتا ہے

جوں ہی پھل درخت سے جدا ہوتا ہے، اُس کے لئے موجود تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیں مثلاً لمحے بھر پہلے جو سیب زمین پر گرا تھا، وہ کچا درخت پر موجود تھا، اُس کے لئے اِس بات کا امکان تھا کہ وہ پک جائے، ایک اور مرحلہ طے کرلے، اُس کا رنگ بدل جائے، اُس کے حجم میں اور اضافہ ہوجائے، ذائقہ اور خوشگوار ہوجائے، اُس کی مٹھاس بڑھ جائے، وہ زیادہ خوشبو دارہوجائےلیکن جوں ہی وہ درخت سے گرتا ہے، اُس کے لئے تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیں یعنی جس لمحے وہ درخت سے گرا تھا وہی اُس کی آخری کیفیت، آخری حالت ہوتی ہے انسان درخت ِ کائنات کا پھل ہے، دنیا کے درخت کا پھل ہےہم انسانوں کے لئے موجود تمام امکانات، اسی کائنات، اسی دنیا میں ہیں ہمارے لئے اچھے ہونے کا امکان اسی دنیا میں پایاجاتاہے،

ہمارے بُرے اور بدتر ہونے کے وسائل بھی اسی دنیا میں موجود ہیں جب ہم اس دنیا میں موجود ہوتے ہیں ، توکائنات اور دنیا کے درخت پر ہوتے ہیں ، اس درخت کا پھل ہوتے ہیں

۴۴

این جہان ہمچون درخت است اے گرام

ما بر آن، چون میوہ ھای نیم خام

جب تک ہم کائنات کے درخت کی شاخ پر ہیں ، ہمارے پاس تمام امکانات موجودہیں اگرہم عبادت کریں، توپکے ہوئے پھل کی طرح پک جائیں گے اور اگر گناہ کے مرتکب ہوں، توسڑے ہوئے پھل کی مانند سڑ جائیں گےجیسے کوئی کیڑا یا گھن(۱) درخت کے ذریعے اس پھل تک پہنچ گیا ہو

توبہ بھی امکانات میں سے ایک امکان ہےاُس پانی یا خوراک کی مانند ہے جو درخت ِ کائنات کے ذریعے ہم تک پہنچنا چاہئےلہٰذامرنے کے بعد ہمارے کام نہیں  آئے گی

کیوں؟

اسلئے کہ ہم نے عرض کیا کہ توبہ ایک مقدس انقلاب ہے، اور تمام تبدیلیوں، تغیرات اور انقلابات کا تعلق اِس دنیا سے ہےاپنی راہ کو بدلنا، اپنی سمت میں تبدیلی لانا سب کا سب اِس دنیا سے تعلق رکھتا ہے اوپر اٹھنا اور نیچے گرنا اس دنیا میں ممکن ہےجوں ہی ہم اُس دنیا میں قدم رکھیں گے، جس حد اور درجے میں ہوں گے، جس راہ پر ہوں گے، جس سمت ہمارا رخ ہوگا وہیں  ٹھہر کے رہ جائیں گےاُسی مقام پر ہمارے عمل کی آخری حد ختم ہوجائے گی

ایک اور مثال پیش خدمت ہے:

بچہ جب تک رحمِ مادر میں ہوتا ہے، ماں کے وجود سے وابستہ ہوتا ہےاُس کی خوراک ماں کی جانب سے ہے، اُس کے بدن کا مائع او رپانی ماں کے وجود سے ہے، اُس کی تندرستی اور بیماری ماں سے ہےلیکن جیسے ہی وہ ماں سے پیدا ہوتا ہے،

--------------

1:- درخت یا غلے میں لگنے والا ایک کیڑا

۴۵

ماں سے اُس کی یہ وابستگیاں ختم ہوجاتی ہیں ، اُس کی زندگی ایک اور نظام کے تابع ہوجاتی ہےاور اب وہ ایک لمحے کے لئے بھی اُس پہلے نظام کے ساتھ، جو رحمِ مادر کا نظام تھا، زندگی بسر نہیں  کر سکتاجوں ہی انسان اِس دنیا سے جاتا ہے، اُس کی زندگی کا نظام یکسر بدل جاتا ہےاور اُس کے لئے اِس دنیا کے نظاموں سے معمولی سے استفادے کاامکان بھی نہیں  رہتاعمل اور توبہ، پیش قدمی اور پسپائی، اوپر اٹھنا اور نیچے آنااور راستے اور سمت کو تبدیل کرنا، یہ سب باتیں اِس دنیا سے تعلق رکھتی ہیں

حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے:

اَلْیَوْمَ عَمَلٌ وَ لَا حِسَابٌ وَ غَدًا حِسَابٌ وَ لَا عَمَلَ (۲)

فرماتے ہیں : اے لوگو ! آج عمل کا دن ہے، حساب کادن نہیں  دنیا جزا اور احتساب کا مقام نہیں  البتہ یہ نہیں  کہہ رہے کہ دنیا میں کسی مکافات ِعمل کا سامنا نہیں  کرنا پڑتابعض اعمال کی دنیا ہی میں مکافات ہےاور دنیا میں انسان کو جن مصیبتوں کا سامناکرنا پڑتا ہےاُن میں سے بعض انسان کے عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں  لیکن یہ نہ سمجھئے گا کہ خدا ہر بُرے عمل کا حساب اسی دنیا میں لے لیتا ہے، اور نہ یہ تصور پیدا ہوکہ جس کسی بُری حالت کا انسان کو شکار ہونا پڑتا ہے وہ اُس کے کسی گزشتہ عمل کا نتیجہ ہوتی ہےنہیں  ، ایسا نہیں   ہے

لہٰذا اگر اِس دنیا میں انسان کو کوئی سزا نہیں ملتی، تو اِس کا یہ مطلب نہیں  کہ اُس کا حساب صاف ہےنہیں ، ایسا نہیں  ہےاوراگر کسی کو دنیا میں کوئی سختی دیکھنا پڑے، تو یہ اِس بات کی دلیل نہیں  ہے کہ وہ اعمالِ بد کا مرتکب ہوا ہےمثلاً یہ جوایک سیلاب آیا اور پاکستانیوں کو ہلاکت سے دوچار کیا(۳)

--------------

۲:- آج عمل کا دن ہے، حساب نہیں  ہے اور کل حساب کا دن ہوگا، عمل کی گنجائش نہیں  ہوگی(نہج البلاغہخطبہ۴۲)

۳:- یہ اُس زمانے میں پاکستان میں آنے والے ایک سیلاب کی جانب اشارہ ہے

۴۶

کیا یہ اُن کے بُرے عمل کی دلیل ہے؟ یعنی خدا نے اِس دنیا ہی میں اُن کا حساب کردیا ہے؟ نہیں ، ایسا نہیں  ہےاسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ:اَلْیَوْمَ عَمَلٌ وَ لَا حِسَابٌ وَ غَدًا حِسَابٌ وَ لَا عَمَلَ دنیامقامِ عمل ہے، مقامِ حساب نہیں اِس کے برعکس آخرت مکانِ عمل نہیں ، صرف اور صرف حساب لئے جانے کی جگہ ہے

پس یہ جو انسان کے لئے توبہ کا وقت موت اور اُس کے آثار نظر آنے سے پہلے تک محدودکیا گیا ہے، اور جب انسان کو موت اپنے سر پر نظر آنے لگے (جیسے فرعون کے ساتھ ہوا تھا) تو ایسے وقت میں اُس کی توبہ قبول نہیں  کی جائے گی، اور اسی طرح عالمِ آخرت میں توبہ نہ ہونے کا سبب وہی باتیں ہیں  جنہیں  ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا

اِن سے ہمیں کیا نتیجہ حاصل کرنا چاہئے؟

بقول حضرت علی علیہ السلام:اَلْیَوْمَ عَمَل (آج عمل کا دن ہے) لہٰذا ہمیں موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئےاُن لوگوں میں سے نہیں  ہونا چاہئے جویہ سوچ کرتوبہ میں تاخیر کرتے رہتے ہیں  کہ ابھی بہت وقت پڑاہےخداوند عالم فرماتا ہے:

یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْط وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا (۴)

یہ امید رکھنا کہ ابھی دیر نہیں  ہوئی، ابھی توہماری کافی عمر باقی ہے، ابھی ہم نے دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے، یہ شیطانی بہلاوے ہیں ، نفسِ امارہ کے فریب ہیں  انسان کو توبہ میں تاخیر نہیں  کرنی چاہئے

یہاں ہماری تمہید ختم ہوئی، اب حضرت علی ؑ کے کلام کی طرف آتے ہیں :

--------------

۴:- شیطان اُن سے وعدہ کرتا ہے اور اُنہیں  امیدیں دلاتا ہے، اور وہ جوبھی وعدہ کرتا ہے وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں  ہے(سورہ نسا ۴آیت ۱۲۰)

۴۷

توبہ کی شرائط

جب اُس شخص نے حضرت علی ؑ کے سامنے استغفار کی اور حضرت ؑ نے یہ محسوس کیا کہ وہ شخص استغفار کے معنی، اُس کی حقیقت اور اُس کے بلند مقام سے واقف نہیں  ہے، توآپ ؑ نے اعتراض کرتے ہوئے اُس سے کہا:ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ، أَ تَدْرِیْ مَا الْاِسْتِغْفَارُ؟ اَلْاِسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّیِّیْنَ خدا تجھے موت دے، تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے اورروئے!تولفظ استغفارکہتا ہے؟ جانتا بھی ہے استغفار کی حقیقت کیا ہے؟ استغفار علیین کا مرتبہ ہے(علیین یعنی وہ لوگ جو قرب ِ الٰہی کے اُن بلند درجات پر فائز ہیں ) اِس کے بعد آپ ؑنے فرمایا: استغفار اور توبہ ایک کلمہ ہے جو چھے بنیادوں پر قائم ہے

حضرت علی ؑکی بیان کی ہوئی ان چھے بنیادوں کو علما نے اس طرح سمجھا ہے کہ اِن میں سے دوتوبہ کی رکن و اساس ہیں دوسری دوتوبہ کی قبولیت کی شرط ہیں  (یعنی دو توبہ کی حقیقت کو تشکیل دیتی ہیں  اور دوسری دو حقیقی توبہ کی قبولیت کی شرط کو) اور آخری دوتوبہ کے کامل ہونے کی شرط ہیں

اب دیکھتے ہیں  یہ چھے شرائط ہیں  کیا؟

فرماتے ہیں :اَوَّلُهَا النَّدَمُ عَلٰی مَا مَضَی توبہ کی پہلی شرط (رکن) ماضی پر پشیمانی، حسرت، افسوس اور باطنی خلش اور تکلیف ہےیعنی توبہ اُس وقت حقیقی توبہ ہے جب آپ اپنے گزشتہ سیاہ اعمال نامے پر نگاہ ڈالیں، تویکلخت ایک ندامت، ایک پشیمانی، ایک افسوس اور غیرمعمولی حسرت آپ کے اندر پیدا ہو، آپ اپنے دل میں ایک خلش محسوس کریں اور خود سے کہیں  کہ یہ میں نے کیا کیا تھا؟

۴۸

آپ نے دیکھا ہوگا کہ کبھی انسان کوئی کام اس خیال سے کرتا ہے کہ اس سے اُسے فائدہ پہنچے گایہ کام کرنے کے بعد یکایک وہ دیکھتا ہے کہ مثلاً اس کام سے اُسے دس ہزار روپے کا نقصان ہوا ہےجب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے توکہتا ہے:اوہ!اور اپنی انگلی دانتوں میں دبا لیتا ہےہائے! میں نے کیوں ایسا کام کیا؟ اس چیز کو پشیمانی اور حسرت کہتے ہیں کبھی کہتے ہیں  کہ:میں نے فلاں کام کیا، اور اب اس کی وجہ سے اتنا پشیمان ہوں، ایساپچھتا رہا ہوں کہ اگر پچھتاوے کے سینگ ہوتے تو ابھی میرے سینگ نکل آتےایسی ہی پشیمانی اور ندامت توبہ کی پہلی شرط ہےخدا نخواستہ آپ کے لب ایک حرام مثلاً شراب سے آلودہ ہیں پھر ایک مرتبہ آپ سوچتے ہیں  کہ آخر قرآنِ کریم نے شراب نوشی کے بارے میں کیا کہا ہے؟ قرآن کہتاہے کہ:

یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلااَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن

اے ایمان والو !شراب، جوا، بت، پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہٰذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کرسکو(سورہ مائدہ۵آیت۹۰)

شراب، جوا اوربت پرستانہ کام خبائث ہیں ، اگربہتری، سعادت اور کامیابی چاہتے ہو، تو اِن سے دور رہوشراب نوشی، سعادت اور کامیابی کے منافی عمل ہےجوا، اسلام میں حرام قرار دیا گیاہے، یہ جس شکل وصورت میں بھی ہوگناہانِ کبیرہ میں اِس کاشمار ہوتا ہے

مسلمان جوا نہیں  کھیلتا

۴۹

غیبت کی مذمت

ہم کیسے مسلمان ہیں  جو اسلام کی طرف سے حرام کئے گئے بڑے بڑے کاموں کا بھی ارتکاب کر بیٹھتے ہیں ؟ قرآن ہمارے درمیان رائج اس گناہ یعنی غیبت کرنے اورتہمت لگانے کے بارے میں اورکس قدرمتنبہ کرے؟ خدا کی قسم! انسان کو لوگوں کے درمیان رائج اس قدر تہمت پر تعجب ہوتا ہے!!

آپ جانتے ہیں  تہمت کیا ہے؟ ہمارے پاس اوّل درجے کے دو گناہانِ کبیرہ ہیں  ان میں سے ایک جھوٹ بولنااور دوسرا غیبت کرناہےگناہِ کبیرہ، یعنی وہ گناہ جس کی وجہ سے انسان جہنم میں جانے کا مستحق ہوجاتا ہے

وَ لااَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًاَ (۱)

ایک دوسرے کی غیبت نہ کرنا، کیا تم میں سے کوئی یہ بات پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے(سورہ حجرات۴۹آیت۱۲)

اے لوگو! ایک دوسرے کی غیبت نہ کرناکیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ مسلمان بھائی کا گوشت کھائے؟  مردے کا گوشت کھاناکس قدرکریہہ اور نفرت انگیز ہےخصوصاً اگر انسان اس مردہ شخص کوجانتا ہو اور وہ اس کا دوست بھی ہوکیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی تعبیر ہوسکتی ہے؟

۵۰

تہمت، یعنی جھوٹ بھی اور غیبت بھییعنی جب یہ دو گناہ (جھوٹ اور غیبت) مل جائیں، تو اس کا نام تہمت ہوجاتا ہےہمارے درمیان تہمت کتنی عام ہےہم میں سے بعض لوگ مقدس بننے کی خاطر (کسی کی غیبت کرتے ہوئے) اپنی بات سے پہلے ”لوگ کہتے ہیں “ لگادیتے ہیں مثلاً کسی شخص نے کسی دوسرے پر تہمت لگائی، اب ہم چاہتے ہیں  کہ اس تہمت کا بار اپنی گردن پر نہ لیں (ہم سمجھتے ہیں  کہ خدا کو بھی دھوکا دیا جاسکتا ہے!) لہٰذا ہم کہتے ہیں :لوگ کہتے ہیں  کہ فلاں شخص ایسا ہے، کہتے ہیں  کہ فلاں جگہ ایسی ہےدوسرا ہم سے سننے کے بعد کسی اور جگہ جاکے کہتا ہے:لوگ ایسا کہتے ہیں  اور پھر کہتا ہے:میں یہ نہیں  کہتاکہ میں کہتا ہوں (بلکہ) دوسرے ایسا کہتے ہیں قرآن نے اس سے بھی منع کیاہے اور اس کو بھی ایک بڑا گناہ شمار کیا ہےفرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ

جو لوگ یہ چاہتے ہیں  کہ صاحبانِ ایمان میں بدکاری کا چرچا پھیل جائے، اُن کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے(سورہ نور۲۴آیت ۱۹)

جو لوگ کسی مومن شخص، مومن افرادیا مومنین کے کسی ادارے کے بارے میں کوئی بُری اور قبیح بات پھیلانا پسند کرتے ہیں  (اُن کے لئے ایک دردناک عذاب ہے) اگر آپ نے کسی احمق سے، کسی مفاد پرست سے یاکسی ایسے شخص سے جس کی بات کی جڑکے بارے میں آپ جانتے ہوں کہ وہ کہاں ہے کسی کے متعلق کوئی بات سنی ہو، تو آپ کو حق نہیں  پہنچتا کہ آپ کہیں  کہ ”میں نے سنا ہے“یا یہ کہ ”لوگ کہتے ہیں “خودیہ کہنا بھی کہ ”کہتے ہیں “ تشیع فاحشہ (برائی پھیلانا) ہےدوسرے گناہ بھی اسی طرح ہیں

۵۱

جو شخص نظربازی کرتا ہے، لوگوں کی عزت وناموس کے ساتھ خیانت کرتا ہے، اسے پتا ہونا چاہئے کہ پیغمبرا سلام کا فرمان ہے :

زِنَی الْعَیْنِ النَّظَر

نظر بازی آنکھوں کا زنا ہے(بحار الانوارج ۱۴)

(اسی طرح) جس نے نماز ترک کی، جس نے روزہ چھوڑا

مجھے نہیں  معلوم ہم کس قسم کے مسلمان ہیں ؟ انسان کو شرم محسوس ہوتی ہے، لوگ ماہِ رمضان میں سڑک پر چلتے ہوئے، علیٰ الاعلان ہونٹوں میں سگریٹ دبائے چلے جارہے ہوتے ہیں ! کوئی گاڑی میں بیٹھا سگریٹ پیتا نظر آتا ہےہر سال پولیس کی جانب سے اعلان کیا جاتا ہے کہ کسی کو روزہ خور وں کے خلاف اقدام کا حق نہیں  ہے، خودپولیس کارروائی کرے گیہم نے تو نہیں  دیکھا کہ کسی پولیس والے نے کسی روزہ خور کوٹوکا ہو

علیٰ الاعلان روزہ خوری اسلام کی بے حرمتی ہے، یہ عمل قرآن کی بے عزتی کرنا ہے، پیغمبر اسلام کی توہین کرنا ہےاگر آپ روزہ خوری کرنا چاہتے ہیں ، تو اپنے گھر میں کیجئےاگرآپ نے اپنے گھر میں روزہ خوری کی، توآپ ایک گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوں گے لیکن جب آپ سڑکوں پر روزہ خوری کرتے ہیں ، تو روزہ خوری کے ساتھ ساتھ آپ اسلام کی توہین بھی کرتے ہیں

توبہ کرنے کے لئے پہلے ہمیں چاہئے کہ اپنی کی ہوئی غیبتوں پرایک نظر ڈالیں، اپنی شراب نوشیوں کو پیش نظررکھیں، اپنی کی ہوئی تہمتوں کو مد ِنظررکھیں، اپنے جوا کھیلنے پرنظرڈالیں، اپنی نظر بازیوں کو دیکھیں، خواتین اپنے عریاں لباسوں کاجائزہ لیںپیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے معراج میں ایسی عورتوں کو دیکھا جنہیں  ان کے بالوں سے لٹکایا گیا تھا اور آتشیں کوڑوں سے ان کو مار رہے تھےمیں نے حیرت کے ساتھ جبرئیل ؑ سے پوچھا: یہ کون ہیں ؟

۵۲

 جبرئیل ؑ نے کہا: یہ آپ کی امت کی وہ عورتیں ہیں  جواپنے بال نامحرموں سے نہیں  چھپاتی تھیںاُس وقت بے پردگی کا رواج تو نہیں  تھا لیکن رسولؐ نے چشمِ باطن سے دیکھا(یہ چیزیں چودہ سو سال پہلے سے کتابوں میں ہیں ) فرمایا: میں نے ایسی عورتوں کو دیکھا جنہیں  ان کے سینوں سے لٹکایا گیا تھا اور ان کے سینوں پر کوڑے مارے جارہے تھےیہ عورتیں جو اِس حال میں تھیں، یہ کون تھیں؟ فرمایا: مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت کی وہ عورتیں ہیں  جو دوسروں کے سامنے اپنے بدن کی نمائش کرتی ہیں

آخر دنیا کی یہ چار دن کی زندگی کیا حیثیت رکھتی ہے کہ (اِسے اس طرح بسر کرکے) انسان اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے عذابِ الٰہی میں مبتلاکرلے؟ بخدا! درست ہے، بقولِ یہ چکنے گھڑے ہیں یہ جسارت آخرکب تک؟ خدا کے خلاف بغاوت کب تک؟ پیغمبر اسلام کی توہین کب تک؟ اب یہ توہین چاہے زبانی کی جائے چاہے تحریریانسان کیا کہے کہ اِس ملک میں ایسی کتاب شائع ہوتی ہے جو سر تا پا پیغمبر اسلام کی توہین سے بھری ہے او راس کی پشت پر باقاعدہ نمبر بھی ثبت ہے (یعنی وہ باقاعدہ حکومت سے منظور شدہ بھی ہے) اسے اشاعت کی باقاعدہ اجازت بھی دی گئی ہے! ہوش میں آؤ، ذرا سوچو، کب تک غفلت میں پڑے رہو گے؟

اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِکْرِ اﷲِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَق “ (سورہ حدید۵۷آیت ۱۶)

کیا وہ وقت نہیں  آیا ہے کہ ہمارے یہ دِل جھک جائیں، خاشع ہوجائیں، یادِ خدا کے لئے نرم ہوجائیں اور خدا کی جانب سے نازل ہونے والے اس برحق قرآن کی پرواہ کریں؟ اس کی تعلیمات پر توجہ کریں؟

۵۳

دیکھئے محرم آرہا ہےاگرہمارا دل زیادہ سے زیادہ اس بات پر خوش ہوکہ کسی مجلس میں شرکت کر کے چند قطرے آنسو بہا لیں، توواﷲ یہ کافی نہیں  ہےہمیں اپنے اوراپنے اسلام کے حال پرکچھ دیرغوروفکر کرنا چاہئےہمارے بچے ہاتھ سے نکل گئے ہیں ، ہماری اولادیں ہاتھ سے نکل گئی ہیں ، ہماری لڑکیاں ہاتھ سے نکل گئی ہیں ، ہمارا معاشرہ ہاتھ سے نکل گیا ہے، ہمیں ان کے بارے میں کچھ سوچنا چاہئے، ہمیں چاہئے توبہ کریں

(دوبارہ امیر المومنین ؑکے کلام کی طرف آتے ہیں )

فرمایا: سب سے پہلے توتمہاری روح میں خلش پیدا ہونی چاہئے، اسے شعلہ ور ہونا چاہئے، تم اپنے آپ کو حسرت میں ڈوبا ہوا محسوس کرو، ندامت اور پچھتاوے میں غرق محسوس کرواپنے گناہوں پر نظر ڈالو! اپنے اعمال کا محاسبہ کرو، اپنے آپ سے حساب لو، دیکھو کہ روزانہ کتنے گناہانِ کبیرہ کا ارتکاب کرتے ہو؟ شیخ بہائی کہتے ہیں :

جد تو آدم بہشتش جای بود

قدسیان کردند بہر او سجود

یک گنہ ناکردہ، گفتندش تمام

مذنبی، مذنب، برو بیرون خرام

تو طمع داری کہ با چندین گناہ

داخلِ جنت شوی اے روسیاہ؟

۵۴

(اے انسان تیرے جد آدم ؑ بہشت میں تھے اور فرشتوں نے ان کو سجدہ کیا تھالیکن جوں ہی وہ ایک گناہ کے مرتکب ہوئے، اُن سے کہہ دیا گیا کہ بس اب یہ سب کچھ ختمتم گناہ گار ہواب یہاں سے چلے جاؤلیکن اے روسیاہ! تویہ سمجھتا ہے کہ کئی گناہ کرکے بھی جنت میں چلا جائے گا)

توبہ کی دوسری شرط (رکن) کیا ہے؟ فرمایا:اَلْعَزْمُ عَلیٰ تَرْکِ الْعَوْدِ ایک مردانہ عزمِ، ایک پکا ارادہ کہ اب مزید میں یہ عملِ بد انجام نہیں  دوں گا

البتہ یہ جو شعر میں نے پڑھے ہیں ، اِن سے کہیں  میں نے آپ کو مایوس نہ کیا ہویہ نہ سمجھئے گا کہ لیجئے ہمارا تو کام تمام ہوگیانہیں

لاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اﷲِ

(سورہ زمر۳۹آیت ۵۳) خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا

جتنے بھی گناہ کئے ہوں، بارگاہِ الٰہی میں لوٹ جائیے، خدا قبول کرلے گا(توبہ کی قبولیت کی) تمام شرائط کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن گناہ کی حد اور مقدار کا ذکر نہیں  کیا گیایہ نہیں  کہا ہے کہ اگر تمہارے گناہ اس حد تک ہوئے تو تمہاری توبہ قبول ہوگی اور اگر اس سے زیادہ ہوئے تو نہیں بلکہ یہ کہا ہے کہ توبہ کرو، قبول ہوگی، البتہ شرط یہ ہے کہ توبہ صدقِ دل سے کی گئی ہواگرآپ کے باطن میں خلش پیداہوجائے، آپ کی روح میں ایک مقدس انقلاب بپا ہوجائے،

۵۵

 آپ گناہ کی طرف نہ پلٹنے کا عزم کرلیں، تو آپ کی توبہ قبول ہےہاں، شرط یہ ہے کہ آپ کاعزم حقیقی عزم ہوایسا نہ ہو کہ یہاں آئے اور دل ہی دل میں اپنے بُرے حالوں پر افسوس کیا اور باہر جاتے ہی سب کچھ بھول گئےاس سے کوئی فائدہ نہیں ، بلکہ یہ زیادہ بُری چیز ہے

امام ؑ فرماتے ہیں : جو لوگ استغفار کرتے ہیں  اور پھردوبارہ گناہ کرتے ہیں ، اُن کا استغفار کرنا استغفار نہ کرنے سے زیادہ برا ہےکیونکہ یہ توبہ کا مذاق اڑانا ہے، خدا کی تضحیک کرنا ہے، توبہ کی تضحیک کرناہے

یہ دوچیزیں توبہ کی رکن ہیں :

پہلی چیز: ندامت، حسرت، باطنی خلش، ماضی پر دکھ، گناہ پر مکمل پچھتاوا

اور دوسری چیز: دوبارہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم اور پکا ارادہ

لیکن توبہ کی دو شرطیں بھی ہیں :

پہلی شرط یہ ہے کہ لوگوں کے حقوق، حقوق الناس اُن کو لوٹانا چاہئیں خدا عادل ہے، وہ اپنے بندوں کے حقوق نظرانداز نہیں  کرتا(لوگوں کے حقوق انہیں  لوٹانے کے) معنی کیا ہیں ؟ آپ نے لوگوں کا مال ہڑپ کیا ہے؟ آپ کو چاہئے کہ وہ مال اس کے مالک کو واپس کریں، یا کم از کم اُس کی رضامندی حاصل کریں آپ نے لوگوں کی غیبت کی ہے؟ آپ کو انہیں  راضی کرنا چاہئے، آپ کو چاہئے کہ خود کو چھوٹا بنائیں، اُن کے پاس جائیں، اُن سے کہیں  کہ جناب میں نے آپ کی غیبت کی ہے، التماس کرتا ہوں کہ مجھے معاف فرمادیں

۵۶

ایک قصہ خود میرے ساتھ بھی پیش آیا ہے، نہیں  معلوم اسے بیان کرنا درست ہے یا نہیں ؟

میری طالب ِ علمی کا زمانہ تھا، طالب ِ علمی کے دنوں میں، البتہ دوسری جگہوں سے کم، لیکن پھر بھی ایسا اتفاق ہوجاتا ہے کہ انسان کسی محفل میں بیٹھا ہوتا ہے اور کچھ لوگ مختلف لوگوں کی غیبت شروع کردیتے ہیں  اور بسا اوقات انسان خود بھی اس میں مبتلا ہوجاتا ہےخدا رحمت کرے مرحوم آیت اﷲ العظمیٰ آقائے حجت رضوان اﷲ علیہ پرمیں ایک مرتبہ ایسے حالات میں پھنس گیا اور کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ جا بیٹھا جنہوں نے آقائے حجت کی غیبت کی آقائے حجت میری گردن پر استادی کا حق رکھتے ہیں ، میں نے کئی سال ان سے درس پڑھاتھا، حتیٰ اُن کے درس میں ایک عام مقابلے میں اُن سے انعام بھی حاصل کیاتھا

ایک مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ یہ بات ٹھیک نہیں  ہےمیں کیوں وہاں جا پھنسا؟ ایک مرتبہ گرمیوں میں وہ حضرت عبد العظیم (کے حرم کے علاقے) میں تشریف لائے ہوئے تھےایک دِن سہ پہرکے وقت میں نے ان کے گھر پر دستک دی اور کہا کہ اُنہیں  بتائیں فلاں آیا ہےوہ اندرونی میں تھےاجازت عنایت کی مجھے یاد ہے کہ میں اندر گیا، اُن کے سر پر ٹوپی تھی اور وہ ایک تکئے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے (وہ بوڑھے اور بیمار تھے، یہ اُن کے انتقال سے دو تین سال پہلے کی بات ہے) میں نے عرض کیا: جناب ِ عالی میں ایک بات عرض کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں انہوں نے فرمایا:کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا:میں نے آپ کی غیبت کی ہے، البتہ بہت کم، لیکن نسبتاً زیادہ غیبت سنی ہےمیں اپنے اِس عمل پر پشیمان ہوں، کہ آخر میں کیوں ایک ایسی محفل میں شریک رہاجس میں لوگ آپ کی غیبت کررہے تھے، پھر میں نے آپ کی غیبت سنی اور کیوں خود میری زبان پر بھی آپ کی غیبت آگئی اب جبکہ میں نے عزم کرلیا ہے کہ کبھی آپ کی غیبت نہیں  کروں گا، اور ہرگز کسی سے آپ کی غیبت نہیں  سنوں گالہٰذا میں یہ عرض کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے معاف کردیں، مجھ سے درگزر فرمائیں

۵۷

وہ جس بزرگواری کے حامل تھے، انہوں نے اُس کامظاہرہ کرتے ہوئے مجھ سے فرمایا: ہم جیسے لوگوں کی غیبت کرنے کی دو قسمیں ہیں  ایک مرتبہ (ہماری غیبت) اس طرح کی جاتی ہے کہ اُس سے اسلام کی توہین ہوتی ہے اور ایک مرتبہ (غیبت) خود ہماری ذات سے متعلق ہوتی ہے(میں سمجھ گیا کہ ُان کا مقصد کیا ہے) نہیں ، میں نے ایسی کوئی بات نہیں  کی اورکوئی ایسی جسارت نہیں  کی جس سے اسلام کی توہین ہوتی ہوجو کچھ تھا وہ آپ کی ذات سے متعلق تھاانہوں نے فرمایا: میں نے تمہیں  معاف کیا

انسان اگر توبہ کرنا چاہتا ہے، تواُسے چاہئے کہ لوگوں کے حقوق اور اُن کے قرض ادا کرےایسا شخص جس کے ذمے زکات ہو اور اس نے وہ ادا نہ کی ہو، اُس کی گردن پر حق الناس ہے، اسے چاہئے کہ وہ ادا کرےایسا شخص جس کے ذمے خمس ہو اوراُس نے وہ ادا نہ کیا ہو، اُس کی گردن پر حق الناس ہے، اُسے چاہئے اُسے ادا کرےایسا شخص جس نے رشوت لی ہو، اُسے چاہئے وہ اسے اس کے مالک کو واپس کرےایسا شخص جس نے کسی بھی ذریعے سے کوئی حرام مال بنایا ہے، اُسے چاہئے کہ اُس مال کو واپس کرےاگر کسی نے کسی پرکوئی زیادتی کی ہو، تو اسے چاہئے کہ اُ س کی رضاحاصل کرےتوبہ، یوں ہی نہیں  کی جاسکتی!

حضرت علی ؑنے فرمایاہے: توبہ کی شرط یہ ہے کہ لوگوں کے جو حقوق تمہارے ذمے ہیں  اُنہیں  واپس لوٹاؤمثلاً آپ نے لوگوں کا مال ہڑپ کیا ہے اور اب اُنہیں  دینے کے لئے آپ کے پاس کچھ نہیں  ہے او رآ پ ایسے حالات میں ہیں  کہ اُن تک دسترس نہیں مثلاً وہ لوگ مرچکے ہیں  ایسی صورت میں استغفا رکریں، اُن کے لئے مغفرت طلب کریں، انشاء اﷲ خدا اُنہیں  (آپ سے) راضی کردے گا

۵۸

توبہ کی (قبولیت کی) تیسر ی شرط یہ ہے کہ حقوق اﷲ ادا کریں حق اﷲ سے کیامراد ہے؟ مثلاً روزہ حق اﷲ ہے، روزہ خدا کا ہےجو روزے آپ نے چھوڑے ہیں  اُن کی قضا کیجئےجو نمازیں آپ نے چھوڑی ہیں ، ان کی قضا ادا کیجئےآپ مستطیع تھے لیکن حج کو نہیں  گئے تھے، آپ کو چاہئے کہ اپنا حج انجام دیںیہ مذاق نہیں  ہےحج کے بارے میں آیا ہے کہ اگر کوئی صاحب ِ استطاعت ہوجائے اوراُسے کوئی عذرِ شرعی بھی نہ ہو، یعنی اُسے طبیعی استطاعت حاصل ہو اور سفر کے لحاظ سے کوئی رکاوٹ نہ ہواُسے مالی استطاعت حاصل ہو اوراُس کی اقتصادی حالت اسے اجازت دیتی ہوجسمانی استطاعت رکھتا ہو اورایسا مریض نہ ہو جو چلنے پھرنے کے قابل نہیں  ہوتا، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے، یہاں تک کہ مر جائے، ایسا شخص مرتے وقت اسلام کی حالت میں دنیا سے نہیں  جائے گااُس کے پاس خدا کے فرشتے آتے ہیں  اور اُس سے کہتے ہیں :مُتْ اِنْ شِئْتَ یَهُوْدِیِّاً وَ اِنْ شِئْتَ نَصْرَانِیِّاً (وسائل الشیعہ ج ۸ص۲۰، ۲۱) تم نے اسلام کے اِس رُکن کو انجام نہیں  دیااب تمہیں  اختیار ہے، چاہوتو یہودی مرواور چاہوتو نصرانیاب تم مسلمان نہیں  مر سکتے

کیسے ممکن ہے کہ انسان مسلمان ہو اور نماز نہ پڑھتاہو؟ مجھے یاد آیا کہ دو تین رات قبل جب میں نے فُضَیل بن عَیاض کے بارے میں بات کی تھی، تو بعد میں مجھے ایک محترم خاتون کا ایک خط دیا گیا، جس میں لکھا تھا کہ اگر آپ اپنے سننے والوں کا احترام کرتے ہیں  تو اپنی تقریر میں اس بات کا بھی تذکرہ کریں کیونکہ یہ بات بتانے میں کوئی حرج نہیں  بلکہ بہتر ہےلہٰذامیں بیان کرتا ہوں:

انہوں نے لکھا تھا کہ میں ایک رات صرف اُسی پہلی مرتبہ کے لئے یہاں آئی تھی لیکن میں اس قدر متاثر ہوئی کہ میں نے فیصلہ کیا کہ دوبارہ بھی یہاں آؤں گیمیں آج آئی ہوں اورآئندہ بھی آؤں گیمیں نے تربیتی علوم میں ماسٹرز کیا ہے، پرنسپل ہوں

۵۹

(اس وقت مجھے یہ یاد نہیں  کہ وہ پرائمری اسکول کی پرنسپل تھیں یا ہائی اسکول کی) آپ نے بہت سی باتیں کیں فُضَیل بن عَیاض میں قرآن کی ایک آیت سُن کرانقلاب بپاہوگیا، یا نماز اور حضورِ قلب کے بارے میں بیان کیامیں بدقسمت جو سرے سے قرآن کے معنی ہی نہیں  سمجھتی، کیا کروں؟ میں، جو نماز کے معنی ہی نہیں  سمجھتی میرے لئے اِس کے دوران حضورِ قلب کیونکر ممکن ہے؟ گویا یہ خاتون اپنی زبانِ حال سے یہ کہہ رہی ہیں  کہ ہم نے نرسری پڑھی، پرائمری پڑھی، ہائی اسکول اور کالج، یونیورسٹی کی تعلیم بھی مکمل کی لیکن قرآن ہمیں کہیں  نہیں  سکھایا گیالہٰذا آپ یہاں اس حد تک عربی سکھانے کا کوئی بندوبست کیجئے کہ لوگ کم و بیش قرآن کے معنی سمجھ سکیں، نماز کے معنی جان سکیں اور کم ازکم نماز کو اُس کی روح کے ساتھ پڑھ سکیں، قرآن کو اس کی روح کے ساتھ پڑھ سکیں، قرآن کی ایک آیت بھی پڑھیں، تو اسے سمجھیں

میں (دوستوں کے مشورے سے) آپ سب کے لئے ایک جوا ب دینا چاہتا ہوںمیں نے ہمیشہ اظہار کیا ہے اور اس کو واجب ترین واجبات میں سے سمجھتا ہوں کہ مسلمان عربی زبان سے واقفیت حاصل کریں، وہ سمجھیں کہ نماز میں کیا پڑھتے ہیں ، اپنے قرآن کو سمجھیں لیکن کیا کیا جائے کہ دنیا کی ہوس نے ہمیں اس طرح گرفت میں لے لیا ہے کہ کیونکہ انگریزی زبان آمدنی اور مادّیات کی کنجی ہے اسلئے ہم اپنے سات سالہ بچے کو بھی انگریزی سیکھنے بھیج دیتے ہیں بہت کم گھرانے ایسے ہوں گے جن میں کم از کم ایک فرد انگریزی نہ جانتا ہو لیکن ہم اس بات کے لئے تیار نہیں  کہ عربی کے لئے ایک کلاس ترتیب دیں اور خدا کی خاطر عربی زبان سیکھیں، اپنی نماز کے لئے عربی سیکھیں، اپنے قرآن کے لئے عربی سیکھیںکئی مرتبہ اعلان کر چکے ہیں  کہ ہم یہاں عورتوں اور مردوں کے لئے عربی سیکھنے کی کلاس ترتیب دینے کو تیار ہیں ، لوگ آئیں اور اپنے نام درج کرائیں، عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ کلاسیں ہوں گی، یہ ادارہ (حسینیہ ارشادمراد ہے) ان کے لئے مفت عربی زبان سکھانے کے انتظام کوتیار ہے کیونکہ یہ واجب ہے

۶۰