• ابتداء
  • پچھلا
  • 77 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26505 / ڈاؤنلوڈ: 3896
سائز سائز سائز
توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

(پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں )

اس کے بعد حضرت علی ؑ نے دوموضوع بیان کئے ہیں ، جو سچی توبہ کی تکمیل کی شرائط ہیں فرمایا: توبہ، اُس وقت توبہ ہے جب اُس گوشت کو گھلادو جسے تم نے حرام کھا کر پروان چڑھایا ہےیہ انسان کا گوشت نہیں  ہےیعنی؟ یعنی یہ گوشت جو رت جگے کی محفلوں میں تمہارے بدن پر چڑھا ہے، یہ بدن جو تم نے بنایا ہے حرام سے ہے، تمہاری ہڈیاں حرام سے بنی ہیں ، تمہاری جِلد حرام سے بنی ہے، تمہارا گوشت حرام سے بناہے، تمہارا خون حرام سے بناہےتمہیں  کوشش کرنی چاہئے کہ ان کو پگھلاؤ اور اس کی جگہ وہ گوشت نشو ونما پائے جو حلال ذرائع سے پیدا ہوا ہواپنے آپ کو گھلاؤ

یقینا، اِس بات کاآپ کو یقین نہیں  آرہاہوگا

میرے والد بتاتے تھے کہ مرحوم حاج میرزا حبیب رضوی خراسانی، جن کے شعر آج کل آپ لوگ بہت سنتے ہیں  اور جو خراسان کے ایک بڑے مجتہد، عارف، فلسفی اور حکیم تھے، اچھے ڈیل ڈول کے مالک اور بہت فربہ تھےزندگی کے آخری دنوں میں ان کی ملاقات ایک اہلِ دِل، اہلِ معنی اور اہلِ حقیقت ہستی سے ہوئیحاج میرزا حبیب نے اپنے اس علمی مقام، معاشرے میں اپنی اس شہرت اور خراسان کے درجہ اوّل کے مجتہد ہونے کے باوجود اس زاہد، متقی اور روحانی انسان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے

والد صاحب بتاتے ہیں  کہ کچھ عرصے بعد میں نے اچھے تن وتوش کے مالک اُن حاج میرزا حبیب کواِس حال میں دیکھا کہ اُن کا بدن انتہائی لاغر ہوچکا تھا (لوگ دبلا ہونے کے لئے یورپ جاتے ہیں  اور ڈائٹنگ کرتے ہیں !) ہم نے دیکھا کہ حاج میرزا حبیب کا بدن اپنی عمر کے آخری حصے میں گُھل کر کم ہوگیا تھاوہ حضرت علی ؑ کے فرمان کا مصداق بن گئے تھے کہ اس گوشت کو

۶۱

(البتہ میں اُن کی شان میں گستاخی نہیں  کرسکتا اور یہ نہیں  کہہ سکتا کہ حرام کے راستے سے) جوتم نے غفلت کے عالم میں پروان چڑھا یاہے، اسے گھلاؤ

چھٹی شرط بھی آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوںفرمایا:یہ بدن جس نے اس قدر گناہوں کی لذت چکھی ہے، اسے طاعت کی تکلیف کا مزہ چکھاؤنزاکت اور نازونعم کی فضا سے باہر نکلو، ناز ونعم کادلدادہ شخص خدا کا بندہ نہیں  بن سکتاایسا شخص سرے سے انسان ہی نہیں  بن سکتا، وہ انسان ہی نہیں  آپ روزہ رکھتے ہیں ، دشوار ہوتا ہےکیونکہ دشوارہوتا ہے اسلئے خاص طور پر رکھئےآپ ساری رات عبادت میں گزارنا چاہتے ہیں ، لیکن آپ کو دشوار محسوس ہوتا ہے، کیونکہ دشوار محسوس ہوتا ہے اسلئے خاص کریہ کام کیجئےکچھ عرصے اپنے آپ کو مشقت اور صعوبت میں ڈالیں، اپنی تربیت کریں

قرآن میں دو تعبیریں ہیں ، جن کا ذکر اُس نے توبہ کے بعدکیا ہے ایک یہ کہ توبہ کو تطہیر کے ساتھ ملاتا ہےمثلاً ارشاد ہوتا ہے:

اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ

بے شک خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے(سورہ بقرہ۲آیت۲۲۲)

خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کوپسندکرتا ہے

۶۲

قرآن کیا کہنا چاہتا ہے؟

کہتا ہے، توبہ کرو اور توبہ کے پانی سے خود کو دھو ڈالو، پاک کروچشمِ بینا رکھوصفائی صرف بدن کی نہیں  ہوتیبدن کو ہم اچھی طرح صاف رکھتے ہیں  البتہ یہ نہ صرف کوئی بُری بات نہیں  بلکہ اچھی بات بھی ہے، اسے صاف رکھنا بھی چاہئےہمارے رسولؐ دنیا کے صاف ترین رہنے والے لوگوں میں سے تھےہم ہر روز شاور لیتے ہیں ، چند دنوں میں ایک بار اپنے بدن پر صابن لگاتے ہیں ، اپنا لباس تبدیل کرتے ہیں ، اپنے کوٹ پینٹ کو صاف ستھرا اور داغ دھبوں سے محفوظ رکھتے ہیں کیوں؟ اسلئے کہ ہم صاف ستھرا رہنا چاہتے ہیں تو کیا آپ صرف یہی بدن ہیں ؟ اپنے آپ کو پاک کیجئے، اپنی روح کو پاک کیجئے،

اپنے قلب کوپاک کیجئے، اپنے دل کو پاک کیجئےاپنے اس قلب، دل اور روح کو آبِ توبہ سے پاک کیجئے”اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ “

قرآن کی ایک اور تعبیر یہ ہے کہ وہ بعض دوسرے مقامات پر توبہ کو کلمہ اصلاح کے ساتھ بیان کرتا ہے:

فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِه وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اﷲَ یَتُوْبُ عَلَیْهِط اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ

پھر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے، تو خدا اس کی توبہ قبول کرلے گا کہ اﷲ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے(سورہ مائدہ۵آیت ۳۹)

کل رات ہم نے عرض کیا تھا کہ انسان کی خصوصیات اور امتیازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات اس کا نصف وجود اس کے دوسرے نصف وجودکے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، انقلاب برپا کردیتا ہےاوریہ بھی عرض کیا تھا کہ یہ قیام اور یہ انقلاب کبھی تو انسان کے وجود کے پست مقامات کی جانب سے ہوتا ہے،

۶۳

 شہوت قیام کرتی ہے، غضب اٹھ کھڑا ہوتا ہے، شیطنت سر ابھارتی ہے اور کبھی یہ قیام انسان کی روح کے اعلیٰ مقامات کی جانب سے ہوتا ہےعقل قیام کرتی ہے، فطرت جوش میں آتی ہے، ضمیر اٹھ کھڑا ہوتا ہے، دل اور ضمیر کی گہرائی قیام کرتی ہے

اگر انسان کے وجود کے غیرمقدس مقامات کی جانب سے قیام ہو، (یہاں جب ہم اعلیٰ اور پست کہتے ہیں  تو مراد مقدس او رغیر مقدس ہے) حیوانی عناصر کی طرف سے قیام ہو، تو اس قیام و انقلاب کا نتیجہ ایک ہلچل اور افراتفری کی صورت میں برآمد ہوتاہے، اس کا نام بلوہ ہےکل رات ہم نے مثال عرض کی تھی کہ جن لوگوں نے تقدس، زہد اور تقویٰ کے نام پر خواہشات کے اعتبار سے محرومی اٹھائی ہے اور خود کو محروم رکھا ہے، یکاک دیکھتے ہیں  کہ وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ، ایک عجیب دھماکے کی سی کیفیت اورافراتفری کا عالم اُن پرطاری ہو جاتا ہےاسے دھماکے اور بلو ے کے سوا کوئی اور نام نہیں  دیاجاسکتالیکن یہ کیفیت اُس قیام اور انقلاب کے برخلاف ہے جوانسانی وجود کے مقدس عناصر کی جانب سے برپا ہوتا ہےوہ انقلاب جو عقل انسانی وجود میں برپا کرتی ہے، وہ شورش جوانسان کی خدا شناس اور خدا پرست فطرت برپا کرتی ہے، وہ ایک مقدس انقلاب ہےمقدس انقلاب اصلاح کے ساتھ ساتھ ہوتا ہےمقدس انقلاب ماضی کے قبیح اثرات کا خاتمہ کردیتا ہےمقدس انقلاب قصاص لیتا ہے

وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰاُآولِی الْاَلْبَابِ

صاحبانِ عقل، تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے(سورہ بقرہ۲آیت ۱۷۹)

ہم نے عرض کیا تھا کہ حضرت علی ؑ نے فرمایاہے: اپنے بدن سے انتقام لو، قصاص لوجو گوشت حرام سے پروان چڑھا ہے، اسے گھلاؤ، اُسے تحلیل کرویہ نفسانی خواہشات سے قصاص اور انتقام لینا ہےانقلاب جب مقدس ہوتا ہے، تو گزشتہ بُرے اثرات کو مٹانا چاہتا ہے اور مٹا بھی دیتا ہےاسی لئے قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ:فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِه وَ اَصْلَحَ یعنی جو توبہ اور اصلاح کرے

۶۴

بنیادی طور پر توبہ ایک اصلاحی قیام ہے اس کے سوا کچھ اور نہیں

آج جاگنے کی رات ہےہمیں چاہئے آج کی شب دعا کریں، قرآن سر پر رکھیں لہٰذا میں اپنی گزارشات کو مختصر کرتا ہوں

ہم نے کل رات عرض کیا تھا کہ انسان کا ایک امتیاز توبہ ہے، نیز یہ بھی عرض کیا تھاکہ راستہ بدلنا، رُخ تبدیل کرنا صرف انسان کا خاصّہ نہیں  ہے، حیوانات میں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے اور حتیٰ نباتات میں بھی کسی حد تک یہ صفت موجودہےلیکن راہ کی جس تبدیلی کا نام توبہ ہے اورجس کے معنی ایک قسم کا مقدس اندرونی انقلاب ہے، یہ صرف انسان کے ساتھ مختص ہےیہ بات ذہن میں رہے

نوعِ بشر کے تمام رہنماؤں کے مقابلے میں انبیا کو ایک امتیاز او رایک خصوصیت یہ حاصل ہے کہ دوسرے رہنما معاشرے میں جو انقلاب لے کر آتے ہیں ، اُن کی زیادہ سے زیادہ کامیابی یہ رہی ہے کہ انہوں نے ایک گروہ کو، ایک طبقے کو، یا افرادِ بشر کے طبقات کوکسی دوسرے طبقے یا طبقات کے خلاف کھڑا کیا ہےمعاشرے میں دو محاذ وجود میں لے آتے ہیں ، اور ایک محاذ کو دوسرے محاذ کے خلاف کمربستہ کردیتے ہیں  ایک کے ہاتھ میں ڈنڈا اور دوسرے کے ہاتھ میں خنجر دے کر اُنہیں  ایک دوسرے کے خلاف یلغار پرا بھارتے ہیں

البتہ یہ ایک اچھا کام ہے

کس مقام پر یہ کام اچھا ہے؟

۶۵

اُس مقام پر جہاں ایک ظالم اور ایک مظلوم طبقہ پیدا ہوجائے

مظلوم کو اپنے حق کے حصول کی دعوت دینا، خود ایک انسانی عمل ہےیہ عمل اسلام میں پایا جاتا ہےانبیا نے بھی یہ عمل انجام دیا ہےخاص طور پر اسلام میں توظالم کے خلاف مظلوم کی حوصلہ افزائی کرنااور اسے تقویت پہنچانا شامل ہےاپنے دو عظیم بیٹوں حسن اور حسین کے نام حضرت علی ؑکی وصیتوں میں سے یہ بھی ہے کہ:کُوْنَا لِظَالِمِ خَصْماً وَ لِلمَظْلُومِ عَوْناً (ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنانہج البلاغہ مکتوب ۴۷)

لیکن ایک اور عمل ہے جسے دوسرے انقلابی رہنما انجام دینے پر قادر نہیں ، صرف انبیا اسے انجام دینے پر قادر تھےان کے سوا کسی اور میں اسے انجام دینے کی قدرت نہیں اور وہ عمل یہ ہے کہ وہ انسان کوخود اپنے خلاف ابھارتے تھےیعنی ایسا کام کرتے تھے کہ از خودانسان میں احساسِ گناہ پیدا ہواور پھر وہ خود اپنے خلاف قیام کرے، مقدس انقلاب بپا کرے، شورش کرےاسی کو توبہ کہا جاتاہےآپ کوانبیا کے سوا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں  ملے گاجس میں یہ قدرت پائی جاتی ہو کہ وہ لوگوں کو خود اپنی بدکاریوں اور جرائم کے خلاف قیام وانقلاب پر آمادہ کرےانبیا نہ صرف مظلوم کو ظالم کے خلاف ابھارتے تھے بلکہ اُنہوں نے خود ظالم کواُس کے اپنے ہی خلاف ابھارا!

اگر آپ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ اسلام نے مظلوم، مفلس، محروم رکھے گئے اور حقیر سمجھے جانے والے لوگوں کو ابو سفیان اورابو جہل جیسے اکڑ باز لوگوں کے خلاف بھی ابھارا اورابو سفیان اور ابو جہل کی صف اور طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو خود اپنے خلاف بھی کھڑا کردیااور انہیں  بھی ان محروم کئے ہوئے

۶۶

 لوگوں کی صف میں لا کھڑا کیایہ طاقت صرف انبیا اور اولیا ہی میں پائی جاتی ہےانسان کو خود اُس کی بدکاریوں اور جرائم کے خلاف ابھارنا انبیا اور اولیا کے سوا کسی اور کے بس کی بات نہیں  ہے

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام بغداد کے بازار سے گزر رہے تھےہم جانتے ہیں  کہ امام کس حال میں ہوں گے (شور شرابے، دھوم دھڑکے کے ساتھ نہیں  گزر رہے ہوں گے) ایک گھر سے ساز و آواز، رقص و سرود کی آوازیں بلند تھیںجس وقت امام اس گھر کے سامنے سے گزرے، عین اُسی وقت اُس گھر سے ایک کنیز باہر نکلی، اُس کے ہاتھ میں کوڑے کا تھیلا تھا، جسے وہ مثلاً اسلئے لائی تھی کہ شہر کی صفائی پر مامور عملا اسے اٹھا کے لیجائےامام نے اُس کنیز سے پوچھا:یہ صاحب ِ خانہ بندہ ہے یا آزاد؟ کنیز نے اس سوال پر اظہارِ تعجب کیا، اور بولی:ظاہر ہے آزاد ہے؟ اس گھر کا مالک شہر کی ایک معروف اورجانی پہچانی شخصیت ”بشر“ہےآپ یہ کیسا سوال کرتے ہیں ؟

شاید اس موقع پر اور سوال جواب بھی ہوئے ہوں، جو تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں درج نہیں  ہوئےلیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کنیز کو واپس جانے میں تاخیر ہوگئی جب وہ گھر میں واپس آئی تو صاحب ِ خانہ ”بشر“ نے اس سے پوچھا: کیوں تاخیرہوئی؟ دروازے پرکیوں کھڑی رہی؟ اُس نے کہا: اس اس طرح کی وضع قطع کے ایک صاحب گھر کے سامنے سے گزر رہے تھےانہوں نے مجھ سے یہ یہ باتیں کیں، یہ سوال کیا جس کا میں نے یہ جواب دیا اور آخر میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ: اچھا، اب پتا چلا وہ بندہ نہیں  آزاد ہےکیونکہ اگر وہ بندہ ہوتا تو یہاں سے اِس قسم کی آوازیں نہ آرہی ہوتیں، یہ رقص و سرود یہاں نہیں  ہو رہا ہوتا، یہ شراب نوشیاں نہ ہوتیں، یہ عیاشیاں نظر نہ آرہی ہوتیں

۶۷

بشر یہ فقرہ اور کنیز کی بتائی ہوئی علامات سن کر سمجھ گیا کہ وہ موسیٰ ابن جعفر ؑ تھے(یہ ہوتا ہے توبہ پر آمادہ کرنا اور انسان کے اندر سے انقلاب اٹھانااور یہ انبیا اور اولیا کے کاموں میں سے ہےانبیا اور اولیا کے سوا کسی اور میں اس قسم کے کاموں کی قدرت نہیں  پائی جاتی) یہ شخص بغیر جوتے پہنے، ننگے پیر ہی دروازے کی طرف دوڑ ا، اور پوچھا وہ کس طرف گئے تھےاُسے بتایا گیا: اس طرفوہ دوڑتا ہوا امام کی خدمت میں پہنچا، اپنے آپ کو امام کے قدموں میں گرالیا، اور بولا: آقا! آپ نے صحیح فرمایا تھامیں بندہ ہوں، لیکن مجھے اپنے بندہ ہونے کا احساس ہی نہ رہا تھاحضور! اب اسی لحے سے میں واقعاً بندہ بننا چاہتا ہوں آپ کی خدمت میں توبہ کے لئے حاضر ہوا ہوں

اُس نے وہیں  امام کے سامنے توبہ کی اور واپس اپنے گھر لوٹ آیاگھر پہنچ کر اُس سارے ساز وسامان کو اُٹھا کر پھینک دیاپھر اس کے بعد کبھی جوتے بھی نہ پہنےوہ بغدا د کے بازاروں اور گلی کوچوں میں ننگے پاؤں پھرا کرتااور لوگ اسے ”بشر حافی“یعنی، ننگے پاؤں رہنے والا بشر کہا کرتے تھےجب لوگ اُس سے پوچھتے کہ: ننگے پیر کیوں چلتے ہو؟ تو وہ کہتا تھا کہ: جب مجھے امام موسیٰ ابن جعفر کی خدمت میں (توبہ کی) وہ توفیق حاصل ہوئی تھی تو میں ننگے پیر تھااب میرا دل نہیں  چاہتا کہ دوبارہ جوتے پہنوں میں چاہتا ہوں کہ اسی حالت کو ہمیشہ محفوظ رکھوں جس میں مجھے وہ توفیق حاصل ہوئی تھی

بنی قریظہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک خیانت کے مرتکب ہوئےپیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے نمٹنے کا فیصلہ کیاان لوگوں نے کہا کہ ابو لبابہ کو ہمارے پاس بھیجئے، وہ ہمارا حلیف ہے، ہم اُس سے مشورہ کریں گےنبی کریم نے ابو لبابہ سے کہا کہ وہ جائیں

۶۸

وہ گئے، اور اُن سے مشورہ کیالیکن یہودیوں سے اپنے ایک خاص تعلق کے زیر اثر انہوں نے مشورت کے دوران اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کوپیش نظر نہ رکھااور ایک ایسا جملہ کہا، ایک ایسا اشارہ کیا جو جملہ یا اشارہ یہودیوں کے مفاد اور مسلمانوں کے نقصان میں تھا

جب وہ باہر آئے تو انہیں  احساس ہوا کہ وہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں  ابھی کسی کو بھی اس بات کی خبر نہیں  ہوئی تھیجوں جوں وہ چلتے ہوئے مدینہ سے نزدیک ہورہے تھے، اُن کے دل میں لگی یہ آگ اوربھڑک رہی تھیوہ گھر آئے، البتہ اپنے بیوی بچوں سے ملنے کے لئے نہیں ، بلکہ انہوں نے وہاں سے ایک رسی اُٹھائی اور مسجد ِ نبوی میں آکراس رسی کے ذریعے اپنے آپ کو مضبوطی کے ساتھ ایک ستون سے باندھ لیااور کہا کہ: بارِالٰہا! جب تک میری توبہ قبول نہ ہوگی میں اپنے آپ کو اس ستون سے نہیں  کھولوں گاصرف نماز یا قضائے حاجت کے لئے ان کی بیٹی آکر ان کی رسی کھولتیوہ غذا بھی انتہائی مختصر کھاتے، بس ہر وقت التماس اور تضرع میں مشغول رہتےکہتے کہ: خدایا! میں نے غلطی کی ہے، گناہ کر بیٹھا ہوں، الٰہی! میں نے اسلام اور مسلمین سے خیانت کی ہے، تیرے پیغمبر سے خیانت کا مرتکب ہوا ہوں، بارِ الٰہا! جب تک میری توبہ قبول نہ ہوجائے میں خود کو اس ستون سے نہ کھولوں گا، یہاں تک کہ میری موت واقع ہوجائے

لوگوں نے رسول اﷲ کو آکے بتایا کہ ابو لبابہ نے ایسا کیا ہےآنحضرت نے فرمایا: اگر وہ میرے پاس آتا اور اقرار کرتا، تومیں بارگاہِ الٰہی میں اُس کے لئے استغفار کرتالیکن وہ براہِ راست خدا کے حضور چلا گیا ہے، اور اب خود خدااس کا فیصلہ کرے گامجھے نہیں  معلوم دو شبانہ روز گزرے یا اس سے زیادہ پیغمبر اسلام حضرت امِ سلمہ کے گھر پر تھے کہ آپ پر وحی نازل ہوئی کہ اس شخص کی توبہ قبول کی جاتی ہےپیغمبر نے حضرت امِ سلمہ سے فرمایا: امِ سلمہ اُس شخص کی توبہ قبول ہوگئیامِ سلمہ نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول! اجازت دیجئے کہ میں یہ بشارت اُسے سناؤں؟

۶۹

 آنحضرت نے فرمایا: کوئی حرج نہیں پیغمبر کے تمام حجروں کی ایک کھڑکی مسجد کی جانب کھلتی تھی اور انہیں  مسجد کے اطراف تعمیر کیا گیا تھاامِ سلمہ نے اپنا سر کھڑکی سے نکالا اور کہا: ابو لبابہ! میں تمہیں  بشارت دیتی ہوں کہ خدا نے تمہاری توبہ قبول کرلی ہےیہ بات مدینہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ خدا نے ابو لبابہ کی توبہ قبول کرلی ہےمسلمان اس کی رسی کھولنے کے لئے وہاں جمع ہوگئےابو لبابہ نے کہا: نہیں ، کوئی میری رسی نہ کھولےمیری خواہش ہے کہ رسول اﷲ اپنے دست ِ مبارک سے مجھے کھولیں

لوگوں نے کہا: یا رسول اﷲ! ابو لبابہ کی خواہش ہے کہ آپ تشریف لائیں اور اپنے دست ِ مبارک سے اسے کھولیں آنحضرت تشریف لائے اور اسے رسیوں سے آزاد کیا(یہ ہے حقیقی توبہ) فرمایا: ابولبابہ !تمہاری توبہ قبول ہوئی، تم پاک ہوکراِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ (بے شک اﷲ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے) کے مصداق بن گئے ہواب تمہاری حالت اس بچے کی سی ہے جوابھی ابھی اپنی ماں سے متولد ہوا ہواب تمہارے وجود پر گناہ کا کوئی داغ نہیں  ہے

جن لوگوں نے مدینہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے، وہ جانتے ہیں  کہ مسجد ِ نبوی کے ایک ستون پراُسْطُوانَةُ التَّوْبَه یااُسْطُوانَةُ اَبی لُبابَه تحریر ہےیہ وہی ستون ہے، لیکن اُس وقت یہ ستون لکڑی کا تھا، ا لبتہ ستونوں کی جگہ تبدیل نہیں  ہوئی ہےیہ وہی ستون ہے جس سے پیغمبر اکرم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے ابولبابہ کوکھولا تھا

ابولبابہ نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول !میں اﷲ کی طرف سے توبہ قبول کئے جانے کی اِس نعمت کے شکرانے کے طورپراپنی تمام دولت راہِ خدا میں صدقہ دینا چاہتا ہوں آنحضرت نے فرمایا: نہیں ، ایسا نہ کرواُس نے کہا: یا رسول اﷲ! میں اﷲ کی طرف سے توبہ قبول کئے جانے کی اِس نعمت کے شکرانے کے طوراپنی دولت میں سے دو تہائی راہِ خدا میں صدقہ دینا چاہتا ہوں

۷۰

آپ نے فرمایا: نہیں اُس نے کہا: اجازت دیجئے کہ میں اپنی آدہی دولت راہِ خدا میں صدقہ کردوں آپ نے اس سے بھی منع کیااس پر ابو لبابہ نے کہا: اچھا مجھے اپنی ایک تہائی دولت راہِ خدا میں صدقہ کرنے کی اجازت دیجئےرسولِ کریم نے فرمایا: ہاں، اس میں کوئی حرج نہیں  ہے

یہ ہے اسلام، جو تمام امور کو اپنی ٹھیک ٹھیک جگہ پر رکھتا ہےتم کیوں اپنی ساری دولت صدقے میں دینا چاہتے ہو؟ تم کیوں اپنی آدھی دولت راہِ خدا میں صدقہ دینا چاہتے ہو؟ تمہارے بیوی بچے کیا کریں گے؟ کچھ مقدار، ایک تہائی مقدارراہِ خدا میں دے دو، بقیہ کو اپنے پاس رکھو(سفینۃ البحارج ۲ص ۵۰۳)

ایک شخص کی وفات ہوگئی پیغمبر نے اُس کی نمازِ جنازہ پڑھائیاس کے بعد پوچھا: اس کے کتنے بچے ہیں ، اور اس نے اُن کے لئے کیا چھوڑاہے؟ (کسی نے جواب دیا) اے اﷲ کے رسول!اس کے پاس کچھ دولت تھی، لیکن مرنے سے پہلے اس نے وہ ساری دولت راہِ خدا میں دے دیآپ نے فرمایا: اگر تم لوگوں نے یہ بات مجھے پہلے بتائی ہوتی، تو میں اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھتا! یہ شخص معاشرے میں اپنے بھوکے بچے چھوڑکر گیا ہے؟

کہا جاتا ہے کہ اگر آپ وصیت کرنا چاہتے ہیں  کہ میرے بعد میری دولت کو راہِ خدا میں اس طرح خرچ کیا جائے، تو اس دولت کے ایک تہائی کے بارے میں وصیت کیجئےایک تہائی سے زیادہ پر آپ کی وصیت لاگو نہیں  ہوگیحتیٰ بعض علما کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر کوئی بیمار شخص، اُس مرض کے دوران جو اُس کی موت پر منتہی ہو، اپنے ایک تہائی سے زیادہ مال کو، اپنی موت سے قبل راہِ خدا میں دینا چاہے،

۷۱

 تو کیونکہ اُس نے یہ عمل اپنے مرضِ موت میں انجام دیا ہے اسلئے، چاہے اُس نے اسے وصیت کے عنوان سے نہ دینا چاہا ہو بلکہ خود اپنے ہاتھ سے یہ مال دیا ہو، تب بھی اُس کا ایسا کرنا جائز نہیں  ہےکیوں؟ کیونکہ وہ صرف اپنے ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہے

البتہ توبہ کے درجات اور مراتب ہیں ، لہٰذا ہمیں مایوس نہیں  ہونا چاہئےہم نے خاص طور پر ان شبوں میں توبہ کی گفتگو چھیڑی ہے، کیونکہ یہ دعا، عبادت اور استغفار کی شبیں ہیں

برادران! پہلے درجے میں خود اپنے لئے استغفار کیجئے، مغفرت طلب کیجئےپہلے مرحلے میں کوشش کیجئے کہ آپ اپنے گزشتہ گناہوں سے پاک ہوجائیں آپ کا پاک ہونا یہ ہے کہ آپ پشیمان ہوجائیں، یہ ہے کہ آپ عزم کرلیں کہ اب دوبارہ گناہ نہیں  کریں گے، یہ فیصلہ کرلیں کہ لوگوں کو اُن کے حقوق واپس لوٹائیں گے، خدا کے حقوق اسے واپس کریں گےبخدا! اگر آپ اپنے آپ کو پاک کرلیں، تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی تمام دعائیں مستجاب ہورہی ہیں لہٰذاتوبہ کیجئے

کل رات ہم نے آپ کی خدمت میں حر ابن یزید ریاحی کی توبہ کی داستان بیان کی تھی حسین ابن علی کے اصحاب میں ایک اور شخص شامل ہیں ، جن کا نام ”زہیر ابن قین“ ہےان کا شمار بھی توابین میں ہوتا ہے، لیکن ایک دوسری صورت سےزہیر عثمانی تھے، یعنی حضرت عثمان کے شیعوں میں سے تھے، اُن لوگوں میں سے تھے جن کا عقیدہ تھا کہ حضرت عثمان مظلوم قتل کئے گئے ہیں ، اور یہ تصور رکھتے تھے کہ نعوذ باﷲ ان فتنوں میں حضرت علی کا ہاتھ تھاحضرت علی کے بارے میں ان کے خیالات اچھے نہ تھےوہ مکہ سے عراق واپس جارہے تھےامام حسین بھی عراق تشریف لے جا رہے تھےزہیرکی سمجھ میں نہیں  آرہا تھا کہ وہ حسین ابن علی کاسامنا کریں یا نہ کریں؟

۷۲

 کیونکہ بہر حال وہ دل سے ایک مومن شخص تھے اور اس بات سے باخبر تھے کہ حسین فرزند ِرسول ہیں  اور امت پر کیا حق رکھتے ہیں وہ خوفزدہ تھے کہ کہیں  اُن کا امام سے سامنا ہو اورامام اُن سے کوئی ایسا تقاضا کربیٹھیں جسے وہ پورا نہ کرسکیں، اگر ایسا ہوا تو بہت بُرا ہوجائے گا

راستے میں ایک منزل پر وہ امام کے ساتھ پڑاؤ ڈالنے پر مجبور ہوگئےیعنی کسی پانی کے پاس یا کسی کنویں کے قریب پڑاؤ ڈالاامام نے ایک شخص کو ”زہیر“کو بلانے کے لئے اُن کے پاس بھیجاجب وہ شخص وہاں پہنچا تو اتفاقاً وہ کچھ لوگوں، اپنے ساتھیوں اور اپنے قبیلے کے افراد (زہیر اپنے قبیلے کے سردار تھے) کے ہمراہ ایک خیمے میں دوپہر کا کھانا کھا رہے تھےجوں ہی امام حسین کے بھیجے ہوئے شخص نے آکے کہا کہ:یَا زُهَیْرُ! اَجِبِ الْحُسَیْن یا اَجِبْ اَبا عَبْدِ اللّٰه الْحُسَین زہیر کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اورانہوں نے (خود سے) کہا: جو میں نہیں  چاہتا تھا وہی ہوگیا

لکھا ہے کہ زہیر اور اُن کے ساتھ بیٹھے ہوئے افراد کے ہاتھ دسترخوان پر جہاں تھے وہیں  رکے کے رکے رہ گئےکیونکہ سب پریشان ہوگئے تھےنہ وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم آرہے ہیں  اور نہ یہ کہہ سکتے تھے کہ نہیں  آتےلکھتے ہیں :کَاَنَّهُ عَلیٰ رُؤُسِهِمُ الطَّیْرُ (گویا اُن کے سر پر پرندے بیٹھے ہوں) زہیر کی بیوی نیک اور مومنہ عورت تھیجب اسے معلوم ہوا کہ زہیر نے حسین کے نمائندے کے جواب میں خاموشی اختیار کرلی ہے، تو وہ آگے بڑھی اور عجیب ملامت آمیز لہجے میں بولی: زہیر! تمہیں  شرم نہیں  آتی؟ فرزند ِرسول، فرزند ِ زہرا نے تمہیں  بلایا ہے، تمہیں  توان کے پاس جانے پر فخر کرنا چاہئےتمہیں  تردد ہے؟ اٹھو، کھڑے ہو! زہیر اٹھے اور چلے گئے لیکن طوعاً وکرہاً، بے دلی سے

۷۳

مجھے نہیں  معلوم، یعنی تاریخ میں درج نہیں  ہے اور شاید کسی کوبھی نہیں  معلوم کہ امام حسین اور زہیر کی ملاقات کے دوران کیا ہوا؟ اُن کے درمیان کیا ہوا؟ کیا گفت وشنید ہوئی؟ لیکن جو بات مسلَّم ہے، وہ یہ ہے کہ جب زہیر واپس آئے تو اُن کا چہرہ اُس چہرے سے بالکل مختلف تھا جب وہ گئے تھےجب وہ جارہے تھے تو اُن کا چہرہ افسردہ اورغمگین تھا لیکن جب وہ باہر نکلے، تو اُن کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا

ہمیں نہیں  معلوم امام حسین نے اُن کے وجود میں کیا انقلاب ایجاد کیا، انہیں  کیا بات یاد دلائی، ہم نہیں  جانتےلیکن اتنا جانتے ہیں  کہ زہیر کے وجود میں ایک مقدس انقلاب پیدا ہوچکا تھاآئے اور آکے بیٹھ نہیں  گئے، بلکہ دیکھا کہ وہ وصیت کررہے ہیں میرے مال ودولت کا یہ کرنا، میرے بچوں کا یہ کرنا، اپنی زوجہ کے بارے میں وصیت کی کہ اسے اس کے والد کے گھر پہنچا دیناوصیت مکمل کرنے کے بعد اپنے آپ کو تیار کیا اور کہا کہ میں جا رہا ہوںسب سمجھ گئے کہ اب زہیر نہیں  آئیں گے

کہتے ہیں  کہ جب وہ جانے لگے، تو اُن کی زوجہ نے آگے بڑھ کر اُن کادامن تھام لیا اور بولیں: زہیر! تم جارہے ہو اور ایک عظیم مقام حاصل کررہے ہو، حسین کے نانا تمہاری شفاعت کریں گےمیں آج تمہارا دامن پکڑتی ہوں کہ قیامت میں حسین کے نانااورحسین کی ماں میری شفاعت کریںاس کے بعد زہیر کربلا کی صف ِ اوّل کے اصحاب میں سے ہوگئے

۷۴

عجیب عالم تھازوجہ زہیر مضطرب تھی کہ کیا ہوتا ہے؟ جب اسے اطلاع ملی کہ حسین اور اُن کے تمام اصحاب شہید ہوگئے ہیں ، توسوچنے لگیں کہ یقینا سب کے پاس کفن ہوگا لیکن زہیر کے پاس کفن نہیں  تھا اور وہاں اُن کا کوئی نہیں  ہےاس نے اپنے غلام کے ہاتھ ایک کفن بھیجااوراُس سے کہا کہ: جاؤ زہیر کی تکفین کرولیکن جب وہ غلام وہاں پہنچا توجو حالت اُس نے دیکھی اُس سے اُسے زہیر کو کفن دیتے ہوئے شرم محسوس ہوئی، کیونکہ اُس نے دیکھا کہ زہیر کے آقا کا بدن بھی بے کفن پڑاہے

لاٰحَوْلَ وَلَاٰ قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰهِ وَ صَلَّ اللّٰهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرِینَ

بارِ الٰہا! ہم سب کا انجام نیک فرما

بارِ الٰہا!ہم سب کو سچی توبہ کی، توبہ نصوح کی توفیق عنایت فرما

بارِ الٰہا! اپنے لطف و کرم سے ہمارے گناہوں سے درگزر فرما

بارِ الٰہا! ہمیں ان راتوں کے فیض سے محروم نہ فرما

رَحِمَ اللّٰهُ مَنْ قَرَ ءَ الْفَاتِحَةُ مَعَ الصَّلَوٰة

۷۵

فہرست

عرضِ ناشر 2

پہلا خطاب. 4

توبہ کیا ہے؟ 6

توبہ، یعنی راہ بدلنا 7

توبہ انسان کا امتیاز ہے.. 9

توبہ، یعنی خود انسان کے اندر سے قیام 11

تربیت کا غلط انداز 12

آپ کیسے تربیت کرنا چاہتے ہیں ؟ 13

توبہ کی کیفیت کیسے پیدا ہوتی ہے.. 17

عمل کے بغیر آخرت بخیر نہیں  ہوگی 26

۷۶

جوانی، توبہ کا بہترین وقت. 28

استغفار کی حقیقت. 31

دوسرا خطاب. 39

توبہ کی مہلت کب تک ہے؟ 40

توبہ کی شرائط 48

غیبت کی مذمت. 50

قرآن کیا کہنا چاہتا ہے؟ 63

۷۷