• ابتداء
  • پچھلا
  • 77 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28690 / ڈاؤنلوڈ: 4937
سائز سائز سائز
توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

تالیف: استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

ترجمہ: سجاد حسین مہدوی

۱

عرضِ ناشر

خدا کی معرفت اور اُس کی عبادت قربِ الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہےلیکن اکثر اوقات انسان کی بے توجہی اور غفلت اُسے اپنے اِس مقصد سے گمراہ کردیتی ہے اور وہ خدا کی بندگی کی راہ چھوڑ بیٹھتا ہے، گمراہ ہوجاتا ہے

انسان کو اس گمراہی سے راہِ راست پر لانے اور اس غفلت سے اسے ہوشیار کرنے کی غرض سے خداوند عالم نے انسان کے اندر اور اس کے باہر سے اہتمام کیا ہے

باہر سے انبیا اور اولیائے الٰہی انسان کی رہنمائی کرتے اور اسے متنبہ کرتے ہیں جبکہ اندرسے اُس کاضمیر اسے بیدار کرتا ہے، اس میں پچھتاواپیدا کرتا ہے اوریوں راہِ راست سے بھٹکا ہوا، خدا کی مخالف سمت چلتا ہوا یہ انسان اپنی سمت بدل کر راہِ راست، صراطِ مستقیم اور خدا کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے

دراصل یہی متنبہ ہونا، نادم ہونا، پشیمان ہوکرتبدیل ہونے پر تیار ہونااور اپنا رُخ بدل لینا توبہ ہے

زیر نظر تحریر ”توبہ“ کے موضوع پر استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ کی دو تقاریر کا مجموعہ ہے، جو انہوں نے ۲۵اور ۲۶رمضان ۱۳۹۰ھ کو حسینیہ ارشاد تہران، ایران میں کی تھیں آج قریب ۳۶، ۳۷ برس گزر جانے کے باوجود ان تقاریر کی تازگی اسی طرح محفوظ ہے، آج بھی استاد مطہریؒ کا ایک ایک لفظ دل کوچھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اُن کے لہجے کا اخلاص اُن کے بیان کردہ مفاہیم کو دل میں اتاردیتا ہے

ان تقاریر میں استاد مطہری ؒکی طرف سے توبہ کے مفہوم کی وضاحت اور اِن کے دل نشین ہونے کی صلاحیت ہی اس بات کا باعث بنی کہ دارالثقلین نے انہیں  اردو زبان میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا

۲

تقریر کو تحریر کی صورت میں لانا ایک دشوار کام ہے، بالخصوص دوسری زبان میں کی گئی تقریر کے ترجمے کو تحریری صورت دیناتواور دشوار ہوجاتا ہےبہر صورت بہتر سے بہتر ترجمے کے بعدبھی سرخیاں، بریکٹ، اور بعض الفاظ کے معنی حاشیے میں لکھ کرہم نے کوشش کی ہے کہ مقرر کی پوری پوری بات پڑھنے والوں تک پہنچ سکےاس سلسلے میں ہم کتنے کامیاب رہے ہیں  اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں

قارئین کے مشوروں، تجاویز اور تنقیدکی صورت میں ہماری رہنمائی ہمیں اپنے کام کو بہتر سے بہتر کرنے میں مدد دیتی ہےلہٰذا ہم ہمیشہ اس کے منتظر رہتے ہیں

والسلام

۳

پہلا خطاب

بِسْم ِاللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

”اَلْحَمْدُ للّٰه رَبِّ الْعٰالَمِینَ بٰارِیءِ الْخَلٰاءِ قِ اَجْمَعینَ وَ الصَّلٰوةُ وَالسَّلاٰمُ عَلٰی عَبْدِ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَحَبیبِهِ وَصَفِیِّهِ، وَحَافِظِ سِرِّهِ وَ مُبَلِّغِ رِسَالاٰتِهِ سَیِّدِنٰا وَنَبِیِّنٰاوَمَوْلاٰنٰااَبِی الْقَاسِمِ مُحَمَّد وَ عَلٰی آلِهِ الطَّیِّبینَ الطَّاهِریِنَ الْمَعْصُومیِنَاَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطانِ الرَّجیمِ “

”وَذَاالنُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَعَلَیْهِ فَنَادآٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاآا اِٰلهَ اِلَّاآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَاِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَه وَ نَجَّیْنهُاٰا مِنَ الْغَمِّ وَ کَذٰلِکَ نَُنْجِی الْمُؤْ مِنِیْنَ “

(سورہ انبیا ۲۱آیت۸۷۸۸)

ہم عبادت اور دعا کے بارے میں گفتگو کررہے تھے(۱) گزشتہ دو راتوں میں ہم نے عرض کیا تھا کہ اگرعبادت اور عبودیت صحیح شکل و صورت کے ساتھ انجام دی جائے، تولامحالہ اور لازماً انسان کے ذاتِ اقدسِ الٰہی سے حقیقی تقرب کاسبب ہوگیانسان عبودیت کے ذریعے خدا سے نزدیک ہوجاتا ہے اور اس (نزدیکی) میں مجاز کا شائبہ بھی نہیں  ہےبالفا ظِ دیگر عبودیت ”سلوک“ ہے، حرکت ہے، پروردگار کی سمت گامزن ہونا ہے

--------------

۱:- اس گفتگو کا اردو ترجمہ دارالثقلین ”عبادت اور نماز“کے نام سے شائع کر چکا ہے

۴

آج کی رات ہم ”سلوک“ کے سب سے پہلے مرحلے کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں  اگر انسان، اپنے پروردگار کی طرف سلوک (سفر) کرنا چاہتا ہے اور مقامِ قربِ خداوندی تک پہنچنے کا خواہشمند ہے، تو اسے اس منزل، اس مرحلے اور اس نقطے سے آغاز کرنا چاہئےاور جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے، وہ یہی ہےیعنی ہم لوگ، جنہوں نے اس طرف ایک قدم بھی نہیں  بڑھایا، ہمارے لئے سالکین کی اعلیٰ منازل کے بارے میں گفتگو بے سود ہےاگر ہم مردِ عمل بننا چاہتے ہیں ، تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ قربِ الٰہی اور پروردگار کی جانب سلوک کی پہلی منزل کیا ہے؟ اس کا پہلا مرحلہ کیا ہے؟ اور ہم کہاں سے اپنی عبودیت اور عبادت کا آغاز کریں؟

خدا کی جانب سلوک کی سب سے پہلی منزل ”توبہ“ ہےآج کی رات ہم توبہ کے بارے میں گفتگو کا آغازکرنا چاہتے ہیں

۵

توبہ کیا ہے؟

توبہ کے کیامعنی ہیں ؟ نفسیاتی اعتبار سے انسان کے لئے توبہ کی حقیقت کیا ہے اور معنوی لحاظ سے یہ انسان پر کیا اثرمرتب کرتی ہے؟ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے خیال میں توبہ ایک بہت ہی سادہ سی چیز ہےہم کبھی یہ نہیں  سوچتے کہ آؤ چلیں نفسیاتی لحاظ سے توبہ کاتجزیہ کریں

بنیادی طورپر توبہ حیوانات کے مقابل انسان کا ایک امتیاز ہےیعنی انسان میں متعدد اعلیٰ امتیازات، خصوصیات، کمالات اور صلاحیتیں ایسی پائی جاتی ہیں  جن میں سے کوئی ایک بھی حیوانات میں موجودنہیں انہی اعلیٰ صلاحیتوں میں سے ایک یہی ”توبہ“ ہے

توبہ کے وہ معنی و مفہوم جس کی انشااﷲ ہم آپ کے سامنے وضاحت کریں گے، اُس میں توبہ یہ نہیں  ہے کہ ہم محض زبان سےاَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه بول دیںبات صرف زبان سے الفاظ کی ادائیگی کی نہیں  ہےتوبہ ایک نفسیاتی اور روحانی حالت، بلکہ انسان کے اندر ایک روحانی انقلاب ہے، اوراَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه اس حالت کا اظہار ہے، خود وہ حالت نہیں  ہے، خود توبہ نہیں  ہےاُن بہت سی چیزوں کی مانند جن میں لفظ خود اُس چیز کی حقیقت نہیں  ہوتا بلکہ اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے

یہ جو ہم دن میں کئی مرتبہاَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه بولتے ہیں ، اِس سے ہمیں یہ نہیں  سمجھ لینا چاہئے کہ ہم دن میں کئی مرتبہ توبہ کرتے ہیں ہم اگر روزانہ ایک مرتبہ بھی سچی توبہ کرلیں، تو یقیناً قربِ الٰہی کے مراحل اور منزلیں حاصل کرلیں

۶

توبہ، یعنی راہ بدلنا

تمہید کے طور پر کچھ عرائض پیش خدمت ہیں ، توجہ فرمایئے:

جمادات، نباتات اور حیوانات کے درمیان ایک فرق پایا جاتا ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ جمادات میں خود اپنا راستہ بدلنے کی صلاحیت نہیں  پائی جاتی، وہ از خوداپنارخ بدلنے پر قادر نہیں  ہیں جیسے زمین کی سورج کے گرد، یاخود اپنے محور پر گردش، یا وہ حرکتیں جو تمام ستارے اپنے مدار میں کرتے ہیں ، یا اُس پتھر کی حرکت جو اوپر سے چھوڑنے پرزمین کی طرف آتا ہےیہ بات مسلَّم اور قطعی ہےیعنی وہ پتھرجسے آپ چھوڑتے ہیں  اور وہ ایک معین راستے پر چلتا ہے، اسی راستے پر اور اسی رُخ پر رواں دواں رہتاہےخود اس پتھر کے لئے اپنے راستے کی تبدیلی اور رُخ کا بدلناممکن نہیں  ہےاس پتھر اور اس جماد کا راستہ بدلنے کے لئے باہر سے کسی عامل کا اس پر اثر انداز ہونا ضروری ہےاب خواہ یہ عامل کوئی مجسم شے ہو یا ہوا کے ایک جھونکے کی مانند کوئی چیز ہومثلاً جن ”اپالوز“ یا ”لونا“ کوفضا میں بھیجا جاتا ہے وہ از خود کبھی اپنا راستہ تبدیل نہیں  کرتے، ماسوا یہ کہ راستے کی تبدیلی کے لئے باہر سے اُنہیں  ہدایت دی جائےلیکن نباتات اور حیوانات جیسے زندہ موجودات میں خود اپنے آپ اپنا راستہ تبدیل کر لینے کی استعداد پائی جاتی ہےیعنی اگر وہ ایسے حالات کاسامنا کریں جو ان کی زندگی کی بقا کے لئے سازگارنہ ہوں، تو وہ اپنا راستہ بدل لیتے ہیں  یہ چیز حیوانات میں تو بہت ہی واضح ہےمثلاً ایک بھیڑ، ایک کبوتریا حتیٰ ایک مکھی بھی جب چلتی ہے، تو جوں ہی کسی مشکل کو سامنے پاتی ہے، فوراً اپنا راستہ بدل لیتی ہے

۷

حتیٰ ممکن ہے وہ ایک سو اسی درجے گھوم جائےیعنی اپنی پہلی سمت سے یکسر مخالف سمت میں حرکت شروع کردےحتیٰ نباتات بھی ایسے ہی ہیں  یعنی نباتات بھی خاص حالات اور معینہ حدود میں اپنے اندر سے اپنی ہدایت کرتے ہیں ، اپنا راستہ تبدیل کرتے ہیں  ایک درخت کی جڑیں جو زیرِ زمین حرکت کرتی ہیں  اور ایک سمت کو چل رہی ہوتی ہیں ، اگر کسی چٹان کا سامنا کریں، اب چاہے اُس تک پہنچی ہوں یا نہ پہنچی ہوں، ازخود اپنا راستہ بدل لیتی ہیں جیسے ہی انہیں  معلوم ہوتا ہے کہ وہ جانے کی جگہ نہیں  ہے، وہاں کوئی گزرگاہ اور راستہ نہیں  ہے، تو فوراً اپنا راستہ تبدیل کرلیتی ہیں

واضح ہے کہ انسان بھی اس حد تک نباتات اور حیوانات کی مانند ہے، یعنی اپنا راستہ تبدیل کرلیتا ہے

توبہ سے مراد انسان کا راہ بدل لینا ہےالبتہ سادہ سا راہ بدل لینا نہیں ، جیسے ایک پودا اپنا راستہ بدلتا ہے، یا جس طرح حیوان اپنا راستہ بدل لیتا ہےبلکہ اس انداز سے راہ بدلنا مراد ہے جو انسان کا خاصّہ ہےاوریہ نفسیاتی اور روحانی نکتہ نظر سے قابلِ تجزیہ و تحلیل اور تحقیق کے لائق ہے

۸

توبہ انسان کا امتیاز ہے

”توبہ“ ایک قسم کا باطنی انقلاب ہے، ایک قسم کا قیام ہے، انسان کاخود اپنے خلاف ایک قسم کا انقلاب ہےاس لحاظ سے یہ انسان کے امتیازات میں سے ہےنباتات اپنا راستہ بدلتے ہیں  لیکن اپنے خلاف قیام نہیں  کرتے، کربھی نہیں  سکتے، اُن میں یہ صلاحیت ہی نہیں  ہوتی جمادات اورنباتات کے درمیان فرق یہ ہے کہ جمادات اپنی بقا کے لئے خود سے اپناراستہ تبدیل نہیں  کرسکتے، جبکہ یہ حیرت انگیزصلاحیت نباتات میں پائی جاتی ہے (حیوانات میں بھی موجود ہے)

انسان میں اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ خود اپنے خلاف قیام کرتا ہے، حقیقتاً قیام کرتا ہےاپنے خلاف انقلاب بپا کرتا ہے، واقعاً انقلاب بپا کرتا ہےدو مختلف اور باہمی طور پر جدا جداچیزیں (ایک دوسرے کے خلاف) قیام اور انقلاب بپا کرسکتی ہیں مثلاً ایک ملک میں معاملات کی باگ ڈورکچھ لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، بعد میں کچھ دوسرے لوگ ان کے خلاف قیام اور انقلاب بپا کردیتے ہیں یہ کوئی انہونی بات نہیں  ہے(کیونکہ) جن لوگوں کے خلاف انقلاب بپا ہوا ہے وہ دوسرے افراد ہیں  اورجنہوں نے انقلاب بپا کیا ہے وہ دوسرے لوگ ہیں  اُنہوں نے اِن پر ظلم کیاتھا، اِنہیں  ناراض اور باغی بنا دیاتھا، جو ان کی طرف سے بغاوت اور انقلاب کا سبب بنا اورانہوں نے اچانک انقلاب بپاکردیا، زمامِ حکومت ان سے چھین لی اور ان کی جگہ پر خود بیٹھ گئےاس میں کوئی نہ ہونے والی بات نہیں

۹

لیکن ایک انسان کے خود اپنے اندر سے انقلاب اٹھنا، خود اپنے خلاف قیام کرنا، یہ کیسے ممکن ہے؟

کیا ممکن ہے کہ ایک شخص خود اپنے خلاف اٹھ کھڑا ہو؟ ہاں ممکن ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک شخص ہے، جبکہ اس کے اس خیال کے برخلاف ایسا ہے نہیں وہ ایک واحد شخص ہے لیکن ایک مرکب شخص ہے، بسیط شخص نہیں  ہے(۱)   یعنی ہم جو یہاں بیٹھے ہیں ، حدیث میں آنے والی تعبیر کی رو سے ایک جماد یہاں بیٹھا ہے، ایک نبات بھی یہاں بیٹھا ہے، شہوت رکھنے والا ایک حیوان بھی یہاں بیٹھا ہے، ایک درندہ بھی یہاں بیٹھا ہے، ایک شیطان بھی یہاں بیٹھا ہے اورعین اسی حال میں ایک فرشتہ بھی یہاں بیٹھا ہےیعنی شاعروں کے بقول انسان ایک ایسا نادر و نایاب معجون ہے جس کے وجود میں تمام خصوصیات جمع ہیں کبھی وہ شہوانی حیوان (جس کا مظہر سُوَر کو سمجھا جاتا ہے) انسان کے وجود میں پایا جانے والا وہ سُوَر اُس پر حاوی ہوجاتا ہے، اور (اپنے اندر موجود) درندے، شیطان اور فرشتے کوابھرنے کا موقع نہیں  دیتاکبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُن میں سے کوئی ایک اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، صورتحال یکسر تبدیل ہو جاتی ہے، اورانسان کے وجود پر ایک نئی حکومت قائم ہوجاتی ہے

گناہ گار انسان، وہ انسان ہے جس کے اندر کا حیوان اس پر مسلط ہے، یا اس کے اندر کا شیطان اس پر مسلط ہے، یا اس کے وجود کا درندہ اس پر حاوی ہےعین اُسی وقت ایک فرشتہ، ایک عالی قوت بھی اس کے وجود میں محبوس اوراسیر ہے

--------------

۱:- بسیط یعنی غیر مرکب

۱۰

توبہ، یعنی خود انسان کے اندر سے قیام

جب انسان کے وجود میں پائے جانے والے عالی مقامات اُس کے اندر موجود اس کی باطنی مملکت کے امور پر قابض پست مقامات کے خلاف یکایک قیام کرتے ہیں ، ان سب (پست مقامات) کو پکڑ کر قید میں ڈال دیتے ہیں  اور خود اپنی فوج اور سپاہ کے ذریعے معاملات کی باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں ، تو یہ وہ حالت اور صورت ہے جو حیوان اور نبات میں نہیں  پائی جاتیاسی طرح اس کے برعکس بھی ہے، یعنی کبھی کبھی انسان کے وجود میں پائے جانے والے دانی اور پست مقامات اس کے وجود میں موجود عالی اور بلند مقامات کے خلاف قیام اور انقلاب بپا کردیتے ہیں  انہیں  گرفتار کرکے قید کر دیتے ہیں  اور اس مملکت کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں

۱۱

تربیت کا غلط انداز

اگر آپ نے تجربہ کیا ہو (تو دیکھا ہوگا کہ) کچھ لوگ جو تربیت کے فن سے واقف نہیں  ہوتے، وہ نہیں  جانتے کہ انسانی وجود میں جو قوتیں موجود ہیں  اُن سب میں تربیت کے حوالے سے حکمتیں اور مصلحتیں پائی جاتی ہیں  اگر ہمارے اندر شہوانی غرائزپائی جاتی ہیں ، تو وہ لغو اوربے کار نہیں  ہیں ہمیں طبیعی احتیاج کی حد میں ان شہوانی غرائز کی تسکین کرنی چاہئےان کی ایک حد ہے، ایک حق ہے،  ایک حصہ ہےہمیں ان کا مقررہ حصہ انہیں  دینا چاہئےاس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ سواری کے لئے اپنے گھر میں ایک گھوڑارکھتے ہیں  یاحفاظت کے لئے گھر میں ایک کتّا پالتے ہیں  اس گھوڑے یااس کتّے کو خوراک کی ضرورت ہے،  آپ پر لازم ہے کہ اسے خوراک فراہم کریں

اب کچھ کج سلیقہ لوگ ایسے ملتے ہیں  جو اپنے آپ پر یا اپنے زیرِ کفالت بچوں پر جبر کرتے ہیں  بچے کے لئے کھیل کود ضروری ہے اور خودکھیل کود کی یہ ضرورت پروردگار کی حکمتوں میں سے ہےبچے کے بدن میں انرجی کی جو مقداراکھٹی ہوتی ہے اُسے وہ صرف کھیل کود کے ذریعے خارج کرسکتا ہےبچے میں کھیل کودکے لئے غریزہ پایا جاتا ہےاب ہمیں کچھ ایسے افراد نظر آتے ہیں  جو کہتے ہیں  کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہتے ہیں ب ہت خوب،  اچھی بات ہے

۱۲

آپ کیسے تربیت کرنا چاہتے ہیں ؟

وہ اپنے پانچ چھے سالہ بچے کودوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود کی اجازت نہیں  دیتے، جس کسی محفل میں خود جاتے ہیں  اپنے بچے کو بھی ساتھ لیجاتے ہیں کیوں؟ تاکہ اس کی تربیت ہو، اسے ہنسنے سے منع کرتے ہیں ، اسے کھانے سے منع کرتے ہیں یا ایسے افراد بھی پیدا ہوگئے ہیں  (ہم نے خوددیکھا ہے) کیونکہ وہ خود عمامہ پہنتے ہیں ،  ایک عبا ایک عمامہ اور خاص چپل بنواتے ہیں ،  پھر اپنے آٹھ سالہ بچے کے سر پر عمامہ رکھتے ہیں ، اس کے شانوں پر عبا ڈالتے ہیں  اور اسے اپنے ہمراہ لئے ادہر ادہر پھرتے ہیں

یہ بچہ اس حال میں بڑا ہوتا ہے کہ اس کے وجود میں پائی جانے والی احتیاجات کی تسکین نہیں  ہوئی ہوتی، اس کے سامنے بس خدا، قیامت، آتش جہنم کا تذکرہ ہوتا ہے،  یہاں تک کہ بیس برس سے زیادہ عمر کو پہنچنے پراس میں اکھٹی ہونے والی وہ قوتیں،  وہ شہوتیں اوروہ تمایلات جن کی تسکین نہیں  ہوئی ہوتی یکلخت زنجیر توڑ ڈالتی ہیں

وہ بچہ جسے آپ دیکھا کرتے تھے کہ اپنے باپ کی تلقین کے زیرِ اثر بارہ سال کی عمر میں جس کی نماز بیس منٹ طویل ہوا کرتی تھی،  جو نمازِ شب پڑھاکرتا تھا،   دعا ئیں پڑھتا تھا، پچیس سال کی عمر میں یکایک آپ کو سرسے پیر تک فسق و فجور میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے

۱۳

کیوں؟

اسلئے کہ آپ نے اعلیٰ روحانی مقامات کے بہانے اس کی تمام غرائز کوکچل دیا تھاالبتہ بچے کی فطرت میں خدا تھا، قیامت اور عبادت تھی لیکن آپ نے خدا اور عبادت کے اس فطری جذبے کو اس انداز سے اس کے اندرمضبوط کیا کہ اس کے سارے غرائز (کی تسکین) کا راستہ روک دیا، اس کے سارے غرائز کو قید کردیا، انہیں  غضبناک اور ناراض کردیا، انہیں  جیل میں ڈال دیا، ان کا حق اور حصہ انہیں  نہیں  دیا(اب وہ غرائز) ایک موقع کی تلاش میں تھے، جوں ہی انہیں  ایک موقع ملتا ہے، جوں ہی وہ بچہ ایک فلم دیکھتا ہے یا کسی محفل میں ایک جوان لڑکی سے راہ و رسم پیدا کرتا ہے،  اسی وقت یہ جمع شدہ اور کچلی ہوئی قوتیں یک بیک سارے بندھن توڑ ڈالتی ہیں  اور اس عمارت کو جسے اس کے باپ نے غلط انداز میں اس کے وجود میں تعمیر کیا تھامسمار کر ڈالتی ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے بارودپھٹتا ہے، پھٹ پڑتی ہیں

توبہ کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہےایسا انسان جو گناہ اور نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے، نفسانی خواہشات اور حیوانیت میں ڈوبا ہواہوتا ہے، جب وہ اپنے وجود کے فرشتے کو اس قدر اذیت دیتا ہے اور اس کی خواہشات کی تسکین نہیں  ہونے دیتا، تو اچانک ایک دھماکہ ہوتا ہے

آخر میں اور آپ بھی تو انسان ہیں ، ہمارا ایک دہان نہیں  ہوتااگر آپ یہ سمجھتے ہیں  کہ آپ کا صرف ایک دہان ہے اور آپ کو فقط اسی سے غذا فراہم کی جائے، تو آپ غلط فہمی میں مبتلا ہیں  آپ کے سینکڑوں دہان ہیں  آپ کے لاتعداد سر ہیں ، لاتعداد دہان ہیں ، ان سب سے آپ کو غذا پہنچنی چاہئے

۱۴

ان لاتعداد دہان میں سے آپ کاایک دہان عبادت کادہان ہےآپ کے لئے ضروری ہے کہ عبادت کے ذریعے اپنی روح کی تسکین کریںیعنی آپ کو اسے اس کایہ حق اور یہ حصہ دیناچاہئےآپ ملکوتی صفات کا حامل ایک وجود ہیں  آپ کو اس عالم کی طرف محوپرواز ہوناچاہئےاگر آپ اس فرشتے کوقید کردیں، توکیا آپ جانتے ہیں  کہ اس کے بعد کیابیماریاں اور کتنی زیادہ مشکلات جنم لیں گی؟

بسا اوقات آپ دیکھتے ہیں  کہ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے والا جوان، ایک ایسا جوان جسے تمام وسائل اورآسائشیں فراہم ہیں ، وہ ایک انتہائی معمولی بات پر خودکشی کرلیتا ہےلوگ کہتے ہیں  نہ معلوم اس نے کیوں خودکشی کرلی؟ یا یہ کہتے ہیں  کہ ارے یہ تو بہت چھوٹی سی بات تھی! کیوں خودکشی کرلی؟

دراصل وہ جوان اس بات سے واقف نہیں  تھا کہ اس کے وجود میں کچھ مقدس قوتیں قید تھیںوہ مقدس قوتیں اُس کی زندگی کے اس انداز سے آزردہ تھیں، ان کی برداشت ختم ہوچکی تھی جس کے نتیجے میں اس طرح کا ایک طوفان اٹھا

کبھی کبھی آپ دیکھتے ہیں  کہ ایک انسان سب کچھ ہونے کے باوجود مضطرب اورپریشان ہےبقول شاعر :

آن یکی در کنج زندان مست و شاد

و ان دیگر در باغ ترش و بی مراد

وہ جیل کی کوٹھڑی میں بھی خوش و خرم ہے اور دوسرا باغ کے اندر رہتے ہوئے بھی غمگین اور نامراد ہے

آپ دیکھتے ہیں  کہ وہ ایک پر آسائش ماحول میں رہتا ہے، زندگی کی تمام سہولتیں اسے میسر ہیں ، اس کے باوجود وہ پریشان ہے، ناخوش اور زندگی سے ناراض ہے

۱۵

راہ لذت از درون دان نز برون

احمقی دان جستن از قصر و حصون

لذت کا راستہ اندر سے ہے نہ کہ باہر سےاس کو محل اور قلعہ میں تلاش کرنا حماقت ہے

اسلئے کہ کچھ لذتیں ایسی بھی ہیں  جوخود انسان کے اندر سے اسے پہنچنا چاہئیں نہ کہ باہر سےاوریہ لذتیں انسان کی معنوی لذتیں ہیں

چنانچہ ”توبہ“ انسانی روح کے اعلیٰ اور مقدس مقامات کا اُس کے حیوانی اور پست مقامات کے خلاف ظاہر ہونے والاردِ عمل ہے

”توبہ“یعنی انسان کی فرشتہ صفت مقدس قوتوں کااُس کی شیطانی اور درندہ صفات قوتوں کے خلاف قیام وانقلابیہ ہے توبہ کی حقیقت

رجوع کرنے، ندامت اور پشیمانی کی یہ حالت انسان میں کیسے پیدا ہوجاتی ہے؟

۱۶

توبہ کی کیفیت کیسے پیدا ہوتی ہے

پہلی بات یہ جان لیجئے کہ اگر انسان کے وجود میں کوئی ایسا عمل ہو جس کے نتیجے میں اس کے وجود میں پائے جانے والے یہ مقدس عناصر مکمل طور پر ناکارہ ہوجائیںوہ ایک ایسی مضبوط زنجیر سے باندھ دیئے جائیں جس سے وہ آزاد نہ ہوسکیں، توپھر انسان کو توبہ کی توفیق حاصل نہیں  ہوتیلیکن جس طرح ایک ملک میں انقلاب اور تبدیلی اس وقت رونما ہوتی ہے جب وہاں اس ملک کی عوام کے درمیان پاکیزہ لوگوں کا ایک گروہ موجود ہوتا ہے، چاہے وہ گروہ بہت چھوٹا ہی کیوں نہ ہواسی طرح اگر انسانی وجود میں بھی کچھ مقدس اور پاک عناصر باقی بچے ہوں، تو انسان کو توبہ کی توفیق حاصل ہوجاتی ہےبصورتِ دیگر اسے ہرگز توبہ کی توفیق نہیں  ہوگی

اب کن حالات میں انسان رجوع کرتا ہے، پشیمان ہوتا ہے اور اگر خدا پرست ہو تو خدا کی جانب پلٹتا ہے اور اگر خداپرست نہ ہو تو اس میں ایک دوسری حالت پیدا ہوتی ہے، کبھی پاگل پن اور دیوانگی کا شکار ہوجاتا ہے،  اور کبھی دوسری صورتحال پیش آتی ہے

ہم نے کہا کہ ”توبہ“ ایک ردِعمل ہےآپ ایک گیند ہاتھ میں لیجئے اور اسے زمین پر ماریئےگیند زمین سے اچھلے گیآپ کاگیند کو پھینکنایعنی آپ کااپنے ہاتھ کی قوت سے گیند کو زمین پرمارنا، آپ کا عمل ہے اور گیند کا زمین سے اچھلنا ردِعمل ہےیہ ردِ عمل گیند کے زمین سے ٹکرانے سے پیدا ہوتا ہےپس وہ عمل ہے اور یہ ردِعمل، وہ فعل ہے اور یہ آج کل کی عربی اصطلاح میں ردُّالفعل ہے، وہ ایکشن ہے اور یہ ری ایکشن

۱۷

جب آپ گیند کو زمین پر مارتے ہیں  تو وہ کتنی بلند ہوتی ہے؟ اس کا تعلق ایک طرف اُس طاقت سے ہے جو اسے زمین پر مارنے میں استعمال ہوتی ہے، یعنی اُس قوت سے ہے جس سے آپ نے اُسے زمین پر مارا ہے اوردوسری طرف یہ سطحِ زمین کی کیفیت سے وابستہ ہےجس قدر زمین سخت اور ہموار ہوگی، جس قدروہ پختہ ہو گی،  اُس کا ردِعمل زیادہ ہوگا (یعنی اتنا ہی گیند زیادہ بلند ہوگی) پس ردِعمل کا تعلق ایک طرف آپ کے عمل کی شدت سے ہے اور دوسری طرف اس سطح کی سختی اور ہمواری سے ہے جس سے گیند جا کر ٹکراتی ہے

گناہوں کے مقابل انسانی روح کا ردِعمل بھی دو چیزوں سے وابستہ ہوتاہےایک طرف اس کاتعلق شدتِ عمل سے ہےیعنی گناہ اور نافرمانی کی شدت سے، اس ضرب کی شدت سے ہے جو آپ کی روح کے پست مقامات روح کے اعلیٰ مقامات پر لگاتے ہیں

انسان کا گناہ جتنا کمتر اور جتنا چھوٹا ہوگا،  وہ روح میں بھی اتنا ہی کم ردِعمل پیدا کرے گا، اور جس قدر معصیت بڑی ہوگی، ردِعمل بھی اتنا ہی زیادہ ایجاد کرے گیلہٰذا وہ لوگ جو بہت زیادہ شقی القلب اور سنگدل ہوتے ہیں ، اپنی شقاوت اور قساوت ِقلبی کے باوجود اگر ان کا گناہ بہت بڑا ہو،  تو ان کو بھی ہم دیکھتے ہیں  کہ ان کی روح ردِعمل ظاہر کرتی ہےآپ دیکھتے ہیں  کہ وہ امریکی پائلٹ جس نے وہ (ایٹم) بم لے جا کر ہیروشیما پر پھینکا تھا، جب وہ واپس آنے کے بعد اپنے عمل کے اثرپرایک نظر ڈالتا ہے، تو دیکھتا ہے کہ اس نے ایک شہر نذرِ آتش کردیا ہے، بوڑھے جوان، مرد عورت، چھوٹے بڑے سب ایک دَھکتے ہوئے جہنم میں جل رہے ہیں  اسی وقت اس کے ضمیر میں ہلچل مچ جاتی ہے،  وہ اسے ملامت کرتا ہےحالانکہ ایسے لوگوں کو سنگدل ترین افراد میں سے منتخب کیا جاتا ہے

۱۸

جب وہ (ہواباز) اپنے ملک لوٹتا ہے تو اس کا استقبال کیا جاتا ہے،  اس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں ،  اسے اعلیٰ عہدے پر ترقی دی جاتی ہے،  اس کی تنخواہ میں اضافہ کیا جاتا ہے، اخبارات میں اس کی تصویر چھپتی ہے، اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہےلیکن وہ ایسے عظیم ظلم کا مرتکب ہوا تھا،  اس کا گناہ اس قدر بڑا تھا کہ اُس نے ایسے قسی القلب انسان کے ضمیر کو بھی بیدار کردیایعنی اس کی روح پر لگنے والی ضرب اتنی شدید تھی کہ ایسے سنگدل انسان کی روح بھی ردِ عمل ظاہر کئے بنا نہ رہ سکییہ شخص بھی جب پارٹیوں میں جاتا تو ہنستا مسکراتا، لوگوں کو بتاتا کہ اس نے یہ کیا وہ کیا، لیکن جب وہ تنہا ہوتا، جب بستر میں سونے کے لئے لیٹتا،  تو یکدم وہ منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتا، (وہ سوچتا کہ) ہائے! یہ میں تھاجس نے اتنا بڑا جرم کیا!وائے ہو مجھ پر! میں کیسے عظیم ظلم کا مرتکب ہوا ہوں! نتیجتاً وہ شخص پاگل ہو جاتا ہے، اس کا عمل اسے پاگل خانے لیجاتا ہے

ایساکیوں ہوتا ہے؟

ایسا اسلئے ہوتا ہے کہ اس کا جرم بہت بڑا تھا

معاویہ کی فوج کا ایک سرداربسر بن ارطاۃ انتہائی سنگدل اور عجیب انسان تھامعاویہ نے حضرت علیؑ کو پریشان اور بے بس کرنے کے لئے جو پالیسیاں اختیار کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ وہ ”بسر بن ارطاۃ“یا ”سفیان غامدی“جیسے ایک خبیث فرد کی سربراہی میں کچھ فوجیوں کو حضرت علیؑ کی حکومت کی حدود کے اندر بھیجتے اور ان سے کہتے کہ اب گناہگار اور بے گناہ کو نہ دیکھنا (اسی طرح جیسے آج اسرائیل اسلامی ممالک کے ساتھ کر رہا ہے) جاؤانہیں  تباہ و برباد کرنے کے لئے ان پر شبخون مارو، آتش زنی کرو، بے خطا اور خطا کار میں تمیز کئے بغیر جو سامنے آئے اسے تہ تیغ کردو، چھوٹے بڑے کسی پر رحم نہ کرو، ان کا مال و دولت لوٹ لواور معاویہ کے فوجی ایسا ہی کرتےایک مرتبہ انہوں نے اسی بُسر بن ارطاۃ کو بھیجاوہ گیاادھر ادھر سے ہوتا ہوا یمن پہنچا،

۱۹

وہاں اس نے بہت مظالم ڈھائےان ہی میں سے اس کا ایک ظلم یہ بھی تھا کہ اس نے یمن میں امیر المومنین حضرت علی ؑکے گورنر اور آپ کے چچازاد بھائی عبید اﷲ ابن عباس بن عبدالمطلب کے بیٹوں کوپکڑ لیااور ان دو چھوٹے بے گناہ بچوں کی گردنیں اڑادیںکیونکہ یہ ظلم بہت بڑا تھا، لہٰذا آہستہ آہستہ اس سنگدل آدمی کا ضمیر بھی بیدار ہونے لگا اور پھر وہ ضمیر کے عذاب میں مبتلا ہوگیاوہ جب بھی سوتااسے خواب میں اپنا وہ ظلم نظر آتاجب راہ چلتا تو اس کی نظروں کے سامنے یہ دو بے گناہ بچے اور اس کے دوسرے مظالم آکھڑے ہوتےرفتہ رفتہ وہ دیوانہ ہوگیاوہ لکڑی کے گھوڑے پر سوار ہوجاتا، لکڑی ہی کی ایک تلوار ہاتھ میں لیتا اورگلی کوچوں میں دوڑتاپھرتا اور کوڑے مارتابچے اس کے گرد جمع ہوجاتے اور اس کا مذاق اڑاتے

ہم نے عرض کیا کہ انسانی روح کی جانب سے ردِ عمل کے اظہار کا دوسرا عامل یہ ہے کہ جس سطح پر ضرب لگ رہی ہو وہ ہموار ہو،  مضبوط اور مستحکم ہویعنی اس انسان کا ضمیر،  اس کی فطرت اور اس کا ایمان قوی ہواس صورت میں معمولی ضرب کے باوجود ردِ عمل نسبتاً زیادہ ہوگالہٰذا آپ دیکھتے ہیں  کہ چھوٹی چھوٹی خطائیں،  گناہانِ صغیرہ،  حتیٰ وہ اعمال جو مکروہ ہیں  اور جنہیں  گناہ نہیں  سمجھا جاتاوہ باایمان افراد (ایسے افراد جو مضبوط روح کے مالک ہوتے ہیں ،  جن کا معنوی فرشتہ،  جن کا ایمان،  جن کا معنوی ضمیر مستحکم ہوتا ہے) کے نزدیک قابلِ مذمت ہوتے ہیں  اور یہ اعمال اُن میں ردِ عمل پیدا کرتے ہیں  ایسے اعمال جن کے ہم روزانہ سیکڑوں مرتبہ مرتکب ہوتے ہیں  اور جنہیں  انجام دینے کے بعد ہمارے اندریہ معمولی سا احساس بھی جنم نہیں  لیتا کہ ہم نے کچھ کیا ہے(جبکہ) پاک سرشت انسان جوں ہی کوئی مکروہ عمل بھی انجام دیتے ہیں  تو ان کی روح مضطرب ہوجاتی ہے اور وہ مسلسل اور بار بار توبہ واستغفارکرتے ہیں

۲۰

روحانیت کے اعتبار سے ایک انتہائی عظیم ہستی، میرے استاد جن کا میں نے گزشتہ برس ماہِ رمضان میں بھی ذکر کیا تھاوہ مرحوم حاج میرزا علی آقائی شیرازی اصفہانی رضوان اﷲ علیہ ہیں  آنجناب ان روحانی شخصیات میں سے ایک عظیم ترین شخصیت ہیں  جنہیں  میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ہےایک رات وہ قم میں ہمارے مہمان تھے اور ہم بھی ان کے ساتھ قم کے ایک عالم کے یہاں دعوت میں مدعو تھےبعض ادبی ذوق رکھنے والے افراد اور شعرا بھی وہاں موجود تھےاُُس رات مجھے معلوم ہوا کہ آنجناب شعر وادب سے کس قدر شغف رکھتے ہیں  اور عربی و فارسی کے کس قدر بہترین اشعارانہیں  یاد ہیں دوسرے لوگ بھی شعر سنا رہے تھے لیکن انتہائی عام سے اشعار،  سعدی اور حافظ وغیرہ کے اشعارآنجناب بھی شعر پڑھ رہے تھے اور بتاتے جاتے تھے کہ فلاں شعرفلاں سے بہتر ہے،  فلاں مضمون کو فلاں نے بہتر انداز میں بیان کیا ہے،  کس نے اس طرح کہا ہے اور کس نے اُس طرح

شعر پڑھنا اور وہ بھی اس طرح کے شعر پڑھنا گناہ نہیں  ہےالبتہ رات کے وقت شعر پڑھنا مکروہ ہےخدا جانتا ہے،  جب ہم باہر نکلے تو وہ (ہمارے استاد) شدت کے ساتھ لرز رہے تھےکہتے تھے کہ میں بہت ارادہ کرتا ہوں کہ رات کو شعر نہ پڑھوں لیکن آخر کار اپنے آپ کو نہیں  روک پاتامسلسلاَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه اُن کی زبان پر جاری تھاایک ایسے انسان کی مانند جو انتہائی عظیم گناہ کر بیٹھا ہومعاذ اﷲ اگر ہم نے شراب پی ہوتی، تب بھی اس قدر مضطرب نہیں  ہوتے جس قدر وہ ایک مکروہ عمل پر اظہارِ اضطراب کر رہے تھے

ایسے افراد کیونکہ خدا کے محبوب بندے ہوتے ہیں  اس لئے خدا کی طرف سے انہیں  ایک قسم کی سزا دی جاتی ہے،  جبکہ ہم اور آپ اس قسم کی سزاؤں کی اہلیت اور لیاقت نہیں  رکھتےآنجناب روزانہ صبح طلوع ہونے سے کم ازکم دو گھنٹے پہلے بیدار ہوجاتے تھے،

۲۱

 میں نے شب بیداری کا مفہوم انہی سے سیکھا ہےمیں نے ”شب ِمردانِ خدا روزِ جہان افروزاست“ (اﷲ والوں کی رات روشن دن کی طرح ہوتی ہے) کے معنی انہی سے سیکھے ہیں ، عبادت اور خداشناسی کا سبق انہی سے حاصل کیا ہے،  استغفار کامفہوم انہی سے سیکھا ہے، حال اور خدا میں مجذوب ہو جانا انہی سے سمجھا ہے

اس رات جب وہ بیدار ہوئے تو صبح کی اذان ہو رہی تھیخدا نے انہیں  سزا دے دی تھیبیدار ہوتے ہی انہوں نے ہمیں جگایااور کہا کہ یہ گزشتہ رات کی شعر خوانی کا اثر تھا!!

ایک ایسی روح جس کا ایمان اس قدر مستحکم ہو، جب اُس پر معمولی سی بھی ضرب پڑتی ہےیعنی جب اس کے پست مقامات کی جانب سے اس کے عالی مقامات پراس قسم کا چھوٹا سا حملہ بھی ہوتا ہے، تویہ عالی مقامات اس (حملے) پراپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں ، اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہیں ،  حتیٰ سزا بھی دیتے ہیں  کہ دیکھو!ہم تمہیں  بخشیں گے نہیں ،  یوں ہی چھوڑ نہیں  دیں گے!

ایک ایسا انسان جو رات کو شعر خوانی کرے،  اپنے دو گھنٹے شعر پڑھنے میں گزارے،  وہ دو گھنٹے خداوند متعال کے ساتھ مناجات کے لائق نہیں  رہتا

آپ کی خدمت میں ایک اور مثال عرض کرتا ہوں: اگر آپ ایک نہایت صاف وشفاف آئینہ لے کر، اسے صاف کرنے کے بعد ایک ایسی صاف فضا میں میز پررکھ دیں جس میں خود آپ بھی بخوشی سانس لینا پسند کرتے ہوںکچھ دیر بعد آپ دیکھیں گے کہ اُس آئنے پر گرد جمی ہوئی ہےیہ گرد آپ کو پہلے محسوس نہیں  ہورہی تھی،  میز پر بھی یہ آپ کو دکھائی نہیں  دے رہی تھیدرو دیوار پر بھی اس کا احساس نہیں  ہو رہا تھا

۲۲

جتنی دیوار زیادہ گندی ہوگی،  اُس پرگندگی اور سیاہی کے اثرت اور داغ دھبے اتنے ہی کم دکھائی دیں گےیہاں تک کہ اگر وہ سیاہ اور تارکول زدہ ہو تو اس پر لگنے والا چراغ کا سیاہ دھواں بھی نظر نہ آئے گاپیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہر مجلس میں پچیس مرتبہ استغفار کرتے تھےکہا کرتے تھے کہ:اِنَّهُ لَیُغانُ عَلیٰ قَلْبِیْ وَ اِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعِیْنَ مَرَّةٍ (سفینۃ البحارج ۲ص ۳۲۲)

یہ سب کیا ہے؟ ہم کہتے کیا ہیں  اور سمجھتے کیا ہیں ؟

فرماتے تھے: میں اپنے دل پر کدورت کے آثار محسوس کرتا ہوں اور اس کدورت کو دور کرنے کے لئے روزانہ ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں

یہ کدورتیں کیا ہیں ؟ یہ کدورتیں ہمارے لئے آئینہ ہیں ، ہمارے لئے نورانیت ہیں ، لیکن اُن کے لئے کدورت ہیں جب وہ ہمارے ساتھ بات کرتے ہیں ، چاہے اُن کی بات خدا کے لئے ہو،  چاہے وہ ہمارے آئینہ وجود میں خدا کو دیکھ رہے ہوں، پھر بھی اُن کی نظر میں یہ کدورت ہے

”امِ سَلَمہ“ اور دوسروں نے کہا ہے کہ آنحضرت کی وفات سے ایک دو ماہ پہلے ہم دیکھا کرتے تھے کہ آپ جب بھی اٹھتے یابیٹھتے یا کوئی بھی کام کرتےسُبْحَانَ اللّٰهِ وَ اَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه ضرور کہتےیہ ایک بالکل نیا ذکر تھا

امِ سلمہ کہتی ہیں ، میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ! ان دنوں آپ اس قدر زیادہ استغفار کیوں کررہے ہیں ؟ فرمایا: مجھے یہی حکم دیا گیا ہےنُعِیَتْ اِلیٰ نَفْسِی ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ آخری سورہ جو آنحضرت ؐکے وجودِ اقدس پر نازل ہوا،  وہ سورہ نصر ہےجب یہ سورہ نازل ہوا تو پیغمبر اکرم کو احساس ہوگیا کہ یہ اُن کی موت کی اطلاع ہےیعنی اب آپ کا وقت پورا ہوچکا ہے، اب تمہیں  یہاں سے کوچ کرناہےسورہ مبارک نصر یہ ہے:

۲۳

اِذَا جَآءَ نَصْرُ اﷲِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اﷲِ اَفْوَاجً فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ اسْتَغْفِرْه اِنَّه کَانَ تَوَّابًا

یہ قرآن کس قدر لذت بخش ہے! کس قدر خوبصورت ہے!انسان اسے اپنی زبان پر جاری کرکے لطف اندوز ہوتا ہے،  خوشی محسوس کرتا ہے

ارشادِ الٰہی ہے:اے پیغمبر! جب پروردگار کی مدد آجائے، جب پروردگار کی مدد آکر آپ کو آپ کے مخالفین پر فتح عطا کردے،  جب آپ کو شہر کی فتح یعنی فتحِ مکہ نصیب ہوجائے، اور جب آپ دیکھ لیں کہ لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہورہے ہیں ، تواس کے بعدفَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد کیجئے اور استغفار کیجئے کہ وہ توبہ قبول کرنے والا ہے

کیا تعلق ہے اُس ابتدا اور اِس انتہا کے درمیان؟

فتح و کامیابی اور لوگوں کے گروہ در گروہ دین اسلام میں داخل ہونے کے بعد آنحضرت کیوں تسبیح کریں؟

مراد یہ ہے کہ اب آپ کی ذمے داری ختم ہوئی

یہ پیغمبر اسلام ؐ پر نازل ہونے والاآخری سورہ ہے،  حتیٰ یہ حضرت علی ؑکے بارے میں نازل ہونے والی آیاتاَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ   (سورہ مائدہ۵آیت۳)  اوریٰاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّک   (سورہ مائدہ۵آیت۶۷) کے بھی بعد نازل ہوا ہے

اب آپ اپنی ذمے داری ادا کرچکے ہیں ،  پس (اپنے پروردگار کی) تسبیح کیجئےپیغمبر اسلام نے محسوس کر لیا کہ مراد یہ ہے کہ اب میرا کام ختم ہو گیا ہے، پس اب اپنی فکر کرواسی لئے آپ ہر وقت تسبیح و استغفار میں مشغول رہاکرتے تھے

۲۴

لیکن ہم بدبختوں کا دل اُسی تارکول زدہ دیوار کی مانند ہےافسوس ایک کے بعد ایک گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ، ایک نافرمانی کے بعد دوسری نافرمانی کرتے ہیں ، لیکن ہماری روح میں کسی قسم کا ردِ عمل پیدا نہیں  ہوتامجھے نہیں  معلوم ہماری روح کے وہ فرشتے کہاں اورکس قدر قید ہوچکے ہیں ، ان کے ہاتھ پاؤں کن زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ، کہ ہمارے دل میں ہلچل نہیں  مچتی، ہمارا دل نہیں  لرزتا

عبودیت کی پہلی منزل توبہ ہےاگر آپ کو اپنی روح میں کوئی ہلچل نظر آتی ہے، اگرکوئی ندامت دکھائی دیتی ہے، اگر احساسِ پشیمانی دکھائی دیتا ہے، اگر اپنا ماضی سیاہ محسوس ہوتا ہے، اگر یہ محسوس کرتے ہیں  کہ جس راستے پر آپ آج تک چلتے رہے ہیں ، وہ غلط تھا، زوال کی جانب تھا، جو آپ کو پستی کی طرف لے جا رہا تھااور اب آپ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سے باہر نکلنا ہے، اوپر کی جانب اٹھنا ہے،  خدا کی طرف آنا ہے، تو آپ عبودیت، عبادت اور سلوک کی پہلی منزل پر پہنچ چکے ہیں  اور یہاں سے آغاز کر سکتے ہیں ،  اور اگر ایسا نہیں ،  توپھر یہ ممکن نہیں

۲۵

عمل کے بغیر آخرت بخیر نہیں  ہوگی

ایک شخص مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے امیر المومنین! مجھے نصیحت فرمایئےحضرت ؑ نے اُسے کئی نصیحتیں کیںان نصائح کے پہلے دو جملے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوںہمارے لئے فی الحال یہی دو جملے کافی ہیں فرمایا:لاَ تَکُنْ مِمَّنْ یَرْجُواالْآخِرَةَ بِغَیْرِ عَمَلٍ وَ یُرَجِّی التَّوْبَةَ بِطولِ الْاَمَلِیَقُوْلُ فِی الدُّنْیَا بِقَوْلِ الزَّاهِدِیْنَ وَ یَعْمَلُ فِیْهَا بِعَمَلِ الرَّاغِبِیْنَ  (۱)

فرمایا: تمہیں  میری نصیحت یہ ہے کہ، تم اُن لوگوں میں سے نہ ہونا جو آخرت کی امید رکھتے ہیں  لیکن چاہتے ہیں  کہ بغیر عمل کئے آخرت حاصل کرلیںہم سب لوگوں کی طرحہم بھی کہتے ہیں  کہ علی ابن ابی طالب ؑ کی محبت کافی ہے، جبکہ ہماری محبت بھی سچی محبت نہیں  ہے، اگر ہماری محبت سچی ہوتی تو اس کے ساتھ ساتھ عمل بھی ہوتاہم کہتے ہیں  کہ (علی ؑ سے) یہی ظاہری تعلق کافی ہے! ہم سمجھتے ہیں  کہ علی ؑ ان لوگوں میں سے ہیں  جنہیں  (محبت کرنے والوں کی) ضرورت ہے، اور اگر کچھ لوگ ان سے جھوٹ موٹ کا تعلق رکھیں تو یہ بھی کافی ہے، ہمیں سرِ دست دکھاوے کے لئے لشکر کی ضرورت ہے، دکھاوے کے لئے یہی لشکری کافی ہیں

--------------

1:- تمہیں  اُن لوگوں میں سے نہیں  ہونا چاہئے جو عمل کے بغیر حسنِ انجام کی امید رکھتے ہیں  اور امید بڑھا کر توبہ میں تاخیر کرتے ہیں جو دنیا میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں  مگر اُن کے اعمال دنیا طلب لوگوں جیسے ہوتے ہیں (نہج البلاغہ کلماتِ قصار۱۵۰)

۲۶

ہم سمجھتے ہیں  کہ امام حسین علیہ السلام پر ایک جھوٹ موٹ کاگریہ کافی ہے، لیکن امیر المومنین نے فرمایا ہے: یہ جھوٹ ہےاگر علی ابن ابی طالب ؑکی محبت تمہیں  عمل کی طرف مائل کرے، تو جان لو کہ تمہاری محبت سچی ہے، اگر حسین ا بن علی ؑ پر گریہ تمہیں  عمل کی طرف لیجائے، تو جان لو کہ تم نے حسین ابن علی ؑ پر گریہ کیا ہے اور تمہارا گریہ سچا ہے، ورنہ شیطان کا فریب ہے

دوسرے جملے میں آپ ؑ نے فرمایا:وَ یُرَجِّی التَّوْبَةَ بِطولِ الْاَمَل اے شخص! ان لوگوں میں سے نہ ہوجانا جو اپنے اندر توبہ کی ضرورت تو محسوس کرتے ہیں  لیکن یہ کہہ کر توبہ نہیں  کرتے کہ ابھی دیر نہیں  ہوئی، بہت وقت پڑا ہے

بھائیو! اگر حضرت علی ؑ تشریف لائیں اور ہم اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں کہ آقا ہمیں نصیحت فرمائیے اور وہ وہی جملہ ہم سے کہیں  کہ:لاَ تَکُنْ مِمَّنْ یَرْجُواالْآخِرَةَ بِغَیْرِ عَمَلٍ وَ یُرَجِّی التَّوْبَةَ بِطولِ الْاَمَلِ ، توہم کب تک یہی کہتے رہیں  گے کہ ابھی دیر نہیں  ہوئی ہے، ابھی وقت پڑا ہے؟ ابھی تو ہم جوان ہیں کہیں  گے کہ:حضور! ابھی تو میں بیس سالہ جوان ہوں، ابھی میرے لئے توبہ کرنے کا وقت کہاں آیا ہے؟

۲۷

جوانی، توبہ کا بہترین وقت

عجیب بات یہ ہے کہ بعض بوڑھے اور عمر رسیدہ افراد جب کسی جوان کو دیکھتے ہیں  کہ وہ عبادت کی طرف مائل ہے اور اپنے گناہ کی طرف متوجہ ہے، اور توبہ اور ندامت کی حالت میں ہے، تواُس سے کہتے ہیں : ارے بیٹا! تم توابھی جوان ہوابھی تمہارے لئے ان باتوں کا وقت نہیں  ہے

اتفاقاً جوانی ہی اس کا بہترین وقت ہےایک شاخ جب تک تازہ ہوتی ہے، اُس میں سیدھا ہونے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہےاور جوں جوں وہ بڑی اور خشک ہوتی چلی جاتی ہے، اُس کی یہ صلاحیت کم ہونے لگتی ہےعلاوہ ازیں کس نے اس جوان کو اس کی زندگی، ادھیڑ عمری اور اُس کے بعد بڑھاپے تک پہنچنے کی گارنٹی دی ہے؟

جب تک جوان ہوتے ہیں  کہتے ہیں  کہ جوان ہیں ، جب ادھیڑ عمرکو پہنچتے ہیں  تو کہتے ہیں  کہ ابھی بہت وقت پڑا ہےتوبہ تو بڑھاپے میں کی جاتی ہے، جب بوڑھے ہوجائیں گے، کسی کام کے نہ رہیں  گے اور تمام طاقتیں ہم سے چِھن جائیں گی، تواُس وقت توبہ کرلیں گے

ہم نہیں  جانتے کہ یہ ہماری غلط فہمی ہےاتفاقاً اُس وقت بھی ہم توبہ نہیں  کرتے، اُس وقت ہمارے پاس توبہ کا حوصلہ ہی نہیں  ہوگاگناہوں کے بوجھ سے ہماری کمر اس طرح خم ہوجائے گی کہ پھر ہمارا دل توبہ کرنے پر تیارہی نہیں  ہوگاایک بوڑھے سے زیادہ ایک جوان کا دل توبہ کے لئے تیار ہوتا ہےمولاناروم نے کیا خوب کہا ہے:

خار بن در قوت و برخاستن

خار کَن در سستی و در کاستن

۲۸

وہ ایک مثال پیش کرتے ہیں کہتے ہیں  کہ ایک شخص نے سرِ راہ ایک خاردار جھاڑی لگائییہ جھاڑی بڑی ہونے لگی تولوگوں نے اُس سے کہا کہ جناب اس جھاڑی کو اکھاڑ دیجئےاُس نے کہا: ابھی جلدی کیا ہے، معمولی سی جھاڑی ہے آسانی سے اکھڑ جائے گی(کچھ دن بعد) لوگوں نے دوبارہ اُس سے درخواست کیاُس نے جواب دیا: کیا جلدی ہے، ابھی کاٹ پھینکیں گے، آئندہ سال کاٹ دیں گےاگلے سال وہ جھاڑی بڑھ کر تنومند ہوگئیاور جھاڑی بونے والا؟ وہ مزید بوڑھا ہوگیالوگوں نے کہا :آؤاسے کاٹ ڈالیںکہنے لگا: ابھی جلدی کیا ہے؟ بعد میں کاٹ ڈا لیں گے

خاردار جھاڑی ہر سال بڑھتی رہی، جڑیں پھیلاتی رہی، اس کا تنا موٹا ہوتا چلاگیا، اس کے کانٹے تیز تر ہوتے گئے او راس کا خطرہ بڑھتا گیاجبکہ اسے کاشت کرنے والا شخص بوڑھا ہوتا گیا اور اس کی طاقت کمزور پڑتی رہی:

خاربن در قوت و برخاستن

خار کن در سستی و در کاستن

مولانا روم ہم سے کہنا چاہتے ہیں  کہ تمہارے وجود میں بُری عادات اورناپسندیدہ اخلاق اُس خاردار جھاڑی کی مانندنشو ونما پاتے رہتے ہیں ، اُن کی جڑیں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں ، اُن کا تنا موٹے سے موٹا، اُن کے کانٹے تیز تراور زیادہ سے زیادہ خطرناک ہوتے چلے جاتے ہیں لیکن تم خوددن بدن بوڑھے ہوتے جاتے ہو، تمہاری قوت، تمہاری وہ مقدس قوتیں کمزور پڑتی چلی جاتی ہیں

جوانی کے دنوں میں تم ایک ایسے طاقتور انسان کی مانندہوتے ہوجوایک پودے کو اکھاڑنا چاہتا ہے، تو اسے فوراً اکھاڑ سکتا ہے، اس کی جڑوں کو بھی کاٹ کر دور پھینک سکتا ہے، لیکن بوڑھا ہونے کے بعد تم ایک ایسے کمزور انسان کی مانند ہوگے جو اپنے ہاتھوں سے ایک مضبوط درخت اکھاڑنا چا ہے، تو خواہ وہ کتنا ہی زور لگا لے درخت جڑ سے نہیں  اکھاڑسکے گا

۲۹

خدا کی قسم! ایک ایک دن، ایک ایک گھنٹہ اہمیت کا حامل ہےاگر ہم ایک رات کی بھی تاخیر کریں تو غلطی پر ہیں !یہ نہ کہئے کہ کل رات شب ِ تئیس رمضان ہے، لیلۃ القدر میں سے ایک رات ہے اور توبہ کے لئے بہترین شب ہےنہیں ، یہی آج کی رات کل کی رات سے بہتر ہےیہی لمحہ اگلے لمحے سے بہتر لمحہ ہےتوبہ کے بغیر عبادت قبول نہیں  ہےپہلے لازم ہے کہ توبہ کریں

کہتے ہیں : ”صفائی ستھرائی کرو، پھر خرابے میں گھومو“پہلے صفائی کرو، اس کے بعد اس پاک وپاکیزہ جگہ میں داخل ہوہم توبہ نہیں  کرتے اور روزہ رکھتے ہیں ! توبہ نہیں  کرتے اور نماز پڑھتے ہیں ! توبہ نہیں  کرتے اور حج کو جاتے ہیں ! توبہ نہیں  کرتے اور قرآن پڑھتے ہیں ! توبہ نہیں  کرتے اور ذکر کرتے ہیں ! توبہ نہیں  کرتے اور ذکر کی مجلسوں میں شرکت کرتے ہیں !

خدا کی قسم! اگر آپ ایک توبہ کرکے پاک ہوجائیں اور پھراس توبہ اورپاکیزگی کی حالت میں ایک دن اور ایک رات نماز پڑھیں، تو یہی ایک دن اور ایک رات آپ کو دس سال کے برابر آگے لے جائے گی اور مقامِ قربِ الٰہی پرپہنچادے گیہم قبولیت ِدعا کادروازہ گم کر چکے ہیں ، اس کے راستے سے واقف نہیں  ہیں

۳۰

استغفار کی حقیقت

ایک شخص امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور استغفار کیاوہ شخص بھی ہماری طرح یہ سمجھتا تھا کہاَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه بول دینے سے توبہ ہوجاتی ہےاور اگر اس(اَسْتَغْفِرُاللّٰهَ) کے ”غ“ کو زیادہ گاڑھا کر کے بولیں، تو ہماری توبہ بہت اچھی ہوجائے گیحضرت علی ؑ سمجھ گئے تھے کہ یہ بدبخت کس قدرگمراہ ہےبہت کم ایسا ہوا ہے کہ آپ ؑ نے اتنی شدت اختیار کی ہو اور اتنے سخت لہجے میں بات کی ہولیکن یہاں پر سخت لہجے میں بات کی اور فرمایا:

ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ، أَ تَدْرِیْ مَا الْاِسْتِغْفَارُ؟ اَلْاِسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّیِّیْنَ

”خدا تجھے موت دے! تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے! کیا تجھے معلوم ہے استغفار کیا ہے؟ استغفار بلند مرتبہ انسانوں کا درجہ ہے۔“   (نہج البلاغہ کلماتِ قصار۴۱۷)

استغفار، توبہ کی حالت اور ایک مقدس کیفیت ہے، ایک مقدس اور پاک فضا ہےآپ توبہ کی حالت پیدا کیجئے، سچی توبہ کیجئے، اس کے بعد آپ خود کو ایک مقدس فضا میں محسو س کریں گےآپ کو احساس ہوگا کہ لطف و عنایت ِ الٰہی آپ کی روح پر سایہ فگن ہےمحسوس کریں گے کہ فرشتوں کے ایک گروہ نے آپ کو گھیراہوا ہےآپ پاک ہو جائیں گےکیونکہ توبہ کی حالت میں انسان خودپسندی سے دور ہو جاتا ہےاپنے آپ کو ملامت کرتا ہے اور اپنے گناہوں کو نظر میں رکھتا ہے

۳۱

اسلام میں کہتے ہیں  کہ اگر توبہ کرنا چاہتے ہو، تو کسی پادری کے پاس جانے کی، کسی مولوی کے پاس جاکر اسے اپنے گناہ بتانے کی ضرورت نہیں  ہےخدا کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرو، اسے اپنے گناہ بتاؤکیوں کسی انسان کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار و اعتراف کرتے ہو؟ اپنے غفار الذنوب (گناہوں کو معاف کرنے والے) خدا کے سامنے اقرار کرو

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِهِمْ لااَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اﷲِط اِنَّ اﷲَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا

کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت ِ خدا سے مایوس نہ ہونا کہ اﷲ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ہے(سورہ زمر۳۹آیت ۵۳)

یہ خدا کی آواز ہے: اے میرے زیادتی کرنے والے بندو! اے میرے گناہ گار بندو! اے میرے معصیت کار بندو! اے میرے وہ بندو جنہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے! میری رحمت سے ناامید نہ ہوناآؤ میرے پاس آؤمیں مان لوں گا، قبول کرلوں گاتوبہ کی فضا میں داخل ہوجاؤ

اس حدیث ِقدسی میں کتنے اعلیٰ اندازسے توبہ کی توصیف کی گئی ہے: اَنِینُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ تَسْبِیْحِِ الْمُسَبِّحِیْنَ یعنی اﷲ تبارک و تعالیٰ، اس رحمت ِمطلق و کامل نے فرمایاہے کہ: گناہ گاروں کی نالہ و زاری، مجھے تسبیح کرنے والوں کی تسبیح سے زیادہ پسند ہےجاؤ اوراپنے خدا کی بارگاہ میں نالہ و فریاد کروسوچو تاکہ تمہارے گناہ تمہیں  یاد آجائیںکسی دوسرے سے نہ کہنادوسروں کے سامنے گناہ کا اقرار خود گناہ ہےلیکن اپنے دل میں (تم خود تو جانتے ہی ہو، خود ہی اپنے قاضی اور اپنے محتسب بن جاؤ) اپنے گناہوں کو نظر میں رکھو، اس کے بعد ان گناہوں کو ذات ِپروردگار کے سامنے لے جاؤ، اپنی کوتاہیاں بیان کرو، گریہ کرو، زاری کرو، مغفرت طلب کرو، پاکیزگی مانگوخدا تمہیں  بخش دے گا، تمہاری روح کو پاک و پاکیزہ کردے گا، تمہارے دل کو خالص کردے گا، اپنا لطف تمہارے شاملِ حال کردے گا

۳۲

 اور اس کے بعد ایک لذت، ایک ایسی حالت تمہارے اندر پیدا ہوجائے گی کہ عبادت کی مٹھاس محسوس کروگے، گناہ اور گناہوں کی لذت تمہاری نظروں میں گر جائے گی، پھر تم میں فلاں شہوت انگیز فلم دیکھنے کی رغبت نہیں  رہے گی، لوگوں کی ناموس کی جانب دیکھنے کی طرف مائل نہیں  ہوگے، تمہارا دل غیبت کرنے، جھوٹ بولنے، لوگوں پر تہمت لگانے کو نہ چاہے گا، تم دیکھو گے کہ تمہاری پوری توجہ پاکیزہ اور اچھے کاموں کی جانب ہے

اس کے بعد حضرت علی ؑنے استغفار کے لئے چھے شرائط کا ذکر کیا، جن میں سے دو توبہ کی رکن ہیں ، دو توبہ کی قبولیت کی شرط ہیں ، اور آخری دو کمالِ توبہ کی شرائط ہیں  انشاء اﷲ کل رات آپ کے سامنے اس حدیث کی تشریح کریں گے

آپ دیکھتے ہیں  کہ اُن پاکیزہ ترین پاک لوگوں کو اس بات سے لذت حاصل ہوتی تھی کہ اپنے خدا کے ساتھ گفتگو کریں، اپنی تقصیر و کوتاہی، اپنے گناہ (کہ ان کا گناہ ہماری نسبت ترکِ اولیٰ ہے اور ترکِ اَولیٰ سے بھی ایک درجہ بلند تر ہے) کے بارے میں بات کریںحَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ (نیک لوگوں کی نیکیاں صاحبانِ قرب کے لئے گناہ ہیں )

دعائے ابوحمزہ ثمالی کو پڑھئے، دیکھئے کہ امام علی ابن الحسین ؑ اپنے خدا کے ساتھ کس طرح گفتگو کرتے ہیں ؟ کس طرح نالہ و فریاد کرتے ہیں ؟اَنِینُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ تَسْبِیْحِ الْمُسَبِّحِیْنَ

دعائے ابوحمزہ ثمالی علی ابن الحسین ؑ کا نالہ وفریاد ہےآیئے خدا کے اس پاک وپاکیزہ بندے کے نالہ وفغاں کا کچھ حصہ دیکھتے ہیں  انہیں  اس بات سے لطف اور لذت حاصل ہوتی تھی کہ اپنے خدا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنی تمام تر حقارت، اپنے فقر، اپنی احتیاج ونیازاور اپنی کوتاہیوں کا ذکر کریں آپ کہا کرتے تھے کہ بارِ الٰہا !میری جانب سے کوتاہی ہی کوتاہی ہے اور تیری جانب سے لطف ورحمتمَوْلَایَ مَوْلَایَ اِذَا رَأیْتُ ذُنُوْبِیْ فَزَعْتُ وَ اِذَا رَأَیْتُ کَرَمَکَ طَمَعْتُ (دعائے ابو حمزہ ثمالی)

۳۳

علی ا بن الحسین ؑفرماتے ہیں : میرے خدا! میرے مولا! میرے آقا! جب میری نظر اپنے گناہوں پر پڑتی ہے تومجھ پرخوف وہراس طاری ہوجاتا ہےلیکن جوں ہی میری نگاہ تیری طرف اٹھتی ہے، تیری رحمت کو دیکھتا ہوں، تو میرے دل میں امید پیدا ہوجاتی ہےمیں ہمیشہ خوف اور امید کے درمیان رہتا ہوںجب میں اپنی طرف دیکھتا ہوں تو مجھ پر خوف طاری ہوجاتا ہے، اور جب تجھے دیکھتا ہوں تومجھ پر امید غالب آجاتی ہےجی ہاں، وہ ایسے تھے

دو جملے مصائب کے بھی آپ کی خدمت میں عرض کروں گانو محرم کو عصر کے وقت لشکرِ عمر سعد نے عبید اﷲ ا بن زیاد کے حکم سے (امام حسین ؑپر) حملہ کردیاوہ اسی رات حسین ؑ سے جنگ کرنا چاہتے تھےامام حسین ؑ نے اپنے بھائی ابو الفضل العباس ؑکی وساطت سے ان سے ایک شب کی مہلت طلب کیفرمایا: بھیا! ان سے کہو کہ آج کی رات ہمیں مہلت دے دیںمیں کل جنگ کروں گامیں تسلیم ہونے والا نہیں  ہوںمیں جنگ کروں گا لیکن مجھے آج ایک رات کی مہلت دے دیں (غروب کا وقت تھا) پھر اسلئے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ حسین ؑ وقت گزارنا چاہتے ہیں ، یہ جملہ فرمایا: بھیا! خدا خود جانتا ہے کہ میں اس کے ساتھ مناجات کو پسند کرتا ہوںمیں چاہتا ہوں کہ آج کی رات اپنی زندگی کی آخری رات کے طور پر اپنے خدا سے مناجات میں بسر کروں اوراسے اپنے لئے توبہ و استغفار کی شب قرار دوں

عاشور کی وہ شب، اگر آپ جان لیں کہ وہ کیسی رات تھی! معراج تھی، اس رات خوشی، شادابی اور مسرت حکم فرما تھیاس رات انہوں نے خود کو پاک و صاف کیا، حتیٰ اپنے بالوں کی بھی آرائش کی

۳۴

ایک خیمہ تھا جس کا نام خیمہ ٔ تنظیف (صفائی کا خیمہ) تھااس خیمے میں کوئی موجودتھا اورباہر دو آدمی اپنی باری کے انتظار میں تھےان میں سے ایک نے جو بظاہر بُرَیر تھے، دوسرے کے ساتھ مذاق کیادوسرے نے اُن سے کہا: آج کی رات مذاق کرنے کی رات نہیں  ہےانہوں نے کہا: بنیادی طور پر میں بھی شوخ طبیعت آدمی نہیں  ہوں لیکن آج کی رات مذاق کی رات ہے

جب دشمن نے آکر ان توبہ کرنے والوں اور ان استغفار کرنے والوں کو دیکھا تو آپ جانتے ہیں  انہوں نے ان کے بارے میں کیا کہا؟ امام حسینؑ کے خیمے کے قریب سے گزرنے کے بعد کہنے لگے (یہ دشمن کے الفاظ ہیں !!): لَهُمْ دَوِیٌّ کَدَوِیِّ النَّحْلِ مَا بَیْنَ رَاکِعٍ وَ سَاجِدٍ (دمع السجوم ص ۱۱۸) یوں محسوس ہوتا تھا جیسے انسان شہد کی مکھیوں کے چھتے کے قریب سے گزرا ہو

شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کیسے بلند ہوتی ہے؟

امام حسین ؑ اور ان کے اصحاب کے ذکر، دعا، نماز و استغفار کی آواز بھی اسی طرح بلند تھی

امام حسین ؑ فرماتے ہیں : میں چاہتا ہوں آج کی رات کو اپنے لئے توبہ و استغفار کی شب قرار دوں (چاہتے ہیں  اپنی شب ِ معراج قرار دیں)

کیا ہمیں توبہ کی ضرورت نہیں  ہے؟

انہیں  تو ضرورت ہو اور ہمیں نہ ہو؟

جی ہاں، حسین ابن علی ؑ نے وہ رات اِس طرح بسر کیعبادت میں بسر کیاپنے اور اپنے اہلِ بیت کے کام انجام دیئے، اور اسی رات اپنے اصحاب کے سامنے وہ عظیم خطبہ ارشادفرمایا

۳۵

آپ کے سامنے صحرائے کربلا کے ایک تائب کا ذکر کرنے کے بعد اپنے عرائض ختم کروں گا:

ایک قبول ہونے والی توبہ، ایک انتہائی سچی توبہ، کربلا میں حر ابن یزید ریاحی کی توبہ ہےحر، ایک بہادر اورمضبوط انسان ہےپہلی بار جب عبید اﷲ ابن زیاد نے حسین ابن علی ؑ سے مقابلے کے لئے ایک ہزار سواروں کو بھیجنا چاہا، تو (اُن کی سربراہی کے لئے) اُسی کا انتخاب کیاوہ اہلِ بیت پیغمبر پر ظلم و ستم کا مرتکب ہوا

ہم نے عرض کیا تھا کہ جب بڑا ظلم سرزد ہوتا ہے تو انسان کا ضمیر، اگر نیم مردہ ضمیر بھی ہو، توردِعمل ظاہر کرتا ہےاب دیکھئے کہ روح کے پست مقامات کے مقابلے میں روح کے اعلیٰ مقامات کس انداز سے اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں ؟

راوی کہتا ہے کہ میں نے لشکرِ عمر سعد میں حرا بن یزید ریاحی کو اس حال میں دیکھا کہ وہ بید کی طرح لرز رہے تھےمجھے تعجب ہوا، آگے بڑھا اور کہا: حر! میں تمہیں  بہت بہادر انسان سمجھتا تھااگر مجھ سے کوئی پوچھتا کہ کوفہ کا بہادر ترین انسان کون ہے، تو میں تمہارا نام لیے بغیر نہ رہتاتم کس طرح خوفزدہ ہو؟ تمہارے جسم پر لرزہ طاری ہےحر نے کہا: تم غلط سمجھ رہے ہومیں جنگ سے خوفزدہ نہیں  ہوں(اس نے کہا ہوگا:پھر کس چیز سے ڈر رہے ہو؟ ) میں اپنے آپ کو جنت اور جہنم کے درمیان دیکھ رہا ہوںمیرے لئے جنت یادوزخ کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہےمجھے سمجھ نہیں  آرہاکہ کیا کروں، یہ راستہ اختیار کروں یا وہ راستہ؟

لیکن آخرکار حر نے جنت کا راستہ اختیار کیااس نے آہستہ آہستہ اپنا گھوڑا ایک طرف کیااس طرح سے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ اس کا مقصد او رہدف کیا ہےجیسے ہی وہ ایک ایسے مقام پر پہنچاجہاں اب کوئی اس کا راستہ نہیں  روک سکتا تھا، اُس نے یکایک اپنے گھوڑے کو چابک رسید کی اور امام حسین ؑ کے خیموں کی طرف آگیا

۳۶

لکھا ہے کہ اس علامت کے طور پر کہ میں جنگ کی نیت سے نہیں  آیا ہوں، امان کی غرض سے آیا ہوں، حر نے اپنی ڈھال کو الٹا کرلیاتھاامام حسین ؑ کے قریب پہنچتا ہے، سلام عرض کرتا ہے، اور اس کا پہلا جملہ یہ ہوتا ہے کہ:هَلْ تَریٰ لِیْ مِنْ تَوْبَةٍ؟ (لہوف ص۴۳) کیا اس گناہ گار کی توبہ قبول ہوگی؟ امام حسین ؑ فرماتے ہیں : ہاں! قبول ہے

امام حسین ؑ کی کرم نوازی دیکھئے! یہ نہیں  فرماتے کہ یہ کیسی توبہ ہے؟ ہمیں اس مشکل میں ڈالنے کے بعد اب توبہ کرنے آئے ہو؟ لیکن حسین ؑ اس طرح نہیں  سوچتے تھےحسین ؑ ؑہر صورت میں لوگوں کی ہدایت کرنا چاہتے ہیں  اگرآپ ؑ کے تمام جوانوں کو قتل کرنے کے بعد بھی عمر سعد کا لشکر توبہ کرلیتا، تب بھی آپ ؑفرماتے کہ تم سب کی توبہ قبول کرتا ہوںاس کی دلیل یہ ہے کہ جب حادثہ کربلا کے بعد یزید ابن معاویہ نے علی ابن الحسین  (امام زین العابدین) سے کہاتھا کہ اگر میں توبہ کرلوں تو کیا میری توبہ قبول ہوگی؟ توامام ؑ نے فرمایاتھا کہ: ہاں، اگر تو واقعی سچی توبہ کرلے توقبول ہوگی لیکن اُس نے توبہ نہیں  کی

حر نے امام حسین ؑ سے کہا: آقا!مجھے میدان میں جانے کی اجازت دیجئے تاکہ میں آپ پر اپنی جان فدا کردوںامام ؑ نے فرمایا: تم ہمارے مہمان ہو، گھوڑے سے نیچے آؤ، چند لمحے یہاں ٹھہروحر نے عرض کیا: آقا! آپ کی اجازت سے میرا جانا بہتر ہوگا

حر شرمندہ تھے، انہیں  شرم آرہی تھیکیوں؟ اسلئے کہ وہ دل میں کہہ رہے تھے کہ خدایا میں ہی وہ گناہگار ہوں جس نے سب سے پہلے تیرے اولیا کے دلوں کو تڑپایا تھاتیرے نبی کی اولاد کو دہشت زدہ کیا تھا

وہ کیوں حسین ابن علی ؑ کے ساتھ بیٹھنے پر تیار نہیں  ہوئے؟

۳۷

کیونکہ انہوں نے یہ سوچا ہوگاکہ میں یہاں بیٹھوں، تو کہیں  ایسا نہ ہو کہ حسین ؑ کا کوئی بچہ یہاں آجائے، اس کی نظر مجھ پر پڑے اور میں شرم کے مارے ڈوب مروں

’وَ لَاحَوْلَ وَ لَاقُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ وَ صَلَّی اللّٰهُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلَهِ الطَّاهِرِیْنَ “

”بِاِسْمِکَ الْعَظِیْمِ الْاَعْظَمِ، اَلْاَعَزِّ الْاَجَلِّ الْاَکْرَمِ یَااَللّٰه  اَللّٰهُمَّ اقْضِ حَوَائِجَنَا، وَاکْفِ مُهِمَّاتِنَا، وَاشْفِ مَرْضَانَا، وَ ارْحَمْ مَوْتَانَا، وَ اَدِّ دُیُوْنَنَا، وَوَسِّعْ فِیْ اَرْزَاقِنَا، وَاجْعَلْ عَاقِبَةَ اُمُورِنَا خَیْراً، وَ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَ تَرْضیٰ “

”رَحِمَ اللّٰهُ مَنْ قَرَأالْفَاتِحَةَ مَعَ الصَّلَوٰاتِ “

۳۸

دوسرا خطاب

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰالَمِینَ بٰارِیِٔ الْخَلاٰئِقِ اَجْمَعیِنَ وَالصَّلوٰةُ وَالسَّلاٰمُ عَلٰی عَبْدِ اللّٰهِ وَ رَسُولِهِ وَحَبِیبِهِ وَصَفِیِّهٍ، وَحَافِظِ سِرِّه، ِ وَ مُبَلِّغِ رِسَالاتِهِ سَیِّدِنٰا وَنَبِیِّنٰا وَمَوْلاٰنٰااَبِی الْقَاسِمِ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِهِ الطَّیِّبیِنَ الطَّاهِرِینَ الْمَعْصْومِینَاَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمْ:

قَالا اَارَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاوَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (سورہ اعراف۷آیت۲۳)

گزشتہ رات ہماری گفتگو توبہ کے بارے میں تھیہم نے عرض کیا تھا کہ توبہ اہلِ سلوک اور اہلِ عبادت و بندگی کی پہلی منزل ہےاگر کوئی پروردگار کے تقرب کا خواہشمند ہو، تواس کے لئے اپنے آپ کو تیارکرنے کی غرض سے اُسے چاہئے کہ اپنے سیاہ ماضی سے منھ موڑے اور توبہ کرے

۳۹

توبہ کی مہلت کب تک ہے؟

ہم نے وعدہ کیا تھا کہ توبہ کی جووضاحت حضرت علی علیہ السلام نے کی ہے، اور جس میں توبہ کی حقیقت، اس کی شرائط اور اس کے مرحلہ کمال کی نشاندہی کی ہے، اُسے آپ کی خدمت میں بیان کریں گےاس بارے میں امام ؑ کے بیان کو عرض کرنے سے پہلے مقدمے کے طور پر ایک سوال کا جواب عرض کرتے ہیں وہ سوال یہ ہے کہ: انسان کی توبہ کس وقت قبول ہوتی ہے، کونسا موقع توبہ کا وقت ہوتا ہے؟ یعنی کس وقت تک انسان کو توبہ کی مہلت حاصل ہے؟

انسان جب تک اس دنیا میں ہے اور اس کارشتہ حیات باقی ہے اور جب تک موت بالکل اس کے سر پر نہ آجائے، اسے توبہ کی مہلت حاصل ہےجب انسان موت کے چنگل میں گرفتار ہوچکا ہو اور اسے نجات کی کوئی امید نہ ہو، صرف اس وقت اس کی توبہ قبول نہیں  ہوتیوہ آخری لمحات اور لحظات جنہیں  احادیث میں وقت ِ معائنہ کہا گیا ہے، یعنی وہ لمحہ جب انسان موت کااور اگلے جہان کا معائنہ کرتا ہے، انہیں  اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، اور عین اس وقت جبکہ ابھی وہ زندہ ہوتا ہے اسکے باوجود اگلی دنیا کو اپنے سامنے موجود پاتا ہےاس لمحے سے پہلے پہلے انسان کی توبہ قبول ہوسکتی ہےلیکن خود اس لمحے میں توبہ قبول نہیں  ہوگیاسی طرح آخرت میں بھی توبہ بے معنی ہوجاتی ہےوہاں نہ انسان کو توبہ کا حوصلہ ہوگا اورنہ اگر بالفرض توبہ کرنابھی چاہے، جو قطعی طور پر حقیقی توبہ نہیں  ہوگی، صرف ایک ظاہری عمل ہوگا، اس کی توبہ قبول نہیں  ہوگیاس معاملے میں ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ اس سوال کا جواب ہماری گزشتہ رات کی گفتگو کو مکمل کرے گا، اسلئے ہم آج رات یہ گفتگوکر رہے ہیں

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77