دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 242243
ڈاؤنلوڈ: 5159

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242243 / ڈاؤنلوڈ: 5159
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فطر بن خلیفہ حناط کوفی

عبداﷲ بن احمد نے اپنے والد امام احمد حنبل سے فطر کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا :

             “ثقة صالح  الحديث ، حديثة حديث رجل کيس الا ان ه يتشيع ۔”

             “ فطر ثقہ ہیں، صالح الحدیث ہیں۔ ان کی حدیثیں زیرک و دانا لوگوں جیسی ہیں لیکن یہ کہ وہ شیعہ تھے۔”

ابن معین کا قول ہے کہ فطر بن خلیفہ ، ثقہ اور شیعہ ہیں۔ صحٰیح بخاری و سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ253ھ میں انتقال کیا۔

م :

 ابوغسان مالک بن اسماعیل بن زیاد بن درہم کوفی

امام بخاری کے شیخ ہیں۔ ابن سعد طبقات جلد6 صفحہ 272 پر ان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں کہ

“ ابو غسان ثقہ اور صدوق اور بڑے شیدید قسم کے شیعہ تھے”

علامہ ذہبی نے بھی ان کی عدالت و جلالت قدر پر روشنی ڈالی ہے اور وضاحت کی ہے کہ انھوں نے مذہب تشیع اپنے استاد حسن صالح سے حاصل کیا۔ اور ابن معین کہا کرتے کہ کوفہ میں ابو غسان جیسا ٹھوس آدمی نہیں ۔ ابوحاتم بھی ان کے متعلق یہی رائے رکھتے تھے۔ امام بخاری نے

۱۴۱

بلاواسطہ ان سے متعدد حدیثیں روایت کی ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ 219ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن خازم

جو ابو معاویہ ضریر تمیمی کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

“ یہ بڑے ثقہ، ٹھوس اور یکے از ائمہ اعلام تھے۔ میری دانست میں کسی نے بھی ان کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں کہی جو ان کی شان کے منافی ہو۔”

امام حاکم فرماتے ہیں کہ ان کی حدیثوں سے بخاری و مسلم دونوں نے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے ۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ بڑے غالی شیعہ تھے۔ ان کی حدیثوں سے جملہ ارباب صحاح ستہ نے احتجاج کیا ہے اور  سبھی صحاح میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ112ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ195ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن عبداﷲ نیشاپوری مشہور بہ امام حاکم

یہ بزرگ حفاظ و محدثین کے امام اور سینکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں تحصیل علم کی خاطر ملک ملک کے سفر کیے اور دو ہزار شیوخ حدیث سے احادیث کا استفادہ کیا۔ ان کے زمانہ کے مرجع انام علمائے اعلام جیسے صعلو کی امام ابن فورک اور دیگر جمیع ائمہ اعلام انھیں اپنے سے مقدم و بہتر سمجھتے تھے اور آپ کے علم وفضل کا  لحاظ رکھتے تھے ۔ معزز و محترم ہونے کے معترف اور بے شک و شبہ امام سمجھتے تھے۔ ان کے بعد کے جتنے محدثین ہوئے وہ سب آپ کے

۱۴۲

خواں علم کے زلہ خوار ہیں۔ بزرگ اکابر شیعہ اور شریعت مصطفوی کے حافظوں میں سے تھے۔ جیسا کہ علامہ ذہبی کی تذکرة الحفاظ میں صراحت موجود ہے نیز میزان الاعتدال میں بھی بسلسلہ حالات امامِ موصوف تصریح ہے ۔ سنہ 321ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ405ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن عبیداﷲ بن ابی رافع مدنی

ان کا پورا خاندان شیعہ تھا۔ ان کے خاندان والوں کی تصانیف دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حضرات شیعیت میں کتنے راسخ اور ثابت قدم تھے۔ محمد بن عبیداﷲ کو ابن عدی نے کوفہ کے سربرآوردہ شیعوں میں شمار کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال علامہ ذہبی۔

ترمذی و دیگر اصحاب سنن نے ان کی حدیثیں  اپنے صحاح میں درج کی ہیں۔ طبرانی نے اپنی معجم کبیر میں بسلسلہ اسناد محمد بن عبیداﷲ سے اور انھوں نے اپنے باپ دادا کی وساطت سے حضرت پیغمبر خدا(ص) کی یہ حدیث روایت کی ہے کہ آنحضرت(ص) سے حضرت علی(ع) سے ارشاد فرمایا :

“ کہ سب سے پہلے ہم اور تم اور حسن(ع) و حسین(ع) جنت میں جائیں گے ہمارے پیچھے ہم لوگوں کی اولاد رہے گی اور ہم لوگوں کے شیعہ ہمارے دائیں اور بائیں رہیں گے۔”

ابوعبدالرحمن محمد بن فضیل بن غزوان کوفی

ابن قتیبہ نے اپنی معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ابن سعد نے اپنی طبقات جلد6 صفحہ271 پر ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

۱۴۳

“ کہ یہ ثقہ ، صدوق اور اکثر الحدیث ہیں۔ یہ شیعہ تھے۔ بعض علماء ان کی حدیثوں سے احتجاج نہیں کرتے ۔”

علامہ ذہبی نے انھیں میزان میں کئی جگھوں پر صدوق اور شیعہ لکھا ہے۔ امام احمد نے ان کے متعلق فرمایا کہ ان کی حدیثیں پاکیزہ ہیں اور یہ شیعہ ہیں۔

امام ابو داؤد نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ بڑے سخت و شدید شیعہ تھے۔ حدیث و معرفت والے ہیں اور حمزہ  سے انھوں نے علم قرآن حاصل کیا۔ ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام احمد و نسائی نے ان کی حدیثوں  میں کوئی مضائقہ نہیں دیکھا۔ ان کی حدیثوں صحیح بخاری و مسلم اور دیگر صحاح میں موجود ہیں۔

محمد بن مسلم بن طائفی

یہ امام جعفر صادق(ع) کے سربرآودہ اصحاب میں سے تھے۔ شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی نے اپنی کتاب رجال الشیعہ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ حسن بن حسین بن داؤد نے ثقہ لوگوں کے سلسلہ میں ان کا ذکر کیا ہے۔

علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں بکثرت جلیل القدر محدثین اہلسنت کے اقوال ان کے ثقہ ہونے کے متعلق نقل کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم میں موجود ہیں۔

محمد بن موسیٰ بن عبداﷲ الفطری المدنی

ابو حاتم نے ان کے شیعہ اور ترمذی نے ان کے ثقہ ہونے کی صراحت کی صراحت کی ہے( میزان الاعتدال علامہ ذہبی) ان کی حدیثیں صحیح مسلم و دیگر سنن

۱۴۴

 میں موجود ہیں۔

معاویہ بن عمار دہنی بجلی کوفی

یہ بزرگ علمائے  امامیہ کے نزدیک بھی بڑے معزز و محترم اور علمائے اہلسنت کے نزدیک بھی بڑے ثقہ، عظیم المرتبت اور جلیل القدر میں انے کے والد عمار حق پروری، حق کوشی کا بہترین نمونہ تھے۔ شیعیت کے جرم میں دشمنانِ آل محمد(ص) نے ان کے پیر قطع کردیے تھے۔ بیٹا وہی، قدم بہ قدم ہو جو باپ کے۔ معاویہ بھی اپنے باپ کی مکمل شیبہ تھے۔ امام جعفر صادق(ع)  و موسیٰ کاظم(ع) کی صحبت میں رہے اور آپ کے علوم کے حامل ہوئے۔ آپ کی حدیثیں صحیح مسلم میں موجود ہیں۔

معروف بن خربوذ کرخی

ذہبی نے میزان الاعتدال میں انھیں صدوق و شیعہ لکھا ہے۔ نیز یہ کہ بخاری و مسلم اور ابو داؤد نے ان کی حدیثٰیں اپنے صحاح میں درج کی  ہیں۔ ابن خلسکان نے وفسیات الاعیان میں امام علی رضا(ع) کے موالی میں انھیں ذکر کیا ہے صحیح مسلم میں ان کی حدثیں موجود ہیں۔ سنہ200ھ میں بغداد میں انتقال فرمایا۔ ان کی قبر زیارت گاہ عوام خواص ہے۔ سری سقطی مشہور مشہور صونی ان کے تلامذہ میں سے تھے۔

منصور بن المعتمر بن عبداﷲ بن ربیعہ کوفی

امام محمد باقر(ع) و امام جعفر صادق(ع) کے اصحاب سے تھے۔ جیسا کہ صاحبِ

۱۴۵

منتہی المقال نے وضاحت کی ہے۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ یہ وہی منصور ہیں جن کے متعلق جوزجانی کا یہ فقرہ ہے کہ

“ کوفہ کچھ ایسے افراد تھے کہ لوگ ان کے عقائد کو ناپسند سمجھتے تھے مگر ان کی بیان کردہ حدیثوں کو ان کی غیر معمولی صداقت ودیانت کی وجہ سے آنکھوں پر رکھا جیسے ابو اسحاق، منصور ، زبیدیامی اور اعمش وغیرہ۔۔۔۔”

جملہ ارباب صحاح و سنن نے ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے صحیح بخاری و مسلم سب ہی میں ان کی حدیثوں موجود ہیں۔

مہنال بن عمرو تابعی

کوفہ کے مشہور شیعوں میں سے تھے۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم و بخاری میں موجود ہیں۔

موسیٰ بن قیس حضرمی

ان کی کنیت ابو محمد تھی۔ عقیلی نے انھیں غالی رافضیوں میں شمار کیا ہے ان سے سفیان نے حضرت علی(ع) اور ابوبکر کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا کہ علی(ع) مجھ کو بہت زیادہ محبوب ہیں۔

موسیٰ نے بسلسلہ اسناد جناب ام سلمہ زوجہ پیغمبر(ص) سے روایت کی ہے کہ جناب ام سلمہ(رض) فرمایا کرتیں کہ علی(ع) حق جپر ہے جو علی(ع) کی پیروی کرے گا وہی حق پر ہوگا۔ اور جس نے علی(ع) کو چھوڑا اس نے حق کو چھوڑا۔

موسیٰ نے فضائل اہبیت(ع) میں بہت سی صحیح حدیثیں روایت کی ہیں جو عقیلی

۱۴۶

 پر شاق گزریں اور انھیں غالی رافضیوں میں قرار دیا۔

ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام ابی داؤد اور دیگر اصحابِ سنن نے ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے۔ ان کی حدیثیں سنن میں موجود ہیں۔

ن :

 ابو داؤد نفیع بن حارث نخعی کوفی

عقیلی ان کے متعلق کہتے ہیں کہ رفض میں بہت غلو سے کام لیتے تھے بخاری فرماتے ہیں کہ لوگ ان کے متعلق لب کشائی کرتے ہیں۔ ( ان کی شیعیت کی وجہ سے) ان سب کے باوجود محدثین علماء نے ان سے استفادہ کیا اور ان کی حدیثوں سے کام لیا۔ ان کی حدیثیں جامع ترمذی میں موجود ہیں۔

نوح بن قیس بن رباح الحدانی

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ صالح الحدیث ہیں۔

امام احمد و ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ شیعیت کی طرف مائل تھے۔

نسائی نے فرمایا کہ ان میں کوئی مضائقہ نہیں۔

مسلم و دیگر اصحاب سنن نے ان کی حدیثیں اپنے صحاح میں درج کی ہیں۔

۱۴۷

ھ :

 ہارون بن سعد عجلی کوفی

ذہبی ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ فی نفسہ صدوق ہیں لیکن سخت قسم کے رافضی ہیں۔ ابن معین ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ بڑے غالی شیعہ تھے۔ صحیح مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ابو علی ہاشم بن برید کوفی

ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اس اقرار کے ساتھ کہ وہ رافضی تھے امام احمد نے ان کی حدیثوں میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا ۔ ان کی حدیثیں سنن ابی داؤد ، سنن نسائی میں موجود ہیں۔ یہ ہاشم مشہور شیعہ گھرانے کے فرد تھے جیسا کہ علی بن ہاشم، کے  حالات میں ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔

ہیبرہ بن بریم حمیری

امیرالمومنین(ع) کے صحابی ہیں۔ امام احمد ان کی حدیثوں میں کوئی مضائقہ نہیں تصور فرماتے۔ شہرستانی نے ملل ونحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے ان کا شیعہ ہونا مسلمات سے ہے۔ سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ابوالمقدام ہشام بن زیاد بصری

شہرستانی نے ملل و نحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ ان کی

۱۴۸

حدیثیں صحیح ترمذی وغیرہ میں موجود ہیں۔

ابوالولید ہشام بن عمار بن نصیر بن میسرہ

انھیں  ظفری دمشقی بھی کہتے ہیں۔ امام بخاری کے شیخ ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔ ذہبی نے انھیں امام ، خطیب ، محدث، عالم، صدوق، بہت زیادہ حدیثوں کا راوی لکھا ہے بخاری نے صحیح میں بہت سی حدیثیں ان سے بلاواسطہ روایت کی ہیں۔ سنہ153ھ میں پیدا ہوئے۔ سنہ245ھ میں انتقال کیا۔

ہیشم بن بشیر بن قاسم بن دینار سلمی واسطی

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔امام احمد اور ان کے ہمعصر علما کے استاد ہیں۔ ذہبی نے انھیں حفاظ اور یکے از علمائے اعلام لکھا ہے۔ ان کی حدیثیں صحیح بخاری و مسلم اور باقی سبھی صحاح میں موجود ہیں۔

و :

  وکیع بن جراح بن ملیح بن عدی

ان کی کنیت ابوسفیان تھی۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں قرار دیا ہے۔

ابن مدینی نے بھی تہذیب میں ان کی شیعیت کی صراحت کی ہے مروان بن معاویہ ان کےشیعہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں کرتے۔ ان کی حدیثوں سے

۱۴۹

 جملہ ارباب صحاح ستہ نے احتجاج کیا ہے۔ صحیح مسلم وغیرہ سبھی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ی :

 یحیٰ بن جزار عرفی کوفی

یہ امیرالمومنین(ع) کے صحابی ہیں۔ علامہ ابن سعد نے طبقات جلد6 صفحہ206 میں انھیں شیعہ لکھا ہے۔ نیز یہ کہ یہ شیعیت میں غلو کیا کرتے تھے اور محدثین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اور انھوں نے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں۔

ذہبی نے انھیں صدوق اور ثقہ لکھا ہے ۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم و دیگر سنن میں موجود ہیں۔

یحیٰ بن سعید قطان

ان کی کنیت ابوسعید تھی اپنے زمانہ کے محدث ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ جملہ ارباب صحاح ستہ نے ان کی حدیثوں سے احتجاج کیا ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور سبھی صحاح میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

یزید بن ابی زیاد کوفی

ابن فضیل ان کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ یہ کبار علماء شیعہ سے ہیں

۱۵۰

 ذہبی نے بھی لکھا ہے کہ یہ کوفہ کے مشہور علماء میں سے ہیں۔ مگر لوگوں نے ان سے تعصب برتا جس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے بسلسلہ اسناد ابوبرزہ یا ابو بردہ سے روایت کی ہے کہ :

“ ہم لوگ پیغمبر(ص)  کے ساتھ تھے کہ پیغمبر(ص) نے گانے کی آواز سنی پتہ چلا کہ معاویہ اور عمرو بن العاص گارہے ہیں۔ اس پر پیغمبر(ص) نے بد دعا فرمائی کہ خداوندا! دونوں کو فتنہ میں اچھی طرح مبتلا کر اور آتش جہنم کی طرف بلا۔”

صحیح مسلم و سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ نوے (90) برس کی عمر میں سنہ136ھ میں انتقال کیا۔

ابو عبداﷲ جدلی

ذہبی نے انھیں شدید سخت شیعہ لکھا ہے۔ جوزجانی نے ان کے متعلق بیان کیا ہے کہ یہ مختار کے علمدار لشکر تھے۔ امام احمد انھیں ثقہ قرار دیتے ہیں۔ شہرستانی نے بھی ملل و نحل میں شیعہ لکھا ہے۔

ابن قتیبہ نے معارف میں غالی ، رافضی ذکر کیا ہے۔ ان کی حدیثیں جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد اور دیگر سنن و مسانید میں موجود ہیں۔ علامہ ابن سعد نے طبقات جلد6 صفحہ 159 پر انھیں شدید التشیع شیعہ لکھا ہے نیز کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مختار کے سپاہیوں کے افسر تھے۔ مختار نے انھیں عبداﷲ بن زبیر کی طرف آٹھ سوسپاہیوں کے ساتھ روانہ کیا تاکہ ابن زبیر سے جنگ کر کے محمد ابن حنفیہ کو ان کی قید سے نکال لیں۔ ابن زبیر نے محمد ابن حنفیہ اور بنی ہاشم کو محصور کر رکھا تھا اور لکڑیاں اکٹھی کی تھیں کہ

۱۵۱

 انھیں جلا ڈالیں کیونکہ ان لوگوں نے ابن زبیر کی بیعت سے انکار گیا تھا۔ ابو عبداﷲ جدلی نے پہیچ کر ان حضرت کو رہا کیا۔

یہ سنیکڑوں میں سے چند نام نے درج کیے ہیں۔ یہ لوگ علوم اسلام کے خزینہ دار ہیں۔ ان سے آثار نبوی(ص) محفوظ ہوئے اور ان پر صحاح وسنن ومسانید کامدار رہا ہے۔

ہم نے آپ کو خواہش کے مطابق ان کے متعلق علمائے اہلسنت کی توثیق اور ان سے احتجاج کو بھی ذکر کیا۔ اس سے آپ رائے میں ضرور تبدیلی ہوگی کہ اہل سنت رجال شیعہ سے احتجاج نہیں کرتے۔ اگر شیعوں کی حدیثیں صرف ان کے تشیع کے تشیع کے جرم میں رد کردی جائیں تو جیسا کہ ذہبی نے میزان میں ابان بن تغلب کے ذکر میں کہا ہے۔ کل آثارِ نبوی ضائع و برباد ہوجائیں۔

ان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے شیعہ ہیں جن سے اہل سنت نے احتجاج کیا ہے اور وہ ان سے بھی سند کے اعتبار سے اور کثرتِ حدیث سے زیادہ کشادہ دامن اور علم کے اعتبار سے  زیادہ وسیع النظر تھے اور زمانے کے لحاظ سے ان سے بھی مقدم تھے اور ان سے بھی زیادہ ان کے قدم تشیع میں راسخ تھے اصحاب رسول(ص) میں بڑی تعداد رجال شیعہ کی ہے جنھیں ہم نے فصول مہمہ کے آخر میں بیان کیا ہے تابعین میں ایسے حافظ و صدوق و ثقہ شیعہ ہیں جو محبت اہلبیت(ع) کی قربانی پر بھینٹ چڑھتے رہے۔ جنھیں جلا وطن کیا گیا۔ سزائیں دی گئیں۔ قتل کیا گیا۔ سولیاں دی گئیں۔ اور جو علوم و فنون کے موسس و موجد ہوئے۔ یہ صدوق و دیانت ورع و تقوی زہد و عبادت و اخلاص کے روشن سنارے تھے۔ اور ان سے دین الہی کو لامتناہی فائدے پہنچے۔ اور ان کی خدمات کی برکتوں سے اسلام کا بحر بے کنار آج بھی موجزن ہے۔

                                                             ش

۱۵۲

مکتوب نمبر9

تسلیم !

میں نے آپ ایسا تازہ دم سریع الخاطر و زود فکر نہیں دیکھا اور نہ میرے کانوں نے آپ سے زیادہ صاحب بصیرتِ شخص کا ذکر سنا۔ آپ کی نرم گفتاری، شیریں بیانی قابل داد ہے۔ آپ کےکل مکاتیب میں آپ کو شیوا بیانی دامن دل کو کھینچتی ہے۔ آپ دل و دماغ ، ہوش و حواس پر چھا جاتے ہیں۔ آپ کی مدلل و سنجیدہ تحریر نے گردنیں جھکادیں اور ضلالت کو حق کے سامنے سرنگوں کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ سنی کے لیے کوئی مانع نہیں ہے کہ اپنے شیعہ بھائی سے احتجاج کرے جبکہ شیعہ معتبر ہو۔ لاریب اس موضوع میں آپ کی رائے حق و صداقت پر مبنی ہے منکر کی رائے عناد و تنگ ولی ہے۔

۱۵۳

ہم کل آیات الہی پر ایمان لائے اور ان اکثر آیات الہی پر بھی ایمان لائے جن میں سے اکثر کو آپ نے ذکر کیا ہے جو امیرالمومنین(ع) اور ائمہ اہل بیت(ع) کے فضل و شرف پر دلالت کرتی ہیں۔ اﷲ ہی جانے کہ اہل قبلہ نے ائمہ اہل بیت(ع) سے کیوں بے اعتنائی کی؟ اور اصول وفروع میں ان کے مسلک سے دورہے اور اختلافی مسائل میں ان کے پیرو نہ ہوئے ۔ علمائے امت نے اہل بیت(ع) کا افکار و خیالات سے بحث نہ کی بلکہ بجائے ان کی تقلید کے ان سے معارضہ کرتے رہے اور ان کی مخالفت کی پروانہ کی اور سلف سے لے کر خلف تک عوام امت، غیر اہلبیت(ع) کے آستانوں پر نظر آئے۔ لہذا کلام مجید کی آیتیں اور صحیح اور مسلم الثبوت حدیثیں اگر ائمہ اہلبیت(ع) اطاعت و پیروی کے واجب و فرض ہونے کے متعلق نص صریح ہوتیں تو جمہور اہل سنت کو پیروی اہلبیت(ع) کے سوا چارہ کارہی نہ ہوتا۔ اور ائمہ اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر وہ کسی کو اپنا مقتدا پیشوا بنانا پسندی ہی نہیں کرتے لیکن وہ آیات الہی اور احادیث پیغمبر(ع) کو سمجھتے نہٰیں۔ وہ ان آیات اور ان احادیث کو جن میں اہل بیت(ع) کے شرف وکمال کو بیان کیا گیا ہے، صرف مدح و ثنا سمجھے اور یہ کہ ان سے محبت رکھنا اور ان کی عزت و تعظیم کرنا واجب ہے ان کے نزدیک ان آیات و احادیث کا ماحصل یہ ہے کہ اہل بیت(ع) سے مودت و محبت و اخلاص واجب ہے اور ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اگر آیات قرآن مجید و احادیثِ پیغمبر(ص) میں تصریح ہوتی کہ بس ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی فرض ہے تو اہلِ قبلہ علمائے اہلبیت سے انحراف نہ کرتے۔ اور نہ بجائے ان کے کسی دوسرے کی طرف رجوع کرتے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اگلے بزرگ زیادہ صحیح سمجھنے والے تھے اور کتاب الہی واحادیث پیغمبر(ص) کا مطلب آج کل کے لوگوں سے بہتر سمجھتے تھے۔

                                                             س

۱۵۴

جواب مکتوب

اس ناچیز سے آپ کے حسنِ ظن کا شکریہ۔ آپ کے لطف وعنایات کے سامنے میرا دل جھکا جاتا ہے اور آپ کی مہربانی و حق جوئی کی بیبت مجھ پر مسلط ہے لیکن میں آپ سے یہ گزارش کرنے کی اجازت  چاہتا ہوں کہ آپ اپنے مکتوب پر نظر ثانی کریں جس میں آپ لکھا ہے کہ اہل قبلہ نے اہل بیت(ع) سے عدول کیا۔ یہ لفظ زیادہ وسیع استعمال ہوگیا۔ اہل قبلہ تو شیعہ بھی ہیں انھوں نے ابتدا سے آج تک اصول و فروع کسی چیز میں اہل بیت کے مسلک سے انحراف نہیں کیا۔ شیعہ تو مسلک اہل بیت(ع) پر عمل واجب سمجھتے ہیں۔ اہل بیت(ع) سے عدول رؤسا ملت نے کیا جب کہ نص کے ہوتے ہوئے صاف صاف تصریح خلافت و امامت کے متعلق ہوتے ہوئے امیرالمومنین(ع) کو حق خلافت سے محروم کیا گیا اور اصول و فروع میں اہل بیت(ع) کو چھوڑ کر دوسرے مرکز بنائے گئے اور کتاب وسنت کی مصالح کے لحاظ  سے تاولیں کی گئیں۔ امامت ائمہ سے عدول کرنا ہی سبب ہوا کر فروع میں بھی ان سے علیحدگی اختیار کی جائے۔

قطع نظر کیجیے ان ںصوص و ادلہ سے جن سے اہل بیت(ع) سے تمسک کرنا وا جب ثابت ہوتا ہے صرف اہلبیت(ع) کے علم و عمل اور تقوی کو دیکھیے۔ امام اشعری اور ائمہ اربعہ کے مقابلہ میں ان کی کیا کمی پائی گئی کہ اطاعت و اتباع کے معاملہ میں اہل بیت(ع) پیچھے کردیے گئے۔ اور یہ افراد قابل ترجیح سمجھے گئے۔ کون سامحکمہ اںصاف ہے جو یہ فیصلہ کرے کہ اہل بیت(ع) سے تمسک کرنے والے ان کی ہدایات پر چلنے والے گمراہ ہیں۔ اہل سنت کے لیے ایسا فیصلہ ناممکن معلوم ہوتا ہے۔

                                                                     ش

۱۵۵

مکتوب نمبر10

واقعہ یہ ہے کہ پیروانِ اہلبیت(ع) کو از روئے عدل و اںصاف گمراہی کہا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ائمہ اہلبیت(ع) دیگر ائمہ سے لائق پیروی و اقتدا ہونے میں کسی طرح کم تھے۔ جس طرح اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید کر کے انسان بری الذمہ ہوسکتا ہے اسی طرح ائمہ اہلبیت(ع) کی پیروی کرکے بھی۔

بلکہ یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ ائمہ اہلبیت(ع) بہ نسبت ائمہ اربعہ وغیرہ کے اتباع و پیروی کے زیادہ سزاوار ہیں۔ اس لیے ائمہ اثنا عشر کا مسلک و مذہب اصول و فروع سب میں ایک ہے ان میں باہم کوئی اختلاف نہیں۔ سب کی نگاہ ایک ہی مرکز پر کرکوز ہوئی اور اسی پر سب کے سب متفق رہے۔ برخلاف ائمہ اربعہ وغیرہ کے کہ ان کا باہمی اختلاف دنیا جانتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ بارہ شخص غور و فکر کر کے ایک نتیجہ پر پہنچیں ایک رائے قائم کریں اور اکیلا شخص دوسری

۱۵۶

رائے قائم کرے تو بارہ(12) کے متفقہ فتوی کے مقابلہ میں سے اس ایک اور اکیلے کا فتوی کوئی وزن نہ رکھے گا۔

اس میں کسی منصف مزاج کو عذر ہونا چاہیے۔

ہاں ایک بات ہے ناصبی خیال کے آگ آپ لوگوں کے مذہب کو مذہب اہلبیت( ع) ماننے میں تامل کرتے ہیں۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ آگے چل کر اس پر روشی ڈالیں کہ مذہب تشیع مذہب اہلبیت(ع) ہی ہے انھیں حضرات سے ماخوذ ہے ۔ فی الحال میری گزارش ہے کہ آپ لوگ حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت پر جن نصوص کے مدعی ہیں وہ نصوص صاف صاف ذکر فرمائیں۔

                                                                     س

۱۵۷

باب دوم

امامت عامہ یعنی خلافتِ پیغمبر(ص) 

جوابِ مکتوب

اگر سرورِ کائنات (ص) کے حالاتِ زندگی کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے۔ دولتِ اسلامیہ کی بنیاد قائم کرنے۔ احکام مقرر کرنے ، اصول و قواعد بنانے۔ دستور مرتب کرنے، سلطنت کے انتظام اںصرام غرض جملہ حالات میں ہر پہلو سے آپ کی سیرت کا جائزہ لیا جائے تو حضرت امیرالمومنین(ع) رسالت ماب(ص) کے ہر معاملہ میں بوجھ بٹانے والے ، دشمنون کے مقابلہ میں پشت پناہ آپ کے علوم  کا گنجینہ ، آپ کے علم و حکمت کے وارث ، آپ کی زندگی میں آپ کے ولی عہد اور آپ کے بعد آپ کے جانشین، اور آپ کے تمام امور کے ممالک و مختار نظر آئیں گے۔

اول یوم بعثت سے پیغمبر(ص) کی رحلت کے وقت تک سفر میں، حضر میں

۱۵۸

اٹھتے بیٹھے ، آپ کے افعال ، آپ کے اقوال کی چھان بین کی جائے۔ تو حضرت علی(ع) کی خلافت کے متعلق بکثرت صاف و تصریح حد تواتر تک پہنچے ہوئے واضح نصوص ملیں گے۔ آںحضرت(ص) نے ہر محل پر اپنی رفتار و گفتار ، کردار اور ہر ممکن ذریعہ سے اپنی جانشینی کے مسئلہ کی وضاحت کردی تاکہ کسی کے لیے تامل کی گنجائش نہ رہ جائے ۔

دعوت عشیرہ کے موقع پر پیغمبر(ص) کا خلافت امیرالمومنین(ع) پر ںص فرمایا

پہلا واقعہ دعوت ذوالعشیرہ ہی کا لے لیجیے جو اسلام کے ظاہر ہونے کے قبل مکہ میں پیش آیا جب آیہ

“      وَ أَنْذِرْ عَشيرَتَكَ الْأَقْرَبينَ ” ( شعراء، 214)

نازل ہوا اور رسول(ص) مامور ہوئے کہ خاص خاص رشتہ داروں کو بلا کر دعوتِ اسلام دیں۔ تو حضرت سرورکائنات نے تمام بنی ہاشم کو جو کم بیش چالیس نفر تھے جس میں آپ کے چچا ابو طالب ، حمزہ ، عباس اور ابولہب بھی تھے اپنے چچا ابو طالب کے گھر میں دعوت دی۔ دعوت کے بعد آپ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ تمام کتبِ احادیث  و سیر و تواریخ میں موجود ہے۔ اسی خطبہ میں آپ نے فرمایا :

 “ فَقَالَ: يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي وَ اللَّهِ مَا أَعْلَمُ شَابّاً فِي الْعَرَبِ جَاءَ قَوْمَهُ بِأَفْضَلَ مِمَّا جِئْتُكُمْ بِهِ، إِنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِخَيْرِ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ، وَ قَدْ أَمَرَنِي اللَّهُ (عَزَّ وَ جَلَّ) أَنْ أَدْعُوَكُمْ إِلَيْهِ، فَأَيُّكُمْ يُؤْمِنُ بِي وَ يُؤَازِرُنِي عَلَى أَمْرِي، فَيَكُونَ أَخِي وَ وَصِيِّي وَ وَزِيرِي وَ خَلِيفَتِي فِي أَهْلِي مِنْ بَعْدِي قَالَ: فَأَمْسَكَ الْقَوْمُ، وَ أَحْجَمُوا عَنْهَا جَمِيعاً.

۱۵۹

 قَالَ: فَقُمْتُ وَ إِنِّي لَأَحْدَثُهُمْ سِنّاً، وَ أَرْمَصُهُمْ عَيْناً، وَ أَعَْمُهُمْ بَطْناً، وَ أَحْمَشُهُمْ سَاقَا. فَقُلْتُ: أَنَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَكُونُ وَزِيرَكَ عَلَى مَا بَعَثَكَ اللَّهُ بِهِ. قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِي ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هَذَا أَخِي وَ وَصِيِّي وَ وَزِيرِي وَ خَلِيفَتِي فِيكُمْ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَ أَطِيعُوا.قَالَ: فَقَامَ الْقَوْمُ يَضْحَكُونَ، وَ يَقُولُونَ لِأَبِي طَالِبٍ: قَدْ أَمَرَكَ أَنْ تَسْمَعَ لِابْنِكَ وَ تُطِيعَ.”

“ فرزندانِ عبدالمطلب ! جتنی بہتر شے( یعنی اسلام ) میں تمھارے پاس لے کر آیا ہوں میں تو نہیں جانتا کہ عرب کا کوئی نوجوان اس سے بہتر چیز اپنی قوم کے پاس لایا ہو۔ میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی لے کر آیا ہوں اور خداوند عالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف دعوت دوں۔ اب بتاؤ تم میں کون ایسا ہے جو اس کام میں میرا بوجھ بٹائے تاکہ تمھارے درمیان میرا بھائی وصی اور خلیفہ ہو؟ تو علی(ع) کے سوا سب خاموش رہے۔ حضرت علی(ع) جو اس وقت بہت ہی کم سن ننھے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا : یا رسول اﷲ(ص) ! میں آپ کا بوجھ بٹاؤں گا۔ رسول اﷲ(ص) نے آپ کی گردن پر ہاتھ رکھا اور پورے مجمع کو دکھا کر ارشاد فرمایا: کہ یہ میرا بھائی بنے میرا وصی ہے اور تم میں میرا جانشین ہے۔ اس کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔ یہ سن کر لوگ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوطالب سے کہنے لگے کہ یہ محمد(ص) آپ کو حکم دے

۱۶۰