دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 244000
ڈاؤنلوڈ: 5255

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 244000 / ڈاؤنلوڈ: 5255
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

رہے ہیں کہ آپ اپنے بیٹے کی بات سنین اور ان کی اطاعت کریں۔”

پیغمبر(ص) کی اس نص کا تذکرہ کن کن کتابوں میں موجود ہے

پیغمبر(ص) کے اس خطبہ کو بعینہ انہی الفاظ میں اکثر علمائے کبار و اجلہ محدثین نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ جیسے ان اسحاق ، ابن جریر، ابنِ ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابونعیم  اور امام بیہقی نے اپنے سنن اور دلائل دونوں مٰیں ثعلبی اور طبری نے اپنی اپنی عظیم الشان تفسیروں میں سورہ شعراء کی تفسیر کے ذیل میں نیز علامہ طبری نے اپنی تاریخ طبری کی دوسری جلد صفحہ217 میں بھی مختلف طریقوں سے اس کو لکھا ہے اور علامہ ابن اثیر جزری نے تاریخ کامل کی دوسری جلد صفحہ22 میں بطور مسلمات ذکر کیا ہے۔

مورخ ابو الفداء نے اپنی تاریخ کی پہلی جلد صفحہ116 میں سب سے پہلے اسلام لانے والے کے ذکر میں درج کیا ہے۔ امام ابوجعفر اسکافی معتزلی نے اپنی کتاب نقض عثمانیہ میں اس حدیث کی صحت کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے( شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ263) علامہ حلبی نے آںحضرت(ص) اور اصحاب کے دار ارقم میں روپوش ہونے کے واقعہ کے ضمن میں بیان کیا ہے(1)   (سیرت حلبیہ ج، صفحہ381) ان کے علاوہ تھوڑے بہت لفظی تغیر کےساتھ مگر مفہوم و معنی

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ 381 جلد اول سیرة حلبیہ۔ ابن تیمیہ نے اس حدیث کو جھٹلانے اور غلط ثابت کرنے کی جو کوششیں کی ہیں۔ اپنی مشہور عصبیت کی وجہ سے وہ در خور اعتنا نہیں اس حدیث کو مصر کے سوشلسٹ ادیب محمد حسین ہیکل نے بھی لکھا ہے ملاحظہ فرمائیے ان کے رسالہ سیاست شمارہ نمبر2751 صفحہ 5 جپر عمود ثانی جو 12 ذیقعد سنہ1350ھ میں شائع ہوا۔ انھوں نے کافی تفصیل سے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور شمارہ نمبر2685 صفحہ 6 پر عمود رابع میں انھوں نے اس حدیث کو صحیح مسلم، مسند امام احمد اور عبداﷲ بن احمد کی زیارات مسند اور ابن حجر ہیثمی کی جمع الفوائد، ابن قتیبہ کی عیون الاخبار، احمد بن عبدربہ قرطبی کی عقد الفرید، علامہ جاحظ کے رسالہ بنی ہاشم، امام ثعلبی کی تفسیر ، مذکورہ بالا تمام کتب سے نقل کیا ہے۔ مزید برآں جرجس انکلیزی سے اپنی کتاب مقالہ فی الاسلام مٰیں بھی اس حدیث کو درج کیا ہے جس کا بروتستانت کے ملحد نےعربی میں ترجمہ کیا ہے جس نے اپنا نام ہاشم عربی رکھا ہے۔ اس حدیث کی ہمہ گیر شہرت کی وجہ سے متعدد مورخین فرنگ نے فرانسیسی ، جرمنی، انگریزی تاریخوں میں اس کو ذکر کیا ہے اور ٹامنس کارلائل نے اپنی کتاب ابطال میں مختصر کر کے لکھا ہے۔

۱۶۱

کے لحاظ سے بالکل ایک ہی مضمون ۔ بہتیرے اعیان اہل سنت اور ائمہ احادیث نے اپنی اپنی کتابوں میں اس واقعہ کو تحریر کیا ہے جیسے علامہ طحاوی اور ضیاء مقدسی نے مختارہ ،سعید بن منصور نے سنن میں تحریر کیا ہے۔

سب سے قطع نظر امام احمد نے اپنی مسند جلد اول صفحہ 159 پر حضرت علی (ع) سے روایت کی ہے ۔ پھر اسی جلد کے صفحہ331 پر ابن عباس سے بڑی عظیم الشان حدیث اس مضمون کی روایت کی ہے، جس میں حضرت علی(ع) کی دس ایسی خصوصیتیں مذکور ہیں جن کی وجہ سے حضرت علی(ع) اپنے تمام ماسوا سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ اسی جلیل الشان حدیث کو امام نسائی نے بھی اپنی کتاب خصائص صفحہ 60پر ابن عباس سے روایت کر کے لکھا ہے اور امام حاکم نے صحیح مستدرک

۱۶۲

 جلد3 صفحہ 132 پر اور علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔

کنزالعمال جلد6 ملاحظہ فرمائیے(1) ۔ اس میں بھی یہ واقعہ بہت تفصیل سے موجود ہے۔ منتخب کنزالعمال کو دیکھیے جو مسند احمد بن حنبل کے حاشیہ پر طبع ہوا ہے۔ حاشیہ مسند جلد5 صفحہ 41 تا صفحہ42 پر اس واقعہ کا ذکر موجود ہے اور پوری تفصیل کے ساتھ۔

میرے خیال میں یہی ایک واقعہ جسے تمام علماء محدثین ومورخین بالاتفاق اپنی کتابوں میں لکھتے آئے ہیں حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت کا بین ثبوت اور صریحی دلیل ہے۔ کسی دوسری دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔

                                                                     ش

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال صفحہ 392 حدیث نمبر6008 جو ابن جریر سے منقول ہے صفحہ 396 پر حدیث 6045 جو امام احمد کی مسند نیز ضیاء مقدسی کی مختارہ ، طحاوی و ابن جریر کی صحیح سے منقول ہے صفحہ 397 پر حدیث 6056 جو ابن اسحق ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، اور ابو نعیم نیز بیہقی کی شعب الایمان اور دلائل سے منقول ہے صفحہ 401 پر حدیث 6102 جو ابن مردویہ سے منقول ہے صفحہ 408 پر حدیث 6155 جو امام احمد کی مسند اور ابن جریر اور صیاء مقدسی کی مختارہ سے منقول ہے۔ کنزالعمال میں یہ حدیث اور بھی مقامات پر مذکور ہے۔ شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 255 پر یہ طولانی حدیث بہت تفصیل سے مذکور ہے۔

۱۶۳

مکتوب نمبر11

حدیث مذکورہ بالا کی سند میں تردد

تسلیم زاکیات!

آپ کا مخالف اس حدیث کی سند کو معتبر نہیں سمجھتا نہ کسی طرح اس حدیث کو صحیح سمجھنے پر تیار ہے کیونکہ شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اس حدیث کو نہیں لکھا۔ نیز شیخین کے علاوہ دیگر اصحاب صحاح نے بھی نہیں لکھا ۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ یہ حدیث معتبر و معتمد راویاں اہلسنت سے مروی ہی نہیں ہوئی اور غالبا آپ بھی بطریق اہل سنت اسے صحیح نہ سمجھتے ہوں گے۔

                                                             س

۱۶۴

جواب مکتوب

نص کا ثبوت

اگر میرے نزدیک اس حدیث کی صحت خود بطریق اہلسنت ثابت نہ ہوتی تو میں اس محل پر اس کا ذکر ہی نہیں  کرتا۔ مزید برآں اس حدیث کی صحت تو ایسی اظہر من الشمس ہے کہ ابن جریر اور امام ابو جعفر اسکافی نے اس حدیث کو بطور مسلمات ذکر کیا ہے(1) ۔ اور کبار محققین اہل سنت نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث کی صحت کا مختصرا آپ اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ اصحاب صحاح جن ثقہ اور معتبر راویوں کی روایتوں سے استدلال کرتے ہیں اور آنکھ بند کرکے بڑی خوشی سے جن کی روایتوں کو لے لیتے ہیں انھیں معتبر و ثقہ راویوں کے طریقوں سے اس حدیث کی صحت ثابت ہے۔ اس حدیث کی روایت انھیں معتبر و موثق اشخاص نے کی ہے جن کی روایت کردہ حدیثیں صحاح میں موجود ہیں۔

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال جلد6 صفحہ 396 پر حدیث 6045 جہاں آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن جریر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ حاشیہ مسند احمد حنبل جلد5 صفحہ73 پر منتخب کنزالعمال میں بھی آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن جریر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام ابو جعفر اسکافی نے تو اس حدیث کو بڑی پختگی کے ساتھ صحیح قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ان کی کتاب نقض عثمانیہ شرح نہج البلاغہ جلد3، صفحہ363

۱۶۵

مسند احمد بن حنبل جلد اول صفحہ 111 ملاحظہ کیجیے۔ انھوں نے اس حدیث کو(1) اسود بن عامر سے انھوں نے شریک(2) سے انھوں نے اعمش(3) سے انھوں نے منہال(4) سے انھوں نے عباد(5) بن عبداﷲ اسدی سے انھوں نے حضرت علی(ع) سے مرفوعا روایت کرکے لکھا ہے۔ اس سلسلہ اسناد کے کل کے کل راوی مخالف

--------------

1 ـ امام بخاری و مسلم دونوں نے اس کی حدیث سے احتجاج کیا ہے ۔ شعبہ نے امام بخاری و امام مسلم دونوں کی صحت میں اسود سے روایت کر کے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا اور عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے امام بخاری کو ان سے روایت کرتے ہوئے اور زہیر بن معاویہ اور حماد بن سلمہ نے امام مسلم کو ان سے روایت کرتے ہوئے سنا۔ صحیح بخاری میں محمد بن حاتم بزیع کی ان سے روایت کی ہوئی حدیث موجود ہے اور صحیح مسلم میں ہارون بن عبداﷲ اور ناقد اور ابن ابی شیبہ اور ابو زہیر کی ان سے روایت کردہ حدیثیں موجود ہیں۔

2 ـ امام مسلم نے ان حدیثوں سے اپنے صحیح مسلم میں احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم نے صفحہ134 رپ ان کا تذکرہ کے ضمن میں وضاحت کی ہے۔

3 ـ ان سے امام بخاری و مسلم دونوں نے اپنے اپنے صحیح میں احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم نے صفحہ134 پر وضاحت کی ہے۔

4ـ امام بخاری نے ان سے احتجاج کیا ہے ملاحظہ ہو صفحہ166۔

5 ـ ان کا سلسلہ نسب یہ ہے عباد بن عبداﷲ بن زہیر بن عوام قرشی اسدی۔ ان سے بخاری و مسلم دونوں نے اپنے اپنے صحیح میں احتجاج کیا ہے۔ انھوں نے ابوبکر کی دونوں صاحبزادیوں عائشہ اور اسماء سے حدیثیں سنیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان سے ابی ملیکہ اور محمد بن جعفر بن زہیر اور ہشام و عروہ کی روایت کردہ حدیثیں موجود ہیں۔

۱۶۶

کے نزدیک حجہ ہیں اور یہ تمام کے تمام رجال صحابہ ہیں۔ چنانچہ علامہ قیسرانی نے اپنی کتاب الجمع بین رجال الصحیحین  میں ان کا ذکر کیا ہے۔ لہذا اس حدیث کو صحیح ماننے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ حدیث صرف اسی طریقہ وسلسلہ اسناد سے نہیں بلکہ اور بھی ب شمار طریقوں سے مروی ہے اور ہر طریقہ دوسرے طریقہ کا موید ہے۔

نص سے کیوں اعراض کیا؟

اور شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اس لیے اس روایت کو اپنی کتاب میں  جگہ نہیں دی کہ یہ روایت مسئلہ خلافت میں ان کی ہمنوائی نہیں کرتی تھی ان ک منشاء کے خلاف تھی اسی وجہ سے انھوں نے اس حدیث نیز دیگر بہتیری ایسی حدیثوں سے جو امیر المومنین(ع) کی خلافت پر صریحی ںص تھیں گریز کیا اور اپنی کتاب میں درج نہ کیا۔ وہ ڈرتے تھے کہ یہ شیعوں کے لیے اسلحہ کا کام دیں گی لہذا انھوں نے جان بوجھ کر اس کو پوشیدہ رکھا۔

بخاری و مسلم ہی نہیں بلکہ بہتیرے شیوخ اہل سنت کا وتیرہ یہی تھا۔ اس قسم کی ہر چیز کو وہ چھپانا ہی بہتر سمجھتے تھے۔ ان کا یہ کتمان کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ ان کی یہ پرانی اور مشہور عادت ہے چنانچہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں علماء سے نقل بھی کیا ہے، امام بخاری نے بھی اس مطلب میں ایک خاص باب قرار دیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری(1) حصہ اول کے کتاب العلم میں انھوں نے یہ عنوان قائم کیا ہے :

             “باب من خص بالعلم قوما دون قوم ۔”

--------------

1 ـ صفحہ51۔

۱۶۷

             “ باب بیان میں اس کےجو ایک قوم کو مخصوص کر کے علم تعلیم کرے اور دوسرے کو نہیں۔”

امیرالمومنین(ع) کےمتعلق امام بخاری کو روش اور آپ کے ساتھ نیز جملہ اہل بیت(ع) کے ساتھ ان کے سلوک سے جو واقف ہے اور یہ جانتا ہے کہ ان کا قلم امیرالمومنین (ع) واہل بیت(ع) کی شان میں ارشادات و نصوص پیغمبر(ص) کے بیان سے گریزاں رہتا ہے اور ان کے خصائص و فضائل بیان کرتے وقت ان کے دوات کی روشنائی خشک ہوجاتی ہے۔ اس لیے امام بخاری کی اس حدیث یا اس جیسی دیگر حدیثوں کے ذکر نہ کرنے پر تعجب نہ ہونا چاہیے۔

                                                                     ش

۱۶۸

مکتوب نمبر12

حدیث کی صحت کا اقرار

چونکہ دعوت عشیرہ والی حدیث حدِ تواتر کو نہیں پہنچتی اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مخصوص قسم کی خلافت ثابت ہوتی ہے۔

آپ کے ارشاد کے بموجب میں نے مسند احمد بن حنبل جلد اول کے صفحہ 111 پر اس حدیث کو دیکھا جن رجال سے یہ حدیث مروی ہے ان کی چھان بین کی۔ آپ کے کہنے کےمطابق وہ سب کے سب ثقات اہل سنت نکلے ۔ پھر میں نے اس حدیث کے دوسرے تمام طریق کو بغائر نظر مطالعہ کیا۔ بے شمار و بے اندازہ طریقے نظر آئے۔ ہر طریقہ دوسرے طریقہ کا موئد ہے۔ مجھے ماننا پڑا کہ یقینا یہ

۱۶۹

 حدیث پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس کے ثابت و مسلم ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

البتہ ایک بات ہے آپ لوگ اثبات امامت میں اس حدیث صحیح سے استدلال کرتے ہیں جو متواتر بھی ہو کیونکہ امامت آپ کے نزدیک اصول دین سے ہے اور یہ حدیث جو آپ نے پیش فرمائی ہے اس کے متعلق یہ کہنا غیر ممکن ہے کہ یہ تواتر تک پہنچی ہوئی اور جب حد تواتر تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ تو اس سے آپ لوگ استدلال بھی نہیں کرسکتے ۔

یہ حدیث منسوخ ہوگئی تھی

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث صرف یہ بتاتی ہے کہ حضرت علی(ع) رسول(ص) کے جانشین تو تھے مگر خاص کر اہلبیت (ع) پیغمبر(ص) میں جانشین تھے۔ لہذا تمام مسلمانوں کا خلیفہ ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے ؟ اس حدیث سے خلافت عامہ کہاں ثابت ہوتی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہوگئی تھی اس لیے کہ آںحضرت(ص) نے اس حدیث کے مفاد کی طرف کبھی توجہ نہ کی اسی وجہ سے صحابہ کو خلفاء ثلاثہ کی بیعت میں کوئی مانع نہ نظر آیا۔

                                                             س

جواب مکتوب

اس حدیث سے استدلال کرنے کی وجہ

حضرات اہلسنت امامت کے اثبات میں ہر حدیث صحیح سے استدلال

۱۷۰

 کرتے ہیں خواہ کرتے ہیں خواہ وہ متواتر ہو یا غیر متواتر ۔ لہذا خود حضرات اہلسنت جس چیز کو حجہ سمجھتے ہیں ہم اسی چیز کو ان پر بطور حجت پیش کرتے ہیں۔ جس چیز کو وہ خود مانتے ہیں ہم اسی سے انھیں قائل کرتے ہیں۔

رہ گیا یہ کہ ہم جو اس حدیث سے امامت پر استدلال کرتے ہیں تو اسکی وجہ ظاہر ہے کیونکہ یہ حدیث ہم لوگوں کے طریق سے صرف صحیح ہی نہیں بلکہ حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہے۔

مخصوص خلافت کو کوئی بھی قائل نہیں

یہ دعوی کرنا کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی(ع) خاص کر اہلبیت(ع) میں جانشین پیغمبر(ص) تھے مہمل ہے کیونکہ جو شخص اہل بیت(ع) رسول(ص) میں حضرت علی(ع) کو جانشین رسول(ص) سمجھتا ہے وہ عامہ مسلمین میں بھی جانشین سمجھتا ہے اور جو عامہ مسلمین میں جانشین رسول(ص) نہیں مانتا وہ اہل بیت(ع) میں بھی نہیں مانتا۔ آج تک بس یہ دو ہی قسم کے لوگ نظر آئے۔ آپ نے یہ فرق کہاں سے پیدا کیا جس کا آج تک کوئی قائل نہیں ۔ یہ تو عجیب قسم کا فیصلہ ہے جو اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔

حدیث کا منسوخ ہونا ناممکن ہے

یہ کہنا کہ یہ حدیث منسوخ ہوچکی تھی یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس کا منسوخ ہونا عقلا و شرعا دونوں جہتوں سے محال ہے کیونکہ وقت آنے کے پہلے ہی کسی حکم کا منسوخ ہونا۔ بداہتا باطل ہے۔ اس کے علاوہ اس حدیث کو منسوخ کرنے والی آپ کے خیال کی بنا پر زیادہ سے زیادہ ایک چیز نکلتی ہے اور

۱۷۱

 وہ یہ کہ رسول اﷲ(ص) نے مفادِ حدیث کی طرف پھر توجہ نہ کی، پھر اعادہ نہ کیا۔ مگر یہ بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ رسول(ص) نے مفاد حدیث سے کبھی بے توجہی نہیں کی۔ بلکہ اس حدیث کے ارشاد فرمانے کے بعد بھی وضاحت کرتے رہے۔ کھلے لفظوں میں، بھرے مجمع میں، سفر میں، حضر میں، ہر موقع ہر محل ہر صراحتہ اعلان فرماتے رہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آپ صرف دعوت عشیرہ ہی کے موقع پر حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین فرما کے رہ گئے پھر کبھی اس کی وضاحت نہیں کی تب بھی یہ کیسے معلوم کہ رسول(ص) نے بعد میں مفاد حدیث ؟؟؟؟؟ کیا آگے چل کر آپ کا خیال بدل گیا اپنے قول سے پلٹ گیا۔

“ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَ ما تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَ لَقَدْ جاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدى‏”(نجم، 23)

             “ وہ صرف گمان اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پروردگار کا جانب سے ہدایت آچکی ہے۔”

                                                                     ش

۱۷۲

مکتوب نمبر13

میں نے ان ںصوص کے آستانے پر اپنی پیشانی جھکا دی۔ کچھ اور مزید ثبوت۔ خدا آپ کا بھلا کرے۔

                                                                     س

جوابِ مکتوب

حضرت علی(ع) کی دس(10) ایسی فضیلتیں جس میں کی کوئی ایک بھی کسی دوسرے کو حاصل نہیں اور جس سے آپ(ع) کی خلافت کی صراحت ہورہی ہے۔

دعوت ذوالعشیرہ والی حدیث کے علاوہ یہ دوسری حدیث ملاحظہ ملاحظہ کیجیے جسے امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند کی پہلی جلد صفحہ 330 پر ، امام نسائی نے

۱۷۳

 اپنی کتاب خصائص علویہ کے صفحہ 6 پر ، امام حاکم نے اپنے صحیح مستدرک کی تیسری جلد کے صفحہ 123 پر ، علامہ ذہبی نے اپنی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے نیز دیگر ارباب حدیث نے ایسے طریقوں سے جن کی صحت پر اہل سنت کا اجماع و اتفاق ہے نقل کیا ہے۔

عمروہ بن میمون سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ان کے پاس 9 سرداران قابل آئے۔ انھوں نے ابن عباس سے کہا کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ اٹھ چلیے یا اپنے پاس کے بیٹھے ہوئے لوگوں کو ہٹا کر ہم سے تخلیہ میں گفتگو کیجیے۔

ابن عباس نے کہا ۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ خود ہی چلا چلتا ہوں۔ ابن عباس کی بینائی چشم اس وقت باقی تھی۔ ابن عباس نے ان سے کہا:

                     “ کہیے کیا کہنا ہے؟”

گفتگو ہونے لگی ۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کیا گفتگو ہوئی۔ ابن عباس وہاں سے دامن جھٹکتے ہوئے آئے ۔ کہنے لگے:

             “ وائے ہو۔ یہ لوگ ایسےشخص کے متعلق بدکلامی کرتے ہیں جس کی دس سے زیادہ ایسی فضیلتیں ہیں جو کسی دوسرے  کو نصیب نہیں۔ یہ لوگ بدکلامی کرتے ہیں ایسے شخص کے متعلق جس کے بارے میں رسول(ص) نے فرمایا :

لأبعثنّ رجلا لا يخزيه اللّه أبدا، يحبّ اللّه و رسوله، و يحبّه اللّه و رسوله»، فاستشرف لها من استشرف فقال: «أين عليّ؟»، فجاء و هو أرمد لا يكاد أن يبصر، فنفث في عينيه،

۱۷۴

ثمّ هزّ الراية ثلاثة، فأعطاها إيّاه، فجاء عليّ بصفيّة بنت حيي. قال ابن عباس: ثمّ بعث رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم) فلانا بسورة التوبة، فبعث عليّا خلفه، فأخذها منه، و قال: «لا يذهب بها إلّا رجل منّي و أنا منه»، قال ابن عباس: و قال النبيّ لبني عمّه: «أيّكم يواليني في الدنيا و الآخرة»، قال:- و عليّ جالس معه- فأبوا، فقال عليّ: أنا أوالئك في الدنيا و الآخرة، فقال لعليّ: «أنت وليّي في الدنيا و الآخرة». قال ابن عباس: و كان عليّ أوّل من آمن من الناس بعد خديجة. قال: و أخذ رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم) ثوبه فوضعه على عليّ و فاطمة و حسن و حسين، و قال:إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً . قال: و شرى عليّ نفسه فلبس ثوب النبيّ، ثمّ نام مكانه، و كان المشركون يرمونه [إلى أن قال:] و خرج رسول اللّه في غزوة تبوك، و خرج الناس معه،

۱۷۵

فقال له عليّ: أخرج معك؟ فقال (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «لا»، فبكى عليّ، فقال له رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «أما ترضى أن تكون منّي بمنزلة هارون من موسى إلّا أنّه لا نبي بعدي، إنّه لا ينبغي أن أذهب إلّا و أنت خليفتي». و قال له رسول اللّه: «أنت وليّ كلّ مؤمن بعدي و مؤمنة». قال ابن عباس: و سدّ رسول اللّه أبواب المسجد غير باب عليّ، فكان‌يدخل المسجد جنبا و هو طريقه ليس له طريق غيره، و قال رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «من كنت مولاه فإنّ مولاه عليّ.» الحديث.

“ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جسے خدا کبھی ناکام نہ کرے گا۔ وہ شخص خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہیں۔کس کس کے دل میں اس فضیلت کی تمنا پیدا نہ ہوئی مگر رسول(ص) نے ایک کی تمنا خاک میں ملا دی اور صبح ہوئی تو دریافت فرمایا کہ علی(ع) کہاں ہیں؟ حضرت علی(ع) تشریف لائے حالانکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ دیکھ نہیں پاتے تھے۔ رسول(ص) نے ان کی آنکھیں پھونکیں ، پھر تین مرتبہ علم کو حرکت دی اور حضرت علی(ع) کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ حضرت علی(ع) جنگ فتح کر کے مرحب کو مار کر اور اس کی بہن صفیہ کو لے کر خدمت رسول(ص) میں پہنچے ۔ پھر

۱۷۶

 رسول اﷲ(ص) نے ایک بزرگ کو سورہ توبہ دے کر روانہ کیا۔ ان کے بعد پیچھے فورا ہی حضرت علی(ع) کو روانہ کیا اور حضرت علی(ع) نے راستہ ہی میں ان سے سورہ لے لیا کیونکہ رسول(ص) کا حکم تھا کہ یہ سورہ بس وہی شخص پہنچا سکتا ہے جو مجھ سے ہے اورمیں اس سے ہوں۔ اور رسول(ص) نے اپنے رشتہ داروں، قرابت مندوں سےکہا کہ تم میں کون ایسا ہے جو دنیا و آخرت میں میرا ساتھ دے۔ میرے کام آئے۔ حضرت علی(ع) نے کہا میں اس خدمت کو انجام دوں گا۔ میں دین و دنیا میں آپ کی خدمت کروں گا۔ آپ(ص) نے فرمایا ۔ اے علی(ع) ! دین و دنیا دونوں میں تم ہی میرے ولی ہو۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے حضرت علی(ع) کو بٹھا کے پھر لوگوں سے اپنی بات دہرائی اور پوچھا کہ تم میں کون شخص ہے جو میرا مددگار ہو دنیا میں اور آخرت میں۔ سب نے انکار کیا صرف ایک حضرت علی(ع) ہی تھے جنھوں نے کہا کہ میں آپ کی مدد و نصرت کروں گا دین و دنیا دونوں میں یا رسول اﷲ(ص) رسول اﷲ(ص) نے فرمایا کہ علی(ع) تم ہی میرے ولی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ علی(ع) پہلے وہ شخص ہیں جو جناب خدیجہ کے بعد رسول(ص) پر ایمان لائے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے اپنی ردا لی اور اسے علی(ع) وفاطمہ(س) و حسن(ع) و حسین(ع) کو اوڑھایا اور اس آیت کی تلاوت کی :

۱۷۷

 “ إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً.”

“ اے اہل بیت(ع) ! خدا بس یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر برائی اور گندگی کو اس طرح دور رکھے جیسا کہ دور رکھنا چاہیئے۔”

ابن عباس کہتے ہیں : اور علی(ع) ہی نے اپنی جان راہ خدا میں فروخت کی اور رسول اﷲ(ص) کی چادر اوڑھ کر رسول(ص) کی جگہ پر سورہے۔ در آںحالیکہ مشرکین پتھر برسارہے تھے۔

اسی سلسلہ کلام میں ابن عباس کہتے ہیں: کہ پیغمبر جنگ تبوک کے ارادے سے نکلے۔ لوگ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ حضرت علی(ع) نے پوچھا: یا رسول اﷲ(ص) ! میں بمرکاب رہوں گا؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، تم نہیں رہوگے۔ اس پر حضرت علی(ع) آبدیدہ ہوگئے تو آپ نے فرمایا : کہ یا علی (ع) ! تم اسے پسند نہیں کرتے کہ تم میرے لیے وسیے ہی یو جیسے موسی(ع) کے لیے ہارون تھے۔ البتہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہے۔ جنگ میں میرا جانا بس اسی صورت میں ممکن ہے کہ میں تمھیں اپنا قائم مقام چھوڑ کے جاؤں۔

نیز حضرت سرورِ کائنات(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:  کہ اے علی(ع) ! میرے بعد تم ہر مومن و مومنہ کے ولی ہو۔ ابن عباس کہتے ہیں:  کہ رسول اﷲ(ص) نے مسجد کی طرف سب کے دروازے بند کرادیے بس صرف علی(ع) کا دروازہ کھلا رکھا اور حضرت علی(ع) جنب کی حالت میں بھی مسجد

۱۷۸

 سے گزر جاتے تھے۔ وہی ایک راستہ تھا دوسرا کوئی راستہ ہی نہ تھا۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ (ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: میں جس کا مولا ہوں علی(ع) اس کے مولا ہیں۔”

اس حدیث میں من کنت مولاہ کو امام حاکم نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اگر چہ شیخین بخاری و مسلم نے اس نہج سے ذکر نہیں کیا۔

علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

اس حدیث سے ثبوت خلافت امیرالمومنین(ع)

اس عظیم الشان حدیث میں امیرالمومنین(ع) کے ولی عہد رسول(ص) اور بعد رحلت سرورِ کائنات خلیفہ و جانشین ہونے کے بعد جو قطعی دلائل اور روشن براہین ہیں وہ آپ کی نگاہوں سے مخفی نہ ہوں گے۔ ملاحظہ فرماتے ہیں آپ اندازہ پیغمبر(ص) کا کہ حضرت علی(ع) کو دینا و آخرت میں اپنا ولی قرار دیتے ہیں۔ اپنے تمام رشتے داروں، قرابت داروں میں بس علی(ع) ہی کو اس اہم منصب کے لیے منتخب فرماتے ہیں۔ دوسرے موقع پر حضرت علی(ع) کو وہ منزلت و خصوصیت عطا فرماتے ہیں جو جناب ہارون کو جناب موسی(ع) سے تھی۔ جتنے مراتب و خصوصیات جناب ہارون کو جناب موسی(ع) سے حاصل تھے۔ وہ سب کے سب حضرت علی(ع) کو مرحمت فرمائے جاتے ہیں سوائے درجہ نبوت کے ۔ نبوت کو مستثنی کرنا دلیل ہے کہ نبوت کو چھوڑ کر جتنے خصوصیات

۱۷۹

جناب ہارون کو حاصل تھے وہ ایک ایک کر کے حضرت علی(ع) کی ذات میں مجتمع تھے۔

آپ اس سے بھی بے خبر نہ ہوں گے کہ جناب ہارون کو منجملہ  دیگر خصوصیات کے سب سے بڑی خصوصیت جو جناب موسی(ع) سے تھی وہ یہ کہ جناب ہارون جناب موسی(ع) کے وزیر تھے۔ آپ کے قوت بازو تھے۔ آپ کے شریک معاملہ تھے اور آپ کی غیبت میں آپ کے قائم مقام ، جانشین و خلیفہ ہوا کرتے اور جس طرح جناب موسی(ع) کی اطاعت تمام امتِ پر فرض تھی اسی طرح جناب ہارون کی اطاعت بھی تمام امت پر واجب و لازم تھی اس کے ثبوت میں یہ آیات ملاحظہ فرمایئے:

             خداوند عالم نے جناب موسی(ع) کی دعا کلام مجید میں نقل فرمائی ۔ جناب موسی نے دعا کی تھی۔

“وَ اجْعَل لىّ‏ِ وَزِيرًا مِّنْ أَهْلىِ هَارُونَ أَخِى اشْدُدْ بِهِ أَزْرِى‏ وَ أَشْرِكْهُ فىِ أَمْرِى‏”

“ معبود میرے گھر والوں میں سے ہارون کو میرا وزیر بنا ان سے میری کمر مضبوط کر اور انھیں میرے کارِ نبوت میں شریک بنا۔”

دوسرے موقع پر جناب موسی (ع) کا قول خداوند عالم نے قرآن میں نقل کیا ہے:

“اخْلُفْني‏ في‏ قَوْمي‏ وَ أَصْلِحْ وَ لا تَتَّبِعْ سَبيلَ الْمُفْسِدينَ” ( اعراف، 142)

“ اے ہارون تم میری امت میں میرے جانشین رہو،

۱۸۰