دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 244133
ڈاؤنلوڈ: 5267

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 244133 / ڈاؤنلوڈ: 5267
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 بھلائی ہی پیش نظر رہے اور فساد کرنے والوں کی پیروی نہ کرنا۔”

تیسری جگہ ارشادِ خداوند عالم ہے:

 “ قالَ قَدْ أُوتيتَ سُؤْلَكَ يا مُوسى‏” (طہ، 36)

“ اے موسی(ع) ! تمھاری التجائیں منظور کی گئیں۔”

لہذا جس طرح جناب ہارون جناب موسی(ع) کے وزیر تھے، قوتِ بازو تھے ، شریک کارِ رسالت تھے، خلیفہ و جانشین تھے اسی طرح امیرالمومنین(ع) بھی ارشاد پیغمبر(ص) کی بنا پر پیغمبر(ص) کے وزیر تھے، امت میں پیغمبر(ص) کے جانشین تھے، کار رسالت میں شریک تھے( زیادہ سے زیادہ یہ کہ سب باتیں بر سبیل نبوت نہ تھیں بلکہ بلحاظ خلافت حاصل تھیں) اور تمام امت سے افضل تھے اور آںحضرت(ص) کی حیات و موت دونوں حالتوں میں بہ نسبت تمام امت کے آپ سے زیادہ خصوصیت رکھنے والے تھے اور جس طرح جناب موسی(ع) کی امت پر جناب ہارون کی اطاعت فرض تھی اسی طرح تمام امت اسلامیہ پر حضرت علی(ع) کی اطاعت بھی لازم تھی۔

ہر سننے والا حدیث منزلت کو سن کر یہی سمجھتا ہے اور سننے کے بعد اس کے ذہن میں یہی باتیں آتی ہیں اور انھیں باتوں کے مقصود ہونے میں کسی قسم کا شک نہیں ہوتا۔ خود رسول اﷲ(ص) نے بھی اچھی طرح وضاحت فرمادی اور سکی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رکھی۔ آپ کا یہ فرمانا کہ :

ان ه لا ينبغی ان اذهب الا و انت خليفتی

“ میرا قدم باہر نکالنا مناسب نہیں جب تک تمھیں اپنی جگہ پر قائم مقام نہ  چھوڑ جاؤں”

۱۸۱

صریح ںص ہے کہ حضرت علی(ع) ہی خلیفہ رسول تھے۔ بلکہ اس سے بھی کچھ بڑھ کر روشن وضاحت ہے اس امر کی کہ اگر آںحضرت علی(ع) کو اپنا خلیفہ بنائے بغیر چلے جاتے تو نا مناسب فعل کے مرتکب ہوتے۔

رسول (ص) کا یہ ارشاد کہ میرے لیے یہ مناسب ہی نہیں کہ بغیر تمھیں اپنا خلیفہ بنائے ہوئے چلا جاؤں یہ بتاتا ہے کہ رسول اﷲ(ص) مامور تھے۔ آپ کو حکم دیا تھا خداوند عالم نے کہ علی(ع) کو اپنا خلیفہ بنا جانا جیسا کہ آیہ بلغ کی تفسیر دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے:

  “ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ ” ( مائدہ ، 67)

“ اے رسول(ص) ! پہنچا دو تم اس حکم کو جو تم پر نازل کیا گیا۔ اگر تم نے نہیں پہنچایا تو گویا تم نے کارِ رسالت انجام ہی نہیں دیا۔”

آیت کے ٹکڑوں کو خوب اچھی طرح دیکھیےيا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ کے بعد یہ دوسرا ٹکڑاوَ إِنْ لَمْ قیامت کا ٹکڑا ہے۔ آیت کے اس ٹکڑے کو حدیث رسول(ص) کے اس جملہ کے ساتھان ه لا ينبغی ان اذهب الا و انت خليفتی سے ملائیے تو معلوم ہوگا کہ یہ دونوں فقرے ایک ہی مطلب کی ترجمانی کرتے ہیں۔ آیت بھی یہی کہتی ہے کہ اگر علی(ع) کو خلیفہ نہیں بنایا تو گویا کار رسالت ہی انجام نہیں دیا اور رسول(ص) بھی اقرار کرتے ہیں کہ میرا بغیر تمھیں خلیفہ بنائے ہوئے جانا مناسب ہی نہیں۔

ابن عباس کی اس حدیث میں رسول(ص) کا یہ فقرہ بھی بھولیے گا نہیں کہ : اے علی(ع) تم میرےبعد ہر مومن کے ولی ہو۔ یہ نص صریحی

۱۸۲

 ہے ۔ کہ رسول(ص) کے بعد امت کے مالک و مختار آپ ہی تھے۔ آپ ہی رسول(ص) کے مقرر کردہ حاکم و امیر تھے۔ اور امتِ اسلام مین رسول(ص) کے قائم مقام تھے جیسا کہ کمیت (رح) نے کہا ہے :

                                     و نعم ولی الامر بعد وليه

                                     و منتجع التقوی و نعم المودب

             “ رسول(ص) کے بعد آپ بہترین مالک و مختارِ امور تھے اور تقوی اور بہترین ادب سکھانے والے تھے۔”

                                                             ش

۱۸۳

مکتوب نمبر 14

حدیث منزلت صحیح بھی ہے اور مشہور بھی لیکن مدقق آمدی کو ( جو اصول میں استاد الاساتیذ تھے) اس حدیث کے اسناد میں شک ہے اور وہ اس کے طرق میں شک و شبہ کرتے ہیں ۔ آپ کے مخالفین آمدی کی رائے کو درست سمجھیں تو آپ انھیں کیونکر قائل کریں گے؟

                                                             س

جواب مکتوب

حدیثِ منزلت صحیح ترین حدیث ہے

آمدی یہ شک کر کے خود اپنے نفس پر ظلم کے مرتکب ہوئے کیونکہ حدیث منزلت تمام احادیث سے صحیح تر اور  تمام روایات سے زیادہ پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے۔

۱۸۴

اس کی صحت پر دلائل بھی موجود ہیں

سوائے آمدی کے آج تک اس کے اسناد میں کسی کو شک نہ ہوا ۔ نہ اس کے ثابت و مسلم الثبوت ہونے میں کسی کو لب کشائی کی جرائت ہوئی ۔ علامہ ذہبی جیسے متعصب تک نے تلخیص مستدرک میں اس کے صحت کی صراحت کی ہے۔(1) اور ابن حجر ایسے دشمن تشیع شخص نے صواعق محرقہ کے صفحہ29 پر اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور اس کی صحت کے متعلق ان ائمہ حدیث کے

اقوال درج کیے ہیں جو فن حدیث میں حضرات اہل سنت کے ملجا و ماوی سمجھے جاتے ہیں(2) ۔ اور یہ حدیث ایسی ہی ثابت و ناقابل انکار نہ ہوتی تو امام بخاری ایسا شخص کبھی اپنی صحیح بخاری میں ذکر نہ کرتا۔

وہ علمائے اہل سنت جنھوں نے اس حدیث کی روایت کی ہے

امام بخاری کی تو یہ حالت ہے کہ امیرالمومنین(ع) یا اہلبیت(ع) کے فضائل و خصائص کسی حدیث میں دیکھ لیتے ہیں تو اس کو یوں اڑا جاتے ہیں جیسے رسول(ص) نے فرمایا ہی نہ ہو۔ تو جب امام بخاری تک مجبور ہوگئے اور صحیح بخاری میں درج کر کے رہے تو اب اس کے متعلق شک وشبہ کرنا زبردستی ہے۔

-------------

1:-آپ اس سے پہلے صفحہ194 پر ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ علامہ ذہبی نے خود اس حدیث کی صحت کی تصریح کی ہے۔

2:-صواعق محرقہ، صفحہ29۔

۱۸۵

معاویہ جو دشمنان امیرالمومنین(ع) اور آپ سے بغاوت کرنے والوں کے سرغنہ تھے۔ جنھوں نے امیرالمومنین(ع) سے جنگ کی ۔ بالائے منبر آپ کو گالیاں دیں۔ لوگوں کو سب وشتم کرنے پر مجبور کیا لیکن باوجود اتنی بد ترین عداوت کے وہ بھی اس حدیث منزلت سے انکار نہ کرسکے اور نہ سعد بن ابی وقاص کو جھٹلانے کی انھیں ہمت ہوئی۔

چنانچہ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے کہ:

“ جب سعد بن ابی وقاص معاویہ کے پاس(1) آئے اور معاویہ نے ان سے فرمائش کی کہ منبر پر جاکر امیر المومنین(ع) پر لعنت کریں۔۔۔۔۔۔ اور انھوں نے انکار کیا تو معاویہ نے پوچھا کہ آخر وجہ انکار کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا کہ رسول(ص) نے علی(ع) کے متعلق تین باتیں ایسی کہی ہیں کہ جب تک وہ باتیں یاد رہیں گی میں ہرگز انھیں سب وشتم نہیں کرسکتا۔ اگر ان تین باتوں سے ایک بات بھی مجھے نصیب ہوتی تو وہ سرخ اونٹوں کی قطار سے زیادہ میرے لیے محبوب ہوتی ۔ میں نے خود رسول اﷲ(ص) کو علی(ع) سے کہتے سنا ہے جب کہ آپ کسی غزوہ میں تشریف لے جارہے تھے اور حضرت علی(ع) کو اپنی جگہ چھوڑے جارہے تھے تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی منزلت ہے جو موسی (ع) سے ہارون کو تھی۔ سوائے اس کے کہ باب نبوت

--------------

1 ـ صحیح مسلم، جلد2، صفحہ 324 باب فضائل علی(ع)

۱۸۶

 میرے بعد بند ہے(1) ۔”

معاویہ کے لی بہت آسان تھا کہ جھٹلا دیتے سعد کو ، کہہ دیتے ک نہیں ، رسول(ص) نے ایسا فرمایا ہی نہیں ہے۔لیکن یہ حدیث ان کے نزدیک بھی اس قدر ثابت و مسلم تھی کہ اس کے متعلق چوں چرا کی گنجائش ہی نہیں پائی۔ انھوں نے بہتری اسی میں دیکھی کہ خاموش ہوجائیں۔ سعد کو مجبور نہ کریں۔

اس سے بڑھ کر مزے کی بات سناؤں آپ کو۔ معاویہ نے خود اس حدیث منزلت کی روایت کی ہے۔ ابن حجر صواعق محرقہ میں تحریر فرماتے ہیں:

“ امام احمد حنبل نے روایت کی ہے کہ کسی شخص نے معاویہ سے ایک مسئلہ دریافت کیا۔ معاویہ نے کہا کہ اسے علی(ع) سے پوچھو۔ اس شخص نے کہا(2) آپ کا جواب مجھے علی(ع) کے جواب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ معاویہ نے جھڑک کر کہا کہ یہ بدترین بات تمھارے منہ سے سن رہا ہوں۔ تم اس شخص سے کراہت ظاہر کررہے ہو جسے رسول اﷲ(ص) نے علم یوں بھرایا ہے جس طرح طائر اپنے بچے کو دانہ بھراتا ہے۔ اور جس کے متعلق

--------------

1 ـ امام حاکم نے بھی اس حدیث کو مستدرک جلد2، صفحہ109 پر درج کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کے شرائط کے معیار پر بھی صحیح اور علامہ ذہبی نےبھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کو درج کیا ہے اور اعتراف کیا ہے کہ یہ حدیث امام مسلم کے معیار پر صحیح ہے۔

2 ـ صواعق محرقہ باب 11 صفحہ 107

۱۸۷

یہ ارشاد و فرمایا کہ تمھیں مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہے۔ اور حضرت عمر کو جب کسی معاملہ میں پیچیدگی در پیش آتی تھی تو انھیں کی طرف رجوع کرتے(1) ۔۔۔۔الخ ”

مختصر یہ کہ حدیثِ منزلت اتنی ثابت و مسلم ہے جس کے ثبوت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں۔ تمام مسلمان خواہ وہ کسی فرقہ یا جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اس حدیث کی صحت پر اجماع و اتفاق کیے بیٹھے ہیں۔

اس حدیث منزلت کو صاحب الجمع الصحاح الستہ نے باب مناقب علی میں اور صاحب الجمع بین الصحیحین نے باب فضائل اور غزوہ تبوک کے تذکرہ میں ذکر کیا ہے۔

صحیح بخاری میں غزوہ تبوک(2) کے سلسلہ میں موجود ہے۔

صحیح مسلم میں فضائل علی(ع) کے ضمن(3) میں مذکورہ ہے۔

سنن ابن ماجہ(4) میں اصحاب نبی(ص) کے فضائل کے ضمن میں موجود ہے۔

--------------

1 ـ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ معاویہ نے اس شخص سے یہ بھی کہا کہ کہاں سے چلے جاؤ۔ خدا تمھارے پیروں کو استوار نہ کرے اور اس شخص کا نام دفتر سے کاٹ دیا اور بھی بہت سی باتیں علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ صفحہ107 پر نقل کی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ احمد بن حنبل کے علاوہ محدثین کی ایک اچھی خاصی جماعت نے بسلسلہ اسناد معاویہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ امام احمد ہی تنہا معاویہ سے روایت کرنے والے نہیں۔

2 ـ جلد 3 ص58

3 ـ جلد 2 ص323

4 ـ جلد اول ص28، جلد 3 ص109 اس کے علاوہ اور بھی مقامات پر امام مذکور نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے جیسا کہ چھان بین کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔

۱۸۸

 مستدرک امام حاکم میں(1) باب فضائل کے تحت موجود ہے۔

اور امام احمد(2) نے اپنی مسند میں سعد کی روایت سے بکثرت طریق سے روایت کی ہے نیز اسی مسند میں امام موصوف نے مندرجہ ذیل حضرات میں سے ہر بزرگ کی حدیث میں ذکر کیا ہے۔

ابن عباس(3) ، اسماء بن عمیس(4) ، ابوسعید خدری(5) ، معاویہ بن ابی سفیان(6) اور دیگر صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کیا ہے۔

طبرانی نے اسماء بنت عمنیس ، ام سلہ، جیش بن جنادہ، ابن عمر، ابن عباس ، جابر بن سمرہ، زید بن ارقم، براء بن عازب اور علی بن ابی طالب(ع)(7) وغیرہ ہم سے ہر ہر شخص کی حدیث میں روایت کی ہے۔

بزار(8) نے اپنی مستدرک میں روایت کی ہے۔

--------------

1 ـ مسند احمد جلد اول ص173، ص175، 177، 179، 182، 185۔

2 ـ مسند ج 1، ص231۔

3 ـ مسند ج 6 ، ص469، ص438

4 ـ مسند ج3، ص32

5 ـ جیسا کہ ہم نے اس کتاب کے شروع میں صواعق محرقہ باب 11 ص 108 سے نقل کیا ہے۔

6 ـ صواعق محرقہ باب9 سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) نقل کیا ہے کہ طبرانی نے اس حدیث کو ان تمام اشخاص سے نقل کیا ہے سیوطی نے ایک نام اسماء بنت عمیس اور زیادہ کرے کے لکھا ہے۔

7 ـ تاریخ الخلفاء ص65 حالات امیرالمومنین(ع)۔

8 ـ کنز العمال جلد6 ص152، کی حدیث 2504۔

۱۸۹

ترمذی نے اپنی صحیح میں ابو سعید خدری کی حدیث میں لکھا ہے۔

ابن عبدالبر نے استیعاب میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ خود ان کے الفاظ ہیں :

“ وهو من اثبت الآثار و اصحها ، رواه عن النبی سعد بن ابی وقاص”

“ یہ حدیث تمام احادیث پیغمبر(ص) میں سب سے زیادہ ثابت و مسلم اور ہر ایک سے صحیح تر ہے، اس حدیث کو سعد بن ابی وقاص نے پیغمبر(ص) سے روایت کیا ہے۔”

پھر فرماتے ہیں کہ:

“ سعد کی حدیث بکثرت طریقوں سے مروی ہے جسے ابن ابی خیثمہ و غیرہ نے لکھا ہے۔”

آگے جل کر تحریر فرماتے ہیں :

“ اس حدیث کی روایت ابن عباس نے کی ہے، ابو سعید خدری نے کی ہے ، ام سلمہ (رض) نے کی ہے، اسماء بنت عمیس نے کی ہے۔ جابر بن عبداﷲ نے کی۔ ان کے علاوہ ایک پوری جماعت اصحاب ہے جس نے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ جن کے ذکر میں طول ہوگا۔”

علماء محدثین اور اہل سیر و اخبار نے جس جس نے غزوہ تبوک کا ذکر کیا ہے انھوں نے اس حدیث کو بھی ضرور لکھا ہے اور جس جس نےحضرت علی(ع) کے  حالات و سوانح مرتب کیے ہیں خواہ وہ کسی فرقہ و جماعت کے ہوں متقدمین و متاخرین سب نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔

۱۹۰

اور مناقب اہل بیت(ع) و فضائل صحابہ میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں سبھی میں یہ حدیث موجود ہے۔ مختصر یہ کہ حدیثِ منزلت وہ حدیث ہے کہ خلف و سلف سب کے نزدیک ثابت و محقق ہے کسی نے اس کی صحت میں شک نہیں کیا۔

آمدی کے شک کرنے کی وجہ

لہذا جب اس کی اہمیت کی حالت یہ ہے تو آمدی کو اس کے اسناد میں شک ہوتو ہوا کرے ان کے شک سے کیا ہوتا ہے ۔ علم حدیث میں انھیں دخل ہی کیا حاصل تھا؟ طرق و اسناد کے متعلق ان کا حکم لگانا تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے عوام کا حکم لگانا۔ جنھیں کسی بات کے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔ بات یہ ہے کہ جیسا آپ نے کہا کہ اصول میں انھیں تبحر حاصل تھا تو اسی تبحر نے انھیں اس دلدل میں پھنسایا ۔ انھوں نے دیکھا کہ بمقتضائے اصول یہ حدیث نص صریح ہے۔ امیرالمومنین(ع) کی خلافت پر اصول کے بموجب حضرت علی(ع) خلیفہ ماننے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا۔ مفر کی صورت نہیں لہذا راہ فراریوں نکالی جائے کہ اس حدیث کے اسناد ہی مشکوک قرار دے دیے جائیں کہ اس طرح شاید اس حدیث کے نہ ماننے اور حضرت علی(ع) کو خلیفہ رسول(ص) نہ تسلیم کرنے کی سبیل پیدا ہو۔

                                                                     ش

۱۹۱

مکتوب نمبر15

سندِ حدیث کی صحت کا اقرار

اس حدیثِ منزلت کے ثبوت میں جو کچھ آپ نے فرمایا بالکل صحیح ذکر کیا ہے اس کے مسلم الثبوت ہونے میں مطلقا شک و شبہ کی گنجائش نہیں آمدی نے اس حدیث میں ایسی ٹھوکر کھائی جس سے ان بھرم کھل گیا ۔معلوم ہو گیا کہ انھیں علم حدیث سے دور کا بھی لگاؤ نہیں تھا۔میں نے ان کے قول کو ذکر کر کے ناحق آپ کو ان کے رد کی زحمت دی۔ معافی کا خواہاں ہوں۔

عموم حدیث منزلت میں شک

مجھے خیال ہوتا ہے کہ آمدی کے علاوہ آپ کے دیگر مخالفین اس حدیث

۱۹۲

کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ س حدیث منزلت میں عموم نہیں بلکہ یہ اپنے مورد کے ساتھ مخصوص ہے۔ یعنی رسول(ص) کا حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین اور اپنی وفات کے بعد تمام مسلمانون میں اپنا خلیفہ بنانا مقصود نہیں تھا بلکہ صرف غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ سے جتنے دن آپ (ص) غائب رہے اتنے دن ہی آپ کو جانشین بنانا مقصود تھا۔ جیسا کہ سیاق حدیث سے پتہ چلتا ہے۔ اس لیے کہ یہ حدیث آپ نے اس موقع پر فرمائی ہے ۔ جب آپ عازم سفر ہوئے اور حضرت علی(ع) کو مدینہ میں اپنا قائم مقام بنا کر جانے لگے اور اس پر حضرت علی(ع) نے عرض کیا :

“یا رسول اﷲ(ص) آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟”

تورسول(ص) نے کہا:

“ کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمھیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی؟ سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”

 اس حدیث کے حجت ہونے میں شک

و یا رسول (ص) یہ کہنا چاہتے تھے کہ جس طرح کوہ طور پر جانے کے وقت جناب ہارون جناب موسی(ع) کے جانشین تھے اسی طرح غزوہ تبوک پر جانے کے وقت تم میرے جانشین ہو۔ لہذا مقصود پیغمبر(ص) کا یہ نکلا کہ میں جتنے دن غزوہ تبوک میں مشغول رہوں تم مسلمانوں میں میرے جانشین ہو جس طرح جناب موسی کی غیبت اور مناجات کے دنوں میں جناب ہارون جانشین موسی(ع) تھے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اگر عام مان بھی

۱۹۳

لیا جائے تب بھی یہ حدیث حجت نہیں کیونکہ یہ حدیث مخصوص ہے اور وہ عام جس کی تخصیص کردی جائے وہ باقی میں حجت نہیں ہوسکتا۔

                                                                     س

جواب مکتوب

عرب کے اہل زبان عموم حدیث کے قائل ہیں

مخالفین کا یہ کہنا کہ حدیث منزلت میں عموم نہیں پایا جاتا۔ اسے ہم اہلِ زبان اور عرب والوں کے عرف کے فیصلہ پر چھوڑتے ہیں۔ وہ جو کہیں وہی ہم بھی کہتے ہیں۔ آپ خود حجت عرب میں اپنا جواب نہیں رکھتے ۔ آپ کی بات نہ رد کی جاسکتی ہے نہ آپ کے فیصلہ میں چون و چرا کی گنجائش ہے۔ آپ خود فرمائیں آپ کیا کہتے ہیں؟

آپ اپنی قوم ( عرب) کے متعلق فرمائیے کیا انھیں بھی اس کے عموم میں شک ہوا ؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ ناممکن ہے کہ آپ جیسا ماہر زبان اسم جنس مضاف کے عموم اور اپنے تمام مصادیق کو شامل ہونے میں شک کرے۔

اگر آپ مجھ سے فرمائیں کہ منحتکم انصافی۔ میں نے تمھیں انصاف بخشا۔ تو کیا آپ کا یہ اںصاف بعض  امور سے متعلق ہوگا اور بعض امور سے نہیں۔ ایک معاملہ میں میرے ساتھ انصاف کیجیے گا اور دوسرے معاملہ میں نا انصافی فرمائیے گا؟  یا انصاف عام اور اپنے تمام مصادیق کو شامل ہوگا۔ خدا نہ کرے کہ آپ اسے عام ہونے کے علاوہ اور کچھ سمجھیں اور سوائے استغراق کے کچھ سمجھ میں آئے ۔ فرض کیجیے کہ

۱۹۴

 خلیفہ المسلمین اگر اپنے حاکم و افسر سے کہیں کہ میں نے لوگوں پر اپنی جگہ تمھیں بادشاہ بنایا مجھے جو منزلت حاصل ہوئی ہے وہ تمہاری منزلت قرار دی یا رعایا میں جو منصب میرا ہے وہ تمھارا منصب مقرر کیا ، یا میں نے اپنا ملک تمھارے حوالہ کیا تو کیا یہ سنکر عموم کے علاوہ اور کوئی چیز سمجھ میں آئے گی اور اگر دعوی کرنے والا تخصیص کا دعوی کرے یہ کہے کہ صرف بعض حالات میں معاملات میں اقتدار و اختیار دیا گیا ہے بعض میں نہیں تو کیا وہ شخص مخالف اور نافرمان نہ سمجھا جائے گا۔ اور اگر وہ اپنے کسی وزیر سے فرمائیں کہ میرے زمانہ سلطنت میں تمھاری وہی منزلت رہے گی جو عمر کی منزلت تھی ابوبکر کےزمانہ میں بجز اس کے کہ تم صحابی نہیں ہو تو یہ فقرہ بلحاظ عرف منازل و مراتب کےساتھ  مخصوص ہوگا یا عام سمجھا جائےگا۔ میرا تو یہی خیال ہے کہ آپ عام ہی سمجھیں گے اور مجھے  تو یقین ہے کہ آپ بھی اس حدیث میں عموم ہی کے قائل ہوں گے۔ جس طرح مذکورہ بالا مثالوں میں عرف و لغت کے قاعدہ پر سوائے عموم ماننے کےکوئی دوسری صورت نہیں۔

خصوصا استثنا نبوت کےبعد تو اور بھی عموم اچھی طرح واضح ہوجاتا ہےکیونکہ جب رسول نے صرف نبوت کو مستثنی کیا تو ثابت ہوا کہ سوائے درجہ نبوت کے اور جتنے منازل تھے جناب ہارون کے وہ سب حضرت علی(ع) کو حاصل ہوئے کوئی ایک نہیں چھوٹا۔ ورنہ رسول(ص) صرف نبوت ہی کو مستثنی نہ فرماتے بلکہ جہاں نبوت کو مستثنی کیا وہاں دوسری باتوں کا بھی استثنا فرماتے۔ آپ خود عرف ہیں۔ عربوں میں رہتے ہیں آپ خود سوچیے عربوں سے پوچھیے کہ انکا کیا فیصلہ ہےاس کےمتلعق ؟

 اس کا ثبوت کہ حدیث کسی مورد کے ساتھ مخصوص نہیں

مخالت کا یہ کہنا کہ یہ حدیث مورد کے ساتھ مخصوص ہے دو وجہوں سے

۱۹۵

غلط ہےپہلی وجہ یہ ہےکہ حدیث فی نفسہ عام ہے جیسا اوپر میں بیان کرچکا ہوں لہذا اس کا مورد اگر اسے ہم خاص تسلیم بھی کر لیں اس کو عام ہونے سے مانع نہیں ہوسکتا۔کیوںکہ مورد وارد کا مخصوص نہیں ہوا کرتا جیسا کہ طے شدہ مسئلہ ہے۔

دیکھیے اگر آپ کسی جنب شخص کو آیت الکرسی چھوتے  ہوئے دیکھیں۔ اور آپ اس سے کہیں کہ محدث ( جس میں جنب غیر جنب سب شامل ہیں) کو آیات قرآن چھونا جائز نہیں تو آپ کا یہ اشارہ مورد کے ساتھ مخصوص ہوگا یا آپ کا یہ کہنا عام ہوگا اور تمام آیات قرآن اور ہر محدث کو شامل ہوگا۔ خواہ وہ محدث جنب ہو یا غیر جنب ۔ آیت الکرسی کو چھوئے یا دیگر آیات کو۔ میں تو خیال نہیں کرتا کہ کوئی شخص بھی یہ کہے گا کہ یہ حکم صرف جنب کے ساتھ مختص ہے۔ہر محدث کو شامل نہیں اور صرف آیت الکرسی ہی چھونے کی ممانعت ہے دیگر آیات کی نہیں ۔ اگر معالج مریض کو کھجور کھاتے ہوئے دیکھے اور اسے میٹھا کھانے کو منع کرے تو کیا طبیب کی میٹھے سے ممانعت عرف عام میں مورد  کے ساتھ مخصوص سمجھی جائے گی۔ صرف کھجور سےممانعت سمجھی جائے گی یا یہ ممانعت عام ہوگی ۔ اور ہر میٹھے کو شامل ہوگی؟

میرا تو خیال یہ ہےکہ کوئی بھی اس کا قائل نہ ملے گا جو یہ کہے کہ یہ ممانعت مخصوص ہے مورد کے ساتھ، صرف کھجور سے مریض کو روکا گیا ہے یہ تو وہ ہی کہے گا جسے اصول سے کوئی لگاؤ نہ ہو۔ زبان کے قواعد سے بالکل بے بہرہ ہو۔ فہم عربی سے دور ہو اور ہم لوگوں کی دنیا سے اجنبی ہو۔ لہذا جس طرح ان مثالوں میں مورد کے خاص ہونے کی وجہ سے حکم خاص نہیں اسی طرح

۱۹۶

حدیثِ منزلت کا مورد اگر چہ خاص ہے یعنی آپ نے غزوہ تبوک میں جاتے وقت فرمایا ، لیکن حکم عام ہی ہے ۔ حدیث منزلت اور ان مثالوں میں کوئی فرق نہیں۔

اس قول کی تردید کہ یہ حدیث حجت نہیں

دوسری وجہ بطلان یہ ہے کہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ حدیث کا مورد خاص ہےکیونکہ رسول(ص) نے صرف غزوہ تبوک ہی کے موقع پر حضرت علی(ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین بناتے ہوئے نہیں فرمایا کہ تمھیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی تاکہ مخالف کا یہ کہنا صحیح ہوکہ صرف غزوہ تبوک ہی کے موقع پر حضرت علی(ع) کو منزلت ہارونی حاصل ہوئی اور آپ رسول(ص) کے جانشین ہوئے بلکہ آپ نے اس حدیث کو بارہا مختلف مواقع پر ارشاد فرمایا ہے چنانچہ ہمارے یہاں ائمہ طاہرین(ع) سے بکثرت صحیح اور متواتر احادیث مروی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول(ص) نے اور دوسرے مواقع پر بھی اس حدیث کو فرمایا ہے۔ تحقیق کے جویا ہماری کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ حضرات اہلسنت کے سنن بھی اس کے موئد و شاہد ہیں جیسا کہ ان کی تلاش و جستجو سے معلوم ہوسکتا ہے لہذا معترض کا یہ کہنا کہ سیاق حدیث دلیل ہے صرف اس کے غزوہ تبوک کے ساتھ مختص ہونے کی۔ بالکل ہی غلط اور نا قابل اعتنا ہے۔

رہ گیا یہ کہنا کہ وہ عام جن کی تخصیص کردی جائے وہ باقی میں حجت نہیں۔ بالکل مہمل لغو اور صریحی طور پر باطل ہے۔ اور خاص کر اس حدیث کے متعلق جو ہماری آپ کی موضوع بحث ہے ایسا خیال تو محض زبردستی ہے۔

                                                             ش

۱۹۷

مکتوب نمبر16

 حدیث منزلت و مقامات

آپ نے یہ تو فرمایا کہ رسول اﷲ(ص) نے صرف غزوہ تبوک ہی نہیں بلکہ اور بھی متعدد مواقع پر یہ حدیث ارشاد فرمائی لیکن آپ نے ان متعدد مواقع کی تصریح نہیں کی۔

بڑی عنایت ہوگی ان موارد کی بھی تفصیل فرمائیے۔ غزوہ تبوک کے علاوہ اور کب آںحضرت(ص) نے ایسا ارشاد فرمایا۔

                                                                     س

۱۹۸

جوابِ مکتوب

من جملہ مقاماتِ حدیثِ منزلت ملاقاتِ ام سلیم ہے

ان مواقع میں سے ایک وہ موقع ہے جب آںحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلیم(1) سے فرمایا تھا ۔ ام سلیم سب سے پہلے اسلام لانے والوں

--------------

1 ـ  یہ ملحان بن خالد انصاری کی بیٹی اور حرام بن ملحان کی بہن تھیں۔ ان کے باپ اور بھائی دونوں رسول اﷲ(ص) کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ یہ بڑی صاحب ِ فضیلت اور زیرک و دانا خاتون تھیں۔ رسول اﷲ(ص) سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں اور ان سے انس ابن عباس، زید بن ثابت ، ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور دوسرے لوگون نے حدیثیں روایت کی ہیں اور سابقین میں ان کا شمار ہے۔ اسلام کی طرف دعوت دینے والو میں سے ایک یہ بھی تھیں۔ زمانہ جاہلیت میں مالک بن نضر کی زوجیت میں تھیں۔ مالک سے انس بن مالک پیدا ہوئے۔ جب اسلام آیا تو انھوں نے سبقت کی۔ اسلام قبول کیا اور اپنےشوہر سے بھی کہا لیکن اس نے اسلام لانے سے انکار کیا تو انھوں نے قطع  تعلق کرلیا۔ شوہر غضبناک ہو کر شام کی طرف چلا گیا اور وہیں بحالت کفر مرگیا انھوں نے اپنے  بیٹے انس کو جب کہ وہ صرف دس سال کے تھے رسول اﷲ(ص) کی خدمت گزاری پر مائل کیا رسول (ص) نے بھی ان کے خیال سےقبول کیا۔ اسی وجہ سے انس کہا کرتے تھے کہ خدا جزائے خیر دے میری والدہ کو انھوں نے میری اچھی سرپرستی کی ، انھیں کے ہاتھوں ابو طلحہ اںصاری اسلام لائے ابو طلحہ نے جب کہ اسلام نہ لائے تھے ان سے شادی کی خواہش کی انھوں نے مسلمان ہونے کی شرط لگائی۔ ابو طلحہ نے اسلام قبول کیا اور ان کا اسلام لانا ہی مہر ہوا۔ یہ ام سلیم آںحضرت(ص) کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئی تھیں جنگ احد میں ان کے ہاتھ میں خنجر تھا کہ جو کہ مشرک ان کے پاس آئے اس سے ہلاک کردیں۔ تاریخ اسلام میں تمام عورتوں سے زیادہ اسلام کی خڈمت گزار حامی محافظ مشکلات میں ثابت قدم یہی خاتون تھیں انھیں کو بس یہ شرف حاصل تھا کہ رسول(ص) ان سے ملنے ان کے گھر جاتے ۔ یہ معظمہ اہل بیت کی معرفت رکھنے والی اور ان کے حقوق کو پہچاننے والی خاتون تھیں۔

۱۹۹

 میں سے تھیں۔ اور بڑی زیرک و دانا خاتون تھیں۔ سابقیت اسلام ، خلوص و خیر خواہی اور شدائد میں ثابت قدمی کی وجہ سے ان کی رسول(ص) کے نزدیک بڑی منزلت تھی۔ آںحضرت(ص) ان کی ملاقات کو جاتے ، ان کے گھر میں بیٹھ کر ان سے گفتگو کرتے۔ آپ نے ایک دن ان سے ارشاد فرمایا :

“ اے ام سلیم! علی (ع) کا گوشت میرے گوشت سے ہے، ان کا خون میرے خون سے ہے اور انھیں وہی منزلت حاصل ہے جو موسی سے ہارون کو تھی۔(1)

یہ بالکل ظاہر ہے کہ رسول اﷲ (ص) نے یہ حدیث کسی خاص جذبہ کے ماتحت نہیں فرمائی بلکہ برجستہ طور پر سلسلہ کلام میں یہ جملے زبانِ مبارک سے ادا ہوئے جس سے مقصود صرف یہ تھا کہ میرے ولی عہد اور میرے جانشین

--------------

1 ـ ام سلیم کی یہ حدیث کنزالعمال جلد 6 صفحہ154 میں موجود ہے بلکہ منتخب کنزالعمال میں بھی مذکور ہے۔ چنانچہ مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ 31 کے حاشیہ کی آخری سطر ملاحظہ ہو۔ بعینہ انھیں الفاظ میں یہ حدیث موجود ہے۔

۲۰۰