دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 242253
ڈاؤنلوڈ: 5159

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242253 / ڈاؤنلوڈ: 5159
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مکتوب نمبر18

خدا آپ کا بھلا کرے آپ کی دلیلیں کتنی واضح اور روشن ہیں بڑا کرم ہوگا بقیہ ںصوص بھی تحریر فرمائیں۔

                                                                     س

جوابِ مکتوب

ابو داؤد طیالسی کی روایت کو لیجیے ( جیسا کہ استیعاب میں بسلسلہ حالاتِ امیرالمومنین(ع) مذکور ہے) ابن عباس سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ :

“ رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا : کہ تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو۔”(1)

--------------

1 ـ ابو داؤد و دیگر اہل سنت نے اس حدیث کو ابو عوانہ وضاح بن عبداﷲ یغکری سے انھوں نے ابو بلج یحی بن سلیم فراری سے انھوں نے عمر بن میمون اودی سے انھوں نے ابن عباس سے مرفوعا روایت کیا ہے اس سلسلہ اسناد کے کل رجال حجت ہیں مسلم اور بخاری دونوں نے اپنے صحیح میں ان رجال میں سے ہر ایک کو حجت سمجھا ہے اور ان سے مروی حدیثیں درج کی ہیں سوا یحی بن سلیم کے کہ ان کی روایت ان دونوں نے نہیں لکھی لیکن جرح و تعدیل کے مجتہدین نے یحی بن سلیم کی وثاقت کی تصریح کردی ہے۔ یہ خدا کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے بزرگ تھے۔ علامہ ذہبی نے ان کے حالات لکھتے ہوئے میزان الاعتدال میں ابن معین نسائی  دار قطنی محمد بن سعد ابی حاتم و غیرہ کا یحی بن سلیم کو ثقہ سمجھنا نقل کیا ہے۔

۲۲۱

اسی جیسی ایک صحیح حدیث عمران بن حصین سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ :

“ رسول اﷲ(ص) نے ایک لشکر روانہ کیا اور امیرالمومنین(ع) کو افسر مقرر کیا۔ مال خمس جو ہاتھ آیا اس سے ایک کنیز امیرالمومنین(ع) نے اپنے لیے علیحدہ کر لی۔ لوگوں کو یہ بات کھلی اور چار شخصوں نے باہم طے کیا کہ رسول اﷲ(ص) کی خدمت میں شکایت کی جائے۔ جب رسول اﷲ(ص) کی خدمت میں وہ پہنچے تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا : یا رسول اﷲ(ص) ! آپ علی(ع) کو نہیں دیکھتے ؟ انھوں نے ایسا ایسا کیا رسول(ص) نے اس سے منہ پھیر لیا۔ تب دوسرا کھڑا ہوا اس نے بھی ایسے ہی کلمات کہے۔ اس سے بھی رسول(ص) نے منہ پھیر لیا تب تیسرا کھڑا ہوا اس نے بھی اپنے دو ساتھیوں کی طرح شکایت کی۔ اس سے بھی رسول(ص) نے منہ پھیر لیا تب چوتھا کھڑا ہوا اور

۲۲۲

 اگلے ساتھیوں کی طرح اس نے بھی شکایت کی تو اس وقت رسول اﷲ(ص) ان سب کی طرف متوجہ ہوئے اور چہرے سے آثار غضب نمایاں تھے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا : تم علی(ع) کے متعلق چاہتے کیا ہو؟ علی (ع) مجھ سے ہے اور میں علی(ع) سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں(1) ۔”

ایسی ہی ایک روایت ابوہریرہ سے مروی ہے جس کی اصل عبارت مسند احمد بن حنبل ج5 صفحہ 356 پر موجود ہے۔

“ بریدہ کہتے ہیں کہ رسول(ص) نے دو رسالے یمن کی جانب روانہ کیے ایک پر حضرت علی(ع) کو افسر بنایا دوسرے پر خالد بن ولید کو اور ارشاد فرمایا کہ جب تم دونوں مل جاؤ تو دونوں کے افسر علی(ع) ہی ہوں گے۔ اور جب تک الگ رہو تو ہر ایک اپنے

--------------

1 ـ بہت سے اصحاب سنن نے اس روایت کو درج کیا ہے۔ امام نسائی نے خصائص علویہ میں احمد بن حنبل نے بسلسلہ حدیث عمران صفحہ438 جلد رابع مسند میں امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 11 پر علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں بشرائط مسلم اس کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے ابن ابی شیبہ نے اس کی روایت کی ہے۔ ابن جریر نے اس کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ جیسا کہ علامہ متقی ہندی نے ان دونوں سے نقل کر کے کنزالعمال جلد6 شروع صفحہ 400 پر لکھا ہے نیز ترمذی نے بھی اس حدیث کی قوی اسناد سے روایت کی ہے جیسا کہ علامہ عسقلانی نے اصابہ میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) ذکر کیا ہے اور ان سے علامہ معتزلہ ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ450 پر نقل کیا ہے نیز لکھا ہے کہ اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں ایک جگہ نہیں متعدد و مقامات پر تحریر کیا ہے۔

۲۲۳

 اپنے دستہ کا افسر رہے گا۔(1) بریدہ کہتے ہیں کہ : اہل یمن کے بنی زبیدہ سے ہماری مڈبیھڑ ہوئی اور گھمسان کا رن پڑا۔ آخر مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ ہم نے جنگ آزماؤں کو موت کے گھاٹ اتارا اور ان کی عورتوں بچوں کو قید کر لیا۔ حضرت علی(ع) انھیں قیدیوں میں سے ایک عورت کو اپنے لیے الگ کر لیا۔ بریدہ کہتے ہیں : کہ خالد نے ایک نامہ میرے ہاتھوں رسول(ص) کی خدمت میں بھیجا۔ جس میں واقعہ کی رسول(ص) کو خبر دی تھی۔ میں نے خدمت میں پہنچ کر وہ نامہ پیش کیا۔ خط جب پرھا گیا تو غیظ و غضب کے آثار رسول(ص) کے چہرے پر نمایاں ہوٹے میں نے عرض کی : میں معافی کا خواستگار ہوں آپ نے مجھے ایک شخص کے ہمراہ بھیجا اور مجھے اس کی اطاعت کا حکم دیا

--------------

1 ـ رسول اﷲ(ص) نے حضرت علی(ع) پر کبھی کسی کو افسر نہیں مقرر کیا بلکہ حضرت علی(ع) ہی ہمیشہ افسر ہوا کیے۔ اور ہر معرکہ میں علم لشکر آپ ہی کے ہاتھوں میں رہا بر خلاف غیروں کے ۔ ابوبکر و عمر اسامہ کی ماتحتی میں رکھے گئے۔ اس پر تمام مورخین متفق ہیں۔ نیز یہ دونوں بزرگوار غزوہ ذات السلاسل میں عمرو عاص کے ماتحت بنائے گئے ان دونوں  حضرات کا اس غزوہ میں اپنے افسر عمرو عاص کے ساتھ ایک مشہور قضیہ بھی ہے جسے امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 43 پرلکھا ہے اور علامہ ذہبی نے اس کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے تلخیص مستدرک میں درج کیا ہے لیکن حضرت علی (ع) نہ تو کسی کی ماتحتی میں رہے نہ محکوم بنے۔ بجز سرورِ کائنات کے۔ رسول کی بعثت سے وفات تک۔

۲۲۴

میں نے اس کی فرمانبرداری کی۔ رسول(ص) نے فرمایا : خبردار علی(ع) کے متعلق کچھ کہنا سننا نہیں۔ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی (ع) سے ہوں اور علی(ع) میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں(1) ۔ ”

--------------

1 ـ یہ تو وہ روایت ہے جسے امام احمد نے مسند جلد5 کے صفحہ 356 پر بطریق عبداﷲ بن بریدہ لکھا ہے۔ دوسری جگہ مسند ج5 صفحہ 347 پر سعید بن جبیر سے روایت کی ہے انھوں نے ابن عباس سے انھوں نے ابن بریدہ سے ۔بریدہ کہتے ہیں کہ میں حضرت علی(ع) کے ساتھ جنگ یمن میں شریک تھا۔ حضرت علی(ع) درشتی سے پیش آتے تھے میں جب واپس پلٹا تو رسول(ص) کی خدمت میں اس کا ذکر کیا اور حضرت کی تنقصت کی ۔ میں نے دیکھا کہ رسول(ص) کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ رسول(ص) نے پوچھا : اے بریدہ کیا میں تمام مومنین کی جانوں کا مالک نہیں؟ بریدہ نے کہا: بے شک یا رسول اﷲ(ص) ۔ آپ نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں۔ امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 10 پر اس حدیث کولکھا جہے ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے محدثین نے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ یہ حدیثیں جو درج کی گئیں ہمارے مقصود پر بین دلیل ہیں کیونکہ رسول(ص) کا جملہ الست اولیٰ بالمومنین من انفسہم کو مقدم فرمانا قرینہ غالب ہے کہ اس حدیث میں مولیٰ سے مراد اولی ہے جیسا کہ بظاہر عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی جیسی ایک حدیث اور ہے جسے بہت سے محدثین نے بیان کیا ہے۔ من جملہ ان کے امام احمد نے مسند ج3 صفحہ 483 پر عمرو بن شاس اسلمی سے اس حدیث کی روایت کی  ہے۔یہ حدیبیہ میں شریک ہونے والوں میں سے تھے۔ عمرو بن شاس کہتے ہیں کہ میں حضرت علی(ع) کے ساتھ یمن گیا۔ سفر میں حضرت علی(ع) درشتی سے پیش آئے میں دل میں بہت برہم ہوا جب رسول کی خدمت میں واپس آیا تو میں نے مسجد میں ان کی شکایت کی ۔ رسول(ص) کو بھی اس کی خبر ہوئی دوسرے دن صبح کو جب میں مسجد میں آیا تو رسول اﷲ(ص) حلقہ اصحاب میں تشریف فرما تھے میں سامنے آیا تو مجھے کڑی نگاہ سے دیکھنے لگے جب میں بیٹھ گیا تو فرمایا : اے عمرو تم نے مجھے بڑی تکلیف پہنچائی۔ میں نے عرض کی کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ آپ کی تکلیف کا باعث ہوں۔ آپ نے فرمایا : کہ ہاں تم میری ایذا رسانی کے باعث ہوئے ۔ یاد رکھو جس نے علی(ع) کو اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت دی۔

۲۲۵

اور امام نسائی نے خصائص علویہ میں یہ عبارت لکھی ہے :“ اے بریدہ ! مجھے علی(ع) کا دشمن بنانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں اور وہ میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں۔”

اور ابن حریر کی عبارت یہ ہے :

“ بریدہ کہتے ہیں کہ دفعتا رسول(ص) کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا : کہ میں جس کا ولی ہوں علی(ع) اس کے ولی ہیں۔ یہ سن کر میرے دل میں جو کچھ برے خیالات امیرالمومنین(ع) کی طرف سے قائم ہوگئے تھے دور ہوگئے اور میں نےطے کر لیا کہ آج سے پھر برائی کے ساتھ یاد نہ کروں گا(1) ۔”

طبرانی نے اس حدیث کو ذرا تفصیل سے درج کیا ہے ان کی روایت میں ہے کہ :

“ بریدہ جب یمن سے واپس آئے اور مسجد میں پہنچے تو رسول(ص) کے حجرے کے دروازے پر ایک جماعت لوگوں کی موجود تھی لوگ

--------------

1 ـ جیسا کہ علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال ج6 صفحہ 398 پر نقل کیا ہے۔نیز منتخب کنزالعمال میں  بھی نقل کیا ۔

۲۲۶

انھیں دیکھ کر ان کی طرف بڑھے۔ سلام و مزاج پرسی کرنے اور یمن کے حالات دریافت کرنے لگے کہ کیا خبر لے کے آئے بریدہ نے کہا : اچھی ہی خبر ہے۔ خدا نے مسلمانوں کو فتح بخشی، لوگوں نے پوچھا کہ آنا کیسے ہوا، میں نے کہا کہ مال خمس سے علی(ع)  نے ایک کنیز لے لی ہے۔ میں اسی کی رسول(ص) کو خبر کرنے آیا ہوں لوگوں نے کہا سناؤ سناؤ رسول(ص) کو تاکہ علی(ع) رسول(ص) کی نظروں سے گریں۔ آںحضرت(ص) دروازے کے عقب سے لوگوں کی یہ گفتگو سن  رہے تھے۔ آپ غیظ و غضب کی حالت میں برآمد ہوئے اور ارشاد فرمایا : کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ علی(ع) کی برائی کرتے ہیں۔ جس نے علی(ع) کو غضب ناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا جو علی(ع) سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوا ۔ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔ میری طینت سے علی(ع) کی خلقت ہوئی اور میں جناب ابراہیم(ع) کی طینت سے خلق ہوا اور میں جناب ابراہیم(ع) سے بہتر ہوں(1) ۔”

-----------

1 ـ چونکہ حضرت سرورکائنات(ص) نے فرمایا  تھا کہ علی(ع) میری طینت سے مخلوق ہوئے اور آںحضرت(ص) بدیہی طور پر علی(ع) سے افضل ہیں تو اب آںحضرت(ص) کے اس جملہ سے کہ میں ابراہیم(ع) کی طینت سے خلق ہوا یہ وہم پیدا ہوتا تھا کہ ابراہیم(ع) حضرت سرورکائنات (ص) سے افضل ہیں اور یہ قطعی طور پر مخالف واقع ہے۔ آںحضرت(ص) تو تمام انبیاء و مرسلین(ع) کے خاتم اور سب سے افضل و اشرف ہیں اس لیے آپ نے اس وہم کو دور کرنے کے لیے یہ فرمایا کہ میں ابراہیم(ع) سے افضل ہوں۔

۲۲۷

“اے بریدہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ علی(ع) کا حصہ اس کنیز سے بہت زیادہ ہے جو انھوں نے لی ہے اورمیرے بعد وہی تم لوگوں کے ولی ہیں(1) ۔”

یہ حدیث ایسی عظیم الشان حدیث ہے جس کے متعلق شک کیا ہی نہیں جاسکتا۔ بریدہ سے بکثرت طرق سے مروی ہے اور جمیع طرق معتبر و مستند ہیں۔

اسی جیسی ایک اور عظیم الشان حدیث حاکم نے ابن عباس سے روایت کی ہے ۔ جس میں امیرالمومنین(ع) کے دس مختص فضائل ذکر کیے ہیں :

“ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول(ص) نے علی (ع) سے فرمایا : تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو(2) ۔”

--------------

1 ـ بن حجر نے اس حدیث کو طبرانی سے صواعق محرقہ باب11 میں نقل کیا ہے لیکن جب اس جملے پر پہنچے اما علمت ان لعلی اکثر من الجاریہ ” کیا تم نہیں جانتے کہ علی (ع) کا حصہ اس کنیز سے زیادہ ہے ان کا قلم رک گیا اور ان کے نفس نے گوارا نہ کیا کہ جملہ پورا لکھیں انھوں نے الیٰ آخر الحدیث  لکھ کر عبارت ختم کر دی ہے۔ ابن حجر جیسے متعصب اشخاص سے اس قسم کی باتین تعجب خیز نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم لوگوں کو عصبیت سے محفوظ رکھا۔

2 ـ امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 134 کے شروع میں اس حدیث کو لکھا ہے ۔ نیز علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے درج کیا ہے۔ امام نسائی نے خصائص علویہ ص6 پر لکھا ہے اور امام احمد نے مسند ج1 ص331 پر تحریر کیا ہے ہم پوری حدیث ص193 تا ص199 پر درج کرچکے ہیں۔

۲۲۸

اسی طرح ایک اور حدیث ہے جس میں رسول اﷲ(ص) کا یہ قول مذکورہ ہے کہ :

“ اے علی(ع) میں نے تمہارے بارے میں خداوند عالم سے پانچ چیزوں کا سوال کیا۔ چار تو خدا نے مرحمت فرمائیں اور ایک نہیں عطا فرمائی ۔ جو باتیں خدا نے مرحمت فرمائیں ان سے ایک یہ کہ تم میرے بعد مومنین کے ولی ہو(1) ۔”

اسی طرح وہ حدیث ہے جو ابن سکن سے وہب بن حمزہ نے روایت کی ہے ( ملاحظہ ہو اصابہ تذکرہ وہب) وہب کہتے ہیں:

“ میں نے ایک مرتبہ حضرت علی(ع) کے ساتھ سفر کیا ۔ سفر کے ایام میں حضرت علی(ع) کی طرف سے درشتی و سختی دیکھی تو میں نے دل میں تہیہ کیا کہ جب مدینہ پلٹوں گا تو رسول(ص) سے اس کی شکایت کروں گا۔ جب واپس ہوا تو میں نے رسول(ص) سے علی(ع) کی شکایت کی۔ رسول(ص) نے فرمایا : ایسی باتیں  علی(ع) کے متعلق کبھی نہ کہنا کیونکہ وہی میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں۔”

طبرانی نے بھی معجم کبیر میں وہب سے یہ روایت نقل کی ہے مگر اس میں یہ عبارت ہے کہ :

“ یہ بات علی(ع) کے لیے نہ کہو وہ میرے بعد تمام لوگوں سے زیادہ تم پر اختیار رکھتے ہیں(2) ۔”

--------------

1 ـ یہ حدیث کنزالعمال جلد6 صفحہ 396 پر موجود ہے نمبر حدیث 1048۔

2 ـ کنزالعمال ج6 صفحہ 155 حدیث 2589۔

۲۲۹

ابن ابی عاصم نے امیرالمومنین(ع) سے مرفوعا روایت کی ہے :

“ رسول (ص) نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں لوگوں پر ان سے زیادہ اختیار و اقتدار نہیں رکھتا؟ لوگوں نے کہا بے شک آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا کہ : میں جس جس کا ولی ہوں، علی(ع) اس کے ولی ہی(1) ۔”

امیرالمومنین(ع) کی ولایت کے متعلق ائمہ طاہرین(ع) سے متواتر صحیح حدیثیں منقول ہیں۔ اتنا جو لکھا گیا ہے یہی امید ہے کافی ہو سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آیتانما ولیکم اﷲ بھی ہمارے قول کی تائید کرتی ہے۔

                                                     ش

--------------

1 ـ متقی ہندی نے ابن ابی عاصم سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ملاحظہ ہو ص397 جلد 6 کنزالعمال۔

۲۳۰

مکتوب نمبر19

لفظ ولی، مددگار، دوست ، محب ، داماد ، پیرو، حلیف ، ہمسایہ اور ہر اس شخص پر بولا جاتا ہے جوکسی کے معاملات کا نگراں و مختار کل ہو۔ یہ اتنے معنوں میں مشترک ہے۔ لہذا آپ نے جتنی حدیثیں ذکر فرمائی ہیں غالبا ان تمام حدیثوں میں مراد ی ہے کہ علی(ع) میرے بعد تمھارے مددگار ہیں یا دوست ہیں یا محب ہیں۔

لہذا ان احادیث سے اور اس لفظ ولی سے آپ(ع) کی خلافت کہا ں ثابت ہوتی ہے؟

                                                                     س

جواب مکتوب

آپ نے لفظ ولی کے جتنے معانی درج کیے ہیں ان میں ایک یہ بھی

۲۳۱

 آپ نے تحریر فرمایا کہ جوکسی کےمعاملات کا نگراں ومختار کل ہو اسے بھی ولی کہتے ہیں تو ان تمام احادیث میں لفظ ولی سے یہی معنی مراد ہیں اور لفظ ولی کے سننے سےیہی معنی متبادر الی الذہن بھی ہوتے ہیں۔ جیسا ہم لوگوں کے اس قول میں “ ولی القاصر ابوہ وجدہ لابیہ ، ثم وصی احد ہما ثم الحاکم الشرعی”

“ شخص قاصر کا ولی اس کا باپ ہے پھر اس کا دادا اور ان دونوں کے نہ ہونے پر ان کا وصی اور سب کی غیر موجودگی میں حاکم شرعی۔”

تو یہاں لفظ ولی سے مراد یہی ہے کہ شخص قاصر کےیہی  لوگ نگران و مختار ہیں اس کے معاملات میں انہی کو تصرف کا اختیار ہے۔

مذکورہ بالا احادیث میں ایسے واضح قرائن بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر(ص) نے لفظ ولی بول کر نگران و مختار ہی مراد لیا ہے جیسا کی صاحبانِ عقل و ادراک سے مخفی نہیں کیونکہ رسول(ص) کا فرمانا کہ :

“ یہ علی(ع) میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں۔”

بین ثبوت ہے کہ یہاں لفظ ولی سے مقصود بس یہی معنی ہیں کوئی دوسرا نہیں کیونکہ  وھو ولیکم بعدی ۔ یہی علی(ع) میرے بعد تمھارے ولی ہیں، اس کا مطلب تو یہی ہوا کو میرے بعد علی(ع) کے سوا تمھارا اور کوئی ولی نہیں۔ لہذا قطعی طور پر ان احادٰیث میں ولی سے یہی معنی سمجھنے پڑیں گے کسی اور معنی کی گنجائش ہی نہیں نکل سکتی۔ اس لیے کہ نصرت، محبت ، دوستی وغیرہ یہ کسی فرد خاص میں تو منحصر نہیں۔ تمام مومنین و مومنات ایک دوسرے کے دوست اور محب ہیں۔ ہم جو معنی

۲۳۲

مراد لیتے ہیں یعنی نگران و مختارر کل اگر یہ مقصود نہ ہو اور آپ کے کہنے کی بنا پر دوست یا محب مقصود ہے تو پھر آخر رسول(ص) اس شد ومد سے حضرت  علی(ع) کو ولی بنا کر ان کو کون سا امتیازی درجہ دینا چاہتے تھے یا کون سی فضیلت علی(ع) کو مل جاتی ہے اگر لفظ ولی سے مراد مددگار، دوست اور محب ہی کے مقصود ہیں تو ان احادیث کے ذریعہ حضرت علی(ع) کی ولایت کا اعلان کر کے کسی ڈھکی چھپی ہوئی بات کو رسول(ص) نمایاں کرنا چاہتے تھے؟

رسول(ص) کی شان کہیں اجل و ارفع ہے اس سے کہ باکل بدیہی اور ظاہری چیز کے واضح کرنے کے لیے اتنا اہتمام فرمائیں۔ آںحضرت(ص) کی حکمت ِ بالغہ، اندازِ عصمت، شان خاتمیت ان مہل خیالات و اوہام سے کہیں بزرگ برتر ہے علاوہ اس کے کہ ان احادیث میں تصریح ہے کہ علی بعد رسول(ص) لوگوں کے ولی ہیں، بعد رسول(ص) کی قید کو دیکھتے  ہوئے کوئی چارہ کار ہی نہیں سوا اس کے کہ ولی کے معنی وہی لیے جائیں جو ہم لیتے ہیں یعنی نگران و مختار کل۔ورنہ رسول(ص) کا یہ قید لگانا مہمل ہوجاتا ہے۔

کیا  حضرت علی(ع) رسول(ص) کی زندگی میں مسلمانوں کے محب ومددگار نہ تھے؟ کیا آپ کو کسی لمحہ بھی مسلمانوں کی نصرت سے منہ موڑتے ہوئے دیکھا گیا۔ حضرت علی(ع) تو جب سے آغوش رسالت میں پل کر اور کنارِ تربیت پیغمبر(ص) میں پرورش پاکر نکلے اس وقت سے رسول(ص) کی رحلت کے وقت تک مسلمانوں کے ناصر رہے۔ مسلمانوں کے دوست و محب رہے ۔لہذا یہ کہنا کیونکہ صحیح ہوسکتا ہے کہ رسول(ص) کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد علی(ع) مسلمانوں کے ناصر و مددگار ہیں۔ دوست اور محب ہیں۔

ہم جو لفظ ولی سے معنی سمجھتے ہیں اسی کے واقعا مقصود مراد ہونے

۲۳۳

 پرمن جملہ اور قرائن کے ایک وہی حدیث کافی ہے جو امام احد بن حنبل نےمسند جلد5 صفحہ 347 پر بطریق صحیح روایت کی ہے۔ بریدہ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ :

“ میں حضرت علی(ع) کےساتھ یمن کی جنگ میں شریک تھا حضرت علی(ع) کچھ سختی سے پیش آتے تھے۔ میں جب رسول(ص) کی خدمت میں پہنچا تو اس کا ذکر کیا اور حضرت علی(ع) کی کچھ تنقصت کی میں نے دیکھا کہ رسول(ص) کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ اے بریدہ الست اولیٰ بالمومنین من انفسہم کیا میں مومنین سے بڑھ کر ان پر اختیار نہیں رکھتا ۔ میں نے کہا بے شک یا رسول اﷲ(ص) ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھو : جس جس کا میں مولی ہوں علی(ع) اس کے مولی ہیں۔”

اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک ج2 صفحہ 120 پر درج کیا ہے اور امام مسلم کے نزدیک جو شرائط صحت ہیں ان کے لحاظ سے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز علامہ ذہبی نے بھی تلخیص میں اسے درج کیا ہے اور بشرائط مسلم اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔

رسول(ص) کا جملہ الست اولی بالمومنین من انفسہم کو مقدم کرنا پہلے یہ اقرار لے لینا کہ کیا میں تم سے زیادہ اولی نہیں ہوں بین دلیل ہے کہ لفظ ولی سے مقصود وہی معنی ہیں جو ہم سمھتے ہیں کوئی دوسرا نہیں۔

ان احادیث پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو خود بخود مطلب واضح ہوجائے گا اور ہمارے قول میں کوئی شک وشبہ باقی نہ رہے گا۔

                                                     ش

۲۳۴

  مکتوب نمبر20

واقعی آپ بڑی قوتِ استدلال کے مالک ہیں۔کوئی نبرد آزما آپ کے مقابلہ میں میدان بحث میں جم نہیں سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ تمام احادیث اسی مطلب پر دلالت کرتی ہیں جو آپ نے بیان کیا اگر صحابہ ( کے مسلک) کو صحیح سمجھنے کی مجبوری نہ ہوتی تو میں آپ کے فیصلہ پر سرتسلیم خم کردیتا لیکن مجبوری یہ ہے کہ ہم صحابہ کے مسلک سے اںحراف نہیں کرسکتے اور نہ ان کے سمجھے ہوئے معنی و مطلب کے علاوہ کوئی دوسرا معنی سمجھ سکتے ہیں لہذا خواہ مخواہ حدیث کو س کی ظاہری معنی سے پھیرنا ہی پڑے گا۔ ظاہری معنی چھوڑ کر کوئی معنی مراد لینا ہی ہوگا تاکہ سلف صالحین کا دامن ہاتھ سے جانے نہ پائے اور ان کے جادہ سے اپنے قدم نہ ہٹیں ۔ آپ نے سابق مکتوب میں جس آیت محکمہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ کہ یہ بھی ہمارے قول کی موئد ہے  آپ نے اس کی تصریح نہیں فرمائی براہ کرم لکھیے کہ وہ کون سی آیت ہے۔

                                                     س

۲۳۵

جوابِ مکتوب

وہ آیہ محکمہ کلامِ مجید کی سورہ مائدہ کی یہ آیت ہے :

  “ إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ وَ مَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغالِبُونَ” (مائدہ ، 55۔ 56)

“ بے شک تمھارا ولی خدا ہے اس کا رسول(ص) ہے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوة دیتے ہیں در آںحالیکہ وہ رکوع میں ہوتے ہیں۔ جو شخص خدا اور اس کے رسول(ص) اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے اپنا ولی سمجھے گا تو یہ سمجھ رکھو کہ خدا کی جمعیت ہی غالب رہنے والی ہے۔”

اس آیت کےامیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل ہونے کے متعلق ائمہ طاہرین(ع) سے متواتر صحیح احادیث موجود ہیں۔ ائمہ طاہرین(ع) سے قطع نظر دیگر طریقوں سے جتنی روایتیں اس آیت کے سلسلہ میں پائی جاتی ہیں اور جو شان نزول آیت کے متعلق نص صریح ہیں ان میں ایک ابن اسلام ہی کی حدیث کو لے لیجیے جو رسول(ص) سے مرفوعا مری ہے ملاحظہ ہو صحیح نسائی یا کتاب الجمع بین الصحاح ستہ بسلسلہ تفسیر سورہ مائدہ اسی جیسی ایک حدیث ابن عباس سے مروی ہے اور ایک حدیث امیرالمومنین(ع) سے۔ ابن عباس کی حدیث امام واحدی کی کتاب اسباب النزول میں بسلسلہ تفسیر آیت انما موجود ہے

۲۳۶

جسے کتاب متفق میں علامہ خطیب نے بھی درج کیا ہے۔ امیرالمومنین(ع) کی حدیث بسند ابن مردویہ اور مسند ابو الشیخ میں موجود ہے کنزالعمال جلد5 صفحہ 405 پر بھی آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔

علاوہ اس کے اس آیت کا امیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل ہونا ایسا مسلم ہے جس سے انکار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ تمام مفسرین اجماع کیے بیٹھے ہیں اور مفسرین کے اس اجماع کو سینکڑوں علمائے اعلام اہلسنت نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے منجملہ ان کے علامہ قوشجی نے شرح تجرید کے مبحث امامت میں اس اجماع کا ذکر کیا ہے۔

غایة المرام باب 18 میں 24 حدیثیں بطریق جمہور مذکور ہیں جو شان نزول کے متعلق ہماری موئد ہیں۔ ایک تو اختصار ملحوظ ہے ، دوسرے یہ مسئلہ آفتاب سے بھ زیادہ واضح ہے ورنہ ہم وہ تمام صحیح احادیث اکٹھا کردیتے جو اس آیت کے حضرت علی(ع) کی شان مین نازل ہونے کے متلعق مروی ہیں لیکن یہ تو وہ نا قابل انکار حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں۔

پھر بھی ہم اس مکتوب کو جمہور کی حدیث سے خالی نہیں رکھنا چاہتے صرف ایک امام ابواسحق احمد بن محمد بن ابراہیم نیشاپوری ثلعبی کی تفسیر کا حوالہ دے دیتے ہیں۔

امام مذکور اپنی تفسیر میں اس آیت پر پہنچ کر بسلسلہ اسناد جناب ابوذر کی ایک حدیث درج فرماتے ہیں ۔ جناب ابوذر فرماتے ہیں کہ :

“ میں نے خود اپنے کانوں سے رسول اﷲ(ص) کو  کہتے سنا ( اگر میں غلط کہتا ہوں تو میرے دونوں کان بہرے ہوجائیں) اور میں نے اپنی ان آنکھوں سے رسول(ص) کو دیکھا ( ورنہ میری دونوں آنکھیں

۲۳۷

کور ہو جائیں) رسول(ص) فرماتے تھے کہ علی(ع) نیکو کاروں کے قائد کافروں کے قاتل ہیں۔ جو علی(ع) کی مدد کرے گا وہ نصرت یافتہ ہوگا اور جو علی(ع) کا ساتھ نہ دے گا اس کی مدد نہ کی جائے گی۔ میں نے ایک دن رسول(ص) کے ساتھ نماز پڑھی ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا کسی نے کچھ نہ دیا۔ حضرت علی(ع) حالتِ رکوع میں تھے۔ آپ نے اپنی انگلی کی طرف اشارہ کیا جس میں انگوٹھی پہنے ہوئے تھے ۔ سائل بڑھا اور اس نے انگوٹھی اتار لی ۔ اس پر رسول اﷲ(ص) نے خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر دعا مانگی ۔ عرض کیا  میرے معبود ! میرے بھائی موسی نے تجھ سے سوال کیا تھا ( کہا تھا کہ اے میرے معبود ! میرے سینہ کو کشادہ فرما میرے معاملہ کو سہل بنا، میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا۔ ان کے ذریعہ میری کمر مضبوط کر اسے میرا شریک کار قرار دے تاکہ ہم دونوں زیادہ تیری تسبیح کریں اور بہت زیادہ ذکر کریں تو ہماری حالت کو بخوبی دیکھنے والا ہے تو خداوندا تو نے ان پر وحی نازل فرمائی کہ تمھاری تمنائیں پوری کی گئیں) اے میرے معبود! میں تیرا نبی(ص) ہوں میرے سینہ کو بھی کشادہ فرما میرے معاملہ کو سہل کر اور میرے اہل سے علی(ع) کو میرا وزیر بنا اس کے ذریعہ میری کمر کو مضبوط کر۔۔۔ جناب ابوذر فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم رسول(ص) کا کلام پورا بھی نہ ہونے پایا تھا کہ جبرئیل امین اس آیت انما کو لے کر نازل ہوئے ” جز این نیست کہ تمھارا

۲۳۸

حاکم و مختار خدا ہے اور اس کا رسول(ص) اور وہ لوگ جو ایمان لائے جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں جو شخص خدا اور رسول (ص) اور ایمان لانے والوں سے وابستہ ہوگا تو کوئی شبہ نہیں کہ خدا کی جمعیت ہی غلبہ پانے والی ہے۔”

آپ سے مخفی نہیں کہ اس جگہ ولی سے مراد ولی بالتصرف ہی ہے جیسے ہم لوگوں کے اس قول میں کہ فلاں ولی القاصر ہے، ولی سے مقصود اولیٰ بالتصرف ہے۔ اہل فقہ نے تصریح کردی ہے کہ  ہر وہ شخص جو کسی کے معاملات میں متصرف و مختار ہو وہ اس کا ولی ہے لہذا اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ جو تمھارے امور کے مالک و مختار ہیں اور تم سے زیادہ تمھارے امور میں تصرف کا حق رکھتے ہیں وہ خداوند عالم ہے اور اس کا رسول(ص) اور علی(ع) کیونکہ حضرت علی(ع) ہی کی ذات بس ایک ایسی ذات ہے جس میں آیت کے مذکورہ بالا صفات مجتمع تھے۔ ایمان، نماز کو قائم کرنا اور بحالتِ رکوع زکوة دینا اور آپ ہی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔

خداوند عالم نے اس آیت میں اپنے لیے، اپنے رسول(ص) کے لیے اپنے ولی کے لیے ایک ہی ساتھ ولایت ثابت کی ہے، ایک ہی ذیل میں جس طرح خود ولی ہے اسی طرح بغیر کسی فرق کے اپنے رسول(ص) اور اپنے ولی کو بھی لوگوں کا ولی فرمایا ۔ یہ ظاہر ہے کہ خداوند عالم کی ولایت عام ہے لہذا نبی(ص) اور ولی کی ولایت جیسی عام ہونا چاہیے، وہ جن معنوں میں ولی ہے اور جس حیثیت کی ولایت اسے حاصل ہے ٹھیک انھیں معنوں میں اور اسی حیثیت سے امیرالمومنین(ع) کو بھی ولایت حاصل ہونی چاہیے۔

اور یہاں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ ولی نصیر یا محب وغیرہ مراد

۲۳۹

 لیا جائے ورنہ حصر کی کوئی وجہ باقی نہ رہے گی۔ جب ولی کے معنی مددگار یا دوست ہی کے لیے جائیں تو پھر اس کا انحصار صرف تین فردوں میں کیونکر صحیح ہوگا۔ کیا بس خدا اور رسول(ص) اور علی(ع) ہی مومنین کے دوست ہیں اور مددگار ہیں۔ دوسرا کوئی نہیں ؟ حالانکہ خود خداوند عالم نے فرمایا ہے کہ  : مومنین ایک دوسرے کے اولیاء ہیں، دوست ہیں، مددگار ہیں میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ دنیا میں جتنی بدیہی چیزیں ہیں انھیں میں سے ایک یہ بھی ہے یعنی آیہ مبارکہ میں ولی سے مراد اولیٰ بالتصرف ہونا نہ کہ محب ، دوست، نصیر وغیرہ ۔

                                                                     ش

۲۴۰