دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 243977
ڈاؤنلوڈ: 5254

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 243977 / ڈاؤنلوڈ: 5254
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 وغیرہ ۔ جس کے نتیجہ میں وہ بد دعائے امیرالمومنین(ع) کا شکار ہوئے۔ غرضیکہ باوجود ان سب باتوں کے 30 صحابی اٹھ کھڑے ہوئے اور گواہی دی اگر امیرالمومنین(ع) کو موقع ملتا کہ آپ اس محل پر رحبہ کے دن ہر بقید حیات مرد و زن ، ہر صنف کے اصحاب کو اکٹھا کر سکتے ۔ اور ان کو ویسی ہی قسم دیکر گواہی طلب کرتے جیسی آپ نے رحبہ میں قسم دے کر گواہی مانگی تھی تو نامعلوم ایسے کتنے تیس گواہی دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ یہ خیال تو رحبہ کے دن کے متعلق ہے جو واقعہ غدیر کے پچیس برس گزرنے کے بعد ہوا۔

اب ذرا سوچیے کہ اگر امیرالمومنین(ع) کو ایسا موقع سرزمین حجاز پر ملتا اور واقعہ غدیر کو اتنی مدت نہ گزری ہوتی جتنی رحبہ

۳۲۱

کے دن تک گزر چکی تھی اور آپ اسی طرح قسم دے کر لوگوں سے  گواہی طلب کرتے تو اس صورت میں کتنے لوگ اٹھ کھڑے ہوتے اور گواہی دیتے۔

آپ اسی پر اچھی طرح غور کریں تو اسی ایک واقعہ کو حدیث غدیر کے تواتر کی قوی ترین دلیل پائیں گے۔ واقعہ رحبہ کے متعلق جو روایات کتب احادیث وسنن میں موجود ہیں انھیں بھی ذرا دیکھیے۔

چنانچہ امام احمد نے مسند جلد4 صفحہ370 پر زید بن ارقم کی حدیث ابوطفیل سے روایت کر کے لکھی ہے، ابوطفیل فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین(ع) نے رحبہ میں لوگوں کو جمع کر کے  ارشاد فرمایا :

“ کہ ہر مرد مسلم کو جس نے رسول(ص) کو غدیر خم میں ارشاد فرماتے سنا ہو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اٹھ کھڑے ہو۔”

آپ کے اس قسم دینے پر 30 افراد اٹھ کھڑے ہوئے۔ امام احمد کہتے ہیں کہ ابونعیم کا بیان ہے کہ بہت سے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے اس موقع پر چشم دید گواہی دی۔ جب رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر خطاب کیا تھا کہ:

“ کیا تم جانتے ہو کہ میں مومنین سے زیادہ ان کے نفوس پر قدرت و اختیار رکھتا ہوں؟ سب نے کہا: بیشک یا رسول اﷲ(ص)، آںحضرت(ص) نے فرمایا : تو جس جس کا میں مولیٰ ہوں علی(ع) اس کے مولیٰ ہیں۔ خداوندا ! تو دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے۔ اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے۔”

ابوطفیل کہتے ہیں کہ میں رحبہ سے نکلا اور میرے دل میں بڑا خلجان

۳۲۲

 تھا( آخر جمہور مسلمین نے اس حدیث پر کیوں عمل نہیں کیا ) میں زید بن ارقم کی خدمت میں پہنچا اور ان سے رحبہ کا واقعہ بیان کیا کہ حضرت علی(ع) کو میں نے ایسا ایسا کہتے سنا۔ زید بن ارقم نے جواب میں کہا کہ :

“ تم اسے غلط نہ سمجھنا میں نے خود بھی رسول(ص) کو ایسا کہتے سنا ہے۔”

میں کہتا ہوں کہ زید بن ارقم کی گواہی کو رحبہ میں امیرالمومنین(ع) کے بیان کے ساتھ ملایا جائے تو اس حدیث کے 32 گواہ ہوجاتے ہیں۔ ایک امیرالمومنین(ع) دوسرے زید بن ارقم اور وہ 30 صحابی جنھوں نے رحبہ میں گواہی دی تھی۔

امام احمد نے مسند جلد1 صفحہ 119 پر حضرت علی(ع) کی حدیث عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کر کے لکھی ہے۔ عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ :

“ میں رحبہ میں اس موقع پر موجود تھا اور میں نے خود حضرت علی(ع) کو لوگوں کو قسم دیتے سنا۔ آپ فرمارہے تھے کہ میں قسم دیتا ہوں ہراس شخص کو جس نے غدیر خم میں رسول(ص) کو :

“من كنت مولاه فهذا علي مولاه”کہتے سنا ہو اٹھ کھڑے جہو اور گواہی دے اور وہی شخص اٹھے جس نے اپنی آنکھوں سے رسول(ص) کو دیکھا ہو اور اپنے کانوں سے کہتے سنا ہو۔”

عبد الرحمن کہتے ہیں کہ:

“ بارہ بدری صحابی اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں آج تک وہ منظر بھولا نہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسول(ص) کو غدیر خم میں کہتے سنا کہ کیا میں مومنین سے
۳۲۳

 زیادہ ان کے نفوس کا مالک و مختار نہیں اورمیری ازواج کیا ان کی مائیں نہیں؟ ہم سب نے کہا : بے شک یا رسول اﷲ(ص) ، تب آںحضرت(ص) نے فرمایا : کہ جس جس کا میں مولیٰ ہوں علی(ع) اس کے مولیٰ ہیں۔ خداوندا تو دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے۔”

اسی صفحہ کے آخر میں امام مذکور نے دوسرے طریقے سے اسی روایت کو لکھا ہے جس میں ہے کہ :

“  آںحضرت(ص) نے فرمایا: کہ  خداوندا تو دوست رکھ اس کو جو ان کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو ان کو دشمن رکھے۔اور مدد کر اس کی جو اس کی مدد کرے اور ذلیل و خوار کر اسے جو ان کی مدد نہ کرے۔”

عبدالرحمن کہتے ہیں کہ :

“سب اٹھ کھڑے ہوئے، تین آدمی باوجودیکہ وہ واقعہ غدیر خم میں موجود تھے لیکن گواہی دینے کے لیے نہ کھڑے ہوئے۔ امیرالمومنین(ع) نے ان کے لیے بد دعا فرمائی اور وہ سب آپ کی بد دعا کا شکار ہوئے۔”

اگر آپ حضرت علی(ع) اور زید ابن ارقم کو بھی ان بارہ(12) بدری اصحاب کے ساتھ ملا لیں تو چودہ(14) بدری اصحاب ہوجاتے ہیں۔ واقعہ رحبہ کے متعلق جو حدیثیں اور روایات کتب احادیث وسنن میں موجود ہیں ان پر غور فرمائیے توآپ کو اندازہ ہوگا کہ اس واقعہ میں امیرالمومنین(ع) کی کیا حکمت

۳۲۴

 فضائل جس میں یہ بھی ہے کہ آںحضرت(ص) نے آپ کو اپنا جانشین بنایا اور یومِ غدیر آپ کی خلافت کا اعلان فرمایا۔ ان سب باتوں کی گواہی پر مشتمل ہے شیعہ ہر سال ایسا کرتے ہیں، ان کا وتیرہ بن چکا ہے ۔ شیعوں کے خطباء و مقررین کا دستور ہے ک وہ ہر شہر میں ہر مقام پر ہر اپنی تقریر میں حدیث غدیر کو بہترین اسلوب اور بہت ہی عمدہ پیرایہ میں بیان کرتے ہیں، ان کی کوئی تقریر حدیث غدیر کے تذکرہ سے خالی نہیں ہوتی۔ اسی طرح قدیم شعراء اور نئے دور کے شعراء کی بھی یہ عادت ہمیشہ رہی کہ وہ اپنے قصائد میں واقعہ غدیر کو نظم کرتے آئے ہیں۔(1)

لہذا شیعوں کے یہاں جس حدیث کو اتنی اہمیت حاصل ہو اس کے بطریق اہل بیت(ع) و شیعیانِ اہلبیت(ع) متواتر ہونے میں تو کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کیونکہ انھوں نے اس حدیث کو بعینہ اس کے الفاظ میں محفوظ رکھنے میں جتنی احتیاط کی اور اس کے تحفظ و انضباط نشرو اشاعت میں جتنی کدو کاوش سے کام لیا وہ انتہا درجہ کو پہنچی ہوئی تھی۔

آپ شیعہ کتب احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔ ان میں یہ حدیث بے شمار طرق و

--------------

1ـ جناب کمیت ابن زید کے کچھ اشعار ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں جن کا ایک شعر یہ تھا:

وَ يَوْمَ الدَّوْحِ دَوْحِ غَدِيرِ خُمٍ‏

 أَبَانَ لَنَا الْوَلَايَةَ لَوْ أُطِيعَا

 غدیر خم کے میدان میں حضرت سرورکائنات(ص) نے آپ کی خلافت کا اعلان کیا۔ کاش پیغمبر(ص) کی بات مانی جاتی)

مشہور شاعر ابوتمام نے اپنے قصیدہ میں کہا ( یہ اشعار اس کے دیوان میں موجود ہیں)

و يوم‏ الغدير استوضح الحق أهله‏

 بفيها و ما فيها حجاب و لا ستر

(الی آخر کلام)

۳۲۵

 اسناد سے مروی ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس کی زحمت گوارا  فرمائیں تو شیعوں کے نزدیک اس حدیث کا متواتر ہونا روزِ روشن کی طرح واضح وجائے۔

بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ بلحاظ اصولِ فطرت حضراتِ اہلسنت کے یہاں بھی اس حدیث کے متواتر ہونے میں کوئی شک نہیں۔ صاحب فتاوائے حامدیہ ایسا متعصب شخص مگر انھوں نے بھی اپنی کتاب الصلاة الفاخر فی الاحادیث المتواترہ میں اس حدیث کے متواتر ہونے کا صاف صاف اقرار کیا ہے۔

علامہ سیوطی اور انھیں جیسے دیگر حافظانِ حدیث نے بھی اس کے تواتر کی تصریح کی ہے۔

علامہ جریر طبری جن کی تفسیر مشہور ہے اور تاریخ بھی اور احمد بن محمد ابن سعید بن عقدہ اور محمد بن احمد بن عثمان ذہبی نے تو اس حدیث کو اتنا اہم سمجھا کہ مستقل کتابیں مخصوص حدیث غدیر پر لکھیں اور ان تمام طریقوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی جن طریقوں سے یہ حدیث مروی ہے۔

علامہ طبری نے اپنی کتاب میں پچھتر(75) طریقوں سے اور ابن عقدہ نے اپنی کتاب میں ایک سو پانچ(1)   طریقوں سے اس حدیث کو لکھا ہے۔

--------------

1ـ صاحب غایةالمرام نے اپنی کتاب کے سولہویں باب صفحہ 89 پر تصریح کی ہے کہ ابن جریر نے حدیچ غدیر کی 95 طریقوں سے روایت کی ہے اور اس کے لیے انھون نے ایک مستقل کتاب الولایہ تصنیف کی اسی طرح ابن عقدہ نے بھی حدیث غدیر کے موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی اور اس میں ایک سو پانچ طریقوں سے اس حدیث کی روایتیں درج کیں اور علامہ احمد بن محمد بن صدیق مغربی نے صراحت کی ہے کہ ذہبی اور ابن عقدہ دونوں نے  اس حدیث غدیر پر مستقل کتابیں لکھیں، ملاحظہ ہو علامہ موصوف کی کتاب فتح الملک العلی بصحت حدیث باب مدینة العلم علی کا خطبہ۔

۳۲۶

علامہ ذہبی ایسے متعصب شخص نے بھی اکثر و بیشتر طرق کو صحیح قرار دیا ہے۔(1)

غایة المرام کے سولہویں باب میں 89 حدیثیں بطریق  اہل سنت مذکور ہیں جس میں واقعہ غدیر کا ذکر ہے اور لطف یہ ہے کہ یہ 89 حدیثیں ان روایتوں کے علاوہ ہیں جو ترمذی ، نسائی، طبرانی، بزار، ابو یعلی نیز اور بہت سے علماء احادیث نے ذکر کی ہیں۔

اور علامہ سیوطی نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں بضمن حالات امیرالمومنین(ع) اس حدیث کو ترمذی سے نقل کیا ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ :

“  اس حدیث کو امام احمد نے حضرت علی(ع)، ابو ایوب اںصادی، زید بن ارقم ، اور عمر، و ذی مر(2) سےروایت کیا ہے۔”
“ ابو یعلیٰ نے ابوہریرہ سے اور طبرانی نے ابن عمر، مالک بن حویرث، حبشی بن جنادة ، جریر، سعد بن ابی وقاص، ابو سعید خدری اور انس سے روایت کیا ۔”

اس کے بعد لکھتے ہیں کہ : “ بزار نے ابن عباس و عمارہ اور بریدہ سے روایت کیا ۔۔۔۔۔الخ”

--------------

1ـ علامہ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ باب اول فصل پنجم میں اس کی وضاحت کی ہے۔

2ـ مسند جلد اول کے صفحہ 121 پر ابن عباس کی حدیث سے بھی اس کی روایت کی ہے نیز مسند جلد4 صفحہ 201 پر براء عازب کی حدیث سے بھی روایت کی ہے۔

۳۲۷

اس حدیث کے بیش از بیش معروف و مشہور ہونے پر منجملہ اور ادلہ کے ایک وہ روایت بھی ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں ریاح بن حارث(1) سے دو طریقوں سے روایت کی ہے۔ ریاح کہتے ہیں کہ :

“ ایک جماعت مسلمانوں کی امیرالمومنین (ع) کی خدمت میں آئی اور یہ کہہ کر سلام کیا کہ سلام ہو آپ پر اے
ہمارے آقا و مولیٰ، امیرالمومنین(ع)  نے پوچھا : کون ہیں آپ لوگ ؟ انھوں نے جواب دیا : کہ ہم آپ کے موالی ہیں، یا امیرالمومنین(ع)، آپ نے فرمایا: میں تمھارا مولیٰ کیسے ہوا؟ حالانکہ تم قوم عرب ہو، انھوں نے کہا : ہم نے رسول(ص) کو غدیر خم میں کہتے سنا کہ “ من كنت مولاه فهذا علي مولاه ” میں جس کا مولیٰ ہوں علی(ع) اس کے مولیٰ ہیں۔”

ریاح کہتے ہیں کہ :

“ جب وہ چلنے لگے تو میں بھی پیچھے پیچھے چلا۔ میں نے ان کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ چند اںصار تھے جن میں ابو ایوب اںصاری بھی تھے۔”

منجملہ ان ادلہ کے جو اس حدیث غدیر کے تواتر پر دال ہیں ایک وہ حدیث بھی ہے  جو اسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں بسلسلہ تفسیر سورہ معارج دو معتبر سندوں سے ذکر کی ہے کہ :

“ رسول اﷲ(ص) نے غدیر خم کے دن لوگوں میں منادی کرادی ۔سب

--------------

1ـ دیکھیے مسند جلد5 صفحہ419

۳۲۸

 اکٹھے ہوگئے تو آپ نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اس کے علی(ع) مولیٰ ہیں۔” یہ بات ہر طرف سے مشہور ہوگئی اور ہر شہر میں اس واقعہ کی خبر پہنچی۔ حارث بن نعمان فہری کو بھی معلوم ہوئی۔ وہ یہ سن کر ایک ناقہ پرسوار ہو کر رسول(ص) کی خدمت میں پہنچا۔ ناقہ کو بٹھا کر اترا اور کہا یا محمد(ص) آپ نے ہم کو حکم دیا کہ خدا کی وحدانیت اور آپ کی رسالت کی گواہی دیں۔ ہم نے آپ کے اس حکم کو مانا آپ نے حکم دیا ک پانچ وقت نماز پڑھیں۔ ہم نے اسے بھی قبول کیا۔ آپ نے حکم دیا کہ ہم زکوة دیں۔ ہم نے اس حکم کی بھی تعمیل کی۔ آپ نے حکم دیا کہ ہم حج کریں۔ ہم نے حج بھی کیا ہم نے اتنی باتیں آپ کی مانیں اور آپ اس پر بھی راضی نہ ہوئے اور آپ نے یہ کیا کہ اپنے چچا زاد بھائی علی(ع) کو آستیں پکڑ کر ان کو کھڑا کیا ان کو ہم لوگوں پر فضیلت دی اور ان کے متعلق فرمایا کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اس کے یہ علی(ع) مولیٰ ہیں۔ یہ بات آپ کی جانب سے تھی یا خدا کی جانب سے؟ آںحضرت(ص) نے فرمایا: قسم ہے اس اﷲ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہ خدا کی جانب سے تھا اور اسی کے حکم سے ایسا میں نے کیا۔ یہ سن کر حارث پلٹا اور اپنی سواری کی طرف بڑھا یہ کہتے ہوئے کہ پروردگار! محمد(ص) جو کہہ رہے ہیں اگر سچ ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا دردناک عذاب ہم پر بھیج۔”

وہ ابھی اپنے مرکب تک پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ خداوند عالم نے اسے اپنے

۳۲۹

 عذاب میں مبتلا کیا۔ ایک پتھر آسمان سے اس کی کھوپڑی پر گرا جو سر کو توڑتا ہوا اسفل سے نکل گیا اور اس نے وہیں جان دیے دی اور اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔: ( یہاں تک اصل عبارت کو ترجمہ تھا۔)(1)

اور بہت سےعلمائے اہلسنت نے اس حدیث کو بطور مسلمات ذکر کیا ہے۔(2)

                                                     ش

--------------

1ـ ثعلبی سے ایک جماعت نے علماء اہل سنت کی جیسے علامہ شلنجی نے نور الابصار صفحہ171 پر احوال امیرالمومنین(ع) میں لکھا ہے۔

2ـ حلبی نے سیرہ حلبیہ صفحہ 374 جلد3 میں احوال حجة الوداع میں لکھا ہے۔

۳۳۰

مکتوب نمبر29

چونکہ ہم مجبور ہیں کہ صحابہ کو صحیح سمجھیں لہذا اس حدیث کی تاویل کرنا ضروری ہے۔ تاویل کے علاوہ ہمارے لیے کوئی چارہ کار ہی نہیں خواہ یہ حدیث متواتر ہو یا غیر متواتر۔ اسی وجہ سے حضرات اہل سنت کہتے ہیں کہ لفظ مولیٰ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے چنانچہ خود قرآن میں بھی یہ لفظ کئی معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ کبھی تو اولیٰ کے معنوں میں جیسے خداوند عالم کا یہ قول جو اس نے کفار سے خطاب کر کے فرمایا ہے :

 “مَأْواكُمُ النَّارُ هِيَ مَوْلاكُمْ ” (حدید، 15 )

“ تمھارا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہی تمھارا مولیٰ ہے۔”
یعنی تمھارے لائق ہے ۔ اور کبھی ناصر کے معنوں میں جیسے ارشاد خداوند عالم ہے:
۳۳۱

 “ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذينَ آمَنُوا وَ أَنَّ الْكافِرينَ لا مَوْلى‏ لَهُمْ ” (محمد : 11 ) 

“ خدا ایمان لانے والوں کا مدد گار ہے مگر کافروں کا کوئی مددگار نہیں ۔”

اور کبھی وارث کے معنوں میں جیسے خداوند عالم کا قول :

 “وَ لِكُلٍّ جَعَلْنا مَوالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوالِدانِ وَ الْأَقْرَبُونَ ” (النساء : 33 )

“ ہم نے ہر ایک کے لیے مولیٰ قرار دیے ہیں یعنی وارث قرار دیے ہیں۔”

کبھی بمعنی جماعت استعمال ہوا ہے۔ جیسے ارشاد خداوند عالم ہے:

 “ وَ إِنِّي خِفْتُ الْمَوالِيَ ” (مریم، 5 )

“ میں اپنے گروہ والوں سے ڈرا”

کبھی دوست کے معنوں میں جیسے قول باری تعالی :

 “يَوْمَ لا يُغْني‏ مَوْلًى عَنْ مَوْلًى شَيْئاً ” (الدخان : 41 )

“ یاد کرو اس دن کو جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہ آئے گا۔”
اسی طرح لفظ اولیٰ بالتصرف کے معنوں میں آتا ہے جیسے ہم لوگوں کا قول کہ فلاں ، فلاں کا ولی ہے۔
کبھی ناصر و محبوب کے معنوں میں تو حضرات اہلسنت کہتے ہیں کہ غالبا حدیث کے معنی یہ ہیں کہ میں جس کا مددگار ہوں یا دوست ہوں یا حبیب ہوں اس کے علی(ع) مددگار ہیں یا دوست ہیں یا حبیب ہیں
۳۳۲

 یہ معنی اگر مان لیے جائیں تو سلف صالحین کے عزت و احترام میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اور خلفاء ثلاثہ کی خلافت بھی بچ جاتی ہے۔

حدیثِ غدیر کی تاویل پر قرینہ

حضرات اہل سنت کہتے ہیں کہ یہی معنی مراد پیغمبر(ص) ہونے پر یہ قرینہ ہے کہ جب حضرت علی(ع) یمن تشریف لے کگئے تھے اور مسلمانوں کی ایک جمعیت آپ کے ساتھ تھی اور کچھ لوگوں کو آپ کی سخت گیری سے تکلیف پہنچی  انھوں نے رسول(ص) کی خدمت میں پہنچ کر آپ کی شکایت کی اور آپ کی برائیاں کیں۔ اسی سبب سے آںحضرت نے غدیر خم میں آپ کی مدح و ثناء بیان کرنے میں اتنا اہتمام کیا۔ آپ کے فضائل و محامد بیان فرمائیے۔ اس سے غرض یہ تھی کہ لوگوں کو حضرت علی(ع) کی جلالت قدر معلوم ہوجائے اور جو ان کے دشمن ہیں ان کی آنکھیں کھل جائیں۔ اس کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ آںحضرت(ص) نے اپنی تقریر میں حضرت علی(ع) کا ذکر خصوصیت سے کیا اور فرمایا کہ جس کا میں مولیٰ ہوں علی(ع) اس کے ولی ہیں۔ اہلبیت(ع) کا ذکر عام طور پر کیا کہ میں تم میں دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ ایک کتاب خدا اور دوسرے میرے عترت و اہلبیت(ع)۔ گویا یہ مسلمانوں سے رسول اﷲ(ص) کی چلتے چلاتے وصیت تھی کی علی(ع) کےساتھ سلوک کرنے میں خصوصیت کے ساتھ میرے حقوق کی حفاظت کا خیال رہے اور اہل بیت(ع) کے متعلق جن سلوک کی عام وصیت تھی۔

حضرات اہل سنت کہتے ہیں کہ اس بناء پر حدیث سے نہ تو یہ ثابت ہے کہ حضرت نے آپ کو اپنا جانشین بنایا اور نہ آپ کے امام ہونے پر یہ حدیث

۳۳۳

 دلالت کرتی ہے۔

                                                     س

  جوابِ مکتوب

حدیث غدیر کی تاویل ممکن نہیں

مجھے یقین ہے کہ آپ نے جو کچھ فرمایا  اس سے خود بھی مطمئن نہیں اور نہ آپ کا میلان ہے اس طرف ، آپ کو آںحضرت کی حکمت بالغہ، شانِ عصمت اور حیثیتِ خاتمیت کا پورا اندازہ ہے، آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ حضرت ختمی مرتبت(ص) تمام اہل حکمت کے سید و سردار اور تمام نبیوں کے خاتم تھے۔ آپ اپنی  خواہش نفسانی سے کبھی تکلم فرماتے ہی نہ تھے ۔ جو کچھ فرماتے وہ ترجمانی ہوتی تھی وحی ربانی کی۔ خداوند عالم نے آپ کو تعلیم دے کر دنیا میں بھیجا تھا۔

سوچیے تو اگر غیر مسلم فسلفی آپ سے واقعہ غدیر کے متعلق پوچھے اور کہے کہ آخر یہ رسول(ص) نے ان لاکھوں مسلمانوں کو غدیر خم میں پہنچ کر سفر جاری رکھنے سے کیوں روک دیا۔ کس لیے ان کو چلچلاتی دوپہر میں تپتی زمین پر ٹھہرایا اور یہ اتنا اہتمام کس مقصد کے لیے تھا کہ جو آگے بڑھ گئے تھے ان کو واپس بلایا اور جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا اور آخر یہ کس لیے چٹیل میدان میں انھیں منزل کرنے پر مجبور کیا جہاں پانی تھا نہ سبزہ، پتھریلی زمین تھی۔ ٹھیک ایسی جگہ پہنچ کر جہاں راہیں بدلتی تھیں، لوگ جدا ہونے والے  تھے۔ آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا تاکہ حاضرین غیر حاضر

۳۳۴

 اشخاص کو پہنچادیں اور آخر یہ ضرورت کون سی آپڑی تھی کہ آپ نے سلسلہ تقریر میں اپنے وقت رحلت قریب ہونے کی خبر دی ۔ چنانچہ آپ نے فرمایا :

“ قریب ہے کہ میرے پروردگار مجھے بلاوا آپہنچے اور مجھے وہاں جانا پڑے۔ وہاں مجھ سے بھی سوال کیا جائے گا اور تم سے بھی بازپرس ہوگی۔”

وہ بات کونسی تھی جس کے متعلق رسول(ص) سے پوچھا جانے والا تھا کہ آپ نے اسے پہنچایا یا نہیں اور امت سے بازپرس کی جانے والی تھی کہ رسول(ص) کی اس بات میں اطاعت کی گئی یا نہیں؟

رسول(ص) کے یہ سوال کرنے کی وجہ کیا تھی کہ کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے کہ بس معبود حقیقی وہی خداوند عالم ہے اور محمد(ص) اس کے بندے اور رسول(ص) ہیں اور جنت حق ہے، جہنم حق ہے موت برحق ہے اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا حق ہے۔ قیامت آنے والی ہے اس کےمتعلق کوئی شبہ نہیں اور خداوند عالم قبروں کے تمام مردوں کو زندہ کرے گا۔

لوگوں نے کہا: بے شک یا رسول اﷲ(ص) ! ہم اس کی گواہی دیتے ہیں اور یہ آخر کس لیے رسول(ص) نے فورا علی(ع) کا ہاتھ پکڑا اور اتنا اونچا کیا کہ سپیدی بغل نمایاں ہوئی اور ارشاد فرمایا:

“ اے لوگو! خداوند عالم میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کا مولیٰ ہوں۔”
اور آپ نے اپنے اس جملہ کی کہ میں مومنین کا مولیٰ ہوں یہ تشریح کیوں فرمائی
“ کہ میں ان پر ان کے نفوس سے زیادہ تصرف و اقتدار رکھتا ہوں۔”

اوریہ تفسیر فرمانے کے بعد آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ :

۳۳۵

“ جس جس کا میں مولیٰ ہوں یہ علی(ع) اس  کے مولیٰ ہیں۔ ” یا جن کا میں ولی ہوں علی(ع) اس کے ولی ہیں۔” خداوندا تو دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے۔ مدد کر اس کی جو علی(ع) کی مدد کرے اور ترکِ نصرت کر اس کی جو علی(ع) کی مدد سے گریز کرے۔”
یہ آخر رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کے لیے خصوصیت سے ایسی دعا کیوں فرمائی جو صرف ائمہ برحق اور سچے خلفاء کے لائق و سزاوار ہے اور یہ کیوں آپ نے مجمع سے پہلے گواہی لے لی تھی یہ کہہ کر کہ “
“ کیا میں تمھارے نفوس پر تم سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا؟”
لوگوں نے کہا: بے شک ، تویہ گواہی لے لینے کے بعد آپ نے فرمایا :
“ کہ میں جس کا مولیٰ ہوں یہ علی(ع) اس کے مولیٰ ہیں” یا “ جس کا میں مولیٰ ہوں یہ علی(ع) اس کے مولیٰ ہیں۔”

اور آخر کس وجہ سے اہل بیت(ع) اور کتاب الہی کو ہم پلہ قرار دیا آپ نے؟ اور صاحب عقل و فہم کے لیے روز قیامت تک انھیں مبتدا اور پیشوا کیوں فرمایا ؟ کس چیز کے لیے حکیمِ اسلام اتنا زبردست اہتمام فرمارہے تھے وہ کونسی مہم تھی جس کے لیے اتنی پیش بندی کی ضرورت لاحق ہوئی وہ کون سی غرض تھی جس کی تکمیل  آپ کو لوگوں کے بھرے مجمع میں مدنظر تھی۔ وہ بات کیا تھی جس کے پہنچانے کا خداوند عالم کی جانب سے اتنا تاکیدی حکم ہوا او آیت اتری کہ :

“ اے رسول(ص) پہنچا دو اس پیغام کو جو تمھارے پروردگار کی جانب سے نازل ہوا ہے اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا کار رسالت ہی انجام نہ دیا۔”
۳۳۶

یہ اتنی شدید تاکید اور دھمکی سے ملتا جلتا حکم دینے کی خدا کو ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ وہ بات کیا تھی جس کے پہنچانے میں رسول(ص) ڈر رہے تھے کہ کہیں فتنہ نہ کھڑا ہوجائے اور اس کے بیان کرنے میں منافقین کی ایذا رسانیوں سے بچنے کے لیے خدا کی حفاظت و حمایت کے ضرورت مند ہورہے تھے۔ اگر یہ سوالات آپ سے کیے جائیں تو کیا آپ اتنی عقل اور سمجھ رکھتے ہوئے یہی جواب دیں گے کہ ان تمام باتوں سے خدا و رسول(ص) کی غرض صرف یہ ظاہر کرنا تھا کہ علی(ع) مسلمانوں کے مددگار اور دوست ہیں۔ میرا تو یہی خیال ہے کہ آپ یہ جواب دینا کبھی بھی پسند نہ کریں گے۔ مجھے وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا  کہ آپ اس قسم کی باتیں اس حکیم مطلق، رب الارباب کے لیے جائز سمجھیں گے۔ نہ حکیم اسلام خاتم النبیین(ص) کے لیے۔ آپ سے بعید ہے کہ آپ رسول(ص) کے لیے یہ جائز و مناسب قرار دیں کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں اور پوری پوری کوشش ایسی چیز واضح کرنے میں صرف کر دیں جو خود روشن اور واضح ہو۔ جس کی وضاحت کی کوئی ضرورت ہی نہ ہو یا ایسے عمل کی وضاحت فرمائیں جسے وجدان و عقل سلیم واضح سمجھیں۔ مجھے تو کوئی شک نہیں کہ آپ یقینا پیغمبر(ص) کے اقوال و افعال کو اس سے بلند و برتر سمجھتے ہوں گے کہ ار باب عقل اس کو معیوب سمجھیں یا فلاسفہ و صاحبان حکمت نکتہ چینی کریں۔

کوئی شبہ نہیں  کہ آپ رسول(ص) کے قول و فعل کی قدر ومنزلت سے واقف ہیں۔ آپ معرفت رکھتے ہیں کہ رسول(ص) کے افعال و اقوال کس قدر حکمت سے لبریز اور شان عصمت کے حامل ہوتے ہیں۔ خداوندِ عالم جس کے متعلق فرمائے :

 “إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ذِى قُوَّةٍ عِندَ ذِى الْعَرْشِ

۳۳۷

مَكِين‏مُّطَاعٍ ثمَ‏َّ أَمِينٍ وَ مَا صَاحِبُكمُ بِمَجْنُون‏

“ بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتہ ( جبریل(ع)) کی زبان کا پیغام جو بڑا قوی، عرش کےمالک کی بارگاہ میں بلند رتبہ ہے۔ سب فرشتوں کا سردار ، امانتدار ہے اور ( مکہ والو) تمھارے ساتھی(محمد(ص)) دیوانے نہیں ہیں۔”

وہ واضح باتوں کی وضاحت اور بدیہی چیزوں کے بیان کرنے کے لیے اتنا اہتمام کرے گا اور ان اظہر من الشمس چیزوں کو واضح کرنے کے لیے ایسا سازو سامان فراہم کرے گا۔ ایسی بے تکی و بے ربط پیش بندیاں کرے گا۔ خدا و رسول(ص) کی ذات ان مہملات سے کہیں پاک وصاف اور بزرگ و برتر ہے۔

آپ یقینا یہ جانتے ہوں گے کہ اس چلچلاتی دوپہر میں، اس موقع و محل کے مناسب اور غدیر کے دن کے افعال اقوال کے لائق و سزاوار یہی بات تھی کہ آپ اپنی ذمہ داری پوری کردیں اور اپنے بعد کے لیے جانشین معین فرمائیں۔

آںحضرت(ص) کا انداز گفتگو جچے تلے الفاظ، واضح عبارت بھی یہی کہتی ہے اور عقلی دلیلوں سے بھی اسی بات کا قطع و یقین ہوتا ہے کہ آںحضرت(ص) کا مقصد اس دن یہی تھا کہ حضرت علی(ع) کو اپنا ولیعہد اور اپنے بعد جانشین و قائم مقام کر جائیں۔

لہذا یہ حدیث ان تمام قرائن کے ساتھ جسے الفاظ حدیث اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں، امیرالمومنین(ع) کی خلافت و امامت کے متعلق صریحی نص ہے کسی تاویل کی گنجائش نہیں اور نہ اس معنی کو چھوڑ کر دوسرے معنی مراد لینے  کی گنجائش نکلتی ہے۔ یہ تو ایسی واضح چیز ہے کہ کسی دلیل کی ضرورت ہی

۳۳۸

 نہیں بشرطیکہ انسان چشم بینا اور گوش شنوا رکھے۔

اور آپ حضرات اہل سنت جس قرینہ کا ذکر فرماتے ہیں وہ بہت ہی رکیک اور بالکل ہی غلط بیانی ہے۔ اس لیے کہ آںحضرت(ص) نےعلی(ع) کو دو مرتبہ یمن کی جانب بھیجا پہلی مرتبہ سنہ8 ھ میں اس مرتبہ لوگوں نے امیرالمومنین (ع) کے

متعلق تہمت تراشی کی اور مدینہ واپس آکر رسول(ص) کی خدمت میں شکایتیں کیں جو رسول(ص) کو بہت ناگوار گزریں۔(1) یہاں تک کہ غیظ و غضب کے آثار آپ کے چہرے سے نمایاں ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پھر کسی کو جسارت ایسا  کرنے کہ نہ ہوئی۔

اور دوسری مرتبہ سنہ10ھ میں گئے۔ اس مرتبہ آپ نے حضرت علی(ع) کو علم لشکر دیا اور سر پر عمامہ باندھا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ روانہ ہو اور ادِھر اُدھر  توجہ نہ کرنا۔ حضرت علی(ع) روانہ ہوئے وہاں پہنچ کر رسول(ص) کے امور انجام دیے اور وہاں سے مکہ پہنچ کر حجة الوداع میں رسولص) کے ساتھ ہوگئے۔ اس مرتبہ نہ تو کسی کینہ ور کو کینہ ظاہر کرنے کی نوبت آئی نہ کسی دشمن کو دشمنی کرنے کا موقع ملا۔ لہذا یہ کہنا کیونکر درست ہوسکتا ہے کہ رسول(ص9 نےغدیر خم میں جو کچھ کہا اس کا سبب وہی علی(ع) پر اعتراض کرنے والے ہیں یا آںحضرت(ص) نے دشمنان و مخالفین امیرالمومنین(ع) کی رد میں ایسا کیا۔

علاوہ اس کے محض علی(ع) کی مخالفت و دشمنی تو ایسی چیز نہیں ہوسکتی کہ اس کے سبب رسول(ص) علی(ع) کی مدح و ثنا کرنے کے لیے اتنا اہتمام فرمائیں۔ تپتی زمین پر جلتی دھوپ میں مسلمانوں کو بٹھا کے پالانوں کا منبر تیار کرا کے اس شد ومد سے علی(ع) کےفضائل بیان کریں۔ ہاں معاذ اﷲ رسول(ص) کو اگر اپنے افعال و

--------------

1ـ ملاحظہ کیجیے صفحہ244 تا صفحہ 250۔

۳۳۹

 اقوال ، اپنے قصد و ارادہ میں اس قدر ہرزہ کار سمجھ لیا

جائے تو یہ دوسری بات ہے۔ آپ کی شانِ حکیمانہ اور انداز عصمت ان مزخرفات و مہملات سے کہیں پاک و صاف ہے۔ خداوند عالم تو اپنے رسول(ص) کےمتعلق فرماتا ہے:

إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ  قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ وَ لَا بِقَوْلِ كاَهِنٍ  قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ

تَنزِيلٌ مِّن رَّبّ‏ِ الْعَالَمِين‏

اگر صرف حضرت علی(ع) کے فضائل کا بیان کرنا یا مخالفین کی رد ہی آںحضرت(ص) کو مقصود ہوتی تو آپ کہہ سکتے تھے کہ یہ میرے چچا زاد بھائی ہیں، میرے داماد ہیں، میرے نواسوں کے باپ ہیں، میرے اہلبیت کے سید و سردار ہیں۔ تم لوگ ان کے ساتھ بدسلوکی کرکے مجھے اذیت نہ پہنچانا یا اسی جیسی اور باتیں فرماسکتے تھے جن سے صرف آپ کا فضل و شرف اور جلالت قدر ظاہر ہوتی حالانکہ الفاظ حدیث سے وہی باتیں ذہن میں آتی ہیں جو ہم نے بیان کیں۔

لہذا حدیث کے بیان کا کوئی سبب بھی ہو الفاظ سے جو معنی فورا زہن میں آتے ہیں وہی مراد ہوں گے اور اسباب پر اعتنا نہ کی جائے گی۔

اس حدیث غدیر میں اہل بیت(ع) کا جو ذکر ہوا تو یہ ہمارے ہی بیان کیے ہوئے معنی کا موئد ہے۔ ہم نے جو کچھ سمجھا ہے اسی کی تائید ہوتی ہے کیونکہ رسول(ص) نے اس حدیث میں اہل بیت(ع) کو قرآن مجید کا ہم پلہ قرار دیا ہے اور ارباب عقل کے لیے نمونہ ہدایت فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ م“ میں تم میں ایسی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم مضبوطی سے تھامے رکھو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتاب خدا، دوسرے عترت و اہلبیت(ع)۔ آپ نے ایسا

۳۴۰