دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 244159
ڈاؤنلوڈ: 5268

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 244159 / ڈاؤنلوڈ: 5268
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 اس لیے کیا اور اس وجہ سے فرمایا کہ امت والے جان لیں، سمجھ لیں کہ رسول(ص) کی آنکھ بند ہونے کے بعد بس ان ہی دو چیزوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے، یہی دونوں بھروسہ کے لائق ہیں۔ ائمہ اہلبیت(ع) کی اطاعت و اتباع واجب ولازم ہونے کا آپ اسی سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ آںحضرت(ص) نے انھیں کتابِ خدا کے برابر قرار دیا ہے۔ کتاب خدا جس کے پاس باطل کا گزر تک نہیں اس کا پم پلہ انھیں فرمایا ہے لہذا جس طرح کتاب الہی کو چھوڑ کر کسی دوسری کتاب کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں ہوسکتا۔ بعینہ اسی طرح ائمہ اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر ان کے مختلف کسی امام کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں۔ اور آںحضرت(ص) کا یہ فرمانا کہ یہ دونوں کبھی ختم نہ ہوں گے یا کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچیں۔ دلیل ہے اور واضح دلیل ہے کہ آںحضرت(ص) کے بعد زمین ان ائمہ اہل بیت(ع) سے خالی نہیں ہوسکتی ۔ ان میں کا کوئی نہ کوئی فرد ہر زمانہ اور ہر وقت میں ضرور موجود رہے گا۔ جو ہم پلہ کتاب الہی کا ہوگا۔

اگر آپ اس حدیث پر اچھی طرح غور و تدبر فرمائیں تو یہ حقیقت آپ پر منکشف ہوگی کہ آںحضرت(ص) نے یہ ارشاد فرما کر خلافت کو ائمہ طاہرین (ع) ہی میں منحصر کردیا ہے ۔ ان کے علاوہ کی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے امام احمد نے اپنی مسند جلد5 صفحہ132 پر زید بن ثابت سے روایت کی ہے۔ زید بن ثابت کہتے ہیں:

“ کہ آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا : میں تم میں اپنے دو جانشین چھوڑے جاتا ہوں کتاب خدا جو ایک رسی ہے جس کا سلسلہ آسمان سے زمین تک ہے دوسرے میری عترت  و اہلبیت(ع) ۔”
۳۴۱

آپ بے خبر نہ ہوں گے کہ عترت کی اتباع کو واجب ولازم کرنا بعینہ امیرالمومنین(ع) کی اطاعت و اتباع کو واجب کرنا ہے۔ اس لیے کہ آپ راس و رئیس اہلبیت(ع) تھے لہذا حدیثِ غدیر ہو یا اس جیسی دیگر حدیثیں سب کی سب حضرت علی(ع) ہی کی امامت و خلافت کی ںصوص صریحہ ہیں۔ سب سے آپ ہی کی امامت ثابت ہوتی ہے۔ جو حدیثیں اہلبیت(ع) کے متعلق ہیں جن میں اہلبیت(ع) کی اطاعت و اتباع کو واجب فرمایا ہے رسول(ص) کی ان حدیثوں سے آپ کی امامت یوں ثابت ہوتی ہے کہ آپ راس و رئیس تھے عترت و اہلبیت(ع) کے۔ وہ اہلبیت(ع) جن کی منزلت خدا و رسول(ص) کے نزدیک کلام الہی جیسی تھی اور جو روایتیں خود امیرالمومنین(ع) کے متعلق وارد ہوئی ہیں ان سے بلحاظ آپ کی گراں قدر شخصیت اور جلالت و عظمت کے آپ کی امامت ثابت ہوتی ہے اور یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ ہر اس شخص کے ولی تھے جس کے رسول اﷲ(ص) ولی تھے۔

                                             فقط و السلام

                                                             ش

۳۴۲

مکتوب نمبر30

حق کا بول بالا

آپ ایسے نرم لب ولہجہ میں اپنا مطلب بیان کرنے والا میں نے نہیں پایا اور نہ آپ کا زور استدلال کسی میں دیکھا ۔ آپ نے جن قرائن کا ذکر کیا ان پر غور کرنے سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں وہی ٹھیک ہے۔ شک و شبہات کے بادل چھٹ گئے اور یقین کے چہرے سے شکوک کے پردے اٹھ گئے۔ اب ہمیں کوئی تردید باقی نہ رہا کہ یقینا حدیث غدیر میں لفظ ولی و مولیٰ سے مراد اولی بالتصرف ہے ، نہ کہ کچھ اور۔ کیونکہ اگر اس لفظ سے ناصر یا محب وغیرہ مقصود ہوتے تو پھر حارث کو عذاب کا سوال کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی لہذا لفظ مولیٰ کے متعلق آپ کی جو

۳۴۳

 رائے ہے وہی پایہء تحقیق کو پہنچتی ہے اور وہی درست ہے۔

اچھا ایسا کیوں نہیں کہ آپ بھی اس حدیث کی تفسیر میں وہی مسلک اختیار کریں جو ہمارے بعض علماء مثلا علامہ ابن حجر مکی نے اپنی کتاب صواعق محرقہ میں اور علامہ حلبی نے سیرتِ حلبیہ میں اس حدیث کی تفسیر میں اختیار کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت علی(ع) اولیٰ بالامامت تھے۔ آپ ہی کے لیے امامت زیبا تھی۔ لیکن مقصود نتیجہ کا رد مالِ کار ہے یعنی رسول(ص) کا مقصد یہ تھا کہ جب خلفاء ثلاثہ کا دور گزر جائے گا اور حضرت علی(ع) کو لوگ اپنا امام منتخب کریں گے تو اس وقت صرف حضرت علی(ع) ہی اولیٰ بالامامت ہوں گے۔ اگر یہ معنی نہ لیے جائیں تو خرابی یہ لازم آتی ہے کہ آنحضرت(ص) کی موجودگی ہی میں حضرت علی(ع) کا امام ہونا لازم آتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ آںحضرت (ص) کے حینِ حیات آپ کے امام ہونے کے کوئی معنی نہیں ۔ لہذا مقصود پیغمبر(ص) یہ تھا کہ جب مرگ آپ کی بیعت کریں، آپ کو خلیفہ منتخب کریں، آپ کی امامت پر اجماع کریں اجماع کریں اس وقت آپ ہی اولیٰ بالامامت ہیں۔

اگر یہ معنی لیے جائیں تو خلفاء ثلاثہ کی خلافت معرض خطر میں نہیں پڑتی۔ اگر یہ معنی لیے جائیں تو سلف صالحین جو حضرت علی(ع) کو چوتھا خلیفہ مانتے ہیں ان کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں آتا اور آپ جو ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ بھی ثابت ہوجائے گا۔

                                                                     س

جواب مکتوب

آپ نے فرمایا کہ ہم آپ کے کہنے سے یہ مان لیں کہ حدیثِ غدیر

۳۴۴

 میں حضرت علی(ع) کو جو اولیٰ کہا گیا ہے اس سے یہ مطلب ہے کہ حضرت علی(ع) اس وقت اولیٰ بالامامت تھے جب مسلمان آپ کو امامت کے لیے منتخب کر لیں اور آپ کی بیعت کریں۔ لہذا آپ کے قول کی بنا پر حضرت علی(ع) کا اولیٰ ہونا جس کا اعلان رسول(ص) نے بروز غدیر کیا تھا باعتبار مال و نتیجہ کے تھا۔ حضرت علی(ع) زمانہء آیندہ میں اولیٰ بالامامت تھے، فی الحال نہیں۔ جس وقت رسول(ص) نے فرمایا تھا اس وقت نہیں۔ دوسرے الفاظ میں آپ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی(ع) بالقوہ اولی بالامامت تھے، بالفعل نہیں تاکہ یہ حدیث آپ کے پہلے تین خلفاء کی خلافت کے منافی نہ ہو۔ بہت اچھا ، بہتر ہے ، مگر ہم آپ کو عدل و انصاف کا واسطہ دیتے ہیں آپ سے بقسم پوچھتے ہیں کہ آپ اپنے قول پر جمے رہیں گے۔ اس سے ہٹیں گے تو نہیں؟ تاکہ ہم بھی آپ کے قدم بہ قدم چلیں، آپ ہی کی روش اختیار کریں۔

اور کیا آپ راضی ہیں اس پر کہ یہ  سہرا آپ ہی کے سر باندھا جائے یا اس قول کی آپ کی طرف نسبت دی جائے کہ ہم بھی آپ کے ہم خیال و ہمنوا ہوجائیں۔

مجھے تو یقین ہے اور کامل یقین ہے کہ نہ تو آپ اس معنی پر جمے رہیں گے اور نہ اس پر راضی ہوں گے۔ ہمیں تو یقینی طور پر علم ہے اس کا کہ آپ خود ان لوگوں پر تعجب کرتے ہوں گے جو اس معنی کے مراد ہونے کا احتمال پیدا کرتے ہیں حالانکہ نہ تو الفاظ حدیث اس معنی کو بتاتے ہیں نہ حدیث سن کر کسی سننے والے کے ذہن مین یہ معنی آتے ہیں اور نہ یہ معنی حکیم اسلام کی حکمت و بلاغت سے لگاؤ رکھتا ہے نہ غدیر کےدن حضرت (ص) کے غیر معمولی افعال و اقوال سے اس معنی کو کوئی مناسبت ہے اور نہ ان

۳۴۵

 قطعی قرائن سے جن کا ہم نے سابق میں ذکر کیا کوئی ربط ہے اور نہ حارث بن نعمان فہری کے سمجھے ہوئے معنی سے کوئی تعلق ہے ۔ علاوہ اس کے آپ کا یہ کہنا کہ حضرت علی(ع) اولی بالامامت جو تھے وہ باعتبار نتیجہ و مال کار کے تھے یہ عموم حدیث سے مرتبط ہی نہیں، الفاظِ حدیث بتاتے ہیں کہ حضرت علی(ع) ہر اس شخص کے مولی تھے جس کے رسول(ص) مولیٰ تھے اور آپ کے قول کی بنا پر صرف اپنے ہی زمانہ خلافت کے لوگوں کے مولیٰ ثابت ہوتے ہیں لہذا آپ کے قول کی بنا پر نہ تو حضرت علی(ع) خلفاء ثلاثہ کے مولیٰ ہوئے اور نہ ان لوگوں میں سے کسی ایک کے مولیٰ ہوئے جو زمانہء خلافت خلفاء ثلاثہ میں انتقال کرگئے اور یہ صریحی طور پر ارشاد رسول(ص) کے مغائر ہے ۔ رسول(ص) نے تو ان لوگوں سے پوچھا تھا ۔ کیا میں  مومنین سے اولی نہیں؟ لوگوں نے کہا تھا۔ بے شک ۔ آپ ہم سب کے مولیٰ ہیں۔ اس پر آںحضرت(ص) نے فرمایا تھا تو میں جس جس کا ( فردا فردا) مولی تھا علی(ع) اس کے مولیٰ ہیں۔ بغیر کسی استثناء کے آپ نے حضرت علی(ع) کو ہر ہر شخص کا مولیٰ قرار دیا۔ لطف یہ ہے کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر(1) نے روز غدیر جب رسول(ص) کا یہ ارشاد سنا تو امیر المومنین(ع) سے کہا تھا:

“ اے فرزند ابوطالب! آپ ہر مومن اور مومنہ کے مولیٰ ہوگئے۔”

ان دونوں بزرگواروں نے تصریح کردی ہے کہ حضرت علی(ع) ہر مومن ومومنہ

--------------

1ـ جیسا کہ دار قطنی کی روایت ہے ۔ ملاحظہ ہو صواعق محرقہ صفحہ26 باب اول فصل خامس ان کے علاوہ بکثرت محدثین نے اپنے اپنے طرق و اسناد سے اس کی روایت کی ہے امام احمد نے اس قول کو بسلسلہ احادیث براء بن عازب مسند جلد4 صفحہ 285 پر درج کیا ہے صفحہ 272 پر سابقا ہم ذکر کرچکے ہیں۔

۳۴۶

 کے ولی تھے۔ علی سبیل الاستغراق کوئی فرد مستثنی نہ تھا۔

ایک مرتبہ حضرت عمر(1) سے کہا گیا کہ آپ حضرت علی(ع) کے ساتھ ایسا مخصوص برباؤ کرتے ہیں جیسا کہ صحابی پیغمبر(ص) کے ساتھ نہیں کرتے۔ حضرت عمر نے جواب دیا ۔ یہ میرے مولیٰ ہیں۔

حضرت عمر کا صریحی اقرار ہے کہ آپ ان کے مولیٰ تھے۔ حالانکہ اس وقت نہ تو لوگوں نے آپ کو خلافت کے لیے منتخب کیا

تھا اور نہ آپ کی بیعت ہی کی تھی۔ لہذا قطعی طور پر ثابت ہوا کہ حضرت علی(ع) حالا مولی تھے جس وقت پیغمبر(ص) نے خدا کے حکم سے برسر منبر اس کا اعلان کیا اس وقت سے مولی ہوگئے۔

دو اعرابی کسی نزاعی مسئلہ میں حضرت عمر کے پاس فیصلہ کے لیے آئے۔ حضرت عمر نے حضرت علی(ع) سے کہا کہ آپ فیصلہ کریں۔ ان میں سے ایک سے کہا : یہ ہمارا چکائیں گے؟ حضرت عمر نے لپک(2) کر اس اعرابی کی گردن پکڑ لی اور کہنے لگے:

“ کم بخت جانتا ہے یہ کون ہے؟ یہ تمھارے مولیٰ ہیں۔ اور ہر مومن کے مولیٰ ہیں اور جس کے یہ مولیٰ نہیں وہ مومن ہی نہیں۔”

اس بارے میں بہت سی روایات و احادیث موجود ہیں۔

آپ اس سے بھی بے خبر نہ ہوں گے کہ علامہ ابن حجر مکی اور ان کے ہم خیالوں کی اپج جو انھوں نے حدیث غدیرمیں نکالی ہے صحیح سمجھ لی جائے

--------------

1ـ جیسا کہ وار قطنی کی روایت ہے۔ ملاحظہ ہو صواعق محرقہ ص26

2ـ دار قطنی نے اس واقعہ کی روایت کی ہے۔ ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب 11 فصل اول۔

۳۴۷

 تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاذ اﷲ پیغمبر(ص) کا غدیر کے دن ہر قول و فعل بیہودہ و مہمل سمجھا جائے ، رسول(ص) ہرزہ کار سمجھے جائیں۔ کیونکہ علامہ ابن حجر کی اس نرالی منطق کی بنا پر غدیر کے دن اس سارے ساز و سامان ، غیر معمولی اہتمام کا مقصد ہی کچھ نہیں نکلتا۔ سوا اس کے کہ رسول(ص) یہ بیان کرنا چاہتے تھے کہ علی(ع) کی جب لوگ بیعت

کرلیں تب یہ اولیٰ بالامامت ہوں گے اور یہ معنی تو ایسے ہیں کہ سمجھ والے تو سمجھ والے، ناسمجھ بھی ہنس دیں گے۔ اس معنی کے بنا پر امیرالمومنین(ع) کو اعتبار ہی کیا حاصل ہوا۔ دوسروں کے مقابلہ میں آپ کی خصوصیت ہی کیا ثابت ہوئی۔ اس لیے کہ جس کی بیعت ہوجاتی امامت کے لیے جس کو بھی مسلمان منتخب کر لیتے۔ اولی بالامامت ہوتا ۔ اس معنی سے تو حضرت علی(ع) اور آپ کے ماسوا تمام صحابہ سب ہی برابر ہوئے۔ اگر آپ کی نرالی منطق درست سمجھ لی جائے تو یوم غدیر رسول(ص) نے چلچلاتی دھوپ

میں تپتی زمین پر لاکھوں مسلمانوں کو روک کر اتنا زبردست اہتمام فرماکر کون سی اہم بات فرمائی ، بمقابلہ دیگر اصحاب کون سی مخصوص فضیلت حضرت علی(ع) کی بیان کی۔

علامہ ابن حجر وغیرہ کا یہ کہنا کہ حضرت علی(ع) کا اولی بالامامت ہونا مالا اگر نہ مانا جائے تو اس صورت میں حضرت علی(ع) کا رسول(ص) کے جیتے جی امام ہونا لازم آگے گا۔ تو یہ نرالی فریب دہی ہے۔ اور انبیاء وخلفاء و ملوک و امراء کا جو دستور ہمیشہ سے چلا آرہا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی زندگی ہی میں اپنا جانشین مقرر کرتے آئے اس سے غفلت شعاری اور تغافل کیسی ہے حدیث “ انت منی بمنزلة ہارون من موسیٰ” جس مطلب پر دلالت کرتی ہے اس سے عمدا نا واقفیت کا اظہار اور دعوتِ غشیرہ کے موقع پر آںحضرت(ص) نے جو فرمایا تھا۔“ فاسمعوا لہ و اطیعوا”

۳۴۸

 ان کی بات سننا اور ان کی اطاعت کرنا یا اسی جیسے دیگر ارشادات پیغمبر(ص) کو بھلا دینا ہے۔

علاوہ اس کے اگر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ علی(ع) کا اولیٰ بالامامت ہونا غیر ممکن ہے کیونکہ رسول(ص) کی زندگی ہی میں ان

کا امام ہونا لازم آئے گا تو کم سے کم رسول(ص) کی آنکھ بند ہونے کے بعد سے تو حضرت علی(ع) ہی کو اولیٰ بالامامت ہونا چاہیے۔بیچ میں فاصلہ تو نہ ہونا چاہیے جیسا کہ طے شدہ مسئلہ ہے۔ علمائے معانی و بیان کا بنایا ہوا قاعدہ ہے کہ جب کسی حقیقی معنی پر عمل کرنا دشوار ہوتو مجازی معنوں میں جو معنی قریب ترین ہو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ لہذا من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ ۔ میں لفظ مولیٰ کو اگر اس کے حقیقی معنی اولی بالامامت پر حمل کرنا دشوار سمجھتے ہیں کیونکہ نبی کی زندگی میں امام لازم آئے گا تو اس کے یہ معنی سمجھیے کہ رسول(ص) کی آنکھ بند ہوتے ہی بغیر کسی فصل کے یہ اولیٰ بالامامت ہیں۔

رہ گیا یہ کہ مولیٰ سے اولیٰ بالامامت اگر مالا مراد لیا جائے تو سلف صالحین کا احترام باقی رہے گا اور حالا اولیٰ بالامامت سمجھا جائے تو نہیں۔ تو یہ بالکل ہی غلط ہے ۔ مولیٰ سے اولیٰ بالامامت حالا مراد لینے پر بھی سلف صالحین کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں آسکتا ان کا احترام تاویل کے بغیر بھی باقی رہتا ہے۔ جیسا ہم آئندہ اگر ضرورت پیش آئی تو اس کی وضاحت کریں گے۔

                                                                     ش

۳۴۹

مکتوب نمبر31

شیعوں کے سلسلہ سے ںصوص کی خواہش

جب سلف صالحین کا احترام محفوظ ہے تو آپ نے حضرت علی(ع) کی امامت کے متعلق جتنی حدیثیں ذکر فرمائیں خواہ حدیث غدیر ہو یا ددیگر احادیث تو کوئی حرج نہیں اور ہمیں ان میں خواہ مخواہ تاویل کی بھی ضرورت نہیں۔ شاید آپ کے یہاں اس مسئلہ سے متعلق اور بھی حدیثیں ہیں۔ جن سے اہلسنت بے خبر ہیں۔ بڑی مہربانی ہوگی آپ اپنے یہاں کی ان احادیث کو بھی ذکر فرمائیے تاکہ ہمیں بھی واقفیت حاصل ہو۔

                                                                     س

۳۵۰

جوابِ مکتوب

ہاں ہمارے یہاں اور بھی بہت سی صریحی نصوص امامت و خلافتِ امیرالمومنین(ع) کے متعلق کتب احادیث میں موجود ہیں جن کی اہلسنت کو خبر نہیں۔ وہ تمام کی تمام حدیثیں صحیح ہیں، بطریق اہلبیت طاہرین(ع) مروی ہیں۔ ہم چالیس(40) حدیثیں آپ کو سناتے ہیں:

1ـ جناب صدوق محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی نے اپنی کتاب اکمال الدین و اتمام النعمہ میں عبدالرحمن بن سمرہ سے اسناد کر کے آںحضرت(ص) سے ایک حدیث درج فرمائی ہے

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : اے ابن سمرہ ، جب خواہشیں لوگوں کی باہم مخالف ہوں اور خیالات مختلف ہوں تو تم علی(ع9 ابن ابی طالب کا دامن پکڑے رہنا ۔ وہ میری امت کے امام اورمیرے بعد میرے خلیفہ و جانشین ہیں۔”

2ـ جنابِ صدوق نے اپنی اسی کتاب اکمال میں، ابن عباس سے روایت کی ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ :

“ رسول(ص) نے فرمایا :  کہ خداوند عالم نے زمین پر نگاہ ڈالی۔ تمام روئے زمین کے باشندوں میں  مجھے منتخب فرماکر نبی بنایا پھر دوسری مرتبہ نگاہ کی اور علی(ع) کو منتخب فرما کر امام بنایا، پھر مجھے حکم دیا کہ میں
۳۵۱

 انھیں اپنا بھائی، ولیعہد، وصی، جانشین اور وزیر بناؤں ۔”

3ـ اسی کتاب اکمال میں بسلسلہ اسناد امام جعفر صادق(ع) اور انھوں نے اپنے آباء طاہرین علیہم السلام سے روایت کی ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا :

“ جبرئیل امین(ع) نے مجھ سے منجانب پروردگار عالم بیان کیا کہ جو شخص علم رکھتا ہو کہ کوئی معبود نہیں سوائے میری ذات دیکتا کے اور محمد(ص) میرے بندے اور میرے رسول(ص) اور علی بن ابی طالب(ع) میرے خلیفہ اور ان کی اولاد میں گیارہ امام میری حجتیں ہیں۔ تو میں اس شخص کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کروں گا۔”

4ـ اسی اکمال میں جناب صدوق نے بسلسلہ اسناد امام جعفر صادق(ع) سے اور انھوں نے اپنے آبا و اجداد طاہرین(ع) سے روایت کی ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ :

“ میرے بعد بارہ(12) امام ہوں گے ۔ سب سے پہلے علی(ع) اور سب کے آخر میں قائم ہیں۔ یہ میرے بارہ(12) خلفاء اور میرے اوصیاء ہیں۔”

5ـ اسی اکمال میں جناب صدوق بسلسلہ اسناد اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں۔ اصبغ کہتے ہیں کہ :

“ ایک دن امیرالمومنین(ع) ہمارے پاس تشریف لائے اس طرح کہ آپ کا ہاتھ آپ کے فرزند امام حسن(ع) کے
۳۵۲

 ہاتھ میں تھا۔ امیرالمومنین(ع) فرمارہے تھے کہ رسول اﷲ(ص) بھی ہم لوگوں کے درمیان ایک دن اسی طرح تشریف لائے اور ان کے ہاتھ میں میرا ہاتھ تھا اور آپ فرمارہے تھے کہ میرے بعد بہترین خلائق اور ان کا سید و سردار و میرا بھائی ہے۔ یہ میرے بعد ہر مسلم اور ہر مومن کا امیر ہے۔”

6ـ اسی اکمال میں جناب صدوق بسلسلہ اسناد امام رضا(ع) سے اور وہ اپنے آباء طاہرین(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : جو شخص یہ چاہتا ہے کہ میرے دین پر قائم رہے اور میرے نجات کی کشتی پر سوار ہو، وہ علی(ع) کی پیروی کرے وہ میرے وصی اورمیری امت میں میرے جانشین وخلیفہ ہیں۔ میری زندگی میں بھی اور میرے مرنے کے بعد بھی۔”

7ـ اسی اکمال میں جناب صدوق بسلسلہ اسناد امام رضا(ع) سے اور وہ اپنے آباء طاہرین(ع) سے روایت کرتے ہیں :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : میں اور علی(ع) اس امت کے باپ ہیں جس نے ہمیں پہچانا اس نے خدا کو پہچانا اور جس نے ہمیں نہ پہچانا اس نے خدا کو نہ پہچانا اور علی(ع) ہی کے فرزند امت کے سبطین ہیں اور سرداران جوانانِ جنت ہیں یعنی حسن(ع) و حسین(ع) اور حسین(ع) کے نو فرزند ہوں گے ان کی اطاعت میری
۳۵۳

 اطاعت اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی ہے۔ نواں فرزند قائم اور مہدی ہوگا۔”

8ـ اسی اکمال میں امام حسن عسکری(ع) سے مروی ایک حدیث جناب صدوق نے لکھی ہے ۔ امام حسن عسکری(ع) نے اپنے آباء طاہرین(ع) روایت کی ہے کہ :

“ آںحضرت (ص) نے فرمایا : اے ابن مسعود! علی بن ابی طالب(ع) میرے بعد تمھارے امام ہیں اور تم میں میرے جانشین ہیں۔”

9ـ اسی اکمال میں بسلسلہ اسناد جناب سلمان فرماتے ہیں کہ :

“ میں رسول(ص) کی خدمت میں پہنچا دیکھا کہ حسین(ع) آپ کے زانو پر بیٹھے ہیں اور رسول(ص) ان کے ہونٹوں کو چوم رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں، تو سید وسردار ہے۔ سید و سردار کا بیٹا ہے ، تو امام ہے، امام کا بھائی ہے، امام کا بیٹا ہے اور اماموں کا باپ ہے، تو خدا کی حجت ہے ، خدا کی حجت کا فرزند ہے اور خدا کی نو حجتوں کا باپ ے جو سب کے سب تیرے سلب سے ہوں گے۔ نواں قائم ہوگا۔”

10ـ اسی اکمال میں جناب صدوق بسلسلہ اسناد جناب سلمان سے روایت کرتے ہیں۔ ایک طولانی حدیث ہے جس کا ٹکڑا یہ ہے کہ :

“ آںحضرت (ص) نے اپنی پارہ جگر جناب سیدہ (س) سے فرمایا :
۳۵۴

 کیا تم جانتی نہیں کہ ہم وہ اہل بیت(ع) ہیں کہ خداوند عالم نے ہمارے لیے بمقابلہ دینا ، آخرت کو پسند کیا اور خداوند عالم نے ایک نگاہ روئے زمین پر ڈالی اور تمام خلائق میں مجھے منتخب کیا۔ پھر دوبارہ نگاہ کی اور تمھارے شوہر کو منتخب کیا اور خداوند عالم نے مجھے وحی فرمائی کہ تمھاری شادی ان سے کردوں اور انھیں اپنا ولی بناؤں اور وزیر بناؤں اور اپنی امت میں اپنا جانشین مقرر کروں پس تمھارا باپ تمام انبیاء سے بہتر اور تمھارا شوہر تمام اوصیاء سے بتر اور تم پہلی وہ فرد ہو جو مجھ سے ملحق ہوگی۔”

11ـ جناب صدوق نے اسی اکمال میں ایک  طولانی حدیث درج کی ہے جس میں ذکر ہے کہ :

“ دو(2) سو سے زیادہ مہاجرین و انصار عہد حضرت عثمان میں مسجد کے اندر جمع ہوئے۔ علمی تذکرہ اور فقہ کی باتیں ہونے لگیں اور آگے چل کر فخر و مباہات ہونے لگی ۔ حضرت علی(ع) چپ تھے۔ لوگوں نے حضرت علی(ع) سے کہا آپ کچھ کیوں نہیں فرماتے ۔ تو آپ نے ان کو رسول(ص) کا وہ ارشاد یاد دلایا  جس میں آںحضرت(ص) نے فرمایا تھا کہ علی(ع) میرے بھائی ہیں، میرے وزیر ہیں۔ میرے وارث ہیں، وصی ہیں اور میری امت میں میرے جانشین  ہیں اور میرے بعد
۳۵۵

 ہر مومن کے  ولی ہیں تو سارے مجمع نے اقرار کیا کہ بے شک رسول(ص)نے آپ کے متعلق یہ فرمایا تھا۔”

12ـ اسی اکمال میں جناب صدوق نے عبداﷲ بن جعفر، امام حسن(ع) ، امام حسین(ع) ، عبداﷲ بن عباس، عمر بن ابی سلمہ، اسامہ بن زید سلمان ، ابوذر ، اور مقداد مندرجہ بالا حضرات میں سے ہر بزرگ سے روایت کی ہے۔ ان میں سے ہر شخص کا بیان ہے کہ :

“ ہم نے رسول(ص) کو کہتے سنا : کہ میں تمام مومنین میں ان سے بڑھ کر صاحبِ اختیار ہوں، پھر میرے بھائی علی(ع) مومنین کے مالک و مختار ہیں۔”

13ـ اسی کمال میں جناب صدوق نے اصبغ بن نباتہ سے روایت کی ہے انھوں نے ابن عباس سے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ:

“ میں نے رسول(ص) کو کہتے سنا کہ : میں اور علی(ع) اور حسن(ع) و حسین(ع) اور حسین(ع) کے نو فرزند پاک و پاکیزہ ہیں۔”

14ـ اسی اکمال میں جناب صدوق نے غبایہ بن ربعی سے انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : میں نبیوں کا سردار ہوں اور علی(ع) تمام اوصیاء کے سردار ہیں۔”

15ـ اسی اکمال میں جناب صدوق نے امام جعفر صادق(ع) سے انھوں نے اپنے آباء طاہرین (ع) سے روایت کی ہے کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : خداوند عالم نے تمام انبیاء کے درمیان مجھے منتخب کیا اور مجھ سے علی(ع) کو منتخب کیا۔
۳۵۶

 اور انھیں تمام اوصیاء پر فضیلت بخشی اور علی(ع) سے حسن(ع) و حسین(ع) کو منتخب کیا اور حسین(ع) سے ان کی نسل میں اوصیاء کا انتخاب فرمایا جو دین سے غالیوں کی تحریف اور باطل کاروں کی تہمت تراشی اور گمراہوں کی تاویل کو دور رکھیں گے”

16ـ اسی اکمال میں جناب صدوق نے امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے امیرالمومنین (ع) فرماتے ہیں کہ :

“ حضرت سرور کائنات(ص) نے فرمایا : میرے بعد بارہ(12) امام ہوں گے ان سب کے اول تم ہو اے علی(ع) اور سب سے آخر قائم ہیں جن کے ہاتھوں پر خداوند عالم مشرق و مغرب کو فتح کرے گا۔ ( اکمال الدین و اتمام النعمة باب 24 صفحہ149 تا 167 یہ حدیثیں اور اس کے اوپر کی حدیثیں مذکور ہیں۔)

17ـ جناب صدوق نے امالی میں امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے جسے انھوں نے اپنے آباء طاہرین(ع) سے مرفوعا بیان کیا کہ :

“ آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا : علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔ علی(ع) میری طینت سے پیدا ہوئے اور میری سنت کے جس مسئلہ میں امت کے درمیان اختلاف پیدا ہوگا۔ یہ علی(ع) ہی اس کی وضاحت کریں گے یہ مومنین کے امیر ہیں اور روشن پیشانی والے مومنین کے قائد ہیں اور تمام اوصیاء میں سب سے بہتر ہیں۔”

18ـ اسی امالی میں جناب صدوق امیرالمومنین(ع) سے بسلسلہ اسناد روایت

۳۵۷

 کرتے ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا علی(ع) مومنین کے امیر ہیں، خداوندِ عالم نے خود عرش پر ان کو ولی مقرر کیا اور علی(ع) خدا کے خلیفہ اور حجت ہیں اور یہی علی(ع) مسلمانوں کے امام ہیں۔”

19ـ اسی امالی میں جناب صدوق ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : اے علی(ع) تم امام المسلمین اور امیرالمومنین اور روشن پیشانی والوں کے قائد ہو، میرے بعد خدا کی حجت ہو اور تمام اولیاء کے سید و سردار ہو۔”

20ـ اسی امالی میں جناب صدوق ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ:

“ آںحضرت (ص) نے فرمایا: اے علی(ع) تم میری امت پر میرے خلیفہ ہو اور تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے آدم(ع) کے لیے شیث تھے۔”

21ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے بسلسلہ اسناد جناب ابی ذر سے روایت کی ہے۔ جناب ابوذر فرماتے ہیں :

“ ایک دن ہم لوگ رسول(ص) کی خدمت میں مسجد میں بیٹھے تھے، آںحضرت(ص) نے فرمایا تمھارے پاس اس دروازے سے ایک شخص آئے گا وہی امیرالمومنین اور امام المتقین ہوگا۔ ناگاہ امیرالمومنین(ع) علی بن ابی طالب(ع) آتے
۳۵۸

 دکھائی دیے۔ رسول(ص) نے آگے بڑھ کر استقبال کیا ۔ پھر آپ ہم لوگوں کی طرف مڑے اور ارشاد فرمایا : یہی میرے بعد تم لوگوں کے امام ہیں۔”
( یہ حدیث اور اس کی اوپر کی چاروں حدیثیں علامہ سید بحرینی نے اپنی امالی میں جناب صدوق سے نقل کی ہیں اور اس کے بعد کی تمام حدیثیں غایة المرام باب 13 میں مذکور ہیں۔)

22ـ اسی امالی میں جناب صدوق جابر بن عبداﷲ انصاری ےس روایت کرتے ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : علی بن ابی طالب(ع) سب سے پہلے اسلام لانے والے سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا : یہی امام ہیں اور میرے بعد خلیفہ۔”

23ـ اسی امالی میں بسلسلہ اسناد ابن عباس سے روایت ہے کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : اے گروہ مردم خدا سے زیادہ گفتار میں بہتر کون ہوسکتا ہے۔ تمھارے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے ک میں تمھارے لیے علی(ع) کو امام ، خلیفہ اور وصی مقرر کردوں، اپنا بھائی اور اپنا وزیر بنا دوں۔”

24ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے بسلسلہ اسناد ابن عباس سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں :

“ رسول(ص) بالائے منبر تشریف لے گئے ۔ خطبہ ارشاد فرمایا
۳۵۹

پھر وہ خطبہ ذکر کیا ۔ اسی خطبہ میں ہے کہ میرے چچا کے بیٹے علی(ع) میرے بھائی میرے وزیر ہیں اور یہی میرے خلیفہ اور میری جانب سے تبلیغ کرنے والے ہیں۔”

25ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے بسلسلہ اسناد امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے :

“ امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول(ص) نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے فرمایا : اے لوگو خدا کا مہینہ ( رمضان ) آرہا ہے۔”
پھر وہ پوری حدیث مذکور ہے جو آپ نے ماہ رمضان کی فضیلت میں فرمائی ہے :
“ امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں کہ میں دریافت کیا: یا رسول اﷲ(ص) اس مہینہ میں بہترین اعمال کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا : خدا کی حرام کی ہوئی  چیزوں سے پرہیز۔ پھر آںحضرت(ص) گریہ فرمانے لگے۔ میں نے عرض کی یا رسول اﷲ(ص) گریہ کیوں فرمانے لگے۔ آپ نے فرمایا : میں اس ظلم پر رو رہا ہوں جو تم پر اس مہینہ میں روا رکھا جائے گا۔ یہاں تک کہ فرمایا ، اے علی(ع) تم میرے وصی، خلیفہ ہو، میری زندگی میں بھی ، میرے مرنے کے بعد بھی ۔ تمھارا حکم دینا میرا حکم دینا ہے اور تمھارا منع کرنا میرا منع کرنا ہے۔”
۳۶۰