دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 242316
ڈاؤنلوڈ: 5160

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242316 / ڈاؤنلوڈ: 5160
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 اور متواتر نصوص موجود ہیں۔ اگر اہل بیت(ع) سے قطع نظر کر کے بطریق اغیار آپ نصِ پیغمبر(ص) کے متلاشی ہیں تو مکتوب نمبر10 پر ایک نظر پھر کر لیں جس میں رسول(ص) کی حدیث میں نے ذکر کی ہے کہ آںحضرت (ص) نےامیرالمومنین(ع) کی گردن پر ہاتھ رکھ کر ارشادا فرمایا کہ :

“  هَذَا أَخِي‏ وَ وَصِيِّي وَ خَلِيفَتِي فِيكُمْ فَاسْمَعُوا لَهُ وَ أَطِيعُوا ”

“ یہ میرے بھائی ہیں، میرے وصی ہیں اور تم میں میرے خلیفہ ہیں، ان کا حکم سنو اور ان کی اطاعت کرو۔”

اور محمد بن حمید  رازی سے، سلمہ ابرش سے ، انھوں نے ابن ابی اسحاق سے ، انھوں نے شریک سے، انھوں نے ابوربیعہ ایادی سے، انھوں نے بریدہ سے اور بریدہ نے رسول اﷲ(ص) سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا :

“ لِكُلِ‏ نَبِيٍ‏ وَصِيٌ‏ وَوَارِث وَ إِنَّ وَصِيِّي  وَوَارِثِی عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ”

“ ہر نبی کا وصی اور وارث ہوتا ہے اور میرے وصی و وارث علی بن ابی طالب(ع) ہیں۔”(1)

--------------

1ـ اس حدیث کو امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں بسلسلہ حالات شریک ذکر کیا ہے اور شریک کو جھٹلایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ شریک نے اس کو کسی سے نہیں سنا۔ محمد بن حمید رازی کے متعلق کیا ہے کہ وہ معتبر نہیں۔ علامہ ذہبی کا جواب یہ ہی کہ امام احمد بن حنبل امام بغوی ، امام طبری اور ضمن جرح و تعدیل کے امام ابن معین وغیرہ نے محمد بن حمید کو ثقہ سمجھا ہے اور ان سے حدیثیں بھی ہیں اس لحاظ سے محمد بن حمید مذکورہ بالا علمائے احادیث کے شیخ اور معتمد ہیں چنانہ عالامہ ذہبی نے بھی محمد بن حمید کے تذکرہ میں اس چیز کو لکھا ہے۔ محمد بن حمید پر تشیع یا رفض کا الزام کبھی لگایا نہیں گیا۔ یہ محمد بن حمید علامہ ذہبی کے بزرگوں میں سے ہیں لہذا محض اس حدیث میں ان کو جھوٹا بتانا کیونکر روا ہوسکتا ہے۔

۳۸۱

اور طبرانی نے معجم کبیر میں بسلسلہ اسناد جناب سلمان فارسی سے روایت کی ہے۔ سلمان کہتے ہیں کہ:

ارشاد فرمایا پیغمبر(ص) نے کہ:

“إن‏ وصيّي‏ و موضع‏ سري‏ و خير من أترك بعدي ينجز عدتي و يقضي ديني علي بن أبي طالب.”

“ میرے وصی اور میرے رازوں کی جگہ اور بہترین وہ ہستی جسے میں اپنے بعد چھوڑ جانے والا ہوں ، جو تیرے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرے گا ، میرے دیون کو ادا کرے گا علی بن ابی طالب(ع) ہیں۔(1)

یہ حدیث نص صریح ہے کہ حضرت علی (ع) وصی رسول(ص) تھے اور صریح ہے کہ آپ بعدِ رسول(ص) افضلِ خلائق تھے۔ غور سے دیکھا جائے تو اس حدیث سے آپ کی خلافت و امامت بھی ثابت ہوتی ہے۔

--------------

1ـ یہ حدیث بعینہ انھیں اسناد کے ساتھ کنزالعمال جلد6 صفحہ154 پر موجود ہے اور منتخب کنزالعمال میں بھی حاشیہ مسند پر چھپائے موجود ہے۔ ملاحظہ ہو مسند ج5، صفحہ32۔

۳۸۲

ابو نعیم نے حلیة الاولیاء میں انس سے روایت کی ہے کہ :

“ يا أنس  أول من يدخل عليك من هذا الباب إمام‏ المتقين‏ و سيد المسلمين‏ و يعسوب الدين و خاتم الوصيين و قائد الغر المحجلين قال أنس  فجاء علي  فقام إليه مستبشرا فاعتنقه فقال له أنت تؤدي عني و تسمعهم صوتي و تبين لهم ما اختلفوا فيه بعدي‏ ”

“ اے انس پہلا وہ شخص جو اس دروزے سے تمھارے پاس آئے گا وہ امام المتقین ، سید المسلمین، یعسوب الدین، خاتم الوصین، قائد الغر المحجلین ہوگا۔ انس کہتے ہیں کہ ناگاہ حضرت علی (ع) تشریف لائے ۔ رسول(ص) انھیں دیکھتے ہوئے ہشاش بشاش ہوکر ان کی طرف بڑھے اور گلے سے لگایا اور فرمایا : تم  میری جانب سے حقوق ادا کرو گے ، تم میری آواز لوگوں کو سناؤ گے اور میرے بعد جب لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگا تو حق واضح کرو گے۔”(1)

طبرانی نے معجم الکبیر میں بسلسلہ اسناد ابو ایوب انصاری سے روایت کی ہے کہ آںحضرت (ص) نے اپنی پارہ جگر جناب سیدہ (س) سے فرمایا :

--------------

1ـ شرح نہج البلاغہ جلد دوم صفحہ45 ، ہم صفحہ 279 پر بھی ذکر کرچکے ہیں۔

۳۸۳

“ اے فاظمہ(س) کیا تمھیں معلوم نہیں کہ خداوند عالم نے روئے زمین کے باشندوں پر ایک نگاہ ڈالی اور تمھارے باپ کو منتخب کیا اور انھیں رسالت پر فائز کیا۔ پھر دوبارہ نگاہ ڈالی تو تمھارے شوہر کو منتخب کیا اور مجھے وحی فرمائی تو میں نے تمھارا نکاح ان سے کردیا اور ان کو اپنا وصی بنایا ۔”(1)

غور فرمائیے کہ کس طرح خداوند عالم نے حضرت خاتم النبیین(ص) کو منتخب کرنے کے بعد تمام روئے زمین کے باشندوں میں

حضرت علی(ع) کو منتخب فرمایا ۔ اور یہ بھی ملاحظہ کیجیے کہ خداوند عالم نے جس طرح نبی کا انتخاب فرمایا، ٹھیک اسی طرح وصی نبی کو بھی منتخب فرمایا۔

یہ بھی دیکھیے کہ کیونکر خداوند عالم نے اپنے پیغمبر(ص) پر وحی فرمائی کہ ان سے اپنی بیٹی بیاہ دو اور انھیں اپنا وصی بناؤ۔

یہ بھی سوچیے کہ آںحضرت(ص) کے قبل دیگر انبیاء کے خلفاء و جانشین کیا ان کے اوصیاء کے علاوہ اور بھی کوئی ہوئے اور کیا خدا کے منتخب کیے ہوئے خاتم النبیین(ص) کے وصی کے موخر کردینا اور غیروں کو اس پر مقدم کرنا جائز ہے؟ اور کیا کسی شخص کے لیے سزاوار ہے کہ ان حکمران بن بیٹھے ۔ خود خلیفہ بن جائے اور وصی رسول(ص) کو عوام اور رعایا جیسا بنا دے اور کیا عقلا ممکن ہے کہ زبردستی مسندِ خلافت پر بیٹھ جانے والے شخص کی پیروی ایسے شخص کے لیے واجب ہو جسے خدا نے نبی(ص)

--------------

1ـ یہ حدیث بعینہ انھیں الفاظ و انھیں اسناد کےساتھ کنزالعمال کی حدیث 2541 ہے ملاحظہ ہو جلد6 صفحہ 153 ۔ منتخب کنزالعمال  میں بھی مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد جلد5 صفحہ31

۳۸۴

 کی طرح منتخب کیا ہو۔ بھلا یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ خدا اور رسول(ص) تو اور کسی کو منتخب کریں اور ہم ان کے انتخاب کو ٹھکرا کر کسی دوسرے کو منتخب کر لیں۔

“ وَ ما كانَ‏ لِمُؤْمِنٍ‏ وَ لا مُؤْمِنَةٍ- إِذا قَضَى اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ‏ ”

“ کسی مومن و مومنہ کو یہ حق نہیں کہ خدا و رسول(ص) جب کسی امر میں اپنا حکم صادر کر دیں تو  وہ اپنے پسند و اختیار کو دخل دے۔”

بے شمار حدیثیں اس  مضمون کی کتب احادیث میں پائی جاتی ہیں کہ اہل نفاق و حسد کو جب یہ معلوم ہوا کہ رسول(ص) اپنی بیٹی علی(ع) سے بیاہنے والے ہیں ( جو در حقیقت فخرِ مریم اور سیدہ نساء جنت ہیں) تو انھیں حضرت علی(ع) سے بہت بڑا حسد پیدا ہوا اور اس معاملہ کو انھوں نے بہت عظیم  سمجھا۔ خصوصا ان لوگوں کے جلنے کو تو کچھ نہ پوچھیے جو رسول(ص) کی  خدمت

میں خواستگاری کر کے کورا جواب پاچکے تھے۔”(1)

--------------

1ـ ابن ابی حاتم نے انس سے روایت کی ہے  انس کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر و عمر رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور جناب سیدہ(س) کے لیے خواستگاری کی۔ رسالت ماب(ص) نے سکوت فرمایا کوئی جواب نہ دیا۔ وہاں سے وہ دونوں حضرت علی(ع) کے پاس پہنچے یہ کہنے کے لیے کہ ہم لوگوں نے خواستگاری کی مگر رسول(ص) نے کوئی جواب نہ دیا۔ اب آپ درخواست کیجیے۔ ابن ابی حاتم کی اس روایت کو بہت سے نامور علماءئے اہل سنت نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ چنانچہ علامہ ابن حجر نے صواعق باب 11 کے شروع میں نقل کیا ہے۔ اسی موقع پر امام احمد نے بھی اسی جیسی حدیث نقل کی ہے۔ جسے انھوں نے انس سے روایت کی ہے اور اسی صواعق محرقہ باب11 میں ابو داؤد سجستانی کی روایت کردہ حدیث منقول ہے کہ حضرت ابوبکر نے جناب رسالت ماب(ص) کی خدمت میں سیدہ(ع) کی خواستگاری کی آپ نے منہ پھیر لیا۔ پھر عمر نے خواستگاری کی اس مرتبہ بھی آںحضرت (ص) نے منہ پھیر لیا۔ پھر یہ دونوں حضرات علی(ع) کے پاس تشریف لائے  اور کہا اب آپ خواستگاری کیجیے۔ اور حضرت علی(ع) سے منقول ہے کہ ابوبکر و عمر نے رسول سے سندہ کی خواستگاری کی آںحضرت(ص) نے انکار فرمایا۔ حضرت عمر نے حضرت علی(ع) سے کہا اب آپ خواستگاری کیجیے آپ ہی کو یہ شرف حاصل ہوگا ابن جریر نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے اور دولابی نے بھی ذریت طاہرہ (ع) میں اس کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ ملاحظہ ہو حدیث 6007 صفحہ 392 جلد 6۔

۳۸۵

ان جلنے والوں نے سوچا کہ سیدہ(س) کا علی(ع) سے منسوب ہونا علی(ع) کے لیے ایسا شرف و امتیاز کا باعث ہوگا کہ پھر علی(ع) کے مقابلہ میں کوئی آہنی نہ سکے گا۔ لہذا انھوں نے ریشہ دوانیاں شروع کیں۔ بڑی بڑی تدبیریں کیں ۔ اپنے گھر کی عورتوں کی جناب سیدہ(س) کی خدمت میں اس غرض سے بھیجا کہ انھیں حضرت علی(ع) کی طرف سے متنفر بنایا جائے۔ ان کے دل میں نفرت پیدا کی جائے۔ ان کی عورتوں نے اور جو باتیں کیں اس میں ایک بات یہ بھی کہی تھی علی(ع) تو فقیر ہیں کچھ پاس رکھتے ہی نہیں ، لیکن جناب سیدہ(س) ان عورتوں کے مکرو فریب میں نہ آئیں اور آپ اس سے بھی با خبر تھیں کہ ان عورتوں کی زبان سے کن لوگوں کی دلی ترجمانی ہورہی ہے۔ باوجود حقیقیت حال سے با خبر ہونے کے جناب سیدہ نے ان عورتوں سے کچھ کہا نہیں ۔ جب عقد انجام پاگیا ، خدا  ورسول(ص) کا مقصد پورا ہوگیا۔ اس وقت جنابِ سیدہ(س) نے ضرورت سمجھی کہ اب علی(ع) کے

۳۸۶

فضائل ظاہر کرنے کو موقع ہے تاکہ آپ کے دشمن و بدخواہ ذلیل و خوار ہوں آپ نے آںحضرت(ص) سے عرض کی:

"بابا جان آپ نے مجھے فقیر ونادار شیخص سے بیاہ دیا "

اس موقع پر آنحضرت (ص) یہ کلمات ارشاد فرمائے جو ابھی آپ نے سنے

وإذا أرادالله نشرفضيلة

طويت اتاح لهالسان حسود

“ جب خداوندِ عالم کسی ڈھکی چھپی فضیلت کو ظاہر کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے حاسد کی زبان مقرر کرتا ہے”

خطیب نے اپنی کتاب متفق میں معتبر اسناد سے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ:

“ جب آںحضرت (ص) نے اپنی  پارہ جگر کی علی(ع) سے شادی کی تو جناب فاطمہ(س) نے رسول(ص) کی خدمت میں عرض کی: بابا جان آپ نے مجھے نادار شخص سے بیاہ دیا جس کے پاس کچھ بھی نہیں تو آنحضرت (ع) نے فرمایا کہ : تمھیں یہ پسند نہیں کہ خداوندِ عالم نے روئے زمین کے باشندوں سے دو شخصیوں کے منتخب کیا ایک تمھارا باپ دوسرا تمھارا شوہر۔”(1)

امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 129 پر باب مناقب امیرالمومنین(ع) میں

--------------

1ـ یہ حدیث بعینہ انھیں الفاظ اور اسی سند کے ساتھ کنزالعمال جلد6 صفحہ 291 پر موجود ہے۔ ملاحظہ ہو حدیث 9592 ۔ صاحب کنزالعمال نے اس حدیث کے اسناد کے حسن ہونے کی تصریح بھی کی ہے۔

۳۸۷

 سریج بن یونس سے ، انھوں نے حفص ابار سے، انھوں نے اعمش سے انھوں نے ابو صالح سے انھوں نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ:

“ فاطمہ(س) نے رسول(ص) کی خدمت میں عرض کی : یا رسول اﷲ(ص) ! آپ نے میری شادی علی(ع) سے کی ہے اور وہ فقیر ہیں ، کوئی مال  و زر نہیں رکھتے ۔ آپ نے فرمایا کہ اے فاطمہ(س) ! کیا تم پر راضی و خوشنودی نہیں ہوکہ خداوند کریم نے روئے زمین کے باشندوں پر ایک نگاہ ڈالی اور دو شخصوں کو منتخب کیا ایک تمھارا باپ دوسرا تمھارا شوہر ۔”

اور ابن عباس سے روایت ہے کہ آںحضرت نے فرمایا :

“ کیا تم اس راضی و خوشنود نہیں کہ میں نے تمھیں اس شخص سے بیاہا ہے جو تمام مسلمانوں میں سب سے پہلا اسلام لانے والا ہر ایک سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔ اور تم میری امت کی تمام عورتوں کی سردار ہو۔ اسی طرح جس طرح مریم(ع) اپنی قوم کی کل عورتوں کی سردار تھیں۔ کیا تمھیں اس سے خوشی نہیں کہ خدا نے روئے زمین کے باشندوں پر نگاہ دالی اور دو(2) افراد کو منتخب کیا ۔ ایک کو تمھارا باپ بنایا دوسرے کو تمھارا شوہر۔”(1)

--------------

1ـ یہ حدیث ٹھیک انھیں الفاظ اور اسی سلسلہ سند سے کنز العمال جلد6 صفحہ154 پر موجود ہے ۔ منتخب کنزالعمال میں بھی موجود ہے ملاحظہ ہو حاشیہ مسند ص39 جلد5 سطر اول۔ علامہ ابی حدید معتزلی نے بھی ؟؟؟؟؟؟ مسند احمد سے نقل کیا ہے۔

۳۸۸

اس کے بعد آںحضرت(ص) کا طرز عمل یہ رہا کہ جب جناب سیدہ(س) کو دنیوی پریشانیاں لاحق ہوتی تھیں تو آپ خدا و رسول(ص) کی اس نعمت و رحمت کو یاد دلاتے کہ تمھارا عقد ایسے شخص سے کیا گیا جو امت میں سب سے زیادہ اشرف و افضل ہے۔ یہ اس لیے تاکہ جناب سیدہ (س) کا دل چھوٹا نہ ہو، زمانہ کی نیرنگوں اور تکلیفوں سے دل تنگ نہ ہوں۔ اس کے ثبوت میں وہی روایت آپ کے لیے کافی ہے جسے امام احمد نے مسند جلد5 صفحہ 26 پر درج کیا ہے۔ معقل بن یسار کی حدیث ہے کہ :

“ ایک مرتبہ سیدہ عالم(س) بیمار ہوئیں ، رسول (ص) عیادت کے لیے تشریف لائے ۔ پوچھا کہ : پارہ جگر! اپنے کو کیسا پا رہی ہو آپ نے فرمایا : خدا کی قسم میری تکلیفیں حد سے زیادہ ہوگئیں ، فاقہ کی مصیبت ناقابل برداشت ہوگئی اور علالت کا سلسلہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا : پارہ جگر کیا
تم اس سے راضی و خوشنود نہیں ہو کہ میں نے تمھاری شادی ایسے شخص سے کی جو میری امت میں سب سے پہلے اسلام لایا ، جو سب سے زیادہ علم والا ہے  اور سب سے زیادہ حلم رکھتا ہے۔”

اس باب میں بے شمار حدیثیں موجود ہیں مکتوب میں اتنی گنجائش نہیں کہ سب ذکر کی جائیں۔

                                                                     ش

۳۸۹

مکتوب نمبر 35

اہلسنت و جماعت حضرت علی(ع) کے وصی  رسول(ص) ہونے کو نہیں مانتے وہ اس حدیث سے استدالال کرتے ہیں جسے بخاری نے صحیح بخاری میں اسود سے روایت کیا ہے ۔ اسود کہتے ہیں کہ :

“ جناب عائشہ کی خدمت میں ذکر آیا کہ رسول(ص) اپنا وصی حضرت علی(ع) کو بنایا۔(1) ۔ جناب عائشہ بولیں: یہ کون کہتا ہے؟ میں نے رسول(ص) کو دیکھا ۔ میں اپنے سینہ پر رسول کو لٹائے

---------------

1ـ اس حدیث کو امام بخاری نے صحیح بخاری جلد2 صفحہ کتاب الوصایا میں نیز صحیح بخاری جلد3 صفحہ64 باب مرض النبی و وفات میں درج کیا ہے امام مسلم نے صحیح مسلم میں کتاب الوصایا میں نقل کیا ہے۔

۳۹۰

ہوئے تھی۔ آںحضرت(ص) نے طشت طلب کیا۔ اس پر جھکے اور انتقال کر گئے اور مجھے پتہ بھی نہ چلا لہذا حضرت علی(ع) کو وصی بنانے اور علی (ع) سے وصیت کرنے کا موقع کہاں ملا؟”(1)

نیز امام بخاری نے صحیح بخاری میں متعدد طریقوں سے اس روایت کو لکھا ہے کہ :

“ جناب عائشہ فرمایا کرتیں کہ آںحضرت(ص) نے میری آغوش میں

--------------

1ـ آپ بے خبر نہ ہوں گے کہ شیخین نے اس حدیث میں رسول(ص) کے علی(ع) سے وصیت نہ فرمانے کی جو روایت کی ہے وہ بے قصد و ارادہ ایسا کر گئے اگر متوجہ ہوتے تو شاید اس حدیث کو لکھتے ہی نہیں۔ اس لیے کہ جن لوگوں نے جناب عائشہ سے یہ ذکر چھیڑا تھا کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو وصی بنایا وہ امت سے خارج نہیں تھے بلکہ وہ صحابہ میں سے تھے جنھیں ام المومنین کے سامنے ایسی بات کے انکشاف کی جرائت پیدا ہوئی جو ام المومنین کی ناگواری کا باعث تھی اور اس عہد کی سیاست کے خلاف تھی اسی وجہ سے جناب عائشہ ان لوگوں کی یہ حدیث ( جن میں حضرت علی(ع) کے وصی بنائے جانے کا ذکر تھا )سن کر بڑے شش و پنچ میں پڑگئیں اور ان کی رد میں مہمل و رکیک باتیں کہنے لگیں۔ امام نسائی نے سنن نسائی جلد6 صفحہ 241 میں اس حدیث پر جو حاشیہ تحریر فرمایا ہے اس میں لکھتے ہیں کہ یہ بات مخفی نہ ہوگی کہ جناب عائشہ کا ارشاد اس سے مانع نہیں کہ آںحضرت وصی بنا چکے ہوں نیز ان کا ارشاد اس کا بھی مقتضی نہیں کہ رسول(ص) دفعتا انتقال فرماگئے ہوں اور آپ کو وصیت کرنے کا موقع ہی نہ ملا ہو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ پیغمبر(ص) بیمار ہونے سے پہلے ہی با خبر تھے کہ اب زندگی کےدن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ اس عبارت پر غور فرمائیے ۔ کس قدر سنجیدہ و متین عبارت ہے حقیقت بالکل منکشف ہو جاتی ہے۔

۳۹۱

دم توڑا اور یہ بھی فرمایا کرتیں کہ میری گردن و سینہ پر لیٹے لیٹے رسول(ص) کا انتقال ہوا۔ کبھی فرمایا کہ رسول(ص) کا سر میرے زانو پر تھا کہ ملک الموت قبضِ روح کو آئے۔(1)   ۔ لہذا ایسی حالت میں اگر رسول(ص) وصیت فرماتے تو وہ حضرت عائشہ کو معلوم ضرور ہوتا۔”

صحیح مسلم میں جناب عائشہ سے مروی ہے  وہ فرماتی ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے نہ درہم چھوڑا نہ اونٹ ، نہ بکری نہ کسی چیز کے متعلق آپ نے وصیت فرمائی ۔”(2)

اور صحیحین(3) میں طلحہ بن مصرف سے روایت ہے کہ :

“ میں نے عبداﷲ بن اوفیٰ سے پوچھا کہ کیا پیغمبر(ص) نے اپنا وصی مقرر فرمایا؟ انھوں نے کہا : نہیں۔ تو میں نے کہا کہ یہ کیونکر ۔ خود دوسروں کےلیے تو رسول(ص) نے وصیت کرنا واجب قرار دیا۔ اور خود وصیت نہ کی۔ تو انھوں نے کہا کہ پیغمبر(ص) نے کتابِ خدا کے متعلق وصیت کی۔”

--------------

1ـ جناب عائشہ کا قول مات بین حافتیی و ذاقنتی نیز مات بین سحری و ںحری یہ دونوں صحیح بخاری کے باب مرض النبی و وفات میں موجود ہیں نیز جناب عائشہ کا یہ قول نزل بہ و راسہ علی فخذی رسول(ص) کا سر میرے زانو پر تھا کہ ملک الموت قبض روح کو آئے ۔ باب آخر ماتکلم بہ رسول کے آخری الفاظ کے باب میں موجود ہے ۔ جو باب مرض النبی و وفات کے فورا ہی بعد مذکور ہے۔

2ـ ملاحظہ فرمائیے صحیح مسلم کتاب الوصیہ جلد2 صفحہ14۔

3ـ ملاحظہ فرمائیے صحیح مسلم و صحیح بخاری دونوں کی کتاب الوصایا

۳۹۲

چونکہ آپ نے جو حدیثیں ذکر کی ہیں ان سے یہ حدیثیں زیادہ صحیح ہیں کیونکہ بخاری و سلم دونوں میں موجود ہیں لہذا انھیں حدیثوں کو مقدم  سمجھا جائے گا اور انھیں پر اعتماد کیا جائے گا۔

                                                             س

جوابِ مکتوب

پیغمبر(ص) کا حضرت علی(ع) سے وصیت فرمانا ایسی بات ہے جس سے انکار ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آںحضرت(ص) نے حضرت علی(ع) سے وصیت فرمائی تھی ۔ قول و قرار فرمایا تھا( بعد اس کے کہ آپ انھیں اپنے علم و حکمت کا وارث(1) بنا چکے تھے) کہ حضرت علی(ع) ہی آپ کو غسل دیں۔(2) تجہیز و تکفین کریں۔ آںحضرت(ص) کے دیون ادا کریں ۔ رسول(ص) کے کیے ہوئے وعدوں

--------------

1ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ 400 تا 405 ۔ وہاں آپ کو اچھی طرح وضاحت نطر آئے گی حضرت سرورکائنات(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو اپنے علم وحکمت کا وارث بنایا

2ـ ابن سعد نے طبقات ابن سعدف جلد2 قسم ثانی ص61 پر امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں کہ رسول(ص) نے وصیت فرمائی کہ سوائے میرے انھیں کوئی غسل نہ دے اور ابو الشیخ اور ابن نجار نے امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے ( ملاحظہ ہو کنزل العمال جلد4 ص54) کہ رسول(ص) نے مجھ سے وصیت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ جب میں مرجاؤں تو مجھے سات مشکوں سے غسل دینا۔  ابن سعد نے طبقات جلد2 قسم 2 صفحہ 63

پر عبدالواحد بن ابی عوانہ سے روایت کی ہے کہ رسالت ماب(ص) نے بحالت مرض موت فرمایا کہ اے علی(ع) جب میں مرجاؤں تو تم مجھے غسل دینا عبدالواحد کہتے ہیں کہ حضرت علی(ع) نے ارشاد فرمایا کہ : میں نے رسول(ص) کو غسل دیا، میں جس حصہ جس کو غسل کے ارادے سے اٹھاتا تھا وہ میری متابعت کرتا تھا۔ امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ55 پر اور علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں بسلسلہ اسناد امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے اور دونوں نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول(ص) کو غسل دیا اور مردوں سے جو بات دیکھنے میں آتی ہے منتطر تھا کہ رسول(ص) سے بھی ظہور پذیر ہوتی ہے کہ نہیں۔ میں نے ایک بات بھی نہ دیکھی ۔ رسول(ص) زندہ اور مردہ دونوں حالتوں میں مجسم خوشبو رہے۔ اس حدیث کو سعید بن منصور نے اپنے سنن میں، مروزی نے اپنی کتاب  جنائزہ میں، ابو داوؤد نے مراسلہ میں ابن منیع اور ابن ابی شیبہ نے سنن میں درج کیا ہے اور کنزالعمال جلد4 ص55 پر بھی

۳۹۳

موجود ہے۔ جناب ابن عباس سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ علی(ع) کو چار باتیں ایسی حاصل ہیں جو کسی اور کو حاصل نہیں ہوئیں۔علی (ع) پہلے وہ شخص ہیں جنھوں نے رسول(ص) کے ساتھ نماز پڑھی ۔ علی(ع) ہر معرکہ میں علمدار پیغمبر(ص) رہے، علی(ع) ہی رسول(ص) کے پاس اس دن ثابت قدم رہے جب کہ ہر شخص رسول(ص) کو چھوڑ کر بھاگ گیا تھا اور علی(ع) ہی وہ ہیں جنھوں نے رسول(ص) کو غسل دیا اور قبر میں لٹایا ، اس روایت کو ابن عبدالبر نے استیعاب میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) اور حاکم نے مستدرک جلد3 ص18؟؟؟ پر درج کیا ہے۔ ابو سعید خدری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسالت ماب(ص) نے ارشاد فرمایا : “ اے علی(ع) تم ہی مجھے غسل دو گے اور میرے دیون ادا کروگے اور قبر میں مجھے دفن کرو گے۔ ” ملاحظہ ہو کنز العمال ج6 ص55 حضرت عمر سے ایک حدیث مروی ہے جس میں رسول(ص) نے علی(ع) سے فرمایا : تم ہی مجھے غسل دینے والے ہو، مجھے دفن کرنے والے ہو۔ کنزالعمال جلد6 ص293 و منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند امام احمد جلد5 ص54 حضرت علی(ع) سے مروی ہے : آپ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول(ص) کو یہ کہتے سنا خدا نے مجھے ( علی میں) پانچ چیزیں ایسی عطا کیں جو مجھ سے پیشتر انبیاء کو کسی میں عطا نہیں ہوئیں پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ میرے دیون ادا کریں گے اور مجھے دفن کریں گے۔ کنزالعمال جلد6 ص403 جب رسول(ص9 کا جنازہ تیار ہوا اور لوگوں نے نماز جنازہ پڑھنا چاہی تو حضرت علی(ع) نے کہا کہ رسول(ص) کی نماز میں کوئی شخص امام نہ ہوگا۔ وہ تم تمھارے امام ہیں زندگی میں بھی اور مرنے پر بھی لہذا لوگ تھوڑی تھوڑی دیر بعد آتے اور صف بہ صف نماز پڑھتے لیکن امامت کسی نے نہ کی وہ لوگ تکبیر کہتے اور حضرت علی(ع) جنازہ رسول(ص) کے مقابل کھرے ہوکر فرماتے : سلام ہو آپ پر اے پیغمبر(ص) خدا اور رحمت ہو اﷲ کی۔ خداوند ا ہم گواہی دیتے ہیں کہ جو کچھ تو نے نازل کیا وہ رسول(ص) نے ہم تک پہنچایا ۔ امت کی پوری خیر خواہی کی۔ تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک  کہ تونے ان کے دین کو قوت بخشی اور ان کے کلمہ کو پورا کیا۔ خداوندا پس ہمیں قرار دے ان لوگوں میں جو پیغمبر(ص) پر تیرے نازل کیے ہوئے احکام کی پیروی کرتے ہیں اور رسول(ص) کے اٹھ جانے کے بعد ہی ثابت قدم رکھ اور ہمیں ہمارے رسول(ص) سے ملا۔ حضرت علی(ع) یہ فرماتے اور لوگ آمین آمین کہتے اسی طرح مردوں نےنماز پڑھی پھر عورتوں نے پھر بچوں نے ۔ یہ کل مضمون بعینہ انہی الفاظ میں جو ہم نے ذکر کیا ابن سعد نے اپنی طبقات میں پیغمبر(ص) کے غسل کےبیان میں ذکر کیا ہے ۔ رسول(ص) کےجنازے پر سب سے پہلے بنی ہاشم آئے۔ پھر مہاجرین پھر انصار ، پھر دوسرے لوگ اور سب سے پہلے حضرت علی(ع) اور جناب عباس نے نماز پڑھی یہ دونوں حضرات ایک صف میں کھڑے ہوئے اور پانچ تکبیریں کہیں۔

۳۹۴

 کو پورا کریں۔ رسول(ص) کی ذمہ داریاں اپنے سر لیں۔(1) اور رسول(ص) کے مرنے کے بعد

--------------

1ـ ان سب مذکورہ بالا امور کے متعلق ائمہ طاہرین (ع) سے متواتر حدیثیں موجود ہیں۔ اہلبیت(ع) سے قطع نظر غیروں میں طبرانی نے معجم کبیر میں ابن عمر سے ابو یعلی نے اپنی مسند میں حضرت علی(ع) سے جو روایت کی ہے تو ملاحظہ فرمائیے طبرانی کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ اے علی(ع) تم میرے بھائی، میرے وزیر، میرے دیون ادا کروگے، میرے وعدوں کو پورا کرو گے اور میری ذمہ داریوں سے مجھے سبکدوش بناؤگے ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد6 ص155 پر ابن عمر سے اسناد کر کے یہ حدیث مذکور ہے اور جلد6 صفحہ 404 پر حضرت علی(ع) کی طرف اسناد کر کے مذکورہ ہے۔ اسی جگہ علامہ بوصیری سے منقول ہے کہ اس حدیث کے کل راوی ثقہ ہیں۔ ابن مردویہ و دیلمی نے جناب سلمان فارسی سے روایت کی ہے ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد6 صفحہ 155 کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا : علی(ع) میرے وعدوں کو پورا کریں گے اور میرے دیون ادا کریں گے اسی مضمون کی حدیث انس سے بزار نے روایت کی ہے۔ ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد6 ص153 امام احمد بن حنبل نے مسند جلد4 صفحہ 164 پر حبشی بن جنادة سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول(ص) کو کہتے سنا : میرے دیون سوائے میرے یا علی(ع) کے کوئی اور میرے اور ادا نہیں کرسکتا اور ابن مردویہ نے امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد6 ص104 کہ جب آیہ وانذر نازل ہوا تو آںحضرت (ص) نے فرمایا : علی(ع) میرے دیوان ادا کریں گے میرے وعدوں میں کو پورا کریں گے۔ سعد سے روایت ہے کہ میں نے یوم حجفہ رسول(ص) کو کہتے سنا۔: آپ نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑا اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ بعد حمد و ثنائے الہی کے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! میں تمھارا ولی ہوں۔ لوگوں نے کہا بے شک یا رسول اﷲ(ص) ، پھر آپ نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ اٹھا کر فرمایا یہ میرے ولی ہیں اور یہی میری جانب سے میرے دیون ادا کریں گے۔ اس حدیث کو آپ صفحہ 332 پر ملاحظہ فرماچکے ہیں۔ عبدالرزاق نے اپنی جامع میں معمر سے انھوں نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ علی(ع) نے رسول(ص) کے بعد چند امور انجام دیے جن دیے جن میں زیادہ تر رسول(ص) کے کیے ہوئے وعدے ننھے جنھیں آپ نے پورا کیا۔ میرا خیال ہے کہ انھوں نے پانچ لاکھ درہم کہے تھے۔ عبدالرزاق سے پوچھا گیا کہ کیا رسول(ص) نے علی(ع) کو اس کے متعلق وصیت بھی کی تھی انھوں نے جواب دیا کہ ہاں مجھے کوئی شک نہیں اس میں کہ رسول(ص) نے ضرور علی(ع) سے اس کی بابت وصیت کی تھی  اور اگر رسول(ص) وصیت نہ فرما گئے ہوتے تو لوگ علی(ع) کو رسول(ص) کے دیون نہ ادا کرنے دیتے۔ اس حدیث کو صاحب کنزالعمال نے جلد4 ص60 پر درج کیا ہے ملاحظہ ہو حدیث نمبر1170۔ 

۳۹۵

جب لوگوں میں اختلاف پیدا ہو تو احکام الہی اور امورِ شریعت واضح کردیں اور آپ امت سے فرماچکے تھے کہ : “ یہ علی(ع) ہی تمھارے ولی(1) ہیں میرے بعد(2) اور میرے بھائی(3) ہیں، میرے نواسوں کے باپ ہیں(4) ۔ میرے وزیر(5) ہیں۔

--------------

1ـ بکثرت صریحی نصوص موجود ہیں کہ آںحضرت (ص) نے امیرالمومنین(ع) سے وصیت فرمائی تھی کہ آپ کے انتقال کے بعد امت میں کسی مسئلہ میں اختلاف پیدا ہو تو اس کی وضاحت کریں ۔ ملاحظہ ہو صفحہ 283 پر حدیث نمبر11 ، نمبر12 اس کے علاوہ اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں جن میں سے بعض ہم نے ذکر کی ہیں اور بعض کو شہرت کی حیثیت سے ذکر کرنا ضروری نہ سمجھا ۔

2ـ گزشہ صفحات میں بیشتر مقامات پر اس پر روشنی ڈالی جاچکی ہے۔

3ـ رسول(ص) اور حضرت علی(ع) میں مواخات کا قائم ہونا متواتر احادیث سےثابت ہے ہم نے اس پر کافی ثبوت فراہم کردیے ہیں اس مسئلہ میں۔

4ـ امیرالمومنین (ع) کا فرزندان رسول(ص) کا باپ ہونا وجدانی طور پر واضح ہے۔ حضرت سرور کائنات(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا کہ تم میرے بھائی ہو، میرے نور چشموں کے باپ ہو۔ تم میری سنت کی حمایت میں جہاد کروگے، اس حدیث کو ابویعلی نے اپنی مسند میں درج کیا ہے ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد6 صفحہ 404 اور اس کے رواة سب کے سب معتبر ہیں جیسا کہ علامہ بوصیری نے تصریح کی ہے ۔ امام احمد نے بھی اس حدیث کو مناقب میں درج کیا ہے جیسا کہ صواعق محرقہ ص75 باب فصل ثانی سے پتہ چلتا ہے اور آںحضرت(ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے  کہ خداوند عالم نے ہر نبی کی ذریت کو اس کے سلب میں ودیعت فرمایا اور میری ذریت کو سلب علی(ع) میں قرار دیا۔ اس حدیث کو طبرانی نےمعجم کبیر میں جناب جابر سے اور خطیب نے اپنی تاریخ میں ابن عباس سے روایت کیا ہے اور کنزالعمال جلد6 ص155 پر موجود ہے ۔ آںحضرت (ص) نے یہ بھی فرمایا کہ ہر دختری اولاد اپنے قبیلہ و خاندان کی طرف منسوب ہوتی ہے سوائے فرزندان فاطمہ(س) کے ۔ کہ میں ان کا ولی ہوں۔ میں ہی ان کا بزرگ خاندان ہوں، میں ہی ان کا باپ ہوں۔ اس حدیث کو طبرانی نے جناب سیدہ سے روایت کیا ہے اور یہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جسے ابن حجر نے صواعق باب 11 ص112 پر نقل کیا ہے۔ اسی حدیث کو طبرانی نے ابن عمر سے بھی روایت کیا ہے جیسا کہ اسی صفحہ پر مذکور ہے۔ اسی جیسی حدیث مستدرک جلد2 صفحہ 164 پر جناب جابر سے روایت کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر شیخین نے اپنے صحیحین میں درج نہیں کیا ۔ ایک اور حدیث امام حاکم نے مستدرک میں اور ذہبی نے تلخیص مستدرک میں لکھی ہے اور شیخین کے معیار پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اس حدیث میں ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ مگر اے علی(ع) تم میرے نور چشمون کے باپ ہو،مجھ سے ہو، مجھ تک ہو اور بھی بہیتری صحیح حدیثیں ہیں ۔

۳۹۶

5- حضرت علی(ع) کے وزیر ہونے کے متعلق منجملہ اور ارشادات کے ایک حدیث انت منی بمنزلة ہارون من موسی” ہی کافی ہوگی۔ جیسا کہ ہم م 10 اور م 13 پر توضیح کرچکے ہیں۔ نیز دعوت عشیرہ کے موقع پر جو آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا تھا اسی کو لے لیجیے ۔فَأَيُّكُمْ يُوَازِرُنِي‏ عَلَى أَمْرِي هَذَا فقال علیُ أَنَا يَا رَسولَ اللَّهِ أَكُونُ وَزِيرَكَ عَلَيْهِ ” رسول(ع) نے مجمع سے پوچھا تھا کہ تم میں کون شخص ایسا ہے جو کارِ رسالت میں میرا بوجھ بٹائے ۔ جب سب خاموش رہے تو حضرت علی(ع) اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا : میں آپ کا بوجھ بٹانے والا ہوں گا۔ اور اس حدیث کو بھی آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں خدا بھلا کرے امام بوصیری کا کیا اچھے اشعار کہے ہیں۔ اپنے قصیدہ میں فرماتے ہیں :لم يزده کشف الغطاء يقينا    بل هو الشمس ما عليه الغطاء “ پردے اٹھنے کے بعد بھی آپ کے یقین میں اضافہ کی گنجائش نہ تھی بلکہ آپ تو آفتاب ہیں جس پر کوئی پردہ نہیں۔

۳۹۷

 میرے ہمراز(1) ہیں، میرے ولی(2) ہیں، وصی(3) ہیں، میرے شہر علم کا

--------------

1ـ تمام امت اسلامیہ کا اتفاق ہے کہ کلام مجید میں ایک ایسی آیت ہے جس پر سوائے امیرالمومنین(ع) کے کسی نے عمل نہیں کیا ۔ نہ آپ کے بعد قیامت تک  کوئی اس پر عمل کرسکے گا اور وہ سورہ مجادلہ کی آیت نجوی ہے ۔ اس پر دوست و دشمن ہر ایک بہ لفظ و زبان متفق ہے اور اس کے متعلق شیخین کے معیار پر صحیح صریحی احادیث موجود ہیں جسے امت اسلام کا ہر نیک و بد فرد جانتا ہے ۔ ملاحہ ہو مستدرک جلد2 ص482 اور اسی صفحہ پر علامہ ذہبی کی تلخیص مستدرک اور دیکھیے تفسیر ثعلبی ، طبری ، سیوطی ، زمخشری، رازی وغیرہ کی تفاسیر آگے چل کر آپ ام سلمہ اورعبداﷲ بن عمر کی حدیث ملاحظہ فرمائیں گے جس میں وفات سے چند لمحہ پیشتر آںحضرت(ص) اور امیرالمومنین(ع) کی سرگوشی کا ذکر ہے۔ وہیں آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا۔ کہ طائف میں بھی ایسا ہی موقع پیش آیا تھا اور رسول(ص) نے ارشاد فرمایا تھا کہ میں نے اپنے جی سے علی(ع) سے سرگوشی نہیں کی بلکہ خدا نے خود ایسا کیا ہے اسی کے حکم سے میں نے ان سے سرگوشی کی وہیں ہم اس کی طرف بھی اشادہ کریں گے کہ ، آںحضرت(ص) اور امیرالمومنین(ع) نے جناب عائشہ کے متعلق بھی سرگوشی کی۔

2ـ امیرالمومنین (ع) کے ولی ہونے کے متعلق آںحضرت(ص) کا یہ قول کافی ہے جو ابن عباس کی حدیث میں مذکور ہے جسے ہم گزشتہ صفحات میں ذکر کرچکے ہیں : “ اے علی(ع) تم دنیا و آخرت میں میرے ولی ہو” اس کے علاوہ یہ تو ایسی واضح چیز ہے جس  کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔

3ـ م 13 میں اس کے متعلق نصوص ذکر کیے جاچکے ہیں۔

۳۹۸

 دروازہ(1) ہیں ، میری حکمت(2) کے گھر کا دروازہ ہیں، اس امت کے لیے باب حطہ(3) ہیں،

امت کے لیے امان اور سفینہ نجات(4) ہیں ان کی اطاعت بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح میری اطاعت فرض ہے، ان کی نافرمانی اسی طرح باعث ہلاکت ہے جس طرح میری نافرمانی(5) ، علی(ع) کی پیروی میری پیروی ہے اور ان سے جدائی مجھ جدائی ہے۔”

( جیسا کہ صفحہ 288 کی سترھویں حدیث سے ثابت ہوتا ہے) علی(ع) سے جو صلح رکھے اس سے رسول(ص) کی بھی صلح ہے اور جس نے علی(ع) سے جنگ کی اس سے رسول(ص) بھی برسرجنگ(6) ہیں۔ جس نے علی سے موالات کی رسول(ص) بھی اس کے ولی ہیں،

--------------

1ـ ملاحظہ ہو صفحہ 282 میں حدیث نمبر9 اور اس پر جو حاشیہ ہم نے سپرد قلم کیا ہے وہ بھی دیکھیے۔

2ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ 283 میں حدیث 10۔

3ـ ملاحظہ ہو صفحہ 285 میں حدیث 14۔

4ـ جیسا کی ان احادیث کا فیصلہ ہے جو ہم نے صفحہ 67 تا صفحہ 68 پر بیان کیں۔

5ـ جیساکہ صفحہ 288 کی حدیث 16 سے معلوم ہوتا ہے۔

6ـ امام احمد نے مسند ج2 صفحہ 442 پر ابوہریرہ سے ایک حدیث روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے علی (ع) و فاطمہ(س) ، حسن (ع) و حسین(ع) کی طرف نظر کر کے ارشاد فرمایا : میں برسر جنگ ہوں اس سے جو تم سے جنگ کرے اور میری بھی صلح ہے اس سے جو تم سے صلح رکھے۔” اور جس دن آپ نے ان حضرات کو اپنی چادر اڑھائی تھی اس دن کے متعلق بھی حدیث صحیح میں ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا تھا، أَنَا حَرْبٌ‏ لِمَنْ حَارَبَهُمْ وَ سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَهُمْوَ عَدُوٌّ لِمَنْ‏ عَادَاهُم‏ چنانچہ علامہ حجر مکی نے فضائل اہلبیت(ع) میں پہلی آیت جو لکھی ہے اس کی تفسیر میں اس حدیث کو لکھا ہے ۔ رسول(ص) کا یہ قول تو کافی مشہور ہوچکا ہے : “حَرْبُ علی حَرْبِي وَ حَرْبِي حَرْبُ اللَّهِ وَ سِلْمُهُ‏ سِلمِی ”  علی(ع) کی جنگ میری جنگ ہے اور علی(ع) کی صلح میری صلح ہے۔

۳۹۹

اور جس نے علی(ع) کو دشمن رکھا رسول(ص) بھی اس کے دشمن ہیں(1) ۔ جس نے علی (ع) کو دوست رکھا۔

اس نے خدا اور خدا کے رسول(ص) کو دوست رکھا۔ جس نے علی(ع) سے بغض رکھا اس نے خدا اور اس کے رسول(ص) سے بغض رکھا(2) جس نے علی(ع) سے

--------------

1ـ ملاحظہ فرمائیے ہمارے صفحہ 291 پر حدیث نمبر20 کے ، علاوہ اس کے رسول(ص) کا یہ ارشاد“ُ اللَّهُمَّ وَالِ‏ مَنْ‏ وَالاهُ‏ وَ عَادِ مَنْ عَادَاه‏” (خداوندا تو دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے) جو حد تواتر تک پہنچا ہوا ہے یہی کافی ہے نیز مکتوب نمبر18 پر بریدہ کی حدیث ملاحظہ فرماچکے ہیں جس میں آںحضرت(ص) کا یہ قول ہے کہ جس نے علی(ع) سے جدائی اختیار کی اس نے مجھ سے جدائی اختیار کی ہے ۔ یہ حدیث بھی حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہے“لَا يُحِبُّهُ‏ إِلَّا مُؤْمِنٌ‏ وَ لَا يُبْغِضُهُ إِلَّا مُنَافِقٌوَ اللَّهِ إِنَّهُ لَعَهِدَ النَّبِيُ‏ الْأُمِّي‏” علی(ع) کو مومن ہی دوست رکھے گا اور  علی(ع) کا دشمن منافق ہی ہوگا۔ یہ قول و قرار ہے نبی (ص)  امی کا۔

2ـ جیسا کہ م 24 پر بیان کی ہوئی حدیث نمبر9، 20، 21 سے ثابت ہوتا ہے۔

۴۰۰