دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 244109
ڈاؤنلوڈ: 5264

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 244109 / ڈاؤنلوڈ: 5264
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

موالات رکھی اس نے خدا اور رسول(ص) سے موالات رکھی اور جس نے علی سے عداوت رکھی اس نے خدا و رسول(ص) سے عداوت رکھی(1) ۔ جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے خدا و رسول(ص) کو اذیت دی(2) ۔ جس نے علی(ع) کو سب وشتم کیا اس نے خدا و رسول(ص) کو سب و شتم کیا(3) ۔ علی(ع) نیکوکاروں کے اما م، بدکاروں کے قتل کرنے والے ہیں ۔ جس نے علی (ع) کی مدد کی وہ منصور ہوا، جس نے علی(ع) کی مدد سے گریز کیا ذلیل و خوار ہوا۔(4) ، علی(ع) مسلمانوں کے سردار ،متقین کے امام، روشن پیشانی والوں کو جنت تک لے جانے والے ہیں(5) ۔ علی (ع) ہدایت کا علم ہیں، اولیائے خدا کے امام ہیں، نور ہیں، فرمانبردارانِ الہی کے لیے ، اور وہ کلمہ ہیں جسے خدا نے متقین پر لازم کیا ہے۔(6)

--------------

1ـ صفحہ 294 کی حدیث نمبر23 سے اس کی وضاحت ہوتی ہے نیز رسول(ص) کا یہ ارشاد“ اللَّهُمَّ وَالِ‏ مَنْ‏ وَالاهُ‏ وَ عَادِ مَنْ عَادَاه‏”   ہی  کافی ہے اس کے ثبوت کے لیے۔

2ـ اس کے ثبوت کے لیے عمرو بن شاس والی حدیث سن چکے ہیں جس میں رسول(ص) نے فرمایا کہ جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی” عمرو بن شاس کی حدیث کو امام احمد نے مسند ج3 صفحہ473 پر امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ124 پر ذہبی نے تلخیص مستدرک میں اسی صفحہ پر اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے ذکر کیا ہے ۔ نیز بخاری نے تاریخ میں ابن سعد نے طبقات میں ابن ابی شیبہ نے اپنے مسند میں طبرانی نے معجم کبیر میں بھی اس کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال ج6 صفحہ 400 پر بھی موجود ہے۔

3ـ جیسا کہ صفحہ 289 میں اٹھارہویں  حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔

4ـ جیسا کہ صفحہ 277 کی پہلی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔

5ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ 277 پر حدیث نمبر2َ ، 3، 4، 5۔

6ـ صفحہ 277 پر چھٹی حدیث ملاحظہ کیجیے۔

۴۰۱

یہی  علی(ع) صدیق اکبر ہیں، اس امت کے فاروق ہیں، مومنین کے سردار ہیں(1) ، یہ بمنزلہ فرقانِ عظیم اور ذکر حکیم کے ہیں(2) ۔ علی (ع) رسول(ص) کے لیے ایسے ہیں جیسے موسی(ع) کے لیے ہارون تھے۔(3)

علی(ع) کو رسول(ص) سے وہی منزلت حاصل ہے جو منزلت رسول(ص) کو خدا سے ہے(4) ۔ علی(ع) رسول(ص) کے لیے ایسے ہیں جیسے بدن کے لیے سر(5) ، علی (ع) مثلِ نفس رسول(ص) کے ہیں(6) ۔ خداوندِ عالم نے تمام روئے زمین کے باشندوں پر نظر ڈالی اور رسول(ص) و علی(ع) کو منتخب کیا(7) ۔ رسول(ص) کا ایک یہی ارشاد لے لیجیے جو آپ نے حجة الوداع کے موقع پر یوم عرفات فرمایا تھا کہ میرے فرائض کی ادائگی علی(ع) ہی کرسکتے ہیں۔(8)

--------------

1ـ جیسا کہ صفحہ 280 کی حدیث نمبر7 سے واضح ہوتا ہے۔

2ـ مکتوب نمبر 4 میں آپ صحیح حدیثیں اس کے ثبوت میں سن چکے ہیں ان احادیث کے دیکھنے کے بعد صاحب بصیرت کے لیے تو پھر کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ صفحہ 315 پر یہ حدیث بھی ذکر کی گئی “إِنَّ عَلِيّاً مَعَ‏ الْقُرْآنِ‏، وَ الْقُرْآنَ مَعَ عَلِيٍّ، لَا يَفْتَرِقَان‏” علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے ۔

3ـ جیسا کہ م 13، 14، 15، 16، اور 17 تک ہماری تحریر سےوضاحت ہوتی ہے۔

4ـ جیسا کہ صفحہ285 کی تیرہویں حدییث سے ثابت ہوتا ہے۔

5ـ صفحہ 316 پر حدیث  “عَلِيٌّ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ رَأْسِي‏ مِنْ‏ بَدَنِي‏.” ذکر کی جاچکی ہے۔

6ـ جیسا کہ آیت مباہلہ بتاتی ہے نیز عبدالرحمن بن عوف کی حدیث جسے ہم نے صفحہ 316 کے آخر میں درج کیا ہے۔

7ـ جیسا کہ ہم صفحہ 409 تا صفحہ 410 پر اس کے متعلق صریحی احادیث ذکر کرچکے ہیں۔

8ـ ملاحظہ ہو صفحہ 285 پر حدیث نمبر15 اور اس حدیث پر جو ہم نے حاشیہ تحریر کیا ہے وہ بھی دیکھیے۔

۴۰۲

اس کے علاوہ بکثرت ایسی خصوصیات سے پیغمبرف(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو سرفراز کیا جو صرف وصی ہی کے لیے زیب دیتی ہیں اور قائم مقام پیغمبر ہی کے لیے مناسب ہیں۔

لہذا ان خصوصیات اور مخصوص فضائل و کمالات کے بعد امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے سے انکار کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے کتنی حدیثوں کو جھتلایا جائے گا اور کہاں تک جھٹلایا جاسکتا ہے۔

حضرات اہل سنت جو امیرالمومنین (ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے سے انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر امیرالمومنین(ع)ٰ کو وصی رسول(ص) تسلیم کر لیا جائے تو پھر خلفائے ثلاثہ کی خلافت باطل ہوجاتی ہے۔

اور بخاری وغیرہ نے طلحہ بن مصرف والی حدیث جو ذکر کی ہے جس میں ہے ک میں نے عبداﷲ بن ابی اوفیٰ سے پوچھا کہ کیا رسول(ص) نے وصیت فرمائی؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں ۔ میں نے کہا: رسول(ص) لوگوں پر تو وصیت کرنا واجب کریں اور خود وصیت نہ کریں ۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ آںحضرت(ص) نے کتابِ خدا کے متعلق وصیت فرمائی۔ یہ حدیث ہمارے لیے حجت نہیں اور نہ ہمارے جواب میں پیش کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ہم لوگوں کے یہاں  یہ ثابت نہیں۔ مزید برآں یہ تو سیاست کی کارسازیاں تھیں۔ حکومت کے جبر و تشدد کا نتیجہ ہے۔ ان سب باتوں  سے قطع نظر سچی بات تو یہ ہے کہ امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کے متعلق ائمہ طاہرین(ع) سے صحیح و متواتر حدیثیں موجود ہیں لہذا ان حدیثوں کی معارض حدیثیں رد کردی جائینگی ۔

اس کے علاوہ امیرالمومنین(ع) کا وصی پیغمبر(ص) ہونا تو ایسا اظہر من الشمس ہے جس پر دلیل و برہان پیش کرنے کی ضروت ہی نہیں۔ خود عقل(1) بتاتی ہے ۔ وجدان

--------------

1ـ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ رسول(ص) اپنی امت کو تو وصیت کا حکم دیں اتنی سختی فرمائیں اور خود وصیت نہ کریں در آنحالیکہ  اوروں کی نسبت پیغمبر(ص) کا وصیت فرمانا زیادہ ضروری تھا کیونکہ کسی اور مرنے والے نے نہ تو ایسا ترکہ چھوڑا جیسا رسول(ص) نے چھوڑا اور نہ ایسے ایتام چھوڑے جیسے رسول(ص) نے چھوڑے نہ کسی اور کے متروکات نہ ورثہ نگران کار و سرپرست کے ایسے محتاج ہوئے جیسا رسول(ص) کی چھوڑی ہوئی  چیزیں کسی منتظم و نگران کی محتاج تھیں۔ یا

۴۰۳

رسول(ص) کے چھوڑے ہوئے ایتام سرپرست کے ضرورت مند تھے پناہ بخدا رسول(ص) بھلا اپنے قیمتی ترکہ یعنی شریعت الہیہ ، احکام الہی کو یونہی چھوڑ جائیں اور اپنے ایتام یعنی تمام روئے زمین کے باشندوں کو یونہی بے سہارا چھوڑ دیں کہ وہ ٹھوکریں کھاتے پھرین اور اپنی خواہشوں کے مطابق چلتے پھرتے رہیں اور ایسا نگران و منتظم نہ چھوڑیں جس کے ذریعہ بندوں پر خدا کی حجت تمام ہو۔ علاوہ اس کے وجدان بھی یہی کہتا ہے کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو اپنا وصی ضرور مقرر کیا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو اپنے غسل و حنوط و کفن و دفن کا حکم دیا ۔ دیون کی ادائگی ذمہ داریوں سے بری الذمہ بنانے اور اختلاف کے وقت حق کی وضاحت کرنے کی تاکید کی ، نیز لوگوں کو بھی با خبر کردیا کہ ہمارے بعد علی(ع) تمھارے ولی ہیں ۔ اس کے علاوہ اور خصوصیات امیرالمومنین(ع) کے بھی ان کے گوش گزار کردیے جنھیں ہم اس کے شروع میں اشارتا ذکر کرچکے ہیں لہذا ہمارا وجدان بتاتا ہے کہ یقینا رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کو اپنا وصی فرمایا ہوگا اور بغیر وصی بنائے دنیا سے نہیں اٹھے۔

۴۰۴

 دلالت کرتا ہے کہ یقینا رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو اپنا وصی مقرر فرمایا۔

اور بخاری نے ابن ابی اوفیٰ سے یہ جو روایت کی ہے کہ آںحضرت(ص) نے کتاب خدا کے متعلق وصیت فرمائی تو یہ درست ہے مگر رسول(ص) کا پورا ارشاد نہیں ذکر کیا گیا۔ کیونکہ رسول(ص) نے جہاں کتاب خدا کے متعلق وصیت فرمائی وہاں اہل بیت(ع) سے تمسک کرنے  کا بھی حکم دیا۔ ایک ساتھ دونوں سے تمسک کی

۴۰۵

 تاکید کی اور امت سے فرمایا تھا کہ خداوندعالم کی دونوں رسیوں کو مضبوطی سے تھامے رہنا اور ڈرا دیا تھا کہ اگر دونوں سے تمسک نہ کروگے تو گمراہ ہوجاؤ گے اور یہ بھی امت کے جتادیا تھا کہ قرآن و اہلبیت(ع) کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں۔

اس باب میں بکثرت متواتر حدیثیں ائمہ طاہرین(ع) سے مروی ہیں اہلبیت طاہرین(ع) کے علاوہ اغیار  کی روایت ہوئی متعدد حدیثیں ہم گزشتہ اوراق میں ذکر کرچکے ہیں۔     ش

۴۰۶

مکتوب نمبر36

افضل ازواج

 یہ آخر آپ جناب عائشہ ام المومنین جو افضل ازواج نبی(ص) ہیں ان سے کیوں روگردان ہیں کہ آپ نے ان کی حدیث کو پس پشت ڈال دیا؟ گویا کچھ حقیقت ہی نہیں اس کی ۔ حالانکہ انھیں کا قول فیصلہ کن ہے ۔  جو وہ فیصلہ فرمادیں وہی مبنی بر انصاف ہوگا۔ پھر بھی آپ کی جو رائے ہو اس اعراض کی وجہ بتائیے کہ ہم بھی سوچیں سمجھے۔                 س

۴۰۷

جوابِ مکتوب

جناب عائشہ افضل ازواج نبی(ص) نہ تھیں

جناب عائشہ کا افضل ازواج نبی(ص) ہوناتسلیم  کے قابل نہیں۔ جناب عائشہ افضل ازواج نبی(ص) ہوبھی کیونکر سکتی ہیں، ان کی رد میں خود ان سے صحیح حدیث مروی ہے۔ جناب عائشہ فرماتی ہیں کہ :

“ ایک دن پیغمبر(ص) نے جناب خدیجہ کا تذکرہ فرمایا تو مجھے برا معلوم ہوا۔ میں نے کہا: وہ تو بڑھیا تھیں ایسی تھیں ویسی تھیں اور خداوند عالم نے آپ کو ان سے اچھی بیوی دی( اشادہ تھا اپنی طرف) آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا : خداوند عالم نے اس سے اچھی بیوی مجھے نہیں دی۔ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب سب میرا انکار کرتے تھے اور اس وقت میری تصدیق کی جب سب جھٹلاتے تھے اور اس وقت انھوں نے اپنے مال میں شریک بنایا جب سب نے مجھے محروم کر رکھا تھا اور خدا نے مجھے ان سے اولاد مرحمت کی اور دوسری بیویوں سے اولاد نہ دی۔”(1)

--------------

1ـ یہ حدیث اور اس کے بعد والی حدیث بہت مشہور صحیح احادیث میں سے ہے ملاحظہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جو میں نے ابھی عرض کیے یہ دونوں حدیثیں موجود ہیں قریب قریب انھیں الفاظ کے ساتھ بخاری و مسلم نے بھی اپنی صحیحین میں ان دونوں حدیثوں کو ذکر کیا ہے۔

۴۰۸

جناب خدیجہ تمام ازواج میں افضل ہیں

جناب عائشہ سے یہ حدیث بھی مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ :“ رسول اﷲ(ص) جب تک خدیجہ کا ذکر نہ کر لیتے اور ان کی خوب مدح و ثناء نہ فرما لیتے گھر سے جاتے نہیں ۔ ایک دن آپ نے حسب دستور خدیجہ کا ذکر فرمایا تو مجھے بڑی غیرت معلوم ہوئی میں نے

کہا: ہو تو بڑھیا تھیں اور اب خدا نے ان سے بہتر بیوی آپ کو کو دی یہ سن کر رسول(ص) غصہ سے بھر گئے ۔ غیظ و غضب کا یہ عالم تھا کہ سر کے آگے کے بال غصہ کے مارے ہلنے لگے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا : خدا کی قسم ان سے بہتر بیوی مجھے نہیں ملی۔ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب سب لوگ کفر اختیار کیے ہوئے تھے۔ اس وقت میری تصدیق کی جب سب مجھے جھٹلاتے تھے اور اپنا کل مال و زر میرے حوالے کردیا، جب سب مجھے محروم کیے ہوئے تھے اور انھیں کے بطن سے خدا نے مجھے اولاد مرحمت فرمائی ۔ اور دوسری بیویوں سے کوئی اولاد مجھے نہ دی۔”

لہذا ازواج رسول(ص) میں سب سے افضل و اشرف جناب خدیجہ الکبری ہیں جو اس امت کی صدیقہ ہیں جو سب سے پہلے ایمان لائیں جنھوں نے سب سے پہلے کتاب خدا کی تصدیق کی، رسول(ص) سے ہمدردی کی ، رسول(ص) پر وحی

۴۰۹

 نازل ہوئی تھی کہ جناب خدیجہ کو بشارت(1) دے دیں کہ ان کے لیے جنت میں جواہرات کا گھر ہے۔ رسول(ص) نے صاف لفظوں میں صراحت فرمادی تھی کہ جناب خدیجہ سب سے افضل و اشرف ہیں چنانچہ آپ نے فرمایا:

“ جنت کی عورتوں میں چار عورتیں سب سے بہتر ہیں۔ خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بن محمد(ص)، آسیہ بن مزاحم، مریم بنت عمران”

آںحضرت(ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا :

“ تمام عالم کی عورتوں میں سب سے بہتر مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بن محمد(ص)، اور آسیہ زن فرعون ہیں۔”

اسی طرح اور بہت سی صریحی حدیثیں پیغمبر(ص) کی ہیں جو جملہ احادیث نبوی(ص) اور ارشادات پیغمبر(ص) میں صحیح تر اور ثابت تر ہیں۔(2)

اس کے علاوہ ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جناب خدیجہ کے علاوہ دیگر ازواج پیغمبر(ص) سے بھی جناب عائشہ کو افضل کہنا درست نہیں۔ صحیح حدیثیں ، معتبر روایات و اخبار بتاتے ہیں کہ جناب عائشہ کو دیگر ازواج پر کوئی فضیلت نہ تھی جیسا کہ صاحبان نظر و ارباب عقل سے پوشیدہ نہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ جناب عائشہ نے اپنے کو نمقابلہ دیگر ازواج پیغمبر افضل و اشرف خیال کیا مگر رسول(ص) نےے تردید کر دی جیسا کہ جناب صیغہ بنت حی کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے۔

--------------

1ـ جیسا کہ امام بخاری نے صحیح بخاری جلد3 صفحہ175 باب غیرة النساء اواخر کتاب النکاح میں روایت کی ہے

2ـ ہم نے اپنی کتاب کلمہ غراء میں اسے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

۴۱۰

“ رسول(ص) جناب صفیہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں۔ آپ نے رونے کی وجہ پوچھی ۔ صفیہ نے جواب دیا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ عائشہ اور حفصہ میری برائیاں کرتی رہتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم صفیہ سے بہتر ہیں۔ آںحضرت (ص) نے فرمایا : تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ تم دونوں مجھ سے بہتر کیونکر ہوسکتی ہو ۔ میرے مقابلہ میں تمھاری کیا حقیقت ہے؟ میرے باپ جناب ہارون(ع)، اور چچا جناب موسی(ع)، شوہر محمد مصطفی(ص) ہیں جو خاتم النبیین(ص) ہیں۔(1) جناب عائشہ کے حالات ملاحظہ فرمائیے ، ان کے افعال و اقوال میں ان کی حرکتوں کا جائزہ لیجیے تو ہمارے قول کی صداقت آپ پر واضح ہوجائے گی۔

رہ گیا یہ کہ وصیت پیغمبر(ص) کے متعلق جو حدیث وہ بیان کرتی ہیں اسے ہم کیوں نہیں مانتے تو مختصر یہ سمجھ لیجیے کہ ان کی حدیث حجت نہیں۔ اب کیوں نہیں حجت ہے؟ کن اسباب کے پیش نظر ہم ان کی حدیث کو قابل اعتبا نہیں سمجھتے اسے نہ پوچھیے تو بہتر ہے۔

                                                             ش

--------------

1ـ ترمذی نے بطریق کنانہ مولی ام المومنین صفیہ سے روایت کی ہے اس حدیث کی اور ابن عبدالبر نے حالات صفیہ کے ذیل میں استیعاب میں اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اور ابن حجر عسقلانی نے بھی اپنی اصابہ میں ضمن حالات جناب صفیہ اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ نیز شیخ رشید رضا نے اپنے جریدہ شمارہ نمبر 10 صفحہ 589 پر ذکر کیا ہے ۔ اس کے علاوہ اور بہت سے حضرات نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔

۴۱۱

مکتوب نمبر 37

آپ ان لوگوں میں ہیں جو نہ کسی کو دھوکا دیتے ہیں نہ مکرو فریب سے کام لیتے ہیں اور نہ ان لوگوں میں سےہیں جو دل میں کچھ اور زبان سے کچھ کہتے ہیں آپ براہ کرم تفصیل فرمائیے ۔ یہ بہت ضروری ہے ، میں حق کا طلبگار ہوں لہذا بجز تشریح و تفصیل آپ کے لیے کوئی چارہ نہیں۔

                                                             س

جواب مکتوب

حضرت عائشہ سے اعراض کے وجوہ

آپ تفصیل پر مجھے مجبور کر رہے ہیں حالانکہ تشریح و تفصیل آپ کے لیے

۴۱۲

چندان ضروری نہ تھی کیونکہ آپ بے خبر نہیں کہ سب عائشہ ہی کا کیا دھرا ہے

                                ع   اے باد صبا این ہمہ آوردہ تست۔(1)

انھیں کی وجہ سے ہم لوگوں کو یہ دن دیکھنے میں آئے ۔ انھیں نے امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کو نسیا منسیا کیا۔ دنیا سے چھپایا کسی کو خبر نہ ہونے دی اور اگر کسی دوسرے ذریعہ سے پتہ چل بھی گیا تو غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ صاف و صریح ارشادات پیغمبر(ص) واضح نصوص کو محو کرنے مٹانے کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کردیں۔ جتنی آفتیں ٹوٹیں انھیں کی وجہ سے ۔ اہل بیت(ع) پر جتنی مصیبتیں نازل ہوئیں آپ ہی کی بدولت ، سارے فتنہ و فساد ، ہر بلا و مصیبت کی جڑ یہی ہیں جنھوں نے امیرالمومنین(ص) سے جنگ کرنے کے لیے شہر بہ شہر دورہ کیا اور آپ کی خلافت چھیننے اور تخت سلطنت الٹنے کی فکر میں لشکر لے کر حملہ آور ہوئیں۔ جو کچھ ہوا اس کا کیا ذکر کروں آپ اچھے ہی خیالات رکھیے ۔ حقیقت کا سوال نہ کیجیے۔ لہذا امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) نہ ہونے پر جناب عائشہ کے قول سے استدلال کرنا ( وہ عائشہ جوسخت ترین دشمن امیرالمومنین(ع) تھیں) ہٹ دھرمی ہے جس کی کسی منصف مزاج سے توقع نہیں۔علی(ع) پر عائشہ کی طرف سے ایک مصیبت نازل نہیں ہوئی نہ معلوم انھوں نے کتنی آفتیں ڈھائی ہیں۔ امیرالمومنین(ع) کی وصایت سے انکار کہیں کم ہے۔ جنگ جمل اصغر(2) اور جنگ جمل اکبر سے جس میں دل کی حالت آئینہ ہوگئی

--------------

1ـ جیساکہ صحیح حدیثوں کافیصلہ ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر ص125 جلد2 ب ماجاء فی بیوت ازواج النبی(ص)۔

2ـ جنگ جملِ اصغر کا واقعہ بصرہ میں 25 ربیع الثانی سنہ36ھ کو امیرالمومنین(ع) کے وارد بصرہ ہونے کے قبل پیش آیا تھا۔ امیرالمومنین(ع) ابھی پہنچنے نہ پائے تھے کہ جناب عائشہ بصرہ پر حملہ کر بیٹھیں ۔ ان کے ساتھ طلحہ و زبیر بھی تھے۔ اس وقت بصرہ کے حاکم عثمان بن حنیف اںصاری تھے۔ اس جنگ میں چار شیعیان امیرالمومنین(ع) مسجد کے اندر شہید ہوئے اور ستر طرفداران عائشہ قتل ہوئے عثمان بن حنیف گرفتار کر لیے گئے۔ یہ بڑے جلیل القدر صحابی پیغمبر(ص) تھے لوگوں نے چاہا کہ انھیں بھی قتل کر ڈالیں مگر ڈرے کے کہیں ان کے بھائی اور انصار ان کا انتقام لینے پر نہ تل جائیں۔ اس لیے قتل تو نہ کیا صرف داڑھی مونچھ ، بھنووں اور سر کے بال مونڈ ڈالے، رد و کوب کیا کچھ دن قید میں رکھ کر بصرہ سے نکال دیا۔ حکیم بن جبلہ جوصاحب بصرہ ، زیرک و دانا بزرگ تھے۔ حضرت عائشہ کے مقابلہ کے لیے اپنے قبیلہ بنو عبدالقیس کی معیت میں کمر بستہ ہوئے۔ ان کے ساتھ قبیلہ ربیعہ کی بھی ایک جماعت ہوگئی۔ جنگ ہوئی مگر سب ایک ایک کر کے شہید ہو۔ حکیم کے ساتھ ان کے فرزند اشرف اور ان کے بھائی رعل بھی شہید ہوئے۔ اور بصرہ فتح ہوگیا۔ پھر امیرالمومنین(ع) تشریف لائے تو اپنے لشکر کو لے کر صف آرائیں اور اس مرتبہ جنگ جمل اکبر پیش آئی ۔ ان دونوں جنگوں کی پوری تفصیل تاریخ کامل و طبری اور دیگر کتب سیر و اخبار میں موجود ہے۔ 

۴۱۳

 پوشیدہ عداوت آشکار

ہوگئی۔ امیرالمومنین(ع) سے برسرپیکار ہونے سے قبل جو دلی عناد تھا آپ کو یا لڑائیوں کے بعد جو پیچ و تاب غم و غصہ امیرالمومنین(ع) کی طرف مرتے دم تک رہا حتی کہ آپ نے امیرالمومنین(ع) کی خبر انتقال سن کر سجدہ شکر کیا۔(1) اور خوشی کے اشعار پڑھے ان سب باتوں کا نمونہ آپ نے اس جنگ میں پیش کردیا تھا۔ اگر آپ فرمائیں تو میں انھیں کی روایت کردہ حدیثوں سے

--------------

1ـ جیسا کہ ثقہ راویاں حدیث و ارباب تاریخ نے ذکر کیا جیسے علامہ ابو الفرج اصفہانی کہ انھوں نے بھی اپنی کتاب مقاتل الطالبین میں بسلسلہ احوال امیرالمومنین(ع) بیان کیا ہے۔

۴۱۴

 چند نمونے پیش کروں جن سے آپ کو اندازہ ہو کہ وہ امیرالمومنین(ع) کی عداووت میں کس انتہا کو پہنچی ہوئی تھیں ۔ سنیے : جناب عائشہ فرماتی ہیں کہ :

“ رسول(ص)(1) پر مرض کی زیادتی ہوئی اور اذیت بہت بڑھ گئی تو آپ برآمد ہوئے اس حالت میں کہ دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے تھے اور آپ کے پیر زمین پر گھسٹتے جاتے تھے جن دو آدمیوں کا آپ سہارا کر نکلے تھے ان میں ایک تو عباس بن عبدالمطلب تے اور دوسرا ایک اور شخص تھا۔”

جس شخص نے اس حدیث کو جناب عائشہ سے روایت کیا ہے یعنی عبیداﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ بن مسعود۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے عبداﷲ بن عباس سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم جانتے ہو وہ دوسرا شخص کون تھا۔ جس کا نام عائشہ نے نہیں لیا۔ کہا : نہیں ۔ کہا : وہ علی(ع) ہیں۔

پھر عبداﷲ بن عباس نے کہا:

“ علی (ع) کی کوئی اچھائی عائشہ کو بھلی معلوم نہیں ہوئی۔”(2)

---------------

1ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے جو بخاری نے صحیح بخاری جلد2 صفحہ 62 باب مرض النبی و وفات میں روایت کی ہے۔

2ـ یہ کلمہ خاص کر یعنی ابن عباس کا فقرہ عائشة لا تظیب لہ نفس بخیر بخاری نہیں لکھا بلکہ صرف اوپر والی عبارت لکھ کر چھوڑ  دیا ہے جیسا کہ الفاظ حدیث میں کتر بیونت کی پرانی عادت ہے لیکن بے شمار اصحاب سنن جہاں اس حدیث کو لکھا ہے وہاں ابن عباس کا یہ فقرہ بھی ضرور لکھا ہے جیسے علامہ ابن سعد کو انھوں نے طبقات ابن سعد جلد2 قسم ثانی ص29 پر اس حدیث کو بسلسلہ اسناد درج کیا ہے اور سلسلہ اسناد کے کل کے کل رجال حجت ہیں۔

۴۱۵

میں کہتا ہوں کہ جب جناب عائشہ کو امیرالمومنین(ع) کی کوئی خوبی گوارا نہ تھی اور وہ ان لوگوں تک کےساتھ علی(ع) کا نام لینا پسند نہ کرتی تھیں جو رسول(ص) کے ساتھ ایک قدم چلے تو وہ علی(ع) کے وصی رسول(ص) ہونے کو بیان کرنا کیسے پسند کرسکتی تھیں جو تمام خوبیوں کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند جلد6 صفحہ113 پر جناب عائشہ کی ایک حدیث عطاء بن یسار سے نقل کی ہے۔ عطا بن یسار کہتے ہیں کہ :

“ ایک شخص جناب عائشہ کی خدمت میں آیا اور حضرت علی(ع) اور جناب عمار کا گالیاں دیتے لگا ۔ اس پر جناب عائشہ بولیں علی(ع) کو گالیاں دینے سے منع نہیں کرتی لیکن عمار کو گالیاں نہ دو میں نے رسول(ص) کو عمار کے متعلق کہتے سنا ہے کہ عمار وہ شخص ہیں کہ اگر انھیں دو چیزوں کو درمیان اختیار دیا جائے تو وہ وہی اختیار کریں گے جو زیادہ بہتر اور زیادہ موجبِ رستگاری ہو۔”

اﷲ اکبر! عمار کو گالیاں دینے سے جناب عائشہ تو منع کریں ۔ رسول(ص) کے صرف اس قول کی بنا پر کہ عمار کو اگر دو چیزوں میں اختیار دیا جائے تو وہ وہی اختیار کریں گے جو بہتر و افضل ہو۔ اور علی(ع) کے متعلق ناسزا کلمات کہنے سے نہیں منع کرتیں ۔ وہ علی(ع) جو رسول(ص) کے بھائی ہیں، رسول(ص) کے ولی ہیں، رسول(ص) کے لیے ایسے ہیں جیسے جناب ہارون (ع) موسی(ع) کے یے تھے۔ رسول(ص) کے ہمدم و ہمراز ہیں۔ امت رسول(ص) میں سب سے جچاتلا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ شہر علم پیغمبر(ص) کے دروازہ ہیں اور وہ ہیں جن کو خدا و رسول(ص) دوست رکھتے ہیں اور وہ بھی خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتے ہیں

۴۱۶

جو تمام مسلمانوں میں سب سے پہلے اسلام لائے ، جنھوں نے سب سے پہلے ایمان قبول کیا، جو سب سے زیادہ علم کے

مالک تھے ، جن کے فضائل بے حساب ہیں۔ افسوس ، معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جناب عائشہ جانتی ہی نہ تھیں کہ علی(ع) کو خدا کے یہاں کیا منزلت حاصل ہے، رسول(ص) کے دل میں علی(ع) کی کیا جگہ ہے؟ اسلام میں کیا درجہ ہے ان کا، اسلام کی راہ میں کتنی سختیاں جھیلی ہیں انھوں نے ، کتنی آزمائشوں میں ثابت قدم رہے اور غالبا جناب عائشہ نے نہ تو امیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل و وارد کلام مجید کی آیتیں سنیں نہ احادیث پیغمبر(ص) سے کہ کم سے کم عمار کے برابر تو رکھتیں جس طرح عمار کو گالیاں دینے سے منع کیا علی(ع) کے متعلق بھی منع فرماتیں، جناب عائشہ کے اس جملہ پر کہ

“ میں نے رسول(ص) کو دیکھا ، در آںحالیکہ انھیں اپنے سینہ پر لٹائے ہوئے تھی۔ آپ نے طشت منگایا، اس کی طرف جھکے۔ اسی حالت میں آپ کا دم نکل گیا اور مجھے خبر بھی نہ ہوئی ۔ لہذا علی(ع) سے انھوں نے وصیت کہاں فرمائی؟”

جب غور کرتا ہوں تو میری حیرت کا ٹھکانا نہیں رہتا ، سمجھ میں نہیں آتا کہ میں ان کے اس جملہ کے کس کس گوشے پر تبصرہ کروں، ان کا یہ فقرہ مختلف جہتوں سے قابل بحث ہے۔

خدا کے لیے مجھے کوئی سمجھادے کہ آںحضرت(ص) کا اس طرح انتقال فرمانا جیسا کہ جناب عائشہ بیاں کرتی ہیں یہ کیونکر دلیل ہے کہ آپ نے وصیت نہ فرمائی ، اس طرح انتقال کرنے سے یہ کب لازم آتاہے کہ آپ بے وصیت کیے ہیں انتقال کر گئے۔ کیا جناب عائشہ کی رائے میں وصیت اسی وقت صحیح ہوسکتی ہے جب دم نکل رہا ہو ورنہ نہیں ۔ میرے خیال میں اس کا تو دنیا کے پردے پر کوئی

۴۱۷

بھی قائل نظر نہ آئے گا۔ حقیقت کو جھٹلانے والا جو دلیل بھی پیش کرے وہ ٹک نہیں سکتا ۔ خداوند عالم نے اپنی محکم کتاب میں رسول(ص) کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا ہے۔

 “ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْراً الْوَصِيَّةُ ” ( بقرہ، 180)

“ تم لوگوں پر واجب کیا گیا ہے ، فرض قرار دیا گیا ہے کہ جب موت آئے تو مرنے سے پیشتر اچھی وصیت ک جائے”

تو کیا جناب عائشہ کے خیال میں رسول(ص) کتاب خدا کے مخالف عمل کرتے تھے اس کے احکام سے بے رخی برتتے تھے۔ پناہ بخدا جناب عائشہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ رسول(ص) قدم بہ قدم قرآن کی پیروی کرتے ہیں۔ ہر فعل و ہر عمل مطابق کلام الہی ہے ۔ کلام مجید کے اوامر و نواہی کی پابندی میں سب سے پیش پیش رہے۔ کلام مجید کی جملہ باتوں پر عمل کرنے میں درجہ انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ یقینا جناب عائشہ نے رسول(ص) کو یہ(1) ارشاد فرماتے بھی سنا ہوگا:

“ مرد مسلمان اگر ایک چیز بھی قابل وصیت رکھتا ہو۔ اس کے لیے جائز نہیں کہ اس چیز کے متعلق بغیر وصیت نامہ لکھے وئے دو راتیں گزار دے ۔”

اس قسم کے دیگر ارشادات پیغمبر(ص) بھی جناب عائشہ نے ضرور سنے ہوں گے

--------------

1ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے  جو بخاری نے صحیح بخاری جلد2 صفحہ 83 کتاب الوصایا کے شروع میں اور مسلم نے صحیح مسلم جلد1 ص10 کتاب الوصیہ میں روایت کی ہے۔

۴۱۸

 کیونکہ دینا جانتی ہے کہ وصیت کے متعلق آںحضرت(ص) نے بڑے سخت احکام دیے ہیں اور یہ نہ تو آںحضرت(ص) کےلیے جائز ہے اور نہ جملہ انبیاء میں سے کسی نبی کے لیے جائز رہا ہے کہ لوگوں کو تو کسی چیز کا حکم دیں اور خود اس حکم کی پابندی نہ کریں یا دوسروں کو تو کسی بات سے منع کریں مگر خود انھیں اس سے پرہیز نہ رہے۔ غیر ممکن ہے محال ہے کہ کسی نبی کسی رسول(ص) سے ایسے بات کبھی بھی سرزد ہوئی ہو اور امام مسلم وغیرہ نے جناب عائشہ سے یہ حدیث جو روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے نہ کوئی دینار چھوڑا ،نہ درہم ، نہ بکری نہ اونٹ نہ کسی چیز کے متعلق وصیت فرمائی ۔ یہ بھی پہلی ہی حدیث کی طرح قابل قبول نہیں علاوہ اس کے اگر جناب عائشہ کا یہ مقصد ہے کہ آپ نے قطعی طور پر ایک چیز بھی نہ چھوڑی اور آپ ہر وصیت کیے جانے کے لائق چیز سے بالکل خالی ہاتھ تھے تو بھی صحیح نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آپ دنیا کی فضولیات چھوڑ کر نہیں مرے جیسا کہ دنیا والے چھوڑ کر مرتے ہیں۔

عقل بتاتی ہے کہ پیغمبر(ص) نے یقینا وصیت فرمائی

اس لیے کہ آںحضرت(ص) تو دنیا بھر کے لوگوں سے زیادہ زاہد و پرہیزگار تھے آںحضرت(ص) نے جس وقت دنیا سے انتقال کیا

اس(1) وقت آپ کے ذمہ کچھ  قرضے

-------------

1ـ معمر قتادہ سے روایت کر کے بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی(ع) نے بعد وفات رسول(ص) چند باتیں انجام دیں جن میں زیادہ تر وعدے تھے جسے امیرالمومنین(ع) نے بعد پیغمبر(ص) پورا کیا۔ میرا خیال ہے کہ قتادہ نے پانچ لاکھ درہم کہے تھے جو علی(ع) نے رسول(ص) کی جانب سے ادا کیے ملاحظہ فرمائیے ۔ کنزالعمال ج4 ص6۔

۴۱۹

تھے، کچھ کیے ہوئے وعدے تھے، کچھ لوگوں کی امانتیں تھیں۔ جن کے متعلق آپ کا وصیت کر جانا ضروری تھا۔ آپ نے اپنے بعد بس اتنا مال چھوڑا جس سے آپ کے دیون ادا ہو جائیں۔ آپ نے جن لوگوں سے وعدے کر رکھا تھا ۔ وہ وعدے پورے ہوجائیں اور ان دونوں باتوں سے جو کچھ فاضل بچ رہے وہ آپ کی وارث جناب سیدہ(س) کے ملے جیسا کہ جناب سیدہ(س) کے مطالبہ میراث پیغمبر(ص) سے ثابت ہوتا ہے۔(1)

علاوہ اس کے رسول اﷲ(ص) نے ایسی قابلِ وصیت چیزیں اپنے بعد چھوڑیں جیسی دنیا سے کسی اٹھنے والے نہیں چھوڑیں۔ آپ اسی کو لے لیجیے کہ آپ نے دین خدا کو چھوڑا جس کی ابھی ابتدا ابتدا تھی۔ بالکل تازہ تازہ تھا۔ اور یہ بہ نسبت طلا، نقرہ، مکان و جائداد ، کھیتی و مویشی کے زیادہ وصی کا محتاج و ضرورتمند تھا اور آپ کی پوری امت، امت کے ایتام بھی، بیوائیں بھی بہت زیادہ جبور و مضطر تھے۔ بے حد ضرورت مند و محتاج تھے کہ رسول(ص) کا کوئی نہ کوئی وصی ضرور ہو جو آپ کی جگہ پر ان کے امورع کا نگران ہو، ان کے دینی و دنیوی حالات کا مدبر و منتطم ہو۔ خدا کے رسول(ص) کے لیے یہ بات ناممکن تھی، محال تھی کہ وہ دینِ خدا کو ( جو ابھی گہوارہ میں تھا) خواہشوں کے حوالے کرجاتے یا اپنی شریعت کی حفاظت کے لیے خیالات و آراء پر بھروسہ کر لیتے اور اپنا وصی مقرر نہ کر جاتے جسے آپ دین و دنیا کے امور کی نگرانی کے لیے وصیت کرجاتے اور جو آپ کا ایسا

--------------

1ـ جیسا کہ بخاری نے صحیح بخاری جلد3 ص30 پر باب غزوہ خیبر کے آخر میں بیان کیا اور امام مسلم نے قول پیغمبر(ص) لا نورث ما ترکناہ صدقہ کے ضمن میں لکھا ہے ملاحظہ ہو صحیح مسلم جلد2 ص72 کتاب الجہاد۔

۴۲۰