دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 242131
ڈاؤنلوڈ: 5156

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242131 / ڈاؤنلوڈ: 5156
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 کو جو جواب دیا تھا اس کے اصل الفاظ محدثین نے ذکر نہیں کیے ہیں بلکہ اس کا مطلب و مفہوم بیان کیا۔ اس کا ثبوت اس سے بھی مل سکتا ہے کہ محدثین نے دوسرے موقع پر جہاں جواب دینے والے کا نام ذکر نہیں کیا وہاں جواب کے اصل الفاظ بیان کردیے ہیں۔ چنانچہ امام بخاری صحیح بخاری بارہ 1 صفحہ118 کتاب الجہاد والسیر کے باب جوائز الوفد میں روایت کرتے ہیں کہ :

“ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا کہ ہم سے بن عینیہ نے سلمان احول سے انھوں نے سعید بن جبیر سے انھوں نے ابن عباس سے نقل کرکے بیان کیا ہے ابن عباس کہتے تھے۔ : پنجشنبہ کا دن ہائے وہ کیا دن تھا پنجشنبہ کا! یہ کہہ کر اتنا روئے کہ ان کے آنسوؤں سے زمین تر ہوگئی۔ پھر کہا کہ اسی پنجشنبہ کے دن رسول(ص) کی اذیت بہت بڑھ گئی تھی۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ میرے پاس کاغذ لاؤ کہ میں تمھیں نوشتہ لکھ دوں تاکہ کبھی تم گمراہ نہ ہو سکو۔ اس پر لوگ جھگڑنے لگے حالانکہ نبی کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں ، لوگوں نے کہا کہ رسول(ص) بے ہودہ بک رہے ہیں اس پر آںحضرت(ص) نے فرمایا : مجھے میرے حال پر چھوڑ دو میں جس حال میں ہوں بہتر ہے اس سے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو ۔ اور آںحضرت(ص) نے مرنے سے پیشتر تین وصیتیں فرمائیں۔ ایک تو یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال باہر کرو اور وفد بھیجنے کا سلسلہ اسی طرح باقی رکھو جس طرح میں بھیجا کرتا تھا ۔ابن عباس کہتے ہیں کہ تیسری وصیت(1)

--------------

1ـ تیسری بات جسے فرموش کرد دیا گیا وہی بات تھی جسے پیغمبر(ص) وقت انتقال نوشتہ کی صورت میں لکھ جانا چاہتے تھے تاکہ امت والے گمراہی سے محفوظ رہیں۔ یعنی امیرالمومنین(ع) کی خلافت ۔ لیکن سیاسی شاطروں نے محدثین کو مجبور کیا کہ وہ اس چیز کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھول جائیں جیسا کہ مفتی حنفیہ نے صراحت کی ہے۔

۴۸۱

 میں بھول گیا۔”

اس حدیث کو امام مسلم نے بھی صحیح مسلم کتاب الوصیت کے آخر میں درج کیا ہے۔ امام احمد نے اپنے مسند میں منجملہ احادیث ابن عباس نقل کیا ہے نیز تمام محدثین نے اس کی روایت کی ہے۔(1)

امام مسلم نے صحیح مسلم کے کتاب الوصیت میں بواسطہ سعید بن جبیر، ابن عباس سے ایک دوسرے طریقہ سے روایت کی ہے۔ ابن عباس کہتے تھے:

“ پنجشنبہ کا دن، ہائے وہ کیا دن تھا پنجشنبہ کا!”

پھر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوئے اور رخساروں پر یوں بہتے دیکھے گئے جیسے موتی کی لڑی ہو۔ اس کے بعد ابن عباس نے کہا کہ :

“ رسول(ص) نے ارشاد فرمایا : میرے پاس دوات کاغذ یا لوح  و دوات(2) لاؤ۔ میں تمھیں ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد پھر کبھی تم گمراہ نہ ہو۔ تو لوگوں نے اس پر کہا کہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں۔”

صحاح ستہ میں اس مصیبت کے ماحول پر نظر دوڑائیے تو آپ کو معلوم

--------------

1ـ صحٰیح مسلم جلد2 صفحہ222

2ـ اس حدیث کو انھیں الفاظ میں امام احمد نے مسند ج1 صفحہ355 پر روایت کیا ہے ان کے علاوہ اور بھی اجلہ علمائے اہل سنت نے نقل کیا ہے۔

۴۸۲

ہوگا کہ پہلا وہ شخص جس نے اس دن آواز بلند کی کہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں وہ حضرت عمر تھے انھیں نے سب سے پہلے رسول(ص) کے متعلق یہ جملہ کہا۔ ان کے بعد حاضرین میں جو ہم خیال افراد موجود تھے انھوں نے حضرت عمر کی ہم نوائی کی۔ آپ ابن عباس کا یہ فقرہ پہلی حدیث(1) میں سن چکے ہیں۔

“ گھر میں جو لوگ موجود تھے آپس میں تکرار کرنے لگے بعض کہتے تھے کہ رسول(ص) کے پاس قلم  دوات لا دو تاکہ رسول(ص) یہ نوشتہ لکھ جائیں کہ اس کے بعد پھر تم کبھی گمراہ نہ ہو اور بعض حضرت عمر کی موافقت کررہے تھے۔”

یعنی وہ بھی یہی کہہ رہے تھے کہ رسول(ص) ہذہان بک رہے ہیں۔

ایک دوسری روایت میں ہے جو طبرانی نے اوسط میں حضرت عمر(2) سے روایت کی ہے۔ حضرت عمر فرماتے تھے کہ :

“ جب رسول(ص) بیمار ہوئے تو آپ نے فرمایا : کہ میرے پاس کاغذ اور دوات لاؤ، میں ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ اس پر پردے کے پیچھے سے عورتوں نے کہا تم سنتے نہیں کہ رسول(ص) کیا کہہ رہے ہیں۔”

حضرت عمر کہتے کہ :

“ اس پر میں بولا کہ تم یوسف والی عورتیں ہو جب رسول(ص) بیمار پڑتے ہیں اپنی آنکھیں نچوڑ ڈالتی ہو اور جب تندرست رہتے ہیں

--------------

1ـ جسے بخاری نے عبیداﷲ بن عتبہ بن مسعود سے انھوں نے ابن عباس سے روایت کیا ہے اور امام مسلم وغیرہ نے جس کی روایت کی ہے۔

2ـ کنزالعمال جلد2 صفحہ138

۴۸۳

تو گردن پر سوار رہتی ہو۔ اس پر رسول(ص) نے فرمایا : کہ عورتوں کو جانے دو یہ تم سے تو بہتر ہی ہیں۔”

آپ ملاحظہ فرماتے ہیں کہ یہاں صحابہ نے ارشاد پیغمبر(ص) کو نہیں مانا۔ اگر مانے ہوتے تو گمراہی سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتے ۔ کاش صحابہ یہی کرتے کہ رسول(ص) کی بات ٹال جاتے نہ مانتے لیکن رسول(ص) کو یہ سوکھا جواب تو نہ دیتے کہ “ حسبنا کتاب اﷲ” ہمارے لیے کتاب خدا کافی ہے۔” اس فقرہ سے تو دھوکہ ہوتا کہ معاذ اﷲ جیسے رسول(ص) جانتے ہی نہ تھے کہ کتاب خدا مسلمانوں کے لیے کیا حیثیت رکھتی ہے؟ یامعاذ اﷲ یہ صحابہ کتاب خدا کے  خواص و فوائد رسول(ص) سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس کے رموز و اسرار سے زیادہ واقف ہیں۔ کاش اس پر ہی اکتفا کر لیتے ۔ اسی حد پر آکر باز رہ جاتے صرف یہی کہ “ حسبنا کتاب اﷲ” کتاب خدا ہمیں کافی ہے۔ یہ کہہ کر کہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں رسول(ص) کو صدمہء ناگہانی تو نہ پہنچاتے۔ رسول(ص) چند گھڑی کے مہمان تھے آپ کا دم واپسین تھا ایسی حالت میں یہ ایذار رسانی کہاں تک مناسب تھی؟ کیسی بات کہہ کر رسول(ص) کو رخصت کر رہےتھے۔

اور گویا معلوم ہوتا ہے کہ ( جس طرح انھوں نے کتاب خدا کو کافی سمجھتے ہوئے رسول(ص) کے ارشاد کو ٹھکرا دیا اسی طرح) انھوں نے کتاب خدا کافی کا ببانگ دہ یہ اعلان بھی نہیں سنا کہ رسول(ص) جو کچھ تمھیں دے دیں اس کو لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔

اور ان کے یہ کہنے سے کہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے خدا کا یہ ارشاد پڑھا ہی نہیں :

  “إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيم‏ذِى قُوَّةٍ عِندَ ذِى الْعَرْشِ

۴۸۴

مَكِينٍ مُّطَاعٍ ثمَ‏َّ أَمِين وَ مَا صَاحِبُكمُ بِمَجْنُون‏

“ بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتہ جبرئیل(ع) کی زبان کا پیغام ہے جو بڑا قوی، عرش کے مالک کی بارگاہ میں بلند مرتبہ ہے وہاں سب فرشتوں کا سردار و امانتدار ہے اورع مکہ والو تمھارے ساتھی محمد(ص) دیوانے نہیں ہیں”

نیز یہ ارشاد الہی :

“إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيم‏وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ  قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُون وَ لَا بِقَوْلِ كاَهِنٍ  قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُون تَنزِيلٌ مِّن رَّبّ‏ِ الْعَالَمِين‏“

“ بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتہ کا لایا ہوا پیغام ہے اور یہ کسی شاعر کی تک بندی نہیں۔ تم لوگ تو بہت کم ایمان لاتے ہو اور کسی کاہن کی خیالی بات ہے تم لوگ تو بہت کم غور کرتے ہو سارے جہاں کے پروردگار کا نازل کیا ہوا کلام ہے۔”

نیز ارشاد الہی :

“مَا ضَلَّ صَاحِبُكمُ‏ْ وَ مَا غَوَى‏ وَ مَا يَنطِقُ عَنِ الهَْوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى”

“ تمھارے رفیق محمد(ص) نہ گمراہ ہوئے نہ بہکے اور وہ تو اپنے نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں یہ تو بس وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے ۔ ان کو بڑی طاقت والے نے تعلیم دی ہے۔”
۴۸۵

نیز اسی طرح کی اور دوسری واضح اور روشن آیتیں کلام مجید کی جن میں صاف صاف تصریح ہے کہ ہر مہمل و بے ہودہ بات کہنے سے رسول(ص) پا ک وپاکیزہ ہیں جیسے انھوں نے کبھی پڑھی ہی نہیں۔

علاوہ اس کے خود تنہا اور فقط عقل بھی رسول(ص) سے مہمل اور بے ہودہ باتوں کا صادر ہونا محال و ناممکن سمجھتی ہے لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ صحابہ اچھی طرح جانتے تھے کہ رسول (ص) خلافت کی بات کو اور پکی کردینا چاہتے ہیں۔ آپ نے ابھی تک حضرت علی(ع) خلیفہ و جانشین ہونے کے متعلق جتنے اعلانات کیے ہیں ان کی مزید تاکید مقصود ہے لہذا ایسی بات کہہ کر رسول(ص) کی بات ہی کاٹ دی جیسا کہ خود حضرت عمر نے اپنی زبان سے اس کا اقرار و اعتراف کیا ہے۔ اس موقع پر جب ان

میں اور عبداﷲ بن عباس کے درمیان خلافت کے مسئلہ پر گفتگو چھڑ گئی تھی ۔(1)

اگر آپ رسول(ص) کے اس قول پر کہ میرے پاس قلم دوات لاؤ تاکہ میں ایسا نوشتہ لکھ جاؤں کہ اس بعد ہرگز تم گمراہ نہ ہو” اور حدیث ثقلین میں رسول(ص) کے اس فقرہ پر کہ :

“ میں تم میں ایسی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم ان سے متمسک رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو۔ ایک کتاب خدا دوسرے میری عترت ۔” ان دونوں فقروں پر آپ ںظر کریں تو آپ پر یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ دونوں حدیثوں میں رسول(ص) کا مقصود ایک ہی ہے ۔ ایک ہی مفہوم کو دونوں حدیثوں میں آپ نے بیان کیا ہے۔

--------------

1ـ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی جلد3 صفحہ140

۴۸۶

پیغمبر(ص) نے زبردستی نوشتہ لکھ کر کیوں نہیں ڈالا

اور یہ کہ رسول(ص) نے حالتِ مرض میں کاغذ و دوات جو مانگا تھا وہ اسی لیے تاکہ حدیثِ ثقلین میں جو چیز امت کے لیے واجب بتائی تھی اس کی تفصیل تحریر فرمادیں۔ تحریری طور پر لکھ دیں۔ اب رہ گئی یہ بات کہ رسول(ص) نے ان لوگوں کے اختلافات کی پر واہ نہ کرتے ہوئے نوشتہ لکھ  کرکیوں نہیں دیا، لکھنے کا ارادہ کیوں ملتوی کر دیا؟

اس کا سبب وہی فقرہ تھا حضرت عمر اور ان کے ہوا خواہوں کا جسے بول کر ان لوگوں نے رسول(ص) کو دکھ پہنچایا تھا۔ یہی فقرہ سن کر رسول(ص) نے ارادہ بدل دیا نہ لکھا وہ نوشتہ ۔ کیونکہ اتنے سخت جملہ کے بعد نوشتہ لکھنے کا کوئی فائدہ ہی نہ تھا سوا اس کے کہ اور فتنہ و فساد برپا ہوتا۔ اور اختلافات اور بڑھتے ۔ رسول(ص) کے لکھنے کا کوئی فائدہ ہی نہ ہوتا کیونکہ اب اگر رسول(ص) لکھتے بھی تو آپ کے نوشتہ کے متعلق لوگ کہتے کہ اس نوشتہ میں بھی تو رسول(ص) نے بذیان ہی تحریر فرمایا ہے۔ جس طرحٰ یہ کہنے پر کہ “ میرے پاس دوات کاغذ لاؤ میں ایسا نوشتہ لکھ جاؤں کہ اس کے بعد پھر کبھی گمراہ نہ ہو۔” لوگ

جھگڑنے لگے۔ ان میں تکرار ہونے لگی اور رسول(ص) کی آںکھوں کے سامنے خوب شور و غل مچا۔ اور رسول(ص) اس وقت کچھ نہ کرسکے ۔ صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ ۔ اور اگر رسول(ص) بھی اڑجاتے اپنی بات پر ، نوشتہ لکھ کر رہتے تو انھیں اور بھی ضد ہوجاتی اور زیادہ سختی سے کہتے کہ رسول(ص) نے جو کچھ لکھا وہ ہذیان ہے اور ان کے چٹے بٹے رسول(ص) کے لکھے ہوئے کو ہذیان ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی

۴۸۷

 کا زور لگا دیتے ۔ اپنی کتابوں میں لکھتے ، تاریخوں میں بیان کرتے، غرض رسول(ص) کے نوشتہ کی دھجیاں اڑا دیتے ، تاکہ اس سے کوئی کام لے ہی نہ سکے۔

اسی وجہ سے حکیم اسلام کی حکمت بالغہ نے چاہا کہ اب نوشتہ کا ارادہ ہی ترک کردیا جائے۔ تاکہ رسول(ص) کے منہ آنے والے اور ان کے حوالی موالی آپ کی نبوت میں طعن کا دروازہ نہ کھول دیں ۔ خدا کی پناہ۔

اور رسول(ص) یہ جانتے تھے کہ علی(ع) اور علی(ع) کے دوستدار اس نوشتہ کے مضمون پر بہر حال عمل کریں گے۔ میں چاہے لکھوں چاہے نہ لکھوں اور ان کے علاوہ جو ہیں وہ اگر میں لکھ بھی جاؤں تب بھی نہ مانیں گے نہ اس پر عمل کریں گے لہذا ان حالات میں حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ آپ اس کا خیال ترک کردیں۔ کیونکہ سوالِ کاغذ و دوات پر ایسا جانکاہ جواب پانے کے بعد بھی نوشتہ لکھنے کا کوئی اثر ہی پیدا نہ ہوگا ۔ سوا فتنہ و فساد کے۔

                                                                     ش

۴۸۸

مکتوب نمبر44

واقعہ قرطاس پر عذر و معذرت

شاید آںحضرت(ص) نے جس وقت قلم و دوات لانے کا حکم دیا تھا آپ کوئی چیز لکھنا چاہتے ہی نہ تھے بلکہ آپ محض آزمانا چاہتے تھے اور کچھ مقصود نہ تھا اور صحابہ کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی مگر حضرت عمر سمجھ گئے کہ رسول(ص) در حقیقت ہم لوگوں کو جانچنا چاہتے ہیں لہذا انھوں نے قلم و دوات لانے سے صحابہ کو روک دیا۔ لہذا اس بنا پر حضرت عمر کی ممانعت منجملہ آپ کی توفیقات ربانیہ کے سمجھنا چاہیے اور آپ کی مخصوص کرامات سے شمار کرنا چاہیے۔

بعض علمائے اعلام نے یہی جواب دیا ہے لیکن انصاف یہ ہے کہ رسول(ص)

۴۸۹

 کا فرمانا : لن تضلوا بعدی” میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ” اس جواب کو بننے نہیں دیتا۔ کیونکہ یہ فقرہ حکم پیغمبر(ص) کا دوسرا جواب ہے ۔ مطلب یہ کہ اگر تم کاغذ و دوات لاؤ گے اور میں تمھارے لیے وہ نوشتہ لکھ دوں گا تو اس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو گے  اور یہ امر مخفی نہیں کہ اس قسم کی خبر بیان کرنا محض امتحان و اختیار کے لیے یہ، یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے جس سے کلام انبیاء کا پاک ہونا واجب و لازم ہے ۔ خاص کر اس موقع پر جہاں قلم و دوات کا لانا بہتر تھا یہ نسبت نہ لانے کے۔

علاوہ اسکے یہ جواب اور بھی کئی وجہوں سے محل تامل ہے لہذا یہ جواب تو صحیح نہیں کچھ اور عذر پیش کرنا چاہیے ۔زیادہ سے زیادہ جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول(ص) نے کاغذ و دوات لانے کا جو حکم دیا تو یہ حکم انتہائی ضروری و لازمی  نہ تھا کہ اس کے متعلق مزید وضاحت چاہی نہ جاسکتی ، دوبارہ پوچھا ہی نہ جاسکتا تھا۔ بلکہ یہ حکم مشورہ کاحکم تھا اور ایسا برابر ہوا کہ صحابہ رسول(ص) کے بعض احکام میں دوبارہ پوچھ لیا کرتے تھے۔ مزید استصواب کیا کرتے تھے خصوصا حضرت عمر تو اور زیادہ ، کیونکہ انھیں اپنے متعلق یہ یقین تھا کہ وہ مصالح و بہتری پہچاننے میں  موفق للصواب ہیں۔ میرا ظن و تخمین غلط نہیں ہوتا ۔ خدا کی جانب سے ان پر الہام بھی ہوا کرتا تھا۔ حضرت عمر نے چاہا کہ رسول(ص) کو زحمت نہ اٹھائی پڑے۔ کیونکہ رسول(ص) پہلے ہی بہت سے تعب میں تھے اگر لکھنے کے لیے اٹھتے بیٹھتے تو تعب اور زیادہ بڑھ جاتا۔ اسی لیے آپ نے یہ فقرہ کہا۔ آپ کی رائے یہ تھی کہ دوات کاغذ نہ لانا ہی بہتر ہے۔ حضرت عمر یہ بھی ڈرتے تھے کہ رسول(ص) کہیں ایسی باتیں نہ لکھ ڈالیں جو کرنے سے لوگ عاجز ہیں۔ رسول(ص) کے لکھنے کو پورا نہ کرسکیں

۴۹۰

 اور اس سبب سے مستحق عقوبت ٹھہریں کیونکہ رسول(ص) جو کچھ لکھ جاتے وہ تو بہر حال مںصوص اور قطعی ہوتا۔ اجتہاد کی گنجائش اس میں نہ ہوتی یا شاید حضرت عمر کو منافقین کی جانب سے خوف محسوس ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ منافقین رسول(ص) کے نوشتہ پر معترض ہوں۔ اس کی قدح کریں کیونکہ وہ نوشتہ مرض کی حالت میں لکھا ہوا ہوتا اور اس وجہ سے بڑے فتنہ و فساد کا باعث ہوتا اس لیے حضرت عمر نے کہا کہ : حسبنا کتاب اﷲ۔” ہمارے لیے کتابِ خدا کافی ہے۔” کیونکہ خود خداوند عالم نے فرمایا ہے :

ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ مِنْ شَيْ‏ءٍ ”

“ ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہ چھوڑی جو بیان نہ کردی ہو۔”

نیز یہ بھی ارشاد ہوا :

ِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُم

“ آج کے دن ہم نے دین کو تمھارے لیے مکمل کیا۔”

غالبا حضرت عمر کو اپنے طور پر اطمینان تھا کہ امت تو گمراہ ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ خداوند عالم دین کو کامل اور امت پر اپنی نعمت کا اتمام کرچکا ہے لہذا جب امت کی گمراہی کا خوف ہی نہ تھا ۔ تو اب نوشتہ لکھنے کی ضرورت ہی کیا تھا۔

یہ ان لوگوں کے جوابات ہیں اور یہ جس قدر رکیک ہیں وہ آپ سے پوشیدہ نہیں کیونکہ رسول(ص) کا یہ فقرہ “ لا تضلوا بعدی” تاکہ تم گمراہ نہ ہو بتاتا ہے کہ آپ کا حکم ، حکم قطعی ، حکمِ لازمی تھا۔ کیونکہ ایسے امر میں جو ضلالت سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہو قدرت رکھتے ہوئے ہر ممکن جد وجہد کرنا بیشک و شبہ واجب و لازم ہے ۔ نیز آںحضرت (ص) پر اس فقرہ کا ناگوار گزرنا اور حضرت

۴۹۱

عمر وغیرہ کے اس جملہ کا برا ماننا اور ان لوگوں کے تعمیل حکم نہ کرنے پر آپ(ص) کا ارشاد فرمانا کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ یہ بھی دلیل ہے کہ آپ نے دوات و کاغذ لانے کا جو حکم دیا وہ حکم واجب ولازم تھا۔ بغرض مشورہ آپ نے نہیں فرمایا تھا۔

اگر کوئی کہے کہ  نوشتہ لکھنا اگر ایسا ہی واجب و لازم تھا تو محض چند لوگوں کی مخالفت سے آپ نے نوشتہ لکھنے کا ارادہ ترک کیوں کر دیا جس طرح کافرین آپ کی تبلیغ اسلام کے مخالف تھے مگر پھر بھی آپ تبلیغ سے باز نہ رہے اسی طرح اگر کچھ لوگ کاغذ و دوات لانے کے مخالف تھے تو آپ نے ان کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نوشتہ لکھ کر کیوں نہیں دیا، تو میں کہوں گا کہ آپ کا یہ کہنا ٹھیک بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوشتہ کا لکھنا رسول(ص) پر واجب نہیں تھا لیکن رسول(ص) پر لکھنا واجب نہ ہونے سے کب ضروری ہے کہ ان لوگوں پر رسول(ص) کا حکم ماننا اور کاغذ و دوات کا لانا بھی واجب نہ تھا ۔ ہوسکتا ہے کہ نوشتہ کا لکھنا رسول(ص) پر واجب نہ رہا ہو مگر ان لوگوں پر دوات و کاغذ کا لانا واجب و لازم ہو جبکہ رسول(ص) نے لانے کا حکم دیا تھا اور اس کا فائدہ بھی بتایا تھا کہ گمراہی سے ہمیشہ کے لیے بے خوف ہوجاؤ گے اور ہمیشہ راہ ہدایت پر باقی رہو گے کیونکہ فی الواقع امر کا وجوب مامور سے متعلق ہوتا ہے نہ کہ آمر سے خصوصا جبکہ امر کا فائدہ مامور کو پہنچتا ہو لہذا بحث یہاں یہ ہے کہ ان لوگوں پر امر کا بجالانا واجب تھا یا نہیں ۔ رسول(ص) نے ان لوگوں کو کاغذ و دوات کا جو حکم دیا تھا تو کاغذ و دوات کا لانا ان لوگوں پر لازم تھا یا نہیں۔ محل بحث یہ نہیں کہ رسول(ص) پر لکھنا واجب تھا یا نہیں؟

۴۹۲

علاوہ برین یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لکھنا رسول(ص) پر بھی واجب تھا لیکن لوگوں کی مخالفت اور رسول(ص) کا کہا نہ ماننے اور یہ کہنے سے کہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں۔ رسول(ص) سے وجوب ساقط ہوگیا ہو۔ کیونکہ رسول(ص) اب سمجھتے بھی تو سوا فتنہ و فساد کے لکھنے کا اور کوئی فائدہ نہ ہوتا ۔ لہذا جو چیز باعث فساد ہو جس سے فتنہ برپا ہوجانے کا ڈر ہو اس کا کرنا رسول(ص) پر واجب کیسے ہوگا؟

بعض حضرات نے یہ عذر بھی بیان کیا ہے کہ حضرت عمر حدیث کا ملطب نہ سمجھے۔ ان کی سمجھ میں  یہ بات نہ آئی کہ وہ نوشتہ امت کے ہر فرد کے لیے گمراہی سے بچنے کا ایسا ذریعہ کیونکر ہوگا کہ قطعی طور پر کوئی گمراہ ہی نہ ہوسکے بلکہ حضرت عمر ، رسول(ص) کے اس جملہ سے کہ لا تضلوا ۔” تم گمراہ نہ ہوگے” یہ مطلب سمجھے کہ تم سب کے سب کل کے کل گمراہی پر مجتمع نہ ہوگے اور نوشتہ لکھنے کے بعد کسی ایک فرد میں بھی گمراہی سرایت نہ کرے گی اور حضرت عمر یہ پہلے ہی جانتے تھے کہ امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی اسی وجہ سے آپ نے نوشتہ کو بیکار سمجھے اور یہ خیال کیا کہ رسول(ص) کا نوشتہ لکھنے سے مقصود صرف مزید احتیاط ہے اور کچھ نہیں کیونکہ آپ مجسم رحمت واقع ہوئے ہیں اس لیے آپ کا رحم و کرم چاہتا ہے کہ جہاں تک ہوسکے ان کے گمراہی سے محفوظ رہنے کے لیے احتیاطی تدابیر کردی جائیں۔ یہی سمجھ کر حضرت عمر نے آپ کو وہ جواب دیا۔ یہ طے کر کے کہ یہ رسول(ص) کا حکم واجبی حکم نہیں بلکہ رحم وکرم کی وجہ سے ایسا فرمارہے ہیں۔ حضرت عمر کی اس تیزی اور جلد بازی کی معذرت میں یہی باتیں بیان کی گئی ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ اگر ںظر غائر سے دیکھا جائے تو یہ سب کے سب رکیک و مہمل ہیں کیونکہ رسول(ص) کا یہ فقرہ لا تضلوا بعدی۔” تاکہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہو ، خود بتاتا ہے کہ امر ایجابی تھا نہ کہ کچھ اور۔

۴۹۳

اور رسول(ص) کا ان لوگوں پر غضب ناک ہونا ان سے رنجیدہ ہونا، یہ دلیل ہے کہ صحابہ نے ایک امر واجب کو ترک کیا لہذا سب سے بہتر یہ جواب ہے کہ یہ واقعہ در حقیقت ان صحابہ کی سیرت کے نا مناسب تھا اور ان کی شان سے بعید تھا۔ یہ ایک لغزش تھی جو ہوگئی اور ناگہانی بات تھی جو پیش آئی ۔

                                                                             س

جواب مکتوب

عذر و معذرت صحیح نہیں

آپ کے جیسے اہل علم کے لیے یہی زیبا ہے کہ حق بات کہیں اور درست بات زبان سے نکالیں۔

واقعہ قرطاس کے متعلق آپ کے علمء اعلام کی تاویلات و اعذار جن کی آپ نے اپنے  مکتوب میں تردید کی ہے تو ان تاویلات و اعذار کی تردید میں اور بہت سے گوشے باقی رہ گئے ہی۔ جی چاہتا ہے کہ انھیں بھی عرض کر دوں تاکہ اس مسئلے میں خود آپ ہی فیصلہ فرمائیں۔

پہلا جواب یہ دیا گیا ہے کہ رسول(ص) نے جس وقت قلم و دوات لانے کا حکم دیا تھا تو شاید کچھ لکھنے کا آپ کا ارادہ نہ تھا ۔ بلکہ محض آزمانا مقصود تھا آپ کو۔ اور کچھ نہیں۔

آپ نے اس جواب کی رد میں جو کچھ فرمایا ہے اس کے علاوہ میں کہتا ہوں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آںحضرت(ص) کا دمِ واپسین تھا۔ حالتِ احتضار طاری تھی جیسا کہ حدیث سے صراحت ہوئی ہے۔ لہذا وہ وقت

۴۹۴

 اختبار و امتحان کا نہ تھا بلکہ اعذار و انذار کا تھا۔ ہر امر ضروری کے لیے وصیت کرجانے کا وقت تھا اور امت کے ساتھ پوری بھلائی کرنے کا موقع تھا۔ جو شخص دم توڑ رہا ہو بھلا دل لگی اور مذاق سے اسے کیا واسطہ ،اسے تو خود اپنی پڑی ہوتی ہے، اہم امور پر اسکی توجہ رہتی ہے۔ اپنے تعلق والوں کی مہمات میں اس کا دھیاں ہوتا ہے۔ خصوصا جب وہ دم توڑنے والا بنی ہو نیز جب اس نے بحالت صحت اپنے پورے عرصہ حیات میں اختبار نہ لیا  تو وقت اختضار کیا اختبار و امتحان لیتا۔

علاوہ اس کے شور غل کرنے چیخ وپکار مچانے پر ان لوگوںسے رسول(ص) کا کہنا کہ : “ قوموا عنی” میرے پاس سے اٹھ جاؤ” صاف صاف بتاتا ہے کہ رسول(ص) کو ان لوگوں سے صدمہ پہنچا ۔ آپ رنجیدہ ہوئے ۔ اگر نوشتہ لکھنے سے روکنے  والے ہی جادہ ثواب پر ہوتے تو ان کے روکنے کو رسول(ص) پسند فرماتے، مسرت کا اظہار فرماتے۔

اگر آپ حدیث کے گردو پیش پر نظر ڈالیے ، خصوصا ان لوگوں کے فقرے پر غور فرمائیے کہ ہجر رسول اﷲ ” رسول اﷲ(ص) ہذیان بک رہے ہیں۔” تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت عمر اور ان کے تمام ہوا خواہ جانتے تھے کہ رسول(ص) ایسی بات لکھنا چاہتے ہیں جو ہمیں پسند نہیں ۔ اسی وجہ سے ایسا فقرہ کہہ کر ناگہانی صدمہ پہنچایا گیا رسول(ص) کو اور آپ(ص) کے حضور میں انتہا سے زیادہ شور و غل مچایا گیا۔ اختلافات خوب اچھالے گئے۔ جناب ابن عباس کا اس واقعہ کو یاد کر کے شدت سے گریہ کرنا اور اس واقعہ کو مصیبت شمار کرنا یہ بھی اس جواب کے  باطل ہونے کی بڑی قوی دلیل ہے۔

معذرت کرنے والے کہتے ہیں کہ حضرت عمر مصالح کے پہچاننے میں

۴۹۵

موفق للصواب تھے اور خدا کی جانب سے آپ پر الہام ہوا کرتا تھا۔ یہ معذرت اسی ہے کہ اس پر توجہ ہی نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ کہنے سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں راستی و درستی حضرت عمر کی طرف تھی نہ کہ رسول(ص) کی طرف ۔ نیز یہ کہ حضرت عمر کا اس دن کا الہام اس دن کی وحی جو رسول(ص) پر امین وحی لے کر نازل ہوئے زیادہ سچ تھا۔ بعض علماء نے حضرت عمر کی طرف سے یہ معذرت کی ہے کہ حضرت عمر رسول(ص) کی تکلیف کم کرنا چاہتے تھے ۔بیماری  کی حالت میں رسول(ص) لکھنے کی زحمت کرتے تو آپ کا تعب اور بڑھ جاتا۔ اسی تعب کے بڑھنے کے خوف سے حضرت عمر نے ایسا فقرہ کہا۔

مگر آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نوشتہ لکھنے میں رسول(ص) کے دل کو زیادہ راحت ہوتی۔ آپ کا دل زیادہ ٹھنڈا ، آنکھیں زیادہ خنک اور امت کی گمراہی سے آپ زیادہ بے  خوف ہوجاتے۔ رسول(ص) کی فرمائش قلم و دوات کے متعلق تھی کسی کو حضرت کی تجویز کے خلاف قدم اٹھانا صحیح نہ تھا۔

وَ ما كانَ لِمُؤْمِنٍ وَ لا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ

“ جب خدا و رسول(ص) کسی بات کا فیصلہ کرلیں تو پھر مومن مرد یا مومن عورت کو اس بات کے پسند ناپسند کی گنجائش نہیں۔”

علاوہ اس کے حضرت عمر اور ان کے ہواخواہوں کا مخالفت کرنا ، اس اہم ترین مقصد میں رکاوٹ ڈالنا اور رسول(ص) کی نظروں کے سامنے شور و غل مچانا ، جھگڑا فساد کرنا یہ زیادہ شاق تھا، زیادہ گران تھا رسول(ص) پر بہ نسبت

۴۹۶

 ایسا نوشتہ لکھنے کے جس سے امت ہمیشہ کےلیے گمراہی سے محفوظ ہو جاتی۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضرت عمر سے رسول(ص) کی اتنی زحمت تو دیکھی نہ گئی کہ آپ بیماری کی حالت میں نوشتہ تحریر فرمائیں مگر ایسا کرنے میں انھیں کوئی تامل نہ ہوا کہ رسول(ص) قلم و دوات مانگیں اور وہ تکرار لگیں۔ ہذیان بک رہے ہیں۔” کہہ کر ناگہانی صدمہ پہنچائیں۔ لکھنے میں اگر زحمت بھی ہوتی رسول(ص) کو تو کیا اس دلی صدمہ سے بڑھ کر ہوتی؟

لوگوں نے حضرت عمر کی طرف سے معذرت کا ، بڑی نادر بات کہ گئی۔ غور تو فرمائیے کہ جب رسول(ص) کو خود حکم دیں کہ قلم و دوات لاؤ، تو قلم ودوات کا نہ لانا بہتر ہوگا۔ کیونکر ہوگا ۔ کیا حضرت عمر یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ رسول(ص) ایسی چیز کا حکم دیا کرتے ہیں جس چیز کا ترک کرنا ہی زیادہ مناسب ہے۔

اس سے بڑھ کر حیرت خیز ان لوگوں کا یہ قول ہے کہ حضرت عمر ڈرے کہ رسول(ص) کہیں اسی باتیں نہ لکھ جائیں جس کے کرنے سے لوگ عاجز رہیں اور نہ کرنے پر سزا وار عقوبت ٹھہریں۔

غور فرمائیے کہ رسول(ص) کے یہ کہنے کے بعد “ تاکہ تم گمراہ نہ ہو۔” حضرت عمر کا ڈرنا کہاں تک بجا تھا ۔ کیا حضرت عمر رسول(ص) سے زیادہ انجام سے باخبر رسول(ص) سے زیاہ محتاط اور امت پر بہ نسبت رسول(ص) کے زیادہ مہربان تھے؟ کوئی بھی اس کا اقرار نہ کرے گا، کون بھلا یہ ماننے پر تیار ہوسکے گا؟

یہ بھی لوگوں نے حضرت عمر کی طرف سے معذرت پیش کی ہے کہ حضرت عمر کو منافقین کی طرف سے اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں حالت مرض میں نوشتہ تحریر ہونے کی وجہ سے اس نوشتہ کی صحت میں قدح نہ کریں مگر

۴۹۷

 آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بھی غلط ہے۔ رسول(ص) کے لا ضلوا کہنے کے بعد اس اندیشہ کی کوئی وجہ ہی نہ تھی کیونکہ رسول(ص) جب خود وضاحت فرمادیں کہ میرا نوشتہ گمراہی سے محفوظ رہنے کا سبب ہوگا پھر منافقین کی قدح کی وجہ سے وہ نوشتہ باعث فتنہ و فساد کیونکر ہوجائے گا۔

اگر حضرت عمر منافقین ہی سے ڈرتے تھے ۔ ان کو یہی اندیشہ تھا کہ منافقین نوشتہ کی صحت میں قدح نہ کریں تو خود منافقین کے لیے انھوں نے قدح کا تخم کیوں بویا؟ رسول(ص) کی بات کا جواب دے کر، لکھنے سے روک کر،“ ہذیان بک رہے ہیں” کہہ کر منافقین کے لیے راہ کیوں پیدا کر دی؟

حضرت عمر کے ہواخواہ ان کے فقرہ“ حسبنا کتاب اﷲ” کی تفسیر میں یہ جو کہتے ہیں کہ خود خداوند کریم نے ارشاد فرمایا ہے:

“ ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہ اٹھا رکھی ”

نیز ارشاد الہی :

“ آج کے دن ہم نے دین کو تمھارے لیے کامل کیا۔”

تویہ درست نہیں اور نہ خداوند عالم کے ارشاد سے حضرت عمر کے فقرہ کی تائید ہوتی ہے کیونکہ آیت سے یہ تو نہیں نکلتا کہ امت گمراہی سے ہمیشہ کے محفوظ بھی ہوگئی ہے نہ یہ آیتیں ہدایت خلق کی ضامن ہیں۔ پھر ان دونوں آیتوں پر بھروسہ کر کے نوشتہ رسول(ص) سے بے پرواہی کیونکر جائز ہوگی؟ اگر قرآن کا وجود ہی گمراہی سے محفوظ رہنے کا موجب ہوتا تو یہ گمراہی کیوں ہوتی ؟ اتنی پراگندگی کیون ہوتی؟ جس کے دور ہونے کی وجہ سے قریب قریب مایوسی ہوچکی ہے۔

حضرت عمر کی طرف سے آخری جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ حضرت عمر

۴۹۸

 ارشادِ رسول(ص) کا مطلب نہیں سمجھے ، ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ وہ نوشتہ امت کے ہرہر فرد کے لیے گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہوگا بلکہ حضرت عمر، رسول(ص) کے اس جملہ سے کہ لا تضلوا بعدی” تم میرے بعد گمراہ نہ ہوگے۔” یہ سمجھے کہ رسول(ص) کا نوشتہ گمراہی پر مجتمع نہ ہونے کا سبب ہوگا۔ اس نوشتہ کا فائدہ یہ ہوگا کہ امت والے گمراہی پر متفق و متحد نہ ہوں گے اور حضرت عمر یہ پہلے ہی سے جانتے تھے کہ امت والے کبھی گمراہی پر مجتمع ہی نہ ہوں گے چاہے نوشتہ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے۔ اسی وجہ سے آپ نے اس موقع پر ایسا جواب دیا اور نوشتہ لکھنے سے  مانع ہوئے۔ اس کی تردید میں آپ نے جو کچھ کہا وہ تو کہا ہی ہے میں عرض کرتا ہوں کہ حضرت عمر اس قدر ناسمجھ نہ تھے اور نہ یہ حدیث جس کا مطلب سب پر واضح و روشن تھا کہ ان کی سمجھ میں نہ آسکی کیونکہ قولِ رسول(ص) سے  ہر شہری اور دیہاتی کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ اگر رسول(ص) وہ نوشتہ لکھ دیتے تو ہر فرد کے لیے گمراہی سے محفوظ رہنے کی علتِ تامہ ہوتا وہ نوشتہ یہی معنی یہی مفہوم اس حدیث سے ساری دنیا کی سمجھ میں آتے ہیں۔

حضرت عمر بھی یقینی طور پر جانتے تھے کہ رسول(ص) کو امت کی طرف سے گمراہی پر مجتمع ہونے کا خطرہ نہیں کیونکہ حضرت عمر رسول(ص) کا یہ ارشاد سنتے رہتے تھے کہ :

“ میری امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی۔ خطا پر مجتمع نہ ہوگی۔”

ہمیشہ میر امت سے ایک جماعت حق کی حمایتی ہوگی ۔ نیز حضرت عمر نے خداوند عالم کا یہ ارشاد بھی سنا تھا:

“ تم میں سے وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک کام کیے
۴۹۹

 ان سے خداوند عالم نے وعدہ کر رکھا ہے کہ انھیں وہ روئے زمین پر خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان کے قبل کے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا۔”

اسی طرح کی اور بہت سی کلام مجید کی واضح آیتیں اور احادیث پیغمبر(ص) میں سے صریحی حدیثیں حضرت عمر اس بارے میں سن چکے تھے کہ امت کل کی کل کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی لہذا اس کا دھیان بھی نہیں ہوسکتا کہ باوجود یہ سب سننے کے جب رسول(ص) نے قلم و دوات طلب کیے تو حضرت عمر یا دوسرے لوگوں کے ذہن میں خطور ہوا ہوگا کہ رسول(ص) اپنی امت کے گمراہی پر مجتمع ہونے کا خوف رکھتے ہیں۔ جبھی قلم و دوات طلب کر رہے ہیں۔ حضرت عمر کے مناسب حال تو یہ ہے کہ وہ بھی اس حدیث سےوہی سمجھیں جو دینا سمجھ رہی ہے نہ کہ ایسی بات سمجھیں جس کی آیاتِ کلام مجید بھی نفی کریں اور صحیح حدیثیں بھی۔

علاوہ اس کے رسالت ماب(ص) کا اظہار ناگواری کرنا اور میرے پاس سے اٹھ جاؤ فرمانا یہ بھی دلیل ہے کہ جس بات کو ان لوگوں نے ترک کردیا ہے واجب تھی ۔ قلم و دوات جو رسول(ص) نے مانگی تھی وہ لانا ضروری تھی۔ انھیں نہ لاکر انھوں نے ترک واجب کیا۔

اچھا مان لیا میں نے کہ حضرت عمر نے رسول(ص) کی مخالفت جو کی اور آپ کے پاس قلم و دوات لانے جو نہ  دیا وہ غلط فہمی کی وجہ سے تھا۔ رسول(ص) کی بات ان کی سمجھ میں نہ آسکی اس وجہ سے ایسا ہوا۔ ایسی حالت میں رسول(ص) کو کیا چاہیے تھا۔ ایسے وقت میں رسول(ص) کو تو چاہیے تھا کہ آپ ان کے شکوک و شبہات زائل کردیں۔ اچھی طرح اپنا مقصد واضح فرمادیں بلکہ رسول(ص) کے لیے

۵۰۰