دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 242142
ڈاؤنلوڈ: 5156

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242142 / ڈاؤنلوڈ: 5156
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اس کی بھی گنجائش تھی کہ ان کو جس بات کاحکم دیا تھا اس پر مجبور فرماتے لیکن رسول(ص) نے یہ سب کچھ نہیں کیا بلکہ اپنے پاس سے اٹھا دیا ۔ قوموا عنی۔ ” تم میرے پاس سے اٹھ جاؤ” معلوم ہوا کہ رسول(ص) جانتے تھے کہ حضرت عمر کی مخالفت غلط فہمی کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور جذبہ کے ماتحت وہ ایسا کہہ رہے تھے اسی لیے آپ نے پاس سے دور ہوجانے کا حکم دیا۔

جناب ابن عباس کا گریہ فرمانا ، نالہ و فریاد کرنا اس دن کو یاد کر کے یہ بھی ہمارے بیان کا پورا پورا موید ہے۔ صاف تو یہ ہے کہ یہ ( حضرت عمر کی لائی ہوئی) وہ زبردست مصیبت ہے جس میں کسی عذر کی گنجائش ہی نہیں ۔ اگر آپ کے کہنے کی بنا پر اس واقعہ اندوہناک کو صحابہ کی ایک لغزش ان کی ایک فرد گزاشت  کہہ کر ختم کر دیا جائے تو بات آسان تھی اگر چہ محض یہ ایک واقعہ ہی زمانے بھر کو ہلاک کردینے والا کمر کو شکستہ کردینے والا ہے۔

                                                                     ش

۵۰۱

مکتوب نمبر45

عذر و معذرت کے لغو ہونے کا اعتراف بقیہ مورد کے متعلق استفتاء

آپ نے معذرت کرنے والوں کی تمام رائیں کاٹ دیں اور ان پر تمام راستے بند کردیے اور ان کے اور ان کے اغراض کے درمیان دیوار کھڑی کردی۔ جو کچھ آپ نے بیان فرمایا اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہی۔ آپ انا سلسلہ بیان جاری رکھیے اور ان تمام مواقع کا ذکر فرمائیے جہاں صحابہ نے ںصوص پر عمل نہ کیا اور من مانی تاویلیں کیں۔

                                                                             س

۵۰۲

جواب مکتوب

جیش اسامہ

آپ کا حکم ہے کہ میں وہ سارے موارد بیان کروں جہاں صحابہ نے اطاعتِ قول پیغمبر(ص) پر اپنی رائے کو مقدم سمجھا۔

اچھا تو لشکر اسامہ کا واقعہ ملاحظہ فرمائیے ۔ لشکر اسامہ رسول(ص) کی زندگی  کا آخری لشکر تھا جسے آپ نے روم کی طرف لڑنے کو بھیجا تھا۔ اس لشکر کی روانگی میں آپ نے اہتمام عظیم فرمایا تھا اور تمام صحابہ کو تیاری کا حکم دیا تھا مسلمانوں کے ارادوں کو مضبوط اور ان کی ہمتوں کو بڑھانے کے لیے لشکر کے سازو سامان کی فراہمی آپ نے خود بنفس نفیس فرمائی۔

مہاجرین و اںصار کے سر برآوردہ افراد جیسے حضرت ابوبکر(1) وعمر ابو عبیدہ،

--------------

1ـ  جملہ اہل سیر ومورخین کا اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر بھی اس لشکر میں تھے۔ ملاحظہ ہو طبقات ابن سعد ، تاریخ طبری و تاریخ کامل ، سیرت سلانیہ  وغیرہ، علامہ حلبی وغیرہ نے اسی جیش اسامہ کے ذکر کے سلسلہ میں بڑے مزے کا ایک واقعہ بھی ذکر کیا ہے۔ خلیفہ مہدی جب بصرہ آیا تو اس نے ایاس بن معاویہ کو جو اس وقت بہت کم سن تھے اور جن کی ذہانت و فراست بطور ضرب المثل مشہور ہے امامت کرتے اور چار سو بوڑے علماء فقہاء کو ان کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا ۔مہدی نے کہا خدا ان داڑھی والوں کو غارت کرے کیا اتنے لوگوں میں کوئی اس قابل نہیں ہے کہ آگے بڑھ کر نماز پڑھا دے پھر مہدی خود ایاس کی طرف بڑھا صاحبزادے کیا سن ہے تمھارا ؟ ایاس نے جواب دیا حضور میرا سن اس وقت وہی ہے خدا حضور کو زندہ سلامت رکھے جو اسامہ بن زید کا اس وقت تھا جب رسول(ص) خدا نے انھیں لشکر کا افسر مقرر کیا تھا جس میں حضرت عمر بھی اور حضرت ابوبکر بھی۔ مہدی نے کہا آگے بڑھو خدا تمہیں برکت دے ( بے شک تم امامت کے مستحق ہو) علامہ حلبی لکھتے ہیں اس وقت اسامہ کا سن سترہ سال کا تھا۔

۵۰۳

سعد ابن ابی وقاص ، وغیرہ میں سے کوئی بھی فرد ایسا نہ بچا جسے فوج میں رسول(ص) نے رکھا(1) ہو۔ یہ سنہ11ھ ماہ صفر 26 تاریخ کا واقعہ ہے جب صبح ہوئی 27 تاریخ آئی تو آپ نے اسامہ کو طلب کیا اور فرمایا کہ :

“ جہاں تمھارے باپ قتل کیے گئے اس طرف روانہ ہو اور ان لوگوں کو اس لشکر سے روند ڈالو، میں تمہیں اس لشکر کا افسر اعلیٰ مقرر کرتا ہوں تم صبح سویرے اہل ابنی(2) پر چڑھائی کر دینا اور بہت تیزی سے جانا کہ وہاں خبر پہنچنے سے پہلے پہنچ جاؤ۔ اگر فتحیابی ہو تو بہت تھوڑی دیر وہاں ٹھہرنا ۔اپنے ساتھ راہ بتانے والے لے لو ، جاسوسوں کو آگے روانہ کر دو۔”

جب 28 صفر ہوئی تو رسول(ص) کا مرض موت نمایاں ہوا۔ تپ آگئی، سرکا درد بڑھ گیا۔ جب 29 تاریخ ہوئی اور آپ نے

ملاحظہ فرمایا کہ لوگ جانے میں تساہل کر رہے ہیں تو آپ باہر تشریف لائے۔ مسلمانوں کی حمیت کو جنبش میں لانے اور ارادوں کو پختہ بنانے کے لیے آپ نے اپنے ہاتھ سے لشکر کا علم درست کر کے

--------------

1ـ حضرت عمر اسامہ سے کہا کرتے تھے کہ پیغمبر(ص) نے جب انتقال کیا تو تم میرے افسر تھے ۔ اس جملہ کابکثرت مورخین مثلا علامہ حلبی و غیرہ نے ذکر کیا ہے۔

2ـ ابنی شام میں موتہ جہاں جناب جعفر طیار اور زید بن حارث شہید ہوئے تھے کے قریب ایک جگہ ہے۔

۵۰۴

 اسامہ کو بخشا اور ارشاد فرمایا کہ خدا کا نام لے کر چل کھڑے ہو اور راہِ خدا میں جہاد کرو اور تمام کافروں سے جنگ کرنا۔

اسامہ رسول(ص) کا علم لے کر چلے، علم کو بریدہ کے حوالے کیا۔ مدینہ کے باہر پہنچ کر لشکر سمیت قیام کیا۔ وہاں پہنچ کر مسلمانوں میں پھر سستی پیدا ہوئی ، اور وہاں سے آگے نہ بڑھے۔ باوجودیکہ  صحابہ نے ارشادات پیغمبر(ص) سنے۔ جلد روانہ ہونے کا آپ (ص) نے جس قدر سختی کے ساتھ صاف صاف لفظوں میں تاکیدی حکم دیا تھا وہ سنا ۔ جیسے رسول(ص) کا یہ فقرہ : “ صبح سویرے ابنی پڑ چڑھائی کر دو” اور رسول(ص) کا یہ جملہ :“ جلد روانہ ہونا کہ وہاں خبر پہنچنے سے پہلے پہنچ جاؤ۔” غرض اسی طرح اور بہت سے تاکیدی احکام لشکر کی روانگی کے موقع پر دیے تھے مگر صحابہ نےکسی حکم پر عمل نہیں کیا۔ رسول(ص) کی ایک بات بھی نہیں مانی۔ صحابہ میں سے بعض لوگوں نے اسامہ کو افسر مقرر کرنے پر اعتراض بھی کیا جس طرح سابق میں اسامہ کے باپ زید کو افسر مقرر کرنے پر وہ اعتراض کرچکے تھے۔ اور بہت کچھ باتیں اسامہ کے متعلق لوگوں نے کہیں حد سے زیادہ برا بھلا کہا۔ حالانکہ  انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خود رسول(ص) نے افسر مقرر کیا ہے۔ اسامہ رسول(ص) کو یہ کہتے بھی سنا کہ :

“ میں نے تمہیں اس لشکر کا افسر مقرر کیا ہے”

اپنی آنکھوں سے دیکھا بھی کہ رسول(ص) باوجود بخار میں ہونے کے اپنے ہاتھ سے علم لشکر درست کر کے اسامہ کے ہاتھ میں دے رہے ہیں مگر باوجود یہ سب دیکھنے اور سننے کے وہ اسامہ کے سردار مقرر کیے جانے پر اعتراض کرنے سے باز نہ رہے ۔ آخر کار ان کے اعتراض و طعنہ زنی سے رسول(ص) شدید غم وغصہ میں اسی بخار کی حالت میں سر پر پٹی باندھے ، چادر اوڑھے  باہر تشریف لائے۔ یہ سنیچر

۵۰۵

 10 ربیع الاول انتقال سے صرف دو یوم پیشتر کا واقعہ ہے۔ آپ منبر پر گئے حمد و ثنائے الہی کے بعد ارشاد فرمایا ( تمام مورخین نے اجتماعی طور پر رسول(ص) کے اس خطبہ کو نقل کیا ہے اور تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ رسول(ص) نے اس دن یہ خطبہ ارشاد فرمایا تھا)

“ میرے اسامہ کو افسرِ فوج مقرر کرنے پر تمھیں اعتراض ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ اسامہ کے باپ زید کو جب میں نے افسر مقرر کیا تھا تب بھی تم لوگ معترض تھے۔ خدا کی قسم زید بھی افسر کے لائق تھا اور اس کا بیٹا بھی افسر کا سزاوار ہے۔”

اس کے بعد آںحضرت(ص) نے مسلمانوں کو جلد روانہ ہونے کے جوش دلایا صحابہ آپ سے رخصت ہونے لگے اور لشکر گاہ کی طرف روانہ ہونے شروع ہوئے آںحضرت (ص) انھیں جلد روانگی پر برانگیختہ کرتے رہے ۔ اس کے بعد آپ کے مرض میں شدت پیدا ہو چلی مگر آپ شدتِ مرض میں یہی فرماتے رہے :

“ لشکر اسامہ کو جلد بھیجو۔”
“ لشکر اسامہ کو فورا روانہ کر دو۔”

یہی جملے برابر دہراتے رہے۔ مگر ادھر لشکر والے سستی ہی برتتے رہے جب 12 ربیع الاول کی صبح ہوئی تو اسامہ لشکر گاہ سے رسول(ص) کی خدمت میں پہنچے رسول(ص) نے فورا روانگی کا انھیں حکم دیا۔ ارشاد فرمایا :

“ خدا کی برکتوں کے ساتھ سویرے روانہ ہو جاؤ۔”

اسامہ نے رسول(ص) کو رخصت کیا اور لشکر گاہ کی طرف واپس ہوئے پھر پلٹے اور ان کے ساتھ حضرت عمر اور ابو عبیدہ تھے۔ یہ لوگ رسول(ص) کے پاس جاپہنچے۔ اس وقت آںحضرت(ص) کا دمِ واپسین تھا۔ اسی دن آپ نے دنیا سے

۵۰۶

 انتقال کیا۔ رسول(ص) کے انتقال کے بعد علم سمیت لشکر بھی مدینہ واپس آگیا۔

جب حضرت ابوبکر خلیفہ ہوگئے تو اس وقت بھی لوگوں نے چاہا کہ لشکر کی روانگی ملتوی کردی جائے اس کے متعلق حضرت ابوبکر سے لوگوں نے گفتگو بھی کی اور بڑا  شدید اصرار کیا باوجودیکہ وہ اپنی آنکھوں سے لشکر کی روانگی میں رسول(ص) کا اہتمام دیکھ چکے تھے۔ جلد جانے کے متعلق  فورا لشکر روانہ ہونے کے لیے مسلسل پیغمبر(ص) جو تاکیدیں کیا کیے اسے بھی سنتے رہے۔ خود بنفس نفیس پیغمبر(ص) کا لشکر کا سازو سامان فراہم کرنا ،بحالت تپ اپنے ہاتھ سے علم لشکرسنوار کر اسامہ کے ہاتھ میں دینا۔ یہ سب ان کی آنکھوں کے سامنے کی بات تھی مگر ان کی انتہائی کوشش یہی رہی کہ کسی طرح لشکر کی روانگی روک دی جائے۔ اگر حضرت ابوبکر نہ ہوتے تو لشکر بلا لینے اور رایت لشکر کھول دینے پردہ سب تک چکے تھے ۔ مگر خود حضرت ابوبکر نے نکار کر دیا۔

جب ان لوگوں نے دیکھا کہ لشکر بھیجنے پر ابوبکر تلے بیٹھے ہیں تو حضرت عمر، ابوبکر کے پاس آئے اور بزبان اںصار ان سے درخواست کی کہ اسامہ کو معزول کر کے کسی اور کو افسر مقرر کیا جائے۔ حالانکہ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ اسی اسامہ کی افسری پر اعتراض کرنے کا حشر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے۔ وہ آںحضرت(ص) کا غیظ و غضب اور اسی وجہ سے بخار ، شدید تکلیف میں سر پر پٹی باندھے چادر اوڑھے ہوئے گھر سے باہر آنا، لڑ کھڑاتی چال ڈگمگاتے قدم، صدمہ کی وجہ سے سنبھلا نہیں جاتا۔ آپ کا منبر پر جانا، ٹھنڈی سانسیں بھرنا اور فرمانا کہ :

“ اے لوگو! اسامہ کے فسر مقرر کرنے پر تم میں سے کچھ لوگوں کے قیل و قال کرنے کی یہ کیا خبر مجھے پہنچی ہے؟ اگر آج تم اسامہ
۵۰۷

کے سردار مقرر کیے جانے پر معترض ہوتو کل اس کے باپ زید کے سردار مقررکیے جانے پر بھی معترض رہ چکے ہو۔ خدا کی قسم زید بھی افسری کے لائق تھا اور اس کا بیٹا اسامہ بھی افسری کے لائق ہے۔”
رسول(ص) نے قسم کے ذریعے ان جملہ اسمیہ اور لام تاکید کے ذریعے اپنے حکم کی پوری پوری تاکید کی تاکہ لوگ اعتراض سے باز رہیں ، قیل و قال نہ کریں، مگر افسوس رسول(ص) کی یہ تمنا پوری(1) نہ ہوئی۔
رسول(ص) کے جیتے جی بھی اسامہ کی ماتحتی نہ قبول کی اور رسول(ص) کے بعد حضرت ابوبکر سے خواستگاری کی گئی کہ اسامہ کوہٹا کر کسی دوسرے کو افسر مقرر کیا جائے لیکن حضرت ابوبکر نے ان لوگوں کی اس درخواست کو اسی طرح ٹھکرا دیا جس طرح لشکر کی روانگی کو ملتوی کردینے کی درخواست ٹھکرا دی تھی۔ آپ نے لپک کر حضرت عمر کی ڈارھی پکڑی(2) اور کہا:
“ تمھاری ماں تمھارے ماتم میں بیٹھے ، ستیاناس ہو تمھارا اے خطاب کے بیٹھے ! رسول(ص) تو اسامہ(3) کو افسر مقرر کریں اور تم مجھے حکم دیتے ہو کہ

--------------

1ـ جملہ اہل سیر و مورخین جنھوں نے معرکہ اسامہ کا اپنی تالیفات میں ذکر کیا ہے انھوں نے اسامہ کے افسر بنائے جانے پر صحابہ کے اعتراض اور پیغمبر(ص) کی غضب ناکی اور بحالت تپ مسجد میں تشریف لانے اور خطبہ فرمانے کا ذکر بھی کیا ہے ۔ ملاحظہ ہو طبقات ابن سعد ، سیرت حلبیہ ، سیرت وحلانی وغیرہ۔

2ـ ملاحظہ ہو سیرت حلبیہ و سیرت دحلانی اور تاریخ طبری بر ذیل واقعات سنہ11 ھ اور دیگر کتب تاریخ و سیر۔

3ـ اسامہ  اس جنگ میں ہر طرح کامیاب و مںصور رہے اور پیغمبر(ص) نے جو ہدایتیں فرمائی تھیں سب عمل میں لائے ۔ اپنے باپ کے قاتل کو قتل کیا اور اس جنگ میں ایک مسلمان بھی مقتول نہ ہوا۔  

۵۰۸

میں انھیں معزول کردوں۔”

جب لشکر روانہ ہوا تو تین ہزار سپاہی اسامہ لے کر چلے جس میں ایک ہزار سوار تھے۔ ایک اچھی خاصی تعداد صحابہ کی جنھیں خود رسول(ص) نے فوج میں رکھا تھا اسامہ کے ساتھ جانے کا تاکیدی حکم دیا تھا لشکر کے ہمراہ نہ جانا تھا نہ گئی ۔ حالانکہ رسالتماب(ص) نے بڑی تاکیدسے پیہم فرمایا تھا ( جیسا کہ علامہ شہرستانی کتاب الملل و النحل مقدمہ چہارم میں رقمطراز ہیں۔)

“ اسامہ کا لشکر جدل روانہ کرو، خدا لعنت کرے اس پر جو اسامہ کی ماتحتی سے گزیر کرے۔”

 آپ سمجھ سکتے ہیں صحابہ نے ابتداء رسول(ص) کی زندگی میں جانے میں تساہلی برتی اور آخر میں رسول(ص) کے بعد جب آخر کار لشکر روانہ ہوا بھی تو لشکر کے ہمراہ جانے سے گریر کیا۔ فوج کے ساتھ نہ گئے۔ اسی لیے تاکہ سیاست کے ستوں استوار کرلیں انھوں نے حکم رسول(ص) کی تعمیل پر سیاست کو ترجیح دی ، امور مملکت کا انتظام و اںصرام مقدم رکھا ۔ رسول(ص) کے تاکیدی احکام پسِ پشت ڈالے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہماری سستی اور کاہلی کی بنا پر لشکر کے

ساتھ نہ جانے کی وجہ سے لشکر کی روانگی ملتوی نہیں ہوگی۔ لشکر تو بہر حال جائے گا چاہے ہم جائیں یا نہ جائیں۔ لیکن

اگر ہم محاذ جنگ پر رسول(ص) کے انتقال کے قبل ہی چلے جاتے ہیں تو ہمارے آتے آتے خلافت کا مسئلہ طے ہوچکا ہوگا اور اب تک خلافت کے لیے دل میں جو تمنائیں پرورش پا رہی تھیں ان کا خون ہوجائے گ۔ ساری امیدیں خاک میں مل جائیںگی اور ہمیشہ کے لیے خلافت سے محروم ہوجائیں گے۔

حضور سرورکائنات(ص) چاہتے تھے کہ مدینہ ان لوگوں سے خالی ہوجائے تاکہ ان کی عدم موجودگی میں امیر المومنین(ع) کی خلافت کے لیے کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔

۵۰۹

اور سکون و اطمینان کےساتھ بغیر کسی اختلاف و نزاع کے امیرالمومنین(ع) تخت خلافت پر متمکن ہوجائیں جب یہ صحابہ جنگ سے پلٹیں گے اور یہاں خلافت کا معاملہ طے ہوچکا ہوگا۔ بیعت ہوچکی ہوگی تو پھر نزاع و اختلاف کا انھیں کوئی موقع ہی باقی رہے گا۔

اسامہ کو جب وہ 17 برس(1) کے سن کے تھے افسر مقرر کرنے میں آپ کی یہ مصلحت تھی کہ بعض لوگوں کی گردن ذرا جھنجھوڑ دی جائے ۔ متمرد و سرکش ہسیتوں کو ان کی سرکشی کا مزہ چکھا دیا جائے نیز اگر اس سے ملتا جلتا واقعہ پیش آئے آپ کسی شخص کو امیر مقرر فرمائیں جوسن میں بڑے بوڑھے صحابیوں سے کم ہوتو بڑائی کے لینے والوں کی طرف سے کسی نزاع کا خدشہ باقی نہ رہے۔ لیکن یہ صحابہ رسول(ص) کی تدبیروں کو سمجھ گئے لہذا انھوں نے اسامہ کے افسر مقرر کرنے پر اعتراضات کرنا شروع کیے۔ رسول(ص) پر طعن کرنے لگے ، ان کے ماتحت بن کر جانے میں سستی کو راہ دی۔ رسول(ص) کے حکم سے مجبور ہوکر چلے بھی تو مدینہ کے باہر جاکر ٹھہر گئے۔ وہاں سے کسی طرح آگے بڑھنا منظور نہ کیا۔ یہاں تک کہ پیغمبر(ص) نے انتقال کیا۔ اب انھیں کوئی کھٹکا باقی نہ تھا۔ پہلی کوشش تو ان کی یہ ہوئی کہ اسامہ کو معزول کر کے کسی اور کو افسر مقرر کیا جائے ۔ پھر

بہت سے لوگ لشکر کے ساتھ نہ گئیے جیسا آپ سن چکے۔

یہ پانچ باتیں اس سریہ اسامہ میں پیش آئیں جن میں صحابہ نے سیاسی امور میں اپنی رائے کو مقدم رکھا اور نصوص پیغمبر(ص) پر عمل کرنے سے سیاسی اغراض میں

--------------

1ـ زیادہ ترمورخین نے 17 برس ہی کی عمر لکھی ہے ، بعض نے 18 برس بعض نے 19 برس بعض نے 20 بیس برس لکھی ہے۔ 20 برس سے زیادہ کی عمر کا کوئی قائل نہیں۔

۵۱۰

 اپنے اجتہاد کو بہتر جانتے ہوئے صریحی احکام پیغمبر(ص) کی کھلی مخالفت کر کے کے حکم کو ٹھکرا دیا:

 1 ـ         رسول اﷲ(ص) نے اسامہ کی ماتحتی میں محاذ جنگ پر روانہ ہونے کا حکم دیا لیکن نہ گئے۔

2 ـ          سیاسی امور میں اپنی رائے و اجتہاد کو تعمیل حکمِ پیغمبر(ص) سے بہتر جانا۔

3 ـ         اسامہ کی افسری پر طعن کیا۔

4ـ          رسول(ص) کے انتقال کے بعد کوشش کی کہ لشکر کی روانگی ہی ملتوی کردی جائے۔

5 ـ         جب اس میں ناکامی ہوئی تو اسامہ کو معزول کر دینے کےلیے سازشیں کیں۔

                                                                     ش

۵۱۱

مکتوب نمبر46

سریہ اسامہ میں صحابہ کے نہ جانے کی معذرت

یہ صحیح ہے کہ حضرت سرورکائنات(ص) نے صحابہ کو محاذِ جنگ پر جلد روانہ ہونے کی بڑی تاکید کی جیسا کہ آپ نے ذکر فرمایا ہے۔ نیز آپ نے سختی بھی فرمائی چنانچہ آپ نے اسامہ سے فرمایا تھا کہ صبح سویرے ہی اہل انبی پر چڑھائی کر دو۔ آپ نے شام تک کہ مہلت بھی نہ دی نیز آپ نے اسامہ سے فرمایا کہ جلد جاؤ اور سوائے جلد جانے کے آپ کسی بات پر راضی نہ ہوئے لیکن اس کے بعد فورا ہی رسول(ص) کی حالت اتنی سقیم ہوئی کہ امید باقی نہ رہی ۔ اسی وجہ سے صحابہ کے دل ایسی حالت میں رسول(ص) کو چھوڑ کر جانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ وہ مدینہ کے باہر ٹھہر کر انتظار کرتے رہے کہ کیا صورت پیش آتی ہے۔ چونکہ صحابہ کو رسول(ص) کا بڑا خیال تھا ۔ بہت تعلق خاطر

۵۱۲

 تھا اسی وجہ سے ان سے ایسی فروگذاشت ہوئی۔ ان کے سستی کرنے اور روانگی میں درنگ کرنے سے مقصد کچھ اور نہ تھا۔ دو باتوں میں صرف ایک بات تھی ۔ یا رسول(ص) کو تندرست دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوں یا اگر رسول(ص) کا انتقال ہو جائے تو آپ کی تجہیز و تکفین میں شرکت کا شرف حاصل کریں اور رسول(ص) کے بعد ان کا جو حاکم مقرر ہو اس کے لیے راہ کو ہموار بنائیں۔ لہذا اس انتظار و توقف میں وہ معذور تھے اور ان کی کوئی خطا نہیں۔

رہ گیا اسامہ کی افسری پر ان طعنہ زن ہونا در آںحالیکہ وہ اس بارے میں رسول(ص) کے صریحی احاکم سن چکے تھے۔ قولا و فعلا رسول(ص) کے اہتمام و تاکید کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے تو اس کی وجہ صرف یہ تھے کہ کچھ صحابہ اور ادھیڑ عمر کے کچھ بوڑھے تھے اور اسامہ بہت کم سن ۔ تو ادھیڑ عمر کے لوگوں اور بوڑھوں کے دل کو یہ بات کسی طرح گوارا نہیں ہوسکتی کہ وہ نوجوان کی اطاعت گزاری کریں فطری و طبعی طور پر نوجوان کا حکم ماننے پر وہ کبھی تیار نہیں ہوسکتے۔ لہذا انھوں نے اسامہ کی ماتحتی کو جو ناپسند کیا تو یہ ان کی بدعت نہ تھی بلکہ اقتضائے طبیعت بشری مقتضائے فطرت انسانی انھوں نے ایسا کیا۔

رسول(ص) کے انتقال کےبعد انھوں نے اسامہ کو معزول کرنے کا جو مطالبہ کیا تو اس کے عذر میں بعض علماء نےفرمایا ہے کہ ان لوگوں نے یہ سوچا کہ حضرت ابوبکر بھی اسامہ کی معزولی کو معتبر سمجھتے ہیں ہماری موافقت کریںگے۔ کیونکہ ( بنابر ان کے خیال کے) مصلحت اسی کی مقتضی ہے۔

مگر اںصاف تو یہ ہے کہ اسامہ کو معزول کرنے کا جو انھوں نے مطالبہ کیا تھا ان کے اس مطالبہ کی کوئی معقول وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی در آںحالیکہ رسول(ص) اسی بات پر پہلے کس قدر غیظ و   غضب کا اظہار فرماچکے تھے۔ جن

۵۱۳

 لوگوں نے اسامہ کی سرداری پر اعتراج کیا تھا ان پر کتنا برہم ہوئے تھے کہ بخار کی حالت میں آپ سر پر پڑی باندھے ہوئے چادر اوڑھے ہوئے باہر آئے خطبہ فرمایا اور خطبہ میں کافی زجر و توبیخ کی لہذا اس کے بعد بھی ان کے معذور ہونے کی وجہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

لشکر کی روانگی کو روک دینے کی جو انھوں نے کوشش کی۔ حضرت ابوبکر سے اس کے لیے اصرار جو کیا باوجودیکہ لشکر کی روانگی کے لیے  رسول(ص) کی بے چینی انتہائی اہتمام دیکھ  چکے تھے تاکیدی احکام سن چکے تھے تو وہ پایہ تخت اسلامیہ کی حفاظت و احتیاط کے مدںظر تھا۔ ڈرتے تھے کہ جب مدینہ سے روانہ ہو جائے گا تو فوجی طالقت یہاں موجود نہ رہےگی تو کہیں مشرکین ہلہ نہ بول دیں۔ رسول(ص) کی آنکھ بند ہوتے ہی نفاق آشکار ہوچکا تھا ۔یہود و نصاری کے دل قوی ہوگئے تھے ۔ عرب کی متعدد ٹولیاں مرتد ہوچکی تھیں اور بعض جماعتیں زکوة دینے سے انکار کر چکی تھیں، انھیں سب باتوں کو پیش نظر رکھ کر صحابہ نے حضرت ابوبکر سے خواہش ظاہر کی کی آپ اسامہ کو سفر سے روک دیں لیکن حضرت ابوبکر نے انکار کر دیا اور کہا :

“ خدا کی قسم مجھے اگر کوئی پرندہ جھپٹ لے جائے تو زیادہ پسند ہے، بہ نسبت اس کے کہ میں رسول(ص) کے حکم کو پورا کرنے سے پیشتر کوئی اور کام شروع کردوں۔”

حضرت ابوبکر کے متعلق ہمارے علمائ نے یہی بیان کیا ہے۔ رہ گئے ان کے علاوہ اصحاب تو انھوں نے لشکر کو واپس بلا لینے کا جو اردہ ظاہر کیا تو اس میں ان کا عذر ظاہر ہے وہ صرف اسلام کی بہبودی کی خاطر ایسا چاہتے تھے ۔ حضرت ابوبکر و عمر وغیرہ۔ لشکر اسامہ کے ساتھ جو نہ گئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ انتظام

۵۱۴

مملکت میں مصروف تھے۔ مملکت  اسلامی کی بنیادیں مضبوط کرنا حکومت کو قوی بنانا، حکومت کی حفاظت مدنظر تھی۔ جس کےبغیر نہ تو دین محفوظ رہ سکتا ہے نہ دین والے۔

آپ نے شہرستانی کی ملل و نحل سےجو حدیث نقل کی ہے وہ مرسل ہے بسلسلہ اسناد مذکور نہیں اور علامہ حلبی و سید دحلانی نے اپنی سیرتوں میں کہا ہے کہ سریہء اسامہ کے موقع پر رسول(ص) نے کوئی حدیث ہی ارشاد نہیں فرمائی ۔ اگر بطریق اہلسنت کوئی حدیث آپ کے پیش  نظر ہو تو بیان فرمائیے؟

                                                     س

جواب مکتوب

آپ نے یہ تسلیم کیا کہ لشکر اسامہ کے ساتھ جانے میں صحابہ نے تاخیر کی اور باوجودیکہ رسول(ص) جلد روانہ ہونے کا حکم دے چکے تھے ، وہ مدینہ کے باہر جاکر ٹھہر گئے۔ اور آگے جانے میں سستی کرنے لگے۔

آپ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ صحابہ باوجودیکہ اسامہ کی افسری کے متعلق صریحی احکام پیغمبر(ص) سن چکے تھے اور اپنی آنکھوں سے رسول(ص) کا اہتمام بھی دیکھ چکے تھے لیکن پھر بھی انھوں نے اسامہ کے افسر مقرر کیے جانے پر اعتراض کیا۔

آپ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ صحابہ نے حضرت ابوبکر سے خواہش کی کہ سامہ کو معزل کرید جائے۔ در آنحالیکہ وہ اسامہ کی افسری پر اعتراض کرنے کا حشر دیکھ چکے تھے کہ رسول(ص) کس قدر برہم ہوئے اور اسی کی وجہ سے بخار کی حالت میں سر پر پٹی باندھے چادر اوڑھے باہر تشریف لائے۔ اور خطبہ فرمایا ۔ جس میں کافی زجر و توبیخ کی اور اسی خطبہ میں اس کا بھی اعلان کیا کہ اسامہ افسر مقرر

۵۱۵

 کیے جانے کے یقینا لائق ہے۔

آپ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بعد رسول(ص) صحابہ نے حضرت ابوبکر سے خواہش کی کہ رسلو(ص) جو لشکر میدان جنگ کی طرف روانہ کر رہے  تھے اس کی روانگی روک دی جائے۔ آپ کو یہ بی تسلیم ہے کہ جب لشکر روانہ ہوا تو بہت سے صحابہ جنھیں خود رسول(ص) نے اسامہ کی ماتحتی میں رکھ کر جانے کا حکم دیا تھا وہ لشکر کے ساتھ نہ گئے۔

آپ نے یہ تمام باتیں تسلیم کیں جس طرح مورخین و محدثین، اربابِ سیر اس کے معترف ہیں ۔ آپ نے یہ بھی اعتراف کیا اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ اس میں معذور تھے۔ آپ کے بیان کا خلاصہ یہ ے کہ انھوں نے ان تمام امور میں اپنے خیال و فکر کی بنا پر اسلام کی مصلحت کو مقدم رکھا۔ حکمِ پیغمبر(ص) کی وجہ سے جو فریضہ ان پر عائد ہوتا تھا اس کی پرواہ نہ کی۔ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں اس کے سوائے ہم نے کیا کہا؟

موضوع کلام ہمارا آپ کا تو یہی ہے کہ صحابہ رسول(ص) کا ہر ہر حکم بجا لاتے تھے یا نہیں۔ پہلے آپ کہتے تھے کہ صحابہ نے رسول(ص) ہر حکم کی پابندی کی اور میں یہ کہتا تھا کہ ہر حکم کی پابندی نہیں کی۔ اب آپ کا اعتراف کرنا کہ ان ( مذکورہ ) احکام پیغمبر(ص) کی انھوں نے اطاعت نہ کی ہمارے ہی قول کی تائید ہے، ہمارا ہی کہا ثابت ہوتا ہے۔ اب رہ گیا یہ کہ صحابہ معذور تھے یاہ نہیں۔ ان احکام کی تعمیل نہ کرنے میں ان کا عذر صحیح تھا یا غلط ، اس سے بحث ہی نہیں یہ موضوع بحث سے خارج ہے۔

جس طرح آپ کو یہ تسلیم ہے کہ صحابہ نے سریہء اسامہ کے معاملہ میں حکم پیغمبر(ص) پس پشت رکھا اور اپنے خیال میں اسلام کے لیے جو مفید سمجھتے تھے اس

۵۱۶

 کو ترجیح دی۔ اسی طرح آپ یہ کیوں نہیں تسلیم کر لیتے کہ امیرالمومنین(ع) کی خلافت و جانشینی کے متعلقل جس قدر ارشاداتِ رسول(ص) تھے، جتنی تصریحات تھیں پیغمبر(ص) کی غدیر خم کے موقع پر، غزوہ تبوک میں جانے کے وقت وغیرہ وغیرہ اس کو بھی صحابہ نے ٹھکرا دیا اور ان کی نظر میں خلافت کا جو اہتمام اسلام کے لیے مفید تھا اس کو مقدم رکھا۔ حکم پیغمبر(ص) کا ماننا ضروری نہ جانا اور اپنے نظریہ خلافت کو اسلام کے لیے بہتر سمجھا۔

اسامہ کے افسر مقرر کیے جانے پر معترضین نے جو اعتراض کیا تھا ان کی جانب سے معذرت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے کہ انھوں نے اس لیے اعتراض کیا کہ اسامہ کم سن تھے صحابہ کچھ ادھیڑ کچھ بوڑھے تھے اور ادھیڑ اور بوڑھے لوگوں کے نفوس کسی نوجوان کی ماتحتی و تابعداری سے عادتا گریزاں ہوتے ہیں۔ ان کی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ کسی نوجوان کے تابعدار نہ بنیں۔ تو یہی بات آپ ان لوگوں کے متعلق کیوں نہیں کہتے جنھوں نے امیرالمومنین(ع) کی خلافت کے متعلق ںصوص پیغمبر(ص) کو ٹھکرا دیا۔ اس لیے کہ علی(ع) کم سن تھے نو جوان تھے اور وہ لوگ ادھیڑ اور کہن سال بوڑھے تھے۔ انھوںنے بعینہ اسی طرح بوقت وفات سول(ص) علی(ع) کو کم سن سمجھا ، خلافت اور سرداری فوج میں تو زمین و آسمان کا فرق ہے۔لیل و نہار کا تفرقہ ہے۔ جب صرف ایک جنگ کے موقع پر صحابہ کی فطرتیں ایک کم سن کی ماتحتی و تابعداری قبول نہ کرسکتی تھیں تو زندگی بھر کے لیے دینی معاملات میں ایک نوجوان کی اطاعت و فربانبرداری کیسے گوارا کرسکتی تھیں۔

علاوہ اس کے جو آپ نے فرمایا ہے کہ بوڑھوں کی فطرت کسی نوجوان کی تابعداری گوارا نہیں کرسکتی تو اگر آپ نے مطلقا یہ فرمایا ہے یہ مطلب ہے

۵۱۷

 آپ کا کہ جو بھی بوڑھا ہو وہ نوجوان کی اطاعت پر تیار نہیں ہوسکتا۔ تو قطعا صحیح نہیں کیونکہ کامل الایمان ضعیف و کہن سال مومنین کے نفوس نوجوان کی تابعداری سے جس کی تابعداری بعینہ خدا و رسول(ص) کی تابعداری ہو کبھی گریز نہیں کرتے۔

جیش اسامہ سے تخلف کرنے والوں کے متعلق وہ جو فقرہ  تھا جسے علامہ شہرستانی نے بطور مسلمات مرسلا تحریر کیا ہے یعنی :“لعن‏ اللّه‏ من‏ تخلّف‏ عن‏ جيش‏ ”“ خدا لعنت کرے اس پر جو جیش اسامہ سے تخلف کرے۔” تو مرسل ہی نہیں بلکہ بسلسلہ اسناد بھی یہ حدیث کتب احادیث والسیر میں مذکور ہے چنانچہ علامہ جوہری نے کتاب السقیفہ میں اس حدیث کو درج کیا ہے ۔ میں انھیں کی عبارت نقل کیے دیتا ہوں:

“قال أبو بكر و حدثنا أحمد بن إسحاق بن صالح عن أحمد بن سيار عن سعيد بن كثير الأنصاري عن رجاله عن عبد الله بن عبد الرحمن‏ أن رسول الله ص في مرض موته أمر أسامة بن زيد بن حارثة على جيش فيه جلة المهاجرين و الأنصار منهم أبو بكر و عمر و أبو عبيدة بن الجراح و عبد الرحمن بن عوف و طلحة و الزبير و أمره أن يغير على مؤتة حيث قتل أبوه زيد و أن يغزو وادي فلسطين فتثاقل أسامة و تثاقل الجيش بتثاقله و جعل رسول الله ص في مرضه يثقل و يخف و يؤكد القول في

۵۱۸

تنفيذ ذلك البعث حتى قال له أسامة بأبي أنت و أمي أ تأذن لي أن أمكث أياما حتى يشفيك الله تعالى فقال اخرج و سر على بركة الله فقال يا رسول الله إن أنا خرجت و أنت على هذه الحال خرجت و في قلبي قرحة منك فقال سر على النصر و العافية فقال يا رسول الله إني أكره أن أسأل عنك الركبان فقال انفذ لما أمرتك به ثم أغمي على رسول الله ص و قام أسامة فتجهز للخروج فلما أفاق رسول الله ص سأل عن أسامة و البعث فأخبر أنهم يتجهزون فجعل يقول انفذوا بعث أسامة لعن الله من تخلف عنه و كرر  ذلك فخرج أسامة و اللواء على رأسه و الصحابة بين يديه حتى إذا كان بالجرف نزل و معه أبو بكر و عمر و أكثر المهاجرين و من الأنصار أسيد بن حضير و بشير بن سعد و غيرهم من الوجوه فجاءه رسول أم أيمن يقول له ادخل فإن رسول الله يموت فقام من فوره فدخل المدينة و اللواء معه فجاء به حتى ركزه بباب رسول الله و رسول الله قد مات‏ في‏ تلك‏ الساعة انتهی بعين لفظه”

" علامہ جوہری کہتے ہیں کہ مجھ بیان کیا احمد بن اسحاق بن صالح نے،
۵۱۹

 انھوں نے احمد بن یسار سے سنا ، انھوں نے سعید بن کثیر اںصاری سے ، انھوں نے اپنے بزرگوں سے ، انھوں نے عبداﷲ بن عبدالرحمن سے کہ رسول اﷲ(ص) نے اپنے مرض الموت میں، اسامہ بن زید بن حارث کو سردار فوج مقرر کیا اس فوج میں اکثر معززین مہاجرین و اںصار تھے۔ حضرت ابوبکر و عمر، ابوعبیدہ جراح، عبدالرحمن بن عوف، طلحہ و زبیر وغیرہ اور رسول(ص) نے اسامہ کو تاکید کی کہ موتہ پر چڑھائی کرو جہاں تمھارے باپ زید قتل کیے گئے۔نیز وادی فلسطین میں بھی جنگ کرو۔ اسامہ نے ذرا سستی سے کام لیا۔ ان کی سستی دیکھ کر لشکر والے بھی سستی کرنے لگے۔ رسول(ص) کی حالت بگڑتی تھی کبھی سنبھلتی تھی مگر اس حالت میں بھی لشکر کی روانگی کے متعلق تاکید فرماتے رہے۔ آخر کار اسامہ نے رسول(ص) کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) مجھے اجازت مل سکتی ہے کہ میں اتنے دن ٹھہر جاؤں کہ آپ کو صحت ہولے۔ رسول(ص) نے فرمایا : جاؤ روانہ ہو۔ خدا کی برکت تمھارے شامل حال رہے۔ اسامہ نے کہ ااگر میں اس حال میں آپ کو چھوڑ جاؤں گا تو میرے دل میں گہرا زخم رہے گا۔ اس پر آپ نے فرمایا : چل کھڑے ہو خدا تمھیں عافیت و کامیابی نصیب کرے۔ پھر اسامہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) ! مجھے یہ بہت شاق ہے کہ میں جاؤں اور راستہ میں ہر سوار سے آپ کی خیریت پوچھتا رہوں۔ رسول(ص) نے  فرمایا میں نے جو حکم دیا ہے اسے پورا کرو ۔ اس کے بعد آںحضرت(ص) کو
۵۲۰