دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 242387
ڈاؤنلوڈ: 5161

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242387 / ڈاؤنلوڈ: 5161
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ :

             “ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ۔ کتاب خدا اور میرے اہل بیت(ع)۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں(1) ۔”

یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ :

             “ قریب ہے میں بلایا جاؤں اور مجھے جانا پڑے۔ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ ایک خدائے بزرگ و برتر کی کتاب دوسرے میری عترت۔ کتابِ خدا تو ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک دراز ہے اور میری عترت میرے اہل بیت(ع) ہیں۔(2) اور خداوندِ عالم لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر پہنچیں۔ پس دیکھو میرے بعد تمہارا سلوک ان کے ساتھ کیسا رہتا ہے(3) ۔”

--------------

1 ـ  امام حاکم مستدرک جلد 3 صفحہ 148 پر اس کو درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث شیخین یعنی مسلم  و بخاری کے شرائط کے لحاظ سے بھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے اس کو درج نہیں کیا۔

2 ـ  امام احمد نے اس حدیث کو ابو سعید خدری سے دو طریقوں سے روایت کیا ہے ایک جلد 3 صفحہ 17 پر دوسرے صفحہ 26 جلد 3 پر۔ این ابی شیبہ یعلی اور ابن سعد نے ابو سعید خدری سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال جلد اول صفحہ 47 پر بھی موجود ہے۔

3 ـ  امام حاکم نے اس حدیث کو مستدرک جلد3 صفحہ 109 پر مرفوعا نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مسلم وبخاری کے معیار پر بھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے درج نہیں کیا پھر اسی جلد3 صفحہ533 پر دوسرے طریقے سے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری و مسلم نے ذکر نہیں کیا علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کو باقی رکھا ہے اور اس کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

۴۱

اور جب حضرت(ص) حجِ آخری سے پلٹے اور مقام غدیر خم پر پہنچے تو آپ(ص) نے ارشاد فرمایا :

             “ مجھے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ جلد ہی میری طلبی ہوگی اور مجھے جانا پڑے گا۔ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں جن میں ایک دوسرے سے  بڑا ہے۔ کتاب خدا ، دوسرے میرے اہل بیت(ع) دیکھو خیال رکھنا کہ ان کے ساتھ تم کس طرح پیش آتے ہو۔ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں۔”

پھر آپ(ص) نے کہا کہ خدائے        قوی و توانا میرا مولا وآقا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔ پھر آپ(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا کہ :

             “ میں جس کا مولا ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں میرے بعد خداوندا ! دوست رکھ اس کو جو ان کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو ان کو دشمن رکھے(1) ۔”

---------------

1ـ  طبرانی نے اس حدیث کو درج کیا ہے جیسا کہ علامہ نبھانی کی اربعین فی الاربعین اور علامہ سیوطی کی احیاء المیت میں مذکور ہے آپ ناواقف نہ ہوں گے کہ آںحضرت(ص) کا اس دن کا خطبہ صرف اسی فقرہ پر ختم نہیں تھا کیونکہ صرف اتنا کہنے پر خطبہ کا لفظ صادق نہیں آتا۔ لیکن سیاست نے بیشتر محدثین کی زبانیں بند کردیں اور لکھنے والوں کے قلم روک دیے مگر باوجود اس کے صرف یہ ایک فقرہ اس سمندر کا یہ ایک قطرہ بہت کافی ہے۔

۴۲

عبداﷲ بن اخطب سے روایت ہے کہ رسول(ص) نے مقام جحفہ پر خطبہ ارشاد فرمایا جس میں کہا :

             “ کیا میں تم پر تم سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا ؟”

             لوگوں نے کہا بے شک یا رسول اﷲ(ص)۔ آپ(ص) نے اس پر ارشاد فرمایا :

              “ میں تم سے دو چیزوں کے متعلق پوچھوں گا۔ ایک کتابِ خدا  دوسرے میرے اہل بیت(ع)۔”

حدیثِ ثقلین کا متواتر ہونا

احادیثِ صحیحہ جن کا قطعی فیصلہ یہ ہے کہ بس ثقلین( اہل بیت(ع) و قرآن کی پیروی واجب ہے) معمولی درجہ کی حدیثیں نہیں بلکہ متواتر حدیثیں ہیں اور بیس سے اوپر صحابیوں سے بکثرت طریقوں سے مروی ہیں۔ اہلبیت(ع) کی پیروی کو واجب بتانے کے لیے ایک مرتبہ نہیں بار ہا اور متعدد مواقع پر پیغمبر(ص) نے علی الاعلان کھلے لفظوں میں فرمایا۔ کبھی غدیر خم میں اعلان کیا جیسا ابھی بیان کرچکا ہوں۔ حج آخری کے موقع پر عرفہ کے دن اعلان کیا کبھی طائف سے واپسی کے موقع پر اعلان کیا۔ ایک مرتبہ مدینہ میں بر سرِمنبر اعلان کیا پھر دوسری مرتبہ جب آپ بسترِ مرگ پر حجرہ میں تھے اور آپ(ص) کا حجرہ صحابیوں سے بھرا ہوا تھا۔ آپ(ص) نے ارشاد فرمایا :

             “ اے لوگو! عنقریب تم سے رخصت ہونے والا ہوں۔ میں پہلے ہی تم سے سب کچھ کہہ سن چکا ہوں۔ پھر کہے دیتا ہوں کہ میں تم میں دو چیزیں چھورے جاتا ہوں۔ اپنے پروردگار کی کتاب اور اپنی عترت و اہلبیت(ع)۔”

۴۳

پھر آپ(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور ارشاد فرمایا  کہ :

             “ دیکھو یہ علی(ع) ہیں یہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں کبھی جدا  نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں(1) ۔”

رسالت ماب(ص) کی اس وصیت پر جمہور مسلمین کے سربرآوردہ افراد کی ایک جماعت نے اقرار و اعتراف کیا ہے۔ یہاں تک کہ ابن حجر نے اپنی کتاب میں حدیث ثقلین درج کر کے لکھا ہے کہ حدیث تمسک بکثرت طریقوں سے مروی ہے اورع بیس سے زیادہ صحابیوں نے اس کی روایت کی ہے۔ پھر آگے چل کر کہتے ہیں کہ یہاں ایک شبہ ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حدیث بکثرت طریقوں سے مروی ہے مگر کہیں یہ ہے کہ آپ(ص) نے حجہ الوداع کے موقع پر عرفات میں فرمایا۔ کہیں یہ ہے کہ مدینہ میں جب آپ بسترِ بیماری پر تھے تب ارشاد فرمایا۔ اور حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا۔ کہیں یہ ہے کہ غدیر خم میں فرمایا۔ کہیں یہ ہے کہ جب آپ(ص) طائف سے واپس ہوئے ہیں تو دوران خطبہ آپ(ص) نے فرمایا۔

لیکن یہ شبہ درست نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آںحضرت(ص) نے  کلام اﷲ اور اہل بیت(ع) کی عظمت و جلالت کا لحاظ کرتے ہوئے اور لوگوں کو ان کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دلانے کے لیے ان تمام مواقع پر اس حدیث کو بتکرار ارشاد فرمایا ہو، تاکہ اگر پہلے سے کسی کے کانوں میں یہ بات نہ پڑی ہو تو اب پڑجائے۔ پہلے کسی نے نہ سنا ہو تو اب سن لے۔(2) اور جب اہلبیت طاہرین(ع)

--------------

1 ـ  ملاحظہ فرمائیے۔ علامہ ابن حجر کی صواعق محرقہ باب 9 فصل 2 کی آخری سطریں۔

2 ـ  دیکھے صواعق محرقہ، صفحہ89 باب 11 فصل اول۔

۴۴

خدا اور رسول(ص) کے نزدیک قرآن  کے ہم پلہ و ہم وزن ہیں، تو جو قرآن کی شان ہے وہی ان کی بھی شان ہوگی جس طرح قرآن کا اتباع و اطاعت ہر مسلم پر فرض ہے اس طرح اہلبیت(ع) کی اطاعت بھی ہر ایک پر واجب ولازم ہے لہذا ان ان کی اطاعت اور ان کے مذہب و مسلک کی پابندی سے مفر ہی نہیں۔ مجبور ہے انسان کہ بس انھیں کا اتباع کرے کیونکہ کوئی مسلمان یہ نہیں پسند کرتا کہ کتابِ خدا کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو کسی اور چیز کو اس کے بدلے میں اپنا دستور العمل بنائے۔ تو جب کتابِ خدا کے بدلے میں کسی دوسری چیز کو اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے ناممکن ہے تو کتاب خدا کے ہم پلہ و ہم درجہ جو ہستیاں ہیں ان سے روگردانی کر کے دوسرے اشخاص کی پیروی بھی اس کی نظر میں درست نہ ہوگی۔

جن نے اہلبیت(ع)  سے تمسک نہ کیا اس کا گمراہ ہونا

اس کے علاوہ سرورکائنات کا یہ ارشاد کہ :

" إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِه لَنْ تَضِلُّوا كِتَاب اللَّهِ وَ عِتْرَتِي‏”

“ میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتاب خدا دوسرے میری عترت۔”

اس کا صریحی مطلب یہ ہے کہ جن نے ان دونوں کو ایک ساتھ اختیار نہ کیا، دونوں کی ایک ساتھ اطاعت نہ کی وہ گمراہ ہوگا۔ اس مطلب کی تائید اس حدیث ثقلین سے بھی ہوتی ہے جس کی طبرانی نے روایت کی ہے۔ جس میں

۴۵

 آنحضرت(ص) کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ :

     “ دیکھو ان دونوں سے آگے نہ بڑھ جانا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے۔ اور نہ پیچھے رہ جانا ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور انھیں کچھ سکھانا پڑھانا نہیں کیونکہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔”

ابن حجر فرماتے ہیں کہ سرورکائنات کا یہ کہنا کہ :

“ تم ان سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور نہ ان سے پیچھے رہ جانا ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤگے اور انھیں کچھ سکھانا پڑھانا نہیں کہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔”

اس امر کی دلیل ہے کہ اہل بیت(ع) کے جو افراد مراتب عالیہ اور درجات دینیہ پر فائز ہوئے انھیں اپنے ماسوا تمام لوگوں پر تفوق و برتری حاصل تھی۔(1)

--------------

1 ـ  دیکھیے صواعق محرقہ صفحہ129 باب وصیة النبی(ص) پھر پوچھیے ذرا علامہ ابن حجر سے کہ جب آپ اقرار فرماتے ہیں۔ اس کا اعتراف ہے آپ کو تو ھر اشعری کو اہلبیت(ع) پر کیوں مقدم کیا گیااہلبیت(ع) کو چھوڑ کر اسول اشعری کا مسلک کیوں اختیار کیا گیا۔ فروع دین میں تنہا اربعہ ابو حنیفہ مالک، شافعی، حنبل کو اہل بیت(ع) پر کیوں ترجیح دی گئی ہے؟ حدیث میں عمران بن حطان جیسے خوارج کیوں مقدم رکھے گئے۔ تفسیر میں مقاتل بن سلیمان جو فرقہ مرجیہ سے تھا، جسمانیت خدا کا قائل تھا کیوں اہل بیت(ع) پر مقدم سمجھا گیا۔ دیگر علوم میں غیروں کو اہل بیت(ع) کے مقابلہ میں کیوں ترجیح دی گئی۔ رسول(ص) کی جانشینی و نیابت میں برادر رسول ولی پیغمبرجس کے متعلق رسول فرماچکے تھے کہ “ ادائے قرض میری جانب سے علی ہی کرسکتے ہیں۔” کیوں پیچھے کردیئے گئے۔ ان کوچھوڑ کر دوسرے کیوں خلیفہ بنالیے گئے۔ کس درجہ سے قابل ترجیح سمجھے گئے جن لوگوں نے دینی معاملات و امور شریعت میں اہل بیت(ع) سے رو گردانی کی اور ان کے مخالفین ک نقش قدم پر چلے انھوں نے حدیث ثقلین اور اس جیسی دیگر حدیثوں پر جب میں اتباع اہل بیت(ع) کا حکم دیا گیا ہے کہاں اور کیونکر عمل کیا اور وہ یہ دعوی کیونکر کرسکتے ہیں کہ ہم اہل بیت(ع) سے تمسک کرنے والے ہیں۔ سفینہ اہل بیت(ع) پر ہیں۔ ان کے باب حطہ میں داخل ہیں۔

۴۶

اہلبیت(ع) کی مثال سفینہ نوح(ع) اور باب حطہ کی ہے اور وہ اختلاف فی الدین سے بچانے والے ہیں

نیز ایک اور بات جو ہر مسلم کو قہرا اہل بیت(ع) کا پیرو بناتی ہے اور مجبور کرتی ہے کہ دینی معاملات میں بس ان ہی کی پیروی کی جائے۔ سرورکائنات کی یہ مشہور حدیث ہے :

             “ آگاہ ہو اے لوگو ! تم میں میرے اہل بیت(ع) کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے نوح(ع) کا سفینہ ۔ کہ جو شخص اس پر سلوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے گریز کیا وہ ہلاک ہو گیا۔(1)

نیز آںحضرت(ص) کا یہ ارشاد :

             “ تمہارے درمیان میرے اہلبیت(ع) کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے بنی اسرائیل کے لیے باب حطہ کو جو شخص اس میں داخل ہوا وہ بخش دیا گیا۔(2)

--------------

[1] ـ  امام حاکم نے مستدرک جلد3 صفحہ 151 پر بسلسلہ اسناد جناب ابوذر سے روایت کی ہے۔

2 ـ  طبرانی نے اوسط میں ابوسعید سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ نیز علامہ نبھانی کی کتاب اربعین کے صفحہ 216 پر بھی موجود ہے۔

۴۷

نیز آںحضرت(ص) کا یہ قول کہ :

     “ ستارے زمین کے باشندوں کے لیے غرقابی سے امان ہیں اور میرے اہل بیت(ع) میری امت کے لیے دینی معلومات میں اختلاف کے وقت امان ہیں پس اگرمیرے اہلبیت(ع) کی مخالفت کوئی گروہ عرب کرے گا( یعنی احکامِ الہی میں) تو وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوکر ابلیس کی جماعت بن جائے گا۔(1)

اہل بیت(ع) سے کون مراد ہیں ؟

ملاحظہ فرمائیے ۔ ان روایات کے بعد کیا گنجائش باقی رہتی ہے اور اہل بیت(ع) کی پیروی کرنے اور ان کی مخالفت سے باز رہنے کے سوا اور کیا چارہ کار رہتا ہے۔ رسول(ص) نے اس حدیث میں جیسے صاف اور صریحی الفاظ میں اس امر کی واضح فرمایا ہے میں تو نہیں جانتا کہ کسی اور زبان میں اس سے بھی زیادہ وضاحت ممکن ہے۔

یہاں اہلبیت(ع) سے مراد مجموع اہلبیت(ع) میں حیث المجموع ہیں یعنی جملہ اہلبیت(ع) سب کے سب علی سبیل الاستغراق مقصود ہیں۔ اس لیے کہ یہ منزلت صرف انھیں کے لیے ہے جو خدا کی حجت اور اس کی طرف سے درجہ امامت پر فائز ہیں۔ جیسا کہ عقل بھی کہتی ہے اور احادیث بھی بتاتی ہیں چنانچہ جمہور مسلمین کے علماء اعلام نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ صواعقِ محرقہ

--------------

1 ـ  امام حاکم نے مستدرک جلد3 صفحہ 149 پر ابن عباس سے روایت کی ہے اور دریافت کرنے کے بعد لکھا ہے، یہ حدیث صحیح ہے مگر شیخین نے درج نہیں کیا۔

۴۸

 میں علامہ ابن حجر مکی تحریر فرماتے ہیں:

             “ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ غالبا اہلبیت(ع) جنھیں رسول(ص) نے امان فرمایا ہے ان سے مراد علمائے اہلبیت(ع) ہیں اس لیے کہ انھیں سے ہدایت حاصل کی جاسکتی ہے جیسے ستاروں سے لوگ ہدایت پاتے ہیں اور جو ہمارے درمیان سے اگر ہٹ جائیں تو روئے زمین کے باشندوں کو آیات الہی کا سامنا ہو جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔”

ابن حجر کہتے ہیں :

             “ کہ یہ اس وقت ہوگا جب مہدی تشریف لائیں گے جیسا کہ احادیث میں بھی ہے کہ حضرت عیسی(ع) ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور انھیں کے زمانے میں دجال بھی قتل کیا جائے گا اور اس کے بعد پے در پے خدا کی نشانیاں ظہور میں آتی رہیں گی(1) ۔”

دوسرے مقام پر ابن حجر لکھتے ہیں:

“ سرورکائنات(ص) سے پوچھا گیا کہ اہل بیت(ع) کے بعد لوگوں کی زندگی کیسے بسر ہوگی؟ آپ نے فرمایا ۔ ان کی زندگی بس ایسی ہی ہوگی جیسے اس گدھے کی زندگی جس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہو(2) ۔”

--------------

1 ـ  ملاحظہ فرمائیے۔ صواعق محرقہ، باب 11، صفحہ 91 پر ساتویں آیت کی تفسیر۔

2 ـ ملاحظہ فرمائیے۔ صواعق محرقہ، صفحہ 143۔ اب ہم علامہ ابن حجر سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب علمائے اہلبیت علیہم السلام کی یہ منزلت ہے تو آپ لوگ کدھر جائیں گے۔

۴۹

اہلبیت(ع) کو سفینہ نوح(ع) اور باب حطہ سے کیوں تشبیہ دی گئی

آپ اس سے بھی واقف ہوں گے کہ سرورکائنات نے اہلبیت(ع) کو سفینہ نوح(ع) سے جو تشبیہ دی ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ جس نے اہلبیت(ع) کا مسلک اختیار کیا، اصول و فروغ میں ائمہ اہلبیت(ع) کی پیروی اور اتباع کیا وہ عذاب جہنم سے محفوظ رہا اور جس نے ان سے گریز کیا اس کا حشر وہی ہوگا جو سفینہ نوح(ع) سے گریز کرنے والے کا ہوا جو جان بچانے کے لیے پہاڑ پر چڑھ گیا تھا۔ بس فرق یہ ہوگا کہ سفینہ نوح سے گریز کرنے والا پانی میں ڈاوبا اور اہلبیت(ع) سے کنارہ کشی کرنے والا جہنم کی آگ میں غرق ہوا۔

اور سرورکائنات(ص) نے اہلبیت(ع) کو باب حطہ سے تشبیہ دی ہے تو اس میں وجہ تشبیہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے منجملہ اور بہت سے مظاہر کے جہاں اس کے جاہ و جبروت حکم و فرمان کے آگے بندوں کی عاجزی اور سرِ نیاز خم کرنے کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ باب حطہ کو بھی ایک مظہر قرار دیا تھا اور اسی وجہ سے اسے ذریعہ مغفرت بنایا تھا۔ اسی طرح خداوندِ عالم نے امت اسلام کے لیے اہل بیت(ع) پیغمبر(ص) کے اتباع و اطاعت کو اپنے جاہ و جبروت کے آگے بندوں کی خاکساری و عاجزی اور اپنے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کے مظاہر میں سے ایک مظہر قرار دیا۔ اسی وجہ سے اتباع اہلبیت(ع) سبب مغفرت ہے۔

ابن حجر نے(1) اس پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ اس قسم کی احادیث

--------------

1 ـ  صواعق محرقہ، باب 11 صفحہ 91 تفسیر آیہ ہفتم۔

۵۰

 ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے ان اہلبیت(ع) کو سفینہ سے جو تشبیہ دی ہے تو وہ وجہ تشبیہ یہ ہے کہ جو ان سے محبت رکھے گا اور ان کو معزز و محترم قرار دے گا اور ان کے علماء کی ہدایت سے مستفید ہوگا وہ مخالفت کی تاریکیوں سے نجات پائے گا اور جو ان سے تخلف کرےگا وہ کفران نعمت کے سمندر میں غرق ہوا اور طغیان و سرکشی کے بیابانوں میں ہلاک ہوا۔”

اس کے بعد لکھتے ہیں کہ :

“ باب حطہ سے جو جو تشبیہ دی ہے تو اس میں وجہ تشبیہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے باب حطہ میں خاکساری و عاجزی کے ساتھ استغفار کرتے ہوئے داخل ہونے کو بنی اسرائیل کے لیے سبب مغفرت قرار دیا تھا اور اسی طرح امت اسلام کے لیے اہلبیت(ع) پیغمبر(ص) کی مودت و محبت کو ذریعہ بخشش قرار دیا ہے(1) ۔”

--------------

1 ـ  آپ ان کی یہ عبارت دیکھیے اور انصاف فرمائیے کہ علامہ ابن حجر نے پھر فروع دین و عقائد فقہ کے اصول و قواعد میں ائمہ طاہرین(ع) کی رہبری کیوں نہ قابل قبول سمجھی ان کے ارشادات پر کیوں نہیں عمل کیا؟ کتاب و سنت، علم الاخلاق ، سلوک و آداب میں ان سے استغفار کیوں نہ کیا؟ کس بنا پر ان سے روگردانی کی اور کفران نعمت کے سمندر میں اپنے کو ڈبو دیا اور طغیان و سرکشی کے صحراؤں میں ہلاک ہوئے۔ انھوں نے ہم شیعوں کے متعلق جو تہمت تراشیان کی ہیں اور بر بھلا کہا ہے خدا انھیں معاف کرے۔

۵۱

غرضیکہ ان اہل بیت علیہم السلام کے اتباع و اطاعت کے واجب و لازم ہونے کے متعلق بکثرت صحیح اور متواتر حدیثیں ہیں۔ خصوصا بطریق اہلبیت طاہرین(ع) تو بے شمار متواتر حدیثیں مروی ہیں۔ اگر آپ کی تھکن کا خیال نہ  ہوتا تو انھیں شرح وبسط سے ذکر کرتے لیکن جو کچھ لکھ چکے ہیں وہی بہت کافی ہے۔

                                                             ش

۵۲

مکتوب نمبر5

مزید نصوص کی خواہش

آپ میری تھکن کا خیال نہ کیجیئے، مزید تشریح فرمائیے۔ خوبی قسمت سے آپ سے استفادہ کا موقع ملا ہے میں ہمہ تن متوجہ ہوں، آپ کے حکیمانہ استدلال نے دل میں فرحت اور طبیعت میں شگفتگی پیدا کردی ہے۔

                                                             س

جوابِ مکتوب

نصوص کا مختصر سا تذکرہ

آپ کی اس توجہ اور انہماک کا شکریہ بہتر ہے تعمیل حکم میں کچھ اور روشنی ڈالتا ہوں۔

۵۳

طبرانی نے معجم کبیر میں اور امام رافعی نے اپنے مسند میں بسسلسلہ اسناد ابن عباس سے روایت کہ ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا(ص) نے فرمایا :

“ وہ شخص جسے یہ پسند ہو کہ میرا جینا جئے اور میری موت مرے اور باغ عدن میں ساکن ہو وہ علی(ع) کو میرے بعد اپنا حاکم بنائے اور میرے بعد میرے اہلبیت(ع) کی پیروی کرے کیونکہ وہ میری عترت ہیں اور میری طینت سے پیدا ہوئے ہیں اور انھیں میرا فہم، میرا علم عطا ہوا ہے ۔ ہلاکت ہو اس کے لیے جو ان کے فضل و شرف کو جھٹلائے۔ اور ان کو مجھ سے جو قرابت ہے  اس کا خیال نہ کرے۔ خدا ایسے لوگوں کو میری شفاعت نصیب نہ کرے(1) ۔” 

مطیر ہارودی، ابن جریر، ابن شاہین اور ابن مندہ ، ابن اسحاق کے واسطہ سے زیاد بن مطرف سے روایت کرتے ہیں۔ زیاد کہتے ہیں کہ :

“ میں نے خود رسول اﷲ(ص) کو یہ کہتے سنا کہ جو شخص یہ چاہتا ہو

--------------

1 ـ ٹھیک ان ہی الفاظ میں یہ حدیث کنز العمال جلد 6 صفحہ 217 پر موجود ہے۔ منتخب کنزالعمال میں بھی یہ حدیث باقی رکھی گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد بن حنبل جلد5، صفحہ 94 البتہ اس میں صرف اتنا ہے کہ انھیں میرا فہم دیا گیا ہے علم کا لفظ نہیں۔ غائبا یہ کاتب کی غلطی ہے۔ حافظ ابو نعیم نے بھی اس حدیث کی اپنے حلیہ مٰیں روایت کی ہے اور ان سے علامہ معتزلہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد ثانی صفحہ45 طبع مصر رپ نقل کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل نے بھی ایسی ہی حدیث ابو عبداﷲ سے اپنی مسند اور مناقب علی(ع) دونوں کتابوں میں نقل ہے۔

۵۴

کہ میرا جینا جیئے اور میری موت مرے اور اس جنت میں داخل ہو جس کا وعدہ مجھ سے میرے پروردگار نے کیا ہے یعنی جنتِ خلد وہ علی(ع) کو اور علی کے بعد ان کی اولاد کو اپنا حاکم بنائے کیونکہ وہ ہرگز ہدایت کے دروازے سے تمہیں باہر کرنے والے نہیں اور نہ گمراہی کے دروازے میں پہنچانے والے ہیں(1) ۔”

اسی طرح زید بن ارقم سے مروی ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ :

 “ جو شخص میرا جینا چاہتا ہو اور میری موت مرنا چاہتا ہو اور جنتِ خلد میں رہنا چاہتا ہو جس کا خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ علی(ع) کو اپنا حاکم بنائے کیونکہ وہ ہدایت سے تمہیں باہر نہ کریں گے اور نہ گمراہی میں تمہیں لے جائیں گے(2) ۔”

-------------

1 ـ  کنزالعمال جلد6 صفحہ 155 منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ 32 علامہ ابن حجر عسقلانی نے بھی مختصرا اس حدیث کو اپنی کتاب اصابہ میں زیاد کے حالات میں لکھا ہے اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے سلسلہ رواة میں یحی بن یعلی محاربی سے اور ضعیف ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ابن حجر عسقلانی کا  یہ لکھنا بڑا ہی تعجب خیز ہے کیونکہ ابن یعلی محاربی بالاتفاق ثقہ مانے گئے ہیں خود امام بخاری نے صحیح بخاری میں غزوہ حدیبیہ کے تذکرہ میں ان سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ امام مسلم نے کتاب الحدید میں ان سے روایت کی ہے۔ علامہ ذہبی نے ان کا ثقہ ہونا میزان الاعتدال میں بطور مسلمات ذکر کیا ہے۔ اور علامہ قیسرانی وغیرہ نے ۔ انھیں ان لوگوں میں شمار کیا ہے جن سے مسلم و بخاری نے حدیثین لی ہیں۔

2 ـ امام حاکم نے مستدرک جلد2 صفحہ 128 پر اس حدیث کو لکھا ہے اور حدیث لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر شیخین یعنی مسلم و بخاری نے درج نہیں کیا۔ طبرانی نے کبیر میں اور ابو نعیم نے بھی فضائل صحابہ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ کنزالعمال جلد6 صفحہ 155۔ اور منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند جلد 5 صفحہ 34 پر بھی موجود ہے۔

۵۵

جناب عمار یاسر(1) سے مروی ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا :

“ میں ہر اس شخص کو جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی وصیت کرتا ہوں علی(ع) کی ولایت کے متعلق جو انھیں دوست رکھے گا وہ مجھے دوست رکھے گا اور جو مجھے دوست رکھے گا وہ خدا کو دوست رکھے گا اور جو علی(ع) سے محبت کرےگا وہ مجھ سے محبت کرے گا اور جو مجھ سے محبت کرے گا وہ خدا سے محبت کرے گا اور جو علی(ع) سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض رکھے گا اور جو مجھ سے بغض رکھے گا وہ خدا سے بغض رکھے گا۔”

جناب ثار سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا:

“ جو مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری تصدیق کی وہ علی بن ابی طالب(ع) کو دوست رکھے۔ ان کو دوست رکھنا مجھے دوست رکھنا ہے اور مجھے دوست رکھنا خدا کو دوست رکھنا ہے(2) ۔”

ایک مرتبہ حضرت سرور کائنات(ص) نے خطبہ فرمایا جس میں کہا :

“ اے لوگو! فضل و شرف اور منزلت و ولایت خدا کے رسول(ص) کی ذریت کے لیے ہے لہذا تم لوگ باطل میں نہ پڑجانا(3) ۔”

--------------

1 ـ  طبرانی نے کبیر میں ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کنز العمال جلد6 صفحہ154 پر بھی موجود ہے۔

2 ـ طبرانی نے اس حدیث کو کبیر میں درج کیا ہے۔ کنزالعمال جلد6 صفحہ155 پر بھی موجود ہے۔ منتخب کنزالعمال میں بھی ہے۔

3 ـ ابو شیخ نے ایک طولانی حدیث میں اسے نقل کیا ہے اور ان سے تفسیر آیہ مودت کے ضمن میں ابن حجر نے صواعق محرقہ صفحہ105 پر نقل کیا ہے۔

۵۶

آںحضرت(ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ:

“ میری امت کے ہادی ہر دور میں میرے اہلبیت(ع) کے عادل افراد ہوں گے جو اس دین اسلام سے گمراہوں کی تحریف ،اہل باطل کی تہمت تراشی اور جاہلوں کی تاویل کا ازالہ کرتے رہیں گے۔ آگاہ ہو کہ تمھارے ائمہ خدا کے حضور میں تمھارے نمایندہ ہیں۔ لہذا سوچ سمجھ لینا کہ کسے اپنا نمایندہ بنا کر بھیجو گے(1) ۔”

یہ بھی آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ:

“ دیکھو ان  سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور نہ پیچھے رہ جانا ور نہ ہلاک ہوجاؤگے اور انھیں سکھانا پڑھانا نہیں کہ یہ تم سے خود زیادہ جانتے ہیں(2) ۔”

یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :

“ میرے اہلبیت(ع) کو ایسا سمجھو جیسا سر بدن کے لیے اور آنکھیں سر کے لیے ہیں اور سر آنکھوں ہی کے ذریعے راہ پاتا ہے(3) ۔”

--------------

1 ـ  ملا نے اپنی سیرت میں یہ حدیث درج کی ہے جیسا کہآيت وقفو ه م ان ه م مسئولون کی تفسیر میں ابن حجرمکی نے صواعق محرقہ صفحہ90 پر تحریر کیا ہے۔

2 ـ  طبرانی نے حدیث ثقلین میں اسے لکھا ہے اور ان سے علامہ ابن حجر نے آیت آيت وقفو ه م ان ه م مسئولون کی تفسیر میں صواعق محرقہ باب11 صفحہ79 پر نقل کیا ہے۔

3 ـ  ارباب سنن و احادیث کی ایک جماعت نے جناب ابوذر سے بسلسلہ اسناد اس حدیث کی روایت کی ہے اور صبان نے اپنی کتاب اسعاف الراغبین میں شیخ یوسف نبہانی نےشرف النبوہ صفحہ34 میں نقل کیا ہے اور بھی بہت سے ثقہ علماء نے اسے لکھا ہے یہ حدیث نص صریح ہے کہ بس اہلبیت(ع) ہی کو اپنا امیر وحاکم سمجھا جائے انہیں کے ذریعہ حق  تک ہدایت جاسکتی ہے۔

۵۷

یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :

“ ہم اہل بیت(ع) کی محبت کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ جو شخص خدا سے ملاقی ہو اور ہمیں دوست بھی رکھتا ہو خداوند عالم اسے ہماری شفاعت کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا۔ قسم ہے اس معبود برحق کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان  ہے کسی بندے کو اس کا عمل اس وقت تک فائدہ نہ پہنچائے گا، جب تک وہ ہمارے حقوق نہ پہچانتا ہو(1) ۔”

یہ بھی آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ :

“ آل محمد(ص) کی معرفت عذاب جہنم سے رہائی اور ان کی محبت پل صراط سے گزر جانے کا پروانہ اور ان کی ولایت عذاب سے امان ہے(2) ۔”

--------------

1 ـ  طبرانی نے اس حدیث کو اوسط میں درج کیا اور علامہ سیوطی نے احیاء المیت  میں علامہ نبہانی نے اربعین الاربعین میں اور علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ میں اسے نقل کیا ہے۔ ذرا رسول(ص) کے اس جملہ کو اچھی طرح سوچیے کہ کسی بندے کو اس کا عمل اس وقت تک فائدہ نہ پہنچائے گا جب تک وہ ہمارے حقوق کو نہ پہچانتا ہو۔ اور خدا را مجھے بتائیے کہ وہ حق کون سا جسے خداوندعالم نے اعمال کی صحت کے لیے شرط قرار دیا۔کیا وہ حق یہ نہیں ہے کہ حضرات اہل بیت(ع) کی اتباع و پیروی کی جائے۔ ان کے احکام پر سر تسلیم خم کیا جائے اور ان کے ذریعہ خدا تک پہنچا جائے اور سوا نبوت و خلافت کے وہ کون سا حق ہوسکتا ہے جس کے اثرات اتنے ہمہ گیر ہوں۔ لیکن ہمارا ساتھ تو ایسی قوم سے ہے جو تامل و فکر سے کام نہیں لیتی ۔انا ﷲ و انا الي ه راجعون ۔

2 ـ  شفاء قاضی عباس صفحہ7 قسم ثانی مطبوعہ آستانہ سنہ1238ھ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں معرفت سے مراد محض ان کے نام و ذات اور ان کے قرابتداران رسول(ص) سے ہونے  کو جان لینا نہیں کیونکہ یہ تو ابو لہب و ابوجہل بھی جانتے تھے بلکہ معرفت سے مراد یہ ہے کہ بعد رسول(ص) انھیں ولی اﷲ سمجھا جائے بنا بر ارشاد پیغمبر(ص)  “ومن مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة جاهليه “ جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کیے بغیر مرگیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ حضرات اہلبیت(ع) کی محبت و ولایت سے جس کا یہاں ذکر ہے وہ محبت و ولایت مراد ہے جو صاحبان حق ائمہ حق کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ سچے اور حقیقی ائمہ  کے ساتھ جو محبت و ولایت لازم و واجب ہے وہی محبت اہل بیت(ع) سے ہونا چاہیے۔  

۵۸

یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ:

“ قیامت کے دن موقف حساب سے کسی شخص کے پیر نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی عمر کن باتوں میں گزاری۔ اپنے جسم کو کس کام میں لائے۔ مال  کو کن امور میں صرف  کیا اور کہاں سے حاصل کیا۔ نیز اس سے ہم اہلبیت(ع) کی محبت کے متعلق سوال کیا جائے گا(1) ۔”

یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :“ اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان اپنے دونوں قدم جمائے عمر بھ نماز پڑھتا رہے اور روزہ رکھتا رہے مگر آل محمد(ص) سے وہ بغض رکھتا ہو تو وہ جہنم ہی میں جائے گا(2) ۔”

--------------

1 ـ اگر حضرات اہل بیت(ع) خداوند عالم کی جانب سے اس منصب پر فائز نہ ہوتے جو مستوجب اطاعت و اتباع ہے تو ان کی محبت کو اتنی اہمیت کبھی حاصل نہ ہوتی۔ اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباس سے روایت کیا ہے اور ان سے علامہ سیوطی نے احیاء المیت میں اور نبہانی نے اپنی اربعین میں نیز اور بھی متعدد علمائے اعلام نے نقل کیا ہے۔

2 ـ اس حدیث کو طبرانی اور امام حاکم نے روایت کیا ہے جیسا کہ علامہ نبہانی کی اربعین اور علامہ سیوطی کی احیاء المیت میں مذکور ہے۔ یہ حدیث سابق والی حدیث “قسم سے اس ذات برحق کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی بندے کو اس کا عمل اس وقت تک فائدہ نہ پہنچائے گا جب تک وہ ہمارے حقوق کو پہچانتا نہ ہو۔” کی نظیر ہے ۔ اںصاف فرمائیے کہ آل محمد(ص) سے دشمنی خدا و رسول(ص) سے دشمنی نہ ہوتی تو ان کے دشمن کے اعمال رائگان کیوں جاتے اور اگر یہ حضرات جانشین و قائم مقامِ پیغمبر(ص) نہ ہوتے تو یہ منزلت انھیں کیسے حاصل ہوسکتی تھی۔ امام حاکم اور ابن جبان نے اپنی احادیث کی کتابوں میں ( جیسا کہ علامہ نبہانی کی اربعین اور سیوطی کی احیاء المیت میں مذکور ہے) ابوسعید سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان  ہے جو شخص بھی ہم اہلبیت(ع) سے بغض رکھے گا وہ جہنم میں جائے گا اور طبرانی نے (جیسا کہ بنہانی کی اربعین اور سیوطی کی احیاء المیت میں مزکور ہے ) امام حسن(ع) سے روایت کی ہے۔ امام حسن(ع) نے معاویہ بن خدیج سے فرماچکے ہیں کہ جو شخص ہم سے بغض رکھے گا یا ہم سے حسد کرے گا قیامت کے دن حوض کوثر سے آتشین کوڑوں کے ذریعہ بھگایا جائے گا۔” ایک مرتبہ آںحضرت(ع) نے خطبہ فرمایا ۔ اے لوگو جس شخص نےہم اہلبیت(ع) سے بغض رکھا خداوند عالم قیامت کے دن اسے دین یہود پر محشور کرےگا۔ طبرانی نے اس حدیث کی اوسط میں روایت کی ہے

۵۹

یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :

“ جوشخص محبت آل محمد(ص) پر مرے گا وہ شہید مرےگا۔ دیکھو جو محبتِ آل محمد(ص) پر مرے گا وہ مغفور مرے گا۔ سارے گناہ اس کے بخش دیے جائیں گے۔ دیکھو جو محبتِ آل محمد(ص) پر مرے گا گویا وہ اپنے تمام گناہوں سے توبہ کر کے مرا، دیکھو جو محبتِ آل محمد(ص)  پر مرا وہ مومن اور کامل الایمان مرے گا۔ دیکھو جو محبتِ آل محمد(ص) پر مرا

۶۰