دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 244178
ڈاؤنلوڈ: 5268

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 244178 / ڈاؤنلوڈ: 5268
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ملک الموت اسے جنت کی بشارت دیں گے۔ پھر منکر و نکیر جنت کی خوشخبری دیں گے۔ دیکھو جو محبت اہل بیت(ع) پر مرا جنت میں یوں سنوار کر لے جایا جائے گا جیسے دلہن اپنے خاوند کے گھر لے جائی جاتی ہے۔ دیکھو جو محبت اہل بیت(ع) پر مرا اس کے لیے قبر میں دو دروازے جنت کے کھول دیے جائیں گے۔ دیکھو جو محبت اہلبیت(ع) پر مر اس کی قبر کو اﷲ زیارت گاہ ملائکہ رحمت بنادے گا۔ دیکھو جو محبت آل محمد(ص) پر مرا وہ سنت و جماعت پر مرے گا۔ دیکھو جو بغض آلِ محمد(ص) پر مرا وہ قیامت کے دن یوں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا “ یہ رحمت خدا سے مایوس ہے”۔”

غرضیکہ آخر خطبہ تک آپ(ع) نے اسی کی توضیح فرمائی ہے۔ یہ خطبہ حضرت(ص) کا خطبہ عصما(1) کے نام سے مشہور ہے اور تمام محققین علماء اہلسنت نے اپنی کتابوں میں اس خطبہ کو درج کیا ہے۔ اس خطبہ میں آںحضرت(ص) نے بہتوں کی تمناؤں پر پانی پھیر دیا تھا ان احادیث کے کل مضامین متواتر ہیں خصوصا بطریق اہلبیت(ع) تو اور زیادہ آںحضرت(ص)  نےآل محمد(ص) کے اس قدر فضائل جو بیان کیے۔ ان کی محبت کی اتنی تاکید جو کی۔ ان کی ولایت کو بکرات و مرات اٹھتے بیٹھتے بیان جو کیا وہ کیا صرف اس وجہ سے کہ یہ حضرات آپ(ص) کے عزیز و قرابت دار تھے؟ اس بنا پر تو رسول(ص) کی شان عوام کی شان سے بھی پست ہوجاتی ہے، بلکہ رسول(ص) نے اتنا اہتمام صرف

--------------

1 ـ  امام ثعلبی نے اس حدیث کو اپنی تفسیر کبیر میں آیت مودت  کی تفسیر میں جریر بن عبداﷲ بجلی سے روایت کیا ہے اور علامہ زمخشری ن بطور مسلمات اس حدیث کو اپنی تفسیر میں درج کیا ہے۔

۶۱

اس لیے کیا کہ یہ حضرات خدا کی مکمل حجت تھے ، اس کی شریعت کے سرچشمہ تھے اور امر و نہی میں رسول (ص) کے قائم مقام تھے اور رسول(ص) کی ہدایت و تبلیغ سے اثر پذیر ہونے کا بہت ہی روشن اور واضح نمونہ تھے۔ لہذا جو ان سے اسی حیثیت سے کہ یہ حجت خدا ہیں، جانشین رسول(ص) ہیں اور رسول اسلام کا مکمل ترین نمونہ ہیں محبت کرے گا وہ خدا کی محبت بھی رکھنے والا ہے اور رسول(ص) کی بھی۔ اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ خدا سے بھی بغض رکھنے والا ہے اور رسول(ص) کے بھی۔ آںحضرت(ص) فرماچکے ہیں کہ ہم سے بس وہی محبت رکھے گا جو مومن و پرہیزگار ہے اور وہی بغض رکھے گا جو منافق و بدبخت(1) ہے۔ اسی وجہ سے فرزدق نے ان حضرات کی شان میں کہا ہے۔

                     من معشر حبهم دين و بغضهم                 کفرو قربهم منجی و معتصم

                     ان عد اهل التقی کانوا ائمتهم          او قيل من خير اهل الارض قيلهم

“ یہ امام زین العابدین(ع) اس جماعت سے ہیں جن کی محبت دین اور جن کی دشمنی کفر ہے۔ اور جن سے نزدیکی ذریعہ نجات اور جائے پناہ ہے۔ اگر پرہیزگار لوگ شمار کیے جائیں تو یہ اہل بیت(ع) ان کے امام و پیشوا ہوں گے یا اگر یہ سوال کیا جائے کہ بہترین اہل ارض کون ہے ، تو یہی جواب ملے گا کہ یہ اہل بیت(ع) نبی(ص) ہیں۔”

اور امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

“ میں اور میری پاکیزہ نسل اور میری نیکو کار عترت بچپن میں تمام لوگوں سے زیادہ حلیم اور بڑے ہوکر سب سے زیادہ علم والے ہیں اور ہمارے ذریعہ سے خدا جھوٹ کو زائل کرے گا۔ ہمارے ذریعہ

--------------

1 ـ  صواعق محرقہ باب11۔

۶۲

سے خونخوار بھیڑیوں کے دانت توڑے گا۔ ہمارے ذریعہ تمھیں رہائی دلائے گا اور تمھاری گردنوں کی رسی جدا کرے گا۔ خدا ہم سے ابتدا کرتا ہے اور ہم پر ختم(1) ۔”

لہذا ہم نے جو آلِ محمد(ص) کو ان کے اغیار پر ترجیح دی اور مقدم سمجھا تو اس لیے کہ خداوندِ عالم نے انہیں سب پر مقدم رکھا اور ہر ایک پر ترجیح دی یہاں تک کہ نماز میں ان پر درود بھیجنا تمام بندوں پر واجب قرار دیا گیا۔ اگر کوئی پوری نماز پڑھ ڈالے اور ان پر درود نہ بھیجے تو اس کی نماز صحیح ہی نہیں ہوسکتی خواہ وہ کیسا ہی صاحب فضل کیوں نہ ہو، بلکہ ہر نماز گزار کے لیے ضروری ہے کہ اس طرح نماز پڑھے کہ نماز میں ان پر درود بھیجے جس طرح کلمہ شہادتین کا ادا کرنا ضروری ہے بغیر تشہد کے نماز نہیں اسی طرح بغیر درود کے صحیح نہیں۔ اہل بیت علیہم السلام کی یہ وہ منزلت ہے ، یہ وہ درجہ و مرتبہ ہے جس کے سامنے تمام امت کی گردنیں خم ہوگئیں اور آپ نے جن اماموں کا ذکر کیا ہے ان کی نگاہیں بھی اہل بیت(ع) کے علوئے مرتبت کے آگے خیرہ ہوگئیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں

                     يا اهل بيت رسول اﷲ حسبکم                         فرض من اﷲ فی القرآن انزله

                     کفاکم من عظيم الفضل انکم                         من لم يصل عليکم لاصلاة له

“ اے اہل بیت(ع) رسول(ص) خدا آپ لوگوں کی محبت خداوند عالم نے اپنے نازل کردہ قرآن میں فرض بتائی ہے۔ آپ کی بزرگی و بلندی فضل و شرف کے لیے بس یہی کافی ہے کہ جو نماز میں آپ پر درود

-------------

[1] ـ  عبدالغنی بن سعید نے ایضاع الاشکال میں اس روایت کو درج کیا ہے۔ کنزالعمال جلد 6 صفحہ 296 پر بھی موجود ہے۔

۶۳

 نہ بھیجے اس کی نماز ، نماز ہی نہیں۔”

یہ چند دلیلین جو اہلِ بیت(ع) پیغمبر(ص) کی اطاعت واتباع اور ان کے قدم بہ قدم چلنے کو واجب بتاتی ہیں احادیثِ نبوی(ص) سے پیش کر کے ختم کرتا ہوں یہی آپ کے لیے کافی ہوں گے۔ قرآن مجید میں بے شمار محکم آیتیں ہیں ان کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ بس اہل بیت(ع) ہی کی پیروی واجب و لازم ہے۔ آپ جو کہ خود صاحب فہم و بصیرت ہیں اور ذکی اور ذہین ہیں اس لیے میں اشارہ کیے دیتا ہوں آپ کلام مجید کا مطالعہ فرمائیں آسانی سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔

                                                                             ش

۶۴

مکتوب نمبر6

ہماری تحریر پر اظہار پسندیدگی

آپ کا مکتوب گرامی پاکر شرف یاب ہوا۔ آپ کی قوت تحریر، زور بیان علمی تبحر اور محققانہ شان کا میں قائل ہوگیا۔ آپ نے تو کوئی گوشہ باقی نہیں رکھا اور تحقیقات کے خزانے آنکھوں کے سامنے کردیے۔

حیرت و دہشت کہ مذکورہ احادیث اور جمہور کی روش کو ایک کیونکر کیا جائے؟

جب میں نے آپ کے استدلال پر غور و فکر کیا اور آپ کے ادلہ و برہین پر گہری نگاہ کی تو میں عجیب تردد کے عالم میں پڑگیا ۔ میں آپ کے ادلہ پر نظر

۶۵

 کرتا ہوں تو انھیں بالکل ناقابل رد دیکھتا ہوں جتنے ثبوت آپ نے پیش کیے ہیں ان کو دیکھتا ہوں تو سوا تسلیم کرنے کے کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ جب ائمہ اہل بیت(ع) کے متعلق سوچتا ہوں تو خدا و رسول(ص) کے نزدیک ان کی وہ منزلت معلوم ہوتی ہے کہ سوا عاجزی و خاکساری سے سر جھکا دینے کے کوئی چارہ نہیں اور جب جمہور مسلمین اور سواد اعظم پر نظر کرتا ہوں تو ان کا طرز عمل ادلہ کے مفہوم کے بالکل برعکس ہے۔ ادلہ بتاتے ہیں کہ بس ان ہی کی پیروی واجب ہے اور جمہور ہرکس و ناکس کی پیروی کرنے پر تیار لیکن اہل بیت(ع) کی پیروی پر آمادہ نہیں۔ میں عجیب کش مکش میں مبتلا ہوں گویا دو نفسوں کی کھینچا تانی میں پڑگیا ہوں۔ ایک نفس کہتا ہے کہ ادلہ کی پیروی کی جائے اور دوسرا کہتا ہے کہ اکثریت اور سواد اعظم کی روش پر چلنا چاہیے۔ ایک نفس نے تو اپنے کو آپ کے حوالے کردیا ہے اور آپ کے ہاتھ سے جانے واالا نہیں لیکن دوسرا جو ہے وہ اپنے عناد کی وجہ سے آپ کے ہاتھ میں جانے پر تیار نہیں اور نافرمانی پر تلا ہوا ہے۔

کلام مجید سے ادلہ کی خواہش

آپ کتابِ خدا سے کچھ اور ایسی قطعی دلیلیں پیش کرتے جو یہ سرکش نفس بھی قابو میں آجاتا۔ اور رائے عامہ کی متابعت کی دھن دماغ سے نکلتی۔

                                                     س

جواب مکتوب

کلام مجید سے دلائل

آپ بحمدہ ان لوگوں میں سے ہیں جو کلام مجید پر گہری نظر رکھتے ہیں اور

۶۶

 اس کے رموز و اسرار ظاہر و باطن سے واقف ہیں آپ خود غور فرمائیے کہ کیا اور کسی کے متعلق بھی ایسی واضح آیتیں نازل ہوئیں جیسی کہ اہل بیت(ع) طاہرین(ع) کی شان میں نازل ہوئیں۔ کیا کلام مجید کی محکم آیتوں نے سوا اہل بیت(ع) کے کسی اور کی طہارت و پاکیزگی کا حکم لگایا(1) ۔”

اہل بیت(ع) کے لیے جیسی آیتِ تطہیر نازل ہوئی کیا دنیا بھر کے لوگوں میں سے کسی ایک کے لیے نازل ہوئی(2) ۔؟

کیا قرآن مجید نے اہل بیت(ع) کے علاوہ کسی اور کی محبت و مودت واجب ہونے کو بتایا ہے(3) ؟

کیا آیہ مباہلہ اہلبیت(ع) کے علاوہ کسی اور کے متعلق لے کر جبرائیل(ع) نازل ہوئے(4) ؟

--------------

1 ـ جیسا کہ آیت تطہیر ان سے ہر رجس و گندگی دور ہونے کو بتاتی ہے۔

2 ـ ہرگز نہیں۔ اہلبیت(ع) کی یہ وہ فضیلت و شرف ہے جس میں ان کا کوئی  شریک نہیں۔

3 ـ ہرگز نہیں، بلکہ صرف انھیں کے ساتھ یہ فضیلت مخصوص ہے۔ خداوند کریم نے بس انھیں کی محبت فرض قرار دی ہے اور اس مخصوص فضیلت سے ان کو ہر کہہ ومہ پر شرف بخشا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہہ دو اے رسول(ص) کہ ہم تم سے اپنی رسالت کا کوئی اجر نہیں طلب کرتے سوا اپنے قرابتداروں کی محبت کے اور جو شخص نیکی حاصل کرےگا( یعنی ان سے محبت رکھے گا) ہم اس کے لیے اس کی خوبی میں اضافہ کریںگے۔ بے شک اﷲ (محبت رکھنے والوں کو) برا بخشنے والا ہے ( اور ان کی محبت کا برا قدر دان ہے) تفسیر ثعلبی میں ابن عباس سے روایت ہے کہ نیکی سے آل محمد(ص) کی دوستی مراد ہے اور علامہ زمخشری صاحب کشاف نے سدی سے یہی روایت کی ہے دیکھیے تفسیر کشاف جلد3، صفحہ 68 مطبوعہ مصر۔

4 ـ آیہ مباہلہ بھی بس انھیں کے متعلق بالخصوص نازل ہوئی چنانچہ ارشاد خداوند عالم ہے ۔ کہہ دو اے رسول(ص) کہ ( اچھا میدن میں آؤ) ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔

۶۷

کیا اہل بیت(ع) کے علاوہ سورہ ہل اتی کسی اور کی شان میں قصیدہ مدحیہ بن کر نازل ہوا(1) ؟

کیا اہل بیت(ع) ہی خدا کی وہ رسی نہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے؟

“ وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا”( آل عمران، 103)

     “ تم سب خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور پراگندہ نہ ہو(2)

کیا اہل بیت(ع) ہی  وہ صادقین نہیں ہیں جن کے متعلق خدا فرماتا ہے:

--------------

1 ـ  پورا سورہ ہل اتی اہلبیت(ع) کی مدح اور ان کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہوا ہے۔

2 ـ  امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں بسلسلہ اسناد ابان بن تغلب سے انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں کہ ہم وہ خدا کی رسی ہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے کہ خدا کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو اور پراگندہ نہ ہو۔ ابن حجر مکی نے فصل اول باب 11 صواعق محرقہ مین دو آیتیں اکھٹا کی ہیں جو اہل بیت(ع) کے متعلق نازل ہوئیں چنانچہ اس آیت کو ان آیات میں شمار کیا ہے اور انھوں نے بھی ثعلبی سے نقل کر کے امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ذکر کیا ہے “ رشفتہ الصادی” میں امام شافعی کے یہ اشعار مذکور ہیں۔

 ولما رايت الناس قد ذهبت بهم             مذاهبهم فی ابحر الغی والجهل

 رکبت علی اسم اﷲ فی سفن النجا       وهم اهل بيت المصطفی خاتم الرسل

 وامسکت حبل اﷲ وهو ولاؤهم           کما قد امرنا بالتمسک بالحبل

جب میں نے دیکھا کہ اہل بیت(ع) کے بارےمیں لوگوں کو ان کے مذہب گمراہی و جہالت کے سمندر میں لے جارہے ہیں تو میں خدا کا نام لے کر سفینہ نجات پر سوار ہوگیا یعنی حضرت محمد مصطفی خاتم المرسلین(ص) کے اہل بیت کے ساتھ ہوگیا اور میں نے خدا کی رسی جو ان اہل بیت(ع) کی محبت واطاعت ہے مضبوطی سے پکڑ لی۔ جیسا کہ ہمیں حکم بھی دیا گیا ہے کہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو۔

۶۸

وَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقينَ(1) (توبہ، 119)

کیا ہل بیت(ع) ہی وہ خدا کی راہ نہیں جس کے متعلق خدا نے فرمایا ہے:

 “وَ أَنَّ هذا صِراطي‏ مُسْتَقيماً فَاتَّبِعُوهُ(2) (آل عمران، 153 )

کیا اہل بیت(ع) ہی خدا کا وہ واحد راستہ نہیں جس کےمتعلق خدا نے امتِ اسلام کو حکم دیا :

وَ لا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبيلِهِ ” (آل عمران، 153 )

اہلبیت (ع) کو چھوڑ کر دوسری راہیں نہ اختیار کرو کہ اصلی راستہ ہی سے جدا ہوجاؤ۔

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ اولی الامر نہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے:

 “يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ” ( النساء، 59 )

 “ اے ایماندارو! اطاعت کرو خدا کی اور اس کے رسول(ص) اور تم میں سے جو اولی الامر ہیں(3) ۔”

--------------

1 ـ صادقین سے مراد یہاں حضرت رسول خدا(ص) اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں جیسا کہ ہماری صحیح اور متواتر حدیثیں بتاتی ہیں ہمارے علاوہ حضرات اہل سنت کے یہاں بھی حدیثیں موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ صادقین سے مراد یہی حضرات ہیں جیسا کہ حافظ ابونعیم اور موفق ابن احمد نے روایت کی ہے اور ان سے ابن حجر سے صواعق محرقہ باب 11 صفحہ20 پر نقل کیا ہے۔

2 ـ امام محمد باقر و جعفرصادق علیہم السلام فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد امام ہے اور ( لا تتبعوا السبیل دوسری راہیں نہ اختیار کرو) سے مقصود یہ ہے کہ گمراہ کرنے والے اماموں کی پیروی نہ کرو کہ اصلی راستہ ( یعنی ہم سے ) تم جدا ہوجاؤ۔

[1] ـ ثقہ الاسلام محمد بن یعقوب کلینی نے بسند صحیح بریدہ عجلی سے روایت کی ہے بریدہ کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر (ع) سے قول خدادندِ عالم “أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ” کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے جواب میں یہ آیت پڑھی۔“ النساء : 51   أَ لَمْ تَرَ إِلَى الَّذينَ أُوتُوا نَصيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوتِ وَ يَقُولُونَ لِلَّذينَ كَفَرُوا هؤُلاءِ أَهْدى‏ مِنَ الَّذينَ آمَنُوا سَبيلاً ” کیا تم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جنھیں تھوڑا بہت کتاب کا علم ملا ہے وہ شیطان اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کفر اختیار کرنے والوں کو کہتے ہیں کہ یہ ایمان لانے والوں سے زیادہ راہ راست پر ہیں یہ گمراہی اور ضلالت کے اماموں اور جہنم کی طرف لے جانے والوں کےمتعلق کہتے ہیں کہ آل محمد(ص) سے زیادہ راہ ہدایت پانے والے ہیں۔“ أُولئِكَ الَّذينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَ مَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصيراً ” یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور جس پر خدا لعنت کرے اس کا کسی کو مددگار نہ پاؤگے۔

۶۹

کیا اہلبیت(ع) ہی وہ صاحبان ذکر نہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے :

فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ

“ اگر تم نہیں جانتے تو صاحبان ذکر سے پوچھو (1) ۔”

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ مومنین نہیں جن کے متعلق خدا کا ارشاد ہے:

وَ مَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدى‏ وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبيلِ الْمُؤْمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلَّى وَ نُصْلِهِ جَهَنَّمَ”  ( النساء، 115)

“ جو شخص ہدایت کا راستہ واضح ہوجانے کے بعد رسول(ص) کی مخالفت

--------------

1 ـ امام ثقلبی نے اپنی تفسیر میں جناب جابر سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو امیرالمومنین(ع) نے فرمایا کہ ہم ہی وہ اہل ذکر ہیں یہی جملہ ائمہ طاہرین(ع) سے منقول ہے علامہ بحرینی نے بیس سے زیادہ حدیثیں 35 باب میں درج کی ہیں سب کا مضمون یہی ہے۔

۷۰

 کرے گا اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر دوسری راہ چلے گا ہم اس کو اس کی روگردانی کا مزا چکھائیں گے(1) ۔”

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ ہادی نہیں جن کے متعلق فرمایا ہے: 

إِنَّما أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ ” (الرعد، 7)

“ اے رسول(ص) تم ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے(2) ۔”

اور کیا اہلبیت(ع) ہی وہ لوگ نہیں جن پر خدا نے اپنی نعمتیں نازل کیں اور جن کے متعلق خداواند عالم سے سورہ فاتحہ میں ارشاد فرمایا ہے:

“اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقيمَ صِراطَ الَّذينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ” ( فاتحه، 6-7)

--------------

1 ـ ابن مردویہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مشاقہ( مخالفت) رسول(ص) سے مراد یہاں علی(ع) کی شان میں اختلاف کرنا ہے اور من بعدما تبین لہ الہدی میں ہدی کا جو لفظ ہے اس سے مراد شان امیرالمومنین(ع) ہے یعنی امیرالمومنین(ع) کی شان و جلالت واضح ہونے کے بعد جو اس میں چون وچرا کرے۔ عیاشی نے بھی اپنی تفسیر میں اسی مضمون کی حدیث درج کی ہے ۔ ائمہ طاہرین(ع) سے بکثرت صحیح اور متواتر حدیثیں مروی ہیں جو بتاتی ہیں کہ سبیل مومنین سے مراد انہیں ائمہ طاہرین(ع) کا مسلک ہے۔

2 ـ ثعلبی نے اس آیت کی تفسیر میں جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول(ص) نے اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا کہ میں ڈرانے والا ہوں اور علی(ع) ہادی ہیں اور اے علی(ع) ! تمہارے ہی ذریعے ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے۔ اس مضمون کی متعدد حدیثیں مفسرین ، محدثین نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہیں۔ محمد بن مسلم سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا ہر امام اپنے زمانے کا ہادی ہے اور امام محمد باقر(ع) نے فرمایا ہے اس آیت کی تفسیر میں کی منذر سے مراد رسول(ص) اور ہادی سے مراد حضرت علی(ع) ہیں پھر آپ نے فرمایا کہ قسم بخدا یہ بات اب تک ہم میں چلی آرہی ہے۔

۷۱

“ خداوند ہمیں راہ راست کی ہدایت کر ان لوگوں کی راہ جن پر تونے اپنی نعمتیں نازل فرمائیں(1) ۔”

اور دوسری جگہ فرمایا ہے:

“  فَأُولئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَ الصِّدِّيقينَ وَ الشُّهَداءِ وَ الصَّالِحينَ ” ( نساء ، 69)

“ اور وہ مومنین بندے ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے اپنی نعمت نازل کی ہے(2) ۔”

کیا خداوند عالم نے انھیں کے لیے ولایت عامہ نہیں قرار دی اور رسول(ص) کے بعد ولایت کا انحصار انھیں میں نہیں کردیا ۔ پڑھیے یہ آیت :

إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ ” (المائدة،55   )

“ اے لوگو! تمہارا ولی خدا ہے اور اس کا رسول(ص) اور وہ لوگ جو ایمان لائے ، جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں(3) ۔”

--------------

1ـ ثعلبی اپنی تفسیر میں بسلسلہ تفسیر سورہ فاتحہ ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ صراطِ مستقیم سے مراد محمد(ص) وآل(ع) محمد(ص) کا راستہ ہے اور وکیع بن جراح سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے انھوں نے سفیان ثوری سے انھوں نے سدی سے انھوں نے اسباط و مجاہد سے اور انھوں نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ “اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقيمَ ” کا مطلب یہ ہے کہ تم کہو اے معبود محمد وآل محمد(ص) کی محبت کی طرف ہماری رہنمائی کر۔

2ـ کوئی شبہ نہیں کہ ائمہ علیہم السلام سید و سردار ہیں جملہ صدیقین و شہداء و صالحین کے۔

3 ـ تمام مفسرین کا اجماع و اتفاق ہے جیسا کہ علامہ قوشجی نے شرح تجرید مین اس کا اعتراف کیا ہے ( اور یہ علامہ قوشجی اشاعرہ کے ائمہ سے ہیں) کہ یہ آیت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی جب آپ نے نماز میں بحالت رکوع انگوٹھی خیرات کی تھی۔ امام نسائی نے بھی اپنی صحیح میں عبداﷲ بن سلام سے روایت کی ہے کہ یہ آیت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی اسی طرح صاحب المجمع بن الصحاح الستہ نے بھی سورہ مائدہ کی تفسیر میں اس آیت کے امیرالمومنین(ع) کی شان مین نازل ہونے کی روایت کی ہے ثعلبی نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کے امیرالمومنین (ع) کی شان میں نازل ہونے کی روایت کی ہے۔

۷۲

اور کیا خدا نے مغفرت کو مختص نہیں کردیا صرف ان لوگوں کے ساتھ جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور عمل صالح کریں اور ساتھ ساتھ ولایتِ آلِ محمد(ص) کی طرف ہدایت یاب بھی ہوں جیسا کہ خود خداوند عالم نے فرمایا ہے:

وَ إِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى‏” ( طہ، 82)

“ بے شک میں بخشنے والا ہوں اس کو جو توبہ کرے ایمان لائے اور عمل صالح کرے پھر ہدایت یاب بھی ہو(1) ۔”

--------------

1 ـ  ابن حجر نے صواعق محرقہ فصل اول باب 11 میں لکھا ہے ان کی اصل عبارت کا ترجمہ یہ ہے : آٹھویں آیت میں اﷲ تعالی فرماتا ہے : بے شک میں بخشنے والا ہوں اس کو جو توبہ کرے ، ایمان لائے اور عمل صالح کرے اور ساتھ ساتھ ہدایت یاب بھی ہو” ثابت نباتی کہتے ہیں کہ یعنی ولایت اہل بیت(ع) کی طرف ہدایت یاب ہو۔ امام محمد باقر(ع) و جعفرصادق(ع) سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔ اس کے بعد ابن حجر نے امام محمد باقر(ع) کے اس قول کا بھی ذکر کیا ہے جو آپ نے حارث بن یحی سے فرمایا تھا کہ اے حارث ، کیا دیکھتے نہیں کہ خداوند عالم نے کیونکر شرط قرار دی ہے کہ انسان کو توبہ ایمان و عمل صالح اس وقت تک نفع بخش نہیں جب تک ہماری ولایت کی طرف راہ نہ پائے پھر آپ نے اپنی اسناد سے حضرت امیرالمومنین(ع) سے دریافت فرمائی ہے کہ اگر کوئی شخص توبہ بھی کرے ایمان بھی لائے عمل صالح بھی کرے مگر ہماری ولایت کی طرف ہدایت یافتہ نہ ہو اور ہمارے حق کو پہچانتا نہ ہو تو کوئی چیز بھی اس کے لیے فائدہ بخش نہ ہوگی۔ حافظ ابونعیم نے بھی عون بن ابی جعفر سے انھوں نے اپنے باپ سے انھوں نے حضرت علی(ع) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے۔ امام حاکم نے امام محمد باقر(ع) وجعفر صادق(ع) ثابت بنائی انس بن مالک ان حضرات میں سے ہر شخص سے اس مضمون کی حدیث روایت کی ہے۔

۷۳

کیا انھیں کی ولایت وہ امانت نہیں  جس کے متعلق خداوند عالم کا ارشاد ہے(1) :

 “إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَةَ عَلَى السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَها وَ أَشْفَقْنَ مِنْها وَ حَمَلَهَا الْإِنْسانُ إِنَّهُ كانَ ظَلُوماً جَهُولاً ” (احزاب، 72  )

“ ہم نے امانت کو آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر پیش کیا سب نے اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے خائف ہوئے اور انسان نے اٹھالیا اور وہ تو ظالم و جاہل ہی ہے۔”

کیا اہل بیت  علیہم السلام ہی صلح و سلامتی نہیں جس میں داخل ہونے کا خداوند عالم نے حکم دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے :

 “يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَ لا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ ” (البقرة : 208)

“ اے لوگو! سب کے سب سلامتی میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو(2)

--------------

1 ـ دیکھیے اس آیت کے معنی جو تفسیر صافی اور تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں بیان کیے گئے ہیں۔ نیز ابن بابویہ نے امام محمد باقر علیہ السلام و امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے  اور علامہ بحرینی نے اس آیت کی تفسیر میں کتاب غایتہ المرام باب 115 میں حضرات اہلسنت کی حدیثیں درج کی  ہیں اسے بھی ملاحظہ فرمائیے۔

2 ـ علامہ بحرینی نے کتاب غایتہ المرام کے باب 224 میں بارہ صحیح حدیثیں اس آیت کے ولایت امیرالمومنین (ع9 وائمہ طاہرین(ع) کے بارے میں نازل ہونے کے متعلق لکھی ہیں اور باب 223 میں لکھا ہے کہ اصفہانی اموی نے امیرالمومنین(ع) سے متعدد طریق سے اس کی روایت کی ہے۔

۷۴

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ نعمتِ خداوند عالم نہیں جس کے متعلق ارشاد الہی ہے :

 “ ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعيمِ ” ( التکاثر، 8)

“ قیامت کے دن ضرور بالضرور تم سے اس نعمت کا سوال کیا جائے گا(1) ۔”

کیا حضرت سرورکائنات(ص) کو اسی نعمت کے پہنچانے کا تاکیدی حکم نہیں ہوا؟ اور اتنی سختی نہیں کی گئی جو دھمکی سے مشابہ تھی؟ جیسا کہ آیت کا اندازہ بتاتا ہے:

  “يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ” (مائدہ، 67)

“ اے رسول(ص) پہنچا دو اس چیز کو جو تم پر تمھارے پروردگار کی جانب سے نازل ہوئی اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تم نے کار رسالت انجام ہی نہیں دیا ۔ تم ڈرو نہیں خدا تمہیں لوگوں سے محفوظ رکھے گا(2) ۔”

--------------

1 ـ  علامہ بحرینی نے غایتہ المرام باب اڑتالیس میں 3 حدیثیں حضرات اہلسنت کے طریقوں سے لکھی ہیں جن سے مستفاد ہوتا ہے کہ نعیم سے مراد یہاں ولایت حضرت سرورکائنات(ص) اور امیرالمومنین(ع) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام ہے جس سے خداوند عالم نے بندوں کو سر فراز کیا اور باب 49 میں شیعوں کی 12 صحیح حدیثیں اسی مضمون کی درج کی ہیں۔

2 ـ ایک دو نہیں بکثرت محدثین جیسے امام واحدی و غیرہ نے اپنی کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۷۵

۷۶

۷۷

وارد ہوئی ہیں اور درحقیقت ان حضرات کی ولایت ہے بھی ایسی ہی اہمیت کی حامل کیونکہ ان کی ولایت ان چیزوں میں سے ہے جن کی تبلیغ کے لیے خداوند عالم نے انبیاء مبعوث کیے۔ انباء و اوصیاء کے ذریعے اپنی حجتیں قائم کیں ، جیسا کہ آیہ :

 “وَ سْئَلْ مَنْ أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ (1) مِنْ رُسُلِنا ”( زخرف، 45)

“ ہمارے ان رسولوں سے پوچھو جنھیں ہم نے تم سے پیشتر بھیجا تھا۔”

کی تفسیر میں علماء نے صراحت فرمائی ہے بلکہ ان کی ولایت تو وہ مہتم باشان امر ہے جس کا خداوند عالم نے روزِ الست ارواح خلق سے عہد وپیمان لیا، جیسا کہ :

 “وَ إِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَني‏ آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ أَشْهَدَهُمْ عَلى‏ أَنْفُسِهِمْ أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قالُوا بَلى‏ (2) ”( اعراف، 172)

“ اور اے رسول(ص) وہ وقت بھی یاد دلاؤ جب تمھارے پروردگار نے آدم(ع) کی اولاد سے یعنی پشتوں سے باہر نکال  کر ان کی اولاد سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرالیا۔ پوچھا کہ کیا میں تمھارا پروردگار نہیں ہوں۔ تو سب کے سب بولے ۔ہاں۔”

کی تفسیر بتاتی ہے۔ انھیں ذواتِ مقدسہ سے وسیلہ حاصل کر کے آدم(ع) نے وہ کلمات سیکھے جن کے ذریعے ان کی توبہ قبول ہوئی(3) ۔

یہی وہ حضرات ہیں جن کی وجہ سے خداوند عالم نے امت سے اپنا عذاب دور رکھا۔(4)

--------------

1 ـ حلیتہ الاولیاء ، ابونعیم اصفہانی، تفسیر ثعلبی، تفسیر نیشاپوری۔

2 ـ فردوس الاخبار، علامہ دیلمی باب 14، صفحہ 304۔

3 ـ تفسیر در منثور جلد1، صفحہ61، کنزالعمال، جلد1، صفحہ234، ینابیع المودہ، صفحہ79۔

4ـ  صواعق محرقہ، تفسیر آیہ “وما کان اﷲ ليعذب ه م الخ”

۷۸

یہ زمین والوں کے لیے جائے پناہ اور خدا تک پہنچنے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن سے حسد کیا گیا اور خداوند عالم نے ان کے بارے میں فرمایا :  “أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلى‏ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ (1) ” (نساء، 54)

“ یہ لوگ کیوں جل رہے ہیں ہمارے ان مخصوص لوگوں سے جن کے دامن میں ہم نے اپنے فضل سے نعمتیں بھر دی ہیں۔”یہی وہ علم میں راسخ حضرات ہیں جن کے متعلق خداوند عالم نے فرمایا :“وَ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا (2) ” ( آل عمران، 7)

“ علم میں گڑے ہوئے سمائے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔”یہی وہ اعراف کے رجال ہیں جن کے متعلق خداوند عالم کا ارشاد ہے: “  وَ عَلَى الْأَعْرافِ رِجالٌ يَعْرِفُونَ كُلاًّ بِسيماهُمْ (3) ”( الاعراف، 46)

--------------

1 ـ صواعق محرقہ، باب 11، آیت6۔

2 ـ ثقتہ الاسلام علامہ کلینی نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے “ ہم ہی وہ لوگ ہیں جن کی اطاعت خدا نے فرض کی۔ ہم ہی راسخون فی العلم ہیں، ہم ہی وہ لوگ ہیں جن سے حسد کیا گیا۔ ” جناب شیخ نے بھی تہذیب میں امام جعفر صادق(ع)  سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔

3ـ ینابیع المودة صفحہ 83، روح البیان جلد1 ، صفحہ 723، ابن عباس سے مروی ہے کہ اعراف صراط سے ایک بلند جگہ ہے جس پر عباس، حمزہ، علی، اور جعفر ذوالجناحین ہوں گے، وہ اپنے دوستداروں کو ان کے روشن چہروں سے اور اپنے دشمنوں کو ان کے سیاہ چہروں سے پہچان لیں گے۔ امام حاکم نےبسلسلہ اسناد حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ ہم بروز قیامت جنت ونار کے درمیان کھڑے ہوں گے جس نے ہماری مدد کی ہوگی اسے ہم پہچان کر جنت میں اور جس نے دشمن رکھا ہوگا اسے جہنم میں داخل کریںگے اسی مضمون کی وہ حدیث کی تاکید کرتی ہے جو دار قطنی نے روایت کی ہے( ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب نہم) حضرت علی(ع) نے ان چھ آدمیوں سے جنھیں حضرت عمر نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کے لیے صاحبان شوری قرار دیا تھا ایک طولانی گفتگو میں کہا میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم میں میرے سوا کوئی بھی ایسا ہے جس کے بارے میں پیغمبر(ص) نے فرمایا اےعلی(ع) تم بروز قیامت قسیم نار و جنت ہوگے لوگوں نے کہا نہیں آپ کے سوا اور کسی کے متعلق رسول(ص) نے ایسا نہیں فرمایا۔ علامہ ابن حجر ( اس حدیث کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے جیساکہ عنترہ نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا اے علی (ع) تم قسیم نار وجنت ہو تم جنت سے کہو گے یہ تیرے لیے ہے اور یہ میرے لیے۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ سماک نے دریافت کی ہے کہ ابوبکر نے حضرت علی(ع) سے کہا میں نے پیغمبر(ص) کو ارشاد فرماتے سنا ہے “ پل صراط سے بس وہی گزرے گا جسے علی(ع) نے پروانہ راہداری دیا ہو۔”

۷۹

“ اعراف پر ایسے مرد ہوں گے جو ہر شخص کو بہشتی ہو یا جہنمی اس کی پیشانی سے پہچان لیں گے۔”

یہی وہ رجال صدق ہیں جن کے متعلق ارشاد ہوا :

 “  رِجالٌ صَدَقُوا ما عاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضى‏ نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَ ما بَدَّلُوا تَبْديلاً ” ( احزاب، 23)

“ ایمانداروں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ خدا سے انھوں نے جان نثاری کا جو عہد کیا تھا اسے پورا کردکھایا۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جو مر کر اپنا وقت پورا کر گئے اور ان میں سے بعض حکم خدا کے منتظر بیٹھے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات ذرا بھی نہیں بدلی(1) ۔”

--------------

1 ـ علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ ، باب 9 میں تحریر کیا ہے کہ حضرت امیرالمومنین(ع) منبر کوفہ پر تشریف رکھتے تھے کہ کسی نے اس آیت کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا یہ آیت میرے اور میرے چچا حمزہ اور چچازاد بھائی عبیدہ بن حارث کے متعلق نازل ہوئی۔ عبیدہ تو بروز بدر واصل بحق ہوئے۔ چچا حمزہ احد میں شہید ہوئے رہ گیا میں سو میں اس بدبخت ترین مردم کا انتظار کررہا ہوں جو میری ڈاڑھی کو میرے سر کے خون سے خضاب آلود کرےگا۔ میرے حبیب محمد مصطفی(ص) مجھے بتا گئے ہیں۔ امام حاکم نے بھی اس مضمون کی حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے۔

۸۰