اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ20%

اسلام کے محافظ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 191

اسلام کے محافظ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 191 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 74157 / ڈاؤنلوڈ: 4686
سائز سائز سائز
اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 

اسلام کے محافظ

از قلم : آیت اﷲ حسین مظاہری

۱

نام کتاب :    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام کے محافظ

مصنف : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آیت اﷲ حسین مظاہری

مترجم : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید ذالفقار علی زیدی

۲

پیش گفتار

اس مادی ترقی کے دور میں جبکہ انسانی ، اخلاقی اور اسلامی اقدار روبہ زوال ہیں خدا اور انسان کے ربط کی بات کرنا، عوام الناس کو اس مقدس رشتے سے متعارف و روشناس کرنا  اور پھر خد اپرستی کی طرفف عملاا مائل کرنا ۔۔۔ یہی وہ اہداف ہیں جن کی جانب جامعة الاطہر پبلیکیشنز پاکستان ۱۴۱۱ ہجری سے رواں دواں ہے۔ ان اہداف کے حصول کے لیے ہماری یہ کوشش ہوگی کہ اسلام کے حقیقی نظریات ، معارف کے ادراک اور قارئین کے عملی، دینی اور روحانی ذوق کی تسکین کے لیے مستند تبلیغات جاری کرتے رہیں۔

اسلام کے محافظ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔

یہ کتاب ( اسلام کے محافظ) آیت اﷲ حسین مظاہری کی تالیف ہے ۔ جس میں آپ نے حضرات چہاردہ معصومین علیہم السلام کی سیرت مبارکہ کے بارے میں بطور خلاصہ اپنے مطالعہ کا نچوڑ بیان فرمایا ہے۔

مسلمان اسلام کی ان محافظین کی سیرت طیبہ سے آگاہی حاصل کر کے اپنی زندگی کو ان کے نقش قدم پر چلانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکتے ہیں۔ امید ہے یہ گرانقدر کتاب طالبان علم و معرفت کے لیے قیمتی سرمایہ ثابت ہوگی۔

                                                                             ( ناشر) 

۳

“مقدمہ مولف”

اس مقدمے میں تین بنیادی نکتوں کو بطور خلاصہ بیان کیا جائے گا۔ اـ افراد اہل بیت(ع) کا فضیلت میں برابر ہونا اور نبوت اور نبوت و امامت کی دلیل۔ ان میں سے بعض مقالات اسلامی جمہوری کے ریڈیو سے نشر ہوچکے ہیں ۔ اور مصنف سے ان کے بعض دوستوں نے یہ خواہش کی کہ ان مقالوں کو ایک کتاب کی شکل میں طبع کیا جائے لیکن عدیم الفرصتی کی وجہ سے مولف کو یہ موقع نہ ملا کہ دوستوں کے اس مطالبے کو پورا کرسکے ۔ یہاں تک کہ ماہ رمضان ۱۴۰۲ ہجری میں کچھ وقت ملا جس کی وجہ سے موجودہ صورت  میں کتاب طبع ہوئی۔ نشر شدہ ان مقالات میں چند مفاہیم کا اضافہ ہوا ہے۔ امید ہے کہ حضرات اہل بیت کرام(ع) کی خوشنودی اور قارئین کی پسندیدگی کا موجب بنے گی۔

یہاں یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس مجموعے میں خاصی بلکہ کئی ایک خامیاں ہیں ادبی اور فنی خامیاں بھی ہیں بحثوں کے مختصر ہونے کی خامی بھی ہے شاید مہارت کی خامی بھی ہو اور یہ بھی خامی ہوسکتی ہے کہ تفصیل کے بجائے اجمال سے کام لیا گیا ہے۔

مگر یہ کتاب صرف بیس دن سے کمتر مدت میں اور وہ بھی ماہ رمضان میں جبکہ انقلاب کے نشیب و فراز کا سامنا بھی تھا۔ ایک ایسا انقلاب جس نے بڑے معرکہ انجام دیئے۔ ایک ایسا انقلاب جس کے خلاف عالمی سپر طاقتوں نے ایکا کیا۔ اس طرح تمام کی نظریں

۴

 اس پر لگی ہوئیں ہیں۔ ایک ایسا انقلاب جس کے دائم و قائم رہنے کی فکر آئندہ اور موجودہ تمام نسلوں کو ہونی چاہیے۔

خلاصہ یہ کہ انقلاب اسلامی جو قسم قسم کے مسائل کے ساتھ نبرد آزما رہا ہے نے ہمیں اس قدر فرصت نہیں دی کہ ہم اس قسم کے امور کو زیادہ سے زیادہ وقت دے سکیں۔ لیکن “ ما لا یدرک کلہ لا یترک کلہ” ایک واضح کمی جو نظر آئے گی وہ یہ ہے کہ  کتاب کی دقیق مطالب کا حوالہ موجود نہیں لیکن میں ذمہ داری لیتا ہوں کہ اس کتاب کی تمام اسناد سنی و شیعہ کی مستند کتابوں سے لی ہیں جن کی فہرست ہم نے کتاب کے آخر میں دی ہے۔

روایات سے جس چیز کا پتہ چلتا ہے اور مسلم ہے کہ حضرات اہل بیت علیہم السلام کے درمیان فضائل و کمالات کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ایک ہی نور کی شعائیں ہیں جو مختلف انوار میں بٹ گئی ہیں۔ “ کلہم نور واحد” تمام اہل بیت(ع) ایمان، تقوی، شجاعت، حلم، سخاوت، علم اور دوسرے تمام فضائل میں یکساں ہیں۔ “ اولنا محمد و اوسطنا محمد و آخرنا محمد” آپ اس کتاب میں جن کمالات اور فضائل کو پڑھیں گے وہ تمام اہل بیت(ع) کی صفات ہیں۔ یہ صرف زمانے اور حالات کا تقاضا تھا کہ ان میں بعض کمالات کا ظہور بعض سے ہوا۔ جیسے کہ حضرت علی علیہ السلام جو ہر وقت حضور اکرم (ص) کی خدمت میں رہتے تھے اور آپ کی زندگی میں ستر سے زائد جنگیں لڑی گئیں ان میں سے اکثر کے انتظامی امور کی ذمہ داری حضرت علی(ع) کےہاتھوں میں تھی لہذا آپ (ع) اس طرح “ اہل بیت(ع) کی شجاعت ” کے مظہر قرار پائے۔

اسی طرح حضرت ابی عبداﷲ امام حسین علیہ السلام کو خونین انقلاب بھی حالات کے تقاضے کے پیش نظر رونما ہوا آپ فداکاری ، محبت الہی  اور راہ خدا میں جانبازی کا مظہر بن گئے۔ در اصل یوں کہنا چاہئے کہ آپ (ع) اہل بیت(ع) کی فداکاری ” کا مظہر ہیں۔

۵

حضرات امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ بنی امیہ کی حکومت کا آخری اور بنی عباس کی حکومت کا ابتدائی تھا۔ جس نے ابھی استحکام حاصل نہیں کیا تھا۔ جس نے ابھی استحکام حاصل نہیں کیا تھا۔ لہذا یہ دونوں حضرات اہل بیت(ع) کے علم کا مظہر قرار پائے۔ اسی طرح تمام ائمہ علیہم السلام کے بارے میں کہا جاسکتا ہے ۔ لہذا اس کتاب میں کہیں اگر کوئی فضیلت اہل بیت(ع) میں سے کسی ایک کے لیے بتائی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اہل بیت کرام(ع) کے دوسرے افراد اس فضیلت کے حامل نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہستی اس فضیلت کی مظہر جو تمام ائمہ میں موجود ہے۔

قرآن مجید حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا زندہ معجزہ ہے۔ اور کئی ایک پہلوؤں سے معجزہ ہے۔

“ا”  قرآن ایک علمی کتاب ہے اور اس علمی کتاب کا لانے والا “امی” ہے جس نے الف ب بھی لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا ہے۔ قرآن “ کتاب ہدایت” اور “ کتاب تہذیب” جیسی تعبیرات کے ذریعے اپنی پہچان کرا دی ہے جب کہ حقیقت مٰیں تمام علوم اور فضائل کی حامل ہے۔ قرآن فلسفے کی کتاب نہیں لیکن اس میں فلسفی براہین و استدلال موجود ہے۔ اور کئی ایک ایسی آیات موجود ہیں جو فلسفی براہین کی حامل ہیں۔ قرآن فقہ کی کتاب نہیں لیکن معاشرتی ، سیاسی ، معاملاتی، عبادی اور جزائی قوانین کا حامل ہے۔ وہ بھی اس طرح موجود ہیں کہ اگر سارا عالم مل کر کوشش کرے کہ اس    قسم کے قوانین وضع کرین تو یہ ان کے لیے ناممکن ہے۔

قرآن علوم فلکیات کی کتاب نہیں لیکن ستارہ شناسی کے نکات موجود ہیں جنہوں نے اس شعبے کے ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے۔

قرآن فصاحت و بلاغت کی کتاب نہیں لیکن اپنی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے دنیا کے تمام فصحاء و بلغاء کو مبہوت کیا ہوا ہے۔ اس بنا پہ “ ولید بن مغیرہ” نے جو فصحائے

۶

 عرب مین سے ایک تھا قرآن کے بارے میں یوں کہا ہے۔

“ اس قرآن کی ایک خاص مٹھاس اور تازگی ہے اس کے شاخ پھلوں سے لدے ہوئے ہیں جڑیں مستحکم اور استوار ہیں تمام کلاموں سے برتر کلام ہے اس سے بلند کلام کوئی پیش نہیں کرسکتا۔ ” قرآن طبیعات کی کتاب نہیں لیکن اس میں ہزار سے زائد آیات علم طبیعات کے مسائل کو پیش کرتی ہیں۔ اسی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن معجزہ ہے کیونکہ کہ یہ ایک علمی کتاب ہے جس سے مختلف علوم کےچشمے پھوٹتے ہیں اور اس کا لانے والا کون ہے؟ ایک ایسا شخص جس نے الف بے کو بھی پڑھنا لکھنا سیکھا نہیں تھا۔

“ب” قرآن کریم ۲۳ سال کے عرصے میں موقع و محل کی مناسبت سے مختلف شرائط کے تحت حضور اکرم (ص) پر نازل ہوتا رہا۔ معمول کے مطابق عام حالت میں ، غیر معمولی حالات میں ، صلح کے وقت ، جنگ کے وقت ، قوت و اقتدار کے وقت ، کمزوری کے وقت اور دیگر  مختلف حالات میں نازل ہوتا رہا ۔ لیکن اس میں جو اہم بات ہے وہ اس کے آیات کا آپس میں ربط اور استحکام ہے جو پورے قرآن کی تمام آیات میں موجود ہے۔ ان میں وہ آیات بھی شامل ہیں جو مکہ کے کمر شکن حالات کے دوران نازل ہوئی ہیں اور وہ آیات بھی ہیں جومدینہ کے دولت و حکومت اور اقتدار کے زمانے میں نازل ہوئی ہیں۔ مگر ان تمام میں ایک ہم آہنگی موجود ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح کی ہم آہنگی پورے قرآن مجید میں پائی جاتی ہے۔ اور ایسا ہونا خود ایک عظیم معجزہ ہے۔

“ج” جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ قرآن مجید ۲۳ سال کے عرصے میں ایک ایسے شخص پر نازل ہوا جس نے الف بے تک بھی پڑھنا لکھنا نہیں سکھا تھا۔ اور اس کتاب کی جس خصوصیت نے فصحاء و بلغاء اور علماء کی توجہ اپنی جانب مبذول کی وہ اس  کی ہم آہنگی ہے۔ قرآن میں کہیں بھی کوئی اختلاف نہیں کوئی بھی ای آیت دوسری آیت کے برعکس نہیں۔ جیسا کہ بعرض لوگوں کے خیال میں کسی قدر نسخ موجود ہے لیکن ہمارے

۷

عقیدے میں یہ بھی قرآن میں نہیں اگر قرآن کریم خداوند عالم کی طرف سے نہ ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس میں اختلاف موجود نہ ہوتا؟ قرآن خود اس عظیم معجزے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 “أَ فَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَ لَوْ كانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فيهِ اخْتِلافاً كَثيراً  ”  (    النساء : ۸۲)

“ کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر اور غور و فکر نہیں کرتے کہ اگر خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارا اختلاف پاتے ”

یہ بحث بڑی طویل ہے کلام کے اختصار کی خاطر ہم اسے یہیں پر ختم کرتے ہیں۔ تاکہ طوالت سے بچ جائیں۔

خلاصہ یہ کہ قرآن ( اﷲ کا کلام ) مختلف پہلوؤں سے معجزہ ہے اور خداوند عالم نے اس کے مخالفوں کو مقابلہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے۔

(۱)کہہ دیجئے اگر تمام انسان اور جنات جمع ہو جائیں اور ایک دوسرے کی پشت پناہی کریں تو بھی قرآن کی سورتوں میں سے دس بلکہ ایک سورہ بھی پیش نہیں کرسکیں گے۔ ( سورہ اسراء، آیت۸۸)

(۲)اگر تمہیں اس قرآن کے خدا کی طرف سے ہونے میں شک ہے تو اس کی سورتیں کی جیسی ایک ہی سورہ بنا کر اور اﷲ کے سوا اپنے تمام گواہوں کو لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ اور اگر تم نہ کرو جبکہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جو کافرون کے لیے تیار کی گئی ہے۔ ( سورہ بقرہ، آیت ۲۳،۲۴)

قرآن فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ایک علمی کتاب ہے مگر اسے لانے والا

۸

 ایک ایسا فرد ہے جو پڑھا لکھا نہیں اور اس کتاب میں کوئی اختلاف بھی نہیں اور اس میں ایک ہم آہنگی اور ربط پایا جاتا ہے۔ اور یہ کتاب خود مقابلے کی دعوت دیتی ہے۔ مقابلے کی یہ للکار کل بھی تھی آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔

یہ آسمانی کتاب پیغمبر اکرم(ص) کو اپنے “ مبین” کی حیثیت سے متعارت کراتی ہے ۔ ( سورہ نحل، آیت ۴۴) میں ارشاد ہوا “ ہم نے ذکر کو تم پر نازل کیا تاکہ تم اسے لوگوں کو بیان کرو جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے۔”

بعض اوقات ابو بصیر(رح) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ قرآن میں امیرالمومنین علیہ السلام اور اہل بیت(ع) عظام کے نام موجود کیوں نہیں آپ فرماتے ہیں قرآن میں کلیات کا بیان ہوا ہے اور خداوند عالم نے ان کلیات کی تفسیر کو بیان کرنے کی ذمے داری حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم پر رکھی ہے ۔ قرآن میں نماز ، روزہ، حج ، ذکوة اور دوسرے مسائل کا بیان بھی کلی طور پر ہوا ہے۔ جبکہ ان کی تفصیلات نماز کتنی رکعت ہے اور کس طرح پڑھنی ہے کے بارے میں کچھ بھی نہیں فرمایا ہے۔ قرآن نے زکوة کو بارے میں حکم دیا ہے  مگر کتنا زکوة ، کتنا نصاب اور کسے دیا جائے تفصیل سے نہیں بتایا۔

اب ان کلیات کی وضاحت کرنا حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر لازم ہے۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا نام بھی اسی طرح “ کلی ” کے تحت مذکور ہوا ہے۔ قرآن میں حکم ہوا ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کریں۔ اور اولی الامر کا تعارف کرانا کہ کتنے ہیں ؟ اور کون ہیں؟ حضور اکرم (ص) کا کام ہے۔

اہل سنت اور اہل تشیع کی کتب میں بہت ساری روایات موجود ہیں کہ حضور اکرم(ص) نے اپنے اوصیاء کا تعین فرمایا۔ ہم بطور نمونہ ان میں سے صرف چند ایک کا ذکر کرتے ہیں۔

۹

اس بارے میں شیعہ و سنی مکتب میں جو روایات مذکور ہوتی ہیں وہ مختلف اقسام پر مبنی ہیں۔ ان روایات کا ایک گروہ تو پوشیدہ طور سے یہ کہتا ہے کہ حضور نے فرمایا میرے بعد میرے خلفاء ۱۲ ہیں اور یہ سب کے سب بنی ہاشم کے خاندان سے ہیں۔

“ الائمة من بعدک اثنی عشر خليفة کلهم من بنی هاشم”

احمد بن حنبل علمائے اہل سنت میں سے ایک عظیم عالم ہیں وہ اپنی مسند میں اس روایت کو سولہ اسناد کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔

روایات کا دوسرا گروہ ایسا ہے جن میں واضح طور سے بیان ہوا ہے کہ حضور اکرم (ص) نے فرمایا “ میرے بعد میرے اوصیاء بارہ ہیں جن کے پہلے علی(ع) ہیں ان کے بعد حسن(ع) ان کے بعد حسین(ع) اور ان کے بعد حسین(ع) کی اولاد میں سے نو افراد ہوں گے جن کا نواں قائم(عج) حق ہوگا اور دنیا جہاں کو عدل و اںصاف سے پر کے گا۔

روایات کا تیسرا گروہ وہ ہے جو تعداد میں زیادہ بھی ہے اور بڑی تفصیل اور صراحت کے ساتھ رسول اکرم(ص) کے خلفاء کو بیان کرتی ہیں۔ ہم یہاں پر ایسی روایات میں سے صرف چار روایات کو بیان کرتے ہیں۔

(۱)ایک یہودی شخص نے حضور اکرم (ص) کی خدمت میں آکر آپ کے جانشین کے بارے میں پوچھا اور کہا ہر پیغمبر(ص) کے وصی اور جانشین ہوتے ہیں یہ سن کر آپ (ص) نے فرمایا میرے وصی علی ابن ابی طالب(ع) ہیں اور ان کے بعد ان کے فرزند حسن(ع) ان کے بعد ان کے دوسرے فرزند حسین(ع) اور حسین (ع) کے نو فرزند یکے بعد دیگرے میرے وصی بنیں گے یہودی نے کہا۔ میرے لیے ان کے نام بتادیں۔ تو حضرت (ص) نے فرمایا جب حسین(ع) دنیا سے چلے جائیں گے تو ان کے بیٹے علی(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے جعفر(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے موسی(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے علی(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے علی (ع) ان کے بعد ان کے بیٹے حسن(ع) ان کے بعد ان فرزند حجت محمد مہدی(عج) پس یہی بارہ اوصیاء ہیں۔

۱۰

(۲)رسول اکرم(ص) نے فرمایا جب میں معراج کے وقت آسمانوں پر گیا تو ساق عرش پر نور سے لکھا ہوا دیکھا:

“لا إله إلّا اللّه، محمّد رسول‏ اللّه‏-----”

“ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد(ص) اﷲ کے رسول ہیں۔”

میں نے علی(ع) کے ذریعے اس کی تائید کی اور علی(ع) کے ذریعے اس کی مدد کی۔ اس کے بعد حسن(ع) و حسین(ع) ( لکھا ہوا) دیکھا اس کے بعد تین مرتبہ علی علی علی دیکھا اور دو مرتبہ محمد محمد لکھا ہوا دیکھا۔ اس کے بعد جعفر، موسی، حسن اور حجتہ کے بارہ نام نور سے لکھے ہوئے دیکھے۔

(۳)حضرت جابر بن عبداﷲ اںصاری فرماتے ہیں کہ جس وقت آیت “أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم ” نازل ہوئی تو میں نے حضور اکرم (ص) سے پوچھا میں نے خدا اور رسول(ص) کو تو پہچان لیا مگر یہ اولی الامر کون ہیں جن کی اطاعت کو خدا اور رسول(ص) کےساتھ ملایا گیا ہے کون ہیں؟ یہ سن کر رسول اکرم(ص) نے فرمایا یہ میرے بعد میرے خلفاء ہیں۔ ان کے پہلے علی ابن ابی طالب(ع) ہیں ان کے بعد حسن(ع) ان کے بعد حسین(ع) ان کے بعد علی ابن الحسین(ع) ان کے بعد محمد بن علی(ع) جو توریت میں باقر (ع) کے نام سے معروف ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے جب ان سے ملاقات ہوجائے تو انہیں میری طرف سے سلام کہنا۔ حضرت جابر نے امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ ملاقات بھی کی اور حضور اکرم(ص) کا سلام بھی پہنچایا۔۔۔ ان کے بعد جعفر بن محمد(ع) ان کے بعد موسی بن جعفر(ع) انکے بعد علی بن موسی (ع) ان کے بعد محمد بن علی(ع) ان کے بعد علی  بن محمد(ع) ان کے بعد حسن بن علی(ع) اور ان کے بعد میرے ہم نام اور میرے ہم کنیت زمین پر حجتہ خدا اور عوام کے درمیان بقیتہ اﷲ محمد بن الحسن بن علی(ع)۔ یہ وہی ہیں جن کے ذریعے خداوند عالم دنیا میں توحید کا پرچم بلند کرے گا۔ اور مغرب و مشرق اس کے تابع کرے گا۔

(۴)امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے حضرت ام سلمہ(رض) کے گھر پر میں حضور اکرم(ص) کی خدمت میں پہنچا تو اس وقت آیت تطہیر نازل ہوچکی تھی۔ حضور اکرم(ص) نے فرمایا

۱۱

 اے علی(ع) یہ آیت تم حسن(ع) و حسین(ع) اور تمہاری ذریت کے ائمہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا آپ(ص) کے بعد ائمہ کی  تعداد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اے علی(ع) تم ہو، تمہارے بعد حسن(ع) و حسین(ع) ہیں۔ حسین(ع) کے بعد ان کے بیٹے علی(ع) ہیں، علی(ع) کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع)، محمد (ع) کے بعد ان کے بیٹے جعفر(ع) اور جعفر(ع) کے بعد ان کے بیٹے موسی(ع) اور موسی(ع) کے بعد ان کے بیٹے علی(ع) اور علی(ع) کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع)، محمد(ع) کے بعد ان کے بیٹے علی(ع) اور علی(ع) کے بعد ان کے بیٹے حسن(ع) اور حسن (ع) کے بعد ان کے بیٹے حجتہ(عج) ہیں۔ یہ وہ اسماء ہیں جنہیں میں نے ساق عرش پر لکھا ہوا دیکھا اور خداوند عالم سے ان کے بارے میں پوچھا تو فرمایا اے محمد(ص) یہ ائمہ ہیں تیرے بعد کے جو پاک ہیں، معصوم ہیں اور ان کے دشمن قاتل نفرین ہیں۔

مختصر یہ کہ قرآن آسمانی کتاب اور رسول اکرم(ص) کا زندہ معجزہ ہے۔ اور آپ کی نبوت اسی کتاب کے ذریعے ثابت ہوجاتی ہے۔ اور آپ کے اوصیاء قرآن میں اولی الامر کہہ کر واجب الاطاعہ قرار دیئے گئے ہیں۔

اور خود رسول اکرم(ص) نے جو قرآن کا “ مبین” ہے یعنی بیان کرنے والا ہے “ اولی الامر” کے مصداق کو معین فرمایا ہے۔ اور بہت ساری روایات موجود ہیں جن میں حضور اکرم(ص) نے ان کی تعداد کو بارہ میں منحصر کیا ہے۔ اور سنی و شیعہ روایات میں سے زیادہ روایات میں ان کے ناموں کا ذکر کیا ہے۔ یہ دلیل ہے امامت کی جن کے پہلے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ہیں۔ سنی وشیعہ روایات کے مطابق غدیر خم کے مقام پر آپ کو امامت پر منصب کئے جانے کے بعد ہی دین اسلام کامل ہوا ہے اور آیت “ الیوم اکلت دینکم” نازل ہوئی۔ اور ان کے آخری حضرت قائم آل محمد ہیں جن کی خصوصیات و صفات کا بیان شیعہ وسنی روایات میں تین سو سے زیادہ روایات میں موجود ہے جن میں یہ کہا گیا ہے کہ انہی کے ذریعے خدا روئے زمین کو عدل و اںصاف سے اسی

۱۲

طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی۔

اگر ہم حضور اکرم(ص) کی نبوت پر قرآـن مجید جو ان کا زندہ معجزہ ہے کو دلیل قرار دیں تو بغیر کسی اعتراض کے تام اصطلاحات کلام و فلسفہ، وجود صانع اور وحدانیت اس کے تمام کمال صفات کو ثابت کرنا ہے۔

کیونکہ خود قرآن اس پر دلیل ہے کہ اس دنیا پر ایک حکیم مدبر، عالم اور قادر اور واجب الوجود ہستی حاکم ہے  جس کا نام اﷲ ہے اور وہ ان تمام کمالات کا جامع ہے ۔ اسی طرح قرآن کریم سے معاد جسمانی بھی ثابت ہوجاتی ہے کیونکہ قرآن وہ زندہ معجزہ ہے جو تزکیہ نفس کے بعد دوسری تمام چیزوں سے معاد کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ اس عالم کے لیے ایک اور باطنی عالم موجود ہے ۔ اور وہ عالم بھی جسمانی ہے جہاں خداوند عالم ایک انسان کو اسی جسم و جسمانیت کے ساتھ اور اسی حقیقت کے ساتھ اس دنیا میں دوبارہ زندہ کرے گا۔

ارشاد ہوا ہے۔

قسم ہے قیامت کے دن کی اور قسم ہے نفس لوامہ کی۔ انسان یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ ہم ان ہڈیوں کو دوبارہ زندہ نہیں کریں گے ایسا نہیں بلکہ ہم اس پر قدرت رکھتے ہیں کہ ہم اس کی انگلیوں کے پوروں کو بنا دیں ۔ ( سورہ قیامت آیت ۱)

اور انسان کو اس کی حقیقی شکل میں لوٹا دیں اس کے ساتھ اس دنیا میں لوتا دیں۔ اس طرح یہ جاودانی معجزہ نہ صرف نبوت و امامت کو ثابت کرتا ہے بلکہ تمام اصول دین کو پایہ ثبوت تک پہنچاتا ہے۔

۱۳

حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم

حضرت خاتم الانبیاء (ص)

بسم اﷲ الرحمن الرحيم

آپ کا اسم گرامی محمد(ص) مشہور لقب احمد(ص) اور مصطفیٰ اور مشہور کنیت ابوالقاسم ہے۔ جمعہ کے دن صبح کے وقت عام الفیل کے سال سترہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ وہی سال جس میں خداوند عالم نے ابابیل کے ذریعے اپنے گھر کی حفاظت کی اور ہاتھی والوں کو جو خانہ خدا کو ڈھانے کی غرض سے آئے تھے نابود کیا۔ آپ کی شہادت ۲۸ صفر ۱۱ہجری کو ایک یہودی عورت کے زہر دینے کی وجہ سے واقع ہوئی۔

۲۵ سال کی عمر میں آپ(ص) نے حضرت خدیجہ(ع) سے شادی کی۔ یہ وہی خاتون ہیں جن کا اسلام اور مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے۔ حضور اکرم (ص) عام الفیل کے چالیسویں سال ۲۷ رجب المرجب کو مبعوث برسالت ہوئے۔ تیرہ سال تک مکہ میں کمر توڑ مصائب کا مقابلہ کرتے ہوئے اسلام کی تبلیغ کی۔ لیکن کفار قریش اسلام کی تبلیغ میں مانع ہوئے تو آپ (ص) نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور وہیں سے آپ نے اپنی رسالت کا پیغام دنیا میں پھیلایا۔ آپ (ص) کے والد حضرت عبداﷲ بن عبدالمطلب(ع) عرب کے سرداروں میں سے تھے۔ تاریخ کی گواہی کے مطابق آپ(ص) کی عظمت و بزرگواری کے ہم پلہ بہت کم لوگ تھے۔ حضور اکرم(ص) کی ولادت سے پہلے ہی آپ(ص) کے والد ماجد نے شام کے سفر سے لوٹ کر مدینہ میں وفات پائی اور وہیں پر مدفون ہوئے۔ اس وجہ

۱۴

سے حضور اکرم(ص) کی پرورش آپ(ص)  کے دادا حضرت عبدالمطلب (ع) نے کی اور آپ کی رضاعت کے لیے دایہ مقرر کی جن کا نام حلیمہ سعدیہ(رض) تھا۔ ان خاتون کی عظمت کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ حضور اکرم(ص) اپنی پرورش ان کے ہاتھوں ہونے پر فخر کرتے تھے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ(رض) نے چھ سال تک پرورش کرنے کے بعد آپ (ص) کو واپس آپ(ص) کی والدہ محترمہ(ع) کے پاس پہنچایا۔ اور حضور اکرم(ص) اپنی والدہ محترمہ(ع) کے ساتھ اپنے والد کی قبر کی زیارت کے لیے مدینہ چلے گئے مگر وہاں سے واپسی پر راستے میں حضرت آمنہ(ع) نے وفات پائی اور حضرت ام ایمن(ع) نے آپ (ص) کو آپ (ص) کے دادا حضرت عبدالمطلب (ع) تک پہنچایا۔ جب آپ(ص) کی عمر مبارک آٹھ سال کی تھی تو حضرت عبدالمطلب(ع) نے وفات پائی۔ اور ابوطالب(ع) جیسے چچا اور فاطمہ بنت اسد (ع) جیسی چچی نے ماں اور باپ بن کر آپ(ص) کی پرورش کی۔ اس وجہ سے آپ(ص) کو یتیمی کا احساس نہ ہوا مگر اس کے ملال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کریم نے اس نکتے کی طرف ارشاد فرمایا :

“أَ لَمْ يَجِدْكَ يَتيماً فَآوى‏ وَ وَجَدَكَ ضَالاًّ فَهَدَى‏ وَ وَجَدَكَ عَائلًا فَأَغْنى‏”

“ کیا تمہیں یتیم نہیں پایا کہ پناہ دیدی تمہیں راہ بھٹکتے دیکھا تو ہدایت دی تجھے گراں بوجھ سکے تلے پایا تو بے نیاز کردیا۔ ”

اس بنا پر رسول اکرم(ص) اگرچہ یتیم ، غریب اور محتاج تھے مگر اس کے اثرات آپ(ص) پر نہیں ملتے ہیں۔ کیونکہ خداوند عالم نے ابوطالب(ع) جیسی ہستی کے پاس آپ(ص) کو پناہ دی ۔ اور حضرت خدیجہ(ع) جیسی دولت مند خاتون کو شادی کے وقت جس نے یہ اعلان کیا کہ میری دولت آپ(ص) کی ہے اور میں خود آپ (ص) کی کنیز ہوں مالی ضروریات کی طرف سے خداوند عالم نے یوں بے نیاز کیا۔ آپ(ص) کی مادر گرامی حضرت آمنہ(ع) ایک عظیم خاتون تھیں۔ ان کی عظمت کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ حضور اکرم(ص) کی والدہ ہیں۔

حضور اکرم(ص) کی شرافت ، کرامت اور عالی صفات اور معجزات اس قدر زیادہ ہیں

۱۵

جن کی تفصیل دوسری مفصل کتابوں میں موجود ہے۔ چونکہ ہمیں یہاں اختصار مطلوب ہے اس لیے صرف ایک معجزے کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں اور قرآن کریم نے آپ(ص) کی شان میں جو کہا ہے اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد اختصار کے ساتھ آپ(ص) کے القاب کی تفسیر بیان کرتے ہیں اور آخر میں آپ(ص) کے خاتم النبیین ہونے کے بارے میں کچھ بحث کرتے ہیں۔

مورخین کا لکھنا ہے کہ آپ(ص) کی ولادت کے دن دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ طاق کسریٰ میں شگاف پڑا ۔ اور اس کے کنگرے گر پڑے ، دریائے ساوہ خشک ہوا۔ آتش کدنہ فارس جو کئی سالوں سے مسلسل جل رہا تھا بجھ گیا۔ اس دن دنیا کے تمام بادشاہ حیران و پریشان اور گونگے بن گئے تھے۔ تمام بت اوندھے منہ گرے تھے، اس دن ساحروں کا سحر بے اثر ہوگیا تھا۔ لا الہ الا اﷲ کا کلمہ گونج رہا تھا اور جب آپ(ص) دنیا میں آئے تو آپ(ص) کے وجود کی برکت سے عالم نور ہویا۔ جب آپ(ص) نے لا الہ الا اﷲکہا تو دنیا جہاں نے آپ(ص) کے ہمزبان ہو کرلا الہ الا اﷲ کہا۔ حضور اکرم (ص) کے بارے میں قرآن کریم یوں فرماتا ہے۔

“وَ كَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهيداً ”

“ اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط قرار دیا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر(ص) تم پر گواہ ہوں”

اس آیت کریمہ کے دو معنی ہیں اور یہ تعبیر ان دونوں معانی کی حامل ہے کہ امت اسلامی انسانیت کے معاشرے کے لیے نمونہ عمل ہے اور رسول اکرم(ص) امت مسلمہ کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ لیکن ان آیت کے ایک اور عمیق معنی بھی ہیں جسے ائمہ علیہم السلام نے بیان فرمایا ہے اور شیعہ مفسرین خصوصا ہمارے استاد محترم علامہ طباطبائی نے ان روایات کی پیروی کرتے ہوئے مفصل بحث کی ہے اور وہ معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن امت اسلامی لوگوں کے

۱۶

اعمال کی گواہ بننے  والی ہے مگر یہ بات صریحی ہے کہ تمام امت والے اس کے لائق نہیں بلکہ یہ امر ائمہ معصومین علیہم السلام پر منحصر رہے گا۔ اہل بیت(ع) و شیعہ کی بے شمار ایسی روایات موجود ہیں جو اس دوسرے  معنی پر دلالت کرتی ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ خداوند عالم نے ائمہ معصومین علیہم السلام کو اس لیے خلق فرمایا کہ وہ قیامت کے دن لوگوں کے اعمال کے گواہ بنیں اور حضور اکرم(ص) ان کے اعمال کے گواہ بنیں۔ اس دنیا میں گواہ کو تمام شرفتوں کا حامل ہونا چاہیے تاکہ وہ قیامت کے دن گواہ قرار پاسکے۔ اور اگر دنیا میں اس نے یہ مسائل نہ دیکھے ہوں تو قیامت کے دن گواہ نہیں ہوسکتا۔ لہذا ائمہ علیہم السلام کے لیے عالم ہستی کے محیط میں موجود ہونا چاہیے تاکہ ان کے اعمال پر مطلع ہوسکیں اور گواہی دے سکیں یہ وہی واسطہ فیض ہے جسے اصطلاح میں “ ولایت  تکوینی” کہا جاتا ہے اس صورت میں آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہوا کہ ائمہ علیہم السلام دنیا والوں کے لیے واسطہ فیض ہیں اور ان کے لیے حضور اکرم (ص) واسطہ فیض ہیں یہی معنی ہیں کہ حضور اکرم(ص) کو عقل کا نور مطلق یا “ اول ما خلق اﷲ ” کہا گیا ہے۔

اس بارے میں بڑی طویل بحث ہے مگر اس مختصر کتاب میں اس کی گنجائش موجود نہیں۔ ہم نے اپنی کتاب ” قرآن میں امامت و ولایت ” پر نسبتا مفصل بحث کی ہے۔ تفصیل کے خواہشمند اس کا مطالعہ کریں۔ جو کچھ کہا جاسکتا ہے یہ ہے کہ بہت ساری آیات اور روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ائمہ طاہرین( علیہم السلام ) اس عالم کے لیے فیض کا واسطہ ہیں اور اس دنیا مین جو کچھ نعمت ملتی ہے جیسے کہ ظاہری نعمات مثلا عقل، سلامتی، رزق، تحفظ ، یا نعمات باطنی اور معنوی مثلا علم، قدرت ، اسلام، وغیرہ بھی ان حضرات کے وسیلے سے ہے۔ اور ان حضرات کا وجود جہاں ہستی میں “ احاطہ علی” کی حیثیت رکھتا ہے اور حضور اکرم(ص) کی ذات گرامی ائمہ طاہرین(ع) کے لیے واسطہ فیض

۱۷

ہے اور ان حضرات کے جو نعمات ظاہری اور باطنی میسر ہیں وہ آںحضرت(ص) کے وجود با برکت کے ذریعے سے ہیں اور آپ(ص) کو وجود ان کے لیے “ احاطہ علی” قرار پاتا ہے۔

اور ائمہ علیہم السلام سے جو روایات “ کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اور رکھتے ہیں رسول اکرم(ص) کی طرف سے ہے اور رسول اکرم(ص) جو کچھ بھی رکھتے ہیں وہ خداوند عالم کی طرف سے ہے۔ ” کا مطلب بھی یہی ہے  حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے لیے بہت سارے القاب وارد ہوئے ہیں جن میں سے ہم کچھ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی تشریح کریں گے۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب احمد(ص) ہے۔ قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انجیل میں بھی یہ لقب استعمال میں آیا ہے قرآن کہتا ہے :

 “وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتي‏ مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَد”

“حضرت عیسی(ع) نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک رسول(ص) آئے گا جس کا لقب احمد(ص) ہوگا۔

احمد کے معنی تعریف کرنے والے کے ہیں۔ یعنی جو شکر اور حمد کا حق بجا لائے وہ احمد ہے۔

ہم روایات میں پڑھتے ہیں کہ کثرت عبادت کی وجہ سے مورد اعتراض قرار پاتے ہیں۔ تو فرماتے ہیں تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

۲:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب محمود(ص) ہے  جیسا کہ قرآن میں آپ(ص) کا اسم مبارک محمد(ص) اور آپ(ص) کو محمود اور محمد(ص) کہا گیا ہے کیونکہ آپ(ص) کی تمام صفات قابل تعریف ہیں اس بارے میں قرآن فرماتا ہے :

وَ إِنَّكَ لَعَلى‏ خُلُقٍ عَظيمٍ

“ بے شک آپ(ص) اخلاق حسنہ کی عظیم منزلت پر فائز ہیں۔”تم کمال کی صفات کے انتہائی درجے پر فائز ہو۔

ابن عربی کہتا ہے۔ خداوند عالم کے ہزار نام ہیں ان سب میں سے بہترین نام محمد، محمود اور احمد ہیں ۔ محمد اسے کہا جاتا ہے جس میں صفات کمالیہ بدرجہ اتم موجود ہوں ۔ اور آپ(ص) سے قبل کسی کا نام محمد نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ نام عالم ملکوت سے ہی آپ(ص)

۱۸

 کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ اور تمام آپ(ص) پر درود بھیجتے تھے۔

۳:۔ آپ(ص) کے عظیم القاب میں سے ایک لقب “ امی ” ہے یعنی جس نے لکھا پڑھا نہ ہو قرآن اس کی طرف یوں ارشاد کرتا ہے۔

 “ وَ ما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ وَ لا تَخُطُّهُ بِيَمينِكَ إِذاً لاَرْتابَ الْمُبْطِلُونَ”( سورہ،عنکبوت، ۴۸)

“رسالت سے قبل نہ تو آپ(ص) نے پڑھا اور نہ تو لکھا آپ(ص) لکھے پڑھے نہیں تھے اگر آپ(ص) پڑھے لکھے ہوتے تو ممکن ہے کہ خود غرض لوگ شکوک و شبہات پیدا کرتے۔ لیکن پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود قرآن جیسی کتاب لائے تو کسی کو شک و شبہ کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ یہ خود حضور اکرم(ص) کا ایک بڑا معجزہ ہے جس شخص کے بارے میں جانتے ہیں کہ پڑھا لکھا نہیں ہے اور ان پڑھ ہے ایک ایسی کتاب لے آیا کہ جو تمام علوم سے مملو ہے اور اپنے کو کتاب ہدایت قرار دیتی ہے۔ہدایت یعنی راستہ دکھانے اور مطلوب تک پہنچانے کے معنوں میں ہے یعنی انسان کو اپنے مطلوب اور مقصد تک پہنچاتی ہے اس میں بہت ساری ایسی آیات ہیں جو فلسفہ کی عمیق گہرائیوں پر مشتمل ہیں مگر بڑی سادگی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ قرآن صرف فقہ کی کتاب نہیں مگر اس میں ایسے قوانین موجود ہیں کہ انسانی معاشرے کا سر ان کے سامنے جھک جاتا ہے۔ کسی کی کیا مجال جو قرآن کے برابر قوانین مرتب کرسکے۔ عبادی، معاشرتی ، سیاسی ، قوانین، قصاص کے قوانین ، قوت اجرائی کے قوانین وغیرہ۔ قرآن کہتا ہے۔

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلى‏ أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هذَا الْقُرْآنِ لا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَوْ كانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهيراً ”(سورہ بنی اسرائیل : ۸۸ )

۴:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب کریم ہے اور یہ لقب بھی قرآن کریم میں مذکور ہے :

“إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَريمٍ”(تکویر آیت ۱۹)

۱۹

حضور اکرم(ص) مکہ مکرمہ میں اس قدر کفار کی اذیت سے دوچار تھے کہ وہ آپ(ص) پر پتھر برساتے تھے آپ(ص) بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لیتے تھے۔ حضرت ابو طالب(ع) اور حضرت خدیجہ(ع) آپ(ص) کو ڈھونڈ لاتے ۔ بارہا انہوں نے سنا کہ حضور اکرم(ص) فرماتے تھے کہ

“ اللهم اهد قومی فانهم لا يعلمون”

“ خداوند میری قوم کی ہدایت فرما۔ یہ لوگ نادان ہیں ”

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بارہ ہزار کے آراستہ لشکر کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوئے تو اپنے کسی ساتھی کو یہ کہتے ہوئے سنا۔“ الیوم یوم المطحمت۔” آج کا دن جنگ و بدلے کا دن ہے۔ آپ(ص) نے یہ سن کر امیرالمومنین(ع) کو اس کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ لوگوں کے درمیان یہ اعلان کرا دیں کہ کہ “ الیوم یوم المرحمہ۔” یعنی آج رحمت ، کرامت اور معافی کا دن ہے۔

 ۵:۔ آپ (ص) کے القاب میں سے ایک رحمت ہے جو قرآن میں مذکور ہے۔

“وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ ”

“ ہم نے تمہیں دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔”

اور آپ (ص) کی رحمت کی حدود قرآن میں یوں بیان کی گئی ہیں۔

“فَلَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ عَلى‏ آثارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهذَا الْحَديثِ أَسَفاً ”

“ اے رسول(ص) تم تو شدت حزن سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے قریب ہے کہ ان پر افسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہلاک کرو۔” ( سورہ کہف آیت ۶)

اگر سیرت مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ غم و دکھ جھیلے ہیں راز و نیاز کیا ہے، صبر کیا ہے اور مشقت و تکلیف برداشت کی ہے۔

“لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَريصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنينَ رَؤُفٌ رَحيمٌ ”

“ ایک رسول(ص) تمہارے درمیان آیا ہے جو تم میں سے ہے تمہاری سرکشی اورہٹ دھرمی اس کے لیے بڑی گراں ہے تمہاری ہدایت کا خواہاں ہے مومنین پر مہربان اور رحمدل ہے۔” ( سورہ توبہ آیت ۱۲۸)

۲۰

6:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب متوکل ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ(ص) ہمیشہ ذات خداوند پر اعتماد رکھتے ہیں اور اپنی ذات پر نہیں بلکہ خدا پر اعتماد کرتے ہیں۔ آپ(ص) کی دعاؤں میں سے ایک یہ ہے۔

“ اللهم لا تکلنی الی نفسی طرفت عين ابدا”

“ خداوند پلک جھپکنے کے برابر وقت کے لیے بھی مجھے میرے اپنے حوالے نہ کر۔”

کہتے ہیں کہ ایک دشمن نے ایک جنگ کے دوران آپ(ص) کو اکیلا پایا اور اپنی تلوار سونپ کر آگے بڑھا اور کہا اے محمد(ص9 بتاؤ اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ آپ(ص) نے کمال اطمینان کے ساتھ جواب دیا میرا خدا۔ آپ(ص) کا یہ کہنا تھا کہ اس دشمن کے بدن پر لرزہ طاری ہوا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی آپ(ص) نے بڑھ کر تلوار اٹھائی اور فرمایا مجھے تو میرے پروردگار نے بچایا اب تم بتاؤ تمہیں کون بچائے گا؟ اس نے جواب دیا آپ (ص) کی مہربانی اور رحمدلی۔ یہ سن کر آپ(ص) نے اسے معاف فرمایا ۔

آپ(ص) اکثر اوقات ایسے اہم امور انجام دیتے تھے کہ عمومی سوچ اور نظریئے کے مطابق ان امور میں کامیابی کم نظر آتی تھی مگر آپ(ص) سوائے خدا کے کسی پر اعتماد نہ کرتے تھے آپ(ص) خدا پر توکل کرتے تھے خوف خدا رکھتے تھے اس لیے سب کچھ رکھتے تھے۔

پیغمبر اکرم(ص) خدا پر اعتماد رکھتے تھے نہ کہ دنیا پر بلکہ آپ(ص) دنیا کو ایک کھوکھلی شے سمجھتے تھے آپ(ص) سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا ۔ “ دنیا درخت کے سائے کی مانند ہے جس کے نیچے ایک مسافر تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتا ہے۔”

خلاصہ یہ کہ آپ(ص) توکل کے تمام معانی کے حامل تھے اپنے آپ پر نہیں بلکہ خدا پر توکل کرتے تھے آپ(ص) کو دوسروں پر نہیں بلکہ اپنے خدا پر اعتماد تھا۔

۲۱

7:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب امین ہے یہ لقب آپ(ص) کو قبائل عرب نے آپ(ص) کی بعثت سے بہت پہلے دیا تھا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضور اکرم(ص) اپنی بعثت سے پہلے ہی فوق العادت صفات کے حامل تھے آپ(ص) کی پاکدامنی ، سچائی، کمزوری کی دستگیری، اچھے آداب و رسوم کا لحاظ، معاشرتی اچھائیوں کا خیال خصوصا صفائی پاکیزگی اور امانت داری عربوں کے درمیان مشہور تھی۔

حضرت ابو طالب(ع) فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی آںحضور(ص) کو برہنہ نہیں دیکھا بلکہ یہاں تک کہ آپ(ص) کو رفع حاجت کے وقت کسی نے بھی نہیں دیکھا۔ جس دن آپ(ص) کو اسلامی کی کھلم کھلا تبلیغ کا حکم ملا تو آپ(ص) نے قریش کے بزرگوں کو جمع کیا تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دین سب سے پہلے آپ(ص) نے ان سے جو بات پوچھی یہ تھی کہ میں تمہارے درمیان کس قسم کا فرد ہوں سب نے یک زبان ہو کر کہا ہم نے آپ(ص) کو صادق اور امین مانتے ہیں اور جانتے ہیں۔

عبداﷲ بن جزعان ایک کمزور بوڑھا تھا اور اپنا گھر بنانے لگا تو حضور اکرم(ص) جن کی عمر اس وقت سات سال کی تھی بچوں کو لیکر آتے اور اس کے مکان بنانے میں مدد دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کا گھر تیار ہوا تو اس کا نام “ دار النصرہ” پڑگیا اور کمزوروں کی مدد کے لیے مرکز قرار دیا گیا۔

آپ(ص) ہر وقت ادب کے ساتھ چلتے۔ ادب کے ساتھ بیٹھتے اور گفتگو بھی اسی انداز میں کرتے تھے۔ آپ(ص) ہر وقت متبسم رہتے تھے جس کی وجہ سے آپ(ص) کو “ ضحوک ” کہا جاتا تھا آپ(ص) کا کلام فصیح اور شیرین ہوتا تھا۔ کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے جہاں تک ہوسکے دوسروں کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آتے تھے۔ یہ تمام چیزیں مسلم تاریخی ثبوت ہیں۔

8:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب “ عبداﷲ” ہے یہ لقب بھی قرآن مجید سے

۲۲

 ثابت ہے ارشاد ہوا  

“سُبْحانَ الَّذي أَسْرى‏ بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذي بارَكْنا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آياتِنا إِنَّهُ هُوَ السَّميعُ الْبَصيرُ”( سورہ بنی اسرائیل آیت 1)

“ پاک ومنزہ ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کرائی مسجد الحرام سے لیکر مسجد اقصی تک جس کے ارد گرد کوہم نے با برکت قرار دیا ہے تاکہ اپنی آیات اسے دکھائیں بے شک وہ سننے والا اور با بصیرت ہے۔”

یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ(ص) کا یہ لقب آپ(ص) کے تمام القاب سے بہترین لقب ہے اس وجہ سے تو تشہد میں رسالت کے ذکر سے پہلے عبدیت کا ذکر ہوا ہے بندگی کے اپنے مراتب ہیں اس کے تمام مراتب میں سے بلند مرتبہ لقائ اﷲ کا ہے جس کے بارے میں قرآن نے باربار تذکرہ کیا ہے یہ بہت بلند مرتبہ ہے ایک ایسا مرتبہ جہاں پہنچ کر انسان سوائے ذات الہی کے اور کہیں دل نہیں لگاتا اس منزل میں اﷲ کے علاوہ اور کسی سے کوئی ربط نہیں رکھتا ہے۔

“رِجالٌ لا تُلْهيهِمْ تِجارَةٌ وَ لا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ ”

“ یعنی : ان کی  تجارت اور ان کی خرید و فروخت انہیں یاد خدا سے غافل نہیں کرتی۔”

ایک ایسا مرتبہ ہے جہاں انسان کا دل خدا کی محبت سے پر ہوتا ہے اس منزل میں انسان کے لیے کوئی غم و فکر نہیں۔ اس کا دل اطمینان سکون اور وقار سے پر ہوتا ہے۔

“ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ”

“ یعنی : دل اﷲ کے ذکر سے سکون حاصل کرتے ہیں۔” ان میں تڑپ خوف اور اضطراب نہیں ہوتا ہے۔

“أَلا إِنَّ أَوْلِياءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ ”( سورہ یونس آیت 62   )

“ لوگو! خبردار رہو اﷲ کے دوستوں کے لیے کوئی خوف و غم نہیں۔”

 اور حضور اکرم(ص) عبدیت کے انتہائی اعلیٰ مرتبے کے حامل تھے۔

۲۳

آپ(ص) گناہوں سے پاک تھے اور دوسروں کے گناہوں کو دیکھ کر غمگین ہوتے تھے۔ عبادت میں لذت پاتے تھے۔ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ پائے مبارک سوج گئے تو خداوند عالم کی طرف سے سورہ طہ نازل ہوئی اور عبادت کی زیادہ مشقت اٹھانے سے منع کیا گیا۔

9:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب مصفطیٰ(ص) ہے آپ(ص) کا یہ لقب امت اسلامی کے لیے ایک عظیم فخر کا باعث ہے اور بہت بڑا اعزاز ہے کیونکہ مصطفیٰ کے معنی برگزیدہ کے ہیں اور خداوند عالم نے حضور اکرم(ص) کو تمام مخلوقات میں سے چنا ہے کیونکہ جہاں مہربانی  و رحمدلی کا موقع ہے آپ(ص) ایسے رحمدل اور مہربان ہیں کہ کوئی مثل نہیں۔ جس وقت حاتم طائی کی بیٹی مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئی اور مدینہ پہنچی اور مسلمان ہوئی تو حضور اکرم(ص) نے امین لوگوں کے ہمراہ اسے اپنے بھائی عدی کے پاس بھیجا۔ عدی  نے اپنی بہن کی زبانی حضور اکرم(ص) کے بارے میں سن کر ارداہ کیا کہ آپ(ص) کی خدمت میں پہنچے اور اسلام کو قریب سے دیکھ سکے۔ تاکہ بصیرت و معرفت کے ساتھ مسلمان ہوجائے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک دفعہ ہم حضور اکرم(ص) کے ساتھ چل رہے تھے کہ ایک بڑھیا نے آںحضرت(ص) کا راستہ روک لیا اور باتیں کرنے لگیں۔ حضور اکرم(ص) رک گئے اور کمال مہربانی کےساتھ اس کی باتیں سننے لگے اس عورت نے بہت زیادہ وقت لیا۔ مگر حضور اکرم(ص) نے اس کی بات نہیں کاٹی ۔ عدی کہتا ہے کہ آپ(ص) کی پیغامبری کی ایک دلیل تو میرے لیے ہی روشن ہوگئی۔ جب ہم آپ(ص) کےساتھ گھر پر پہنچے تو کسی قسم کی بکلفات موجود میں تھے۔گھر کا فرش گوسفند کے چمڑے کا تھا اور جو غذا کھانے کے لیے مہیا کی گئی وہ جو کی روٹی اور نمک تھی۔ یہ میرے لیے آپ(ص) کی نبوت کی دوسری دلیل بن گئی۔

جو شخص اقتدار رکھتا ہو، دولت رکھتا ہو، حیثیت رکھتا ہو، پیرو کاروں کی ایک

۲۴

 کثیر تعداد رکھتا ہو اور اس کے گھر کی حالت یوں ہو اور لوگوں کے ساتھ اس قدر انکساری برتا ہو تو وہ پیغمبر ہی ہوسکتا ہے۔ آخر کار آپ(ص) سے ایک معجزانہ کام دیکھ کر میں نے اسلام قبول کیا۔ آںحضرت(ص) نے مجھ سے فرمایا تمھارے دین اور عقیدے کے مطابق ٹیکس لینا حرام ہے پھر تم کیوں کر ٹیکس لیتے ہو۔ یہ سن کر مجھے آپ(ص) کی نبوت کا یقین ہوگیا۔ آپ(ص) اتنے نرم دل تھے کہ جب کسی بچے کو روتا سنتے تو فورا نماز ختم کر کے اسے اٹھالیتے اور جب کسی بچی کو دیکھتے کہ پیسے گم کردئیے ہیں تو اسے پیسے بھی دیتے اور اس کی سفارش کرنے اس کے مالک کے گھر تک جاتے۔

لیکن جب اسلام کی بات آتی ہے اور دیکھتے ہیں کہ یہودی سازش کررہے ہیں، عہد شکنی پر تلے ہیں اور جاسوسی کررہے ہیں تو یقین ہوا کہ ان کا وجود اسلام کی ترقی کے لیے مانع ہے تو ان میں سے سات سو کے قتل کا حکم دیتے ہیں۔ یہ ایسا انسان ہے جو مختلف ابعاد کا جامع ہے۔ عام دستور یہ ہے کہ اگر ایک انسان زہد و ریا اور اصطلاح فلسفی کے مطابق “ بلی الرجی” کی راہ اختیار کرچکا ہو۔ اس کے تعلقات لوگوں کے ساتھ بہتر نہیں رہ سکتے اور وہ نہ تو معاشرے میں اپنا مقام بنا سکتا ہے اور نہ تو دلوں پر حکومت کرسکتا ہے۔ یعنی مخلوق کے ساتھ اس کے روابط مضبوط نہیں ہوسکتے ہیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کی ریاضت و مشقت کا پہلو بہت ہی مضبوط تھا یہ تو سب کو معلوم ہے کہ بعثت سے قبل آپ(ص) غار حرا میں عبادت میں مشغول رہتے تھے اور آپ(ص) عبدیت کی انتہائی بلندی پر فائز تھے لیکن اس کے ساتھ مخلوق کے ساتھ تعلقات کے پہلو میں بھی بہت آگے تھے یہاں تک کہ قرآن کریم نے فرمایا :

“فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَليظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ”( آلعمران : 159)

   “ خداوند عالم کی طرف سے شامل حال رحمت کی بناء پر تم لوگوں کے ساتھ مدارات کرتے ہو اور نرمی سے پیش آتے ہو اگر تمہاری باتین اور کردار سخت اور

۲۵

 درشت ہوتا تو لوگ تمہارے پاس سے متفرق ہوجاتے ہی۔”

اے محمد(ص) آپ(ص) خوش گفتار ، خوش کردار ہیں اپنے سلوک اور زبان سے لوگوں کو اپنے سے دور نہیں کرتے بلکہ اپنے عمل اور زبان سے اپنے گرد لوگوں کو جمع کرتے ہیں دل کے بڑے نرم ہو سخت دل نہیں ہو ۔ یعنی رسول اکرم(ص) کا صحیح اتباع یہ ہے کہ ان دونوں پہلوؤں پر انسان خاص مقام حاصل کرے۔

مختصر یہ کہ حضور اکرم(ص) تمام صفات کمالیہ کے حامل تھے باوجود اس کے بہت سی صفات کمالیہ یکجا کرنا آسان نہیں۔ عالم تھے ، عارف تھے، عاشق تھے، دشمنوں پر سخت تھے، دوستوں پر مہربان تھے، بہادر تھے، ہمیشہ مسکراتے  رہتے تھے، عاقل تھے، آخرت کو ترجیح زیادہ دیتے تھے دنیا کو بھی جانتے تھے ، زاہد تھے، ثابت قدم تھے اور فعال تھے۔

اگر چہ حضور اکرم(ص) کے بے شمار القاب ہیں مگر ہم اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفا کرتے ہیں اس طرح آپ(ص) کی صفات کمالیہ بھی بہت زیادہ ہیں۔

                     بلغ العلی بکماله کشف الدجی بجماله

                     حسنت جميع خصاله صلو عليه و آله

آپ(ص) کے کمال کا پہلو اس حد تک پہنچا کہ آپ کے جمال کی برکتوں سے ساری تاریکیاں دور ہوگئیں ۔ آپ(ص) کے تمام خصائل نیک ہیں۔ بحث کےآخر میں آپ(ص) کے خاتم النبیین (ص) ہونے کے بارے میں مختصر گفتگو کریں گے۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب خاتم النبیین ہے لفظ خاتم  کے “ ت” پر زبر پڑھیں یا زیر دونوں صورتوں میں معنی پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ دونون میں اختتام کے معنی موجود ہیں عربی میں خاتم “ت” پر زبر کےساتھ انگوٹھی کو کہا جاتا ہے جس سے مہر لگایا جاتا ہے اور جب کوئی خط لکھا جاتا تھا تو اس کے آخر میں دستخط کی جگہ مہر لگایا جاتا ہے۔ انگوٹھی کے مہر کی

۲۶

 جگہ آخری جگہ ہوتی تھی اور اس کے بعد خط ختم ہوجاتا ہے۔ پیغمبراکرم(ص) کے خاتم ہونے کا عقیدہ اسلام کی ضروریات میں سے ہے جو بھی مسلمان ہے وہ جانتا ہے ہے کہ حضور اکرم(ص) خاتم الانبیاء(ص) ہیں اور آپ(ص) کے بعد قیامت تک کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔

حلال محمد حلال الی يوم القيامه و حرامه حرام الی يوم القيمه

قرآن کریم نے متعدد آیات میں یہ واضح کیا ہے کہ حضور اکرم(ص) ہر زمانے ، ہر جگہ اور ہر کسی کے لیے نبی ہیں۔

“وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ”

“ ہم تمہیں نہیں بھیجا مگر یہ کہ سارے جہانوں کے انسانوں کے لیے رحمت۔

“ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِنْ رِجالِكُمْ وَ لكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَ خاتَمَ النَّبِيِّينَ ”(الاحزاب آیت 40   )

“ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اﷲ کے رسول(ص) اور خاتم الانبیاء ہیں۔”

قرآن کریم میں اس قسم کی آیات بہت ساری موجود ہیں اور اس طرح حضور اکرم (ص) کے خاتم الانبیاء ہونے کے بارے میں بہت ساری روایات بھی موجود ہیں۔ ان روایات میں سے ایک روایت “ روایت منزلت ” ہے جو سنی اور شیعہ تمام کے نزدیک مسلمہ ہے اور غایت المرام کے مصنف نے اسے 170 اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جن مٰیں سے ایک سند اہل سنت کے ہاں یوں ہے کہ حضور اکرم(ص) نے فرمایا :

“أَنْتَ‏ مِنِّي‏ بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي”

“ تمہاری نسبت میرے ساتھ ایسی ہی ہے جیسے کہ موسی (ع) کے ساتھ ہارون(ع) کی تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”

خاتم ہونے کا راز دو چیزون میں ڈھونڈا جاسکتا ہے۔

1:۔ اسلام انسانوں کی فطرت کے ساتھ مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے۔

۲۷

“فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنيفاً فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتي‏ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها لا تَبْديلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ ”(الروم، 30   )

“ اپنے رخ کودین حنیف کی طرف متوجہ کرو جو انسانوں کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اﷲ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں یہ پائیدار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔”

2:۔ دین اسلام تمام پہلوؤں کا جامع ہے اور یہ قدرت رکھتا ہے کہ ہر جگہ ، ہر زمانے میں ہر حالت میں معاشرے کے سامنے جوابدہ ہوسکے۔ اسلام اس بات کا دعویدار ہے کہ انسانی معاشرے میں دینی اعتبار سے جس چیز کی ضرورت تھی اسے بیان کیا ہے۔

“وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ ”

“ کتاب جسے ہم نے تم پر نازل کیا ہے تمام چیزوں کا بیان کرنے والی ہے۔”

“الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً ”(المائدة : 3   )

“ آج کے دن ( غدیر خم کےدن ) ہم نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔”

اس کے علاوہ بہت ساری روایات صراحت کے ساتھ اس دعوی کو بیانگ دہل کہتی ہیں اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے اس ضمن میں روایات بھی وارد ہوتی ہیں۔

“  ما من شئ يطلبونه الا وهو فی القرآن فمن اراد الک فليسئلنی عنه”

“ کوئی چیز ایسی نہیں جس کی تمہیں ضرورت پڑے مگر یہ کہ وہ قرآن میں موجود ہے بس جو ایسا چاہپتا ہے اس بارے میں مجھ سے پوچھے۔”

جب حقیقت ایسی ہے تو کسی دوسرے دین کا آنا دبے فائدہ اور لغو قرار پاتا ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی دوسرے دین کا اس وقت

۲۸

 ضروری ہوجانا جب موجودہ دین معاشرہ کی ضروریات کو پورا نہ کرسکے اور ایک خاص زمانے کے لیے ہو جب کہ ایسی محدودیت اسلام میں نہیں اور اس کی سب سے بڑی دلیل اسلام کا قانون مرجعت ہے۔ اسلام کے کسی حکم کے بارےے میں اگر آپ ایک “ مرجع” کے پاس پہنچیں اور تو یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کے سوالات کا جواب دینے سے عاجز آجائے۔

3:۔ پہلے والے دین میں کسی قسم کی تحریف یا تبدیلی واقع ہو جائے، جیسا کہ یہودیت اور عیسایت کے بارے میں خود ان کا اپنا اقرار ہے جب کہ اسلام میں یہ نقص موجود نہیں ہے اور خداوند عالم نے اس بات کی ذمہ داری لے لی ہے کہ اسلام اس قسم کی تحریفات سے محفوظ رہے گا۔ قرآن کے بارے میں ہے۔

لا يَأْتيهِ الْباطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزيلٌ مِنْ حَكيمٍ حَميدٍ ” (فصلت : 42   )

“ اس میں باطل کے داخل ہونے کا امکان ہی نہیں چاہے سامنے یا پیچھے سے اور یہ حکمت والے قابل تعریف کا نازل کیا ہوا ہے جس نے تمام اشیاء کو حکومت کے ساتھ پسندیدہ صفات کے ساتھ خلق فرمایا ہے۔”

4:۔ اس پہلے والے دین کی ضرورت رہی۔ مثلا اگر کوئی ایسا دین جو کسی خاص زمانے کے لیے بھیجا گیا ہو۔ جس نے اس خاص زمانے کی معنویات اور اقدار کو زیادہ سے زیادہ نظر رکھا ہوا اور جب وہ مطلوبہ ہدف پورا ہوا تو اس کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ اسلام کے بارے میں اس قسم کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اسلام انسان کے ساتھ سو فیصد مطابقت رکھتا ہے۔ اسلام نے جس طرح انسان کی معنویات کا خیال رکھا ہے اس طرح کی مادیت سے غافل نہیں رہا۔ بلکہ اسے بھی اہمیت دی ہے۔ جیسے ارشاد ہوتا ہے۔

“وَ ابْتَغِ فيما آتاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَ لا تَنْسَ نَصيبَكَ مِنَ الدُّنْيا ”( سورہ القصص : آیت  77   )

۲۹

“ جو کچھ اﷲ تعالی نے تمہیں دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کے طلب گار رہو اور اپنی دنیا کے حصے کو فراموش مت کرو یعنی اسے بھی حاصل کرو۔”

اسلام ایسے کامل قانون کا حامل ہے کہ تمام ممکنہ مسائل کا سامنا کرسکتا ہے اور ایسے احکام پیش کرتا ہے کہ قیامت تک کے زمانے کے لیے اجراء ہوسکتے ہیں۔ خداوند عالم کی طرف سے انبیاء(ع) اس لیے آتے تھے کہ اﷲ کا قانون اس کے بندوں کو پہنچائیں ایسے پیغمبروں کو علم کلام کی اصطلاح میں اولو العزم کہا جاتا ہے اور اب قرآن کے نازل ہونے کے بعد ان کی ضرورت نہیں رہی بلکہ قرآن نے خود ان کی جگہ لے لی ہے تو اب ایسے پیغمبروں کا آنا بے فائدہ ہے۔

اور بعض انبیاء صرف تبلیغ اور قوانین کے اجراء کے لیے آتے ہیں جب کہ اسلام نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے حکم کے ذریعے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے علمائے کرام ہی کو “ نظارت ملی” کا حق دیتا ہے اور بڑی اہمیت دیتا ہے بلکہ ان انبیاء کے برابر قرار دیا ہے۔“علماء امتی بمنزلة انبياء بنی اسرائيل ” حضور اکرم(ص) نے فرمایا۔ “ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔” نیز نبوت کے خاتمے کے بعد امامت اور اس کے بعد ولایت فقیہ کی بناء پر رسولوں کے نہ آنے کی تلافی ہوگئی اور مذکورہ صورتوں کے باوجود انبیاء کا آنا بے معنی ہو جاتا ہے۔

۳۰

حضرت علی علیہ السلام

حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام عام الفیل کے تیس سال بعد جمعہ کے دن رجب کی تیرہ تاریخ کو اﷲ کے گھر ( کعبہ) میں پیدا ہوئے اور ہجرت کے چالیس سال بعد 19 رمضان کو فجر کے وقت حالت نماز میں ابن ملجم کی تلوار سے اﷲ کے گھر(مسجد) میں زخمی ہوئے اور اسی مہینے کی اکیس تاریخ کو شہادت پائی۔ آپ کی عمر مبارک 63 سال تھی۔ بعثت سے قبل دس سال اور بعثت کے بعد 23 سال حضور اکرم کےساتھ اور حضور اکرم(ص) کی رحلت کے بعد تیس سال گزارے۔ علی (ع) کی زندگی اسلام اور انسانیت کے لیے ایک با برکت زندگی تھی۔ اگر آپ نہ ہوتے تو تاریخ یوں نہ ہوتی ۔ تاریخ کا درخشان دور امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کے ایام ہیں۔

حضرت امیرالمومنین(ع) کے بارے میں بات کرنا کوئی آسان کام نہیں اس لیے ہم یہاں آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اختصار کے ساتھ تذکرہ کریں گے۔

علی(علیہ السلام) کون ہیں؟

واقعتا اس سوال کا جواب کیا ہے؟ اگر ہم اس کے جواب کا ناممکن نہ کہیں تو مشکل ضرور کہنا پڑے گا۔ اہل سنت کےایک بہت بڑے عالم جاحظ کا کہنا ہے کہ “ علی(ع) کے بارے میں بات کرنا ممکن نہیں۔ اگر علی(ع) کا ذکر کر کے کہا جائے کہ حق ادا ہوا تو یہ غلو ہے۔ اگر ذکر کر کے علی(ع) کا حق ادا نہ کیا جائے تو یہ ان پر ظلم ہے۔”

ایک اور بزرگ اہل سنت عالم “ خلیل نموی” کہتے ہیں کہ میں اس ہستی کے بارے میں کیا کہوں کہ دوست دشمن سب نے ان کے فضائل چھپائے۔ دوستوں نے

۳۱

خوف کے مارے اور دشمنوں نے حسد کے مارے ۔ باوجود اس کے دنیا علی(ع) کے فضائل سے پر ہوگئی ۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں اس قسم کے کلمات شیعہ مفکرین سے بہت منقول ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوگا کہ کہ ہم امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل کے بارے میں قرآن کی زبان میں بات کریں۔

 “ وَ لَوْ أَنَّ ما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ وَ الْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيمٌ”(لقمان آیت 27  )

“ تحقیق اگر روئے زمین کے درخت قلم بن جائیں اور تمام سمندر سیاہی بن جائیں بلکہ سات مرتبہ سمندر سیاہی میں بدل جائیں تو بھی خداوند کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔”

شیعہ نظرئے اور روایات کے مطابق ان کلمات کا معدن امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات گرامی ہے۔ ناحیہ مقدس کی دعا جو حضرت محمد بن عثمان سمری کے ذریعے پہنچی ہے اور رجب کے مہینے کی ہر تاریخ کو پڑھنے کا حکم ہے اس میں ہم پڑھتے ہیں۔ “فجعلت ه م معادن کل ه ا ” تک “ یعنی تو نے انہیں اپنے کلمات کا معدن قرار دیا ہے۔” کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ

     قلم ہوں شاخ اشجار جہاں کاغذ فلک گر ہو            سیاہی چشمہ حیواں ہو، دریا ہو، سمندر ہو

     جہاں کاتب دعائے مصطفیٰ (ص) تائید داور ہو         نو سندوں کو لکھنے کی بھی مہلت تابہ محشر ہو

     یہ سب ہوں ذہن عالی سے بلند ہر ایک نخور ہو       ثنا جد(ص) کی تیرے اے مہدی(ع) دین پھر بھی کمتر ہو

۳۲

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی نسبی فضیلت یوں ہے کہ حضرت ابو طالب(ع) جیسا باپ ہے جو حضور اکرم(ص) کا بہترین مددگار اور اسلام کی نصرت و مدد میں سب سے بڑھ کر تھے آپ کی والدہ گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد(ع) تھیں جو رسول اکرم(ص) کے لیے تمام معنوں میں ماں تھیں آپ وہی خاتون ہیں کہ جس وقت مسجد الحرام میں آپ کو درد زہ ہوا تو خدا کی پناہ چاہی تو دیوار کعبہ شق ہوئی اور آپ بلا جھجھک فورا خانہ کعبہ کے اندر چلی گئی۔ تین دن تک خدا کے گھر میں عالم ملکوت کی مہمان رہیں اور چوتھے دن چاند کے ٹکڑے جیسے بچے کو لے کر باہر آئیں اور فرمانے لگیں “ یہ آواز آئی ہے کہ اس بچے کا نام خداوند عالم کے نام سے مشتق ہے لہذا اس کا نام علی رکھو” اور یہ فضیلت ابھی تک کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔

اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی خصوصیت حسب کے اعتبار سے یوں ہیں۔

آپ کے ایمان کی منزل

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے ایمان اور شہود کی منزل کا ادراک نہیں کیا جاسکتا آپ کے ایمان کی منزل کو سمجھنے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ حضرت عمر نے اپنی موت کے وقت چھ افراد کو بلاکر ان میں سے ہر ایک پر کوئی نقص بتایا مگر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے فرمایا “ اے علی(ع) اگر تیرے ایمان کو موازنہ زمین و آسمان کے باسیوں کے ایمان کے ساتھ کیا جائے گا تو تیرا ایمان ان کے ایمان سے برتر ہوگا” یہ جملہ وہی ہے جسے رسول اکرم(ص) سے متعدد بار سنا جاچکا تھا۔

آپ کا علم

خداوند عالم نے قرآن میں آپ کے علم کی توصیف یوں فرمائی ہے۔

۳۳

 “ وَ يَقُولُ الَّذينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلاً قُلْ كَفى‏ بِاللَّهِ شَهيداً بَيْني‏ وَ بَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ ”( سورہ الرعد آیت 43   )

ترجمہ:۔ “ کافر کہتے ہیں کہ تم پیامبر نہیں ہو تم ان کے جواب میں کہو میری رسالت کی گواہی کے لیے میرے اور تمہارے درمیان خداوند عالم اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس کتاب کا پورا علم ہے۔”

اگر ہم اس آیت شریفہ کو سورہ نمل کی آیت 40 کے ساتھ موازنہ کریں تو آپ کے علم کی منزلت واضح تر ہوتی ہے۔

 “ قالَ الَّذي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتابِ أَنَا آتيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ”( سورہ النمل آیت 40 )

“ جس کسی کے پاس قرآن کو تھوڑا سا علم تھا اس نے کہا پلک چھپکنے سے پہلے اسے (تخت بلقیس ) حاضر کروں گا۔”

آپ نہج البلاغہ میں اپنے علم کو یوں بیان کرتے ہیں۔

«سلوني‏ قبل أن تفقدوني والله لو شئت أن اخبر كلّ‏ رجل‏ بمخرجه‏ و مولجه و جميع شأنه لفعلت”

“ قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ مجھ سے جو چاہو پوچھو خدا کی قسم اگر چاہوں تو ہر شخص کے لیے اس کی پیدائش سے لر کر موت تک اور اس کی زندگی کے تمام پہلوؤں کی خبر دے سکتا ہوں۔”

“سلونی قبل ان تفقدونی والذی نفسی بيده ما سالونی بشئ بينکم و بين الساعه الا ان انباکم به ”

“ جو چاہو مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ خدا کی قسم آج سے لے کر قیامت تک کی کوئی چیز ایسی نہیں کہ اگر اس کے متعلق مجھ سے پوچھو تو جواب نہ دوں ۔”

۳۴

امیرالمومنین (ع) کا تقویٰ

حضرت عمر بن الخطاب نے اپنی موت کے وقت چھ افراد کو خلافت کے لیے منتخب کیا عبدالرحمن بن عوف، عثمان، طلحہ، زبیر، سعد بن وقاص، اور امیرالمومنین علیہ السلام ۔ یہ لوگ ایک کمرے میں جمع ہوگئے عبدالرحمان بن عوف نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ میں آپ کی بیعت کرتا ہوں آپ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں مگر ان تین شرائط کے ساتھ کہ اﷲ کی کتاب ، رسول(ص) کی سنت اور شیخین کے طریقے کی پیروی کریں۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا میں اسی صورت میں خلیفہ بن سکتا ہوں  کہ صرف یہ شرط رکھی جائے کہ اﷲ کی کتاب، رسول(ص) کی سنت اور اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کروں۔ اس صورت حال کا چند بار اعادہ ہوا یہاں تک کہ حضرت عثمان نے ان شرائط کے ساتھ خلافت قبول کی اور سیاسی اعتبار سے یہ صورت حال بڑی عجیب ہے۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام چاہتے تو ان شرائط کے ساتھ اسی وقت خلافت کو قبول کر لیتے اور بعد میں مصلحت نہ سمجھے تو ان شرائط کو ںظر انداز کر لیتے لیکن حضرت عثمان نے ان شرائط کے ساتھ قبول کیا۔ مگر علی(ع9 کے لیے ان کا تقویٰ مانع ہوا ہم نہج البلاغہ میں پڑھتے ہیں۔

“وَ اللَّهِ لَوْ أُعْطِيتُ الْأَقَالِيمَ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّهَ فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ‏ شَعِيرَةٍ لَمَا فَعَلْتُهُ”

“ خدا کی قسم اگر ساتوں اقالیم مجھے اس لیے دیئے جائیں کہ میں ایک چیونٹی کے منہ سے “جو ” کا ایک چھلکا چھین لوں تو میں کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا۔”

امیرالمومنین علیہ السلام سے کہا گیا کہ معاویہ نے ہمارے پیسوں سے لوگوں کو اپنے گرد جمع کر رکھا ہے آپ ایسا کیوں نہیں کرتے۔ فرمایا ۔ “ کیا تم مجھ سے یہ توقع رکھتے ہو کہ ظلم و گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے میں منصب حاصل کروں؟” اس دن جب آپ نے خلافت قبول کی اپنے ایک شعلہ بیان خطاب میں فرمایا “ بیت المال کی رقم اس کے حقداروں کو ملنی چاہیے اور اسلامی مساوات کا خیال رکھا جائے” مگر

۳۵

 چند دنوں بعد ہی پریشانیاں اور شور و غوغا بلند ہوا۔

ایک رات لوگوں کی ایک جماعت جس میں طلحہ اور زبیر بھی شامل تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے گفتگو کرنی چاہئی تو آپ نے شمع گل کی اور فرمایا چونکہ شمع بیت المال کی ہے اور ہماری گفتگو امور مسلمین سے متعلق نہیں بلکہ نجی قسم کی ہے لہذا ذاتی امور مٰیں بیت المال کی شمع جلانا درست نہیں ۔ انجام کار جنگ جمل اور اس کے بعد جنگ صفین کے مقدمات سامنے آئے اور اس کے بعد خوارج کے ساتھ جنگ کا میدان گرم ہوا۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ایک ایسی شخصیت ہیں جو اس بات پر راضی نہیں تھے کہ حسن بن علی(ع) بیت المال سے دوسرے مسلمانوں کے حصہ کینے سے پہلے اپنا حصہ لے لیں اور نہ ہی اس پر راضی کہ حضرت زینب کبری(ع) گلو بند کو عاریتا استعمال کر سکیں۔ یہ آپ کے فضائل کے سمندر میں سے ایک قطرہ کی صورت ہے۔

امیرالمومنین علیہ السلام کی عبادات

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی اسلام اور مسلمانوں کی تقویت کے لیے وقف تھی آپ نے زمین کے بیس سے زیادہ قطعات آباد کر کے محتاجوں میں تقسیم کیے۔ اسلام کے لیے امیرالمومنین علیہ السلام کی جنگیں اور فداکاریاں بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں۔ جو چیز قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ آپ ان جنگوں اور کاموں میں ہر وقت خداوند عالم سے رابطہ رکھتے تھے۔ ہم نہج البلاغہ میں پڑھتے ہیں کہ آپ گڑ گڑاتے ہوئے کہتے ہیں۔ “ ہائے زاد راہ کی کمی اور سفر کی وحشت اور دوری”۔ حضرت ابن عباس(ع) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امیرالمومنین  علیہ السلام کو میدان میں دیکھا کہ آسمان کی طرف نظر اٹھائے ہیں مجھے پتہ چلا کہ آپ صبح ہونے کے انتظار میں ہیں تاکہ فجر کی نماز ادا کریں۔ ایک دفعہ جنگ کے میدان میں آپ کو ایک ٹوٹے ہوئے کوزے

۳۶

میں پانی پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا میں تلوار اس لیے چلاتا ہوں کہ خدا کا حکم بجا لاؤں لہذا میں قانون الہی کو پامال نہیں کرسکتا یوں میں ٹوٹے ہوئے کوزے میں پانی نہیں پیوں گا۔

لیلہ الہریر جو صفین کے جنگ کی سخت ترین رات تھی حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا سجادہ بچھایا گیا آپ نماز کےلیے کھڑے ہوئے اور آپ کی تکبیر کی آواز بلند ہوئی۔ آپ کی صاحبزادی فرماتی ہیں کہ انیسویں کی رات جو آپ کے شہید ہونے کی رات تھی۔ میرے پدر بزرگوار افطار سے لے کر صبح تک مشغول عبادت تھے کبھی باہر آتے اور آسمان کی طرف نگاہیں بلند کر کے فرماتے تھے۔

“الَّذينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَ قُعُوداً وَ عَلى‏ جُنُوبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُونَ في‏ خَلْقِ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ رَبَّنا ما خَلَقْتَ هذا باطِلاً سُبْحانَكَ فَقِنا عَذابَ النَّارِ ”( آلعمران آیت 191 ) 

“ اور جس وقت آپ کے سر اقدس پر ضرب لگی فتو سب سے اولین جو بات کی تھی وہ یہ تھی حسن (ع) نماز کا وقت گزر رہا ہے ۔ نماز کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ( ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں)

آپ(ع) کی سیاست

اگر سیاست سے مراد ہر ذریعے سے اپنے مقصد اور اقتدار تک پہنچنا مراد ہے تو امیرالمومنین(ع) اس سے پاک و مبرا ہیں اور یہ وہی سیاست ہے جسے آپ(ع) نے تقوی کے خلاف قرار دیا ہے۔ جب کہ آپ نے فرمایا ۔ “لو لا التقی لکنت اد ه ی العرب ” اگر تقوی کا لحاظ نہ ہوتا تو میں عرب کا چالاک ترین فرد تھا۔”

اور اگر سیاست سے مراد حسن تدبر اور امور مملکت کی دیکھ بھال ہے تو امیرالمومنین علیہ السلام سب سے بڑے سیاست داں ہیں۔ 94 ممالک سے علماء اور

۳۷

 دانشور اور سیاست دان جمع ہوئے اوع دو سال کے غور و فکر کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا منشور تیار کیا۔ بعض بزرگوں نے اس دستور کو حضرت علی(ع) کے مالک اشتر کو دیے ہوئے دستور سے موازنہ کیا اور یہ ماننے پر مجبور ہوئے کہ علی(ع) کا یہ منشور اقوام متحدہ کے اس منشور سے ممکنہ اور زیادہ عالمانہ ہے۔ یہ بات بھی مد نظر رہے کہ آپ نے یہ دستور نامہ مالک اشتر کے لیے ان کے مصر روانہ ہوتے وقت ہنگامی طور پر لکھا تھا۔

اسی دستور کی مانند ایک اور دستور بھی ہے جسے آپ نے محمد بن ابی بکر کے لیے لکھا تھا اور جس وقت محمد بن ابی بکر شہید ہوئے تو یہ دستور معاویہ کے ہاتھ لگا۔ انہیں اس قدر پسند آیا کہ اسے محفوظ کرنے کا حکم دیا۔

آپ(ع) کی شجاعت

اگر  شجاعت سے مراد دشمن پر غلبہ حاصل کرنا قرار دیں تو امیرالمومنین علیہ السلام بہادر ترین فرد ہیں اورحدیث قدسی لاسیف الا ذوالفقار آپ کی شان میں ہی وارد ہوا ہے۔

اور اگر شجاعت کو نفس پر قابو پانے کے معنی میں لیں تو بھی امیرالمومنین علیہ السلام بہادر ترین فرد ہیں۔ ہمارے کلام کی تائید میں آپ کا کلام نہج البلاغہ میں یوں ہے کہ آپ نے اپنے گورنروں کو یوں فرمان جاری کیا“ اپنے قلموں کو باریک کرو اور سطور کے درمیان فاصلہ نہ رکھو زیادہ سے زیادہ لکھنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اپنے مطلب کا خلاصہ بیان کرو تاکہ مسلمانوں کے اموال کو نقصان نہ پہنچے۔”

اور اگر شجاعت سے مراد مصیبتوں میں صبر کرنا اور زمانے کے اتار چرھاؤ کے مقابلے میں ثابت قدمی اختیار کرنا ہے تو علی(ع) سے بڑھ کر بہادر اور مظلوم بھی کوئی نہیں ملے گا۔ آپ(ع) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں ۔ “فی العين قذی و فی الحلق شجی

۳۸

 “ رسول اکرم(ص) کی زندگی کے بعد تیس سال اس طرح صبر کیا جیسے آنکھ میں کاںٹا اور گلے میں ہڈی پھنسی ہو۔”

آپ(ع) کا زہد

اسلام کے مطابق زہد یہ ہے کہ انسان خدا کے علاوہ کسی چیز یا کسی شخص سے دل نہ لگائے۔ حافظ شیرازی نے زہد کی تعریف یوں کی ہے۔

             غلام ہمت آنم کہ زیر چرخ کبود            زہرچہ  رنگ تعلق پذیرد آزاد است

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام دنیا کے زاہد ترین فرد ہیں اور اس پر معاویہ کا ایک جملہ گواہ ہے ایک دفعہ ایک دنیا پرست منافق معاویہ کے پاس آکر کہنے لگا میں ایک بلند مرتبہ ہستی ( یعنی علی(ع)) کوچھوڑ کر آپ کے پاس آرہا ہوں تو معاویہ نے جواب دیا کہ تیرے منہ میں خاک تم یہ بات کس کے بارے میں کہہ رہے ہو علی (ع) وہی ہستی ہیں کہ جس کے پاس اگر ایک ڈھیر سونے کا اور ایک بھوسے کا ہو تو وہ پہلے سونے کا ڈھیر اﷲ کی راہ میں خرچ کریں گے اور اس کے بعد بھوسے کا ڈھیر خرچ کریں گے۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی میں دنیاوی زرق برق کا کوئی  نام و نشان موجود نہیں تھا۔ آپ(ع) نے عثمان بن حنیف کو لکھا“ میں نے سنا ہے کہ تم نے ایک ایسی دعوت میں شرکت کی جہاں کوئی فقیر نہیں تھا۔ اور تم نے وہاں مرغن غذاؤں سے لطف اٹھایا میں علی(ع) ہوں کہ میں نے دو کپڑوں اور دو روٹیوں میں زندگی گزاری ۔ ظاہر ہے کہ تم ایسا نہیں کرسکتے لیکن تمہیں چاہیے کہ علی(ع) کی اس کی پرہیزگاری اور تقوی میں مدد کرو۔”

۳۹

آپ(ع) کی عدالت

جارج جرواق مسیحی اپنے ایک بلیغ کلام میں کہتے ہیں کہ“قتل فی محراب ه لعدالت ه ”  علی(ع) اپنی عدالت کی وجہ سے محراب عبادت میں قتل ہوئے۔”

علی(ع) مجسم عدالت ہیں جس وقت انہیں معلوم ہوتا ہے ان کا  گورنر ابن عباس قرض لیتا ہے اور اپنے مقام و منصب سے سوء استفادہ کرتا ہے اور قرض کو وقت پر ادا نہیں کرتا تو اسے سخت الفاظ میں خط لکھتے ہیں۔ اس خط میں لکھتے ہیں کہ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرا گورنر اپنے مقام و منصب سے سوء استفادہ کرے اور اپنے قرضے کو مقررہ  وقت میں ادا کرنے میں تاخیر کرے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بیت المال کے درہم و دینار حضرت علی(ع) کے پاس لے جارہا تھا راستے میں دیکھا کہ حضرت علی(ع) کی تلوار فروخت کی جارہی ہے میں نے جاکر حضرت (ع)  سے وجہ پوچھی تو فرمایا مجھے ایک پاجامہ بنانے کی ضرورت تھی لہذا تلوار فروخت کر کے اس کی رقم سے پاجامہ سلواؤں گا۔

آپ(ع) کی سخاوت

قرآن کریم میں متعدد آیات جیسے ، آیت ولایت، آیت اطعام، آیت ایثار، حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ ہم یہاں پر ایک تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آپ کا غلام روایت کرتا ہے کہ ایک دفعہ امیرالمومنین علیہ السلام ایک نہر کھود رہے  تھے جب اس سے فارغ ہوئے تو آپ نے کھدائی سے ابلنے والے پانی سے ہاتھ دھوئے اور اس دوران میں نے ایک کدو پکایا تھا۔ آپ نے بڑے وقار کے ساتھ اسے تناول فرمایا اور کہنے لگے“ خدا کی لعنت ہو اس شخص پر جسے اس کا پیٹ جہنم میں لے جائے۔” دوپہر کو یہ غذا کھانے کے بعد آپ دوبارہ نہر کھودنے میں مشغول ہوئے۔ کدال ایک پتھر پر لگی اور پانی بڑے زور سے بہنے لگا یہاں تک کہ مزید کھدائی کی گنجائش نہیں رہی تو آپ باہر آئے آپ کی

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191