اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ30%

اسلام کے محافظ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 191

اسلام کے محافظ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 191 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 74179 / ڈاؤنلوڈ: 4692
سائز سائز سائز
اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

سیف کی کتاب '' فتوح ''میں آیاہے

حمیری نے بھی اپنی کتاب ''الروض المعطار '' میں لفظ''مدائن '' کے بارے میں سیف سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھاہے :

قعقاع بن عمرو نے اپنے اشعار میں کہاہے :

ہم نے شہر ویہ اردشیر کو صرف اس کلام کے ذریعہ فتح کیا جسے خدا نے ہماری زبان پر جاری کیاتھا.....

اسی طرح اشعار کو آخر تک بیان کرتاہے جنھیں ہم نے قعقاع کے حالات میں اس کتاب کی پہلی جلد میں درج کیاہے ۔

اس کے بعد حمیری مزید کہتاہے :

اسود بن قطبہ نے دریائے دجلہ سے مخاطب ہوکر کہا:

اے دجلہ! خدا تجھے برکت دے ۔اس وقت اسلام کے سپاہی تیرے ساحل پر لشکر گاہ تشکیل دے چکے ہیں ۔خدا کا شکر ادا کرکہ ہم تیرے لئے عطا کئے گئے ہیں ۔لہٰذا مسلمانوں میں سے کسی ایک کوبھی نہ ڈرانا۔ وہ لفظ ''افریدون '' کے بارے میں لکھتاہے :

''افریدون'' عراق میں مدائن کے نزدیک ایک جگہ ہے ۔انس بن حلیس نے کہاہے کہ ہم نے اس زمانے میں ویہ اردشیر کو اپنے محاصرے میں لے لیاتھا

اور داستان کو آخر تک بیان کرتے ہوئے کہتاہے :

جب تک علاقۂ افریدون کا شہد نہ کھالیں

۶۱

سیف کی روایتوں کا دوسروں سے موازنہ

جو کچھ یہاں تک کہاگیا وہ سیف بن عمر کے ابو مفزر اور اس کے کلام کے ذریعہ شہر ویہ اردشیر کی فتح کے بارے میں جعل کئے گئے مطالب ہیں ۔اور اس کے یہی افسانے مسلمہ سند اور تاریخی متون کے عنوان سے شعرو ادب ،تاریخ اور اسلام کے سیاسی اسناد کی کتابوں میں درج ہوگئے ہیں کہ ہم نے چند نمونوں کی طرف اشارہ کیا،جب کہ دوسرے مؤرخین ،جو سیف پر اعتماد نہیں کرتے ،جیسے بلاذری اور ابن قتبہ دینوری نے ویہ اردشیر کی فتح کو اس سے مختلف صورت میں ذکرکیاہے جو سیف کی روایتوں سے مطابقت نہیں رکھتے ،انھوں نے لکھاہے کہ ویہ اردشیر کی فتح ایک شدید جنگ اور طولانی محاصرہ کے بعد حاصل ہوئی ہے کہ محاصرے کے دوران خرما کے درختوں نے دوبارہ میوے دیدئے اور دوبارے قربانی کی گئی ، یعنی مسلمان فوجوں نے شہر ویہ اردشیر کی دیواروں کے پاس دو عید قربان منائیں اور اس مدت تک وہاں پر رکے رہے ۔یہی اس بات کا اشارہ ہے کہ محاصرہ کی مدت دوسال تک جاری رہی ۔ دینوری لکھتاہے :

جب اسلام کے سپاہیوں کے ذریعہ شہر کا محاصرہ طولانی ہواتو شہر کے باشندے تنگ آگئے ، سر انجام اس علاقے کے بڑے زمینداروں نے مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی ،جب ایرانی پادشاہ یزدگرد نے یہ حالت دیکھی تو اس نے سرداروں اور سرحد بانوں کو اپنے پاس بلاکر اپنا خزانہ اور مال ومتاع ان میں تقسیم کیا اور ضروری قبالے انھیں لکھ کے دئے اور ان سے کہا:

اگر یہ طے ہوکہ ہمارا یہ مال ومتاع ہمارے ہاتھ سے چلا جائے تو تم لوگ اجنبیوں سے زیادہ مستحق ہو۔اگر حالات دوبارہ ہمارے حق میں بدل گئے اور ہم اپنی حکومت کو پھر سے اپنے ہاتھ میں لے سکے تو اس وقت جو کچھ ہم نے آج تمھیں بخش دیاہے ،ہمیں واپس کردینا ۔

اس کے بعد اپنے نوکر چاکر ،خاص افراد اور پردہ نشینوں کو لے کر ''حلوان'' کی طرف روانہ ہوا اور جنگ قادسیہ میں کام آنے والے رستم فرخ زاد کے بھائی خرداد بن حرمز کو اپنی جگہ پر حاکم مقرر کرگیا۔

۶۲

سند کی تحقیق

بہرسیر(یا ویہ اردشیر) کے افسانے کو سیف نے سماک بن فلان ہجیمی سے اور اس نے اپنے باپ محمد بن عبد اللہ نویرہ اور انس بن حلیس سے نقل کیاہے ۔ہم نے محمد بن عبداللہ کو قعقاع وعاصم کی داستانوں میں پہچان لیا کہ یہ سیف کا جعلی راوی ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتا ،دلچسپ بات یہ ہے کہ سیف نے انس بن حلیس کو محمد بن عبد اللہ کا چچا بتایاہے ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس قسم کا راوی کس حد تک حقیقی ہوسکتاہے !

اس کے با وجود ہم نے سماک بن فلان ،اس کے باپ اور انس بن حلیس کے سلسلے میں تمام مصادر کی طرف رجوع کیا ۔لیکن انھیں سیف کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا۔اس بناء پر ہم ان تینوں راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

دو روایتوں کا موازنہ

بہر سیر (یا ویہ اردشیر ) کی فتح صرف ابو مفزر تمیمی کے ان کلمات سے حاصل ہوئی ہے جنھیں ملائکہ نے فارسی زبان میں اس کی زبان پر جاری کردیاتھا۔ایسے کلمات جن کے معنی وہ خود بھی نہیں جانتا تھا اور نہ اس کے ساتھی ۔اس دعوے کی دلیل ایک شعر سے جسے خود اسود بن قطبہ نے کہاہے اور وہ اس میں کہتاہے :

میں نے بہرسیر کوخدا کے حکم سے صرف فارسی میں چند کلمات کے ذریعہ فتح کیا۔

اس کا دوسرا شاہد یہ ہے کہ بڑے افسانوی سورما قعقاع نے بھی ایک شعر کے ضمن میں کہاہے کہ:

بہر سیر کو ہم نے ان کلمات سے فتح کیا جنھیں خدا نے ہماری زبان پر جاری کیاتھا!

اس طرح وہ افسانہ کو آخر تک بیان کرتاہے ۔

دیگر مؤرخین ،جنھوں نے دوسرے منابع سے روایتیں حاصل کی ہیں اور سیف کی باتوں پر اعتماد نہیں کیاہے ،کہتے ہیں :

بہر سیر(یاویہ اردشیر) کی فتح ایک شدید جنگ اور دوسال کے طولانی محاصرہ کے نتیجہ میں حاصل ہوئی ہے ۔اس طولانی محاصرہ کے دوران بڑے اور عام زمینداروں نے تنگ آکر مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی اور اس طرح محاصرہ سے رہاپائی ۔

۶۳

سیف کا کارنامہ

قبیلہ تمیم کے خاندان بنی عمرو کے لئے ایک ایسی کرامت ثبت کرنا جس کے جیسی کوئی اور کرامت نہ ہو!کیونکہ وہ اس خاندان کے ایک ایسے معنوی فرد کو پیش کرتاہے جس کی زبان پر ملائکہ ایسے کلمات جاری کرتے ہیں کہ ان کے معنی نہ وہ خود جانتاہے اور نہ اس کے ساتھی ۔اس قسم کے کلام کے نتیجہ میں ایک بڑا شہر مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوتاہے اور اس طرح خاندان تمیم کے حق میں تاریخ کے صفحات میں ایک عظیم افتخار ثبت ہوجاتاہے ۔اس لحاظ سے کہ:

خاندان بنی عمرو تمیمی صرف تلوار سے ہی مشکل کشائی اور سرزمینوں کو فتح نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنے کلام سے بھی یہ کارنامے انجام دیتے ہیں ۔

زمین پر '' افریدون '' جیسے مقامات اور جگہوں کی تخلیق کرنا ،تا کہ ان کا نام ''معجم البلدان '' اور '' الروض المعطار'' جیسی کتابوں میں درج ہوجائے ۔

ابو مفزر اسود بن قطبہ کی سرگرمیوں کے چند نمونے

طبری کی گراں قدر اور معتبر کتاب تاریخ کے مندرجہ ذیل موارد میں صراحت کے ساتھ سیف سے نقل کرتے ہوئے ابو مفزر اسود بن قطبہ تمیمی کانام لیاگیاہے:

١۔ جلولاء کی جنگ اور اس کی فتح کے بعد سعد وقاص نے جنگی اسیروں کو اسود کے ہمراہ خلیفہ عمر کے پاس مدینہ بھیجاہے ۔

٢۔رے کی فتح کے بعد سپہ سالار ''نعیم بن مقرن'' نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ (خمس) کو ''اسود'' اور چند معروف کوفیوں کے ہمراہ خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیجا۔

٣۔ ٣٢ھ کے حوادث کے ضمن میں ''اسود'' تمیمی کانام دیگر تین افراد کے ساتھ لیاگیا ہے جنھوں نے ایک خیمہ کے نیچے ایک انجمن تشکیل دی تھی ۔

۶۴

٤۔ اس کے علاوہ ٣٢ھ میں ابو مفزر اسود بن قطبہ '' نے ابن مسعود اور چند دیگر نیک نام ایرانی مسلمانوں کے ہمراہ ،جلیل القدر صحابی ابوذر غفاری کی جلا وطنی کی جگہ ''ربذہ '' میں پہنچ کر اس عظیم شخصیت کی تجہیز و تکفین میں شرکت کی ہے ۔

٥۔ قادسیہ کی جنگ میں ''اغواث'' کے دن ''اعور ابن قطبہ'' نامی ایک شخص کی ''شہر براز''کے ساتھ جنگ کی داستان بیان کی گئی ہے کہ طبری کے مطابق سیف نے روایت کی ہے کہ اس نبرد میں دونوں پہلوان مارے گئے اور اعور کے بھائی نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں :

ہم نے ''اغواث''کا جیسا تلخ و شیرین کوئی دن نہیں دیکھا کیونکہ اس دن کی جنگ واقعاً خوشی اور غم کا سبب تھی۔

اس کے باوجود ہم نہیں جانتے کہ آیا سیف نے اپنے خیال میں ابو مفزر بن قطبہ کے لئے اعور نام کا کوئی بھائی تخلیق کیاہے کہ اسود نے اس طرح اس کاسوگ منایاہے ،یایہ کہ اعور بن قطبہ کانام کسی اور شخص کے لئے تصور کیاہے ؟!

یہ پنجگانہ موارد اور دوسروں کی روایتیں

طبری نے مذکورہ پنجگانہ موارد کو اسود بن قطبہ کے بارے میں نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیاہے ،جب کہ دوسرے مؤرخین جنھوں نے جلولا،قادسیہ،رے اور عثمان کے محاصرے کی روائیداد کی تشریح کی ہے ،نہ صرف ''اسود'' اور اس کی سرگرمیوں کا کہیں نام تک نہیں لیاہے بلکہ ان واقعات سے مربوط باتوں کو ایسے ذکر کیاہے کہ سیف کے بیان کردہ روایتوں جنھیں طبری نے نقل کیاہے سے مغایرت رکھتی ہیں ۔

سیف نے اپنے افسانوی شخص'' اسود'' کو تمام جنگوں میں شرکت کرتے دکھایاہے اور اسے خوب رو ،معروف ،موثق اور بااطمینان حکومتی رکن کی حیثیت سے پہچنوایاہے اسیروں اور جنگی غنائم کو اس کی سرپرستی میں قرار دیاہے اور خاص کر اسے جلیل القدر صحابی ابوذر غفاری کی تجہیز وتکفین میں ، مشہور ومعروف صحابی مسعود کے ساتھ دکھایاہے ۔ہم اس آخری مورد پر الگ سے بحث وتحقیق کرینگے

۶۵

اسود بن قطبہ کے افسانہ کی تحقیق:

طبری نے رے کی فتح کے بارے میں روایت کی سند ذکر نہیں کی ہے ۔لیکن دیگر جنگوں اور واقعات جیسے :قادسیہ ،جلولا،محاصرہ ٔعثمان اور ابوذر کی تجہیز وتکفین میں شرکت کے بارے میں سیف کی روایتوں کی سندیں حسب ذیل ہیں :

محمد ،زیاد،مھلب،مستنیر بن یزید اپنے بھائی قیس اور باپ یزید سے ،اور کلیب بن حلحال ، حلحال بن ذری سے ۔ہم نے پہلے ثابت کیاہے کہ یہ سب راوی سیف کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

اسی طرح اپنے راویوں کاذکر کرتے ہوئے ''ایک مرد سے '' (عن رجل ) روایت کی ہے اور اسے کسی صورت سے ظاہر نہیں کیاہے اور ہم نہیں جانتے سیف کے خیال میں ''یہ مرد'' کون ہے ؟

اس کے علاوہ مجہول الہویہ دو افراد سے بھی روایت کی ہے اور ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ سیف کی نظرمیں یہ دو آدمی کون ہیں تا کہ ان کے وجود یا عدم کے سلسلے مین بحث و تحقیق کرتے !!

اس کے علاوہ ہم نے سیف کی داستان کے ہیرو ابو مفزر اسود بن قطبہ کا سیف اور اس کے افسانوی راویوں کے علاوہ کسی اور کے ہاں سراغ نہیں پایا۔

لگتاہے کہ نقل کرنے والوں سے ''اسود'' کی کنیت لکھنے میں غلطی ہوئی ہو اور انھوں نے اسے ''ابو مقرن '' لکھاہو ۔جیساکہ ہم اس جیسے ایک مورد سے پہلے دوچار ہوچکے ہیں اور شائد اسی اندراج میں غلطی نے ہی ابن حجر کو بھی شک وشبہہ سے دوچار کیاکہ اس نے ''ابومقرن ''اور '' ابو مفزر'' کو دو اشخاص تصور کیاہے ۔ان میں سے ایک ابومقرن اسودبن قطبہ ،کہ جس کا ذکر سیف کے افسانوں میں گزرا اور دوسرا '' ابو مفزر '' کے لقب سے نام ذکر کئے بغیر۔ابن حجر نے ''اصابہ'' میں ''الکنی '' سے مربوط حصہ میں اس کا ذکر کیاہے ۔

۶۶

چوتھا جعلی صحابی ابو مفزر تمیمی

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' کے ''الکنی ''سے مربوط حصہ میں ابو مفزر تمیمی کا ذکر یوں کیا ہے :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں ابو ذر غفاری کی وفات کے سلسلے میں بعض راویوں ،جیسے '' اسماعیل بن رافع نے محمد بن کعب سے نقل کرتے ہوئے ابو مفزر کے اس موقع پر موجود ہونے کی خبر دی ہے ،اور ابوذر کی وفات کی داستان کے ضمن میں لکھا ہے:

....جو افراد '' ربذہ'' میں ابو ذر غفاری کی تدفین کے موقع پر ابن مسعود کے ہمراہ موجود تھے ،ان کی تعداد ( ١٣ ) تھی اور ان میں سے ایک ابومفزر تمیمی تھا ۔اس کے علاوہ کہتا ہے :

ابومفزر ان افراد میں سے ہے جس پر خلافت عمر کے زمانے میں شراب پینے کے جرم میں خلیفہ کے حکم سے حد جاری کی گئی ہے ،اور ابو مفزر نے ایک شعر میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے :

اگر چہ مشکلات او ر سختیوں کو برداشت کرنے کی ہمیں عادت تھی ہم شراب و کباب کی محفلوں میں قدم رکھنے کے آغاز سے ہی صبر و شکیبائی کی راہ

۶۷

اپنا چکے تھے ۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ ابن حجر دو آدمیوں کو فرض کرکے شک و شبہ سے دو چار ہو ا ہے ایک کو ''ابو مقرن اسود بن قطبہ '' فرض کیا ہے اور اس کا نام اور اس کے حالات کو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے حصے میں درج کیا ہے اور دوسرا '' ابو مفزر'' کو فرض کیا ہے اور اس کی داستان کو کتاب ''اصابہ'' کے ''الکنی''کے حصہ میں ذکر کیا ہے جو اصحاب کی کنیت سے مخصوص ہے ۔

لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ ابن حجر نے ابوذر غفاری کی تدفین کے موقع پر ابو مفزر کی موجودگی کے بارے میں جو روایت سیف سے نقل کی ہے ،وہ اسی موضوع پر طبری کی سیف سے نقل کی گئی دوسری روایت سے سند اور ابوذر غفاری کی تدفین کے مراسم میں افراد کی تعداد کے لحاظ سے واضح اختلاف رکھتی ہے اور ہم نے اسے نقل کیا ہے ۔

اس کے علاوہ ابن حجر کے بیان میں یہ مطلب ذکر ہوا ہے کہ ابو مفزر تمیمی پر شراب پینے کے جرم میں خلیفہ عمر کے حکم سے حد جاری کرنے کا موضوع سیف کی روایات میں تین الگ الگ داستانوں میں ذکر ہو ا ہے اور ان میں سے کسی ایک میں بھی اسود بن قطبہ یا اس کے شعر کا نام و نشان نہیں ہے ۔شاید سیف کے لئے اس قسم کے صحابی کو جعل کرنے ،اس کی شجاعتیں اور کمالات دکھانے ، بہر شیر ( یا اردشیر ) کے میدان کا رزار میں فرشتوں کے ذریعہ اس کی زبان پر فارسی کلمات جاری کرکے ایرانیوں کو میدان جنگ سے معجزا تی طور پربھگا نے کا سبب یہ ہوگا کہ سیف کے مذہب میں جس پرزندیقی ہونے کا الزام ہے شراب پینا معمول کے مطابق ہے اور اسے ذکر کرنا کوئی اہم نہیں ہے

۶۸

نسخہ برداری میں مزید غلطیاں

حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں لفظ '' گرگان'' کی تشریح میں سیف سے نقل کرنے کے بعد اس کی فتح کے طریقے کے بارے میں '' سوید بن قطبہ '' کے مندرجہ ذیل دو اشعار کو شاہد کے طور پر پیش کیا ہے ۔

لوگو! ہمارے قبیلہ بنی تمیم کے خاندان اسید سے کہہ دو کہ ہم سر زمین گرگان کے سر سبز مرغزاروں میں لطف اٹھا رہے ہیں ۔

جب کہ گرگان کے باشندے ہمارے حملہ اور جنگ سے خوف زدہ ہوئے اور ان کے حکام نے ہمارے سامنے سر تسلیم خم کیا !

'' سوید بن قطبہ '' در اصل '' اسود بن قطبہ '' ہے کہ نقل کرنے والے سے کتاب سے نسخہ برداری کے وقت یہ غلطی سرزد ہوئی ہے ۔

طبری نے بھی سیف بن عمر سے ایک داستان نقل کرتے ہوئے '' سوید بن مقرن '' اور گرگان کے باشندوں کے درمیان انجام پانے والی صلح کے ایک عہدنامہ کا ذکر کیاہے اس کے آخر میں ''سواد بن قطبہ ''نے گواہ کے طور دستخط کئے ہیں یہ '' سواد '' بھی در اصل '' اسود'' ہے جو حروف کے ہیر پھیر کی وجہ سے غلط لکھا گیا ہے ۔

اسناد کی تحقیق

سیف کی احادیث میں مندرجہ ذیل راویوں کے نام نظر آتے ہیں :

محمد ،بحرین فرات عجلی ، سماک بن فلاں ہجیمی اپنے باپ سے ،انس بن حلیس، زیاد ، مہلب ، مستنیربن یزید اپنے بھائی اور باپ سے ،کلیب بن حلحال ذری نے اپنے باپ سے خصوصیات کے بغیر ایک مرد سے اور مزید دو مجہول افراد اورعامر ،مسلم ،ابی امامہ ،ابن عثمان عطیہ اور طلحہ۔ ان افراد کے بارے میں ہم اس کی روایات میں کسی قسم کا تعارف اور خصوصیات نہیں پائے کہ ان کو پہچان سکیں مثلا ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ عامر سے اس کا مقصود شعبی ہے یا کوئی اور ؟!او ر طلحہ سے اس کا مقصود طلحہ ابن عبد الرحمن ہے یا اور کوئی ۔ بہر حال اس نے اپنی روایتوں میں ایسے راویوں کا نام لیا ہے کہ جن کے بارے میں ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ وہ اس کے جعلی راوی اور اس کی ذہنی تخلیق ہیں !!

اس کی روایت کے ضمن میں چند دیگر راویوں کا نام بھی ذکر ہوا ہے کہ ہم سیف کی بیہودہ گوئیوں اور افسانہ سرائیوں کے گناہ کا مرتکب انھیں نہیں ٹھہراتے ،خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سیف تنہا شخص ہے جو ان افسانوں کو ایسے راویوں سے نسبت دیتا ہے ۔

۶۹

بحث کا خلاصہ

سیف نے ابومفزر اسود بن قطبہ کو بنی عمرو تمیمی کے خاندان سے ذکر کرکے انھیں فتوحات میں مسلمانوں کے مشہور شاعر اور ترجمان کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔

سیف نے اسے حیرہ کی فتوحات میں ،جیسے : الیس ،امغشیا، مقر ،الثنی اور زمیل کی جنگوں میں خالد کے ساتھ شرکت کرتے دکھایا ہے اور اس سے چھ رزم نامے اور رجز بھی کہلوائے ہیں ۔

اس نے یرموک اور قادسیہ کی جنگوں میں اس کی شرکت دکھائی ہے اور اس سلسلے میں اس کی زبان سے تین رزمیہ قصیدے بھی کہلوائے ہیں ۔

'' ویہ اردشیر'' کی جنگ میں اس کی عظمت کو بڑھا کے پیش کیاہے اور اس کو ایک معنوی مقام کا مالک بنا کر اطمینان و سکون کا سانس لیا ہے ۔ایرانی پادشاہ کے ایلچی کے جواب میں ، اس کی زبان پر ملائکہ کے ذریعہ فارسی زبان کے کلمات جاری کئے ہیں ، جبکہ نہ خود اس زبان سے آشنا تھا اور نہ اس کے ساتھی فارسی جانتے تھے۔

اس نے فارسی میں پادشاہ کے ایلچی سے کہا تھا:

ہم ہرگز تمہارے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کریں گے جب تک علاقہ ٔافریدون کا شہد اور کوثی کے مالٹے نہ کھالیں ۔

مشرکین نے ان ہی کلکمات کے سبب ڈر کے مارے میدان کا رزار سے فرار کیا اور شہر کو محافظوں سے خالی اور تمام مال ومتاع کے سمیت مسلمانوں کے اختیار میں دیدیا اور سیف نے اپنے افسانوی شاعر کی زبانی اس سلسلے میں تین رجز کہلوائے ہیں ۔

اسی طرح سیف نے ابو مفزر کے لئے جعل کئے گئے ایک بھائی جو جنگ قادسیہ میں اغوا ث کے دن اپنے حریف کے ہاتھوں ماراگیا تھا کے سوگ میں شعر کہکر اپنے افسانوی شاعر ابومفزر سے منسوب کئے ہیں !

اور سر انجام اس نے اپنے خیالی سورماکو جلولا اور رے کی جنگوں میں شریک کر کے اسے جنگی اسیروں اور مال غنیمت کو خلیفہ عمر کے حضور مدینہ پہنچانے کی سرپرستی سونپی ہے۔

۷۰

اور ان تمام افسانوں کو ایسے راویوں کی زبانی روایت کی ہے جو سیف کی داستان کے خیالی ہیرو کے ہی مانند خیالی تھے، جیسے:محمد،زیاد،مھلب،مستنیربن یزید اس کے بھائی قیس سے اور اس نے اپنے باپ سے، کلیب بن حلحال ذری نے اپنے باپ سے ،بحرین فرات عجلی، سماک بن فلان ہجیمی اپنے باپ سے ، انس بن حلیس اور ایک بے نام و نشان، اور دیگر مجہول راوی سے۔

یہاں پر یہ دیکھنا لطف سے خالی نہیں ہے کہ ابو مفزر کے بارے میں سیف کی روایات اور افسانوں کو کن اسلامی مصادر میں درج کیا گیا ہے اور کن مؤلفین نے دانستہ یا نادانستہ طور پر سیف کے جھوٹ اور افسانوں کی اشاعت کی ہے۔

اس افسانہ کو نقل کرنے والے علما

ابو مفزر تمیمی کے بارے میں سیف کے مذکورہ افسانے مندرجہ ذیل منابع و مصادر میں پائے جاتے ہیں :

١۔طبری نے اپنی تاریخ کی عظیم کتاب میں ١٢۔٢٣ھ کے حوادث کے ضمن میں ذکر کیا ہے اور اس کے اسناد بھی درج کئے ہیں ۔

٢۔دار قطنی (وفات ٣٨٥ھ) نے اپنی کتاب ''مؤتلف'' میں ''اسود'' کے حالات کے ذیل میں ،سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

٣۔ابن ماکولا(وفات ٤٨٧ھ)نے اپنی کتاب ''اکمال'' میں اسود'' کے حالات کے ذیل میں ، سند کے ساتھ ذکر کیاہے۔

٤۔ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ ) نے اپنی کتاب '' تاریخ دمشق'' میں اسود کے حالات کے ذیل میں سیف بن عمر ،دار قطنی اور ابن ماکولا سے نقل کرکے سند کے ساتھ درج کیا ہے ۔

ٍ ٥۔ حموی ( وفات ٦٢٦ھ ) نے اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں شہروں اور علاقوں کے بارے میں لکھے گئے تفصیلات کے ضمن میں نقل کیا ہے ۔

٦۔ حمیری ( وفات ٩٠٠ ھ) نے اپنی کتاب '' الروض المعطار'' میں شہروں اور علاقوں کے بارے میں لکھے گئے تفصیلات کے ضمن میں درج کیا ہے ۔

۷۱

٧۔ مرز بانی (وفات ٣٨٤ ھ ) نے اپنی کتاب '' معجم الشعراء ) میں شعراء اور رجز خوانوں کے حالات کی تشریح کے ضمن میں اپنے پیشرئوں سے نقل کرتے ہوئے سند کی طرف اشارہ کئے بغیر درج کیا ہے ۔

٨۔ عبد المومن ( وفات ٧٣٩ ھ ) نے اپنی کتاب '' مراصد الاطلاع'' میں حموی سے نقل کرکے درج کیاہے۔

٩۔ابن اثیر (وفات ٦٣٠ ھ) نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

١٠۔ ابن کثیر ( وفات ٧٧٤ھ) نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

١١۔ابن خلدون (وفات ٨٠٨ھ) نے اپنی تاریخ میں درج کیاہے ۔

١٢۔مقریزی (وفات ٨٤٥ھ) نے اپنی کتاب '' خطط'' میں درج کیا ہے ۔

١٣۔ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ ) نے اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں '' ابو مفزر'' کی داستان کو دارقطنی سے اور بہرسیرومیں فارسی زبان میں بات کرنے کے افسانہ کو سند ذکر کئے بغیرمر زبانی سے نقل کیا ہے ۔

١٤۔ ابن بدران (وفات ١٣٤٦ھ ) نے اپنی کتاب '' تہذیب تاریخ ابن عساکر '' میں ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ ) سے نقل کیا ہے ۔

مذکورہ اخبار و روایات سیف بن عمر تمیمی کے وہ مطالب ہیں جو اس نے اپنے جعلی صحابی اسود بن قطبہ تتمیمی کے بارے میں تخلیق کئے ہیں ۔

لیکن جس '' اسود'' کو سیف نے جعل کیا ہے وہ اس '' اسود بن قطبہ'' کے علاوہ ہے جسے امام علی علیہ السلام نے حلوان کا کمانڈرمقرر کیا تھا اور امام نے اس کے نام ایک خط بھی لکھا تھا امام کا یہ خط آپ کے دیگر خطوط کے ضمن میں نہج البلاغہ میں درج ہے حلوان میں امام کا مقرر کردہ سپہ سالار '' اسود '' خاندان تمیم سے تعلق نہیں رکھتا تھا ۔ابن ابی الحدید نے '' شرح نہج البلاغہ' ' میں اسود کا ذکر کرتے ہوئے اسے سبائی قحطانی بتایا ہے ۔ ابن ابی الحدید لکھتا ہے :

۷۲

میں نے متعدد نسخوں میں پڑھا ہے کہ وہ اسود بن قطبہ ،حلوان میں امام کا سپہ سالار جس کے نام امام نے خط بھی لکھا ہے حارثی ہے اور خاندان بنی حارث بن کعب سے تعلق رکھتا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذکورہ بنی حارث بن کعب کا شجرہ نسب چند پشت کے بعد سبائی قحطانی قبائل کے '' مالک بں اود'' سے ملتا ہے ۔اس کے حالات اور سوانح حیات کو ابن حزم نے '' جمہرہ انساب'' کے صفحہ ٣٩١میں درج کیا ہے ۔

موخر الذکر '' اسود '' کے باپ کانام نہج البلاغہ کے بعض نسخوں میں ''قطیبہ '' لکھا گیا ہے اور نصر بن مزاحم کی کتاب '' صفین'' میں اس کا نام '' قطنہ '' ذکر ہو اہے ۔اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ سیف نے اپنے جعلی صحابی یعنی اسود بن قطبہ تمیمی کا نام امام کے نمایندہ کے نام کے مشابہ جعل کیا ہے ۔اور یہی شیوہ اس نے خزیمة بن ثابت سماک بن خرشہ اور زربن عبداللہ کا نام رکھنے میں بھی اختیار کیا ہے انشاء اللہ ہم اس کتاب میں ان کے بارے میں بھی بحث و تحقیق کریں گے۔

۷۳

سیف کا پانچواں جعلی صحابی نافع بن اسود تمیمی

سیف کی زبانی اسود کا تعارف

ابو بجید ،نافع بن اسود ،قطبہ بن مالک کا پوتا اور خاندان بنی عمرو تمیمی کا چشم و چراغ ہے سیف بن عمر نے نافع کے بارے میں یہ شجرہ نسب اپنے تصور کے مطابق جعل کیا ہے ۔

ابن ماکو لانے نافع کے حالات کے بارے میں اس طرح لکھا ہے :

سیف کہتا ہے : ابو بجید نافع بن اسود تمیمی نے ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں دلاوریاں دکھانے اور رزمیہ اشعار کہنے کی وجہ سے کافی شہرت پائی ہے ۔

ابن عساکر نے بھی اس کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے :

نافع بن اسود تمیمی جس کی کنیت ابو بجید ہے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک صحابی ہے اور اس نے عمر سے حدیث نقل کی ہے ،نافع نے دمشق اور عراق کے شہروں کی فتوحات میں شرکت کی ہے اور ان جنگوں کے بارے میں بہت سے رزمیہ اشعار کہے ہیں ۔

دلاوریاں

اس کے بعد ابن عساکر نافع کے ساٹھ سے زائد اشعار سیف ابن عمر سے روایت کرکے چھ قطعات میں نقل کرتا ہے اور اس کے پہلے قطعہ میں کہتا ہے :

سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ ابو بجید نافع بن اسود نے اس طرح شعر کہے ہیں :

مجھے اور میرے خاندان والوں کو ایسا تصور نہ کرنا کہ ہم جنگ کے شعلوں سے ڈر کر آہ و زاری کر تے ہیں !ہم نے دمشق کو فتح کرنے کے بعد دشمن کے لئے اسے آفت و بلا میں تبدیل کردیا۔

۷۴

لگتا ہے کہ تم نے دمشق اور بصری کی جنگ کو نہیں دیکھا ہے کہ اس دن ہمارے دشمن خاک و خون میں کیسے غلطاں ہوئے ؟

اس دن ہم میدان کارزار میں دشمن پر طوفانی ابر کی مانند موت کی بارش برسارہے تھے ۔

ہم نے دشمن کے ہاتھ کو تمھارے دامنوں سے جدا کردیا ۔کیونکہ پناہ لینے والوں کی حمایت کرنا ہماری پرانی عادت تھی۔

اے میرے مغرور دشمن ! اس وقت جب صرف خالی نعرے سے لوگوں کی حمایت کرنا کافی نہ تھا ،تم بیچارے اور ذلیل وخوار ہوکر خاک وخون یں لت پھت پڑے تھے۔

سب جانتے ہیں کہ خاندان تمیم جنگوں میں فتح وکامرانی اور افتخارات اور دلاوریاں حاصل کرنے میں قدیم زمانے سے معروف ہے اور جنگی غنائم کو حاصل کرنا ہمارا حق ہوتا تھا۔

آزاد ہوکر ہماری پناہ میں آنے والے افراد عزیز ومحترم اور دوست ہیں اور جنھوں نے تمھارے ہاں پناہ لے لی ہے ،وہ ذلیل وخوار اور نابودہیں ۔

اس کے دوسرے رزمیہ اشعار میں یوں آیا ہے :

جس وقت گھمسان کی جنگ چل رہی تھی ،اس وقت ہماری شجاعت ،سربلندی و افتخار کے برابر کسی نے شجاعت نہیں دکھائی ۔

جنگ دمشق میں ہماری کاری ضربوں کے نتیجہ میں موت کے منڈلاتے ہوئے سایوں کے بارے میں رومیوں کے سپہ سالار ''نسطاص'' سے پوچھو ! اگر اس سے پوچھوگے تو وہ جواب میں کہے گا ، ہم وہ بہادرہیں جو ایرانیوں کے جوش وخروش کے باوجود سیلاب بن کر ان کی سرحدوں سے گزرے اور ان لوگوں پر حملہ آور ہوئے جو آرام کی زندگی بسر کررہے تھے اور وسیع زمینوں کے مالک تھے ۔

۷۵

خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ صرف تمیم کا خاندان سیف کا قبیلہ اپنی تلاش و کوشش سے جنگ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لے ۔

مذکورہ دو حماسی اشعار کو ابن عساکر نے سیف سے نقل کرکے فتح دمشق میں ذکر کیاہے ۔

تیسرے رزمیہ اشعار کے حصہ کے بارے میں کہتاہے کہ :

ابو بجید ،نافع بن اسود نے اس طرح شعر کہے ہیں :

اور یہ ہم تھے جو دجلہ کی جنگ میں صبح سویرے اپنے سپاہیوں کے ایک گرواہ کے ہمراہ تلوار اور نیزوں سے دشمن پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑے ۔

اس دن جب تیروں کی بارش تھم گئی اور تلواروں کی باری آئی تو یہ ہماری تلواریں تھیں جودشمنوں پر ٹوٹ پڑیں اور ان کا قتل عام کرکے رکھ دیا۔

ہم انھیں دجلہ اور فرات کے در میانی بیابانوں میں نہروان تک پیچھا کرکے تہ تیغ کیا۔

چوتھے حماسی حصہ کے بارے میں ابن عساکر سیف سے نقل کرکے ابو بجید نافع بن اسود کے درج ذیل اشعار بیان کئے ہیں :

ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو اندھے پن کے کاجل سے دشمنوں کی آنکھوں کا علاج کرتے ہیں اور ان کے درد بھرے سروں کو میان سے نکالی گئی ننگی تلواروں سے شفا دیتے ہیں ۔

تم ہمارے گھوڑوں کو دیکھ رہے ہو جو مسلح سواروں کے ساتھ میدان کارزار میں جولانی کررہے ہیں ؟

خدائے تعالیٰ نے میرے لئے عزت ،شرافت اور سربلندی کا گھر

۷۶

عطاکیاہے ۔

میرے دوست ویاور بھی ایسے مہربان اور بخشش والے ہیں کہ ہرگز کسی پر ظلم نہیں کرتے اور ہمیشہ سخاوت ووفاداری کا دامن پکڑے رہتے ہیں ۔

ہمارے گھر میں عظمت اور عزت نازل ہوئی ہے ،جو ہرگز اس سے باہر نہیں جائے گی۔

دشمنوں کے لئے کون سا دن اس دن کے برابر سخت اور بد قسمتی والا گزرا ، جب ہمارے جوانوں نے ان کو خاک وخون میں غلطاں کرکے رکھ دیا ؟

ان کے علمدار کو ہم نے اس طرح موت کے گھاٹ اتاردیا کہ پتھروں کے نشان اس کے بدن پر نمایاں تھے!

بادشاہوں کے کتنے تاج اور قیمتی دست بند ہم نے غنیمت میں لے لئے ؟

خاندان تمیم سے تعلق رکھنے والے ہمارے جنگجو ایسے قدر ومنزلت کے مالک ہیں کہ جہاں جہاں پر قدم رکھیں گے وہاں پر خوشی ومسرت کی بہار لائیں گے۔

ہم نے دشمن کے قلب پر حملہ کیا ۔دشمن پر فتح پانے کے بعد میدان کارزار سے گزرگئے ۔اس مدت میں ہماری آنکھوں نے نیند نام کی کوئی چیز نہیں دیکھی ۔

چھ دن کی نبرد آزمائی کے بعد دشمن پر ایسی کاری ضربیں لگائیں کہ وہ پھر سر اٹھانے کے لائق نہ رہے ۔اس کے بعد ان کے جنگی ساز وسامان کو مال غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا۔

اس کے بعد ہم نے کسریٰ پر حملہ کیا اور اس کی سپاہ کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔

اس وسیع میدان کارزار میں ہم قبیلہ تمیم کے علاوہ کوئی ایسا اپنے وطن سے دور موجود نہ تھا جو دشمن کے جگر کو نیزوں کے ذریعہ ان کے سینوں سے چیر کر نکال لیتا۔

۷۷

اس کے بعد ہم نے مدائن کی سرزمینوں پر حملہ کیا جن کے بیابان وسیع اور دلکش تھے۔ہم نے کسریٰ کے خزانوں کو غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا اور وہ شکست کے بعد بھاگ کھڑا ہوا۔

طبری نے بھی سیف سے نقل کرتے ہوئے مدائن پر مسلمانوں کی فتح کی صورت حال بیان کرنے کے بعد اس حماسہ کے دوشعر شاہد کے عنوان سے درج کئے ہیں ۔ابن اثیر اور ابن کثیر نے بھی انہی مطالب کو نقل کرنے میں طبری کی پیروی کی ہے اور اس سے نقل کیاہے۔

پانچویں قطعہ کے بارے میں جو بذات خود ایک طولانی قصیدہ ہے ابن عساکر یوں بیان کرتاہے :ابو بجید نافع بن اسود یوں کہتاہے:

قبائل''معد ''(۱) اور دیگر قبائل کے منصفوں کا اعتراف ہے کہ تمیمی بڑے بادشاہوں کے برابر تھے ۔

وہ فخر و عزت ،جاہ و جلال اور عظمت والے افراد ہیں خاندان '' معد'' میں ان کی سر بلندی پہاڑ کی چوٹی کے مانند ہے ۔

وہ پناہ گاہ ہیں اور ان کے ہمسائے جب تک ان کی پناہ میں ہوں ہر قسم کی ضرورت و احتیاج سے بے نیاز ہوتے ہیں ۔

جو بھی ان کا دوست و ہمدم بن جائے اور ان کی سخاوت کے دسترخوان پر حاضر ہو جائے وہ فربہ او رچاق چوبند اونٹ کے گوشت سے اس کی مہمان نوازی کرتے ہیں ۔

کیسے ممکن ہے کہ غیر عرب خاندان تمیم سے برابری کا دعوی کریں جب کہ یہ لوگ ہرقسم کی سماجی سر بلندی اور بزرگواری کے لحاظ سے مشہور و معروف ہیں ؟

وہ حاجتمند وں اور بیچاروں کو بذل و بخشش کرکے انھیں پنجہ مرگ سے نجات دلانے میں بے مثال ہیں ۔

جب دوسروں کے ہاتھ عظمت و افتخار کی بلندی تک پہنچنے سے محروم ہوتے ہیں ،اس وقت بھی خاندان تمیم پوری طاقت کے ساتھ عظمت و سر بلندی تک پہنچنے کے لئے دراز ہوتے ہیں ۔

حاجتمند وں کی حاجت روائی اور درد مندوں کی دستگیری میں تمام مال و متاع

____________________

۱)۔ حجاز کے اعراب ،جزیرہ نمائے عرب کے شمال کے باشندوں جو مختلف قبائل پر مشتمل ہیں کو ''معد'' کہتے ہیں قریش اور تمیم بھی انہی میں سے ہیں ۔

۷۸

بخش دینے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے !

یہ خاندان تمیم کے ہی شہسوار ہیں جو اپنے نجیب گھوڑوں کو پہاڑوں پر سے دوڑاتے ہوئے میدان کار زار میں پہنچادیتے ہیں ۔

ان کے گھوڑے راستے کی مشکلات کے باوجود سستی ،کمزوری اور تھکاوٹ کا اظہار نہیں کرتے یہ گھوڑے خاندان تمیم کے شہسوار وں کو مال غنیمت تک پہنچاتے ہیں اسی لئے تمیمی ہمیشہ مال غنیمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔

ان کے بہت سے دلاوروں نے نخلستانوں اور باغوں کو غنیمت میں لے لیا ہے۔

مال غنیمت میں خاندان تمیم کا حصہ جنگ کے سرداروں کے برابر ہوتا تھا خدائے تعالیٰ نے پہلے سے ہی خاندان تمیم کو ان نیک خصوصیات سے نوازا تھا۔

اور جب اسلام آیا،تب بھی قبائل ''معد'' کی قیادت کی باگ ڈور خاندان تمیم کے ہی ہاتھوں میں رہی اور خدا نے انھیں ان جگہوں کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت کی جہاں پر ان کی دنیا وآخرت کی بھلائی تھی۔

ان مقامات اور مرغزاروں کی طرف اگر عرب ہجرت نہ کرتے تو وہ عجم کے بادشاہوں کے نشیمن بن جاتے!

تمیمی اس عظیم ہجرت میں منظم گروہوں اور صفوف کی شکل میں جنگلی شیروں اور فتح و کامرانی کے ہراول دستوں کی طرح آگے بڑھتے تھے۔

(تمیمی ) شہسوار، بلند قامت اور تیز رفتار اور سرکش گھوڑوں پر پوری طرح مسلح ہوکر جنگ کے لئے آمادہ تھے، کہ

۷۹

خطاب آیا: اے تمیمیو! تم سر بلندی اور بہتر زندگی کی راہ میں اچھی طرح لڑو کیوں کہ فقط تم ہی مشکلات اور سختیوں میں لوگوں کے کام آنے والے ہو !

تم ۔مشرکوں کے مقابلے میں اپنی صفوف کو منظم کرو اور ننگی تلواروں سے ان پر ٹوٹ پڑو!

اس جنگ میں تمیمیوں نے دشمنوں کو اپنی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ، کیوں کہ تمیمی دلیر کبھی ناقص کام انجام نہیں دیتے ،

شہسوار ،گردو غبار میں اٹے ہوئے اپنے نیزوں اور تلواروں سے میدان کا رزار میں دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے ان کے قلب پر حملہ کرتے تھے ۔

یہ کام صرف خاندان تمیم کے بہادر ،دلاور اور شجاع جوانمرد وں کے ہاتھوں انجام پاتا تھا نہ ڈر پوک اور سست مردوں کے ہاتھوں !

ابن حجر نے بھی نافع کے اس قصیدہ کے ٩اشعارسیف سے نقل کرکے اپنی بات کے شاہد کے طور پر درج کئے ہیں ،اور کہتا ہے :

سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں نافع سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں جس میں وہ اپنے خاندان پر افتخار کرتا ہے ۔شام و عراق کی جنگوں میں اپنی شرکت پر داد سخن دیتا ہے ،منجملہ کہتا ہے :

'' معد'' کے انصاف پسندوں اور تمام منصفوں نے گواہی دی ہے کہ صرف خاندان تمیم ہی بڑے بادشاہوں کی ذمہ داریاں نبھاسکتے ہیں اور ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں ...۔

ابن عساکر نے نافع کے اشعار کا چھٹا بند یوں بیان کیا ہے :

ہم نے رومیوں کے'' سقس''(ساکس)رومی کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو زمین پرپھینک دیا جب کہ لنگڑی لومڑیوں نے اس کا محاصرہ کر رکھا تھا۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

میں آپ کو رکھتا ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے حضرت ابا عبداﷲ کی قبر مطہرہ پر پانی بہایا اور ہل چلایا تاکہ نشان قبر مٹادے اور جو کوئی آپ کے قبر کی زیارت کے لیے جاتا تھا۔ تو اس کےساتھ ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالتا تھا۔ واقعا متوکل عباسی ، بنی امیہ کے خلفاء میں سے شقی ترین خلیفہ  تھا۔ حضرت ہادی علیہ السلام دیکھتے تھے اور سوائے صبر کے اور کوئی چارہ کار نہ تھا۔

کئی مرتبہ متوکل نے حکم دیا کہ رات کے وقت آپ کے دولت خانہ پر چھاپہ مارا جائے حکم کی تعمیل ہوئی اور کئی دفعہ گھر کا سارا لوٹ کر لے گئے۔ ایک عجیب واقعہ اسی سے مربوط یہ ہے کہ جب ایک دفعہ متوکل کے آدمیوں نے گھر پر چھاپہ مارا تو رقم کی ایک تھیلی برآمد ہوئی جس پر متوکل کی ماں کے نام کی مہر لگی ہوئی تھی۔ بعد میں جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ ایک دفعہ متوکل بیمار ہوا تھا تو اس کی ماں نے نذر مانی تھی جسے حضرت ہادی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا دیا گیا تھا۔

متوکل آپ کی کرامات اور معجزات کو دیکھتا تھا۔ لیکن متنبہ نہ  ہوسکا۔ یہاں تک کہ آپ کی توہین کا مرتکب ہو کر اسی کے سبب مرگیا۔

جس وقت متوکل نے فتح بن خاتون کو اپنی وزارت پر مقرر کیا تو حکم دیا کہ تمام امراء و شرفا اس کے اور فتح بن خاتون کے ہمرکاب ہو کر پیادہ چلیں۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت ہادی علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اس گرم ہوا میں میں پیادہ چل رہے ہیں۔ میں نے آپ سے عرض کیا ان لوگوں کو چاہئے تھا کہ آپ کو ایسا حکم نہیں دیتے؟ آپ نے فرمایا ۔ “ انہوں نے یہ حکم صرف میری توہین کی خاطر دیا ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ کہ میں بھی ناقہ صالح (ع) سے کمتر نہیں ہوں۔ ” راوی کہتا ہے کہ جب میں نے اس کا ذکر کسی بزرگ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ متوکل تین دن سے زیادہ نہیں رہے گا۔ کیونکہ خداوند عالم نے صالح (ع) کو قوم کے بارے میں فرمایا

۱۴۱

ہے جب انہوں نے ناقہ کے پاؤں کاٹ ڈالے تو تین دن سے زیادہ نہ رہ سکے۔

تین دن پورے نہیں ہوئے تھے کہ متوکل بیٹا چند غلاموں کے ساتھ متوکل کے پاس داخل ہوا فتح بن خاتون کے ساتھ ہی اسے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔

آپ کے فضائل

نسب کے اعتبار سے حضرت جواد علیہ السلام جیسا باپ اہل بیت علیہم السلام جیسا خاندان اور والدہ گرامی ایسی کہ جن کے بارے میں حضرت (ع) خودیوں فرماتے ہیں۔

“ میری والدہ گرامی میرے حقوق کی عارف ہیں اہل بہشت میں سے ہیں کیونکہ جو کوئی امام(ع) کے حقوق کی معرفت رکھے اور اسے پہچان لے تو شیطان اس میں نفوذ نہیں کرسکتا  بلکہ ایسا شخص اﷲ کی حفاظت میں ہے صدیقین کی مائیں صدیقہ ہی ہوتی ہیں۔”

فضائل و حسب کے اعتبار سے آپ کی حیثیت جاننے کے لیے یہ کافی ہے کہ ایک دفعہ یحی بن اکثم نے حضرت ہادی علیہ السلام سے آیت “وَ لَوْ أَنَّ ما فِي الْأَرْضِ مِنْ‏ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ‏- وَ الْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ- ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ ” کی تفسیر پوچھی اور کہا اس آیت میں کلمات اﷲ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا “وَ نَحْنُ‏ كَلِمَاتُ‏ اللَّهِ‏ الَّتِي لَا تُدْرَكُ فَضَائِلُنَا وَ تسقصی ” “ ہم ہی وہ کلمات ہیں جس کے فضائل نہ شمار کئے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ختم ہونے والے ہیں۔”

             کتاب فضل را آب بحر کافی نیست           کہ ترکنی سرانگشت و صفحہ شماری

نوفلی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام ہادی علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خداوند عالم کا اسم اعظم ۷۳ حروف پر مشتمل ہے اور ان ۷۳ حروف میں سے ایک حرف کا

۱۴۲

علم آصف بن برخیا کو تھا جو پلک جھپکنے میں یمن سے بلقیس کا تخت شام لے آیا۔ ہم ان ۷۳ حروف میں سے ۷۲ کا علم رکھتے ہیں اور ایک حرف کا علم ذخیرہ خداوندی میں ہم سے پوشیدہ ہے۔”

حضرت امام ہادی علیہ السلام کے معجزات اور کرامات بے حد ہیں جنہیں مورخین نے تحریر کیا ہے۔ ہم یہاں ان میں سے صرف ایک معجزے کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک عورت جس کا نام زینب کبری تھا، نے دعوی کیا کہ میں ہی زینب بنت علی (ع) ہوں۔ اسے متوکل کے سامنے لایا گیا۔ متوکل نے حضرت ہادی علیہ السلام کو بلایا کہ اس عورت کو جواب دیں۔ حضرت ہادی علیہ السلام نے اس عورت سے فرمایا جھوٹ کہتی ہے اگر یہ سچ کہتی ہے تو چاہئے کہ درندے اس کا گوشت نہیں کھائیں گے۔ کیونکہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کا گوشت درندوں پر حرام ہے۔ متوکل تو بہانے کی تلاش میں تھا کہ کس طرح آپ(ع) کو راستے سے ہٹائے لہذا فورا حکم دیا اگر ایسا ہے تو آپ خود درندوں کے درمیان چلے جائیں ۔ جب آپ ان درندوں کے درمیان گئے تو سب نے آپ کا طواف کرنا شروع کیا او آپ کے سامنے عاجزی کرنے لگے ۔ جب آپ شیروں کے درمیان سے صحیح و سلامت نکلے تو اس عورت نے اپنے جھوٹ کا اقرار کیا۔ مگر متوکل نے اسے شیروں کے درمیان پھینکنے کا حکم دیا لیکن متوکل کی ماں کی مداخلت پر اسے معافی ملی۔

حضرت ہادی علیہ السلام سے مروی روایات

آپ (ع) سے مروی احادیث و روایات کا ایک ذخیرہ موجود ہے جس کے ذریعے آپ نے تہذیب نفس اور  تعمیر ذات کا درس دیا ہے۔ آپ سے مروی ایک روایت، آپ نے فرمایا۔

“ من يتقی اﷲ يتقی و من يطع اﷲ يطاع”

۱۴۳

“ جو تقوی اختیار کرتا ہے اس سے لوگ ڈرتے ہیں اور جو اﷲ کی اطاعت کرتے ہیں ان کی اطاعت کی جاتی ہے۔”

یہ ایک جملہ ہے جو تجربات سے ثابت ہے اس کے علاوہ قرآن و احادیث بھی اس کی تائید کرتی ہیں۔ خداوند عالم کا ارشاد ہے۔

 “ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمنُ وُدًّا”

“ بے شک جو لوگ ایمان لاتے اور عمل صالح بجا لاتے ہیں عنقریب خداوند عالم لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت ڈال دے گا۔ لوگوں کے دلوں پر حکومت کریں گے سب ان کے اطاعت گزار بنیں گے۔”

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ۔“ جو شخص اپنے اور خدا کے درمیان امور کی اصلاح کرے گا خداوند عالم اس کی دنیا اور آخرت کی اصلاح کرے گا۔” اس طرح حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ “ جو شخص یہ چاہے کہ قبیلے کے بغیر عزت ملے اور بغیر اقتدار کے ہیبت ملے تو اسے چاہئے کہ نافرمانی کی ذلت سے نکل کر اﷲ کی اطاعت کی عزت میں داخل ہو جائے۔”

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے ۔ “ جو کوئی خدا سے ڈرے ہر چیز اس سے ڈرے گی اور جو کوئی خدا سے نہیں ڈرے گا وہ ہر چیز سے ڈرے گا۔”

مورخین نے خود حضرت ہادی علیہ السلام سے چند مطالب نقل کیے ہیں جو آپ(ع) کے ارشاد کی تائید کرتے ہیں ان میں سے چند ایک ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں۔

۱ ـ ایک دفعہ ایک مومن آپ کی خدمت میں گھبرایا ہوا حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ متوکل کے سرکردہ آدمیوں میں سے کسی ایک نے ایک نگینہ دیا تھا کہ اس کی انگوٹھی تیار کروں مگر یہ نگینہ میرے ہاتھوں سے ٹوٹ گیا ہے اب مجھے اپنی زندگی کی خیر معلوم نہیں ہوتی آپ نے فرمایا خدا کوئی راہ پیدا کرے گا۔

۱۴۴

دوسرے دن اس شخص نے دیکھا کہ اس آدمی کی طرف سے اسے پیغام ملا کہ بیویوں میں جھگڑا ہوا ہے اگر ہوسکے تو اس نگینے کو کاٹ کر دو انگوٹھیاں بنائیں اس مومن نے ایک بھاری معاوضہ وصول کر کے ٹوٹے ہوئے نگینوں سے دو انگوٹھیاں بنائیں۔ حضرت ہادی علیہ السلام کا فرمان ہے “ و من یطع اﷲ یطاع ” یعنی خدا، رسول(ص) اور امام (ع)سے رابطہ اور اہل بیت (ع) کو وسیلہ قرار دینے سے تمام مشکل امور حل ہوجاتے ہیں۔

منصوری شیعہ تھا اور متوکل عباسی کے دور میں ایک خاص اعزاز کا حامل تھا مگر اپنے تشیع کی وجہ سے متوکل نے انہیں دھتکار دیا۔ منصوری کہتا ہے کہ فقر و ہلاکت مجھ پر چھا گئی تو میں نے حضرت امام ہادی علیہ السلام کے پاس شکایت کی اور کہا کہ میں اپنے شیعہ کی وجہ سے اس حال تک پہنچا ہوں۔ حضرت امام ہادی علیہ السلام نے فرمایا انشاء اﷲ خدا اصلاح کرے گا۔

میں واپس گھر آیا رات چھا گئی تو متوکل نے چند افراد میرے پیچھے بھیجے میں چلا گیا دیکھا کہ فتح بن خاقان راستے میں میرا انتظار کر رہا ہے اس نے کہا کہ متوکل نے میرے بارےمیں تاکیدی طور پر حکم جاری کیا ہے۔ ہم متوکل کے پاس پہنچے تو وہ میرے انتظار میں تھا۔ مجھے دیکھا تو معذرت کی میرا اعزاز مجھے واپس دیا اور کافی کچھ مال و متاع سے نوازا ۔ اس کے بعد میں حضرت ہادی علیہ السلام کے خدمت میں پہنچا اورکہا کیا آپ نے متوکل کے پاس میری سفارش کی تھی؟ فرمایا خدا جانتا ہے کہ سوائے اس کے میرا کوئی ملجا نہیں۔ اپنی مصیبتوں اور ضرورتوں کے وقت اس کے علاوہ کسی کے پاس نہیں جاتا۔ اس لیے اس رب العزت نے بھی ہمیں یہ اعزاز دیا ہے کہ جب مانگتے ہیں، دیتا ہے اگر کوئی شخص اس کی اطاعت کرے اور نافرمانی سے بچا رہے اور اہل بیت علیہم السلام کو اپنا شفیع قرار دے تو خداوند عالم سختیوں اور مصیبتوں میں اس کی فریاد کو

۱۴۵

 پہنچتا ہے اور اسے محروم نہیں کرتاہے۔

۳ ـ متوکل کا یہ دستور تھا کہ جب بھی حضرت امام علی نقی علیہ السلام تشریف لاتے تو غیر معمولی طور پر آپ کا احترام کرتا تھا ۔ بلکہ اپنے تمام درباریوں کو حکم دیا ہوا تھا کہ آپ کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں۔ یہاں تک کہ چغلخوروں اور حاسدوں نے متوکل سے کہا اس طرح آپ اپنی خلافت ان کے حوالے کررہے ہیں۔ لہذا متوکل نے اپنے درباریوں کو حکم دیا کہ کوئی بھی آپ کا احترام نہ کرے۔ اتنے میں حضرت ہادی علیہ السلام داخل ہوئے سب نے اٹھ کر تعظیم بجالاتے ہوئے آپ کا استقبال کیا۔ جب حضرت (ع) چلے گئے تو سب ایک دوسرے سے پوچھنے لگے یہ کیا ہوا؟ تم نے اٹھ کر اس کا استقبال کیوں کیا؟

۴ ـ معتز کا کاتب کہتا ہے میں ایک دفعہ متوکل کے ہاں گیا تو وہ غصے میں بھرا ہوا تھا اس نے اپنے چند ترک غلاموں کو حکم دیا کہ حضرت امام ہادی علیہ السلام کو حاضر کریں۔ اور وہ مسلسل بڑ بڑا رہا تھا کہ آج اسے قتل کروں گا۔ اسے جلا ڈالوں گا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ حضرت امام ہادی علیہ السلام کمال و وقار اور بزرگی کے ساتھ تشریف لائے۔ جو نہی متوکل کی نظریں آپ کے چہرے پر پڑیں۔ کھڑا ہوا اور عاجزی کےساتھ آگے بڑھ کر استقبال کیا اور یا ابن رسول اﷲ ، یا بن عم، یا ابو الحسن(ع) کہتے ہوئے آپ کے چہرے کے بوسے لینے لگا اپنے برابر بٹھا کر پوچھنے لگا کہ رات کے وقت کہاں سے تشریف لا رہے ہیں۔ آپ (ع) نے فرمایا تم ہی نے تومجھے بلایا ہے۔ متوکل نے کہا جھوٹ کہا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مجھے حکم کیا کہ آپ (ع) کو احترام کے ساتھ آپ کے گھر پہنچا دوں میں نے ایسا ہی کیا۔

۵ـ امام ہادی علیہ السلام کے وکلا میں سے ایک علی بن جحفہ کہتا ہے کہ متوکل نے مجھے قید کر دیا مجھے کہا گیا کہ تمہیں موت کی سزا ملنے والی ہے ۔ یہ سن کر میں نے

۱۴۶

حضرت امام ہادی علیہ السلام کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ میں صرف اس جرم میں کہ آپ (ع) کا دوست ہوں اور وکیل ہوں موت کا سامنا کر رہا ہوں۔ مجھ پر لطف و مہربانی کریں۔ امام (ع) نے فرمایا میں شب جمعہ تمہارے حق میں دعا کروں گا۔ خدا کا کرنا جمعہ کی صبح متوکل کو تپ نے آلیا اس قدر سخت تھا کہ اپنے آپ سے مایوس ہوا اور حکم دیا علی بن جحفہ کے ساتھ تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ حضرت امام ہادی علیہ السلام کے بہت زیادہ صحابہ تھے۔ جن میں سے بعض تو فخر شیعہ تھے انہی میں سے ایک حضرت عبدالعظیم تھے جو “ رے” میں مدفون ہیں۔ آپ عظیم راویوں میں سے ایک ہیں اور حضرت امام ہادی علیہ السلام آپ کی بڑی عزت کرتے تھے۔ یہ وہی شخص ہے کہ جس نے اپنے اعتقاد کو مندرجہ ذیل صورت میں حضرت امام ہادی علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ “ خدا ایک ہے اس کے لیے کوئی شباہت قرار نہیں دی جاسکتی ۔ وہ جسم نہیں بلکہ جسم کا خالق ہے۔ تمام چیزوں کو اس نے خلق کیا ہے۔ وہ ہی ان کا مالک ہے۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اﷲ کے آخری رسول (ص) ہیں ان کے بعد کسی نبی نے آنا نہٰیں ہے۔ ان کا لایا ہوا دین آخری دین ہے۔ حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وصی ہیں اور امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد “ حسن(ع)، حسین(ع)، علی بن حسین(ع)، جعفر بن محمد(ع)، موسی بن جعفر(ع)، علی بن موسی(ع)، محمد بن علی (ع)، علی بن محمد(ع)، حسن بن علی(ع)، اور حجتہ ابن الحسن(ع) جو کافی عرصہ غیبت اختیار کرنے کے بعد ظاہر ہوکر دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ ” عبدالعظیم نےکہا میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ کا دوست خدا کا دوست اور آپ کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ آپ کی اطاعت، خدا کی اطاعت اور آپ کی مخالفت ، خدا کی مخالفت ہے۔ معراج ، قبر، سوال و جواب، جنت ، جہنم ، صراط اور میزان پر اعتقاد رکھتا ہوں یہ تمام برحق ہیں اور مجھے یقین ہے کہ قیامت آنے والی ہے۔ اس طرح واجبات الہی نماز، روزہ ، زکوة،

۱۴۷

 حج ، جہاد، امربالمعروف نہی عن المنکر وغیرہ کا اقرار کرتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت ہادی علیہ السلام نے فرمایا “ اے ابو القاسم یہی خدا کا پسندیدہ دین ہے خدا تمہیں اس پر ثابت قدم رکھے۔” 

جس چیز کا اقرار حضرت عبدالعظیم نے کیا ہے اس پر اس کے اصول اور فروع پر ہمیں اعتقاد رکھنا چاہئے۔ لیکن صرف اعتقاد رکھنا ہی نجات کے لیے کافی نہیں بلکہ وہی عقیدہ نجات کا باعث ہے جو عمل کے ساتھ ملا ہوا ہو۔ اس لیے حضرت ہادی علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے۔ “ چونکہ تم میری عیادت کےلیے آئے ہو اس لیے تمہارا حق مجھ پر ہوا۔ لہذا اس حق کو ادا کرنے کے لیے ایک روایت بیان کرتا ہوں جیسے میرے پدر بزرگوار سے میں نے سنا ہے انہوں نے اپنے آبائے طاہرین (ع) سے انہوں نے امیرالمومنین علیہ السلام سے سنا انہوں نے  رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ حضور اکرم(ص) نےفرمایا۔

“الْإِيمَانَ‏ مَا وقدته فِي الْقلوبِ وَ صَدَّقَتهُ الْأَعْمَالُ”

“ ایمان وہ ہے جو دل میں قائم ہو جائے اور اعمال و گفتار اور کردار اس کی تصدیق کریں۔”

لہذا قرآن کریم اور اہل بیت علیہم السلام سے مروی روایات میں مذکور ہے کہ ایسے افراد جو احکام اسلامی پر عمل نہٰیں کرتے ہیں ان سے ایمان سلب ہوجاتا ہے۔ ارشاد ہوا ہے۔

"أَ رَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ‏ بِالدِّين فَذلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ وَ لا يَحُضُّ عَلى‏ طَعامِ الْمِسْكِينِ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلاتِهِمْ ساهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُراؤُنَ وَ يَمْنَعُونَ الْماعُونَ‏.”

“ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جو دین کو جھٹلاتا ہے یہ وہی شخص ہے جو یتیموں کو دھکے دیتا ہے اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا ہے خرابی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں میں سہل انگاری برتتے ہیں اور ریا کاری کرتے ہیں

۱۴۸

 اور دوسروں کی ضروریات پوری نہیں کرتے ہیں۔”

ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں ایسے چار گروہوں کا ذکر ہے جس سے ایمان سلب ہوچکا ہے کیونکہ عمل کے بغیر صرف اعتقاد کی کوئی قیمت نہیں۔ اس طرح عمل اعتقاد کے بغیر بھی ایک مشقت کے علاوہ کچھ نہیں۔

ہمیں چاہیے کہ حضرت ہادی علیہ السلام کے متوجہ کئے ہوئے اس نکتے پر غور و فکر کریں۔

“ اعتقاد کبھی تو علم و دلیل کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے جیسے کہ علماء اور لکھنے پرھنے والے لوگ جن کا اعتقاد دلایل و برہان کے تحت ہوتا ہے ۔ یا اکثر عوام کا عقیدہ جو تقلید کے تحت ہوتا ہے ۔ اگر چہ اس قسم کے اعتقادات بھی اچھے ہوتے ہیں لیکن صرف اس معنی میں وہ مسلمانوں کے زمرہ میں شامل ہونے کا فائدہ دیتے ہیں لیکن عام طور پر قابو کرنے کی قوت کے حامل نہیں ہوتے۔ وہ ایمان جو انسان کو نجات دے سکتا ہے اور اسے ہلاکتوں سے نجات دے سکتا ہے جو اس کے دل میں رچ  بس جائے۔ حضرت امام ہادی علیہ السلام کے مطابق ۔ “الْإِيمَانَ‏ مَا وقدته فِي الْقلوبِ وَ صَدَّقَتهُ الْأَعْمَالُ ” “ یہ ایمان دلیل و برہان سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ خاص الہی عنایت ہے۔ ” خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہمیں اس قسم کے ایمان کی طرف ہدایت کرے اور خداوند عالم کی ہدایت ہماری صلاحیت سے مشروط ہے۔ ایمان قلبی عمل کے ذریعے دلوں میں پیدا ہوتا ہے واجبات کے ادا کرنے اور محرمات کے ترک کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ قرآن کریم نے متعدد آیات میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

“قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَ كِتابٌ‏ مُبِينٌ‏ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ وَ يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَ يَهْدِيهِمْ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ”

۱۴۹

“ بے شک خداوند عالم کی طرف سے نور اور آشکارا کتاب بھیجی جو اس کی پیروی کرے اسے اﷲ کی طرف ، اس کی سلامتی راہ کی طرف اور اس کی جنت کی طرف ہدایت کرتی ہے۔ اور نور اندھیروں  سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتا ہے اور سیدھے راستے کی ہدایت کرتا ہے۔”

ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں صراحت کے ساتھ ارشاد ہوا ہے کہ خدا کی یہ خاص عنایت متقین سے مخصوص ہے۔ اس خاص عنایت کو ایصال الی المطلوب ” کہتے ہیں جو بشر کو سعادت سے ہمکنار کرتی ہے۔ وگرنہ صرف راستے کا پتہ بنانا کفایت نہیں کرتا جو نفس پر کنڑول کرنے کی توانائی نہیں رکھتا ۔ ہم خداوند عالم سے ایسے ہی ایمان کی دعا کرتے ہیں اور حضرت ہادی علیہ السلام کا واسطہ دیتے ہیں کہ ہمیں ایسی ہدایت سے نوازے جو ایصال الی المطلوب کا درجہ رکھتی ہو۔

                                             ( آمین )

۱۵۰

حضرت امام عسکری علیہ السلام

آپ کا اسم گرامی حسن(ع)، مشہور کنیت ابا محمد(ع) ، ابن الرضا(ع) اور آپ کا مشہور ترین لقب عسکری(ع) ہے۔ آپ کی ولادت باسعادت ۸ ربیع الثانی ۲۳۲ ہجری میں ہوئی آپ کی شہادت ۸ربیع الاول ۲۶۰ ہجری میں معتمد عباسی کے زہر دینے کی وجہ سے واقع ہوئی۔ آپ کی عمر مبارک ۲۸ سال ہے اور مدت امامت چھ سال ہے۔

یہ بات بڑے افسوس کی ہے کہ آپ نے اپنی ساری عمر یا تو زندان میں گزاری یا جلاوطنی میں۔ دو سال کی عمر تھی کہ حضرت امام ہادی  علی نقی علیہ السلام کے ساتھ جلا وطن ہوئے۔ اور آپ کے ساتھ ۲۰ سال تک زندان میں رہے یا جلا وطن رہے۔ والد گرامی کی شہادت کے بعد چھ سال تک یا تو زندان میں رہے یا جلا وطنی کے عالم میں یا نظر بندی میں ہوتے تھے۔ لہذا آپ کے پیرو کار آپ (ع) تک رسائی نہیں پاتے تھے۔ اور مجبور تھے کہ آپ سے راستے میں ہی سوالات پوچھیں۔

راوی کہتا ہے ایک دفعہ میں چاہتا تھا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے یہ مسئلہ پوچھوں کہ حرام سے آئے ہوئے پسینے میں نماز ہوسکتی ہے یا نہیں ۔ چونکہ آپ نظر بند تھے لہذا آپ تک پہنچنا ممکن نہیں تھا ایک دن کسی نے مجھے بتایا کہ آپ(ع) کو خلیفہ نے آج طلب کیا ہے لہذا تم راستے میں انتظار کرو جب امام (ع) وہاں سے گزریں تو مسئلہ پوچھیں۔ راوی کہتا ہے کہ میں راستے میں بیٹھا۔ چونکہ آپ کو لانے

۱۵۱

میں دیر کی گئی تو راستے میں ہی گلی کی کنارے میں بیٹھ گیا۔ چونکہ تھکا ہوا تھا آنکھ لگ گئی دیکھ ایک شخص مجھے شانے سے پکڑ کر ہلا رہا تھا۔ آنکھ کھول کر دیکھا تو امام (ع) ایک خچر پر سوار تھے مجھے سے فرمایا لا تصل فیہ “ اس میں تم نماز مت پڑھو” چونکہ آپ زیر حراست تھے اس سے زیادہ میں بات نہیں کرسکا۔

آپ کے معجزات کی کوئی کمی نہیں مورخین نے آپ کے بہت سارے معجزات نقل کئے ہیں۔ ان میں سے ایک معجزہ ابی الادیان کا ہے جسے صدوق علیہ الرحمتہ نے نقل فرمایا ہے۔ ابی الادیان کہتا ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے بلایا اور چند خطوط کے جوابات دیئے کہ مدائین لے جاؤں ساتھ ہی فرمایا جب پندرہ روز کے بعد واپس آؤ گے تو میں شہید ہو چکا ہوں گا۔ میں نے پوچھا یا بن رسول اﷲ (ص) آپ کا وصی کون ہوگا؟ فرمایا جو میرے جنازے پر نماز پڑھائے۔ میں عرض کیا اور کوئی نشانی بھی بتا دیں فرمایا جو تم سے خطوط کے جوابات لےلے اور تھیلیوں میں رقم کی تعداد بتائے؟  آپ کی ہیبت مانع ہوئی کہ اس سے زیادہ سوالات کروں۔ میں مدائن روانہ ہوا اور پندرہ دنوں کے بعد پہنچا تو آپ نے شہادت پائی تھی۔ ایک قبر کے کنارے آپ کو غسل دیا جارہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد آپ کے بھائی جعفر سے کہا گیا کہ جنازہ تیار ہے آکر نماز پڑھائیں۔ “ ابوالادیان ” کہتا ہے کہ مجھے معلوم تھا کہ جعفر  فاسق جاہل ہے اور امامت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا اور اس وجہ سے میں مبہوت ہوگیا کہ امام(ع) کا جنازہ جعفر پڑھائیں گے۔ لیکن اسی دوران میں نے ایک نوجوان کو دیکھا جس کا چہرہ چاند کی طرح دمکتا تھا پہنچ کر اس نے اپنے چچا کو ہٹایا اور جنازے پر نماز  پڑھی  یہ دیکھ کر سب لوگ حیران ہوگئے اور جعفر تو مبہوت ہو کر رہ گئے۔ اس نوجوان نے نماز کے بعد میری طرف رخ کر کے کہا خطوط کے جواب دے دو۔ اتنے میں قم سے چند لوگ آئے اورکہا حضرت امام حسن عسکری(ع) کا وصی کون ہے؟

۱۵۲

 جعفر نے اپنے آپ کو پیش کیا انہوں نے کہا ہمارے پاس کچھ رقم ہے اور خطوط ہیں تمہیں یہ بتانا ہوگا کہ تھیلوں میں کتنی رقم ہے اور خطوط کن کن لوگوں کی طرف سے ہیں۔ کیونکہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا طریقہ بھی یہی تھا۔ جعفر حیران ہو کر کہنے لگا تعجب ہے لوگوں پر کہ مجھ سے غیب کی خبریں چاہتے ہیں ۔ اسی دوران گھر کے اندر سے ایک خاتون نکلیں اور خطوط لکھنے والوں کے نام تھیلیوں میں رقم کی موجود مقدار و غیرہ حضرت بقیہ اﷲ کی طرف سے بتا کر رقم لے کر گھر کے اندر چلی گئیں۔ اسی واقعہ کی بناء پر خلیفہ اور اس کے کارندوں کو حساس ہونا پڑا۔

انہوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو ساری زندگی اپنے کنٹرول میں رکھا کر وہ ہستی دنیا میں ہی نہ آسکے جس کا وعدہ خدا نے کیا تھا مگر وہ اس بات کو بھلا بیٹھے تھے کہ فرعون کی ہر ممکن رکاوٹوں کے باوجود خداوند عالم نے موسی علیہ السلام کو فرعون کے ہی گھر میں بھیجا تاکہ اسی کے ہاتھوں میں پلے بڑھے۔ سب سے بڑی افسوسناک بات یہ ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے چند ایک خلفاء کا زمانہ دیکھا۔ مگر ان تمام کی طرف سے مصائب ہی پہنچے۔ معتصم، واثق، متوکل، مستنصر، معتز، مھتدی اور معتمد تمام کا زمانہ پایا۔ آپ کی مدت امامت چھ سالوں میں تین خلفاء کا زمانہ تھا یعنی معتز، مہتدی اور معتمد کا زمانہ۔ ان تمام نے آپ کی کرامات دیکھا مگر نہ صرف یہ کہ آپ کی امامت کو نہیں مانا بلکہ آپ کو اذیت و آزار پہنچائی حضرت علیہ السلام ان چھ سالوں کے دوران یا تو زندان میں تھے یا نظر بند تھے اس وجہ سے مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت ہادی نقی علیہ السلام اور خصوصا امام حسن عسکری علیہ السلام زیادہ سے زیادہ لوگوں سے مخفی رہنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ایسا نہیں ہے آپ(ع) مخفی نہیں  رہتے بلکہ زندان بان کو اپنے قواعد پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیتے تھے ۔ معتمد کا زندان بان کہتا ہے۔

“ چونکہ مجھے حکم ہوا تھا کہ آپ کے ساتھ سخت رویہ اختیار کروں اس لیے میں

۱۵۳

نے دو ایسے افراد کی خدمات حاصل کیں جو اپنی قساوت قلبی اور پست فطرت ہونے میں مشہور تھے مگر بہت ہی تھوڑے دنوں میں وہ دونوں نمازی ، بلکہ اہل تہجد بن گئے اور بڑے سکون و وقار کے مالک بنے جب میں نے ان دونوں سے پوچھا کہ حسن بن علی علیہما السلام پر سختی کیوں نہیں کرتے؟ تو انہوں نے جواب دیا ان کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں جو شخص ہمیشہ خداوند عالم کی عبادت میں مشغول رہتا ہو۔ دنوں میں روزے رکھتا ہے اور راتوں کو جاگ کر عبادت کرتا ہے، باتیں بہت کم کرتا ہے اور بڑا با وقار ہے ان کی ہیبت ایسی ہے کہ جس وقت ان کی نگاہ ہم پر پڑتی ہے تو ہمارے بدن میں رعشہ طاری ہوتا ہے تو کیا اس سب کے باوجود معتمدوں۔ معتزوں اور متوکلوں نے نصیحت حاصل کی؟نہیں بلکہ انہوں نے اذیتیں پہنچا پہنچا کر آپ علیہ السلام کو شہید کیا۔

انسان اگر پست اخلاق کا حامل ہوجائے تو حیوانات سے بھی بدتر ہوتا ہے بلکہ درندوں میں سب سے بڑا درندہ بن  جاتا ہے۔ خداوند عالم نے سورہ الشمس میں گیارہ قسمیں کھانے کے بعد فرمایا ہے

 “قَدْ أَفْلَحَ‏ مَنْ زَكَّاها وَ قَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها

 “ بے شک اس نے فلاح پائی جس نے تزکیہ نفس کیا اور بتحقیق اس نے نقصان اٹھایا جس نے اپنے آپ کو نفس کی خواہشات میں غرق کیا۔”

اس سورہ میں اس تاکید کی وجہ بھی بتا دی گئی ہے حضرت صالح علیہ السلام پیغمبر کی قوم کی تاریخ بیان کرتے ہیں کہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے آپ سے معجزہ طلب کیا تو ایک اونٹنی اپنے بچے کے ساتھ پہاڑی سے برآمد ہوئی آپ کی قوم والوں نے یہ صرف یہ کہ آپ پر ایمان نہ لائے بلکہ اس اونٹنی کو قتل کر کے اپنے آپ کو عذاب الہی کا مستحق ٹھہرایا۔ صالح علیہ السلام کو قوم، بنی امیہ اور بنی عباس جیسوں کی دنیا میں کمی نہیں ہمیں اس پر تعجب نہیں کہ ہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں۔

“وَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ الَّذِي‏ طُرِحَ‏ لِلسِّبَاعِ‏ فَخَلَّصْتَهُ مِنْ مَرَابِضِهَا وَ امْتُحِنَ بِالدَّوَابِّ الصِّعَابِ فَذَلَّلْتَ لَهُ مَرَاكِبَهَا”

۱۵۴

“ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام وہی امام تو ہیں جنہیں درندوں کے سامنے ڈالا دیا گیا تو ، تو نے ہی انہیں ان کے پنجوں سےنجات دی اور تو نے ہی بپھری ہوئی سواریوں کو ان کے لیے رام کیا۔”

زیارت کے یہ دونوں جملے دو واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جو حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے لیے پیش آئے تھے۔

۱ـ جیل میں ایک دفعہ آپ کو درندہ شیر کے سامنے ڈال دیا گیا جیلر کو یقین تھا کہ درندے آپ کو کا بوٹی کریں گے مگر یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ آپ ایک طرف نماز پڑھ رہے تھے اور شیر سر جھکائے آپ کے گرد طواف کر رہے تھے۔

دوسرا واقعہ یہ ہے کہ خلیفہ عباسی کے پاس ایک خچر تھا جو کسی بھی بڑے سے بڑے ماہر سوار کے لیے بھی رام نہ ہوتا تھا۔ ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام خلیفہ وقت کے پاس تھے کہ اس نے کہا میرے پاس ایک خچر ہے جسے نہیں سدھایا جاسکا ہے آپ سے التماس ہے کہ آپ اسے رام کریں۔ در اصل اس طرح خلیفہ آپ(ع) کو خود اپنے ہاتھوں ختم کرانا چاہتا تھا۔ جب خچر حاضر کیا گیا تو آپ(ع) نے اس پر دست ولایت پھیرا اور بے دریغ اس پر سوار ہو گئے اور اس وحشی خچر نے حضرت (ع) کی کمال اطمینان کے ساتھ اطاعت کی۔ یہ دیکھ کر خلیفہ نے وہ خچر آپ کو ہدیہ کیا۔ وحشی خچر، شیر درندہ، خونخوار بھیڑیا اور کتے تو “ ولایت” کے سامنے مطیع ہیں مگر یہ سرکش انسان متوکل ، مستعین، معتز، اور متعمد صرف یہ نہیں کہ مطیع نہیں بلکہ ولایت کو قتل کرنے والے ہیں۔ وہ تمام خلیفہ ، خلیفہ کا بیٹا وزیر، سپہ سالار، تمام حضرت عسکری علیہ السلام کی شخصیت اور ہیبت کا اقرار کرتے ہیں۔ مگر یہ تمام حضرت (ع) کو جلاوطن کرنے، قید کرنے، اذیت پہنچانے اور توہین کرنے میں متفق ہیں۔

احمد بن عبداﷲ خاقان جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ناصبی تھا وہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے بارے میں کہتا ہے۔ حضرت عسکری علیہ السلام عالم و عابد اور پرہیزگار

۱۵۵

شخص تھے۔ وقار و سکون کے حامل اور حیاء و شرافت کے حامل تھے۔ تمام خلفاء اور وزارء کے دلوں میں آپ کی ہیبت چھائی ہوئی تھی۔ لہذا ان کے ہاں آپ کی بڑی قدر ومنزلت تھی۔ ایک دفعہ میں اپنے والد کے پاس بیٹھا ہوا تھا جہاں خلیفہ کے وزیر اور دوسرے کارکن بھی موجود تھے کہ میرے والد کو خبر دی گئی کہ ابن الرضا علیہ السلام آگئے میرے والد نے ان کا استقبال کیا۔ اور بڑھ کر ان کے ہاتھ چوم لیے۔ انہیں اپنی جگہ پر بٹھایا اور ایک ادنی غلام کے طرح ان کے سامنے مودب ہو کر بیٹھ گئے۔ جب یہ بزرگوار چلے گئے تو میں نے اپنے پدر گرامی سے پوچھا کہ یہ بزرگ کون تھے؟ میرے والد نے کہا اس دنیا میں خلافت کا حقدار ان کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔ یہ ایک عالم، زاہد اور انسانی کمال کی صفات سے متصف ایک شخص ہے اور ایک کامل انسان کہا جاسکتا ہے اور ان کے پدر گرامی بھی ان ہی صفات کے حامل تھے۔ دشمنوں سے اس قسم کی اعتراضات کی مثالیں عام ہیں۔ لیکن صرف الفاظ کی حد تک ،جس کا کوئی قائد نہیں۔

آپ(ع) کے فضائل جن کے دشمن بھی معترف ہیں۔ اپنے اور بیگانے سب اس کا اعتراف کرتے ہیں اور آپ کا جلال و ہیبت ہے ۔ اگرچہ تاریخ مذکور ہے کہ تمام ائمہ معصومین علیہم السلام ایک خاص جلال کے مالک تھے جیسا کہ فرذق نے حضرت امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں کہا کہ “ کثرت حیا سے آپ سرجھکائے رہتے ہیں مگر لوگ آپ (ع) کی ہیبت کی وجہ سے آپ کی طرف نظر نہٰیں اٹھاسکتے اور لوگ اسی وقت آپ(ع) کے ساتھ کلام کرنے کی جرات کرتے ہیں جب آپ(ع) مسکرا رہے ہوں۔”

اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں اسی سے ملتا جلتا واقعہ گزرا۔ لیکن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ایک خاص غیر معمولی ہبیت اور

۱۵۶

 جلال کے مالک تھے۔ اور تمام خلفاء ان کے وزراء اور تمام کارکنوں کے دل پر آپ کی ہیبت چھائی ہوئی تھی۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام الہی ہیبت وجلال کے مظہر تھے۔ اہل بیت علیہم السلام کی بیبت و جلال کا نمونہ تھے۔ اسلام کے جلال کے مصداق تھے اور ایک انسان کامل کی ہیبت کا نمونہ تھے۔ آپ (ع) تمام لوگوں کے لیے نمونہ عمل تھے۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اگر ہم اپنا رابطہ خداوند عالم کے ساتھ قائم رکھیں گے تو خدائی جلال و ہیبت کے مالک ہوسکتے ہیں۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے بارے میں کہا گیا ہے جس وقت آپ کے پدر گرامی نے وفات پائی تو اس وقت خلیفہ کے تمام درباری خلیفہ زادے ، ولی عہد اور بڑے سرکردہ لوگ بنی ہاشم کے بزرگ اور شیعہ زعماء اور بنی عباس کے چیدہ چیدہ لوگ موجود تھے کہ آسمان ولایت کے ماہتاب حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام پریشان حال آگئے آپ کو آتا دیکھ کر سب لوگ بے اختیار اٹھ کھڑے ہوئے جب آپ (ع) بیٹھ گئے تو سب آپ (ع) کے سامنے مودب بیٹھ گئے۔ اور بالکل سناٹا چھا گیا۔ جبکہ آپ(ع) کے آنے سے پہلے شور وغل برپا تھا۔ محض آپ(ع) کے آنے سے خاموشی چھا گئی یہاں تک کہ جنازہ تیار ہوا اور جنازے کے ساتھ سب چلے گئے۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت

مورخین نے لکھا ہے کہ معتمد عباسی نے آپ کو زہر دیا اور اپنے چند قریبی افراد خواص کو آپ(ع) کے دولت خانے میں مقرر کیا تاکہ راز افشا نہ ہونے پائے ان کے اس خوف سے ہی اندازہ ہوتا ہے ک عوام کے اندر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی کیا حیثیت تھی۔

جب آپ(ع) کی شہادت ہوئی تو سامرہ میں ایک قیامت برپا ہوئی۔ خلیفہ وقت سے

۱۵۷

لے کر ایک عام آدمی تک سب جنازے میں شریک ہوئے۔ نماز کے وقت ابو عیسی جو دربار کا قاضی تھا  آگے بڑھا اور بنی ہاشم کے تمام بزرگوں، امیروں ، وزیروں ، ججوں اور اشراف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام قضائے الہی سے فوت ہوئے ہیں۔ گویا اس طرح وہ آپ کے قتل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے تھے۔ اسی طرح کا سلوک خلافت کے ساتھ کرچکے تھے۔ ایک جملہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے اس کا مصداق ہے۔ امام(ع) نے فرمایا۔ “ اگر ان کے گرد لوگوں کا ہجوم جمع نہ ہوتا تو بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم اور استحصال حکمرانی نہ تو کمزوروں اور غریبوں پر ظلم کرسکتے۔ اور نہ تو اہل بیت علیہم السلام کے حقوق کو غصب کرسکتے۔”

آپ کا غلام کہتا ہے ۲۶۰ ہجری ۸ ربیع الثانی جمعہ کے دن صبح اذان کے وقت آپ نے شہادت پائی اس میں میرے اور حضرت بقیة اﷲ کی والدہ محترمہ کےسوا اور کوئی موجود نہیں تھا آپ نے اپنے صاحبزادے کو بلایا اور حکم فرمایا کہ وضو کراؤ انہوں نے ایک تولیہ ان کے دامن پر پھیلا دیا اور آپ کو وضو کرایا تب آپ(ع) نےصبح کی نماز ادا کی اور اس دنیا سے عالم قدس کی طرف کوچ فرما گئے۔

“و سلام عليه يوم‏ ولد ويوم التشهد و يوم يبعث حيّا” حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ے بعض خاص صحابہ بھی تھے جو ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بالکل قریب تھے اور حضرت بقیة اﷲ ارواحنا لہ الفدء کے وکلا بھی آپ (ع) کے خاص صحابہ میں سے تھے۔ آپ کے صحابہ میں سے اسحاق اشعری قمی ہے۔ جو آپ (ع) کے وکلا میں سے ایک تھا۔ قم میں مسجد امام حسن عسکری علیہ السلام انہی کے ہاتھوں امام (ع) کے حکم سے تعمیر ہوئی ہے۔ یہ ہستی اس قدر مرتبہ کی حامل ہے کہ سعد بن عبداﷲ جو بزرگان شیعہ میں سے ہیں کہتے ہیں۔ “ احمد بن اسحاق نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے ایک کفن مانگا

۱۵۸

آپ(ع) نے فرمایا تمہیں ملے گا۔ جب ہم امام (ع) سے رخصت ہوئے  تو کرمانشاہ کے قریب پہنچ کر انہیں تب لاحق ہوا۔ رات کے آخری پہر انہوں نے کہا کہ ہم انہیں تنہا چھوڑ دیں اور جب صبح کو ہم نے آپ کے غلام سے ملاقات کی تو انہوں نے تعزیت کی اور کہا کہ ہم احمد کے غسل و کفن سے فارغ ہوئے ہیں۔ آئیے اور آکر انہیں دفن کریں۔ چونکہ یہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے نزدیک بڑا تقرب رکھتے تھے اور خدا کے ہاں بھی انکا بڑا مرتبہ تھا۔ ہمارے درمیان سے غائب ہوئے۔

آپ (ع) کے ارشادات

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کےبہت سے ارشادات ہیں جن میں سے صرف چند ایک کے ذکر پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔ امید ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے باعث سعادت ہوں گے۔

“اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا لَنَا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا لَنَا شَيْناً اجلبُولنَا کل الموده وَ ادْفَعُوا عَنَّا كُلَّ قَبِيحٍ”

“ اﷲ سے تقوی اختیار کرو اور ہم اہل بیت علیہم السلام کے لیے زینت کا باعث بنو اور ہمارے لیے ننگ و عار کا باعث مت بنو۔ لوگوں کی محبت و مودت کو ہماری طرف متوجہ کرو اور ہر برائی اور قباحت کو ہم سے دور کرو۔”

ان جیسے کلمات دوسرے ائمہ کرام علیہم السلام سے بھی مروی ہیں جیسے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا۔

“و كونوا دعاة إلى الاسلام بغير ألسنتكم”

“ لوگوں کو اﷲ کی طرف اپنے اعمال کے ذریعے دعوت دو۔”

 “خَصْلَتَانِ لَيْسَ فَوْقَهُمَا شَيْ‏ءٌ الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَ نَفْعُ‏ الْإِخْوَانِ‏.”

“ دو صفتین ایسی ہیں کہ جس سے اوپر اور کوئی خوبی نہیں خداوند عالم پر ایمان

۱۵۹

 رکھنا اور دوسرے مومن بھائیوں کو فائدہ پہنچانا۔”

واقعا اگر ایک انسان ان دو صفات کا حامل ہو تو گویا اس کے پاس تمام خوبیاں ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے خدا سے محکم رابطہ پیدا کرے اور ایمان کا حامل ہو یعنی اس کا ایمان اسے معاصی سے دور رکھے اور اچھائیوں کی طرف رغبت دلا دے اور اﷲ کے بندوں کے ساتھ بھی رابطہ محکم ہو اور اس کی زندگی کا مقصد دوسروں کی خدمت کرنا ہو، دوسروں کی خدمت کر کے لذت ملتی ہو۔ تو ایسے شخص نے دونوں جہاںوں کی سعادت اپنے لیے حاصل کی ہے۔

“مَا أَقْبَحَ‏ بِالْمُؤْمِنِ‏ أَنْ تَكُونَ لَهُ رَغْبَةٌ تُذِلُّهُ.”

“ ایک مومن کے لیے کتنا ہی باعث ننگ ہے کہ ایسی خواہشات کے پیچھے پڑے جو اسے ذلیل کریں۔”

  “مَنْ‏ كَانَ‏ الْوَرَعُ‏ سَجِيَّتَهُ، وَ الْإِفْضَالُ جَنِيَّتَهُ، انْتَصَرَ مِنْ أَعْدَائِهِ بِحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ، وَ تَحَصَّنَ بِالذِّكْرِ الْجَمِيلِ مِنْ وُصُولِ نَقْصٍ إِلَيْهِ.”

“ جو شخص پر ہیز گاری کو پیشہ بنائے کرم و سخاوت جس کا زیور ہو دشمن بھی اس کی مدد کرتا ہے اس کی تعریف کرتا ہے اور برائی کے ساتھ اسے یاد نہیں کرتا ۔ گویا آپ فرماتے ہیں کہ تقوی اور سخاوت ایک بنیادی اثر کے حامل ہیں یعنی کہ دشمن نہ جانتے ہوئے بھی اس کی تعریف کرتا ہے اور اس کی برائی بیان کرنے سے پر ہیز کرتا ہے۔”

“مَنْ‏ رَكِبَ‏ ظَهْرَ الْبَاطِلِ نَزَلَ بِهِ دَارَ النَّدَامَةِ. ”

“ جو کوئی باطل کی سواری اختیار کرے گا اس کی سواری اسے پشیمانی کے گھر میں اتارے گی۔”

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191