اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ0%

اسلام کے محافظ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 191

اسلام کے محافظ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیۃ اللہ حسین مظاہری
زمرہ جات: صفحے: 191
مشاہدے: 65849
ڈاؤنلوڈ: 3584

تبصرے:

اسلام کے محافظ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 191 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65849 / ڈاؤنلوڈ: 3584
سائز سائز سائز
اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حضرت امام مہدی عجل اﷲ تعالی فرجہ الشریف

حضرت صاحب العصر والزمان(عج) کے بارے میں یہ بحث ایک مقدمہ اور چھ فصول پر مشتمل ہے مقدمہ تین مطالب پر مبنی ہے۔ آپ(عج) کے فضائل ، امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا واقعہ خرق عادت ہے، آپ کے وجود مقدس کا ثبوت اور فصول میں سے پہلی فصل ولادت سے غیبت کبری تک، 2۔ غیبت کے فوائد۔ 3۔ طول عمر ظہور کیفیت۔ 4۔ آپ کی حکومت کا طریق کار۔ 5۔ ظہور کا انتظار اور انتظار کے معنی۔

مقدمہ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ

“ وَ الْعَصْرِ إِنَ‏ الْإِنْسانَ‏ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ‏ وَ تَواصَوْا بِالْحَقِ‏ وَ تَواصَوْا بِالصَّبْرِ”

اس مسئلے پر اختلاف ہے کہ پروردگار عالم نے “ والعصر” کے جملے سے کیا مراد لیا ہے۔ اور یہ عصر ( زمانہ) جس کی رب العالمین نے قسم کھائی ہے کون سا ہے؟ اور کیا ہے؟ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اس سے مراد نماز عصر ہے۔ کیونکہ نماز کو اسلام میں ایک خاص مقام حاصل ہے اور خاص طور سے نماز عصر جو نماز وسطیٰ بھی کہلاتی ہے ۔ قرآن کریم میں اسے بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں اسی مطلب کی تائید میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں۔

بعض دوسرے مفسرین کا کہنا ہے کہ اس سے مراد رسول اﷲ(ص) کا زمانہ ہے۔

۱۶۱

 وہ اس طرح کہ ہر بڑی ہستی کے ساتھ ایک دن منسوب ہے تو رسول اکرم(ص) کا بھی ایک زمانہ اور اس کا بھی ایک دن تھا۔ وہی دن حضور اکرم (ص) کا دن ہے جس دن دختر کشی کی رسم حجاز کی سرزمین سے ختم کی وہی دن پیغمبر اکرم(ص) کا دن ہے ۔ ایک ایسا دن جو رحمت و مہربانی کا دن ہے وہی دن جس میں لطف و کرم اور مہربانی نے ظلم شقاوت اور قساوت قلبی کی جگہ لے لی۔ اسی دن بتوں کی جگہ اﷲ اکبر کی تسبیح بلند ہونے لگیں اور شرک کی جگہ توحید نے لے لی۔ اور جس دن خانہ خدا میں بت توڑے جارہے تھے تو وہ رسول اﷲ (ص) کا دن تھا۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ عصر سے مراد حضرت بقیة اﷲ مراد ہیں کیونکہ آپ بھی رسول اکرم(ص) کی مانند دنوں کے مالک ہیں۔ عدالت کے پر چار کا دن، دنیا سے ظلم کو دور کرنے کا دن ، روئے زمین پر توحید کا پرچم بلند کرنے کا دن، کمزوروں کو طاقت دینے کا دن، استحصالی طاقتوں ، ملحدوں اور مشرکوں کی سرکوبی کرنے کا دن، اور دنیا میں قوانین اسلامی کے برپا کرنے کا دن۔

ایک اور قول بھی ہے اور وہ یہ کہ عصر سے مراد نچوڑنے کا دن کیونکہ عصر کے معنی نچوڑنے کے ہیں اور تمام سعادتیں دباؤ کے تلے پوشیدہ ہیں بلکہ اسی کے مرہون منت ہیں۔ اگر موجود موجد کہلاتا ہے تو صبر کے مرہون منت ہے اور اگر کوئی عالم عالم بنتا ہے تو اسی فطرت کے تحت بنتا ہے۔ اگر حضور اکرم (ص) نے بھی دنیا میں اسلام کا پرچم بلند کیا ہے بے پناہ مصائب اور آلام کو جھیل کر۔ اور اگر انسان بھی نقصان سے نجات پاتا ہے تو قبول ایمان ، عمل صالح ،حق کی وصیت اور صبر مصیبت کی بناء پر۔ لیکن ہمیں اس سے بھی برتر اور بلند معانی جو نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں کہ دنیا کا نچوڑ عالم خلقت ہے اور عالم خلقت کا نچوڑ حضرت بقیة اﷲ ارواحنا لہ الفداء کا وجود مقدس ہے۔ کیونکہ آپ (عج) نبیوں کا ودیعت کیا ہوا سربستہ راز ہیں۔ جیسے کہ دعاؤں اور

۱۶۲

زیارات کی عبارتوں سے ظاہر ہے۔

ہم حضرت مہدی ارواحنا لہ الفداء کے فضائل کے بیان میں اسی قدر پر اکتفاء کرتے ہیں۔ جو کچھ بیان ہوا ۔ اس کی روشنی میں آپ کی ذات اقدس آنچہ خوبان ہمہ دارند تو تنہا داری کے مصداق ہے۔ شاید اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا ہے۔  “ معراج کی رات میں نے بارہ انوار کی ساق عرش پر دیکھا ان میں سے بارہواں نور ان کے درمیان اس طرح تھا جیسے ستارون کے درمیان چاند دمکتا ہو۔

2ـ حضرت مہدی عجل اﷲ تعالی فرجہ الشریف کا وجود مبارک ایک معجزے سے کم نہیں اس قسم کے خارق عادت و صفات دینا میں بہت ملتے ہیں ہمیں حضرت مہدی علیہ السلام کے واقعے کو ایک عام واقعہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جس کی توجیہ و تفسیر کی جاسکے۔ قرآن کریم بھی خارق عادت واقعات بہت بیان کرتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہہ دے کہ ہم حضرت بقیة اﷲ کے وجود کو صرف اس لیے قبول کرتے ہیں کہ قرآن میں اس قسم کے واقعات ملتے ہیں اور اس واقعے کو بھی ان پر قیاس کیا جائے تو یہ کچھ  بعید نہیں۔ قرآن کریم حضرت عیسی علیہ السلام کے واقعے کو نقل کرتا ہے کہ آپ نے گہوارے میں لوگوں سے یوں کہا۔

“ بے شک میں اﷲ کا بندوں ہوں اﷲ نے مجھے کتاب وی مجھے نبی بنایا اور میں جہاں کہیں بھی ہوں مجھے مبارک قرار دیا مجھے زندگی بھر نماز قائم کرنے اور زکوة ادا کرنے کی وصیت کی اور یہ کہ اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کروں۔ مجھے ظالم اور بد بخت خلق نہیں کیا۔ درود ہو مجھ پر اس دن جب پیدا ہو جاؤں، اس دن جب مرجاؤں اور اس دن جب دوبارہ زندہ ہو کر مبعوث کیا جاؤں۔”

اگر ہم حضرت مہدی عجل اﷲ فرجہ الشریف کے معاملے میں بھی یہ کہہ دیں کہ انہوں نے پیدا ہوتے ہی قرآن پڑھا، حالت طفلی میں بھی امام علیہ  السلام تھے تو دل تنگ کرنے والی بات نہیں کی جب کہ

۱۶۳

 ہم جانتے ہیں کہ اس کی مثالیں عالم خلقت میں بہت زیادہ موجود ہیں۔

قرآن کریم حضرت یونس علیہ السلام کے قصے کو نقل کرتا ہے اور آخر میں آپ کے بارےمیں فرماتا ہے۔

“فَلَوْ لا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلى‏ يَوْمِ‏ يُبْعَثُونَ‏”

“ اگر وہ تسبیح کرنے والوں سے نہ ہوتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔” یعنی حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں قیامت تک رہتے ۔ جب قرآن یہ کہتا ہے تو ہمیں امام زمانہ عجل اﷲ تعالی فرجہ الشریف کی ہزار سال ، دو ہزار سال یا اس سے زیادہ عمر پانے پر تعجب نہیں کرنا چاہئے۔

رب العالمین جو یونس (ع) کو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھ سکتا ہے اگر اپنے ولی کو دنیا میں اپنے تحفظ میں زندہ رکھے تو وہ اس پر قادر ہے۔ قرآن ہاتھی والوں کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے آخر مٰیں کہتا ہے“فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ‏” ابابیل نے ہاتھی والوں کو کھائے جانے والے بھوسے کی مانند کردیا تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ حضرت بقیة اﷲ فرجہ الشریف بھی غیبی امداد کے ذریعے  ہی دنیا جہاں پر غلبہ حاصل کرسکیں گے۔

3۔ اسلام میں حضرت مہدی عجل اﷲ تعالی فرجہ الشریف کے واقعے سے بڑھ کر مشہور واقعہ شاید ہی کوئی ہو۔ صدر اسلام میں بھی حضرت مہدی (عج) کا واقعہ واضح، غیر معمولی اور حتمی واقع رہا ہے۔ علامہ مجلسی بحار الانوار کے تیرہویں جلد میں پچاس سے زیادہ آیات کو حضرت مہدی (عج) کی شان میں ثابت کرتے ہیں۔ شیعہ اور سنی روایوں نے دس ہزار سے زیادہ احادیث حضرت مہدی (عج) کے بارے میں روایت کی ہیں۔ پیغمبر اکرم (ص) اور تمام ائمہ کرام علیہم السلام نے حضرت مہدی(عج) کی صفت یوں بیان فرمائی ہے۔

“به‏ يملا اللّه‏ الأرض قسطا و عدلا بعد ما ملئت ظلما و جورا”

“ ان کے ذریعے

۱۶۴

خدا وند عالم روئے زمین کو اسی طرح عدل و اںصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے پر ہوگی۔”

یہ روایت قطعی اور متواتر ہے کیونکہ تین سو سے زیادہ روایات میں یہ جملہ موجود ہے وہ افراد جو غیبت سے پہلے اور بعد میں آپ تک پہنچے ہیں ان کی تعداد کچھ کم نہیں اور یہ کوئی معمولی لوگ بھی نہیں تھے اگر ان کا انکار ہوسکتا ہے تو پھر اسلام کے وجود کا انکار کرنا بھی آسان ہے کہ نہ تو کوئی پیغمبر آیا اور نہ کوئی  دین اسلام لے کر آیا۔

کوئی بھی مسلمان چاہے سنی ہو یا شیعہ ہو، کو اس بات سے انکار نہیں ہے کہ حضرت مہدی(عج) کے واقعے کی خبر سرکار خاتم الانبیاء (ص) نے دی ہے ۔ اور آپ ہی تمام روئے زمین پر اسلام کے پرچم کو بلند کریں گے۔ اور سارے عالم کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔

اگر کسی نے انکار کیا ہے تو صرف ابن خلدون ہے جس نے اپنی تاریخ کے مقدمے میں اس کا انکار کیا ہے۔ انہوں نے بھی اپنی تاریخ میں اس کا اعتراف کیا ہے صرف مقدمے میں انکار کیا ہے جس کے سیاسی اسباب ہیں کیونکہ انہوں نے فاطمیین کے مقابل میں انکار کیا ہے جنہوں نے مہدویت کا دعوی کیا تھا۔

پہلی فصل ولادت سے غیبت کبری تک

آپ (عج) کی ولادت جمعہ کی رات اذان فجر کے قریب بتاریخ 15 شعبان 255 ہجری کو ہوئی۔ 255 کا عدد حروف ابجد کی رو سے لفظ “ نور” کے برابر ہے آپ کی والدہ گرامی کا نام نرگس تھا۔ جو روم کے بادشاہ کی بیٹی تھیں۔ جسے تقدیر کے ہاتھوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام تک پہنچایا تھا۔

حکیمہ خاتون حضرت جواد علیہ السلام کی دختر امام حسن عسکری کی پھوپھی  فرماتی ہیں کہ شعبان کی چودہ تاریخ کو میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی ہاں تھی ۔ حضرت نے مجھ

۱۶۵

 سے فرمایا آج رات آپ ہمارے یہاں ٹھہریں خدا ہمیں ایک فرزند سے نوازے گا۔ چونکہ میں نے نرگس میں حمل کے کوئی آثات نہیں پائے اس لیے تعجب کیا۔ مگر رات وہی گزاری رات کے آخری پہر نرگس کے ساتھ ہی اٹھ کر نماز شب ادا کی۔ فجر کے نزدیک میرے دل میں خیال آیا حضرت (ع) نے جو کچھ فرمایا تھا اس کا کیا ہوا؟ اتنے میں آپ(ع) نے دوسرے کمرے سے آواز دی پھوپھی اماں ! خدا وعدہ قریب ہوا چاہتا ہے۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ حضرت نرجس میں درد زہ کے آثار ظاہر ہونے لگے میں نے انہیں سہارا دیا اور ایک ماہ پارہ دنیا میں آیا اور سجدے میں گر کر انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھا کر شہادتیں پڑھا اور ائمہ کرام علیہم السلام کے اسماء کا ورد کرنے لگا۔ نیز فرمایا “ اے خدا میرا وعدہ پورا فرما اور جو کام میرے ذمے کیا ہے اسے کمال تک پہونچا۔ جو کچھ فرمایا ہے اسے ثابت فرما اور میرے ہی ہاتھوں دنیا کو عدل و انصاف سے پر فرما۔”

میں نے دیکھا کہ آپ کے دائیں ہاتھ پر لکھا ہوا تھا۔

“جاءَ الْحَقُ‏ وَ زَهَقَ‏ الْباطِلُ إِنَّ الْباطِلَ كانَ زَهُوقاً.”

“ حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل مٹنے کی چیز ہے۔”

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا “ میرا نور نظر مجھے دے دو” میں نے بچے کو آپ (ع) کی خدمت میں پہنچایا آپ نے ہاتھ میں لے کر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

“وَ نُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ‏ الْوارِثِينَ‏. وَ نُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَ نُرِيَ فِرْعَوْنَ وَ هامانَ وَ جُنُودَهُما مِنْهُمْ ما كانُوا يَحْذَرُونَ‏”

“ ہمارا ارادہ یہی ہے کہ ہم روئے زمین میں کمزوروں پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور انہویں روئے زمین کا وارث قرار دیں فرعون و ہامان اور ان کے لشکر والوں کو وہی دکھا دیں جس سے وہ ڈرتے ہیں۔”

۱۶۶

گویا اس آیت شریفہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ خداوند عالم کا دستور یہ رہا ہے کہ فرعون اور فرعون صفت لوگ مظلوم عوام کے ہاتھوں نابود ہوتے ہیں اور نابود ہوں گے اور آخر کار کمزوروں کے تابع ہوجائیں گے اور ظالم اپنے ٹھکانوں میں پہنچیں گے ہمیں اس تاریخی واقعے کو بعید ازعقل نہیں سمجھنا چاہئے اس کی جڑیں قرآن میں مضبوطی کےساتھ جمی ہوئی ہیں۔

جیسا کہ مقدمہ میں ذکر ہوا کہ حضرت بقیہ اﷲ پانچ سال تک اپنے پدر بزرگوار کے زیر سایہ رہے اور اس دوران جس قدر بھی ممکن تھا آپ کی معرفت کرادی۔

محمد بن معاویہ ۔ محمد بن ایوب اور محمد بن عثمان جو عظیم شیعہ علماء میں سے ہیں۔ نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے ہم سے آپ کا تعارف کرا دیا ہم چالیس افراد تھے اور فرمایا ۔“هذا إمامكم‏ بعدي‏ فلا تتفرقوا میرے بعد یہ تمہارا امام(ع) ہے اس کی اطاعت کرو اور تفرقہ کا شکار مت ہوجاؤ کہ اس میں ہلاکت ہے۔” سعد بن عبداﷲ ایک عظیم شیعہ عالم ہیں کہتے ہیں کہ میں نے چالیس مشکل مسئلے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں لکھے اور آپ کے وکیل احمد بن اسحاق کے پاس لے گیا کہ امام(ع) کی خدمت میں پہنچا دے اور جواب لے آئے احمد بن اسحاق نے کہا تم خود میرےساتھ آؤ دونوں امام(ع) کی خدمت میں جائیں گے۔ ہم دونوں امام(ع) کے حضور پہونچے تو دیکھا کہ حضرت بقیة اﷲ بھی وہاں موجود تھے۔ وجوہ شرعی کے ایک سو ساٹھ تھیلے وہاں رکھے ہوئے تھے۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا بیٹے ان تھیلوں میں سے حلال اور حرام ، اچھے اور برے کو الگ کرو آپ نے تشریف لا کر ان تھیلوں میں سے ہر ایک کے مالک کا نام بتایا اور ہر تھیلے میں موجود رقم کی تعداد کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ کون سا مال حلال کا ہے اور کون سا حرام اور اس کے بعد میرے تمام سوالات کے جواب میرے پوچھنے سے پہلے ہی دے دیئے۔

۱۶۷

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد امامت کا منصب حضرت بقیة اﷲ کو ملا۔ اور آپ دشمنوں سے لاحق خوف کی بنا پر غیبت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ لیکن اپنی غیبت کے ابتدائی 74 سالوں میں شیعوں کے خاص علماء سے ملاقات کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ملاقات کا یہ سلسلہ یا تو حضوری تھا، یا خط و کتابت کے ذریعے تھا۔ یا آپ کے وکیلوں کے ذریعے تھا۔

ان 74 سالوں کےدوران آپ(ع) کی طرف سے چار افراد وکالت کے منصب پر فائز تھے آپ کی اکثر امور ان کے ذریعے ہی بجالاتے تھے یہ چار افراد ، عثمان بن سعید، محمد بن عثمان، حسین بن روح اور محمد بن سمری ہیں۔ یہ چاروں افراد ائمہ علیہم السلام کے ہاں معتمد اور شیعوں کے برگزیدہ علماء میں سے ہیں۔

74 سال کے بعد ایک خط امام (ع) کی طرف سے حضرت محمد بن سمری کو آیا جس میں آپ(ع) نے فرمایا تھا“ چند دن ے اندر تم کو مرنا ہے نیابت خاصہ کا دور ختم ہوا اور اس کے بعد غیبت کبری کا زمانہ شروع ہوگا۔ 74 سال کے عرصے کو غیبت صغری کہتے ہیں چونکہ امت اسلامی کی حکومت معطل نہیں ہونی چاہئے۔ لہذا حکومت کی باگ ڈور  مجتہد جامع الشرائط کے سپرد کی ہے اور ایک توقیع میں جو آپ نے حجة الاسلام یعقوب کلینی کو لکھا تھا جسے شیخ اور سید دونوں نے کتب اربعہ میں نقل کیا ہے اس میں ایسا لکھا ہوا ہے۔

“وَ أَمَّا الْحَوَادِثُ‏ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِيهَا إِلَى رُوَاةِ حَدِيثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ”

“ نئے پیش آنے والے واقعات میں ہماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو کیونکہ میں اﷲ کی طرف سے حجت ہوں اور وہ ہماری طرف سے تم پر حجت ہیں۔”

۱۶۸

اس روایت کی مانند ایک اور روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی مروی ہے۔ کہ جب امام معصوم (ع) موجود نہ ہو تو حکومت اسلامی کو مجتہد جامع الشرائط کے حوالے کیا ہے۔

ولایت فقیہہ کی بحث ایک تفصیلی اور نہایت اہم بحث ہے۔جس پر ہم نے “ اقتصادی نظاموں کا موازنہ ” نامی کتاب میں گفتگو کی ہے۔

در اصل غیبت ایک الہی راز ہے جب ائمہ معصومین علیہم السلام سے غیبت کے بارےمیں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ غٰیبت خدا کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ غیبت کا واقعہ حضرت موسی علیہ السلام اور خضر(ع) کے واقعے جیسا ہے اور موسی علیہ السلام کے لیے تربیت دیئے گئے درس کے مکمل ہونے کے بعد حضرت خضر علیہ السلام کے کاموں کا راز معلوم ہوسکا۔ اسی طرح غیبت کا راز بھی حضرت مہدی (عج) کے ظہور کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا۔ اس لیے ہم غیبت کے راز پر بحث نہیں کرتے۔ البتہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت بقیہ اﷲ عالم ہستی پر نگہبان، موکل اور محافظ ہیں جیسے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

“وَ قُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى‏ اللَّهُ‏ عَمَلَكُمْ وَ رَسُولُهُ وَ الْمُؤْمِنُونَ‏”

“ کہہ دیجئے تم جو چاہو عمل بجا لاؤ اﷲ رسول(ص) اور مومنین اسے عنقریب دیکھیں گے۔”

حضرت مہدی علیہ السلام کی طرف سے ایک اور توقیع جو شیخ مفید علیہ الرحمہ کو بھیجی گئی تھی اس میں یوں ارشاد فرمایا ہے۔

“انّا غير مهملين لمراعاتكم‏ و لا ناسين لذكركم، و لولا ذلك لنزل بكم اللّأواء و اصطلمكم الاعداء”

“ بتحقیق ہم  نے تمہاری رعایت رکھنے سے ہاتھ نہیں اٹھایا ہے اور نہ تو

۱۶۹

 تمہاری یاد کو بھولے ہیں اگر ایسا ہوتا تو دشمن تمہیں نابود کر چکا ہوتا۔”

آپ(عج) کی ذات اقدس عالم ہستی کے لیے فیض کا سبب ہے اور ائمہ کرام علیہم السلام کا عالم ہستی کے لیے فیض کا باعث ہونا ثابت ہے یہ روایات حضور اکرم(ص) ، امام جعفر صادق(ع)، اور حضرت بقیہ اﷲ سے مروی ہیں۔ اب سوال کیا جاتا ہے کہ ایک غائب امام(ع) کا فائدہ عالم ہستی کے لیے کیا ہے ؟ آپ جواب میں فرماتے ہیں غائب امام (ع) اس سورج کی مانند ہےجو بادلوں میں چھپا ہوا ہو۔ جس طرح بادلوں میں چھپے ہوئے سورج کے فائدے سے انکار نہیں کیا جاسکتا اسی طرح غائب امام (ع) کے فائدے سے بھی انکار نہیں کیا کرسکتے۔

اس قسم کی روایت کی وضاحت میں کہا جا سکتا ہے کہ دینا کی تمام اشیاء میں ایٹم سے لے کہکشان تک سب کے لیے ایک مرکز اور محور ضروری ہے۔ پروردگار عالم نے ایٹم کے ہر دانہ کےلیے  ایک مرکز اور محور قرار دیا ہے اور اس ایٹم کی زندگی اور بقا کو اس کے اس محور میں رکھا ہے۔اور ایٹم کے مرکز کی زندگی اور بقاء کا دار و مدار اﷲ کی ذات ہے۔ ایٹم سے لے کر کہکشان تک کے نظام میں یہ قاعدہ و قانون موجود ہے اگر ایسا ہے تو استقراء کا قانوں یہ کہتا ہے کہ اگر اس دنیا کا ایک ایک جز محور اور مرکز رکھتا ہے تو سارے جہاں کا ایک محور اورمرکز بھی ہونا چاہئے۔ تاکہ دنیا اس سے وابستہ ہو اور وہ ذات  مقدس الہی سے وابستہ ہو۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت بقیہة اﷲ امام مہدی عجل اﷲ تعالی فرجہ شریف دنیا جہاں کے لیے محور و مرکز ہیں کہ دنیا ان سے وابستہ ہے اور وہ ساری دنیا عالم کےساتھ ذات الہی سے وابستہ ہیں۔

قدم سے مہدی (عج) دین کے زمین قائم ہے پانی پر                قرار کشتی دنیا کے لنگر ایسے ہوتے ہیں۔

۱۷۰

یہ معنی ان ہی روایات کے ہیں جن کمیں کہا گیا کہ امام زمان (عج) کی مثال بادلوں میں چھپے ہوئے سورج کی مانند ہے۔ ہم اگر چہ ابھی آفتاب امامت کے علم و فصل سے محروم ہیں۔ لیکن ہمارا وجود زمین و آسمان بلکہ سارے جہاں ہستی کا وجود ان سے وابستہ ہے۔ آپ کی زیارت میں ہم پڑھتے ہیں۔

“و بيمنه‏ رزق‏ الورى و بوجوه ثبتت الارض و السماء”

“ آپ کے وجود مقدس کے واسطے سے عالم ہستی کو فیض پہنچتا ہے اور اسی کے دم سے زمین و آسمان قائم ہیں۔

بہت زیادہ روایات میں آپ کے وصف میں یوں بیان ہوا ہے۔

“لو لا الحجّة لساخت‏ الارض‏ بأهلها”

“ اگر حجت خدا نہ ہوتے تو زمین اپنے باسیوں کے ساتھ غرق ہو کر نابود ہوجاتی۔”

زیارت جامعہ کبیرہ میں یوں مذکور ہے۔

“بكم‏ فتح‏ اللَّه‏ و بكم يحتم و بكم ينزل الغيث و بكم‏ يُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ‏ إلا بإذنه و بكم ينفس الهم و بكم يكشف الضر”

“ عالم ہستی کے وجود کی ابتداء سے لے کر انتہا تک تمہارے ذریعے سے ہی رحمت کی بارش برستی ہے۔ زمین و آسمان تمہارے دم سے قائم ہیں۔ اور پریشانیاں اور غم و الم آپ لوگوں کی برکت سے ہی دور ہوتے ہیں۔”

ان فوائد سے گزر کر آگے بڑھیں تو فکری اور سیاسی بلوغت کے لیے زمانہ غیبت ہی میدان فراہم کرتا ہے اگر غیبت نہ ہو ظہور کس بات کا ۔ اس نکتے کی وضاحت انشاء اﷲ بعد میں کی جائے گی۔

طول عمر

بیالوجی کے ماہرین کہتے ہیں کہ موت اور زندگی دو عارضی چیزیں ہیں اور انہیں

۱۷۱

دنیا سےاٹھایا جاسکتا ہے انہوں نے اپنےتجربوں سے اسے ثابت بھی کیا ہے انہوں نے یہ تجربے بعض قسم کی گھاس اور مختلف حیوانات پر کئے ہیں۔

چودہ دنوں تک قائم رہنے والی ایک گھاس کی عمر بڑھا کر چھ سال تک پہنچائی گئی ہے۔

اس طرح بعض حیوانات کی عمر بڑھا کر نو گنا کردی گئی ہے۔ گندم کا ایک دانہ جسے مصر میں دریافت کیا گیا ہے اس کی عمر چار ہزار سال کی ہے۔ اس کی کاشت کی گئی ہے اور وہ اس وقت سبز ہوچکا ہے۔ چونکہ وہ خوشے میں تھا لہذا اپنی عمر اتنی زیادہ کرسکا ہے۔ تناسب کا قانون ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر حفاظت کی جائے تو کسی بھی حیوان کی عمر نو گنا کی جاسکتی ہے۔ اس طرح انسان جس کی طبعی عمر سو سال ہے اسے کئی ہزار سال تک بڑھا سکتے ہیں۔ اور یہ نکتہ بھی قرآن کریم سےہی حاصل ہوتا ہے قرآن میں حضرت عزیر پیغمبر کے بارے میں ارشاد ہوا ہے۔

“أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلى‏ قَرْيَةٍ وَ هِيَ خاوِيَةٌ عَلى‏ عُرُوشِها قالَ أَنَّى يُحْيِي هذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِها فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قالَ كَمْ لَبِثْتَ قالَ لَبِثْتُ يَوْماً أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عامٍ فَانْظُرْ إِلى‏ طَعامِكَ وَ شَرابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَ انْظُرْ إِلى‏ حِمارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَ انْظُرْ إِلَى الْعِظامِ كَيْفَ نُنْشِزُها ثُمَّ نَكْسُوها لَحْماً فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ”

“ یا اس شخص کی طرح ( یعنی حضرت عزیر(ع)) جو ایک بستی میں سے گزرا تو دیکھا کہ بستی ( کے تمام گھر) اپنی چھتوں پر اوندھے گرے پڑے ہیں۔ اس نے کہا کہ یہ آبادی جو ہلاک ہوچکی ہے اسے اﷲ کس طرح زندہ کرے گا۔ بس خداوند عالم نے اسے موت دی اور وہ سو سال تک پڑا رہا پھر اسے مبعوث کیا اور پوچھا بتاؤ تم کتنی مدت پڑے رہے انہوں نے جواب دیا ایک یا چند گھنٹے۔ فرمایا نہیں بلکہ تم سو سال

۱۷۲

 پڑے رہے ہو۔ اب ذرہ اپنے کھانے پینے کو دیکھو میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی ساتھ ہی اپنے گدھے کو بھی دیکھو کہ اس کا ڈھانچہ تک بوسیدہ ہوچکا ہے اور ہم نے ایسا اس لیے کیا کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے ڈھانچے کو کس طرح اٹھا کر گوشت و پوست چڑھاتے ہیں۔ اس طرح جب حقیقت ان پر نمایاں ہوگئی تو انہوں نے کہا میں جانتا ہوں کہ اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔”

ان آیات کریمہ سے جو استفادہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ غذا اور پانی کی فطری عمر  جو سورج کےتلے صرف ایک دن کی عمر پاسکتے ہیں خداوند عالم کی حفاظت کے زیر اثر سو سال تک محفوظ رہ سکے ۔اس کی مد نظر رکھتے ہوئے قانوں تناسب کی رو سے انسان کی عمر لاکھوں سال تک پڑھ سکتی ہے۔ یہاں  یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہم اس کے مطالب یہاں پر صرف ذہن انسانی کو موضوع کے قریب لانےکے لیے بیان کرتے اور ہم صرف انہی پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں اور جس چیز پر ہم بھروسہ کرتے ہیں وہی ہے جسے مقدمے میں بیان کیا ہے۔

حضرت یونس (ع) بغیر خدا کی اجازت لیے اپنی قوم سے نکل کر گئے اور ایسا کرنا ایک پیغمبر کےلیے مناسب نہیں تھا۔ اسی بناء پر وہ مچھلی کےپیٹ میں قید ہوگئے۔ اور سات دن رات وہیں رہے۔ مچھلی کے پیٹ میں انہیں اپنی خطا کا احساس ہوا تو قرآن کے مطابق انہوں نے “أَنْ لا إِلهَ إِلَّا أَنْتَ- سُبْحانَكَ‏ إِنِّي‏ كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ‏” کا ورد جاری رکھا یہاں تک کہ سات دنوں کے بعد انہیں اس قید خانے سے نجات ملی۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر یونس (ع) نے توبہ نہ کی ہوتی تو قیامت تک یہیں پر رہتا۔

“فَلَوْ لا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلى‏ يَوْمِ‏ يُبْعَثُونَ‏”(صافات آیت 143)

۱۷۳

 “ وہ پروردگار جو اپنے پیغمبر کو مچھلی کے پیٹ میں سات دن رات تک بلکہ قیامت تک حفاظت سے رکھ سکتا ہے تو یہ بھی قدرت رکھتا ہے کہ اپنے ولی اپنے ودیعت کئے ہوئے راز کو اس دنیا میں رکھ کر حفاظت  کرسکتا ہے۔” (صافات آیت 143)

ایک اور نکتہ جو قرآن کریم سے مستفاہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک انسان کی طبعی عمر ہزار سال سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ قرآن حضرت نوح(ع) کے بارےمیں کہتا ہے۔

“ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ‏ عاماً”

“ نوح (ع) نے اپنی قوم کےدرمیان ساڑٕھے نو سوسال گزارے۔” ( عنکبوت آیت 16)

اور روایات میں ہے کہ آپ نے دو ہزار چار سو سال کی عمر پائی تھی۔ اور ساڑھے نو سو سال ان کی رسالت کی مدت ہے۔

خلاصہ یہ کہ حضرت بقیہ اﷲ کی عمر ایک طبعی معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک “ خارق عادت” چیز ہے جس کی مثالیں دنیا میں بہت ساری ہیں۔ دوسرے امام حضر امام حسن مجتبی علیہ السلا اسی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

“يُطِيلُ‏ اللَّهُ‏ عُمُرَهُ فِي غَيْبَتِهِ ثُمَّ يُظْهِرُهُ بِقُدْرَتِهِ فِي صُورَةِ شَابٍّ دُونَ أَرْبَعِينَ سَنَةًذَلِكَ لِيُعْلَمَ‏ أَنَّ اللَّهَ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ”

“ خدا اس کی عمر طویل کرے گا۔ اس کے بعد اپنی قدرت سے اسے ظاہر فرمائے گا۔ سارے عالم میں اسے غلبہ عطا کرے گا۔ چالیس سال سے کم عمر کا جوان ہوگا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ بے شک خداوند عالم ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔”

ظہور کی کیفیت اور طریق کار

جو کچھ روایات اور آیات سے استفادہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام

۱۷۴

 کا انقلاب تددیجی انقلاب نہیں بلکہ دفعی ہے۔ ہم روایات میں پڑھتے ہین کہ حضرت مہدی علیہ السلام کا انقلاب ایک ہی رات میں اختتام کو پہنچے گا۔ بعض روایات میں چھ دن کا ذکر ہے۔ یعنی ایک دن میں فتخ اور مکمل کنڑول چھ دن میں حاصل ہوگا۔

وراثت کا لفظ جو حضرت مہدی علیہ السلام کے بارےمیں میں استعمال ہوا ہے شاید اس میں یہی نکتہ پوشیدہ ہے جو مثال کے طور پر ۔

1- وَ نُرِيدُ أَنْ‏ نَمُنَ‏ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوارِثِينَ

2- وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ- أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُها عِبادِيَ‏ الصَّالِحُون

3- أَنَ‏ الْأَرْضَ‏ لِلَّهِ‏ يُورِثُها مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ وَ الْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ‏

4- وَ أَوْرَثْنَا الْقَوْمَ‏ الَّذِينَ كانُوا يُسْتَضْعَفُونَ- مَشارِقَ الْأَرْضِ وَ مَغارِبَهَا الَّتِي بارَكْنا فِيها

مندرجہ بالا چاروں آیات میں جو حضرت بقیہ اﷲ سے مربوط ہیں لفظ ارث استعمال ہوا ہے شاید اس میں یہ نکتہ مضمر ہو جیسا کہ وراثت اچانک اور مشقت برادشت کئے بغیر منتقل ہوتی ہے۔ اس طرح دنیا میں حضرت بقیہ اﷲ کی رہبری میں مومنین کا تسلط قائم ہوجائے گا۔

ان آیات میں ایک اور نکتہ مبھی ہے جسے بھولنا نہیں چاہیے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کا تسلط دنیا میں خدا کی  خواہش کےعین مطابق ہے۔ جیسا کہ دوسری بعض آیات میں بھی مذکور ہے کہ خدا کا ارادہ واقع ہونے والا ہے۔

یہ بات مسلم ہے کہ یہ اچانک برپا ہونے والے انقلاب کے لیے میدان فراہم ہونا ضروری ہے اور اس کی طلب اور میدان فراہم کرنا عوام کے ہاتھوں میں ہے اور یہ عوام ہی ہیں جو اس انقلاب کی صلاحیت اور استعداد رکھتے  ہیں ۔ روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ظالمون کے عوام پر ظلم زیادہ کرنے کی وجہ سے عوام میں خود

۱۷۵

 استعداد پیدا ہوتی ہے۔ جب استحصال طاقتیں عوام پر بے انتہا مظالم کریں گے۔

مولف کی رائے۔

اور دنیا ان کے ظلم سے پر ہوجائے گی۔ ظالمون سے نفرت اور عداوت مطلقہ کو قبول کرنے کی استعداد عوام میں پیدا ہوجائے گی اور جس وقت یہ مستعد مادہ دھما کہ خیز حد کو پہنچے گا تو عدالت مطلقہ سارے جہاں پر چھا جائے گی۔ بہت ساری روایات ، تقریبا تین سو سے زیادہ روایات موجود ہیں جو اس نکتے کی طرف اشارہ  کرتی ہیں۔ یہ روایات کہتی ہیں کہ جس وقت ساری دنیا میں ظلم وجور کا ددر دورہ ہوگا تو حضرت بقیہ اﷲ تشریف لائیں گے اور اسے اسی طرح انصاف عدالت سے بھر دیں گے جیسے کہ ظلم سے بھر چکی ہوگی۔

“و به‏ يملا اللّه‏ الأرض قسطا و عدلا بعد ما ملئت ظلما و جورا”گویا ان روایات کا مفہوم یوں ہے۔

آپ کم جو تشنگی آور بدست             بابجوشد آیت از بالا و پست

یہاں یہ نکتہ مد نظر رکھاجائے کہ ان آیات و روایات سے یہ بتانا مقصود نہیں کہ عوام ظالم اور مجرم بن جائیں گے اور حضرت بقیہ اﷲ آئیں گے تو عادل اور مومن بن جائین گے۔ علمی اعتبار سے یہ روایات حقیقی واقعہ نہیں بلکہ فطری اور طبعی واقعات کی روش پر ہیں۔ یہ روایات بیان کرتی ہیں کہ دنیا کے لوگ یعنی عوام اپنے ظالم حکمرانوں کے ظلم سے تنگ آئیںگے اور ظالم حکومتیں ظلم کی انتہا کریں گی تو عوام میں عدالت مطلقہ قبول کرنے کی صلاحیت خود بخود پیدا ہو جائے گی۔ اور عین اس وقت حق و عدالت اور فضیلت کی حکومت عوام پر حکم فرما ہوگی۔ اور عوام اپنی خواہش میلان اور رغبت کی بناء پر اسے قبول کریں گے۔

۱۷۶

میدان اور شرائط کا فراہم ہونا ایک عالمی انقلاب کے برپا ہونے کی بنیادی شرط ہے تمام انبیاء علیہم السلام اسی انقلاب کے لیے آئے ہیں اور جو کچھ اس انقلاب کے لیے وہ کرسکتے تھے کام کیا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔

“لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْمِيزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَ أَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَ مَنافِعُ لِلنَّاسِ”

“ بے شک ہم نے تمام ابنیاء (ع) کو معجزات کےساتھ بھیجا ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو اتارا تاکہ لوگ عدل و انصاف کے ساتھ بھیجا قیام کریں اور ہم نے لوہا بھی نازل کیا (اسلحہ) تاکہ انکار کرنے والے اسے قبول کریں اس میں شدید سختی اور لوگوں کےلیے بے پناہ فائدے  بھی موجود ہیں۔”

لیکن لوگوں میں ایک عالمی انقلاب کو برداشت کرنے کا میالان موجود نہیں تھا لہذا اس انقلاب سےبہرہ مند نہیں ہوسکے اور یہ عالمی انقلاب خداوند عالم کا طریقہ رہا ہے جس نے برپا ہونا ہے۔

“أَرْسَلَ‏ رَسُولَهُ‏ بِالْهُدى‏ وَ دِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ‏”

“ وہ وہی ہے جس نے اپنے رسولوں کو بھیجا ہدایت کے ساتھ اور دین حق کے ساتھ تاکہ یہ تمام ذہنوں پر غلبہ حاصل کرے۔ چاہے مشرکوں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔”( سورہ واقعہ آیت73)

جس چیز پر ہمیں توجہ دینی چاہیے وہ غلبہ کی کیفیت ہے ۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ غلبہ دو چیزوں کے ذریعہ سے ہے یہ سواری کیا ہے؟ اور کس طرح کہکشاؤں سے گزرے گی؟ اس کی رفتار جوبرق کی رفتار سےبہت زیادہ ہے کس طرح حاصل ہوگی؟ اس کا کچھ علم نہیں۔ البتہ جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت آصف بن برخیا

۱۷۷

جو کتاب کا تھوڑا سا علم رکھتے تھے۔ پلک جپکنے میں بلقیس کا تخت یمن سے شام خاضر کرسکے یعنی بجلی کی رفتار سے بھی پہلے حاضر کرسکے۔ تو جو ہستی پوری کتاب کا علم رکھتی ہے وہ آن واحد میں سارے جہاں کی سیر کرسکتی ہے۔ ساتوں آسمانوں تک رسائی حاصل کرسکتی ہے اسی طرح وہ ہستی ایک رات میں سارے عالم پر غٰلبہ حاصل کرسکے گی۔

امام زمانہ (عج) کی حکومت کا طریقہ

روایات و احادیث بلکہ آیات شریفہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی اروحنا لہ الفدا کی حکومت ایک با برکت اور مہربانی و فضیلت سے پر حکومت ہوگی۔ اور سو فیصد ایسی حکومت ہوگی جو انسانیت کےلیے مطلوب ہے۔ جب دنیا میں آپ کا تسلط قائم ہوجائے گا تو ساری دنیا میں حقیقت اور فضیلت پھیل جاے گی اور ہر قسم کی کمی اور نقص ختم ہوجائے گا۔ قرآن کے مطابق حضرت مہدی علیہ السلام کی حکومت یوں ہوگی۔

“وَعَدَ اللَّهُ‏ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ- لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِكَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ- وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى‏ لَهُمْ- وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً ”

“ خداوند عالم نےتم میں سے صاحبان ایمان اور شائستہ اعمال بجالانے والے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ انہیں زمین پر ( اپنا) خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ ان کے لیے ان کی دین کو مضبوط کرے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور اس کے بعد ان کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔” ( سورہ نور آیت 55)

۱۷۸

یہ خدا وعدہ ہے جو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ یہ خدا کا وعدہ ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام اور آپ کے حامیوں کے لیے خدا ک وعدہ شیعیان آل محمد(ص) کےساتھ خڈا کا وعدہ مومنین کےلیے خدا کا وعدہ ان نیک لوگوں کےساتھ جو اس کا انتظار کر رہے ہیں۔

جو کچھ آیات اور روایات سے“ حضرت مہدی علیہ السلام کی حکومت کی کیفیت کے بارے میں پتہ چلتا ہے اس میں سے بعض یہ ہیں باطل پر حق کا غلبہ، سارے عالم میں اسلام کا غلبہ، عدالت و فضیلت اور امن امان کا دن ، برکتوں اور نعمتوں کے ظہور کا دن، سب کےلیے علم کے ظہور کا دن، عقل کے ظہور کا دن، تہذیب نفس کا ظہور کا دن، انفرادی اور اجتماعی احتجاج کےختم ہونے کا دن، گناہوں اور فحشا کے ختم ہونے کا دن، آخر کار کمزوروں کے ظالموں پر غلبہ پانے کا دن، جس چیز کا بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سینکڑوں سے زیادہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکومت قیامت تک جاری رہے گی اور حضرت بقیہ اﷲ کے بعد آپ کے آبائے کرام (ع) دنیا میں آئیں گے اور عالمی حکومت کی ذمہ داری سنبھالیں گے اور بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت امیرالمومنین (ع) اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی حکومت بہت طویل ہوگی۔

کلام اہل شیعہ میں اس بحث کو “ رجعت” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہ ایک لمبی چوڑی بحث ہے خلاصہ یہ کہ حضرت امام مہدی عجل اﷲ تعالی فرجہ شریف کی حکومت کے بعد اس دنیا میں اہل بیت علیہم السلام کی حکومت قائم ہوگی۔ شیعوں کے عقیدے کے مطابق یہ ایک قطعی اور مسلم چیز ہے۔

۱۷۹

انتظار ظہور

ایک ایسا موضوع جو آیات اور روایات کی بناء پر قائم ہے جو بڑی اہمیت اور راز کا حامل ہے۔ ظہور منتظر کے انتظار کا موضوع ہے۔ ہماری روایات کے مطابق قرآن کریم کی آیت“انتظروا إِنِّي‏ مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ‏.” تم انتظار کرو میں بھی انتظار کرنے والوں میں ہوں۔”اور آیت“وَ ارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ‏ رَقِيبٌ‏” نظر رکھو ہم بھی نظریں گاڑے بیٹھے ہیں۔” دونوں آیات انتظار مہدی ارواحنا لہ الفداء پر تاویل کی گئی ہیں۔

ہماری احادیث میں “ انتظار فرج” کو بہترین اعمال مین شمار کیا گیا ہے۔ ظہور حجت کا انتظار کرنے والا اور مجاہد فی سبیل اﷲ اس شخص کی مانند ہیں جو اﷲ کے دین کی خاطر خاک و خون میں لوٹا ہو۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلام کا ارشاد ہے ۔

“الْمُنْتَظِرُ لِأَمْرِنَا كَالْمُتَشَحِّطِ بِدَمِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ”

“ ہماری حکومت کا انتظار کرنے والا ایسا ہے جیسے کہ اﷲ کی راہ میں خاک و خون میں لوٹا ہو۔”

سماجی علوم اور علم نفسیات کے نقطہ نظر کے مطابق بھی ظہور حجت کا انتظار ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سماجی علوم کے ایک ماہر نے کہا ہے کہ اگر شیعہ باقی رہ سکے تو انجام کار پوری دنیا پر حکومت کریں گے۔ یہ اسی ظہور حجت کے انتظار پر دلالت ہے۔

اور شیعوں کی تاریخ کا ایک اجمالی مطالعہ کریں تو اس قول کی تائید ہو جاتی ہے۔

ثقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی کے بعد شیعہ کی ابتدائ 114 عظیم صحابہ جیسے سلمان فارسی ابوذر غفاری، ام سلمہ، فضہ، اور مالک بن نوسیرہ، وغیرہ جیسے افراد سے ہوئی۔

۱۸۰