اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ30%

اسلام کے محافظ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 191

اسلام کے محافظ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 191 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 74193 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اولاد میں سے بھی بعض موجود تھے انھوں نے جب پانی دیکھا تو بڑی خوشیاں منائیں۔ جب آپ(ع) نے یہ محسوس کیا تو فرمایا ۔ “میرے بچو! اس باغ اور اس نہر کی وجہ سے خوشحال نہ ہونا۔ اور ساتھ ہی آپ نے قلم ودوات لانے کا حکم فرمایا ۔ حکم کی تعمیل ہوئی تو آپ نے نہر اور باغ دونوں فقراء کے لیے وقف کردیا۔

آپ(ع) کا در گزر

عفو کے اسلامی اور حقیقی معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے ذاتی حق سے دستبردار ہوجائے مگر اس طرح دشمن کو گستاخی کرنے کا موقع نہ ملے۔ اس قسم کا عفو و درگزر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کا اولین مقصد رہا ہے۔ ابن ملجم کے بارے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی نصیحتیں قابل انکار نہیں ہیں اور اس طرح عورت کی کہاںی جو مشک کاندھے پر لیے امیرالمومنین (ع) کا گالیاں دے رہی تھی۔ آپ نے سن کر اس کی دلجوئی کی۔ اسی طرح معاویہ کی فوج نے پانی کے گھاٹ پر قبضہ کرنے کے بعد علی(ع) کے لشکر کے لیے پانی بند کیا۔ لیکن جب حضرت امیرالمومنین (ع) کی فوجوں نے پانی کے گھاٹ پر دوبارہ قبضہ کیا تو معاویہ کے لشکر کے لیے پانی واگزار کردیا۔

جارج جرداق کا کہنا ہے کہ علی (ع) رحم کرنے والے ہیں اور جو رحم طلب کرتے ہیں انہیں معاف کرتے ہیں چاہیے وہ شخص عمرو بن عاص ہی کیوں نہ ہو جس نے جنگ کے دوران لباس کو اوپر اٹھا کر اپنے آپ کو ننگا کیا تھا۔

آپ(ع) کی انکساری

 ایک دفعہ حضرت امیرالمومنین(ع) انبار سے گزر رہے تھے وہاں کے لوگوں نے ساسانیوں کے رواج کے مطابق جو اپنے بادشاہوں کے آنے پر پہلے راستے پر عطر پاشی کرتے تھے اور بعد میں بادشاہوں کے آگے آگے دوڑتے تھے۔آپ(ع) کے سامنے

۴۱

بھی دوڑنے لگے تو فرمایا ہم تم سب اﷲ کے بندے ہیں اور ایسا کرنا تمہارے لیے ذلت کا باعث ہے انسان کو چاہیے کہ صرف خداوند عالم کے حضور خاکساری برتے۔

امیرالمومنین علیہ السلام غذا ، خوراک ، لباس ، گھر اور دیگر ضروریات میں تمام لوگوں سے زیادہ سادگی اختیار کرتے تھے۔ آپ(ع) اکثر فرماتے تھے۔

“أَ أَقْنَعُ مِنْ نَفْسِي بِأَنْ يُقَالَ هَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ لَا أُشَارِكُهُمْ فِي مَكَارِهِ‏ الدَّهْرِ”

“ کیا میں صرف اسی پر اکتفا کروں کہ لوگ امیرالمومنین (ع) کہیں اور میں ان کے مصائب میں شریک نہ ہوں۔”

امیرالمومنین (ع) جیسے مرد آزاد کے بارے میں اس پہلو سے بحث جائز نہیں۔ لیکن نہج البلاغہ میں جیسے اشارہ ہوا ہے۔ جس میں آپ نے اپنے خداندان والوں سے فرمایا ہے کہ اگر میں چاہوں تو اپنے لئے بہترین غذا اور لباس مہیا کرسکتا ہوں لیکن۔

“هَيْهَاتَ أَنْ يَغْلِبَنِي هَوَايَ وَ لَعَلَّ بِالْحِجَازِ أَوْ بِالْيَمَامَةِ مَنْ لَا طَمَعَ‏ لَهُ فِي الْقُرْصِوَ لَا عَهْدَ لَهُ بِالشِّبَعِ”

“ یہ بہت بعید ہے کہ میرا نفس مجھ پر غالب آئے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ دور حجاز یا یمن کوئی ایسا شخص ہو جو بھوکا ہو یا پیٹ بھر کر طعام نہ کھایا ہو۔”

جارج جرادق نے کیا ہی خوب کہا ہے دنیا کے تمام سمندروں ، تالابوں کے پانی، جھیلوں کے پانی ،اوقیانوس کے پانی میں طوفان آسکتا ہے مگر جہاں طوفان نہیں آسکتا تو وہ علی (ع) کے وجود کا سمندر ہے۔ کوئی شخص اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس میں طوفان و ہلچل پیدا کرسکے۔ واقعا ایسا ہی ہے۔

کیا اچھا کھانے کی فطری خواہش علی(ع) میں ہلچل مچاسکتی ہے؟ حالانکہ یہ ایک ایسی فطری خواہش ہے جو افراد کو اپنی اولاد تک کو کھا جانے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہی وہ جبلت ہے جسے فرائڈ کے شاگردوں نے دوسری تمام خواہشات کے سرچشمہ قرار دیا ہے ۔ بر خلاف فرائڈ کے کہ اس نے جنسی خواہش کو سرچشمہ سمجھا ہے مگر شاگردوں

۴۲

 نے رد کر کے کہا دوسری تمام جبلی خواہشات اس کھانے کی جبلت کی وجہ سے ہیں۔

حمزہ کہتا ہے ایک دفعہ شام کے وقت معاویہ کےہاں تھا اور اس نے اپنا مخصوص ڈنر میرے سامنے رکھا مگر غصے کی وجہ سے لقمہ میرے منہ میں اٹک گیا میں نے پوچھا معاویہ یہ غذا کیا ہے؟ اس نے کہا یہ ایک خاص غذا ہے جو گندم کے نشاستہ ، حیوانات کے  مغز اور بادام کے روغن وغیرہ سے تیار کی گیا ہے۔ یہ سن کر میں نے کہا ایک رات دار الامارہ میں علی(ع) کی خدمت میں تھا افطار میں میرے لیے ایک روٹی اور تھوڑا سا دودھ تھا اور امیرالمومنین (ع) کی غذا جو کی خشک روٹی تھی جسے پانی میں بھگو کر کھا رہے تھے  اور یہ روٹی بھی ایسے فصل کی تھی جسے آپ(ع) نے اپنے ہاتھوں سے کاشت کر کے حاصل کیا تھا اور جس وقت کنیز نے آکر دسترخوان اٹھانا چاہا تو میں نے کہا کہ اب امیرالمومنین(ع) ضعیف ہوچکے ہیں ان کی غذا میں خیال رکھیں۔ کیونکہ ان کا زیادہ کا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سن کر خادمہ رونے لگی اور کہا امیرالمومنین (ع) اس بات پر راضی نہیں کہ ان کی روٹی میں تھوڑا سا زیتون کا تیل ملائیں تاکہ روٹی نرم ہوجائے۔ یہ سن کر امیرالمومنین(ع) نے فرمایا حمزہ! مسلمانوں کے حاکم کے  چاہئے کہ وہ غذا، لباس، اور مکان کی حیثیت سے تمام سے کمتر ہو تاکہ قیامت کے دن اس سے کم سے کم حساب لیا جائے۔  یہ سن کر معاویہ رونے لگے اور کہا۔

“ ایک ایسے شخص کا نام درمیان میں آیا جس کے فضائل اور مناقب سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔”

اسی طرح اقتدار پرستی کی خواہش بھی دوسری خواہشات سے بڑھ کر ہے اور اقتدار کا طلب گار شخص اپنی تمام دوسری خواہشات کو اس پر قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اپنی ذات سے محبت کے بعد ایک عام انسان کے لیے جاہ طلبی کی جبلت ایک اہمیت رکھتی ہے کیا جاہ طلبی کی خواہش بھی علی(ع) میں ہلچل مچاسکی؟

۴۳

ابن عباس کہتے ہیں کہ جنگ جمل میں چند سرکردہ لوگ آئے تاکہ میں انہیں علی(ع) کے پاس لے جاؤں میں آپ کے خیمے میں پہنچا تو آپ اپنی جوتی کی مرمت کررہے تھے میں نے اعتراض کیا تو آپ نے جوتا میرے سامنے پھینک کر کہا “ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں علی(ع) کی جان ہے یہ حکومت و اقتدار علی(ع) کے نزدیک اس جوتی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ مگر یہ کہ حکومت کے ذریعے کسی کا حق دلادوں یا اس اقتدار کے ذریعے کسی باطل کو مٹادوں۔”

طلحہ اور زبیر بہت اصرار کر کے بصرہ اور مصر کی گورنری حاصل کر کے آپ کا شکریہ ادا کرنے لگے تو آپ نے ان دونوں کا تقرر نامہ پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا میں تمہارے کندھوں پر اتنا عظیم بوجھ رکھ رہا ہوں مگر تم میرا شکریہ ادا کر رہے ہو۔

معلوم ہوتا ہے کہ تم سوء استفادہ کا ارادہ رکھتے ہو۔

عمرو بن عاص ، عمر بن سعد، معاویہ، طلحہ اور زبیر وغیرہ سب اسی جاہ طلبی کی خواہش میں غرق ہوگئے لیکن امیرالمومنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اس دنیا اور اس کی حکومت کو ایک ٹڈی کے منہ میں پتہ یا پرانی جوتیوں سے کم قیمت یا بکری کی چھینک سے بے وقعت بتا دیا ہے۔

صعصعہ کہتا ہے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شخصیت آپ کی اس ہیبت کے باوجود ہمارے درمیان آپ ہماری طرح ہی رہتے تھے جہاں ہم کہتے بیٹھ جاتے ، جوکچھ کہتے اسے سنتے تھے اور جہاں کہیں آپ کو بلاتے تو آپ آجاتے تھے۔

حضور اکرم(ص) نے آپ کو اگر گرانقدر اور دین کا پشت پناہ قرار دیا ہے تو بالکل بجا فرمایا ہے۔ روایت ثقلین جسے شیعہ و سنی سب نے نقل کیا ہے سب کے نزدیک مسلم ہے۔ صاحب طبقات الانوار اہل سنت کی کتب سے پانچ سو دو کتابوں سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے قرآن اور عترت کو دو گرانقدر چیزیں قرار دی ہیں۔

۴۴

   “ إِنِّي‏ تَارِكٌ‏ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي  وَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.”

“ بے شک میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں۔”

“وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ء”( النحل : ۸۹  )

“ ہم نے تم پر جو کتاب نازل کی ہے وہ ہر چیز کا بیان کرنے والی ہے اور فتنوں کے زمانے میں ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم ہوا ۔”

“إِذَا الْتَبَسَتْ‏ عَلَيْكُمُ‏ الْأُمُورُ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ فَعَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ”

“ جب رات کی تاریکیوں کی طرح فتنے تمہاری طرف بڑھیں تو قرآن کا سہارا لو۔”

اور عترت کو قرآن کے ساتھ قرار دیا اور اس کے اکمال کو عترت کے ذریعے قرار دیا ہے۔

 “ ِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً”

“ آج کے دن تمہارے دین کو کامل کیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا ”

بحث کے آخر میں عمرو عاص، یزید اور معاویہ کے اشعار یہاں درج کرتے ہیں معاویہ نے کہا ہے۔

             خير البريه بعد احمد حيدر              والناس ارضی والوصی سماء

حضرت احمد(ص) کے بعد بہترین مردم حیدر(ع) ہے دوسرے لوگ زمین اور وصی آسمان کی مانند ہے۔

عمرو عاص نے کہا ہے۔

کمليحه شهدت لها ضرا تها                 فاالحسن ماشهدت به الصنراء

۴۵

اس حسین عورت کی طرح جس کے حسن وجمال کا اعتراف اس کی سوتن کرے۔ فضیلت یہ ہی کافی ہے کہ اس کی سوتن اس کا اقرار کرتی ہے۔

ومناقب شهد العدو لفضلها         والفضل ما شهدت به الاعداء

اس میں فضیلت و مناقب وہی ہے جس کی گواہی دشمن بھی دیں۔

جارج جرداق اپنی کتاب “ ندائے عدالت انسانی” میں کسی مسیحی کے اشعار نقل کرتا ہے ۔ ان اشعار میں وہ مسیحی کہتا ہے  کہ اگر کوئی مجھ پر اعتراض کرے کہ تم نے علی(ع) کی تعریف کی ہے لہذا پوپ کی مدح بھی کرو تو میں جواب میں کہوں گا میں تو فضیلت و شرف کا دلدادہ ہوں اور میں نے علی(ع) کو فضیلت کا شرچشمہ پایا لہذا ان کی تعریف کی ہے۔

۴۶

حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام

(ام الائمہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اﷲ علیہا )

آپ کا نام نامی فاطمہ(س) ہے اور آپ کے مشہور القاب آٹھ ہیں، صدیقہ ، راضیہ، مرضیہ، زہرا، بتول، عذرا، مبارکہ اور طاہرہ بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ ذکیہ اور محدثہ بھی ان معظمہ کے القاب ہیں اور آپ کی کنیت “ ام ابیہا ” ہے۔

آپ (س) کی عمر مبارک تقریبا ۱۸ سال ہے ۲۰ جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال پیدا ہوئیں اور ہجرت کے گیارہویں سال تین جمادی الثانی کو ثقیفہ بن ساعدہ کے کرتا دھرتا  لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوئیں۔

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی شخصیت کا احاطہ اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں اس لیے جو کچھ بیان ہوگا آپ کی فضیلت کے سمندر میں سے ایک قطرہ لینے کے مترادف ہوگا۔

اسلامی شخصیت کا ادراک دو طریقوں سے ہوتا ہے ایک تو حسب ونسب کے ذریعے اور دوسرے ذاتی فضائل کی بنیاد پر۔ لیکن اسلام نے نسب کے اعتبار سے جس شخصیت کو قبول کیا ہے وہ مختلف عوامل کی تاثیر کے تحت ہے۔ قانون وراثت ، شرعی احکام کے تحت ، غذا و ماحول کا اثر میاں بیوی کی تاثیر ، اولاد صالح وغیرہ کسی شخصیت میں اپنا نقش ثبت کرتے ہیں۔

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا قانون وراثت کی روسے رسول اکرم(ص) جیسا باپ جو

۴۷

انسانی کمالات کے تمام مراتب کو طے کرچکا ہے ۔ آپ (ص) کےجمال سے دنیا کی تمام تاریکیاں منور ہوچکی ہیں اور آپ(ص) کی صفات کے بارے میں انتہائی بات یہ کہی جاسکتی ہے۔

             بلغ العلی بکماله               کشف الدجی بجماله

             حسنت جميع خصاله           صلو عليه و آله

اور آپ(س) کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ الکبری(ع) ہیں۔ وہی خاتون ، اسلام جن کا مرہون منت ہے، مسلمانوں کی وہی مان جس نے تین سال تک جب مسلمان شعب ابی طالب(ع) میں محصور تھے تو ان کے اخراجات کا بندوبست کیا اور اپنے تمام اموال صرف کئے وہی ماں جس نے مکہ کے کمر شکن مصائب کا مقابلہ کیا اور رسول اکرم(ص) کے شانہ بشانہ اسلام کی مدد کی اور مدد و ںصرت کی اس راہ میں جسم اطہر پر پتھر بھی لگے۔ طعنے بھی سنے مگر جس قدر مصائب بڑھتے گئے اس معظمہ نے صبر و استقامت کا نمونہ بن کر برداشت کیا۔

اور غذا کی تاثیر کے تحت دیکھیں تو پتہ چلتا ہے مورخوں نے لکھا ہے کہ جس وقت خداوند عالم نے حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کو تخلیق کا ارادہ فرمایا تو رسول اکرم(ص) کو حکم ملا کہ چالیس روز تک غار حرا میں عبادت کریں اور حضرت خدیجہ سلام علیہا لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنے گھر میں عبادت میں مشغول ہوئیں اور حضور اکرم (ص) غار حرا میں اس مدت کے بعد حضور اکرم (ص) کو حکم ملا کہ گھر واپس لوٹیں۔ عالم ملکوت سے ان کے لیے غذا لائی گئی جس کے بعد زہرا(س) کو نور حضرت خدیجہ(ع) کو منتقل ہوا۔ ماحول کے اثرات کی روسے علاوہ اس کے کہ حضرت زہرا(ع) کو ایک فداکار

۴۸

 خاتون کی گود نصیب تھی جو ثابت قدمی میں ایک نمونہ تھیں ساتھ ہی حضور اکرم(ص) جیسے باپ کی تربیت میں پروان چڑھیں۔ آپ جس ماحول میں زندگی گزار رہی تھیں وہ تلاطم سے پر تھا مکہ معظمہ اپنی تمام مصیبتوں اور ناگوار حادثوں کےساتھ آپ کی پرورش کا ماحول تھا۔ آپ نے شعب ابی طالب میں جس طرح زندگی گزاری اس کی تعریف میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے معاویہ کو یوں کہا۔ “تم لوگوں نے ہمیں تین سال تک سورج کے نیچے قید میں رکھا ۔ وہ بھی اس طرح کہ ہمارے بچے بھوک اور پیاس سے مرگئے ، ہمارے بڑوں کی جلدیں اکھڑ گئیں تھیں او بچوں اور عورتوں کے گریہ و فریاد کی آواز سنی جاتی تھیں۔”

واضح رہے کہ جو بچہ ایسے ماحول اور معاشرے میں پل رہا ہو اور اس کی پرورش کرنے والی رسول اکرم(ص) جیسی ہستی ہوتو اس کے صبر و استقامت اور وسعت صدر (قلب ) زیادہ سے زیادہ ہی ہوگی۔

ناز پروردہ تنعم نہ برد راہ بہ دوست                عاشقی شیوہ رندان بلاکش باشد

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا بیوی، ہم نشین رفیق اور اولاد کی حیثیت سے فوق العادت ہستی ہیں حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب (ع) جیسا شوہر جس کی شان مں قرآن کی تین سو سے زیادہ آیات موجود ہیں اور تاریخ نے اسلام کو انہی کی ذات کے مرہون منت سمجھا ہے۔

ایک ایسا شوہر ہے کہ خود اہلسنت کے اقرار کے مطابق مختلف مواقع میں حضرت عمر نے ۷۲ سے زیادہ مرتبہلو لا علی ل ه ک العمر کہا ۔ خداوند عالم نے آپ کو حسن(ع) حسین(ع) اور زینب(س) و ام کلثوم(س) جیسی اولاد عطا کی جو اگر نہ ہوتے تو اسلام ہی نہ ہوتا۔ حضرت امام حسین(ع) کے کہنے کے مطابق “و علی الاسلام السلام ” اولاد کے اعتبار

۴۹

 سے حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا “ ام الائمہ” ہیں اور حضرت قائم آل محمد(ص) ہمارے عالم خلقت کے نچوڑ میں ایک ودیعت کئے ہوئے سربستہ راز ہیں۔

اور انسانی فضائل کی روسے اس ہستی کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ جس کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) نے متعدد دفعہ فرمایا “ إنّ‏ اللّه‏ اصطفيك‏ و طهّرك و اصطفيك على نساء العالمين.”

بے شک خداوند عالم نے تمہیں منتخب کیا اور تمہیں پاکیزہ کیا اور تمام جہانوں کی عورتوں سے برگزیدہ قرار دیا۔”

اگر حضرت زہرا(س) کی شان میں سورہ کوثر کے علاوہ کچھ نہ ہوتا تو بھی آپ کی عظمت کو سمجھنے کے لیے کافی ہوتا کہ آپ تمام جہان والوں کی نسبت خدا کے حضور برتری اور فضیلت کی حامل ہیں۔

“بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‏ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر فَصَلّ‏ِ لِرَبِّكَ وَ انحَْر إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْترَُ”

“ بے شک ہم نے تمہیں کوثر عطا کی پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو بے شک تمہارا دشمن ہی دم کٹا ہوگا۔”

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا ایمان کے اعتبار سے راضیہ اور مرضیہ ہیں۔

“يَأَيَّتهَُا النَّفْسُ الْمُطْمَئنَّةُ ارْجِعِى إِلىَ‏ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّة فَادْخُلىِ فىِ عِبَادِى وَ ادْخُلىِ جَنَّتى‏”

“ اے نفس مطمینہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا اس حالت میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہے پس تو میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میری بہشت میں داخل ہوجا۔”

ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حضرات چہاردہ معصومین علیہم السلام کے القاب اور کنیتیں بے سبب نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک راز کی حامل ہیں اگر آپ زہرا(س) ،

۵۰

 صدیقہ، ذکیہ، طاہرہ، محدثہ القاب کی اسم با مسمی نہ ہو تو یہ بڑی بے معنی بات ہوگی۔ اگر جبرئیل(ع) نہ آتے اس مطمینہ کے ساتھ بات نہ کرتے باوجود اس کے آپ کو محدثہ کہا جائے گا۔ تو یہ جھوٹ ہوگا۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی محدثہ ہو اور اس کا ایمان شہود کی منزل تک نہ پہنچا ہو۔

علمی اعتبار سے آپ صحیفہ کی حامل ہیں

روایات کے مطابق کچھ کتابیں حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام کے پاس ہیں جن میں سے ایک صحف فاطمہ(س) ہے اسی کتاب پر ائمہ علیہم السلام نے فخر کیا ہے اور کہا ہے کہ علم ما کان وما یکون وما ہو کائن۔ اس میں موجود ہے یعنی جو کچھ ہوا ہو، جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے اس کا علم اس میں موجود ہے اور یہ صحیفہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کا لکھایا ہوا ہے اور حضرت امیرالمومنین (ع) کے دست مبارک کا لکھا ہوا ہے۔

حضرت زہرا(س) کا زہد

جس دن حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا علی(ع) کے گھر میں بیاہ کر آئیں تو امیر المومنین علیہ السلام نے “ش” ایک قسم کی گھاس کا فرش بجھایا ہوا تھا اور حضرت رسول اکرم(ص) نے آپ کو جو جہیز دیا تھا اس تمام کی قیمت ۶۳ درہم تھی اور وہ جہیزیہ تھا۔ عباء، مقنعہ، پیراہن ، چٹائی، پردہ، لحاف ، کٹورہ ، پیالہ ، دستی چکی ، پانی کا مشکیزہ، گوسفند کا چمڑا ، تکیہ

حضور اکرم(ص) سے جب جہیز کے سامان کو دیکھا تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا“ خداوند! اس جہیز میں برکت عطا فرما جس میں سے اکثر مٹی کا بنا ہوا ہے۔”

۵۱

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا نے اپنے شوہر کے گھر کی طرف جاتے ہوئے وہ پیراہن ایک مسکین کو دیدیا اور اپنے پرانے پیراہن میں ہی شوہر کے گھر پہنچ گئیں۔ دوسرے دن حضرت پیغمبر اکرم(ص) بیٹی سے ملنے کے لیے آئے تو یہ تحفہ بیٹی کے لیے لے آئے تھے۔

“ علی فاطمه خدمته ما دون الباب و علی علی خدمته ما خلفه”گھر کے اندر کے کام فاطمہ(س) کے سرد ہیں اور گھر کے باہر کا کام علی(ع) کے ذمے ہیں۔” اس تحفے کو جناب زہرا سلام اﷲ علیہا نے بخوشی قبول کیا بلکہ بے حد خوشی کا اظہار کیا اور کہا “ ما يعلم الا الله ما داخلنی من السرور ”خداوند عالم کے علاوہ اور کوئی نہیں جان سکتا کہ اس تقسیم سے میں کس قدر خوش ہوئی ہوں۔”

حضرت زہرا(س) کی عبادت

روایات میں وارد ہے کہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا اس قدر عبادت کرتیں اور قیام میں رہتی تھیں کہ آپ کے پاؤں سوجھ جاتے تھے ۔ حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے تھے کہ میری والدہ گرامی رات کے ابتدائی حصے سے صبح تک عبادت میں  مشغول رہتی تھیں اور جب بھی آپ نماز سے فارغ ہوتی تھیں تو ہمسایوں کے لیے دعا کرتی تھیں اور جب ہم آپ سے پوچھتے تھے کہ اماں آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتی تھیں بیٹے “الجار ثم الدار ” بیٹے پہلے ہمسائے پھر گھر۔ حضرت زہرا(س) کی تسبیح کی بے حد فضیلت بیان ہوئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ “ میری داماد حضرت زہرا(س) کی تسبیح میرے نزدیک ایک ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے۔”

کہتے ہیں کہ گھر کے کاموں میں حضرت زہرا(س) کی مدد کے لیے ایک خادم کی ضرورت تھی اور اس وقت کا رواج بھی تھا کہ خادم یا خادمہ گھر میں رکھے جاتے تھے جس

۵۲

 وقت حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا حضور اکرم(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو قبل اس کے کہ حضرت فاطمہ (س) کچھ عرض کرتیں رسول اکرم(ص) نے فرمایا “ میری جان زہرا(س) کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ میں تمہیں ایک ایسی چیز سکھادوں جو دنیا و ما فیہا سے بہتر ہو اور ساتھ ہی آپ نے مشہور تسبیح جسے “ تسبیح فاطمہ” کہتے ہیں آپ کو سکھا دی۔ یہ تسبیح سیکھ کر حضرت زہرا(س) خوشی خوشی گھر آئیں  اور حضرت علی (ع) سے فرمایا “ اپنے پدر بزرگوار سے دعا سیکھ کر میں نے دنیا کی بھلائی کا حصہ حاصل کیا ہے۔”

آپ کی سخاوت اور ایثار

تمام مفسرین شیعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک دفعہ حضرت زہرا(س) اور آپ کے گھر والوں نے روزہ رکھا اور افطار کا وقت قریب ہوا تھا کہ ایک فقیر نے آکر آواز دی تمام گھر والوں نے اپنی اپنی روٹی اس کے حوالے کردی اور پانی سے روزہ افطار کر کے سوگئے دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا جب افطار کا وقت قریب آیا تو ایک یتیم نے آکر سوال کیا حضرت فاطمہ(س) آپ کے شوہر اور آپ کے بچوں نے نیز آپ کی خادمہ نے بھی اپنی روٹی اٹھا کر یتیم کے حوالے کی اور اس دن بھی تمام گھر والے پانی سے افطار کر کے سوگئے تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا عین افطار کے وقت ایک قیدی آیا تو سب نے اپنا اپنا کھانا اے دے دیا عین اسی وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

“وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلىَ‏ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَ يَتِيمًا وَ أَسِيرًا إِنمََّا نُطْعِمُكمُ‏ْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكمُ‏ْ جَزَاءً وَ لَا شُكُورًا”

“ یہ لوگ اﷲ کی محبت میں مسکین ، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو صرف اور صرف اﷲکی خوشنودی کی خاطر کھلاتے ہیں اور تم سے کوئی بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے ہیں۔”

بحث کے آخر میں ہم آپ کے نام اور کنیت کے بارے میں کچھ گفتگو کرتے ہیں۔ حضرت زہرا(س) کے القاب کے بارے میں بہت ساری تاویلیں کی ہیں کہ ان تمام کا ذکر

۵۳

 یہاں ممکن نہیں بلکہ ان کے خلاصے کو طور پر ہم صرف آپ کے نام اور کنیت کے بارے میں تھوڑی سی بحث کرتے ہیں۔

حضرت زہرا(س) کی کنیت “ ام ابیہا ” ہے اور یہی کنیت جو آپ کے لیے باعث افتخار ہے خود حضور اکرم(ص)نے دی ہے۔ “ام ابیہا ” کے معنی “ اپنے باپ کی ماں” ہیں اس کنیت کے مختلف معانی ہیں لیکن بہترین معانی یہ ہیں جو رسول اکرم(ص)نے اس کنیت کو دیئے ہیں یعنی ” زہرا(س) دنیا کی علت غائی ہیں۔” ایسی بعض روایات و احادیث بھی منقول ہیں کہ حضرت زہرا(س) دنیا جہان کی علت غائی ہیں اور اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ عالم ہستی کے فیض کا واسطہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا ہیں تو یہ بھی بے دلیل نہیں اور حضرت فاطمہ(س) کو فاطمہ(س)  کیوں کہا گیا ہے اس کے بھی اسرار ہیں اور روایات اس راز کو یوں بیان کرتی ہیں۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةُ لِأَنَّهَا فُطِمَتْ مِنَ الشَّرِّ

۱ـ آپ کو فاطمہ اس لیے کہا گیا کہ آپ برائی سے جدا اور الگ ہیں یہ جملہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی عصمت پر دلیل ہے کیوںکہ آپ کا معصومہ ہونا ثابت ہے اور آیت تطہیر آپ ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

“إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً”

“ اے اہل بیت رسول(ص) خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ تم اہل بیت کو ہر قسم کے رجس سے ایسا پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔”

إِنَّهَا سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةَ لِأَنَّهَا فُطِمَتْ عَنِ الطَّمْثِ.

۲ـ حضرت فاطمہ(س) کو فاطمہ(س) اس لیے کہا گیا ہے کہ آپ عورتوں کی ماہانہ عادت سے پاک تھیں یہ آپ کی ظاہری طہارت کی طرف اشارہ ہے روایات سے ثابت ہے کہ آپ طاہرہ اور مطہرہ تھیں۔ طاہرہ یعنی ظاہری نجاسات سے پاک اور مطہرہ معنوی نجاسات سے پاک ۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةُ لِأَنَّها فُطِمت عَنْ الْخَلْقَ

۵۴

۳ـ فاطمہ (س) کو فاطمہ(س) اس لیے کہا گیا کہ آپ مخلوق سے جدا تھیں یہ تفسیر آپ کے عرفان کی منزل کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کے دل میں سوائے خدا کے اور کسی کا تصور نہیں تھا اور ہر وقت آپ کا دل مشغول عبادت حق تھا۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةَ لِأَنَّ الْخَلْقَ فُطِمُوا عَنْ کنه مَعْرِفَتِهَا.

۴ـ آپ کو فاطمہ اس لیے کہا گیا کہ لوگ آپ کی معرفت سے قاصر ہیں یہ تفسیر آپ کے اسی مرتبہ کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ کو رسول اکرم(ص) نے “ ام ابیہا” کہا ہے۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَة فَاطِمَة لِأَنَّهَا فُطِمَتْ شِيعَتُهَا عن النَّارِ

۵ـ آپ کو فاطمہ نام اس لیے دیا گیا کہ قیامت کے دن اپنے شیعوں کو جہنم کی آگ سے نجات دلا دیں گی۔ یہ اشارہ آپ کی شفاعت کے حق کی طرف ہے۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةَ فاطِمَة لِأَنَّ أَعْدَاؤهَا فطِمُوا عَنْ حُبِّهَا

۶ـ آپ کو فاطمہ(س) ا سلیے کہا گیا کہ آپ کے دشمن کو آپ کی محبت سے الگ کیا گیا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ جس کے پاس محبت اہل بیت(ع) کی سعادت نہٰیں ہوگی اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔

اس فاطمہ(س) کی توصیف کیسے کی جاسکتی ہے کہ جب حضرت زہرا(س) حضور اکرم(ص) کے ہاں جاتیں یا حضور اکرم (ص) حضرت زہرا(س) کے ہاں آتی تو آپ کے ہاتھ اور چہرے کے بوسے لیتے آپ کا استقبال کرتے اور اپنی جگہ بٹھاتے اور فرماتے تھے کہ “ مجھے فاطمہ(ع) سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔”

لیکن یہی زہرا(ع) اس قدر متواضع تھیں کہ جب امیرالمومنین (ع) کہتے ہیں کہ گھر میں کوئی مہمان آرہے ہیں تو فرماتی ہیں یہ گھر آپ کا ہے اور میں آپ کی کنیز ہوں۔ باوجود اس کے کہ آپ ان لوگوں سے سخت بیزار تھیں لیکن آپ کے شوہر نے

۵۵

اجازت چاہی تو اجازت دی۔ ایک دفعہ ایک عورت آتی ہے اور ایک مسئلہ شرعی پوچھتی ہے مسئلہ پوچھ کر چلی گئی لیکن بھول کی بیماری میں مبتلا ہونے کہ وجہ سے کئی دفعہ یہاں تک دس بار واپس آئی تو آپ نے ہر بار اسے مسئلے کا جواب بتا دیا جب وہ عورت معذرت کرتی ہے تو آپ فرماتی ہیں۔ “ تمہارے ہر بار سوال کرنے سے خداوند عالم مجھے جزا دے رہا ہے تم بار بار پوچھنے کی معذرت مت کرو۔”

جس وقت حضرت زہرا(س) کو ان کے پدر بزرگوار نے خادمہ کی حیثیت سے فضہ دیا تو اپنے پدر گرامی کے حکم کے مطابق گھر کے کاموں کو تقسیم کیا۔ اس طرح ایک دن حضرت فضہ اور ایک دن آپ(ع) کام کرتی تھیں۔

یہ بات نہیں بھولنی چاہئے اور خصوصا خواتین یاد رکھیں کہ تمام اہل بیت(ع) ہماری زندگی کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ قرآن بھی یہی حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ پیغمبر اکرم(ص) اور ان کے خاندان کو نمونہ عمل قرار دیں۔

“لَقَدْ كانَ لَكُمْ في‏ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الْآخِرَ ”( سورہ الاحزاب آیت ۲۱  )

“ بے شک رسول اﷲ(ص) ان لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہیں جو اﷲ اور روز جزا پر امید رکھتے ہیں۔”

اگر ہمیں دو جہاںوں کی سعادت مطلوب ہے تو چاہئے کہ رسول اکرم(ص) اور ان کے اہل بیت(ع) کی  پیروی کریں۔ مسلمان خواتین اسی وقت سعادت حاصل کرسکتی ہیں جب وہ عفت ، ایثار، جان نثاری، شوہر داری، خانہ داری اور اولاد کی تربیت مٰیں حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی پیروی اختیار کریں۔

صاحب وسائل شیعہ نے وسائل کے جلد دوم میں ایک واقعہ لکھا ہے جو حضرت زہرا(س) کے بارے میں ہے لہذا خصوصا خواتین کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔ ایک دفعہ

۵۶

حضرت فضہ نے جناب زہرا(س) کو مغموم پایا اور وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا مجھے یہ فکر ہے جب میرا جنازہ ٹھایا جائے گا تو میرے بدن کا حجم نامحرم لوگوں کو نظر آئے گا۔ فضہ کہتے ہیں یہ سن کر میں نے ایک عماری کا نقشہ کھینچا اور کہا کہ عجم میں لوگوں کی یہ رسم ہے کہ معزز لوگوں کو اس میں رکھ کر لے جاتے ہیں۔ یہ سن کر آپ بہت خوش ہوئی اور تاکید کے ساتھ وصیت کی کہ ان کے جنازے کے عماری میں رکھ کر اٹھایا جائے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ بھی وصیت کی تھی کہ رات کے وقت تجہیز و تکفین و تدفین کی جائے۔

     زوجہ علی(ع) کی بنت رسالت ہیں فاطمہ(س)                اتری ہے جن کے گھر میں امامت ہیں فاطمہ(س)

     کاظم نہ پوچھ رتبہ سردار مومنات                             گر ہیں اذان رسول (ص)  اقامت ہیں فاطمہ (س)

                                                     سید کاظم عباس زیدی

۵۷

حضرت امام حسن علیہ السلام

آپ کا نام نامی حسن(ع) ہے اور یہ نام آپ کےلیے پروردگار عالم کی طرف سے عنایت ہوا۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس وقت امام حسن(ع) دنیا میں آئے تو حضور اکرم(ص) کے پاس خداوند عالم کی طرف سے جبرائیل امین(ع) نازل ہوئے اور کہا کہ چونکہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) کی نسبت آپ کے ساتھ ایسی ہے جیسے ہارون کو موسی(ع) کے ساتھ تھی۔ اس لیے علی(ع) کے بیٹے کا نام ہارون(ع) کے بیٹے کے نام پر رکھو جس کا نام حسن(ع) تھا۔ لہذا تم بھی اپنے اس نواسے کا نام حسن رکھو۔

“ روایت منزلت ” علمائے اسلام کے نزدیک ایک مشہور حدیث ہے اہلسنت و شیعہ کے متعدد ذرائع نے یہ حدیث رسول اکرم(ص) سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم (ص) نے متعدد بار فرمایا “يا علی أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ‏ مِنْ مُوسَى إِلَّا إنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي” اے علی(ع) تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون (ع) کو موسی(ع) سے تھی۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ ” یعنی جس طرح موسی(ع) کی غیر حاضری میں وہ موسی(ع) کے خلیفہ تھے اسی طرح میری غیر موجودگی میں تم میرے خلیفہ ہو صرف یہ فرق ہے کہ موسی(ع) کے بعد نبوت کا سلسلہ تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

آپ کی مشہور کنیت ابو محمد (ع) اور مشہور لقب مجتبیٰ(ع) اور سبط اکبر ہیں آپ نے ۴۷ سال کی عمر پائی۔ آپ کی ولادت ۳ ہجری ۱۵ رمضان المبارک کو ہوئی تھی۔ سات سال آپ نے اپنے نانا کے زیر سایہ گزارے اور ۳۰ سال اپنے والد گرامی کے ساتھ گزارے اور آپ کی مدت امامت دس سال ہے۔ آپ ہر پہلو سے “حسن(ع)”

۵۸

 تھے رسول اکرم(ص) جیسا نانا، والدہ گارمی حضرت زہرا(ع)مرضیہ، والد گرامی علی ابن ابی طالب(ع)۔

اگر ہم بچے کی تربیت میں موثر عامل کے تمام قوانین جیسے قانون وراثت وغیرہ کا مطالعہ کریں گے تو مان باپ کے اثرات کا انکار نہیں کرسکتے۔ آپ کے نانا اتنی عبادت کرتے تھے کہ کثرت قیام سے پاؤں میں ورم آجاتا تھا۔ اور خداوند عالم کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی۔ “طه مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْءَانَ لِتَشْقَى ‏”“ ہمارے رسول(ص) ہم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مشقت میں پڑو۔” اسی ہستی کے زیر تربیت رہ کر نواسہ پلا بڑھا جس نے بیس سے زیادہ حج پا پیادہ کئے اور بعض سفروں میں آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے۔

ان کے والد گرامی حضرت امیرالمومنین علی(ع) رات کی تاریکی میں مصلے بچھاتے اور امام حسن (ع) کی تکبیروں اور خوف الہی سے گریہ و زاری کرنے کی آوازیں سنتے تھے تو اس فرزند کی تربیت اس انداز میں ہوئی کہ وضو کرتے وقت کانپ اٹھتے تھے اور مسجد میں داخل ہوتے وقت روتے ہوئے کہتے تھے

 “إِلَهِي‏ ضَيْفُكَ‏ بِبَابِكَ يَا مُحْسِنُ قَدْ أَتَاكَ الْمُسِي‏ءُ فَتَجَاوَزْ عَنْ قَبِيحِ مَا عِنْدِي بِجَمِيلِ مَا عِنْدَكَ يَا كَرِيمُ.”

“اے میرے معبود! تیرا مہمان دروازے پر ہے اے نیکی کرنے والے ! تیرے حضور گناہ گار پہنچا اپنی خوبی کے وسیلے اس کی برائیوں کو معاف فرما۔”

جس باپ نے تیس تک اسلام کے مصالح کی خاطر صبر کیا اور ایسے زندگی گزاری جیسے آنکھ میں خار اور گلے میں ہڈی انکی ہوتو اس کے بیٹے نے دس سال تک مصالح اسلام کی خاطر صبر کیا اور معاویہ کے ساتھ صلح کی اور والدہ گرامی زہرا(ع) مرضیہ تھیں جو اپنا متعلقین کا کھانا  پہلے فقیر کو خیرات میں دیتی ہیں اس کے بعد اپنا کھانا دوبارہ پکاتی ہیں تو ایک یتیم کی آواز سن کر غذا اس کے حوالے کرتی ہیں اور

۵۹

اپنے گھر والوں کے لیے کھانا پکانے لگتی ہیں جب کھانا تیار ہوتا ہے تو ایک اسیر کی آواز سن کر کھانا اس کے حوالے کرتی ہیں۔ اور خود کو اور گھر والوں کو روزہ افطار کرنے کے لیے کچھ نہیں رہتا ہے تو پانی سے افطار کرتے ہیں۔

اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔

“وَ يُطْعِمُونَ‏ الطَّعامَ‏ عَلى‏ حُبِّهِ مِسْكِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً”

“ یہ لوگ اپنی غذا کو جس کی خود انہیں بھی ضرورت ہے مسکین یتیم اور اسیر کو دے دیتے ہیں۔”اسی ایثار کو ان کا فرزند حسن(ع) میں پاتا ہے۔

ایک دن ایک سائل کے حضور آکر اپنے فقر کی شکایت کرنے لگا اور اس مضمون کے دو شعر کہے کہ۔

میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جسے بیچ کر اپنی ضرورت پوری کروں میری حالت اس کی گواہ ہے صرف اس وقت میری آبرو محفوظ  ہے میں نے ہر چند چاہا کہ نہ بیچوں مگر آج آپ کو خریدار پایا میری آبرو کو خرید کر مجھے فقر سے نجات دیں۔ یہ سن کر آپ نے اخراجات کے ذمے دار سے فرمایا آج جو کچھ تمہارے سامنے موجود ہے اسے دے دو لہذا اس نے بارہ ہزار درہم جو موجود تھے۔ اس کے حوالے کئے اور اور اس روز گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ آپ نے دو شعر جواب میں یوں لکھ کر دیئے۔

“ تم نے جلدی میں ہم سے جلدی میں ہم سے کچھ چاہا جو کچھ موجود تھا دیا مگر یہ بہت کم تھا اسے لے لو اور اپنی آبرو کی حفاظت کرو گویا ہمیں دیکھا نہ ہو اور نہ ہمیں کچھ فروخت کیا ہو۔” آپ کی مادر گرامی اس منزلت کی تھیں کہ راتوں کو صبح تک نماز میں مشغول رہتیں ہیں اور ہر نماز کے بعد دوسروں کے لئے دعا کرتی رہتیں ہیں۔ آپ کے فرزند حسن(ع) آپ سے پوچھتے ہیں“ اماں آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتیں

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

اولین انسان کی خلقت

ان آیات کی تحلیل جو انسان کی خلقت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ان نتائج کو ہمارے اختیار میں قرار دیتی ہیں کہ موجودہ انسانوں کی نسل، حضرت آدم نامی ذات سے شروع ہوئی ہے ۔ حضرت آدم کی خلقت خصوصاً خاک سے ہوئی ہے۔ اور روئے زمین پر انسانوں کی خلقت کو بیان کرنے والی آیات کے درمیان مندرجہ ذیل آیات بہت ہی واضح اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ موجودہ نسل حضرت آدم اور ان کی زوجہ سے شروع ہوئی ہے ۔

( یَا أیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِن نَفسٍ وَاحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَ بَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً کَثِیراً وَ نِسَائً ) (۱)

اے لوگو! اپنے پالنے والے سے ڈرو (وہ پروردگار)جس نے تم سب کو ایک شخص سے پیدا کیا اور اس سے اس کی ہمسر (بیوی) کو پیدا کیا اور انھیں دو سے بہت سے مرد و عورت (زمین میں )پھیل گئے۔

اس آیت میں ایک ہی انسان سے سبھی لوگوں کی خلقت کو بہت ہی صراحت سے بیان کیاگیا ہے ۔(۲)

( وَ بَدَأَ خَلقَ الِنسَانِ مِن طِینٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلالَةٍ مِن مَّائٍ مَهِینٍ ) اور انسان کی ابتدائی خلقت مٹی سے کی پھر اس کی نسل گندے پانی سے بنائی۔(۳)

اس آیت میں بھی انسان کا نکتہ آغاز مٹی ہے اور اس کی نسل کو مٹی سے خلق ہوئے انسان کے نجس قطرہ سے بتایا ہے یہ آیت ان آیات کے ہمراہ جو حضرت آدم کی خلقت کو (سب سے پہلے انسان کے عنوان سے) خاک و مٹی سے بیان کرتی ہے موجودہ نسل کے ایک فرد ( حضرت آدم ) تک منتہی ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔

( یَا بَنِی آدَمَ لا یَفتِنَنَّکُمُ الشَّیطَانُ کَمَا أَخرَجَ أَبوَیکُم مِنَ الجَنَّةِ ) (۴)

اے اولاد آدم! کہیں تمہیں شیطان بہکا نہ دے جس طرح اس نے تمہارے ماں،

____________________

(۱)سورۂ نساء ۱ (۲)یہی مفاد آیت دوسری آیات میں بھی مذکور ہے جیسے اعراف ۱۸۹۔ انعام ، ۹۸۔زمر،۶

(۳)سورۂ سجدہ ۷ و ۸۔ (۴)سورۂ اعراف ۲۷

۱۰۱

باپ کو بہشت سے نکلوا دیا۔(۱)

یہ آیت بھی صراحت کے ساتھ حضرت آدم و حوا علیھما السلام کو نسل انسانی کا ماں ، باپ بتاتی ہے ۔خاک سے حضرت آدم کی استثنائی خلقت بھی قرآن کی بعض آیات میں ذکر ہے جن میں سے تین موارد کی طرف نمونہ کے طور پر اشارہ کیا جارہاہے ۔

ا۔( إنَّ مَثَلَ عِیسَیٰ عِندَ اللّٰهِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ کُن فَیَکُونُ )

خدا کے نزدیک جیسے حضرت عیسی کاواقعہ ہے(حیرت انگیز خلقت) ویسے ہی آدم کاواقعہ بھی ہے ان کو مٹی سے پیدا کیا پھر کہا ہوجا پس وہ ہوگئے ۔(۲)

حدیث ، تفسیر اور تاریخی منابع میں آیا ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں نصاری نجران نے اپنے نمائندوں کو مدینہ بھیجا تاکہ پیغمبر اسلام سے گفتگو اور مناظرہ کریں ،وہ لوگ مدینہ کی مسجد میں آئے پہلے تو اپنی عبادت بجا لائے اور اس کے بعد پیغمبر سے بحث کرنے لگے :

۔جناب موسی کے والد کون تھے ؟

۔ عمران

آپ کے والد کون ہیں ؟

۔ عبد اللہ

۔ جناب یوسف کے والد کون تھے ؟

۔ یعقوب

۔ جناب عیسی کے والد کون تھے ؟

____________________

(۱)بعض لوگوںنے آیت''ذر''نیز ان تمام آیات سے جس میں انسانوں کو ''یابنی آدم ''کی عبارت سے خطاب کیا گیا ہے اس سے انسانی نسل کا نکتہ آغاز حضرت آدم کا ہونا استفادہ کیا ہے۔

(۲)سورۂ آل عمران ۵۹۔

۱۰۲

پیغمبر تھوڑا ٹھہرے ، اس وقت یہ آیت( إنَّ عِیسَیٰ عِندَ اللّٰهِ کَمَثَلِ آدَمَ ) نازل ہوئی۔(۱)

مسیحی کہتے تھے چونکہ عیسی کا کوئی انسانی باپ نہیں ہے لہٰذا ان کا باپ خدا ہے ،آیت اس شبہ کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ کیا تم معتقد نہیں ہو کہ آدم بغیر باپ کے تھے ؟ عیسی بھی انہیں کی طرح ہیں ،جس طرح آدم کا کوئی باپ نہیں تھا اور تم قبول بھی کرتے ہو کہ وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں اسی طرح عیسی بھی بغیر باپ کے ہیں اور حکم خدا سے پیدا ہوئے ہیں ۔

مذکورہ نکات پر توجہ کرتے ہوئے اگر ہم فرض کریں کہ حضرت آدم ، انسان و خاک کے ما بین ایک درمیانی نسل سے وجود میں آئے مثال کے طور پر ایسے انسانوں سے جو بے عقل تھے تو یہ استدلال تام نہیں ہوسکتا ہے اس لئے کہ نصاری نجران کہہ سکتے تھے کہ حضرت آدم ایک اعتبار سے نطفہ سے وجود میں آئے جب کہ عیسی اس طرح وجود میں نہیں آئے ،اگر اس استدلال کو تام سمجھیں جیسا کہ ہے، تب ہم یہ قبول کرنے کے لئے مجبور ہیں کہ حضرت آدم کسی دوسرے موجود کی نسل سے وجود میں نہیں آئے ہیں ۔

۲۔( وَ بَدَأَ خَلقَ النسَانِ مِن طِینٍ ٭ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلالَةٍ مِن مَائٍ مَهِینٍ )

ان دو آیتوں میں سے پہلی آیت حضرت آدم کی خاک سے خلقت کو بیان کرتی ہے اور دوسری آیت ان کی نسل کی خلقت کو نجس پانی کے ذریعہ بیان کرتی ہے ،حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی نسل کی خلقت کا جدا ہونا اور ان کی نسل کا آب نجس کے ذریعہ خلق ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جناب آدم کی خلقت استثنائی تھی ورنہ تفکیک و جدائی بے فائدہ ہوگی ۔(۲)

____________________

(۱)مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ، ج۲۱ص ۳۴۴۔ (۲) منطق کی کتابوں میں کہا گیا ہے کہ تقسیم میں ہمیشہ فائدہ کا ہونا ضروری ہے یعنی اقسام کاخصوصیات اور احکام میں ایک دوسرے سے متفاوت ہونا چاہیئے ورنہ تقسیم بے فائدہ ہوگی ، آیہ شریفہ میں بھی تمام انسانوں کوسب سے پہلے انسان اور اس کی نسل میں تقسیم کیا ہے ، لہٰذا اگر ان دو قسموں کا حکم خلقت کے اعتبار سے ایک ہی ہے تو تقسیم بے فائدہ اور غلط ہوگی ۔

۱۰۳

۳۔بہت سی آیات جو خاک سے حضرت آدم کی خلقت کا واقعہ اور ان پر گذشتہ مراحل؛یعنی روح پھونکنا ، خدا کے حکم سے فرشتوں کا سجدہ کرنا اور شیطان کا سجدہ سے انکار کو بیان کرتی ہیں جیسے :

( وَإذ قَالَ رَبُّکَ لِلمَلائِكَةِ إنِّی خَالِق بَشَراً مِن صَلصَالٍ مِن حَمَأٍ مَّسنُونٍ ٭ فَإِذَا سَوَّیتُهُ وَ نَفَختُ فِیهِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ )

اور (یاد کروکہ )جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک آدمی کوخمیر دی ہوئی مٹی سے جو سوکھ کر کھن کھن بولنے لگے پیدا کرنے والا ہوں تو جس وقت میں اس کو ہر طرح سے درست کرچلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو سب کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گرپڑنا۔(۱)

یہ بات واضح ہے کہ تمام انسان ان مراحل کو طے کرتے ہوئے جو آیات میں مذکور ہیں (خاک ، بدبودار مٹی ، چپکنے والی مٹی ، ٹھکرے کی طرح خشک مٹی ) صرف خشک مٹی سیخلق نہیں ہوئے ہیں اور فرشتوں نے ان پر سجدہ نہیں کیا ہے بلکہ مذکورہ امور فقط پہلے انسان سے مخصوص ہے یعنی حضرت آدم جو استثنائی طور پر خاک ( مذکورہ مراحل ) سے خلق ہوئے ہیں ۔(۲)

قرآن کے بیانات اور ڈارون کا نظریہ

نظریہ تکامل اور اس کے ترکیبی عناصر کے ضمن میں بہت پہلے یہ نظریہ بعض دوسرے متفکرین کی طرف سے بیان ہوچکا تھا لیکن ۱۸۵۹ میں ڈاروین نے ایک عام نظریہ کے عنوان سے اسے پیش کیا

____________________

(۱)سورۂ حجر، ۲۸و ۲۹ ۔

(۲)اس نکتہ کا ذکر کرنا ضروری ہے اس لئے کہ حضرت آدم کی خلقت کو بیان کرنے والی آیات بہت زیادہ ہیں اور چونکہ ان کی خلقت کے بہت سے مراحل تھے ، لہٰذا بعض آیات میں جیسے آل عمران کی ۵۹ویں آیت اس کی خلقت کے ابتدائی مرحلہ کو خاک ،اور دوسری آیات جیسے سورۂ انعام کی دوسری آیت ؛ ۱۱صافات؛ ۲۶حجراور ۱۴الرحمن کی آیتوں میں ایک ایک یا چند مرحلوں کے نام بتائے گئے ہیں ، جیسے کہ سورۂ سجدہ کی ۷و ۸ ویں آیت کی طرح آیات میں خاک سے حضرت آدم کی خلقت بیان کرتے ہوئے آدم کی نسل اور ذریت کی خلقت کو بھی بیان کیا گیاہے ۔

۱۰۴

چارلزڈارون(۱) نے انسان کی خلقت کے سلسلہ میں اپنے نظریہ کویوں پیش کیاہے کہ انسان اپنے سے پست حیوانوں سے ترقی کرکے موجودہ صورت میں خلق ہوا ہے اور انسان کی خلقت کے سلسلہ میں اس کے نظریہ نے مسیحیت اور جدید علم کے نظریات کے درمیان بہت ہی پیچیدہ مباحث کو جنم دیا اور بعض نے اس غلط نظریہ کی بناپر علم اور دین کے درمیان اختلاف سمجھا ہے۔(۲) ڈارون کا دعویٰ تھا کہ مختلف نباتات و حیوانات کے اقسام اتفاقی اور دھیرے دھیرے تبدیلی کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں جو کہ ایک نوع کے بعض افراد میں فطری عوامل کی بنیاد پرپایاجاتا ہے، جو تبدیلیاں ان افراد میں پیدا ہوئی ہیں وہ وراثت کے ذریعہ بعد والی نسل میں منتقل ہوگئی ہیں اور بہتر وجود ، فطری انتخاب اور بقا کے تنازع میں محیط کے مطابق حالات ایک جدید نوعیت کی خلقت کے اسباب مہیا کرتے ہیں ۔ وہ اسی نظریہ کی بنیاد پر معتقد تھا کہ انسان کی خلقت بھی تمام ا قسام کے حیوانات کی طرح سب سے پست حیوان سے وجود میں آئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسان گذشتہ حیوانوں کے اقسام میں سب سے بہتر ہے ۔

ڈارون کے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی یہ نظریہ سخت متنازع اور تنقید کا شکار رہا اور ''اڈوار مک کریڈی ''(۳) اور'' ریون ''(۴) جیسے افراد نے اس نظریہ کو بالکل غلط مانا ہے ۔(۵) اور ''الفریڈ رسل ویلیس ''(۶) جیسے بعض افراد نے اس نظریہ کو خصوصاً انسان کی خلقت میں نا درست سمجھا

____________________

(۱) Charles Robert Darwin

(۳) E.Mc Crady

(۴) Raven

(۶) Alfred Russel Wallace

(۲)ڈارون نے خود صراحتاً اعلان کیاہے کہ ''میں اپنے فکری تحولات میں وجود خدا کاانکار نہ کرسکا''،زندگی و نامہ ای چارلزڈارون؛ ج۱ ص ۳۵۴( پیرس ، ۱۸۸۸) بدوی عبد الرحمن سے نقل کرتے ہوئے ؛ موسوعة الفلسفة. ڈارون نے فطری قوانین کو ایسے اسباب و علل اور ثانوی ضرورت کے عنوان سے گفتگو کی ہے کہ جس کے ذریعہ خداوند عالم تخلیق کرتا ہے ۔گرچہ انسان کے ذہن نے اس باعظمت استنباط کو مشکو ک کردیا ہے ۔( ایان باربور ، علم و دین ؛ ص ۱۱۲)۔

(۵) ایان باربور ، علم و دین ؛ ص۴۱۸ و ۴۲۲۔

۱۰۵

ہے(۱) یہ نظریہ ایک خاص جرح و تعدیل کے باوجود بھی علمی اعتبار سے نیز صفات شناسی اور ژنٹیک کے لحاظ سے ایک ایسے نظریہ میں تبدیل نہیں ہوسکا کہ جس کی بے چوں چرا تثبیت ہو جائے اور متفکرین نے تصریح کی ہے کہ آثار اورموجودات شناسی کے ذریعہ انسان کے حسب و نسب کی دریافت کسی بھی طریقہ سے صحیح وواضح نہیں ہے اور انسانوں جیسے ڈھانچوں کے نمونے اور ایک دوسرے سے ان کی وابستگی، نظریہ تکامل کے طرفداروں کے مورد استناد ہونے کے با وجود ان کے نظریات میں قابل توجہ اختلاف ہے ۔

''ایان باربور'' کی تعبیر یہ ہے کہ ایک نسل پہلے یہ رسم تھی کہ وہ تنہا نکتہ جو جدید انسانوں کے نسب کو گذشتہ بندروں سے ملاتا تھا ،احتمال قوی یہ ہے کہ انسان اور بندر کی شباہت ایک دوسرے سے ان کے اشتقاق پر دلالت کرتی ہو اور ہو سکتا ہے کہ نئا ندرتال انسان سے ایسی نسل کی حکایت ہو جو اپنے ابتدائی دور میں بغیر نسل کے رہ گئی ہونیزمنقطع ہو گئی ہو ۔(۲) اوصاف شناسی کے اعتبا رسے معمولی تبدیلیوں میں بھی اختلاف نظر موجود ہے بعض دانشمندوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اگرچہ معمولی تحرک قابل تکرارہے لیکن وہ وسیع پیمانہ پر تحرک و فعالیت جو نظریہ تکامل کے لئے ضروری

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ: ص ۱۱۱۔۱۱۴،اگرچہ نظریہ ڈارویس پر وارد تنقیدوں کے مقابلہ میں اس کے مدافعین کی طرف سے متعدد جوابات دیئے گئے ہیں لیکن آج بھی بعض تنقیدیں قانع جوابات کی محتاج ہیں مثال کے طور پر'' والٹر'' جو ''ڈارون'' سے بالکل جدا، فطری طور پر سب سے پہلے انتخاب کو نظام سمجھتا ہے اس کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اور بندر کی عقل کے درمیان موجودہ فاصلہ کو جیسا کہ ڈارون نے اس سے پہلے ادعا کیا تھا ، بدوی قبائل پر حمل نہیں کرسکتے ہیں اس لئے کہ ان کی دماغی قوت ترقی یافتہ متمدن قوموں کی دماغی قوت کے مطابق تھی لہٰذا فطری انتخاب انسان کی بہترین دماغی توانائی کی توجیہ نہیں کر سکتا ہے ۔ اس کا عقیدہ ہے کہ بدوی قوموں کی عقلی توانائیاں ان کی سادہ زندگی کی ضرورتوں سے زیادہ تھی ، لہٰذا ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اس سے چھوٹا مغز بھی کافی تھا ۔ فطری انتخاب کے اعتبار سے بندر وں سے زیادہ انسان کو دماغ دینا چاہیئے جب کہ ایسے انسانوں کا دماغ ایک فلسفی کے دماغ سے چھوٹا ہے ۔ ( ایان باربور ؛ علم و دین ؛ ص ۱۴۴و ۱۱۵)

(۲)ایان باربور؛ گذشتہ حوالہ : ص ۴۰۲و ۴۰۳۔

۱۰۶

ہیں بہت کم ہے۔ اور مردم شماری کے قوانین کے اعتبار سے قابل پیش بینی نہیں ہے، اس کے علاوہ ہو سکتا ہے کہتجربہ گاہوں کے مطالعات ایک طرح کی اندرونی تبدیلیوں کی تائید کریں، لیکن تدریجی تبدیلیوں کے زیر اثر جدید اقسام کے وسیع حلقوںکی تشکیل کے اثبات سے ناتواں ہیں،اور ایک متحرک فرد کا کسی اجتماعی حلقہ اور بڑے گروہ میں تبدیل ہو جانا، ایک سوالیہ نشان ہے اور اس وسیع افعال پر کسی بھی جہت سے واضح دلائل موجود نہیں ہیں ۔(۱) دوسری مشکل صفات کا میراثی ہونا ہے جب کہ ان کا اثبات معلومات و اطلاعات کے فراہم ہونے سے وابستہ ہے جس کو آئندہ محققین بھی حاصل نہیں کرسکیں گے یا موجودہ معلومات واطلاعات کی وضاحتوں اور تفاسیر سے مربوط ہے جس کو اکثر ماہرین موجودات شناسی نے قبول نہیں کیا ہے ۔(۲) بہر حال ان نظریات کی تفصیلی تحقیق و تنقید اہم نہ ہو نے کی وجہ سے ہم متعرض نہیں ہوںگے، مختصر یہ کہ انسان کے بارے میں ڈارون کا نظریہ تنقیدوں ، مناقشوں اور اس میں تناقض کے علاوہ صرف ایک ظنی اور تھیوری سے زیادہ ،کچھ نہیں ہے(۳) مزید یہ کہ اگر اس نظریہ کو قبول بھی کرلیا جائے تو کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس میں خدا کے ارادہ کے باوجود کسی ایک شی ٔمیں بھی فطری حرکت غیر عادی طریقہ سے نقض نہ ہوئی ہو، اور حضرت آدم فقط خاک سے خلق نہ ہوئے ہوں ،اس کے باوجود یہ نظریہ ڈاروین کی تھیوری کے مطابق فقط انسانوں کی خلقت کے امکان کو ثابت کرتا ہے، اس راہ سے موجودہ نسل کی خلقت کی ضرورت و التزام کو ثابت نہیں کرتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ دوسرے انسان اس راہ سے وجود میں آئے ہوں اور نسل منقطع ہوگئی ہو ، لیکن موجودہ نسل جس طرح قرآن بیان کرتا ہے اسی طرح روئے زمین پر خلق ہوئی ہے ،قابل ذکر ہے کہ قرآن

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ : ص ۴۰۳۔

(۲)گذشتہ حوالہ : ص ۴۰۴۔

(۳)کارل پاپر( Karl Raimond Popper ) '' جستجوی ناتمام '' کتاب میں لکھتا ہے : نئے نظریہ تکامل کے ماننے والوں نے زندگی کے دوام کو انطباق یا ماحول کی سازش کا نتیجہ بتایا ہے ، ایسے ضعیف نظریہ کے تجربہ کا امکان تقریباً صفر ہے ( ص ۲۱۱)

۱۰۷

ایسے انسانوں کے خلق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں جن کی موجودہ نسل ان تک نہیں پہونچتی ہے نیز ان کی خلقت کی کیفیت کے بارے میں ،خاموش ہے ۔

جو کچھ بیان ہوچکا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اگرچہ سب سے پہلے انسان کی خلقت سے مربوط آیات کے مفاہیم، انسان کے سلسلہ میں ڈاروین کی تھیوری کے مطابق نہیں ہے لہٰذا جن افراد نے قرآن کریم کے بیانات سے دفاع کے لئے مذکورہ آیات کی توجیہ کی ہے انہیں توجہ رکھنا چاہیئے کہ ایسی توجیہیں صحیح نہیں ہیں بلکہ'' تفسیر بالرای''ہے، اس لئے کہ ایسے نظریات جو ضروری اور صحیح دلیلوں نیزتائیدوں سے خالی ہوں وہ مذکورہ آیات کی توجیہ پر دلیل نہیں بن سکتے ہیں ،چہ جائے کہ توجیہ اور ظاہر آیات کے مفہوم سے استفادہ نہ کرنا فقط ایک قطعی اور مذکورہ آیات کے مخالف فلسفی یا غیر قابل تردید علمی نظریہ کی صورت میں ممکن ہے جب کہ ڈاروین کا نظریہ ان امتیازات سے خالی ہے ۔

تمام انسانوں کی تخلیق

نسل انسان کی آفرینش زاد و ولد کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔ اس سلسلہ میں گذشتہ ادوار سے آج تک پانچ نظریات بیان ہوئے ہیں ۔

ارسطونے بچہ کی خلقت کو خون حیض کے ذریعہ تسلیم کیا ہے اور اس سے ماسبق فلاسفہ نے مرد کی منی سے متولد جنین کی رشد کے لئے شکم مادر کوفقط مزرعہ سمجھا ہے ۔

تیسرا نظریہ جو ۱۸ویں صدی عیسوی کے نصف تک رائج تھا ،خود بخود خلقت کا نظریہ تھا(۱) جس کے ویلیم حاروے جیسے ماہرینِ وظائف اعضائ، مدافع تھے ۔(۲) چوتھا نظریہ جو ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی میں بیان ہوا وہ نظریہ تکامل تھا(۳) جس کے لائب نیٹز ، ہالر اور بونہ جیسے افراد سر سخت طرفدار تھے ،یہ لوگ معتقد تھے کہ انسان کی اولاد بہت ہی چھوٹی موجود کی صورت میں انڈے یا

____________________

(۱) Spontaneous Generation. (۲)William Harvey. (۳)Evolution

۱۰۸

نطفہ میں موجود رہتی ہے، ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ان چھوٹے اور متداخل موجودات کی کروروں تعداد اولین مرد یا عورت کے تناسلی اعضاء میں موجود تھی اور جب ان میں سے سب سے باریک اور آخری حصہ خارج ہو جائے گا تب نسل بشر ختم ہوجائے گی، اس نظریہ کے مطابق تناسل و تولد میں نئے اور جدید موجود کی خلقت و پیدائش بیان نہیں ہوئی ہے بلکہ ایسے موجود کے لئے رشد و نمو،آغاز وجود ہی سے موجود ہے ۔

پانچواں نظریہ ۱۷ویں صدی میں ذرہ بین کے اختراع اور انسانی حیات شناسی کی آزمائشوں اور تحقیقوں کے انجام کے بعد خصوصاً ۱۸ ویں صدی میں نطفہ شناسی کے عنوان سے بیان ہوا جس کی وجہ سے مفکرین اس نکتہ پہ پہونچے ہیں کہ نطفہ کی خلقت میں مرد و عورت دونوں کا کردار ہے اور نطفہ کامل طور پر مرد کی منی اور عورت کے مادہ میں نہیں ہوتا ہے، مرد و عورت کے نطفہ کے ملنے کی کیفیت ۱۸۷۵صدی میں مشاہدہ سے واضح ہو چکی ہے کہ بچہ کے ابتدائی نطفہ کی تخلیق میں مرد و عورت دونوں موثرہیں۔ اور ۱۸۸۳ صدی میں نطفہ کی تخلیق میں دونوں کا مساوی کردار ثابت ہوچکا ہے ،مختلف تبدیلیوں کے مراحل سے مرتبط اور مختلف شکلوںمیں رحم کی دیواروں سے نطفہ کا معلق ہونااور اس کا رشد نیز نطفہ کا مخلوط ہونااور دوسری مختلف شکلیںجو نطفہ اختیار کرتاہے یہ وہ چیزیں ہیں جس کی تحقیق ہوچکی ہے ۔(۱)

قرآن مجید نے بہت سی آیات میں تمام انسانوں ( نسل آدم ) کے بارے میں گفتگو کی ہے اور ان کی خلقت کے مختلف مراحل بیان کئے ہیں اس حصہ میں ہم ان مراحل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے ابتدائی دو مراحل کی تحقیق کریں گے ۔

بعض آیات میں خدا فرماتا ہے کہ : خدا وند عالم نے انسان کو خلق کیا جب کہ اس سے پہلے وہ

____________________

(۱)ملاحظہ ہو: شاکرین ، حمید رضا ، قرآن و روان شناسی ؛ ص ۲۲۔ ۲۵۔ طبارہ ، عبد الفتاح ، خلق الانسان دراسة علمیة قرآنیة ؛ ج۲ ، ص ۶۶۔ ۷۴۔

۱۰۹

کچھ نہ تھا( أَوَ لا یَذکُرُ الإنسَانُ أَنَّا خَلَقنَاهُ مِن قَبلُ وَ لَم یَکُ شَیئاً ) (۱) کیا انسان بھولگیا کہ ہم نے اس وقت اسے خلق کیا جب وہ کچھ نہ تھا۔

یہ بات واضح ہے کہ آیت میں قبل سے مراد ابتدائی ( فلسفی اصطلاح میں خلقت جدید) مادہ کے بغیر انسان کی خلقت نہیں ہے اس لئے کہ بہت سی آیات میں ابتدائی مادہ کی بنا پر انسان کی خلقت کی تاکید ہوئی ہے ،اس آیت میں یہ نکتہ مورد توجہ ہے کہ انسان کا مادہ و خاکہ، انسانی وجود میں تبدیل ہونے کے لئے ایک دوسرے ( روح یا انسانی نفس و جان ) کے اضافہ کا محتاج ہے ،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ابتدائی مادہ انسان کے مقابلہ میں روح کے بغیر قابل ذکر و قابل اہمیت نہیں ہے، اسی بنا پر ہم سورہ'' انسان'' کی پہلی آیت میں پڑھتے ہیں کہ (( هَل أَتَیٰ عَلیٰ النسَانِ حِین مِّنَ الدَّهرِ لَم یَکُن شَیئاً مَذکُوراً ) کیا انسان پر وہ زمانہ نہیں گذرا جس میں وہ قابل ذکر شی بھی نہ تھا ۔ دوسرے گروہ کی آیات میں انسان کی خلقت کے ابتدائی مادہ کو زمین(۲) خاک(۳) مٹی(۴) چپکنے والی مٹی(۵) بدبو دار مٹی ( کیچڑ )خمیر(۶) اور ٹھکرے کی طرح خشک مٹی بتایا گیا ہے ۔(۷)

وہ آیات جو انسان کے جسمانی خلقت کے مختلف مراحل کی طرف اشارہ کرتی ہیں اگرچہ اکثر مقامات پر انسان کو عام ذکر کیا ہے لیکن ان آیتوں کی روشنی میں جو اس کی ابتدائی خلقت میں گذر چکی ہیں اور موجودہ انسانوں کی خلقت کے عینی واقعات جو ان آیات میں بیان کئے گئے مذکورہ مراحل طے نہیں کرتے ہیں، خلاصہ یہ کہ ابتدائی انسان کی جسمانی خلقت کے یہی مراحل اس کی خلقت کے اختتام میں بھیپائے جاتے ہیں ۔

____________________

(۱)سورۂ مریم ۶۷

(۲)(هُو أنشَأَکُم مِنَ الأَرضِ )(ہود ۶۱)

(۳)(فنَّا خَلَقنَاکُم مِّن تُرَابٍ )(حج۵)

(۴)(وَ بَدَأَ خَلقَ النسَانِ مِن طِینٍ )( سجدہ ۷)

(۵)(نَّا خَلَقنَاهُم مِن طِینٍ لازِبٍ )(صافات۱۱)

(۶)(وَ لَقَد خَلَقنَا النسَانَ مِن حَمَأٍ مَسنُونٍ )( حجر ۲۶)

(۷)(خَلَقَ الِنسَانَ مِن صَلصَالٍ کَالفَخَّارِ )( الرحمن ۱۴)

۱۱۰

آیات کا تیسرا گروہ ؛ انسان کے تخلیقی مادہ کو پانی بتاتاہے جیسے( وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ المَائِ بَشَراً فَجَعَلهُ نَسَباً وَ صِهراً ) (۱) وہی تو وہ (خدا)ہے جس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا پھر اس کو خاندان اور سسرال والا بنایا۔

گرچہ ہوسکتا ہے کہ یہ آیت مصداق اور ان آیات کے موارد کو بیان کرنے والی ہو جو ہر متحرک یا ذی حیات کی خلقت کو پانی سے تسلیم کرتی ہیں(۲) اور پانی سے مراد وہی پانی ہے جو عرف عام کی اصطلاح میں ہے لیکن ان آیات کو مد نظر رکھتے ہوئے جو انسان یا نسل آدم کی خلقت کونجس(۳) یاآب جہندہ(۴) سے بیان کرتی ہیں ان سے اس احتمال کو قوت ملتی ہے کہ اس آیت میں پانی سے مراد انسانی نطفہ ہے، اور آیت شریفہ نسل آدم کی ابتدائی خلقت کے نطفہ کو بیان کر رہی ہے ۔ لیکن ہر مقام پر اس کی خصوصیات میں سے ایک ہی خصوصیت کی طرف اشارہ کیاہے منجملہ خصوصیات میں سے جو قرآن میں اس نطفہ کو انسانی نسل کی خلقت کے نقطہ ٔ آغاز کے عنوان سے ذکر کیاہے وہ مخلوط ہونا ہے جسے علم بشر کم از کم ۱۸ ویں صدی سے پہلے نہیں جانتا تھا ۔

سورۂ دہر کی دوسری آیت میں خدا فرماتا ہے :

( إنَّا خَلَقنَاالنسَانَ مِن نُطفَةٍ أَمشَاجٍ نَبتَلِیهِ فَجَعَلنَاهُ سَمِیعاً بَصِیراً )

ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا کہ اسے آزمائیں (اسی لئے )تو ہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والابنایا۔

اس آیت میں کلمہ ''امشاج ''کے ذریعہ بچہ آمادہ کرنے والے مخلوط نطفہ سے گفتگو ہوئی ہے یا اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ امشاج ، مشیج کی جمع ہے جو مخلوط کے معنی میں ہے آیت اس بات

____________________

(۱)سورۂ فرقان ۵۴.

(۲) سورۂ نور ۴۵۔ سورۂ انبیاء ۳۰۔

(۳)(أ لَم نَخلُقکُم مِن مَائٍ مَّهِینٍ )(مرسلات ۲۰)(ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلالَةٍ مِن مَّائٍ مَّهِینٍ )( سجدہ ۸)

(۴)(خُلِقَ مِن مَّائٍ دَافِقٍ )( طارق ۶)

۱۱۱

پردلالت کرتی ہے کہ بچہ کو تشکیل دینے والا نطفہ مخلوط ہونے کے اعتبار سے مختلف اقسام کا حامل ہے، اور یہ مفہوم، موجودہ رشد شناسی میں ثابت ہوچکے مطالب سے مطابقت رکھتا ہے اور یہ قرآن مجید کے غیبی خبروں میں سے شمار ہوتا ہے ۔(۱) اور انجام پاچکی تحقیقوں کے مطابق انسانی نطفہ ایک طرف تو مرد و عورت کے نطفہ سے مخلوط ہوتا ہے اور دوسری طرف خود نطفہ مختلف غدود کے ترشحات سے مخلوط و مرکب ہوتا ہے ۔

علقہ ہونا بچہ کی خلقت کا دوسرا مرحلہ ہے جو قرآن کی آیتوں میں مذکور ہے ،سورۂ حج ۵ ؛ مومنون ۶۷؛ غافر ۳۸ کی آیات میں کلمہ ''علقہ ''اور سورۂ علق کی دوسری آیت میں کلمہ ''علق''بچہ کے رشد و نمو کے مراحل میں استعمال ہوا ہے، علق؛ علقہ کی جمع ہے اور علقہ ، علق سے لیا گیا ہے جس کا معنی چپکنااور پیوستہ ہوناہے چاہے وہ پیوستگی مادی ہو یا معنوی یا کسی اورچیز سے پیوستگی ہومثلا خون جامد (جاری خون کے مد مقابل ) کے اجزاء میں بھی چپکنے کی صلاحیت ہوتی ہے خلاصہ یہ کہ ہر وہ چیزجواس سے ملحق ہو اور چپک جائے اسے علقہ کہتے ہیں ۔(۲) جونک چونکہ خون یاخونی اجزاء کو چوسنے کے لئے بدن یا کسی دوسری چیز سے چپکتا ہے اس لئے اس کو بھی علقہ کہتے ہیں ،بہر حال یہ دیوار رحم سے نطفہ کی چسپیدگی کے مراحل اور مخلوط نطفہ کے مختلف اجزاء کے ایک دوسرے سے چسپیدگی کی حکایت

____________________

(۱)موریس بوکا لکھتا ہے : مادہ ٔ منویہ مندرجہ ذیل غدود کے ترشحات سے وجود میں آتا ہے :

۱۔ مرد کے تناسلی غدود کی ترشحات اسپرموٹزوید کے حامل ہوتے ہیں ۔ ۲۔انڈوں کی تھیلیوں کی ترشحات، حاملہ کرنے کے عناصر سے خالی ہیں ۔

۳۔پروسٹٹ ترشحات ، ظاہراً خمیر کی طرح ہوتے ہیں اور اس میں منی کی مخصوص بو ہوتی ہے ۔

۴۔ دوسرے غدود کی مخلوط و سیال ترشحات ،پیشاب کی رگوں میں موجود ہوتا ہے ۔( بوکائی ، موریس ؛ انجیل ، قرآن و علم ؛ ص ۲۷۱ و ۲۷۲)

(۲)طبرسی ؛ مجمع البیان ؛ ( سورہ علق کی دوسری آیت کے ذیل میں ) لغت کی کتابیں ۔

۱۱۲

کرتی ہے، اور یہ حقیقت بھی قرآن کے غیبی اخبار اور نئی چیزوں میں سے ہے جسے آخری صدیوں تک علم بشر نے حل نہیں کیا تھا ۔(۱) مضغہ(۲) ہڈیوں کی خلقت(۳) ہڈیوں پر گوشت کا آنا(۴) اور دوسری چیزوں کی خلقت(۵) (روح پھونکنا )(۶) یہ وہ مراحل ہیں جو قرآن کی آیتوں میں نطفہ کے رشد کے لئے بیان ہوئے ہیں.

روح کا وجود اوراستقلال

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کی روح کے سلسلہ میں متعدد و متفاوت نظریات بیان ہوچکے تھے بعض لوگ ایک سرے سے روح کے منکر تھے اور انسان کو مادی جسم میں منحصر سمجھتے تھے ۔بعض دوسرے لوگوں نے روح کو ایک مادی اور جسم سے وابستہ شئی اور انسان کے جسمانی خصوصیات اور آثار والی ذات شمار کیا ہے اور بعض لوگ روح کو غیر مادی لیکن جسم سے غیر مستقل وجود سمجھتے ہیں(۷) ان نظریات کو بیان کرنے اور ان کی دلیلوں پر تنقید و تحقیق کے لئے مزید فرصت درکار ہے

____________________

(۱)دوسرے اور تیسرے ہفتوں میں جنین کے پیوند ، ملاپ اور چپکنے کے مراحل کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: البار ؛ محمد علی ، خلق الانسان بین الطب و القرآن ؛ ص ۳۶۸و ۳۶۹۔ سلطانی ، رضا ؛ و فرہاد گرمی ، جنین شناسی انسان ، فصل ہفتم ۔ (۲)(فَخَلَقنَا العَلَقَةَ مُضغَةً )مومنون۱۴ (۳)(فَخَلَقنَا المُضغَةَ عِظَاماً )مومنون۱۴

(۴)(فَکَسَونَا العِظَامَ لَحماً )مومنون۱۴ (۵)(ثُمَّ أَنشَأنَاهُ خَلقاً آخَرَ )مومنون ۱۴۔

(۶)رحم میں نطفہ کے استقرار کی خصوصیت اور اس کے شرائط نیز تولد کے بعد رشد انسان کے مراحل کو بعض آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔ جیسے سورہ حج ۵۔ نوح ۱۴ ۔زمر ۶۔ مومن ۶۷ کی آیتیں ۔ (۷)روح کے بارے میں بیان کئے گئے نظریات کو چار عمومی دستوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :الف) وہ نظریات جو جسم کے مقابلہ میں ایک عنصر کے اعتبار سے روح اور روحانی حوادث کے بالکل منکر ہیں اور تمام روحانی حوادث میں مادی توجیہ پیش کرتے ہیں ،اس نظریہ کو '' ڈمکراٹیس ، رنو ، تھامس ہابز ، علاف ، اشعری ، باقلانی ، ابوبکر اصم اور عقیدہ رفتار و کردار رکھنے والوں کی طرف نسبت دیا گیا ہے ۔ ب)وہ نظریات ہیں جس میں روحی حوادث کو قبول کیا گیاہے ، لیکن روح مجرد کا انکار کیا گیاہے ۔ عقیدہ تجلیات ( Epiphenomenalism )روحی حوادث کو مادی حوادث سے بالکل جدا سمجھنے کے باوجود مادی اور جسمانی اعضاء کا نتیجہ سمجھتے ہیں نیز نظریہ فردی ( Parson Theory )روح کو ایسا حوادث روحی سمجھتا ہے جو ہمیشہ انسان کی راہ میں ایجاد اور ختم ہوتا رہتاہے ۔( T.H.Huxly )پی.اف.سراسن نے ( P.F.Srawson )مذکورہ بالادونوں نظریات کو ترتیب سے بیان کیا ہے ۔ج) وہ نظریات جو روح و جسم کو دو مستقل اور جدا عنصر بتانے کے باوجود ان دونوںکو ایک جنسی اور مادی خمیر سے تعبیر کیا ہے ۔ اس نظریہ کو ولیم جیمز اور راسل کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔ د)بعض نظریات روح و جسم کے تاثرات کو قبول کرتے ہیں لیکن جسم کے علاوہ ایک دوسری شی بنام روح یعنی مجرد شی کا اعتقاد رکھتے ہیں جس سے تمام روحی حودث مربوط ہیں اور اسی سے حادث ہوتے ہیں ،مفکرین و فلاسفہ کی قریب بہ اتفاق تعداد اس نظریہ کی طرفدار ہے ۔رجوع کریں: ابوزید منی احمد ؛ الانسان فی الفلسفة الاسلامیة ؛ موسسہ الجامعیة للدراسات، ، بیروت ، ۱۴۱۴، ص ۸۸۔۱۰۰

۱۱۳

لہٰذا ہم اس سلسلہ میں فقط قرآن کے نظریہ کو ذکر کریں گے نیز بعض عقلی اور تجربی دلیلوں اور قرآن کے نظریہ سے ان کی ہماہنگی کو بیان کریں گے ۔

وہ آیات جو قرآن مجیدمیں روح مجرد کے استقلال اوروجود کے بارے میں آئی ہیں دو گروہ میں تقسیم ہوتی ہیں: پہلے گروہ میں وہ آیات ہیں جو روح کی حقیقت کو بیان کرتی ہیں اور دوسرے گروہ میں وہ آیات ہیں جو حقیقت روح کے علاوہ استقلال اور موت کے بعد روح کی بقا کو بیان کرتی ہیں۔

من جملہ آیات میں سے جو روح کے وجود پر دلالت کرتی ہیں وہ سورہ مومنون کی بارہویں تا چودہویں آیت ہے جو انسان کی جسمانی خلقت کے مراحل کو ذکر کرنے کے بعد بیان کرتی ہیں کہ( ثُمَّ أنشَأنَاهُ خَلقاً آخَرَ ) یہ واضح رہے کہ انسان کے جسمانی تکامل کے بعد دوسری خلقت سے مراد کوئی جسمانی مرحلہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ انسانی روح پھونکے جانے کے مرحلہ کی طرف اشارہ ہے اسی بنا پراس جگہ آ یت کی عبارت ان عبارتوں سے جدا ہے جو جسمانی مراحل کو ذکر کرتی ہیں۔(۲)

____________________

(۱)مجرد و مادی شی کی خصوصیات اور تعریف کے بارے میں مزید اطلاعات کے لئے ۔ملاحظہ ہو: عبودیت ، عبد الرسول ؛ ہستی شناسی ؛ ج۱ ص ۲۵۶ تا ۲۸۷۔ (۲)ملاحظہ ہو: محمد حسین طباطبائی ؛ المیزان فی تفسیر القرآن ج۱۵، ص ۱۹. روایات میں بھی آیہ کریمہ کی اسی طرح تفسیر ہوئی ہے ۔ملاحظہ ہو: الحر العاملی محمد بن الحسن ؛ وسائل الشیعہ ج۱۹ ص ۳۲۴۔

۱۱۴

سورہ سجدہ کی نویں آیت میں بھی انسان کے اندر روح کے حقیقی وجود کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور خاک سے حضرت آدم اور پانی سے ان کی نسل کی خلقت کے مسئلہ کوبیان کیا ہے کہ :

( ثُمَّ سَوَّاهُ وَ نَفَخَ فِیهِ مِن رُّوحِهِ ) (۱) پھر خدا نے اس کو آمادہ کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی ۔

اس آیہ شریفہ کاظاہری مفہوم یہ ہے کہ جسمانی تکامل کے مراحل سے آمادگی و تسویہ کے مرحلہ کو طے کرنے کے بعد خدا کی طرف سے روح پھونکی جائے گی ۔(۲)

____________________

(۱)سورۂ سجدہ ؛ ۹، یہ بات قابل توجہ ہے کہ آیات و روایات سے روح انسان کے استقلال اور وجود کا استفادہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن نے کلمہ روح کو استعمال کرکے روح انسان کے استقلال و وجودکے مسئلہ کو بیان کیا ہے، قرآن کریم میں تقریباً ۲۰ مقامات میں کلمہ روح استعمال ہوا ہے ،اور اس کے معنی و مراد کے اعتبار سے بعض آیات میں اختلاف پایا جاتا ہے جیسے آیہ شریفہ (قُلِّ الرُّوحُ مِن أَمرِ رَبِّی ) لیکن کلمہ روح کے دو قطعی اور مورد اتفاق استعمالات ہیں :

پہلا یہ کہ خدا کے ایک برگزیدہ فرشتہ کے سلسلہ میں ''روح ، روح القدس ، روح الامین''کی تعبیریں مذکور ہیں جیسے (تَنَزَّلُ المَلائِکةُوَالرُّوحُ فِیهَابِأذنِ رَبِّهِم مِن کُلّ أَمرٍ )قدر۴۔

دوسرا مقام یہ ہے کہ اس انسانی روح کے بارے میں استعمال ہوا ہے جو اس کے جسم میں پھونکی جاتی ہے ؛ جیسے وہ موارد جس میں حضرت آدم اور عیسی کی خلقت کے سلسلہ میں روح پھونکے جانے کی گفتگو ہوئی ہے،مثال کے طورپر(فَذَا سَوَّیتُهُ وَنَفَختُ فِیهِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ ) (حجر۲۹)حضرت آدم کی خلقت کو بیان کیا ہے اور جیسے (وَ مَریَمَ ابنَتَ عِمرَانَ الَّتِی أحصَنَت فَرجَهَا فَنَفَخنَا فِیهِ مِن رُّوحِنَا ) (تحریم۱۲)

(۲)بعض مفسرین نے مذکورہ آیت میں روح پھونکے کے عمل کو حضرت آدم کی خلقت بیان کیا ہے، لیکن جو چیزیں متن کتاب میں مذکور ہے وہ ظاہر آیت سے سازگار نہیں ہے ۔

۱۱۵

وہ آیات جو وجود روح کے علاوہ موت کے بعد اس کی بقا کوثابت کرتی ہیں بہت زیادہ ہیں۔(۱) اور ان آیات کو تین گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

۱۔ وہ آیات جو موت کو ''توفّی '' کے عنوان سے یاد کرتی ہیں خصوصاً سورہ سجدہ کی دسویں اور گیارہویں آیتں:

(( وَ قَالُوا أَئِ ذَا ضَلَلنَا فِی الأرضِ أَئِ نَّا لَفِی خَلقٍ جَدِیدٍ بَل هُم بِلِقَائِ رَبِّهِم کَافِِرُونَ قُل یَتَوَفَّاکُم مَّلَکُ المَوتِ الَّذِی وُکِّلَ بِکُم ثُمَّ ِلَیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ )

اور ان لوگوں(کافرین)نے کہا کہ جب ہم (مرگئے بوسیدہ اورجسم کے ذرات) زمین میں ناپید ہوگئے تو کیا ہم پھر نیا جنم لیں گے بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے حضور ہی سے انکار رکھتے ہیں ، تم کہدو کہ ملک الموت جو تمہارے اوپر تعینات ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤگے ۔

کلمہ ''توفی'' پر توجہ کرتے ہوئے کہ جس کا معنی کسی شی کو پوری طرح اور کامل طریقہ سے دریافت کرنا ہے، مذکورہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ موت کے وقت وہ چیزجو مشاہدہ ہوتی ہے اس کے علاوہ ( بے حرکت اور احساس و فہم سے عاری جسم )وہ چیز جو انسان کی اصل اور حقیقت ہے اور پوری طرح فرشتوں کے ذریعہ دریافت ہوتی ہے وہی روح ہے اس لئے کہ مرنے کے بعد اور

____________________

(۱)بدن سے روح کے استقلال کے مختلف تاثرات کی نفی اور بالکل بے نیازی کے معنی میں سمجھنا چاہیئے ،بلکہ روح اپنی تمام فعالیت میں تقریبا جسم کی محتاج ہے اور ان افعال کو جسم کی مدد سے انجام دیتی ہے ،مثال کے طور پر مادی دنیا کے حوادث کی معرفت بھی روح کی فعالیت میں سے ہے جو حسی اعضا سے انجام پاتے ہیں ، اسی طرح انسان کی روح اور اس کا جسم ایک دوسرے میں اثر انداز ہوتے ہیں ، مثال کے طور پرروح کی شدید تاثرات آنکھ کے غدود سے اشک جاری ہونے کے ہمراہ ہے اور معدہ کا خالی ہونا بھوک کے احساس کو انسان کے اندر ایجاد کرتا ہے ۔

۱۱۶

مرنے سے پہلے جسم ہمارے درمیان اور اختیار میں ہے جسے فرشتہ وحی دریافت نہیں کرتا ہے اس آیت میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ منکرین معاد جو یہ گمان کرتے ہیں کہ انسان در حقیقت وہی جسم ہے جو موت کی وجہ سے منتشرہوجاتا ہے اور اس کے ذرات زمین میں نابود ہو جاتے ہیں ، خداوند قدوس اس فکر کو نادرست مانتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہاری حقیقی اور واقعی حقیقت ایک دوسری شیٔ ہے جو کامل طور پر ملک الموت کے ذریعہ دریافت ہوتی ہے موت اور جسم کے پراکندہ ہو جانے سے نابود ہونے والی نہیں ہے بلکہ وہ جسم سے الگ اپنی حیات کو جاری رکھتی ہے ۔

۲.آیہ کریمہ :

( وَ لَو تَرَیٰ ِذِ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ المَوتِ وَ المَلائِکَةُ بَاسِطُوا أَیدِیهِم أَخرِجُوا أَنفُسَکُمُ الیَومَ تُجزَونَ عَذَابَ الهُونِ بِمَا کُنتُم تَقُولُونَ عَلَیٰ اللّٰهِ غَیرَ الحَقِّ وَ کُنتُم عَن آیَاتِهِ تَستَکبِرُونَ ) (۱)

اور کاش تم دیکھتے کہ یہ ظالم موت کی سختیوں میں پڑے ہیں اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ لپکا رہے ہیں(اور ان کے سروں کے اوپر کھڑے ہوئے ان سے کہیں گے ) خوداپنی جانیں نکالو آج ہی تو تم کو رسوائی کے عذاب کی سزا دی جائے گی کیونکہ تم خدا پر ناحق جھوٹ جوڑا کرتے تھے اور اس کی آیتوں سے اکڑا کرتے تھے ۔

''اپنے آپ کو خارج کریں''کی تعبیر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان جسم کے علاوہ ایک عنصر اور رکھتا ہے جو انسان کی حقیقت کو تشکیل دیتا ہے اور موت کے وقت جسم سے خارج ہوجاتا ہے اوریہ ملک الموت کے ذریعہ روح انسان کے قبض ہونے کی دوسری تعبیر ہے ۔(۲)

____________________

(۱)سورۂ انعام ۹۳۔

(۲)یہ مسئلہ اپنی جگہ ثابت ہوچکا ہے کہ جس طرح روح کا بدن کے ساتھ اتحاد، مادی نہیں ہے اسی طرح بدن سے روح کا خارج ہونابھی مادی خروج نہیں ہے ،وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو: علامہ طباطبائی کی المیزان ج۷، ص ۲۸۵۔

۱۱۷

۳. عالم برزخ کی حیات کو بیان کرنے والی آیت :

( حَتَّیٰ إِذَا جَائَ أَحَدَهُمُ المَوتُ قَالَ رَبِّ ارجِعُونَ٭ لَعَلِّی أَعمَلُ صَالِحاً فِیمَا تَرَکتُ کَلاّ ِنَّهَا کَلِمَة هوَ قَائِلُهَا وَ مِن وَرَائِهِم بَرزَخ إِلَیٰ یَومِ یُبعَثُونَ ) (۱)

یہاں تک کہ جب ان( کافروں )میں سے کسی کی موت آئی تو کہنے لگے پروردگارا! تو مجھے (دنیامیں ) پھر واپس کردے تاکہ میں اچھے اچھے کام کروں ہرگزنہیں(وہ اسی خواہش میں رہے ہیں ) یہ ایک لغو بات ہے جسے وہ بک رہا اور ان کے بعد (حیات) برزخ ہے دوبارہ قبروں سے اٹھائے جائیں گے ۔

عالم برزح پر روشنی ڈالنے والی بہت سی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مرنے کے بعد اور قیامت برپا ہونے سے پہلے روح ایک دنیا میں باحیات ہوتی ہے اور پروردگار کی نعمت و عذاب میں مبتلا رہتی ہے ، اس کی آرزو و خواہش ہوتی ہے ، سرزنش ، عذاب ، نیکی اور بشارت سے مرنے والا دوچار ہوتاہے اورمرتے ہی وہ ان خصوصیات کے ساتھ اس عالم میں وارد ہوتا ہے یہ تمام چیزیں اس جسم کے علاوہ ہیں جسے ہم نے مشاہدہ کیا ہے یا نابودجاتاہے، اسی بنا پر موت کے بعد روح کا وجودا ور اس کی بقا واضح و روشن ہے ۔(۲)

____________________

(۱)مومنون ۹۹،۱۰۰۔

(۲)استقلال روح اور وجود کو بیان کرنے والی تمام آیات کی معلومات کے لئے .ملاحظہ ہو: محمد تقی مصباح ، معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۴۵۰۔ ۴۵۶۔

۱۱۸

روح کے اثبات میں بشری معرفت اور دینی نظریہ کی ہماہنگی

گذشتہ بحث میں قرآن مجید کی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے جسم اور جسمانی حوادث کے علاوہ انسان کے لئے روح نام کی ایک دوسرے مستقل پہلو کے وجود کو ثابت کیا گیا ہے ، اب ہم

روح کی خصوصیات اور روحی حوادث سے مختصر آشنائی اور عقلی مباحث اور تجربی شواہد کے تقاضوں سے دینی نظریہ کی ہماہنگی کی مقدار معلوم کرنے کے لئے انسان کی مجرد روح کے وجود پر مبنی بعض تجربی شواہد اور عقلی دلیلوں کی طرف اشارہ کریں گے ۔

الف) عقلی دلائل

شخصیت کی حقیقت

ہم میں سے کوئی بھی کسی چیز میں مشکوک ہوسکتا ہے لیکن اپنے وجود میں کوئی شک نہیںکرتا ہے ۔ ہر انسان اپنے وجود کو محسوس کرتا ہے اور اس پر یقین رکھتا ہے یہ اپنے وجود کا علم اس کی واضح ترین معلومات ہے جس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ۔ دوسری طرف اس مطلب کو بھی جانتے ہیں کہ جس چیز کو ''خود ''یا ''میں '' سے تعبیر کرتے ہیں وہ آغاز خلقت سے عمر کے اواخر تک ایک چیز تھی اور ہے ، جب کہ آپ اپنی پوری زندگی میں بعض خصوصیات اور صفات کے مالک رہتے ہیںیا اسے کھو بیٹھتے ہیں لیکن وہ چیز جس کو ''خود ''یا ''میں '' کہتے ہیں اسی طرح ثابت و پایدار ہے، ہم مذکورہ امور کو علم حضوری سے حاصل کرتے ہیں ۔

اب ہم دیکھیں گے کہ وہ تنہا ثابت و پایدار شی ٔکیا ہے ؟ وہ تنہا ،بغیر کسی شک کے ، اعضاء یا اجرام یا بدن کا دوسرا مادی جزء یارابطوں کے تاثرات اور ان کے مادی آثار نہیں ہوسکتے اس لئے کہ ان کو ہم علم حضوری کے ذریعہ حاصل نہیں کرتے ہیں ؛ بلکہ ظاہری حواس سے درک کرتے ہیں ، اس کے علاوہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ہمیشہ متحول و متغیر ہوتے رہتے ہیں ، لہٰذا ''میں ''یا ''خود''ہمارے جسم اور اس کے آثار و عوارض کے علاوہ ایک دوسری حقیقت ہے اور اس کی پایداری و استحکام، مجرد اور غیر مادی ہونے پر دلالت کرتی ہے ،یہ بات قابل توجہ ہے کہ طریقۂ معرفت اور فلسفہ علم سے بعض ناآشنا حضرات کہتے ہیں کہ علم ؛روح مجرد کے وجود سے انکار کرتا ہے اور اس پر اعتقاد کو غلط تسلیم کرتا ہے۔(۱)

____________________

(۱)مارکس کے ماننے والے اپنے فلسفہ کو فلسفہ علمی کہتے ہیں اور روح کے منکرو معتقد بھی ہیں ۔ملاحظہ ہو: مجموعہ آثار ج۶ص۱۱۵

۱۱۹

جب کہ علم کا کوئی ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ علم اس سے کہیں زیادہ متواضع ہے کہ اپنے دائرۂ اختیار سے باہر مجرد امور میں قضاوت کرے ،یہ بات گذر چکی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کسی شعبہ میں علم کا دعویٰ، انکاراور نہ ہونا نہیں ہے بلکہ عدم حصول ہے ۔

روح کا ناقابل تقسیم ہونا اور اس کے حوادث

مادی و جسمانی موجودات ، کمیت و مقدار سے سروکار رکھنے کی وجہ سے قابل تجزیہ وتقسیم ہیں مثال کے طور پر ۲۰ سینٹی میٹر پتھرکا ایک ٹکڑا یا ایک میڑ لکڑی چونکہ کمیت و مقدار رکھتے ہیں لہٰذا قابل تقسیم ہیں اسی طرح ۱۰ سینٹی میڑ پتھر کے دو ٹکڑے یا آدھے میڑ لکڑی کے دو ٹکڑے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، اسی طرح ایک ورق کاغذ کی سفیدی جو کہ جو ہر کاغذ کی وجہ سے باقی اور اس میں داخل ہے ،کاغذ کو دوحصہ میں کر کے اس کی سفیدی کو بھی ( کاغذ کے دو ٹکڑے میں تقسیم ہونے کے ساتھ ساتھ ) تقسیم کیا جاسکتا ہے لیکن ہم سے ہر ایک جس وقت اپنے بارے میں غور و فکر کرتا ہے تو اس حقیقت کو پاتا ہے کہ نفس، مادی حقیقتوں میں سے نہیں ہے اور وہ چیز جس کو ''میں ''کہتا ہے وہ ایک بسیط اور ناقابل تقسیم شی ٔہے یہ تقسیم نہ ہونااس بات کی علامت ہے کہ ''میں ''کی حقیقت مادہ اور جسم نہیں ہے، مزید یہ کہ ہم سمجھ لیتے ہیں کہ نفس ،مادی چیزوں میں سے نہیں ہے ''میں ''اور روحی حوادث ، ہمارے جسم کے ہمراہ ، تقسیم پذیر نہیں ہیں یعنی اس طرح نہیں ہے کہ اگر ہمارے جسم کو دو نیم کریں تو ''میں ''یاہماری فکر یا وہ مطالب جن کو محفوظ کیا ہے دو نیم ہو جائیگی، اس حقیقت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ'' میں '' اور'' روحی حوادث'' مادہ پر حمل ہونے والی اشیاء و آثارمیں سے نہیں ہیں۔

مکان سے بے نیاز ہونا

مادی چیزیں بے واسطہ یا باواسطہ طور پر مختلف جہت رکھنے کے باوجود مکان کی محتاج ہیں اور فضا کو پُر کئے ہوئے ہیں لیکن روح اور روحی حوادث جس میں بالکل جہت ہی نہیں ہے لہٰذااس کے لئے کوئی مکان بھی نہیں ہے مثال کے طور پر ہم اپنی روح کے لئے جس کو لفظ ''میں '' کے ذریعہ یادکرتے ہیں اس کے لئے اپنے جسم یا جسم کے علاوہ کسی چیزمیں کوئی مکان معین نہیں کرسکتے ہیں، اس لئے کہ وہ نہ تو جسم کا حصہ ہے کہ جہت رکھتا ہو اور نہ ہی جسم میں حلول کرتا ہے اور نہ جسم کی خصوصیات کا مالک ہے جس کی وجہ سے جہت ہو اور نتیجتاً مکان رکھتا ہو ،روحی حوادث مثلاً غم ، خوشی ، فکر و نتیجہ گیری ، ارادہ اور تصمیم گیری بھی اسی طرح ہیں ۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191