پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 309417 / ڈاؤنلوڈ: 9417
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ

خورشید خاور ترجمہ شبہائے پشاور

مصنف

حجة الاسلام وسلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی

مترجم

الحاج مولانا سید محمد باقر صاحب باقری رئیس جوارس ضلع بارہ نیکی

تجدید نظر

سید اعجاز محمد ( فاضل)

۱

باسمہ سبحانہ،

من لم یشکر الناس لم یشکر اﷲ

ہم ان سطور میں محسن ملت، مبلغ مذہب ، مروج شیعیت ناشر حقائق دین اسلام، ناصر اہل بیت طاہرین علیہم السلام ، فخر المحققین، سید المدققین علامہ سید محمد باقر صاحب نقوی مد اﷲ ظلہ علی رؤوس الموالی بدوام الایا وللیالی کے اعماق قلب سے شکر گزار ہیں کہ آپ نے اپنے مطیع اصلاح کھجوا کی مطبوعات قیمہ و تصنیفات ثمینہ بلکہ بے بہا جواہر و لئالی میں سے حقیقت مذہب شیعہ میں نادر روز گار عظیم الشان تحقیقی شاہکار کتاب مستطاب خورشید خاور ترجمہ شبہائے پشاور کی جلد اول کی نشر و اشاعت اور طباعت کے جملہ حقوق مکتبہ الہمدانی سرگودھا کو مرحمت فرماکر ہم پر احسان عظیم فرمایا جس کے لیے ہم ہمیشہ آپ کے ممنون احسان رہیں گے۔ بے شک جو شخص کسی محسن کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ منعم حقیقی کے شکر کی سعادت سے بھی محروم رہتا ہے۔ اس کتاب میں ایران کے عالم متبحر آقائے سلطان الواعظین اور ہندوستان و کابل کے جلیل القدر علماء کی شہر پشاور میں مذہب شیعہ سے متعلق دلچسپ اور دوستانہ گفتگو ، جس کا سلسلہ دس راتوں تک رہا اور جس میں مذہب شیعہ کے تمام اصول و فروع پر محققانہ بحثین ہوئیں ۔ ہر مسئلہ پر سلطان الواعظین نے مذہب شیعہ کی حقیقت ایسے دلائل ساطعہ و براہین قاطعہ سے ثابت کی کہ علمائے اسلام بھی اعتراف پر مجبور ہوگئے۔انہی مباحثوں کو سلطان الواعظین نے شبہائے پشاور کے نام سے مرتب فرمایا جس کا اردو میں ترجمہ فخرالحجاج والزائرین جناب مولانا الحاج سید محمد باقر صاحب رئیس جوارس ضلع بارہ نیکی نے کیا اور ادارہ اصلاح کھجوا نے بڑے اہتمام سے شائع کیا۔

چونکہ پاکستان کے اکثر لوگ اس کتاب کی افادیت ، انفرادیت، اہمیت دندرت سے ناواقف تھے اس لیے ہم نے مکرم و محترم علیجناب علامہ سید محمد باقر صاحب مدﷲ ظلہ وہ فقہ سے اس کی نشر و اشاعت و طباعت کے لیے اجازت حاصل کی۔

چنانچہ علامہ موصوف مدظلہ نے بڑی وسعت قلبی کیساتھ اجازت مرحمت فرمائی۔ جیسا کہ حقائق مذہبیہ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ان کا شعار اور معارف دینیہ کا زیادہ سے زیادہ پرچار ان کا وثار ہے۔

مهتمم مکتبة الهمدانی سرگودھا

۲

اشارہ

بسم اﷲ والحمد ﷲ علی نواله والصلوٰة والسلام علی محمد وآله

میں اپنے حبیب لبیب جناب مولانا سید محمد باقر صاحب مدیر اصلاح اور مکرمی جناب سید محمد صاحب کنز رویٹر فار لیسٹ پٹنہ کی فرمایش کی بنا پر برادرانِ ایمانی کی خدمت میں زیر نظر ترجمہ پیش کرتے ہوئے بجا طور پر فخر محسوس کرتا ہوں کیونکہ اس کا تعلق شب ہائے پشاور ایسی مبسوطہ اور جامع و مانع کتاب سے ہے اور جو آقائے سلطان الواعظین دام ظلہ کے ان بے نظیر اور ایمان افروز مذاکرات علمیہ کا مجموعہ ہے جن کو نگاہ حق و انصاف سے مطالعہ کرلنے کے بعد کوئی شخص مذہب حق کی تلاش میں گمراہی اور دھوکے کا شکار نہیں ہوسکتا ۔ مجھ کو یقین ہے کہ یہ کتاب باطل کی تاریکی کو دور کرنے اور منزل حقیقت کو روشن کرنے میں انشاء اﷲ آفتاب نصف النہار کا کام کرے گی چنانچہ اسی خیال کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے اس ترجمہ کا نام “ خورشید خاور” تجویز کیاہے۔

تھوڑے سے افسوس کیساتھ یہ بھی عرض کرودوں کی اختصار کا لحاظ رکھتے ہوئے مجبورا آقائے موصوف کے مقدمات دیباچہ اور درمیان کتاب سے کچھ مضامین مفید ہونے کے باوجود حذف کردینا پڑے ہیں۔ پھر بھی اس بات کا پورا خیال رکھا گیا ہے کہ اصل کتاب کا کوئی ایسا جز کم نہ کیا جائے جس سے مباحثے کی افادیت و جامعیت پر کوئی مضر اثر پڑے ۔ امید ہے کہ ناظرین اس قہری کوتاہی کو نگاہ در گذر سے دیکھتے ہوئے خیال خاکسار مترجم محترم مدیر اصلاح اور مکرمی جناب سید محمد صاحب نیز سلطان الواعظین دام ظلہم کے لیے دعائے خیر میں بخل نہ فرمائیں گے۔ والسلام

عاصی

محمد باقرالباقری الجواسی عفی عنہ

۳

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

آغازِ سفر

ماہ ربیع الاول سنہ۱۳۴۵ہجری میں جب میں اپنی زندگی کی تیسویں منزل طے کر رہا تھا زیارت عتبات عالیات سے مشرف ہوکر ہندوستان کے راستے سے ضامن ثامن حضرت امام رضا علیہ السلام کی عتبہ بوسی کے لیے روانہ ہوا کراچی اور ببئی پہنچنے کے بعد خلاف امید خاص خاص جرائد اور اخبارات نے میری آمد کی خبر شائع کی۔ میرے پرانے دوستوں اور خلوص احباب ایمانی نے مطلع ہوکر اطراف ملک سے دعوت نامے بھیجنا شروع کیے مجبورا تعمیل حکم کرتے ہوئے دہلی ، آگرہ، سیالکوٹ ، کشمیر، حیدر آباد ، بہاول پور، کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں حاضر ہوا۔ اور جہاں بھی وارد ہوا ۔ بلا تفریق قوم، ملت پوری تعظیم و تکریم کیساتھ استقبال ہوا اور اکثر شہروں میں دوسرے مذاہب کے علماء کی طرف سے باب مناظرہ باز رہا۔ مخصوص جلسوں میں سے ایک وہ مناظرہ تھا۔ جو ہندوستان کے قومی پیشوا گاندھی جی کے سامنے علمائے اہل ہنود اور برہمنوں سے منعقد ہوا۔ اور اخبارات و رسائل میں اس کی تفصیل شائع ہوئی ۔ چنانچہ توفیق الہی اور حضرت خاتم الانبیاء کی تائید خاص سے میں کامیابی کیساتھ مقدس دین اسلام اور مذہب حقہ جعفریہ کی حقانیت ثابت کردی۔ پھر زیر صدارت جناب ابوالبشر سید عنایت علی شاہ مدیر محترم اخبار ہفتہ وار اردو در نجف، انجمن اثنا عشریہ “ شہر سیالکوٹ کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا، اور میں اس طرف روانہ ہوگیا۔ حسن اتفاق سے میرے قدیم و صمیم دوست جناب سردار محمد سرور خان رسالدار فرزند رسالدار محمد اکرم خاں مرحوم و برادر کرنل محمد افضل خان نے جو پنچاب میں ہندوستان کے خاندان قزلباش کے نامی سرداروں میں سے تھے۔ سنہ۱۳۳۹ و سنہ۱۳۴۰ ہجری میں کربلا و کاظمین اور بغداد میں افسر رہ چکے تھے۔ خاندان قزلباش کے شریف و مشہور، مومن و محوش عقیدہ اور پاکدامن افراد میں سے تھے اور شہر سیالکوٹ میں رئیس ادارہ عالیہ اور عام طورپر احترام و بندگی کے مالک تھے مختلف طبقوں کے کثیر مجمع کیساتھ میرا شاندار استقبال کیا اور میں ان کے دولتکدہ پر مہمان ہوا ۔ جب اخبارات کے ذریعہ پنجاب میں میرے آنے کی خبر پھیلی تو باوجودیکہ میں ایران کی طرف روانہ ہونے کے لیے کوشش اور اصرار کر رہا تھا چاروں طرف سے مسلسل دعوت نامے

۴

پہنچنے لگے۔ بالخصوص حجة الاسلام جناب مولانا سید علی الحائری ، صاحب تفسیر لوامع التنزیل شہر لاہور کی طرف سے جو پنجاب کے نامور علمائے شیعہ میں سے تھے مجبورا میں برابر سفر اور زیارت برادرانِ ایمانی میں مصروف رہا ۔ من جملہ مومنین و برادران خاندان قزلباش کے جو پنجاب کے مخصوص شیعہ روسا میں سے ہیں افغانستان کے قریب آخری بڑے سرحدی شہر پشاور میں بھی مدعو ہوا۔ چنانچہ جناب محمد سرور خان کے اصرار سے اس کو منظور کر کے چودھویں رجب کو ادھر روانہ ہوا ۔ وہاں پہنچنے پر انتہائی اکرام و احترام کے بعد وعظ و تقریر کا تقاضا کیا گیا ۔ ( چونکہ میں ہندوستانی زبان سے بخوبی واقف نہیں ہوں۔ لہذا ہندوستان کے کسی شہر می منبر پر نہیں گیا۔ لیکن اہل پشاور عموما فارسی زبان سے اچھی طرح سے جانتے ہیں اس لیے میں نے قبول کر لیا اور ایک مدت تک مرحوم عادل بیگ رسالدار کے امامباڑے میں مخصوص طور پر مجالس کی تشکیل ہوتی رہی اور میں مختلف ادیان و مذاہب والوں کے کثیر مجمع کے سامنے اپنا فریضہ ادا کرتا رہا۔ چنانچہ ان لوگوں کے محترم علماء نے جو تبلیغی مجالس میں شریک ہوتے تھے خصوص نشست کی فرمائش کی گئی راتوں تک وہ حضرات میری قیام گاہ پر تشریف لاتے رہے اور گھنٹوں بحث و مباحثہ ہوتا رہا ۔ ایک روز جب میں منبر سے اترا تو معلوم ہوا کہ اکابر علمائے کابل میں سے دو عالم حافظ محمد رشید اور شیخ عبدالسلام ضلع ملتان سے تشریف لائے ہیں اور ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے وقت دیا اور وہ حضرات پے در پے در راتوں تک نماز مغرب کے بعد تشریف لاتے رہے ، ہر شب کا فی دیر تک جو غالبا چھ اور سات گھنٹہ کی مدت ہوتی تھی، اور بعض راتوں میں طلوع صبح کے قریب تک، ہمارا وقت مباحثوں اور مناظروں میں گذرتا تھا، یہاں تک کہ آخری شب کے خاتمے پر اہل سنت کے بزرگان و رؤسا اور اعناف محترم میں سے چھ افراد نے مذہب حقہ، شیعہ اختیار فرمایا۔

چونکہ اخبارات و رسائل کے نامہ نگاروں میں سے چار اشخاص ، فریقین ( شیعہ و سنی ) کی تقریبا دو سو نمایاں شخصیتوں کے سامنے طرفین کے مناظرات اور مقالات کو لکھتے تھے اور سدوسرے دن اخبارات و رسائل میں شائع کرتے تھے۔میں ان اشاعتوں سے ہر شب کے مقالات اور بحثیں جمع کرتا رہا اور اب سای مجموعے کو قارئین کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے اس کتاب کا نام، شبہائے پیشاور، رکھا جو کچھ صاحبان علم و ادب کے سامنے پیش ہو رہا ہے اس میں اس خیرا اندیش پر خور دہ گیری نہ فرمائیں۔ کیونکہ مناظرے کے موقع پر کوئی شخص الفاظ اور زیبائش کلام کی طرف توجہ نہیں رکھتا بلکہ ساری توجہ مطالبات اور حقائق کی طرف رہتی ہے جس طرح سے رسالوں میں چھپ چکا ہے اس میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ بعینہ وہ عبارتیں آپ کے سامنے پیش کی جارہی ہیں۔

ان مناظروں میں جن مطالب پر بحث و گفتگو ہے وہ آیات قرآن مجید ، معتبر احادیث و اخبار ، محققین و اساتذة کلام و علماء بزرگ اور پیشوایان دین کے بیانات اور تائیدات غیبی سے مستنبط ہیں۔

من بسر منزل عتقا نہ بخو و بروم راہ قطع این مرحلہ یا مرغ سلیمان کردم

۵

مجلسِ مناظرہ

پیشاور کے سربرآوردہ رئیس اور میرے میزبان عالیجناب مرزا یعقوب سب علی خان قزلباش کا دولت خانہ چونکہ وسیع تھا اور اس میں ایک بڑے مجمع کے لحاظ سے ہر طرح کی سہولتیں مہیا تھیں لہذا مجلس مناظرہ کے لیے اسی کو تجویز کیا گیا جہاں پوری دس راتوں تک جلسہ منعقد رہا اور انہوں نے انتہائی خلوص کیساتھ اس پورے مجمع کی خاطر تواضع کی۔

پہلی نشست

شب جمعہ ۲۳ رجب سنہ۱۳۴۵ہج

مولانا حافظ محمد رشید ، شیخ عبدالسلام ، سید عبدالحق اور مختلف طبقوں میں سے ان کے چند دوسرے علماء و بزرگان ملت رات کی پہلی ساعت میں وارد ہوئے ہیں ان حضرات سے انتہائی گرم جوشی اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملا، اگرچہ وہ لوگ بہت دل گرفتہ اور ناخوش تھے لیکن چونکہ میں جاہلانہ تعصب و عناد کی نظر نہیں رکھتا تھا لہذا اپنے اخلاقی فریضے پر عمل کرتا رہا۔ فریقین کے محترم افراد کی کثیر جماعت کے سامنے مذاکرات شروع ہوئے ۔ رسی طور پر فریق صحبت جناب حافظ محمد رشید تھے لیکن کبھی دوسرے بھی اجازت لے کر داخل گفتگو ہوجاتے تھے۔ رسالوں اور اخباروں میں مجھ کو “ قبلہ و کعبہ کے عام سے تعبیر کیا ہے جو ہندوستان کے کے اندر روحانیت کے اہم مروجہ القاب میں سے ہے لیکن یا دواشت کے ان صفحات میں میں اس کلمے کو بدل کر اپنے لیے “ خیر طلب” اور حافظ محمد رشید صاحب کےلیے “ حافظ ” کا لفظ استعمال کرتا ہوں۔

حافظ : قبلہ صاحب ! آپ کے پیشاور تشریف لانے کے وقت سے اور برسر منبر تقریر کرنے سے اب تک بحث و مناظرہ اور اختلاف کے کافی جلسے ہوچکے ہیں۔ چونکہ ہم لوگوں پر لازم ہے کہ رفع اختلاف کے لیے کھڑے ہوں۔۔۔۔۔۔ لہذا شبہات کے دفع کرنے کے لیے مسافت طے کر کے پیشاور آئے اور آج امام باڑے میں آپ کے کلمات اور بیانات پورے طور سے سنے آپ کا سحر بیان جیسا سنا تھا۔ اس سے زیادہ پایا۔ آج کی رات بھی ہم آپ کی ملاقات سے فیض حاصل کرنے آئے چنانچہ اگر آپ اگر آپ کی مرضی ہوتو شامل صحبت ہو کر آپ کے ساتھ کچھ بنیادی گفتگو کریں۔

۶

خیر طلب : میں بہت خوشی کیساتھ آپ کے کلمات و ارشادات سننے کے لیے حاضر ہوں۔ لیکن ایک شرط کیساتھ کہ براہ کرم دیدہ تعصب و عادت کو بند رکھیں ہم لوگ وہ بھائیوں کو طرح انصاف اور علم و منطق کا نگاہ سے شبہات کوحل کرنے کے لیے گفتگو کریں اور مجادلات و تعصبات قومی کو الگ رکھ دیں۔

حافظ : آپ کا ارشاد بالکل بجا ہے میں بھی ایک شرط رکھتا ہوں، امید ہے کہ آپ قبول کیجئے گا ۔ اور وہ یہ کہ با ہمی بات چیت میں ہم قرآنی دلائل سے تجاوز نہ کریں۔

خیر طلب : آپ کا یہ تقاضا عقلا اور علماء کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے یعنی علمی اور عقلی حیثیت سے غلط ہے کیونکہ کہ قرآن مجید ایک ایسی مجمل و مختصر مقدس کتاب ہے جس کے بلند مطالب مفسر کی تشریح کے محتاج ہیں۔ اور ہم مجبور ہیں کہ قرآنی کلیات کے ذیل میں معتبر اخبار و احادیث کے ذریعے ثبوت پیش کریں۔

حافظ : یہ درست ہے یہ ایک سلجھی ہوئی فرمایش ہے لیکن میرا تقاضا ہے کہ جب ایسا کرنا ضروری ہو تو ہم متفق علیہ اخبار و احادیث سے ہی استدلال کریں اور عوام کے کلمات اور سنی سنائی باتوں سے پر ہیز کریں اور غصہ اور تعصب سے الگ رہیں تاکہ دوسروں کے لیے مضحکہ نہ بن جائیں۔

خیر طلب : بسر وچشم ، آپ نے بہت صحیح فرمایا ۔ صاحبان علم و عقل اور بالخصوص میرے لیے جس کو سیادت اور رسول اﷲ(ص) سے انتساب کا فخر حاصل ہے قطعی مناسب نہیں کہ اپنے جد بزرگوار رسول خدا(ص) کی سیرت اوع سنت سے اںحراف کرے جو پورے حسن اخلاق پر فائز اور آیہ مبارکہ و إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (۱) کے مخاطب تھے اور قرآنی ہدایات کے خلاف عمل کرے جیسا کہ ارشاد ہے:

"ادْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ- وَ جادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ " (۲)

حافظ :- معاف فرمائے گا چونکہ آپ نے آپنی تقریر کے ضمن میں رسول اللہ(ص)کے ساتھ اپنی نسبت ظاہر کی۔اور اسی طرح سے مشہور بھی ہے ،کیا یہ ممکن ہے کہ میری گزاش قبول کرتے ہوئے ہماری مزید واقفیت کیلئے اپناشجرہ نسب بیان فرمائیے تاکہ ہم دیکھیں کہ آب کا نسب کس سلسلے سے پیغمبر تک ملتی ہے ۔

خاندانی نسب کا تعین

خیرطلب:- میرے خاندان کا نسب حضرت امام موسی کاظم کے ذریعے اس سلسلے سے رسول

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ـ یعنی یقینا تم صاحب خلق عظیم ہو۔

۲ ـ یعنی (ائے میرے رسول (ص)) خلق کو حکمت برہان اور اچھے موعظے کیساتھ راہ خدا کی طرف دعوت دو اور ان سے بہترین طریقے اور اچھے انداز سے مجادلہ کرو۔ ( آیہ ۱۲۶ سورہ نجل)

۷

اللہ (ص)تک منتہی ہوتا ہے ۔

محمد ابن علی اکبر(اشرف الواعظین)بن قاسم(بحرالعلوم)بن حسن ابن اسماعیل مجتہد الواعظ بن ابرہیم بن صالح بن ابی علی محمد(معروف بہ مروان)بن ابی القاسم محمد تقی بن (مقبول الدین)حسین بن ابی علی حسن بن محمد فتح اللہ بن اسحاق بن ہاشم بن ابی محمد بن ابراہیم بن ابی الفتیان بن عبد اللہ بن الحسن بن احمد(ابی الطیّب)بن ابی علی حسن بن ابی جعفر محمد الحائری(نزیل کرمان بن ابراہیم (معروف بہ مجاب)بن امیر محمد العابدین امام موسی الکاظم بن امام جعفر الصادق بن امام محمد الباقر بن امام علی زین العابدین بن امام ابی عبداللہ الحسین (سید الشہدا)الشہید بالطف بن امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیھم السلام ۔

حافظ:- یہ جو شجرہ آپ نے بیان فرمایا ہے امیر المؤمنین علی کرّم اللہ وجھہ تک منتہی ہوتا ہے درانحالیکہ آپ نے اپنے کو رسول خدا(ص)سے منسوب کیا تھا ۔ حق تو یہ ہے اس سلسلہ نسب سے آپ کو چاہیئے تھا کہ اپنے آپ کو اقربائے رسول(ص)سے کہتے نہ کہ آں حضرت(ص)کی اولاد ،کیونکہ اولاد وہی ہے جو رسول اللہ (ص)کی ذریت سے ہو۔

خیرطلب:- ہمارا نسب رسول اللہ تک صدّیقہ کبرای فاطمہ زہرا(س)کی طرف سے پہنچتا ہے کہ جو جضرت امام حسین علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہے ۔

حافظ :- تعجب ہے آپ کے اوپر کہ اہل علم وخبر ہوکر بھی ایسی بات منہ سے نکالتے ہیں ،حالانکہ خود جانتے ہیں کہ آدمی کہ سلسلہ نسب اور نسل اولاد ذکور کی طرف سے ہے نہ کہ اناث کی طرف سے ، اور حضرت رسول خدا(ص)کا بیٹوں سے کوئی سلسلہ نہیں لہذا آپ رسول اللہ کے نواسے اور دخترزادے ہیں نہ آنحضرت(ص)کی اولاد ۔

خیرطلب :- مجھ کو یہ خیال نہیں تھا کہ آپ حضرات اس بات میں اتنی ضد کریں گے ورنہ میں جواب ہی نہ دیتا ۔

حافظ:- آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ، میری گفتگو میں کوئی ضد نہیں تھی بلکہ میری رائے یہی ہےجیسا کہ بہت سے علما ء بھی میرے ہم خیال ہیں کہ نسل اورذریّت اولاد ذکورسےچلتی ہے اناث سے نہیں ۔

چنا نچہ شاعر کہتاہے :-

بنونا بنو ابنائنا و بنا تنا ----بنو هن ابناء الرّجال الاباعد (۱)

اگر آپ اس بات کے خلاف اس بات پر کوئی دلیل رکھتے ہوں کہ رسول (ص)کی بیٹی کی اولاد آں حضرت (ص)ہی کی اولاد شمار ہوتی ہے، تو بیان کیجئے ۔ اگر آپ کا استدلال مکمل ہوگا تو یقینا ہم لوگ مان لیں گے ،بلکہ ممنون بھی ہوں گے ۔

خیر طلب قرآن مجید اور فریقین کے اخبار معتبرہ سے بہت قوی دلیلیں موجود ہیں ۔

-----------------

(۱):- (ہمارے بیٹوں کے بیٹے بیٹیاں ہم سے ہیں لیکن ہماری بیٹیوں کے بیٹے بیٹیاں دور کے مردوں سے ہیں)(یعنی ہم سے نہیں ہیں)

۸

حافظ :- میں متمنّی ہوں کہ بیا ن کیجئے تاکہ ہم مستفیض ہوں ۔

خیرطلب :-یہ آپ کی گفتگو کے ضمن میں مجھ کو وہ مناظرہ یاد آیا جو اسی موضوع پر ہارون رشید خلیفہ عباسی اور حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے درمیان واقع ہوا تھا ۔اور حضرت نے ہارون رشید کو ایسا کافی جواب دیا تھ کہ خود اس نے بھی اس کی تصدیق کی تھی ۔

حافظ:- وہ مناظرہ کیونکر ہوا ہے ؟!بیان کیجئے میں مشتاق ہوں ۔

ذریت رسول (ص)کے بارے میں بارون رشید اور امام موسی کاظم (ع)کا سوال وجواب

خیر طلب:- ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن موسی بن بابویہ قمی ملقب بہ صدوق نے جو چوتھی صدی ہجری می اکابر علماء ،فقہائے شیعہ میں سے تھے ،علم حدیث کے نقّاد اور حالات رجال کے ماہر تھے ،علمائے قم اور خراسان کے درمیان حافظے اور کثرت علم میں ان کا مثل پیدا نہیں ہوا ۔ تین سو تصا نیف کے مالک تھے جن میں سے ایک کتاب "من لا یحضرہ الفقیہ "شیعوں کی ان چار کتابوں میں سے ہے جن پ ر ہر زمانے میں انحصار رہا ہے ۔ سنہ ۳۸۱ ھ میں ایران کے موجودہ پائتخت طہران کے قریب رے میں وفات پائی اورآپ کی قبر شریف اب تک اہل طہران اور باہر سے آنے والوں کے کی زیارت گاہ ہے ۔ اپنی معتبر کتاب "عیون اخبار الرضا"میں ابو منصور احمد بن علی طبرسی نے کتاب "احتجاج"میں مناظرے کی مفصّل کیفیت لکھی ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ایک روز ہارون رشید کے دربار میں تشریف لے گئے ،اس نے چند سوالاد کئے اور ان کے جوابات سنے ۔۔الی آخر ۔من جملہ اس کے سوالوں کے یہ سوال بھی تھا کہ اس نے کہا ۔

"کیف قلتم انا ذرّیة النّبی والنّبی لم یعقب وانّما العقب للذّکر لا للا نثی وانتم ولد البنت ولا یکون له عقب " (۱)

حضرت نے اس کے جواب میں سورہ انعام کی یہ آیت نمبر ) ۸۴-۸۵) تلاوت فرمائی: -ومن ذرّیته دا‎‎ؤد وسلیمان وایّوب ویوسف وموسی وهارون وکذالک نجزی المحسنین وذکریا ویحیی وعیسی والیاس کل من الصالحین "(۲)

--------------

(۱):- تم یہ کیوں کر کہتے ہو کہ ہم اولاد رسول ہیں ؛ حالانکہ پیغمبر (ص)کوئی نسل نہیں رکھتے تھے اور یہ مسلّم ہے کہ نسل لڑکے سی چلتی ہے ،لڑکی سے نہیں ۔تم بیٹی کی اولاد ہو اور آں حضرت (ص)نے کوئی نسل نہیں چھوڑی (یعنی اولاد ذکور سے)۔

(۲):- اور پھر ابراہیم علیہ السّلام کی اولاد میں داؤدعلیہ السّلام ,سلیمان علیہ السّلام ایوب علیہ السّلامً یوسف علیہ السّلام,موسٰی علیہ السّلام ,اور ہارون علیہ السّلام قرار دئیے اور ہم ا ِسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں ۔ اور زکریا علیہ السّلام,یحیٰی علیہ السّلام,عیسٰی علیہ السّلام اور الیاس علیہ السّلام کو بھی رکھا جو سب کے سب نیک کرداروں میں تھے ۔

۹

اور اس سے استدلال فرماتے ہوئے ہارون رشید سے کہا کہ من ابو عیسٰی ؟یعنی عیسٰی کا باپ کون ہے ،ہارون رشید نے جواب دیا کہ لیس لعیسٰی اب یعنی عیسٰی کا کوئی باپ نہیں تھا ۔حضرت نے فرمایا "انّما الحقه بذراری الانبیاء علیهم السلام من طریق مریم ولذالک الحقنا بذراری النّبی من قبل امّنا فاطمة"

یعنی سوا اس کے کوئی بات نہیں کہ خدائے تعالی نے ان کو مریم کے سلسلے سے انبیاء کی ذریّت میں داخل فرمایا اور اسی طرح سے ہم کو ہماری ماں جناب فاطمہ (س)کی طرف سے رسول خدا (ص)کی ذریّت میں قراردیا ۔ امام فخر الدّین رازی بھی تفسیر کبیر جلد چہارم میں صفحہ نمبر۱۲۴میں اس آیت کے ماتحت مسئلہ پنجم میں کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن او رحسین (ع) رسول اللہ(ص)کی ذریّت ہیں کیونکہ خدانے اس آیت میں عیسٰی کو جناب ابراہیم (ع)کی ذریّت سے قرار دیا ہے ،درانحالیکہ عیسٰی کا کوئی باپ نہیں تھا ؛ یہ انتساب ماں کی طرف سے ہے چنانچہ حسنین(ع)بھی اسی طرح سے ماں کی جانب سے ذریّت رسول(ص) ہوتے ہیں ۔جیسا کہ حضرت باقر العلوم امام پنجم نے بھی حجّاج کے سامنے اسی آیت سے استدلال فرمایا ہے۔

پھر حضرت(امام موسی کاظم علیہ السلام نے ہارون رشید کو)نے فرمایا کہ کیا تمہارے لئے کوئی اور دلیل بیان کروں ؟ہارون رشید نے عرض کیا کہ بیا ن کیجئے تو آپ نے آیت مباہلہ پڑھی جو سورہ مبارکہ آل عمران کی آیت ۶۱ ہے ۔

"فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ " (۱)

اور فرمایا کہ کسی شخص نے یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ مباہلے کے موقع پر پیغمبر (ص)نے نصاری کے مقابلے میں حکم خدا سے سوا علی ابن ابی طالب ،فاطمہ ، حسن اورحسین علھیم السلام کے کسی اور کو کساء کے نیچے داخل کیا لہذا مطلب یہی نکلتا ہے کہ انفسنا سے علی ابن ابی طالب ،نسائنا سے فاطمہ زہراء اور ابنا ئنا سے حسن حسین (ع)مراد ہیں جن کو خدا نے اپنے رسول کے فرزند فرمایا ہے ۔ جوں ہی ہارون نے یہ واضح دلیل سنی بے اختیار بول اٹھا "احسنت یا ابا الحسن " چنانچہ ہارون کے مقابلے میں امام موسی کاظم کے اس استدلال سے" حسنین (ع)فرزند رسول خدا(ص)ہیں "ثابت ہوتا ہے ۔

--------------

(۱)پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ۔

۱۰

اس بات پر کافی دلائل کہ اولاد فاطمہ (س)اولاد رسول(ص)ہیں

چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی جوآپ کے سربرآوردہ علماء میں سے ہے شرح نہج البلاغہ میں اور ابو بکررازی اپنی تفسیر میں عیسٰی کو ان کی ماں مریم کی طرف سے اولاد جناب ابراہیم میں داخل فرمایا ۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب میں ،ابن حجر مکی صواعق محرقہ صفحہ ۷۴-۹۳ میں طبرانی سے اور وہ جابر بن عبداللہ انصاری سے اور خطیب خوارزمی مناقب میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص)نے فرمایا "انّ الله عزّوجلّ جعل ذریة کل نبی فی صلبه وجعل ذریتی فی صلب علی ابن ابی طالب " یعنی خدائے عزوجل نے ہر پیغمبر کی ذریت خود اسے کے صلب میں قرار دیا اور میری ذریت علی ابن ابی طالب میں رکھی ہے ۔

خطیب خوارزمی مناقب میں ،میر سید علی ہمدانی شافعی مودۃ القربی میں ،امام احمد بن حنبل جو آپ کے کبار علماء میں سے ہیں اور سلیمان حنفی بلخی نے ینا بیع المودۃ میں نقل کرتے ہیں کہ (الفاظ کی تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ)کہ رسول اکرم(ص)نے فرمایا "هذان ریحانتان من الدنیا ابنای لهذان امامان قاما او قعدا" یعنی میرے یہ دونوں فرزند( حسن اور حسین)دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔ اور میرے یہ دونوں فرزند امام ہیں خواہ امر امامت پر قائم ہوں یا خاموش اور قاعد ۔ اورشیخ سلیمان بلخی نے ینا بیع المودۃ کا باب ۵۷ اسی موضوع کیلئے مخصوص قراردیا ہے ۔اور مختلف طریقوں سے بکثرت حدیثیں اپنے جلیل القدر علماء جیسے طبرانی، حافظ عبدالعزیز ،ابن ابی شبیہ ،خطیب بغدادی،حاکم، بیقہی،بغوی، اورطبری وغیرہ سے مختلف الفاظ اور عبارت کے ساتھ نقل کی ہیں کہ حسن اور حسین(ع)رسول خدا(ص)کے فرزند ہیں ۔ اسی باب کے آخر میں ابو صالح ،حافظ عبد العزیز الاخضر،ابو نعیم اور طبری سے ،اور ابن حجر مکّی صواعق محرقہ صفحہ ۱۱۲ میں محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے سو بابوں کے بعد فصل اوّل کے آخر میں اور طبری نے ترجمہ حالات حضرت امام حسن علیہ السلام میں، خلیفہ ثانی عمر بن خطّاب سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا "انّی سمعت رسول الله یقول کل حسب ونسب فمنقطع یو م القیامة ما خلا حسبی و نسبی وکل بنی انثی عصبتهم لابیهم ما خلا بنی فاطمة فانی انا ابو هم و انا عصبتهم " یعنی میں نے رسول خدا(ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا "ہر حسب ونسب قیامت کے دن منقطع ہو جائے گا سوائے میرے حسب ونسب کے اور ہر دختری اولاد کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ہے سوائے اولاد فاطمہ (س)کے کہ

۱۱

میں ان کا باپ اورنسب ہوں ۔ شیخ محمد بن محمد عامر شبیراوی شافعی نے کتاب "الاتحاف لجب الاشراف "میں اس حدیث کو بیہقی سے اور دار قطنی نے عبداللہ ابن عمر سے اور انہوں نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے ۔جلا ل الدین سیوطی نے اپنی کتاب "احیاء اہلبیت بفضائل اہلبیت "میں اوسط طبرانی سے نقل کرتے ہوئے خلیفہ عمر سے نقل کرتے ہیں اور سید ابو بکر شہاب الدین علوی نے "رشقتہ الصاد من بحر فضائل النبی الہادی" مطبوعۃ مطبع اعلامیۃ مصر سنہ ۱۳۰۳ ھ کے صفحہ ۲۱ باب ۳ میں صفحہ ۴۳ تک نقل واستشہاد کیا ہے کہ اولاد فاطمہ(س) اولاد رسول (ص)ہیں لہذا شاعر کا شعر جو آپ نے پیش کیا ہے وہ تمام مضبوط دلائل کے سامنے مہمل ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے سویں باب کے بعد فصل کو اسی شعر کے جواب میں اس مطلب سے مخصوص کیا ہے کہ پیغمبر(ص)کے دخترزادے آں حضرت (ص)کے فرزند ہیں ۔ اور یہ شعر زمانہ کفر کے شاعر کا ہے جس نے اس کو اسلام سے قبل نظم کیا ہے ۔ جیسا کہ صاحب جامع الشواہد نے نقل کیا ہے اسی قبیل سے کثرت کے ساتھ ایسی دلیلیں ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ فرزندان فاطمہ صدیقہ سلام اللہ علیہا فرزندان رسول اللہ (ص)ہیں لہذا جب ہمارا سلسلہ نسب حضرت امام حسین علیہ السلام تک ثابت ہوگیا تو ہم بیان کرچکے معتبر دلائل کی بنا پر ثابت ہے کہ ہم لوگ فرزندان و اولاد رسول خدا ہیں اور ہمارا سب سے فخر اسی بات پر ہے کہ اور کسی شخص کو سو اذریت رسول (ص)کے ایسا افتخار حاصل نہیں ہے کیا خوب کہا ہے فرزدق شاعر نے ؟

اولئک آبائی فجئنی بمثلهم ----اذاجمعتنا یا جریر الجامع (۱)

خلاصہ یہ کہ ابنائے زمانہ اور اہل دنیا میں سے کوئی شخص اپنے اجداد کی بزرگی پر فخر مباہات نہیں کرسکتا ہے ، سوا شرفاءاور سادات کے جن کی نسبت خاتم الانبیا اور علی المرتضی صلوات اللہ وسلامہ علیھما تک منتہی ہوتی ہے ۔

حافظ :- آپ کے دلائل بہت تسکین بخش اور مکمّل تھے جن سے ضدّی اور متعصّب اشخاص کے قطعا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا میں ممنون ہوں کہ آپ نے حقیقت کو بے نقاب کرکے ہم لوگوں کو مستفیض فرمایا جس سے بڑا شبہ رفع ہوگیا

اتنے میں مسجد سے نماز عشاء کے لیے موذن کی اذان کی آواز بلند ہوئی کیونکہ برادران اہل سنت بصورت نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ایک دوسرے سے الگ اور اس کے وقت فضیلت پر بجالاتے ہیں ۔ بر خلاف شیعوں کے جو رسول خدا(ص) اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی جمع اور تفریق کے درمیان مختار ہیں) وہ حضرات

--------------

(۱) (یعنی یہ ہیں میرے آباء واجداد پس لاؤ میرے سامنے ان کی مثل جس وقت محفلوں اور انجمنوں میں ہم اکھٹے ہوں۔)

۱۲

مسجد جانے اور فریضہ ادا کرنے کے لیے آمادہ ہوئے لیکن بعض صاحبان نے کہا کہ اگر واپس آنے اور مباحثہ جاری رکھنے کا قصد ہے تو مسجد جانے اور آنے میں نشست کا کافی وقت نکل جائیگا۔ لہذا بہتر یہ ہےکہ جب تک اس صحبت کا سلسلہ ہے نماز عشاء اسی جگہ ادا کی جائے فقط مولوی سید عبدالحی امام جماعت مسجد چلے جائیں اور مسجد میں لوگوں کو نماز پڑھا کر واپس آئیں ۔ یہ رائے سب حضرات نے قبول کی لہذا ساری مدت مناظرہ میں یعنی دس راتوں تک اسی مقام پر نماز عشاء ہوتی رہی چنانچہ وہ حضرات ایک دوسرے بڑے ہال میں چلے گئے اور نماز پڑھ کر مناظرے والے کمرے میں واپس آئے۔

نواب:- نواب عبد القیوم خان نے جو ا ہ ل تسنن ک ے شرفاءاور رؤساء م یں سے اور بال ک ی کھ ال نکالن ے اور جستجو کرن ے وال ے انسان ت ھے ، ک ہ ا ک ہ قبل ہ صاحب اگر آپ اجازت د یں تو جب تک حضرات چائے نوش فرمائ یں میرے دل موضوع بحث سے خارج ا یک سوال ہے اس کو عرض کرو ں۔

خیر طلب:- فرمایئے میں سننے ک یلئے تیار ہ و ں ۔

نواب :- میرا سوال بہ ت مختصر ہے چونک ہ مدتو ں س ے م یرے دل میں تھ ا ک ہ باخبر ش یعہ حضرات سے پوچ ھ و ں گا ، ل یکن کوئی موقع ہ ات ھ ن ہ آ یا اور اب اس کا مناسب محل آگیا ہے ل ہ ذا عرض کرنا چا ہ تا ہ و ں ک ہ حضرات ش یعہ سنت رسول خدا (ص)کے خلاف نماز ظ ہ ر وعصر ا ور مغرب وعشاء کو ملا کر کس لئے پ ڑ ھ ت ے ہیں ؟ ۔

پیغمبر(ص)نماز ظہ ر ین و مغربین جمع وتفریق دونوں طرح س ے پ ڑھ ت ے ت ھے

خیر طلب :- اول یہ کہ آپ حضرات (علمائ ے جلس ہ ک ی طرف اشارہ ) جانت ے ہیں کہ فروع ی مسائل میں علماء کے درم یان بہ ت اختلاف ہے ج یسا کہ آپ ک ے چارو ں امام ب ھی آپس میں بہ ت ز یادہ اختلاف رکھ ت ے ہیں دوسرے یہ کہ آپ ن ے فرما یا "شیعوں کا عمل سنت رسول کے خلاف ہے "تو اس امر میں آپ کو اشتباہ ہ وا ہے ک یونکہ آں حضرت (ص) نماز یں کبھی یکجا اور کبھی الگ الگ ادا فرماتے ت ھے ۔

نواب :- (اپنے علماء ک ی طرف رخ کرکے ) ک یا یہ صحیح ہے ک ہ رسول الل ہ (ص)جمع اورتفر یق دونوں طرح س ے نماز بجا لات ے ت ھے ؟-

حافظ:- فقط سفر اور ،عذر کے مواقع ج یسے بارش وغیرہ میں اسی طرح سے عمل فرمات ے ت ھے ۔ تاک ہ امت تعصب اور مشقت م یں مبتلا نہ ہ و،ورن ہ حضر م یں ہ م یشہ الگ الگ پڑھ ت ے ت ھے م یرا خیا ل ہے ک ہ قبل ہ صاحب ن ے غلط ی سے سفر کو حضر سمج ھ ل یا ہے ۔

خیرطلب :- نہیں مجھ کو مغالط ہ ن ہیں ہ وا ،بلک ہ یقین رکھ تا ہ و ں یہ ا ں تک کہ آپ حضرات ک ی روایتوں میں

۱۳

بھی موجود ہے ک ہ کب ھی حضر میں اور بغیر کسی عذر کے ب ھی بصورت جمع ادافرماتے ت ھے ۔

حافظ:- میں خیال کرتا ہ و ں ک ہ آپ ن ے غلط ف ہ م ی سے ش یعہ روایات کو ہ مار ی روایات سمجھ ل یا ہے ۔

خیر طلب :- شیعہ راوی تو اس مقصد پر متفق ہی ہیں گفتگو ہ و ر ہی ہے آپ ک ے راو یوں پر ،اس بارے م یں میں متعدد صحیح روایتیں صحاح اور آپ کی معتبر کتا بوں م یں وارد ہیں ۔

حافظ:- ممکن ہے آپ ک ی نظر میں ہ و ں تو ان کا حوال ہ ب یان کیجئے

خیر طلب :-مسلم ابن حجاج نے اپن ی صحیح کے اندر "باب الجمع بین الصلواتین فی الحضر " میں روایوں کا سلسلہ نقل کرت ے ہ و ئ ے ابن عباس س ے روا یت کی ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "صلّ ی رسول اللہ الظ ھ ر و العصر جمعا والمغرب والعشاء جمعا ف ی غیر خوف ولا سفر " (یعنی رسول خدا(ص) نماز ظہ ر و عصر اور مغرب وعشا ءکو بغ یر خوف اور سفر کے ملا کر ادا فرماتے ت ھے ) ۔

اور پھ ر ابن عباس س ے نقل ک یا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا " صلّیت مع النّبی ثمانیا جمعا و سبعا " (یعنی میں نے رسول خدا (ص) ک ے سات ھ آ ٹھ رکعت (نماز ظ ہ ر وعصر)اور سات رکعت (مغرب وعشاء) کو ملا کر پ ڑھ تا ت ھ ا ۔ اور اس ی حدیث کو اما م احمد بن جنبل نے اپن ی مسند کے جز ء اول صفحہ نمبر ۲۲۱م یں نقل کیا ہے ۔ علاو ہ اس دوسر ی حدیث کے ابن عباس ن ے ک ہ ا " صلّی رسول الله فی المدینة مقیما غیر مسافر سبعا وثما نیا " (یعنی رسول خدا(ص) نے مد ینے کے اندر حالت اقامت م یں بغیر مسافرت کے سات رکعت اور آ ٹھ رکعت یعنی مغرب وعشاء اور ظہ ر وعصر کو ملا ک ے نماز پ ڑھی )۔

امام مسلم اسی طرح کی کئی حدیثیں نقل کرتے ہیں یہ ا ں تک کہ لک ھ ت ے ہیں کہ عبد الل ہ بن شف یق نے ک ہ ا ک ہ ا یک روز عبد اللہ ابن عباس عصر ک ے بعد ہ مار ے سامن ے خطب ہ پ ڑھ ر ہے ت ھے اور شریک صحبت تھے یہ ا ں تک کہ آفتاب ن ے غروب ک یا ستارے ظا ہ ر ہ و گئ ے لوگ وں نے " الصّلواة الصّلواة " کی آواز دینا شروع کی لیکن ابن عباس نے اعتنا ن ہ ک ی اسی وقت بنی تمیم میں سے ا یک شخص نے بلند آواز م یں کہ ا " الصّلواة الصّلواة " ابن عباس نے ک ہ ا " اتعلّمنی بالسنّة لا ام ّ لک رایت رسول الله یجمع بین الظهر و العصر والمغرب والعشاء " (یعنی تم مجھ کو سنت ک ی یاد دلاتے ہ و حالانک ہ م یں نے خودد یکھ ا ہے ک ہ رسول الل ہ (ص) ن ے نماز ظ ہ ر عصر اور مغرب وعشاء کو جمع فرما یا ) عبد اللہ ک ہ تا ہے ک ہ اس کلام س ے م یرے دل میں خدشہ پ یدا ہ وا اور م یں نے جاکر ابو ہ ر یرہ سے در یافت کیا تو انہ و ں ن ے ب ھی تصدیق کی اور کہ ا حق یقت وہی ہے جو ابن عباس ن ے ب یان کی ۔

اور دوسرے طر یقے سے ب ھی عبداللہ بن شف یق عقیل سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ منبر پر عبد الل ہ ابن عباس ک ی تقریر نے طول ک ھینچی یہ ا ں تک کہ اند ھیرا پھیل گیا ،ایک شخص نے پ ے در پ ے ت ین بار " الصّلواة الصّلواة " کی آواز دی ۔ ابن عباس ج ھ نج ھ لا گئ ے اور کہ ا "لا امّ لک اتعلّمنا بالصلواة وکنّا نجمع بین الصلواتین علی عهد رسول الله "

۱۴

( یعنی ۔۔۔ مج ھ کو نماز ک ی تعلیم دیتا ہے ؟حالانک ہ ہ م زمان ہ رسو ل خدا (ص) م یں دو نمازوں کو ملا کر پ ڑھ ا کرت ے ت ھے یعنی ظہ ر کو عصر ک ے سات ھ اور مغرب کو عشاء ک ے سات ھ ۔

زرقانی بھی جو آپ کے اکابر علماء م یں سے ہیں ،شرح موطاء مالک کے جزء اول "باب جمع ب ین الصلواتین "میں صفحہ ۳۶۳ پر نسائ ی سے بطر یق عمرو بن ہ رم اب ی شعشاء سے نقل کرت ے ہیں کہ ابن عباس بصر ہ م یں نماز ظہ ر وعصراور مغرب وعشاء پ ڑھ ت ے ت ھے بغ یر اسکے ک ہ ان ک ے درم یان کوئی فاصلہ یا کوئی چیز حا ئل ہ وت ی ہ و اور ک ہ ت ے ت ھے ک ہ رسول خدا (ص) اس ی طرح نماز ادا فرماتے ت ھے ( یعنی ظہ ر کو عصر ک ے سات ھ اور مغرب کو عشاء ک ے سات ھ جمع فرمات ے ت ھے ) ۔

نیز مسلم نے صح یح میں ، مالک نے موطاء "باب جمع ب ین الصلا تین میں امام احمد بن جنبل نے مسند سلسل ہ روا یات کو نقل کرتے ہ وئ ے س عید ابن جبیر کرے ذر یعے ابن عباس سے روا یت کی ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "صلّی رسول الله الظهر و العصر جمعا بالمدینة فی غیر خوف و لا مطر " (یعنی رسو ل اللہ مد ینے میں نماز ظہ ر اور عصر کو ملا کر پ ڑھی بغیر خوف اور بارش کے ) ابو زب یر کہ تا ہے ک ہ م یں نے ابو سع ید سے سوال ک یا کہ پ یغمبر (ص)کس وجہ س ے نماز جمع فرمات ے ت ھے " تو ابو سع ید نے ک ہ ا ک ہ یہی سوال میں نے ابن عباس س ے ک یا تھا تو انہ و ں ن ے جواب د یا کہ "اراد ان لا یحرج احدا من امته" ( یعنی اسلئے جمع فرمات ے ت ھے ک ہ آ ں حضرت (ص)ک ی امت میں سے کوئ ی شخص سختی اور مشقت میں نہ پ ڑے اور چند دوسر ی روایتوں میں بھی نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس ن ے ک ہ ا "جمع رسول الله بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فی غیر خوف ولا مطر"( یعنی رسول اللہ (ص)ن ے ظ ہ ر وعصر اور مغرب وعشاء ک ے درم یان جمع فرمایا بغیر اسکے ک ہ کوئ ی خوف ہ و یا بارش ہ وت ی ہ و) ۔ اس بار ے م یں میں روایتیں کثرت سے نقل ک ی ہیں لیکن جمع بین الصلاتین کے جواز پر سب س ے واضح دل یل یہی جمع بین الصلواتین کے نام ک ے سات ھ ابواب ک ی تعیین اور اسی باب میں احادیث جمع کرنا ہے تا ک ہ یہ مطلقا جمع کے جائز ہ ون ے کی دلیلیں بنیں ۔ ورن ہ ا یک مخصوص باب میں حضر میں اور ایک باب سفر میں نمازوں کو جمع کرن ے پر قائم کرت ے ،چنانچ ہ یہ منقولہ روائت یں صحاح اور آپ کی دوسری معتبر کتابو ں م یں سفر وحضر دونوں م یں اس کے جائز ہ ون ے س ے تعلق رک ھ ت ی ہیں ۔

حافظ:- ایسا کوئی باب یا نقل روایات صحیح بخاری میں موجود نہیں ہے ۔

خیرطلب :-اولا جب سارے ارباب صحاح ج یسے مسلم، نسائی، احمد ابن حنبل ،صحیحین مسلم وبخاری کے شارح ین اور آپ کے دوسر ے ب ڑے علماء ن ے نقل ک یا ہے تو یہی ہ مار ے مطلب اور مقصد ک ے لئ ے کاف ی ہے ۔

دوسرے امام بخاری نے ب ھی انہیں روایات کو جنہیں دوسروں ن ے نقل ک یا ہے اپن ی صحیح میں درج کیا ہے ل یکن پوری چالاکی کے سات ھ ان ک ے محل یعنی جمع بین الصلواتین سے دوسر ے محل پر منتقل کرد یا ہے ،چنانچ ہ

۱۵

"باب تاخ یر الظھ ر ال ی العصر من کتاب مواقیت الصلواۃ" "باب ذکرالعشاء والعمتہ "اورباب "وقت المغرب " کا مطالع ہ ک یجیئے اور ان کا جائزہ ل یجیئے تویہ جمع بین الصلواتین کی ساری حدیثیں نظر آجائیں گی نتیجہ یہ کہ جمع ب ین الصلواتین کی اجازت اور رخصت کے عنوان ک یساتھ ان احادیث کا نقل کرنا بتا تا ہے ک ہ یہ جمہ ور علمائ ے فر یقین کا عقیدہ ہے ۔ ا یسی صورت میں کہ اپن ے صحاح ک ے اندر ان حد یثوں کی صحت کا اقرار بھی کیا ہے چنانچ ہ علاّم ہ نوو ی نے شرح صح یح مسلم میں عسقلانی اور قسطلانی ،زکریا رازی نے ان شرحو ں م یں جو انہ و ں ن ے صح یح بخاری کی لکھی ہیں ،زرقانی نے شرح موطاء مالک میں اور آپ کے دوسر ے علماءن ے یہ احادیث اورخصوصا حدیث ابن عباس کو نقل کرنے ک ے بعد ان ک ی صحت اور اس کا اعتراف کیا ہے ک ہ یہ حدیثیں حضر میں جمع بین الصلاتین کی اجازت ورخصت کی دلیل ہیں تا کہ امت وال ے حرج اور مشقت م یں مبتلا نہ ہ و ں ۔

نواب :- یہ کیونکر ممکن ہے ک ہ زمان ہ رسول خدا(ص)س ے یہ حدیثیں جمع کے عمل پر مرو ی ہ و ں ل یکن علماء حکم اور عمل میں ان کے خلاف راست ہ اخت یار کریں ؟۔

خیرطلب :- یہ صرف اسی موضوع سے مخصوص ن ہیں ہے ،بعد کو آپ ک ی سمجھ م یں آئے گا اس ک ی مثالیں بہ ت ہیں ۔ خاص اس موضوع م یں بھی حضرات فقہ اء ا ہ ل تسنن ن ے یا تو غور وفکر کے تصور س ے یا کسی اور سبب سے جو مج ھ کو معلوم ن ہیں ہے ان معتبر حد یثوں کی ان کے ظا ہ ر ی کے خلاف م ہمل تاویلیں کی ہیں۔ ج یسا کہ ک ہ ت ے ہیں "شاید یہ حدیثیں عذرکے مواقع س ے تعلق رک ھ ت ی ہ و ں مثلا خوف وب یم ، بارش اور آندھی وغیرہ چنانچہ آپ ک ے اکابر متقدم ین میں سے ا یک جماعت جیسے امام مالک ،امام شافعی ، اور مدینے کے چند فق یہ و ں نے اس ی تاویل کے سات ھ فتو ی دیا حالانکہ اس عق یدے کو ابن عباس کی حدیث رد کررہی ہے جو صاف صاف ک ہ ت ے ہیں کہ "من غ یر خوف ولا مطر"یعنی بغیر خوف اور نزول باراں ک ے نماز کو جمع پ ڑھ ت ے ت ھے ۔

بعض دوسروں ن ے یہ خیال آرائی کی ہے ک ہ غالبا ابر گ ھ را ہ وا ت ھ ا اس وج ہ س ے وقت کو ن ہیں پہ چانا اور ج یسے ہی نماز ظہ ر تمام ک ی ابر چھٹ گ یا تو دیکھ ا کہ عصر کا وقت ہے ل ہ ذا عصر ب ھی پڑھ لی اور اس طرح سے ظ ہ ر عصر با ہ م جمع ہ وگئ یں ۔

میں نہیں سوچ سکتا کہ اس س ے ز یادہ کمزور تاویل بھی گھڑی جاسکتی ہے گو یا تاویل کرنے والو ں ن ے غور ہی نہیں کیا کہ نماز پ ڑھ ن ے وال ے رسول الل ہ (ص) ت ھے اور رسول خدا(ص) ک یلئے ابر کا ہ ونا ن ہ ہ ونا کوئ ی فرق نہیں رکھ تا ت ھ ا ۔ ک یونکہ آنحضرت (ص)کا علم اسباب ظاہ ر ی کا محتاج نہیں تھ ا ،بلک ہ اسباب و آثار پر حاو ی تھ ا اس س ے قطع نظر ک ہ یہ کم فہ م جماعت ا یسی صورت حال پید ہ ون ے پر کوئ ی دلیل اپنے پاس ن ہیں رکھ ت ی اور علاوہ اس ک ے ک ہ یہ بات احادیث کے ک ھ ل ے ہ وئ ے مطالب کے خلاف ہے اس تاو یل کا باطل ہ ونا نماز مغ رب وعشاء کو جمع کرنے س ے

۱۶

ب ھی ثابت ہ وتا ہے ک یونکہ اس وقت ابر کے موجود ہ ون ے اور بر طرف ہ ون ے س ے کوئ ی اثر نہیں پڑ تا ۔

جیسا کہ م یں نے عرض ک یا حدیث ابن عباس (خیر امت) میں اس کی صراحت موجود ہے ک ہ ان ک ے خطب ے ن ے اتنا طول ک ھینچا کہ سامع ین نے کئ ی مرتبہ " الصّلوا ۃ الصّلواۃ "کی آوازبلند کی یعنی یاد دلایا کہ ستار ے ظا ہ ر ہ وگئ ے ہیں اور نماز کا وقت ہ وگ یا ہے اس ک ے باوجود وہ نماز مغرب م یں عمدا تاخیر کرتے ر ہے یہ ا ں تک کہ نماز عشاء کا وقت آگ یا اور دونوں کو ملا ک ے ادا ک یا اور ابو ہ ر یرہ نے ب ھی اس کی تصدیق کی رسول اللہ (ص) اس ی طرح عمل فرماتے ت ھے ۔یقینا اس طرح کی تاویلیں ہ مار ے نزد یک باطل ہیں ، بلکہ آپ ک ے ب ڑے بڑے علماء نے ب ھی ان کو رد کیا ہے اور تاو یلات کو ظواہ ر احاد یث کے برخلاف جان ا ہے ج یسا کہ آپ ک ے اکابر علماء م یں سے ش یخ الاسلام انصاری نے "تحف ۃ الباری فی شرح صحیح البخاری " باب الصلواۃ الظھ ر مع العصر والمغرب والعشاء"آخرصفح ہ ۲۹۲ جزءدوم م یں اسی طرح علّامہ قسطان ی نے "ارشاد السار ی فی شرح صحیح بخاری"صفحہ ۲۹۳ جزءدوم م یں اور صحیح بخاری کے دوسر ے شارح ین اور آپ کے علماء محقق ین کے ا یک جم غفیر نے لک ھ ا ہے ک ہ اس قسم ک ی تاویلیں ظواہ ر احاد یث کیخلاف ہیں اور اس بات کی قید لگانا کہ ہ ر نماز حتم ی طور پر الگ الگ پڑھ نا چائ یئے ترجیح بلا مرجح اور تخصیص بلا مخصص ہے ۔

نواب :- پھ ر یہ اختلاف کہ ا ں س ے آ یا کہ مسلما ں ب ھ ائ یوں کے دوگرو ہ آپس م یں ایک دوسرے ک ی جان کے درپ ے ہ وگئ ے با ہ م عداوت ک ی نظر سے د یکھ ت ے ہیں او راعمال کی مذمت اور قدح کرتے ہیں ؟۔

خیر طلب :- اولا ! یہ کہ آپ ن ے فرما یا ہے مسلمان دو گرو ہ آپس م یں ایک دوسرے کو عداوت ک ی نگاہ س ے د یکھ ت ے ہیں ، تو میں مجبور ہ و ں ک ہ ش یعیان اہ ل ب یت طہ ارت وخاندان رسالت ک ی طرف سے دفاع کرو ں ک ہ ہ م ش یعوں کی جماعت برادران اہ ل تسنن ک ے علماء اور عوام م یں کسی ایک کو بھی حقارت یا عداوت کی نگاہ س ے ن ہیں دیکھ ت ی ہے بل کہ ان کو اپن ے مسلمان ب ھ ائ ی سمجھ ت ی ہے البت ہ ہ م کو ب ہ ت افسوس ہے ک ہ غ یروں ،خارجیوں ، ناصبیوں اور امویوں کے غلط پروپ یگنڈے اور شیاطین جن وانس کی تحریکیں برادران اہ ل سنت ک ے دلو ں م یں کس لئے گ ھ ر کر ل یتی ہیں ؟ یہ ا ں تک کہ اپن ے ش یعہ بھ ائ یوں کو جو قبلہ ، کتاب ، نبوت ، تمام احکام اور واجبات و مستحبات پر عمل اور کبائر ومعاص ی کے ترک م یں ان کے سات ھ شر یک ہیں رافضی ،مشرک اور کافر جانتے ہیں ۔ اپن ے س ے جدا قرارد یتے ہیں اور بغض وعداوت کی نظر سے ان ک ی طرف دیکھ ت ے ہیں ۔

ثانیا ! آپ نے فرمایا ہے ک ہ " یہ اختلاف کہ ا ں س ے آ یا ؟" تو میں سوز دل کے عرض کرتا ہ و ں :-

آتش بجاں شمع فتد ک یں بنا نہ اد

ابھی یہ عرض کرنے کا وقت ن ہیں ہے ک ہ اس قسم ک ے اختلاف کا چشم ہ ک ہ ا ں س ے پ ھ و ٹ ا ۔ شا ید انشا اللہ آ یندہ راتوں م یں موقع محل کی مناسبت سے اس ک ی نقاب کشائی ہ و جائ ے اور آپ خود اصل حق یقت کی طرف متوجہ ہ و جائ یں ۔

۱۷

ثالثا ! نماز جمع و تفریق کے بار ے م یں حضرات فقہ اء ا ہ ل تسنن ن ے مذکور ہ روا یتوں کو جو مطلقا نماز ظہ ر وعصر ومغرب وعشاء کو ملا کر پ ڑھ ن ے ک ی اجازت اور جواز پر دلالت کرتی ہیں ، امت کی سہ ولت و راحت اور سخت ی ومشقت و حرج سے بچان ے ک ے لئ ے نقل ک یا ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ کس وج ہ س ے فضول تاو یلیں کرتے ہیں اور بغیر عذر کے نمازو ں کو اک ھٹ ا پ ڑھ ن ے کو جائز ن ہیں جانتے بلک ہ ان م یں سے بعض ج یسے ابو حنیفہ اور ان کے تاب عین مطلقا جمع کرنے کو منع کرت ے ہیں چاہے عذر ک یساتھ ہ و یا بغیر عذر کے ،سفر م یں ہ و یا حضر میں لیکن دوسرے شافع ی ،مالکی ، اور جنبلی علماء نے باوجود سار ے اصول و فروع م یں باہ م ی اختلافات کے سفر مباح کر ے اندر ج یسے حج ،عمرہ اور جنگ وغ یرہ میں اس کی اجازت دی ہے ۔

البتہ شیعہ فقہ اء ائم ہ طا ہ ر ین آل محمد علیھ م السلام کی پیروی میں جو ارشاد رسول (ص) کی بنا پر حق وباطل کے درم یان فرق کرنے وال ے اور عد یل قرآن ہیں مطلقا اس کے جواز کا حکم د یتے ہیں ،خواہ سفر م یں یا حضر میں ،عذرکے سات ھ یا بغیر عذر کے ، چا ہے تقد یم کے ساتھ جمع کرے یا تاخیر کے سات ھ اور یہ جواز اختیار مصلی کے سات ھ ہے یعنی نماز گزار اگر چاہے تو نماز ظ ہ ر وعصر اورمغرب وعشاء چارو ں کو س ہ ولت اور آرام ک ے لئ ے ا یک نشست میں پڑھے یا ظہ ر ومغرب کو اول وقت فض یلت میں پڑھے اور نماز عصر وعشاء کو بھی انہیں کے اول وقت فض یلت میں ادا کرے اس کو اخت یار ہے ہ ا ں ہ ر ا یک کو الگ الگ اور اپنے اپن ے وقت فض یلت میں بجا لانا جمع کرنے س ے افضل ضرور ہے ج یسا کہ فق ہ اء ش یعہ کی استدلالی کتابوں اور عمل یہ رسالوں م یں اس کا مکمل ذکر کیا گیا ہے ۔ ل یکن چونکہ لوگ اکثر مشاغل اور بہ ت س ی پریشانیوں میں گرفتار رہ ت ے ہیں اور ممکن ہے ک ہ ت ھ و ڑی سی غفلت میں نماز ان سے فوت ہ و جائ ے ل ہ ذا س ہ ولت اور رفع زحمت وحرج ک ے لئ ے (جو شارع مقدس کا مقصد ہے ) ش یعہ تقدیم یا تاخیر کے سات ھ جمع پ ڑھ ت ے ہیں میرا خیا ل ہے ک ہ حضرات محترم کا ذہ ن روشن ہ ون ے اور دوسر ے برادران ا ہ ل سنت ک ے لئ ے جو ہ م کو غ یض وغضب ک ی نگاہ س ے د یکھ ت ے ہیں اسی قدر جواب کافی ہ وگا چونک ہ دوسر ے ا ہ م بن یادی مطالب پیش نظر ہیں ۔ ل ہ ذا ب ہ تر ہے ک ہ ہ م لوگ سابق اصل مذاکرات ک ی طرف واپس ہ و ں ک یوں کہ جب خاص خاص اصول ی مطالب حل ہ وجائ ینگے تو ان کے سات ھ فروعات خود بخود واضح ہ و جائ ینگے ۔

حافظ:-مجھ کو ب ہ ت مسرت ہے ک ہ م یں نے پ ہ ل ی ہی نشست میں قبلہ صاحب ک ے معلومات کا پت ہ لگال یا اور یہ جان لیا کہ م یرافریق صحبت وہ شخص ہے جو ز یادہ محدود نہیں اور ہ مار ی کتابوں س ے پور ی طرح باخبر ہے ج یسا کہ آپ ن ے فرما یا بلکل بجا ہے ک ہ ہ م اس ی پہ ل ی گفتگو کی طرف رجوع کریں ۔

آپ کی اجازت سے میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ جب آپ نے فصیح و بلیغ بیان سے ثابت کردیا کہ آپ حجازی و ہاشمی اور ایسے پاک نسب کے حامل ہیں تو یہ کیونکر ہوا کہ جو سنیوں کے مرکز ایران میں آبسے چنانچہ اس ہجرت کا سبب اور تاریخ بیان فرمائیے۔

۱۸

ہم لوگ مسرور ہوں گے۔

( اس محل پر قبلہ سلطان الواعظین نے اپنے اجداد کی ہجریت کا سبب اور مفصل تاریخ بیان فرمائی ہے۔ جو اختصار کا لحاظ رکتے ہوئے حذف کی جاتی ہے۔ لیکن اسی سلسلے میں ضمنا ظہور قبرامیرالمومنین (ع) کا بھی ذکر آگیا ہے جس کے بارے میں گفتگو کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے۔ ۱۲ مترجم)

حافظ : لیکن امیرالمومنین علی کرم اﷲ وجہ کی قبر اس زمانہ تک کس حال میں تھی کہ ڈیڑھ سو سال کے بعد ظاہر ہوئی۔

خیر طلب : چونکہ امیرالمومنین علیہ السلام کی شہادت ،خلافت معاویہ اور بنی امیہ کی فتنہ انگیزی کے زمانے میں واقع ہوئی لہذا حضرت نے وصیت فرما دی تھی کہ آپ کا جسد مبارک رات کے وقت پوشیدہ طریقہ پر دفن کیا جائے یہاں تک کہ کوئی علامت بھی قبر پر باقی نہ رہے ۔ صرف چند اصحاب خاص اور ان حضرت کے فرزند دفن کے موقع پر حاضر تھے اور اکیسویں رمضان کے صبح کو اس لیے کہ دشمنوں پر معاملہ مشتبہ ہوجائے اور وہ قبر مبارک کی جگہ معلوم نہ کرسکیں دو محملیں تیار کی گئیں۔ ایک کو مدینہ کی طرف اور ایک کو مکہ کی جانب روانہ کیا گیا اسی وجہ سے ان حضرت (ع) کی قبر مبارک برسوں پوشیدہ رہی اور سوا حضرت کے فرزندوں اور خاص خاص اصحاب کے کوئی شخص ان جناب کے مدفن اور قبر سے واقف نہ تھا۔

حافظ : اس وصیت اور قبر کو پوشیدہ رکھنے کی کیا وہ تھی؟

خیر طلب : غالبا بنی امیہ بے دین کے خوف سے ایسا ہوا چونکہ یہ لوگ ظالم و باغی اور مخصوص طور پر آل محمد علیہم السلام کے شدید دشمن تھے لہذا ممکن تھا کہ قبر مبارک کے ساتھ بے ادبی کریں اور یہ ظلم سارے مظالم سے سخت ہوتا ۔

حافظ : یہ آپ کیا فرمارہے ہیں ؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ مرنے اور میت کے قبر میں دفن ہونے کے بعد کوئی مسلمان چاہے وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو ایسا قبیح عمل انجام دے؟

بنی امیہ کے دلدوز حرکات

خیر طلب : غالبا آپ نے بنی امیہ کی رسوائے زمانہ تاریخ اور ان کے شرمناک اور دلدوز حرکات کا مطالعہ نہیں فرمایا ہے کہ اس شجرہ ملعونہ اور جماعت خبیثہ نے جس روز سے خلافت اور امارت مسلمین کی لجام ہاتھ میں لی۔ اسی دن سے مسلمانوں کے اندر ظلم و تعدی اور فساد کا دروازہ کھل گیا کیا کیا ظلم انہوں نے نہیں کیئے

۱۹

کتنے کتنے خون نہیں بہائے کیس کیسی عزتیں برتباد نہیں کیں، یہ رسوا بے وقعت قوم کسی چیز کی پابند نہیں تھی چنانچہ ان کی بد اعمالوں کو آپ کے بڑے بڑے علماء اور مورخین انتہائی خجالت کے ساتھ ضبط تحریر میں لائے ہیں۔

واقعہ شہادت زیدبن علی علیہ السلام

خصوصیت کیساتھ علامہ صفر یزی ابوالعباس احمد بن علی شافعی نے جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں اپنی کتاب ، مقریزی النزاع والتخاصم فیما بنی بنی ہاشم و بنی امیہ میں ان کی دل سوز حرکتوں اور بد اعمالیوں کو تفصیل کے ساتھ درج کیا ہے کہ وہ زندہ اور مردہ میں بھی فرق نہیں کرتے تھے نمونہ کے لیے اس بدنام زمانہ قوم (بنی امیہ) کے دل دوز اعمال کی نشانیاں اور وہ اہم تاریخی واقعے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ آپ حضرات تعجب نہ کریں۔ اور یہ سمجھ لیں کہ جو کچھ میں عرض کررہا ہوں سند اور بنیاد کے ساتھ ہے وہ اہم واقعے حضرت زید بن علی بن الحسین علیہما السلام اور ان کے فرزدن یحیٰ کی شہادتیں ہیں جن کو فریقین کے جملہ مورخین نے لکھا ہے ۔ کہ جب ہشام بن عبد الملک ابن مروان سنہ۱۱۵ہ میں تخت خلافت پر بیٹھا ہے اور یہ بہت قصی القلب اور مغلوب الغضب شخص تھا۔ ) تو اس نے ظلم و تعدی شروع کی اور مخصوص طور پر بنی ہاشم کے حق میں تو خود اس نے اور اس کے پیروں نے تکلیف دہی اور ایذا رسانی کی انتہا کر دی آخر کار یکتائے زمانہ سخی شریف عالم عابد و زاہد فقیہ اور متقی جناب زید بن علی خلیفہ کے پاس فریاد کے لیے تشریف لے گئے اور زصافہ میں ہشام سے ملاقات کی قبل اس کے کہ آپ اپنے آنے کی غرض بیان فرمائیں وہ بجائے اس کے کہ اپنے تازہ وارد مہمان اور وہ بھی رسول اﷲ(ص) کے پارہ تن کی امداد و دادرسی اور خاطر داری کرتا پہنچتے ہی سخت توہین کے ساتھ پیش آیا اور ایسی فحش گالیوں کیساتھ جن کو میں اپنی زبان پر جاری نہیں کرسکتا ۔ آپ کو دربار خلافت سے نکال دیا چنانچہ ہمارے اور آپ کے بڑے بڑے مورخین جیسے امام مسعودی مروج الذہب جلد دوم ص۱۸۱ میں ، علامہ مقریزی النزاع و التخاصم فیما بین بنی ہاشم و بنی امیہ میں ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ میں اور دوسرے لوگ تفصیل کے ساتھ لکھتے ہیں کہ شدید گالیاں اور شدید چوٹیں کھانے اور خلیفہ کے پاس سے نکالے جاتے کے بعد آپ مجبورا شام سے کوفہ تشریف لے گئے اور دفع ظلم کے لیے ہویوں کے خلاف ایک پارٹی تیار کی حاکم کوفہ یوسف بن عمر ثقفی ایک بڑے لشکر کے ساتھ مقابلہ پر آیا وہ جناب ہاشمی شجاعت اور دلیری کے ساتھ جنگ کر رہے تھے اور رجز میں یہ اشعار پڑھتے تھے۔

اذل الحیات و عز الممات و کلا اراه طعاما وبیلا

۲۰

صدیق باعتبار لغت و استعمال

صدیق ، مادۂ (ص،د،ق) سے مشتق ہے اور صدق (سچ) کذب (جھوٹ ) کی نقیض ہے ، صدیق فعیل کے وزن پر ہے اور صدیقہ فعیلہ کے وزن پر، اور یہ وزن موصوف کے صفت سے بہت زیادہ اتصاف پر دلالت کرتا ہے گویا اس مادہ میں صدق و تصدیق کا مبالغہ پایا جاتاہے اور یہ صدوق (بہت سچا ) سے بھی زیادہ سچے کے لیے استعمال ہوتاہے ۔ کہا جاتاہے صدیق اس کو کہتے ہیں کہ جو صدق و سچائی میں کامل ہو اس کا عمل اس کے قول کی تصدیق کرے یعنی قول و عمل ایک ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدیق اس کو کہتے ہیں کہ جس نے اصلاً کبھی جھوٹ نہ بولا ہو ۔

اہل سنت کے درمیان مشہور ہے کہ'' صدیق '' ابوبکر بن قحافہ کا لقب ہے اگر چہ ان کے یہاں بہت زیادہ روایا ت موجود ہیں کہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ''صدیق'' حضرت علی بن ابی طالب کا لقب ہے اور یہ روایات شیعہ مذہب کی روایات کے مطابق ہیں کہ شیعوں کے نزدیک ''صدیق''بطور نص حضرت علی کا لقب مبارک ہے اور اہل سنت نے اس کو چوری کرکے ابوبکر کے سرپر چڑھادیا ہے(۱) ۔

____________________

(۱) العمدہ ۲۲۰۔

۲۱

لیکن لقب ''صدیقہ '' قرآن کریم میں حضرت مریم بنت عمران کے لیے آیا ہے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک پر حضرت فاطمہ زہرا اور حضرت خدیجہ کے لیے جاری ہوا ،جبکہ اس سلسلے میں اہل سنت کی طرف سے یہ کوشش رہی کہ یہ لقب عایشہ کو دیدیا جائے ،لیکن عنقریب آپ کے سامنے اس دعوی کی پول کھل جائے گی ۔

اگر حقیقت کو درک کرنا ہے تو ضروری ہے کہ'' صدیقیت'' کے معنی کی تنقیح و تحلیل کی جائے تاکہ معلوم ہو کہ صدیقیت ایک معنوی و ربانی مرتبہ ہے یا کوئی معمولی لقب ہے کہ جو جس کو چاہے عطا کردے۔

کیا صدر اسلام میں پیغمبر اکرم جس کو جو بھی عطاکرتے اور دوسرے لوگ کسی کو کچھ بھی عطا کرتے تو کیا ان دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا ؟ اور کیا معقول ہے کہ جو القاب ، خداوندعالم اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے دیے گئے ہیں وہ بے بنیاد اور صرف تعلقات کی وجہ سے ہوں یا ایسا نہیں ہے اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کسی کا کوئی نام رکھنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اس نام و لقب کا مستحق ہے۔

اور کیا القاب ، لیاقت و قابلیت کے اعتبار سے دیے جاتے تھے یا یہ کہ لوگوں کی تشویق و ترغیب کے لیے عطا ہوتے تھے ۔

اور کیوں جناب ابوذر غفاری کو لقب ''صدیق''عطا نہیں ہوا جبکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان کے مطابق وہ روے زمین پر تمام انسانوں سے زیادہ سچے انسان تھے(۱) ۔

____________________

(۱) سنن ترمذی : ۵ ۳۳۴، ح ۳۸۸۹۔الانساب (سمعانی ): ۴ ۳۰۴۔

۲۲

''صدیقیت'' سے کیا مراد ہے ؟ اور کیا'' صدیق ''کے مراتب و اقسام ہیں ؟

علامہ ابن بطریق (متوفی ۶۰۰ھ) اپنی کتاب العمدہ میں راقم ہیں :

((صدیق کی تین قسمیں ہیں :

۱ـ صدیق نبی ہوتا ہے ۔

۲ـ صدیق امام ہوتا ہے۔

۳ـ صدیق عبد صالح ہے کہ جو نہ نبی ہے اور نہ امام۔

پہلی قسم پر یہ فرمان الٰہی دلالت کرتا ہے( واذکر فی الکتاب ادریس انه کان صدیقاً نبیاً ) (۱) کتاب (قرآن ) میں ادریس کو یاد کرو کہ وہ صدیق نبی تھے ۔

اور خداوندعالم کا یہ ارشاد گرامی( یوسف ایهاالصدیق ) (۲) یوسف اے صدیق۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہر نبی صدیق ہے لیکن ہر صدیق نبی نہیں ہے ۔

اس بات پر کہ ''صدیق ''امام ہوتا ہے خداوندعالم کایہ فرمان دلالت کرتا ہے( فأولائک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین والصدیقین والشهداء والصالحین و حسن اولٰئک رفیقا ) (۳) ۔ وہ ان کے ساتھ ہیں کہ جن کو اللہ نے نعمتیں عطا کی ہیں انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین میں سے اور وہ بہترین ساتھی ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ مریم(۱۹) آیت ۵۶۔

(۲) سورہ یوسف(۱۲) آیت ۴۶۔

(۳) سورہ نساء (۴) آیت ۶۹۔

۲۳

خداوندعالم نے نبیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد صدیقین کی مدح سرائی کی ہے جبکہ نبیوں کے بعد آئمہ ہی کا ذکر سب سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور اسی پر وہ روایات بھی دلالت کرتی ہیں کہ جن میں وارد ہے کہ'' صدیق '' تین شخص ہیں حبیب نجار، حزقیل ، علی اور علی ان سب سے افضل ہیں ۔ پس چونکہ علی کاذکر ان دو افراد کے ساتھ آیا ہے اور وہ ان کے ساتھ صدیقین میں شامل ہیں جبکہ وہ دونوں نہ نبی ہیں اور نہ امام ۔ لہذا مناسب یہ سمجھا کہ علی کو ان دونوں سے جدا اور ممتاز رکھیں ایک ایسی شی سے کہ جو ان دونوں میں نہیں ہے یعنی امامت لہذا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا علی ان دونوں سے افضل ہیں ۔

پس لفظ صدیق کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے چونکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تینوں کو صدیق فرمایا ہے لہذا لفظ کے اعتبار سے برابر ہیں ۔ لیکن پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چاہا کہ ان کے درمیان معنی کے اعتبار سے فرق بیان کردیا جائے یعنی علی کے مستحق امامت ہونے کوامتیاز قرار دیا جائے لہذا فرمایا وہ ان دونوں سے افضل ہیں یعنی علی صدیق ہیں اور امام))(۱) ۔

ظاہرہے کہ اس مسئلہ سے متعلق بحث ، چند مسائل کو بیان کرنے پر موقوف ہے اور ان کو تدریجی و یکے بعد دیگر بیان کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا ابتداء کلمہ ''صادق و کاذب ''سے آشنائی ضروری ہے تاکہ ''صدیقیت '' کے معنی کو درک کرسکیں اور یہ واضح ہوجائے کہ صدیقیت کہاں اور کس کے لیے مناسب ہے ۔

____________________

(۱) العمدہ ۲۲۳۔

۲۴

سب سے پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زمانۂ جاہلیت ہی میں لقب ''صادق و امین'' سے ملقب تھے ، حضرت خدیجہ اور آپ کی دختر نیک اخترحضرت فاطمہ زہرا کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے صدیقہ کا لقب ملا ۔

صدیق حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب اور صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سے پاک وصادق اولادیں ہوئیںکہ جو مسلمانوں کے امام قرار پائے اور خداوندعالم نے آیت تطہیر(۱) میں ان کو پاک و منزہ قرار دیا۔

نیز خداوندعالم نے ان کی اطاعت کی طرف دعوت دی اور فرمایا( کونوا مع الصادقین ) (۲) ( سچو ںکے ساتھ ہوجاؤ)(۳) ۔

____________________

(۱) سورہ احزاب (۳۳) آیت ۳۳۔

(۲) سورہ توبہ (۹) آیت ۱۱۹۔

(۳) دیکھیے تفسیر قمی : ۱ ۳۰۷۔ تفسیر فرات کوفی ۱۳۷۔ ان دونوں تفاسیر میں وارد ہے کہ'' ای کونوا مع علی و اولادعلی'' علی اور اولاد علی کے ساتھ ہوجاؤ ، یہ معنی حضرت امام محمد باقر سے نقل ہوئے ہیں ، مندرجہ ذیل حوالے ملاحظہ فرمائیں :

الدرالمنثور :۳ ۲۹۰۔فتح القدیر:۲ ۳۹۵۔ شواہد التنزیل :۲۶۰۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۳۔ کفایت الطالب ۲۳۵ـ۲۳۶۔

اور حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے جیسا کہ شواہد التنزیل :۲۵۹۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۰۔اور غایت المرام ۲۴۸ میں ابو نعیم اصفہانی سے منقول ہے ۔اور اسی طرح عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے دیکھیے ذیل کے حوالہ جات: ۔۔۔۔۔اگلے صفحہ پر

۲۵

اس طرح کے القاب میں تحریف اور اہل بیت علیہم السلام کی عظمت و منزلت کو گرانے و کم کرنے کی مسلسل ناکام کوششیں کی جاتی رہیں اور اب تک جاری ہیں ، لیکن ان سب کے باوجود تحریف کرنے والے ان کے مقام کو کم کرنے میں ناکام ہیں اور رہیں گے ۔

____________________

۔۔۔ پچھلے صفحہ کا ادامہ

مناقب امیر المؤمنین (خوارزمی ) ۱۹۸۔ شواہد التنزیل :۲۶۲۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۶۔ الدرالمنثور :۳ ۲۹۰۔فتح القدیر:۲ ۳۹۵۔

اور عبداللہ بن عمر سے روایت کی گئی ہے کہ جو شواہد التنزیل :۲۶۲۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۷۔ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

مقاتل بن سلیمان سے روایت ہے کہ جو شواہد التنزیل :۲۶۲۱، آیت ۵۵، حدیث۳۵۶۔میں مذکور ہے اور اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جن کا تذکرہ سورہ احزاب (۳۳) آیت ۲۳ میں آیا ہے ۔

(رجال صدقوا ماعاهدوا الله علیه فمنهم من قضی نحبه ومنهم من ینتظر )۔ وہ افراد کہ جنہوں نے اللہ سے عہد و پیمان کیا اور اس پر ثابت قدم رہے ان میں سے کچھ نے اس عہد کو انجام تک پہنچایا اور کچھ منتظر رہے ۔ ابو جعفر سے روایت ہے کہ (من قضی نحبہ) سے حمزہ اور جعفر مراد ہیں اور (من ینتظر ) سے مراد علی بن ابی طالب ہیں۔(سورہ احزاب (۳۳) آیت ۲۳)

۲۶

اس لیے کہ یہ حضرات عظیم و باعظمت اصلاب و پاکیزہ ماؤں کے رحم میں رہے اور جاہلیت کی آلودگی ان سے دور ہے اور پلیدگی و تیرگی کا لباس انہوں نے جامہ تن نہیں کیا ۔(۱)

____________________

(۱) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا : (انادعوة ابراھیم) میں اپنے پدربزرگوار ابراہیم کی دعا ہوں ۔ دیکھیے : مسند الشامیین :۲ ۲۴۱۔ تفسیر طبری :۱ ۷۷۳، حدیث ۱۷۰۷۔ الجامع الصغیر : ۱ ۴۱۴، حدیث ۷۰۳۔ شواہد التنزیل :۴۱۱۱،حدیث۴۳۵۔

اور آپ ہی سے روایت ہے کہ(نقلت من کرام الاصلاب الی مطهرات الارحام و خرجت من نکاح ولم اخرج من سفاح و ما مسنی عرق سفاح قط وما زلت انقل من الاصلاب السلیمة من الوصوم البریة من العیوب ) (شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید معتزلی):۱۱ ۱۰)

میں اصلاب کرام سے پاک و پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل ہوا اور نکاح (حلال) زادہ ہوں نہ کہ زنا(حرام) زادہ، میری پشتوں میں بھی کبھی عرق زنا نے مجھے مس نہیں کیا اور میں ہمیشہ سے بے عیب و بے نقص اور پاک اصلاب سے پاک و پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل ہوتا رہا ہوں ۔

احمد بن حنبل نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ: ۲ ۶۶۲۔ میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:( خلقت انا و علی بن ابی طالب من نور واحد قبل ان یخلق اللہ آدم فلما خلق اللہ آدم اسکن ذالک النور فی صلبہ الی ان افترقنا فی صلب عبد المطلب فجزء فی صلب عبداللہ و جزء فی صلب ابی طالب) میں اور علی ابن ابی طالب ایک ہی نور سے خلق ہوئے اس سے پہلے کہ خداوندعالم آدم کو خلق کرتا اور جب آدم کو خلق فرمایا تو اس نور کو صلب آدم میں قرار دیا یہاں تک کہ ہم صلب عبد المطلب میں جدا ہوئے کہ ایک جزء صلب عبداللہ میں قرار پایا اور ایک جز ء صلب ابی طالب میں منتقل ہوا۔

۲۷

ان کے جدبزرگوار زمانہ جاہلیت میں ''صادق و امین''کے لقب سے معروف تھے اور اپنے عہد وپیمان میں وفادار ہونے کی وجہ سے عربوں کے درمیان مورد اعتماد و قابل احترام تھے ،عرب اپنے فیصلے کرانے آپ کی خدمت میں آتے چونکہ آپ حق کے علاوہ کسی کی طرف داری نہیں کرتے اور کسی کے حق سے انکار نہیں کرتے تھے ۔(۱)

بیس سال کی عمر میں (حلف الفضول) میں شرکت کی تاکہ ظالم کے مقابل میں مظلوم کی مدد کرسکیں(۲) ۔ اور اپنے عہد و پ یمان سے وفاداری کرسکیں ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، مکہ کے قب یلوں کے درمیان حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کرنے کے لیے قاضی و داور قرارپائے ، جبکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ قبائل عرب خانۂ کعبہ کی تجدید بناء کررہے تھے تو حجر اسود کو رکھنے میں آپس میں اختلاف ہوگیا ، ابو امیہ بن مغیرہ (والد ام سلمہ) نے مشورہ دیا کہ جو شخص بھی سب سے پہلے باب السلام سے اندر آئے اس کو قاضی و جج بنایا جائے تو اس وقت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بن عبد اللہ اس ی باب سے تشریف لے آئے جیسے ہی آپ کو آتے دیکھا سب کے سب کہنے لگے یہ امین ہیں ان کے فیصلے پر ہم راضی ہیں ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پورا واقعہ سنا اور پھر اپن ی عبا ء کو پھیلایا ـایک روایت میں ہے کہ ایک کپڑا منگایاـاور پھر حجر اسود کو اٹھایا آپ نے حجر اسود کو اس میں رکھا پھر فرمایا ہر ایک قبیلے والے اس کے ایک ایک گوشے کو پکڑ لیں ، انہوںنے ایسا ہی کیا اور اٹھایا ۔

____________________

(۱) السیرة الحلبیہ :۱ ۱۴۵۔

(۲) طبقات ابن سعد :۱ ۱۲۹۔ المنمق ۵۲ـ۵۴۔

۲۸

جب اس کی جگہ کے قریب پہنچے تب آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو پکڑا اور اس کے مقام پر نصب فرمادیا ۔(۱)

اہل سنت والجماعت کی بعض کتب کی روایت کے مطابق پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دعوت اسلام کا آغاز کوہ صفا سے اس طرح کیا کہ فرمایا :

'' اے بنی فہر ، اے بنی عدی، اے فرزندان عبدالمطلب اور اسی طرح تمام قبائل کہ جو آپ سے قریب ترین تھے سب کو نام لے لے کر پکارا یہاں تک کہ سب آپ کے ارد گرد جمع ہوگئے اور جو نہیں آسکتا تھا اس نے اپنا نمائندہ بھیجا تاکہ معلوم ہو کہ آپ کیا چاہتے ہیں ۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : آپ حضرات کی نظر میں اگر میں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کا لشکر ہے کہ جو آپ پر شبخون مارنے والا ہے تو کیا میری تصدیق کروگے ؟

سب نے ایک زبان ہوکر کہا : ہاں آپ ہمارے نزدیک سچے ہیں اور ہم نے آپ سے کبھی جھوٹ نہیں سنا۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میں آپ کو عذاب شدید سے ڈرانے والا ہوں اے بنی عبد المطلب ، اے بنی عبد مناف ، اے بنی زہرہ ، اے بنی تیم ، اے بنی مخزوم و اسد اور تمام اہل مکہ کے قبیلوں میں سے ایک ایک کا نام لیا پھر فرمایا : خداوندعالم نے مجھے حکم دیا کہ آپ کو عذاب سے ڈراؤں میں آپ کی دنیا وآخرت کا مالک نہیں ہوں مگر یہ کہ کہیے'' لاالہ الا اللہ'' کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے ۔

____________________

(۱) السیرة النبویة (ابن ہشام) :۱ ۲۰۹۔ تاریخ طبری :۲ ۴۱۔ البدایة والنہایة : ۲ ۳۰۳۔ شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید معتزلی) : ۱۴ ۱۲۹۔

۲۹

پس ابو لہب کھڑا ہوا ـ وہ بھاری بھر کم آدمی تھا اور بہت جلدی غصہ میں آجاتا تھا ـ اور چیخا : تجھ پر ہمیشہ پھٹکار ہو کیا اسی لیے لوگوں کو جمع کیا ہے اس کے بعد لوگ آپ کے چاروں طرف متفرق ہوگئے تاکہ آپ کے پیغام کے سلسلے میں فکر و مشورہ کریں''۔(۱)

جی ہاں ، قبائل عرب نے آپ کی تکذیب کی لیکن خود آپ کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کے نظریات و افکار اور پیغام کی وجہ سے کہ جو لوگوں کے لیے حیات بخش تھے وہ نظریات کہ جو اس سے پہلے ان کے سامنے بیان نہیں ہوئے تھے ، لہٰذا اس سلسلے میں آپ کا مقام دوسرے انبیاء و رسل کی طرح ہے کہ وہ بھی اپنی اپنی قوموں کے ذریعہ جھٹلائے گئے اور آپ کی قو م کی مثال بھی قوم نوح ، قوم عاد، قوم ثمود و لوط اور اصحاب رس کی طرح ہے جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے:

( وان یکذبوک فقد کذبت قبلهم قوم نوح و عاد و ثمود و قوم ابراهیم و قوم لوط ) (۲) ۔پس اگر آپ ک ی تکذیب کریں تو آپ سے پہلے قوم نوح و عاد و ثمود اور قوم ابراہیم و قوم لوط اپنے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کرچکے ہیں ۔

بہر حال آپ کی قوم نے کذب ذاتی اور خیانت و ظلم کی نسبت آپ کی طرف نہیں دی ہے بلکہ آپ پر جادو ٹونہ اور سحر کی تہمت لگائی ہے چونکہ وہ لوگ معجزہ کی حقیقت کو درک نہیں کرسکتے تھے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو د یوانہ و مجنون کہتے تھے اس لیے کہ آپ پر وحی کے بارسنگین کو دیکھتے تھے جب کہ یہ انتہائی واضح ہے کہ عرب ،اسلام سے پہلے آپ کی امانت داری ، وفا اور سچائی کے معترف تھے ۔

____________________

(۱) دیکھیے ـ: صحیح بخاری : ۶ ۱۹۵، آیت (تبت یدا ابی لھب ) کی تفسیر میں ۔صحیح مسلم : ۱ ۱۳۴۔

(۲) سورہ حج (۲۲) آیت ۴۲و ۴۳۔

۳۰

پس '' صادق و صدیق '' سب سے پہلے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لقب ہے اور اسی طرح گذشتہ انبیاء کا جیسے ابراہیم ، ادریس ، اسماعیل ، موسی اور عیسی جیسا کہ خود آپ ہی کے بارے میں ارشاد رب العزت ہے :

( والذی جاء بالصدق و صدق به ) (۱) وہ کہ جو صدق کو لا یا اور اس کے ذریعہ تصدیق ہوئی ۔

حضرت ابراہیم کے متعلق ارشاد ہوا:

( واذکر فی الکتاب ابراهیم انه کان صدیقاً نبیاً ) (۲) اورکتاب (قرآن) م یں ابراہیم کو یاد کرو کہ وہ صدیق پیغمبر تھے۔

اور پھر حضرت ابراہیم ہی کے لیے ہے :

( و وهبنا له اسحاق و یعقوب و کلا جعلناه نبیاً ـ و وهبنا لهم من رحمتنا و جعلنالهم لسان صدق علیا ) (۳) ۔

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق ویعقوب عطا کیے اور ہر ایک کو نبی بنایا اور ان کو اپنی رحمتوں میں سے کچھ عطا کیا اور ان کے لیے سچی زبان ، علی و بلند قرار دی ۔

____________________

(۱) سورہ زمر(۳۹) آیت ۳۳۔

(۲) سورہ مریم(۱۹) آیت ۴۱۔

(۳) سورہ مریم(۱۹) آیت ۴۹ـ۵۰۔

۳۱

حضرت ادریس کے لیے ارشاد خداوندی ہے :

( اذکر فی الکتاب ادریس انه کان صدیقاً نبیاً ) (۱) ۔

اورکتاب (قرآن) میں ادریس کو یادکرو کہ وہ صدیق پیغمبر تھے۔

اور حضرت اسماعیل کے لیے ارشاد ہوا :

( اذکر فی الکتاب اسماعیل انه کان صادق الوعد و کان رسولاً نبیاً ) (۲) ۔

اورکتاب (قرآن) میں اسماعیل کو یادکرو کہ وہ صادق الوعدتھے اور پیغمبر نبی تھے ۔

حضرت موسی کے بارے میں ارشاد ہے:

( اذکر فی الکتاب موسی انه کان مخلصاًو کان رسولاً نبیاً ) (۳) ۔

اورکتاب (قرآن) میں موسی کو یادکرو کہ وہ مخلص اور پیغمبر نبی تھے ۔

بہر حال '' صدیقیت '' پیغمبروں اور نبیوں کی صفت ہے اور ممتاز علامت ہے ، مذکورہ آیات کے اعتبار سے یہ پہلے تو انبیاء اور پیغمبروں کی صفت ہے اور پھر اوصیاء و نیک وباایمان بندوں کی چونکہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :

( والذین آمنوا بالله و رسوله اولائک هم الصدیقون ) (۴)

____________________

(۱) سورہ مریم(۱۹) آیت ۵۶۔

(۲) سورہ مریم(۱۹) آیت ۵۴۔

(۳) سورہ مریم(۱۹) آیت ۵۱۔

(۴) سورہ حدید (۵۷) آیت ۱۹۔

۳۲

وہ لوگ کہ جو خدا اور پیغمبروں پر ایمان لائے وہی لوگ صدیقین ہیں اس آیت میں ''تخصص بعد از ایمان '' پایا جاتا ہے یعنی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان میں یقین نہیں رکھتے یا جھوٹے ہیں وہ ہر گز صدیق نہیں کہلاسکتے بلکہ اس آیت سے مراد صرف اہل بیت علیہم السلام ہیں چونکہ اصل میں وہی صادق و صدیق ہیں کہ جس کی تفصیل آئندہ آئے گی انشاء اللہ ۔

اس آیت( ومن یطع الله و الرسول فاولئک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین و الصدیقین والشهداء والصالحین و حسن اولائک رفیقاً ) (۱) کے ذ یل میں ابن شہر آشوب نے مناقب آل ابی طالب میں ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا'' من النبیین'' یعنی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''والصد یقین ''یعنی علی (کہ جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے ہیں ) '' والشھداء '' یعنی علی و جعفر و حمزہ اور حسن و حسین ہیں اور پھر کہا تمام پیغمبر صدیق ہیں لیکن ہر صدیق پیغمبر نہیں ہے اور تمام صدیق ، نیک و صالح ہیں لیکن ہر نیک و صالح ، صدیق نہیں ہے اور ہر صدیق شہید بھی نہیں ۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام صدیق و شہید اور صالح تھے لہٰذا وہ نبوت کے علاوہ صالحین و صدیقین کی تمام صفات کے حامل تھے ۔

ابو ذر لوگوں سے کچھ بیان کررہے تھے کہ لوگوں نے ان کی تکذیب کی تب پیغمبر اکرم نے فرمایا : (ما اظلت الخضراء (علی ذی لهجة اصدق من ابی ذر ))

____________________

(۱) سورہ نساء (۴) آیت ۶۹۔ (وہ افراد کہ جو خدا اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہی ان کے ساتھ ہیں کہ جن پر اللہ کی نعمتیں نازل ہوئی ہیں انبیاء و صدیقین ، شہداء و صالحین میں سے اور وہی بہترین دوست ہیں )۔

۳۳

آسمان نے ابوذر سے زیادہ سچے انسان پر سایہ نہیں کیا ہے، اسی دوران حضرت امیرالمؤمنین تشریف لے آئے تو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''الاان ه ذا الرجل المقبل فان ه الصد یق الاکبر و الفاروق الاعظم''

آگاہ ہوجاؤ کہ آنے والا شخص صدیق اکبر اور فاروق اعظم ہے''۔(۱)

اس اعتبار سے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سچے اور ام ین ہیں یعنی وہ ایسی ہستی ہیں کہ جن کے بارے میں ارشاد ہے :( وماینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی)(۲) پ یغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اپنی مرضی اور خواہشات نفس سے کچھ نہیں کہتے وہی کہتے ہیں کہ جو ان پر وحی نازل ہوتی ہے ۔

لہذا آپ جو کچھ بھی کسی کے بھی بارے میں ارشاد فرمائیں یا کسی کو کوئی لقب عنایت کریں ، رشتہ داری یا اپنائیت کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ ان صفات کا حامل اور صاحب لیاقت ہے ۔

یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام دو چیزوں سے پھیلا ہے ۔

۱ـ حضرت خد یجہ کا مال ۔

۲ـ حضرت ام یر المؤمنین علی علیہ السلام کی تلوار۔

جبکہ یہ بھی واضح ہے کہ یہ دونوں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سب سے پہلے ایمان لاے ہیں اور آپ کی رسالت کی تصدیق کرنے والے ہیں اور اپنی گرانبہا و قیمتی چیزوں کو اسلام اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کو پہنچانے اور پھیلانے میں نثار کردیا ہے ۔

____________________

(۱) مناقب ابن شہر آشوب :۳ ۸۹ـ۹۰۔

(۲) سورہ نجم(۵۳) آیت ۳ـ۴۔

۳۴

لہذا دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب خدیجہ کو صدیقہ کا لقب عطا کیا اور حضرت علی کو صدیق کالقب عنایت فرمایا ۔ چونکہ یہ دونوں ہر مقام اور ہر گام پر اور ہر پیغام و کلام میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تصدیق فرماتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ مصداق صدیقیت ، لوگوں کے ذاتی کمالات اور سیر ت کو دیکھ کر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے مشخص ہوتے ہیں اور یہ ان الفاظ کا اطلاق و استعمال بغیر کسی قابلیت و صلاحیت کے ، بلا وجہ کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہیں ہے ، یہ کمترین چیز ہے کہ جو عرض کی جاسکتی ہے ۔

تاریخ دمشق میں ضحاک و مجاہد کے حوالے سے ابن عمر کی روایت نقل کی گئی ہے '' ایک مرتبہ جبرئیل پیغام الٰہی لے کر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوئے اور آپ کے قریب آکر بیٹھ گئے اور محو گفتگو ہوگئے کہ اتنے میں خدیجہ بنت خویلد کا وہاں سے گذرہوا ، جبرئیل نے سوال کیا اے محمد یہ کون ہیں ؟

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا یہ میری امت کی صدیقہ ہیں''هذه صدیقة امتی''

جبرئیل نے کہا : میرے پاس ان کے لیے خداوند عالم کی جانب سے ایک پیغام ہے کہ خداوندعالم ان کو سلام پیش کرتا ہے اور بشارت دیتا ہے کہ جنت میں ان کا گھر قصب(مروارید) کا ہے کہ جو پیاس اور آگ سے بہت دور ہے ، نہ اس میں کوئی رنج و غم ہے اور نہ کسی طرح کا شور شرابا۔

جناب خدیجہ نے فرمایا :الله السلام و منه السلام والسلام علیکما ورحمة الله و برکاته علی رسول الله ۔

خداوندعالم سلام ہے اور سلامتی اسی کی جانب سے ہے آپ دونوں پر سلام ہو اور رحمت خدا اور اس کی برکتیں رسول خدا پر نازل ہوں یہ گھر کہ جو قصب کا ہے کیا ہے؟

۳۵

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : مروارید کا بہت بڑا قصر و قلعہ مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم کے قلعوں کے درمیان اور یہ دونوں بہشت میں میری بیویاں ہونگی۔(۱)

خداوندعالم کی جانب سے جناب خدیجہ کے لیے سلام آنا یہ آپ کا دوسری بیویوں پر فوقیت و برتری کی نشانی ہے چونکہ سلام الہٰی صرف معصوم کے لیے یا پھر اس شخص کے لیے آتا ہے کہ جو عصمت کے مرتبے میں ہو جیسے سلمان ، ابوذر اور عمار و غیرہ۔

____________________

(۱) تاریخ دمشق : ۷ ۱۱۸۔ اوراسی سے نقل ہے البدایة والنھایة :۲ ۶۲ میں ۔

یہ روایت شیعہ و سنی دونوں کتابوں میں مختلف و متعدد اسنا دکے ساتھ ذکر ہوئی ہے ، بخاری نے اپنی صحیح :۴ ۲۳۱،کتاب بدء الخلق ،باب تزویح النبی خدیجہ میں مختصر اشارے کے ساتھ ابو ہریرہ سے نقل کی ہے ۔

سیرہ ا بن ہشام : ۱۵۹۱ میں عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب سے نقل ہوئی ہے اور اس میں یہ آیا ہے'' الله السلام و منه السلام وجبرئیل السلام'' ۔

دولابی نے اپنی کتاب الذریة الطاہرہ ۳۶ میں ذکر کیا ہے ۔ اور حاکم نے مستدرک :۳ ۱۸۶ میں انس سے روایت نقل کی ہے اوراس میں ہے کہ ان اللہ ھو السلام و علیک السلام ورحمة اللہ و برکاتہ ۔ اور کہا ہے کہ یہ روایت ، مسلم کی شرائط کے اعتبار سے صحیح ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کو ذکر نہیں کیا ۔

معجم الکبیر : ۲۳ ۱۵ میں اور سنن الکبری (نسائی ) : ۵ ۹۴ ،حدیث ۸۳۵۹میں اور اسی سے نقل ہے اصابہ : ۸ ۲۰۲ میں اس میں بھی راوی انس ہی ہیں اور اس میں مذکور ہے ''ان الله هو السلام و علی جبرئیل السلام وعلیک السلام ۔ اور تفسیر عیاشی : ۲ ۲۷۹،حدیث ۱۲ میں ۔ اور اسی سے نقل ہے بحار الانوار :۱۶ ۷ میں کہ یہ روایت ابو سعید خدری سے ہے ۔

۳۶

ہاں ، اہل سنت نے سلام الہٰی کو دوسروں کے لیے بھی نقل کیا ہے جبکہ تحقیق اور ان کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے ان روایات کا جعلی و من گھڑت ہونا ثابت ہے ۔

عسقلانی ، فتح الباری میں اس حصے کی شرح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جناب خدیجہ نے فرمایا : ھو السلام و عن جبرئیل السلام وعلیک السلام (خداوندعالم سلام ہے اور جبرئیل سے سلام ہے اور آپ پر اے رسول خدا سلام ہے )۔

علماء کا بیان ہے کہ یہ واقعہ جناب خدیجہ کی بلندی مقام پر دلیل ہے چونکہ آپ نے ''وعلیہ السلام'' نہیں کہا جیسا کہ بعض صحابہ کے متعلق یہ نقل کیا گیا ہے ۔ جناب خدیجہ نے اپنی فکر سے یہ سمجھ لیا کہ خداوندعالم کو عام مخلوق کی طرح جواب سلام نہیں دیا جاتا(۱) ۔

ڈاکٹر سلیمان بن سالم بن رجاء سیحمی (اسلامی یونیورسٹی مدینہ میں علمی گروپ کے ممبر)جناب خدیجہ کے لیے خدا کی جانب سے سلام کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کلام میں جناب خدیجہ کی دو عظیم منقبتیں پائی جاتی ہیں ۔

۱ـ خداوندعالم ک ی جانب سے جبرئیل کے ذریعہ آپ کے لیے سلام آنا اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آپ تک سلام پہچانا یہ ایسی خصوصیت ہے کہ کسی دوسری خاتون کو نصیب نہیں ہوئی ۔

۲ـ جنت م یں مروارید کے گھر کی بشارت کہ جس میں نہ شورشرابا ہے اور نہ رنج وغم ۔

____________________

(۱) فتح الباری : ۷ ۱۰۵۔

۳۷

سہیلی کا بیان ہے کہ'' بیت '' کے ذکر میں ایک لطیف معنی کی طرف اشارہ ہے چونکہ جناب خدیجہ بعثت سے پہلے صاحب خانہ تھیں اور آپ کا ہی گھر اسلام کا واحد گھر قرار پایا، جس روز سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث ہوئے تو صرف آپ ہی کا بیت الشرف اسلام کا تنہا گھر تھا اور یہ ایک ایسی فضیلت ہے کہ کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ہے ۔

اور پھر کہتا ہے کہ کسی بھی کام اور کار خیر کا بدلہ و جزاء غالباً اسی لفظ کے ساتھ بیان ہوتاہے چاہے وہ جزاء کتنی بھی بلند و بالا ہی کیوں نہ ہو اسی وجہ سے حدیث میں قصر نہیں بیت آیا ہے۔(۱)

حافظ ابن حجر کا کہنا ہے کہ لفظ بیت میں ایک خاص معنی پوشیدہ ہے چونکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل ب یت کی مرکزحضرت خدیجہ ہیں اس لیے کہ اس آیت( انمایرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهر کم تطهیرا ) (۲)

اے اہل بیت بس اللہ کا ارادہ یہ ہے آپ کو ہر طرح کے رجس سے پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے ) )کی تفسیر میں جناب ام سلمہ کا بیان ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فاطمہ ، علی وحسن اور حسین کو بلایا اور اپنی عبا ء ان پر ڈالی اور فرمایا : پروردگارا یہ میرے اہل بیت ہیں (اس روایت کو ترمذی اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے)۔(۳)

____________________

(۱) الروض الانف :۱ ۴۱۶۔

(۲) سورہ احزاب (۳۳) آیت ۳۳۔

(۳) فتح الباری :۷ ۱۳۸۔

۳۸

ان افراد یعنی اہل بیت کا مرکز جناب خدیجہ ہیں چونکہ امام حسن و امام حسین حضرت فاطمہ کے فرزند ہیں اور حضرت فاطمہ جناب خدیجہ کی بیٹی ہیں اور حضرت علی بچپن ہی سے جناب خدیجہ کے گھر آگئے تھے وہیں تربیت پائی اور پھر آپ کی بیٹی جناب فاطمہ سے شادی ہوئی لہذا اہل بیت کی مرکزیت جناب خدیجہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے ۔(ڈاکٹر سلیمان )(۱)

حاکم نیشاپوری نے اپنی اسناد کے ساتھ انس سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : آپ کے لیے دنیا کی چار عورتوں کی معرفت کافی ہے مریم بنت عمران ، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ۔(۲)

سنن ترمذی میں عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے علی بن ابی طالب سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول خدا سے سنا آپ نے فرمایا: اس زمانے میں دنیا کی بہترین عورت خدیجہ بنت خویلد ہیں اور اس زمانے میں مریم بنت عمران بہترین عورت تھیں ۔(۳)

____________________

(۱) العقیدہ فی اہل البیت بین الافراط و التفریط:۱ ۱۰۳ـ۱۰۸۔

(۲) مستدرک حاکم : ۳ ۱۵۷۔ اور ترمذی نے اس روایت کو جلد: ۵ ۳۶۷ ، حدیث۳۹۸۱، ابواب مناقب میں نقل کیا ہے ۔ مسند احمد بن حنبل : ۳ ۱۳۵۔ اخبار اصبہان:۲ ۱۱۷۔

(۳) سنن ترمذی : ۵ ۳۶۷،حدیث ۳۹۸۰،فضل خدیجہ۔ مسند احمد بن حنبل : ۱ ۱۱۶۔ صحیح بخاری : ۴ ۱۳۸، (تھوڑے اختلاف کے ساتھ مذکور ہے )

۳۹

جناب خدیجہ ، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے بہترین وزیر تھیں(۱) اور آپ کو زمانۂ جاہلیت میں ''طاہرہ'' کہا جاتا تھا۔(۲)

فضائل الصحابہ احمد ابن حنبل میں(۳) تار یخ دمشق(۴) اور دوسرے منابع اور مآخذ(۵) م یں عبدالرحمن بن ابی لیلی کی سند سے کہ اس نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا: صدیقین (بہت زیادہ سچے) تین شخص ہیں حبیب بن موسی نجار مؤمن آل یاسین وہ کہ جس نے کہا( یا قوم اتبعواالمرسلین ) (۶) اے م یری قوم والو پیغمبروں کی اطاعت کرو ۔

____________________

(۱) البدایة و النھایة :۳ ۱۵۷۔ فتح الباری : ۷ ۱۴۸۔ الذریة الطاہرہ (دولابی) ۴۰۔ اسد الغابہ : ۵ ۴۳۹۔

(۲) مجمع الزوائد : ۹۷ ۲۱۸۔ فتح الباری :۷ ۱۰۰۔المعجم الکبیر :۲۲ ۴۴۸۔ اسد الغابہ :۵ ۴۳۴۔ تاریخ دمشق :۳ ۱۳۱۔ البدایة و النھایة :۳۲۹۳۔سیرة النبویة (ابن کثیر) : ۴ ۶۰۸۔

(۳) فضائل الصحابہ : ۲ ۶۵۵و ۲۶۷۔

(۴) تاریخ دمشق : ۴۲ ۴۳و ۳۱۳۔

(۵) الفردوس بماثور الخطاب :۲ ۴۲۱۔ فیض القدیر : ۴ ۱۳۸۔ کنز العمال : ۱۱ ۶۰۱۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :۹ ۱۷۲۔مناقب ابن شہر آشوب :۲ ۲۸۶۔ الجامع الصغیر:۱۱۵۲۔ الدر المنثور : ۵ ۲۶۲۔ ان تمام کتابوں میں صرف قرطبی تنہا ہے کہ جس نے اپنی تفسیر :۱۵ ۳۰۶ میں تمام محدثین و مفسرین کے خلاف نقل کیا ہے کہ تیسرا شخص ابوبکر ہے نہ کہ علی ۔

(۶) سورہ یاسین(۳۶) آیت ۲۰۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369