پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310248 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

سول ی پر چڑھ ا یا گیا اس کے بعد ان ہیں دونوں ک ی تحریک سے (۱) اس نام پر ا یک رافضی مشرک سولی کے اوپر ہے عوام ن ے آپ ک ے بدن کوسنگ سار ک یا ۔ پ ھ ر ن یچے اتار کر آگ سے جلا یا اور خاکستر ہ وا م یں اڑ اد ی۔

-------------

(۱):-ان قابل ذکر واقعات میں سے جنہوں نے مجھ پر ان تاریخی وقائع کو ثابت کردیا ایک دفعہ یہ بھی ہے جسکو میں اختصار کے ساتھ ذیل میں درج کرتا ہوں ۔

۱۹جمادی الثا نیۃ سنہ ۱۳۷۱ھ میں جب میں زیارت بیت المقدس سے واپس ہو کر دمشق جارہا تھا ۔ ابتدائے شب میں شرق اردن کی مسجد جامع عمان میں (جو بہت خوبصورت مسجد ہے) نماز پڑھنے پہنچا ،اہل سنت مسلمانوں کی جماعت نماز ختم کرچکی تھی ۔کچھ لوگ جارہے تھے اور بعض لوگ ابھی نوافل پڑھنے میں مشغول تھے ، میں بھی مسجد کے ایک گوشہ میں جاکر فریضہ مغرب وعشاء اداکرنے میں مصروف ہوا ۔فریضہ اور نوافل سے فارغ ہونے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ان میں سے بعض لوگ مجھ پر غضبناک ہیں خصوصا وہ عالم جوچند اشخاص کے ساتھقراءت قرآن میں مشغول تھے اور میری طرف شدید غصہ کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے میں تعقیبات ختم کرکے مسجد سے باہر نکل آیا اور گیراج میں جاکر موٹرچھو ٹنے کا انتظار کرنے لگا کھانا کھانے کے بعد جب مسجد میں نماز عشاءکی آذان شروع ہوئی تو مجھ کو خیال ہوا کہ روانہ ہونے کے بعد ممکن ہے موٹر راستہ میں نہ ٹھہرے اور نوافل شب پڑھنے کاموقع نہ ملے لہذا بہتر ہے کہ ابھی فراغت ہے مسجد میں جا کر نافلے ادا کرلوں پھر اطمینان سے سفر کی تیاری کروں ،چنانچہ تجدید وضو کرکے مسجد گیا اور عام بڑے پھاٹک سے داخل نہیں ہوا بلکہ عمارت کے آخری مغربی گوشے کے دروازے سے جاکر ایک بڑے ستون کے پہلو میں جو ایک اندھیری جگہ تھی وہاں جاکر مصروف نماز ہوا میں نے دیکھا کہ وہ عالم جو ایک گھنٹہ پہلے قراءت میں مشغول تھے اور غصے سے مجھ کو گور رہے تھے۔نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو جمع کئے ہوئے اور ان کے بیچ میں کھڑے ہوئے شرک اور مشرک کے بارے میں تقریر کر رہے ہیں ۔مقدمات کے بعد سلسلہ کلام اس مقام تک پہنچا کہ انتہائی جو ش اور سخن کے ساتھ کہا کہ تم سب مسلمانوں کو قیامت کے روز بازپرس کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اور جواب دینا پڑے گا ۔اس لئے کہ خدا نے فرمایا ہے مشرکین نجس ہیں ان کو مسجد میں نہ آنے دو لیکن ابھی ایک گھنٹہ پہلے ایک مشرک بت پرست نجس مسجد میں گھس آیا ہمارے سامنے بت کا سجدہ کیا اور تم لوگوں نے اس کو سزا نہیں دی میں قراءت میں مشغول تھا مگر تو لوگ کیامرگئے تھے ؟ کیا تمہارا فرض نہیں تھا کہ شرک کی نجاست کو مسجد سے دور کرتے اور بت پرست مشرک رافضی کو دفع کرتے یا اس کو قتل کردیتے کیونکہ اگر مشرک مسلمانوں کی مسجد میں بت پرستی کرے تو اس کو قتل کردینا واجب ہے ،بہر حال اپنی پر جوش تقریر سے ناواقف لوگوں کے جذبات اس طرح سے ابھارے کہ اگر میں اس جگہ موجود ہوتا تو یقینا قتل کردیا جاتا ۔تقری ختم ہونے کے بعد آدھے لوگ باہر جانے کے لئے عمارت کے آخری دروازے کے پاس آئے ، میں نماز وتر پڑھ رہا تھا چنانچہ بیٹھ گیا تاکہ ان لوگوں توجہ نہ ہو ،لیکن دفعتا میرے اوپر ان کی نظر پڑگئی ،فورا حملہ کرکے چاروں طرف سے گھیر لیا، بے شمار لاتیں اور گھونسے مجھ پر پڑرہے تھے اور برابر کہتے جاتے تھے کہ اٹھ اے مشرک !نکل اے مشرک! میں اپنی زندگی سے باکل مایوس ہو چکا تھا یہاں تک تشہد کا موقع آیا اور میں نے کہا" اشھد ان لا الہ الاّ اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ " اب ان کے درمیان اختلاف پید ا ہوگیا آپس میں کہنے لگے کہ یہ کیسا مشرک ہے جو وحدانیت خدا اور رسالت خاتم الانبیاء کی شہادت دے رہا ہے ؟ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم نہیں جانتے قاضی کہتا تھا کہ یہ رافضی ہے اور مشرک ہے اور قاضی کی بات غلط ہوسکتی ہے وہ لوگ بحث اور اختلاف میں مصروف تھے اتنے میں میں نس سلام پڑھ کر کے نماز ختم کی کچھ جان میں جان آئی ،ہمت کرکے دفاع کے لئے آمادہ ہوا اور عربی زبان میں ایک مفصل تقریر کرکے جس کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ان کو قائل اور لاجواب کیا اور اپنا ہمدرد بنایا اور اس ناخداشناس قاضی کو ایک جاسوس ثابت کیا جو مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر ظالم بیگانوں کو اہل اسلام پر غالب ،حاکم بنانے کے اسباب مہیا کرنا چاہتا ہے ۔خلاصہ یہ کہ ان لوگوں نے مجھ سے معذرت کی یہاں تک مجھ کو مہمان کرنے کیلئے سخت اصرار کیا لیکن میں نے یہ عذر کر کے سفر کے لئے بلکل تیار ہوں ان سے رخصت لی اور روانہ ہوا ۔یہ تھا ایک نمونہ علمائے اہل سنت کے ان سینکڑوں اقدامات میں سے جس میں انہوں نس ہمارے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے معاملہ کو الٹ کے پیش کیا ہے اور مظلوم مسلمانوں کے قتل و اہانت کا بھی باعث ہوتا ہے ۔)))

۱۰۱

"قاضی صیدا" کی بد گوئی سے ش ہید ثانی کی شہ ادت

دسویں صدی ہ ج ری میں بلاد شام کے اندر ش یعہ علماء اور مفاخر فقہ اء م یں سے ش یخ اجل فقیہ بے نظ یر" زین الدین ابن نور الدین علی ابن احمد بن عاملی قد سّ سرّہ " ت ھے جو علم و فضل وز ہ د و روع اور تقو ی میں دوست دشمن سبھی کے مرکز توج ہ اور کاف ی شہ رت ک ے مالک ت ھے ۔ ب اوجودیکہ شب و روز تالیف وتصنیف میں مصروف رہ ت ے ت ھے ۔ اور ہ م یشہ گوشہ نش ینی کی زندگی بسر کر تے ت ھے آپ ن ے مختلف علوم م یں اپنے قلم س ے دو سو س ے ز یادہ کتابیں چھ و ڑ د یں لیکن لوگوں س ے اس کنار ہ کش ی کے بعد ب ھی علمائے ا ہ ل سنت کو عداوت پ یدا ہ وئ ی اور آپ کی مقبولیت سے ان ک ے دلو ں م یں حسد کی آگ بھڑ ک ا ٹھی خصوصا بڑے قاض ی" صیدا "نے بادشا ہ آل عثمان "سلطان سل یم" کے پاس ا یک شکایت نامہ اس عنوان ک ے سات ھ لک ھ ا ک ہ "ان ہ قد وجد ببلاد الشام رجل مبدء خارج من المذا ھ ب الاربع ۃ "(یعنی یقینی طور پر ثابت ہ وا ہے ک ہ بلاد شام ک ے اندر ایک بدعتی شخص موجود ہے جوچارو ں مذ ہ بو ں س ے خارج ہے ) ۔

"سلطان سلیم" کی طرف سے ان عالم ،فق یہ کے لئ ے حکم صادر ہ وا ک ہ پ یشی کے لئ ے اسلامبول م یں حاضر کئے جائ یں ۔ چنانچ ہ مسجد الحرام ک ے اندر ان جناب کو گرفتار کرک ے چال یس روزتک مکہ معظم ہ م یں قید رکھ ا اس ک ے ب عد دریائی راستہ س ے دار السلطنت "اسلامبول "ک ی طرف روانہ کیا لیکن دربار تک پہ نچن ے س ے پ ہ ل ے ہی ساحل دریا پر آپ کا سر مبارک کاٹ ک ے جسم کو در یا میں پھینک دیا اور سر بادشاہ ک ے پاس ب ھیج دیا۔

۱۰۲

محترم حضرات !

آپ کو خدا کی قسم انصاف کیجئے او رعادلانہ ف یصلہ کیجئے ! بھ لا کس ی تاریخ میں آپ نے پ ڑھ ا ہے یا سنا ہے ک ہ علمائ ے ش یعہ کی جانب سے ک ھ ب ی کسی سنی عالم بلکہ عام انسان ک ے لئ ے ب ھی ایسی بدنیتی اور بد کرداری کا مظاہ ر ہ ہ وا ہ و اور اس جرم م یں کہ و ہ ش یعہ مذہ ب س ے الگ ہے تو اس کو قتل کرد یا ہ و؟ خدا ک ے لئ ے بتائ یے یہ بھی جرم وگناہ ہ وگ یا کہ و ہ چارو ں مذا ہ ب س ے خارج ہے آپ ک ے پاس ک یا دلیل ہے ک ہ اگر کوئ ی شخص چاروں مذ ہ بو ں (حنف ی،مالکی، شافعی،حنبلی)سے انحراف کر ے تو کافر ہے اور اس کاقتل واجب ہے ؟آ یا جو مذاہ ب صد یوں کے بع د رائج ہ وئ ے ان ک ی اطاعت واجب ہے ل یکن جو مذہ ب رسول خدا (ص)کے زمان ے س ے مرکز توج ہ ت ھ ا و ہ باعث کفر اور اس ک ے پ یروؤں کاخون بہ انا جائز ہے ؟

انصاف پسند لوگوں کی توجہ کیلئے عمدہ بحث

خدا کے لئ ے سچ بتائ یے کہ ابو حن یفہ یا مالک ابن انس یا شافعی یا امام احمد بن حنبل کیا رسول اللہ (ص)ک ے زمان ے م یں تھے ؟اور اپن ے مذ ہ ب ک ے اصول وفروع بلاواسط ہ آنحضرت (ص) س ے اخذ کئ ے ت ھے ؟ ۔

حافظ:- ایسا دعوی تو کسی نے ن ہیں کیا کہ ائم ہ اربع ہ ن ے آ ں حضرت(ص) ک ی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ہ و ۔

خیرطلب:- آیا امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیھ ما السلام صحبت میں بیٹھے اور آں حضرت کے علم کا درواز ہ ت ھے یا نہیں ؟

حافظ:- یہ تو بدیہی بات ہے ک ہ کبار صحاب ہ م یں سے بلک ہ بعض ح یثیتوں میں ان سے افضل ت ھے ۔

خیرطلب:-تو اس قاعدے ک ی رو سے اگر ہ م ک ہیں کہ عل ی ابن ابی طالب علیہ السلام کی پیروی اس لحاظ سے واجب ہے ک ہ پ یعمبر (ص)نے فرما یا علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے اور آپ آ ں حضرت (ص)باب علم ت ھے ،آن حضرت (ص)ن ے امت کو حکم د یا ہے ک ہ جو شخص م یرے علم سے ب ہ ر ہ اندوز ہ ون ا چاہ تا ہے اس کو چا ہیئے کہ عل ی (ع) کے درواز ے پر چل ے جائ ے۔ تو ہ مار ہ یہ دعوی سچا ہ وگا ۔ اور اگر ہ م ک ہیں کہ مذ ہ ب ش یعہ جو عین محمدی مذہ ب ہے ،اس لئ ے ک ہ خاتم الانب یاء نے اس ک ے پ یشواؤں کو عدیل قرآن فرمایا ہے اور ان س ے روگردان ی کو موجب ہ لاکت قرار د یا جیسا کہ حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ سے جو متفق عل یہ فرقین(شیعہ وسنی) ہیں ، سے ثابت ہے ۔ چنانچ ہ اس س ے قبل ان ک ی طرف اشارہ ک یا جاچکا ہے اس س ے انحراف بدبخت ی کا باعث ہے تو ہ م حق پر ہ و ں گ ے اور ہ م دل یل کے سات ھ یہ کہہ سکت ے ہیں۔ ک ہ عزت طا ہ ر ہ ک ی نافرمانی گویا حکم رسول(ص) سے سرکش ی ،صراط مستقیم سے عل یحدگی اور حبل المتین سے جدائ ی ہے ۔

اس کے باوجود علماء ش یعہ کی طرف سے کس ی جاہ ل ا ہ ل س نت کی نسبت بھی ایسے حرکات سرزد نہیں

۱۰۳

ہ وئ ے ن ہ ک ہ ان ک ے عالمو ں ک ے لئ ے ہ م ن ے جماعت ش یعہ کو ہ م یشہ یہی تعلیم دی ہے ک ہ ا ہ ل سنت ہ مار ے مسلمان ب ھ ائ ی ہیں ۔ ل ہ ذا ہ م سب کو آپس م یں متحد او ر متفق رہ نا چا ہ ئ یے ، لیکن اس کے خلاف آپ ک ے علماء برابر مومن و موحد پاک دامن اور اہ ل ب یت رسالت کے پ یروشیعوں کو اہ ل بدعت،رافض،غال ی،یہ ودبلک ہ کافر ومشرک کہ ت ے ر ہ ت ے ہیں اور اس جرم میں فقہ ا ئ ے اربع ہ ابو حن یفہ ،مالک ابن انس ،محمد ابن ادریس شافعی ،احمد ابن حنبل میں سے کس ی ایک کی تقلید کیوں نہیں کرتے ان کو کافر او ر رافض ی بناتے ہیں ۔ اور ان ک ے پاس کوئ ی دلیل بھی موجود نہیں ہے ک ہ مسلمان لازم ی طور پر ان چار وں م یں سے کس ی ایک کی پیرو ی کرنے پر مجبور ہیں ،حالانکہ اس ک ے برعکس جو لوگ حکم رسول س ے ا ہ ل ب یت رسالت اور عترت طاہ ر ہ ک ی پیروں کرتے ہیں اور حقیقت میں وہی نجات پانے وال ے ہیں۔

انہی بے جا فتاو ی اور بیہ ود ہ قسم کی گفتگو سے ان ہ و ں ن ے اپن ے عوام ک ے ہ ات ھ و ں م یں ایک بہ ان ہ د ے د یا کہ جب ب ھی موقع ہ ات ھ آئ ے و ہ سار ی حرکتیں جو کفار کے سات ھ ہ ونا چا ہیے بلکہ ان س ے ب ھی بد تر مومن و موحد شیعوں کے سات ھ عمل م یں لائی جائیں جیسے قتل وغارت اور ناموس اور ناموس کی ہ تک حرمت وغ یرہ ۔

ایرانیوں کے ساتھ ترکیوں ، خوارزمیوں ، ازبکوں اور افغانوں کا شرمناک رویہ

حافظ : آپ سے مجھ کو یہ امید نہیں تھی کہ ایسے جھوٹے اور غلط مطالب کے ذریعے جن کا کبھی دنیا میں وجود ہی نہیں رہا ہے جذبات کو ابھارئیے گا۔

خیرطلب :- آپ کو غلط فہمی ہوئی آپ یہ سجھتے ہیں کہ میں بغیر دلیل کے اور وہ بھی ایسے محترم جلسے میں اپنے مسلمان بھائیوں کو غلط الزام دے رہاں ہوں حالانکہ نمونے کے طور پر بزرگ شیعہ فقیہوں کے ساتھ سنی قاضیوں اور عالموں کا جو برتاؤ میں نے پیش کیا ہے اس سے قطع نظر اگر تاریخ میں ترکوں ، خوارزمیوں ، ازبکوں اور افغانوں کے حالات اور ایران پر ان کے مکرر حملوں کے واقعات کا مطالعہ کیجئے تو سمجھ میں آجائے گا کہ میں صحیح عرض کررہا ہوں بلکہ شیعہ جماعت کے ساتھ ان کا طرزعمل دیکھ کے آپ کو خجالت ہوگی کیونکہ جب بھی ان سے ممکن ہوا اور خارجی لڑائیوں یا اندرونی معاملات کے اثر سے ایرانیون کے حالاتدگرگوں دیکھے تو شمالی شرقی ایرانپر شدید حملے کئیےاور کبھی کبھی خراساں ، نیشاپور اور سبزدار حتی کہ شاہ سلطان حسین صفوی کے زمانے میں تو ایک مرتبہ اصفہان تک آگئے ، اس کے گردونواح میں کافی تاخت وتاراج کی اور کسی طرح کے عفت وانسانیت اور اسلام

۱۰۴

منافی طرز عمل سےدریع نہیں کیاقتل وغارت ، مجبور شیعوں کے اموال کو نذر آتش کردینے اور ان کے ناموس کی ہتک حرمت کرنے کے بعد ایک کثیر تعداد کو اسیر کرکے لئے گئے اور کافر قیدیوں کی طرح دنیا کے بازاروں مین فروخت کردیا

چنانچہ ارباب تاریخ لکھتے ہیں کہ ترکستان کے شہروں میں ایک لاکھ سے زیادہ شیعہ فروخت کئے گئے اور کافر غلاموں بلکہ ان سے بھی بدتر اشخاص کی مانند ان کے ساتھ سخت رویہ برتا جاتا تھا ، اس طرح کے اقداماتوہ صرف اپنے علماء کے حکم اور فتوے سے عمل میں لاتے تھے

ایران مین خان خیوہ کے مظالم اور شیعوں کے قتل وغارت کے لئے علمائے اہل سنت کے فتوے

حافظ :-اس طرح کی جنگیں اور حملے سیاسی تھے اورمذہبی پیشواؤں کے فتاوے سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا ،

خیرطلب:- نہیں ایسا نہیکن ہےبلکہ اس قسم کے حملے قتل وغارت اور ہتک حرمت علمائے اہل تسسنن کے فتاوی اور فیصلوں ہی کا نتیجہ تھے چنانچہ مرحوم ناصرالدین شاہ قاجار کے اوائل سلطنت اور میرزا تقی خاں امیرنظام کی وزارت مین جب ایران کی فوج خراسان کے ہنگامے اور سالار کے فتنےمیں پھنسی ہوئی تھی امیر خوارزم محمد امین خاں ازبک معروف بہ خان خیوہ (خوارزم ) کو موقع ہاتھ آیا اس نے مرو اور خراسان پر ایک کثیر لشکر کے ساتھ حملہ کردیا ۔اور قتل وغارت اور کافی تباہ کاری کے بعد بہت بڑے جمع کو قید کرکے لے گیا ۔ سالار کا معاملہ ختم ہونے کے بعد حکومت خان خیوہ اور اس کی سرکوبی کی متوجہ ہوئیایرانکے مقتدر اور مدبر وزیر اعظم مرحوم امیرنظام کی تدبیر سے پہلے نرمی اور مدارات سے کام لیا گیا ، مرحوم رضاقلی خاں بزارجیریی متخلص بہ ہدایت کو جو ایرانی دربار کے بڑے عقلمندوں مین سے تھے سفیر بناکر خان خیونہ کے پاس بھیجا جس کی تفصیل بہت طولانی ہے اور یہاں اس کے ذکر کی گنجائش نہیںالبتہ جو میریگزارش ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جس وقت مرحوم ہدایت خاں خیوہ کے پاس پہنچے توگفتگو کے سلسلے میں کہا تعجب ہے کہ ایران باشندے جب روم ، روس ہند اور فرنگ وغیرہ بیرونی ممالک میں جاتے ہیں تو وہاں عزت کے ساتھ رہتے ہیں اور امن وعافیت کے ساتھ واپس آتے ہیں لیکن آپ کے حدود سلطنت میں معاملہ برعکس ہے کیونکہ آپ کے آدمی کو لوٹنے پھونکنے ، قتل وغارت اور

۱۰۵

ان کو قید کرکے فروخت کرنے میں کافر غلاموں کا ایسا سلوک کرتے ہیں اور طرح طرح کی ذلتیں پہنچاتے ہیں حالانکہ سب کے سب مسلماں ایک قبلہ ، ایک کتاب (قرآن مجید) ایک پیغمبر اور ایک خدا کے ماننے والے ہیںپھر بھی معلوم نہیں ایسے برتاؤ کا کیا سبب ہے ؟

اس نے جواب دیا کہ اس میں ہماریکوئی سیاسی غلطی نہیں ہے بلکہ مذہبی حیثیت سے بخارا اور خوارزم کے علماء مفتی اور قاضی صاحبان فتوی دیتے ہیں اور کہتے ہیں شیعہ چونکہ رافضی ، کافر اور اہلبدعتہین لھذا ان کی سزا یہی ہے چنانچہ کفار کی حیثیت سے ان کو قتل کرناان کے اموال غصب کرلینا ان کو لوٹنا اور قیدی بنانا واجب ولازم ہےجیسا کہ ان واقعات کی مفصل شرح تاریخ روضتہ الصفائے ناصری اور سفارت نامہ خوارزم مطبوعہ طہران مولفہ مرحوم رضا قلی خاں ہدایت میں درج ہے

شیعوں کے قتل وغارت پر علمائے اہل سنت کے فتوے اور خراسان پر عبداللہ خاں ازبککے حملے

نیز جس زمانے میں عبداللہ خاں ازبک نے شہر خراسان کا محاصرہ کیا تھا علمائے خراساں نے عبداللہ خان کو ایک مفصل تحریر لکھی اور اس کے حرکات پر اعتراض کئے کہ تم آخر کس لئے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے والوں اور قرآن وعترت رسول کےپیروں کے قتل وغارت اورہتک حرمت پر آمادہ ہوئے ہو در آنحالیکہاسلام نے تم کو کفار کے ساتھ بھی ایسا سلوک کرنے کی اجازت نہیں دی ہے

عبداللہ خاں نے مشہد کے علماء اور باشندوں کا یہ خط جواب کے لئے سنی عالموں اور قاضیوں کے سپرد کیا جو اس کے ہمراہ تھے ان لوگوں نے تفصیلی جواب لکھاپھر علمائے مشہد نے اس کا جواب الجواب دیا اور ان کو لاجواب کیاان خطوط کی تشریح ناسخ التواریخ میں درج ہے جو بہت طولانی ہےمیرے مطلب کا ثبوت یہ ہے کہ سنی علمائے ازبک نے اپنی تحریر میں لکھا تھا کہ شیعہ چونکہ رافضی اور کافر ہیں لہذا ان کا خون اور مال وحرمت مسلمانوں کے لئے مباح ہے ۔

افغانستان کے شیعوں سے افعانی امیروں کا سلوک

زمانہ ماضی میں اور بالخصوص میر دوست محمد خاں کہندل خاں ، شاہ شجاع الملک ، عبدالمومن خاں امیر عبدالرحمان خاں اور امیر حبیب اللہ خاں کی ریاست وحکومت کے زمانے میں کابل قندھار، ہرات اور ان

۱۰۶

کے اطراف میں شیعہ جماعت کے ساتھ سنی افغانیوں نے جو سلوک کئے اور خاص وعام بلکہ بے گناہ بچوں کا بھی جو قتل عام کیا اگر ہم صرف اسی کا تذکرہ کرنا چاہیں تو انتہائی شرمناک اور اہل جلسہ کے لئے ناقابل برداشت ہوگا میرا خیال ہے کہ خود آپ حضرات نے بھی تاریخ کے سلسلے میں ان لوگوں کے لرزہ انگیز مظالم کا بخوبی مطالعہ کیا ہوگا اور محترمبا ہمت قزلباش حضرات ہندوستان میں بالخصوص پنجاب کے اندر افغانوں کے اثار ظلم کا ایک کھلا ہوا نمونہ ہیں جو مجبور راجلاوطنی اختیار کرکے یہاں پناہ گیر اور سکونت پذیر ہوئے

ارباب تواریخ نے ان سارے واقعات کو درج کیا ہےاور آنے والی نسلوں کو موقع دیا ہے کہ صحیح فیصلہ تک پہنچ سکیں

چنانچہ ان میں سے ایک دل سوز واقعہ سنہ ۱۲۶۷ ھ کا ہے عاشورہ محرمکو جمعہ کے روز قندھار کے شیعہ امام باڑوں میں جمع ہو کر عزاداری سید شہداء وعترت رسول میں سرگرم تھے ، دفعتا بہت سے متعصب اہل سنت طرح طرح کے اسلحے لئے ہوئے امام باڑے میں گھس پڑے اور نہتے شیعوں کے ایک کثیر مجمع کو یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی انتہائی دردناک طریقے سے قتل کیا اور ان کے اموال لوٹ لئے برسوں گزرگئے کہ شیعہ ذلت وحقارت کی زندگی بسر کررہے تھے اور آزادی عمل سے محروم تھے یہاں تککہ ایام عاشورہ میں دو دو تین تین افراد تہ خانوں کے اندر جاکر فرزند رسول اور شہدائے کربلا کی عزاداری کرتے تھے (یہاں پر مصنف دام مجدھم نے میرامان اللہ خاں کی رواداری اور انصاف پروردی کی تعریف فرمائی ہے جس کو بنظر اختصار حذف کرتا ہوں (مترجم) آپ حضراتتاریخ پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ اسی ہندوستان کے اندر مخالفین کی تحریک سے سنی وشیعہ آویزش کے نتیجہ میں کس قدر خون بہائے گئے اور کتنے صاحبان فضل وتقوی اورپاکدامن مومنین جاہلوں کی ہوسناکیوں کی بھینٹ چڑھ گئے

شہید ثالث کی شہ ادت

ان منحوس واقعات کے غم انگ یز خطوں م یں سے آگر ے کا قبرستان ب ھی ہے اس ی سفر کے سلسل ہ م یں جس وقت میں وہ ا ں پ ہ نچا تو خدا ہی جانتا ہے ک ہ متعصب لوگو ں ک ی حماقتوں اور ج ہ التو ں س ے کس قدر متاثر ہ و ا خصوصا جس وقت صاحب علم وتقو ی بے نظ یر فقیہ وعالم اور رسول اللہ (ص )کے پار ہ تن "قاض ی سید نوراللہ شوستر ی قدس سرّہ " ک ی زیارت سے مشرف ہ و ا ک یونکہ آپ بھی ملت اسلامی کے تعصب وعناد ک ی قربانیوں میں سے ا یک ہیں جنہ و ں ن ے سن ہ ۱۰۱۹ ھ م یں اس زمانے ک ے ب ڑے ب ڑے عالمو ں ک ی مخالفانہ کوششو ں ک ے نت یجے میں ہ ندوستان ک ے جا ہ ل ومتعصب مغل با شاہ "جہ انگ یر"کے حکم س ے رفض اور تش یع کے الزام پر خود سن ی علماء کے ہ ات ھ و ں ۷۰ سال ک ے سن م یں شربت شہ ادت نوش فرما یا ۔

۱۰۷

آپ کو خود معلوم ہے ک ہ آگر ے م یں ان بزرگوار سید جلیل القدر عالم کی قبر پر آج تک شیعہ مسلمانوں ک ی زیارت گاہ ہے ۔

ان کے سنگ قبر پر "جومرمر س ے بنا ہ وا ہے " م یں نے د یکھ ا کہ سنگ س یاہ سے نقش ک یا ہ وا ہے ۔

ظالمی جفائے نورالل ہ کرد-------قر ۃ العین نبی را سر برید

سال قتلش حضرت ضامن علی-------گفت نوراللہ شد ش ہید

حافظ:- آپ بلاوجہ ہ م کو مورد الزام قرارد یتے ہیں کیوں کہ ج ہ ال اور عوام ک ی زیادتیوں اور جفاکاریوں اور ان لوگوں ک ے افعال س ے جن کا آپ ن ے ذکر ک یا درحقیقت میں خود بہ ت متاثر ہ و ں ل یکن شیعوں کے اعمال ب ھی تو اس کے لئ ے معاون ہ وت ے ہیں ۔ اور ان کو ا یسی حرکتوں پر ابھ ارت ے ہیں۔

خیرطلب :- شیعوں کے کون س ے ا یسے اعمال سرزد ہ وت ے ہیں جو ان کے قتل وغارت اور ہ تک عزت ک ے باعث ہ و سک یں ؟

حافظ:- ایک ایک دن میں ہ زارو ں افراد مردو ں ک ی قبروں ک ے سامن ے ک ھڑے ہ وکر ان س ے حاجت یں طلب کرتے ہیں ، کیا شیعوں کا طریقہ مردہ پرست ی نہیں ہے ؟ علما ، آخر کس لئ ے ان کو منع ن ہیں کرتے ک ہ مردو ں ک ی زیارت لے نام پر کرو ڑ و ں اشخاص ان ک ی قبروں ک ے سامن ے چ ہ ر ہ خاک پ ر رکھ ک ے اور سجد ہ کرک ے مرد ہ پرست ی کرتے ہیں ۔ اور پاک نفس لوگو ں ک ے ہ ات ھ و ں م یں ایک بہ ان ہ د ے د یتے ہیں تاکہ وہ ز یادتیاں کریں اور تعجب تو یہ ہے ک ہ آپ ان اعمال کا نام توح ید کہ ت ے ہیں اور اس قسم کے اشخاص کو موحد ک ہ ت ے ہیں ۔

جب ہ م لوگ مشغول اور سرگرم گفتگو ت ھے تو حنف ی فقیہ مولوی شیخ عبدا لسلام کتاب ہ د یۃ الزائرین کے جو ان ک ے سامن ے رک ھی ہ وئ ی تھی اس طرح ورق الٹ ر ہے ت ھے اور مطالع ہ کر ر ہے ت ھے جس س ے ظا ہ ر ہ وتا ت ھ ا ک ہ و ہ کوئ ی اعتراض کا پہ لو پ یدا کرنے ک ی کوشش میں ہیں ،جب حافظ صاحب کا کلام یہ ا ں تک پہ نچا تو ان ہ و ں ن ے سر ا ٹھ ا یا اور ایک بھ ر پور وار کرت ے ہ وئ ے ج یسے کوئی بڑ ا س ہ ارا ڈھ ون ڈ ل یا ہ و مج ھ س ے فرما یا :-

شیخ کا اقدام، شبہہ ک ی ایجاد حملے ک ے لئ ے وس یلے کی تیاری-----اور---- اس کا دفاع

شیخ :- بسم اللہ د یکھ ئ ے اسی جگہ (کتاب ک ی طرف اشارہ )آپ ک ے علماء اور پ یشوا ہ دا یت دے ر ہے ہیں

۱۰۸

کہ امامو ں ک ے حرم م یں زیارت ختم ہ ون ے ک ے بعد زائر ین دو رکعت نماز زیارت پڑھیں تو کیا نماز میں قصد قربت شرط نہیں ہے ؟ ورن ہ نماز ز یارت چہ معن ی دارد؟ آیا امام کے لئے نماز پڑھ نا شرک ن ہیں ہے ؟ زائر ین کے یہی اعمال کہ امام ک ی قبر کی طرف رخ کرکے ک ھڑے ہ وت ے ہیں ۔ اور نماز پ ڑھ ت ے ہیں ان کے شرک پر سب س ے ب ڑی دلیل ہیں اب اس موقع پر آپ کے پاس ک یاجواب ہے ؟ یہ سند صحیح ثابت اور خود آپ ہی کی معتبر کتاب ہے ۔

خیرطلب :- چونکہ وقت کاف ی گزر چکا ہے حضرات کسل مند اور پر یشان ہ ور ہے ہیں ۔ ل ہ ذا مناسب سمج ھ ئ ے تو آپ ک ے اور جناب حافظ صاحب ک ے ب یانات کاجواب کل پر رکھ ا جائ ے۔۔ (تمام ش یعہ ،سنی حاضرین جلسہ ن ے آواز یں دینا شروع کیں کہ جب تک جناب ش یخ صاحب کاجواب نہ د ے د یا جائے ا ور مردہ پرست ی کے معن ی نہ واضح ہ وجائ یں ہ م لوگ یہ ا ں سے ن ہ جائ یں گے ہ م کو بالکل تکان اور پر یشانی نہیں ہے ) ۔۔

(میں ہ نست ے ہ وئ ے حافظ صاحب ک ی طرف رخ کیا اور کہ ا ک ہ جناب ش یخ کا جوش چونکہ ب ہ ت زور پر ہے اور ان ہ و ں ن ے ا یک بہ ت ب ڑ ا حرب ہ ت یار کیا ہے ۔ ل ہ ذا اجازت د یجئیے کہ پ ہ ل ے ان کاجواب د ے دو ں پ ھ ر آپ کا جواب عرض کرو ں ) ۔

حافظ :- فرمائیے ہ م سنن ے ک ے لئ ے حاضر ہیں ۔

خیر طلب :- جناب شیخ صاحب ! واقعی آپ بچوں ک ی طرح بہ ان ے ڈھ ون ڈ ر ہے ہیں ۔ ک یا آپ زیارت کے لئ ے گئ ے ہیں اور زائرین کے عمل یات کو قریب سے د یکھ ا ہے ؟

شیخ :- نہیں ،نہ م یں گیا ہ و ں اور ن ہ م یں نے د یکھ ا ہے ۔

خیرطلب :- پھ ر آپ ک ہ ا ں س ے فرمار ہے ہیں کہ زائر ین قبر امام کی طرف رخ کرکے نماز پ ڑھ ت ے ہیں جس سے اس نماز وز یارت کو آپ نے مومن وموحد ش یعوں کے لئ ے شرک ک ی علامت قرار دیا ہے ۔

شیخ:- آپ کی اسی کتاب کی رو سے ،جس م یں لکھ ت ے ہیں کہ امام ک ے لئ ے نماز ز یارت پڑھ و ۔

خیرطلب :- مرحمت فرمائیے دیکھ و ں کس طرح سے لک ھ ا ہ وا ہے ۔ (جب کتاب ل یکے دیکھی تو اتفاق سے حضرت ام یر المومنین علیہ السلام کی زیارت کا طریقہ تھ ا )-

خیرطلب :- عجب حسن اتفاق ہے ک ہ آپ ن ے خود ہی اپنے خلاف ا یک تیز دھ ار کا حرب ہ م ہیا فرمالیا چونکہ خدا ہ م یشہ ہ مارا مدد گار ہے ۔ ل ہ ذا ہ ر مقام پر ہ مار ی کمک اور حمایت کے اسباب ووسائل اک ٹھ ا کرد یتا ہے ۔

اولا بہ تر ہے ک ہ اس کتاب م یں جو طریقہ زیارت درج ہے اس ک ے شروع ہے اس ک ے شروع س ے بلا امت یاز ہ ر حص ے ک ے چند جمل ے وقت ک ے لحاظ س ے پ ڑھ جاؤ ں یہ ا ں تک کہ نماز ک ی منزل تک پہ نچ جاؤ ں جو آپ کا موضوع بحث ہے تاک ہ حضرات حاضر ین جلسہ خود ہی فیصلہ فرمالیں اور جس مقام پر شرک کی علامت ملاحظہ فرمائ یں فورا ٹ وک د یں اور اگر اول

۱۰۹

سے آخر تک ز یارت نامے م یں صرف توحید ہی کی علامت نظر آئے تو آپ شرمند ہ ن ہ ہ و ں بلک ہ یہ سمجھ ل یں کہ غلط ف ہ م ی ہ وگئ ی ۔ کتاب د یکھ آپ کے سامن ے ہے پ ھ ر آپ بغ یر دیکھ بال کے اور جانچ پ ڑ تال ک یے ہ وئ ے حمل ے کر ر ہے ہیں چنانچہ اس ی جگہ س ے حضرات ا ہ ل جلس ہ سمج ھ ل یں کہ آپ حضرات ک ے باق ی اعتراضات بھی اسی پھ س پ ھ س ے اعتراض ک ے مانند صرف د ھ وکا ہی دھ وکا ہے ۔

زیارت کے آداب

ملاحظہ فرمائیے ،قاعدہ یہ ہے ک ہ مولا ام یر المومنین علیہ السلام کا زائر جب کوفہ ک ی خندق پر پہ نچ ے تو ک ھڑ ا ہ وکر ک ہے "الله اکبر الله اکبر اهل الکبریاء والحمد والعظمة الله اکبر اهل التکبیر والتقدیس والتسبیح ووالا لا اله الا الله اکبر مما اخاف و احذر الله اکبر عمادی علیه اتوکل الله اکبر رجائی و الیه انیب الی آخر" جب درواز ہ نجف پر پ ہ نچ ے تو ک ہے " الحمد لله الذی هدانا لهذا و ما کنا لنهتدی لولا ان هدانا الله الی آخر " ۔ جب صحن ک ے دواز ے پر پ ہ نچ ے تو حمد بار ی تعالی کے بعد ک ہے "اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شریک له و اشهد ان محمد ا عبده ورسوله جاء بالحق من عند الله و اشهد ان علیا عبدالله واخو رسول الله ،الله اکبر الله اکبر الله اکبر لا الهه الا الله والله اکبر والحمد لله علی هدایته و تو فیقه لما دعاا لیه من سبیله الی آخر" جب در حرم و بقع ہ مبارک ہ پر پہ نچ ے تو ک ہے "اشهد ال لا اله الا الله وحده لا شریک له الی آخر" پ ھ ر خدا اور رسول اور ائم ہ طا ہ ر ین سے اذن و اجازت حاصل کرن ے ک ے بعد جب زائر حرم مط ہ ر ک ے اندر داخل ہ و تو مختلف ز یارتیں جو پیعمبر اور امیر المومنین علیھ ما الصلواۃ و السلام کے لئ ے س لام پر مشتمل ہیں پڑھے ۔ اور ز یارت سے فارغ ہ ون ے ک ے بعد حکم ہے ک ہ چ ھ رکعت نماز پ ڑھے دو رکعت ہ د یہ امیر المومنین علیہ السلام کے لئ ے اور چار رکعت ہ د یہ آدم ابو البشر اور نوح شیخ الانبیاء علیھ ما السلام کے لئ ے جو آن حضرت ک ے پاس مد فون ہیں ۔

نماز زیارت اور دعائے بعد از نماز

آیا نماز ہ د یہ شرک ہے ؟ آ یا ہ مار ے یہ ا ں والدین اور ارواح مومنین کے لئ ے نماز ہ د یہ کا دستو ر نہیں ہے ؟

۱۱۰

تو ک یا یہ تمام قاعدے شرک ہیں ؟ اوراگر زائر امیر المو منین علیہ السلام کے لئ ے د ہ رکعت نماز ہ د یہ قربتا الی اللہ بجالائ ے تو ک یا یہ شرک ہے ؟

یہ ہ ر انسان ک ی انسانیت کا جز ہے ک ہ جب کوئ ی دوست کی ملاقات کو جاتا ہے ہے تو اس کے لئ ے کوئ ی تحفہ ل ے جاتا ہے ہے ج یسا کہ فر یقین کی ساری کتب احادیث میں مومن کو ہ د یہ کے ثواب م یں رسول اللہ (ص) س ے پورا ا یک باب موجود ہے جب زائر ین اپنے محبوب آقا ک ی قبر کے سامنے ک ھڑ ا ہ وجاتا ہے تو یہ سمجھ تا ہے ک ہ و ہ ب ہ تر ین چیز جو حضرت اپنی ساری زندگی میں زیادہ پسند فرماتے ت ھے ۔ نماز ت ھی ، لہ ذا ہ دا یت کی گئی ہے ک ہ زائر قرب ۃ الی اللہ دو رکعت نماز پ ڑھے اس ک ے بعد اس کا ثواب آن حضرت ک ی روح پر فتوح کو ہ د یہ کرے تو ک یا یہ عمل آپ کی نظر میں شرک ہے ؟ آپ ن ے نماز کا طر یقہ پڑھ ا ہے ؟ تو دعائ ے بع د از نماز کو بھی دیکھ لینا چاہیئے تا کہ آپ کو آپ ک ے شب ہے کا جواب مل جائ ے ۔ اگر آپ ن ے پ ڑھ ل یا ہ وتا تو قطعا ا یراد نہ کرت ے ؟ ۔ اب م یں آپ کی اجازت سے حاضر ین جلسہ ک ی توجہ ک ے لئ ے وہ دعا پڑھ تا ہ و ں تا ک ہ ش یعوں کے اعمال کو انصاف ک ی نگاہ س ے د یکھ ئ ے اور جان لیجئے ۔ ک ہ ہ م موحد ہیں مشرک نہیں ہیں اور کسی حالت میں خدا کو فراموش نہیں کرتے عل ی علیہ السلام کو بھی ہ م اس ی سبب سے دوست رک ھ ت ے ہیں کہ آپ خدا ک ے بند ہ صالح اور رسول الل ہ (ص) ک ے وص ی وخلیفہ ہیں ۔

دعا کادستور یہ ہے ک ہ نماز س ے فارغ ہ ون ے ک ے بعد ان حضرات ک ے سر ہ ان ے (برخلاف اس ک ے ک ہ جو ش یخ صاحب نے فرما یا کہ قبر ک ی طرف رخ کرکے پ ڑھ ت ے ہیں) رو بہ قبل ہ اس صورت م یں کہ قبر مبارک بائ یں بازو کی طرف ہ و یہ دعا پڑھے " اللهم انی صلیت ها تین الرکعتین هدیة منی الی سیدی ومولای ولیک واخی رسولک امیر المومنین وسید الوصیین علی ابن ابی طالب صلوات الله علیه وعلی اله اللهم فصلی علی محمد و آل محمد وتقبلها منی و اجزنی علی ذالک جزاء المحسنین اللهم لک صلیت ولک ورکعت ولک سجدت وحدک لا شریک لک الا انت تجوز الصلواة الرکوع و السجود الا لک لانک انت الله لا اله الا انت "

ما حصل مطلب یہ ہے ک ہ پروردگار ! اس دو رکعت نماز کو م یں نے ہ د یہ کیا اپنے س ید و مولا تیرے ولی اور تیرے رسول کے ب ھ ائ ی امیر المومنین و سید الوصیین علی ابن ابی طالب علیھ ما السلام کی طرف ،خدا وند محمد و آل محمد پر اپنی رحمت بھیج ۔ اس دو رکعت نماز کو میری طرف سے قبول فرما اور اس عمل پر مج ھ کو ن یکو کاروں ک ی جزا مرحمت فرما ۔ پروردگارا! م یں نے ت یرے لئے نماز پ ڑھی ،تیرے لئے رکوع و سجود ک یا ،تو ہی خدائے واحد ہے جس کا کوئ ی شریک نہیں کیونکہ نماز اور رکوع وسجود ،سواتیرے کسی اور کے لئ ے جائز ن ہیں ہے اور تو ہی وہ خدا ا یسے بزرگ ہے جس ک ے سوا

۱۱۱

کوئ ی اور خدا نہیں ۔

حضرات محترم ! خدا کے لئ ے انصاف س ے کام ل یجئیے ۔ ا یسا زائر جو خاک نجف پہ لا قدم رک ھ ت ے ک ے بعد نماز ز یارت سے فارغ ہ ون ے ک ی آخری ساعت تک برابر یاد حق میں مشغول رہے ۔ نام خدا زبان پر جار ی رکھے عظمت و وحدان یت کے سات ھ اس کا ذکر کر ے عل ی کو بندہ صالح اور رسو ل اللہ کا ب ھ ائ ی اور وصی کہے اور زبان حال وقال س ے ان مطالب کا اعتراف کر ے ک یاوہ مشرک ہے ؟ پس اگر نماز پ ڑھ نا اور واحدان یت خدا کی گواہی دینا شرک ہے تو برا ہ کرم توح ید کا طریقہ بتا دیجئیے تاکہ ک ہ ہ م لوگ خدااور رسول خدا(ص) کا مذ ہ ب چ ھ و ڑ کر آپ ک ے راست ہ پ ر آجائیں ۔

شیخ :- تعجب ہے آپ د یکھ ت ے نہیں کہ اس جگ ہ لک ھ ا ہ وا ہے آستان ہ کو بو س ہ د ے کر حرم ک ے اندر داخل ہ و اس ی وجہ س ے ہ م ن ے سنا ہے ک ہ زائر ین جب اپنے امامو ں ک ے حرم ک ے دروازو ں پر پ ہ نچت ے ہیں تو سجدہ کرت ے ہیں ۔ آ یا یہ سجدہ عل ی کے لئ ے ن ہیں ہے ؟آ یا خدا کے کے بار ے م یں شرک نہیں ہے ؟ ک ہ اس ک ے غ یر کا سجدہ کر یں ؟۔

خیرطلب :- میں اگر جناب عالی کہ جگ ہ پر ہ وتا ت و صحیح او ر معقول جواب سن لینے کے بعد سار ی رات بلکہ اس مناظر ے کا سلسل ہ ختم ہ ون ے تک دوبار ہ بحث ن ہ کرتا اور خاموش ر ہ تا ل یکن تعجب تو آپ سے ہے ک ہ پ ھ ر ب ھی گفتگو کر رہے ہیں لیکن ایسی گفتگو کہ ہ ر سنن ے وال ے کو ہ ن سی آجائے (حاضر ین کا زوردار قہ ق ہہ)

ائمہ علیھ م السلام کے روضو ں پر آستان ہ بوس ی شرک نہیں ہے

میں مجبور ہ و ں ک ہ پ ھ ر ا یک مختصر جواب پیش کروں تاک ہ معلوم ہ وجائ ے ک ہ ائم ہ معصوم ین کے مقدس آستانو ں کا چومنا شرک ن ہیں وا کرتا اور آپ ن ے ب ھی مغالطہ د ینے کی کوشش کی ہے ک ہ چومن ے کو سجد ہ قرارد ے د یا ۔ جب آپ خود ہ مار ے سامن ے اس طرح س ے کتاب ک ی عبارت پڑھ ن ے کے بعد تحر یف کرسکتے ہیں تو معلو م نہیں جس وقت بے پ ڑھے لک ھے عوام ک ے پاس تشر یف لے جات ے ہ و ں گ ے تو ہ م پر ک یا کیا تمہ مت یں لگاتے ہ و ں گ ے ۔

اس کتاب اور دوسری کتب ادعیہ و زیارات میں ہ م کو جو ہ دا یت دی گئی ہے وہ یہ ہے ک ہ ج یسا آپ ملاحظہ فرمار ہے ہیں ۔ زائر اظ ہ ار ادب ک ے لئ ے آستان ہ پر بو س ہ د ے ن ہ یہ کہ سجد ہ کر ے ۔

پہ ل ی چیز تو یہ ہے ک ہ آپ ن ے کس قاعد ے ک ی رو سے چومن ے کو سجد ہ کرنا سمج ھ ل یا؟ دوسرے آپ ن ے قرآن مج ید اور اخبار واحادیث میں کہ ا ں د یکھ ا کہ پ یغمبر یا کسی امام علیہ م السلام کی درگاہ ک ی چوکھٹ کو چومن ے س ے منع ک یا گیا ہ و یا بو سہ د ینے

۱۱۲

کو شرک کی علامت قرار دیا گیا ہ و؟ تو حاضر ین کا وقت ضائع نہ فرمائ یے ۔

لیکن جو آپ نے فرما یا کہ م یں نے سنا ہے ک ہ زائر ین سجدہ کرت ے ہیں تو یہ بلکل جھ و ٹ ہے

بسے فرق است ودیدن تاشنیدن ۔۔۔۔۔۔۔ شن یدن کے بود مانند د یدن

کیا خدا ئے تعال ی سورہ نمبر ۹۴ (حجرات)آ یہ ۶ میں ارشاد نہیں فرماتا؟ "ان جاءکم فاسق بنباء فتبینوا ان تصیبوا قوما بجهالة فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین" (یعنی جس وقت کوئی فاسق تمہ ار ے پاس کوئ ی خبر لائے تو (تصد یق کرنے س ے پ ہ ل ے )اس ک ی تحقیق کر لو ایسا نہ ہ و کہ نادان ی میں تم کسی قوم کم اس فاسق کی بات پر کوئی تکلیف پہ نچادو پ ھ ر اپن ے کئ ے پر پش یمان ہ ونا پ ڑے ) ۔ قرآن مج ید کے اس فرمان ک ے مطابق کلام فاسق پر عمل کرنا مناسب ن ہیں ہے تاک ہ ندامت ،خجالت کا باعث ن ہ ہ و ۔ بلک ہ تحق یق اور کشف حقیقت کی کوشش کرنا چاہیئے ۔ زحمت سفر برداشت کرک ے جائ یے اور دیکھ ئ ے اس کے بعد ا یراد و اشکال فرمایئے چنانچہ م یں جس وقت بغداد میں" ابو حنیفہ اور شیخ عبد القادر جیلانی " کی قبروں پر گ یا اور ان قبروں ک ے لئ ے عوام کر طرز عمل د یکھ ا (جو بدرجہ ا اس س ے ز یادہ سخت ہے جس ک ی آپ نے شیعوں پر تہ مت لگائ ی ہے ) تو ک ھ ب ی اس کو کسی مجلس یامحفل میں دہ را یا بھی نہیں ۔ خدائ ے بزرگ شا ہ د ہے چوک ھٹ ک ے بار بار زم ین کوچوم چوم رہے ت ھے اور خاک پر لو ٹ ت ے ت ھے ل یکن چونکہ م یں کینے اور عداوت کی نظر نہیں رکھ ن ا تھ ا ۔ اور اس عمل ک ی حرمت پر کوئی دلیل بھی نہیں دیکھی ہے ل ہ ذا اب تک اس کو ب یان کرنے ک ی بھی ضرورت نہیں سمجھی کیونکہ میں سمجھ تا ہ و ں ک ہ و ہ ازروئ ے محبت ا یسا عمل کررہے ت ھے ن ہ ک ہ ازروئ ے بندگ ی ۔

جناب محترم ! آپ یقین کیجیئے کہ کس ی (عارف یا جاہ ل )ش یعہ زائر نے ہ رگز سجد ہ ن ہیں کیا ہے اور ن ہ کرتا ہے ل یکن صرف خدا کے لئ ے اور آپ کا یہ فرمانا بالکل تہ مت و افترا اور ک ھ لا ج ھ و ٹ ہے ۔

ایسی صورت میں اگر سجدے ک ے ہی طرز پر ہ و جس کامطلب خاک پر گرنا اور چ ہ ر ہ و پ یشانی کو زمین پر ملنا ہے (بغ یر قصد بندگی کے ) تو کوئ ی حرج نہیں ہے اس لئ ے ک ہ کس ی بزرگ ذات کے سامن ے تعظ یم و تکریم کے خ یال سے (ن ہ ک ہ اس ک ی خدائی کی نیت سے خدا ک ے لئ ے شر یک قراردینے کے لئے ج ھ کنا ،)زم ین پر گرنا اور خاک پر منہ رک ھ نا ک ھ ب ی شرک نہیں ہ وتا بلک ہ محبوب س ے شد ید رابطہ تعظ یم خاک پر چہ ر ہ رک ھے اور بو س ہ د ینے کا سبب ہے ۔

شیخ:- یہ کیونکر ممکن ہے ک ہ خاک پر گر یں اور پیشانی زمین پر رکھیں پھ ر ب ھی سجدہ ن ہ ہ و؟ ۔

خیرطلب :-آپ سمجھ ت ے ہیں کہ سجد ے کا تعلق ن یت سے ہے ۔ اور ن یت ایک قلبی چیز ہے اور دلو ں اور

۱۱۳

دل ک ی نیتوں کا جاننے والا صرف خد ا ہے ۔ بظا ہ ر ہ م د یکھ ت ے ہیں کہ کوئ ی شخص یا اشخاص سجدے ک ی نوعیت سے زم ین پر پڑے ہ وئ ے ہیں ۔ (اور یہ ٹھیک ہے ک ہ ا یسے انداز میں جو خدا ئے تعالی سے مخصوص ہے اس ک ے غ یر کے سامن ے حاضر ہ ونا مناسب ن ہیں ہے چا ہے بغ یر نیت ہی کے ہ و ں ،ل یکن چونکہ ہ م اس ک ی دلی نیت سے آگا ہ ن ہیں ہیں لہ ذا اس کو سجد ے پر محمول ن ہیں کرسکتے سوا مخصوص سجد ے ک ے اوقات ک ے جب ک ہ ظا ہ ر ی صورت کوبھی ہ م سجد ہ ک ہ ت ے ہیں ۔

بھائیوں کا یوسف(ع) کے لیے خاک پر گرنا اور سجدہ کرنا

پس تعظیم و تکریم کے عنوان سے سجدے کے طرز بغیر نیت سجدہ کے) خاک پر گرنا کفر و شرک نہیں ہے چنانچہ برادرانِ یوسف(ع) نے حضرت یوسف(ع) کے سامنے اسی طرح کا سجدہ کیا اور دو پیغمبر ( یعقوب و یوسف(ع)) موجود تھے لیکن ان کو منع نہیں کیا جیسا کہ سورہ نمبر۱۲ یوسف آیت نمبر۱۰۱ سے ظاہر ہے ارشاد ہے

" وَ رَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَ خَرُّوا لَهُ سُجَّداً وَ قالَ: يا أَبَتِ هذا تَأْوِيلُ رُءْيايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَها رَبِّي حَقًّا "

(یعنی انہوں نے اپنے ماں باپ کے تخت پر بٹھایا اور وہ لوگ یوسف(ع) کے سامنے سجدے میں گر پڑے تب انہوں نے کہا اے بابا یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں پہلے دیکھ چکا ہوں ، واقعی خدا نے اس کوسچ کر دکھایا ۔ (۱) نیز کئی مقامات پر کیا قرآن کریم آدم ابوالبشر کو فرشتوں کے سجدہ کرنے کی خبر نہیں دے رہا ہے؟ چنانچہ اگر آپ کا بیان صحیح ماں لیا جائے کہ سجدے کے طرز پر ( بغیر نیت عبودیت کے) خاک پر گرنا شرک ہے تو چاہئیے کہ ( معاذ اﷲ) برادران یوسف(ع) اور ملائکہ مقربین سب کے سب مشرک رہے ہوں اور صرف ابلیس ملعون موحد ہو جس نے سجدے سے انکار کیا۔ حالانکہ ( ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سب موحد اور خدا پرست تھے۔

میری گذاش ہے کہ آپ حضرات جاہلانہ اعتراضات اور بے بنیاد سنی سنائی باتوں کہ جنہیں امویوں ، باقی ماندہ خارجیوں، ناصبیوں اور متعصب اشخاص نے نقل کیا ہے ایسی محترم بزم میں جو مخصوص طور پر حق کی گفتگو اور انکشاف حقیقت کے لیے منعقد ہوئی ہے موضوع بحث نہ بنائیں تاکہ باعث ندامت و تضییع وقت نہ ہو اور اپنے بھید کو ظاہر نہ کریں کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ شیعوں کے اوپر آپ کے ایرادات و اعتراضات ہمیشہ اسی قسم کے ہوا کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ یہ خواب وہ ہے جس کی اسی سورے کے شروع میں خبر دیتا ہے کہ یوسف(ع) نے اپنے باپ سے عرض کیا کہ میں نے آفتاب و ماہتاب اور گیارہ ستاروں کو خواب میں دیکھا کہ مجھ کوسجدہ کر رہے ہیں اور حضرت یعقوب(ع) نے تعبیر دی کہ تم جلد ایک بلند منزل پر پہنچو گے اور تمہارے باپ ماں اور گیارہ بھائی تمہاری تعظیم کریں گے۔

۱۱۴

اب ضروری ہے کہ جناب حافظ صاحب کا بھی ایک مختصر جواب دیدوں چونکہ وقت کافی گذر چکا ہے لہذا طولانی بحث کا موقع نہیں ہے۔

جسم کی فنا کے بعد روح کی بقا

آپ حضرات چونکہ صاحبان علم ہیں لہذا بہتر ہے کہ غور و فکر کیساتھ بات کہا کریں نہ کہ عادات ، خیالات، جذبات اور اسلاف کی گفتگو کے ماتحت جیسا کہ آپ فرمارہے ہیں کہ شیعہ قبور اموات کے سامنے کس لیے حاجت طلب کرتے ہیں تو کہیں آپ مادہ پرست اور نیچری لوگں سے ہم عقیدہ تو نہیں ہوگئےہیں جو مرنے کے بعد زندگی کے قائل نہیں ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اذا مات فات ، کیونکہ خداوند عالم سورہ نمبر۲۳ ( مومنون) آیت نمبر۳۹ میں ان کے اقوال نقل فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں :

" إِنْ هِيَ إِلاَّ حَياتُنَا الدُّنْيا نَمُوتُ وَ نَحْيا وَ ما نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ "

یعنی سوا ہماری دنیاوی زندگی کے اور کوئی حیات نہیں ہے جس میں ہم مرتے ہیں اور زندہ رہتے ہیں اور ہم دو بارہ خاک سے نہیں اٹھائے جائیں گے۔

حضرات آپ بخوبی جانتے واقف ہیں کہ خدا پرستوں کے مضبوط عقائد میں سے ایک عقیدہ حیات بعد الموت بھی ہے کہ آدمی کی موت حیوانات کیخلاف ہوتی ہے جسم عنصری بے کار ہوجاتا ہے لیکن اس کی روح اور نفس ناطقہ باقی و پائدار ہے اور انہیں اجسام سے ملتے جلتے انتہائی لطیف جسموں کیساتھ عالم برزخ میں زندہ اور منتعم یا معذب رہیگا۔

خصوصا شہداء اور مقتولین راہ خدا، کیونکہ وہ حضرات اس سے کہیں زیادہ اضافوں کیساتھ زندہ، خدا کی نعمتوں سے متنعم اور اپنی جزا پر شاد و مسرور رہتے ہیں چنانچہ سورہ نمبر۳ ( آل عمران) آیت نمبر۱۶۹۔۱۷۰ میں ارشاد ہے۔

"وَ لَا تحَْسَبنَ َّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فىِ سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتَا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِمَا ءَاتَئهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَ يَسْتَبْشرُِونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بهِِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيهِْمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُون "

( یعنی یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ شہیدان راہِ خدا مردہ ہیں بلکہ وہ ہمیشہ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے پاس نعمات اور روزی پاتے ہیں خدا نے ان پر اپنا جو فضل و کرم نازل کیا ہے اس سے خوش و خرم ہیں اور جو مومنین ابھی ان سے ملحق نہیں ہوئے ہیں اور بعد کو ان کے پیچھے پیچھے پہنچیں گے ان کے لیے خوش خبری دیتے ہیں کہ نہ ان کے لیے کسی قسم کا خوف ہے نہ وہ رنجیدہ ہوں گے ۔)

آیا روزی حاصل کرنا ، سرور و شادمانی اور پروردگار کے فضل و کرم سے مستفید ہونا مردوں کے لوازم میں سے ہیں۔ یا زندوں کے ؟ علاوہ اس کے صریحی طور پر فرماتا ہے ۔“ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ ” یعنی وہ لوگ زندہ ہیں اور قرب الہی میں روزی پارہے ہیں۔ آخر یہ اشخاص کیونکر زندہ ہیں اور روزی کس طرح سے کھاتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ جب رزق کھانے کے لیے منہ رکھتے ہیں۔ تو باتیں سننے کے لیے کان بھی رکھتے ہیں۔ اور جواب بھی دیتے ہیں ۔ لیکن ہمارے کانوں پر مادی پردے پڑٕے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ اسی وجہ سے ہم ان کی آواز نہیں سننتے ۔

۱۱۵

بقائے روح میں اشکال اور اس کا جواب

اہل سنت میں سے ایک جدت پسند جوان معروف بہ داؤو پوری نے جو جلسہ کے ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے گفتگو سن رہے تھے اجازت لے کے سوال کے نام سے اس عبارت کے ساتھ ایک شبہ وارد کیا۔

داؤد پوری : مولانا صاحب آپ کا یہ بیان آج کے محیرا لعقول علمی انکشافات سے میل نہیں کھاتا البتہ گذشتہ زمانوں میں جب علوم طبیعی نے ترقی نہیں کی تھی۔ کچھ لوگ جہالت کی وجہ سے ایک پوشیدہ قوت کے معتقد تھے جس کا نام روح رکھتے تھے لیکن آج جب کہ علم و دانش کا زریں دور ہے۔ اور علوم طبیعی اپنی پوری ترقی پر ہیں اس قسم کے عقائد کا لبادہ بوسیدہ ہوچکا ہے خصوصا یورپ کے ممالک میں جو علمی ترقیوں کا گہوارہ ہیں۔ ارباب دانش جیسے انگلینڈ کے “ ڈارون” اور جرمنی کے “ تبخر” وغیرہ نے ایسے سڑے ہوئے عقائد اور مخصوص طور پر روح کے وجود اور اس کے بقا کے عقیدے کا باطل ہونا ثابت کردیا ہے۔

خیر طلب : عزیز من ! اس قسم کے اقوال نئے نہیں ہیں اور بقول آپ کے زریں دور سے مخصوص نہیں بلکہ تقریبا دو ہزار چار سو سال ہوگئے ارباب مادہ و طبیعت کے حلقہ عمل سے ان کا ظہور ہورہا ہے۔

اہل مادہ طبیعت کا ظہور اور حکیم سقراط سے ویمقراطیس کا مقابلہ

یعنی جس زمانے میں ویمقراطیس اور اس کے پیرووں نے یونان میں سقراط ، افلاطون، ارسطو اور اسی طرح کے دوسرے حکمائے الہی سے مقابلہ کیا مادے اور طبیعت کے قائل ہوئے صاحب علم و ارادہ و قدرت و شعور خدا کا انکار کیا اور کہا کہ بغیر میڑ یعنی مادہ و مادیات کے جو حواس خمسہ میں سے کسی ایک سے محسوس ہوسکے کوئی دوسری چیز عالم میں موجود نہیں ہے۔ اور سارے ضروری تاثیرات مادوں کی طبیعت سے پیدا ہیں تو اسی وجہ سے یہ لوگ طبیعی اور مادی کے نام سے مشہور ہوئے جن کا خلاصہ اورجوہر اصلی آج کمیونسٹ کے نام سے دنیا میں نمایاں ہے اسی طرح کے فاسد عقیدے جو با علم و ارادہ قدرت و شعور خالق کے وجود سے انکار کے لوازم

۱۱۶

میں سے ہیں اسی کو تاہ نظر فرقے کے اندر ظاہر ہوئے اور علماء و فلاسفہ الہی نے زمانے کے ہر دور میں ان کے علمی منطقی جوابات دیئے ہیں۔ لیکن چونکہ آپ نے یورپ اور ڈروں ونجر کے نام لیے ہیں۔ لہذا میں مجبور ہوں کہ آپ جیسے تجدد پسند حضرات کو برادرانہ نصیحت کرتے ہوئے متوجہ کروں کہ علم و عقل اور منطق کا لازمہ یہ ہے کہ ہر کلام پر آنکھ بند کر کے ایمان نہ لے آئیے۔

اگر آپ نے ڈارون کے فلسفہ کا ( جو فرضیات ہیں نہ کہ فلسفہ) مطالعہ کیا ہے۔ تو ضروری ہے کہ اس کتاب اور اقوال و عقائد پر جو انتقادات اور تبصرے لکھے گئے ہیں ان کو بھی پڑھئیے اس کے بعد دانشمندانہ فیصلہ کر کے بہتر کا انتخاب کیجئے۔

چونکہ یورپ والوں کا علمی و عملی غلبہ اور سلطنت آپ لوگوں پر زیادہ رہی ہے لہذا جس وقت ڈارون اور نجز وغیرہ کی کوئی کتاب آپ لوگوں کے ہاتھ میں آتی ہے تو بہت بزرگ و شاندار نظر آتی ہے ۔ اور یہ سمجھ میں آتا ہے کہ در حقیقت سارا یورپ انہیں کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ اور یہ کتاب تمام فلاسفہ یورپ کے عقائد کا نمونہ ہے ۔ در آںحالیکہ ایسا نہیں ہے ( اب اگر ایسا ہو بھی جائے تو اس کی کوئی عملی قدر و قیمت نہ ہوگی۔)

یورپ میں علمائے الہی کے اقوال

جس طرح سے آپ طبیعی ڈارون کا فلسفہ پڑھتے ہیں اسی طرح الہی فلاسفہ کی کتابیں بھی پڑھئیے جو عام طور پر دستیاب ہوتی ہیں جیسے فرانسیسی “ کامیل فلاماریون” کی کتابیں جو یورپ کے مشہور ریاضی علماء میں سے ہے اور اسی نے برسوں معرفت نفس میں غور کرنے کے بعد حق تعالی کی وحدانیت کے اثبات ، عظمت روح اور موت کے بعد اس کی بقا پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں جیسے “ دیوان لاناتور” یعنی “ خدا اور طبیعت” اور مرگ و اسرار آں” کی جلدیں جن کا ایرانی اور مصری علماء نے فارسی اور عربی میں ترجمہ کیا ہے۔

ان کتابوں میں موت کے بارے میں تفصیلی کے ساتھ قلم فرسائی کی ہے اور صریحی طور پر کہتے ہیں کہ موت حقیقی کا فنا و نیستی کے معنی مین کوئی وجود نہیں ہے موت مراد ہے ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہونے کا ۔ آدمی صرف اپنا قالب بدلتا ہے یعنی اس عنصر جسم سے نکل کر ایک اس سے زیادہ لطیف پیکر اور صورت میں چلا جاتا ہے کیونکہ روح ( سرمایہ حیات) کے لیے کبھی نہیں بلکہ یہ باقی اور پائیدار ہے یہ نظر یہ سالہا سال کے قطعی تجربات کے بعد قائم ہوا ہے کہ روح اس بدن کے علاوہ ایک چیز ہے جو خود معنوی طور پر استقلال رکھتی ہے جسم کے فنا ہونے کے بعد باقی رہتی ہے اور دیکھ بھال کرتی ہے۔

۱۱۷

اس طرح کے علماء اور فلاسفہ الہی مثلا ہمعصر فیلسوف ، بروکسوں فرانسیسی “ فرانس کے مشہور دانش مند شاعر “ دیکتور ہوگو” جرمنی محقق “ نرمال” اور مشہور فرانسیسی فیلسوف “ دکارت” وغیرہ جن کے سارے اقوال نقل کرنا بلکہ ان سب کے ناموں کا تذکرہ کرنا بھی اس موقع پر ممکن نہیں بہت ہیں دانشمندان یوروپ ان کے وجود پر فخر کرتے ہیں نہ کہ طبیعی و مادی ڈارون اور نجز کے وجود پر۔

اولا چونکہ آپ جیسے روشن خیال جوان حضرات اہل مغرب کے اثرات کے ماتحت ان کی باتیں سننے پر مجبور ہیں لہذا کم از کم یہی کیجئے کہ صرف انگلینڈ کے ڈارون اور جرمنی کے نجز ہی کی کتابیں نہ دیکھئے بلکہ دوسرے فلاسفہ اور دانشمندان یورپ کی کتابیں پر بھی توجہ کیجئے۔

دوسرے دوںوں فرقے (الہی و طبیعی) کے عقائد پر غور و فکر کیجئے اور ان کی کتبون پر جو تبصرے اور انتقادات لکھے گئے ہیں۔ ان کو پڑھیئے تاکہ بہتر کا انتخاب کرسکے ۔ اگر آپ از روئے انصاف اور علم و عقل اور منطق کی نظر سے کتب فریقین ( الہی و طبیعی) کا مطالعہ کیجئے تو قطعی اور یقینی طور پر تصدیق کیجئے گا کہ انسان کا جسم چونکہ عالم خلق کے عناصر سے پیدا ہوا ہے) لہذا فنا ہوجاتا ہے اور روح عالم امر کی مخلوق ہے اس لیے زندہ ہے اور پائیدار ہے۔ یہ نہ مری ہے اور نہ مرے گی خصوصا شہدا اور حق و حقیقت توحید کی راہ میں نقل ہونے والے جو کتب آسمانی اور تعلیمات ربانی کے حکم کے علاوہ روحانی جنبے کے جسمانی حیثیت سے بھی زندہ اور گوش شنوا اور چشم بینا کے مالک ہوتے ہیں۔

چنانچہ زیارت حضرت سید شہدا علیہ الصلوة و السلام میں وارد ہے۔ اشہدانک تسمع کلامی و ترد جوابی یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ میرا کلام سنتے ہیں اور مجھ کو جواب دیتے ہیں۔ آیا آپ نے نہج البلاغہ کا خطبہ ۸۳ نہیں پڑھا ہے جس میں رسول اکرم(ص) کی عترت طاہرہ(ع) کا تعارف کرایا گیا ہے ! فرماتے ہیں :

" أَيُّهَا النَّاسُ! خُذُوهَا مِنْ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ إِنَّهُ يَمُوتُ مَنْ يَمُوتُ مِنَّا وَ لَيْسَ بِمَيِّتٍ وَ يَبْلَى مَنْ بَلِيَ مِنَّا وَ لَيْسَ بِبَالٍ "

(یعنی اے لوگو ، اس مطلب کا خاتم النبیین (ص) سے حاصل کرو ( یعنی آںحضرت(ص) کا ارشاد ہے) کہ ہم میں سے جس کو موت آتی ہے ( در حقیقت وہ مردہ نہیں ہے اور وہ ہم میں سے سے جو بظاہر بوسیدہ ہوتا ہے وہ در حقیقت ) بوسیدہ نہیں ہے۔ یعنی ہم عالم انوار و ارواح میں ہمیشہ زندہ اور قائم رہتے ہیں ۔ جیسا کہ ابن ابی الحدید اور میثمی اور دیار مصر کے مشہور و معروف مفتی شیخ محمد عبدہ ان کلمات کی شرح میں کہتے ہیں کہ اہل بیت پیغمبر(ص) دوسروں کی طرح در حقیقت مردہ نہیں ہیں۔

چنانچہ اگر ہم بظاہر قبور ائمہ معصومین علیہم السلام کی سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو مردوں کی قبروں کے سامنے نہیں کھڑے ہوتے اور مردوں سے باتیں نہیں کرتے بلکہ ہم زندہ اور صاحبان حیات کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور زندوں ہی سے گفتگو کرتے ہیں پس ہم مردہ پرست نہیں ہیں بلکہ خدا پرست ہیں۔ کیونکہ خدا ہی ان حضرات کی روحوں اور جسموں کو زندہ اور محفوظ رکھتا ہے۔

۱۱۸

آیا آپ حضرات امیرالمومنین علی ابن ابی طالبا(ع) یا سید الشہدا حضرت امام حسین علیہما السلام یا بدر و احد اور کربلا کے شہیدوں کو دین حق کے فدائی اور راہ خدا کے جانباز نہیں سمجھتے ؟ جنہوں نے قریش و بنی امیہ ، یزید اور یزیدیوں کے ( جن کا سب سے برا مقصد حقائق دین کا انکار اور اس کے آثار کا مٹانا تھا) خانماں سوز ظلم کا مقابلہ کیا اور مقدس دین اسلام اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ کی راہ میں اپنی جاںیں قربان کردیں۔ جس طرح سے صحابہ رسول(ص) کی مقاومت اور شہدائے بدر واحد و حنین کی جانبازیاں کفر و شرک کی شکست اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ کی بلندی کا سبب بنیں اسی طرح حضرت امام حسین علیہ السلام کے عزم و فداکاری نے دین حق کی تقویت میں پورا اثر دکھایا اگر حضرت (ع) مقابلہ نہ کرتے تو یزید پلید لع دین کی جڑکاٹ کے اپنے کفریات باطن اورعقائد فاسدہ کو جماعت مسلمین کے اندر جامہ عمل پہنا دیتا۔

معاویہ و یزید کی خلافت اور ان کے کفر کی طرف سے مخالفین کا دفاع اور اس کا جواب

شیخ : آپ سے سخت تعجب ہے کہ خلیفتہ المسلمین یزید ابن معاویہ کو کافر اور فاسد العقیدہ کہتے ہیں حالانکہ اتنا نہیں جانتے کہ یزید کو خلیفہ امیرالمومنین اور خال المومنین معاویہ بن ابی سفیان نے منصب خلافت پر قائم کیا اور معاویہ کو خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب اور خلیفہ ثالث عثمان مظلوم رضی اﷲ عنہما نے بلاد شام میں امارت مسلمین کے عہدے پر ںصب کیا اور ان کی لیاقت و قابلیت کی وجہ سے لوگوں نے ان کو رضا اور رغبت کیساتھ مقام خلافت کے لیے قبول کیا پس آپ جو خلیفتہ المسلمین کی طرف کفر اور ارتداد کی نسبت دے رہے ہیں تو علاوہ اس کے کہ آپ نے تمام مسلمانوں کی اہانت کی جنہوں نے ان کی خلافت کو تسلیم کیا ! بہت بڑی توہین ان پچھلے خلفاء کی بھی ہے جنہوں نے عہدہ امارت اور حقیقتہ ان کی خلافت کی منظوری دی ان سے فقط ایک لغزش و خطا اور ایک ترک اولی صادر ہوا کہ ان کے زمانہ خلافت میں ریحانہ رسول اﷲ کو لوگوں نے قتل کردیا اوریہ عمل چونکہ عفو اور چشم پوشی کے قابل تھا لہذا انہوں نے توبہ کر لی اور خداوند غفور نے بھی اس کو معاف کردیا چنانچہ امام غزالی اور دمیری نے اس مطلب کو تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے ۔ اور یزید کی طہارت و پاکدامنی کو ثابت کردیا ہے۔

خیر طلب : مجھ کو بالکل اس کی توقع نہیں تھی کہ جناب کا درجہ تعصب اس حد تک ہوگا کہ یزید عنید پلید کے وکیل صفائی بن جائیں گے آپ نےجو یہ فرمایا ہے کہ ان کے اسلاف نے ان لوگوں کی امارت کو درست سمجھا لہذا لا محالہ

۱۱۹

مسلمانون کا فرض ہے کہ کورانہ اس کو تسلیم کریں اور ان کی اطاعت کریں تو آپ کا یہ بیان بہت کمزور ہے اور صاحبان عقل کے لیے مخصوص طور پر جمہوریت کے اس ( نام و نہاد) علم و حکمت کے دور ہیں قابل قبول نہیں اور ہمارے دلائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم کہتے ہیں خلیفہ کو معصوم اور من جانب اﷲ ہونا چاہیئے تاکہ ہم ان دشواریوں سے دوچار نہ ہوں دوسرے آپ کا یہ فرماں کہ امام غزالی یا دمیری وغیرہ نے یزید کے اعمال کی صفائی پیش کی ہے ۔ تو وہ بھی آپ ہی کے ایسے تھے جیسا کہ آپ کا تعصب آپ کے علم وعقل پر غالب آگیا ہے ورنہ کوئی عقلمند انسان اس پر تیار نہیں ہوسکتا کہ یزید پلید کا وکیل صفائی بنے کیونکہ بچاؤ کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔

تیسرے آپ کا یہ قول کہ فقط ایک لغزش اور خطا اس سے صادر ہوئی اور وہ شہادت حضرت سید الشہدا سلام اﷲ علیہ تھی تو پہلی بات یہ ہے کہ رسول اﷲ(ص) کے پارہ جگر کو ستر چھوٹے بڑے افراد کے ساتھ بغیر کسی قصور کے شہید کرنا اور اسلام کے نوامیس بزرگ رسول اﷲ(ص) کی بیٹیوں کو روم و فرنگ کے قیدیوں کے مانند کھلم کھلا اسیر کرنا لغزش اور غلطی نہیں تھی بلکہ گناہاں کبیرہ میں سے ہے دوسرے اس کی بد اعمالیاں اور کفریات تنہا ان حضرات کی شہادت ہے سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ اس کے کفر و ارتداد کے ثبوت میں مختلف نظیریں موجود ہیں۔

نواب : قبلہ صاحب ! میری گذارش ہے کہ اگر یزید کے کفر و ارتداد پر کچھ واضح دلیلیں موجود ہیں تو ہم کو بھی آگاہ فرمائیے ممنون ہوں گے۔

یزید کے کفر ارتداد پر دلائل

خیر طلب : یزید کے کفر و ارتداد پر دلیلیں بہت روشن اور واضح ہیں۔ چنانچہ اپنے کلمات نظم و نثر میں وہ خود برابر اپنے باطنی کفریات کا اظہار کرتا رہتا تھا خصوصا اس کے اشعار خمریہ میں کھلے ہوئے دلائلی پائے جاتے ہیں ۔

وہ کہتا ہے۔

شمسية عدم بوجها فغر دنها فمشرقها الساقی و مغربها فمی

فان حرمت ي وما علی د ي ن احمدفخذها علی د ي ن المس ي ح ابن مر ي م

خلاصہ مطلب یہ کہ کہتا ہے ، انگوری شربت دست ساقی کے مشرق سے طالع ہوتی ہے اور میرے دہن کے مغرب میں غروب ہوتی ہے پس اگر شراب دین محمدی(ص) میں حرام ہے تو اس کو دین مسیح ابن مریم پر لے لو ( یعنی مسیح ابن مریم کے دین کی پیروی کرو ۔ نیز کہتا ہے:

اقول لصحب ضمّت الكاس شملهم و داعى صبابات الهوى يترنّم

خذوه بنص ي ب من ؟؟؟ ولذة فکل وان طال الهدی ي تصرم

۱۲۰

ان اشعار میں ظاہر کرتا ہے کہ جو کچھ ہے یہی دنیا ہے ، اس عالم کےسوا اور کوئی عالم نہیں ہے لہذا یہاں کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم نہ رہنا چاہیے ۔ یہ وہ اشعار ہیں جو اس کے دیوان میں درج ہیں اور ابوالفرج ابن جوزی نے کتاب الرد علی المتعصب الغلید میں ان کی شہادت دی ہے۔

من جملہ ان اشعار کے جو اس کے کفر و بے دینی اور الحاد پر گواہ ہیں وہ شعر بھی ہیں جو سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں ان کے جد ابو الفرج نے تفصیل سے درج کئے ہیں ۔ ان کے مطلع میں کہتا ہے۔

عليه هاتی ناول ي نی و ترنمی حد ي ثک انی لا احب التناج ي ا

اپنی معشوقہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے ، اے میری محبوبہ قریب آ اور مجھ کو اپنے دلی مطالب سے کھل کر آگاہ کر کیونکہ میں تیرے آہستہ بولنے کو پسند نہیں کرتا ( یہاں تک کہ کہتا ہے)

فان الذی حدثت عن ي وم بعثنا احاد ي ث زور تترک القلب ساه ي ا

یعنی جو شخص قیامت کے قصے سے ڈرتا ہے تو یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو دل کو سازو آواز کے لطف سے محروم کرتی ہیں۔

چنانچہ ابراہیم ابن اسحق معروف “ دیک الجن” نے جو جلیل القدر شیعہ فقہاء و علماء اور فضلاء و ادباء میں سے تھے خلیفہ ہارون الرشید عباسی کے سامنے یہ سارے اشعار پڑھے تو اس نے بے اختیار یزید پر لعنت کی اور کہا زندیق نے خدا اور حشر و نشر کا پورا انکار کیا ہے۔

منجملہ ان اشعار کے جو اس کے کفر و الحاد پر دلالت کرتے ہیں وہ بھی ہیں جو وہ اپنے عیش و ترنم کے موقع پر پڑھا کرتا تھا :

ي ا معشر الندمان قوموا واسمعوا صوت الاغانی

واشربوا کاس مدامواترکوا ذکر المعانی

شغلتنی نغمة الع ي دان عن صوت الاذان

و نغوضت عن الحور عجوزا فی الدنان

ماحصل معنی یہ ہیں کہ اپنے ہم مشرب اور ہم پیالہ لوگوں سے کہتا ہے کہ اٹھو اور سازو آواز پر کان لگاؤ اور شراب ناب کے جام پیو اور دینی خرافات کو چھوڑو ، کیونکہ سازو نغمہ نے مجھ کو اذان کی آواز سے ہٹا کر اپنی طرف جذب کر لیا ہے اور میں بہشت کی حوروں کے عوض بوڑھی مغینہ عورتوں کو قبول کرتا ہوں۔

کتب مقاتل میں ہرجگہ منقول ہے اور سبط ابن جوزی نے بھی تذکرہ ص148 پر لکھا کہ جب اہل بیت رسالت(ص) شام میں لائے گئے تو یزید پلید اپنے محل کے بالا خانے پر جو محلہ جیروں کے سامنے تھا، بیٹھا اور یہ دو شعر پڑھ کر اپنے کفر کو ثابت کیا :

۱۲۱

لما بدت تلك الحمول و اشرقت تلك الشموس على ربي جيرود

نعب الغراب فقتل نح او لا تنح فلقد قضيت من الغريم ديونى!

خلاصہ مطلب یہ کہ اسیران آل محمد(ص) کی محملیں ظاہر ہوئیں تو ایک کوے نے آواز دی ( کیونکہ عرب میں اس آواز کو شگونہ بد سمجھتے تھے) تو میں نے کہا ، اے کوئے تو بول یا نہ بول میں نے پیغمبر(ص) سے اپنے قرضے وصول کرلیے ۔

کنایہ اس بات کا ہے کہ پیغمبر(ص) نے میرے بزرگ اور اقارب کو بدر و احد اور حنین میں قتل کیا تھا لہذا میں نے بھی اس کا بدلہ لیا اور ان کی اولاد کو قتل کیا ۔ اور یزید کے کفر کی دلیلوں میں سے یہ بھی ہے کہ جب اس نے فرزند رسول(ص) کی شہادت پر جشن کی محفل منعقد کی تو مثالا اس نے عبداﷲ بن الزبعری کے کفر آمیز اشعار پڑھے یہاں تک کہ سبط ابن جوزی ابو ریحان بیرونی اور دوسرے لوگوں نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے اجداد میں سے ان لوگوں کی موجودگی اور حیات کی تمنا کی جو سب کے سب مشرک اور کافر محض تھے اور خدا و رسول(ص) کے حکم سے بدر کبرے کی جنگ میں مارے گئے تھے بظاہر ان میں سے دوسرا اور پانچواں شعر خود یزید ہی کا ہے جو اس نے مسلمانوں، یہودیوں اور نصرانیوں کے مجمع عام کے سامنے پڑھے۔

ليت أشياخي ببدر شهدوا جزع الخزرج من وقع الأسل

فأهلّوا و استهلّوا فرحاثمّ قالوا: يا يزيد لا تشل

قد قتلنا القرم من ساداتهم و عدلناه ببدر فاعتدل

لعبت هاشم بالملك فلاخبر جاء و لا وحي نزل

لست من خندف إن لم أنتقم من بني أحمد ما كان فعل

قد اخذنا من علی ثارنا و قتلنا الفارس الل ي ث البطل

یعنی اے کاش میرے وہ بزرگان قبیلہ جو بدر میں قتل کئے گئے اور قبیلہ خزرج والوں کا ( جنگ احد میں) نیزے لگنے کی وجہ سے گریہ و زاری دیکھنے والے موجود ہوتے تو خوشی سے چیختے اور کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں کیونکہ ہم نے ان کے بزرگان قوم اور سرداروں کو قتل کیا، اور یہ کام ہم نے بدر کے عوض میں کیا جو پورا ہوا۔ بنی ہاشم نےسلطنت کے ساتھ کھیل کھیلا ورنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی نہ وحی نازل ہوئی۔ میں خندق کے خاندان سے نہیں تھا، اگر فرزندانِ پیغمبر(ص) سے ان کے افعال کا انتقام نہ لیتا۔ ہم نے علی(ع) سے اپنے خون کا بدلہ لیا اور شہسوار بہادر شیر کو قتل کیا۔)

آپ کے بعض علماء جیسے ابو الفرج ، شیخ عبداﷲ بن محمد بن عامر شیرازی شافعی کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص18 میں ، خطیب خوارزمی مقتل الحسین(ع) جلد دوم میں اور دوسرے لوگ لکھتے ہیں کہ یزید لعین

۱۲۲

ان حضرات کے لب و دندان کے ساتھ چھڑی سے بے ادبی کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہا تھا۔

یزید پلید(لع) کی لعن پر علمائے اہل سنت کی اجازت

آپ کے اکثر علماء نے اس ملعون زندیق کو کافر سمجھا ہے یہاں تک امام احمد بن حنبل اور آپ کے بہت سے اکابر علماء نے اس پر لعنت کرنے کو جائز قرار دیا ہے ، خصوصا عبدالرحمن ابوالفرج ابن جوزی نے اس بارے میں ایک مستقل کتاب موسوم بہ “ کتاب الرد علی المتعصب الغلید المانع عن لعن یزید لعنہ اﷲ ” لکھی ہے اور ابوالعلاء مصری نے اس باب میں کہا ہے :

أرى الأيّام تفعل كلّ نكر فما أنا في العجائب مستزيد

أليس قريشكم قتلت حسينا و كان على خلافتكم يزيد

( حاصل معنی یہ ہے کہ زمانہ ، توحید و اہل توحید کی ضد میں برابر شیطانی نقشے بناتا ہے اور اس طرح کے عجائبات اور مکاریوں پر مجھ کو تعجب نہیں کیا ایسا نہیں ہے کہ تمہارے قریش نے حسین(ع) کو قتل کیا اور اپنے امور اور خلافت کی باگ ڈور یزید ملعون کے ہاتھ میں دے دی) صرف آپ کے چند متعصب علماء جیسے غزالی نے یزید کی طرفداری کی ہے اور اس ملعون کی صفائی میں مضحکہ خیز اور مہمل عذرات تراشے ہیں در آنحالیکہ عام طور پر آپ کے علماء نے اس کے کفر آمیز اعمال اور ظالمانہ اطوار کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ وہ ملسمانوں کی مسند ریاست پر بظاہر تو خلافت کے عنوان سے قابض تھا لیکن عملی طور پر کوشش کرتا تھا کہ وین و توحید کی بساط ہی الٹ دے اور بڑے افعال کو نیک اعمال کے عنوان سے عمل میں لاتا تھا ۔ چنانچہ دمیری نے حیواہ الحیوان میں اور مسعودی نے مروج الذہب میں لکھا ہے کہ وہ بہت سے بندر پالے ہوئے تھا جن کو عمدہ قسم کے ریشمی لباس اور گردنوں میں سونے کے طوق پہنا کر گھوڑوں پر سوار کراتا تھا اسی طرح بہت سے کتوں کو طوق پہنچائے ہوئے تھا۔ ان کو اپنے ہاتھسے نہلاتا دہلاتا تھا ، سونے کے برتنوں میں ان کو پانی دیتا تھا اور ان کا پس خوردہ خود استعمال کرتا تھا ، مکمل طور پر شراب کا عادی تھا اور ہمیشہ مست و مخمور رہتا تھا۔

مسعودی مروج الذہب جلد دوم میں کہتے ہیں کہ یزید کی سیرت فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون رعیت داری میں یزید سے زیادہ انصاف پرور تھا۔ اس کی سلطنت اسلام کے اندر انتہائی باعث ننگ تھی، کیونکہ اس کی بہت سی بداعمالیوں جیسے شراب نوشی، فرزند رسول(ص) کا قتل، وصی پیغمبر (ص) علی ابن ابی طالب(ع) پر لعنت

۱۲۳

کرنا، خانہ خدا ( مسجد الحرام ) کو جلانا اور برباد کرنا، کثرت کے ساتھ خونریزی ( خصوصا اہل مدینہ کا قتل عام) اور بے شمار فسق و فجور وغیرہ جس کا حساب نہیں ہوسکتا ، اس کی عدم مغفرت اور جہنمی ہونے کو ثابت کررہی ہیں۔

نواب : قبلہ صاحب ! یزید کے حکم سے مدینے کے قتل عام کا کیا معاملہ تھا؟ متمنی ہوں کہ اس کو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : عام طور پر مورخین اور بالخصوص سبط ابن جوزی تذکرہ صفحہ63 میں لکھتے ہیں کہ سنہ62ھ میں اہل مدینہ کی ایک جماعت شام کی طرف گئی ، جب وہاں ان لوگوں کو یزید کی بدکاریوں اور کفریات کا علم ہوا تو مدینہ واپس آکر اس کی بیعت توڑ دی ، بالاعلان اس پر لعنت کرنے لگے اور اس کے عامل عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو نکال کر باہر کیا۔ عبداﷲ بن حنظلہ ( غسیل الملائکہ) نے کہا اے لوگو ہم لوگ شام سے واپس نہیں ہوئے اور یزید پر خروج نہیں کیا لیکن اس وقت جب ہم نے دیکھا کہ :

" ه و رجل لا دين ل ه ينکح الام ه ات والبنات والاخوات و يشرب الخمر ويدع الصلوة و يقتل اولاد النبيين ۔"

(یعنی وہ ایسا بے دین شخص ہے جو ماؤں بیٹیوں اور بہنوں سے حرام کاری کرتا ہے ، شراب پیتا ہے ، نماز نہیں پڑھتا ہے اور اولاد انبیاء کو قتل کرتا ہے۔)

یزید کی بیعت توڑنے کے جرم میں اہل مدینہ کا قتل عام

جب یہ خبر یزید کو پہنچی تو اس نے اہل شام کے ایک بھاری لشکر کے ساتھ مسلم ابن عقبہ کو اہل مدینہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا، اور ان لوگوں نے تین شبانہ روز مسلسل اہل مدینہ کا قتل عام کیا ابن جوزی اور مسعودی وغیرہ لکھتے ہیں کہ اس قدر کشت و خون کیا گیا کہ راستوں میں خون بہہ نکلا

" وخاض الناس فی الدماء حتی وصلت الدماء قبر رسول اﷲ صلی اﷲ علي ه و آله وسلم وامتلات الروضة والمسجد "

یعنی مدینے کے کوچوں میں اس کثرت سے خون جاری ہوا کہ لوگ خون میں شرابور ہوگئے تھے، یہاں تک کہ خون رسول اﷲ(ص) کی قبر تک پہنچ گیا اور روضہ رسول(ص) اور مسجد خون سے بھر گئی۔

اشراف قریش اورمہاجرین و اںصار میں سے سات سو محترم اور سربرآوردہ افراد کو قتل کیا اور عام مسلمانوں میں سے دس ہزار اشخاص تہ تیغ ہوئے مسلمانوں کی ہتک حرمت اور بے آبروئی کے حالات بیان کرتے ہوئے مجھ کو شرم محسوس ہوتی ہے لہذا تذکرہ سبط ابن جوزی صفحہ163 کی عبارتوں

۱۲۴

میں سے صرف ایک کو نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں جس کو ابوالحسن مدائنی سے نقل کرتے ہیں کہ “ ولدت الف امراة بعد الحرة من غير زوج ” یعنی واقعہ حرہ ( مدینہ کے قتل عام) کے بعد ایک ہزار کنواری عورتوں کے یہاں بچے پیدا ہوئے ( کنایہ یہ کہ فاتح لشکر کی عصمت دری سے وہ عورتیں حاملہ ہوئیں)۔

میں اس سے زیادہ اہل بزم کا وقت لینا اور ان کو متاثر کرنا نہیں چاہتا ۔ خیالات کو صاف کرنے کے لیے اسی قدر کافی ہے۔

شیخ : آپ نے جو کچھ بیان کیا ، یہ سب یزید کے فسق و فجور پر دلالت کرتا ہے اور ہر فاسق و گنہگار انسان کا عمل معافی اور چشم پوشی کے قابل ہے یزید نےقطعا توبہ کر لی اور خدا بھی غفار الذنوب ہے اس نے بخش دیا ، پھر آپ کس وجہ سے برابر اس پر لعنت کرتے اور اس کو ملعون کہتے ہیں؟

خیر طلب : بعض دعویداروں کے وکیل اس غرض سے کہ ان کو فیس وغیرہ ملتی رہے چار و ناچار آخری وقت تک اپنے موکل کی طرف سے پیروی کرتے رہتے ہیں چاہتے حق بات ان پر ظاہرہو ہی جائے۔ لیکن مجھ کو نہیں معلوم کہ جناب عالی کن فوائد کے پیش نظر اس لعین پلید کی وکالت میں اس قدر ثابت قدمی دکھا رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یزدی نے توبہ کر لی ہے۔ حالانکہ یزدی کیکفر آمیز گفتگو، اولیائے خدا کی شہادت اور اہل مدینہ کا قتل عام وغیرہ درایت ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ اس نے توبہ کر لی روایت ہے جو ثابت نہیں ہوسکی اور درایت کے مقابلے میں نہیں آسکتی۔

آیا مبدا و معاد اور وحی و رسالت سے انکار اور دین سے مرتد ہونا آپ کی نظر میں لعنت کا مستحق نہیں بناتا ۔ آیا خدا نے قرآن مجید میں ظالمین پر کھلی ہوئی لعنت نہیں فرمائی ہے؟

آیا آپ یزید کو ظالم نہیں سمجھتے ؟

اگر آپ کے ایسے یزید ابن معاویہ کے خاندانی پیروکار وکیل ( حاضرین کا پر زور قہقہہ ) کی نگاہ میں یہ دلائل کافی نہیں ہیں تو میں آپ کی اجازت سے آپ کے بزرگ علماء کے منقولات سے دو حدیثیں بھی نقل کرتا ہوں اور اس کے بعد اپنی گذارش ختم کرتا ہوں۔

بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحیں میں ، علامہ سمہودی نے تاریخ المدینہ میں، ابن جوزی نے کتاب الرد علی المتعصب العنید میں، سبط ابن جوزی نے تذکرة خواص الامہ میں۔ امام احمد بن حنبل مسند میں اور دوسروں نے حضرت رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

"من أخاف أهل المدينة أخافه اللّه، و عليه لعنة اللّه و الملائكة و النّاس أجمعين لا يقبل اﷲ

۱۲۵

منه يوم القيمة صرفا ولا عدلا"

یعنی جو شخص ظلم سے اہل مدینہ کو خوف زدہ کرے خدائے تعالی، اس کو ( روز قیامت) خوف زدہ کرے گا ۔ اس پر خدا اور ملائکہ اور سارے انسانوں کی لعنت ہو۔ قیامت کے روز خدا ایسے شخص سے کوئی عمل قبول نہیں کرے گا۔

نیز فرمایا “ لعن اﷲ من اخاف مدینتی( ای اھل مدینتی) یعنی خدا کی ایسے شخص پر جو میرے شہر ( یعنی اہل مدینہ ) کو ڈرائے”

کیا مدینے کے اندر یہ سارا قتل عام ، ہتک حرمت او لوٹ مار وہاں کے باشندوں کے لیے ڈر اور خوف کا باعث نہیں تھا ؟ اور اگر تھا تو تصدیق کیجئے کہ وہ کمینہ اور پلید خدا و رسول(ص) ، ملائکہ اور تمام انسانوں کی زبان سے ملعون تھا اور قیامت تک رہے گا۔

آپ کے اکثر علماء یزید پلید پرلعنت کی ہے اور اس پر لعن کے جائز ہونے پر کتابیں لکھی ہیں من جملہ ان کے علامہ جلیل القدر عبداﷲ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص20 میں لعن یزید کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ جس وقت ملا سعد تفتازانی کے سامنے یزید کا نام لیا گیا تو انہوں نے کہا " فلعنة اﷲ عليه و علی انصاره و علی اعوانه" ( یعنی لعنت ہو خدا کی اس پر اور اس کے اعوان و اںصاری پر) اور جواہر العقدین علامہ سمہودی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا

"اتفق العلماء علی جواز لعن من قتل الحسين رضی اﷲ عنه او امر بقتله او اجازه اور رضی به من غير تعيين"

یعنی عام طور پر علماء نے اس شخص پر لعنت کے جائز ہونے پر اتفاق کیا ہے جس نے حسین رضی اﷲ کو قتل کیا یا ان کے قتل کا حکم دیا یا اس کی اجازت دی یا اس پر رضا مند ہوا بلا تخصیص۔

اور ابن جوزی ، ابو یعلی اور صالح ابن احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں کہ آیات قرآن وغیرہ کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہ حضرات لعن یزید کو ثابت کرتے ہیں لیکن جلسہ کا وقت اس سے زیادہ گفتگو کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

نشست کافی لمبی ہوچکی ہے اور آدھی رات سے بھی کئی گھنٹے زیادہ گزر چکے ہیں، ورنہ یہ معمہ حل ہونا بہت ضروری تھا تاکہ آپ حضرات ان مقدمات سے اس عظیم حق کا پتہ لگائیں جو حضرت امام حسین (ع) اسلام اکھاڑ پھینکایا اپنے اپل بیت کے خون سے لا الہ الا اﷲ کے شجرہ طیبہ کی آبیاری کی جو بنی امیہ اور بالخصوص یزید پلید کے ظلم سے خشک ہونے کے قریب تھا، اور اسلام و توحید کو ایک نئی زندگی عطا کی۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آپ بجائے اس کے کہ ان بزرگوار کے خدمات کی قدر کرتے

۱۲۶

ان کے زائرین کے زیارت کے لیے جانے پر اعتراض اور نکتہ چینی کرتے ہیں ، اس کا نام مردہ پرستی رکھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں کہ کس لیے کروڑوں انسان ہر سال ان حضرات کے مرقد مطہر کی زیارت کو جاتے ہیں، مجلس عزا برپا کرتے ہیں اور ان مظلوم کی غریبی پر گریہ کرتے ہیں۔

گمنام جاں نثار

ہم کتب و رسائل اور اخبارات میں پڑھتے ہیں اور سیاحت کرنے والے بتاتے ہیں کہ دنیا کے متمدن ممالک کے مرکزی مقامات جیسے پیرس، لندن، برلن اور واشنگٹن وغیرہ میں“ گمنام جاں نثار ” کے نام سے کچھ محترم مزارات موجود ہیں۔

کہتے ہیں کہ اس جوانمرد نے وطن کی حفاظت میں ظالموں کے ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی ہے۔ لیکن اس کے جسم و لباس میں کوئی ایسی واضح علامت نہیں پائی گئی جس سے معلوم ہوتا کہ یہ کس قوم و قبیلہ اور شہر کا باشندہ ہے۔

باوجودیکہ وہ ایک گمنام اور بے نام و نشان شخصیت ہے لیکن صرف اس خیال سے کہ اس نے ظلم و ظالم کے مقابلہ میں اپنے خون کی قربانی دی ہے جب کوئی بادشاہ صدر جمہوریہ، وزیر یا کسی طبقے کا کوئی شریف و بزرگ انسان ان شہروں میں وارد ہوتا ہے تو احتراما اس گمنام۔۔۔۔۔ جاں باز کی زیارت کو جاتا ہے او پھولوں کا تاج اس کی قبر پر رکھتا ہے۔

قدر دانی کے نام پر ایک غیر معروف سپاہی کا اس قدر احترام اس لیے کرتے ہیں کہ اقوام عالم کے سامنے اپنی قومی حیثیتوں کا تحفظ کرسکیں۔

لیکن صاحبان اںصاف کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ ہم مسلمان لوگ باوجودیکہ بہتر با نام و نشان سر فروش رکھتے ہیں جوسب کےسب عالم و عابد، صاحبان تقوی اور بعض ان میں سے قاری و حافظ قرآن تھے اور جنہوں نے دین و توحید ، حریم اسلام کے تحفظ اور عدل و انصاف کی راہ میں ظالموں کے ظلم کا مقابلہ کرتےہوئے جان دی اور ان میں سے زیادہ تر خدا و رسول (ص) اور عترت پیغمبر (ص) کی امانت تھے لیکن بجائے قدردانی اور لوگوں کو ان کی زیارت کا شوق دلانے اور ان کی قبروں کے احترام کا حکم دینے کے نکتہ چینی کی کوشش کرتے ہیں اور ایک دوسرے فرقے والے علاوہ عیب جوئی اور اعتراض کے اپنے متعصب علماء کے بھڑکانے سے ان کی قبروں کو برباد کرتے ہیں اور ان کے صندوق بالائے قبر کو

۱۲۷

جلا کر قہوہ بناتے ہیں۔

چنانچہ سنہ1216 ہجری میں عید غدیر کے روز جب کربلا کے سارے باشندے ( سوا تھوڑے افراد کے) زیارت کے لیے نجف اشرف گئے ہوئے تھے نجدی وہابیوں نے موقع غنیمت سمجھ کر حملہ کر دیا۔ ضعیف وغیر ضعیف شیعوں کے قتل و غارت میں مشغول ہوئے اور دین کے نام پر فدائیاں دین توحید ( یعنی سید شہداء حضرت امام حسین (ع) اور آپ کے انصار) کی مقدس قبروں کو برباد اور زمین کے برابر کردیا ( تقریبا پانچ ہزار) باشندگان کربلا علماء اور ناتوان ضعفاء یہاں تک کہ شیعوں کی عورتوں اور بے گناہ بچوں کو قتل کیا۔ حضرت سید شہداء (ع) کا خزانہ لوٹ لیا، جواہرات ، سونے کی قندیلیں، قیمتی اشیاء اور بڑے بڑے پیش بہا فرش اٹھا لےگئے قبر مطہر کے اوپر کا قیمتی صندوق جلا کر اس سے قہوہ بنایا اور ایک کثیر جماعت کو قید کر کے اپنے ہمراہ لے گئے انا ﷲ و انا ال يه راجعون ۔ ( افسوس ہے ایسے اسلام پر)۔

واقعی بہت افسوس ناک بات ہے کہ تمام متمدن مملاک ، علماء سلاطین اور دانش مندوں کی یہاں تک کہ اپنے گمنام سپاہی کی قبروں کا احترام کریں لیکن مسلمان جو اپنے مایہ ناز افراد کے قبور کی حفاظت میں سب سے زیادہ اولی اور احق ہیں وہ آدم خور وحشیوں کی طرح ان کے مزارات کو مسمار اور تباہ و بردباد کریں حتی کہ مکہ اور مدینہ میں حضرت حمزہ سید شہداء (ع) جیسے شہدائے احد، پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد جیسے جناب عبدالمطلب و عبداﷲ آں حضرت(ص) کے اعمام و اہل وقوم، فرزندان رسول خدا(ص) جیسے سبط اکبر حضرت امام حسن(ع) مسموم ، سید الساجدین حضرت امام زین العابدین (ع) ، باقر العلوم حضرت امام باقر(ع)، صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہم السلام ، دوسرے بنی ہاشم ، علمائے اعلام اور مفاخر اسلام کی قبروں کو زمین کے برابر کر دیں اور اس کے بعد بھی اپنے کو مسلمان کہیں۔ ہاں اپنے بزرگوں اور بادشاہوں کے مقبرے البتہ بہت شاندار طریقے سے تعمیر کریں۔ حالانکہ ہمارے اور آپ کے علماء نے قبور مومنین کی زیارت پر راغب کرنے کے لیے کس قدر کثرت سے حدیثیں نقل کی ہیں تاکہ اس ذریعے سے مومنین کی قبریں حوادث زمانہ کی دستبرد سے محفوظ رہیں۔

خود رسول اﷲ(ص) قبور مومنین کی زیارت کو تشریف لے جاتے تھے اور ان کے لیے مغفرت طلب فرماتے تھے مسئلہ یہ کہ کچھ خفیہ مقاصد کے ماتحت مذہب کے نام پر اپنے ہی ہاتھوں اپنی قابل فخر ہستیوں کی قبریں خراب اور خاک کے برابر کریں اور ان کا نشان بھی دنیا میں باقی نہ رہنے دیں بات ختم کرتا ہوں ورنہ دل میں ابھی بہت کچھ ہے۔

۱۲۸

شرح این ہجراں و ایں خون جگر ایں زمان بگزار تا وقت دگر

آل محمد(ص) شہدائے راہ خدا اور زندہ ہیں

آیا آپ اس جلیل القدر خانوادہ کو جس نے دین اور توحید کی راہ م ی ں جا نی ں دیں ، شہ ی د سمجھتے ہیں یا ن ہیں ؟ اگر کہئے کہ شہید نہیں ہیں تو اس پر آپ کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر شہید ہیں تو پھر آپ انہیں مردہ کیوں سمجھتے ہیں؟ حالانکہ قرآن مجید میں کھلا ہوا ارشاد ہے " احياء عند ربهم يرزقون " یعنی وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے پاس رزق پاتے ہیں۔ 12 مترجم) پس قرآنی آیات اور معتبر احادیث کی بنا پر مقدس ہستیاں زندہ ہیں، مردہ نہیں ہیں۔ چنانچہ ہم لوگ بھی مردہ پرست نہیں ہیں اور مردے پر سلام نہیں کرتے بلکہ زندوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔

علاوہ اس کے کوئی با سواد یا جاہل شیعہ ان حضرات کو حاجت روائی میں خود مختار نہیں سمجھتا بلکہ ان کو خدا کے نیک بندے اور معبود کی طرف ایک بلند مرتبہ واسطہ جانتا ہے ( جیسا کہ اسی کتاب کے صفحہ97 میں مذکور ہے)

ہم صرف اس لئے اپنی حاجتوں کو ان کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ برحق ائمہ اور عالی منزلت صالحین ، خدا سے دعا فرمائیں تاکہ وہ ہم نا اہل انسانوں پر کرم فرمائے۔ اور اگر زبان سے یہ کہتے ہیں کہ یا علی ادرکنی ، یا حسین ادرکنی تو اس کی مثال بعینہ اسی آدمی کی ایسی ہے جو کسی با اقتدار بادشاہ سے کوئی حاجت رکھتا ہے تو وزیر اعظم کے دروازے پر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب وزیر صاحب میری فریاد کو پہنچئے۔ لیکن یہ کہنے والا وزیر کو ہرگز بادشاہ اور اپنی حاجت روائی میں خود مختار نہیں مانتا ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ چونکہ بادشاہ کی نظر میں با عزت ہیں۔ لہذا میری سفارش کردیجئے تاکہ میرا کام بن جائے۔

شیعہ بھی آل محمد علیہم السلام کو خدا اور خدائی کاموں میں شریک نہیں جانتے ہیں بلکہ ان کو اﷲ کے صالح بندے سمجھتے ہیں جو علاوہ اپنی پاک فطرت کے عبادت و تقوی اور دینی خدمات کے نتیجہ میں حق تعالی کے منظور نظر قرار پائے لہذا دونوں عالم میں ان کو امامت و ولایت کے عہدے اور بلند و بالا درجات عطا کیئے تاکہ پروردگار کے حکم اور اجازت سے موجودات میں تصرف کرسکیں۔ چونکہ یہ حضرات خدائے ذوالجلال کے امانت دار اور نمائندے ہیں اس بنا پر حاجت مندوں کے ضروریات خدا کی بارگاہ میں پیش

۱۲۹

کرتے ہیں ، اگر سائل کی حاجت روائی مصلحت کے مطابق ہوتی ہے تو قبول فرماتا ہے ورنہ آخرت میں اس کا عوض دیتا ہے ۔ چنانچہ عملی طور پر ہم ایسا دیکھتے بھی ہیں اور نتائج بھی حاصل کرتے ہیں۔

یہ مشتے نمونہ از خود ؟؟؟؟؟؟؟؟ چند مختصر جملے تھے جو مجبورا آپ کی اس بات کے جواب میں عرض کئے گئے کہ مردے سے خطاب کیوں کرتے ہو اس مقام پر یہ نکتہ بھی بغیر کہے نہ رہ جائے کہ شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی منزل اس سے بالاتر سمجھتے ہیں کہ دوسرے شہدائے اسلام کی طرح ان کےلیے بھی صرف ایک زندگی ثابت کریں۔

حافظ : آپ کے بیان میں یہ فقرہ ایک معمہ ہے جس کے حل کی ضرورت ہے ۔ آخر آپ کے اماموں میں دوسرے اماموں سے کیا فرق ہے؟ صرف سیادت کی منزلت اور رسول اکرم(ص) سے ان کی نسبت نے ان کو دوسروں کے مقابلے میں ممتاز بنا دیا ہے۔

خیر طلب : اس میں کوئی معمہ قطعی نہیں ہے صرف اس مطلب کا تصور آپ کےلیے دشوار ہے کیونکہ ساری زندگی منزل امامت کی معرفت سے دور رہے ہیں۔ سب سے پہلے ضرورت اس کی ہے کہ اپنی عادت اور تعصب سے الگ ہو کر علم و عقل اور منطق و اںصاف کی نظر سے مقام امامت کا مطالعہ فرمائیے اس کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ شیعہ اعتقاد کے لحاظ سے منصب امامت اور آپ کے عقائد کے مطابق امامت کے درمیان ایک بین اور واضح فرق یہ۔ اگر میں اس مقصد کو ثابت کرنے بیٹھوں تو صبح تک انتظار کرنا ہوگا۔ اب یہ اہم موضوع ایک اطمیانی نشست کے لیے ملتوی کرتا ہوں جس میں گفتگو کا پورا وقت ہو انشاء اﷲ۔

( اس کے بعد ہم لوگوں نے جلسہ برخاست کیا ۔ چونکہ اذان صبح کا وقت قریب تھا اور سلسلہ گفتگو طولانی ہوچکا تھا لہذا لوگوں نے کہا کہ اب امامت کا موضوع کل رات پر رہا ہم نے خوش طبعی اور مزاح کے ساتھ ان حضرات کو کچھ دور چل کر رخصت کیا اور وہ بخیر و عافیت تشریف لے گئے۔)

۱۳۰

چوتھی نشست

شب دوشنبہ 26 رجب سنہ1345ھ

آپ نے حقیقت کا نکشاف کر کے ہم پر احسان کیا

مغرب کے اول وقت حضرات اہل سنت میں سے تین نفر تشریف لائے اور کہا کہ جلسہ شروع ہونے سے قبل ہم آپ کی اطلاع کے لیے عرض کرتے ہیں کہ آج غروب آفتاب تک مسجدوں ، مکانوں، دفتروں اور بازاروں میں ہر جگہ آپ ہی کا تذکرہ تھا جس جگہ کسی کے ہاتھ میں آج کا اخبار تھا وہاں چاروں طرف کثرت سے لوگ اکٹھا تھے اور آپ کی تقریروں کےبارے میں بحث کررہے تھے۔ ہم لوگوں کو آپ سے کافی تعلق خاطر پیدا ہوگیا ہے۔ ہم سب کے دلوں میں آپ نے گھر کر لیا ہے اور ہم پر آپ کا بہت بڑا حق ہے کیونکہ آپ ان شبہات کو حل کر رہے ہیں جن کو ہمارے پیشواؤں نے بچپن ہی سے ہم کو الٹے طریقے پر سمجھایا تھا۔ہم اس کے لیے تہ دل سے معذرت خواہ ہیں کہ ہم شیعہ جماعت کو مشرک سمجھتے تھے ہم کیا کریں ہم کو ہمیشہ سے تعلیم ہی یہی دی گئے ہے۔ امید ہے کہ خداوند غفور ہماری توبہ قبول کرے گا۔ ادھر چند روز سے ہر شب کی بحثیں رسالوں اور اخباروں میں شائع ہو رہی ہیں تو اکثر اخبارات کے خریداروں اور بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں، خصوصا ہم لوگ جو شریک جلسہ اور آپ کی لطیف گفتگو سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں بہت متاثر ہوئے ہیں خاص طور پر گذشتہ شب کیونکہ آپ نے خوب خوب پردے اٹھائے اور پوشیدہ حقائق کو ظاہر فرمایا امید ہے کہ مزید انکشافات ہوں گے اور اس سے زیادہ حقیقتیں بے نقاب ہوں گی۔

دوسری بات جس کی طرف ہم آپ کی توجہ منذول کرانا چاہتے ہیں یہ ہے کہ ہم پر اور ہماری جماعت پر جو چیز سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی ہے وہ جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں آپ کی واضح اور سادہ گفتگو ہے۔ کیونکہ آپ ہماری ہی زبان میں مطلب کو اس قدر مفصل اور عام فہم طریقے سے بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے تمام بے سواد افراد کو اپنی طرف جذب کر لیتے ہیں ، آپ قطعی طور پر یہ پہلو پیش نظر رکھیں کہ ساری جماعت میں فی صد پانچ نفر سے زیادہ صاحبان علم و خبر نہیں ہیں۔ کورکورانہ طور بچپن سے جو کچھ سن رکھا ہے اس نے ان کے

۱۳۱

قلب و دماغ میں جگہ پکڑ لی ہے اب تو انہیں صرف سادگی ہی کے ذریعے سمجھایا جاسکتا ہے ، چنانچہ آپ اسی بات پر عمل کر رہے ہیں اور امید ہے کہ پورا پورا نتیجہ حاصل ہوگا۔

اتنے میں حضرات علماء تشریف لے آئے اور ہم نے گرم جوشی اور خندہ پیشانی کےساتھ ان کو خوش آمدید کہا ۔ چائے نوشی اور معمولی خاطر تواضع کے بعد جلسے کی کاروائی شروع ہوئی۔

نواب : قبلہ صاحب گزشتہ رات طے پایا تھا کہ آج کی شب امامت کے بارے میں گفتگو ہوگی، ہم اس خاص موضوع کو سمجھنے کے لیے بہت مشتاق ہیں اور چونکہ اسی موضوع پر دوسرے مطالب کی بنیاد ہے لہذا ہماری تمنا ہے کہ صرف اسی مسئلے کو مورد بحث قرار دیں تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہمارے اور آپ کے درمیاں موضوع امامت میں کیا اختلاف ہے۔

خیر طلب : مجھ کو کوئی عذر نہیں ہے، چنانچہ اگر مولوی صاحبان اسی طرف مائل ہوں تو میں حاضر ہوں۔

حافظ : ( اڑے ہوئے رنگ اور اترے ہوئے چہرے کے ساتھ) ہماری طرف سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے آپ جس طرح سے مناسب سمجھیں بیان فرمائیں۔

امامت کے بارے میں بحث

خیر طلب : آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے کہ لغت اور اصطلاح کی حیثیت سے امام کے کئی معنی ہیں۔ لغت میں امام پیشوا کے معنی رکھتا ہے الامام هو المتقدم بالناس یعنی امام انسانوں کا پیشوا ہے۔ امام جماعت یعنی نماز جماعت میں لوگوں کا پیشوا۔ امام الناس یعنی امور سیاسی یا روحانی وغیرہ میں آدمیوں کا پیشوا۔ امام جمعہ یعنی جو شخص نماز جمعہ میں پیشوائی کرے۔

اہلسنت کے مذاہب اربعہ پر بحث اور کشف حقیقت

اس بنا پر جماعت اہل تسنن یعنی مذاہب اربعہ کے پیرو اپنے پیشواؤں کو امام کہتے ہیں جیسے امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل۔ یعنی وہ فقہاء و مجتہدین جو امر دین میں ان کے پیشوا ہیں اور جنہوں نے اپنی عقل و فکر کے ذریعہ اجتہاد یا قیاس کے ساتھ ان کے لیے حلال و حرام کے احکام معین کئے ہیں۔

۱۳۲

یہی وجہ سے کہ جب ہم آپ کے چاروں اماموں کی فقہی کتابون کا مطالعہ کرتے ہیں تو اصول و فروع کی حیثیت سے ان میں بہت اختلافات نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے ائمہ اور پشوا تمام ادیان و مذاہب کے اندر ہیں۔ یہاں تک کہ مذہب شیعہ میں بھی علماء فقہاء وہی درجہ رکھتے ہیں جس کے آپ اپنے اماموں کے لیے قائل ہیں۔ لہذا وہ حضرت امام عصر عجل اﷲ فرجہ کی غیبت میں ہر عہد اور زمانےمیں موازین علمی کی روسے کتاب و سنت اور عقل و اجماع کے ادلہ اربعہ کے ساتھ فتوے دیتے ہیں۔ پھر بھی ہم ان کو امام نہیں کہتے ہیں کیونکہ امامت عترت طاہرہ(ع) سے بارہ اوصیاء کے ساتھ مخصوص ہے۔ ایک فرق یہ ہے کہ آپ کے بزرگوں نے بعد کے لیے اجتہاد کا دروازہ بند رکھا ہے یعنی پانچویں صدی ہجری سے جب کہ بادشاہ کے حکم سے علماء و فقہاء کی ایجاد کردہ رائیں جمع کی گئیں، صرف چار کے اندر منحصر کر کے مذاہب اربعہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی کو رائج کیا گیا اور لوگوں کو مجبور کیا گیا ہے ان چاروں میں سے کسی ایک مذہب پر عمل کریں جیسا کہ اب تک رواج ہے معلوم نہیں کہ مقام تقلید میں ایک فرد کو دوسرے افراد پر کس دلیل و برہان سے ترجیح حاصل ہے۔ حنفیوں کے امام میں کیا خصوصیت ہے جو مالکیوں کو نہیں ملی اور شافعیوں کا امام کیا فضیلت رکھتا ہے جو حںبلیوں کے پاس نہیں۔

اگرملت اسلامی اس پر مجبور ہے کہ ان چاروں کے فتاوی سے باہر نہ جائے تو جماعت مسلمین بہت سخت جمود کے پنجے میں گرفتار ہوگئی ہے اور کبھی ان میں ترقی اور بلندی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ حالانکہ مقدس دین اسلام کے خصوصیات میں سے ایک یہی ہے کہ ہر دور اور زمانے میں قافلہ تمدن کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور یہ مقصد لازمی طور پر ایسے فقہاء و مجتہدین چاہتا ہے جو ہر عہد میں موازین شرعیہ کے تحفظ کے ساتھ کاروانِ تہذیب کے ہمراہ آگے بڑھیں اور مذہب کی مرکزیت کو محفوظ رکھیں۔

کیونکہ بہت سے امور ایسے ہیں ج کے تجدد کی وجہ سے ان میں تقلید میت کی گنجائش نہیں ہے ۔ بلکہ حتمی طور پر زندہ فقیہ اور مجتہد کی طرف رجوع کرنا ان کی دماغی کاوش سے فائدہ حاصل کرنا اورا ن کے فتوی کو اپنا لائحہ عمل بنانا ضروری ہوتا ہے۔ باوجودیکہ بعد کے زمانوں میں آپ کے یہاں ایسے عالی منزلت مجتہدین اور فقہاء پیدا ہوئے جو ان چاروں اماموں سے بدرجہا اعلم اور افقہ تھے لیکن معلوم نہیں یہ ترجیح بلا مرجح ، مقام اجتہاد کو ان چار نفر کے اندر محصور کر دینا اور دوسروں کے علمی افادات کو ضائع کرنا کس مصلحت کی بنا پر تھا۔ البتہ جماعت شیعہ کے اندر ظہور امام آخرالزمان عجل ا ﷲ فرجہ تک ہر دور اور ہر زمانے میں تمام فقہاء اور مجتہدین کو فتاوی کا حق حاصل ہے اور ہم مسائل جدیدہ میں ابتداء تقلید میت کو ہرگز جائز نہیں سمجھتے ۔

۱۳۳

مذاہب اربعہ کی پیروی پر کوئی دلیل نہیں ہے

تعجب ہے کہ آپ شیعہ فرقے کو تو بدعتی اور مردہ پرست کہتے ہیں جو اہل بیت رسول(ص) میں سے بارہ ائمہ(ع) کی ہدایتوں پر آں حضرت(ص) ہی کے حکم سے ( ان نصوص خاصہ کے ساتھ جو آپ کی کتابوں میں بھی تشریح کے ساتھ مندرج ہیں) عمل کرتے ہیں لیکن معلوم نہیں آپ حضرات کس دلیل سے مسلمانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ اصول میں اشعری یا معتزلی مذہب پر اور فروع میں لازمی طور پر مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک پر عمل پیرا ہوں۔ اور اگر ان باتوں پر جو آپ بغیر دلیل کے کہتے ہیں عمل نہ کریں۔ یعنی اشعری یا معتزلی مذہب یا مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کے پیرو نہ بنیں تو رافضی ، مشرک اور گردن زدنی قرار پائیں۔

اگر آپ پر ایراد کیا جائے کہ چونکہ ابو الحسن اشعری یا ابو حنیفہ ، مالک ابن انس، محمد ابن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل کی پیروی کے لیے پیغمبر(ص) کا کوئی فرمان نافذ نہیں ہوا ہے اور یہ بھی من جملہ اور اسلامی علماء و فقہاء کے تھے لہذا صرف انہیں کی تقلید پر اںحصار کرنا بدعت ہے تو کیا جواب دیجئیے گا؟

حافظ : ائمہ اربعہ چونکہ زہد و ورع تقوی و امانت اور عدالت کے ساتھ ساتھ فقاہت اور علم و اجتہاد کی منزل پر فائز تھے لہذا ان کی پیروی ہم پر لازمی ہوگئی۔

خیر طلب : اول تو جو کچھ آپ نے فرمایا یہ ایسے دلائل نہیں ہیں جو حصر کا سبب بن جائیں کہ روز قیامت تک مسلمان ان کے طریقے کی پیروی کرنے پر مجبور ہوں۔ اس لیے کہ آپ اپنے سارے علماء و فقہاء کے لیے ان صفات کے قائل ہیں اور ان چاروں کے اندر اںحصار کرنا بعد کے علماء کے توہین ہے۔ کسی ایک فرد یا افراد کی پیروی پر اسی وقت مجبور کیا جاسکتا ہے جب کہ خاتم الانبیاء(ص) سے کوئی ہدایت یا نص مروی ہو حالانکہ آپ کے ائمہ اربعہ کے بارے میں ایسا کوئی حکم یا نص آنحضرت(ص) سے منقول نہیں ہے لہذا آپ نے کیونکہ مذاہب کو چار کے اندر محدود کردیا اور ان چار اماموں میں سے ایک کی پیروی کا لازمی ہونا حق سمجھتے ہیں؟

یہ عجیب معاملہ صاحبان عقل و اںصاف کے لیے قابل غور ہے

بہت مضحکہ خیز بات ہے کہ چند شب پہلے آپ نے شیعہ مذہب کو سیاسی قرار دیا اور کہا کہ یہ مذہب چونکہ رسول اﷲ(ص) کے زمانے میں نہیں تھا اور خلافت عثمان میں پیدا ہوا ہے۔ لہذا اس کی پیروی

۱۳۴

جائز نہیں ہے۔ حالانکہ پرسوں شب میں نے عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کردیا کہ مذہب شیعہ کی بنیاد رسول اﷲ(ص) کے زمانے میں آں حضرت(ص) ہی کی ہدایت سے قائم ہوئی اور شیعوں کے سردار امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بچپن ہی سے دامن نبوت میں پرورش پائی۔ آں حضرت (ص) سے معالم دین کی تعلیم حاصل کی، ان روایات کے مطابق جو آپ کی معتبر کتابوں میں منقول ہیں آںحضرت(ص) نے آپ کو اپنے علم کا دروازہ فرمایا اور صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی مخالت میری مخالفت ہے، ستر ہزار مسلمانوں کے مجمع میں آپ کو امارت و خلافت کے عہدے پر منصوب فرمایا اور عام مسلمانوں کو یہاں تک کہ عمر اور ابوبکر کو بھی حکم دیا اور ان لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔

لیکن آپ کے چاروں مذاہب حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کس بنیاء پر قائم ہوئے ہیں؟ آپ کے ان چار اماموں میں سے کس نے رسول خدا(ص) سے ملاقات کی ہے یا کس کے بارے میں آںحضرت(ص) کی طرف سے کوئی ہدایت جاری ہوئی ہے تاکہ مسلمان آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی پر مجبور ہوں؟ جیسا کہ آپ بھی بغیر کسی دلیل کے اپنے اسلاف کے قدم بقدم چلتے ہوئے ان چار اماموں کی پیروی کر رہے ہیں جن کی امامت مطلقہ پر ایک دلیل بھی دلیل نہیں رکھتے سوا اس کے کہ آپ نے فرمایا وہ فقیہ، عالم، مجتہد، زاہد اور صاحبان تقوی تھے تو ہر ایک کے زمانے والوں کو صرف ان کی زندگی میں ان علماء کے فتاوی پر عمل کرنا چاہئیے تھا نہ یہ کہ ساری دنیا کے مسلمان روز قیامت تک ان کی اطاعت کے پابند بنا دیے جائیں۔

علاوہ ان باتوں کے اگر رسول اﷲ(ص) کے صریحی ارشادات کے ساتھ ساتھ یہ صفات بھی ہزاروں گنا زیادہ آں حضرت (ص) کی عترت میں جمع ہوگئی ہوں تو بدرجہ ادنی ان حضرات کا اتباع اور پیروی فرض ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جن کے بارے میں قطعا کوئی نص یا فرمان نافذ نہیں ہوا ہے۔ آیا وہ مذاہب جن کا رسول(ص) کے زمانے میں کوئی نشان نہیں تھا اور ائمہ اربعہ میں سے کوئی ایک بھی آں حضرت(ص) کے عہد میں موجود نہیں تھا نہ ان کے بارے میں آں حضرت (ص) سے کوئی حکم منقول ہے اور ایک صدی کے بعد دنیا میں رونما ہوئے ، ایجاد بندہ اور سیاسی ہیں؟ یا وہ مذہب جس کے بانی رسول خدا(ص) اور جس کا پیشوا آں حضرت(ص) کے ہاتھوں میں تربیت پایا ہوا تھا؟ اور اسی طرح باقی گیارہ امام جن سب کے لیے فردا فردا حدیثیں مروی ہیں، ان کو عدیل قرآن قرار دیا ہے اور حدیث ثقلین میں صاف ارشاد فرمایا ہے کہ :

" من تمسک بهما فقد نجی و من تخلف عنهما فقد هلک ۔" (1)

جس نے ان دونوں سے تمسک کیا وہ یقینا نجات یافتہ ہے اور جس نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ اسی کتاب کے صفحہ92 صفحہ93 میں اس کی اصل اور اسناد کی طرف اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۳۵

دونوں سے رو گردانی کی وہ یقینا ہلاک ہوا 12 مترجم) اور حدیث سفینہ میں فرمایا ہے کہ من تخلف عنهم فقد هلک (1) یعنی اور جس نے ان سے منہ موڑا پس وہ یقینا ہلاک میں گرفتار ہوا۔ 12 مترجم)

ابن حجر صواعق باب وحیتہ النبی صفحہ135 میں آن حضرت(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا “ قرآن اور میری عترت تمہارے درمیان میری امانت ہیں کہ اگر ان دوںوں سے ایک ساتھ تمسک اختیار کرو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے”

پھر ابن حجر کہتے ہیں کہ اس قول کی موید ایک دوسری حدیث ہے جو آں حضرت (ص) نے قرآن و عترت کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے۔" فلا تقدموهما فتهلكوا، و لا تعلموهما فإنهما أعلم منكم." ( یعنی قرآن اور میری عترت پر پیش قدمی نہ کرو۔ اور ان کی خدمت میں کوتاہی نہ کرو۔ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ اور میری عترت کو تعلیم نہ دو۔ کیونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔)

اس کے بعد ابن حجر نے تبصرہ کیا ہے کہ “ یہ” حدیث شریف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آں حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت(ع) مراتب علمیہ اور وظائف دینیہ میں دوسروں پر تقدم کا حق رکھتے ہیں۔” حیرت ہے کہ اس بات کا یقین رکھتے ہوئے بھی کہ عترت و اہل بیت رسول(ص) کو دوسروں پر مقدم ہونا چاہیئے بغیر کسی دلیل و برہان کے اصولی ہیں ابوالحسن اشعری کو اور فروع میں ان چاروں فقہا کو اس خاندان جلیلی پر مقدم قرار دیتے ہیں۔ در حقیقت فقیہ امام علم و ورع اور تقوی اور عدالت کی وجہ سے پیشوا قرار پائے تو ان میں سے ایک نے دوسرے پر فسق اور کفر کا فتوی کس لیے لگایا ہے؟

حافظ : آپ بہت زیادتی کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ کے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں، یہاں تک کہ ہمارے فقہا اور اماموں پر تہمت لگاتے ہیں کہ یہ لوگ ایک دوسرے کی تردید و توہین یا تفسیق و تکفیر پر اتر آئے ہیں۔ آپ کا یہ بیان قطعا کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ اگر ان کے بادے میں کوئی تردید یا تنقید کی گئی ہے تو وہ شیعہ علماء کی طرف سے ہے ورنہ ہمارے علماء کی جانب سے سوا تعظیم و تکریم کے جو ان حضرات کے شایان شان تھی ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔

خیر طلب : معلوم ہوتا ہے کہ جناب عالی کو اپنے علماء کی معتبر کتابوں کے مندرجات پر کوئی توجہ نہیں ہے یا جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں یعنی جانتے ہوئے مغالطہ دے رہے ہیں ، ورنہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے ان کی رد میں کتابیں لکھی ہیں یہاں تک کہ خود چاروں اماموں نے ایک دوسرے کو فاسق اور کافر بنایا ہے۔

--------------

1۔ اسی کتاب کے صفحہ92 صفحہ93 میں اس کی اصل اور اسناد کی طرف اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۳۶

حافظ : فرمائیے وہ علماء کون ہیں اور ان کی کتابوں کے اندراجات کیا ہیں؟ اگر آپ کی نظر میں ہو تو بیان کیجئے۔

خیر طلب : اصحاب ابو حنیفہ اور ابن حزم ( علی ابن احمد اندلسی متوفی سنہ456ھ) وغیرہ برابر امام مالک اور محمد بن ادریس شافعی پر طعن کرتے رہے ہیں اور اسی طرح اصحاب شافعی جیسے امام الحرمین اور امام غزالی وغیرہ ابو حنیفہ اور مالک پر طعن کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ میں جناب عالی سے پوچھتا ہوں کہ فرمائیے امام شافعی، ابو حامد محمد بن محمد عزالی اور جار اﷲ زمخشری کیسے اشخاص ہیں؟

حافظ : ہمارے بزرگ ترین فقہاء و علماء میں سے ، ثقہ اور اہل سنت واجماعت کے امام ہیں۔

اہل تسنن کے علماء اور اماموں کا ابوحنیفہ کو رد کرنا

خیر طلب : امام شافعی کہتے ہیں ما ولد فی الاسلام اشام من ابی حنیفہ۔ ( یعنی اسلام کے اندر کوئی شخص ابو حنیفہ سے زیادہ منحوس پیدا نہیں ہوا) نیز کہا ہے

" نظرت في كتب أصحاب أبي حنيفة فإذا فيها مائة و ثلاثون ورقة خلاف الكتاب و السنة."

یعنی میں نے اصحاب ابوحنیفہ کی کتابوں میں نظر کی تو ان میں مجھ کو ایک سو تیس ورق کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کے خلاف ملے۔)

ابو حامد غزالی کتاب متحول فی علم الاصول میں کہتے ہیں:

"فأمّا أبو حنيفة فقد قلب الشريعة ظهرا لبطن و شوّش مسلكها و غيّر نظامها، و أردف جميع قواعد الشريعة بأصل هدم به شرع محمّد المصطفى صلّى اللّه عليه و آله و سلم، و من فعل شيئا من هذا مستحلّا كفر، و من فعل غير مستحلّ فسق"

یعنی در حقیقت ابوحنیفہ نے شریعت کو پلٹ دیا، اس کے راستے کو مشتبہ بنا دیا، اس کے نظام کو بدل ڈالا اور قوانین شرع میں سے ہر ایک کو ایک ایسی اصل کے ساتھ جوڑ دیا جس کے ذریعے رسول اﷲ(ص) کی شرع کو برباد کر دیا۔ جو شخص عمدا ایسی حرکت کرے اور اس کو جائز سمجھے وہ کافر ہے اور جو شخص نا جائز سمجھتے ہوئے ایسا کرے وہ بدکار ہے۔ چنانچہ اس بزرگ عالم کے قول کے مطابق ابوحنیفہ یا کافر تھے یا فاسق۔ اس کے بعد اس باب میں ان کی طعن درد اور تفسیق میں بہت سی باتیں لکھی ہیں جن کا بیان میں ترک کرتا ہوں اور جار اﷲ زمخشری صاحب تفسیر کشاف نے جو آپ کے ثقات علماء میں سے ہیں ربیع الابرار میں لکھا ہے :

" قال يوسف بن اسباط رد ابو حنيفه علی رسول اﷲ اربعة مائة حديث او اکثر. "

یعنی یوسف بن اسباط نے کہا ہے کہ ابو حنیفہ نےرسول خدا(ص) پر چار سویا اس سے زیادہ حدیثیں روکیں۔ نیز یوسف کہتا ہے کہ ابو حنیفہ کہتا تھا لو ادرکنی

۱۳۷

رسول اﷲ لاخذ بکثیر من قولی۔ یعنی اگر رسول اﷲ مجھ کو پاتے تو میرے بہت سے اقوال اختیار کرتے یعنی میری باتوں کی پیروی کرتے) ۔ اسی طرح کے بکثرت مطاعن ابو حنیفہ اور باقی تین اماموں کے بارے میں آپ کے علماء سے منقول ہیں جو غزالی کی کتاب متحول، شافعی کی کتاب نکت الشریف زمخشری کی ربیع الابرار اور ابن جوزی کی منتظم وغیرہ دیکھنے سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ امام غزالی متحول میں کہتے ہیں :

" ان ابا حنيفه النعمان بن ثابت الکوفی يحق فی الکلام ولا يصرف اللغة والنحو ولا يعرف الاحاديث ۔"

( یعنی ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کوفی کے کلام میں غلطیاں بہت ہیں۔ ان کو لغت و نحو اور احادیث کا علم نہیں تھا) نیز لکھتے یں کہ یہ چونکہ علم حدیث سے ( جو قرآن کے بعد دین کا ستون اور بنیاد ہے) واقف نہیں تھے لہذا فقط قیاس رپ عمل کرتے تھے، حالانکہ اول من قاس ابلیس یعنی سب سے پہلے جس نے قیاس پر عمل کیا وہ شیطان تھا۔ ( چنانچہ جو شخص قیاس پر عمل کرے اس کا حشر ابلیس کے ساتھ ہوگا۔)

اور ابن جوزی منتظم میں کہتے ہیں اتفق الکل علی الطعن فیہ۔ یعنی سارے علماء ابو حنیفہ پر طعن کرنے میں متفق ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ طعن کرنے والے تین قسم کے ہیں۔ ایک گروہ نے ان کو اس لئے مورد طعن قرار دیا ہے کہ یہ اصول عقائد میں متزلزل تھے۔ دوسری جماعت نے کہا ہے کہ ان کے پاس حافظ اور ضبط روایات کی قوت نہیں تھی اور تیسری صنف کا اعتراض یہ ہے کہ یہ اپنی رائے اور قیاس سے کام لیتے تھے اور ان کی رائے ہمیشہ صحیح حدیثوں کی مخالفت ہوتی تھی۔

غرضیکہ آپ کے اماموں کے بارے میں آپ ہی کے علماء کی طرف سے اس طرح کی گفتگو اور مطاعن بہت ہیں۔ جن کے بیان کا فی الحال وقت نہیں ہے کیونکہ میں تردید اور انتقاد کی منزل میں نہیں تھا۔ آپ نے بات کا سلسلہ یہاں تک پہنچا دیا کہ فرمایا جو مطاعن منقول ہیں وہ صرف علمائے کی طرف سے ہیں اور جو کچھ تمہارے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہو لہذا میں نے یہ بتا دینا چاہا کہ آپ کا اعتراض بے جا ہے اور آپ محض گریز کا راستہ تلاش کرنے کے لیے بغیر عقل و منطق کے مقابلہ کر رہے ہیں ورنہ اصلیت اسکے خلاف ہے جو کچھ میری زبان پر جاری ہوتا ہے وہ علم و عقل اور منطق کے مطابق اور تعصب سے خالی ہوتا ہے علماء شیعہ نے آپ کے چاروں اماموں سے سوا ان باتوں کے جو خود آپ کے علماء نے لکھی ہیں کوئی نئی چیز منسوب نہیں کی ہے اور نہ ان کی توہین ہی کرتے ہیں۔ لیکن آپ کے علماء کے بر خلاف علمائے شیعہ امامیہ کے درمیان ہمارے بارہ ائمہ (ع) کے مقامات مقدسہ کی نسبت کسی طرح کا کوئی ایراد یا اعتراض موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم ائمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم

۱۳۸

اجمعین کو ایک ہی مدرسے کے شاگرد جانتے ہیں جن پر یکساں طور پر فیض خداوندی جارہی تھا اور یہ حضرات من اولہم الی آخرہم بالعموم قوانین الہیہ کے مطابق جو خاتم النبیین سے ان کو پہنچے تھے عمل فرماتے تھے۔ رائے و قیاس اور ایجاد بندہ پر کار بند نہیں تھے بلکہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ پیغمبر(ص) کی طرف سے تھا لہذا بارہ اماموں کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا( جیسے کہ آپ کے چاروں اماموں کے درمیان سارے عقائد و احکام میں اختلاف موجود ہیں) کیونکہ یہ حضرات امام تھے۔ لیکن امام لغوی نہیں جس کے معنی صرف آگے چلنے والے کے ہوں۔

امامت شیعوں کے عقیدے میں ریاست عالیہ الہیہ ہے

بلکہ علم کلام کی اصطلاح میں جیسا کہ محققین علماء نے بیان کیا ہے یہ امامت ریاست عالیہ الہیہ کے معنی میں اور اصول دین میں سے ایک اصل ہے اور ہم بھی اسی عقیدے پر ہیں کہ : “ الامامة ہی الریاسة العامة الہیة خلافة عن رسول اﷲ فی امور الدین و الدنیا بحیث یجب اتباعہ علی کافة الامة” یعن امامت سارے خلائق پر ایک عمومی ریاست الہی ہے بطریق خلافت رسول اﷲ(ص) کی طرف سے امور دین و دنیا میں اس صورت سے کہ اس کی متابعت سارے انسانوں پر واجب ہے۔”

شیخ : بہتر تھا کہ آپ قطعی اور حتمی طور سے یہ نہ فرماتے کہ امامت اصطلاحی اصول دین میں سے ہے کیونکہ بڑے بڑے علمائے اسلام کہتے ہیں کہ امامت اصول دین میں سے نہیں ہے بلکہ مسلمہ فروعات میں سے ہے، جس کو آپ کے علماء نے بغیر دلیل کے اصول دین کا جز بنا دیا۔

خیر طلب : میرا یہ بیان صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کے اکابر علماء بھی اسی عقیدے پر ہیں من جملہ ان کے آپ کے مشہور مفسر قاضی بیضاوی کتاب منہاج الاصول میں بسلسلہ بحث اخبار انتہائی صراحت کے ساتھ کہتے ہیں :

" أن الإمامة من أعظم مسائل أصول الدين التي مخالفتها توجب الكفر و البدعة "

یعنی حقیقتا امامت اصول دین کے عظیم ترین مسائل میں سے ہے جس کی مخالفت کفر و بدعت کا سبب ہے۔

ملا علی قوشجی شرح تجرید مبحث امامت میں کہتے ہیں :

" «الإمامة رئاسة عامّة في أمور الدين و الدنيا خلافة عن النبيّ "

یعنی امامت ایک ریاست عمومی ہے امور دین و دنیا میں بطریق خلافت پیغمبر(ص) کی طرف سے) اور قاضی روز بہان جیسے آپ کے انتہائی متعصب عالم نے بھی اسی مفہوم کو نقل کیا ہے کہ امامت ریاست براست اور نیابت و خلافت رسول(ص)

۱۳۹

ہے اس عبارت کے ساتھ کہ :" و الإمامة عند الأشاعرة: هي خلافة الرسول في إقامة الدين و حفظ حوزة الملّة، بحيث يجب اتّباعه على كافّة الأمّة."

یعنی امامت اشاعرہ کے نزدیک رسول اﷲ(ص) کی خلافت ہے دین کو قائم کرنے اور حلقہ ملت اسلام کی حفاظت کرنے میں، اس طرح سے کہ ساری امت پر اس کا اتباع واجب ہے۔

اگر امامت فروع دین میں سے ہوتی تو رسول اﷲ(ص) یہ نہ فرماتے کہ جو شخص بغیر امام کو پہچانے ہوئے مرے تو اس کی موت طریقہ جاہلیت پر ہے۔ چنانچہ آپ کے اکابر علماء جیسے حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، ملا سعد تفتازانی نے شرح عقائد نصفی میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

"من مات و هو لا يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية" (1)

بدیہی چیز ہے کہ فروع دین میں سے کسی ایک فرع کی معرفت نہ ہوتا دین کے تزلزل اور طریقہ جاہلیت پر مرنے کا سبب نہیں ہوسکتا جیسا کہ بیضاوی صریحی طور پر کہتے ہیں کہ اس کی مخالفت کفر و بدعت کا سبب قرار پائے۔ پس ثابت ہے کہ امامت اصول دین میں داخل اور مقام نبوت کا تتمہ ہے۔ لہذا امامت کے معنی میں بہت بڑا فرق ہے ، آپ جو اپنے علماء کو امام کہتے ہیں جیسے امام اعظم ، امام مالک ، امام شافعی، امام احمد حنبل، امام فخرالدین ، امام ثعلبی امام غزالی وغیرہ تو یہ لغوی معنی کے لحاظ سے ہے۔ ہم بھی امام جمعہ اور امام جماعت رکھتے ہیں ، اماموں کی اس نوع کا دامن وسیع ہے اور ممکن ہے کہ ایک وقت میں سیکڑوں امام موجود ہوں، لیکن اس معنی میں جو میں نے عرض کیا امام ریاست عامہ مسلمین کے عہدے پر ہے۔ یہ ہر زمانے میں صرف ایک ہوتا ہے، ایسا امام کہ اس کو حتمی طور پر سارے صفات حمیدہ و اخلاق پسندیدہ کا حامل ، علم وفضل ، شجاعت ، زہد، ورع اور تقوی میں سارے انسانوں سے بہتر اور منزل عصمت پر فائز ہونا چاہیئے۔ اور کبھی روز قیامت تک زمین ایسے امام کے وجود سے خالی نہ رہے گی۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا امام جو انسانیت کے تمام صفات حالیہ کا حامل ہو صفات روحانیت کے بلند ترین مقام پر ہوگا۔ اور یقینا ایسے امام کو خدائے تعالی کی طرف سے خصوص اور رسول اﷲ (ص) کی طرف سے منصوب ہونا چاہیئے کیونکہ یہ سارے ؟؟؟؟؟ حتی کہ انبیائے کرام سے بھی اعلی و ارفع ہوتا ہے۔

حافظ : ایک طرف تو آپ غالیوں کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف خود ہی امام کے بارے میں غلو کرتے ہیں اور اس کی منزل کو مقام بنوت سے بالاتر سمجھتے ہیں، حالانکہ عقلی دلائل کے علاوہ قرآن مجید نے بھی انبیاء کی منزل کو سب سے بلند قرار دیا ہے اور واجب و ممکن کے درمیان صرف انبیاء(ع) ہی کا مقام ہے آپ کا یہ دعوی چونکہ بلا دلیل ہے لہذا سراسر زبردستی اور نا قابل قبول چیز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ اپنے امام زمان کو نہ پہچانتا ہو تو وہ حقیقت میں جاہلیت کی موت مرا۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369