پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310252 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

(۷۰)

وقالعليه‌السلام

في سحرة اليوم الذي ضرب فيه

مَلَكَتْنِي عَيْنِي وأَنَا جَالِسٌ - فَسَنَحَ لِي رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه - مَا ذَا لَقِيتُ مِنْ أُمَّتِكَ مِنَ الأَوَدِ واللَّدَدِ فَقَالَ ادْعُ عَلَيْهِمْ فَقُلْتُ أَبْدَلَنِي اللَّه بِهِمْ خَيْراً مِنْهُمْ - وأَبْدَلَهُمْ بِي شَرّاً لَهُمْ مِنِّي.

قال الشريف - يعني بالأود الاعوجاج وباللدد الخصام - وهذا من أفصح الكلام.

(۷۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذم أهل العراق

وفيها يوبخهم على ترك القتال والنصر يكاد يتم ثم تكذيبهم له

أَمَّا بَعْدُ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ فَإِنَّمَا أَنْتُمْ كَالْمَرْأَةِ الْحَامِلِ - حَمَلَتْ فَلَمَّا أَتَمَّتْ أَمْلَصَتْ

(۷۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس سحرکے ہنگام جب آپکےسر اقدس پر ضربت لگائی گئی)

ابھی میں بیٹھا(۱) ہواتھا کہ اچانک آنکھ لگ گئی اور ایسا محسوس ہوا کہ رسول اکرم (ص) سامنے تشریف فرما ہیں۔میں نے عرض کی کہ میں نے آپ کی امت سے بے پناہ کجروی اوردشمنی کامشاہدہ کیا ہے۔فرمایا کہ بد دعا کرو ؟ تو میں نے یہ دعا کی۔خدایا مجھے ان سے بہتر قوم دیدے اور انہیں مجھ سے سخت تر رہنما دیدے۔

سید رضی فرماتا ہے اود سے مراد کجروی اور لدد سے مراد دشمنی ہے اور یہ فصیح ترین کلام میں سے ہے

(۷۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(اہل عراق کی مذمت کے بارے میں)

اما بعد!اے اہل عراق ! بس تمہاری مثال اس حاملہ عورت کی ہے جو(۹) ماہ تک بچہ کو شکم میں رکھے اور جب ولادت کا وقت آئے تو ساقط کردے

(۱)یہ بھی رویا ئے صادقہ کی ایک قسم ہے جہاں انسان واقعاً یہ دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے جیسے خواب کی باتوں کو بیداری کے عالم میں دیکھ رہا رسول اکرم (ص) کا خواب میں آاا کسی طرح کی تردید اور تشکیک کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے لیکن یہ مسئلہ بہر حال قابل غور ہے کہ جس وصی نے اتنے سارے مصائب برداشت کرلئے اوراف تک نہیں کی اس نے خواب میں رسول اکرم(ص)کو دیکھتے ہیں فریاد کیوں شروع کردی اورجس نبی نے ساری زندگی مظالم و مصائب کا سامنا کیا اور بد دعا نہیں کی' اس نے بد دعا کرنے کاحکم کس طرح دے دیا؟حقیقت امر یہ ہے کہ حالات اس منزل پرتھے جس کے بعد فریاد بھی برحق تھی اور بد دعا بھی لازم تھی۔اب یہ مولائے کائنات کا کمال کردار ہے کہ براہ راست قوم کی تباہی اور بربادی کی دعا نہیں کی بلکہ انہیں خود انہیں کے نظریات کے حوالہ کردیا کہ خدایا!یہ میری نظرمیں برے ہیں تو مجھے ان سے بہتر اصحاب دیدے اور میں ان کی نظرمیں برا ہوںتو انہیں مجھ سے بدترحاکم دیدے تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ برا حاکم کیسا ہوتا ہے۔

مولائے کائنات کی یہ دعا فی الفور قبول ہوگی اورچند لمحوں کے بعد آپ کو معصوم بندگان خدا کا جوار حاصل ہوگیا اور شریر قوم سے نجات مل گئی۔

۱۰۱

ومَاتَ قَيِّمُهَا وطَالَ تَأَيُّمُهَا ووَرِثَهَا أَبْعَدُهَا -. أَمَا واللَّه مَا أَتَيْتُكُمُ اخْتِيَاراً - ولَكِنْ جِئْتُ إِلَيْكُمْ سَوْقاً - ولَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّكُمْ تَقُولُونَ عَلِيٌّ يَكْذِبُ قَاتَلَكُمُ اللَّه تَعَالَى - فَعَلَى مَنْ أَكْذِبُ أَعَلَى اللَّه فَأَنَا أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِه - أَمْ عَلَى نَبِيِّه فَأَنَا أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَه - كَلَّا واللَّه لَكِنَّهَا لَهْجَةٌ غِبْتُمْ عَنْهَا - ولَمْ تَكُونُوا مِنْ أَهْلِهَا - وَيْلُ أُمِّه كَيْلًا بِغَيْرِ ثَمَنٍ لَوْ كَانَ لَه وِعَاءٌ - «ولَتَعْلَمُنَّ نَبَأَه بَعْدَ حِينٍ».

(۷۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

علم فيها الناس الصلاة على النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

وفيها بيان صفات الله سبحانه وصفة النبي والدعاء له

اور پھر اس کا شوہربھی مرجائے اوربیوگی کی مدت بھی طویل ہو جائے کہ قریب کا کوئی وارث نہ رہ جائے اور دور والے وارث ہو جائیں

خدا گواہ ہے کہ میں تمہارے پاس اپنے اختیارسے نہیں آیا ہوں بلکہ حالات کے جبر سے آیا ہوں اور مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم لوگ مجھ پرجھوٹ کا الزام لگاتے ہو۔خدا تمہیں غارت کرے۔میں کس کے خلاف غلط بیانی کروں گا؟

خدا کے خلاف؟ جب کہ میں نے سب سے پہلے ان کی تصدیق کی ہے۔

ہر گز نہیں ! بلکہ یہ بات ایسی تھی جو تمہاری سمجھ سے بالا تر تھی اور تم اس کے اہل نہیں تھے ۔خدا تم سے سمجھے۔میں تمہیں جواہر پارے ناپ ناپ کردے رہا ہوں اور کوئی قیمت نہیں مانگ رہا ہوں۔مگر اے کاش تمہارے پاس اس کا ظرف ہوتا۔اورعنقریب تمہیں اس کی حقیقت معلوم ہوجائے گی۔

(۷۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کو صلوات کی تعلیم دی گئی ہے اور صفات خدا و رسول (ص) کا ذکر کیا گیا ہے )

۱۰۲

صفات الله

اللَّهُمَّ دَاحِيَ الْمَدْحُوَّاتِ ودَاعِمَ الْمَسْمُوكَاتِ وجَابِلَ الْقُلُوبِ عَلَى فِطْرَتِهَا شَقِيِّهَا وسَعِيدِهَا.

صفات النبي

اجْعَلْ شَرَائِفَ صَلَوَاتِكَ - ونَوَامِيَ بَرَكَاتِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ ورَسُولِكَ - الْخَاتِمِ لِمَا سَبَقَ والْفَاتِحِ لِمَا انْغَلَقَ والْمُعْلِنِ الْحَقَّ بِالْحَقِّ والدَّافِعِ جَيْشَاتِ الأَبَاطِيلِ والدَّامِغِ صَوْلَاتِ الأَضَالِيلِ كَمَا حُمِّلَ فَاضْطَلَعَ قَائِماً بِأَمْرِكَ

اے خدا! اے فرش زمین کے بچھانے) ۱) والے اور بلند ترین آسمانوں کو روکنے والے اوردلوں کو ان کی نیک بخت یا بد بخت فطرتوں پر پیدا کرنے والے '

اپنی پاکیزہ ترین اور مسلسل بڑھنے والے برکات کو اپنے بندہ اور رسول حضرت محمد (ص) پر قراردے جو سابق نبوتوں کے ختم کرنے والے ' دل و دماغ کے بند دروازوں کو کھولنے والے ' حق کے ذریعہ(۲) حق کا اعلان کرنے والے' باطل کے جوش و خروش کودفع کرنے والے اور گمراہیوں کے حملوں کا سر کچلنے والے تھے۔جو بار جس طرح ان کے حوالہ کیا گیا انہوں نے اٹھالیا۔تیرے امر کے ساتھ قیام کیا۔

(۱)وحوالارض کے بارے میں دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔بعض حضرت کاخیال ہے کہ زمین کوآفتاب سے الگ کرکے فضائے بسیط میں لڑھکا دیا گیا اوراسی کا نام دحوالارض ہے اوربعض حضرات کا کہنا ہے کہ دحو کے معنی فرش بچھانے کے ہیں۔گویا کہ زمین کو ہموار بنا کر قابل سکونت بنادیا گیا اور یہی دحوالارض ہے۔بہر حال روایات میں اس کی تاریخ ۲۵ ذی قعدہ بتائی گئی ہے جس تاریخ کو سرکار دو عالم (ص)حجة الوداع کے لئے مدینہ سے برآمد ہوئے تھے اورتخلیق ارض کی تاریخ مقصد تخلیق سے ہم آہنگ ہوگئی تھی۔اس تاریخ میں روزہ رکھنا بے پناہ ثواب کا حامل ہے اوریہ تاریخ سال کے ان چار دنوں میں شامل ہے جس کا روزہ اجربے حساب رکھتا ہے۔ ۲۵ ذی قعدہ۔۱۷ ربیع الاول۔۲۷ رجب۔۱۸ ذی الحجہ

غور کیجئے ' تو یہ نہایت درجہ حسین انتخاب قدرت ہے کہ پہلا دن وہ ہے جس میں زمین کا فرش بچھایا گیا ۔دوسرا دن وہ ہے جب مقصد تخلیق کائنات کو زمین پر بھیجا گیاتیسرا دن وہ ہے جب اس کے منصب کا اعلان کرکے اس کا کام شروع کرایا گیا اور آخری دن وہ ہے جب اس کا کام مکمل ہوگیا اورصاحب منصب کو''اکملت لکم دینکم'' کی سند مل گئی۔

(۲)یہ اسلام کا مخصوص فلسفہ ہے جو دنیا داری کے کسی نظام میں نہیں پایا جاتاہے۔دنیا داری کا مشہور و معروف نظام و اصول یہ ہے کہ مقصد ہرذریعہ کو جائز بنادیتا ہے۔انسانت کوفقط یہ دیکھنا چاہیے کہ مقصد صحیح اوربلند ہو۔اس کے بعد اس مقصد تک پہنچنے کے لئے کوئی بھی راستہ اختیار کرلے اس میں کوئی حرج اورمضائقہ نہیں ہے لیکن اسلام کا نظام اس سے بالکل مختلف ہے۔وہ دنیا میں مقصد اور مذہب دونوں کا پیغام لے کرآیا ہے۔اس نے'' ان الدین '' کہہ کر اعلان کیا ہے کہ اسلام طریقہ حیات ہے اورعند الله '' کہہ کر واضح کیا ہے کہ اس کا ہدف حقیقی ذات پروردگار سے۔لہٰذا وہ نہ غلط مقصد کو مقصد قرا دینے کی اجازت دے سکتا ہے اورنہ غلط راستہ کو راستہ قرار دینے کی۔اس کا منشاء یہ ہے کہ اس کے ماننے والے صحیح راستہ پرچلیں اور اسی راستہ کے ذریعہ منزل تک پہنچیں۔چنانچہ مولائے کائنات نے سرکاردو عالم (ص) کی اسی فضیلت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ نے جاہلیت کے نقار خانہ میں آواز حق بلند کی ہے لیکن اسآواز کو بلند کرنے کا طریقہ اور راستہ بھی صحیح اختیار کیا ہے ورنہ جاہلیت میں آواز بلند کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ اس قدرش ور مچائو کہ دوسرے کی آواز نہ سنائی دے۔اسلام ایسے احمقانہ انداز فکر کی حمایت نہیں کر سکتا ہے۔وہ اپنے فاتحین سے بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ حق کا پیغام حق کے راستہ ے پہنچائوں' غارت گری اور لو ٹ مار کے ذریعہ نہیں۔یہ اسلام کی پیغام رسانی نہیں ہے۔خدا اور رسول (ص) کے لئے ایذا رسانی ہے جس کا جرم انتہائی سنگین ہے اور اس کی سزا دنیا و آخرت دونوں کی لعنت ہے۔

۱۰۳

مُسْتَوْفِزاً فِي مَرْضَاتِكَ - غَيْرَ نَاكِلٍ عَنْ قُدُمٍ ولَا وَاه فِي عَزْمٍ - وَاعِياً لِوَحْيِكَ حَافِظاً لِعَهْدِكَ - مَاضِياً عَلَى نَفَاذِ أَمْرِكَ حَتَّى أَوْرَى قَبَسَ الْقَابِسِ وأَضَاءَ الطَّرِيقَ لِلْخَابِطِ وهُدِيَتْ بِه الْقُلُوبُ بَعْدَ خَوْضَاتِ الْفِتَنِ والآثَامِ - وأَقَامَ بِمُوضِحَاتِ الأَعْلَامِ ونَيِّرَاتِ الأَحْكَامِ - فَهُوَ أَمِينُكَ الْمَأْمُونُ وخَازِنُ عِلْمِكَ الْمَخْزُونِ وشَهِيدُكَ يَوْمَ الدِّينِ وبَعِيثُكَ بِالْحَقِّ - ورَسُولُكَ إِلَى الْخَلْقِ.

الدعاء للنبي

اللَّهُمَّ افْسَحْ لَه مَفْسَحاً فِي ظِلِّكَ واجْزِه مُضَاعَفَاتِ الْخَيْرِ مِنْ فَضْلِكَ - اللَّهُمَّ وأَعْلِ عَلَى بِنَاءِ الْبَانِينَ بِنَاءَه - وأَكْرِمْ لَدَيْكَ مَنْزِلَتَه وأَتْمِمْ لَه نُورَه - واجْزِه مِنِ ابْتِعَاثِكَ لَه مَقْبُولَ الشَّهَادَةِ - مَرْضِيَّ الْمَقَالَةِ ذَا مَنْطِقٍ عَدْلٍ وخُطْبَةٍ فَصْلٍ - اللَّهُمَّ اجْمَعْ بَيْنَنَا وبَيْنَه فِي بَرْدِ الْعَيْشِ وقَرَارِ النِّعْمَةِ ومُنَى الشَّهَوَاتِ وأَهْوَاءِ اللَّذَّاتِ، ورَخَاءِ الدَّعَةِ ومُنْتَهَى الطُّمَأْنِينَةِ وتُحَفِ الْكَرَامَةِ

تیری مرضی کی راہ میں تیز قدم بڑھاتے رہے۔نہ آگے بڑھنے سے انکارکیا اور نہ ان کے ارادوں میں کمزوری آئی۔تیری وحی کو محفوظ کیا۔تیرے عہد کی حفاظت کی تیرے حکم کے نفاذ کی راہمیں بڑھتے رہے۔یہاں تک کہ روشنی کی جستجو کرنے والوں کے لئے آگ روشن کردی اور گم کر دہ راہ کے لئے راستہ واضح کردیا۔ان کے ذریعہ دلوں نے فتنوں اور گناہوں میں غرق رہنے کے بعد بھی ہدایت پالی اور انہوں نے راستہ دکھانے والے نشانات اور واضح احکام قائم کردئیے۔وہ تیرے امانت داربندہ' تیرے پوشیدہ علوم کے خزانہ دار' روز قیامت کے لئے تیرے گواہ' حق کے ساتھ بھیجے ہوئے اورمخلوقات کی طرف تیرے نمائندہ تھے۔

خدایا ان کے لئے اپنے سایہ رحمت میں وسیع ترین منزل قراردیدے اور ان کے خیر کو اپنے فضل سے دگنا چوگنا کردے۔خدایا ان کی عمارت کو تمام عمارتوں سے بلند تر اور ان کی منزل کو اپنے پاس بزرگ تربنادے۔ان کے نورکی تکمیل فرما اور اپنی رسالت کے صلہ میں انہیں مقبول شہادت اور پسندیدہ اقوال کا انعام عنایت کرکہ ان کی گفتگو ہمیشہ عادلانہ اور ان کا فیصلہ ہمیشہ حق و باطل کے درمیان حد فاصل رہا ہے۔

خدایا ہمیں ان کے ساتھ خوشگوارزندگی' نعمات کی منزل ' خواہشات و لذات کی تکمیل کے مرکز۔آرائش و طمانیت کے مقام اور کرامت و شرافت کے تحفوں کی منزل پر جمع کردے ۔

۱۰۴

(۷۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لمروان بن الحكم بالبصرة

قَالُوا: أُخِذَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ أَسِيراً يَوْمَ الْجَمَلِ - فَاسْتَشْفَعَ الْحَسَنَ والْحُسَيْنَعليه‌السلام إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام - فَكَلَّمَاه فِيه فَخَلَّى سَبِيلَه فَقَالَا لَه - يُبَايِعُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ

قَالَعليه‌السلام :

أَولَمْ يُبَايِعْنِي بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ - لَا حَاجَةَ لِي فِي بَيْعَتِه إِنَّهَا كَفٌّ يَهُودِيَّةٌ لَوْ بَايَعَنِي بِكَفِّه لَغَدَرَ بِسَبَّتِه أَمَا إِنَّ لَه إِمْرَةً كَلَعْقَةِ الْكَلْبِ أَنْفَه - وهُوَ أَبُو الأَكْبُشِ الأَرْبَعَةِ وسَتَلْقَى الأُمَّةُ مِنْه ومِنْ وَلَدِه يَوْماً أَحْمَرَ.

(۷۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما عزموا على بيعة عثمان

(۷۳)

(جو مروان بن الحکم سے بصرہ میں فرمایا)

کہا جاتا ہے کہ جب مروان بن الحکم جنگ جمل میں گرفتار ہوگیا تو امام حسن و حسین) ۱ ( نے امیرالمومنین سے اس کی سفارش کی اور آپ نے اسے آزاد کردیا تو دونوں حضرت نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین ! یہ اب آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے۔تو آپ نے فرمایا:

کیا اس نے قتل عثمان کے بعد میری بیعت نہیں کی تھی؟ مجھے اس کے بیعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہ ایک یہودی قسم کا ہاتھ ہے۔اگر ہاتھ سے بیعت کر بھی لے گا تو رکیک طریقہ سے اسے توڑ ڈالے گا۔یاد رکھو اسے بھی حکومت ملے گی مگر صر ف اتنی دیر جتنی دیرمیں کتا اپنی ناک چاٹتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ چار بیٹیوں کا باپ بھی ہے اور امت اسلامیہ اس سے اور اس کی اولاد سے بد ترین دن دیکھنے والی ہے۔

(۷۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا)

(۱)آل محمد (ص) کے اس کردار کا تاریخ کائنات میں کوئی جواب نہیں ہے۔انہوں نے ہمیشہ فضل و کرم سے کام لیا ہے۔حد یہ ہے کہ اگر معاذ اللہ امام حسن و امام حسین کی سفارش کو مستقبل کے حالات سے نا واقفیت بھی تصور کرلیا جائے تو امام زین العابدین کے طرز عمل کو کیا کہا جا سکتا ہے جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد بھی مروان کے گھر والوں کو پناہ دی ہے اور اس بے حیا نے حضرت سے پناہ کی درخواست کی ہے۔درحقیقت یہ بھی یہودیت کی ایک شاخ ہے کہ وقت پڑنے پر ہر ایک کے سامنے ذلیل بن جائو اور کام نکلنے کے بعد پروردگار کی نصیحتوں کی بھی پرواہ نہ کرو۔اللہ دین اسلام کو ہر دور کی یہودیت سے محفوظ رکھے۔

۱۰۵

لَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَحَقُّ النَّاسِ بِهَا مِنْ غَيْرِي - ووَ اللَّه لأُسْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُورُ الْمُسْلِمِينَ - ولَمْ يَكُنْ فِيهَا جَوْرٌ إِلَّا عَلَيَّ خَاصَّةً - الْتِمَاساً لأَجْرِ ذَلِكَ وفَضْلِه - وزُهْداً فِيمَا تَنَافَسْتُمُوه مِنْ زُخْرُفِه وزِبْرِجِه

(۷۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما بلغه اتهام بني أمية له بالمشاركة في دم عثمان

أَولَمْ يَنْه بَنِي أُمَيَّةَ عِلْمُهَا بِي عَنْ قَرْفِي أَومَا وَزَعَ الْجُهَّالَ سَابِقَتِي عَنْ تُهَمَتِي - ولَمَا وَعَظَهُمُ اللَّه بِه أَبْلَغُ مِنْ لِسَانِي - أَنَا حَجِيجُ الْمَارِقِينَ وخَصِيمُ النَّاكِثِينَ الْمُرْتَابِينَ وعَلَى كِتَابِ اللَّه تُعْرَضُ الأَمْثَالُ وبِمَا فِي الصُّدُورِ تُجَازَى الْعِبَادُ!

تمہیں معلوم ہے کہ میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خلافت کا حقدار ہوں اور خدا گواہ ہے کہ میں اس وقت تک حالات(۲) کاساتھ دیتا رہوں گا جب تک مسلمانوں کے مسائل ٹھیک رہیں اور ظلم صرف میری ذات تک محدود رہے تاکہ میں اس کا اجرو ثواب حاصل کر سکوں اور اس زیب و زینت دنیا سے اپنی بے نیازی کا اظہار کر سکوں جس کے لئے تم سب مرے جا رہے ہو۔

(۷۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کو خبر ملی کہ بنی امیہ آپ پر خون عثمان کا الزام لگا رہے ہیں)

کیا بنی امیہ کے واقعی معلومات انہیں مجھ پر الزام تراشی سے نہیں روک سکے اور کیا جاہلوں کو میرے کارنامے اس اتہام سے باز نہیں رکھ سکے؟ یقینا پروردگار نے تہمت و افترا کے خلاف جو نصیحت فرمائی ہے وہ میرے بیان سے کہیں زیادہ بلیغ ہے۔میں بہر حال ان بے دینوں پرحجت تمام کرنے والا'ان عہد شکن مبتلائے تشکیک افراد کا دشمن ہوں۔اور تمام مشتبہ معاملات کو کتاب خداپرپیش کرنا چاہیے۔اور روز قیامت بندوں کا حساب ان کے دلوں کے مضمرات (نیتوں) ہی پر ہوگا۔

(۲)امیر المومنین کا مقصد یہ ہے کہ خلافت میرے لئے کسی ہدف اور مقصد حیات کا مرتبہ نہیں رکھتی ہے۔یہ در حقیقت عام انسانیت کے لئے سکون و اطمینان فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔لہٰذا اگر یہ مقصد کسی بھی ذریعہ سے حاصل ہوگیا تو میرے لئے سکوت جائز ہو جائے گا اور میں اپنے اوپر ظلم کو برداشت کرلوں گا۔دوسرا فقرہ اس بات کی دلیل ہے کہ باطل خلافت سے مکمل عدل و اناصف اور سکون و اطمینان کی توقع محال ہے لیکن مولائے کائنات کا منشاء یہ ہے کہ اگر ظلم کا نشانہ میری ذات ہوگی تو برداشت کرلوں گا لیکن عوام الناس ہوں گے اور میرے پاس مادی طاقت ہوگی تو ہرگز برداشت نہ کروں گا کہ یہ عہد الٰہی کے خلاف ہے۔

۱۰۶

(۷۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الحث على العمل الصالح

رَحِمَ اللَّه امْرَأً سَمِعَ حُكْماً فَوَعَىودُعِيَ إِلَى رَشَادٍ فَدَنَا وأَخَذَ بِحُجْزَةِ هَادٍ فَنَجَا - رَاقَبَ رَبَّه وخَافَ ذَنْبَه قَدَّمَ خَالِصاً وعَمِلَ صَالِحاً - اكْتَسَبَ مَذْخُوراً واجْتَنَبَ مَحْذُوراً - ورَمَى غَرَضاً وأَحْرَزَ عِوَضاً كَابَرَ هَوَاه وكَذَّبَ مُنَاه - جَعَلَ الصَّبْرَ مَطِيَّةَ نَجَاتِه والتَّقْوَى عُدَّةَ وَفَاتِه - رَكِبَ الطَّرِيقَةَ الْغَرَّاءَ ولَزِمَ الْمَحَجَّةَ الْبَيْضَاءَ - اغْتَنَمَ الْمَهَلَ وبَادَرَ الأَجَلَ وتَزَوَّدَ مِنَ الْعَمَلِ.

(۷۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں عمل صالح پرآمادہ کیا گیا ہے)

خدا رحمت نازل(۱) کرے اس بندہ پر جو کسی حکمت کو سنے تو محفوظ کرلے اور اسے کسی ہدایت کی دعوت دی جائے تو اس سے قریب تر ہو جائے اور کسی راہنما سے وابستہ ہو جائے تو نجات حاصل کرلے۔اپنے پروردگار کو ہر وقت نظر میں رکھے اور گناہوں سے ڈرتا رہے۔خالص اعمال کوآگے بڑھائے اور نیک اعمال کرتا رہے۔قابل ذخیرہ ثواب حاصل کرے۔قابل پرہیز چیزوں سے اجتناب کرے۔مقصد کو نگاہوں میں رکھے۔اجرسمیٹ لے۔خواہشات پر غالب آجائے اورتمنائوں کو جھٹلادے ۔صبر کو نجات کا مرکب بنالے اورتقویٰ کو وفات کاذخیرہ قرار دے لے۔روشن راستہ پر چلے اور واضح شاہراہ کو اختیار کرلے۔مہلت حیات کو غنیمت قراردے اور موت کی طرف خود سبقت کرے اور عمل کا زاد راہ لے کرآگے بڑھے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رحمت الٰہی کا دائرہ بے حد وسیع ہے اور مسلم و کافر۔دین دارو بے دین سب کو شامل ہے۔یہ ہمیشہ غضب الٰہی سے آگے آگے چلتی ہے۔لیکن روز قیامت اس رحمت کا استحقاق آسان نہیں ہے۔وہ حساب کادن ہے اور خدائے واحد قہار کی حکومت کا دن ہے۔لہٰذا اس دن رحمت خداکے استحقاق کے لئے ان تمام چیزوں کواختیارکرنا ہوگا جن کی طرف مولائے کائنات نے اشارہ کیا ہے اور ان کے بغیر رحمة اللعالمین کا کلمہ اور ان کی محبت کا دعویٰ بھی کام نہیں آسکتا ہے۔دنیا کے احکام الگ ہیں اور آخرت کے احکام الگ ہیں۔یہاں کا نظام رحمت الگ ہے اور وہاں کا نظام مکافات و مجازات الگ۔

۱۰۷

(۷۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وذلك حين منعه سعيد بن العاص حقه

إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ لَيُفَوِّقُونَنِي تُرَاثَ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تَفْوِيقاً - واللَّه لَئِنْ بَقِيتُ لَهُمْ - لأَنْفُضَنَّهُمْ نَفْضَ اللَّحَّامِ الْوِذَامَ التَّرِبَةَ!

قال الشريف - ويروى التراب الوذمة وهو على القلب

قال الشريف وقولهعليه‌السلام ليفوقونني - أي يعطونني من المال قليلا كفواق الناقة - وهو الحلبة الواحدة من لبنها -. والوذام جمع وذمة - وهي الحزة من الكرش أو الكبد تقع في التراب فتنفض.

(۷۸)

من كلمات كانعليه‌السلام

من كلمات كانعليه‌السلام يدعو بها

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِه مِنِّي - فَإِنْ عُدْتُ فَعُدْ عَلَيَّ بِالْمَغْفِرَةِ

(۷۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب سعید بن العاص نے آپ کو آپ کے حق سے محروم کردیا)

یہ بنی امیہ مجھے میراث پیغمبر(ص) کوبھی تھوڑا تھوڑا کرکے دے رہے ہیں حالانکہ اگر میں زندہ رہ گیا تو اس طرح جھاڑ کرپھینک(۱) دوں گاجس طرح قصاب گوشت کے ٹکڑے سے مٹی کوجھاڑ دیتا ہے۔

سید رضی :بعض روایات میں '' وذام تربہ''کے بجائے ''تراب الوذمہ''ہے جو معنی کے اعتبارسےمعکوس ترکیب ہے۔''لیفو قوفنی''کامفہوم ہے مال کا تھوڑا تھوڑا کرکے دنیا جس طرح کہ اونٹ کا دودھ نکالا جاتا ہے۔فواق اونٹ کا ایک مرتبہ کا دوھا ہوا دودھ ہے اوروذام وذمہ کی جمع ہے جس کے معنی ٹکڑےکےہیں یعنی جگہ یاآنتوں کاوہ ٹکڑا جوزمین پر گر جائے۔

(۷۸)

آپ کی دعا

(جسے برابر تکرار فرمایا کرتے تھے)

خدایا میری خاطر ان چیزوں کو معاف کردے جنہیں تو مجھ سے بہتر جانتا ہے اور اگر پھران امور کی تکرار ہوتو تو ' بھی مغفرت کی تکرار فرما:

(۱)کتنی حسین تشبیہ ہے کہ بنی امیہ کی حیثیت اسلام میں نہ جگر کی ہے نہ معدہ کی اورنہ جگر کے ٹکڑے کی ۔یہ وہ گروہیں جو الگ ہو جانے والے کپڑے سے چپک جاتی ہے لیکن گوشت کا استعمال کرنے والا اسے بھی برداشت نہیں کرتا ہے اوراسے جھاڑنے کے بعد ہی خریدار کے حوالے کر تا ہے تاکہ دکان بد نام نہ ہونے پائے اور تاجر نا تجربہ کار اور بذ ذوق نہ کہا جاسکے !

۱۰۸

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا وَأَيْتُ مِنْ نَفْسِي ولَمْ تَجِدْ لَه وَفَاءً عِنْدِي - اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا تَقَرَّبْتُ بِه إِلَيْكَ بِلِسَانِي ثُمَّ خَالَفَه قَلْبِي اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي رَمَزَاتِ الأَلْحَاظِ وسَقَطَاتِ الأَلْفَاظِ وشَهَوَاتِ الْجَنَانِ وهَفَوَاتِ اللِّسَانِ

(۷۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لبعض أصحابه - لما عزم على المسير إلى الخوارج، وقد قال له: إن سرت يا أمير المؤمنين، في هذا الوقت، خشيت ألا تظفر بمرادك، من طريق علم النجوم

فقالعليه‌السلام : أَتَزْعُمُ أَنَّكَ تَهْدِي إِلَى السَّاعَةِ الَّتِي مَنْ سَارَ فِيهَا صُرِفَ عَنْه السُّوءُ - وتُخَوِّفُ مِنَ السَّاعَةِ الَّتِي مَنْ سَارَ فِيهَا حَاقَ بِه الضُّرُّ فَمَنْ صَدَّقَكَ بِهَذَا فَقَدْ كَذَّبَ الْقُرْآنَ - واسْتَغْنَى عَنِ الِاسْتِعَانَةِ بِاللَّه - فِي نَيْلِ الْمَحْبُوبِ ودَفْعِ الْمَكْرُوه وتَبْتَغِي فِي قَوْلِكَ لِلْعَامِلِ بِأَمْرِكَ - أَنْ يُولِيَكَ الْحَمْدَ دُونَ رَبِّه - لأَنَّكَ بِزَعْمِكَ أَنْتَ هَدَيْتَه إِلَى السَّاعَةِ - الَّتِي نَالَ فِيهَا النَّفْعَ وأَمِنَ الضُّرَّ.

خدایا ان وعدوں کے بارے میں بھی مغفرت فرما جن کا تجھ سے وعدہ کیا گیا لیکن انہیں وفا نہ کیا جاسکا۔خدایا ان اعمال کی بھی غفرت فرما جن میں زبان سے تیری قربت اختیار کی گئی لیکن دل نے اس کی مخالفت ہی کی۔

خدایا آنکھوں کے طنز یہ اشاروں ۔دہن کے ناشائستہ کلمات۔دل کی بے جا خواہشات اور زبان کی ہر زہ سرائیوں کو بھی معاف فرمادے۔

(۷۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب جنگ خوارج کے لئے نکلتے وقت بعض اصحاب نے کہا کہ امیر المومنین اس سفر کے لئے کوئی دوسرا وقت اختیار فرمائیں۔اس وقت کامیابی کے امکانات نہیں ہیں کہ علم نجوم کے حسابات سے یہی اندازہ ہوتا ہے)

کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ تمہیں وہ ساعت معلوم ہے جس میں نکلنے والے سے بلائیں ٹل جائیں گی اورتم اس ساعت سے ڈرانا چاہتے ہو جس میں سفر کرنے والا نقصانات میں گھرجائے گا؟ یاد رکھو جو تمہارے اس بیان کی تصدیق کرے گا وہ قرآن کی تکذیب کرنے والا ہوگا اور محبوب اشیاء کے حصول اور نا پسندیدہ امور کے دفع کرنے میں مدد خدا سے بے نیاز ہو جائے گا۔کیا تمہاریخواہش یہ ہے کہ تمہارے افعال کے مطابق عمل کرنے والا پروردگار کے بجائے تمہاری ہی تعریف کرے اس لئے کہ تم نے اپنے خیال میں اسے اس ساعت کا پتہ بتا دیا ہے جس میں منفعت حاصل کی جاتی ہے اور نقصانات سے محفوظ رہا جاتا ہے۔

۱۰۹

ثم أقبلعليه‌السلام على الناس فقال:

أَيُّهَا النَّاسُ - إِيَّاكُمْ وتَعَلُّمَ النُّجُومِ إِلَّا مَا يُهْتَدَى بِه فِي بَرٍّ أَوْ بَحْرٍ - فَإِنَّهَا تَدْعُو إِلَى الْكَهَانَةِ - والْمُنَجِّمُ كَالْكَاهِنِ والْكَاهِنُ كَالسَّاحِرِ والسَّاحِرُ كَالْكَافِرِ - والْكَافِرُ فِي النَّارِ سِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّه

(۸۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد فراغه من حرب الجمل في ذم النساء ببيان نقصهن

مَعَاشِرَ النَّاسِ إِنَّ النِّسَاءَ نَوَاقِصُ الإِيمَانِ - نَوَاقِصُ الْحُظُوظِ، نَوَاقِصُ الْعُقُولِ

ایہا الناس! خبر دار نجوم کا(۱) مت حاصل کرو مگر اتنا ہی جس سے برو بحر میں راستے دریافت کئے جا سکیں۔ کہ یہ علم کہانت کی طرف لے جاتا ہے اور منجم بھی ایک طرح کا کاہن ( غیب کی خبر دینے والا ) ہو جاتا ہے جب کہ کاہن جادوگرجیسا ہوتا ہے اور جادو گر کافر جیسا ہوتا ہے اور کافر کا انجام جہنم ہے۔چلو نام خدا لے کرنکل پڑو۔

(۸۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جنگ جمل سے فراغت کے بعد عورتوں کی مذمت کے بارے میں)

لوگو! یاد رکھو کہ عورتیں ایمان کے اعتبارسے' میراث کے حصہ کے اعتبار سے اور عقل کے اعتبارسے ناقص ہوتی ہیں۔

(۱)واضح رہے کہ علم نجوم حاصل کرنے سے مراوان اثرات ونتائج کا معلوم کرنا ہے جو ستاروں کی حرکات کے بارے میں اس علم کے مدعی حضرات نے بیان کئے ہیں ورنہ اصل ستاروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا کوئی عیب نہیں ہے۔اس سے انسان کے ایمان اورعقیدہ میں بھی استحکام پیدا ہوتا ہے اور بہت سے دوسرے مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں۔اور ستاروں کاوہ علم جو ان کے حقیقی اثرات پرمبنی ہے ایک فضل و شرف ہے اورعلم پروردگارکا ایک شعبہ ہے وہ جسے چاہتا ہے عنایت کر دیتا ہے۔

امام علیہ السلام نے اولا علم نجوم کو کہانت کا ایک شعبہ قرار دیا کہ غیب کی خبر دینے والے اپنے اخبار کے مختلف مآخذ ومدارک بیان کرتے ہیں۔جن میں سے ایک علم نجوم بھی ہے۔اس کے بعد جب ہ غیب کی خبریں بیان کر دیتے ہیں تو انہیں خبروں کے ذریعہ انسان کے دل و دماغ پر مسلط ہو جانا چاہتے ہیں جو جادوگری کا ایک شعبہ ہے اور جادوگری انسان کو یہ محسوس کرانا چاہتی ہے کہ اس کائنات میں عمل دخل ہمارا ہی ہے اور اس جادو کا چڑھانا اوراتارنا ہمارے ہی بس کا کام ہے' دوسرا کوئی یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتا ہے اور اسی کا نام کفر ہے۔

۱۱۰

فَأَمَّا نُقْصَانُ إِيمَانِهِنَّ - فَقُعُودُهُنَّ عَنِ الصَّلَاةِ والصِّيَامِ فِي أَيَّامِ حَيْضِهِنَّ - وأَمَّا نُقْصَانُ عُقُولِهِنَّ فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ كَشَهَادَةِ الرَّجُلِ الْوَاحِدِ - وأَمَّا نُقْصَانُ حُظُوظِهِنَّ - فَمَوَارِيثُهُنَّ عَلَى الأَنْصَافِ مِنْ مَوَارِيثِ الرِّجَالِ - فَاتَّقُوا شِرَارَ النِّسَاءِ وكُونُوا مِنْ خِيَارِهِنَّ عَلَى حَذَرٍ - ولَا تُطِيعُوهُنَّ فِي الْمَعْرُوفِ حَتَّى لَا يَطْمَعْنَ فِي الْمُنْكَرِ.

(۸۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في الزهد

أَيُّهَا النَّاسُ الزَّهَادَةُ قِصَرُ الأَمَلِ - والشُّكْرُ عِنْدَ النِّعَمِ والتَّوَرُّعُ عِنْدَ الْمَحَارِمِ - فَإِنْ عَزَبَ ذَلِكَ عَنْكُمْ فَلَا يَغْلِبِ الْحَرَامُ صَبْرَكُمْ - ولَا تَنْسَوْا عِنْدَ النِّعَمِ شُكْرَكُمْ

ایمان کے اعتبار(۱) سے ناقص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ امام حیض میں نماز روزہ سے بیٹھ جاتی ہیں اور عقلوں کے اعتبار سے ناقص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں دو عورتوں کی گواہی ایک مردکے برابر ( ہوتی ہے۔حصہ کی کمی یہ ہے کہ انہیں میراث میں حصہ مردوں کے آدھے حصہ کے برابر ملتا ہے ۔ لہٰذا تم بدترین عورتوں سے بچتے رہو اور بہترین عورتوں سے بھی ہوشیار رہو اورخبردار نیک کام بھی ان کی اطاعت کی بنا پر انجام نہ دینا کہ انہیں برے کام کا حکم دینے کاخیال پیدا ہو جائے۔

(۸۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(زہد کے بارے میں)

ایہاالناس! زاہد امیدوں کے کم کرنے' نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اورمحرمات سے پرہیز کرنے کا نام ہے۔اب اگر یہ کام تمہارے لئے مشکل ہو جائے تو کم از کم اتنا کرناکہ حرام تمہاری قوت برداشت پر غالب نہ آنے پائے اور نعمتوں کے موقع پر شکریہ کو فراموش نہ کر دینا

(۱)اس خطبہ میں اس نکتہ پر نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ جنگ جمل کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے اور اس کے مفاہیم میں کلیات کی طرح صورت حال اور تجربات کابھی دخل ہو سکتا ہے یعنی یہ کوئی لازم نہیں ہے کہ اس کا اطلاق ہر عورت پر ہو جائے۔دنیا میں ایسی خاتون بھی ہو سکتی ہے جو نسوانی عوارض سے پاک ہو۔اس کی گواہی بنض قرآن تنہا قابل قبول ہو اور وہ اپنے باپ کی تنہا وارث ہو۔ظاہر ہے کہ اس خاتون میں کسی طرح کا نقص نہیں پایا جاتا ہے جیسے جناب فاطمہ اور ایسی عورت بھی ہو سکتی ہے جس میں سارے نقائص پائے جاتے ہوں اور ان فطری نقائص کے ساتھ کرداری اور ایمانی نقائص بھی ہوں کہ یہ عورت ہر اعتبار سے قابل لعنت و مذمت ہو۔قوانین کا دارومدار نہ قسم اول پر ہوسکتا ہے اورنہ قسم دوم پر۔قوانین کا اطلاق درمیانی قسم پر ہوتا ہے۔جس میں کسی طرح کا امتیاز نہ پایا جاتا ہو اور صرف فطرت نسوانی کی کارفرمائی ہواور امیر المومنین کی اطاعت کی تھی یا انہیں بھڑکایا تھا۔پھر امیر المومنین امام معصوم ہیں کوئی جذباتی انسان نہیں ہیں اور ان سے پہلے رسول اکرم (ص) بھی یہ بات فرماچکے ہیں۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس اعلان کے لئے ایک مناسب موقع ہاتھ آگیا جہاں اپنی بات کو بخوبی واضح کیا جا سکتا ہے اور عورت کے اتباع کے نتائج سے باخبر کیا جا سکتا ہے۔

۱۱۱

فَقَدْ أَعْذَرَ اللَّه إِلَيْكُمْ بِحُجَجٍ مُسْفِرَةٍ ظَاهِرَةٍ - وكُتُبٍ بَارِزَةِ الْعُذْرِ وَاضِحَةٍ.

(۸۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذم صفة الدنيا

مَا أَصِفُ مِنْ دَارٍ أَوَّلُهَا عَنَاءٌ وآخِرُهَا فَنَاءٌ - فِي حَلَالِهَا حِسَابٌ وفِي حَرَامِهَا عِقَابٌ - مَنِ اسْتَغْنَى فِيهَا فُتِنَ - ومَنِ افْتَقَرَ فِيهَا حَزِنَ ومَنْ سَاعَاهَا فَاتَتْه - ومَنْ قَعَدَ عَنْهَا وَاتَتْه ومَنْ أَبْصَرَ بِهَا بَصَّرَتْه ومَنْ أَبْصَرَ إِلَيْهَا أَعْمَتْه.

قال الشريف - أقول وإذا تأمل المتأمل قولهعليه‌السلام ومن أبصر بها بصرته - وجد تحته من المعنى العجيب والغرض البعيد - ما لا تبلغ غايته ولا يدرك غوره - لا سيما إذا قرن إليه قوله ومن أبصر إليها أعمته - فإنه يجد الفرق بين أبصر بها - وأبصر إليها واضحا نيرا وعجيبا باهرا

کہ پروردگار نے نہایت درجہ واضح اور روشن دلیلوں اورحجت تمام کرنے والی کتابوں کے ذریعہ تمہارے ہر عذر کا خاتمہ کردیا ہے۔

(۸۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(دنیا کے صفات کے بارے میں )

میں اس دنیا کے بارے میں کیا کہوں جس کی ابتدا رنج و غم اورانتہا فنا ونیستی ہے۔اس کے حلال میں حساب میں ہے اور حرام میں عقاب ۔جو اس میں غنی ہو جائے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہو جائے اور جو فقیر ہو جائے وہ رنجیدہ و افسردہ ہو جائے۔جو اس کی طرف دوڑ لگائے اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور جو منہ پھیر کر بیٹھ رہے اس کے پاس حاضر ہو جائے۔جو اس کو ذریعہ بنا کر آگے دیکھے اسے بینا بنا دے اور جو اس کو منظور نظر بنالے اسے اندھا بنادے۔

سید رضی : اگر کوئی شخص حضرت کے اس ارشاد گرامی'' من ابصر بها بصرته'' میں غورکرے تو عجیب و غریب معانی اور دور رس حقائق کا ادراک کرلے گا جن کی بلندیوں اورگہرائیوں کا ادراک ممکن نہیں ہے۔خصوصیت کے ساتھ اگر دوسرے فقرہ'' من ابصر الیها اعتمه'' کوملایا جائے تو''ابصر بها '' اور ''ابصر الیها '' کا فرق اور نمایاں ہو جائے گا اور عقل مدہوش ہو جائے گی۔

۱۱۲

(۸۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي الخطبة العجيبة تسمى «الغراء»

وفيها نعوت اللَّه جل شأنه، ثم الوصية بتقواهثم التنفير من الدنيا، ثم ما يلحق من دخولالقيامة، ثم تنبيه الخلق إلى ما هم فيه من الأعراض، ثم فضلهعليه‌السلام في التذكير

صفته جل شأنه

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي عَلَا بِحَوْلِه ودَنَا بِطَوْلِه مَانِحِ كُلِّ غَنِيمَةٍ وفَضْلٍ وكَاشِفِ كُلِّ عَظِيمَةٍ وأَزْلٍ أَحْمَدُه عَلَى عَوَاطِفِ كَرَمِه وسَوَابِغِ نِعَمِه وأُومِنُ بِه أَوَّلًا بَادِياً وأَسْتَهْدِيه قَرِيباً هَادِياً - وأَسْتَعِينُه قَاهِراً قَادِراً وأَتَوَكَّلُ عَلَيْه كَافِياً نَاصِراً - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَبْدُه ورَسُولُه

(۸۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

اس خطبہ میں پروردگارکے صفات 'تقویٰ کی نصیحت ' دنیا سے بیزاری کاسبق قیامت کےحالات لوگوں کی بے رخی پر تنبیہ اورپھر یادخدا دلانے میں اپنی فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے۔

ساری تعریف(۱) اس اللہ کے لئے ہے جو اپنی طاقت کی بنا پر بلند اور اپنے احسانات کی بنا پر بندوں سے قریب تر ہے۔وہ ہر فائدہ اورفضل کا عطا کرنے والا اور ہر مصیبت اوررنج کا ٹالنے والا ہے۔میں اس کی کرم نوازیوں اورنعمتوں کی فراوانیوں کی بنا پر اس کی تعریف کرتا ہوں اور اس پر ایمان رکھتا ہوں کہ وہی اول اور ظاہر ہے اور اسی سے ہدایت طلب کرتا ہو کہ وہی قریب اور ہادی ہے۔اسی سے مددچاہتا ہوں کہ وہی قادر اور قاہر ہے۔اور اسی پر بھروسہ کرتا ہوں کہ وہی کافی اور ناصر ہے۔اور میں گواہی دیتا ہو کہ حضرت محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں

(۱) یوں تو امیر المومنین کے کسی بھی خطبہ کی تعریف کرنا سورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ یہ خطبہ غراء کہے جانے کے قابل ہے جس میں اس قدرحقائق و معارف اور معانی و مفاہیم کو جمع کردیا گیا ہے کہ ان کا شمار کرنا بھی طاقت بشر سے بالا تر ہے ۔ آغاز خطبہ میں مالک کائنات کے بظاہر دو متضاد صفات و کمالات کاذکر کیا یا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے اعتبارسے انتہائی بلند تر ہے لیکن اس کے بعد بھی بندوں سے دورنہیں ہے اس لئے کہ ہرآن اپنے بندوں پر ایسا کرم کرتا رہتا ہے کہ یہ کرم اسے بندوں سے قریب تر بنائے ہوئے ہے اور اسے دورنہیں ہونے دیتا ہے۔لفظ'' بحولہ'' میں اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس کی بلندی کسی وسیلہ اورذریعہ کی بنا پر نہیں ہے بلکہ یہ اپنی ذاتی طاقت اور قدرت کا نتجیہ ہے ورنہ اس کے علاوہ ہر ایک کوبلندی اس کے فضل و کرم سے وابستہ ہے اور اس کے بغیر بلندی کا کوئی امکان نہیں ہے۔وہ اگر چاہے تو بندہ کو قاب قوسین کی منزلوں تک بلند کردے ''اسری بعبدہ'' اوراگر چاہے تو '' صاحب معراج '' کے کاندھوں پربلند کردے ''وعلی واضع اقدامہ ۔فی محل وضع اللہ یدہ ''۔اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت کے تین بنیادی مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس بعثت کا اصل مقصد یہ تھا کہ الٰہی احکام نافذہو جائیں بندوں پرحجت تمام ہو جائے اورانہیں قیامت میں پیش آنے والے حالات سے قبل از وقت با خبر کردیا جائے کہ یہ کام نمائندہ پروردگار کے علاوہ کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا ہے اوری ہخدائی نمائندگی کے فوائد میں سب سے عظیم تر فائدہ ہے جس کی بنا پرانسان رسالت الہیہ سے کسی وقت بھی بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔

۱۱۳

أَرْسَلَه لإِنْفَاذِ أَمْرِه وإِنْهَاءِ عُذْرِه وتَقْدِيمِ نُذُرِه

الوصية بالتقوى

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه الَّذِي ضَرَبَ الأَمْثَالَ ووَقَّتَ لَكُمُ الآجَالَ وأَلْبَسَكُمُ الرِّيَاشَ وأَرْفَغَ لَكُمُ الْمَعَاشَ وأَحَاطَ بِكُمُ الإِحْصَاءَ وأَرْصَدَ لَكُمُ الْجَزَاءَ وآثَرَكُمْ بِالنِّعَمِ السَّوَابِغِ، والرِّفَدِ الرَّوَافِغِ وأَنْذَرَكُمْ بِالْحُجَجِ الْبَوَالِغِ فَأَحْصَاكُمْ عَدَداً - ووَظَّفَ لَكُمْ مُدَداً فِي قَرَارِ خِبْرَةٍ ودَارِ عِبْرَةٍ - أَنْتُمْ مُخْتَبَرُونَ فِيهَا ومُحَاسَبُونَ عَلَيْهَا.

التنفير من الدنيا

فَإِنَّ الدُّنْيَا رَنِقٌ مَشْرَبُهَا رَدِغٌ مَشْرَعُهَا - يُونِقُ مَنْظَرُهَا ويُوبِقُ مَخْبَرُهَا - غُرُورٌ حَائِلٌ

انہیں پروردگارنے اپنے حکم کو نافذ کرنے ' اپنی حجت کوت مام کرنے اورعذاب کی خبریں پیش کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ بند گان خدا!میں تمہیں اس خدا سے ڈرنے کی دعوت دیتا ہوں جس نے تمہاری ہدایت کے لئے مثالیں بیان کی ہیں تمہاری زندگی کے لئے مدت معین کی ہے تمہیں مختلف قسم کے لباس پہنائے ہیں۔ تمہارے لئے اسباب معیشت کو فراواں کردیا ہے۔تمہارے اعمال کا مکمل احاطہ کر رکھا ہے اور تمہارے لئے جزا کا انتظام کر دیا ہے۔تمہیں مکمل نعمتوں اوروسیع تر عطیوں سے نوازاہے اورموثردلیلوں کے ذریعہ عذاب آخرت سے ڈرایا ہے۔تمہار ے اعداد کو شمار کرلیا ہے اور تمہارے لئے اس امتحان گاہ اور مقام عبرت میں مدتیں معین کردی ہیں۔یہیں تمہارا امتحان لیا جائے گا اور اسی کے اقوال و اعمال پر تمہارا حساب کیا جائے گا۔ یاد رکھو اس دنیا کا سرچشمہ گندہ اور اس کا گھاٹ گل آلود ہے۔اس کا منظر خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔لیکن اندر کے حالات انتہائی درجہ خطر ناک ہیں۔یہ دنیا ایک مٹ جانے والا دھوکہ(۱) ہے

(۱)ایک ایک لفظ پرغور کیا جائے اور دنیا کی حقیقت سے آشنائی پیدا کی جائے ۔صورت حال یہ ہے کہ یہ ایک دھوکہ ہے جو رہنے والا نہیں ہے ایک روشنی ہے جو بجھ جانے والی ہے۔ایک سایہ ہے جوڈھل جانے والا ہے اور ایک سہارا ہے جو گر جانے والا ہے۔انصاف سے بتائو کیا ایسی دنیا بھی دل گلانے کے قابل اور اعتبار کرنے کے لائق ہے۔حقیقت امر یہ ہے کہ دنیا سے عشق و محبت صرف جہالت اورناواقفیت کا نتیجہ ہے ورنہ انسان اس کی حقیقت و بیوفائی سے با خبر ہو جائے تو طلاق دئیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔

قیامت یہ ہے کہ انسان دنیا کی بیوفائی ۔موت کی چیرہ دستی کا برابر مشاہدہ کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود کوئی عبرت حاصل کرنیوالا نہیں ہے اور ہرآنے والا دور گزشتہ دورکا انجام دیکھنے کے بعد بھی اسی راستہ پر چل رہاہے۔ یہ حقیقت عام انسانوں کی زندگی میں واضح نہ بھی ہو تو ظالموں اورستمگروں کی زندگی میں صبح و شام واضح ہوتی رہتی ہے کہ ہر ستمگر اپنے پہلے والے ستمگروں کا انجام دیکھنے کے بعد بھی اسی راستہ پر چل رہا ہے اور ہر مسئلہ حیات کا حل ظلم و ستم کے علاوہ کسی اور چیز کو نہیں قرار دیتا ہے۔خدا جانے ان ظالموں کی آنکھیں کب کھلیں گی اور یہ اندھا انسان کب بینا بنے گا۔مولائے کائنات ہی نے سچ فرمایا تھا کہ '' سارے انسان سو رہے ہیں جب موت آجائے گی تو بیدار ہو جائیں گے ''یعنی جب تک آنکھ کھلی رہے گی بند رہے گی اور جب بند ہو جائے گی تو کھل جائے گی۔استغفر اللہ ربی واتوب الیہ

۱۱۴

وضَوْءٌ آفِلٌ وظِلٌّ زَائِلٌ وسِنَادٌ مَائِلٌ حَتَّى إِذَا أَنِسَ نَافِرُهَا واطْمَأَنَّ نَاكِرُهَاقَمَصَتْ بِأَرْجُلِهَا وقَنَصَتْ بِأَحْبُلِهَا وأَقْصَدَتْ بِأَسْهُمِهَا وأَعْلَقَتِ الْمَرْءَ أَوْهَاقَ الْمَنِيَّةِ قَائِدَةً لَه إِلَى ضَنْكِ الْمَضْجَعِ ووَحْشَةِ الْمَرْجِعِ - ومُعَايَنَةِ الْمَحَلِّ وثَوَابِ الْعَمَلِ وكَذَلِكَ الْخَلَفُ بِعَقْبِ السَّلَفِ لَا تُقْلِعُ الْمَنِيَّةُ اخْتِرَاماً ولَا يَرْعَوِي الْبَاقُونَ اجْتِرَاماً يَحْتَذُونَ مِثَالًا ويَمْضُونَ أَرْسَالًا إِلَى غَايَةِ الِانْتِهَاءِ وصَيُّورِ الْفَنَاءِ

بعد الموت البعث

حَتَّى إِذَا تَصَرَّمَتِ الأُمُورُ - وتَقَضَّتِ الدُّهُورُ وأَزِفَ النُّشُورُ أَخْرَجَهُمْ مِنْ ضَرَائِحِ الْقُبُورِ وأَوْكَارِ الطُّيُورِ وأَوْجِرَةِ السِّبَاعِ ومَطَارِحِ الْمَهَالِكِ سِرَاعاً إِلَى أَمْرِه مُهْطِعِينَ إِلَى مَعَادِه رَعِيلًا صُمُوتاً قِيَاماً صُفُوفاً - يَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ ويُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي - عَلَيْهِمْ لَبُوسُ الِاسْتِكَانَةِ وضَرَعُ الِاسْتِسْلَامِ والذِّلَّةِ - قَدْ ضَلَّتِ الْحِيَلُ وانْقَطَعَ الأَمَلُ وهَوَتِ الأَفْئِدَةُ كَاظِمَةً

ایک بجھ جانے والی روشنی۔ایک ڈھل جانے والا سایہ اور ایک گر جانے والا سہارا ہے۔جب اس سے نفرت کرنے والا مانوس ہوجاتا ے ہے اوراسے برا سمجھنے والا مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اچانک اپنے پیروں کو ٹپکنے لگتی ہے اور عاشق کواپنے جال میں گرفتار کر لیتی ہے اور پھراپنے تیروں کا نشانہ بنالیتی ہے۔انسان کی گردن می ں موت کا پھنڈا ڈال دیتی ہے اور اسے کھینچ کرتنگی مرقداور وحشت منزل کی طرف لے جاتی ہے جہاں وہ اپناٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اپنے اعمال کا معاوضہ حاصل کر لیتا ہے اور یوں ہی یہ سلسلہ نسلوں میں چلتا رہتا ہے کہ اولاد بزرگوں کی جگہ پرآجاتی ہے۔نہ موت چیرہ دستیوں سے بازآتی ہے اورنہ آنے والے افرادگناہوں سے باز آتے ہیں۔پرانے لوگوں کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں اور تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل انتہاء و فنا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب تمام معاملات ختم ہو جائیں گے اورتمام زمانے بیت جائیں گے اورقیامت کا وقت قریب آجائے گا تو انہیں قبروں کے گوشوں۔پرندوں کے گھونسلوں ۔درندوں کے بھٹوں اور ہلاکت کی منزلوں سے نکالا جائے گا۔اس کے امر کی طرف تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے اور اپنی وعدہ گاہ کی طرف بڑھتے ہوئے۔گروہ درگروہ۔خاموش صف بستہ اوراستادہ ۔نگاہ قدرت ان پر حاوی اور داعی الٰہی کی آواز ان کے کانوںمیں۔بدن پر بیچارگی کا لباس اورخود سپردگی و ذلت کی کمزوری غالب۔تدبیر یں گم۔امیدں منقطع دل مایوس کن خاموش کے ساتھ بیٹھے ہوئے۔

۱۱۵

وخَشَعَتِ الأَصْوَاتُ مُهَيْنِمَةً وأَلْجَمَ الْعَرَقُ وعَظُمَ الشَّفَقُ وأُرْعِدَتِ الأَسْمَاعُ - لِزَبْرَةِ الدَّاعِي إِلَى فَصْلِ الْخِطَابِ ومُقَايَضَةِ الْجَزَاءِ - ونَكَالِ الْعِقَابِ ونَوَالِ الثَّوَابِ.

تنبيه الخلق

عِبَادٌ مَخْلُوقُونَ اقْتِدَاراً ومَرْبُوبُونَ اقْتِسَاراً ومَقْبُوضُونَ احْتِضَاراً ومُضَمَّنُونَ أَجْدَاثاً وكَائِنُونَ رُفَاتاً ومَبْعُوثُونَ أَفْرَاداً ومَدِينُونَ جَزَاءً ومُمَيَّزُونَ حِسَاباً قَدْ أُمْهِلُوا فِي طَلَبِ الْمَخْرَجِ وهُدُوا سَبِيلَ الْمَنْهَجِ وعُمِّرُوا مَهَلَ الْمُسْتَعْتِبِ وكُشِفَتْ عَنْهُمْ سُدَفُ الرِّيَبِ وخُلُّوا لِمِضْمَارِ

اور آوازیں دب کرخاموش ہو جائیں گی۔پسینہ منہ میں لگام لگا دے گا اور خوف عظیم ہوگا۔کان اس پکارنے والے کی آوازسے لرز اٹھیں گے جو آخری فیصلہ سنائے گا اور اعمال کا معاوضہ دینے اور آخرت کے عقاب یا ثواب کے حصول کے لئے آواز دے گا۔

تم وہ(۱) بندے ہو جو اس کے اقتدار کے اظہار کے لئے پیدا ہوئے ہو اور اس کے غلبہ و تسلط کے ساتھ ان کی تربیت ہوئی ہے۔نزع کے ہنگام ان کی روحیں قبض کرلی جائیں گی اور انہیں قبروں کے اندر چھپا دیا جائے گا۔یہ خاک کے اندر مل جائیں گے اور پھر الگ الگ اٹھائے جائیں گے۔انہیں اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا ور حساب کی منزل میں الگ الگ کردیا جائے گا۔انہیں دنیا میں عذاب سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کے لئے مہلت دی جا چکی ہے اور انہیں روشن راستہ کی ہدایت کی جا چکی ہے۔انہیں مرضی خدا کے حصول کا موقع بھی دیا جا چکا ہے اور ان کی نگاہوں سے شک کے پردے بھی اٹھائے جا چکے ہیں۔انہیں میدان عمل میں آزاد بھی چھوڑا جا چکا ہے تاکہ آخرت کی دوڑ کی تیاری کرلیں اور سوچ سمجھ کر

(۱)انسان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نہ اس کی تخلیق اتفاقات کا نتیجہ ہے اور نہ اس کی زندگی اختیارات کا مجموعہ۔ وہ ایک خالق قدیر کی قدرت کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے اور ایک حکیم خبیر کے اختیارات کے زیر اثر زندگی گذار رہا ہے۔ایک وقت آئے گا جب فرشتہ موت اس کی روح قبض کرلے گا اوراسے زمین کے اوپر سے زمین کے اندر پہنچا دیا جائے گا اور پھر ایک دن تن تنہا قبر سے نکال کر منز حساب میں لا کھڑا کردیا جائے گا اور اسے اس کے اعمال کا مکمل معاوضہ دے دیا جائے گا اور یہ کام غیرعادلانہ نہیں ہوگا اس لئے کہ اسے دنیا میں عذاب سے بچنے اور رضائے خدا حاصل کرنے کی مہلت دی جا چکی ہے۔اسے توبہ کا راستہ بھی بتایا جا چکا ہے اور عمل کے میدان کی بھی نشاندہی کی جا چکی ہے اور اس کی نگاہوں سے شک کے پردیبھی اٹھائے جا چکے ہیں اور اسے میدان عمل میں دوڑنے کا موقع بھی دیا جا چکا ہے۔اسے اس انسان جیسی مہلت بھی دی جا چکی ہے جو روشنی میں اپنے مدعا کو تلاش کرتا ہے کہ ایک طرف یہ بھی خطرہ رہتا ہے کہ تیز رفتاری میں مقصد سے آگے نہ نکل جائے اور ایک طرف یہ بھی احساس رہتا ہے کہ کہیں چراغ بجھ نہ جائے اور اس طرح اس کی روشنی انتہائی محتاط ہوتی ہے۔

۱۱۶

الْجِيَادِ ورَوِيَّةِ الِارْتِيَادِوأَنَاةِ الْمُقْتَبِسِ الْمُرْتَادِ فِي مُدَّةِ الأَجَلِ ومُضْطَرَبِ الْمَهَلِ

فضل التذكير

فَيَا لَهَا أَمْثَالًا صَائِبَةً ومَوَاعِظَ شَافِيَةً - لَوْ صَادَفَتْ قُلُوباً زَاكِيَةً وأَسْمَاعاً وَاعِيَةً - وآرَاءً عَازِمَةً وأَلْبَاباً حَازِمَةً - فَاتَّقُوا اللَّه تَقِيَّةَ مَنْ سَمِعَ فَخَشَعَ واقْتَرَفَ فَاعْتَرَفَ - ووَجِلَ فَعَمِلَ وحَاذَرَ فَبَادَرَ وأَيْقَنَ فَأَحْسَنَ وعُبِّرَ فَاعْتَبَرَوحُذِّرَ فَحَذِرَ وزُجِرَ فَازْدَجَرَ وأَجَابَ فَأَنَابَ ورَاجَعَ فَتَابَ واقْتَدَى

فَاحْتَذَى

کر منزل کی تلاش کرلیں اور اتنی مہلت پالیں جتنی فوائد کے حاصل کرنے اور آئندہ منزل کا سامان مہیا کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہے

ہائے یہ کس قدر صحیح مثالیں(۱) اورشفا بخش نصیحتیں ہیں اگر انہیں پاکیزہ دل ' سننے والے کان ' مضبوط رائیں اور ہوشیار عقلیں نصیب ہو جائیں۔لہٰذا اللہ سے ڈرو اس شخص کی طرح جس نے نصیحتوں کو سنا تو دل میں خشوع پیدا ہوگیا اور گناہ کیا تو فوراً اعتراف کرلیا اورخوف خدا پیدا ہوا تو عمل شروع کردیا۔آخرت(۲) سے ڈرا تو عمل کی طرف سبقت کی۔قیامت کا یقین پیدا کیا تو بہترین اعمال انجام دئیے۔عبرت دلائی گئی تو عبرت حاصل کرلی ۔خوف دلایا گیا تو ڈرگی۔روکا گیا تو رک گیا۔صدائے حق پر لبیک کہی تو اس کی طرف متوجہ ہوگیااور مڑ کرآگیا تو توبہ کرلی۔بزرگوں کی اقتدا کی تو ان کے نقش قدم پر چلا

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مالک کائنات کی بیان کی ہوئی مثالیں صائب و صحیح اور اس کی نصیحتیں صحت مند اورشفا بخش ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ کوئی نسخہ شفا صرف نسخہ کی حد تک کارآمد نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا استعمال کرنا اور استعمال کے ساتھ پرہیز کرنابھی ضروری ہوتا ہے ۔اور انسانوں میں اسی شرط کی کمی ہے۔نصیحتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے چارعناصر کاہونالازمی ہے۔سننے والے کان ہوں۔طیب و طاہر دل ہوں۔رائے میں استحکام ہو اورفکر میں ہوشیاری ہو۔یہ چاروں عناصر نہیں ہیں تو نصیحتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ہے اور عالم بشریت کی کمزوری یہی ہے کہ اسمیں انہیں عناصر میں سے کوئی نہ کوئی عنصر کم ہو جاتا ہے اوروہ مواعظ و نصائح کے اثرات سے محروم رہ جاتا ہے۔

(۲)ایک مرد مومن کی زندگی کا حسین ترین اور پاکیزہ ترین نقشہ یہی ہے کہ لیکن یہ الفاظ فصاحت و بلاغت سے لطف اندوز ہونے کے لئے نہیں ہیں۔زندگی پر منطبق کرنے کے لئے اور زندگی کا امتحان کرنے کے لئے ہیں کہ کیا واقعاً ہماری زندگی میں یہ حالات اور کیفیات پائے جاتے ہیں۔اگر ایسا ہے توہماری عاقبت بخیر ہے اور ہمیں نجات کی امید رکھنا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اس دار عبرت میں گذشتہ لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اب سے اصلاح دنیا وآخرت کے عمل میں لگ جانا چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ موت اچانک نازل ہو جائے اور وصیت کرنے کا موقع بھی فراہم نہ ہو سکے۔کتنا بلیغ فقرہ ہے مولائے کائنات کا کہ گذشتہ لوگ ہر قید و بند اور ہر پابندی حیات سے آزاد ہوگئے لیکن موت کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکے اور اس نے بالآخر انہیں گرفتار کرلیا اوران کی وعدہ گاہ تک پہنچا دیا۔

۱۱۷

وأُرِيَ فَرَأَى فَأَسْرَعَ طَالِباً ونَجَا هَارِباً - فَأَفَادَ ذَخِيرَةً وأَطَابَ سَرِيرَةً وعَمَّرَ مَعَاداً - واسْتَظْهَرَ زَاداً لِيَوْمِ رَحِيلِه ووَجْه سَبِيلِه وحَالِ حَاجَتِه - ومَوْطِنِ فَاقَتِه وقَدَّمَ أَمَامَه لِدَارِ مُقَامِه - فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه جِهَةَ مَا خَلَقَكُمْ لَه - واحْذَرُوا مِنْه كُنْه مَا حَذَّرَكُمْ مِنْ نَفْسِه - واسْتَحِقُّوا مِنْه مَا أَعَدَّ لَكُمْ بِالتَّنَجُّزِ لِصِدْقِ مِيعَادِه - والْحَذَرِ مِنْ هَوْلِ مَعَادِه.

التذكير بضروب النعم

ومنها: جَعَلَ لَكُمْ أَسْمَاعاً لِتَعِيَ مَا عَنَاهَا وأَبْصَاراً لِتَجْلُوَ عَنْ عَشَاهَا وأَشْلَاءً جَامِعَةً لأَعْضَائِهَا - مُلَائِمَةً لأَحْنَائِهَا فِي تَرْكِيبِ صُوَرِهَا ومُدَدِ عُمُرِهَا بِأَبْدَانٍ قَائِمَةٍ بِأَرْفَاقِهَا وقُلُوبٍ رَائِدَةٍ لأَرْزَاقِهَا - فِي مُجَلِّلَاتِ نِعَمِه ومُوجِبَاتِ مِنَنِه وحَوَاجِزِ عَافِيَتِه وقَدَّرَ لَكُمْ أَعْمَاراً

منظر حق دکھایا گیا تو دیکھ لیا۔طلب حق میں تیز رفتاری سے بڑھا اور باطل سے فرار کرکے نجات حاصل کرلی۔اپنے لئے ذخیرہ آخرت جمع کرلیا اور اپنے باطن کو پاک کرلیا۔آخرت کے گھر کو آباد کیا اور زاد راہ کو جمع کرلیا اس دن کے لئے جس دن یہاں سے کوچ کرنا ہے اور آخرت کا راستہ اختیار کرنا ہے اور اعمال کا محتاج ہونا ہے اورمحل فقر کی طرف جانا ہے اور ہمیشہ کے گھر کے لئے سامان آگے آگے بھیج دیا۔ اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اس جہت کی غرض سے جس کے لئے تم کو پیدا کیا گیا ہے اور اس کاخوف پیدا کرو اس طرح جس طرح اس نے تمہیں اپنے عظمت کا خوف دلایا ہے اور اس اجر کا استحقاق پیدا کرو جس کو اس نے تمہارے لئے مہیا کیا ہے اس کے سچے وعدہ کے پورا کرنے اور قیامت کے ہول سے بچنے کے مطالبہ کے ساتھ۔

اس نے تمہیں کان عنایت کئے ہیں تاکہ ضروری باتوں کو سنیں اور آنکھیں دی ہیں تاکہ بے بصری میں روشنی عطا کریں اور جسم کے وہ حصے دئیے جو مختلف اعضاء کو سمیٹنے والے ہیں اور ان کے پیچ و خم کے لئے مناسب ہیں۔صورتوں کی ترکیب اور عمروں کی مدت کے اعتبارسے ایسے بدنوں کے ساتھ جو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہیں اور ایسے دلوں کے ساتھ جو اپنے رزق کی تلاش میں رہتے ہیں اس کی عظیم ترین نعمتوں ' احسان مند بنانے والی بخششوں اور سلامتی کے حصاروں کے درمیان۔اس نے تمہارے لئے وہ عمریں قرار دی ہیں جن

۱۱۸

سَتَرَهَا عَنْكُمْ - وخَلَّفَ لَكُمْ عِبَراً مِنْ آثَارِ الْمَاضِينَ قَبْلَكُمْ - مِنْ مُسْتَمْتَعِ خَلَاقِهِمْ ومُسْتَفْسَحِ خَنَاقِهِمْ أَرْهَقَتْهُمُ الْمَنَايَا دُونَ الآمَالِ وشَذَّبَهُمْ عَنْهَا تَخَرُّمُ الآجَالِ - لَمْ يَمْهَدُوا فِي سَلَامَةِ الأَبْدَانِ - ولَمْ يَعْتَبِرُوا فِي أُنُفِ الأَوَانِ فَهَلْ يَنْتَظِرُ أَهْلُ بَضَاضَةِ الشَّبَابِ إِلَّا حَوَانِيَ الْهَرَمِ - وأَهْلُ غَضَارَةِ الصِّحَّةِ إِلَّا نَوَازِلَ السَّقَمِ - وأَهْلُ مُدَّةِ الْبَقَاءِ إِلَّا آوِنَةَ الْفَنَاءِ مَعَ قُرْبِ الزِّيَالِ وأُزُوفِ الِانْتِقَالِ وعَلَزِ الْقَلَقِ وأَلَمِ الْمَضَضِ وغُصَصِ الْجَرَضِ وتَلَفُّتِ الِاسْتِغَاثَةِ بِنُصْرَةِ الْحَفَدَةِ والأَقْرِبَاءِ - والأَعِزَّةِ والْقُرَنَاءِ فَهَلْ دَفَعَتِ الأَقَارِبُ

کو تم سے مخفی رکھا ہے اور تمہارے لئے ماضی میں گر جانے والوں کے آثار میں عبرتیں فراہم کردی ہیں۔وہ لوگ جو اپنے خط و نصیب سے لطف و اندوز ہو رہوے تھے اور ہر بندھن سے آزاد تھے لیکن موت نے انہیں امیدوں کی تکمیل سے پہلے ہی گرفتار کرلیا اور اجل کی ہلاکت سامانیوں نے انہیں حصول مقصد سے الگ کردیا۔انہوں نے بدن کی سلامتی کے وقت کوئی تیاری نہیں کی تھی اور ابتدائی اوقات میں کوئی عبرت حاصل نہیں کی تھی۔تو کیا جوانی کی ترو تازہ عمریں رکھنے والے بڑھاپے میں کمرجھک جانے کا انتظار کر رہے ہیں اور کیا صحت کی تازگی رکھنے والے مصیبتوں اور بیماریوں کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں اور کیا بقا کی مدت رکھنے والے فنا کے وقت کے منتظر ہیں جب کہ وقت زوال قریب ہوگا اورانتقال کی ساعت نزدیک تر ہوگی اور بستر مرگ پر قلق کی بے چینیاں(۱) اورسوزو تپش کا رنج و الم اور لعاب دہن کے پھندے ہوں گے اور وہ ہنگام ہوگا جب انسان اقربا اولاد اعزا احباب سے مدد طلب کرنے کے لئے ادھر ادھر دیکھ رہا ہوگا۔تو کیا آج تک کبھی اقربا نے موت کو دفع کردیا

(۱)ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان جب دنیا کے تمام مشاغل تمام کرکے بستر پرآئے تو اس خطبہ کی تلاوت کرے اور اس کے مضامین پر غور کرے۔پھر اگر ممکن ہوتو کمرہ کی روشنی گل کرکے دروازہ بند کرکے قبر کا تصور پیدا کرے اور یہ سوچے کہ اگر اس وقت کسی طرف سے سانپ، بچھوحملہ آور ہو جائیں اور کمرہ کی آواز باہرنہ جا سکے اور دروازہ کھول کر بھاگنے کا امکان بھی نہ ہو تو انسان کیا کرے گا اور اس مصیبت سے کس طرح نجات حاصل کرے گا۔شائد یہی تصوراسے قبر کے بارے میں سوچنے اور اس کے ہولناک مناظر سے بچنے کے راستے نکالنے پرآمادہ کر سکے ورنہ دنیا کی رنگینیاں ایک لمحے کے لئے بھی آخرت کے بارے میں سوچنے کا موقعنہیں دیتی ہیں اور کسی نہ کسی وہم میں مبتلا کرکے نجات کا یقین دلا دیتی ہیں اور پھر انسان اعمال سے یکسر غافل ہو جاتا ہے۔

۱۱۹

أَوْ نَفَعَتِ النَّوَاحِبُ وقَدْ غُودِرَ فِي مَحَلَّةِ الأَمْوَاتِ رَهِيناً وفِي ضِيقِ الْمَضْجَعِ وَحِيداً قَدْ هَتَكَتِ الْهَوَامُّ جِلْدَتَه - وأَبْلَتِ النَّوَاهِكُ جِدَّتَه وعَفَتِ الْعَوَاصِفُ آثَارَه - ومَحَا الْحَدَثَانُ مَعَالِمَه وصَارَتِ الأَجْسَادُ شَحِبَةً بَعْدَ بَضَّتِهَا والْعِظَامُ نَخِرَةً بَعْدَ قُوَّتِهَا - والأَرْوَاحُ مُرْتَهَنَةً بِثِقَلِ أَعْبَائِهَا مُوقِنَةً بِغَيْبِ أَنْبَائِهَا لَا تُسْتَزَادُ مِنْ صَالِحِ عَمَلِهَا - ولَا تُسْتَعْتَبُ مِنْ سَيِّئِ زَلَلِهَا أَولَسْتُمْ أَبْنَاءَ الْقَوْمِ والآبَاءَ وإِخْوَانَهُمْ والأَقْرِبَاءَ - تَحْتَذُونَ أَمْثِلَتَهُمْ وتَرْكَبُونَ قِدَّتَهُمْ وتَطَئُونَ جَادَّتَهُمْ فَالْقُلُوبُ قَاسِيَةٌ عَنْ حَظِّهَا لَاهِيَةٌ عَنْ رُشْدِهَا - سَالِكَةٌ فِي غَيْرِ مِضْمَارِهَا كَأَنَّ الْمَعْنِيَّ سِوَاهَا وكَأَنَّ الرُّشْدَ فِي إِحْرَازِ دُنْيَاهَا.

التحذير من هول الصراط

واعْلَمُوا أَنَّ مَجَازَكُمْ عَلَى الصِّرَاطِ ومَزَالِقِ دَحْضِه وأَهَاوِيلِ زَلَلِه وتَارَاتِ أَهْوَالِه فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه -

ہے یا فریاد کسی کے کام آئی ہے ؟ ہرگز نہیں۔مرنے والے کو تو قبرستان میں گرفتار کردیا گیا ہے اور تنگی قبر میں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے اس عالم میں کہ کیڑے مکوڑے اس کی جلد کو پارہ پارہ کر رہے ہیں اور پامالیوں نے اس کے جسم کی تازگی کو بوسیدہ کردیا ہے۔آندھیوں نے اس کے آثار کو مٹا دیا ہے اور روز گار کے حادثات نے اس کے نشانات کو محو کردیا ہے۔جسم تازگی کے بعدہلاک ہوگئے ہیں اور ہڈیاں طاقت کے بعد بوسیدہ ہوگئی ہیں۔روحیں اپنے بوجھ کی گرانی میں گرفتار ہیں اور اب غیب کی خبروں کا یقین آگیا ہے۔اب نہ نیک اعمال میں کوئی اضافہ ہو سکتا ہے۔اور ہ بد ترین لغزشوں کی معافی طلب کی جا سکتی ہے۔تو کیا تم لوگ انہیں آباء اجداد کی اولاد نہیں ہو اور کیا انہیں کے بھائی بندے نہیں ہو کہ پھر انہیں کے نقش قدم پر چلے جا رہے ہو اور انہیں کے طریقہ کو پانئاے ہوئے ہو اور انہیں کے راستہ پر گامزن ہو؟ ۔حقیقت یہ ہے کہ دل اپنا حصہ حاصل کرنے میں سخت ہوگئے ہیں اور راہ ہدایت سے غافل ہوگئے ہیں' غلط میدانوں میں قدم جمائے ہوئے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا مخاطب ان کے علاوہ کوئی اور ہے اور شائد ساری عقلمندی دنیا ہی کے جمع کر لینے میں ہے۔یاد رکھو تمہاری گزر گاہ صراط اور اس کی ہلاکت خیز لغزشیں ہیں۔تمہیں ان لغزشوں کے ہولناک مراحل اور طرح طرح کے خطر ناک منازل سے گزرنا ہے۔اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو۔اس طرح جس طرح وہ

۱۲۰

ان اشعار میں ظاہر کرتا ہے کہ جو کچھ ہے یہی دنیا ہے ، اس عالم کےسوا اور کوئی عالم نہیں ہے لہذا یہاں کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم نہ رہنا چاہیے ۔ یہ وہ اشعار ہیں جو اس کے دیوان میں درج ہیں اور ابوالفرج ابن جوزی نے کتاب الرد علی المتعصب الغلید میں ان کی شہادت دی ہے۔

من جملہ ان اشعار کے جو اس کے کفر و بے دینی اور الحاد پر گواہ ہیں وہ شعر بھی ہیں جو سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں ان کے جد ابو الفرج نے تفصیل سے درج کئے ہیں ۔ ان کے مطلع میں کہتا ہے۔

عليه هاتی ناول ي نی و ترنمی حد ي ثک انی لا احب التناج ي ا

اپنی معشوقہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے ، اے میری محبوبہ قریب آ اور مجھ کو اپنے دلی مطالب سے کھل کر آگاہ کر کیونکہ میں تیرے آہستہ بولنے کو پسند نہیں کرتا ( یہاں تک کہ کہتا ہے)

فان الذی حدثت عن ي وم بعثنا احاد ي ث زور تترک القلب ساه ي ا

یعنی جو شخص قیامت کے قصے سے ڈرتا ہے تو یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو دل کو سازو آواز کے لطف سے محروم کرتی ہیں۔

چنانچہ ابراہیم ابن اسحق معروف “ دیک الجن” نے جو جلیل القدر شیعہ فقہاء و علماء اور فضلاء و ادباء میں سے تھے خلیفہ ہارون الرشید عباسی کے سامنے یہ سارے اشعار پڑھے تو اس نے بے اختیار یزید پر لعنت کی اور کہا زندیق نے خدا اور حشر و نشر کا پورا انکار کیا ہے۔

منجملہ ان اشعار کے جو اس کے کفر و الحاد پر دلالت کرتے ہیں وہ بھی ہیں جو وہ اپنے عیش و ترنم کے موقع پر پڑھا کرتا تھا :

ي ا معشر الندمان قوموا واسمعوا صوت الاغانی

واشربوا کاس مدامواترکوا ذکر المعانی

شغلتنی نغمة الع ي دان عن صوت الاذان

و نغوضت عن الحور عجوزا فی الدنان

ماحصل معنی یہ ہیں کہ اپنے ہم مشرب اور ہم پیالہ لوگوں سے کہتا ہے کہ اٹھو اور سازو آواز پر کان لگاؤ اور شراب ناب کے جام پیو اور دینی خرافات کو چھوڑو ، کیونکہ سازو نغمہ نے مجھ کو اذان کی آواز سے ہٹا کر اپنی طرف جذب کر لیا ہے اور میں بہشت کی حوروں کے عوض بوڑھی مغینہ عورتوں کو قبول کرتا ہوں۔

کتب مقاتل میں ہرجگہ منقول ہے اور سبط ابن جوزی نے بھی تذکرہ ص۱۴۸ پر لکھا کہ جب اہل بیت رسالت(ص) شام میں لائے گئے تو یزید پلید اپنے محل کے بالا خانے پر جو محلہ جیروں کے سامنے تھا، بیٹھا اور یہ دو شعر پڑھ کر اپنے کفر کو ثابت کیا :

۱۲۱

لما بدت تلك الحمول و اشرقت تلك الشموس على ربي جيرود

نعب الغراب فقتل نح او لا تنح فلقد قضيت من الغريم ديونى!

خلاصہ مطلب یہ کہ اسیران آل محمد(ص) کی محملیں ظاہر ہوئیں تو ایک کوے نے آواز دی ( کیونکہ عرب میں اس آواز کو شگونہ بد سمجھتے تھے) تو میں نے کہا ، اے کوئے تو بول یا نہ بول میں نے پیغمبر(ص) سے اپنے قرضے وصول کرلیے ۔

کنایہ اس بات کا ہے کہ پیغمبر(ص) نے میرے بزرگ اور اقارب کو بدر و احد اور حنین میں قتل کیا تھا لہذا میں نے بھی اس کا بدلہ لیا اور ان کی اولاد کو قتل کیا ۔ اور یزید کے کفر کی دلیلوں میں سے یہ بھی ہے کہ جب اس نے فرزند رسول(ص) کی شہادت پر جشن کی محفل منعقد کی تو مثالا اس نے عبداﷲ بن الزبعری کے کفر آمیز اشعار پڑھے یہاں تک کہ سبط ابن جوزی ابو ریحان بیرونی اور دوسرے لوگوں نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے اجداد میں سے ان لوگوں کی موجودگی اور حیات کی تمنا کی جو سب کے سب مشرک اور کافر محض تھے اور خدا و رسول(ص) کے حکم سے بدر کبرے کی جنگ میں مارے گئے تھے بظاہر ان میں سے دوسرا اور پانچواں شعر خود یزید ہی کا ہے جو اس نے مسلمانوں، یہودیوں اور نصرانیوں کے مجمع عام کے سامنے پڑھے۔

ليت أشياخي ببدر شهدوا جزع الخزرج من وقع الأسل

فأهلّوا و استهلّوا فرحاثمّ قالوا: يا يزيد لا تشل

قد قتلنا القرم من ساداتهم و عدلناه ببدر فاعتدل

لعبت هاشم بالملك فلاخبر جاء و لا وحي نزل

لست من خندف إن لم أنتقم من بني أحمد ما كان فعل

قد اخذنا من علی ثارنا و قتلنا الفارس الل ي ث البطل

یعنی اے کاش میرے وہ بزرگان قبیلہ جو بدر میں قتل کئے گئے اور قبیلہ خزرج والوں کا ( جنگ احد میں) نیزے لگنے کی وجہ سے گریہ و زاری دیکھنے والے موجود ہوتے تو خوشی سے چیختے اور کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں کیونکہ ہم نے ان کے بزرگان قوم اور سرداروں کو قتل کیا، اور یہ کام ہم نے بدر کے عوض میں کیا جو پورا ہوا۔ بنی ہاشم نےسلطنت کے ساتھ کھیل کھیلا ورنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی نہ وحی نازل ہوئی۔ میں خندق کے خاندان سے نہیں تھا، اگر فرزندانِ پیغمبر(ص) سے ان کے افعال کا انتقام نہ لیتا۔ ہم نے علی(ع) سے اپنے خون کا بدلہ لیا اور شہسوار بہادر شیر کو قتل کیا۔)

آپ کے بعض علماء جیسے ابو الفرج ، شیخ عبداﷲ بن محمد بن عامر شیرازی شافعی کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص۱۸ میں ، خطیب خوارزمی مقتل الحسین(ع) جلد دوم میں اور دوسرے لوگ لکھتے ہیں کہ یزید لعین

۱۲۲

ان حضرات کے لب و دندان کے ساتھ چھڑی سے بے ادبی کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہا تھا۔

یزید پلید(لع) کی لعن پر علمائے اہل سنت کی اجازت

آپ کے اکثر علماء نے اس ملعون زندیق کو کافر سمجھا ہے یہاں تک امام احمد بن حنبل اور آپ کے بہت سے اکابر علماء نے اس پر لعنت کرنے کو جائز قرار دیا ہے ، خصوصا عبدالرحمن ابوالفرج ابن جوزی نے اس بارے میں ایک مستقل کتاب موسوم بہ “ کتاب الرد علی المتعصب الغلید المانع عن لعن یزید لعنہ اﷲ ” لکھی ہے اور ابوالعلاء مصری نے اس باب میں کہا ہے :

أرى الأيّام تفعل كلّ نكر فما أنا في العجائب مستزيد

أليس قريشكم قتلت حسينا و كان على خلافتكم يزيد

( حاصل معنی یہ ہے کہ زمانہ ، توحید و اہل توحید کی ضد میں برابر شیطانی نقشے بناتا ہے اور اس طرح کے عجائبات اور مکاریوں پر مجھ کو تعجب نہیں کیا ایسا نہیں ہے کہ تمہارے قریش نے حسین(ع) کو قتل کیا اور اپنے امور اور خلافت کی باگ ڈور یزید ملعون کے ہاتھ میں دے دی) صرف آپ کے چند متعصب علماء جیسے غزالی نے یزید کی طرفداری کی ہے اور اس ملعون کی صفائی میں مضحکہ خیز اور مہمل عذرات تراشے ہیں در آنحالیکہ عام طور پر آپ کے علماء نے اس کے کفر آمیز اعمال اور ظالمانہ اطوار کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ وہ ملسمانوں کی مسند ریاست پر بظاہر تو خلافت کے عنوان سے قابض تھا لیکن عملی طور پر کوشش کرتا تھا کہ وین و توحید کی بساط ہی الٹ دے اور بڑے افعال کو نیک اعمال کے عنوان سے عمل میں لاتا تھا ۔ چنانچہ دمیری نے حیواہ الحیوان میں اور مسعودی نے مروج الذہب میں لکھا ہے کہ وہ بہت سے بندر پالے ہوئے تھا جن کو عمدہ قسم کے ریشمی لباس اور گردنوں میں سونے کے طوق پہنا کر گھوڑوں پر سوار کراتا تھا اسی طرح بہت سے کتوں کو طوق پہنچائے ہوئے تھا۔ ان کو اپنے ہاتھسے نہلاتا دہلاتا تھا ، سونے کے برتنوں میں ان کو پانی دیتا تھا اور ان کا پس خوردہ خود استعمال کرتا تھا ، مکمل طور پر شراب کا عادی تھا اور ہمیشہ مست و مخمور رہتا تھا۔

مسعودی مروج الذہب جلد دوم میں کہتے ہیں کہ یزید کی سیرت فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون رعیت داری میں یزید سے زیادہ انصاف پرور تھا۔ اس کی سلطنت اسلام کے اندر انتہائی باعث ننگ تھی، کیونکہ اس کی بہت سی بداعمالیوں جیسے شراب نوشی، فرزند رسول(ص) کا قتل، وصی پیغمبر (ص) علی ابن ابی طالب(ع) پر لعنت

۱۲۳

کرنا، خانہ خدا ( مسجد الحرام ) کو جلانا اور برباد کرنا، کثرت کے ساتھ خونریزی ( خصوصا اہل مدینہ کا قتل عام) اور بے شمار فسق و فجور وغیرہ جس کا حساب نہیں ہوسکتا ، اس کی عدم مغفرت اور جہنمی ہونے کو ثابت کررہی ہیں۔

نواب : قبلہ صاحب ! یزید کے حکم سے مدینے کے قتل عام کا کیا معاملہ تھا؟ متمنی ہوں کہ اس کو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : عام طور پر مورخین اور بالخصوص سبط ابن جوزی تذکرہ صفحہ۶۳ میں لکھتے ہیں کہ سنہ۶۲ھ میں اہل مدینہ کی ایک جماعت شام کی طرف گئی ، جب وہاں ان لوگوں کو یزید کی بدکاریوں اور کفریات کا علم ہوا تو مدینہ واپس آکر اس کی بیعت توڑ دی ، بالاعلان اس پر لعنت کرنے لگے اور اس کے عامل عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو نکال کر باہر کیا۔ عبداﷲ بن حنظلہ ( غسیل الملائکہ) نے کہا اے لوگو ہم لوگ شام سے واپس نہیں ہوئے اور یزید پر خروج نہیں کیا لیکن اس وقت جب ہم نے دیکھا کہ :

" ه و رجل لا دين ل ه ينکح الام ه ات والبنات والاخوات و يشرب الخمر ويدع الصلوة و يقتل اولاد النبيين ۔"

(یعنی وہ ایسا بے دین شخص ہے جو ماؤں بیٹیوں اور بہنوں سے حرام کاری کرتا ہے ، شراب پیتا ہے ، نماز نہیں پڑھتا ہے اور اولاد انبیاء کو قتل کرتا ہے۔)

یزید کی بیعت توڑنے کے جرم میں اہل مدینہ کا قتل عام

جب یہ خبر یزید کو پہنچی تو اس نے اہل شام کے ایک بھاری لشکر کے ساتھ مسلم ابن عقبہ کو اہل مدینہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا، اور ان لوگوں نے تین شبانہ روز مسلسل اہل مدینہ کا قتل عام کیا ابن جوزی اور مسعودی وغیرہ لکھتے ہیں کہ اس قدر کشت و خون کیا گیا کہ راستوں میں خون بہہ نکلا

" وخاض الناس فی الدماء حتی وصلت الدماء قبر رسول اﷲ صلی اﷲ علي ه و آله وسلم وامتلات الروضة والمسجد "

یعنی مدینے کے کوچوں میں اس کثرت سے خون جاری ہوا کہ لوگ خون میں شرابور ہوگئے تھے، یہاں تک کہ خون رسول اﷲ(ص) کی قبر تک پہنچ گیا اور روضہ رسول(ص) اور مسجد خون سے بھر گئی۔

اشراف قریش اورمہاجرین و اںصار میں سے سات سو محترم اور سربرآوردہ افراد کو قتل کیا اور عام مسلمانوں میں سے دس ہزار اشخاص تہ تیغ ہوئے مسلمانوں کی ہتک حرمت اور بے آبروئی کے حالات بیان کرتے ہوئے مجھ کو شرم محسوس ہوتی ہے لہذا تذکرہ سبط ابن جوزی صفحہ۱۶۳ کی عبارتوں

۱۲۴

میں سے صرف ایک کو نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں جس کو ابوالحسن مدائنی سے نقل کرتے ہیں کہ “ ولدت الف امراة بعد الحرة من غير زوج ” یعنی واقعہ حرہ ( مدینہ کے قتل عام) کے بعد ایک ہزار کنواری عورتوں کے یہاں بچے پیدا ہوئے ( کنایہ یہ کہ فاتح لشکر کی عصمت دری سے وہ عورتیں حاملہ ہوئیں)۔

میں اس سے زیادہ اہل بزم کا وقت لینا اور ان کو متاثر کرنا نہیں چاہتا ۔ خیالات کو صاف کرنے کے لیے اسی قدر کافی ہے۔

شیخ : آپ نے جو کچھ بیان کیا ، یہ سب یزید کے فسق و فجور پر دلالت کرتا ہے اور ہر فاسق و گنہگار انسان کا عمل معافی اور چشم پوشی کے قابل ہے یزید نےقطعا توبہ کر لی اور خدا بھی غفار الذنوب ہے اس نے بخش دیا ، پھر آپ کس وجہ سے برابر اس پر لعنت کرتے اور اس کو ملعون کہتے ہیں؟

خیر طلب : بعض دعویداروں کے وکیل اس غرض سے کہ ان کو فیس وغیرہ ملتی رہے چار و ناچار آخری وقت تک اپنے موکل کی طرف سے پیروی کرتے رہتے ہیں چاہتے حق بات ان پر ظاہرہو ہی جائے۔ لیکن مجھ کو نہیں معلوم کہ جناب عالی کن فوائد کے پیش نظر اس لعین پلید کی وکالت میں اس قدر ثابت قدمی دکھا رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یزدی نے توبہ کر لی ہے۔ حالانکہ یزدی کیکفر آمیز گفتگو، اولیائے خدا کی شہادت اور اہل مدینہ کا قتل عام وغیرہ درایت ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ اس نے توبہ کر لی روایت ہے جو ثابت نہیں ہوسکی اور درایت کے مقابلے میں نہیں آسکتی۔

آیا مبدا و معاد اور وحی و رسالت سے انکار اور دین سے مرتد ہونا آپ کی نظر میں لعنت کا مستحق نہیں بناتا ۔ آیا خدا نے قرآن مجید میں ظالمین پر کھلی ہوئی لعنت نہیں فرمائی ہے؟

آیا آپ یزید کو ظالم نہیں سمجھتے ؟

اگر آپ کے ایسے یزید ابن معاویہ کے خاندانی پیروکار وکیل ( حاضرین کا پر زور قہقہہ ) کی نگاہ میں یہ دلائل کافی نہیں ہیں تو میں آپ کی اجازت سے آپ کے بزرگ علماء کے منقولات سے دو حدیثیں بھی نقل کرتا ہوں اور اس کے بعد اپنی گذارش ختم کرتا ہوں۔

بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحیں میں ، علامہ سمہودی نے تاریخ المدینہ میں، ابن جوزی نے کتاب الرد علی المتعصب العنید میں، سبط ابن جوزی نے تذکرة خواص الامہ میں۔ امام احمد بن حنبل مسند میں اور دوسروں نے حضرت رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

"من أخاف أهل المدينة أخافه اللّه، و عليه لعنة اللّه و الملائكة و النّاس أجمعين لا يقبل اﷲ

۱۲۵

منه يوم القيمة صرفا ولا عدلا"

یعنی جو شخص ظلم سے اہل مدینہ کو خوف زدہ کرے خدائے تعالی، اس کو ( روز قیامت) خوف زدہ کرے گا ۔ اس پر خدا اور ملائکہ اور سارے انسانوں کی لعنت ہو۔ قیامت کے روز خدا ایسے شخص سے کوئی عمل قبول نہیں کرے گا۔

نیز فرمایا “ لعن اﷲ من اخاف مدینتی( ای اھل مدینتی) یعنی خدا کی ایسے شخص پر جو میرے شہر ( یعنی اہل مدینہ ) کو ڈرائے”

کیا مدینے کے اندر یہ سارا قتل عام ، ہتک حرمت او لوٹ مار وہاں کے باشندوں کے لیے ڈر اور خوف کا باعث نہیں تھا ؟ اور اگر تھا تو تصدیق کیجئے کہ وہ کمینہ اور پلید خدا و رسول(ص) ، ملائکہ اور تمام انسانوں کی زبان سے ملعون تھا اور قیامت تک رہے گا۔

آپ کے اکثر علماء یزید پلید پرلعنت کی ہے اور اس پر لعن کے جائز ہونے پر کتابیں لکھی ہیں من جملہ ان کے علامہ جلیل القدر عبداﷲ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص۲۰ میں لعن یزید کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ جس وقت ملا سعد تفتازانی کے سامنے یزید کا نام لیا گیا تو انہوں نے کہا " فلعنة اﷲ عليه و علی انصاره و علی اعوانه" ( یعنی لعنت ہو خدا کی اس پر اور اس کے اعوان و اںصاری پر) اور جواہر العقدین علامہ سمہودی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا

"اتفق العلماء علی جواز لعن من قتل الحسين رضی اﷲ عنه او امر بقتله او اجازه اور رضی به من غير تعيين"

یعنی عام طور پر علماء نے اس شخص پر لعنت کے جائز ہونے پر اتفاق کیا ہے جس نے حسین رضی اﷲ کو قتل کیا یا ان کے قتل کا حکم دیا یا اس کی اجازت دی یا اس پر رضا مند ہوا بلا تخصیص۔

اور ابن جوزی ، ابو یعلی اور صالح ابن احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں کہ آیات قرآن وغیرہ کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہ حضرات لعن یزید کو ثابت کرتے ہیں لیکن جلسہ کا وقت اس سے زیادہ گفتگو کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

نشست کافی لمبی ہوچکی ہے اور آدھی رات سے بھی کئی گھنٹے زیادہ گزر چکے ہیں، ورنہ یہ معمہ حل ہونا بہت ضروری تھا تاکہ آپ حضرات ان مقدمات سے اس عظیم حق کا پتہ لگائیں جو حضرت امام حسین (ع) اسلام اکھاڑ پھینکایا اپنے اپل بیت کے خون سے لا الہ الا اﷲ کے شجرہ طیبہ کی آبیاری کی جو بنی امیہ اور بالخصوص یزید پلید کے ظلم سے خشک ہونے کے قریب تھا، اور اسلام و توحید کو ایک نئی زندگی عطا کی۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آپ بجائے اس کے کہ ان بزرگوار کے خدمات کی قدر کرتے

۱۲۶

ان کے زائرین کے زیارت کے لیے جانے پر اعتراض اور نکتہ چینی کرتے ہیں ، اس کا نام مردہ پرستی رکھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں کہ کس لیے کروڑوں انسان ہر سال ان حضرات کے مرقد مطہر کی زیارت کو جاتے ہیں، مجلس عزا برپا کرتے ہیں اور ان مظلوم کی غریبی پر گریہ کرتے ہیں۔

گمنام جاں نثار

ہم کتب و رسائل اور اخبارات میں پڑھتے ہیں اور سیاحت کرنے والے بتاتے ہیں کہ دنیا کے متمدن ممالک کے مرکزی مقامات جیسے پیرس، لندن، برلن اور واشنگٹن وغیرہ میں“ گمنام جاں نثار ” کے نام سے کچھ محترم مزارات موجود ہیں۔

کہتے ہیں کہ اس جوانمرد نے وطن کی حفاظت میں ظالموں کے ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی ہے۔ لیکن اس کے جسم و لباس میں کوئی ایسی واضح علامت نہیں پائی گئی جس سے معلوم ہوتا کہ یہ کس قوم و قبیلہ اور شہر کا باشندہ ہے۔

باوجودیکہ وہ ایک گمنام اور بے نام و نشان شخصیت ہے لیکن صرف اس خیال سے کہ اس نے ظلم و ظالم کے مقابلہ میں اپنے خون کی قربانی دی ہے جب کوئی بادشاہ صدر جمہوریہ، وزیر یا کسی طبقے کا کوئی شریف و بزرگ انسان ان شہروں میں وارد ہوتا ہے تو احتراما اس گمنام۔۔۔۔۔ جاں باز کی زیارت کو جاتا ہے او پھولوں کا تاج اس کی قبر پر رکھتا ہے۔

قدر دانی کے نام پر ایک غیر معروف سپاہی کا اس قدر احترام اس لیے کرتے ہیں کہ اقوام عالم کے سامنے اپنی قومی حیثیتوں کا تحفظ کرسکیں۔

لیکن صاحبان اںصاف کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ ہم مسلمان لوگ باوجودیکہ بہتر با نام و نشان سر فروش رکھتے ہیں جوسب کےسب عالم و عابد، صاحبان تقوی اور بعض ان میں سے قاری و حافظ قرآن تھے اور جنہوں نے دین و توحید ، حریم اسلام کے تحفظ اور عدل و انصاف کی راہ میں ظالموں کے ظلم کا مقابلہ کرتےہوئے جان دی اور ان میں سے زیادہ تر خدا و رسول (ص) اور عترت پیغمبر (ص) کی امانت تھے لیکن بجائے قدردانی اور لوگوں کو ان کی زیارت کا شوق دلانے اور ان کی قبروں کے احترام کا حکم دینے کے نکتہ چینی کی کوشش کرتے ہیں اور ایک دوسرے فرقے والے علاوہ عیب جوئی اور اعتراض کے اپنے متعصب علماء کے بھڑکانے سے ان کی قبروں کو برباد کرتے ہیں اور ان کے صندوق بالائے قبر کو

۱۲۷

جلا کر قہوہ بناتے ہیں۔

چنانچہ سنہ۱۲۱۶ ہجری میں عید غدیر کے روز جب کربلا کے سارے باشندے ( سوا تھوڑے افراد کے) زیارت کے لیے نجف اشرف گئے ہوئے تھے نجدی وہابیوں نے موقع غنیمت سمجھ کر حملہ کر دیا۔ ضعیف وغیر ضعیف شیعوں کے قتل و غارت میں مشغول ہوئے اور دین کے نام پر فدائیاں دین توحید ( یعنی سید شہداء حضرت امام حسین (ع) اور آپ کے انصار) کی مقدس قبروں کو برباد اور زمین کے برابر کردیا ( تقریبا پانچ ہزار) باشندگان کربلا علماء اور ناتوان ضعفاء یہاں تک کہ شیعوں کی عورتوں اور بے گناہ بچوں کو قتل کیا۔ حضرت سید شہداء (ع) کا خزانہ لوٹ لیا، جواہرات ، سونے کی قندیلیں، قیمتی اشیاء اور بڑے بڑے پیش بہا فرش اٹھا لےگئے قبر مطہر کے اوپر کا قیمتی صندوق جلا کر اس سے قہوہ بنایا اور ایک کثیر جماعت کو قید کر کے اپنے ہمراہ لے گئے انا ﷲ و انا ال يه راجعون ۔ ( افسوس ہے ایسے اسلام پر)۔

واقعی بہت افسوس ناک بات ہے کہ تمام متمدن مملاک ، علماء سلاطین اور دانش مندوں کی یہاں تک کہ اپنے گمنام سپاہی کی قبروں کا احترام کریں لیکن مسلمان جو اپنے مایہ ناز افراد کے قبور کی حفاظت میں سب سے زیادہ اولی اور احق ہیں وہ آدم خور وحشیوں کی طرح ان کے مزارات کو مسمار اور تباہ و بردباد کریں حتی کہ مکہ اور مدینہ میں حضرت حمزہ سید شہداء (ع) جیسے شہدائے احد، پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد جیسے جناب عبدالمطلب و عبداﷲ آں حضرت(ص) کے اعمام و اہل وقوم، فرزندان رسول خدا(ص) جیسے سبط اکبر حضرت امام حسن(ع) مسموم ، سید الساجدین حضرت امام زین العابدین (ع) ، باقر العلوم حضرت امام باقر(ع)، صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہم السلام ، دوسرے بنی ہاشم ، علمائے اعلام اور مفاخر اسلام کی قبروں کو زمین کے برابر کر دیں اور اس کے بعد بھی اپنے کو مسلمان کہیں۔ ہاں اپنے بزرگوں اور بادشاہوں کے مقبرے البتہ بہت شاندار طریقے سے تعمیر کریں۔ حالانکہ ہمارے اور آپ کے علماء نے قبور مومنین کی زیارت پر راغب کرنے کے لیے کس قدر کثرت سے حدیثیں نقل کی ہیں تاکہ اس ذریعے سے مومنین کی قبریں حوادث زمانہ کی دستبرد سے محفوظ رہیں۔

خود رسول اﷲ(ص) قبور مومنین کی زیارت کو تشریف لے جاتے تھے اور ان کے لیے مغفرت طلب فرماتے تھے مسئلہ یہ کہ کچھ خفیہ مقاصد کے ماتحت مذہب کے نام پر اپنے ہی ہاتھوں اپنی قابل فخر ہستیوں کی قبریں خراب اور خاک کے برابر کریں اور ان کا نشان بھی دنیا میں باقی نہ رہنے دیں بات ختم کرتا ہوں ورنہ دل میں ابھی بہت کچھ ہے۔

۱۲۸

شرح این ہجراں و ایں خون جگر ایں زمان بگزار تا وقت دگر

آل محمد(ص) شہدائے راہ خدا اور زندہ ہیں

آیا آپ اس جلیل القدر خانوادہ کو جس نے دین اور توحید کی راہ م ی ں جا نی ں دیں ، شہ ی د سمجھتے ہیں یا ن ہیں ؟ اگر کہئے کہ شہید نہیں ہیں تو اس پر آپ کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر شہید ہیں تو پھر آپ انہیں مردہ کیوں سمجھتے ہیں؟ حالانکہ قرآن مجید میں کھلا ہوا ارشاد ہے " احياء عند ربهم يرزقون " یعنی وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے پاس رزق پاتے ہیں۔ ۱۲ مترجم) پس قرآنی آیات اور معتبر احادیث کی بنا پر مقدس ہستیاں زندہ ہیں، مردہ نہیں ہیں۔ چنانچہ ہم لوگ بھی مردہ پرست نہیں ہیں اور مردے پر سلام نہیں کرتے بلکہ زندوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔

علاوہ اس کے کوئی با سواد یا جاہل شیعہ ان حضرات کو حاجت روائی میں خود مختار نہیں سمجھتا بلکہ ان کو خدا کے نیک بندے اور معبود کی طرف ایک بلند مرتبہ واسطہ جانتا ہے ( جیسا کہ اسی کتاب کے صفحہ۹۷ میں مذکور ہے)

ہم صرف اس لئے اپنی حاجتوں کو ان کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ برحق ائمہ اور عالی منزلت صالحین ، خدا سے دعا فرمائیں تاکہ وہ ہم نا اہل انسانوں پر کرم فرمائے۔ اور اگر زبان سے یہ کہتے ہیں کہ یا علی ادرکنی ، یا حسین ادرکنی تو اس کی مثال بعینہ اسی آدمی کی ایسی ہے جو کسی با اقتدار بادشاہ سے کوئی حاجت رکھتا ہے تو وزیر اعظم کے دروازے پر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب وزیر صاحب میری فریاد کو پہنچئے۔ لیکن یہ کہنے والا وزیر کو ہرگز بادشاہ اور اپنی حاجت روائی میں خود مختار نہیں مانتا ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ چونکہ بادشاہ کی نظر میں با عزت ہیں۔ لہذا میری سفارش کردیجئے تاکہ میرا کام بن جائے۔

شیعہ بھی آل محمد علیہم السلام کو خدا اور خدائی کاموں میں شریک نہیں جانتے ہیں بلکہ ان کو اﷲ کے صالح بندے سمجھتے ہیں جو علاوہ اپنی پاک فطرت کے عبادت و تقوی اور دینی خدمات کے نتیجہ میں حق تعالی کے منظور نظر قرار پائے لہذا دونوں عالم میں ان کو امامت و ولایت کے عہدے اور بلند و بالا درجات عطا کیئے تاکہ پروردگار کے حکم اور اجازت سے موجودات میں تصرف کرسکیں۔ چونکہ یہ حضرات خدائے ذوالجلال کے امانت دار اور نمائندے ہیں اس بنا پر حاجت مندوں کے ضروریات خدا کی بارگاہ میں پیش

۱۲۹

کرتے ہیں ، اگر سائل کی حاجت روائی مصلحت کے مطابق ہوتی ہے تو قبول فرماتا ہے ورنہ آخرت میں اس کا عوض دیتا ہے ۔ چنانچہ عملی طور پر ہم ایسا دیکھتے بھی ہیں اور نتائج بھی حاصل کرتے ہیں۔

یہ مشتے نمونہ از خود ؟؟؟؟؟؟؟؟ چند مختصر جملے تھے جو مجبورا آپ کی اس بات کے جواب میں عرض کئے گئے کہ مردے سے خطاب کیوں کرتے ہو اس مقام پر یہ نکتہ بھی بغیر کہے نہ رہ جائے کہ شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی منزل اس سے بالاتر سمجھتے ہیں کہ دوسرے شہدائے اسلام کی طرح ان کےلیے بھی صرف ایک زندگی ثابت کریں۔

حافظ : آپ کے بیان میں یہ فقرہ ایک معمہ ہے جس کے حل کی ضرورت ہے ۔ آخر آپ کے اماموں میں دوسرے اماموں سے کیا فرق ہے؟ صرف سیادت کی منزلت اور رسول اکرم(ص) سے ان کی نسبت نے ان کو دوسروں کے مقابلے میں ممتاز بنا دیا ہے۔

خیر طلب : اس میں کوئی معمہ قطعی نہیں ہے صرف اس مطلب کا تصور آپ کےلیے دشوار ہے کیونکہ ساری زندگی منزل امامت کی معرفت سے دور رہے ہیں۔ سب سے پہلے ضرورت اس کی ہے کہ اپنی عادت اور تعصب سے الگ ہو کر علم و عقل اور منطق و اںصاف کی نظر سے مقام امامت کا مطالعہ فرمائیے اس کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ شیعہ اعتقاد کے لحاظ سے منصب امامت اور آپ کے عقائد کے مطابق امامت کے درمیان ایک بین اور واضح فرق یہ۔ اگر میں اس مقصد کو ثابت کرنے بیٹھوں تو صبح تک انتظار کرنا ہوگا۔ اب یہ اہم موضوع ایک اطمیانی نشست کے لیے ملتوی کرتا ہوں جس میں گفتگو کا پورا وقت ہو انشاء اﷲ۔

( اس کے بعد ہم لوگوں نے جلسہ برخاست کیا ۔ چونکہ اذان صبح کا وقت قریب تھا اور سلسلہ گفتگو طولانی ہوچکا تھا لہذا لوگوں نے کہا کہ اب امامت کا موضوع کل رات پر رہا ہم نے خوش طبعی اور مزاح کے ساتھ ان حضرات کو کچھ دور چل کر رخصت کیا اور وہ بخیر و عافیت تشریف لے گئے۔)

۱۳۰

چوتھی نشست

شب دوشنبہ ۲۶ رجب سنہ۱۳۴۵ھ

آپ نے حقیقت کا نکشاف کر کے ہم پر احسان کیا

مغرب کے اول وقت حضرات اہل سنت میں سے تین نفر تشریف لائے اور کہا کہ جلسہ شروع ہونے سے قبل ہم آپ کی اطلاع کے لیے عرض کرتے ہیں کہ آج غروب آفتاب تک مسجدوں ، مکانوں، دفتروں اور بازاروں میں ہر جگہ آپ ہی کا تذکرہ تھا جس جگہ کسی کے ہاتھ میں آج کا اخبار تھا وہاں چاروں طرف کثرت سے لوگ اکٹھا تھے اور آپ کی تقریروں کےبارے میں بحث کررہے تھے۔ ہم لوگوں کو آپ سے کافی تعلق خاطر پیدا ہوگیا ہے۔ ہم سب کے دلوں میں آپ نے گھر کر لیا ہے اور ہم پر آپ کا بہت بڑا حق ہے کیونکہ آپ ان شبہات کو حل کر رہے ہیں جن کو ہمارے پیشواؤں نے بچپن ہی سے ہم کو الٹے طریقے پر سمجھایا تھا۔ہم اس کے لیے تہ دل سے معذرت خواہ ہیں کہ ہم شیعہ جماعت کو مشرک سمجھتے تھے ہم کیا کریں ہم کو ہمیشہ سے تعلیم ہی یہی دی گئے ہے۔ امید ہے کہ خداوند غفور ہماری توبہ قبول کرے گا۔ ادھر چند روز سے ہر شب کی بحثیں رسالوں اور اخباروں میں شائع ہو رہی ہیں تو اکثر اخبارات کے خریداروں اور بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں، خصوصا ہم لوگ جو شریک جلسہ اور آپ کی لطیف گفتگو سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں بہت متاثر ہوئے ہیں خاص طور پر گذشتہ شب کیونکہ آپ نے خوب خوب پردے اٹھائے اور پوشیدہ حقائق کو ظاہر فرمایا امید ہے کہ مزید انکشافات ہوں گے اور اس سے زیادہ حقیقتیں بے نقاب ہوں گی۔

دوسری بات جس کی طرف ہم آپ کی توجہ منذول کرانا چاہتے ہیں یہ ہے کہ ہم پر اور ہماری جماعت پر جو چیز سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی ہے وہ جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں آپ کی واضح اور سادہ گفتگو ہے۔ کیونکہ آپ ہماری ہی زبان میں مطلب کو اس قدر مفصل اور عام فہم طریقے سے بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے تمام بے سواد افراد کو اپنی طرف جذب کر لیتے ہیں ، آپ قطعی طور پر یہ پہلو پیش نظر رکھیں کہ ساری جماعت میں فی صد پانچ نفر سے زیادہ صاحبان علم و خبر نہیں ہیں۔ کورکورانہ طور بچپن سے جو کچھ سن رکھا ہے اس نے ان کے

۱۳۱

قلب و دماغ میں جگہ پکڑ لی ہے اب تو انہیں صرف سادگی ہی کے ذریعے سمجھایا جاسکتا ہے ، چنانچہ آپ اسی بات پر عمل کر رہے ہیں اور امید ہے کہ پورا پورا نتیجہ حاصل ہوگا۔

اتنے میں حضرات علماء تشریف لے آئے اور ہم نے گرم جوشی اور خندہ پیشانی کےساتھ ان کو خوش آمدید کہا ۔ چائے نوشی اور معمولی خاطر تواضع کے بعد جلسے کی کاروائی شروع ہوئی۔

نواب : قبلہ صاحب گزشتہ رات طے پایا تھا کہ آج کی شب امامت کے بارے میں گفتگو ہوگی، ہم اس خاص موضوع کو سمجھنے کے لیے بہت مشتاق ہیں اور چونکہ اسی موضوع پر دوسرے مطالب کی بنیاد ہے لہذا ہماری تمنا ہے کہ صرف اسی مسئلے کو مورد بحث قرار دیں تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہمارے اور آپ کے درمیاں موضوع امامت میں کیا اختلاف ہے۔

خیر طلب : مجھ کو کوئی عذر نہیں ہے، چنانچہ اگر مولوی صاحبان اسی طرف مائل ہوں تو میں حاضر ہوں۔

حافظ : ( اڑے ہوئے رنگ اور اترے ہوئے چہرے کے ساتھ) ہماری طرف سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے آپ جس طرح سے مناسب سمجھیں بیان فرمائیں۔

امامت کے بارے میں بحث

خیر طلب : آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے کہ لغت اور اصطلاح کی حیثیت سے امام کے کئی معنی ہیں۔ لغت میں امام پیشوا کے معنی رکھتا ہے الامام هو المتقدم بالناس یعنی امام انسانوں کا پیشوا ہے۔ امام جماعت یعنی نماز جماعت میں لوگوں کا پیشوا۔ امام الناس یعنی امور سیاسی یا روحانی وغیرہ میں آدمیوں کا پیشوا۔ امام جمعہ یعنی جو شخص نماز جمعہ میں پیشوائی کرے۔

اہلسنت کے مذاہب اربعہ پر بحث اور کشف حقیقت

اس بنا پر جماعت اہل تسنن یعنی مذاہب اربعہ کے پیرو اپنے پیشواؤں کو امام کہتے ہیں جیسے امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل۔ یعنی وہ فقہاء و مجتہدین جو امر دین میں ان کے پیشوا ہیں اور جنہوں نے اپنی عقل و فکر کے ذریعہ اجتہاد یا قیاس کے ساتھ ان کے لیے حلال و حرام کے احکام معین کئے ہیں۔

۱۳۲

یہی وجہ سے کہ جب ہم آپ کے چاروں اماموں کی فقہی کتابون کا مطالعہ کرتے ہیں تو اصول و فروع کی حیثیت سے ان میں بہت اختلافات نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے ائمہ اور پشوا تمام ادیان و مذاہب کے اندر ہیں۔ یہاں تک کہ مذہب شیعہ میں بھی علماء فقہاء وہی درجہ رکھتے ہیں جس کے آپ اپنے اماموں کے لیے قائل ہیں۔ لہذا وہ حضرت امام عصر عجل اﷲ فرجہ کی غیبت میں ہر عہد اور زمانےمیں موازین علمی کی روسے کتاب و سنت اور عقل و اجماع کے ادلہ اربعہ کے ساتھ فتوے دیتے ہیں۔ پھر بھی ہم ان کو امام نہیں کہتے ہیں کیونکہ امامت عترت طاہرہ(ع) سے بارہ اوصیاء کے ساتھ مخصوص ہے۔ ایک فرق یہ ہے کہ آپ کے بزرگوں نے بعد کے لیے اجتہاد کا دروازہ بند رکھا ہے یعنی پانچویں صدی ہجری سے جب کہ بادشاہ کے حکم سے علماء و فقہاء کی ایجاد کردہ رائیں جمع کی گئیں، صرف چار کے اندر منحصر کر کے مذاہب اربعہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی کو رائج کیا گیا اور لوگوں کو مجبور کیا گیا ہے ان چاروں میں سے کسی ایک مذہب پر عمل کریں جیسا کہ اب تک رواج ہے معلوم نہیں کہ مقام تقلید میں ایک فرد کو دوسرے افراد پر کس دلیل و برہان سے ترجیح حاصل ہے۔ حنفیوں کے امام میں کیا خصوصیت ہے جو مالکیوں کو نہیں ملی اور شافعیوں کا امام کیا فضیلت رکھتا ہے جو حںبلیوں کے پاس نہیں۔

اگرملت اسلامی اس پر مجبور ہے کہ ان چاروں کے فتاوی سے باہر نہ جائے تو جماعت مسلمین بہت سخت جمود کے پنجے میں گرفتار ہوگئی ہے اور کبھی ان میں ترقی اور بلندی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ حالانکہ مقدس دین اسلام کے خصوصیات میں سے ایک یہی ہے کہ ہر دور اور زمانے میں قافلہ تمدن کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور یہ مقصد لازمی طور پر ایسے فقہاء و مجتہدین چاہتا ہے جو ہر عہد میں موازین شرعیہ کے تحفظ کے ساتھ کاروانِ تہذیب کے ہمراہ آگے بڑھیں اور مذہب کی مرکزیت کو محفوظ رکھیں۔

کیونکہ بہت سے امور ایسے ہیں ج کے تجدد کی وجہ سے ان میں تقلید میت کی گنجائش نہیں ہے ۔ بلکہ حتمی طور پر زندہ فقیہ اور مجتہد کی طرف رجوع کرنا ان کی دماغی کاوش سے فائدہ حاصل کرنا اورا ن کے فتوی کو اپنا لائحہ عمل بنانا ضروری ہوتا ہے۔ باوجودیکہ بعد کے زمانوں میں آپ کے یہاں ایسے عالی منزلت مجتہدین اور فقہاء پیدا ہوئے جو ان چاروں اماموں سے بدرجہا اعلم اور افقہ تھے لیکن معلوم نہیں یہ ترجیح بلا مرجح ، مقام اجتہاد کو ان چار نفر کے اندر محصور کر دینا اور دوسروں کے علمی افادات کو ضائع کرنا کس مصلحت کی بنا پر تھا۔ البتہ جماعت شیعہ کے اندر ظہور امام آخرالزمان عجل ا ﷲ فرجہ تک ہر دور اور ہر زمانے میں تمام فقہاء اور مجتہدین کو فتاوی کا حق حاصل ہے اور ہم مسائل جدیدہ میں ابتداء تقلید میت کو ہرگز جائز نہیں سمجھتے ۔

۱۳۳

مذاہب اربعہ کی پیروی پر کوئی دلیل نہیں ہے

تعجب ہے کہ آپ شیعہ فرقے کو تو بدعتی اور مردہ پرست کہتے ہیں جو اہل بیت رسول(ص) میں سے بارہ ائمہ(ع) کی ہدایتوں پر آں حضرت(ص) ہی کے حکم سے ( ان نصوص خاصہ کے ساتھ جو آپ کی کتابوں میں بھی تشریح کے ساتھ مندرج ہیں) عمل کرتے ہیں لیکن معلوم نہیں آپ حضرات کس دلیل سے مسلمانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ اصول میں اشعری یا معتزلی مذہب پر اور فروع میں لازمی طور پر مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک پر عمل پیرا ہوں۔ اور اگر ان باتوں پر جو آپ بغیر دلیل کے کہتے ہیں عمل نہ کریں۔ یعنی اشعری یا معتزلی مذہب یا مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کے پیرو نہ بنیں تو رافضی ، مشرک اور گردن زدنی قرار پائیں۔

اگر آپ پر ایراد کیا جائے کہ چونکہ ابو الحسن اشعری یا ابو حنیفہ ، مالک ابن انس، محمد ابن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل کی پیروی کے لیے پیغمبر(ص) کا کوئی فرمان نافذ نہیں ہوا ہے اور یہ بھی من جملہ اور اسلامی علماء و فقہاء کے تھے لہذا صرف انہیں کی تقلید پر اںحصار کرنا بدعت ہے تو کیا جواب دیجئیے گا؟

حافظ : ائمہ اربعہ چونکہ زہد و ورع تقوی و امانت اور عدالت کے ساتھ ساتھ فقاہت اور علم و اجتہاد کی منزل پر فائز تھے لہذا ان کی پیروی ہم پر لازمی ہوگئی۔

خیر طلب : اول تو جو کچھ آپ نے فرمایا یہ ایسے دلائل نہیں ہیں جو حصر کا سبب بن جائیں کہ روز قیامت تک مسلمان ان کے طریقے کی پیروی کرنے پر مجبور ہوں۔ اس لیے کہ آپ اپنے سارے علماء و فقہاء کے لیے ان صفات کے قائل ہیں اور ان چاروں کے اندر اںحصار کرنا بعد کے علماء کے توہین ہے۔ کسی ایک فرد یا افراد کی پیروی پر اسی وقت مجبور کیا جاسکتا ہے جب کہ خاتم الانبیاء(ص) سے کوئی ہدایت یا نص مروی ہو حالانکہ آپ کے ائمہ اربعہ کے بارے میں ایسا کوئی حکم یا نص آنحضرت(ص) سے منقول نہیں ہے لہذا آپ نے کیونکہ مذاہب کو چار کے اندر محدود کردیا اور ان چار اماموں میں سے ایک کی پیروی کا لازمی ہونا حق سمجھتے ہیں؟

یہ عجیب معاملہ صاحبان عقل و اںصاف کے لیے قابل غور ہے

بہت مضحکہ خیز بات ہے کہ چند شب پہلے آپ نے شیعہ مذہب کو سیاسی قرار دیا اور کہا کہ یہ مذہب چونکہ رسول اﷲ(ص) کے زمانے میں نہیں تھا اور خلافت عثمان میں پیدا ہوا ہے۔ لہذا اس کی پیروی

۱۳۴

جائز نہیں ہے۔ حالانکہ پرسوں شب میں نے عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کردیا کہ مذہب شیعہ کی بنیاد رسول اﷲ(ص) کے زمانے میں آں حضرت(ص) ہی کی ہدایت سے قائم ہوئی اور شیعوں کے سردار امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بچپن ہی سے دامن نبوت میں پرورش پائی۔ آں حضرت (ص) سے معالم دین کی تعلیم حاصل کی، ان روایات کے مطابق جو آپ کی معتبر کتابوں میں منقول ہیں آںحضرت(ص) نے آپ کو اپنے علم کا دروازہ فرمایا اور صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی مخالت میری مخالفت ہے، ستر ہزار مسلمانوں کے مجمع میں آپ کو امارت و خلافت کے عہدے پر منصوب فرمایا اور عام مسلمانوں کو یہاں تک کہ عمر اور ابوبکر کو بھی حکم دیا اور ان لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔

لیکن آپ کے چاروں مذاہب حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کس بنیاء پر قائم ہوئے ہیں؟ آپ کے ان چار اماموں میں سے کس نے رسول خدا(ص) سے ملاقات کی ہے یا کس کے بارے میں آںحضرت(ص) کی طرف سے کوئی ہدایت جاری ہوئی ہے تاکہ مسلمان آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی پر مجبور ہوں؟ جیسا کہ آپ بھی بغیر کسی دلیل کے اپنے اسلاف کے قدم بقدم چلتے ہوئے ان چار اماموں کی پیروی کر رہے ہیں جن کی امامت مطلقہ پر ایک دلیل بھی دلیل نہیں رکھتے سوا اس کے کہ آپ نے فرمایا وہ فقیہ، عالم، مجتہد، زاہد اور صاحبان تقوی تھے تو ہر ایک کے زمانے والوں کو صرف ان کی زندگی میں ان علماء کے فتاوی پر عمل کرنا چاہئیے تھا نہ یہ کہ ساری دنیا کے مسلمان روز قیامت تک ان کی اطاعت کے پابند بنا دیے جائیں۔

علاوہ ان باتوں کے اگر رسول اﷲ(ص) کے صریحی ارشادات کے ساتھ ساتھ یہ صفات بھی ہزاروں گنا زیادہ آں حضرت (ص) کی عترت میں جمع ہوگئی ہوں تو بدرجہ ادنی ان حضرات کا اتباع اور پیروی فرض ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جن کے بارے میں قطعا کوئی نص یا فرمان نافذ نہیں ہوا ہے۔ آیا وہ مذاہب جن کا رسول(ص) کے زمانے میں کوئی نشان نہیں تھا اور ائمہ اربعہ میں سے کوئی ایک بھی آں حضرت(ص) کے عہد میں موجود نہیں تھا نہ ان کے بارے میں آں حضرت (ص) سے کوئی حکم منقول ہے اور ایک صدی کے بعد دنیا میں رونما ہوئے ، ایجاد بندہ اور سیاسی ہیں؟ یا وہ مذہب جس کے بانی رسول خدا(ص) اور جس کا پیشوا آں حضرت(ص) کے ہاتھوں میں تربیت پایا ہوا تھا؟ اور اسی طرح باقی گیارہ امام جن سب کے لیے فردا فردا حدیثیں مروی ہیں، ان کو عدیل قرآن قرار دیا ہے اور حدیث ثقلین میں صاف ارشاد فرمایا ہے کہ :

" من تمسک بهما فقد نجی و من تخلف عنهما فقد هلک ۔" (۱)

جس نے ان دونوں سے تمسک کیا وہ یقینا نجات یافتہ ہے اور جس نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ اسی کتاب کے صفحہ۹۲ صفحہ۹۳ میں اس کی اصل اور اسناد کی طرف اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۳۵

دونوں سے رو گردانی کی وہ یقینا ہلاک ہوا ۱۲ مترجم) اور حدیث سفینہ میں فرمایا ہے کہ من تخلف عنهم فقد هلک (۱) یعنی اور جس نے ان سے منہ موڑا پس وہ یقینا ہلاک میں گرفتار ہوا۔ ۱۲ مترجم)

ابن حجر صواعق باب وحیتہ النبی صفحہ۱۳۵ میں آن حضرت(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا “ قرآن اور میری عترت تمہارے درمیان میری امانت ہیں کہ اگر ان دوںوں سے ایک ساتھ تمسک اختیار کرو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے”

پھر ابن حجر کہتے ہیں کہ اس قول کی موید ایک دوسری حدیث ہے جو آں حضرت (ص) نے قرآن و عترت کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے۔" فلا تقدموهما فتهلكوا، و لا تعلموهما فإنهما أعلم منكم." ( یعنی قرآن اور میری عترت پر پیش قدمی نہ کرو۔ اور ان کی خدمت میں کوتاہی نہ کرو۔ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ اور میری عترت کو تعلیم نہ دو۔ کیونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔)

اس کے بعد ابن حجر نے تبصرہ کیا ہے کہ “ یہ” حدیث شریف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آں حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت(ع) مراتب علمیہ اور وظائف دینیہ میں دوسروں پر تقدم کا حق رکھتے ہیں۔” حیرت ہے کہ اس بات کا یقین رکھتے ہوئے بھی کہ عترت و اہل بیت رسول(ص) کو دوسروں پر مقدم ہونا چاہیئے بغیر کسی دلیل و برہان کے اصولی ہیں ابوالحسن اشعری کو اور فروع میں ان چاروں فقہا کو اس خاندان جلیلی پر مقدم قرار دیتے ہیں۔ در حقیقت فقیہ امام علم و ورع اور تقوی اور عدالت کی وجہ سے پیشوا قرار پائے تو ان میں سے ایک نے دوسرے پر فسق اور کفر کا فتوی کس لیے لگایا ہے؟

حافظ : آپ بہت زیادتی کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ کے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں، یہاں تک کہ ہمارے فقہا اور اماموں پر تہمت لگاتے ہیں کہ یہ لوگ ایک دوسرے کی تردید و توہین یا تفسیق و تکفیر پر اتر آئے ہیں۔ آپ کا یہ بیان قطعا کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ اگر ان کے بادے میں کوئی تردید یا تنقید کی گئی ہے تو وہ شیعہ علماء کی طرف سے ہے ورنہ ہمارے علماء کی جانب سے سوا تعظیم و تکریم کے جو ان حضرات کے شایان شان تھی ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔

خیر طلب : معلوم ہوتا ہے کہ جناب عالی کو اپنے علماء کی معتبر کتابوں کے مندرجات پر کوئی توجہ نہیں ہے یا جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں یعنی جانتے ہوئے مغالطہ دے رہے ہیں ، ورنہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے ان کی رد میں کتابیں لکھی ہیں یہاں تک کہ خود چاروں اماموں نے ایک دوسرے کو فاسق اور کافر بنایا ہے۔

--------------

۱۔ اسی کتاب کے صفحہ۹۲ صفحہ۹۳ میں اس کی اصل اور اسناد کی طرف اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۳۶

حافظ : فرمائیے وہ علماء کون ہیں اور ان کی کتابوں کے اندراجات کیا ہیں؟ اگر آپ کی نظر میں ہو تو بیان کیجئے۔

خیر طلب : اصحاب ابو حنیفہ اور ابن حزم ( علی ابن احمد اندلسی متوفی سنہ۴۵۶ھ) وغیرہ برابر امام مالک اور محمد بن ادریس شافعی پر طعن کرتے رہے ہیں اور اسی طرح اصحاب شافعی جیسے امام الحرمین اور امام غزالی وغیرہ ابو حنیفہ اور مالک پر طعن کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ میں جناب عالی سے پوچھتا ہوں کہ فرمائیے امام شافعی، ابو حامد محمد بن محمد عزالی اور جار اﷲ زمخشری کیسے اشخاص ہیں؟

حافظ : ہمارے بزرگ ترین فقہاء و علماء میں سے ، ثقہ اور اہل سنت واجماعت کے امام ہیں۔

اہل تسنن کے علماء اور اماموں کا ابوحنیفہ کو رد کرنا

خیر طلب : امام شافعی کہتے ہیں ما ولد فی الاسلام اشام من ابی حنیفہ۔ ( یعنی اسلام کے اندر کوئی شخص ابو حنیفہ سے زیادہ منحوس پیدا نہیں ہوا) نیز کہا ہے

" نظرت في كتب أصحاب أبي حنيفة فإذا فيها مائة و ثلاثون ورقة خلاف الكتاب و السنة."

یعنی میں نے اصحاب ابوحنیفہ کی کتابوں میں نظر کی تو ان میں مجھ کو ایک سو تیس ورق کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کے خلاف ملے۔)

ابو حامد غزالی کتاب متحول فی علم الاصول میں کہتے ہیں:

"فأمّا أبو حنيفة فقد قلب الشريعة ظهرا لبطن و شوّش مسلكها و غيّر نظامها، و أردف جميع قواعد الشريعة بأصل هدم به شرع محمّد المصطفى صلّى اللّه عليه و آله و سلم، و من فعل شيئا من هذا مستحلّا كفر، و من فعل غير مستحلّ فسق"

یعنی در حقیقت ابوحنیفہ نے شریعت کو پلٹ دیا، اس کے راستے کو مشتبہ بنا دیا، اس کے نظام کو بدل ڈالا اور قوانین شرع میں سے ہر ایک کو ایک ایسی اصل کے ساتھ جوڑ دیا جس کے ذریعے رسول اﷲ(ص) کی شرع کو برباد کر دیا۔ جو شخص عمدا ایسی حرکت کرے اور اس کو جائز سمجھے وہ کافر ہے اور جو شخص نا جائز سمجھتے ہوئے ایسا کرے وہ بدکار ہے۔ چنانچہ اس بزرگ عالم کے قول کے مطابق ابوحنیفہ یا کافر تھے یا فاسق۔ اس کے بعد اس باب میں ان کی طعن درد اور تفسیق میں بہت سی باتیں لکھی ہیں جن کا بیان میں ترک کرتا ہوں اور جار اﷲ زمخشری صاحب تفسیر کشاف نے جو آپ کے ثقات علماء میں سے ہیں ربیع الابرار میں لکھا ہے :

" قال يوسف بن اسباط رد ابو حنيفه علی رسول اﷲ اربعة مائة حديث او اکثر. "

یعنی یوسف بن اسباط نے کہا ہے کہ ابو حنیفہ نےرسول خدا(ص) پر چار سویا اس سے زیادہ حدیثیں روکیں۔ نیز یوسف کہتا ہے کہ ابو حنیفہ کہتا تھا لو ادرکنی

۱۳۷

رسول اﷲ لاخذ بکثیر من قولی۔ یعنی اگر رسول اﷲ مجھ کو پاتے تو میرے بہت سے اقوال اختیار کرتے یعنی میری باتوں کی پیروی کرتے) ۔ اسی طرح کے بکثرت مطاعن ابو حنیفہ اور باقی تین اماموں کے بارے میں آپ کے علماء سے منقول ہیں جو غزالی کی کتاب متحول، شافعی کی کتاب نکت الشریف زمخشری کی ربیع الابرار اور ابن جوزی کی منتظم وغیرہ دیکھنے سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ امام غزالی متحول میں کہتے ہیں :

" ان ابا حنيفه النعمان بن ثابت الکوفی يحق فی الکلام ولا يصرف اللغة والنحو ولا يعرف الاحاديث ۔"

( یعنی ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کوفی کے کلام میں غلطیاں بہت ہیں۔ ان کو لغت و نحو اور احادیث کا علم نہیں تھا) نیز لکھتے یں کہ یہ چونکہ علم حدیث سے ( جو قرآن کے بعد دین کا ستون اور بنیاد ہے) واقف نہیں تھے لہذا فقط قیاس رپ عمل کرتے تھے، حالانکہ اول من قاس ابلیس یعنی سب سے پہلے جس نے قیاس پر عمل کیا وہ شیطان تھا۔ ( چنانچہ جو شخص قیاس پر عمل کرے اس کا حشر ابلیس کے ساتھ ہوگا۔)

اور ابن جوزی منتظم میں کہتے ہیں اتفق الکل علی الطعن فیہ۔ یعنی سارے علماء ابو حنیفہ پر طعن کرنے میں متفق ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ طعن کرنے والے تین قسم کے ہیں۔ ایک گروہ نے ان کو اس لئے مورد طعن قرار دیا ہے کہ یہ اصول عقائد میں متزلزل تھے۔ دوسری جماعت نے کہا ہے کہ ان کے پاس حافظ اور ضبط روایات کی قوت نہیں تھی اور تیسری صنف کا اعتراض یہ ہے کہ یہ اپنی رائے اور قیاس سے کام لیتے تھے اور ان کی رائے ہمیشہ صحیح حدیثوں کی مخالفت ہوتی تھی۔

غرضیکہ آپ کے اماموں کے بارے میں آپ ہی کے علماء کی طرف سے اس طرح کی گفتگو اور مطاعن بہت ہیں۔ جن کے بیان کا فی الحال وقت نہیں ہے کیونکہ میں تردید اور انتقاد کی منزل میں نہیں تھا۔ آپ نے بات کا سلسلہ یہاں تک پہنچا دیا کہ فرمایا جو مطاعن منقول ہیں وہ صرف علمائے کی طرف سے ہیں اور جو کچھ تمہارے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہو لہذا میں نے یہ بتا دینا چاہا کہ آپ کا اعتراض بے جا ہے اور آپ محض گریز کا راستہ تلاش کرنے کے لیے بغیر عقل و منطق کے مقابلہ کر رہے ہیں ورنہ اصلیت اسکے خلاف ہے جو کچھ میری زبان پر جاری ہوتا ہے وہ علم و عقل اور منطق کے مطابق اور تعصب سے خالی ہوتا ہے علماء شیعہ نے آپ کے چاروں اماموں سے سوا ان باتوں کے جو خود آپ کے علماء نے لکھی ہیں کوئی نئی چیز منسوب نہیں کی ہے اور نہ ان کی توہین ہی کرتے ہیں۔ لیکن آپ کے علماء کے بر خلاف علمائے شیعہ امامیہ کے درمیان ہمارے بارہ ائمہ (ع) کے مقامات مقدسہ کی نسبت کسی طرح کا کوئی ایراد یا اعتراض موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم ائمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم

۱۳۸

اجمعین کو ایک ہی مدرسے کے شاگرد جانتے ہیں جن پر یکساں طور پر فیض خداوندی جارہی تھا اور یہ حضرات من اولہم الی آخرہم بالعموم قوانین الہیہ کے مطابق جو خاتم النبیین سے ان کو پہنچے تھے عمل فرماتے تھے۔ رائے و قیاس اور ایجاد بندہ پر کار بند نہیں تھے بلکہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ پیغمبر(ص) کی طرف سے تھا لہذا بارہ اماموں کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا( جیسے کہ آپ کے چاروں اماموں کے درمیان سارے عقائد و احکام میں اختلاف موجود ہیں) کیونکہ یہ حضرات امام تھے۔ لیکن امام لغوی نہیں جس کے معنی صرف آگے چلنے والے کے ہوں۔

امامت شیعوں کے عقیدے میں ریاست عالیہ الہیہ ہے

بلکہ علم کلام کی اصطلاح میں جیسا کہ محققین علماء نے بیان کیا ہے یہ امامت ریاست عالیہ الہیہ کے معنی میں اور اصول دین میں سے ایک اصل ہے اور ہم بھی اسی عقیدے پر ہیں کہ : “ الامامة ہی الریاسة العامة الہیة خلافة عن رسول اﷲ فی امور الدین و الدنیا بحیث یجب اتباعہ علی کافة الامة” یعن امامت سارے خلائق پر ایک عمومی ریاست الہی ہے بطریق خلافت رسول اﷲ(ص) کی طرف سے امور دین و دنیا میں اس صورت سے کہ اس کی متابعت سارے انسانوں پر واجب ہے۔”

شیخ : بہتر تھا کہ آپ قطعی اور حتمی طور سے یہ نہ فرماتے کہ امامت اصطلاحی اصول دین میں سے ہے کیونکہ بڑے بڑے علمائے اسلام کہتے ہیں کہ امامت اصول دین میں سے نہیں ہے بلکہ مسلمہ فروعات میں سے ہے، جس کو آپ کے علماء نے بغیر دلیل کے اصول دین کا جز بنا دیا۔

خیر طلب : میرا یہ بیان صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کے اکابر علماء بھی اسی عقیدے پر ہیں من جملہ ان کے آپ کے مشہور مفسر قاضی بیضاوی کتاب منہاج الاصول میں بسلسلہ بحث اخبار انتہائی صراحت کے ساتھ کہتے ہیں :

" أن الإمامة من أعظم مسائل أصول الدين التي مخالفتها توجب الكفر و البدعة "

یعنی حقیقتا امامت اصول دین کے عظیم ترین مسائل میں سے ہے جس کی مخالفت کفر و بدعت کا سبب ہے۔

ملا علی قوشجی شرح تجرید مبحث امامت میں کہتے ہیں :

" «الإمامة رئاسة عامّة في أمور الدين و الدنيا خلافة عن النبيّ "

یعنی امامت ایک ریاست عمومی ہے امور دین و دنیا میں بطریق خلافت پیغمبر(ص) کی طرف سے) اور قاضی روز بہان جیسے آپ کے انتہائی متعصب عالم نے بھی اسی مفہوم کو نقل کیا ہے کہ امامت ریاست براست اور نیابت و خلافت رسول(ص)

۱۳۹

ہے اس عبارت کے ساتھ کہ :" و الإمامة عند الأشاعرة: هي خلافة الرسول في إقامة الدين و حفظ حوزة الملّة، بحيث يجب اتّباعه على كافّة الأمّة."

یعنی امامت اشاعرہ کے نزدیک رسول اﷲ(ص) کی خلافت ہے دین کو قائم کرنے اور حلقہ ملت اسلام کی حفاظت کرنے میں، اس طرح سے کہ ساری امت پر اس کا اتباع واجب ہے۔

اگر امامت فروع دین میں سے ہوتی تو رسول اﷲ(ص) یہ نہ فرماتے کہ جو شخص بغیر امام کو پہچانے ہوئے مرے تو اس کی موت طریقہ جاہلیت پر ہے۔ چنانچہ آپ کے اکابر علماء جیسے حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، ملا سعد تفتازانی نے شرح عقائد نصفی میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

"من مات و هو لا يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية" (۱)

بدیہی چیز ہے کہ فروع دین میں سے کسی ایک فرع کی معرفت نہ ہوتا دین کے تزلزل اور طریقہ جاہلیت پر مرنے کا سبب نہیں ہوسکتا جیسا کہ بیضاوی صریحی طور پر کہتے ہیں کہ اس کی مخالفت کفر و بدعت کا سبب قرار پائے۔ پس ثابت ہے کہ امامت اصول دین میں داخل اور مقام نبوت کا تتمہ ہے۔ لہذا امامت کے معنی میں بہت بڑا فرق ہے ، آپ جو اپنے علماء کو امام کہتے ہیں جیسے امام اعظم ، امام مالک ، امام شافعی، امام احمد حنبل، امام فخرالدین ، امام ثعلبی امام غزالی وغیرہ تو یہ لغوی معنی کے لحاظ سے ہے۔ ہم بھی امام جمعہ اور امام جماعت رکھتے ہیں ، اماموں کی اس نوع کا دامن وسیع ہے اور ممکن ہے کہ ایک وقت میں سیکڑوں امام موجود ہوں، لیکن اس معنی میں جو میں نے عرض کیا امام ریاست عامہ مسلمین کے عہدے پر ہے۔ یہ ہر زمانے میں صرف ایک ہوتا ہے، ایسا امام کہ اس کو حتمی طور پر سارے صفات حمیدہ و اخلاق پسندیدہ کا حامل ، علم وفضل ، شجاعت ، زہد، ورع اور تقوی میں سارے انسانوں سے بہتر اور منزل عصمت پر فائز ہونا چاہیئے۔ اور کبھی روز قیامت تک زمین ایسے امام کے وجود سے خالی نہ رہے گی۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا امام جو انسانیت کے تمام صفات حالیہ کا حامل ہو صفات روحانیت کے بلند ترین مقام پر ہوگا۔ اور یقینا ایسے امام کو خدائے تعالی کی طرف سے خصوص اور رسول اﷲ (ص) کی طرف سے منصوب ہونا چاہیئے کیونکہ یہ سارے ؟؟؟؟؟ حتی کہ انبیائے کرام سے بھی اعلی و ارفع ہوتا ہے۔

حافظ : ایک طرف تو آپ غالیوں کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف خود ہی امام کے بارے میں غلو کرتے ہیں اور اس کی منزل کو مقام بنوت سے بالاتر سمجھتے ہیں، حالانکہ عقلی دلائل کے علاوہ قرآن مجید نے بھی انبیاء کی منزل کو سب سے بلند قرار دیا ہے اور واجب و ممکن کے درمیان صرف انبیاء(ع) ہی کا مقام ہے آپ کا یہ دعوی چونکہ بلا دلیل ہے لہذا سراسر زبردستی اور نا قابل قبول چیز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ اپنے امام زمان کو نہ پہچانتا ہو تو وہ حقیقت میں جاہلیت کی موت مرا۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369