پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 369
مشاہدے: 276513
ڈاؤنلوڈ: 7797


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 276513 / ڈاؤنلوڈ: 7797
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مقام امامت نبوت عامہ سے بالاتر ہے

خیر طلب : ابھی جناب عالی نے دلیل پوچھی بھی نہیں اور یہ فرما دیا کہ دعوے بے دلیل ہے حالانکہ سب سے مضبوط دلیل کتاب محکم آسمانی قرآن مجید ہے جو خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سرگزشت بیان کررہا ہے کہ ( جان و مال و فرزند کے) تینوں امتحانوں کے بعد جیسا کہ تفاسیر میں تشریح کے ساتھ درج ہے خدائے تعالی نے ارادہ فرمایا کہ ان حضرت کو مزید بلندی عنایت فرمائے چونکہ نبوت و رسالت اولی العزمی اور خلت کے عہدوں کے بعد جن پر آپ فائز تھے بظاہر کوئی ایسا منصب نہیں تھا جو ان حضرت کو اور زیادہ رفعت عطا کرے سوا منزل امامت کے جو تمام روحانی مقامات سے بالاتر تھی لہذا سورہ بقرہ آیت نمبر118 میں رسول اﷲ کو خبر دیتا ہے :

"إِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ وَ الْعَهْدُ هُوَ الْإِمَامَةُ."

یعنی یاد کیجئے اس وقت کو جب خدا نے ابراہیم (ع) کو چند امور میں امتحان لیا اور انہوں نے سب کو پورا کر دکھایا تو فرمایا میں نے تم کو انسانوں کا امام قرار دیا ابراہیم(ع) نے عرض کیا کہ یہ امامت میری اولاد کو بھی عطا ہوگی ؟ تو فرمایا کہ میرا عہد یعنی امامت ظالم لوگوں کو نہیں پہنچے گی۔

اس آیہ مبارکہ سے مقام امامت کے اثبات میں متعدد نتائج اور فوائد حاصل ہوتے ہیں جو عظیم المرتبت عہدہ امامت کے دلائل میں سے ہیں کہ رتبے اور درجے کے لحاظ سے یہ منصب مقام نبوت سے بلند تر ہے کیونکہ نبوت و رسالت کے بعد حضرت ابراہیم(ع) کو خلعت امامت سے سرفراز فرمایا ، چنانچہ اسی دلیل سے مقامِ امامت مقامِ نبوت سے بالاتر ثابت ہوتا ہے۔

حافظ : پھر تو آپ کے قول کی بنا پر جب کہ علی کرم اﷲ وجہ کو امام جانتے ہیں ان کی منزل پیغمبر(ص) کی منزل سے بالاتر ہونا چاہیئے ۔ اوریہ وہی غلات کا عقیدہ ہے جس کو آپ خود بیان کر چکے ہیں۔

خیر طلب : مطلب وہ نہیں ہے جو جناب نکالی رہے ہیں کیونکہ آپ کو خود معلوم ہے کہ نبوت خاصہ اور نبوت عامہ کے درمیان بہت بڑا فرق ہے ۔ مقام امامت نبوت عامہ سے بالاتر اور نبوت خاصہ سے پست ہوتا ہے کیونکہ نبوت خاصہ ہی خاتمیت کی بزرگ دیر تر منزل ہے۔

نواب : قبلہ صاحب معاف فرمائیے گا کہ میں کبھی کبھی گفتگو میں دخل دے دیتا ہوں کیونکہ بعد کو میں بھول جاتا ہوں اس کے علاوہ ذرا جلد باز بھی ہوں اس لیے ذرا جسارت کرجاتا ہوں۔ یہ فرمائیے کہ انبیاء سب کے سب کیا خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہیں؟ اور یقینا رتبے اور منزل میں بھی سب کے سب یکساں ہیں جیسا کہ قرآن مجید

۱۴۱

کا حامل بنایا گیا ہے( جو حقیقت انسانیت ہے) اگر علم و عمل سے اس کا تذکیہ ہو جائے تو عالم علوی کے موجودات کی شبیہ بن جاتا ہے جو اس کی خلقت کا اصلی مبدا ہے اور جب مقام اعتدال پر پہنچ جاتا اور مواد طبیعی سے پاک ہوجاتا ہے تو عوام علویہ والوں کا شریک ہوتا ہے اور اس وقت حیوانیت سے بلند ہوکر حقیقی انسانیت کی منزل پر فائز ہوتا ہے۔ ع “ صورتے در زیر دارد آنچہ در بالا ستے۔” آدمی اس ہیئت جسمانی کے علاوہ نفس ناطقہ رکھتا ہے اور وہی نفس موجودات پر برتری کا باعث ہوتا ہے لیکن ایک شرط کے ساتھ اور وہ یہ کہ اپنے نفس کو علم وعمل کی دونوں قوتوں کے ساتھ پاک و پاکیزہ بنائے کیونکہ انسان میں یہ دو موثر عامل پرندوں میں دو بازوؤں کے مانند ہیں جن کے ذریعہ وہ پرواز کرتے ہیں چنانچہ ان کے پروں میں جتنی زیادہ طاقت ہوتی ہے اسی قدر ان کی بالا روی اور بلند پروازی بڑھ جاتی ہے۔

آدمی بھی اپنے علم و عمل میں جتنا قوی تر ہوتا ہے اسی قدر کمال نفسانی پر فائز ہوتا ہے۔ کیا خوب لکھتے ہیں استاد شرین سخن شیخ سعدی شیرازی

طیران مرغ دیدی تو نہ پائے بند شہوت بدر آئے تابہ بینی طیران آدمیت

غرضیکہ عالم حیوانیت سے نکل کے انسانیت کی بلند منزل پر پہنچنا پورے طور پر کمال نفس سے وابستہ ہے اور جس شخص نے تکمیل نفس کی منزل میں علمی و عملی قوی کو اپنے اندر جمع کر لیا اور ان کے خواص ثلاثہ تک پہنچ گیا تو وہ مقام نبوت کے ادمی مرتبہ کو پا گیا اور جس وقت ایسا آدمی ذات حق تعالی کی خاص توجہ کا مورد بن جاتا ہے تو خلعت نبوت سے سر فراز کر دیا جاتا ہے۔

البتہ نبوت بھی ( جیساکہ ابواب نبوت میں مکمل اور مفصل ذکر ہوچکا) مختلف مدارج رکھتی ہی۔ یہاں تک کہ نبی اس مرتبے رپ پہنچ جائے جو مذکورہ خصائص قوائے ثلاثہ کا سب سے بلند درجہ ہے کہ جس سے قوی تر عالم امکان میں تصور ہی نہ کیا جاسکے اور یہ مرتبہ امکانی مراتب میں سب سے اونچا ہوتا ہے جس کو حکماء عقل اول کہتے ہیں اور جو معلول اول و صادر اول ہے وجود امکانی کے مراتب میں اس سے بالاتر کوئی مرتبہ نہیں ہے۔ اور یہی وجود ہے اس خاتم الانبیاء(ص) کا جن کا مقام اور منزلت مقام واجب سے پست اور تمام مراتب امکانیہ سے مافوق ہے۔ جب آںحضرت (ص) اس منزل پر فائز ہوگئے تو آپ کی ذات مبارک پر نبوت ختم ہوگئی۔

اور امامت مقام خاتمیت سے ایک درجہ پست اور تمام مراتب نبوت سے بلند ایک منزل ہے اور امیرالمومنین علی علیہ السلام چونکہ اوج نبوت کے حامل تھے اور خاتم الانبیاء(ص) کے ساتھ اتحاد نفسانی بھی رکھتے تھے لہذا خلعت امامت سے آراستہ اور انبیائے سلف پر افضل ہوئے ( اتنے میں مؤذن کی آواز آئی اور مولوی صاحباں نماز پڑھنے چلے گئے۔ واپسی میں چائے وغیرہ کے بعد حافظ صاحب نے

۱۴۲

بات شروع کی)۔

حافظ : آپ اپنے بیانات میں برابر مطلب کو مشکل اور پیچیدہ تر بناتے جارہے ہیں۔ ابھی ایک مشکل حل نہیں ہوئی تھی کہ دوسرا اشکال پیدا کردیا۔

خیرطلب : ہمارے درمیان تو کوئی مشکل اور پیچیدہ امر نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ جو کچھ آپ کی نگاہ میں مشکلی نظر آتا ہے بیان فرمائیے تاکہ اس کا جواب عرض کروں۔

حافظ : اپنے اس بیان کے آخر میں آپ نے چند بہت مشکل جملے فرمائے ہیں جن کا حل ناممکن ہے۔ اول یہ کہ علی ابن ابی طالب کرم اﷲ وجہہ مقام نبوت کے حامل تھے۔ دوسرے یہ کہ پیغمبر(ص) کے ساتھ اتحاد نفسانی رکھتے تھے۔ تیسرے انبیائے کرام پر افضلیت۔ آپ کے یہ زبانی دعوے صرف آپ کے حکم سے مان لئے جائیں یا ان کے ثبوت میں کوئی دلیل بھی ہے؟ اگر بے دلیل ہیں تو قابل قبول نہیں اور اگر کوئی دلیل ہے تو اس کو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : آپ نے میرے بیانات کے متعلق جو یہ فرمایا کہ مشکل اور پیچیدہ ہیں اور ان کاحل کرنا ممکن نہیں تو یقینا آپ اور آپ کے ایسے ان حضرات کی نظر میں جو حقائق کو گہری نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہتے یہی صورت ہے لیکن محقق اور منصب علماء کے سامنے حقیقت ظاہر و آشکار ہے۔

اب میں آپ کے ہر ایک اشکال کو جواب پیش کرتا ہوں تاکہ عذر کا راستہ بند ہوجائے اور آپ یہ نہ فرمائیے کہ مشکل و پیچیدہ ہیں اور ان کا حل ناممکن ہے۔

حدیث منزلت سے حضرات علی (ع) کے لیے مقام نبوت کے اثبات میں دلائل

اولا اس بات کی دلیل کہ حضرت علی(ع) شان نبوت کے حامل تھے۔ حدیث شریف منزلت ہے جو کامل صحت اور تواتر کے ساتھ ہمارے اور آپ کے طرق سے الفاظ کی مختصر کمی بیشی کے ساتھ ثابت ہوچکی ہے کہ خاتم الانبیاء(ص) نے بار بار اور مختلف جلسوں میں کبھی امیرالمومنین علی علیہ السلام سے فرمایا :

"أما ترضى أن تكون منّي بمنزلة هارون من موسى إلّا أنّه لا نبيّ بعدي"

یعنی آیا تم خوش نہیں ہو اس پر کہ مجھ سے تمہاری وہی منزلت ہے جو ہارون کو موسی(ع) سے تھی سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

اور کبھی امت سے فرمایا :" علىّ منّى بمنزلة هارون من موسى الخ "

حافظ: اس حدیث کی صحت ثابت نہیں ہے اور اگر صحیح فرض بھی کر لی جائے تو خبر واحد ہے اور

۱۴۳

بر واحد کا کوئی اعتبار نہیں۔

خیر طلب : یہ جو آپ نے حدیث کی صحت میں شک وارد کیا ہے تو غالبا کتب اخبار کے مطالعے میں کمی کی وجہ سے ہے یا آپ نے قصدا غلط کہا ہے اور عقلی و منطق کے پابند نہیں بننا چاہتے ورنہ اس حدیث کی صحت مسلمات میں سے ہے اور اس خبر شریف کے صحیح ہونے سے انکار اور اس کو خبر واحد کہنا جیسا کہ میں عرض کرچکا اسی سبب سے ہوسکتا ہے کہ کتب اخبار پر آپ کی نظر نہیں ہے یا پھر عناد اور ضد مجبور کر رہی ہو حالانکہ میں یہی امید کرتا ہوں کہ ہمارے اس جلسے میں کسی ہٹ دھرمی اور عناد سے کام نہیں لیا جائیگا۔

حدیث منزلت کے اسناد طرق عامہ سے

میں مجبور ہوں کہ مطلب کی وضاحت اور حاضرین و غائبین جلسہ کی زیادتی بصیرت کے لیے جس قدر مجھ کو اس وقت یا ہے اس حدیث مبارک کے بعض اسناد آپ ہی کی معتبر کتابوں سے پیش کردوں تاکہ آپ سمجھ لیں کہ یہ خبر واحد نہیں ہے۔ بلکہ آپ کے بڑے بڑے جید علماء جیسے سیوطی اور حاکم نیشاپوری وغیرہ نے متعدد طریقوں اور کثیر و متواتر اسناد کے ساتھ اس کو ثابت کیا ہے۔

1۔ ابو عبداﷲ بخاری نے اپنی صحیح بخاری جلد سیم کتاب مغازی باب غزوہ توک ص54 اور کتاب بدا الخلق ص185 میں بسلسلہ مناقب علی علیہ السلام۔

2۔ مسلم بن حجاج نے اپنی صھیح مسلم مطبوعہ مصر سنہ 1290ھ جلد دوم کتاب فضل الصحابہ باب فضائل علی علیہ السلام ص 234 و ص737 میں۔

3۔ امام احمد بن حنبل نے مسند جلد اول وجہ تسمیہ حسنین ص 98، 188،؟؟؟ میں اور اسی کتاب کے حاشیہ جز پنجم ص31 میں۔

4۔ ابو عبدالرحمن نسائی خصائص العلویہ ص19 پر اٹھارہ حدیثیں نقل کی ہیں۔

5۔ محمد بن سورة ترمذی نے اپنی جامع میں

۔6۔ حافظ ابن حجز عسقلانی نے اصابہ جلد دوم ص507 میں۔

7۔ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ باب 9 ص30، 34 میں ۔

8۔ حاکم ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ نیشاپوری نے مستدرک جلد سوم ص109 میں۔

9۔ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفا ص65 میں۔

10۔ ابن عبدریہ نے عقد الفرید جلد دوم ص194 میں۔

11۔ ابن عبدالبر نے استیعاب جلد دوم ص473 میں ۔

12۔ محمد بن سعد کاتب الواقدی نے طبقات الکبری میں۔

13۔ امام فخرالدین رازی نے تفسیر مفاتیح الغیب میں۔

14۔ محمد بن جریر طبری نے اپنی تفسیر اور تاریخ میں۔

15۔ سید مومن شبلنجی نے نور الابصار ص68 میں۔

16۔ کمال الدین ابو سالم محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص17 میں

18۔ نور الدین علی بن محمد مالکی مکی معروف بہ ابن صباغ نے فصول المہمہ ص23، 165 میں۔

19۔ علی بن برہان الدین

۱۴۴

شافعی نے سیرة الحلبیہ جلد دوم ص26 میں۔

20۔ علی بن الحسین مسعودی نے مروج الذہب جلد دوم ص49 میں۔

21۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودة باب نمبر179 میں اور بالخصوص باب6 میں اٹھارہ حدیثیں بخاری، مسلم ، احمد،ترمذی، ابن ماجہ، ابن مغازلی، خوارزمی اور حموینی سے نقل کی ہیں۔

22۔ مولوی علی متقی نے کنزالعمال جلد ششم ص152، 153 میں۔

23۔ احمد بن علی خطیب نے تاریخ بغدادی میں۔

24۔ ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں۔

25۔ موفق ابن احمد خوارزمی نے مناقب میں۔

26۔ ابن اثیر جرزی علی بن محمد نے اسد الغابہ میں۔

27۔ ابن کثیر دمشقی نے اپنی تاریخ میں۔

28۔ علاء الدولہ احمد بن محمد نے عروة الوثقی میں۔

29۔ ابن اثیر مبارک بن محمد شیبانی نے جامع الاصول فی احادیث الرسول میں۔

30۔ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں۔

31۔ ابو القاسم حسین بن محمد ( راغب اصفہانی ) نے محاضرات الادباء جلد دوم ص212 میں اور آپ کے دوسرے محققین اعلام نے اس دحدیث شریف کو با الفاظ مختلفہ اصحاب رسول کی ایک بڑی جماعت سے نقل کیا ہے جیسے۔

1۔خلیفہ عمر بن الخطاب۔ 2۔ سعد بن ابی وقاص۔ 3۔ عبداﷲ بن عباس (خیرات) ۔ 4۔ عبداﷲ بن مسعود ۔ 5۔ جابر ابن عبداﷲ اںصاری۔ 6۔ ابوہریرہ ۔ 7۔ ابو سعید خذری۔ 8۔ جابر بن سمرہ ۔ 9۔ مالک بن حویرث ۔ 10۔ براء بن غازب ۔ 11۔ زید بن ارقم۔ 12۔ ابو رافع۔ 13۔ عبداﷲ بن ابی اوفی۔ 14۔ ابی سریحہ۔ 15۔ حذیفہ بن اسید۔ 16۔ انس بن مالک۔ 17۔ ابو ہریرہ سلمی۔ 18۔ ابو ایوب انصاری۔ 19۔ سعید بن مسیب۔ 20۔ حبیب بن ابی ثابت۔ 21۔ شرجیل بن سعد۔ 22۔ ام سلمیٰ زوجہ رسول(ص)۔ 23۔ اسماء بن عمیس ( زوجہ ابوبکر) ۔ 24۔ عقیل بن ابی طالب۔ 25۔ معاویہ بن ابی سفیان اور اصحاب کی ایک اور جماعت جن کے نام گنوانے کی نہ وقت میں گنجائش ہے نہ سب حافظے میں ہی محفوظ ہیں۔ خلاصہ یہ کہ سبھی نے حضرت خاتم الانبیاء(ص) سے الفاظ کے مختصر تفاوت کے ساتھ مختلف مواقع پر روایات کی ہے کہ فرمایا : " يا علىّ انت منّى بمنزلة هارون من موسى الا لا نبي بعدی" یعنی یا علی تم مجھ سے بمنزلہ ہارون ہو موسی سے سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہ ہوگا۔ آیا آپ کے یہ سارے خاص خاص علماء جن میں سے مشتے نمونہ از خردارے میں نے چند نام پیش کئے ہیں اور جنہوں نے اس حدیث مبارک کو مسلسل اسناد کے ساتھ اصحاب کی کثیر جماعت سے نقل کیا ہے آپ کے نزدیک اثبات یقین و تواتر کے لیے کافی نہیں ہیں؟ کیا آپ تصدیق کریں گے کہ آپ کو غلط فہمی تھی ، یہ خبر واحد نہیں ہے بلکہ متواتر حدیثوں میں سے ہے۔ چنانچہ خود آپ کے محققین علماء نے تواتر کا دعوی کیا ہے ۔ جیسے جلال الدین سیوطی نے رسالہ الازبار التنا فی الاحادیث المتواترة میں اس حدیث شریف کو متواترات میں سے لکھا ہے ، اور ازالہ الخلفا اور قرة العینین میں بھی تواتر کی تصدیق کی گئی ہے چونکہ آپ اپنی عادت کی بنا پر اس حدیث مبارک

۱۴۵

کی صحت سند میں شک و شبہ وارد کر رہے ہیں لہذا بہتر ہوگا کہ اپنے بہت بڑے عالم محمد بن یوسف گنجی شافعی کی کتاب کفایت الطالب فی مناقب علی بن ابی طالب باب 7 کا مطالعہ فرمائیے جس میں ان حضرت کے دیگر فضائل کے ساتھ ساتھ چھ مستند حدیثیں ذکر کر نے کے بد صفحہ 49 میں تبصرہ فرمایا ہے اور حقائق کو بیان کیا ہے۔ اس لیے کہ اگر آپ ہمارے قول کو تسلیم نہیں کرتے تو اس ( غیر متعصب) شافعی عالم کا بیان آپ کے اوپر حجت تمام کردے گا لکھتے ہیں " ه ذا حديث متفق علی صحت ه روا ه الائمة الاعلام الحفاظ کابی عبداﷲ البخاری فی صحيح ه و مسلم بن حجاج فی صحيح ه و ابی داؤد فی سنن ه و ابی عيسی الترمذی فی جامع ه و ابی عبدالرحمن النسائی فی سنن ه و ابن ماجة القزوينی فی سنن ه و اتفق الجميع علی صحت ه حتی صار ذالک اجماعا من ه م قال الحاکم النيشاپوری ه ذا حديث دخل فی حد التواتر"

یعنی یہ وہ حدیث ہے جس کی صحت متفق علیہ ہے ائمہ اعلام و حفاظ نے اس کی روایت کی ہے۔ جیسے ابو عبدابخاری نے اپنی صحیح میں مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح میں، ابو داؤد نے سنن میں، ابو عیسی ترمذی نے جامع میں، ابو عبدالرحمن نسائی نے سنن میں، ابن ماجہ قزوینی نے سنن میں اور ان سب نے اس کی صحت پر اتفاق کیا ہے یہاں تک اس پر ان کا اجماع ہوگیا ہے۔ اور حاکم نیشاپوری نے کہا ہے کہ یہ وہ حدیث ہے جو تواتر کی حد میں داخل ہوچکی ہے۔

میرا خیال ہے کہ اب کوئی ابہام اور اس حدیث شریف کی صحت و تواتر پر مزید دلائل کی پیش کرنے کی ضرورت باقی نہ ہوگی۔

حافظ : میں بے ایمان اور ضدی آدمی نہیں ہوں کہ آپ کے دلائل و براہین کے مقابلے میں جو انتہائی معتبر ہیں مجادلے سے کام لوں ۔ لیکن ذرا عالم فقیہہ ابو الحسن آمدی کی گفتگو پر بھی غور کیجئے جو متکلم اور متبحر علماء میں سے ہیں اور جنہوں نے اس حدیث کو چند دلائل کے ساتھ روکا ہے۔

خیر طلب: مجھ کو آپ جیسے نکتہ رس اور منصف عالم سے سخت تعجب ہے کہ آپ کے ان سارے اکابر علماء کے اقوال نقل کرنے کے بعد جو سب کے سب ثقہ اور آپ کے یہاں عام طور پر قابل اطمینان ہیں، آپ آمدی کے قول پر توجہ کر رہے ہیں جو ایک شریر و بد عقیدہ اور تارک الصلوة شخص تھا۔

شیخ : انسان اپنا عقیدہ ظاہر کرنے میں آزاد ہے۔ اور اگر کسی شخص نے کوئی عقیدہ ظاہر کیا ہے تو اس پر بدی کی تہمت نہ لگانا چاہئیے ۔ بلکہ آپ جیسے شریف اور مجسمہ اخلاق انسان کے لیے تو بہت بڑی بات ہے کہ منطقی جواب کے بدلے بد کلامی کے ساتھ ایک فقیہہ عالم کو متہم کیجئیے۔

خیر طلب : آپ کو دھوکا ہوا ہے۔ میں کسی کے لیے بد کالامی نہیں کرتا اور آمدی کے زمانے میں تو میں تھا بھی نہیں ۔ لیکن اس کے برے عقائد کو آپ ہی کے بڑے بڑے علماء نے نقل کیا ہے۔

۱۴۶

شیخ : ہمارے علماء نے کس مقام پر ان کا بدی اور فاسد عقیدے کے ساتھ تذکرہ کیا ہے؟

آمدی کی مفصل کیفیت

خیر طلب : ابن حجر عسقلانی نے لسان المیزان میں لکھا ہے:

" السيف الامدی المتکلم علی بن ابی علی صاحب التصانيف و قد نفی من دمشق لسوء اعتقاد ه وصح ان ه کان يترک الصلوة."

یعنی سیف آمدی متکلم علی بن ابی علی جو صاحب تصانیف تھا اس کو دمشق سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ اس کا اعتقاد خواب تھا اور یہ بھی صحیح ہے کہ یہ تارک الصلوة تھا۔

نیز ذہبی نے جو آپ کے بزرگ علماء میں سے ہیں میزان الاعتدال میں اس قصے کو نقل کیا ہے اور مزید بر آں تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ مسلم ہے کہ آمدی اہل بدعت میں سے تھا۔

اگر آپ گہری نظر سے دیکھیں تو سمجھ میں آجائے گا کہ اگر آمدی اہل بدعت اور شریر و بے ایمان نہ ہوتا تو ہرگز اپنی بد باطنی کو اس طرح ظاہر نہ کرتا کہ تمام صحابہ رسول(ص) یہاں تک کہ اپنے خلیفہ عمر بن خطاب ( کیونکہ حدیث کے راویوں میں سے ایک یہ بھی ہیں) اور آپ کے تمام ثقات علماء اسلام کے بر خلاف آواز بلند کرے۔

سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ آپ حضرات شیعوں کو تو ملامت کرتے ہیں کہ صحیحین کی حدیثیں کس لیے قبول نہیں کرتے ( حالانکہ ایسا نہیں ہے) اگر صحیح الاسناد حدیثیں ہوں تو آپ کی صحاح کے اندر ہونے کے بعد بھی ہمارے لیے قابل قبول ہیں) لیکن جس مسلم حدیث کو بخاری و مسلم اور دوسرے ارباب صحاح نے اپنی اپنی صحیحوں میں نقل کیا ہے اس کو آمدی عادتا رد کرتا ہے اور آپ کے لیے قابل اعتبار بن جاتا ہے اگر آپ کے نزدیک آمدی میں کوئی عیب نہیں تھا تو یہی بات اس پر طعن کرنےکے لیے کافی تھی کہ اس نے آپ کی صحیحین کے برخلاف عقیدے کا اظہار کیا بلکہ در حقیقت خلیفہ عمر اور بخاری و مسلم کو جھٹلایا۔

اگر آپ چاہیں کہ اس حدیث شریف کے بارے میں زیادہ جانچ پڑتال کریں، مکمل دلائل اور اپنے بڑے بڑے علماء کی روایتوں سے تمام اسناد کاملہ کا مطالعہ کریں، مزید معلومات حاصل کریں اور آمدی جیسے لوگوں پر نفرین کریں تو جلیل القدر کتاب، طبقات الانوار” مؤلفہ عالم با عمل نقاد اخبار و احادیث محقق و متبحر علامہ سید حامد حسین صاحب لکھنوی اعلی اﷲ مقامہ کی جلدین ملاحظہ فرمائیے اور بالخصوص حدیث منزلت والی جلد کی طرف رجوع کیجئے تاکہ آپ کے سامنے یہ حقیقت ظاہر ہوجائے کہ اس بزرگ شیعی عالم نے اس حدیث کے اسناد و مدارک کو کس طرح آپ کے طرق سے جمع کر کے ان کی تشریح کی ہے۔

۱۴۷

حافظ : آپ نے فرمایا کہ اس حدیث کے راویوں میں سے ایک خلیفہ عمر ابن خطاب رضی اﷲ عنہ بھی تھے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ اگر آپ کے پیش نظر ہوتو اس کی سند بیان فرمائیے؟

حدیث منزلت کی سند عمر ابن خطاب سے

خیر طلب ابوبکر محمد بن جعفری الطبری نے اور ابو لیث نصربن محمد سمرقندی الحنفی نے کتاب مجالس میں محمد بن عبدالرحمن ذہبی نے ریاض النفریہ میں ، مولوی علی متقی نے کنزالعمال میں ، ابن صباغ مکی نے خصائص سے نقل کرتے ہوئے فصول المہمہ ص125 میں، امام الحرم نے ذخائر العقبی میں شیخ سلمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ خطبہ سوم ص258 میں نقض العثمانیہ شیخ ابو جعفر اسکافی نے مختصر اختلاف الفاظ کے ساتھ ابن عباس( خیرامت) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک روز عمر ابن خطاب نے کہا علی کا نام چھوڑو (یعنی اس قدر علی(ع) کی غیبت نہ کرو) اس لیے کہ میں نے پیغمبر(ص) سے سنا ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا علی(ع) میں تین خصلتیں ہیں۔ کہ اگر ان میں سے ایک بھی مجھ کو ( یعنی عمر کو) حاصل ہوتی تو میرے لیے ہر اس چیز سے زیادہ محبوب ہوتی جس پر آفتاب چمکتا ہے۔ پھر کہا :

"کنت ونا و ابوبکر و ابو عبيده بن الجراح و نفر من اصحاب رسول الله وهو متکی علی علی بن ابی طالب حتی ضرب بيده منکبيه ثم قال انت يا علی اول المومنين ايمانا اولهم اسلاما ثم قال انت منی بمنزلت هارون من موسی و کذب علی من زعم انه يحبنی و يبغضک."

یعنی میں ، ابوبکر ، ابوعبیدہ جراح اور چند اصحاب رسول(ص) حاضر تحے، رسول اللہ (ص) علی ابن ابی طالب پر تکیہ کئے ہوئے تھے یہاں تک کہ علی(ع) کے شانوں پر ہاتھ مارا اور فرمایا علی(ع) تم ایمان کی حیثیت سے تمام مومنین سے اول ہو اور اسلام کی حیثیت سے تمام مسلمین سے آگے ہو، پھر فرمایا یا علی(ع) تم مجھ سے وہی منزلت رکھتے ہو جو ہارون کے موسی (ع) سے تھی اور جھوٹ باندھتا ہے مجھ پر جو یہ سمجھتا ہے کہ مجھ کو دوست رکھتا ہے در آنحالیکہ تم سے دشمنی رکھتا ہو۔

آیا آپ کے مذہب میں خلیفہ عمر کا قول رد کرنا جائز ہے؟ اگر جائز نہیں ہے تو پھر کس لئے آمدی جیسے آدمی کی فضول بات پر عقیدہ اور توجہ رکھتے ہیں؟

سنی مذہب میں خبر واحد کا حکم

ابھی آپ کے ایک اور جملے کا جواب باقی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ یہ حدیث خبر واحد ہے

۱۴۸

اور خبر واحد کا کوئی اعتبار نہیں۔ اگر ہم رجال کے اس معیار کے ساتح جو ہمارے یاں ہے اس طرح کی بات کہیں تو ٹھیک بھی ہے لیکن آپ کی زبان سے ایسے الفاظ سن کر تعجب ہوتا ہے کیونکہ آپ کے مذہب میں تو خبر واحد کا حجت ہونا ثابت ہے ۔ اس لئے کہ آپ کے محققین علماء خبرواحد کے منکر کو کافر یا فاسق سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ملک العلماء شہاب الدین دولت آبادی نے"ہدایت السعداء" کے مضمرات فی کتاب الشہادات میں کہا ہے :

"ومن انکر الخبر الواحد والقياس و قال انه ليس بحجه فانه يصير کافرا ولو قال هذا الخبر الواحد غير صحيح و هذا القياس غير ثابت لا يصير کافرا ولکن يصير فاسقا."

یعنی جو شخص خبر واحد اور قیاس کا انکار کرے اور کہے کہ یہ حجت نہیں ہے تو وہ قطعا کافر ہو جاتا ہے اور اگر کہے کہ یہ خبر واحد صحیح نہیں ہے اور یہ قیاس ثابت نہیں ہے تو وہ کافر نہیں ہوتا لیکن فاسق ہوجاتا ہے۔

حافظ : مجھ کو آپ کی خوش بیانی اور ہماری کتابون کے وسیع مطالعے سے بہت خوشی ہوئی بر خلاف اس کے کہ جیسا کہ سن چکا ہوں کہ حضرات علمائے شیعہ ہماری کتابوں کو دست پناہ یا کپڑے وغیرہ سے اٹھاتے ہیں تاکہ ان کا ہاتھ کتاب کی جلد سے مس نہ ہو تو یہ پھر کہاں ممکن ہے کہ ان کا مطالعہ کریں۔

خیر طلب : اس دعوی پر آپ کے پاس قطعا کوئی دلیل نہیں ہے ، اس لئے کہ در اصل بیگانوں ، بیگانہ پرستوں اور اندرونی شیاطین کے خفیہ ہاتھ برابر اس کوشش میں رہتے ہیں کہ پانی کو کیچڑ بنائیں اور مسلمانوں کے با ہمی نفاق سے خود نفع اٹھائیں لہذا اس قسم کی جھوٹی باتیں گھڑ کے مشہور کرتے ہیں تاکہ ایک کو دوسرے سے بد گمانی پیدا ہو اور ان کا مطلب حل ہوتا رہے ۔ ہمارا اور آپ کا مستقل فرض ہے کہ لوگوں کو قرآن مجید کی ہدایات عالیہ کی طرف متوجہ کرتے رہیں کہ مثلا اس بارے میں سورہ 49 (حجرات) آیت نمبر6 میں ارشاد ہے :

" إِن جَاءَكمُ ْ فَاسِقُ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُواْ أَن تُصِيبُواْ قَوْمَا بجَِهَالَةٍ فَتُصْبِحُواْ عَلىَ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِين "

یعنی جس وقت کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی اطلاع لے کر آئے تو پہلے اس کی تحقیق کر لو ورنہ کہیں (دھوکے میں آکر) نادانی کی وجہ سے کسی قوم کو نقصان نہ پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کئے پر پشیمان ہونا پڑے۔ نہ یہ کہ ہم خود ہی ان ہدایتوں سے غافل رہیں اگر یہ اہم فرمان آپ حضرات کا نصب العین ہوتا تو دشمنوں کی باتیں آپ پر اثر انداز نہ ہوتیں جس سے آج ندامت ہو۔ ہم لوگ تو کفار و مشرکین اور مرتدین کی کتابوں کو بھی دست پناہ یا کپڑے سے نہیں اٹھاتے پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ مسلمان بھائیوں کی کتابوں کو حقارت کی نظر سے دیکھیں بلکہ آپ کے کہنے کے خلاف ہم تو آپ کے علماء کی معتبر کتابیں بہت غور سے دیکھتے ہیں اور ان کی صحییح الاسناد احادیث کو بھی قبول کرتے ہیں ۔ علمی و منطقی اختلافات عقیدے اور مذہب سےکوئی تعلق نہیں رکھتے ۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ شیعہ طالب علم صرف و نحو، معانی و بیان ، منطق ، لغت

۱۴۹

تفسیر اور کلام کے علوم زیادہ تر آپ ہی کے علماء کی کتب و تالیفات سے حاصل کرتے ہیں پھران کتابوں کو دست پناہ اور کپڑے سے کس طرح اٹھائیں گے ؟ البتہ آپ کی منقولہ احادیث کے بعض راوی مقدوح ہیں اور ان کے اقوال قابل اعتبار نہیں جیسے انس، ابوہریرہ اور سمرہ وغیرہ جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں ( چنانچہ آپ کے بعض علماء بھی مثلا ابوحنیفہ وغیرہ ان لوگوں کو مردود سمجھتے ہیں) ہم بھی اس طرح کے راویوں سے منسوب حدیثوں کو مردود اور ناقابل قبول جانتے ہیں۔

ورنہ آپ کے محققین علماء ی معتبر کتابیں ہمارے سامنے رہتی ہیں اور بالخصوص میں نے تو پیغمبر(ص) اور ائمہ معصومین صلوات اللہ علیہم اجمعین کی سیرت میں زیادہ تر علمائے اہل سنت ہی کی معتبر کتابوں کا مطالعہ اور اسی سے اخذ سند کیا ہے۔

میرے ذاتی کتب خانے میں آپ کے بڑے بڑے علماء کی تفاسیر ، کتب اخبار اور معتبر تواریخ کی تقریبا دو سو (200) جلدیں قلمی اور مطبوعہ موجود ہیں جن سے میں استفادہ کرتا رہتا ہوں۔

اب یہ ضرور ہے کہ عملی طور پر ہم ایک مبصر صراف کی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان میں سے کھرے کھوتے کو چھانٹ سکیں اور فخرالدین رازی جیسے حضرات کے شبہات و اشکالات اور ابن حجر ، روز بہان، آمدی اور ابن تیمیہ جیسے افراد کے مغالطوں سے دھوکہ نہ کھائیں اور ان کی غلط کاریوں کا اثر قبول نہ کریں۔

آپ یقین کیجئے کہ مجھ کو ائمہ معصومین(ع) اہل بیت رسالت اور ودایع رسول اللہ کے مقامات مقدسہ کا یقین اور درجات معرفت کی تکمیل زیادہ تر آپ ہی کے علماء کی معتبر کتابوں کا مطالعہ کرنے سے ہوتی ہے۔

حافظ : ہم مطلب سے دور جا پڑے ۔ یہ فرمائیے کہ آپ کے مقصد پر اس حدیث منزلت کی دلالت کس صورت سے ہے اور اس بات کا ثبوت کہاں سے ملتا ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ شان نبوت کے حامل تھے؟

خیر طلب : اس حدیث شریف سے جو تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے امیرالمومنین (ع) کے لئے تین خصوصیتیں ثابت ہوتی ہیں ایک تو مقام نبوت ہے جو معنوی اور باطنی حیثیت سے حضرت کو حاصل تھا۔ دوسرے رسول اللہ (ص) کے بعد آں حضرت کی خلافت و وزارت کا منصب او تیسرے سادی امت اور صحابہ وغیرہ پر ان حضرت کی افضلیت اس لیے کہ رسول خدا(ص) نے حضرت علی(ع) کو بمنزلہ ہارون بیان فرمایا اور حضرت ہارون منزل نبوت اور حضرت موسی(ع) کی خلافت پر فائز اور تمام بنی اسرائیل سے افضل تھے۔

نواب : قبلہ صاحب معاف فرمائیے گا کیا حضرت موسی(ع) کے بھائی حضرت ہارون نبی تھے؟

خیر طلب : ہاں وہ مقام نبوت پر فائز تھے۔

نواب : تعجب ہے میں نے اب تک نہیں سنا تھا ۔ آیا قرآن میں بھی کوئی آیت ایسی ہے جو اس

۱۵۰

مطلب کی شاہد ہو؟

خیر طلب : ہاں کئی آیتوں میں خدائے تعالے نے ان جناب کی نبوت کی تصریح فرمائی ہے۔

نواب : ممکن ہو تو ہمارے معلومات میں اضافے کے لئے ان آیتوں کی تلاوت فرمادیجئے تاکہ ہم بھی مستفید ہوں۔

خیر طلب : سورہ ( نساء) آیت نمبر 163 میں ارشاد ہے :

" إِنَّا أَوْحَيْنا إِلَيْكَ كَما أَوْحَيْنا إِلى نُوحٍ وَ النَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ وَ أَوْحَيْنا إِلى إِبْراهيمَ وَ إِسْماعيلَ وَ إِسْحاقَ وَ يَعْقُوبَ وَ الْأَسْباطِ وَ عيسى وَ أَيُّوبَ وَ يُونُسَ وَ هارُونَ وَ سُلَيْمانَ وَ آتَيْنا داوُدَ زَبُوراً"

یعنی یقینا ہم نے تمہاری طرف وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعد والے انبیاء کی طرف وحی کی اور ابراہیم ، اسماعیل ، اسحق، یعقوب، اسباط ، عیسی، ایوب ، یونس ، ہارون اور سلیمان کی طرف وحی بھیجی اور داود کو زبور عطا کی۔ اور سورہ (مریم) آیت نمبر 51۔53 میں فرماتا ہے :

"وَ اذْكُرْ فىِ الْكِتَابِ مُوسىَ إِنَّهُ كاَنَ مخُْلَصًا وَ كاَنَ رَسُولًا نَّبِيًّا وَ نَادَيْنَاهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَ قَرَّبْنَاهُ نجَِيًّاوَ وَهَبْنَا لَهُ مِن رَّحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا"

یعنی اور یاد کرو کتاب میں موسی کو یقنا وہ خالص کئے ہوئے پیغمبر اور نبی تھے اور ہم نے ان کو طور ایمن کی جانب سے ندا دی اور ان کو ہمراز بنا کے نزدیک کیا اور ان کو اپنی رحمت سے ہارون سا بھائی عطا کیا جو نبی تھے۔

حافظ : پھر تو آپ کے اس قاعدے اور استدلال کی رو سے محمد(ص) و علی(ع) دونوں پیغمبر اور خلق پر مبعوث تھے ۔

خیر طلب : جس قسم کی تقریر آپ نے فرمائی ہے میں نے یہ نہیں کہا۔ البتہ آپ خود جانتے ہیں کہ انبیاء کی تعداد و شمار میں بہت اختلاف ہے۔ ایک لاکھ بیس ہزار تک اور اس سے زیادہ بھی لکھا ہے لیکن وہ سب اپنے اپنے زمانے کے مقتضا اسے ایک ایک گروہ کی صورت میں کسی صاحب کتاب و احکام پیغمبر کے تابع تھے جن میں سے پانچ نفر اولو العزم تھے، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسی، حضرت عیسی اور حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ جن کی منزل سب سے بالاتر تھی اور یہی مقام خاتمیت ہے۔

منازل ہارونی کا اثبات حضرت علی (ع) کے لئے

جناب ہارون ان پیغمبروں میں سے تھے جو امر نبوت میں مستقل نہیں تھے بلکہ اپنے بھائی حضرت موسی(ع) کی شریعت کے پابند تھے۔ حضرت علی(ع) بھی نبوت کی بلندی پر پہنچے ہوئے تھے لیکن مستقل طور پر نبی نہیں تھے ، بلکہ شریعت خاتم الانبیاء کے پابند تھے۔

اس حدیث شریف میں رسول(ص) کا مقصد اور غرض امت کو یہ سمجھانا ہے کہ جس طرح ہارون نبوت کی منزل پر

۱۵۱

فائز تھے لیکن حضرت موسی جیسے ایک اولوالعزم پیغمبر کے تابع تھے حضرت علی (ع) بھی اوج نبوت کے حامل اور مقام و منصب امامت کے ساتھ خاتم الانبیاء کی شریعت باقیہ کے مطیع تھے اور یہ چیز اپنی جگہ پر ان حضرت کی ایک اہم خصوصیت ہے۔

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے اس حدیث کے ساتھ اپنی زبان مبارک سے علی ابن ابی طالب(ع) کے لئے ان سارے منازل و مراتب کو ثابت کردیا جو ہارون کو حضرت موسی(ع) سے حاصل تھے۔ اگر حضرت محمد خاتم الانبیاء نہ ہوتے تو یقینا آپ آں حضرت (ص) کے امر پیغمبری میں بھی شریک ہوتے ، چنانچہ جملہ ان ه لا نبی بعدی سے ظاہر فرمارہے ہیں کہ اگر میرے بعد نبوت کا سلسلہ قائم رہتا تو علی(ع) اس عہدے پر فائز ہوتے۔ لہذا نبوت کو مسثنی کر دیا اور مراتب ہارونی میں سے نبوت کے علاوہ جو کچھ ہے وہ ان حضرت میں ثابت ہے، اسی طرح محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب الس ئول ص19 کے شروع میں منزلت ہارونی کے بیان میں چند اسرار کے انکشاف اور توضیحات کے بعد تبصرہ کیا ہے اور کہتے ہیں :

"فتلخيص منزله هارون من موسی انه کان اخاه و وزيره و عضده و شريکه فی النبوة و خليفته علی قومه عند سفره و قد جل رسول الله عليا منه بهذه المنزلة و اثباتها له الا النبوة فانه اسثناها آخر الخديث يقوله صل الله علیه انه لا نبی بعدی فبقی ما عدا النبوة المستثناه ثابتا لعلی من کونه اخاه و وزيره و عضده و خليفته علی اهله عند سفره الی تبوک و عنده من المعارج الشراف والمدارج الا زلاف فقد دل الحديث بمنطوقه و مقبوله علی ثبوت هذه المنزلة العلية لعلی وهو حديث متفق علی صحته."

یعنی بیانات کا خلاصہ یہ ہے کہ موسی سےہارون کی منزلت یہ تھی کہ ان کے بھائی ، وزیر ، قوت بازو شریک نبوت اور ان کی قوم پر سفر کے وقت ان کے خلیفہ تھے پس رسول اللہ (ص) نے بھی حدیث شریف میں علی(ع) کو مقام و منزلت ہارون کا مالک قرار دیا سوا نبوت کے جس کو آخر حدیث میں اپنے قول ان ه لا نبی بعدی سے مستثنی فرما دیا۔ لہذا آپ کے لئے نبوت کے علاوہ ہر بات ثابت ہے جیسے آں حضرت (ص{ کا بھائی وزیر، قوت بازو اور سفر تبوک میں قوم پر آں حضرت کا خلیفہ ہوتا اور یہ خصوصیت آپ کے بلند مراتب اور اعلی مدارج میں سے ہے۔ پس یہ حدیث اپنے مضمون اور مفہوم کے لحاظ سے حضرت علی (ع) کے لیے اس بزرگ فضیلت کے ثبوت پر دلالت کرتی ہے اور یہ وہ حدیث ہے جس کی صحت پر سب کو اتفاق اور یہی بیان فصول المہمہ ص29 من ابن صباغ مالکی کا بھی ہے۔ نیز آپ کے اور بڑے بڑے علماء نے بھی اس کو لکھا اور اس حقیقت کی تصدیق کی ہے جن میں سے ہر ایک کے نام اور عقیدے کا ذکر کرنا رات کے اس تنگ وقت میں بہت مشکل ہے۔

۱۵۲

حافظ : میرا خیال ہے کہ یہ استثنا عدم نبوت کا ہے نہ کہ اصل نبوت کا۔

خیر طلب : آپ نے بہت بے لطفی کی بات کی کہ اپنے اسلاف کی پیروی کرتے ہوئے یہ ایراد وارد کیا اور اتنے کھلے ہوئے مطلب کا انکار کیا حالانکہ آپ کو شافعی کے بیان پر توجہ کرنا چاہئیے تھا جس کو میں نے ابھی پیش کیا کہ کہتے ہیں : ما عدا النبوة المستثناه ثابتا لعلی اور یہ بیان خود نص ہے اس بارے میں کہ حدیث شرفی میں مستثنی نبوت ہے نہ کہ عدم نبوت۔ دوسرے ان کے اس قول میں کہ " فانه اسثناها آخر الخديث يقوله صل الله عليه انه لا نبی بعدی " میں استثناہا کی ضمیر منصوب نبوت کی طرف پھرتی ہے اس طرح کی عبارتیں آپ کے علماء کی کتابوں میں بہت ہیں جو سب نبوت کے استثناء پر دلالت کرتی ہیں نہ کہ عدم نبوت پر، اور جو لوگ عدم نبوت کے قائل ہوئے ہیں ان کے پیش نظر سوا عناد، ہٹ دھرمی اور تعصب کے کچھ نہیں تھا نستج ي ر بالله من التعصب فی الدين ( یعنی ہم دین کے معاملے میں تعصب سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں ۔ مترجم۔)

حافظ : میرا خیال ہے کہ آپ کا یہ دعوی کہ اگر ہمارے پیغمبر خاتم الانبیاء(ص) نہ ہوتے اور نبوت کا سلسلہ آگے بڑھتا تو علی(ع) اس منصب پر فائز ہوتے، آپ ہی کی ذات سے مخصوص ہے ورنہ کسی اور نے ایسی بات نہیں کہی ہے۔

خیر طلب : یہ دعوی فقط میرے علمائے شیعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کے بڑے بڑے علماء بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔

حافظ : ہمارے علماء میں سے کس نے ایسا دعوی کیا ہے ؟ اگر پیش نظر ہو تو بیان فرمائیے۔

خیر طلب: آپ کے بزرگ علماء اور محل وثوق علمائے رجال میں سے ایک ملا علی بن سلطان محمد ہروی قاری ہیں کہ جب ان کی خبر وفات مصر میں پہنچی ہے تو علمائے مصر نے چار ہزار سے زیادہ مجمع کے ساتھ ان کے لئے نماز غیبت پڑھی ہے یہ بکثرت تصنیفات و تالیفات کے مالک ہیں۔ چنانچہ مرقاۃ شرح مشکوۃ میں حدیث منزلت کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں فيه ايماء الی انه لوکان بعده نبيا لکان عليا یعنی اس حدیث میں اشارہ ہے اس طرف کی اگر خاتم الانبیاء کے بعد کوئی اور نبی ہوتا تو وہ علی(ع) ہوتے۔

اور آپ کے جن علمائے بزرگ نے اس مقصد کا اقرار کیا ہے ان میں سے علامہ شہیر جلال الدین سیوطی نے کتاب بنیۃ الوعاظ فی طبقات الحفاظ کے آخر میں جابر ابن عبداللہ اںصاری تک راویوں کا سلسلہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا کہ:

" اما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی ولو کان لکنته " خلاصہ یہ کہ اگر میرے بعد کوئی پیغمبر ہوتا

۱۵۳

تو اے علی(ع) وہ تم ہوتے۔

نیز میر سید علی ہمدانی فقیہ شافعی نے مودۃ ششم مودۃ القربی کی حدیث دوم میں انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا :

"ان الله اصطفانی علی الانبياء فاختارنی واختار لی وصيا و خيرة ابن عمی وصی يشد عضدی کما يشد عضد موسی باخيه هرون وهو خليفتی و وزيری ولوکان بعدی نبيا لکان علی نبيا و لکن لا نبوة بعدی."

یعنی در حقیقت خدا نے مجھ کو سارے انبیاء پر برگزیدہ کیا پس مجھ کو منتخب کیا اور میرے لئے ایک وصی اختیار کیا اور میرے ابن عم علی(ع) میرے خلیفہ اور وزیر ہیں اور اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو یقینا علی (ع) ہوتے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔

پس ان مختصر دلائل کے ساتھ ثابت ہوا کہ حضرت علی(ع) کے لئے نبوت کا قول صرف ہماری ہی طرف سے نہیں ہے۔ بلکہ خود رسول خدا(ص) سے منقول ہے جیسا کہ خود آپ کے علماء نے بھی تصدیق کی ہے کہ آں حضرت(ص) کے ارشاد کی بنا پر حضرت علیہ علیہ السلام مقام نبوت پر پہنچے ہوئے تھے اور یہ کوئی پیچیدہ اور مشکل امر بھی نہیں تھا جس سے آپ کو تعجب ہوا اور چونکہ مراتب و منازل ہارونی سے استثنائے متصل کے ساتھ نبوت مستثنی ہوگئی لہذا جیسا کہ میں ذکر کرچکا ہوں آپ ہی کے علماء کی شہادت کی بنا پر اس کے علاوہ ہر منصب علی(ع) کے لئے باقی اور ثابت رہتا ہے جن میں سب سے بلند منزل خلافت اور افضلیت ہے۔ کیونکہ خلافت ہارون کے لئے قرآن مجید صراحت کر رہا ہے۔ سورہ 7 (اعراف) آیت نمبر142 میں ارشاد ہے :

"وَ قَالَ مُوسىَ لِأَخِيهِ هَرُونَ اخْلُفْنىِ فىِ قَوْمِى وَ أَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ"

یعنی موسی(ع) نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری قوم میں میرے خلیفہ اور جانشین رہو، نیک راستے کی ہدایت کرو اور فساد برپا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلو۔

حافظ : باوجودیکہ گذشتہ آیات میں آپ بیان کرچکے ہیںکہ حضرت ہارون اپنے بھائی حضرت موسی(ع) کے ساتھ امر نبوت میں شریک تھے، پھر کیونکر ان کو خلیفہ قرار دے دیا حالانکہ یہ مسلم ہے کہ کسی انسان کے شریک کی منزل اس سے بلند ہے کہ اس کا خلیفہ اور جانشین بنے اور اگر شریک کو خلیفہ قرار دے دیں تو گویا اس کے مقام اور مرتبے سے گرادیا کہ کہ مقام نبوت مقام خلافت سے بالاتر ہے۔

خیر طلب : آپ حضرات میں سے کچھ لوگ بغیر غور و فکر کے اس شبہ میں مبتلا ہوگئے ہیں، حالانکہ اگر آپ تھوڑا سا غور فرمالیتے تو میرے جواب کی ضرورت ہی نہ رہتی ۔ آپ خود جانتے ہیں کہ حضرت موسی(ع) کی نبوت اصالتا اور حضرت ہارون کی نبوت ان کی تابع تھی گویا کہ یہ ان حضرت کے خلیفہ تھے ، اس نظریے کے ساتھ ساتھ کہ حضرت ہارون(ع) امر تبلیغ میں اپنے برادر بزرگوار حضرت موسی(ع) کے شریک کار تھے ۔ چنانچہ خود حضرت موسی(ع) کے سوال سے ظاہر ہے جیسا کہ سورہ 20 (طہ) میں آیت نمبر25 سے لے کر آیت نمبر33 تک

۱۵۴

آپ کا قول نقل کیا گیا ہے:

"قَالَ رَبّ ِ اشْرَحْ لىِ صَدْرِى وَ يَسِّرْ لىِ أَمْرِى وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانى يَفْقَهُواْ قَوْلىِ وَ اجْعَل لىّ ِ وَزِيرًا مِّنْ أَهْلىِ هَارُونَ أَخِى اشْدُدْ بِهِ أَزْرِى وَ أَشْرِكْهُ فىِ أَمْرِى "

یعنی پرورگارا میرے لئے میرے سینے کو کشادہ کر دے میرے لئے میرے کام کو آسان بنادے ( جو تبلیغ رسالت ہے) میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ میری بات کو لوگ سمجھیں اور میرے اہل میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر قرار دے ، ان کے ذریعے میری پشت کو مضبوط کر اور ان کو میرے (تبلیغ رسالت) میں میرا شریک بنا دے)

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام ہی وہ یکتا جوانمبرد تھے جو مقام نبوت خاصہ کے علاوہ تمام مراحل کاملہ اور صفات مخصوصہ میں رسول اکرم(ص) کے ساتھ شریک تھے۔

حافظ : میرا تعجب برابر بڑھتا جا رہا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ آپ علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ایسا غلو کرتے ہیں کہ صاحبان عقل کی عقلیں دنگ اور حیران ہوجاتی ہیں، منجملہ ان کے یہی جملے ہیں جو ابھی آپ نے بیان کئے کہ علی کرم اللہ وجہہ پیغمبر(ص) کے تمام صفات و خصائص کے حامل تھے۔

خیر طلب : اول تو اس طرح کی باتیں غلو نہیں ہیں بلکہ عین واقع اور حقیقت ہیں کیونکہ پیغمبر(ص) کا جانشین قاعدہ عقلی کے رو سے تمام صفات میں پیغمبر(ص) کا نمونہ اور شبیہ ہونا چاہیئے ۔ دوسرے اس معاملے میں تنہا ہم ہی اس حقیقت کے مدعی نہیں ہیں بلکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں اس عقیدے کا اقرار کیا ہے۔

علی (ع) تمام صفات میں پیغمبر(ص) کے شریک و مماثل تھے

چنانچہ امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں اور عالم فاضل سید احمد شہاب الدین نے جو آپ کے بزرگ علماء میں سے ہیں کتاب توضیح الدلائل علی ترجیح الفضائل میں تشریح کے ساتھ اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ عبادت لکھتے ہیں۔

" ولايخفی ان مولانا امير المومنين قد شابه النبی فی کثير بل اکثر الخصائص الرضيه و انفعال الزکيه و عاداته و عباداته و احواله العليه و قد صح ذالک له بالاخبار الصحيحه والاثار الصريحة ولا يحتاج الی اقامة الدليل ولبرهان ولا يفتقر الی ايضاح حجة و بيان قد عد بعض العلماء بعض الخصال لاميرالمومنين علی التی هو فيها نظير سيدنا النبی الامی"

یعنی پوشیدہ اور مخفی نہیں ہے یہ مطلب کہ ہمارے مولا امیرالمومنین علیہ السلام بہت سے بلکہ زیادہ تر اچھی خصلتوں، پاکیزہ، افعال، عادات عبادات اور اعلی حالات میں رسول اللہ (ص) سے مشابہت رکھتے ہیں، یہ بات اخبار صحیحہ اور آثار صریحہ کے ذریعہ پایہ صحت

۱۵۵

کو پہنچی ہوئی ہے، اس کے لئے الگ سے کوئی دلیل و برہان قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ توضیح حجت اور بیان کی احتیاج ہے۔ بعض علماء نے امیرالمومنین(ع) کے ان خصائص میں سے چند کو شمار کیا ہے جن میں آپ پیغمبر خاتم(ص) کی نظیر ہیں۔

منجملہ ان کے اصل ونسب میں ایک دوسرے کی نظیر ہیں :

" نظيره فی الطهارت بدليل قوله تعالی: إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً "

یعنی آیہ تطہیر کی دلیل سے علی(ع) طہارت میں پیغمبر(ص) کی نظیر ہیں۔ ( جو پنچ تن آل عبا محمد، علی ، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کے لئے نازل ہوئی ہے۔)

" نظيره فی آيه ولی الامه بدليل قوله تعالی :

" إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ"

اور آیت مذکورہ میں ولایت امت کی حیثیت سے بدلیل إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ الخ آں حضرت(ص) کی نظیر ہیں۔ ( جو باتفاق فریقین حضرت علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے جیسا کہ اسی کتاب میں تفصیل سے اس کا ذکر آیا ہے۔)

" نظيره فی الاداء والتبليغ بدليل الوحی الوارد عليه يوم اعطاء سورة برائت لغيره فنزل جبريل قال لا يوديها الا انت هو منک فاستعادها منه فاداها علی رضی الله تعالی عنه فی الرسم. "

یعنی ادائے رسالت اور تبلیغ دین میں سورہ برائت کے موضوع اور خاتم الانبیاء پر نزول کی دلیل سے آں حضرت(ص) کی نظیر میں ( کیونکہ) آں حضرت(ص) نے سورہ برائت کی آیتیں ابوبکر کر دیں کہ ان کو لے جائیں اور موسم حج میں اہل مکہ کے سامنے تلاوت کریں، جیسا کہ اسی کتاب میں درج ہے( کہ جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا کہ رسالت کی تبلیغ کوئی شخص نہیں کرسکتا سوا آپ کے یا اس شخص کے جو آپ ہی سے ہو، چانچہ آں حضرت(ص) نے آیات سورہ برائت کو ابوبکر سے لے کر بحکم الہی علی(ع) کے سپرد کیا اور آپ نے موسم حج میں ان کی تبلیغ کی۔

" نظيره فی کونه مولی الامة بدليل قوله « صل الله عليه و آله » من کنت مولاه فهذا علی مولاه "

اور مولائے امت ہونے میں آنحضرت(ص) کی نظیر ہیں بدلیل ارشاد رسول (ص) (غدیر خم میں جیسا کہ اس کتاب میں تفصیل سے ذکر موجود ہے) کہ میں جس شخص کے امور میں اولی بہ تصرف ہوں پس یہ علی(ع) بھی اس کے امور میں اولی بہ تصرف ہیں۔

" نظيره فی مماثلت نفسهما و ان نفسه قامت مقام نفسه وان الله تعالی اجری نفس علی علی مجری نفس النبی صلی الله عليه وسلم فقال :

" فَمَنْ حَاجَّكَ فيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ

۱۵۶

مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُمْ "

اور اتحاد نفسانی میں آں حضرت(ص) کی نظیر ہیں کیونکہ علی(ع) کا نفس رسول(ص) کے نفس کا قائم مقام ہے چنانچہ خدائے تعالی نے آیہ مباہلہ میں ( باتفاقی فریقین جیسا کہ اس کتاب میں تشریح سے ذکر ہوا ہے) علی(ع) کو بمنزلہ نفس آںحضرت(ص) قرار دیا ہے۔

"ونظيره فی فتح بابه فی المسجد کفتح باب رسول الله و جواز دخول المسجد جنبا کحال رسول الله صلی الله عليه وسلم علی السواء ."

اور مسجد کے اندر آپ کا دروازہ باب رسول(ص) کے مانند کھلا رہنے میں ( کیونکہ پیغمبر(ص) کے حکم سے سوا خانہ پیغمبر(ص) و علی(ع) کے تمام گھروں کے دروازے جو مسجد میں کھلتے تھے بند کردیے گئے تھے) اور حالت جنابت میں مانند رسول(ص) مسجد کے اندر داخل ہونے کی اجازت میں آں حضرت(ص) کی نظیر ہیں۔

بردارون اہل سنت میں ایک ہمہمہ پیدا ہوا میں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو ان کی طرف سے جواب ملا۔

نواب : اتفاق سے اسی گذشتہ جمعہ کو ہم مسجد میں نماز پڑھنے گئے تو جناب حافظ صاحب نے خطبے میں بعض احادیث کو نقل کرتے ہوئے یہ مسجد کا دروازہ کھلا رکھنے کی فضیلت خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کےلئے مخصوص بتائی ، اس وقت جب آپ نے فرمایا کہ یہ علی کرم اللہ وجہہ کی خصوصیت ہے تو حاضرین کو حیرت ہوگئی اور ہماری یہ باتیں اس قضیے کے سلسلے میں تھیں۔ التماس ہے کہ یہ معما حل فرمائیے۔

خیر طلب : ( حافظ صاحب کی طرف رخ کر کےج) کیا آپ نے ایسی کوئی تقریر فرمائی ہے؟

حافظ : ہاں چونکہ ہماری صحیح حدیثوں میں ثقہ اور سچے صحابی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تمام دروازے جو مسجد میں کھلے ہوئے تھے بند کردیے جائیں سوا در خانہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جن کے متعلق فرمایا کہ ابوبکر مجھ سے اور میں ابو بکر سے ہوں۔

خیر طلب : یقینا آپ کی نظر سے گزر چکا ہوگا کہ بنی امیہ نے اس بات کی سعی بلیغ کی تھی کہ ہر اس فضیلت کے مقابلے میں جو مولا امیر المومنین علیہ السلام کے لئے مخصوص ہو خفیہ کام کرنے والوں اور معاویہ کے دسترخواں کی کاسہ لیسی کرنے والوں جیسے ابوہریرہ ، مغیرہ اور عمرو بن عاص وغیرہ کے ذریعہ ایک حدیث گھڑ لیں، اور ان کا یہ عمل برابر جاری تھا، ابوبکر کے ماننے والوں نے بھی اپنی اس انتہائی محبت اور ربط کی وجہ سے جو خلیفہ ابوبکر سے رکھتے تھے ان احادیث کو تقویت پہنچائی چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں اور خصوصیت کے ساتھ جلد سوم ص17 میں ان واقعات کو تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے اور کہتے ہیں کہ من جملہ موضوع احادیث کے سوا باب ابوبکر کے دوسرے دروازوں کا بند کرنا بھی ہے۔ " بدیہی بات ہے کہ اس موضوع حدیث کے مقابلے میں بکثرت صحیح حدیثیں موجود ہیں ( جو شیعوں کی آن معتبر کتابوں کے علاوہ ہیں جن میں

۱۵۷

یہ حدیث تواتر اور اجماع کے ساتھ ہے ( خود آپ کے اکابر علماء کی معتبر کتب صحاح میں اس قید کے ساتھ کہ یہ صحیح حدیثوں میں سے ہے، نقل کیا گیا ہے کہ لوگوں کے گھروں کے تمام دروازے جو مسجد میں کھلتے تھے رسول اللہ (ص) نے بند کروا دیئے تھے سوا در خانہ علی علیہ السلام کے۔

نواب : چونکہ یہ واقعہ معرض اختلاف میں پڑ گیا ہے۔ جناب حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ خصائص ابوبکر رضی اللہ عنہ میں سے ہے اور جناب عالی فرماتے ہیں کہ خصائص مولانا علی کرم اللہ وجہہ میں سے ہے ، لہذا ممکن ہوتو ہماری کتابوں سے بعض اسناد کی طرف اشارہ فرمائیے تاکہ سننے والے حافظ صاحب کے اسناد سے مطابقت کر کے بہتر کا انتخاب کر لیں۔

حکم رسول(ص) سے مسجد میں تمام گھروں کے دروازے بند کردئیے گئے سوا خانہ علی(ع) کے دروازے کے

خیر طلب : احمد ابن حنبل نے مسند جلد اول ص 175 ، جلد دوم ص26 اور جلد چہارم ص369 میں ، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے سنن میں اور خصائص العلوی ص13، 14 میں ، حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد سوم ص117، 125 میں اور سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص24، 25 میں مفصل بیانات کے ساتھ اس حدیث کو ترمذی اور احمد کے طریق سے ثابت کیا ہے ابن اثیر جوزی نے اسنی المطالب ص12 ، ابن حجر مکی نے صواعق ص76 میں، ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری جلد 7ص12 میں، طبرانی نے اوسط میں، خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ جلد 7 ص205 میں، ابن کثیر نے اپنی تاریخ جلد ہفتم ص342 میں ، متقی ہندی نے کنزالعمال جلد ششم ص 408 میں ، شبیمی نے مجمع الزوائد جلد نہم ص65 میں، محب الدین طبری نے ریاض جلددوم ص192 میں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص451 میں حافظ ابو نعیم نے فضائل الصحابہ میں اور حلیتہ الاولیاء جلد 4 ص183 میں جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء ص116 جمع الجوامع ، فضائل الکبری اور تعالی المصنوعہ جلد اولی ص181 میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں ؟؟؟؟؟ نے فرائد میں، ابن مغازلی نے مناقب میں منادی مصری نے کنوز الدقائق میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ ص87 میں، باب 17 کو اسی مضمون کے لئے مخصوص کیا ہے ، شہاب الدین قسطلانی نے ارشاد الباری جلد ششم ص81 میں ، حلبی نے سیرۃ الحلبیہ جلد سوم ص373 میں اور محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئولی ص17 میں، یہاں تک کہ عام طور پر کبار صحابہ میں سے آپ کے بڑے بڑے علماء نے جیسے خلیفہ عمر بن خطاب،

۱۵۸

عبداللہ بن عباس، عبداللہ ابن عمر، زید بن ارقم، براء بن عازب، ابو سعید خدری، ابو حازم اشجعی ، سعد بن ابی وقاص اور جابر ابن عبداللہ اںصاری وغیر ہم نے مختلف عبارتوں کے ساتھ رسول اللہ (ص) سے نقل کیا ہے کہ آں حضرت(ص) نے حکم دے کر مسجد میں سارے دروازوں کو بند کروا دیا سوا در خانہ علی(ع) کے اور خصوصیت کے ساتھ آپ کے بعض اکابر علماء نے بنی امیہ سے فریب کھائے ہوئے لوگوں کی بصیرت افروزی کے لئے کامل توضیحات دیے ہیں، مثلا محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے باب 50 کو اسی موضوع سے مخصوص رکھا ہے اور مستند احادیث نقل کرنے کے بعد ایک بیان اس عنوان کے ساتھ دیا ہے کہ «هذا حديث عالی» اس محل پر کہتے ہیں کہ چونکہ اصحاب کے مکانات کے متعدد دروازے مسجد میں کھلتے تھے اور رسول اللہ(ص) نے مساجد کے اندر حالت حیض و جنابت میں داخل ہونے اور ٹھہرنے کو منع فرمایا لہذا حکم دیا کہ مسجد کی طرف تمام گھروں کے دروازے بند کردیے جائیں البتہ علی(ع) کے گھر کا دروازہ کھلا رکھا جائے اسی عبارت کے ساتھ کہ

" سدوا الابواب کلها الا باب علی بن ابی طالب و اوما بيده الی باب علی عليه السلام."

یعنی تمام دروازوں کو بند کرو البتہ خانہ علی(ع) کا دروازہ کھلا رہنے دو اور دست مبارک سے در خانہ علی علیہ السلام کی طرف اشارہ فرمایا ۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ حالت جنابت میں مسجد کے اندر داخل ہونے اور ٹھہرنے کا جواز حضرت علی علیہ السلام کا خاص شرف تھا لہذا یہ عمل اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہر جنب و حائض کا مسجدوں میں داخلہ اور توقف ہوسکے۔

" انما خص بذالک لعلم المصطفی بانه یتحری من النجاسة هو و زوجته فاطمة و اولاده صلوات الله عليهم و قد نطق القرآن بتطهيرهم فی قوله عزوجل انما يريد الله الخ."

خلاصہ مطلب یہ کہ پیغمبر(ص) کا علی(ع) کو مخصوص قرار دینا آپ کے لئے اس معنی سے ایک خصوصیت عظمی تھی کہ آں حضرت(ص) اس بات کا قطعی علم رکھتے تھے کہ علی (ع) و فاطمہ(س) اور ان کی اولاد نجاست سے دور اور پاک ہیں ، چنانچہ آیہ تطہیر اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ یہ خاندان جلیل جملہ رجس و نجاسات سے منزہ ہے۔ جو مکمل توضیح اس شافعی عالم نے پیش کی ہے اس کا جناب حافظ صاحب اس حدیث سے موازنہ کریں جو انہوں نے نقل کی ہے۔ اگر ابوبکر طہارت پر ان کے پاس کوئی دلیل ہے تو ہمارے سارے اسناد کے نظر انداز کرتے ہوئے اس خبر کو بیان کریں در آحالیکہ بخاری و مسلم نے بھی اپنی صحیحیں میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے اس باب میں کہ جنب مسجد میں داخل ہونے اور ٹھہرنے کا حق نہیں رکھتا ہے کیونکہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا ہے لا ينبعی لاحد ان يجنب فی المسجد الا انا و علی یعنی کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ مسجد میں جنب ہو سوا میرے اور علی(ع) کے۔)

معتبر اسناد کے ساتھ اس قسم کی حدیثیں ثابت کرتی ہیں کہ سوا باب علی علیہ السلام کے جملہ دروازے مسدود

۱۵۹

کردیے گئے تھے ، کیونکہ علاوہ باب پیغمبر(ص) و علی(ع) کے اگر کوئی اور دروازہ کھلا رکھا گیا ہوتا تو ان دونوں بزرگواروں ( محمد و علی علیہما السلام ) کے علاوہ دوسرے کے لئے بھی حالت جنابت میں مسجد کے اندر آنا اور توقف کرنا جائز ہونا چاہئے تھا حالانکہ آں حضرت صریحی طور پر فرماتے ہیں :

" لا ينبعی لاحد ان يجنب فی المسجد الا انا و علی ."

پس یہ احادیث برہان قاطع ہیں( کیونکہ بخاری و مسلم نے بھی نقل کیا ہے) ان حدیثوں کے اوپر جن کو بنی امیہ اور عقیدتمندان ابوبکر اور دوسرے نے نقل کیا ہے کہ دوسروں کے لئے بھی دروازہ کھلا رکھا گیا تھا۔

قطعا اور یقینا مسلم ہے کہ مسجد کے اندر فتح باب علی علیہ السلام کے خصائص میں سے تھا اگر آپ اجازت دیں تو اس بارے میں اپنے معروضات کو ختم کرتے ہوئے خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب سے ایک حدیث پیش کروں، جس کو حاکم نے مستدرک جلد سیم ص125 میں سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ ضمن باب 56 ص210 میں ذخائر العقبی امام الحرم سے اور انہوں نے مسند امام احمد حنبل سے خطیب خوارزمی نے مناقب ص261 میں، ابن حجر نے صواعق ص76 میں، سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں، ابن اثیر جرزی نے اسنی المطالب میں اور دوسرے حضرات نے بھی الفاظ کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ نقل کیا ہے کہ خلیفہ عمر نے کہا :

"لقد اوتی (علی) ابن ابی طالب ثلاث خصال لان تکون لی واحدة منهن احب اتی من حمر النعم زوجه النبی صلی الله عليه وسلم بنته و سد الابواب الا بابه و سکناه المسجد مع رسول الله يحل له فيه ما يحل له ، و اعطاه الرايه يوم خيبر."

یعنی در حقیقت یقینا علی(ع) ابی طالب کو تین خصلتیں ایسی عطا ہوئیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی مجھ کو حاصل ہوتی تو میرے لئے سرخ بالوں والے حیوانات (اونٹوں) سے بہتر ہوتی، (1) پیغمبر(ص) نے ان کے ساتھ اپنی دختر کی تزویج کی۔ (2) ( مسجد کے ) تمام دروازے بند کردئے سوا ان کے دروزاے کے، مسجد میں پیغمبر(ص) کے ساتھ آرام کیا اور مسجد میں جو کچھ پیغمبر(ص) کے لئے جائز ہے وہ ان کے لئے بھی جائز ہے (3) اور خیبر کے روز ان کو (اسلام کا ) علم عطا فرمایا۔

میرا خیال ہے کہ جناب نواب صاحب اور دوسرے برادران عزیز کے نزدیک معما حل ہوگیا ہوگا اور کوئی عذر کا راستہ باقی نہ ہوگا جناب حافظ صاحب کو بھی پورا اطمینان ہوگیا ہوگا۔ بہتر ہے کہ ہم اپنی سابق گفتگو اور سید شہاب الدین کے بقیہ بیانات کی طرف بھی رجوع کریں جو اپنی تحقیقات کے آخر میں کہتے ہیں :

"و من تتبع احواله فی الفضائل المخصوصه و تفحص احواله فی الشمائل المنصوصه يعلم انه کرم الله تعالی وجهه يلغ الغايه فی اقتفاء آثار سيدنا المصطفی و اتی النهايه فی اقباس انواره حيث لم يجد فيه غيره مقتضی. انتهی."

یعن اگر کوئی شخص آپ کے مخصوص

۱۶۰