پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310311 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

فضائل اور مںصوص شمائل میں حالات کا تفحص و تجسس کرے تو وہ دیکھے گا کہ آپ رسول اللہ(ص) کے قدم بہ قدم ہونے اور آپ حضرت(ص) کے انوار کا نمونہ بننے میں کمال کی آخری منزل پر پہنچے ہوئے ہیں اور ان خصوصیات میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں۔

یہ مولانا امیرالمومنین علیہ السلام کے مدارج عالیہ اور فضائل مخصوصہ کے سلسلے میں خود آپ کے علماء کے بیانات اور اعتراف کا صرف ایک نمونہ تھا تاکہ آپ حضرات سمجھ لیں کہ نہ میں نے غلو کیا ہے اور نہ بیجان دعوی پیش کرتا ہوں بلکہ جملہ شیعہ اول سے آخر تک بغیر دلیل و برہان کے کوئی بیان پیش نہیں کرتے ہمارے تمام دلائل و براہین وہی ہیں جن کی جڑ اور بنیاد آپ لوگوں کے پاس خود آپ کی معتبر کتابوں میں موجود ہے۔لیکن افسوس ہے کہ جس وقت آپ عوام اور نا واقف لوگوں کے درمیان بیٹھتے ہیں تو اپنے اسلاف کی پیروی میں اپنی حیثیت محفوظ رکھنے کے لیے عادتا یک طرفہ فیصلہ کرتے ہوئے رطب و یابس کو باہم مخلوط کر کے تہمتیں لگاتے ہیں اور ان کی نگاہوں اصلیت کو مشتبہ بناتے ہیں بس ان مقدمات کو ذکر کرنے کے بعد ثابت ہوا کہ علی علیہ السلام ساری حیثتیوں میں رسول اللہ(ص) کے شریک و نظیر تھے جیسے کہ ہارون حضرت موسی(ع) کے نسبت تھے۔ لہذا جب موسی(ع) نے ہارون کو تمام بنی اسرائیل کے درمیان اس منصب کے لیے ہر ایک سے زیادہ اہل اور لائق اور سب سے افضل پایا تو پروردگار عالم سے درخواست کی کہ ان کو میرا کام میں شریک قرار دے تاکہ وہ میرے وزیر بنیں اسی طرح خاتم الانبیاء نے بھی چونکہ ساری امت کے درمیان اس عہدے کے لیے کسی کو علی(ع) سے زیادہ قابل و لائق نہیں دیکھا جو کل امت سے افضل ہو لہذا خدائے تعالی سے درخواست کی کہ جس طرح تو نے ہارون کو موسی(ع) کا وزیر و شریک بنایا علی کو میرا وزیر و شریک قرار دے۔

نواب : قبلہ صاحب آیا اس بارے میں کچھ روایتیں اور بھی منقول ہیں؟

خیر طلب: ہاں علاوہ شیعوں کے اجماع کے اس موضوع پر آپ کی معتبر کتابوں میں بھی بہت سی روایتیں مروی ہیں۔

نواب : ان روایات میں سے جس قدر ممکن ہو ہم لوگوں کو بھی سنائیے ، ہم بہت ممنون ہوں گے۔

خیر طلب : میں حاضر ہوں ، اگر آپ حضرات بھی مائل ہوں(اشارہ ان کے علماء کی طرف )۔

حافظ : کوئی حرج نہیں ، کیونکہ نقل حدیث اور اسی طرح اس کا سننا بھی عبادت ہے۔

علی(ع) کو اپنا وزیر بنانے کے لئے پیغمبر(ص) کا سوال

خیر طلب :ابن مغازلی فقیہ شافعی نے مناقب میں، جلال الدین سیوطی نے تفسیر و منشور میں امام المحدثین احمد ثعلبی نے تفسیر کشف البیان میں، اور سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ضمن نزول آیہ ولایت میں نیز ص۱۴ میں ابوذر عفاری

۱۶۱

اور اسماء بنت عمیس زوجہ ابوبکر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ایک روزہم لوگوں نے مسجد میں نماز ظہر پڑھی اور رسول اللہ (ص) بھی موجود تھے کہا ایک سائل نے اٹھ کر سوال کیا ،کسی نے اس کو کچھ نہیں دیا۔ علی علیہ السلام نماز میں رکوع کے اندر تھے ہاتھ سے اپنی انگلی کی طرف اشارہ کیا سائل نے آپ کی انگلی سے انگوٹھی اتار لی، پیغمبر(ص) نے یہ معاملہ دیکھا تو سر مبارک آسمان کی طرف بلند فرمایا اور عرض کیا :

" اللهم ان اخی موسی سلک فقال رب اشرح لی صدری ويسر لی امری الايه الی قوله. واشرکه فی امری فانزل عليه فلانا ناطقا سنشد عضدک باخيک و نجعل لکما سلطانا فلايصلون اليکما"

یعنی پروردگارا میرے بھائی موسی نے تجھ سے سوال کیا اور کہا خدایا میرے لیے میرا سینہ کشادہ کردے اور میرے لیے میرے کام کو ( تبلیغ رسالت میں) آسان کردے۔ یہاں تک کہ کہا میرے بھائی ہارون کو میرا شریک کار بنا دے۔ پس ان حضرت پر یہ آیت نازل فرمائی کہ ( اے موسی) ہم نے تمہاری دعا قبول کی تمہارے بھائی ہارون کی شرکت و وزارت سے تمہارا بازو مضبوط کرتے ہیں اور تم دونوں کو عالم میں ایسی قدرت و حکومت دیتے ہیں کہ وہ تم پر قابو نہ پاسکیں۔ پھر عرض کیا :

"للهم و انا محمد صفيک ونبيک فاشرح لی صدری ويسر لی امری واجعل لی وزيرا من اهلی عليا اشدد به ازری"

یعنی خداوندا میں محمد(ص) تیرا برگزیدہ اور پیغمبر ہوں پس میرا سینہ کشادہ کردے، میرے لیے میرا امر آسان بنادے اور میرے لیے میرے اہل میں سے ایک وزیر قرار دے اور وہ علی ہوں، ان کے وجود سے میری پشت مضبوط فرمادے) ابوذر کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ابھی پیغمبر(ص) کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ جبرئیل نازل ہوئے آيه انما وليکم الله و رسوله الخ آں حضرت(ص) کو پہنچائی، انتہی۔ معلوم ہوا کہ پیغمبر(ص) کی دعا مستجاب ہوئی اور علی(ع) ( مانند ہارون کے موسی کے لیے) وزارت رسول(ص) پر برقرار ہوئے۔ محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص۱۹ میں مفصل شرح کے ساتھ اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

حافظ ابو نعیم اصفہانی نے کتاب منقبۃ لامطہرین میں، شیخ علی جعفری نے کنز البراہین میں امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، سید شہاب الدین نے توضیح الدلائل میں، جلال الدین سیوطی نے درمنثور میں اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے جن کے ناموں کی تفصیل تنگی وقت کی وجہ سے نزظر انداز کرتا ہوں اپنی تصنیفات و تالیفات میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ بعض نے اسماء بنت عمیس (زوجہ ابوبکر) سے اور بعض نے دوسرے صحابہ سے یہاں تک کہ ابن عباس ( خیر امت) رضوان اللہ عنہ سے بھی روایت کی ہے کہ:

" اخذ رسول الله بيدی و بيد علی بن ابی طالب فصلی اربع رکعات ۔"

یعنی رسول خدا(ص) نے میرا ہاتھ اور علی(ع) کی ہاتھ پکڑا پھر چار رکعت نماز پڑھی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے عرض کیا:

" اللهم سئلک موسی بن عمران وأنا محمد اسئلک ان تشرح لی صدری و تيسر لی امری و انحل عقدة من لسانی يفقهم اقوالی واجعل لی وزيرا من اهلی عليا

۱۶۲

اشدد به ازری اشرکه فی امری ۔ "

یعنی خداوند موسی ابن عمران نے تجھ سے سوال کیا ( اپنے بھائی ہارون کی ذرات اور امر نبوت و تبلیغ رسالت میں شرکت کے لیے) اور میں محمد(ص) ہوں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرا سینہ کشادہ کر دے ، میرے امر کو آسان بنادے، میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات کو سمجھیں اورمیرے اہل میں سے میرے لیے ایک وزیر علی(ع) کو قرار دے ان سے میری پشت کو مضبوط کر اور ان کو میرے کام میں شریک قرار دے ( جو رسالت اور حقائق کا پہنچانا ہے) ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے ایک منادی کی آواز سنی جو یہ کہہ رہا تھا ي ا احمد قد اوتيت ما سئلت یعنی اے احمد تم نے جو کچھ مانگا ہم نے تم کو عطا کیا۔ اس وقت رسول اللہ (ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاو اور اپنے خدا سے دعا کرو تاکہ تم کو کچھ عطا فرمائے ۔ پس علی(ع) نے ہاتھوں کو بلند کر کے عرض کیا۔ اللهم اجعل لی عند ع ه دا واجعلنی عندک ودا ۔ یعنی پروردگارا میرے لیے اپنے نزدیک ایک عہد قرار دے اور میرے لیے اپنے پاس محبت و مودت معین فرما پس جبرئیل نازل ہوئے اور یہ آیہ شریفہ ( آخر سورہ مریم کی) لائے :

" إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ- سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمنُ وُدًّا"

(یعنی جو لوگ ایمان لائے اور نیکو کار بنے خدائے رحمان ان کو محبوب قرار دیتا ہے (یعنی ان کی محبت و مودت کو مسلمانوں کے دلوں میں جاگزین کرتا ہے) اصحاب نے یہ معاملہ دیکھ کر تعجب کیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مما تعجبون ان القرآن اربعة ارباع فربع فينا اهل البيت خاصا وربع حلال و ربع حرام و ربع فرائض و احکام والله انزل فی علی کرائم القرآن یعنی تم کس چیز سے تعجب کرتے ہو؟ قرآن کے چار حصے ہیں ایک ربع ہم اہل بیت(ع) کے لیے مخصوص ہے ایک ربع حلال میں ایک ربع حرام میں اور ایک ربع فرائض و احکام میں ہے۔ خدا کی قسم قرآن مجید کی بزرگ آیتیں علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔)

شیخ ، اگر اس حدیث کو صحیح بھی فرض کر لیا جائے تو علی کرم اللہ وجہہ سے اس کو کوئی خصوصیت نہیں بلکہ یہی حدیث دو عظیم الشان خلیفہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بھی صادر ہوئی ہے چنانچہ قزعہ بن سوید نے ابن ابی ملیکہ سے اس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ابوبکر و عمر منی بمنزل ة هارون من موسی.

خیر طلب : اگر آپ حضرات تھوڑا غور کر لیتے اور رجال روات کی طرف رجوع کرتے تو اپنے کو خواہ مخواہ زحمت میں نہ ڈالتے کہ کبھی آمدی کے قول سے اور کبھی انہتائی جھوٹے اور جعل ساز قزعہ بن سوید کے قول سے استدلال کریں، حالانکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے اس امر کو مردود اور اس کی نقل کی ہوئی حدیثوں کو نا قابل قبول ٹھہرایا ہے۔ خصوصا علامہ ذہبی نے کتاب میزان الاعتدال کے اندر حالات قزعہ بن سوید و عمار بن ہارون کے ترجمے میں اس حدیث کا انکار کیا ہے اور کہتے ہیں هذا کذب یعنی یہ جھوٹ ہے ۱۲ مترجم) پس جب قزعہ آپ کے علماء کے

۱۶۳

نزدیک مردود ہے تو وہ حدیث بھی مردود ہے جو اس سے منقول ہو۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے اس کو مان بھی لیا جائے تو آپ حضرات قزعہ کی روایت کا ذرا اس سلسلہ روایت سے موازنہ کیجئے جس کو تمام علمائے شیعہ سے قطع نظر جنہوں نے مسلم حیثیت سے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے ہم نے خود آپ ہی کے بزرگ ترین علماء سے نقل کیا ہے ۔ اس وقت اںصاف کے ساتھ فیصلہ کیجئے کہ ان دونوں حدیثوں میں سے کون سی ، ماننے کے قابل ہے۔

( جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو ان حضرات نے گھڑیوں پر نظر کی اور کہا کہ ہم لوگ بات چیت میں ایسے محو ہوگئے کہ اپنی طرف خیال ہی نہ کیا ، توجہ ہوئی کہ آدھی رات گذر چکی ہے ۔ بہتر ہوگا کہ اسی موضوع پر بقیہ بحث کل شب پر رکھی جائے۔ اس کے بعد اٹھے اور شب بخیر کہہ کے بعافیت تشریف لے گئے۔)

پانچویں نشست

( شب سہ شنبہ ۲۷ رجب سنہ۱۳۴۵ ہجری)

(آج مولوی صاحبان اول شب میں اور زیادہ مجمع کے ساتھ تشریف لائے اور چائے وغیرہ کے بعد حافظ صاحب نے بحث کا افتتاح کیا۔)

حافظ : آج میں کافی دیر تک آپ کی کل رات والی تقریروں پر غور کرتا رہا اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ آپ ماشاء اللہ بہت زیادہ زبان آور ہیں، اپنی جادو بیانی کے علاوہ آپ چاہتے ہیں کہ حسن تقریر کے ساتھ بات کا بتنگز بنا کے یہ ثابت کردیں کہ اس حدیث منزلت میں پیغمبر بزرگوار (ص) نے اپنے بیان مبارک سے علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت بلا فصل کا اعلان فرمایا ہے حالانکہ یہ حدیث ایک خصوصی پہلو رکھتی ہے اور غزوہ تبوک کے سفر میں ارشاد ہوئی تھی جس کی عمومیت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔

منزلت کا لفظ عموم کا فائدہ دیتا ہے

خیر طلب : اگر حضرات حاضرین جلسہ میں سے کسی نے یہ اشکال پیش کیا ہوتا تو حیرت نہ ہوتی لیکن آپ جیسی شخصیت سے سخت تعجب ہے کہ اہل زبان اور ادبیات عرب اور اصول و قواعد کے عالم ہونے کے باجود کس لیے اس طرح کی باتیں کرتے ہیں حالانکہ خود جانتے ہیں کہ اہل زبان کے متعارف کلمات میں ہر موقع پر استثناء

۱۶۴

اور مستثنی منہ عموم پر دلالت کرتا ہے اور اس حدیث شریف میں بالخصوص کلمہ منزلت جو علم کی طرف مضاف ہے۔ قطعی اور یقینی طور پر صحت استثناء کی دلیل سے عموم کا فائدہ دیتا ہے اس لیے کہ الا انه لا نبی بعدی میں استثنائے متصل ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو معلوم ہے کہ اصولیین نے اس چیز کی تصریح کردی ہے کہ اسم جنس مضاف عموم کا فائدہ دیتا ہے خصوصا جس وقت الف لام کے ساتھ ہو پس آںحضرت(ص) کے کلام میں لفظ منزلت جو علم کی طرف مضاف ہے مقید عموم ہے اگرچہ بعض علماء اس نظریے کے خلاف گئے ہیں لیکن بڑے بڑے اور کامل اصولی علماء ہمارے ہی عقیدے کے حامل ہیں کہ مفرد جو معرفہ کی طرف مضاف ہوبنا بر اصح عموم کے لیے ہے اور اس حکم میں اس بات کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے کہ معرفہ علم ہو یا ضمیر اور استثناء کا وجود عموم پر دلالت کی شرط نہیں ہے بلکہ صحت استثناء عموم میں کافی ہے۔

پس اس بناء پر انت منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی عموم پر دلالت کرتا ہے اور جملہ لا نبی بعدی حمل بر معنی ہے جو الا النبوة ہے اور حمل بر معنی کا قاعدہ مشہور اور معمول بہا قواعد میں سے ہے جو فصحاء بلغاء کے کلمات نظم نثر میں عام طور پر مشتمل ہے۔

حافظ : میرا خیال ہے کہ جناب عالی ذرا گہری نظر ڈالیں تو اس طرف متوجہ ہوں گے کہ انه لا نبی بعدی جملہ خبریہ ہے اور اس کو منازل ہارونی سے مستثنی نہیں کیا جاسکتا لہذا ان چیزوں سے ہٹ کر صراحت سے علیحدگی حمل بر معنی اور حذف کلمہ نبوت کا کیا مطلب ہے؟

خیر طلب : بڑی بے لطفی کی بات ہے کہ آپ نے کچ بحثی کا راستہ اختیار کیا ہے حالانکہ آپ جیسے شریف انسان سے یہ بات کچھ بھی نہیں معلوم ہوتی ۔ اگر آپ سابق جملوں پر تھوڑا غور فرمائیں تو سمجھ میں آجائے گا کہ جملہ خبریہ کا جواب عرض ہوچکا ۔ اب آپ نے جو یہ فرمایا کہ کس لیے معنی پر حمل کیا اور ظاہری لفظ سے مطلب ادا نہیں کیا تو آپ اس کو خود بہتر جانتے ہیں اور تجاہل عارفانہ کررہے ہیں، کیونکہ علمائے علم بیان کی نظر میں یہ چیز عام ہے کہ کلام کے اختصار اور حسن بیان کے لیے کلمے کو حذف کرتے ہیں اور بلغاء و فصحاء کے فقرات و کلمات میں کثرت سے اس کی نظیر موجود ہیں جن سے آپ خود اچھی طرھ واقف ہیں۔

اس کے علاوہ ہم کو اس وقت اس تحقیق کی ضرورت ہوگی جب حدیثوں میں نبوت کا لفظ آیا ہو حالانکہ آنحضرت(ص) نے کلمہ نبوت کے ساتھ علی علیہ السلام کے لیے مکرر اس منزلت کا اثبات کیا ہے اور کبھی اختصار کلام اور حسن بیان کی غرض سے کلمہ نبوت کو حذف کر کے مقصد کا اظہار فرمایا ہے ۔ بعض اوقات میں جملہ انه لا نبی بعدی اور حذف کلمہ نبوت سے اور کسی وقت کلمہ الا النبوة کے کھلے ہوئے بیان سے حقیقت کو ثابت فرمایا چنانچہ آپ کے بزرگ علماء نے دونوں کو درج کیا ہے ۔ نمونے کے طور پر چند حدیثیں پیش کرتا ہوں تاکہ حجت تمام ہوجائے۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب ۷۰ میں ، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب ۶ میں ، ابن کثیر

۱۶۵

نے اپنی تاریخ میں عائشہ بن سعد سے، انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے رسول خدا (ص) سے ، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص۱۲ میں مسند امام احمد اور مسلم وغیرہ سے اور انہوں نے ابوبریرہ سے، امام احمد ابن حنبل نے مناقب میں ، ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی نے ---- صحاح ستہ میں سے ہیں ) خصائص العلوی میں چار حدیثیں اپنے اسناد کے ساتھ سعد بن ابی وقاص سے اور عائشہ سے اور انہوں نے اپنے باپ سے اور خطیب خوارزمی نے مناقب میں جابر ابن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے علی(ع) سے فرمایا :

" اما ترـی ان ت کون منی بمنزلة هارون من موسی الا النبوة."

یعنی آیا تم راضی نہیں ہو اس پر کہ محمد سے تمہاری وہی منزلت ہو جو ہارون کو موسی سے تھی علاوہ نبوت کے)۔

اور میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودۃ ششم میں ایک حدیث انس بن مالک سے نقل کی ہے جس کو مکمل طور پر کل شب میں عرض کر چکا ) اس کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے :

" ولو کان بعدی نبيا لکان علی نبيا ولکن لا نبوة بعدی."

میرا خیال ہے کہ نمونے کے لیے اسی قدر کافی ہوگا تاکہ آپ حضرات مغالطہ نہ دیں بلکہ سمجھ لیں کہ مستثنی نبوت ہے نہ کہ عدم نبوت اور اس معتبر حدیث سے ثابت ہے کہ جس طرح موسی کلیم اللہ نے اپنی چالیس روز کی غیبت میں امت کا معاملہ اس کے ہاتھ میں نہیں چھوڑا اور ہارون کو جو تمام بنی اسرائیل سے افضل تھے اپنا خلیفہ اور وصی مقرر فرمایا تاکہ امر نبوت آپ کی عدم موجودگی میں مختل نہ ہوا پیغمبر کا بھی جن کی شریعت کامل تر، جن کے ہدایات ہمہ گیر اور جن کے قوانین روز قیامت تک باقی اور پائدار ہیں، بدرجہ اولی یہ فریضہ تھا کہ جاہل لوگوں کو ان کے حال پر نہ چھوڑیں نادان خلقت کو حیرانی میں نہ ڈالیں اور شریعت کو جہال کے ہاتھوں میں نہ دے دیں تاکہ ہر شخص اس میں اپنی منشا کے مطابق تصرفات کرے۔ ایک شخص رائے اور قیاس پر عمل کرے تو دوسرا شریعت اور طریقت کے درمیان فرق قائم کرے اور تخریب پسند عناصر کو موقع ہاتھ آئے کہ ایک خالص اور سادہ ملت کو تہتر حصوں میں تقسیم کریں۔ لہذا اس حدیث شریف میں ارشاد فرماتے ہیں کہ علی (ع) مجھ سے بمنزلہ ہارون ہیں موسی سے یعنی سارے مدارج ہارونی کو ان حضرت کے لیے ثابت فرمایا کہ من جملہ ان کے تمام صحابہ و امت پر آپ کی افضلیت اور عہدہ وزارت و خلافت پر آپ کی تعیین ہے۔ یعنی جس طرح سے ہارون کو موسی نے اپنی غیبت میں خلیفہ قرار دیا تھا علی علیہ السلام بھی میری عدم موجودگی میں میرے خلیفہ ہیں۔

حافظ : آپ نے اس حدیث کی عظمت میں جو کچھ فرمایا وہ تصور سے بالاتر ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ تھوڑا غور فرمائیں تو اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اس حدیث میں کوئی عمومیت نہیں ہے کیونکہ یہ صرف غزوہ تبوت سے مخصوص ہے جب کہ ایک معین مدت کے لیے رسول خدا(ص) نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا خلیفہ نامزد فرمایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص۱۵۶۔

۱۶۶

حدیث منزلت تبوک کے علاوہ بھی کئی مرتبہ وارد ہوئی ہے

خیر طلب: آپ کا یہ فرمانا اس وقت صحیح ہوتا جب یہ حدیث صرف غزوہ تبوک میں ہی صادر ہوتا جب یہ حدیث صرف غزوہ تبوک میں ہی صادر ہوئی ہوتی، حالانکہ اس حدیث کے فقرے متعدد بار اور مختلف مقامات پر پیغمبر(ص) کی زبان مبارک سے سنے گئے ہیں، منجملہ ان کے پہلی مواخات میں جب کہ مکہ معظمہ کے اندر مہاجرین و انصار کے درمیان برادری قائم فرمائی اور دوسری مرتبہ مدینہ منورہ میں جب علی علیہ السلام کو اپنا بھائی منتخب فرمایا تو ارشاد ہوا:

" انت منی بمنزلة هرون من موسی الا انه لا نبی بعدی."

حافظ : یہ ایک عجیب سا بیان ہے کیونکہ اب تک میں نے جہاں تک دیکھا اور سنا ہے ، حدیث منزلت غزوۃ تبوک میں صادر ہوئی تھی کیونکہ پیغمبر(ص) نے علی(ع) کو اپنی جگہ پر چھوڑا جس سے آپ دل تنگ ہوئے تو آنحضرت(ص) نے ان جناب کو ان الفاظ سے تسکین دی۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے اپنے بیان میں دھوکا کھایا ہے۔

خیر طلب : نہیں مجھ کو غلط فہمی نہیں ہوئی بلکہ اس پر یقین رکھتا ہوں ۔ علاوہ علمائے شیعہ کے اتفاق کے آپ کی بھی بہت سی معتبر کتابوں میں منقول ہے۔ من جملہ ان کے (فریقین کے نزدیک مقبول القول) مسعودی نے مروج الذہب جلد دوم ص۴۹ میں، حلبی نے سیرۃ الحلبیہ جلد دوم ص۱۲۶۔ ۱۲۰ میں، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی ص۱۹ میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص۱۳،۱۴، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب ۹، ۱۷ میں مسند امام احمد حنبل سے، عبداللہ بن احمد نے زوائد مسند میں، اور خوارزمی نے مناقب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے یہاں تک کہ مواخات کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی ایسا ہوا ہے لیکن جلسے کا وقت ان سب کو نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

پس آپ حضرات تصدیق فرمائیے کہ یہ حدیث شریف کوئی محدود حیثیت نہیں رکھتی۔ بلکہ اس کی عمومیت ثابت ہے کیونکہ رسول اللہ (ص) نے اس کے ذریعے سے جس موقع پر مناسب سمجھا اپنے بعد علی (ع) کی خلافت کو اس عبارت کے ساتھ مضبوط فرمایا :

" علی منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی " چنانچہ ان موارد میں سے ایک غزوہ تبوک بھی تھا۔

حافظ : یہ کیونکر ممکن ہے کہ اصحاب رسول(ص) نے اس حدیث کو عمومی حیثیت سے سنا ہو اور علی(ع) کو خلافت کے عنوان سے پہچان لیا ہو اس کے باوجود آن حضرت(ص) کے بعد مخالفت کر کے دوسرے کی خلافت کو قبول کیا اور اس کی بیعت کی؟

خیر طلب : آپ کے جواب کے لیے میرے پاس بہت سے مطالب اور شواہد موجود ہیں۔ لیکن بہترین دلیل جو

۱۶۷

اس موقع کے لیے مناسب ہے وہی جناب ہارون کا قضیہ ہے۔

حضرت موسی(ع) کا اپنے بھائی ہارون کو خلیفہ بنانا اور سامری کا بنی اسرائیل کو گوسالہ پرستی کا فریب دینا

آیات قرآنی کی صراحت ہے کہ حضرت موسی کلیم اللہ نے جناب ہارون کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنایا پھر بنی اسرائیل کو جمع فرمایا ( جو بعض روایات کی بنا پر ستر ہزاز تھے) اور ان کو تاکید کی کہ حضرت ہارون کی اطاعت کریں کیونکہ وہ آپ کے خلیفہ اور جانشین ہیں اس کے بعد کوہ طور پر خدا کی مہمانی میں گئے ابھی مہینہ بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ سامری کا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا اور بنی اسرائیل میں اختلاف ظاہر ہوگیا سامری نے سونے کا بچھڑا بنایا اور بنی اسرائیل حضرت موسی(ع) کے ثابت الخلافت خلیفہ ہارون کو چھوڑ کر گروہ در گروہ دغاباز سامری کے گرد اکھٹا ہوگئے، ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ انہیں عقیدتمند بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے حضرت موسی (ع) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ہارون میری غیبت میں میرے خلیفہ ہیں۔ ان کے حکم کی تعمیل کرنا اور مخالفت نہ کرنا ، ستر ہزار افراد سامری کے بہکانے سے گوسالہ پرست ہوگئے، جناب ہارون نے ہرچند فریاد کی اور ان کو اس عمل شنیع سے منع فرمایا لیکن کسی نے نہیں سنا بلکہ ان کے قتل کے درپے ہوگئے ، چنانچہ سورہ (اعراف) کی آیت نمبر۱۴۹ صراحت کررہی ہے کہ جب حضرت موسی(ع) واپس تشریف لائے تو جناب ہارون نے ان سے اپنا درد دل بیان کیا کہ" إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوني وَ كادُوا يَقْتُلُونَني" یعنی ان لوگوں نے مجھ کو حقیر و ذلیل بنادیا اور ( جب میں نے ان کی مخالفت کی اور روکا تو) قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں۔ آپ حضرات کو خدا کا واسطہ ذرا تعصب سے ہٹ کے انصاف کیجئے کہ بنی اسرائیل کا یہ عمل حضرت موسی(ع) کے احکام سے سرتاپی، ان کے منصوص خلیفہ جناب ہارون کو تنہا چھوڑ دینا اور شعبدہ باز سامری کے بہکانے سے گوسالہ پرست ہوجانا ۔ کیا خلافت ہارون کے باطل ہونے اور سامری اور اس کے بچھڑے کے برحق ہونے کی دلیل بن سکتی ہے؟ آیا بنی اسرائیل کے بچھڑا پرست لوگوں کی حرکتیں اسی چیز کی دلیل قرار دی جاسکتی ہیں کہ اگر خلافت ہارون برحق ہوتی اور لوگوں نے حضرت موسی(ع) سے اس بارے میں کوئی نص سنی ہوتی تو ہرگز ان کو تنہا نہ چھوڑتے اورسامری اور اس کے گوسالے کے پیچھے نہ دوڑتے؟

آپ حضرات قطعی طور پر جانتے ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے جناب ہارون قرآن مجید کے حکم سے حضرت موسی(ع) کے منصوص خلیفہ تھے ، بنی اسرائیل نے خود انہیں حضرت کی زبان سے آپ کے بارے میں کھلی ہوئی نص سنی تھی لیکن بالآخر حضرت موسی(ع) کے چلے جانے کے بعد مکار سامری کو موقع ہاتھ آیا اور اس نے سونے کا بچھڑا تیار کر کے

۱۶۸

جان بوجھ کر قصدا بنی اسرائیل کو فریب دیا اور ان لوگوں نے بھی یہ جانتے ہوئے کہ جناب ہارون حضرت موسی(ع) کے خلیفہ و جانشین ہیں اپنی بیوقوفی یا دوسرے مقاصد کی بنا پر سامری کی پیروی کی اور جناب ہارون کو یکہ و تنہا چھوڑا دیا۔

امیرالمومنین کے حالات کی مطابقت ہارون کے ساتھ

اسی طرح وفات رسول(ص) کے بعد انہیں لوگوں نے جو یار آں حضرت(ص) سے صراحتہ اور کنایۃ سن چکے تھے کہ علی (ع) میرے خلیفہ ہیں جس طرح سے ہارون موسی کے خلیفہ تھے ، خواہش اور اقتدار کی ہوس میں ، بعض نے بنی ہاشم کی عداوت میں اور ایک گروہ نے اس کینہ و عناد اور حسد و بغض کی وجہ سے جو وہ علی(ع) کی ذات سے رکھتے تھے آپ کو چھوڑ دیا اور مخصوص حالات پیدا کئے۔ چنانچہ امام غزالی نے سرالعالمین مقالہ چہارم کے شروع میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور کھل کے لکھتے ہیں کہ انہوں نے حق کو پس پشت دال دیا اور پچھلی جہالت کی طرف پلٹ(۱) گئے۔ اسی جہت سے ہارون اور امیرالمومنین(ع) کے درمیان مشابہت تھی۔ چنانچہ خود آپ کے محققین علماء اور مورخین جیسے دنیوی کے مشہور قاضی ابو محمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ باہلی دنیوری نے الامامتہ والسیاسہ جلد اول ص۱۴ میں سقیفہ کا قضیہ تفصیل سے لکھا ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں جس وقت علی(ع) کے دروازے پر آگ لے گئے، جبر و تشدد کے ساتھ حضرت کو مسجد میں لائے اور کہا کہ بیعت کرو ورنہ ہم تمہاری گردن مار دیں گے، تو حضرت نے اپنے کو قبر رسول(ص) تک پہنچایا اور وہی کلمات کہے جو قرآن مجید نے موسی کے مواجہے میں حضرت ہارون کی زبان سے نقل کئے ہیں کہ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَ كادُوا يَقْتُلُونَنِي

گویا کہ اس حدیث میں پیغمبر(ص) علی(ع) کو ہارون کی شبیہہ فرمارہے ہیں تو اس کا ایک پہلو امت کو یہ بتانا بھی

ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسی(ع) کی غیبت میں جو سلوک جناب ہارون کے ساتھ کیا تھا وہی سلوک میری وفات کے بعد لوگ علی(ع) کے ساتھ کریں گے۔ لہذا علی علیہ السلام نے جس وقت امت کی زبردستی اور بازیگروں کی سیاست بازی دیکھی کہ آپ کے قتل پر بھی آمادہ ہیں تو پیغمبر(ص) کی قبر مبارک سے خطاب کرتے ہوئے وہی آیت تلاوت فرمائی جس میں خدا نے موسی(ع) کے سامنے ہارون کی فریاد کا ذکر فرمایا ہے۔

( اہل جلسہ نے اپنے اپنے سرجھکالئے اور تھوڑی دیر تک سب کے اوپر سکتے کی سی کیفیت طاری رہی)

نواب : قبلہ صاحب اگر علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی خلافت ثابت تھی تو پیغمبر(ص) ان الفاظ اور اشارات و کنایات کے ساتھ کس لیے فرماتے تھے، صاف صاف آپ کی خلافت کا اعلان کیوں نہیں کردیا کہ فرمادیتے

-----------------

۱۔ اسی کتاب کے جلسہ نہم کی طرف رجوع کیجئے جس میں بسلسلہ حدیث غدیر امام غزالی کی اصل عبارت نقل کی گئی ہے۔

۱۶۹

علی (ع) میرے خلیفہ ہیں تاکہ کوئی عذر باقی نہ رہتا۔

خیر طلب: میں نے عرض کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے دونوں طریقوں سے حقیقت کا اظہار فرمایا ہے ورن خلافت کے بارے میں کھلی ہوئی حدیثیں خود آپ کی معتبر کتابوں میں بھی کثرت سے موجود ہیں ، لیکن اس طرح کے کنایات میں صراحت سے زیادہ لطافت ہوتی ہے ۔ اہل ادب جانتے ہیں کہ الکناية ابلغ من التصريح ( یعنی کنایہ تصریح سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔ ۱۲ مترجم) اور وہ بھی اس قسم کا کنایہ جس میں معانی و مطالب کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔

نواب : جیسا کہ آپ فرما رہے ہیں خلافت کے بارے میں ان کھلی ہوئی حدیثوں سے جو ہمارے علماء کی کتابوں میں موجود ہیں اگر پیش نظر ہوں تو ہم کو بھی مستفیض فرمائیے تاکہ حقیقت ظاہر ہوجائے اس لیے کہ ہم سے مکرر یہ بتایا گیا ہے کہ قطعا ایسی کوئی حدیث جو ان جناب کی خلافت کو واضح کرتی ہو موجود نہیں ہے۔

خیر طلب : حضرت امیرالمومنین(ع) کی خلافت پر کھلی ہوئی حدیثیں آپ کے معتبر کتابوں میں میں بہت ہیں۔ لیکن جلسے کے وقت کا لحاظ کرتے ہوئے ان میں سے چند جو اس وقت مجھ کو یاد ہیں پیش کرتا ہوں۔

حدیث یوم الدار یوم الانذار اور پیغمبر(ص) کا علی(ع) کو خلافت پر معین فرمانا

تمام احادیث سے اہم حدیث الدار ہے اس لیے کہ پہلے ہی دن جب کہ خاتم الانبیاء نے اپنی نبوت کو ظاہر فرمایا تو علی(ع) کی خلافت کا اعلان بھی فرما دیا ۔ چنانچہ (رئیس الحنابلہ) امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند جلد اول ص۱۵۹-۱۶۱ وص۳۳۳ میں ، امام شعلبی نے تفسیر آیہ انذار میں، صدر الائمہ موفق بن احمد خوارزمی نے مناقب میں، محمد بن جویر طبری نے اسی آیت کی تفسیر میں اور تاریخ الامم جزو دوم ص۲۱۷ میں مختلف طریقوں سے ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص۲۶۳ ، ص۲۸۱ میں نقض العثمانیہ ابو جعفر اسکافی سے نقل کرتے ہوئے ابن اثیر نے کامل جزء دوم ص۲۲ میں مرسل طریقے سے حافظ ابونعیم نے حلیفۃ الاولیاء میں، حمیدی نے جمع بن الصحیحین میں، بیہقی نے سنن و دلائل میں، ابوالفداء نے اپنی تاریخ جزء اول صفحہ ۱۱۶ میں، حلبی نے سیرۃ الحلبیہ جزء اولی ص۲۸۱ میں، اما عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی ص۶ حدیث ۶۵ میں ، حاکم ابوعبداللہ نے مستدرک جز سیم ص۱۲۳ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب ۳۱ میں مسند امام احمد اور تفسیر ثعلبی سے محمد بن یوسف نجی شافعی نے کفایت الطالب باب۵۱ میں، اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے الفاظ و عبارات کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جس وقت سورہ ۲۶ ( شعراء ) کی آیت نمبر۲۱۴ " وَ أَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ " نازل ہوئی تو رسول اللہ (ص) نے قریش میں سے چالیس نفر اشراف و رووسا اور اپنے اعزہ کو اپنے چچا جناب ابو طالب کے گھر میں دعوت

۱۷۰

دی اور ان کے سامنے گوسفند کی ایک ران ، تھوڑی روٹی اور ایک صاع دودھ پیش فرمایا ، وہ لوگ ہنسے اور کہا کہ محمد(ص) نے تو ایک آدمی کی خوراک بھی مہیا نہیں کی ( کیونکہ ان لوگوں میں کچھ ایسے بھی تھے جو تنہا ایک اونٹ کا بچہ کھاجاتے تھے) آں حضرت (ص) نے فرمایا کلوا بسم الله خدائے تعالی کے نام کے ساتھ کھاو، چنانچہ جب انہوں نے کھایا اور سیر ہوگئے تو آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ هذا ما سحرکم به الرجل محمد نے اس غذا سے تم پر جادو کیا ہے ۔ اس وقت آں حضرت(ص) ان کے درمیان کھڑے ہوئے اور ان تمہیدوں کے بعد جن کو مکمل طور پر نقل کرنے سے طول ہوگا اس طرح اپنے مقصد کا اظہار فرمایا : ِ

" يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنَ اللَّهَ بَعَثَنِي إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً وَ بَعَثَنِي إِلَيْكُمْ خَاصَّةً وَ أَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى كَلِمَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَيْنِ فِي الْمِيزَانِ تَمْلِكُونَ بِهِمَا الْعَرَبَ وَ الْعَجَمَ وَتَنْقَادُ لَكُمْ بِهِمَا الْأُمَمُ وَ تَدْخُلُونَ بِهِمَا الْجَنَّةَ وَ تَنْجُونَ بِهِمَا مِنَ النَّارِ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَمَنْ يُجِبْنِي إِلَى هَذَا الْأَمْرِ وَ يُؤَازِرْنِي عَلَيْهِ وَ عَلَى الْقِيَامِ بِهِ يَكُنْ أَخِي وَ وَصِيِّي وَ وَزِيرِي وَ وَارِثِي وَ خَلِيفَتِي مِنْ بَعْدِي "

(یعنی اے اولاد عبدالمطلب خدائے تعالی نے مجھ کو تمام خلقت پر بالعموم اور تمہاری طرف بالخصوص مبعوث فرمایا ہے ۔ میں تم کو ایسے دو کلموں کی طرف دعوت دیتا ہوں جو زبان پر سبک اور آسان اور ترازوے اعمال پرسنگین و گراں ہیں، تم ان دو کلموں کے کہنے سے عرب وعجم کے مالک بن جاو گے۔ ساری قومیں تمہاری مطیع و منقاد ہوں گی ان کے ذریعے سے تم جنت میں جاو گے اور جہنم سے نجات پا جاو گے اور یہ دونوں کلمے خدا کی وحدانیت اور میری رسالت کی گواہی دینا ہیں ، پس جو شخص (سب سے پہلے) اس امر میں مجھ کو لبیک کہے اور اس کام میں میری اعانت کرے وہ میرا بھائی ، میرا وزیر، میرا وارث اور میرے بعد میرا خلیفہ ہوگا)۔ اس آخری جملے کی تین بار تکرار فرمائی اور تینوں مرتبہ سوا علی (ع) کے کسی نے جواب نہیں دیا۔ آپ نے عرض کیا " انا انصرک ووزيرک يا نبی الله" ( یعنی میں آپ کی مدد اور حمایت کروں گا اے پیغمبر خدا(ص)۔)

پس آنحضرت (ص) نے ان کو خلافت کی خوشخبری دی۔ آپ دہان مبارک ان کے دہن میں ڈ الا اور فرمایا :

" ان هذا أخي و وصيي و خليفتي و وليي فيكم.

یعنی یہ علی(ع) میرے بھائی اور تمہارے درمیان میرے وصی و خلیفہ ہیں اور انہیں میں سے بعض کتابوں میں ہے کہ خود علی(ع) کو مخاطب کر کے فرمایا أنت وصيّي و خليفتي من بعدی یعنی یا علی(ع) تم میرے بعد میرے وصی اور خلیفہ ہو۔

علاوہ شیعہ اور سنی علمائے اسلام کے دوسری قوموں کے غیر مورخین نے جنہوں نے تاریخ اسلام لکھی ہے مذہبی تعصب نہ رکھنے کی وجہ سے اکیوں کہ وہ نہ سنی تھے اور نہ شیعہ) اس جلسہ دعوت کی کیفیت نقل کی ہے ۔ منجملہ ان کے انگریز مورخ اور فیلسوف توماس کا دلیل ( ٹامس کار لائل) نے جو اٹھارہویں صدی عیسوی میں یورپ کے اندر عالمگیر

۱۷۱

شہرت کا مالک تھا اپنی مشہور کتاب میں جس کا مصریوں نے الابطال و عبادۃ المبطولہ " کے نام سے عربی ترجمہ کیا ہے خانہ جناب ابو طالب(ع) میں قریش کے جلسہ مہمانی کی تفصیل لکھتی ہے ، یہاں تک کہ لکھتا ہے ، پیغمبر(ص) کی تقریر کے بعد علی(ع) نے اپنی جگہ سے اٹھ کے ایمان کا اعلان کیا اور وہ خلافت کا بزرگ منصب ان کو حاصل ہوا" پیرس کے دار الفنون کا معلم کوسیو پول ہو ژو فرانسیس ایک مختصر رسالے میں جو اس نے حضرت خاتم النبیین(ص) کے حالات میں لکھا ہے اور وہ پیرس کے اندر سنہ۱۸۸۴ء میں چھپ چکا ہے ، نیز انگل----- اور ہاشم نصرانی شامی مقالہ الاسلام مطبوعہ سنہ۱۸۹۱ء میں صفحہ ۸۳ سے ۸۶ تک -- اس تعصب اور مخالفت کے جو اس کو اسلام اور مسلمانوں سے تھی۔ اور خصوصیت کے ساتھ مسٹر جان ڈیون پورٹ جو ایک ----- انصاف وہ مولف تھا، اپنی قیمتی کتاب محمد و قرآن میں روشن خیال اور پاک دلی کے ساتھ اس کا اقرار کرتا ہے کہ پیغمبر(ص) نے تبلیغ رسالت کی ابتدا ہی میں علی علیہ السلام کو اپنا بھائی ،وزیر، وصی اور خلیفہ نامزد کردیا تھا ۔ اس حدیث شریف کے علماء اور بہت سے مقامات و اوقات میں اس مقصد کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

خلافت علی(ع) کے بارے میں واضح حدیثیں

۱۔ امام احمد ابن حنبل مسند میں اور میر سید علی ہمدانی شافعی مودہ القربی آخر مودت چہارم میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا "يا علي أنت تبرئ ذمتي، و أنت خليفتي على أمتي." یعنی اے علی(ع) تم میری طرف سے برائت ذمہ کرو گے اور تم میری امت پر میرے خلیفہ ہو۔

۲۔ امام احمد نے مسند میں متعدد طریقون اور متفاوت الفاظ کے ساتھ ، ابن مغازلی فقیہہ شافعی نے مناقب میں اور ثعلبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا :

" أنت أخي و وصيي و خليفتي و قاضي ديني."

یعنی اے علی (ع) تم میرے بھائی ، وصی ، خلیفہ، اورمیرا قرض ادا کرنے والے ہو۔

۳۔ ابو القاسم حسین بن محمد ( راغب اصفہانی) نے محاضرات الادباء و محاورات الشعراء والبلغاء ( مطبوعہ مطبع عامر شرفیہ سید حسین آفندی سنہ۱۳۷۶ھ ، جلد دوم ص۲۱۳ میں انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" انّ خليلى و وزيرى و خليفتى في اهلى و خير من اترك بعدى يقضى دينى و ينجز موعدى على بن ابى طالب عليه السّلام"

( یعنی در حقیقت میرے دوست ، وزیر، خلیفہ اور بہترین شخص جس کو میں اپنے بعد چھورے جاتا ہون جو میرے قرض ادا کریں گے اور میرا وعدہ وفا کریں گے ، علی ابن ابی طالب ہیں)

۴۔ میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی اوائل مودت ششم میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب سے نقل کرتے ہیں کہ جب پیغمبر(ص) نے اصحاب کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا تو فرمایا :

" هذا علی اخی فی الدنيا والآخرة و خليفتی

۱۷۲

فی اهلی و وصی فی امتی و وارث علمی و قاضی دينی ماله منی مالی منه نفعه نفعی و ضره ضری من احبه فقد احبنی ومن ابغضه فقد ابغضنی"

( یعنی یہ علی دنیا و آخرت میں میرے بھائی ---- میرے اہل میں میرے خلیفہ، میری امت میں میرے وصی، میرے علم کے وارث اور میرے قرض کو ادا کرنے والے ہیں۔ جو حقوق انہیں مجھ سے حاصل ہیں وہی حقوق مجھے ان سے حاصل ہیں ان کا نفع میرا نفع اور ان کا نقصان میرا نقصان ہے جس نے ان کو دوست رکھا اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جس نے ان کو دشمنی رکھا اس نے در حقیقت مجھ کو دشمن رکھا۔

۵۔ اسی مودت ششم میں انس بن مالک سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ میں پہلے پیش کرچکا ہوں ، اس کے آخر میں ذکر کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے صریحا فرمایا " وهو خليفتى و وزيرى " یعنی علی(ع) میرے خلیفہ اور وزیر ہیں۔

۶۔ محمد ابن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں ابوزر غفاری سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

" يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ رَايَةُ عَلِيٍ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَ إِمَامِ الْمُتَّقِينَ وَ قَائِدِ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ والخليفة من بعدی"

( یعنی حوض (کوثر) کے کنارے میرے پاس امیرالمومنین(ع) نورانی چہرے اور ہاتھ والوں کے پیشوا اورمیرے بعد میرے خلیفہ علی(ع) کا علم آئے گا۔

۷۔ بیہقی ، خطیب خوارزمی اور ابن مغازلی شافعی نے اپنے مناقب میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا :

" لا ينبغى ان اذهب الّا و انت خليفتى و أنت أوْلى بالمؤمنين من بعدي"

( یعنی یہ درست نہیں ہے کہ میں لوگوں کے درمیان سے اٹھ جاوں بغیر اس کے کہ تم (اے علی(ع)) میرے خلیفہ اورمیرے بعد تمام مومنین سے اولی ہو۔)

۸۔ امام ابو عبدالرحمن نسائی نے جو ائمہ صحاح ستہ میں سے ہیں خصائص العلوی ضمن حدیث نمبر۲۳ میں جس نے ابن عباس سے تفصیل کے ساتھ حضرت علی(ع) کے مناقب نقل کئے ہیں، درجات ہارونی کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے علی سے فرمایا " انت خليفتی يعنی فی کل مومن من بعدی " تم میرے خلیفہ ہو یعنی ہر مومن پر میرے بعد۔

بدیہی بات ہے کہ اس جملے اور آخری فقرے سے علی علیہ السلام کو سارے منازل و مراتب ہارونی عطا کرنے کے بعد آپ کی امارت پر نص جلی فرمائی ہے۔ یعنی تم اے علی میری امت اور تمام مومنین میں میرے بعد میرے خلیفہ ہو۔

اس حدیث اور دوسری مروی احادیث کے اندر پیغمبر(ص) کے بیان میں لفظ من یا من بیانیہ ہے یعنی میری موت کے بعد، یا من ابتدائیہ ہے یعنی تم میری امت میں میری وفات کے اول وقت سے میرے خلیفہ ہو۔ بہر حال دونوں صورتوں میں ان جملوں سے حضرت علی(ع) کی خلافت بلافصل ثابت اور متحقق ہوگئی کہ حضرت نص جلی و نص خفی کے ساتھ رسول اللہ (ص) کے بعد تمام امت پر خلیفہ الرسول(ص) تھے۔

۹۔ حدیث خلقت ہے جو مختلف طریقوں سے نقل ہوئی ہے، من جملہ ان کے امام احمد ابن حنبل مسند میں،

۱۷۳

میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی میں ابن مغازلی شافعی مناقب میں اور دیلمی فردوس میں مختصر تفاوت الفاظ کے ساتھ سلسلہ روایات و اسناد صحیحہ سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

" خلقت أنا و علي من نور واحد قبل أن خلق اللّه آدم (عليه السّلام) بأربعة آلاف عام، فركّب ذلك فيه، و لم يزل في شي ء واحد حتى افترقنا في صلب عبد المطلب ففی النبوة و فی علی الخلافة"

( یعنی میں اور علی(ع) دونوں خلقت آدم(ع) سے چودہ ہزار سال پہلے ایک نور سے پیدا کئے گئے ، آدم(ع) کی پیدائش کے بعد خدا نے اس نور کو ان کی صلب میں قرار دیا پس ہم ہمیشہ بالکل ایک رہے یہاں تک کہ عبدالمطلب کے صلب میں ایک دوسرے سے جدا ہوئے چنانچہ مجھ میں نبوت اور علی میں خلافت آئی ۔)

۱۰۔ حافظ ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی سنہ۳۱۳ہجری کتاب الولایۃ میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے اوائل خطبہ غدیر میں فرمایا :

"و قد أمرني جبرائيل عن ربي أن أقوم في هذا المشهد و أعلم كل أبيض و أسود أن علي بن أبي طالب أخي و وصيي و خليفتي و الإمام بعدي "

پھر فرمایا " معاشر الناس ذلك فإن الله قد نصبه لكم ول ي ا إماما و فرض طاعته على كل أحد ماض حكمه جائز قوله ملعون من خالفه مرحوم من صدقه"

(یعنی جبرئیل نے پروردگار کی طرف سے مجھ کو حکم دیا کہ اس مقام پر ٹھہرجاوں اور ہر سفید و سیاہ کو آگاہ کردوں کہ علی بن ابی طالب میرے بھائی میرے وصی ، میرے خلیفہ اورمیرے بعد امام ہیں اے جماعت مردم خدا نے تم پر علی کو ولی و اولی بہ تصرف) اور امام مقرر فرمایا اور ان کی، اطاعت ہر فرد پر واجب کی، ان کا حکم نافذ ہے اور ان کا قول صحیح ہے۔ ملعون ہے وہ شخص جو ان کی مخالفت کرے اور خدا کا رحم ہے اس پر جو ان کی تصدیق کرے)

۱۱۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ میں مناقب احمد سے اور وہ ابن عباس خیر امت) سے ایک روایت نقل کرتے ہیں جو علاوہ نام خلافت کے ان حضرت کے بہت سے مخصوص صفات پر مشتمل ہے جن میں سے ہر ایک الگر الگ آپ کے مقام خلافت کے اثبات پر ایک قرینہ ہے لہذا آپ حضرات کی اجازت سے پوری حدیث پیش کرتا ہوں تاکہ حجت تمام ہو جائے اور سب صاحب سمجھ لیں کہ خاتم الانبیاء(ص) کی منزل رسالت کے بعد علی علیہ السلام کا مرتبہ تمام مقامات سے بالاتر ہے۔ خلاصہ یہ کہ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

" يا علي أنت صاحب حوضي ، و صاحب لوائي، و منجز عداتي و حبيب قلبي، و وارث علمي و أنت مستودع مواريث الأنبياء، و أنت أمين اللّه في أرضه، و أنت حجة اللّه على بريّته، و أنت ركن الإيمان، وعمود الاسلام و أنت مصباح الدجى و منار الهدى، و العلم المرفوع لأهل الدين، یا علی من تبعك نجا و من تخلف عنك هلك، و أنت الطريق الواضح، و أنت الصراط المستقيم، و أنت قائد الغرّ المحجّلين، و أنت يعسوب الدين، و أنت مولى

۱۷۴

من أنا مولاه، و أنا مولى كل مؤمن و مؤمنة، لا يحبّك إلا طاهر الولادة و لا يبغضك إلا خبيث الولادة، و ما عرج بي إلى السماء و كلّمني ربي إلا قال لي: يا محمّد أقرئ عليّا مني السلام، و عرّفه أنه إمام أوليائي و نور أهل طاعتي، فهنيئا لك هذه الكرامة يا علي."

( یعنی اے علی(ع) تم میرے حوض کے مالک، میرے علم کے حامل، میرے دلی دوست، میرے وصی، میرے علم کے وارث اورمیرے خلیفہ ہو تم مجھ سے قبل کے سارے انبیاء کی میراثوں کے امانت دار ہو، تم زمین پر خدا کے امین اور تمام مخلوق پر اللہ کی حجت ہو، تم ایمان کے رکن اور اسلام کے محافظ ہو، تم ظلمت کے چراغ، ہدایت کے نور اور اہل دنیا کے لیے بلند کئے ہوئے علم ہو۔ اے علی (ع) جو تمہاری پیروی کرے وہ نجات یافتہ ہے اور جو شخص تم سے روگردانی کرنے وہ ہلاک ہونے والا ہے، تم راہ روشن اور صراط مستقیم ہو، تم سفید و سیاہ چہرے والوں کے پیشوا اور مومنین کے سلطان ہو۔ تم ہر اس شخص کے مولا و آقا ہو جس کا میں ہولا و آقا ہوں اور می ہر مومن و مومنہ کا مولا و آقا ہوں تم کو وہی دوست رکھتا ہے جو حلال زادہ ہے اور تم کو وہی شخص دشمن رکھتا ہے جو حرام زادہ ہے۔ خدا مجھ کو آسمان پر نہیں لے گیا اور مجھ سے کلام نہیں کیا لیکن یہ کہ فرمایا اے محمد(ص) علی(ع) کو میرا سلام پہنچاو اور ان سے بتا دو کہ وہ میرے دوستوں کے امام اورمیرے فرمانبرداروں کے نور ہیں۔ پھر آں حضرت نے فرمایا کہ مبارک ہو تم کو یہ کرامت یا علی(ع)۔)

۱۲۔ ابو الموید موفق الدین اخطب خطباء خوارزمی نے کتاب فضائل امیرالمومنین(ع) ( طبع سنہ۱۳۱۳ ہجری) ص۲۴۰ میں انیسویں فصل کے ضمن میں اپنے اسناد کے ساتھ حضرت خاتم الانبیاء(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا ۔ میں جس وقت معراج میں سدرۃ المنتہی پر پہنچا تو خطاب ہوا کہ اے محمد(ص) تم نے لوگوں کی آزمایش کی تو کس شخص کو سب سے زیادہ اپنا فرمانبردار پایا: میں نے عرض کیا علی(ع) کو "صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ " ارشاد ہوا تم نے سچ کہا اے محمد(ص)، پھر فرمایا :

" فَهَلِ اتَّخَذْتَ لِنَفْسِكَ خَلِيفَةً يُؤَدِّي عَنْكَ وَ يُعَلِّمُ عِبَادِي مِنْ كِتَابِي مَا لَا يَعْلَمُونَ قَالَ قُلْتُ اخْتَرْ لِي قَالَ قَدِ اخْتَرْتُ لَكَ عَلِيّاً فَاتَّخِذْهُ لِنَفْسِكَ خَلِيفَةً وَ وَصِيّاً وَ تجليه عِلْمِي وَ حِلْمِي وَ هُوَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ حَقّاً لَمْ يَنَلْهَا أَحَدٌ قَبْلَهُ وَ لَا أَحَدٌ بَعْدَهُ."

(یعنی آیا تم نے اپنے لیے کوئی خلیفہ منتخب کیا ہے جو تمہارے مقاصد کو لوگوں تک پہنچائے اور میری کتاب میں سے میرے بندوں کو ان باتوں کیتعلیم دے جو ان کو نہیں معلوم ہیں؟ میں نے عرض کیا پروردگار تو جس کو انتخاب فرمائے اسی کو میں بھی منتخب کرتا ہوں۔ خطاب ہوا کہ میں نے تمہارے لیے علی(ع) کو منتخب کیا۔ پس ان کو تمہارا خلیفہ اور وصی قرار دیتا ہوں اور ان کو اپنے علم و حلم سے آراستہ کیا۔ وہ حقیقی امیرالمومنین ہیں کہ پہلے والوں میں سے اور بعد والوں میں سے کوئی شخص اس منزلت پر فائز نہیں ہوسکتا۔)

۱۷۵

اس طرح کی حدیثیں آپ کی معتبر کتابوں میں بہت ہیں لیکن جتنی اس وقت مجھ کو یاد تھیں وہ یہ نے پیش کر دیں تاکہ جناب حافظ صاحب یہ جان لیں کہ میں شاخ و برگ کا اضافہ نہیں کرتا ہوں بلکہ اصل واقعہ اور حقیقت بیان کرتا ہوں۔ جیسا کہ خود آپ کے بعض اںصاف پسند اکابر علماء نے بھی اس مطلب کی تصدیق کی ہے۔ جیسے نظا بصری چنانچہ صلاح الدین صفوی نے وافی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ضمن الف ذیل حالات ابراہیم بن سیاد بن ہانی بصری معروف بہ نظام معتزلی میں کہا ہے کہ :

"نصّ النبيّ صلّى اللّه عليه و آله و سلّم على انّ الإمام عليّ و عيّنه و عرفت الصحابة ذلك و لكنّه كتمه عمر لأجل أبي بكر رضي اللّه عنهما"

( یعنی رسول اللہ (ص) نے علی (ع) کی امامت پر نص فرمائی ہے اور ان کو امام معین فرمایا ہے ، اور صحابہ بھی اس بات سے اچھی طرح واقف تھے لیکن عمر نے ابوبکر کی خاطر علی کی امامت و خلافت پر پردھ دالا۔

افسوس ہے کہ ہم نے رسول (ص) کا زمانہ نہیں دیکھا ہے لیکن آج جب ہم حق کا راستہ ڈھونڈھنا چاہتے ہیں تو مجبور ہیں کہ آیات قرآن اور متفق علیہ فریقین صحیح و صریح حدیثوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں قطعی طور پر جو ذات خدا کو محبوب تھی اور آیات قرآن مجید اور کثیر و متواتر احادیث رسول(ص) کے دلائل سے جس کو علم و فضل میں مقدم اور ساری امت سے افضل اور برتر ثابت کیا گیا ہے، ہم بھی بجا طور پر اس کی پیروی اور اطاعت کرتے ہیں۔

آپ ہی کی معتبر کتابوں میں جو حدیثیں درج ہیں ان میں بہت سے مقامات پر صراحت کے ساتھ خلافت و ولایت اور وصایت کے الفاظ آئے ہیں، اس کے علاوہ چونکہ علی علیہ السلام خصائص و فضائل کے مجموعہ تھے۔ جیسا کہ گزشتہ شبوں میں ہم نے کچھ اشارے کئے ہیں کہ آپ سوا نبوت خاصہ کے پیغمبر خاتم الانبیاء کے ساتھ تمام خصوصیات میں شریک اور ساری امت سے افضل تھے اور آیات قرآنیہ اور بکثرت اخبار متواترہ کے مطابق افراد بشر میں سے کوئی شخص ان بزرگوار کے فضائل و کمالات میں سے عشر عشیر بلکہ ہزار میں سے ایک پر بھی فائز نہیں ہے جیسا کہ خطیب خوارزمی نے مناقب میں بروایت ابن عباس جمہور سے ، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، سلیان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب سےنقل کیا ہے اور سب نے الفاظ کے مختصر پس و پیش کے ساتھ لکھا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

" لو أنّ الرّياض أقلام، و البحر مداد، و الجنّ حسّاب، و الإنس كتاب، ما أحصوا فضائل عليّ بن أبي طالب عليه السلام."

( یعنی اگر سب درخت قلم بن جائیں ۔ سمندر روشنائی ہوجائے سارے جنات حساب کریں اور کلی انسان لکھنے والے ہوں جب بھی علی ابن ابی طالب(ع) کے فضائل شمار نہیں کرسکتے ۔ کیا خوب کہا ہے فارسی کے شاعر نے

کتاب فضل ترا آب بہر کافی نیست کہ تر کنی سر انگشت و صفحہ بشماری

لہذا حضرت منصب خلافت اور جانشینی رسول (ص) کے لیے سب سے بڑھ کر سزاوار اور سب سے زیادہ حقدار تھے۔

۱۷۶

شیخ صاحب پھر بھی بولتے ہیں

شیخ عبدالسلام:( حافظ محمد رشید صاحب کی طرف رخ کر کے کہا) اجازت دیجئے کہ مختصر طور پر میں بھی کچھ باتیں پیش کروں اور آپ بھی تھوڑی دیر دم لے لیں ( پھر میری طرف مخاطب ہوئے کہ) جناب ہم لوگ مولانا علی کرم اللہ وجہہ کے فضائل کے ہرگز منکر نہیں ہیں لیکن صرف انہیں حضرت پر انحصار کردینا نا معقول بات ہے کیونکہ پیغمبر(ص) خاص صحابہ یعنی خلفائے راشد رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک صاحب فضائل تھا اور سب کے سب آپس میں برابر تھے آپ چونکہ یک رخی گفتگو کررہے ہیں جس سے ممکن ہے کہ حاضر و غائب حضرات پر حقیقت مشتبہ ہوجائے اور وہ یہ سمجھیں کہ جو کچھ آپ فرمارہے ہیں وہی درست ہے لہذا اجازت دیجئے کہ ان حضرات کے فضائل میں جو احادیث ہیں کچھ ان میں سے بھی بیان کردوں تاکہ حق بے نقاب ہوجائے۔

خیر طلب : ہم خاص طور پر اشخاص کی طرف توجہ نہیں رکھتے بلکہ عقل و علم اور منطق کے پابند ہیں۔ ہم خود سے یک رخی گفتگو نہیں کرتے قرآنی آیتیں اور فریقیں کی متفق علیہ صحیح و صریح حدیثیں ہم کو یک طرفہ پتہ دے رہی ہیں۔ البتہ صحابہ کے بارے میں بھی خدا گواہ ہے کہ جاہلانہ محبت اور دشمنی نہیں رکھتا میں نے ہرگز ایک طرفہ تعصب اختیار نہیں کیا اور نہ کروں گا اور حضرات حاضرین جلسہ سے بھی درخواست ہے کہ جس جگہ پر میرا کوئی تعصب دیکھیں یا کوئی ایسی بات سنیں جو عقل و برہان اور منطق کے مطابق نہ ہو تو مہربانی کر کے توجہ دلا دیں ممنوں ہوں گا۔

یہاں فضیلت صحابہ سے انکار نہیں لیکن افضل کا انتخاب ہونا چاہیئے

البتہ یہ بالکل درست ہے کہ متفق علیہ اور مقبول الفریقین احادیث کو بیان کیجئے میں جان و دل سے قبول کروں گا کیونکہ میں نیکوکار پاک صحابہ کی فضلیت سے انکار نہیں کرتا۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر کسی فضیلت کا حامل ہو لیکن ضرورت تو اس کی ہے کہ ایسی ہستی تلاش کی جائے جو فریقین ( سنی شیعہ) کے نزدیک ساری امت سے افضل ثابت ہو، اس لیے کہ ہماری بحث صاحب فضل کے بارے میں نہیں ہے، کیونکہ فضلاء بہت ہیں بلکہ یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ رسول اکرم(ص) کے بعد کون شخص تمام امت سے افضل تھا تاکہ ہم اس کو عقل و نقل کی روشنی میں مقدم سمجھیں اور اسی کی پیروی کریں۔

شیخ : یہ تو آپ خواہ مخواہ کی قید لگا رہے ہیں کیونکہ آپ کی کتابوں میں تو ایک حدیث بھی خلفاء کے فضائل میں موجود نہیں ہے لہذا ہم متفق علیہ احادیث کہاں سے پیش کرسکتے ہیں۔

۱۷۷

خیر طلب : اولا یہ اعتراج تو خود آپ ہی کی طرف پلٹتا ہے کہ پہلی شب کو بغیر مطالعہ کئے ہوئے کیوں بات چیت کی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو شب اول جناب حافظ صاحب ہی نے یہ شرط رکھی تھی کہ مباحثے کے دوران میں ہمارا استدلال قرآن مجید کے آیات اور فریقین کے متفق علیہ احادیث سے ہوگا، میں بھی چونکہ آپ کی معتبر کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرچکا تھا لہذا اس کو قبول کر لیا۔ آپ اورسارے حاضرین جلسہ گواہ ہیں کہ پہلی رات سے اب تک میں اس قرار داد سے الگ نہیں ہوا اور ثبوت میں صرف قرآن مجید کی آیتوں اور آپ کے موثق علماء کی معتبر کتابوں سے صحیح و اصریح احادیث ہی کو پیش کرتا رہا ہوں اور آئندہ جس وقت تک یہجلسے قائم رہیں گے اور آپ حضرات کی ملاقات سے مشرف ہوتا رہوں گا انشاء اللہ اس معاہدے سے باہر نہ جاوں گا۔ ثانیا جس وقت آپ نے یہ شرط معین کی تھی تو اس پر غور نہیں کیا تھا کہ ایک وقت خود ہی اسی مصیبت میں پھنس جائیے گا؟ پھر بھی میں اس قرارداد کو سخت گیری کا بہانہ نہیں بناتا ہوں، میں حاضر ہوں کہ آپ کی ایک طرفہ صحیح اور صریح حدیثوں کو جو گھڑی ہوئی نہ ہوں اور عقلی و نقلی دلائل کے موافق ہوں سنوں اور پھر ہم اور آپ مل کر انصاف کے ساتھ حق فیصلہ کریں، چنانچہ اگر حضرت علی علیہ السلام کی کثرت فضائل سے تقابل ہوجائے گا تو ہم ماں لیں گے۔

شیخ صاحب : نصوص خلافت کے سلسلے میں آپ نے حدیثیں نقل کیں لیکن اس سے غافل رہے کہ اس قسم کی احادیث خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے بہت آئی ہے۔

خیر طلب : اس بات کا لحاظ رکھتے ہوئے کہ خود آپ کے اکابر علماء جیسے ذہبی ، سیوطی اور ابن ابی الحدید وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ بنی امیہ اور ابوبکر کے ماننے والوں نے ابوبکر کے فضائل میں کثرت سے حدیثیں گھڑی ہیں ، نمونے کے طور پر جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے ان بہت میں سے کوئی ایک حدیث نقل فرمائیے تاکہ متعصب اور غیر متعصب فیصلہ کرنے والے اس پر فیصلہ دیں۔

فضیلت ابوبکر میں نقل حدیث اور اس کا جواب کہ یہ وضعی ہے

شیخ : ایک معتبر حدیث عمر بن ابراہیم بن خالد سے وہ عیسی بن علی بن عبداللہ بن عباسی سے وہ اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اس بزرگوار سے فرمایا :

" يا عمی ان الله جعل ابا بکر خليفتی علی دين الله فاسمعوا له و اطيعوا تفلحوا "

( یعنی اے چچا در حقیقت خدائے تعالی نے ابوبکر کو اللہ کے دین پر میرا خلیفہ بنایا ہے پس ان کی بات سنو اور اطاعت کرو تاکہ نجات پاو۔)

خیر طلب : اس سے قطع نظر کہ یہ حدیث یک طرفہ ہے اور ہمارا معاہدہ یہ نہیں تھا کہ ایسی حدیثوں سے استدلال

۱۷۸

کریں، یہی یک طرف حدیث اگر مردود نہ ہوتی تو ہم اس کے بارے میں بحث کرتے۔

شیخ : کس طرح مردود ہے ؟ آپ سبھی مطالب کو زبانی باتوں سے ثابت کرنا چاہتیے ہیں۔

خیر طلب : آپ کو دھوکا ہوا ہے۔ ہم لفاظی کرنے والے نہیں ہیں بلکہ صاحبان عمل ہیں۔ اس حدیث کو ہم نے رد نہیں کیا ہے بلکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے رد کیا ہے، اس لیے کہ اس کے راوی ان کی نظر میں سخت جھوٹے اور جعل ساز ہیں اور اسی وجہ سے اس کو باطل اور درجہ اعتبار سے ساقط سمجھتے ہیں، چنانچہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ابراہیم بن خالد کی کیفیت لکھتے ہوئے اور خطیب بغدادی نے عمر بن ابراہیم کا حال درج کرتے ہوئے ( اپنی تاریخ میں تحریر کیا ہے کہ انه کذاب ( یعنی یہ بہت بڑا جھوٹا ہے ۱۲ مترجم) پس کذاب اور دروغگو شخص کی حدیث باطل، مردود اور ناقابل قبول ہوا کرتی ہے۔

شیخ : اخبار صحیحہ میں ثقہ صحابی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبرئیل پیغمبر(ص) پر نازل ہوئے اور عرض کیا کہ خدا آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں ابوبکر سے راضی ہوں ان سے پوچھو کہ آیا وہ بھی مجھ سے راضی ہیں یا نہیں؟

خیر طلب : یہ بہت ضروری چیز ہے کہ مقدمے کے طور پر ہم اس بات کو سمجھ لیں کہ نقل احادیث میں ہم کو بہت محتاط رہنا چاہیئے تاکہ صاحبان عقل کے اعتراض سے محفوظ رہیں ضمنا آپ کی توجہ یاد دہانی کے لیے ایک حدیث نقل کرتا ہوں جو آپ کے اکابر علماء جیسے ابن حجر نے اصابہ میں اور ابن عبدالبر نے استیعاب میں خود ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" کثرت علی الکذاب و من کذب علی متعمدا فقد تبوع مقعده من النار کما حدثتم بحديث منی فاعرضوه علی کتاب الله."

( یعنی بہت ہوگئے مجھ پرجھوٹ باندھنے والے اور جو شخص مجھ پر عمدا جھوٹ بولے اس کی قیام گاہ آتش جہنم ہے ، جس وقت تمہارے سامنے میری طرف سے کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کو قرآن کے سامنے پیش کرو۔

یعنی اگر مطابق قرآن ہوتو قبول کرو ورنہ رد کردو۔ نیز فریقین کی متفق علیہ حدیث ہے جیسا کہ امام فخرالدین رازی نے بھی تفسیر کبیر جلد سیم ص۳۷۱ میں آنحضرت(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

"إذا روي عني حديث فاعرضوه على كتاب الله تعالى فإن وافقه فاقبلوه و إلا فردوه."

(یعنی جس وقت تمہارے لیے میری طرف سے کوئی حدیث نقل کی جائے تو اس کو کتاب خدا پر پیش کرو۔ پس اگر وہ قرآن کے موافق ہو تو قبول کر دو ورنہ رد کردو) چنانچہ آپ کے اکابر علماء کی کتابوں میں وارد ہے کہ رسول اللہ (ص) کی زبانی حدیثیں گھڑنے والوں میں یہی ابوہریرہ مردود بھی تھے جن سے آپ نے یہ حدیث نقل کی ہے اور بلا وجہ ان کو ثقہ بتایا ہے۔

شیخ : آپ کے ایسے جلیل القدر مبلغ و عالم اولاد رسول (ص) سے یہ امید نہیں تھی کہ اصحاب پیغمبر(ص) کی نسبت طعن اور رد کیجئے گا۔

خیر طلب : اول تو آپ جانتے ہیں کہ صحابی کی لفظ سے مجھ کو مرعوب کریں حالانکہ یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ صرف صحابی ہونے کو فضل و شرف کا ضامن سمجھتے ہیں، یقینا رسول (ص) کی مصاحبت موثر اورفضل و شرف کا باعث

۱۷۹

ہے، لیکن اس شرط سے کہ مصاحب آں حضرت(ص) کا مطیع و فرمانبردار بھی ہو۔ لیکن اگر آں حضرت(ص) کے احکام و ہدایات کے خلاف عمل کرے اور ہوا و ہوس کا تابع ہو تو قطعا مردود اور کبھی ملعون اور نار حجیم و عذاب الیم کا مستحق ہوگا۔ کیا وہ منافقین جن کی بد کرداری کا شہادت اور جنہمی ہونے کی خبر قرآن مجید کی آیتیں دے رہی ہیں رسول کے مصاحبین میں سے نہیں تھے کہ ملعون اور دوزخی قرار پائے ۔ پس آپ تعجب نہ کریں کہ ابو ہریرہ بھی انہیں مردود و ملعون اور جنہم کے مستحق لوگوں میں سے ہوں۔

شیخ : اول تو ان کا مردود ہونا ثابت نہیں ہے اور اگر فرض کر لیا جائے کہ بعض کے نزدیک مردود بھی ہوں ، تو ان کے جہنمی ہونے پر کیا دلیل ہے؟ کیا ہر مردود ، ملعون اور دوزخی ہوتا ہے؟ ملعون تو وہ شخص ہے جو قرآن کریم کی نص صریح یا پیغمبر(ص) کے ارشاد سے ملعون ہو۔

ابوہریرہ کی کیفیت اور ان کی مذمت

خیر طلب : ابوہریرہ کے مردود ہونے پر دلائل بکثرت اور اظہر من الشمس ہیں جن کی خود آپ کے اکابر علماء نے بھی تصدیق کی ہے من جملہ ان کے دلائل مردودیت کے یہ ہے کہ بقول رسول(ص) ملعون ابن ملعون شخص فرزند ابی سفیان کے ساتھیوں اور منافقین اور دورنگے آدمیوں میں سے تھے کیونکہ صفین میں بعض بعض روز نماز تو امیرالمومنین (ع) ے پیچھے پڑھ لیتے تھے لیکن تر لقمے معاویہ کے مرغن دستر خوان سے اڑاتے تھے ، چنانچہ زمخشری نے ربیع الابرار ، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے کہ جب ان سے اس دوزخی سیاست کا سبب پوچھا جاتا تھا تو کہتے تھے :

"مضيرة (۱) معاوية أدسم و أطيب و الصلاة خلف علي أفضل."

(یعنی معاویہ کا مضیرہ اور کھانا کافی روغن دار ہوتا ہے اور نماز علی(ع) کے پیچھے افضل ہے) یہاں تک کہ شیخ المضیرہ کے نام سے مشہور ہوگئے۔

علی (ع) حق اور قرآن سے جدا نہیں ہیں

حالانکہ ( علاوہ اجماع علمائے شیعہ کے) خود آپ کے علماء جیسے شیخ الاسلام حموینی نے فرائد باب۳۷ میں خوارزمی نے مناقب میں، طبرانی نے اوسط میں، گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، ابن قتیبہ نے الامامہ والسیاسہ جلد اول ص۶۸ میں، امام احمد بن حنبل نے مسندمیں ، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں، ابو یعلی نے مسند میں، متقی ہندی نے کنزالعمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ مضیرہ ایک کھانا جو دودھ کے ساتھ تیار ہوتا ہے اور یہ معاویہ کی مخصوص غذا تھی۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

(۱۲۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لأصحابه في ساحة الحرب - بصفين

وأَيُّ امْرِئٍ مِنْكُمْ أَحَسَّ مِنْ نَفْسِه - رَبَاطَةَ جَأْشٍ عِنْدَ اللِّقَاءِ، ورَأَى مِنْ أَحَدٍ مِنْ إِخْوَانِه فَشَلًا - فَلْيَذُبَّ عَنْ أَخِيه بِفَضْلِ نَجْدَتِه - الَّتِي فُضِّلَ بِهَا عَلَيْه - كَمَا يَذُبُّ عَنْ نَفْسِه - فَلَوْ شَاءَ اللَّه لَجَعَلَه مِثْلَه - إِنَّ الْمَوْتَ طَالِبٌ حَثِيثٌ لَا يَفُوتُه الْمُقِيمُ - ولَا يُعْجِزُه الْهَارِبُ - إِنَّ أَكْرَمَ الْمَوْتِ الْقَتْلُ - والَّذِي نَفْسُ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ بِيَدِه - لأَلْفُ ضَرْبَةٍ بِالسَّيْفِ أَهْوَنُ عَلَيَّ - مِنْ مِيتَةٍ عَلَى الْفِرَاشِ فِي غَيْرِ طَاعَةِ اللَّه وكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْكُمْ - تَكِشُّونَ كَشِيشَ الضِّبَابِ - لَا تَأْخُذُونَ حَقّاً ولَا تَمْنَعُونَ ضَيْماً - قَدْ خُلِّيتُمْ والطَّرِيقَ - فَالنَّجَاةُ لِلْمُقْتَحِمِ والْهَلَكَةُ لِلْمُتَلَوِّمِ

(۱۲۳)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو صفین کے میدان میں اپنے اصحاب سے فرمایا تھا)

دیکھو ! اگر تم سے کوئی شخص بھی جنگ کے وقت اپنے اندر قوت قلب اور اپنے کسی بھائی میں کمزوری کا احساس کرے تو اس کا فرض ہے کہ اپنے بھائی سے اسی طرح دفاع کرے جس طرح اپنے نفس سے کرتا ہے کہ خدا چاہتا تو اسے بھی ویسا ہی بنا دیتا لیکن اس نے تمہیں ایک خاص فضیلت عطا فرمائی ہے۔

دیکھو!موت ایک تیز رفتار طلب گار ہے جس سے نہ کوئی ٹھہرا ہوا بچ سکتا ہے اور نہ بھاگنے والا بچ نکل سکتا ہے اور بہترین موت شہادت ہے۔قسم ہے اس پروردگار کی جس کے قبضہ قدرت میں فرزند ابو طالب کی جان ہے کہ میرے لئے تلوار کی ہزار ضربیں اطاعت خداسے الگ ہو کر بستر پرمرنے سے بہتر ہیں۔

گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ ویسی ہی آوازیں نکال رہے ہو جیسی سو سماروں کے جسموں کی رگڑ سے پیدا ہوتی ہیں کہ نہ اپناحق حاصل کر رہے ہو اورنہ ذلت کا دفاع کر رہے ہو جب کہ تمہیں راستہ پر کھلاچھوڑ دیا گیا ہے اور نجات اسی کے لئے ہے جو جنگ میں کود پڑے اورہلاکت اسی کے لئے ہے جودیکھتا ہی رہ جائے ۔

۲۲۱

(۱۲۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في حث أصحابه على القتال

فَقَدِّمُوا الدَّارِعَ وأَخِّرُوا الْحَاسِرَ - وعَضُّوا عَلَى الأَضْرَاسِ - فَإِنَّه أَنْبَى لِلسُّيُوفِ عَنِ الْهَامِ - والْتَوُوا فِي أَطْرَافِ الرِّمَاحِ فَإِنَّه أَمْوَرُ لِلأَسِنَّةِ - وغُضُّوا الأَبْصَارَ فَإِنَّه أَرْبَطُ لِلْجَأْشِ وأَسْكَنُ لِلْقُلُوبِ - وأَمِيتُوا الأَصْوَاتَ فَإِنَّه أَطْرَدُ لِلْفَشَلِ - ورَايَتَكُمْ فَلَا تُمِيلُوهَا ولَا تُخِلُّوهَا - ولَا تَجْعَلُوهَا إِلَّا بِأَيْدِي شُجْعَانِكُمْ - والْمَانِعِينَ الذِّمَارَ مِنْكُمْ - فَإِنَّ الصَّابِرِينَ عَلَى نُزُولِ الْحَقَائِقِ - هُمُ الَّذِينَ يَحُفُّونَ بِرَايَاتِهِمْ - ويَكْتَنِفُونَهَا حِفَافَيْهَا ووَرَاءَهَا، وأَمَامَهَا - لَا يَتَأَخَّرُونَ عَنْهَا فَيُسْلِمُوهَا - ولَا يَتَقَدَّمُونَ عَلَيْهَا فَيُفْرِدُوهَا أَجْزَأَ امْرُؤٌ قِرْنَه وآسَى أَخَاه بِنَفْسِه - ولَمْ يَكِلْ قِرْنَه إِلَى أَخِيه - فَيَجْتَمِعَ عَلَيْه قِرْنُه وقِرْنُ أَخِيه - وايْمُ اللَّه لَئِنْ فَرَرْتُمْ مِنْ سَيْفِ الْعَاجِلَةِ - لَا تَسْلَمُوا مِنْ سَيْفِ الآخِرَةِ - وأَنْتُمْ لَهَامِيمُ الْعَرَبِ والسَّنَامُ الأَعْظَمُ - إِنَّ فِي الْفِرَارِ مَوْجِدَةَ اللَّه

(۱۲۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب کو جنگ پرآمادہ کرتے ہوئے)

زرہ پوش افراد کو آگے بڑھائو اوربے زرہ لوگوں کو پیچھے رکھو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سر سے اچٹ جاتی ہیں اورنیزوں کے اطراف سے پہلوئوں کو بچائے رکھو کہ اس سے نیزوں کے رخ پلٹ جاتے ہیں۔نگاہوں کو نیچا رکھو کہ اس سے قوت قلب میں اضافہ ہوتا ہے اورحوصلے بلند رہتے ہیں۔آوازیں دھیمی رکھو کہ اس سے کمزوری دور ہوتی ہے۔دیکھو اپنے پرچم کا خیال رکھنا۔وہ نہ جھکنے پائے اور نہ اکیلا رہنے پائے اسے صرف بہادر افراد اور عزت کے پاسبانوں کے ہاتھ میں رکھنا کہ مصائب پر صبر کرنے والے ہی پرچموں کے گرد جمع ہوتے ہیں اور داہنے بائیں آگے ' پیچھے ہرطرف سے گھیرا ڈال کر اس کا تحفظ کرتے ہیں۔نہ اس سے پیچھے رہ جاتے ہیں کہ اسے دشمنوں کے حوالے کردیں اورنہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ تنہا رہ جائے۔

دیکھو۔ہرشخص اپنے مقابل کا خود مقابلہ کرے اور اپنے بھائی کابھی ساتھ دے اورخبردار اپنے مقابلہ کو اپنے ساتھی کے حوالہ نہ کردینا کہ اس پر یہ اور اس کا ساتھی دونوں مل کرحملہ کردیں۔

خداکی قسم اگر تم دنیا کی تلوار سے بچ کر بھاگ بھی نکلے تو آخرت کی تلوار سے بچ کر نہیں جاسکتے ہو۔پھر تم تو عرب کے جوانمردوں اور سربلند افراد ہو۔تمہیں معلوم ہے کہ فرار میں خدا کا غضب بھی ہے کو

۲۲۲

والذُّلَّ اللَّازِمَ والْعَارَ الْبَاقِيَ - وإِنَّ الْفَارَّ لَغَيْرُ مَزِيدٍ فِي عُمُرِه - ولَا مَحْجُوزٍ بَيْنَه وبَيْنَ يَوْمِه - مَنِ الرَّائِحُ إِلَى اللَّه كَالظَّمْآنِ يَرِدُ الْمَاءَ - الْجَنَّةُ تَحْتَ أَطْرَافِ الْعَوَالِي - الْيَوْمَ تُبْلَى الأَخْبَارُ - واللَّه لأَنَا أَشْوَقُ إِلَى لِقَائِهِمْ مِنْهُمْ إِلَى دِيَارِهِمْ - اللَّهُمَّ فَإِنْ رَدُّوا الْحَقَّ فَافْضُضْ جَمَاعَتَهُمْ - وشَتِّتْ كَلِمَتَهُمْ وأَبْسِلْهُمْ بِخَطَايَاهُمْ إِنَّهُمْ لَنْ يَزُولُوا عَنْ مَوَاقِفِهِمْ - دُونَ طَعْنٍ دِرَاكٍ يَخْرُجُ مِنْهُمُ النَّسِيمُ - وضَرْبٍ يَفْلِقُ الْهَامَ ويُطِيحُ الْعِظَامَ - ويُنْدِرُ السَّوَاعِدَ والأَقْدَامَ - وحَتَّى يُرْمَوْا بِالْمَنَاسِرِ تَتْبَعُهَا الْمَنَاسِرُ - ويُرْجَمُوا بِالْكَتَائِبِ تَقْفُوهَا الْحَلَائِبُ - وحَتَّى يُجَرَّ بِبِلَادِهِمُ الْخَمِيسُ يَتْلُوه الْخَمِيسُ - وحَتَّى تَدْعَقَ الْخُيُولُ فِي نَوَاحِرِ أَرْضِهِمْ - وبِأَعْنَانِ مَسَارِبِهِمْ ومَسَارِحِهِمْ.

قال السيد الشريف أقول - الدعق الدق أي تدق الخيول بحوافرها أرضهم - ونواحر أرضهم متقابلاتها - ويقال منازل بني فلان تتناحر أي تتقابل.

اور ہمیشہ کی ذلت بھی ہے۔فرار کرنے والا نہ اپنی عمر میں اضافہ کر سکتا ہے اور نہ اپنے وقت کے درمیان حائل ہو سکتا ہے۔کون ہے جو للہ کی طرف یوں جائے جس طرح پیاسا(۱) پانی کی طرف جاتا ہے۔جنت نیزوں کے اطراف کے سایہ میں ہے آج ہر ایک کے حالات کا امتحان ہو جائے گا۔خدا کی قسم مجھے دشمنوں سے جنگ کا اشتیاق اس سے زیادہ ہے جتنا انہیں اپنے گھروں کا اشتیاق ہے۔خدایا: یہ ظالم اگرحق کو رد کردیں توان کی جماعت کو پراگندہ کردے۔ان کے کلمہ کو متحد نہ ہونے دے۔ان کو ان کے کئے کی سزا دیدے کہ یہ اس وقت تک اپنے موقف سے نہ ہٹیں گے جب تک نیزے ان کے جسموں میں نسیم سحر کے راستے نہ بنا دیں اور تلواریں ان کے سروں کو شگافتہ ' ہڈیوں کو چور چور اور ہاتھ پیر کو شکستہ نہ بنادیں اور جب تک ان پر لشکر کے بعد لشکر اورسپاہ کے بعد سپاہ حملہ آور نہ ہو جائیں اور ان کے شہروں پر مسلسل فوجوں کی یلغار نہ ہو اور گھوڑے ان کی زمینوں کو آخرتک روند نہ ڈالیں اور ان کی چراگاہوں اورسبزہ زاروں کو پامال نہ کردیں۔

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کی زندگی کی ہر تشنگی کا علاج جنت کے علاوہ کہیں نہیں ہے۔یہ دنیا صرف ضروریات کی تکمیل کے لئے بنائی گئی ہے اور بڑے سے بڑے انسان کاحصہ بھی اس کے خواہشات سے کمتر ہے ورنہ سارے روئے زمین پر حکومت کرنے والا بھی اس سے بیشتر کاخواہش مندرہتا ہے اور دامان زمین میں اس سے زیادہ کی وسعت نہیں ہے۔یہ صرف جنت ہے جس کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہاں ہرخواہش نفس اور لذت نگاہ کی تسکین کا سامان موجود ہے۔اب سوال صف یہ رہ جاتا ہے کہ وہاںتک جانے کاراستہ کیا ہے۔مولائے کائنات نے اپنے ساتھیوں کو اسینکتہ کی طرف متوجہ کیا ہے کہ جنت تلواروں کے سایہ کے نیچے ہے اور اس کا راستہ صرف میدان جہاد ہے لہٰذا میدان جہاد کی طرف اس طرح بڑھو جس طرح پیاسا پانی کی طرف بڑھتا ہے کہ اسی راہ میں ہر جذبہ دل کی تسکین کا سامان پایا جاتا ہے اور پھر دین خدا کی سر بلندی سے بالاتر کوئی شرف بھی نہیں ہے۔

۲۲۳

(۱۲۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في التحكيموذلك بعد سماعه لأمر الحكمين

إِنَّا لَمْ نُحَكِّمِ الرِّجَالَ - وإِنَّمَا حَكَّمْنَا الْقُرْآنَ هَذَا الْقُرْآنُ - إِنَّمَا هُوَ خَطٍّ مَسْطُورٌ بَيْنَ الدَّفَّتَيْنِ - لَا يَنْطِقُ بِلِسَانٍ ولَا بُدَّ لَه مِنْ تَرْجُمَانٍ - وإِنَّمَا يَنْطِقُ عَنْه الرِّجَالُ - ولَمَّا دَعَانَا الْقَوْمُ - إلَى أَنْ نُحَكِّمَ بَيْنَنَا الْقُرْآنَ - لَمْ نَكُنِ الْفَرِيقَ الْمُتَوَلِّيَ - عَنْ كِتَابِ اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى - وقَدْ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوه إِلَى الله والرَّسُولِ ) - فَرَدُّه إِلَى اللَّه أَنْ نَحْكُمَ بِكِتَابِه - ورَدُّه إِلَى الرَّسُولِ أَنْ نَأْخُذَ بِسُنَّتِه - فَإِذَا حُكِمَ بِالصِّدْقِ فِي كِتَابِ اللَّه - فَنَحْنُ أَحَقُّ النَّاسِ بِه - وإِنْ حُكِمَ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَنَحْنُ أَحَقُّ النَّاسِ وأَوْلَاهُمْ بِهَا - وأَمَّا قَوْلُكُمْ - لِمَ جَعَلْتَ بَيْنَكَ وبَيْنَهُمْ أَجَلًا فِي التَّحْكِيمِ - فَإِنَّمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ لِيَتَبَيَّنَ الْجَاهِلُ -

(۱۲۵)

(آپ کا ارشاد گرامی)

(تحکیم کے بارے میں ۔حکمین کی داستان سننے کے بعد)

یاد رکھو! ہم نے افراد کوحکم نہیں بنایا تھا بلکہ قرآن کو حکم قراردیا تھا اور قرآن وہی کتاب ہے جو دو دفینوں کے درمیان موجود ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ خود نہیں بولتاہے اور اسے ترجمان کی ضرورت ہوتی ہے اور ترجمان افراد ہی ہوتے ہیں ۔اس قوم نے ہمیں دعوت دی کہ ہم قرآن سے فیصلہ کرائیں تو ہم تو قرآن سے رو گردانی کرنے والے نہیں تھے جب کہ پروردگار نے فرمادیا ہے کہ اپنے اختلافات کوخدا اور رسول کی طرف موڑو دواورخدا کی طرف موڑنے کا مطلب اس کی کتاب سے فیصلہ کرانا ہے اور رسول (ص) کی طرف موڑنے کا مقصد بھی سنت کا اتباع کرنا ہے اور یہ طے ہے کہ اگر کتاب خدا سے سچائی کے ساتھ فیصلہ کیا جائے تو اس کے سب سے زیادہ ح قدار ہم ہی ہیں اور اسی طرح سنت پیغمبر کے لئے سب سے اولیٰ و اقرب ہم ہی ہیں۔اب تمہارا یہ کہنا کہ آپ نے تحکیم کی مہلت کیوں(۱) دی؟ تو اس کا راز یہ ہے کہ میں چاہتا تھا کہ بے خبر با خبر ہو جائے

(۱) حضرت نے تحکیم کا فیصلہ کرتے ہوئے دونوں افراد کو ایک سال کی مہلت دی تھی تاکہ اس دوران نا واقف افراد حق و باطل کی اطلاع حاصل کرلیں اور جو کسی مقدار میں حق سے آگاہ ہیں وہ مزید تحقیق کرلیں۔ایسا نہ ہو کربے خبر افراد پہلے ہی مرحلہ میں گمراہ ہو جائیں اور عمر و عاص کی مکاری کا شکار ہو جائیں۔مگر افسوس یہ ہے کہ ہر دور میں ایسے افراد ضرور رہتے ہیں جو اپنے عقل وفکر کو ہر ایک سے بالاتر تصور کرتے ہیں اور اپنے قاد کے فیصلوں کوبھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب امام کے ساتھ ایسا برتائو کیا گیا ہے تونائب امام یا عالم دین کی کیا حیثیت ہے ؟

۲۲۴

ويَتَثَبَّتَ الْعَالِمُ - ولَعَلَّ اللَّه أَنْ يُصْلِحَ فِي هَذِه الْهُدْنَةِ - أَمْرَ هَذِه الأُمَّةِ - ولَا تُؤْخَذَ بِأَكْظَامِهَا - فَتَعْجَلَ عَنْ تَبَيُّنِ الْحَقِّ - وتَنْقَادَ لأَوَّلِ الْغَيِّ - إِنَّ أَفْضَلَ النَّاسِ عِنْدَ اللَّه - مَنْ كَانَ الْعَمَلُ بِالْحَقِّ أَحَبَّ إِلَيْه - وإِنْ نَقَصَه وكَرَثَه مِنَ الْبَاطِلِ - وإِنْ جَرَّ إِلَيْه فَائِدَةً وزَادَه - فَأَيْنَ يُتَاه بِكُمْ - ومِنْ أَيْنَ أُتِيتُمْ - اسْتَعِدُّوا لِلْمَسِيرِ إِلَى قَوْمٍ حَيَارَى - عَنِ الْحَقِّ لَا يُبْصِرُونَه - ومُوزَعِينَ بِالْجَوْرِ لَايَعْدِلُونَ بِه - جُفَاةٍ عَنِ الْكِتَابِ - نُكُبٍ عَنِ الطَّرِيقِ - مَا أَنْتُمْ بِوَثِيقَةٍ يُعْلَقُ بِهَا - ولَا زَوَافِرِ عِزٍّ يُعْتَصَمُ إِلَيْهَا - لَبِئْسَ حُشَّاشُ نَارِ الْحَرْبِ أَنْتُمْ - أُفٍّ لَكُمْ - لَقَدْ لَقِيتُ مِنْكُمْ بَرْحاً يَوْماً أُنَادِيكُمْ - ويَوْماً أُنَاجِيكُمْ - فَلَا أَحْرَارُ صِدْقٍ عِنْدَ النِّدَاءِ - ولَا إِخْوَانُ ثِقَةٍ عِنْدَ النَّجَاءِ

(۱۲۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما عوتب على التسوية في العطاء

أَتَأْمُرُونِّي أَنْ أَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَوْرِ - فِيمَنْ وُلِّيتُ عَلَيْه -

اورباخبرتحقیق کرلے کہ شائد پروردگار اس وقفہ میں امت کے امور کی اصلاح کردے اور اس کا گلا نہ گھونٹا جائے کہ تحقیق حق سے پہلے گمراہی کے پہلے ہی مرحلہ میں بھٹک جائے۔اوریاد رکھو کہ پروردگار کے نزدیک بہترین انسان وہ ہے جسے حق پر عملدار آمد کرنا (چاہے اس میں نقصان ہی کیوں نہ ہو)باطل پر عمل کرنے سے زیادہ محبوب ہو( چاہے اس میں فائدہ ہی کیوں نہ ہو) تو آخر تمہیں کدھر لے جایا جا رہا ہے اور تمہارے پاس شیطان کدھر سے آگیا ہے۔دیکھو اس قوم سے جہاد کے لئے تیار ہو جائو جو حق کے معاملہ میں اس طرح سرگرداں ہے کہ اسے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ہے اورباطل پر اس طرح اتارو کردی گئی ہے کہ سیدھے راستہ پر آنا ہی نہیں چاہتی ہے۔یہ کتاب خداسے الگ اور راہ حق سے منحرف ہیں مگر تم بھی قابل اعتماد افراد اور لائق تمسک شرف کے پاسبان نہیں ہو۔تم آتش جنگ کے بھڑکانے کا بد ترین ذریعہ ہو۔تم پر حیف ہے میں نے تم سے بہت تکلیف اٹھائی ہے۔تمہیں علی الاعلان بھی پکارا ہے اورآہستہ بھی سمجھایا ہے لیکن تم نہ آواز جنگ پر سچے شریف ثابت ہوئے اور نہ راز داری پر قابل اعتماد ساتھی نکلے۔

(۱۲۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب عطا یا کی برابری پر اعتراض کیا گیا)

کیاتم مجھے اس بات پرآمادہ کرنا چاہتے ہو کہ میں جن رعایا کا ذمہ دار بنایا گیا ہوں

۲۲۵

واللَّه لَا أَطُورُ بِه مَا سَمَرَ سَمِيرٌ - ومَا أَمَّ نَجْمٌ فِي السَّمَاءِ نَجْماً - لَوْ كَانَ الْمَالُ لِي لَسَوَّيْتُ بَيْنَهُمْ - فَكَيْفَ وإِنَّمَا الْمَالُ مَالُ اللَّه - أَلَا وإِنَّ إِعْطَاءَ الْمَالِ فِي غَيْرِ حَقِّه تَبْذِيرٌ وإِسْرَافٌ - وهُوَ يَرْفَعُ صَاحِبَه فِي الدُّنْيَا - ويَضَعُه فِي الآخِرَةِ - ويُكْرِمُه فِي النَّاسِ ويُهِينُه عِنْدَ اللَّه - ولَمْ يَضَعِ امْرُؤٌ مَالَه فِي غَيْرِ حَقِّه ولَا عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِه - إِلَّا حَرَمَه اللَّه شُكْرَهُمْ - وكَانَ لِغَيْرِه وُدُّهُمْ - فَإِنْ زَلَّتْ بِه النَّعْلُ يَوْماً - فَاحْتَاجَ إِلَى مَعُونَتِهِمْ فَشَرُّ خَلِيلٍ - وأَلأَمُ خَدِينٍ !

(۱۲۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه يبين بعض أحكام الدين ويكشف للخوارج الشبهة وينقض حكم الحكمين

فَإِنْ أَبَيْتُمْ إِلَّا أَنْ تَزْعُمُوا أَنِّي أَخْطَأْتُ وضَلَلْتُ - فَلِمَ تُضَلِّلُونَ عَامَّةَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِضَلَالِي - وتَأْخُذُونَهُمْ بِخَطَئِي -

ان پر ظلم کرکے چند افراد کی کمک حاصل کرلوں ۔خدا کی قسم جب تک اس دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور ایک ستارہ دوسرے ستارہ کی طرف جھکتا رہے گا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔یہ مال اگر میرا ذاتی ہوتا جب بھی میں برابر سے تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال مال خداہے اور یادرکھو کہ مال کا نا حق عطا کردینا بھی اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہے اوریہ کام انسان کو دنیا میں بلند بھی کر دیتا ہے تو آخرت میں ذلیل کر دیتا ہے۔لوگوں میں محترم بھی بنادیتا ہے تو خدا کی نگاہ میں پست تر بنا دیتا ہے اور جب بھی کوئی شخص مال کو نا حق یا نا اہل پر صرف کرتا ہے تو پروردگار اس کے شکریہ سے بھی محروم کر دیتا ہے اور اس کی محبت کا رخ بھی دوسروں کی طرف مڑ جاتا ہے ۔پھر اگرکسی دن پیر پھسل گئے اور ان کی امداد کا بھی محتا ج ہوگیا تو وہ بد ترین دوست اور ذلیل ترین ساتھی ہی ثابت ہوتے ہیں۔

(۱۲۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں بعض احکام دین کے بیان کے ساتھ خوارج کے شبہات کا ازالہ اورحکمین کے توڑ کا فیصلہ بیان کیا گیا ہے)

اگر تمہارااصرار اسی بات پرہےکہ مجھےخطاکاراور گمراہ قرار دو تو ساری امت پیغمبر (ص) کو کیوں خطا کار قراردےرہےہواور میری'' غلطی '' کا مواخذہ ان سے کیوں کر

۲۲۶

وتُكَفِّرُونَهُمْ بِذُنُوبِي - سُيُوفُكُمْ عَلَى عَوَاتِقِكُمْ - تَضَعُونَهَا مَوَاضِعَ الْبُرْءِ والسُّقْمِ - وتَخْلِطُونَ مَنْ أَذْنَبَ بِمَنْ لَمْ يُذْنِبْ - وقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رَجَمَ الزَّانِيَ الْمُحْصَنَ - ثُمَّ صَلَّى عَلَيْه ثُمَّ وَرَّثَه أَهْلَه - وقَتَلَ الْقَاتِلَ ووَرَّثَ مِيرَاثَه أَهْلَه - وقَطَعَ السَّارِقَ وجَلَدَ الزَّانِيَ غَيْرَ الْمُحْصَنِ - ثُمَّ قَسَمَ عَلَيْهِمَا مِنَ الْفَيْءِ ونَكَحَا الْمُسْلِمَاتِ - فَأَخَذَهُمْ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِذُنُوبِهِمْ - وأَقَامَ حَقَّ اللَّه فِيهِمْ - ولَمْ يَمْنَعْهُمْ سَهْمَهُمْ مِنَ الإِسْلَامِ - ولَمْ يُخْرِجْ أَسْمَاءَهُمْ مِنْ بَيْنِ أَهْلِه - ثُمَّ أَنْتُمْ شِرَارُ النَّاسِ - ومَنْ رَمَى بِه الشَّيْطَانُ مَرَامِيَه وضَرَبَ بِه تِيهَه - وسَيَهْلِكُ فِيَّ صِنْفَانِ - مُحِبٌّ مُفْرِطٌ يَذْهَبُ بِه الْحُبُّ إِلَى غَيْرِ الْحَقِّ - ومُبْغِضٌ مُفْرِطٌ يَذْهَبُ بِه الْبُغْضُ إِلَى غَيْرِ الْحَقِّ - وخَيْرُ النَّاسِ فِيَّ حَالًا النَّمَطُ الأَوْسَطُ فَالْزَمُوه - والْزَمُوا السَّوَادَ الأَعْظَمَ - فَإِنَّ يَدَ اللَّه مَعَ الْجَمَاعَةِ - وإِيَّاكُمْ والْفُرْقَةَ!

رہے ہو اور میرے ''گناہ '' کی بناپر انہیں کیوں کافر قرار دے رہے ہو۔تمہاری تلواریں تمہارے کاندھوں پر رکھی ہیں جہاں چاہتے ہو خطا ' بے خطا چلادیتے ہو اور گناہ گار اوربے گناہ میں کوئی فرق نہیں کرتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اکرم (ص) نے زنائے محضہ کے مجرم کو سنگسار کیا تواس کی نمازجنازہ بھی پڑھی تھی اور اس کے اہل کو وارث بھی قرار دیا تھا۔اور اسی طرح قاتل کو قتل کیا تو اس کی میراث بھی تقسیم کی اور چور کے ہاتھ کاٹے یا غیر شادی شدہ زنا کار کو کوڑے لگوائے تو انہیں مال غنیمت میں حصہ بھی دیا اور ان کا مسلمان عورتوں سے نکاح بھی کرایا گویا کہ آپ نے ان کے گناہوں کا مواخذہ کیا اور ان کے بارے میں حق خداکو قائم کیا لیکن اسلام میں ان کے حصہ کو نہیں روکا اور نہ ان کے نام کواہل اسلام کی فہرست سے خارج کیا۔مگر تم بد ترین افراد ہو کہ شیطان تمہارے ذریعہ اپنے مقاصد کو حاصل کرلیتا ہے اورتمہیں صحرائے ضلالت میں ڈال دیتا ہے اور عنقریب میرے بارے میں دو طرح کے افراد گمراہ ہوں گے۔محبت میں غلو کرنے والے جنہیں محبت غیرحق کی طرف لے جائے گی اور عداوت میں زیادتی کرنے والے جنہیں عداوت باطل کی طرف کھینچ لے جائے گی۔اوربہترین افراد وہ ہوں گے جو درمیانی منزل پر ہوں لہٰذا تم بھی اسی راستہ کو اختیار کرو اور اسی نظر یہ کی جماعت کے ساتھ ہو جائو کہ اللہ کاہاتھ اسی جماعت کے ساتھ ہے اورخبردارتفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ جاتا ہے

۲۲۷

فَإِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّيْطَانِ - كَمَا أَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ. أَلَا مَنْ دَعَا إِلَى هَذَا الشِّعَارِ فَاقْتُلُوه - ولَوْ كَانَ تَحْتَ عِمَامَتِي هَذِه - فَإِنَّمَا حُكِّمَ الْحَكَمَانِ لِيُحْيِيَا مَا أَحْيَا الْقُرْآنُ - ويُمِيتَا مَا أَمَاتَ الْقُرْآنُ - وإِحْيَاؤُه الِاجْتِمَاعُ عَلَيْه - وإِمَاتَتُه الِافْتِرَاقُ عَنْه - فَإِنْ جَرَّنَا الْقُرْآنُ إِلَيْهِمُ اتَّبَعْنَاهُمْ - وإِنْ جَرَّهُمْ إِلَيْنَا اتَّبَعُونَا - فَلَمْ آتِ لَا أَبَا لَكُمْ بُجْراً - ولَا خَتَلْتُكُمْ عَنْ أَمْرِكُمْ - ولَا لَبَّسْتُه عَلَيْكُمْ - إِنَّمَا اجْتَمَعَ رَأْيُ مَلَئِكُمْ عَلَى اخْتِيَارِ رَجُلَيْنِ - أَخَذْنَا عَلَيْهِمَا أَلَّا يَتَعَدَّيَا الْقُرْآنَ فَتَاهَا عَنْه - وتَرَكَا الْحَقَّ وهُمَا يُبْصِرَانِه - وكَانَ الْجَوْرُ هَوَاهُمَا فَمَضَيَا عَلَيْه - وقَدْ سَبَقَ اسْتِثْنَاؤُنَا عَلَيْهِمَا فِي الْحُكُومَةِ بِالْعَدْلِ - والصَّمْدِ لِلْحَقِّ سُوءَ رَأْيِهِمَا وجَوْرَ حُكْمِهِمَا.

(۱۲۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

فيما يخبر به عن الملاحم بالبصرة

وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہو جاتا ہے جس طرح گلہ سے الگ ہوجانے والی بھیڑ بھیڑئیے کی نذر ہوجاتی ہے۔آگاہ ہو جائو کہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے اسے قتل کردو چاہے وہ میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو۔ ان دونوں افراد کو حکم بنایا گیا تھا تاکہ ان امور کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور ان امور کو مردہ بنادیں جنہیں قرآن نے مردہ بنا دیا ہے اور زندہکرنے کے معنی اس پر اتفاق کرنے اورمردہ بنانے کے معنی اس سے الگ ہو جانے کے ہیں۔ہم اس بات پر تیار تھے کہ اگر قرآن ہمیں دشمن کی طرف کھینچ لے جائے گا تو ہم ان کا اتباع کرلیں گے اور اگر انہیں ہماری طرف لے آئے گا تو انہیں آنا پڑے گا لیکن خدا تمہارا برا کرے۔اس بات میںمیں نے کوئی غلط کام تو نہیں کیا اور نہ تمہیں کوئی دھوکہ دیا ہے۔اور نہ کسی بات کو شبہ میں رکھا ہے۔لیکن تمہاری جماعت نے دوآدمیوں کے انتخاب پر اتفاق کرلیا اورمیں نے ان پر شرط لگا دی کہ قرآن کے حدود سے تجاوز نہیں کریں گے مگر وہ دونوں قرآن سے منحرف ہوگئے اورحق کو دیکھ بھال کر نظر انداز کردیا اور اصل بات یہ ہے کہ ان کا مقصد ہی ظلم تھا اوروہ اسی راستہ پرچلے گئے جب کہ میں نے ان کی غلط رائے اورظالمانہ فیصلہ سے پہلے ہی فیصلہ میں عدالت اور ارادہ حق کی شرط لگادی تھی۔

(۱۲۸)

آپ کا ارشادگرامی

(بصرہ کے حوادث کی خبر دیتے ہوئے )

۲۲۸

يَا أَحْنَفُ كَأَنِّي بِه وقَدْ سَارَ بِالْجَيْشِ - الَّذِي لَا يَكُونُ لَه غُبَارٌ ولَا لَجَبٌ - ولَا قَعْقَعَةُ لُجُمٍ ولَا حَمْحَمَةُ خَيْلٍ - يُثِيرُونَ الأَرْضَ بِأَقْدَامِهِمْ - كَأَنَّهَا أَقْدَامُ النَّعَامِ.

قال الشريف يومئ بذلك إلى صاحب الزنج.

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام - وَيْلٌ لِسِكَكِكُمُ الْعَامِرَةِ والدُّورِ الْمُزَخْرَفَةِ - الَّتِي لَهَا أَجْنِحَةٌ كَأَجْنِحَةِ النُّسُورِ - وخَرَاطِيمُ كَخَرَاطِيمِ

الْفِيَلَةِ - مِنْ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَا يُنْدَبُ قَتِيلُهُمْ - ولَا يُفْقَدُ غَائِبُهُمْ - أَنَا كَابُّ الدُّنْيَا لِوَجْهِهَا - وقَادِرُهَا بِقَدْرِهَا ونَاظِرُهَا بِعَيْنِهَا.

منه في وصف الأتراك

كَأَنِّي أَرَاهُمْ قَوْماً –( كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطَرَّقَةُ ) - يَلْبَسُونَ السَّرَقَ والدِّيبَاجَ - ويَعْتَقِبُونَ الْخَيْلَ الْعِتَاقَ - ويَكُونُ هُنَاكَ اسْتِحْرَارُ قَتْلٍ - حَتَّى يَمْشِيَ الْمَجْرُوحُ عَلَى الْمَقْتُولِ -

اے(۱) احنف ! گویا کہ میں اس شخص کو دیکھ رہا ہوں جو ایک ایسا لشکر لے کر آیا ہے جس میں نہ گردو غبار ہے اور نہ شورو غوغا ۔نہ لجاموں کی کھڑکھڑاہٹ ہے اور نہ گھوڑوں کی ہنہناہٹ ۔یہ زمین کو اسی طرح روند رہے ہیں جس طرح شتر مرغ کے پیر۔

سید رضی : حضرت نے اس خبر میں صاحب زنج کی طرف اشارہ کیا ہے( جس کا نام علی بن محمد تھااور اس نے۲۲۵ ھ میں بصرہ میں غلاموں کو مالکوں کے خلاف متحد کیا اور ہر غلام سے اس کے مالک کو۵۰۰ کوڑے لگوائے ۔

افسوس ہے تمہاری آباد گلیوں اور ان سجے سجائے مکانات کے حال پر جن کے چھجے گدوں کے پر اور ہاتھیوں کے سونڈ کے مانند ہے ان لوگوں کی طرف سے جن کے مقتول پر گریہ نہیں کیاجاتا ہے اور ان کے غائب کو تلاش نہیں کیا جاتا ہے۔میں دنیا کو منہ کے بھل اوندھا کر دینے والا اور اس کی صحیح اوقات کا جاننے والا اور اس کی حالت کو اس کے شایان شان نگاہ سے دیکھنے والا ہوں۔

(ترکوں کے بارے میں )

میں ایک ایسی قوم کو دیکھ رہا ہوں جن کے چہرہ چمڑے سے منڈھی ڈھال کے مانند ہیں۔ریشم و دیبا کے لباس پہنتے ہیں اور بہترین اصیل گھوڑوں سے محبت رکھتے ہیں۔ان کے درمیان عنقریب قتل کی گرم بازاری ہوگی جہاں زخمی مقتول کے اوپر سے گزریں گے

(۱)بنی تمیم کے سردار احنف بن قیس سے خطاب ہے جنہوں نے رسول اکرم (ص) کی زیارت نہیں کی مگر اسلام قبول کیا اورجنگ جمل کے موقع پر اپنے علاقہ میں ام المومنین کے فتنوں کا دفاع کرتے رہے اور پھر جنگ صفین میں مولائے کائنات کے ساتھ شریک ہوگئے اور جہاد راہ خداکا حق ادا کردیا

۲۲۹

ويَكُونَ الْمُفْلِتُ أَقَلَّ مِنَ الْمَأْسُورِ.

فَقَالَ لَه بَعْضُ أَصْحَابِه - لَقَدْ أُعْطِيتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عِلْمَ الْغَيْبِ - فَضَحِكَعليه‌السلام وقَالَ لِلرَّجُلِ وكَانَ كَلْبِيّاً.

يَا أَخَا كَلْبٍ لَيْسَ هُوَ بِعِلْمِ غَيْبٍ - وإِنَّمَا هُوَ تَعَلُّمٌ مِنْ ذِي عِلْمٍ - وإِنَّمَا عِلْمُ الْغَيْبِ عِلْمُ السَّاعَةِ - ومَا عَدَّدَه اللَّه سُبْحَانَه بِقَوْلِه –( إِنَّ الله عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ - ويُنَزِّلُ الْغَيْثَ ويَعْلَمُ ما فِي الأَرْحامِ - وما تَدْرِي نَفْسٌ ما ذا تَكْسِبُ غَداً - وما تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ) الآيَةَ - فَيَعْلَمُ اللَّه سُبْحَانَه مَا فِي الأَرْحَامِ - مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وقَبِيحٍ أَوْ جَمِيلٍ - وسَخِيٍّ أَوْ بَخِيلٍ - وشَقِيٍّ أَوْ سَعِيدٍ - ومَنْ يَكُونُ فِي النَّارِ حَطَباً - أَوْ فِي الْجِنَانِ لِلنَّبِيِّينَ مُرَافِقاً - فَهَذَا عِلْمُ الْغَيْبِ الَّذِي لَا يَعْلَمُه أَحَدٌ إِلَّا اللَّه - ومَا سِوَى ذَلِكَ فَعِلْمٌ - عَلَّمَه اللَّه نَبِيَّه فَعَلَّمَنِيه - ودَعَا لِي بِأَنْ يَعِيَه صَدْرِي - وتَضْطَمَّ عَلَيْه جَوَانِحِي

اوراب بھاگنے والے قیدیوں سے کم ہوں گے ( یہ تاتاریوں کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے جہاں چنگیز خاں اور اس کی قوم نے تمام اسلامی ملکوں کو تباہ و برباد کردیا اور کتے' سور کو اپنی غذا بنا کر ایسے حملے کئے کہ شہروں کو خاک میں ملا دیا) یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ آپ تو علم غیب کی باتیں کر رہے ہیں تو آپ نے مسکرا کر اس کلبی شخص سے فرمایا اے برادر کلبی! یہ علم غیب نہیں ہے بلکہ صاحب علم سے تعلم ہے۔علم غیب قیامت کا اور ان چیزوں کا علم ہے جن کو خدانے قرآن مجید میں شمار کردیا ہے کہ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اور بارش کابرسانے والا وہی ہے اور پیٹ میں پلنے والے بچہ کا مقدر وہی جانتا ہے۔اس کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم ہے کہ کل کیا کمائے گا اور کس سر زمین پرموت آئے گی۔ پروردگار جانتا ہے کہ رحم کا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی حسین ہے یا قبیح' سخی ہے یا بخیل' شقی ہے یا سعید' کون جہنم کا کندہ بن جائے گا اور کون جنت میں ابنیاء کرام کا ہمنشین ہوگا۔یہ وہ علم غیب ہے جسے خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔اس کے علاوہ جو بھی علم ہے وہ ایسا علم ہے جسے اللہ نے پیغمبر (ص) کو تعلیم دیا ہے اور انہوں نے مجھے اس کی تعلیم دی ہے اورمیرے حق میں دعا کی ہے کہ میرا سینہ اسے محفوظ کرلے اور اس دل میں اسے محفوظ کردے جومیرے پہلو میں ہے۔

۲۳۰

(۱۲۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكر المكاييل والموازين

عِبَادَ اللَّه إِنَّكُمْ ومَا تَأْمُلُونَ - مِنْ هَذِه الدُّنْيَا أَثْوِيَاءُ مُؤَجَّلُونَ - ومَدِينُونَ مُقْتَضَوْنَ أَجَلٌ مَنْقُوصٌ - وعَمَلٌ مَحْفُوظٌ - فَرُبَّ دَائِبٍ مُضَيَّعٌ ورُبَّ كَادِحٍ خَاسِرٌ - وقَدْ أَصْبَحْتُمْ فِي زَمَنٍ لَا يَزْدَادُ الْخَيْرُ فِيه إِلَّا إِدْبَاراً - ولَا الشَّرُّ فِيه إِلَّا إِقْبَالًا - ولَا الشَّيْطَانُ فِي هَلَاكِ النَّاسِ إِلَّا طَمَعاً - فَهَذَا أَوَانٌ قَوِيَتْ عُدَّتُه - وعَمَّتْ مَكِيدَتُه وأَمْكَنَتْ فَرِيسَتُه - اضْرِبْ بِطَرْفِكَ حَيْثُ شِئْتَ مِنَ النَّاسِ - فَهَلْ تُبْصِرُ إِلَّا فَقِيراً يُكَابِدُ فَقْراً - أَوْ غَنِيّاً بَدَّلَ نِعْمَةَ اللَّه كُفْراً - أَوْ بَخِيلًا اتَّخَذَ الْبُخْلَ بِحَقِّ اللَّه وَفْراً - أَوْ مُتَمَرِّداً كَأَنَّ بِأُذُنِه عَنْ سَمْعِ الْمَوَاعِظِ وَقْراً - أَيْنَ أَخْيَارُكُمْ وصُلَحَاؤُكُمْ - وأَيْنَ أَحْرَارُكُمْ وسُمَحَاؤُكُمْ - وأَيْنَ الْمُتَوَرِّعُونَ فِي مَكَاسِبِهِمْ - والْمُتَنَزِّهُونَ فِي مَذَاهِبِهِمْ - أَلَيْسَ قَدْ ظَعَنُوا جَمِيعاً - عَنْ هَذِه الدُّنْيَا الدَّنِيَّةِ -

(۱۲۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(ناپ تول کے بارے میں )

اللہ کے بندو! تم اور جو کچھ اس دنیا سے توقع رکھتے ہو سب ایک مقررہ مدت کے مہمان ہیں اور ایسے قرضدار ہیں جن سے قرضہ کامطالبہ ہو رہا ہو۔عمریں گھٹ رہی ہیں اور اعمال محفوظ کئے جا رہے ہیں۔کتنے دوڑ دھوپ کرنے والے ہیں جن کی محنت برباد ہو رہی ہے اور کتنے کوشش کرنے والے ہیں جو مسلسل گھاٹے کاشکار ہیں تم ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے ہو جس میں نیکی مسلسل منہ پھیر کر جا رہی ہے اور برائی برابر سامنے آرہی ہے۔شیطان لوگوں کو تباہ کرنے کی ہوس میں لگا ہوا ہے۔اس کا سازو سامان مستحکم ہو چکا ہے۔اس کی سازشیں عام ہو چکی ہیں اور اس کے شکار اس کے قابو میں ہیں۔تم جدھر چاہو نگاہ اٹھا کر دیکھ لو سوائے اس فقیر کے جو فقر کی مصیبتیں جھیل رہا ہے اور اس امیر کے جس نے نعمت خدا کی نا شکری کی ہے اور اس بخیل کے جس نے حق خدا میں بخل ہی کو مال کے اضافہ کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اس سرکش کے جس کے کان نصیحتوں کے لئے بہترے ہوگئے ہیں اور کچھ نظرنہیں آئے گا۔کہاں چلے گئے وہ نیک اور صالح بندے اور کدھر ہیں وہ شریف اور کریم النفس لوگ ۔کہاں ہیں وہ افراد جو کسب معاش میں احتیاط برتنے والے تھے اور راستوں میں پاکیزہ راستہ اختیار کرنے والے تھے کیا سب کے سب اس پست اور زندگی کو مکدربنا دینے والی دنیا سے نہیں چلے گئے

۲۳۱

والْعَاجِلَةِ الْمُنَغِّصَةِ - وهَلْ خُلِقْتُمْ إِلَّا فِي حُثَالَةٍ - لَا تَلْتَقِي إِلَّا بِذَمِّهِمُ الشَّفَتَانِ - اسْتِصْغَاراً لِقَدْرِهِمْ وذَهَاباً عَنْ ذِكْرِهِمْ - فَ «إِنَّا لِلَّه وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ» - ظَهَرَ الْفَسَادُ فَلَا مُنْكِرٌ مُغَيِّرٌ - ولَا زَاجِرٌ مُزْدَجِرٌ - أَفَبِهَذَا تُرِيدُونَ أَنْ تُجَاوِرُوا اللَّه فِي دَارِ قُدْسِه - وتَكُونُوا أَعَزَّ أَوْلِيَائِه عِنْدَه - هَيْهَاتَ لَا يُخْدَعُ اللَّه عَنْ جَنَّتِه - ولَا تُنَالُ مَرْضَاتُه إِلَّا بِطَاعَتِه - لَعَنَ اللَّه الآمِرِينَ بِالْمَعْرُوفِ التَّارِكِينَ لَه - والنَّاهِينَ عَنِ الْمُنْكَرِ الْعَامِلِينَ بِه.

(۱۳۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لأبي ذر رحمهالله - لما أخرج إلى الربذة

يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ غَضِبْتَ لِلَّه فَارْجُ مَنْ غَضِبْتَ لَه - إِنَّ الْقَوْمَ خَافُوكَ عَلَى دُنْيَاهُمْ وخِفْتَهُمْ عَلَى دِينِكَ - فَاتْرُكْ فِي أَيْدِيهِمْ مَا خَافُوكَ عَلَيْه - واهْرُبْ مِنْهُمْ بِمَا خِفْتَهُمْ عَلَيْه - فَمَا أَحْوَجَهُمْ إِلَى مَا مَنَعْتَهُمْ -

اور کیا تمہیں ایسے افراد میں نہیں چھوڑ گئے جن کی حقارت اور جن کے ذکر سے اعراض کی بنا پر ہونٹ سوائے ان کی مذمت کے کسی بات کے لئے آپس میں نہیں ملتے ہیں۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔فساد اس قدر پھیل چکا ہے کہ نہ کوئی حالات کا بدلنے والاہے اور نہ کوئی منع کرنے والا اور نہخود پر پرہیز کرنے والا ہے۔تو کیا تم انہیں حالات کے ذریعہ خدا کے مقدس جوارمیں رہنا چاہیے ہو اوراس کے عزیز ترین دوست بننا چاہتے ہو۔افسوس ! اللہ کو جنت کے بارے میں دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی مرضی کو اطاعت کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے۔اللہ لعنت کرے ان لوگوں پر جو دوسروں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور خود عمل نہیں کرتے ہیں ۔سماج کو برائیوں سے روکتے ہیں اور خود انہیں میں مبتلا ہیں۔

(۱۳۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو آپ نے ابو ذر غفاری سے فرمایا جب انہیں ربذہ کی طرف شہر بدر کردیا گیا )

ابو ذر تمہارا غیظ و غضب اللہ کے لئے ہے لہٰذا اس سے امید وابستہ رکھو جس کے لئے یہ غیظ و غضب اختیار کیا ہے۔قوم کو تم سے اپنی دنیاکے بارے میں خطرہ تھا اور تمہیں ان سے اپنے دین کے بارے میں خوف تھا لہٰذا جس کا انہیں خطرہ تھا وہ ان کے لئے چھوڑ دو اور جس کے لئے تمہیں خوف تھا اسے بچاکرنکل جائو۔یہ لوگ بہر حال اس کے محتاج ہیں جس کو تم نے ان سے روکا ہے

۲۳۲

ومَا أَغْنَاكَ عَمَّا مَنَعُوكَ - وسَتَعْلَمُ مَنِ الرَّابِحُ غَداً والأَكْثَرُ حُسَّداً - ولَوْ أَنَّ السَّمَاوَاتِ والأَرَضِينَ كَانَتَا عَلَى عَبْدٍ رَتْقاً - ثُمَّ اتَّقَى اللَّه لَجَعَلَ اللَّه لَه مِنْهُمَا مَخْرَجاً - لَا يُؤْنِسَنَّكَ إِلَّا الْحَقُّ - ولَا يُوحِشَنَّكَ إِلَّا الْبَاطِلُ - فَلَوْ قَبِلْتَ دُنْيَاهُمْ لأَحَبُّوكَ - ولَوْ قَرَضْتَ مِنْهَا لأَمَّنُوكَ.

(۱۳۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه يبين سبب طلبه الحكم ويصف الإمام الحق

أَيَّتُهَا النُّفُوسُ الْمُخْتَلِفَةُ والْقُلُوبُ الْمُتَشَتِّتَةُ - الشَّاهِدَةُ أَبْدَانُهُمْ والْغَائِبَةُ عَنْهُمْ عُقُولُهُمْ - أَظْأَرُكُمْ عَلَى الْحَقِّ - وأَنْتُمْ تَنْفِرُونَ عَنْه نُفُورَ الْمِعْزَى مِنْ وَعْوَعَةِ الأَسَدِ - هَيْهَاتَ أَنْ أَطْلَعَ بِكُمْ سَرَارَ الْعَدْلِ - أَوْ أُقِيمَ اعْوِجَاجَ الْحَقِّ - اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ - أَنَّه لَمْ يَكُنِ الَّذِي كَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِي سُلْطَانٍ - ولَا الْتِمَاسَ شَيْءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ - ولَكِنْ لِنَرِدَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ -

اورتم اس سے بہرحال بے نیاز ہو جس سے ان لوگوں نے تمہیں محروم کیا ہے عنقریب یہ معلوم ہو جائے گا کہ فائدہ میں کون رہا اور کس سے حسد کرنے والے زیادہ ہیں۔یاد رکھو کہ کسی بندہ خدا پر اگر زمین وآسمان دونوں کے راستے بند ہوجائیں اور وہ تقوائے الٰہی اختیار کرلے تو اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال دے گا۔دیکھو تمہیں صرف حق سے انس اور باطل سے وحشت ہونی چاہیے تم اگر ان کی دنیا کو قبول کر لیتے تو یہ تم سے محبت کرتے اور اگردنیا میں سے اپنا حصہ لے لیتے تو تمہاری طرف سے مطمئن ہو جاتے ۔

(۱۳۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اپنی حکومت طلبی کا سبب بیان فرمایا ہے اور امام بر حق کے اوصاف کا تذکرہ کیا ہے )

اے وہ لوگو جن کے نفس مختلف ہیں اوردل متفرق۔بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب ۔میں تمہیں مہرانی کے ساتھ حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس طرح فرار کر تے ہو جیسے شیر کی ڈرکار سے بکریاں۔افسوس تمہارے ذریعہ عدل کی تاریکیوں کو کیسے روشن کیا جا سکتا ہے اور حق میں پیداہو جانے والی کجی کو کس طرح سیدھا کیا جا سکتا ہے۔خدایا تو جانتا ہے کہ میں نے حکومت کے بارے میں جو اقدام کیا ہے اس میں نہ سلطنت کی لالچ تھی اور نہمالی دنیا کی تلاش۔میرا مقصد صرف یہ تھا کہ دین کے آثارکو ان کی منزل تک پہنچائوں

۲۳۳

ونُظْهِرَ الإِصْلَاحَ فِي بِلَادِكَ - فَيَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ - وتُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ - اللَّهُمَّ إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَنَابَ - وسَمِعَ وأَجَابَ - لَمْ يَسْبِقْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّه بِالصَّلَاةِ.

وقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّه لَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ الْوَالِي عَلَى الْفُرُوجِ - والدِّمَاءِ والْمَغَانِمِ والأَحْكَامِ - وإِمَامَةِ الْمُسْلِمِينَ الْبَخِيلُ - فَتَكُونَ فِي أَمْوَالِهِمْ نَهْمَتُه - ولَا الْجَاهِلُ فَيُضِلَّهُمْ بِجَهْلِه - ولَا الْجَافِي فَيَقْطَعَهُمْ بِجَفَائِه - ولَا الْحَائِفُ لِلدُّوَلِ فَيَتَّخِذَ قَوْماً دُونَ قَوْمٍ - ولَا الْمُرْتَشِي فِي الْحُكْمِ - فَيَذْهَبَ بِالْحُقُوقِ - ويَقِفَ بِهَا دُونَ الْمَقَاطِعِ - ولَا الْمُعَطِّلُ لِلسُّنَّةِ فَيُهْلِكَ الأُمَّةَ.

(۱۳۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يعظ فيها ويزهد في الدنيا

حمد اللَّه

نَحْمَدُه عَلَى مَا أَخَذَ وأَعْطَى -

اور شہروں میں اصلاح پیدا کردوں تاکہ مظلوم بندے محفوظ ہو جائیں اور معطل حدود قائم ہو جائیں۔خدایا تجھے معلوم ہے کہ میں نے سب سے پہلے تیریر طرف رخ کیا ہے۔تیری آواز سنی ہے اوراسے قبول کیا ہے اور تیری بندگی میں رسول اکرم (ص) کے علاوہ کسی نے بھی مجھ پرسبقت نہیں کی ہے۔

تم لوگوں کو معلوم ہے کہ لوگوں کی آبرو۔ ان کی جان۔ان کے منافع۔الٰہی احکام اور امامت مسلمین کاذمہ دار نہ کوئی بخیل ہو سکتا ہے کہ وہ اموال مسلمین پر ہمیشہ دانت لگائے رہے گا۔اور نہ کوئی جاہل ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی جہالت سے لوگوں کو گمراہ کردے گا اور نہ کوئی بد اخلاق ہو سکتا ہے کہ وہ بد اخلاقی کے چر کے لگاتا رہے گا اور نہ کوئی مالیات کابددیانت ہوسکتا ہے کہوہ ایک کو مال دے گا اور ایک کومحروم کردے گا اورنہ کوئی فیصلہ میں رشوت لینے والا ہو سکتا ہے کہ وہ حقوق کو برباد کردے گا اور انہیں ان کی منزل تک نہ پہنچنے دے گا اور نہ کوئی سنت کو معطل کرنے والا ہوسکتا ہے کہ وہ امت کو ہلاک و برباد کردے گا۔

(۱۳۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کو نصیحت فرمائی ہے اور زہد کی ترغیب دی ہے )

شکر ہے خدا کا اس پر بھی جو دیا ہے اور اس پر بھی جولے لیا ہے ۔اس کے انعام پر بھی

۲۳۴

وعَلَى مَا أَبْلَى وابْتَلَى – الْبَاطِنُ لِكُلِّ خَفِيَّةٍ - والْحَاضِرُ لِكُلِّ سَرِيرَةٍ - الْعَالِمُ بِمَا تُكِنُّ الصُّدُورُ - ومَا تَخُونُ الْعُيُونُ - ونَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه غَيْرُه - وأَنَّ مُحَمَّداً نَجِيبُه وبَعِيثُه - شَهَادَةً يُوَافِقُ فِيهَا السِّرُّ الإِعْلَانَ والْقَلْبُ اللِّسَانَ.

عظة الناس

ومنها: فَإِنَّه واللَّه الْجِدُّ لَا اللَّعِبُ - والْحَقُّ لَا الْكَذِبُ - ومَا هُوَ إِلَّا الْمَوْتُ أَسْمَعَ دَاعِيه - وأَعْجَلَ حَادِيه - فَلَا يَغُرَّنَّكَ سَوَادُ النَّاسِ مِنْ نَفْسِكَ - وقَدْ رَأَيْتَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ - مِمَّنْ جَمَعَ الْمَالَ وحَذِرَ الإِقْلَالَ - وأَمِنَ الْعَوَاقِبَ طُولَ أَمَلٍ واسْتِبْعَادَ أَجَلٍ - كَيْفَ نَزَلَ بِه الْمَوْتُ فَأَزْعَجَه عَنْ وَطَنِه - وأَخَذَه مِنْ مَأْمَنِه - مَحْمُولًا عَلَى أَعْوَادِ الْمَنَايَا - يَتَعَاطَى بِه الرِّجَالُ الرِّجَالَ - حَمْلًا عَلَى الْمَنَاكِبِ - وإِمْسَاكاً بِالأَنَامِلِ - أَمَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَأْمُلُونَ بَعِيداً - ويَبْنُونَ مَشِيداً ويَجْمَعُونَ كَثِيراً - كَيْفَ أَصْبَحَتْ بُيُوتُهُمْ قُبُوراً - ومَا جَمَعُوا بُوراً - وصَارَتْ أَمْوَالُهُمْ لِلْوَارِثِينَ - وأَزْوَاجُهُمْ لِقَوْمٍ آخَرِينَ - لَا فِي حَسَنَةٍ يَزِيدُونَ

اور اس کے امتحان پربھی۔وہ ہر مخفی چیز کے اندر کابھی علم رکھتا ہے اور ہر پوشیدہ امر کے لئے حاضر بھی ہے۔دلوں کے اندر چھپے ہوئے اسرار اورآنکھوں کی خیانت سب کو بخوبی جانتا ہے اورمیں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور حضرت محمد (ص)اس کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور اس گواہی میں باطن ظاہر سے اور دل زبان سے ہم آہنگ ہے۔

خدا کی قسم وہ شے جو حقیقت ہے اورکھیل تماشہ نہیں ہے۔حق ہے اور جھوٹ نہیں ہے وہ صرف موت ہے جس کے داعی نے اپنی آواز سب کو سنا دی ہے اورجس کا ہنکانے والا جلدی مچائے ہوئے ہے لہٰذا خبردار لوگوں کی کثرت تمہارے نفس کو دھوکہ میں نہ ڈال دے۔تم دیکھ چکے ہو کہ تم سے پہلے والوں نے مالک جمع کیا۔افلاس سے خوفزدہ رہے۔انجام سے بے خبر رہے۔صرف لمبی لمبی امیدوں اور موت کی تاخیر کے خیال میں رہے اورایک مرتبہ موت نازل ہوگئی اور اس نے انہیں وطن سے بے وطن کردیا ۔محفوظ مقامات سے گرفتار کرلیا اور تابوت پر اٹھوادیا جہاں لوگ کاندھوں پر اٹھائے ہوئے۔انگلیوں کاسہارا دئیے ہوئے ایک دوسرے کے حوالے کر رہے تھے۔کیاتم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دور دراز امیدیں رکھتے تھے اورمستحکم مکانات بناتے تھے اوربے تحاشہ مال جمع کرتے تھے کہ کس طرح ان کے گھر قبروں میں تبدیل ہوگئے اورسب کیا دھرا تباہ ہوگیا۔اب اموال ورثہ کے لئے ہیں اور ازواج دوسرے لوگوں کے لئے نہ نیکیوں میں اضافہ کر سکتے ہیں

۲۳۵

ولَا مِنْ سَيِّئَةٍ يَسْتَعْتِبُونَ - فَمَنْ أَشْعَرَ التَّقْوَى قَلْبَه بَرَّزَ مَهَلُه - وفَازَ عَمَلُه فَاهْتَبِلُوا هَبَلَهَا - واعْمَلُوا لِلْجَنَّةِ عَمَلَهَا - فَإِنَّ الدُّنْيَا لَمْ تُخْلَقْ لَكُمْ دَارَ مُقَامٍ - بَلْ خُلِقَتْ لَكُمْ مَجَازاً - لِتَزَوَّدُوا مِنْهَا الأَعْمَالَ إِلَى دَارِ الْقَرَارِ - فَكُونُوا مِنْهَا عَلَى أَوْفَازٍ - وقَرِّبُوا الظُّهُورَ لِلزِّيَالِ

(۱۳۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يعظم اللَّه سبحانه ويذكر القرآن والنبي ويعظ الناس

عظمة اللَّه تعالى

وانْقَادَتْ لَه الدُّنْيَا والآخِرَةُ بِأَزِمَّتِهَا - وقَذَفَتْ إِلَيْه السَّمَاوَاتُ والأَرَضُونَ مَقَالِيدَهَا - وسَجَدَتْ لَه بِالْغُدُوِّ والآصَالِ الأَشْجَارُ النَّاضِرَةُ - وقَدَحَتْ لَه مِنْ قُضْبَانِهَا النِّيرَانَ الْمُضِيئَةَ - وآتَتْ أُكُلَهَا بِكَلِمَاتِه الثِّمَارُ الْيَانِعَةُ.

اور نہ برائیوں کے سلسلہ میں رضائے الٰہی کا سامان فراہم کر سکتے ہیں۔یاد رکھو جس نے تقویٰ کو شعار بنالیا وہی آگے نکل گیا اور اسی کا عمل کامیاب ہوگیا۔لہٰذا تقوی کے موقع کو غنیمت سمجھ اور جنت کے لئے اس کے اعمال انجام دے لو۔یہ دنیا تمہارے قیام(۱) کی جگہ نہیں ہے۔یہ فقط ایک گزر گاہ ہے کہ یہاں سے ہمیشگی کے مکان کے لئے سامان فراہم کرلو لہٰذا جلدی تیاری کرو اور سواریوں کو کوچ کے لئے اپنے سے قریب تر کرلو۔

(۱۳۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں اللہ کی عظمت اور قرآن کی جلالت کا ذکر ہے اور پھر لوگوں کو نصیحت بھی کی گئی ہے )

(پروردگار ) دنیا و آخرت دونوں نے اپنی باگ ڈور اسی کے حوالہ کر رکھی ہے اور زمین و آسمان نے اپنی کنجیاں اسی کی خدمت میں پیش کردی ہیں۔اس کی بارگاہ میں صبح و شام سر سبز شاداب درخت سجدہ ریز رہتے ہیں اور اپنی لکڑی سے چمکدار آگ نکالتے رہتے ہیں اور اسی کے حکم کے مطابق پکے ہوئے پھل پیش کر تے رہتے ہیں۔

(۱)انسانی زندگی میں کامیابی کا راز یہی ایک نکتہ ہے کہ یہ دنیا انسان کی منزل نہیں ہے بلکہ ایک گذر گاہ ہے جس سے گزر کر ایک عظیم منزل کی طرف جانا ہے اور یہ مالک کا کرم ہے کہ اس نے یہاں سے سامان فراہم کرنے کی اجازت دیدی ہے اور یہاں کے سامان کو وہاں کے لئے کارآمد بنادیا ہے۔یہ اوربات ہے کہ دونوں جگہ کا فرق یہ ہے کہ یہاں کے لئے سامان رکھاجاتا ہے تو کام آتا ہے اور وہاں کے لئے راہ خدا میں دے دیا جاتا ہے تو کام آتا ہے۔غنی اورمالداردنیا سجا سکتے ہیں لیکن آخرت نہیں بنا سکتے ہیں ۔وہ صرف کریم اور صاحب خیر افراد کے لئے ہے جن کاشعار تقویٰ ہے اور جن کا اعتماد وعدہ ٔ الٰہی پر ہے۔

۲۳۶

القرآن

منها: وكِتَابُ اللَّه بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ - نَاطِقٌ لَا يَعْيَا لِسَانُه - وبَيْتٌ لَا تُهْدَمُ أَرْكَانُه - وعِزٌّ لَا تُهْزَمُ أَعْوَانُه.

رسول اللَّه

منها: أَرْسَلَه عَلَى حِينِ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ - وتَنَازُعٍ مِنَ الأَلْسُنِ - فَقَفَّى بِه الرُّسُلَ وخَتَمَ بِه الْوَحْيَ - فَجَاهَدَ فِي اللَّه الْمُدْبِرِينَ عَنْه والْعَادِلِينَ بِه.

الدنيا

منها: وإِنَّمَا الدُّنْيَا مُنْتَهَى بَصَرِ الأَعْمَى - لَا يُبْصِرُ مِمَّا وَرَاءَهَا شَيْئاً - والْبَصِيرُ يَنْفُذُهَا بَصَرُه - ويَعْلَمُ أَنَّ الدَّارَ وَرَاءَهَا - فَالْبَصِيرُ مِنْهَا

شَاخِصٌ - والأَعْمَى إِلَيْهَا شَاخِصٌ - والْبَصِيرُ مِنْهَا مُتَزَوِّدٌ - والأَعْمَى لَهَا مُتَزَوِّدٌ.

عظة الناس

منها: واعْلَمُوا أَنَّه لَيْسَ مِنْ شَيْءٍ - إِلَّا ويَكَادُ صَاحِبُه يَشْبَعُ مِنْه - ويَمَلُّه إِلَّا الْحَيَاةَ فَإِنَّه لَا يَجِدُ فِي الْمَوْتِ رَاحَةً -

(قرآن حکیم)

کتاب خدا نگاہ کے سامنے ہے۔یہ وہ ناطق ہے جس کی زبان عاجز نہیں ہوتی ہے اور یہ وہ گھر ہے جس کے ارکان منہدم نہیں ہوتے ہیں۔یہی وہ عزت ہے جس کے اعوان و انصار شکست خوردہ نہیں ہوتے ہیں۔

(رسول اکرم (ص))

اللہ نے آپ کو اس وقت بھیجا جب رسولوں کا سلسلہ رکا ہوا تھا اور زبانیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں۔آپ کے ذریعہ رسولوں کے سلسلہ کو تمام کیا اور وحی کے سلسلہ کو موقوف کیا تو آپ نے بھی اس سے انحراف کرنے والوں اور اس کاہمسرٹھہرانے والوں سے جم کر جہاد کیا۔

(دنیا)

یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ہے جو اس کے ماوراء کچھ نہیں دیکھتا ہے جب کہ صاحب بصیرت کی نگاہ اس پار نکل جاتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ منزل اس کے ماورا ہے۔صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنے والا ہے اور اندھا اس کی طرف کوچ کرنے والا ہے۔بصیرا اس سے زاد راہ فراہم کرنے والا ہے اور اندھا اس کے لئے زاد راہ اکٹھا کرنے والا ہے ۔

(موعظہ)

یاد رکھو کہ دنیا میں جو شے بھی ہے اس کامالک سیر ہوجاتا ہے اور اکتا جاتا ہے علاوہ زندگی کے کہ کوئی شخص موت میں راحت نہیں محسوس کرتا ہے

۲۳۷

وإِنَّمَا ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الْحِكْمَةِ - الَّتِي هِيَ حَيَاةٌ لِلْقَلْبِ الْمَيِّتِ - وبَصَرٌ لِلْعَيْنِ الْعَمْيَاءِ - وسَمْعٌ لِلأُذُنِ الصَّمَّاءِ - ورِيٌّ لِلظَّمْآنِ وفِيهَا الْغِنَى كُلُّه والسَّلَامَةُ - كِتَابُ اللَّه تُبْصِرُونَ بِه - وتَنْطِقُونَ بِه وتَسْمَعُونَ بِه - ويَنْطِقُ بَعْضُه بِبَعْضٍ - ويَشْهَدُ بَعْضُه عَلَى بَعْضٍ - ولَا يَخْتَلِفُ فِي اللَّه - ولَا يُخَالِفُ بِصَاحِبِه عَنِ اللَّه - قَدِ اصْطَلَحْتُمْ عَلَى الْغِلِّ فِيمَا بَيْنَكُمْ - ونَبَتَ الْمَرْعَى عَلَى دِمَنِكُمْ - وتَصَافَيْتُمْ عَلَى حُبِّ الآمَالِ - وتَعَادَيْتُمْ فِي كَسْبِ الأَمْوَالِ - لَقَدِ اسْتَهَامَ بِكُمُ الْخَبِيثُ وتَاه بِكُمُ الْغُرُورُ - واللَّه الْمُسْتَعَانُ عَلَى نَفْسِي وأَنْفُسِكُمْ.

(۱۳۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد شاوره عمر بن الخطاب في الخروج إلى غزو الروم

وقَدْ تَوَكَّلَ اللَّه - لأَهْلِ هَذَا الدِّينِ بِإِعْزَازِ الْحَوْزَةِ

اور یہ بات اس حکمت(۱) کی طرح ہے جس میں مردہ دلوں کیزندگی ، اندھی آنکھوں کی بصارت ' بہرے کانوں کی سماعت اور پیاسے کی سیرابی کا سامان ہے اور اسی میں ساری مالداری ہے اور مکمل سلامتی ہے۔ یہ کتاب خدا ہے جس میں تمہاری بصارت اور سماعت کا سارا سامان موجود ہے۔اس میں ایک حصہ دوسرے کی وضاحت کرتا ہے اور ایک دوسرے کی گواہی دیتا ہے۔یہ خدا کے بارے میں اختلاف نہیں رکھتا ہے اور اپنے ساتھی کو خدا سے الگ نہیں کرتا ہے۔مگر تم نے آپس میں کینہ و حسد پر اتفاق کرلیا ہے اور اسی گھورےپر پر سبزہ اگ آیا ہے۔امیدوں کی محبت میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوا اور مال جمع کرنے میں یک دوسرے کے دشمن ہو۔شیطان نے تمہیں سر گرداں کردیا ہے اورفریب نے تم کو بہکا دیا ہے۔اب اللہ ہی میرے اور تمہارے نفسوں کے مقابلہ میں ایک سہارا ہے۔

(۱۳۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب عمر نے روم کی جنگ کے بارے میں آپ سے مشورہ کیا)

اللہ نے صاحبا ن دین کے لئے یہ ذمہ داری لے لی ہے کہ وہ ان کے حدود کو تقویت دے گا

(۱)اگرچہ دنیامیں زندہ رہنے کی خواہش عام طور سے آخرت کے خوف سے پیدا ہوتی ہے کہ انسان اپنے اعمال اور انجام کی طرف سے مطمئن نہیں ہوتا ہے اور اسی لئے موت کے تصور سے لرز جاتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ خواہش عیب نہیں ہے بلکہ یہی جذبہ ہے جو انسان کو عمل کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور اسی کے لئے انسان دن اور رات کوایک کردیتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خواہش حیات کو حکمت کے ساتھ استعمال کرے اور اس سے ویسا ہی کام لے جو حکمت صحیح اورف کر سلیم سے لیا جاتا ہے ورنہ یہی خواہش و بال جان بھی بن سکتی ہے۔

۲۳۸

وسَتْرِ الْعَوْرَةِ. والَّذِي نَصَرَهُمْ - وهُمْ قَلِيلٌ لَا يَنْتَصِرُونَ - ومَنَعَهُمْ وهُمْ قَلِيلٌ لَا يَمْتَنِعُونَ - حَيٌّ لَا يَمُوتُ.

إِنَّكَ مَتَى تَسِرْ إِلَى هَذَا الْعَدُوِّ بِنَفْسِكَ - فَتَلْقَهُمْ فَتُنْكَبْ - لَا تَكُنْ لِلْمُسْلِمِينَ كَانِفَةٌ دُونَ أَقْصَى بِلَادِهِمْ - لَيْسَ بَعْدَكَ مَرْجِعٌ يَرْجِعُونَ إِلَيْه - فَابْعَثْ إِلَيْهِمْ رَجُلًا مِحْرَباً - واحْفِزْ مَعَه أَهْلَ الْبَلَاءِ والنَّصِيحَةِ - فَإِنْ أَظْهَرَ اللَّه فَذَاكَ مَا تُحِبُّ - وإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى - كُنْتَ رِدْءاً لِلنَّاسِ ومَثَابَةً لِلْمُسْلِمِينَ.

(۱۳۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد وقعت مشاجرة بينه وبين عثمان فقال المغيرة بن الأخنس لعثمان: أنا أكفيكه، فقال عليعليه‌السلام للمغيرة:

اور ان کے محفوظ مقامات کی حفاظت کرے گا۔اور جس نے ان کی اس وقت مدد کی ہے جب وہ قلت کی بنا پر انتقام کے قابل بھی نہ تے اور اپنی حفاظت کا انتظام بھی نہ کر سکتے تھے وہ ابھی بھی زندہ ہے اور اس کے لئے موت نہیں ہے۔تم اگر خود دشمن کی طرف جائو گے اور ان کا سامنا کروگے اور نکبت(۱) میں مبتلا ہوگئے تو مسلمانوں کے لئے آخری شہرکے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہ رہ جائے گی اور تمہارے بعد میدان میں کوئی مرکز بھی نہ رہ جائے گا جس کی طرف رجوع کرسکیں لہٰذا مناسب یہی ہے کہ کسی تجربہ کارآدمی کو بھیج دو اور اس کے ساتھ صاحبان خیرو مہارت کی ایک جماعت کو کردو۔اس کے بعداگر خدا نے غلبہ دے دیا تویہی تمہارامقصد ہے اور اگر اس کے خلاف ہوگیا تو تم لوگوں کا سہارااورمسلمانوں کےلئے ایک پلٹنےکا مرکز رہو گے۔

(۱۳۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کااورعثمان کے درمیان اختلافات پیداہوا اورمغیرہ بن اخنس نے عثمان سے کہا کہ میں ان کا کام تمام کرسکتا ہوں توآپ نےفرمایا )

(۱)میدان جنگ میں نکبت و رسوائی کے احتمال کے ساتھ کسی مرد میدان کے بھیجنے کا مشورہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ میدان جہاد میں ثبات قدم تمہاری تاریخ نہیں ہے اور نہ یہ تمہارے بس کاکام ہے لہٰذا مناسب یہی ہے کہکسی تجربہ کارشخص کو ماہرین کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ کردو تاکہ اسلام کی رسوائی نہ ہوسکے اورمذہب کا وقار بر قرار رہے۔اس کے بعد تمہیں ''فاتح اعظم '' کا لقب تو بہر حال مل ہی جائے گا جس کے دورمیں علاقہ فتح ہوتا ہے تاریخ اسی کو فاتح کا لقب دیتی ہے اورمجاہدین کویکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔

یہ بھی امیر المومنین کا ایک حوصلہ تھا کہ شدید اختلافات اور بے پناہ مصائب کے باوجود مشورہ سے دریغ نہیں کیا اور وہی مشورہ دیا جو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں تھا۔اس لئے کہ آپ اس حقیقت سے بہر حال با خبرتھے کہافراد سے اختلاف مقصد اور مذہب کی حفاظت کو ذمہ داری سے بے نیاز نہیں بنا سکتا ہے اور اسلام کے تحفظ کی ذمہ داری ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے چاہے وہ بر سراقتدار ہو یا نہ ہو۔

۲۳۹

يَا ابْنَ اللَّعِينِ الأَبْتَرِ - والشَّجَرَةِ الَّتِي لَا أَصْلَ لَهَا ولَا فَرْعَ - أَنْتَ تَكْفِينِي - فَوَ اللَّه مَا أَعَزَّ اللَّه مَنْ أَنْتَ نَاصِرُه - ولَا قَامَ مَنْ أَنْتَ مُنْهِضُه - اخْرُجْ عَنَّا أَبْعَدَ اللَّه نَوَاكَ ثُمَّ ابْلُغْ جَهْدَكَ - فَلَا أَبْقَى اللَّه عَلَيْكَ إِنْ أَبْقَيْتَ!

(۱۳۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في أمر البيعة

لَمْ تَكُنْ بَيْعَتُكُمْ إِيَّايَ فَلْتَةً - ولَيْسَ أَمْرِي وأَمْرُكُمْ وَاحِداً - إِنِّي أُرِيدُكُمْ لِلَّه وأَنْتُمْ تُرِيدُونَنِي لأَنْفُسِكُمْ.

أَيُّهَا النَّاسُ أَعِينُونِي عَلَى أَنْفُسِكُمْ وايْمُ اللَّه لأُنْصِفَنَّ الْمَظْلُومَ مِنْ ظَالِمِه ولأَقُودَنَّ الظَّالِمَ بِخِزَامَتِه - حَتَّى أُورِدَه مَنْهَلَ الْحَقِّ وإِنْ كَانَ كَارِهاً.

(۱۳۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في شأن طلحة والزبير وفي البيعة له

طلحة والزبير

واللَّه مَا أَنْكَرُوا عَلَيَّ مُنْكَراً - ولَا جَعَلُوا بَيْنِي وبَيْنَهُمْ

اے بد نسل ملعون کے بچے ! اور اس درخت کے پھل جس کی نہ کوئی اصل ہے اور نہ فرع۔تو میرے لئے کافی ہو جائے گا؟ خدا کی قسم جس کا تومدد گار ہوگا اسکے لئے عزت نہیں ہے اور جسے تو اٹھائے گا وہ کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوگا۔نکل جا۔اللہ تیری منزل کو دور کردے۔جا اپنی کوششیں تمام کرلے۔خدا تجھ پر رحم نہ کرے گا اگر تو مجھ پرترس بھی کھائے۔

(۱۳۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(بیعت کے بارے میں )

میرے ہاتھوں پر تمہاری بیعت کوئی نا گہانی حادثہ نہیں ہے۔اور میرا اور تمہارا معاملہ ایک جیسا بھی نہیں ہے۔میں تمہیں اللہ کے لئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے فائدہ کے لئے چاہتے ہو۔

لوگو! اپنی نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں میری مدد کرو۔خدا کی قسم میں مظلوم کوظالم سے اس کاحق دلوائوں گا اور ظالم کو اس کی ناک میں نکیل ڈال کرکھینچوں گا تاکہ اسے چشمہ حق پر وارد کردوں چاہے وہ کسی قدرناراض کیوں نہ ہو۔

(۱۳۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(طلحہ و زبیر اور ان کی بیعت کے بارے میں )

خدا کی قسم ان لوگوں نے نہ میری کسی واقعی برائی کی گرفت کی ہے اورنہ میرے اور اپنے

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369