پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310226 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ

خورشید خاور ترجمہ شبہائے پشاور

مصنف

حجة الاسلام وسلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی

مترجم

الحاج مولانا سید محمد باقر صاحب باقری رئیس جوارس ضلع بارہ نیکی

تجدید نظر

سید اعجاز محمد ( فاضل)

۱

باسمہ سبحانہ،

من لم یشکر الناس لم یشکر اﷲ

ہم ان سطور میں محسن ملت، مبلغ مذہب ، مروج شیعیت ناشر حقائق دین اسلام، ناصر اہل بیت طاہرین علیہم السلام ، فخر المحققین، سید المدققین علامہ سید محمد باقر صاحب نقوی مد اﷲ ظلہ علی رؤوس الموالی بدوام الایا وللیالی کے اعماق قلب سے شکر گزار ہیں کہ آپ نے اپنے مطیع اصلاح کھجوا کی مطبوعات قیمہ و تصنیفات ثمینہ بلکہ بے بہا جواہر و لئالی میں سے حقیقت مذہب شیعہ میں نادر روز گار عظیم الشان تحقیقی شاہکار کتاب مستطاب خورشید خاور ترجمہ شبہائے پشاور کی جلد اول کی نشر و اشاعت اور طباعت کے جملہ حقوق مکتبہ الہمدانی سرگودھا کو مرحمت فرماکر ہم پر احسان عظیم فرمایا جس کے لیے ہم ہمیشہ آپ کے ممنون احسان رہیں گے۔ بے شک جو شخص کسی محسن کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ منعم حقیقی کے شکر کی سعادت سے بھی محروم رہتا ہے۔ اس کتاب میں ایران کے عالم متبحر آقائے سلطان الواعظین اور ہندوستان و کابل کے جلیل القدر علماء کی شہر پشاور میں مذہب شیعہ سے متعلق دلچسپ اور دوستانہ گفتگو ، جس کا سلسلہ دس راتوں تک رہا اور جس میں مذہب شیعہ کے تمام اصول و فروع پر محققانہ بحثین ہوئیں ۔ ہر مسئلہ پر سلطان الواعظین نے مذہب شیعہ کی حقیقت ایسے دلائل ساطعہ و براہین قاطعہ سے ثابت کی کہ علمائے اسلام بھی اعتراف پر مجبور ہوگئے۔انہی مباحثوں کو سلطان الواعظین نے شبہائے پشاور کے نام سے مرتب فرمایا جس کا اردو میں ترجمہ فخرالحجاج والزائرین جناب مولانا الحاج سید محمد باقر صاحب رئیس جوارس ضلع بارہ نیکی نے کیا اور ادارہ اصلاح کھجوا نے بڑے اہتمام سے شائع کیا۔

چونکہ پاکستان کے اکثر لوگ اس کتاب کی افادیت ، انفرادیت، اہمیت دندرت سے ناواقف تھے اس لیے ہم نے مکرم و محترم علیجناب علامہ سید محمد باقر صاحب مدﷲ ظلہ وہ فقہ سے اس کی نشر و اشاعت و طباعت کے لیے اجازت حاصل کی۔

چنانچہ علامہ موصوف مدظلہ نے بڑی وسعت قلبی کیساتھ اجازت مرحمت فرمائی۔ جیسا کہ حقائق مذہبیہ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ان کا شعار اور معارف دینیہ کا زیادہ سے زیادہ پرچار ان کا وثار ہے۔

مهتمم مکتبة الهمدانی سرگودھا

۲

اشارہ

بسم اﷲ والحمد ﷲ علی نواله والصلوٰة والسلام علی محمد وآله

میں اپنے حبیب لبیب جناب مولانا سید محمد باقر صاحب مدیر اصلاح اور مکرمی جناب سید محمد صاحب کنز رویٹر فار لیسٹ پٹنہ کی فرمایش کی بنا پر برادرانِ ایمانی کی خدمت میں زیر نظر ترجمہ پیش کرتے ہوئے بجا طور پر فخر محسوس کرتا ہوں کیونکہ اس کا تعلق شب ہائے پشاور ایسی مبسوطہ اور جامع و مانع کتاب سے ہے اور جو آقائے سلطان الواعظین دام ظلہ کے ان بے نظیر اور ایمان افروز مذاکرات علمیہ کا مجموعہ ہے جن کو نگاہ حق و انصاف سے مطالعہ کرلنے کے بعد کوئی شخص مذہب حق کی تلاش میں گمراہی اور دھوکے کا شکار نہیں ہوسکتا ۔ مجھ کو یقین ہے کہ یہ کتاب باطل کی تاریکی کو دور کرنے اور منزل حقیقت کو روشن کرنے میں انشاء اﷲ آفتاب نصف النہار کا کام کرے گی چنانچہ اسی خیال کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے اس ترجمہ کا نام “ خورشید خاور” تجویز کیاہے۔

تھوڑے سے افسوس کیساتھ یہ بھی عرض کرودوں کی اختصار کا لحاظ رکھتے ہوئے مجبورا آقائے موصوف کے مقدمات دیباچہ اور درمیان کتاب سے کچھ مضامین مفید ہونے کے باوجود حذف کردینا پڑے ہیں۔ پھر بھی اس بات کا پورا خیال رکھا گیا ہے کہ اصل کتاب کا کوئی ایسا جز کم نہ کیا جائے جس سے مباحثے کی افادیت و جامعیت پر کوئی مضر اثر پڑے ۔ امید ہے کہ ناظرین اس قہری کوتاہی کو نگاہ در گذر سے دیکھتے ہوئے خیال خاکسار مترجم محترم مدیر اصلاح اور مکرمی جناب سید محمد صاحب نیز سلطان الواعظین دام ظلہم کے لیے دعائے خیر میں بخل نہ فرمائیں گے۔ والسلام

عاصی

محمد باقرالباقری الجواسی عفی عنہ

۳

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

آغازِ سفر

ماہ ربیع الاول سنہ۱۳۴۵ہجری میں جب میں اپنی زندگی کی تیسویں منزل طے کر رہا تھا زیارت عتبات عالیات سے مشرف ہوکر ہندوستان کے راستے سے ضامن ثامن حضرت امام رضا علیہ السلام کی عتبہ بوسی کے لیے روانہ ہوا کراچی اور ببئی پہنچنے کے بعد خلاف امید خاص خاص جرائد اور اخبارات نے میری آمد کی خبر شائع کی۔ میرے پرانے دوستوں اور خلوص احباب ایمانی نے مطلع ہوکر اطراف ملک سے دعوت نامے بھیجنا شروع کیے مجبورا تعمیل حکم کرتے ہوئے دہلی ، آگرہ، سیالکوٹ ، کشمیر، حیدر آباد ، بہاول پور، کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں حاضر ہوا۔ اور جہاں بھی وارد ہوا ۔ بلا تفریق قوم، ملت پوری تعظیم و تکریم کیساتھ استقبال ہوا اور اکثر شہروں میں دوسرے مذاہب کے علماء کی طرف سے باب مناظرہ باز رہا۔ مخصوص جلسوں میں سے ایک وہ مناظرہ تھا۔ جو ہندوستان کے قومی پیشوا گاندھی جی کے سامنے علمائے اہل ہنود اور برہمنوں سے منعقد ہوا۔ اور اخبارات و رسائل میں اس کی تفصیل شائع ہوئی ۔ چنانچہ توفیق الہی اور حضرت خاتم الانبیاء کی تائید خاص سے میں کامیابی کیساتھ مقدس دین اسلام اور مذہب حقہ جعفریہ کی حقانیت ثابت کردی۔ پھر زیر صدارت جناب ابوالبشر سید عنایت علی شاہ مدیر محترم اخبار ہفتہ وار اردو در نجف، انجمن اثنا عشریہ “ شہر سیالکوٹ کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا، اور میں اس طرف روانہ ہوگیا۔ حسن اتفاق سے میرے قدیم و صمیم دوست جناب سردار محمد سرور خان رسالدار فرزند رسالدار محمد اکرم خاں مرحوم و برادر کرنل محمد افضل خان نے جو پنچاب میں ہندوستان کے خاندان قزلباش کے نامی سرداروں میں سے تھے۔ سنہ۱۳۳۹ و سنہ۱۳۴۰ ہجری میں کربلا و کاظمین اور بغداد میں افسر رہ چکے تھے۔ خاندان قزلباش کے شریف و مشہور، مومن و محوش عقیدہ اور پاکدامن افراد میں سے تھے اور شہر سیالکوٹ میں رئیس ادارہ عالیہ اور عام طورپر احترام و بندگی کے مالک تھے مختلف طبقوں کے کثیر مجمع کیساتھ میرا شاندار استقبال کیا اور میں ان کے دولتکدہ پر مہمان ہوا ۔ جب اخبارات کے ذریعہ پنجاب میں میرے آنے کی خبر پھیلی تو باوجودیکہ میں ایران کی طرف روانہ ہونے کے لیے کوشش اور اصرار کر رہا تھا چاروں طرف سے مسلسل دعوت نامے

۴

پہنچنے لگے۔ بالخصوص حجة الاسلام جناب مولانا سید علی الحائری ، صاحب تفسیر لوامع التنزیل شہر لاہور کی طرف سے جو پنجاب کے نامور علمائے شیعہ میں سے تھے مجبورا میں برابر سفر اور زیارت برادرانِ ایمانی میں مصروف رہا ۔ من جملہ مومنین و برادران خاندان قزلباش کے جو پنجاب کے مخصوص شیعہ روسا میں سے ہیں افغانستان کے قریب آخری بڑے سرحدی شہر پشاور میں بھی مدعو ہوا۔ چنانچہ جناب محمد سرور خان کے اصرار سے اس کو منظور کر کے چودھویں رجب کو ادھر روانہ ہوا ۔ وہاں پہنچنے پر انتہائی اکرام و احترام کے بعد وعظ و تقریر کا تقاضا کیا گیا ۔ ( چونکہ میں ہندوستانی زبان سے بخوبی واقف نہیں ہوں۔ لہذا ہندوستان کے کسی شہر می منبر پر نہیں گیا۔ لیکن اہل پشاور عموما فارسی زبان سے اچھی طرح سے جانتے ہیں اس لیے میں نے قبول کر لیا اور ایک مدت تک مرحوم عادل بیگ رسالدار کے امامباڑے میں مخصوص طور پر مجالس کی تشکیل ہوتی رہی اور میں مختلف ادیان و مذاہب والوں کے کثیر مجمع کے سامنے اپنا فریضہ ادا کرتا رہا۔ چنانچہ ان لوگوں کے محترم علماء نے جو تبلیغی مجالس میں شریک ہوتے تھے خصوص نشست کی فرمائش کی گئی راتوں تک وہ حضرات میری قیام گاہ پر تشریف لاتے رہے اور گھنٹوں بحث و مباحثہ ہوتا رہا ۔ ایک روز جب میں منبر سے اترا تو معلوم ہوا کہ اکابر علمائے کابل میں سے دو عالم حافظ محمد رشید اور شیخ عبدالسلام ضلع ملتان سے تشریف لائے ہیں اور ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے وقت دیا اور وہ حضرات پے در پے در راتوں تک نماز مغرب کے بعد تشریف لاتے رہے ، ہر شب کا فی دیر تک جو غالبا چھ اور سات گھنٹہ کی مدت ہوتی تھی، اور بعض راتوں میں طلوع صبح کے قریب تک، ہمارا وقت مباحثوں اور مناظروں میں گذرتا تھا، یہاں تک کہ آخری شب کے خاتمے پر اہل سنت کے بزرگان و رؤسا اور اعناف محترم میں سے چھ افراد نے مذہب حقہ، شیعہ اختیار فرمایا۔

چونکہ اخبارات و رسائل کے نامہ نگاروں میں سے چار اشخاص ، فریقین ( شیعہ و سنی ) کی تقریبا دو سو نمایاں شخصیتوں کے سامنے طرفین کے مناظرات اور مقالات کو لکھتے تھے اور سدوسرے دن اخبارات و رسائل میں شائع کرتے تھے۔میں ان اشاعتوں سے ہر شب کے مقالات اور بحثیں جمع کرتا رہا اور اب سای مجموعے کو قارئین کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے اس کتاب کا نام، شبہائے پیشاور، رکھا جو کچھ صاحبان علم و ادب کے سامنے پیش ہو رہا ہے اس میں اس خیرا اندیش پر خور دہ گیری نہ فرمائیں۔ کیونکہ مناظرے کے موقع پر کوئی شخص الفاظ اور زیبائش کلام کی طرف توجہ نہیں رکھتا بلکہ ساری توجہ مطالبات اور حقائق کی طرف رہتی ہے جس طرح سے رسالوں میں چھپ چکا ہے اس میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ بعینہ وہ عبارتیں آپ کے سامنے پیش کی جارہی ہیں۔

ان مناظروں میں جن مطالب پر بحث و گفتگو ہے وہ آیات قرآن مجید ، معتبر احادیث و اخبار ، محققین و اساتذة کلام و علماء بزرگ اور پیشوایان دین کے بیانات اور تائیدات غیبی سے مستنبط ہیں۔

من بسر منزل عتقا نہ بخو و بروم راہ قطع این مرحلہ یا مرغ سلیمان کردم

۵

مجلسِ مناظرہ

پیشاور کے سربرآوردہ رئیس اور میرے میزبان عالیجناب مرزا یعقوب سب علی خان قزلباش کا دولت خانہ چونکہ وسیع تھا اور اس میں ایک بڑے مجمع کے لحاظ سے ہر طرح کی سہولتیں مہیا تھیں لہذا مجلس مناظرہ کے لیے اسی کو تجویز کیا گیا جہاں پوری دس راتوں تک جلسہ منعقد رہا اور انہوں نے انتہائی خلوص کیساتھ اس پورے مجمع کی خاطر تواضع کی۔

پہلی نشست

شب جمعہ ۲۳ رجب سنہ۱۳۴۵ہج

مولانا حافظ محمد رشید ، شیخ عبدالسلام ، سید عبدالحق اور مختلف طبقوں میں سے ان کے چند دوسرے علماء و بزرگان ملت رات کی پہلی ساعت میں وارد ہوئے ہیں ان حضرات سے انتہائی گرم جوشی اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملا، اگرچہ وہ لوگ بہت دل گرفتہ اور ناخوش تھے لیکن چونکہ میں جاہلانہ تعصب و عناد کی نظر نہیں رکھتا تھا لہذا اپنے اخلاقی فریضے پر عمل کرتا رہا۔ فریقین کے محترم افراد کی کثیر جماعت کے سامنے مذاکرات شروع ہوئے ۔ رسی طور پر فریق صحبت جناب حافظ محمد رشید تھے لیکن کبھی دوسرے بھی اجازت لے کر داخل گفتگو ہوجاتے تھے۔ رسالوں اور اخباروں میں مجھ کو “ قبلہ و کعبہ کے عام سے تعبیر کیا ہے جو ہندوستان کے کے اندر روحانیت کے اہم مروجہ القاب میں سے ہے لیکن یا دواشت کے ان صفحات میں میں اس کلمے کو بدل کر اپنے لیے “ خیر طلب” اور حافظ محمد رشید صاحب کےلیے “ حافظ ” کا لفظ استعمال کرتا ہوں۔

حافظ : قبلہ صاحب ! آپ کے پیشاور تشریف لانے کے وقت سے اور برسر منبر تقریر کرنے سے اب تک بحث و مناظرہ اور اختلاف کے کافی جلسے ہوچکے ہیں۔ چونکہ ہم لوگوں پر لازم ہے کہ رفع اختلاف کے لیے کھڑے ہوں۔۔۔۔۔۔ لہذا شبہات کے دفع کرنے کے لیے مسافت طے کر کے پیشاور آئے اور آج امام باڑے میں آپ کے کلمات اور بیانات پورے طور سے سنے آپ کا سحر بیان جیسا سنا تھا۔ اس سے زیادہ پایا۔ آج کی رات بھی ہم آپ کی ملاقات سے فیض حاصل کرنے آئے چنانچہ اگر آپ اگر آپ کی مرضی ہوتو شامل صحبت ہو کر آپ کے ساتھ کچھ بنیادی گفتگو کریں۔

۶

خیر طلب : میں بہت خوشی کیساتھ آپ کے کلمات و ارشادات سننے کے لیے حاضر ہوں۔ لیکن ایک شرط کیساتھ کہ براہ کرم دیدہ تعصب و عادت کو بند رکھیں ہم لوگ وہ بھائیوں کو طرح انصاف اور علم و منطق کا نگاہ سے شبہات کوحل کرنے کے لیے گفتگو کریں اور مجادلات و تعصبات قومی کو الگ رکھ دیں۔

حافظ : آپ کا ارشاد بالکل بجا ہے میں بھی ایک شرط رکھتا ہوں، امید ہے کہ آپ قبول کیجئے گا ۔ اور وہ یہ کہ با ہمی بات چیت میں ہم قرآنی دلائل سے تجاوز نہ کریں۔

خیر طلب : آپ کا یہ تقاضا عقلا اور علماء کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے یعنی علمی اور عقلی حیثیت سے غلط ہے کیونکہ کہ قرآن مجید ایک ایسی مجمل و مختصر مقدس کتاب ہے جس کے بلند مطالب مفسر کی تشریح کے محتاج ہیں۔ اور ہم مجبور ہیں کہ قرآنی کلیات کے ذیل میں معتبر اخبار و احادیث کے ذریعے ثبوت پیش کریں۔

حافظ : یہ درست ہے یہ ایک سلجھی ہوئی فرمایش ہے لیکن میرا تقاضا ہے کہ جب ایسا کرنا ضروری ہو تو ہم متفق علیہ اخبار و احادیث سے ہی استدلال کریں اور عوام کے کلمات اور سنی سنائی باتوں سے پر ہیز کریں اور غصہ اور تعصب سے الگ رہیں تاکہ دوسروں کے لیے مضحکہ نہ بن جائیں۔

خیر طلب : بسر وچشم ، آپ نے بہت صحیح فرمایا ۔ صاحبان علم و عقل اور بالخصوص میرے لیے جس کو سیادت اور رسول اﷲ(ص) سے انتساب کا فخر حاصل ہے قطعی مناسب نہیں کہ اپنے جد بزرگوار رسول خدا(ص) کی سیرت اوع سنت سے اںحراف کرے جو پورے حسن اخلاق پر فائز اور آیہ مبارکہ و إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (۱) کے مخاطب تھے اور قرآنی ہدایات کے خلاف عمل کرے جیسا کہ ارشاد ہے:

"ادْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ- وَ جادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ " (۲)

حافظ :- معاف فرمائے گا چونکہ آپ نے آپنی تقریر کے ضمن میں رسول اللہ(ص)کے ساتھ اپنی نسبت ظاہر کی۔اور اسی طرح سے مشہور بھی ہے ،کیا یہ ممکن ہے کہ میری گزاش قبول کرتے ہوئے ہماری مزید واقفیت کیلئے اپناشجرہ نسب بیان فرمائیے تاکہ ہم دیکھیں کہ آب کا نسب کس سلسلے سے پیغمبر تک ملتی ہے ۔

خاندانی نسب کا تعین

خیرطلب:- میرے خاندان کا نسب حضرت امام موسی کاظم کے ذریعے اس سلسلے سے رسول

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ـ یعنی یقینا تم صاحب خلق عظیم ہو۔

۲ ـ یعنی (ائے میرے رسول (ص)) خلق کو حکمت برہان اور اچھے موعظے کیساتھ راہ خدا کی طرف دعوت دو اور ان سے بہترین طریقے اور اچھے انداز سے مجادلہ کرو۔ ( آیہ ۱۲۶ سورہ نجل)

۷

اللہ (ص)تک منتہی ہوتا ہے ۔

محمد ابن علی اکبر(اشرف الواعظین)بن قاسم(بحرالعلوم)بن حسن ابن اسماعیل مجتہد الواعظ بن ابرہیم بن صالح بن ابی علی محمد(معروف بہ مروان)بن ابی القاسم محمد تقی بن (مقبول الدین)حسین بن ابی علی حسن بن محمد فتح اللہ بن اسحاق بن ہاشم بن ابی محمد بن ابراہیم بن ابی الفتیان بن عبد اللہ بن الحسن بن احمد(ابی الطیّب)بن ابی علی حسن بن ابی جعفر محمد الحائری(نزیل کرمان بن ابراہیم (معروف بہ مجاب)بن امیر محمد العابدین امام موسی الکاظم بن امام جعفر الصادق بن امام محمد الباقر بن امام علی زین العابدین بن امام ابی عبداللہ الحسین (سید الشہدا)الشہید بالطف بن امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیھم السلام ۔

حافظ:- یہ جو شجرہ آپ نے بیان فرمایا ہے امیر المؤمنین علی کرّم اللہ وجھہ تک منتہی ہوتا ہے درانحالیکہ آپ نے اپنے کو رسول خدا(ص)سے منسوب کیا تھا ۔ حق تو یہ ہے اس سلسلہ نسب سے آپ کو چاہیئے تھا کہ اپنے آپ کو اقربائے رسول(ص)سے کہتے نہ کہ آں حضرت(ص)کی اولاد ،کیونکہ اولاد وہی ہے جو رسول اللہ (ص)کی ذریت سے ہو۔

خیرطلب:- ہمارا نسب رسول اللہ تک صدّیقہ کبرای فاطمہ زہرا(س)کی طرف سے پہنچتا ہے کہ جو جضرت امام حسین علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہے ۔

حافظ :- تعجب ہے آپ کے اوپر کہ اہل علم وخبر ہوکر بھی ایسی بات منہ سے نکالتے ہیں ،حالانکہ خود جانتے ہیں کہ آدمی کہ سلسلہ نسب اور نسل اولاد ذکور کی طرف سے ہے نہ کہ اناث کی طرف سے ، اور حضرت رسول خدا(ص)کا بیٹوں سے کوئی سلسلہ نہیں لہذا آپ رسول اللہ کے نواسے اور دخترزادے ہیں نہ آنحضرت(ص)کی اولاد ۔

خیرطلب :- مجھ کو یہ خیال نہیں تھا کہ آپ حضرات اس بات میں اتنی ضد کریں گے ورنہ میں جواب ہی نہ دیتا ۔

حافظ:- آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ، میری گفتگو میں کوئی ضد نہیں تھی بلکہ میری رائے یہی ہےجیسا کہ بہت سے علما ء بھی میرے ہم خیال ہیں کہ نسل اورذریّت اولاد ذکورسےچلتی ہے اناث سے نہیں ۔

چنا نچہ شاعر کہتاہے :-

بنونا بنو ابنائنا و بنا تنا ----بنو هن ابناء الرّجال الاباعد (۱)

اگر آپ اس بات کے خلاف اس بات پر کوئی دلیل رکھتے ہوں کہ رسول (ص)کی بیٹی کی اولاد آں حضرت (ص)ہی کی اولاد شمار ہوتی ہے، تو بیان کیجئے ۔ اگر آپ کا استدلال مکمل ہوگا تو یقینا ہم لوگ مان لیں گے ،بلکہ ممنون بھی ہوں گے ۔

خیر طلب قرآن مجید اور فریقین کے اخبار معتبرہ سے بہت قوی دلیلیں موجود ہیں ۔

-----------------

(۱):- (ہمارے بیٹوں کے بیٹے بیٹیاں ہم سے ہیں لیکن ہماری بیٹیوں کے بیٹے بیٹیاں دور کے مردوں سے ہیں)(یعنی ہم سے نہیں ہیں)

۸

حافظ :- میں متمنّی ہوں کہ بیا ن کیجئے تاکہ ہم مستفیض ہوں ۔

خیرطلب :-یہ آپ کی گفتگو کے ضمن میں مجھ کو وہ مناظرہ یاد آیا جو اسی موضوع پر ہارون رشید خلیفہ عباسی اور حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے درمیان واقع ہوا تھا ۔اور حضرت نے ہارون رشید کو ایسا کافی جواب دیا تھ کہ خود اس نے بھی اس کی تصدیق کی تھی ۔

حافظ:- وہ مناظرہ کیونکر ہوا ہے ؟!بیان کیجئے میں مشتاق ہوں ۔

ذریت رسول (ص)کے بارے میں بارون رشید اور امام موسی کاظم (ع)کا سوال وجواب

خیر طلب:- ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن موسی بن بابویہ قمی ملقب بہ صدوق نے جو چوتھی صدی ہجری می اکابر علماء ،فقہائے شیعہ میں سے تھے ،علم حدیث کے نقّاد اور حالات رجال کے ماہر تھے ،علمائے قم اور خراسان کے درمیان حافظے اور کثرت علم میں ان کا مثل پیدا نہیں ہوا ۔ تین سو تصا نیف کے مالک تھے جن میں سے ایک کتاب "من لا یحضرہ الفقیہ "شیعوں کی ان چار کتابوں میں سے ہے جن پ ر ہر زمانے میں انحصار رہا ہے ۔ سنہ ۳۸۱ ھ میں ایران کے موجودہ پائتخت طہران کے قریب رے میں وفات پائی اورآپ کی قبر شریف اب تک اہل طہران اور باہر سے آنے والوں کے کی زیارت گاہ ہے ۔ اپنی معتبر کتاب "عیون اخبار الرضا"میں ابو منصور احمد بن علی طبرسی نے کتاب "احتجاج"میں مناظرے کی مفصّل کیفیت لکھی ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ایک روز ہارون رشید کے دربار میں تشریف لے گئے ،اس نے چند سوالاد کئے اور ان کے جوابات سنے ۔۔الی آخر ۔من جملہ اس کے سوالوں کے یہ سوال بھی تھا کہ اس نے کہا ۔

"کیف قلتم انا ذرّیة النّبی والنّبی لم یعقب وانّما العقب للذّکر لا للا نثی وانتم ولد البنت ولا یکون له عقب " (۱)

حضرت نے اس کے جواب میں سورہ انعام کی یہ آیت نمبر ) ۸۴-۸۵) تلاوت فرمائی: -ومن ذرّیته دا‎‎ؤد وسلیمان وایّوب ویوسف وموسی وهارون وکذالک نجزی المحسنین وذکریا ویحیی وعیسی والیاس کل من الصالحین "(۲)

--------------

(۱):- تم یہ کیوں کر کہتے ہو کہ ہم اولاد رسول ہیں ؛ حالانکہ پیغمبر (ص)کوئی نسل نہیں رکھتے تھے اور یہ مسلّم ہے کہ نسل لڑکے سی چلتی ہے ،لڑکی سے نہیں ۔تم بیٹی کی اولاد ہو اور آں حضرت (ص)نے کوئی نسل نہیں چھوڑی (یعنی اولاد ذکور سے)۔

(۲):- اور پھر ابراہیم علیہ السّلام کی اولاد میں داؤدعلیہ السّلام ,سلیمان علیہ السّلام ایوب علیہ السّلامً یوسف علیہ السّلام,موسٰی علیہ السّلام ,اور ہارون علیہ السّلام قرار دئیے اور ہم ا ِسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں ۔ اور زکریا علیہ السّلام,یحیٰی علیہ السّلام,عیسٰی علیہ السّلام اور الیاس علیہ السّلام کو بھی رکھا جو سب کے سب نیک کرداروں میں تھے ۔

۹

اور اس سے استدلال فرماتے ہوئے ہارون رشید سے کہا کہ من ابو عیسٰی ؟یعنی عیسٰی کا باپ کون ہے ،ہارون رشید نے جواب دیا کہ لیس لعیسٰی اب یعنی عیسٰی کا کوئی باپ نہیں تھا ۔حضرت نے فرمایا "انّما الحقه بذراری الانبیاء علیهم السلام من طریق مریم ولذالک الحقنا بذراری النّبی من قبل امّنا فاطمة"

یعنی سوا اس کے کوئی بات نہیں کہ خدائے تعالی نے ان کو مریم کے سلسلے سے انبیاء کی ذریّت میں داخل فرمایا اور اسی طرح سے ہم کو ہماری ماں جناب فاطمہ (س)کی طرف سے رسول خدا (ص)کی ذریّت میں قراردیا ۔ امام فخر الدّین رازی بھی تفسیر کبیر جلد چہارم میں صفحہ نمبر۱۲۴میں اس آیت کے ماتحت مسئلہ پنجم میں کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن او رحسین (ع) رسول اللہ(ص)کی ذریّت ہیں کیونکہ خدانے اس آیت میں عیسٰی کو جناب ابراہیم (ع)کی ذریّت سے قرار دیا ہے ،درانحالیکہ عیسٰی کا کوئی باپ نہیں تھا ؛ یہ انتساب ماں کی طرف سے ہے چنانچہ حسنین(ع)بھی اسی طرح سے ماں کی جانب سے ذریّت رسول(ص) ہوتے ہیں ۔جیسا کہ حضرت باقر العلوم امام پنجم نے بھی حجّاج کے سامنے اسی آیت سے استدلال فرمایا ہے۔

پھر حضرت(امام موسی کاظم علیہ السلام نے ہارون رشید کو)نے فرمایا کہ کیا تمہارے لئے کوئی اور دلیل بیان کروں ؟ہارون رشید نے عرض کیا کہ بیا ن کیجئے تو آپ نے آیت مباہلہ پڑھی جو سورہ مبارکہ آل عمران کی آیت ۶۱ ہے ۔

"فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ " (۱)

اور فرمایا کہ کسی شخص نے یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ مباہلے کے موقع پر پیغمبر (ص)نے نصاری کے مقابلے میں حکم خدا سے سوا علی ابن ابی طالب ،فاطمہ ، حسن اورحسین علھیم السلام کے کسی اور کو کساء کے نیچے داخل کیا لہذا مطلب یہی نکلتا ہے کہ انفسنا سے علی ابن ابی طالب ،نسائنا سے فاطمہ زہراء اور ابنا ئنا سے حسن حسین (ع)مراد ہیں جن کو خدا نے اپنے رسول کے فرزند فرمایا ہے ۔ جوں ہی ہارون نے یہ واضح دلیل سنی بے اختیار بول اٹھا "احسنت یا ابا الحسن " چنانچہ ہارون کے مقابلے میں امام موسی کاظم کے اس استدلال سے" حسنین (ع)فرزند رسول خدا(ص)ہیں "ثابت ہوتا ہے ۔

--------------

(۱)پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ۔

۱۰

اس بات پر کافی دلائل کہ اولاد فاطمہ (س)اولاد رسول(ص)ہیں

چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی جوآپ کے سربرآوردہ علماء میں سے ہے شرح نہج البلاغہ میں اور ابو بکررازی اپنی تفسیر میں عیسٰی کو ان کی ماں مریم کی طرف سے اولاد جناب ابراہیم میں داخل فرمایا ۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب میں ،ابن حجر مکی صواعق محرقہ صفحہ ۷۴-۹۳ میں طبرانی سے اور وہ جابر بن عبداللہ انصاری سے اور خطیب خوارزمی مناقب میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص)نے فرمایا "انّ الله عزّوجلّ جعل ذریة کل نبی فی صلبه وجعل ذریتی فی صلب علی ابن ابی طالب " یعنی خدائے عزوجل نے ہر پیغمبر کی ذریت خود اسے کے صلب میں قرار دیا اور میری ذریت علی ابن ابی طالب میں رکھی ہے ۔

خطیب خوارزمی مناقب میں ،میر سید علی ہمدانی شافعی مودۃ القربی میں ،امام احمد بن حنبل جو آپ کے کبار علماء میں سے ہیں اور سلیمان حنفی بلخی نے ینا بیع المودۃ میں نقل کرتے ہیں کہ (الفاظ کی تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ)کہ رسول اکرم(ص)نے فرمایا "هذان ریحانتان من الدنیا ابنای لهذان امامان قاما او قعدا" یعنی میرے یہ دونوں فرزند( حسن اور حسین)دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔ اور میرے یہ دونوں فرزند امام ہیں خواہ امر امامت پر قائم ہوں یا خاموش اور قاعد ۔ اورشیخ سلیمان بلخی نے ینا بیع المودۃ کا باب ۵۷ اسی موضوع کیلئے مخصوص قراردیا ہے ۔اور مختلف طریقوں سے بکثرت حدیثیں اپنے جلیل القدر علماء جیسے طبرانی، حافظ عبدالعزیز ،ابن ابی شبیہ ،خطیب بغدادی،حاکم، بیقہی،بغوی، اورطبری وغیرہ سے مختلف الفاظ اور عبارت کے ساتھ نقل کی ہیں کہ حسن اور حسین(ع)رسول خدا(ص)کے فرزند ہیں ۔ اسی باب کے آخر میں ابو صالح ،حافظ عبد العزیز الاخضر،ابو نعیم اور طبری سے ،اور ابن حجر مکّی صواعق محرقہ صفحہ ۱۱۲ میں محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے سو بابوں کے بعد فصل اوّل کے آخر میں اور طبری نے ترجمہ حالات حضرت امام حسن علیہ السلام میں، خلیفہ ثانی عمر بن خطّاب سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا "انّی سمعت رسول الله یقول کل حسب ونسب فمنقطع یو م القیامة ما خلا حسبی و نسبی وکل بنی انثی عصبتهم لابیهم ما خلا بنی فاطمة فانی انا ابو هم و انا عصبتهم " یعنی میں نے رسول خدا(ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا "ہر حسب ونسب قیامت کے دن منقطع ہو جائے گا سوائے میرے حسب ونسب کے اور ہر دختری اولاد کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ہے سوائے اولاد فاطمہ (س)کے کہ

۱۱

میں ان کا باپ اورنسب ہوں ۔ شیخ محمد بن محمد عامر شبیراوی شافعی نے کتاب "الاتحاف لجب الاشراف "میں اس حدیث کو بیہقی سے اور دار قطنی نے عبداللہ ابن عمر سے اور انہوں نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے ۔جلا ل الدین سیوطی نے اپنی کتاب "احیاء اہلبیت بفضائل اہلبیت "میں اوسط طبرانی سے نقل کرتے ہوئے خلیفہ عمر سے نقل کرتے ہیں اور سید ابو بکر شہاب الدین علوی نے "رشقتہ الصاد من بحر فضائل النبی الہادی" مطبوعۃ مطبع اعلامیۃ مصر سنہ ۱۳۰۳ ھ کے صفحہ ۲۱ باب ۳ میں صفحہ ۴۳ تک نقل واستشہاد کیا ہے کہ اولاد فاطمہ(س) اولاد رسول (ص)ہیں لہذا شاعر کا شعر جو آپ نے پیش کیا ہے وہ تمام مضبوط دلائل کے سامنے مہمل ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے سویں باب کے بعد فصل کو اسی شعر کے جواب میں اس مطلب سے مخصوص کیا ہے کہ پیغمبر(ص)کے دخترزادے آں حضرت (ص)کے فرزند ہیں ۔ اور یہ شعر زمانہ کفر کے شاعر کا ہے جس نے اس کو اسلام سے قبل نظم کیا ہے ۔ جیسا کہ صاحب جامع الشواہد نے نقل کیا ہے اسی قبیل سے کثرت کے ساتھ ایسی دلیلیں ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ فرزندان فاطمہ صدیقہ سلام اللہ علیہا فرزندان رسول اللہ (ص)ہیں لہذا جب ہمارا سلسلہ نسب حضرت امام حسین علیہ السلام تک ثابت ہوگیا تو ہم بیان کرچکے معتبر دلائل کی بنا پر ثابت ہے کہ ہم لوگ فرزندان و اولاد رسول خدا ہیں اور ہمارا سب سے فخر اسی بات پر ہے کہ اور کسی شخص کو سو اذریت رسول (ص)کے ایسا افتخار حاصل نہیں ہے کیا خوب کہا ہے فرزدق شاعر نے ؟

اولئک آبائی فجئنی بمثلهم ----اذاجمعتنا یا جریر الجامع (۱)

خلاصہ یہ کہ ابنائے زمانہ اور اہل دنیا میں سے کوئی شخص اپنے اجداد کی بزرگی پر فخر مباہات نہیں کرسکتا ہے ، سوا شرفاءاور سادات کے جن کی نسبت خاتم الانبیا اور علی المرتضی صلوات اللہ وسلامہ علیھما تک منتہی ہوتی ہے ۔

حافظ :- آپ کے دلائل بہت تسکین بخش اور مکمّل تھے جن سے ضدّی اور متعصّب اشخاص کے قطعا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا میں ممنون ہوں کہ آپ نے حقیقت کو بے نقاب کرکے ہم لوگوں کو مستفیض فرمایا جس سے بڑا شبہ رفع ہوگیا

اتنے میں مسجد سے نماز عشاء کے لیے موذن کی اذان کی آواز بلند ہوئی کیونکہ برادران اہل سنت بصورت نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ایک دوسرے سے الگ اور اس کے وقت فضیلت پر بجالاتے ہیں ۔ بر خلاف شیعوں کے جو رسول خدا(ص) اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی جمع اور تفریق کے درمیان مختار ہیں) وہ حضرات

--------------

(۱) (یعنی یہ ہیں میرے آباء واجداد پس لاؤ میرے سامنے ان کی مثل جس وقت محفلوں اور انجمنوں میں ہم اکھٹے ہوں۔)

۱۲

مسجد جانے اور فریضہ ادا کرنے کے لیے آمادہ ہوئے لیکن بعض صاحبان نے کہا کہ اگر واپس آنے اور مباحثہ جاری رکھنے کا قصد ہے تو مسجد جانے اور آنے میں نشست کا کافی وقت نکل جائیگا۔ لہذا بہتر یہ ہےکہ جب تک اس صحبت کا سلسلہ ہے نماز عشاء اسی جگہ ادا کی جائے فقط مولوی سید عبدالحی امام جماعت مسجد چلے جائیں اور مسجد میں لوگوں کو نماز پڑھا کر واپس آئیں ۔ یہ رائے سب حضرات نے قبول کی لہذا ساری مدت مناظرہ میں یعنی دس راتوں تک اسی مقام پر نماز عشاء ہوتی رہی چنانچہ وہ حضرات ایک دوسرے بڑے ہال میں چلے گئے اور نماز پڑھ کر مناظرے والے کمرے میں واپس آئے۔

نواب:- نواب عبد القیوم خان نے جو ا ہ ل تسنن ک ے شرفاءاور رؤساء م یں سے اور بال ک ی کھ ال نکالن ے اور جستجو کرن ے وال ے انسان ت ھے ، ک ہ ا ک ہ قبل ہ صاحب اگر آپ اجازت د یں تو جب تک حضرات چائے نوش فرمائ یں میرے دل موضوع بحث سے خارج ا یک سوال ہے اس کو عرض کرو ں۔

خیر طلب:- فرمایئے میں سننے ک یلئے تیار ہ و ں ۔

نواب :- میرا سوال بہ ت مختصر ہے چونک ہ مدتو ں س ے م یرے دل میں تھ ا ک ہ باخبر ش یعہ حضرات سے پوچ ھ و ں گا ، ل یکن کوئی موقع ہ ات ھ ن ہ آ یا اور اب اس کا مناسب محل آگیا ہے ل ہ ذا عرض کرنا چا ہ تا ہ و ں ک ہ حضرات ش یعہ سنت رسول خدا (ص)کے خلاف نماز ظ ہ ر وعصر ا ور مغرب وعشاء کو ملا کر کس لئے پ ڑ ھ ت ے ہیں ؟ ۔

پیغمبر(ص)نماز ظہ ر ین و مغربین جمع وتفریق دونوں طرح س ے پ ڑھ ت ے ت ھے

خیر طلب :- اول یہ کہ آپ حضرات (علمائ ے جلس ہ ک ی طرف اشارہ ) جانت ے ہیں کہ فروع ی مسائل میں علماء کے درم یان بہ ت اختلاف ہے ج یسا کہ آپ ک ے چارو ں امام ب ھی آپس میں بہ ت ز یادہ اختلاف رکھ ت ے ہیں دوسرے یہ کہ آپ ن ے فرما یا "شیعوں کا عمل سنت رسول کے خلاف ہے "تو اس امر میں آپ کو اشتباہ ہ وا ہے ک یونکہ آں حضرت (ص) نماز یں کبھی یکجا اور کبھی الگ الگ ادا فرماتے ت ھے ۔

نواب :- (اپنے علماء ک ی طرف رخ کرکے ) ک یا یہ صحیح ہے ک ہ رسول الل ہ (ص)جمع اورتفر یق دونوں طرح س ے نماز بجا لات ے ت ھے ؟-

حافظ:- فقط سفر اور ،عذر کے مواقع ج یسے بارش وغیرہ میں اسی طرح سے عمل فرمات ے ت ھے ۔ تاک ہ امت تعصب اور مشقت م یں مبتلا نہ ہ و،ورن ہ حضر م یں ہ م یشہ الگ الگ پڑھ ت ے ت ھے م یرا خیا ل ہے ک ہ قبل ہ صاحب ن ے غلط ی سے سفر کو حضر سمج ھ ل یا ہے ۔

خیرطلب :- نہیں مجھ کو مغالط ہ ن ہیں ہ وا ،بلک ہ یقین رکھ تا ہ و ں یہ ا ں تک کہ آپ حضرات ک ی روایتوں میں

۱۳

بھی موجود ہے ک ہ کب ھی حضر میں اور بغیر کسی عذر کے ب ھی بصورت جمع ادافرماتے ت ھے ۔

حافظ:- میں خیال کرتا ہ و ں ک ہ آپ ن ے غلط ف ہ م ی سے ش یعہ روایات کو ہ مار ی روایات سمجھ ل یا ہے ۔

خیر طلب :- شیعہ راوی تو اس مقصد پر متفق ہی ہیں گفتگو ہ و ر ہی ہے آپ ک ے راو یوں پر ،اس بارے م یں میں متعدد صحیح روایتیں صحاح اور آپ کی معتبر کتا بوں م یں وارد ہیں ۔

حافظ:- ممکن ہے آپ ک ی نظر میں ہ و ں تو ان کا حوال ہ ب یان کیجئے

خیر طلب :-مسلم ابن حجاج نے اپن ی صحیح کے اندر "باب الجمع بین الصلواتین فی الحضر " میں روایوں کا سلسلہ نقل کرت ے ہ و ئ ے ابن عباس س ے روا یت کی ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "صلّ ی رسول اللہ الظ ھ ر و العصر جمعا والمغرب والعشاء جمعا ف ی غیر خوف ولا سفر " (یعنی رسول خدا(ص) نماز ظہ ر و عصر اور مغرب وعشا ءکو بغ یر خوف اور سفر کے ملا کر ادا فرماتے ت ھے ) ۔

اور پھ ر ابن عباس س ے نقل ک یا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا " صلّیت مع النّبی ثمانیا جمعا و سبعا " (یعنی میں نے رسول خدا (ص) ک ے سات ھ آ ٹھ رکعت (نماز ظ ہ ر وعصر)اور سات رکعت (مغرب وعشاء) کو ملا کر پ ڑھ تا ت ھ ا ۔ اور اس ی حدیث کو اما م احمد بن جنبل نے اپن ی مسند کے جز ء اول صفحہ نمبر ۲۲۱م یں نقل کیا ہے ۔ علاو ہ اس دوسر ی حدیث کے ابن عباس ن ے ک ہ ا " صلّی رسول الله فی المدینة مقیما غیر مسافر سبعا وثما نیا " (یعنی رسول خدا(ص) نے مد ینے کے اندر حالت اقامت م یں بغیر مسافرت کے سات رکعت اور آ ٹھ رکعت یعنی مغرب وعشاء اور ظہ ر وعصر کو ملا ک ے نماز پ ڑھی )۔

امام مسلم اسی طرح کی کئی حدیثیں نقل کرتے ہیں یہ ا ں تک کہ لک ھ ت ے ہیں کہ عبد الل ہ بن شف یق نے ک ہ ا ک ہ ا یک روز عبد اللہ ابن عباس عصر ک ے بعد ہ مار ے سامن ے خطب ہ پ ڑھ ر ہے ت ھے اور شریک صحبت تھے یہ ا ں تک کہ آفتاب ن ے غروب ک یا ستارے ظا ہ ر ہ و گئ ے لوگ وں نے " الصّلواة الصّلواة " کی آواز دینا شروع کی لیکن ابن عباس نے اعتنا ن ہ ک ی اسی وقت بنی تمیم میں سے ا یک شخص نے بلند آواز م یں کہ ا " الصّلواة الصّلواة " ابن عباس نے ک ہ ا " اتعلّمنی بالسنّة لا ام ّ لک رایت رسول الله یجمع بین الظهر و العصر والمغرب والعشاء " (یعنی تم مجھ کو سنت ک ی یاد دلاتے ہ و حالانک ہ م یں نے خودد یکھ ا ہے ک ہ رسول الل ہ (ص) ن ے نماز ظ ہ ر عصر اور مغرب وعشاء کو جمع فرما یا ) عبد اللہ ک ہ تا ہے ک ہ اس کلام س ے م یرے دل میں خدشہ پ یدا ہ وا اور م یں نے جاکر ابو ہ ر یرہ سے در یافت کیا تو انہ و ں ن ے ب ھی تصدیق کی اور کہ ا حق یقت وہی ہے جو ابن عباس ن ے ب یان کی ۔

اور دوسرے طر یقے سے ب ھی عبداللہ بن شف یق عقیل سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ منبر پر عبد الل ہ ابن عباس ک ی تقریر نے طول ک ھینچی یہ ا ں تک کہ اند ھیرا پھیل گیا ،ایک شخص نے پ ے در پ ے ت ین بار " الصّلواة الصّلواة " کی آواز دی ۔ ابن عباس ج ھ نج ھ لا گئ ے اور کہ ا "لا امّ لک اتعلّمنا بالصلواة وکنّا نجمع بین الصلواتین علی عهد رسول الله "

۱۴

( یعنی ۔۔۔ مج ھ کو نماز ک ی تعلیم دیتا ہے ؟حالانک ہ ہ م زمان ہ رسو ل خدا (ص) م یں دو نمازوں کو ملا کر پ ڑھ ا کرت ے ت ھے یعنی ظہ ر کو عصر ک ے سات ھ اور مغرب کو عشاء ک ے سات ھ ۔

زرقانی بھی جو آپ کے اکابر علماء م یں سے ہیں ،شرح موطاء مالک کے جزء اول "باب جمع ب ین الصلواتین "میں صفحہ ۳۶۳ پر نسائ ی سے بطر یق عمرو بن ہ رم اب ی شعشاء سے نقل کرت ے ہیں کہ ابن عباس بصر ہ م یں نماز ظہ ر وعصراور مغرب وعشاء پ ڑھ ت ے ت ھے بغ یر اسکے ک ہ ان ک ے درم یان کوئی فاصلہ یا کوئی چیز حا ئل ہ وت ی ہ و اور ک ہ ت ے ت ھے ک ہ رسول خدا (ص) اس ی طرح نماز ادا فرماتے ت ھے ( یعنی ظہ ر کو عصر ک ے سات ھ اور مغرب کو عشاء ک ے سات ھ جمع فرمات ے ت ھے ) ۔

نیز مسلم نے صح یح میں ، مالک نے موطاء "باب جمع ب ین الصلا تین میں امام احمد بن جنبل نے مسند سلسل ہ روا یات کو نقل کرتے ہ وئ ے س عید ابن جبیر کرے ذر یعے ابن عباس سے روا یت کی ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "صلّی رسول الله الظهر و العصر جمعا بالمدینة فی غیر خوف و لا مطر " (یعنی رسو ل اللہ مد ینے میں نماز ظہ ر اور عصر کو ملا کر پ ڑھی بغیر خوف اور بارش کے ) ابو زب یر کہ تا ہے ک ہ م یں نے ابو سع ید سے سوال ک یا کہ پ یغمبر (ص)کس وجہ س ے نماز جمع فرمات ے ت ھے " تو ابو سع ید نے ک ہ ا ک ہ یہی سوال میں نے ابن عباس س ے ک یا تھا تو انہ و ں ن ے جواب د یا کہ "اراد ان لا یحرج احدا من امته" ( یعنی اسلئے جمع فرمات ے ت ھے ک ہ آ ں حضرت (ص)ک ی امت میں سے کوئ ی شخص سختی اور مشقت میں نہ پ ڑے اور چند دوسر ی روایتوں میں بھی نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس ن ے ک ہ ا "جمع رسول الله بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فی غیر خوف ولا مطر"( یعنی رسول اللہ (ص)ن ے ظ ہ ر وعصر اور مغرب وعشاء ک ے درم یان جمع فرمایا بغیر اسکے ک ہ کوئ ی خوف ہ و یا بارش ہ وت ی ہ و) ۔ اس بار ے م یں میں روایتیں کثرت سے نقل ک ی ہیں لیکن جمع بین الصلاتین کے جواز پر سب س ے واضح دل یل یہی جمع بین الصلواتین کے نام ک ے سات ھ ابواب ک ی تعیین اور اسی باب میں احادیث جمع کرنا ہے تا ک ہ یہ مطلقا جمع کے جائز ہ ون ے کی دلیلیں بنیں ۔ ورن ہ ا یک مخصوص باب میں حضر میں اور ایک باب سفر میں نمازوں کو جمع کرن ے پر قائم کرت ے ،چنانچ ہ یہ منقولہ روائت یں صحاح اور آپ کی دوسری معتبر کتابو ں م یں سفر وحضر دونوں م یں اس کے جائز ہ ون ے س ے تعلق رک ھ ت ی ہیں ۔

حافظ:- ایسا کوئی باب یا نقل روایات صحیح بخاری میں موجود نہیں ہے ۔

خیرطلب :-اولا جب سارے ارباب صحاح ج یسے مسلم، نسائی، احمد ابن حنبل ،صحیحین مسلم وبخاری کے شارح ین اور آپ کے دوسر ے ب ڑے علماء ن ے نقل ک یا ہے تو یہی ہ مار ے مطلب اور مقصد ک ے لئ ے کاف ی ہے ۔

دوسرے امام بخاری نے ب ھی انہیں روایات کو جنہیں دوسروں ن ے نقل ک یا ہے اپن ی صحیح میں درج کیا ہے ل یکن پوری چالاکی کے سات ھ ان ک ے محل یعنی جمع بین الصلواتین سے دوسر ے محل پر منتقل کرد یا ہے ،چنانچ ہ

۱۵

"باب تاخ یر الظھ ر ال ی العصر من کتاب مواقیت الصلواۃ" "باب ذکرالعشاء والعمتہ "اورباب "وقت المغرب " کا مطالع ہ ک یجیئے اور ان کا جائزہ ل یجیئے تویہ جمع بین الصلواتین کی ساری حدیثیں نظر آجائیں گی نتیجہ یہ کہ جمع ب ین الصلواتین کی اجازت اور رخصت کے عنوان ک یساتھ ان احادیث کا نقل کرنا بتا تا ہے ک ہ یہ جمہ ور علمائ ے فر یقین کا عقیدہ ہے ۔ ا یسی صورت میں کہ اپن ے صحاح ک ے اندر ان حد یثوں کی صحت کا اقرار بھی کیا ہے چنانچ ہ علاّم ہ نوو ی نے شرح صح یح مسلم میں عسقلانی اور قسطلانی ،زکریا رازی نے ان شرحو ں م یں جو انہ و ں ن ے صح یح بخاری کی لکھی ہیں ،زرقانی نے شرح موطاء مالک میں اور آپ کے دوسر ے علماءن ے یہ احادیث اورخصوصا حدیث ابن عباس کو نقل کرنے ک ے بعد ان ک ی صحت اور اس کا اعتراف کیا ہے ک ہ یہ حدیثیں حضر میں جمع بین الصلاتین کی اجازت ورخصت کی دلیل ہیں تا کہ امت وال ے حرج اور مشقت م یں مبتلا نہ ہ و ں ۔

نواب :- یہ کیونکر ممکن ہے ک ہ زمان ہ رسول خدا(ص)س ے یہ حدیثیں جمع کے عمل پر مرو ی ہ و ں ل یکن علماء حکم اور عمل میں ان کے خلاف راست ہ اخت یار کریں ؟۔

خیرطلب :- یہ صرف اسی موضوع سے مخصوص ن ہیں ہے ،بعد کو آپ ک ی سمجھ م یں آئے گا اس ک ی مثالیں بہ ت ہیں ۔ خاص اس موضوع م یں بھی حضرات فقہ اء ا ہ ل تسنن ن ے یا تو غور وفکر کے تصور س ے یا کسی اور سبب سے جو مج ھ کو معلوم ن ہیں ہے ان معتبر حد یثوں کی ان کے ظا ہ ر ی کے خلاف م ہمل تاویلیں کی ہیں۔ ج یسا کہ ک ہ ت ے ہیں "شاید یہ حدیثیں عذرکے مواقع س ے تعلق رک ھ ت ی ہ و ں مثلا خوف وب یم ، بارش اور آندھی وغیرہ چنانچہ آپ ک ے اکابر متقدم ین میں سے ا یک جماعت جیسے امام مالک ،امام شافعی ، اور مدینے کے چند فق یہ و ں نے اس ی تاویل کے سات ھ فتو ی دیا حالانکہ اس عق یدے کو ابن عباس کی حدیث رد کررہی ہے جو صاف صاف ک ہ ت ے ہیں کہ "من غ یر خوف ولا مطر"یعنی بغیر خوف اور نزول باراں ک ے نماز کو جمع پ ڑھ ت ے ت ھے ۔

بعض دوسروں ن ے یہ خیال آرائی کی ہے ک ہ غالبا ابر گ ھ را ہ وا ت ھ ا اس وج ہ س ے وقت کو ن ہیں پہ چانا اور ج یسے ہی نماز ظہ ر تمام ک ی ابر چھٹ گ یا تو دیکھ ا کہ عصر کا وقت ہے ل ہ ذا عصر ب ھی پڑھ لی اور اس طرح سے ظ ہ ر عصر با ہ م جمع ہ وگئ یں ۔

میں نہیں سوچ سکتا کہ اس س ے ز یادہ کمزور تاویل بھی گھڑی جاسکتی ہے گو یا تاویل کرنے والو ں ن ے غور ہی نہیں کیا کہ نماز پ ڑھ ن ے وال ے رسول الل ہ (ص) ت ھے اور رسول خدا(ص) ک یلئے ابر کا ہ ونا ن ہ ہ ونا کوئ ی فرق نہیں رکھ تا ت ھ ا ۔ ک یونکہ آنحضرت (ص)کا علم اسباب ظاہ ر ی کا محتاج نہیں تھ ا ،بلک ہ اسباب و آثار پر حاو ی تھ ا اس س ے قطع نظر ک ہ یہ کم فہ م جماعت ا یسی صورت حال پید ہ ون ے پر کوئ ی دلیل اپنے پاس ن ہیں رکھ ت ی اور علاوہ اس ک ے ک ہ یہ بات احادیث کے ک ھ ل ے ہ وئ ے مطالب کے خلاف ہے اس تاو یل کا باطل ہ ونا نماز مغ رب وعشاء کو جمع کرنے س ے

۱۶

ب ھی ثابت ہ وتا ہے ک یونکہ اس وقت ابر کے موجود ہ ون ے اور بر طرف ہ ون ے س ے کوئ ی اثر نہیں پڑ تا ۔

جیسا کہ م یں نے عرض ک یا حدیث ابن عباس (خیر امت) میں اس کی صراحت موجود ہے ک ہ ان ک ے خطب ے ن ے اتنا طول ک ھینچا کہ سامع ین نے کئ ی مرتبہ " الصّلوا ۃ الصّلواۃ "کی آوازبلند کی یعنی یاد دلایا کہ ستار ے ظا ہ ر ہ وگئ ے ہیں اور نماز کا وقت ہ وگ یا ہے اس ک ے باوجود وہ نماز مغرب م یں عمدا تاخیر کرتے ر ہے یہ ا ں تک کہ نماز عشاء کا وقت آگ یا اور دونوں کو ملا ک ے ادا ک یا اور ابو ہ ر یرہ نے ب ھی اس کی تصدیق کی رسول اللہ (ص) اس ی طرح عمل فرماتے ت ھے ۔یقینا اس طرح کی تاویلیں ہ مار ے نزد یک باطل ہیں ، بلکہ آپ ک ے ب ڑے بڑے علماء نے ب ھی ان کو رد کیا ہے اور تاو یلات کو ظواہ ر احاد یث کے برخلاف جان ا ہے ج یسا کہ آپ ک ے اکابر علماء م یں سے ش یخ الاسلام انصاری نے "تحف ۃ الباری فی شرح صحیح البخاری " باب الصلواۃ الظھ ر مع العصر والمغرب والعشاء"آخرصفح ہ ۲۹۲ جزءدوم م یں اسی طرح علّامہ قسطان ی نے "ارشاد السار ی فی شرح صحیح بخاری"صفحہ ۲۹۳ جزءدوم م یں اور صحیح بخاری کے دوسر ے شارح ین اور آپ کے علماء محقق ین کے ا یک جم غفیر نے لک ھ ا ہے ک ہ اس قسم ک ی تاویلیں ظواہ ر احاد یث کیخلاف ہیں اور اس بات کی قید لگانا کہ ہ ر نماز حتم ی طور پر الگ الگ پڑھ نا چائ یئے ترجیح بلا مرجح اور تخصیص بلا مخصص ہے ۔

نواب :- پھ ر یہ اختلاف کہ ا ں س ے آ یا کہ مسلما ں ب ھ ائ یوں کے دوگرو ہ آپس م یں ایک دوسرے ک ی جان کے درپ ے ہ وگئ ے با ہ م عداوت ک ی نظر سے د یکھ ت ے ہیں او راعمال کی مذمت اور قدح کرتے ہیں ؟۔

خیر طلب :- اولا ! یہ کہ آپ ن ے فرما یا ہے مسلمان دو گرو ہ آپس م یں ایک دوسرے کو عداوت ک ی نگاہ س ے د یکھ ت ے ہیں ، تو میں مجبور ہ و ں ک ہ ش یعیان اہ ل ب یت طہ ارت وخاندان رسالت ک ی طرف سے دفاع کرو ں ک ہ ہ م ش یعوں کی جماعت برادران اہ ل تسنن ک ے علماء اور عوام م یں کسی ایک کو بھی حقارت یا عداوت کی نگاہ س ے ن ہیں دیکھ ت ی ہے بل کہ ان کو اپن ے مسلمان ب ھ ائ ی سمجھ ت ی ہے البت ہ ہ م کو ب ہ ت افسوس ہے ک ہ غ یروں ،خارجیوں ، ناصبیوں اور امویوں کے غلط پروپ یگنڈے اور شیاطین جن وانس کی تحریکیں برادران اہ ل سنت ک ے دلو ں م یں کس لئے گ ھ ر کر ل یتی ہیں ؟ یہ ا ں تک کہ اپن ے ش یعہ بھ ائ یوں کو جو قبلہ ، کتاب ، نبوت ، تمام احکام اور واجبات و مستحبات پر عمل اور کبائر ومعاص ی کے ترک م یں ان کے سات ھ شر یک ہیں رافضی ،مشرک اور کافر جانتے ہیں ۔ اپن ے س ے جدا قرارد یتے ہیں اور بغض وعداوت کی نظر سے ان ک ی طرف دیکھ ت ے ہیں ۔

ثانیا ! آپ نے فرمایا ہے ک ہ " یہ اختلاف کہ ا ں س ے آ یا ؟" تو میں سوز دل کے عرض کرتا ہ و ں :-

آتش بجاں شمع فتد ک یں بنا نہ اد

ابھی یہ عرض کرنے کا وقت ن ہیں ہے ک ہ اس قسم ک ے اختلاف کا چشم ہ ک ہ ا ں س ے پ ھ و ٹ ا ۔ شا ید انشا اللہ آ یندہ راتوں م یں موقع محل کی مناسبت سے اس ک ی نقاب کشائی ہ و جائ ے اور آپ خود اصل حق یقت کی طرف متوجہ ہ و جائ یں ۔

۱۷

ثالثا ! نماز جمع و تفریق کے بار ے م یں حضرات فقہ اء ا ہ ل تسنن ن ے مذکور ہ روا یتوں کو جو مطلقا نماز ظہ ر وعصر ومغرب وعشاء کو ملا کر پ ڑھ ن ے ک ی اجازت اور جواز پر دلالت کرتی ہیں ، امت کی سہ ولت و راحت اور سخت ی ومشقت و حرج سے بچان ے ک ے لئ ے نقل ک یا ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ کس وج ہ س ے فضول تاو یلیں کرتے ہیں اور بغیر عذر کے نمازو ں کو اک ھٹ ا پ ڑھ ن ے کو جائز ن ہیں جانتے بلک ہ ان م یں سے بعض ج یسے ابو حنیفہ اور ان کے تاب عین مطلقا جمع کرنے کو منع کرت ے ہیں چاہے عذر ک یساتھ ہ و یا بغیر عذر کے ،سفر م یں ہ و یا حضر میں لیکن دوسرے شافع ی ،مالکی ، اور جنبلی علماء نے باوجود سار ے اصول و فروع م یں باہ م ی اختلافات کے سفر مباح کر ے اندر ج یسے حج ،عمرہ اور جنگ وغ یرہ میں اس کی اجازت دی ہے ۔

البتہ شیعہ فقہ اء ائم ہ طا ہ ر ین آل محمد علیھ م السلام کی پیروی میں جو ارشاد رسول (ص) کی بنا پر حق وباطل کے درم یان فرق کرنے وال ے اور عد یل قرآن ہیں مطلقا اس کے جواز کا حکم د یتے ہیں ،خواہ سفر م یں یا حضر میں ،عذرکے سات ھ یا بغیر عذر کے ، چا ہے تقد یم کے ساتھ جمع کرے یا تاخیر کے سات ھ اور یہ جواز اختیار مصلی کے سات ھ ہے یعنی نماز گزار اگر چاہے تو نماز ظ ہ ر وعصر اورمغرب وعشاء چارو ں کو س ہ ولت اور آرام ک ے لئ ے ا یک نشست میں پڑھے یا ظہ ر ومغرب کو اول وقت فض یلت میں پڑھے اور نماز عصر وعشاء کو بھی انہیں کے اول وقت فض یلت میں ادا کرے اس کو اخت یار ہے ہ ا ں ہ ر ا یک کو الگ الگ اور اپنے اپن ے وقت فض یلت میں بجا لانا جمع کرنے س ے افضل ضرور ہے ج یسا کہ فق ہ اء ش یعہ کی استدلالی کتابوں اور عمل یہ رسالوں م یں اس کا مکمل ذکر کیا گیا ہے ۔ ل یکن چونکہ لوگ اکثر مشاغل اور بہ ت س ی پریشانیوں میں گرفتار رہ ت ے ہیں اور ممکن ہے ک ہ ت ھ و ڑی سی غفلت میں نماز ان سے فوت ہ و جائ ے ل ہ ذا س ہ ولت اور رفع زحمت وحرج ک ے لئ ے (جو شارع مقدس کا مقصد ہے ) ش یعہ تقدیم یا تاخیر کے سات ھ جمع پ ڑھ ت ے ہیں میرا خیا ل ہے ک ہ حضرات محترم کا ذہ ن روشن ہ ون ے اور دوسر ے برادران ا ہ ل سنت ک ے لئ ے جو ہ م کو غ یض وغضب ک ی نگاہ س ے د یکھ ت ے ہیں اسی قدر جواب کافی ہ وگا چونک ہ دوسر ے ا ہ م بن یادی مطالب پیش نظر ہیں ۔ ل ہ ذا ب ہ تر ہے ک ہ ہ م لوگ سابق اصل مذاکرات ک ی طرف واپس ہ و ں ک یوں کہ جب خاص خاص اصول ی مطالب حل ہ وجائ ینگے تو ان کے سات ھ فروعات خود بخود واضح ہ و جائ ینگے ۔

حافظ:-مجھ کو ب ہ ت مسرت ہے ک ہ م یں نے پ ہ ل ی ہی نشست میں قبلہ صاحب ک ے معلومات کا پت ہ لگال یا اور یہ جان لیا کہ م یرافریق صحبت وہ شخص ہے جو ز یادہ محدود نہیں اور ہ مار ی کتابوں س ے پور ی طرح باخبر ہے ج یسا کہ آپ ن ے فرما یا بلکل بجا ہے ک ہ ہ م اس ی پہ ل ی گفتگو کی طرف رجوع کریں ۔

آپ کی اجازت سے میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ جب آپ نے فصیح و بلیغ بیان سے ثابت کردیا کہ آپ حجازی و ہاشمی اور ایسے پاک نسب کے حامل ہیں تو یہ کیونکر ہوا کہ جو سنیوں کے مرکز ایران میں آبسے چنانچہ اس ہجرت کا سبب اور تاریخ بیان فرمائیے۔

۱۸

ہم لوگ مسرور ہوں گے۔

( اس محل پر قبلہ سلطان الواعظین نے اپنے اجداد کی ہجریت کا سبب اور مفصل تاریخ بیان فرمائی ہے۔ جو اختصار کا لحاظ رکتے ہوئے حذف کی جاتی ہے۔ لیکن اسی سلسلے میں ضمنا ظہور قبرامیرالمومنین (ع) کا بھی ذکر آگیا ہے جس کے بارے میں گفتگو کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے۔ ۱۲ مترجم)

حافظ : لیکن امیرالمومنین علی کرم اﷲ وجہ کی قبر اس زمانہ تک کس حال میں تھی کہ ڈیڑھ سو سال کے بعد ظاہر ہوئی۔

خیر طلب : چونکہ امیرالمومنین علیہ السلام کی شہادت ،خلافت معاویہ اور بنی امیہ کی فتنہ انگیزی کے زمانے میں واقع ہوئی لہذا حضرت نے وصیت فرما دی تھی کہ آپ کا جسد مبارک رات کے وقت پوشیدہ طریقہ پر دفن کیا جائے یہاں تک کہ کوئی علامت بھی قبر پر باقی نہ رہے ۔ صرف چند اصحاب خاص اور ان حضرت کے فرزند دفن کے موقع پر حاضر تھے اور اکیسویں رمضان کے صبح کو اس لیے کہ دشمنوں پر معاملہ مشتبہ ہوجائے اور وہ قبر مبارک کی جگہ معلوم نہ کرسکیں دو محملیں تیار کی گئیں۔ ایک کو مدینہ کی طرف اور ایک کو مکہ کی جانب روانہ کیا گیا اسی وجہ سے ان حضرت (ع) کی قبر مبارک برسوں پوشیدہ رہی اور سوا حضرت کے فرزندوں اور خاص خاص اصحاب کے کوئی شخص ان جناب کے مدفن اور قبر سے واقف نہ تھا۔

حافظ : اس وصیت اور قبر کو پوشیدہ رکھنے کی کیا وہ تھی؟

خیر طلب : غالبا بنی امیہ بے دین کے خوف سے ایسا ہوا چونکہ یہ لوگ ظالم و باغی اور مخصوص طور پر آل محمد علیہم السلام کے شدید دشمن تھے لہذا ممکن تھا کہ قبر مبارک کے ساتھ بے ادبی کریں اور یہ ظلم سارے مظالم سے سخت ہوتا ۔

حافظ : یہ آپ کیا فرمارہے ہیں ؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ مرنے اور میت کے قبر میں دفن ہونے کے بعد کوئی مسلمان چاہے وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو ایسا قبیح عمل انجام دے؟

بنی امیہ کے دلدوز حرکات

خیر طلب : غالبا آپ نے بنی امیہ کی رسوائے زمانہ تاریخ اور ان کے شرمناک اور دلدوز حرکات کا مطالعہ نہیں فرمایا ہے کہ اس شجرہ ملعونہ اور جماعت خبیثہ نے جس روز سے خلافت اور امارت مسلمین کی لجام ہاتھ میں لی۔ اسی دن سے مسلمانوں کے اندر ظلم و تعدی اور فساد کا دروازہ کھل گیا کیا کیا ظلم انہوں نے نہیں کیئے

۱۹

کتنے کتنے خون نہیں بہائے کیس کیسی عزتیں برتباد نہیں کیں، یہ رسوا بے وقعت قوم کسی چیز کی پابند نہیں تھی چنانچہ ان کی بد اعمالوں کو آپ کے بڑے بڑے علماء اور مورخین انتہائی خجالت کے ساتھ ضبط تحریر میں لائے ہیں۔

واقعہ شہادت زیدبن علی علیہ السلام

خصوصیت کیساتھ علامہ صفر یزی ابوالعباس احمد بن علی شافعی نے جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں اپنی کتاب ، مقریزی النزاع والتخاصم فیما بنی بنی ہاشم و بنی امیہ میں ان کی دل سوز حرکتوں اور بد اعمالیوں کو تفصیل کے ساتھ درج کیا ہے کہ وہ زندہ اور مردہ میں بھی فرق نہیں کرتے تھے نمونہ کے لیے اس بدنام زمانہ قوم (بنی امیہ) کے دل دوز اعمال کی نشانیاں اور وہ اہم تاریخی واقعے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ آپ حضرات تعجب نہ کریں۔ اور یہ سمجھ لیں کہ جو کچھ میں عرض کررہا ہوں سند اور بنیاد کے ساتھ ہے وہ اہم واقعے حضرت زید بن علی بن الحسین علیہما السلام اور ان کے فرزدن یحیٰ کی شہادتیں ہیں جن کو فریقین کے جملہ مورخین نے لکھا ہے ۔ کہ جب ہشام بن عبد الملک ابن مروان سنہ۱۱۵ہ میں تخت خلافت پر بیٹھا ہے اور یہ بہت قصی القلب اور مغلوب الغضب شخص تھا۔ ) تو اس نے ظلم و تعدی شروع کی اور مخصوص طور پر بنی ہاشم کے حق میں تو خود اس نے اور اس کے پیروں نے تکلیف دہی اور ایذا رسانی کی انتہا کر دی آخر کار یکتائے زمانہ سخی شریف عالم عابد و زاہد فقیہ اور متقی جناب زید بن علی خلیفہ کے پاس فریاد کے لیے تشریف لے گئے اور زصافہ میں ہشام سے ملاقات کی قبل اس کے کہ آپ اپنے آنے کی غرض بیان فرمائیں وہ بجائے اس کے کہ اپنے تازہ وارد مہمان اور وہ بھی رسول اﷲ(ص) کے پارہ تن کی امداد و دادرسی اور خاطر داری کرتا پہنچتے ہی سخت توہین کے ساتھ پیش آیا اور ایسی فحش گالیوں کیساتھ جن کو میں اپنی زبان پر جاری نہیں کرسکتا ۔ آپ کو دربار خلافت سے نکال دیا چنانچہ ہمارے اور آپ کے بڑے بڑے مورخین جیسے امام مسعودی مروج الذہب جلد دوم ص۱۸۱ میں ، علامہ مقریزی النزاع و التخاصم فیما بین بنی ہاشم و بنی امیہ میں ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ میں اور دوسرے لوگ تفصیل کے ساتھ لکھتے ہیں کہ شدید گالیاں اور شدید چوٹیں کھانے اور خلیفہ کے پاس سے نکالے جاتے کے بعد آپ مجبورا شام سے کوفہ تشریف لے گئے اور دفع ظلم کے لیے ہویوں کے خلاف ایک پارٹی تیار کی حاکم کوفہ یوسف بن عمر ثقفی ایک بڑے لشکر کے ساتھ مقابلہ پر آیا وہ جناب ہاشمی شجاعت اور دلیری کے ساتھ جنگ کر رہے تھے اور رجز میں یہ اشعار پڑھتے تھے۔

اذل الحیات و عز الممات و کلا اراه طعاما وبیلا

۲۰

فان کان لا بد من واحد فسیری الی الموت سیرا جمیلا

( یعنی ذلت کی زندگی اور عزت کی موت دونوں لقمے بہت تلخ معلوم ہوتے ہیں لیکن اگر دونوں سے ایک لازمی ہوجائے تو اے نفس خوشی کے ساتھ موت کی طرف بڑھ ۔ مترجم) اچانک دشمن کا ایک تیر پیشانی مبارک پر پڑا اور آپ نے شربت شہادت نوش فرمایا ۔ آپ کے فرزدن جناب یحیٰ شیعوں کے ہمراہ اس ہنگامے میں اپنے پدر بزرگوار کا جسد مبارک خفیہ طریقہ پر اٹھا لے گئے، شہر کے کنارے پانی کی نہر کے درمیان قبرکھودی کر دفن کیا اور لحد بند کرنے کے بعد اوپر سے پانی جاری کردیا تاکہ دشمنوں کو پتہ نہ چلے کہ قبر مبارک کہاں پر ہے لیکن شرارت پسند مفسدوں نے یوسف کو خبر دی اس نے چند آدمی بھیجے جو ان جناب کی قبر کھود کر میت کو باہر لائے اور سر اقدس کاٹ کر ہشام کے پاس شام کی طرف روانہ کیا ۔ اس کینے اور بد اصل ملعون نے یسف حاکم کو فہ کو لکھ اکہ جناب زید کے جسم کو عریاں کر کے سولی پر لٹکا دیا جائے ان ملاعین نے اسی پر عملدا آمد کیا اور ماہ صفر سنہ 121ھ میں ذریت رسول (ص) کا بدن برہنہ کر کے دار پر آویزاں کیا پورے چار سال تک اسی عالم و زاہد اور رسول اﷲ(ص) کے پارہ تن کا جسم مبارک سولی پر رہا یہاں تک کہ سنہ126 ھ میں جب ولید بن یزید بن عبدالملک بن مروان خلیفہ ہوا تو اس کے حکم سے ان بزرگوار کے استخوان دار سے اتار کر آگ میں جلا دے گئے اس کے بعد ان کی خاکستر ہوا میں اڑا دی گئی۔

شہادت جناب یحیٰ

اور یہی سلوک اس ملعون نے جناب یحی بن زید کے جسم کے ساتھ جرجان (1) میں کیا جو بلاد خراسان میں سے ہے ( اور اب گرگان کہا جاتا ہے۔) کیونکہ ان بزرگوار نے بھی بنی امیہ کے ظلم و جور کے خلاف مقاومت کی ( جس کی مفصل تاریخ موجود ہے) اور میدان جنگ میں شہید ہوئے۔ آپ کے سر کو بدن سے جدا کر کے شام بھیجا گیا اور پدر بزرگوار کی طرح آپ کا جسم بھی دار پر لٹکا دیا گیا جو چھ سال تک اسی طرح آویزاں رہا اور دوست دشمن یہ حال دیکھ کر روتے تھے۔ یہاں تک کہ ولید واصل جہنم ہوا۔ اور ابو مسلم خراسانی نے جو بنی عباس کی خیر خواہی میں بنی امیہ کے مقابلہ پر اٹھا تھا ۔ اس اولاد رسول(ص) کے جسم کو راہ ظلم سے نجات دے کر جرجان ( گرگان) میں دفن کیا۔ آپ کی قر اب تک عام طور پر زیارت گاہ اور مسلمانوں کے لیے محل احترام ہے۔

(سارے اہل جلسہ یہ واقعات سن کر متاثر ہوئے بلکہ رونے لگے اور بے اختیار ان ملاعین پر لعنت کی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ ابو الفرح ، اصفہانی اور بعض دوسروں کے نزدیک یحی کی قبر جو زنجان میں ہے جو کہ گورگان کا مغرب ہے۔

۲۱

لہذا اس خبیث و لعین خاندان کے ایسے اقدمات کے پیش نظر جن کا ایک نمونہ ذکر کیا گیا ہے۔کوئی تعجب نہیں تھا ۔ کہ اگر ان لوگوں کو موقع ملتا ہتو امام بر حق حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے جسم مطہر کیسا تھ بھی اس قسم کا برتاؤ کرتے چنانچہ حسب وصیت ان حضرت کا جنازہ رات کے وقت دفن ہوا اور قبر پر کوئی علامت تک بھی نہیں چھوڑی گئی یہ قبر مبارک زمانہ ہارون رشید تک عام طور پر نگاہوں سے مخفی رہی۔ یہ عباسی خلیفہ ایک روز صحرائے

نجف میں جو ایک نیستان اور ہرنوں کی قیامگاہ تھا شکار کے لیے آیا تازی کتوں اور چیتوں نے ہرنوں کا پیچھا کیا۔ انہوں نے تل نجف (1) کے اوپر پناہ لی لیکن کتے اور چیتے ٹیلے کے اوپر نہیں گئے کئی مرتبہ یہی اتفاق ہوا۔ یعنی جب کتے واپس آجاتے تو ہرن نیچے اترتے تھے اور جیسے ہی حملہ ہوتا تھا وہ پھر ٹیلے پر پناہ لے لیتے تھے خلیفہ نے سوچا کہ اس مقام پر کوئی ایسا راز ہونا چاہئے جس کی وجہ سے کتے اوپر نہیں چڑھتے ۔ چنانچہ آدمیوں کو بھیجا جو وہاں کے باشندوں میں سے ایک بوڑھے شخص کو خلیفہ کے پاس بلا لائے اس نے پوچھا کہ اس ٹیلے میں کیا راز ہے کہ کتے ہرنوں کے تعاقب میں اوپر نہیں جاتے؟

قبر علی علیہ السلام کا ظہور

بوڑھے نے کہا کہ میں اس کا راز جانتا ہوں لیکن کہتے ہوئے ڈرتا ہوں ۔ خلیفہ نے اس کو امان دی تو اس نے بتایا کہ میں ایک مرتبہ اپنے باپ کے ہمراہ آیا۔ اس نے اس ٹیلے پر زیارت اور نماز ادا کی میں نے پوچھا کہ یہاں کیا چیز ہے؟ تو اس نے کہا کہ ہم لوگ اسی جگہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ زیارت کو آئے تھے ، اور ان حضرت نے فرمایا تھا کہ اس مقام پر ہمارے جد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی قبر ہے جو عنقریب ظاہر ہوگی۔

خلیفہ کے حکم سے وہ جگہ کھودی گئی یہاں تک کہ ایک قبر کی علامت ملی اور وہیں پر ایک لوح نظر آئی جس پر سریانی خط می دو سطریں تھیں ترجمہ کیا گیا تو یہ مضمون ظاہر ہوا۔ "بسم اللّه الرحمن الرحيم هذا ما حفره نوح النبىّ لعلىّ وصىّ محمد قبل الطوفان بسبعمأة عام منه " ( 2 )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ نجف لغت میں اس پشتے اور بلندی کے معنی میں ہے جس پر پانی نہ پہنچے اور پشت کوفہ پر ایک پانی کے بند کا نام ہے جو اس کے گھروں اور قبروں تک سیلاب کے پہنچنے میں حائل ہے اور اسی بند کے قریب حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی قبر مبارک ہے جیسا کہ فیروز آبادی نے قاموس کے اندر لغت نجف کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔

2 ـ یہ وہ قبر ہے جسے نوح(ع) پیغمبر نے حضرت محمد مصطفی (ص) کے وصی علی (ع) کے لیے طوفان سے سات سو برس قبل تیار کیا۔

۲۲

ہارون نے اس کا احترام کیا اور حکم دیا کہ مٹی اپنی جگہ پر ڈال دی جائے پا پیادہ ہوا وضو کیا دو رکعت نماز پڑھی کافی گریہ کیا اور اپنے کو قبر مطہر کی خاک پر غلطاں کیا ۔ پھر اس کے حکم سے یہ کیفیت مدینہ میں امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں لکھی گئی۔ اور معاملہ کی حقیقت دریافت کی گئی حضرت نے جواب میں لکھا کہ ہاں اسی مقام پر میرے جد بزرگوار امیرالمومنین علیہ السلام کی قبر ہے، چنانچہ ہارون کے حکم سے ان حضرت (ع) کی قبر مطہر پر ایک پتھر کی عمارت بنی جو حجر ہارونی کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ خبر چاروں طرف مشہور ہوگئی اور مومنین سامان سفر مہیا کر کے حضرت کی زیارت کے لیے پہنچنے گے لہذا جناب سید ابراہیم مجاب وجد سلطان الواعظین ۔۔۔۔ بھی موقع ملتے ہی شیراز سے عازم زیارت ہوئے اور زیارت سے فارغ ہونے کے بعد کربلائے معلے میں واطی اجل کو لبیک کہی۔ اپنے جد ب

زرگوار حضرت ابو عبداﷲ الحسین (ع) کے جوار میں دفن ہوئے انکی قبر شریف رواق حضرت کے شمالی مغربی گوشہ میں دوستوں کی زیارتگاہ ہے۔

مدفن امیرالمومنین علیہ السلام میں اختلاف

حافظ : میرا خیال ہے کہ جو فیصلہ آپ نے فرمایا ہے اس کے باوجود مولانا علی کرم اﷲ وجہ کی قبر نجف میں نہیں ہے۔ کیونکہ علماء کو اس میں اختلاف ہے بعرض کہتے ہیں کہ کوفہ کے دارالامارہ میں بعض نے کہاہے قبلہ مسجد جامع کوفہ میں بعض نے لکھا ہے مسجد کوفہ کے باب کندہ میں بعض کا قول ہے رحبہ

کوفہ میں اور بعض دوسروں کا بیان ہے کہ قبرستان بقیع کے اندر فاطمہ(س) کے پہلو میں ہے۔ ہمارے افغانستان میں کابل کے نزدیک بھی ایک مقام مزار علی(ع) کے نام سے موسوم ہے مشہور ہے کہ مولانا علی کرم اﷲ کا جسد لوگوں نے ایک صندوق میں رکھ کر اور اونٹ کی پشت پر باندھ کے مدینہ کیطرف روانہ کیا ، ایک جماعت اس خیال سے کہ صندوق کے اندر قیمتی چیزیں ہوں گی اس کو چھین لے گئے۔ جب کھولا اور ان حضرت کا جسد مبارک دیکھا تو کابل میں لاکر اسی مقام پر دفن کردیا اور اس وجہ سے عام طور پر لوگ اس بقعہ کا احترام کرتے ہیں۔

خیر طلب : یہ سارے اختلافات ان حضرت کی وصیت کے نتیجہ میں پیدا ہوئے کیونکہ آپ نے پوشیدہ رکھنے کا حکم فرمایا تھا اور جس کی تفصیل مٰں نے ضروری نہیں سمجھی تھی، چانچہ امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی رحلت کے وقت اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام سے فرمایا کہ مجھ کو نجف میں دفن کر دینے کے بعد میرے لیے چار مقامات پر چار قبریں تیار کرانا۔ 1۔ مسجد کوفہ میں 2۔ رحبہ میں 3۔ خانہ جعدہ ہیرہ میں 4۔ غرمی میں تاکہ کوئی شخص میری قبر سے آگاہ نہ سکے۔

اور در اصل یہ اختلاف آپ کے علماء کے درمیان ہے جو دوسرے اشخاص کی باتوں سے اثر پذیر ہوتے ہیں ورنہ علماء شیعہ کی جماعت اس قول پر متفق ہیں کہ ان حضرت کی قبر مبارک نجف اشرف میں ہے کیونکہ انہوں نے جو

۲۳

کچھ اہل بیت طہارت(ع) سے حاصل کیا ہے وہ یقینی چیز ہے ۔ ا ه ل البيت ادری بما فی البيت ( یعنی گھر والے سب سے زیادہ گھر کی چیزوں سے واقف ہوتے ہیں۔)

لیکن جو آپ نے یہ فرمایا کہ حضرت علی(ع) کا مزار کابل کے قریب ہے تو یہ بہت مضحکہ خیز بات ہے اور یہ شہرت مکمل طور پر غلط ہے یہ قضیہ ایک صحیح خبر کے مقابلہ میں اضافے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ۔

مجھ کو تعجب تو آپ کے علماء پر ہوتا ہے جنہوں نے ہر محل پر عترت طاہرہ (ع) اور ان کے اقوال سے جدائی اختیار کی ہے۔ یہاں تک کہ اس پر بھی آمادہ نہ ہوئے کہ باپ کی قبر کی جگہ اس کے فرزندوں سے دریافت کریں تاکہ اختلاف نہ پیدا ہو کیونکہ اہل الیبت ادری بما فی البیت ۔ یقینی بات ہے کہ دوسروں کے مقابلے میں اولاد باپ کی قبر اور مدفن سے زیادہ آگاہ ہوتی ہے اگر ان شہرتوں میں سے کوئی بھی درست ہوتی تو یقینا ائمہ طاہرین علیہم السلام اپنے شیعوں کو اس کی اطلاع دیتے حالانکہ ان کے برعکس نجف اشرف کے لیے تقویت فرمائی ہے۔ بلکہ خود تشریف لے گئے ہیں اور شیعوں کو بھی نجف اشرف میں ان حضرت(ع) کی زیارت کی ترغیب و تحریص کی ہے سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص103 میں اختلاف اقوال کا ذکر کیا ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں۔

" والسادس انه علی النجف فی المکان المشهور الذی يزار فيه وهو الظاهر و قد استفاض---"

یعنی چھٹا قول یہ ہے قبر علی ابن ابی طالب علیہ السلام نجف اشرف میں اسی مقام پر ہے جس کی آج کل عام طور سے زیارت کی جاتی ہے اور بظاہر اس میں کوئی غلطی نہیں ہے اور یہی زبان زد خلائق بھی ہے۔ اسی طرح آپ کے دوسرے علماء جیسے خطیب خطیب ؟؟؟ نے مناقب میں خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں ، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، فیروز آبادی نے قاموس میں لغت نجف کے تحت میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ ان حضرت (ع) کا مدفن نجف اشرف ہے۔

یہاں سے قبلہ سلطان الواعظین نے پھر اپنے اجداد کی ہجرت اور تاریخ کی طرف رجوع کیا ہے جس کو بنظر اختصار حذف کیا جاتا ہے ۔ (مترجم)

" جب مذاکرات یہاں تک پہنچے تو مولوی سید عبدالحی نے گھڑی دیکھ کر فرمایا کہ رات کافی گذر چکی ہے لہذا اب اجازت دیجئے ، بقیہ گفتگو انشاء اﷲ کل شب میں ہوگی ہم لوگ جلد ہی آجائیں گے تاکہ بات چیت کے لیے زیادہ وقت مل سکے، “میں نے تبسم اور خندہ پیشانی کے ساتھ تائید کی وہ حضرات چائے وغیرہ کے بعد رخصت ہوئے اور ہم نے خلوص و محبت کے ساتھ کچھ دور چل کر وداع کیا۔"

۲۴

دوسری نشست

شب شبنہ 24 رجب سنہ 1345 ھ

مغرب کے بعد سب حضرات تشریف لے آئے وہی کل رات والا مجمع تھا سوا چند محترم افراد کے جن کے متعلق یہ معلوم ہوا کہ تجار اور رؤسا میں سے تھے صاحب سلامت کے بعد جناب حافظ صاحب نے سلسلہ کلام شروع کیا۔

حافظ : قبلہ صاحب بغیر کسی چاپلوسی کے میں سچ کہتا ہوں کہ کل رات ہم شیریں خیالات اپنے ساتھ لے گئے جب آپ کی خدمت سے رخصت ہوئے تو راستے بھر ہمرائیوں کیساتھ آپ کی صحبت کا تذکرہ رہا۔ واقعا آپ کی جاذبیت اتنی قوی ہے کہ ہم سب کو آپ نے اپنی صورت و سیرت میں جذب کر لیا ہے۔ بہت کم ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ کسی شخص میں حسن صورت اور حسن سیرت دونوں یک جا ہو جائیں۔

اشهد انک ابن رسول اﷲ حقا ( میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا آپ اولاد رسول(ص) ہیں۔ خصوصیت کیساتھ آج صبح جب میں کتب خانہ گیا تو انساب و تاریخ کی کئی کتابیں بالخصوص ہزار مزار اور آثارت عجم کو سادات جلیل القدر کے انساب میں مطالعہ کیا اور آپ کے کل ارشادات کے بارے میں غورکیا ۔ راقعی میں نے خط اٹھایا ۔۔۔۔ اور لذت حاصل کی بلکہ حقیقتا اس نسب شریف پر مجھ کو غبط ہوا اور کافی دیر تک سوچتا رہا اس غور و فکر کے بعد میں بہت متاثر اور رنجیدہ ہوا کہ جناب عالی کا ایسا شریف اور صحیح انسل انسان اس حسنِ صورت و سیرت کے باوجود کیونکر اسلاف کی ذلیل اور احمقانہ عادتوں کا شکار ہوسکا اور اپنے بزرگوار اجداد کے مضبوط طریقہ سے منحرف ہوکر مجوسی ایرانیوں کے رویہ کو قبول کر لیا۔

خیر طلب : پہلے تو میں جناب عالی کے حسن ظن اور نگاہ لطف کا ممنون و متشکر ہوں اور بغیر انکسار کے کہتا ہوں کہ واقعا میں وہ ذرہ ہوں جس کا کوئی شمار نہ ہو، دوسرے یہ کہ آپ نے چند آپس میں مخلوط اور مبہم جملے ارشاد فرمائے ہیں جن کو دعا گو نہیں سمجھ سکا ۔ آپ کا مطلب و مقصد کیا ہے ، متمنی ہوں کہ جملوں کو الگ الگ بیان فرمائیے تاکہ اصل حقیقت ظاہر ہو۔

گذشتہ لوگوں کی احمقانہ اور ذلیل عادتیں کوںسی ہیں؟ میرے بزرگوار اجداد کا مضبوط طریقہ کیا چیز ہے، جس سے منحرف ہوگیا ہوں ، ( اور ایرانیوں کا سیاسی رویہ کیا ہے جس کی میں نے پیروی کی ہے؟

۲۵

حافظ : اسلاف کی ذلیل اور احمقانہ عادات سے میری مراد وہ اصول و عقائد اور بدعتیں ہیں جو یہودی مخالفین کے ہاتھوں دین حنیف اسلام میں داخل ہوگئی ہیں۔

خیر طلب : ممکن ہے مہربانی فرماکر مزید وضاحت فرمائیے تاکہ معلوم ہو کہ وہ کونسی بدعتیں ہیں جن کی میں نے پیروی کی ہے۔

مذہب شیعہ پر اشکال پیدا کرنا

حافظ : یقینا آپ کا دل تاریخ کی شہادت کے بعد بخوبی قائل ہوگا کہ انبیائے بزرگ میں سے ہر ایک کی رحلت کے بد دشمنوں نے اس دین کی اصل مٰں جو ان کی کتاب تھی، جیسے توریت و انجیل مداخلت کی اور بکثرت تحریفیں کر کے اس دین کو ضائع اور درجہ اعتبار سے ساعط کردیا ۔ لیکن قرآن حکیم کے محکم ہونے کی وجہ سے چونکہ اس پر قادر نہیں ہوسکے لہذا یہودیوں کے ایک گروہ نےجو ہمیشہ سے حیلہ ساز اور مکار رہے ہیں اور ان کی تاریخ زندگی فریب و تزویر سے --- رہ چکی ہے ۔ جیسے عبداﷲ بن سبا صنائی ، کعب الاخبار اور وہب ابن منبہ وغیرہ نے اسلام قبول کر کے زہر پھیلانا شروع کیا اور جو باطل عقائد ان کی رائے اور عقیدے کے موافق تھے، ان کو ارشاد پیغمبر کے نام سے مسلمانوں کے درمیان شائع کیا خلیفہ سوم عثمان رضی اﷲ عنہ نے ان کا پیچھا کیا وہ لوگ خلیفہ کے خوف سے بھاگ کھڑے ہوئے اور مصر کو اپنا ہیڈ کواٹر بنایا ۔ آہستہ آہستہ عوام کی ایک جماعت کو فریب دیکر کچھ پیرو پیدا کیئے “ شیعہ” کے نام سے ایک پارٹی کی تشکیل کی خلیفہ عثمان کے مقابلہ میں علی(ع) کی کرامات و خلافت کا پروپیگنڈا کیا اور اپنے مصنوعی مقصد کے مطابق اس مفہوم کی چند حدیثیں وضع کیں کہ پیغمبر(ص) نے علی (ع) کو خلیفہ اور امام قرار دیا ہے۔

اس فرقے کے قائم ہونے کے نتیجے میں کثرت سے خون بہائے گئے یہاں تک کہ انجام خلیفہ عثمان مظلوم کے قتل اور مسند خلافت پر علی(ع) کے تقرر تک فتح ہوا۔ ایک اور جماعت نے بھی جو عثمان سے کدورتیں رکھتی تھی علی(ع) کی جنبہ داری اختیار کی ۔ چنانچہ اسی زمانہ سے گروہ شیعہ نے اپنی شکل و صورت قائم کی لیکن خلافت بنی امیہ اور حضرت علی (ع) کی اولاد و اصحاب کے قتل عام کے دور میں یہ گروہ بظاہر روپوش ہوگیا، البتہ چند افرد سلمان فارسی ابوذر غفاری اور عمار یاسر علی کرم اﷲ وجہ کی موافقت میں پوری کوشش سے تبلیغیں کرتے رہے جب کہ علی(ع) کی روح اس قسم کے تبلیغات سے قطعا بیزار تھی۔ یہاں تک کہ ہارون الرشید اور بالخصوص اس کے فرزند مامون الرشید عباسی کے زمانہ خلافت میں جو ایرانیوں کی مدد سے اپنے بھائی محمد امین پر غالب آیا اور اس کا تخت خلافت مضبوط

۲۶

ہوا ان لوگوں نے علی ابن ابی طلاب (ع) کو ناحق خلفائے راشدین پر فضیلت دینے سے اس طریقے کی تقویت کرنا شروع کی۔ ایرانی بھی چونکہ عربوں سے بد ظن تھے کیونکہ ان کی سلطنت عربوں کے دست اقتدار کے تصرف میں آچکی تھی اور ان کی آزادی سلب ہوچکی تھی ۔ لہذا وہ اس کا بہانہ تلاش کر رہے تھے کہ دین کے نام پر ایک ایسا راستہ ڈھونڈ نکالیں جس کے ذریعہ عربوں کے مقابلہ پر کھڑے ہوسکیں چنانچہ اس باطل روئیے کو پسند کر کے اس کی پیروی کی بلکہ چاروں طرف سے اس (شیعہ) فرقے نے ایک ہنگامہ برپا کردیا یہاں تک کہ دیالمہ کے دور میں ان کو تقویت حاصل ہوئی با اقتدار صفوی سلطنت میں انہوں نے رسمیت پیدا کی یعنی فرقہ شیعہ ایک با قاعدہ مذہب کے نام سے مشہور ہوگیا اور مجوسی ایرانی بھی اب تک از روئے سیاست اپنے مذہب کو شیعہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں، نتیجہ یہ کہ مذہب شیعہ ایک سیاسی اور نو زائیدہ مذہب ہے جس کی ایجاد عبداﷲ بن سبا (1) یہودی کے ہاتھوں ہوئی

الصبر مفتاح الفرح ( صبر خوشحالی کی کنجی ہے۔ اس کے بعد جناب حافظ صاحب کے جواب میں کہا)

مخالفین کی اشکال تراشیوں کا جواب

خیر طلب : آپ کے لیے ایسے ذی علم انسان سے یہ بعید تھا کہ گھڑی ہوئی مہمل موہوم اور بے اصل باتوں سے استدلال کرتے جو سوا منافقین و خوارج اور ناصبی اور اموی متعصب دشمنوں کے اور کسی کے لیے زیبا نہیں۔

-------------

1 ـ عبداﷲ بن سبا کے متعلق مکمل تحقیقات دفتر اصلاح کی کتاب عبداﷲ بن سبا میں ملاحظہ کریں۔

ورنہ پہلے اسلام کے اندر شیعہ مذہب کا کوئی نام و نشان نہٰیں تھا ۔ آپ کے جد بزرگوار نبی اکرم صلعم قطعا اس نام سے بیزار ہیں کیونکہ ان کی منشاء کے خلاف اس راہ میں قدم اٹھایا گیا ہے اور فی الحقیقت کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ فرقہ یہودیوں کے مذہب اور ان کے عقائد کی ایک شاخ ہے ۔ اسی وجہ سے میں تعجب کرتا ہوں کہ آپ کا ایسا شریف انسان ایسے پاک نسب کے ساتھ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ از روئے عادت اور اسلاف کی تقلید میں بغیر دلیل و برہاں کے اپنے جد بزرگوار کے طریقے یعنی اسلام کے پاک دین کو چھوڑ دے اور یہودیوں کے بدعتی روئے کی پیروی کرے در حالیکہ آپ اس کے لیے سب سے زیادہ اولی اور احق ہیں کہ پوری سعی کیساتھ قرآن اور اپنے جد رسول خدا(ص) کی سنت کے پیرو رہیں میں نے دیکھا کہ اہل جلسہ اور ذی شرف ہندی مومنین خصوصا پر جوش اور غیرت ند قزلباش حضرات جو ہندوستان کے با اثر شیعوں میں سے ہیں جناب حافظ صاحب کے بیانات سے بہت جھنجھلائے ہوئے ہیں اور ان کے چہروں کا رنگ متغیر ہوگیا ہے۔ چنانچہ میں نے ان کو تھوڑی نصیحت کی اور صبر و حوصلہ اور تحمل کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں یہ مثل مشہور ہے کہ شاہنامے کا آخر اچھا ہے لہذا صبر کرو۔

۲۷

اب اگر اجازت ہو تو مطلب واضح کرنے کے لیے وقت جلسہ کا لحاظ کرتے ہوئے مختصر طور پر آپ کے بے بنیاد بیانات کا جواب پیش کروں تاکہ یہ معمہ حل ہو اور حقیقت ظاہر ہوجائے۔

حافظ : فرمائیے ۔ میں آپ کی باتیں سننے کے لیے حاضر اور ہمہ تن گوش ہوں۔

خیر طلب : اول یہ کہ آپ نے دو بالکل بے ربط چیزوں کو باہم ایک دوسرے سے مخلوط کردیا ہے اگر منافق ملعون عبداﷲ بن سبا یہودی جس کی شیعہ حدیثوں میں شدید مذمت کی گئی ہے اور علی الاعلان منافقین و ملاعین میں شمار کیا گیا ہے نے چند روز تک حضرت علی علیہ السلام کی دوستی کا سہارا لیا جو عام طور پر لوگوں کو محبوب تھے۔ تو اس کو شیعہ امامیہ سے کیا ربط ہے ۔ اگر کوئی بھیڑیا بکری کی کھال اوڑھ کے یا کوئی چور روحانیت اور اہل علم کا لباس پہن کر منبر اور محراب میں جلوہ گر ہو اور اس کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو کچھ نقصانات پہنچیں تو کیا آپ کا یہی فرض ہے کہ اصل علم اور روحانیت بد ظن ہوجائیں اور سارے اہل علم کو چور اور بہرو پیا کہنے لگیں واقعا آپ نے بے اںصافی کی جو شیعوں کے پاک مذہب کو ملعون عبداﷲ بن سبا سے وابستہ کردیا۔ بہت تعجب کی بات ہے کہ آپ نے برحق شیعہ مذہب کو سبک کر کے سیاسی گروہ کا نام دیا اور اس کو ملعون عبداﷲ بن سبا کے آثار میں سے اور زمانہ عثمان کی ایجاد قرار دیا۔

حقیقتا آپ نے سخت غلطی کی کیونکہ شیعہ کوئی گروہ نہیں تھا بلکہ مذہب و طریقہ حقہ تھا۔ یہ خلافت عثمان کے زمانہ میں پیدا نہیں ہوا بلکہ خود کاتم الانبیاء (ص) کے عہد میں اور آں حضرت(ص) کے فرمان و ارشادات سے پھیلا۔

اگرچہ آپ خورج عامہ اور نواصب کی گھڑی ہوئی باتوں سے استدلال کرتے ہیں لیکن میں قرآن مجید کی آیات اور آپ کی معتبر روایات سے ثبوت پیش کرتا ہوں تاکہ حق وباطل میں امتیاز ہوجائے میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیشہ گفتار و کردار میں غور و فکر سے کام لیجئے تاکہ حقیقیت ظاہر ہونے کے بعد شرمندگی کا باعث نہ ہو۔

چنانچہ اگر اس دعا گو کے بیانات ناگوار خاطر نہ ہوں تو اجازت دیجیے کہ آپ کی باتوں کا جواب دیا جائے تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہے حقیقت اس کے خلاف ہے۔

حافظ : ضرور فرمائیے اس جلسہ کا انعقاد اور ہم لوگوں کے حاضر ہونے کا مقصد ہی یہی ہے حقائق واضح ہوں اور شبہات رفع ہوں ۔ ہم لوگ آپ کے استدلالی بیانات سے قطعا رنجیدہ اور متنفر نہ ہوں گے۔

۲۸

شیعہ اور حقیقت تشیع کے معنی

خیر طلب : آپ حضرات یہ تو جانتے ہی ہیں کہ لغت میں شیعہ کے معنی پیرو کے ہیں اور شیعہ الرجل مرد کے پیرو اور مددگار ہیں فیروز آبادی جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں۔ قاموس اللغات میں کہتے ہیں:

" و قد غلب هذا الاسم على كل من يتولى عليا و أهل بيته حتّى صار اسما لهم خاصا " (1)

اور ابن اثیر نے نہایہ اللغہ میں لکھے ہیں۔

لیکن آپ کو جو اشتباہ ہوا ہے یعنی عمدا یا سہوا یا تفاسیر و اخبار پر پوری اطلاع نہ ہونے اور اسلاف کی گفتگو سے متاثر ہونے کی وجہ سے بغیر دلیل و برہان کے فرما دیا کہ لفظ شیعہ اور اس کا اطلاق حضرت علی(ع) اور اہل بیت رسالت علیہم السلام کے پیرووں پر عثمان کے زمانے سے شروع ہوا اور اس کے موجد عبدا ﷲ ابن سبا یہودی تھا حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ آپ کی کتب تفاسیر میں مندرج معتبر روایتوں کے مطابق شیعہ اصطلاحی علی بن ابی طالب (ع) کے پیرو کے معنی حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ سے تھے اور پیروان علی(ع) کے لیے لفظ شیعہ کے موجد آپ کے ارشاد کے خلاف خود حضرت رسالت ماب(ص) کی ذات اقدس تھی۔ یہ کلمہ خود صاحب وحی کی زبان پر جاری ہوا۔ انہیں پیغمبر نے جن کے بارےمیں خدا نے سورہ 53 ( النجم) کی آیت نمبر3 میں فرمایا ۔

" وَ ما يَنْطِقُ عَنِ الْهَوى إِلَّا وَحْيٌ يُوحى " (2)

حضرت علی علیہ السلام کے اتباع اور پیرووں کو نجات یافتہ اور جنتی فرمایا ہے۔

حافظ : ایسی چیز کس مقام پر ہے جس کو ہم لوگوں نے اب تک نہیں دیکھا ہے؟

خیر طلب : آپ لوگوں نے دیکھا نہیں ہے یا دیکھنا نہیں چاہا ہے ۔ یا دیکھا ہے اور حقیقت کا اعتراف اپنی مصلحت وقت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یا پھر اپنے مقلدین اور مریدوں کا لحاظ کر رہے ہیں۔ لیکن میں نے دیکھا ہے اور حق کو چھپانا اپنی دین و دنیا کی مصلحت کے خالف جناتا ہوں کیونکہ خدائے تعالی نے قرآن مجید کی دو آیتوں میں

صریحی طور پر حق کے چھپانے والوں کو ملعون اور جہنمی فرمایا ہے۔ اول سورہ 2 ( بقرہ) کی آیت نمبر154 میں فرمایا ہے۔

--------------

1 ـ پھرشیعہ لفظ کے غالب معنی یہ ہوگئے کہ وہ شخص جو علی(ع) اور ان کے اہل بیت(ع) کو دوست رکھے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کا نام ہی شیعہ ہوگیا۔

2 ـ پیغمبر(ص) ہرگز اپنی خواہش نفس سے کوئی بات نہیں کہتے ان کا کلام سوا وحی خدا کے اور کچھ نہیں ہوتا۔

۲۹

"إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ ما أَنْزَلْنا مِنَ الْبَيِّناتِ وَ الْهُدى مِنْ بَعْدِ ما بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتابِ أُولئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَ يَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ " (1)

اور دوسرے اسی سورے کی آیت نمبر166 میں فرماتا ہے۔

"إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتابِ وَ يَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَناً قَلِيلًا أُولئِكَ ما يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَ لا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَ لا يُزَكِّيهِمْ وَ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ " (2)

حافظ : آیات شریفہ حق ہیں اور یقینا اگر کوئی شخص ان آیات کو چھپائے تو ان آیات کےتحت آجائے گا

لیکن ہم نے اب تک کسی ایسے حق کو نہیں پہچانا ہے جس کو چھپارہے ہوں ۔ البتہ کسی بھی حق کو پہچان لینے کے بعد اگر پوشیدہ کریں تو ہم بھی انہیں آیات کے حکم میں ہوں گے ۔ اور ہماری تمنا ہے کہ کسی وقت بھی ان آیات کے ذیل میں نہ آئیں۔

خیر طلب : اب خداوند علام کے لطف و عنایت اور حضرت خاتم الانبیاء کے خاص توجہات سے جہاں تک مجھ ممکن ہے اس حق کو بے نقاب کرتا ہوں ، جو اظہر من الشمس ہے اور برادران عزیز پر ( حاضرین جلسہ اہل تسنن کی طرف اشارہ) ظاہر کرتا ہوں کہ غالبا دونوں مذکورہ آیتیں برابر ہماری نگاہوں کے سامنے رہیں گی تاکہ خدا نکردہ ایسا نہ ہو کہ عادت اور تعصب غالب آجائے اور کسی امر حق رپ پردہ ڈال دیا جائے۔

حافظ : میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ جس وقت کوئی حق بات مجھ پر ظاہر ہوجاتی ہے تو میں بے جا حجت نہیں کرتا چونکہ آپ کو میرے ساتھ رہنے ک اتفاق نہیں ہوا اور میرے اخلاق سے واقف نہیں کہ میں کیسا عزم رکھتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ خواہش نفس پر غالب آؤں جب آپ دیکھیے کہ میں کسی بیان کے مقابلے میں خاموش ہوگیا تو سمجھ لیجیئے کہ میں اس موضوع میں پوری طرح سے مطمئن ہوگیا ہوں اگر میرے پاس بے جا حجت ، مغالطہ دیتے اور مطالب میں غالب رہنے کا کوئی حیلہ ہو بھی جب بھی میں مجادلہ نہیں کرتا ہوں ۔ اور اگر ایسا کروں تو قطعا ان دونوں آیتوں کی زد میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ جو لوگ ان واضح آیتوں کو جو ہم نے ہدایت خلق کے لیے نازل کی ہیں چھپاتے ہیں اور بعد میں اس کے کہ ہم نے ان لوگوں کی ہدایت کے لیے کتاب میں جو کچھ بیان کیا ہے ۔ پوشیدہ کرتے ہیں خدا اور( تمام جن و انس اور ملائکہ ) ان پر لعنت کرتے ہیں۔

2 ـ جو لوگ ان آیات کو چھپاتے ہیں ۔ اور ان پر پردہ ڈالتے ہیں جن کو ہم نے آسمانی کتاب سے نازل کیا ہے اور ان کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں تو سوا آتش جہنم کے ان کی کوئی غذا نہیں اور روز قیامت غیظ و غضب کی وجہ سے خدا ان سے بات نہیں کرے گا ۔ ان کو نجاست معصیت سے پاک نہیں کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔

۳۰

آجاؤں گا ۔ اب میں آپ کے بیانات حقہ سننے کے لیے حاضر ہوں اور امید کرتا ہوں کہ خدا ہم کو اور آپ کو حق کی طرف راہنمائی کرے گا۔

خیر طلب : حافظ ابونعیم اصفہانی احمد بن عبداﷲ جو آپ کے اجلہ علمائے عظام محدثین فخام اور محققین کرام میں سے ہیں۔ اور ابن خلکان نے وفیات الاعیان میں ان کی تعریف کی ہے کہ اکابر حفاظ ثقات میں سے ہیں اور اعلم محدثین ہیں اور ان کی کتاب “ حلیة الاولیا” کی دس جلدیں بہترین کتابوں میں سے ہیں۔

اور صلاح الدین خلیل بن بیک الصفدی دانی بالوفیات میں ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ تاج المحدثین حافظ ابو نعیم علم و زہد اور دیانت میں امام تھے روایات کے نقل وفہم اور حفظ در روایات میں بلند و بالا منزلت کے مالک تھے اور ان کی بہترین تصنیفات میں سے حلیة الاولیاء کی دس جلدیں ہیں۔ جو صحیحین سے مستخرج ہیں اور احادیث بخاری و مسلم کے علاوہ بہت سی ایسی حدیثیں نقل کی ہیں کہ گویا ان کو اپنے کانوں سے سنا ہے۔

اور محمد بن عبداﷲ الخطیب رجال مشکوة المصابیح میں ان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

" هو من مشائخ الحديث الثقاة المعمول بحديث ه م المرجوع الی قوم ه م کبير القدر ول ه من العمر ست و تسعون سن ه "

خلاصہ یہ کہ ایک ایسے چھیانوے سال کے عالم حافظ اور محدث جو آپ کے علماء کے نزدیک محلِ وثوق اور مایہ ناز ہیں اپنی معتبر کتاب “ حلیة الاولیا” میں اپنے اسناد کے ساتھ خیر امت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ۔

مقام تشیع کی تشریح میں آیات و روایات

جب سورہ 98 ( البینہ کی آیت نمبر6)

"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ جَزاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدِينَ فِيها أَبَداً رَضِيَ اللَّه عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ "

یعنی جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیکو کار ہیں وہ یقینا بہترین اہل عالم ہیں ان کی جزا خدا کے نزدیک بہشت عدن کے باغ ہیں جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ لوگ اس بہشت میں ہمیشہ نعمات سے بہرہ اندوز ہوں گے۔ خدا ان سے راضی ہے ۔ اور وہ خدا سے خوش ہیں) نازل ہوئی تو رسول اﷲ(ص) نے علی ابن ابی طالب (ع) سے خطاب کیا اور فرمایا کہ۔

۳۱

"يَا عَلِيُّ انت و شيعتك تاتي انت و شيعتك يوم القيامة راضيين مرضيين "

یعنی یا علی(ع) آیت مبارکہ میں خیر البریہ سے تم اور تمہارے شیعہ مراد ہیں روز قیامت تم اور تمہارے شیعہ اس حالت میں آئیں گے کہ خدا تم سے راضی ہوگا اور تم بھی خدا سے راضی و خوشنود ہوگے۔

ابوالموئد موفق بن احمد خوارزمی نے مناقب کی سترھویں فصل میں حاکم ابوالقاسم عبیداﷲ الحسکانی نے جو آپ کے مفسرین بزرگ کے فحول احلام میں سے ہیں کتاب شواہر التنزیل فی قواعد التفصیل میں محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت المطالب کے ص116 میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ خواص الامہ فی معرفتہ الائمہ کے صفحہ 31 میں ( بہ حذف آیت) اور منذر بن محمد منذر نے اور مخصوص طور پر حاکم نے روایت کی ہے کہ حاکم ابو عبداﷲ حافظ نے ( جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں ) ہم کو کبر دی ایسے اسناد کیساتھ جو مرفوع ہیں یزید بن شراعیل اںصادی کاتب حضرا امیرالمومنین علی کرم اﷲ وجہ کی طرف کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ان حضرت سے سنا کہ آپ نے فرمایا حضرت خاتم الانبیاء کی رحلت کے وقت آں حضرت کی پشت مبارک میرے سینے پر تھی۔ اس وقت فرمایا:

"يا علي ، ألم تسمع قول الله تعالى: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ؟ هم شيعتك، و موعدي و موعدكم الحوض إذا اجتمع الأمم للحساب تدعون غرا محجلين."

یعنی یا علی(ع) کیا تم نے یہ آیت شریفہ نہٰں سنی ہے؟ ( صاحبان ایمان واعمال صالحہ اور خیر البریہ) وہ تمہارے شیعہ ہیں اور میری اور تمہاری وعدہ گاہ حوض کوثر ے کنارے ہوگی جس وقت کل مخلوق حساب کے لیے جمع ہوگی تو تم غر محجلین کہہ کے پکارے جاؤ گے یعنی روشن اور سفید چہرے والو۔

جلال الدین سیوطی جو آپ کے مایہ ناز علماء میں سے ہیں اور نویں صدی ہجری میں ان کو طریقہ سنت و جماعت کا مجدد مانا گیا ہے ( جیسا کہ صاحب فتح المقال نے لکھا ہے) اپنی تفسیر در المثور فی کتاب اﷲ بالماثور، کے محل وثوق ہیں ۔ ( جیسا کہ ابن خلکان نے وفیات الاعیان میں ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں خوارزمی نے رجال مسند ابی حنیفہ اور طبقات شافعیہ میں حافظ ابوسعید نے اپنی تاریخ میں ان کی تعریف وتوثیق ی ہے۔ کہ ابن عساکہ فخر شافعیہ او اپنے زمانہ مٰں امام اہل حدیث تھے ۔ کثری العلم عزیز الفضل ثقہ صاحب تقوی اور سنہ550 ھ میں علماء اہل سنت وجماعت کے درمیان مشہور تھے) بروایت جابر بن عبداﷲ اںصاری جو حضرت رسول خدا کے کبار صحابہ میں سے تھے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ۔ میں خدمت رسول اکرم میں حاضر تھا کہ اتنے میں علی بن ابی طالب وارد ہوئے پیغمب نے فرمایا ۔

"و الذي نفسي بيده، إن هذا و شيعته هم الفائزون يوم القيامة فنزلت إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ. "

۳۲

یعنی قسم اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے یہ مرد ( اشارہ علی (ع) کی طرف) اور اس کے شیعہ قیامت کے روز نجات یافتہ ہیں اس وقت آیت مذکورہ نازل ہوئی۔

اور اسی تفسیر میں ابن عدی سے بروایت ابن عباس ( خیر امت) نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں خدمت رسول (ص) میں تھا کہ آیت مذکورہ نازل ہوئی ، رسول اﷲ (ص) نے امیرالمومنین علیہ السلام سے فرمایا ۔

"تاتي انت و شيعتك يوم القيامة راضيين مرضيين "

یعنی تم اور تمہارے شیعہ قیامت کے روز اس صورت سے آئیں گے کہ خدا سے راضی ہوں گے اور خدا تم لوگوں سے راضی ہوگا۔

مناقب خوارزمی فصل نہم میں بسند جابر بن عبداﷲ اںصاری نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں رسول اﷲ کی خدمت میں تھا۔ علی علیہ السلام ہم لوگوں کے پاس آئے تو آں حضرت (ص) نے فرمایا ۔ قد اتاکم اخی یعنی تمہاری طرف آیا ہے میرا بھائی و علی(ع)) اس کے بعد کعبہ کی طرف رخ کیا اور علی (ع) کا ہاتھ پکڑ کے فرمایا ۔

"و الذي نفسي بيده، إن هذا و شيعته هم الفائزون يوم القيامة"

یعنی قسم اس خدا کی جس کے قبضے میں میری جان ہے یہ علی(ع) اور اس کے شیعہ قیامت کے روز نجات یافتہ ہیں۔

پھر فرمایا کہ یہ علی (ع) تم سب سے پہلے ایمان لائے عہد خدا میں تم سب سے زیادہ با وفا ہیں رعایا کے درمیان تم سب سے زیادہ اںصاف کرنے والے اور تم سب سے زیادہ عادلانہ تقسیم کرنے والے ہیں اور پروردگار کے نزدیک تم سب سے زیادہ ان کا مرتبہ بلند ہے اسی وقت مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ اس کے بعد علی (ع) کسی مجمع کے اندر آتے تھے تو اصحاب پیغمبر(ص) کہتے تھے جاء خير البري ه یعنی تمام لوگوں سے بہتر انسان آگیا۔

نیز ابن حجر نے صواعق میں اور ابن اثیر نے نہایہ جلد3 میں اس آیہ شریفہ کی شان نزول میں یہی روایت نقل کی ہے۔

جب اس کے علاوہ ابن حجر نے صواعق کے باب 11 میں حافظ جمال الدین محمد بن یوسف زرندی مدنی سے جو آپ کے فحول فقہاء علماء میں سے ہیں نقل کیا ہے کہ جب آیت مذکورہ نازل ہوئی تو رسول اکرم(ص) نے علی(ع) سے فرمایا :

" ي ا عَلِي أَنْتَ وَ شِيعَتُكَ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ، تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنْتَ وَ شِيعَتُكَ رَاضِينَ مَرْضِيِّينَ وَ يَأْتِي عَدُوُّكَ غُضَّاباً مُقْمَحِينَ .فقال من عدوی قال من تبرئ منک ولعنک"

یعنی یا علی (ع) تم اور تمہارے شیعہ کل مخلوقات سے بہتر ہیں تم اور تمہارے شیعہ قیامت کے روز اس حالت سے آئیں گے کہ خدا بھی تم سب سے راضی ہوگا۔ تمہارے دشمن غصے میں بھرے ہوئے آئیں گے اور ان کے ہاتھ گردنوں سے بندھے ہوں گے پھر امیرالمومنین (ع) نے عرض کیا کہ میرا دشمن کون ہے؟ فرمایا جو شخص تم سے بیزاری اختیار کرے اور تمہارے اوپر لعن کرے۔

۳۳

علامہ سمہودی جواہر العقدین میں حافظ جمال الدین زرندی مدنی اور نورالدین علی بن محمد بن احمد مالکی مکی مشہور بہ ابن صباغ سے جو آپ کے اکابر علماء اور فحول فقہاء میں سے ہیں فصول المہمہ ص122 میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ آیت مذکورہ نازل ہوئی تو رسول اکرم(ص) نے علی(ع) سے فرمایا۔

" هو أَنْتَ وَ شِيعَتُكَ تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنْتَ وَ هم رَاضِينَ مَرْضِيِّينَ وَ يَأْتِي اعدائكَ غُضَّاباً مُقْمَحِينَ . "

یعنی وہ ہترین مرد تم اور تمہارے شیعہ ہیں تم اور وہ لوگ روز قیامت اس طرح آئیں گے کہ خدا سے راضی ہوں گے اور خدا ان سے راضی ہوگا اور تمہارے دشمن اس صورت سے آئیں گے کہ غم غصہ سے بھرے ہوئے اور ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے بندھے ہوں گے۔

میر سید علی ہمدانی شافعی جو آپ کے متمد علماء میں سے ہیں کتاب مودة القربیٰ میں اور ابن حجر متعصب صواعق محرقہ میں رسول اﷲ کی زوجہ محترمہ ام المومنین ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا۔

"ي ا علی انت و اصحابک فی الجنه انت و ش ي عتک فی الجنه"

یعنی یا علی(ع) تم اور تمہارے اصحاب اور تمہارے شیعہ جنت میں رہیں گے۔

خوارزم کے اخطب الخطباء موفق بن احمد مناقب کی انیسویں فصل میں مسند کے ہاتھ حضرت رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ علی(ع) سے فرمایا

" مَثَلُكَ فِي أُمَّتِي مَثَلُ الْمَسِيحِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ "

یعنی تمہاری مثل امت میں حضرت مسیح عیسی بن مریم(ع) کے مثل ہے جن کی قوم کے تین فرقے ہوگئے ایک فرقہ مومنین کا جو حوارین تھے۔ ایک فرقہ ان کے دشمن کا جو یہود تھے اور ایک فرقہ غلات کا جنہوں نے ان جناب کے بارے میں غلو کیا ( یعنی ان کو خدا اور خدا کا شریک قرار دیا) اور میری امت بھی تمہارے بارے میں فرقہ پر منقسم ہوجائے گی۔ ( فرقة شيعتک و ه م المومنون ) یعنی ایک فرقہ تمہارے شیعوں کا ہے اور وہی مومنین ہیں۔ ایک فرقہ تمہارے دشمنوں کا ہے ۔ اور ناکثین اور تمہارے عہد اور بیعت کو توڑنے والے ہیں اور ایک فرقہ تمہارے بارے میں غلو کرنے والوں کا ہے۔ جو منکر حق اور گمراہ ہیں۔

" يَا عَلِيُّ وَ شِيعَتُكَ فِي الْجَنَّةِ وَ مُحِبُّو شِيعَتِكَ فِي الْجَنَّةِ وَ عدؤُكَ وَ الْغاَل فِيكَ فِي النَّارِ."

یعنی تم یا علی اور تمہارے شیعہ تمہارے شیعوں کے دوست بہشت میں ہوں گے۔ اور تمہارے دشمن اور تمہارے بارے میں غلو کرنے والے آتش جہنم میں جلیں گے۔

اس موقع پر نماز عشا کے لیے موذن کی آواز آئی اور سب حضرات نماز کے لے اٹھے نماز سے فراغت اور چائے نوشی کے بعد مولوی سید عبدالحی صاحب جو نماز جماعت کے لئے مسجد گئے تھے واپس ہوئے اور فرمایا کہ چونکہ میرا مکان قریب تھا لہذا چند کتابیں اپنے ساتھ لیتا آیا ہوں ۔ جو تفسیر سیوطی مودة القربی ، مسند امام احمد بن حنبل اور مناقب خوارزمی ہیں ( یہ کتابیں جلسوں کی آخری شب تک میرے پاس رہیں گی کتابیں کھول کر وہ حدیثیں اور ان کے علاوہ چند دوسری حدیثیں جو اسی مطلب کی تائید میں تھیں پڑھی گئیں۔ مولوی صاحبان کے چہروں کا رنگ متغیر ہو رہا تھا۔ اور میں خاص طور سے دیکھ رہا تھا کہ اپنے پیروؤں کے سامنے شرمندہ ہو رہے ہیں) جس وقت مودة القربی

۳۴

میں حدیث بالا کو پڑھا تو اس کے علاوہ ایک دوسری حدیث بھی نظر آئی۔ انہوں نے پڑھا کہ ام المومنین رسول اکرم(ص) سے روایت کرتی ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا :

"يا علي ستقدم على اللَّه أنت و شيعتك راضين مرضيين، و يقدم عل ي ه عدوك غضاباً مقمحين. "

یعن ی یا علی( ع) عنقریب تم اور تمہارے شیعہ اس صورت سے خدا کے سامنے آئیں گے کہ خدا سے راضی ہوں گے۔ اور ان سے راضی ہوگا اور تمہارے دشمن خدا پر غصے میں بھرے ہوئے وارد ہوں گے اس حالت سے کہ ان کے ہاتھ ان کی گردنوں پر بندھے ہوں گے۔

خیر طلب : یہ تھا ایک مختصر نمونہ ان محکم دلائل میں سے جن کو کتاب خدا اور معتبر اخبار و روایات کی تائید حاصل ہے جو آپ کے اکابر کی کتابوں میں موجود ہے علاوہ ان روایات کے جو علمائے شیعہ کی تمام کتابون اور تفسیروں میں منقول ہیں۔ اگر میں چاہوں تو پروردگار کی تائید و توفیق سے صرف اپنی یاد داشت پر انہیں کتابوں کے ذریعہ سے جو آپ کے سامنے رکھی ہوئی ہیں، صبح تک برابر اس مقصد پر دلیلیں پیش کر سکتا ہوں، لیکن میرا خیال ہے کہ نمونے اور رفع اشتباہ کے لیے اسی قدر روایات کا نقل کرنا کافی ہوگا۔ تاکہ آپ حضرات اس کے بعد معاندیں کی بے سرو پا باتیں زبان پر نہ لائیں اور خارجیوں ، ناصبیوں اورا مویوں کے جگھڑے ہوئے جملوں سے بے خبر عوام کو یہ دھوکا نہ دیں کہ لفظ شیعہ کا موجد ملعون یہودی عبداﷲ ابن سبا تھا۔

حضرات محترم ! ہم شیعہ یہودی نہیں ہیں بلکہ محمدی ہیں اور پیروان علی (ع) کے لیے لفظ شیعہ کا موجد بھی ملعون عبداﷲ ابن سبا نہیں تھا ۔ بلکہ رسول اکرم(ص) کی ذات مبارک تھی نیز ہم لوگ عبداﷲ کو ایک منفاق اور ملعون شخص سمجھتے ہیں۔ اور کسی فرد یا جماعت کی تقلید بغیر دلیل و برہان کے نہیں کرتے جیسا آپ نے فرمایا ہے کہ زمانہ عثمان کے بعد سے پیروان علی(ع) پر لفظ شیعہ کا اطلاق کیا گیا ہے بلکہ خود پیغمبر(ص) کے زمانہ میں آں حضرت (ع) کے خاص خاص صحابہ کو شیعہ کہا جاتا تھا، جیسا کہ حافظ ابو حاتم رازی کتاب “ الزینتہ” میں جو انہوں نے صاحبان علوم کے درمیان مروجہ الفاظ کیتشریح مٰں لکھی ہے۔ لکھتے ہیں کہ پہلا نام جو زمانہ رسول خدا(ص) میں اسلام کے اندر وجود میں آیا وہ شیعہ تھا اور صحابہ میں سے چار افراد اس لقب کے حامل تھے۔ ابوذر غفاری، سلمان فارسی، مقداد ابن ابود کندی اور عمار یاسر۔ آپ حضرات غور فرمائیں کہ بھلا یہ کیونکر ممکن ہے ،کہ پیغمبر(ص) کے زمانہ میں خاص بلکہ خدا و رسول(ص) کے محبوب صحابہ میں چار افراد لقب شیعہ کے ساتھ یاد کیجئے جائیں اور پیغمبر(ص) سمجھتے ہوں کہ لفظ شیعہ بدعت ہے۔ پھر بھی لوگوں کو منع نہ فرمائیں چنانچہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ ان لوگوں نے خود پیغمبر(ص) سے سنا تھا کہ علی(ع) کے شیعہ نجات یافتہ ہیں لہذا اس کو ذریعہ افتخار سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان حضرات کو کھلم کھلا شیعہ کہتے تھے۔

۳۵

سلمان و ابوذر اور مقداد و عمار کی منزل

اس بیان سے قطع نظر آپ حضرات عمل اصحاب کے حجت سمجھتے یں اور آں حضرت(ص) سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ فرمایا :

"ان اصحابی کالنجوم باي ه م اقتديتم ا ه تديتم ۔" یعنی بہ تحقیق میرے اصحاب مثل ستاروں کے ہیں ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے ) تو کیا ابو الغداء نے اپنی تاریخ میں نہیں لکھا ہے کہ یہ چار نفر جو اصحاب پیغمبر یں سے تھے۔ سقیفہ بنی ساعدہ کے روز علی(ع) کی ہمراہی میں ابوبکر کی بیعت پر تیار نہیں ہوئے۔ پھر آپ حضرات کس وجہ سے ان کے عمل اور بیعت سے انحراف کو حجت نہیں سمجھتے ہیں؟ باوجودیکہ خود آپکے علماء نے لکھا ہے کہ یہ حضرات خدا اور رسول(ص) کے محبوب تھے۔ چنانچہ ہم لوگ بھی انہیں کی پیروی کرتے ہیں، کیونکہ وہ حضرت علی (ع) کے پیرو تھے، لہذا خود آپ ہی کی منقولہ حدیث کے ماتحت ہم ہدایت کے راستے پر ہیں۔

آپ حضرات کی اجازت سے وقت کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کے لیے چند روایتیں نقل کرتا ہوں حافظ ابو نعیم اصفہانی کے علیة الاولیاء جلد اول ص172 میں اور حجر مکی نے ان چالیس حدیثوں میں سے جو انہوں نے صواعق محرقہ کے اندر حضرت علی(ع) کے فضائل میں لکھی ہیں۔ پانچویں حدیث میں ترمذی اور حاکم نے بریدہ سے نقل کیا ہے۔ کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"ان اﷲ امرنی بحب اربعة و اخبرنی ان ه يحب ه م ۔" یعنی خدا نے مجھ کو چار شخصوں کی دوستی کا حکم دیا ہے اور مجھ کو خبر دی ہے کہ وہ بھی ان کو دوست رکھتا ہے۔ لوگوں نے عرض کی یا رسول اﷲ(ص) وہ چار نفر کون ہیں؟ تو فرمایا ۔ علی ابن ابی طالب(ع)، و ابوذر و مقداد و سلمان۔

ابن حجر نے حدیث ںمبر 39 میں ترمذی سے اور حاکم نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ آں حضرت (ص) نے فرمایا :

"إِنَّ الْجَنَّةَ لَتَشْتَاقُ إِلَى ثَلَاثَةٍ عَلِيٍّ وَ عَمَّارٍ وَ سَلْمَانَ ."

یعنی بہشت تین شخصوں کی مشتاق ہے اور وہ تین علی(ع) و عمار اور سلمان ہیں۔

تو کیا رسول اﷲ(ص) کے ان اصحاب خاص کا طیرقہ اور طرز عمل جو محبوب خدا اور رسول(ص) اور جتنی ہیں سند نہن ہے او حالی قابل اعتماد نہیں ہے تاکہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول اور لائق تقلید بن سکے ! ایک شرمناک بات نہیں ہے کہ آپ کی نظر میں اصحاب پس وہی لوگ ہیں جنہوں نے سقیفہ کے کھیل سے موافقت کی اور بقیہ رسول اﷲ(ص) کے پاک صحابہ جنہوں نے اہل سقیفہ کے مقصد سے مخالفت کی وجہ سے اعتبار سے ساقط اور بے اثر بن جائیں ؟ ایسی صورت میں تو بہتر یہ تھا کہ جو حدیث آپ حضرات نے نقل کی ہے اس کو عمومیت کیساتھ نہ کہتے بلکہ یہ کہتے کہ

۳۶

ان بعض اصحابی کالنجوم ۔ تاکہ اس مصیبت میں گرفتار نہ ہوتے اور ہم لوگوں کو بھی دائرہ ہدایت سے خارج نہ کہتے۔

خلفاء دیالمہ اور غازاں خان اور شاہ خدا بندہ کے زمانہ میں

ایرانیوں کی توجہ اور تشیع کا سبب

لیکن آپ نے جو یہ فرمایا کہ شیعہ مذہب ایک سیاسی مذہب ہے اور مجوس ایرانیوں نے عربوں کی سلطنت اور اقتدار سے جان بچانے کے لیے اسی کو سیاست کے نظریہ سے قبول کیا ہے تو آپ نے بڑا ظلم کیا کہ بغیر توجہ اور غور و فکر کے اسلاف کی پیروی میں ایسا فرما دیا اس لیے کہ میں اس سے قبل ثابت کرچکا ہوں کہ شیعہ ایک اسلامی مذہب ہے اور ایک ایسا طریقہ ہے جس کو خاتم الانبیاء نے خدا کے حکم سے امت کے سامنے رکھا۔ ہم لوگ آں حضرت (ص) ہی کے حکم سے امیرالمومنین حضرت علی (ع) اور ان کی اولاد طاہرین علیہم السلام کی پیروی کرتے ہیں اور حق کی امید میں ان ہدایات کے مطابق جو ان حضرات نے ہم کو دیئے ہیں، ہم ان پر عمل کرتے ہیں اور اپنے کو نجات کا مستحق سمجھتے ہیں بلکہ جن لوگوں نے بغیر رسول اﷲ(ص) کسی چھوٹی ہدایت کے سقیفے کی بنیاد قائم کی وہ البتہ سیاسی تھے نہ کہ پیغمبر(ص) کے ارشاد سے عترت طاہرہ کی پیروی کرنے والے کیونکہ عترت و اہل بیت رسالت کی پیروی کے لیے تو آں حضرت (ص) سے ہدایت مل چکی ہے اور آپ کی معتبر کتابوں میں کثرت سے اس کا ذکر موجود ہے لیکن سقیفہ اور اہل سقیفہ کی پیروی میں خلیفہ سازی کے عنوان سے کبھی کوئی فرمان صادر نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ منزل ولایت امیرالمومنین و اہل بیت طاہرین علیہم السلام کی طرف ایرانیوں کی توجہ کے بارے میں حضرات اہل تسنن نے عناد و تعصب کے تحت یا عادت کی مطابق خلفاء عن سلف بغیر غور تحقیق کے فیصلہ کیا ہے اور اسی طرح دوسرے مصنفین کو جو اہل تسنن کیساتھ رہنے سہنے اور ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کی وجہ سے دھوکے میں مبتلا ہوگئے ہیں، تنہا پیش قاضی روی راضی آئی، کہ مشہور مثل کے موافق یہ خیال پیدا ہوگیا کہ ایرانیوں نے از روئے سیاست مذہب حق تشیع اختیار کیا ہے۔

در حقیقت یا تو چاہا نہیں ہے یا ممکن نہیں ہوسکا کہ غور کریں اور عادت و تعصب سے الگ ہوکر امیر المومنین (ع) اور ان کے اہل بیت (ع) کی طرف ایرانیوں کی توجہ اور ان کے ساتھ وابستگی کی اصل وجہ دریافت کریں ورنہ اگر تھوڑے سے دقت اور غور و تامل سے کام لیتے تو حقیقت تک رسائی ہوجاتی اور سمجھ لیتے کہ کوئی بھی فرد یا قوم اگر کوئی عمل سیاست کے نظریہ سے انجام دیتی ہے تو وہ وقتی ہوتا ہے۔ اور نتیجہ بر آمد ہوجانے اور مطلب و مقصد حاصل کر لینے کے بعد

۳۷

جس راستے سے آئی تھی اسی راہ پر پلٹ جاتی ہے ۔ نہ یہ کہ ہزاروں سال اس عقیدہ حقہ پر قائم رہیں ، اس راہ میں جان بازیاں دکھائیں یہاں تک کہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے بعد اپنے خون سے کلمہ علی ولی اﷲ کی حفاظت کریں اور اس پر فخر کریں۔

اب میں تاریخ کو روشن کرنے کے لیے آپ حضرات کی اجازت سے اور وقت کا لحاظ کرتے ہوئے مختصر اشارے کے ساتھ دوسرے رہنمایاں اقوام کے درمیان ان حضرت اور ان کے اہل بیت طاہرین(ع) کیساتھ ایرانیوں کی وابستگی کا حقیقی سبب عرض کرتا ہوں تاکہ آپ یہ سمجھ لیں کہ ان لوگوں نے سیاست کے نقطہ نظر سے تشیع کا اظہار نہیں کیا بلکہ حقیقت و برہان اور قلبی لگاؤ کی جہت سے تشیع کا حق مذہب اختیار کیا۔

اولا ایرانیوں کو عقل و زکاوت کا یہ تقاضا ہے کہ اگر جہالت اور عادت و تعصب مانع نہ ہوتو حق اور حقیقت کو جلد سمجھ لیتے ہیں اور دل و جان سے قبول کر لیتے ہیں چنانچہ ہیں جب عرب مسلمانوں نے ایرانیوں کو فتح کیا تو باوجودیکہ ان لوگوں کو کامل آزادی دے رکھی تھی اور مقدس دین اسلام کو قبول کرنے کے لیے کوئی جبر و تشدد نہیں کرتے تھے پھر بھی مسلمانوں کیساتھ معاشرت اور وقت نظر کیساتھ تحقیق کرنے کے نتیجہ میں جیسے ہی حقیقت اسلام کا سراغ لگا لیا فورا کئی ہزار سال کے دین مجوسیت اور آتش پرستی کو باطل قرار دے دیا اور اور انتہائی شوق و رجحان اور قلبی تعلق کے ساتھ ( خداؤں اہرمن ویزداں) کے عقیدے سے منہ موڑ کے دین وحدانیت کو اختیار کر لیا اور اسی طرح جس وقت مذہب شیعہ یعنی حضرت علی علیہ السلام کی پیروی کے برحق ہونے پر ٹھوس دلیلیں نظر آئیں تو عقل و دانش کے حکم سے اس کے اتباع اور پیروی کو فرض سمجھا۔

نیز آپ کے بہت سے کم فہم مصنفین کے قول کے بر خلاف مقام ولایت پر ایرانیوں کی توجہ اور امیرالمومنین علیہ السلام سے ان کا ربط خلافت ہارون و مامون کے زمانے میں پیدا نہیں ہوا بلکہ خود رسول اﷲ(ص) کے عہد سے تخل مودت نے ایرانیوں کے دل میں اپنی جڑیں پھیلائیں۔

کیونکہ جب کوئی ایرانی مدینے آتا تھا۔ اور مسلمان ہوتا تھا تو مخصوص ایرانی ذکاوت اور ہوشمندی کی بنا پر حضرت علی(ع) میں حق اور حقیقت کا مطالبہ کرتا تھا ۔ لہذا رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کے حکم اور راہنمائی سے ولایت علی(ع) کی حبل متین اور ریسمان محکم سے متمسک ہو جاتا تھا ، اس سلسلے کی پیلی کڑی سلمان فارسی تھے جو ایمان کے سارے درجات اور مراتب پر فائز ہوئے یہاں تک کہ خاتم الانبیاء نے جیسا کہ فریقین کے علماء نے لکھا ہے ان کے بارے میں فرمایا سلمان منا اہلبیت ۔ یعنی سلمان ہم اہل بیت سے ہیں ۔ اور وہ اسی زمانے سے سلمان محمدی مشہور ہوئے یہ سلمان خالص شیعوں میں سے ولایت امیرالمومنین (ع) سے متمسک اور سقیفہ کے شدید مخالفین میں سے تھے جن کی پیروی آپ کی کتابوں میں منقول حدیث کے حکم سے شاہراہ ہدایت ہے۔ اس لیے کہ حضرت علی(ع) کے بارے میں انہوں

۳۸

نے قرآن مجید کی آیات اور رسول اﷲ(ص) کے بیانات سنے تھے اور عین الیقین کے ساتھ سمجھ لیا تھا کہ علی(ع) کی اطاعت خدا اور رسول (ص) کی اطاعت ہے کیونکہ رسول برحق(ص) کو بار بار یہ فرماتے ہوئے سنتے تھے کہ

" من اطاع علیا فقد أطاعني و من أطاعنى فقد اطاع اللّه. و من خالف عليا فقد خالفني و من خالفني فقد خالف اللّه"

یعنی جس نے علی(ع) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس شخص نے علی(ع) کی مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی اور جس نے میری مخالفت کی اس نے خدا کی مخالفت کی اس کے علاوہ جو ایرانی بھی مدینے پہنچا اور مسلمان ہوا خواہ پیغمبر(ص) کے زمانے میں ہو یا بعد کے عہدوں میں وہ ان حضرت کے سلسلے اور اطاعت میں داخل ہو جاتا تھا اس وجہ سے خلیفہ ثانی کو سخت تعصب پیدا ہوا اور ان لوگوں پر پابندیاں لگانے کا تہیہ کر لیا۔ چنانچہ انہیں پابندیوں اور سختیوں نے ان کے دلوں میں کینہ اور عداوت پیدا کر دی اور وہ لوگ بہت متاثر ہوئے کہ رسول اﷲ(ص) کی سیرت اور ہدایات کیخلاف خلیفہ نے ہم کو کس لیے راندہ درگاہ اور حقوق اسلام سے محروم بنا دیا ہے ان باتوں کے علاوہ جس چیز نے سب سے زیادہ ایرانیوں کو حضرت علی(ع) کی بلند منزلت اور ان کی عترت طاہرہ کی طرف متوجہ کیا کہ انہوں نے آں حضرت (ص) کے بارے میں پوری تحقیقات کی اور آپ کی محبت ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگئی وہ مقید ایرانی شاہزادوں کے لیے امیرالمومنین علیہ السلام کی مکمل طرفداری تھی کیونکہ جس وقت مدائن ( میسفون) کے قیدی مدینے لائے گئے تو خلیفہ ثانی نے حکم دیا کہ ساری مقید عورتوں کو مسلمانوں کی کنیزی میں دیدیا جائے امیرالمومنین علیہ السلام نے منع کیا اور فرمایا کہ بادشاہوں کی اولاد مستثنی اور لائق احترام ہے۔ یزد جرد شہنشاہ ایران کی دو لڑکیاں بھی اسیروں میں ہیں، ان کو کنیزی میں نہیں دیا جاسکتا ۔ خلیفہ نے کہا پھر کیا کرنا چاہئے۔ حضرت نے فرمایا کہ ان کو حکم دیجئے کہ اٹھیں اور مسلمانوں میں سے جس شخص کو چاہیں آزادی کے ساتھ اپنی شوہری کے لیے منتخب کر لیں چنانچہ آں حضرت کے ارشاد کی مطابق ان دونوں لڑکیوں نے اٹھ کر اصحاب کے درمیان ایک نظر ڈالی، شاہ زنان نے محمد ابن ابی بکر کو ( جو حضرت کے پروردہ اور ربیب تھے) اور شہر بانو نے سبط رسول(ص) حضرت رسول(ص) حضرت امام حسین(ع) کو انتخاب کیا اور عقد شرعی کے ساتھ ان کے گھروں میں گئیں۔ شاہ زنان سے خدا نے محمد کو ایک فرزند عطا فرمایا جن کا نام قاسم فقیہ تھا اور یہ امام ششم حضرت صادق آل محمد علیہ السلام کی مادر گرامی ام فروہ کے پدر بزرگوار ہیں۔ اور شہر بانوں سے ( امام چہارم حضرت زین العابدین علیہ السلام متولد ہوئے۔ جس وقت یہ خبر اور ایرانی شاہزادیوں کے لیے حضرت کی طرفداری کی اطاعت ایران والوں کو پہنچی تو ان کو آپ کی وفات مبارک سے ایک خاص ربط پیدا ہوگیا اور یہی معاملہ اور حضرت کے ساتھ تعلق خاطر اس کا سبب بناکہ وہ آپ کے بارے میں گہری جانچ پڑتال کریں۔ خصوصیت کےساتھ مسلمانوں کے ہاتھوں ایران کے فتح ہونے کے بعد جب ان سے قریب ہوئے تو دلائل حقہ ےساتھ ان حضرت کی ولایت و امانت اور خلافت بلا فصل پر ایمان لائے اور پوری قبلی توجہ حاصل کی اور جیسے ہی مانع برطرف ہوا اور موقع ہاتھ آیا اپنے عقائد اور قلبی تعلق کا اعلان

۳۹

اور اپنے مذہب کا اظہار کر دیا۔

لہذا جیسا آپ نے فرمایا ہے اس عقیدے کا ظہور اور مذہب کی آزادی ہارون و مامون کے زمانہ خلافت یا سلطنت صفویہ کے دور سے کوئی ربط نہیں رکھتی بلکہ سلطنت صفویہ کے ظاہر ہونے سے سات سو سال قبل ( یعنی چودھویں صدی ہجری میں) تشیع کا مذہب حق ایران میں جلوہ گر ہوا۔ جب زمام اختیار آل بویہ کے ہاتھوں میں آئی تو اس حقیقت کا چہرہ بے نقاب ہوگیا اور ایرانیوں نے پوری طرح سے آزاد ہوکر علی الاعلان اپنی نسبت کا اظہار کیا اور دلی عقائد کو نمایاں کر دیا۔

مغلوں کے دور میں تشیع کا ظہور

یہاں تک کہ سنہ694 ھ میں جب ایران جکی سلطنت فازاں خان مغل کے ( جس کا اسلامی نام محمود تھا) ہاتھوں میں پہنچی تو اس نے اہل بیت علیہم السلام کے طرف خاص توجہ کی اور تشیع کا مذہب حق اور زیادہ نمایاں ہوگیا۔ اس کی وفات کے بعد سنہ 707 ھ میں جب سلطنت فاذاں خان کے بھائی محمد شاہ خدا بندہ کو ملی تو جیسا کہ حافظ و عالم اور مورخ شافعی ہمدانی نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے۔

قاضی القضاة کے ساتھ علامہ حلی کا مناظرہ

ان مباحثوں اور مناظرون کے نتیجہ میں جو دربار شاہی میں باد شاہ کے سانے ممتاز زمانہ اور اس دور کے مایہ ناز شیعہ عالم جمال الملة والدین علامہ کبیر حسن بن یوسف بن علی مطہر علی اور اس زمانہ کے علماء اہل سنت میں افضل و اعلم خواجہ نظام الدین عبدالملک مراغی القضاة شافعی کے درمیان واقع ہوئے اور اس سلسلے میں امامت کا مبحث موضوع گفتگو قرار پایا ۔ جس میں جناب علامہ نے محکم اور قاطع دلائل و براہین اور ایسی وضاحت کے ساتھ امیرالمومنین علیہ السلام کی امامت و خلافت بلافصل کو ثابت اور دوسروں کے دعوے کو رد فرمایا کہ حاضرین دربار سے کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی یہاں تک کہ خواجہ نظام الدین نے کہا کہ جناب علامہ کی دلیلیں بہت روشن اور قوی ہیں لیکن چونکہ ہمارے اسلاف ایک راستے پر گامزن رہے ہیں۔ لہذا ہم کو بھی چاہیئے کہ عوام کو خاموش کرنے اور کلمہ اسلام میں تفرقہ اندازی سے بچنے کے لیے اسی راہ پر چلتے رہیں اور پردہ فاش نہ کریں چونکہ اس موقع پر بادشاہ کے دل میں تعصب نہیں تھا اور گوش تحقیق سے دونوں طرف کی دلیلیں سن رہا تھا۔ لہذا مباحثات

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369