پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310360 / ڈاؤنلوڈ: 9440
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

جلد ششم ص۱۵۷ میں، سعید بن منصور نے سنن میں، خطیب بغداد نے اپنی تاریخ جلد ۴ ص۳۲ میں، حافظ ابن مردویہ نے مناقب میں، سمعانی نے فضائل الصحابہ میں، امام فخر رازی نے تفسیر کبیر جلد اول ص۱۱۱ میں، ابو القاسم حسین بن محمد ( راغب اصفہانی ) نے محاضرات الادباء جلد دوم ص۱۱۳ میں اور دوسرے علماء نے بھی انہیں ابوہریرہ وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" عَلِيٌ مَعَ الْحَقِ وَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ يَدُورُ مَعَهُ حَيْثُمَا دَارَ."

( یعنی علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے جو آپ کے ساتھ ہی ساتھ مڑتا ہے) اس کے بعد بھی یہ علی(ع) کو چھوڑ کے معاویہ کے گرد و پیش چکر لگائیں تو کیا مردود نہیں ہیں ؟ جو شخص

معاویہ کے افعال شنیعہ اور اس کا ظلم و ستم دیکھ کے خاموش رہے بلکہ مزید بر آں دنیاوی منافع حاصل کرنے اپنا پیٹ بھرنے اور جاہ و نصب تک پہنچنے کے لیے ان کا حاشنی نشین اور مددگار ہو تو کیا وہ مردود نہیں ہے؟

وہ ابو ہریرہ جو خود نقل کرتے ہیں جیسا کہ آپ ہی کے اکابر علماء جیسے حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد سوم ص۱۲۴ میں امام احمد حنبل نے مسند میں، طبرانی نے اوسط میں، ابن مغازلی فقیہ شافعی نے مناقب میں، متقی ہندی نے کنزالعمال جلد ششم ص۱۵۳ میں، شیخ الاسلام حموینی نے فرائد میں ابن حجر مکی نے صواعق ص۷۴،۷۵ میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء ص۱۱۶ میں، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں اور دوسروں نے ان سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" علي مع القرآن و القرآن مع علي لا يفترقان حتى يردا علي الحوض عليّ منّي و أنا من عليّ من سبّه فقد سبّني ، و من سبّني فقد سبّ اللّه"

( یعنی علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے ۔ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض (کوثر) پر میرے پاس آئیں علی(ع) مجھ سے اور میں علی(ع) سے ہوں ، جو شخص علی(ع) کو سب وشتم کرے اس نے مجھ کو سب وشتم کیا اور جس نے مجھ کو سب وشتم کیا اس نے خدا کو سب وشتم کیا( اور ساتھ ہی خود دیکھتے ہیں کہ معاویہ با اعلان اور کھلم کھلا بالائے منبر اور نماز جمعہ کے خطبے میں علی(ع) اور حسن و حسین علیہم السلام پر لعنت کرتا ہے نیز حکم دیتا ہے کہ تمام منبروں اور جلسوں میں ان حضرت پر لعنت کریں، تو جو شخص ایسے ملاعین کا ہم پلہ و ہم نوالہ ہو۔ ان کے عمل سے خوش ہو۔ پھر ان لوگوں کے ساتھ رہنے سہنے کے علاوہ حدیثیں گھڑ کے ان کی مدد کرے اور لوگوں کو ان حضرت پر لعنت کرنے کے لیے برانگیختہ اور مجبور کرے کیا وہ مردود نہیں ہے؟

شیخ : آیا یہ عقل میں آتا ہے کہ ہم ان تہمتوں کو قبول کر لیں کہ ایک پاک دل صحابی حدیثیں وضع کر کے لوگوں کو علی کرم اللہ وجہہ پر لعنت اور سب وشتم کے لیے مجبور کرے ؟ کیا اس قسم کی تہمتیں شیعوں کی تراشی ہوئی نہیں ہیں؟

خیر طلب : یقینا عقل میں نہیں آتا کہ ایک پاک دل صحابی ایسی حرکت کرے گا۔ اور اگر صحابہ میں سے کسی فرد نے ایسا کیا ہے تو یہ قطعی دلیل ہے اس بات پر کہ اس کا دل پاک نہیں تھا اور وہ حتمی طور پر منافق و مردود اور ملعون ہوگا۔ اس لیے کہ خدا و رسول(ص) کو سب وشتم کرنے والے قطعا مردود و ملعون اور جہنمی ہے ، کیونکہ اس پر بکثرت احادیث کی نص

۱۸۱

موجود ہے جیسا کہ اجماع علمائے شیعہ کے علاوہ خود آپ کے اکابر علماء نے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا جو شخص علی(ع) کو سب کرے اس نے مجھ کو اور میرے خدا کو سب کیا لیکن آپ نے جو یہ فرمایا کہ اس قسم کی تمہتیں شیعوں کی تراشی ہوئی ہیں تو غالبا آپ نے دھوکے میں یہ سمجھ لیا کہ اپنے کسی عالم سے گفتگو کر رہے ہیں جو اپنا مطلب نکالنے کے لیے جھوٹ کے پل باندھتے اور پاک نفس شیعوں پر تہمتیں عائد کر کے بے خبر عوام کو گمراہ کرتے ہیں اور روز قیامت خدا کے سامنے بازپرسی ہونے کا کوئی خوف نہیں رکھتے۔

شیخ : حقیقتا جب آپ اصحاب رسول(ص) پر حدیثیں وضع کرنے کی تہمت لگاتے ہیں تو ہم کیا امید کریں کہ اہل اسلام کے ممتاز افراد اور بزرگ علمائے اہل سنت والجماعت کی طرف بری نسبت نہ دیجئے گا۔ آپ شیعہ لوگوں کی سب سے بڑی ہنرمندی بزرگوں کو برا الزام ، تہمت اور گالی دینا ہے۔

خیر طلب : آپ نے بہت زیادتی کی جو ہماری طرف ایسی نسبتیں دیں کیونکہ چودہ سو برسوں کی ( سنی اور شیعوں کی) اسلامی تاریخیں آپ کی گفتگو کے خلاف گواہی دے رہی ہیں۔

مخالفین کے مقابلے میں شیعوں کی مظلومیت

اسلام کے صدر اول اور امویوں کے زمانہ اقتدار سے لے کر اس وقت تک برابر ائمہ معصومین و اہل بیت طاہرین علیہم السلام کی بزرگ ہستیوں اور ان کے مظلوم شیعوں کو فحش باتیں کہنا، لعنت کرنا، گالی دینا اور تہمت لگانا ( سنی یعنی امویوں کی سنت وجماعت کے پیرو( سیاسی شعبدہ باز مسلمانوں کا مخصوص طریقہ رہا ہے اور اب تک آپ کے علماء میں سے نمایاں شخصیتیں اپنی معتبر کتابوں میں بے خبر عوام کو بہکانے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و جدائی ڈالنے کے لیے مظلوم شیعوں پر سینکڑوں ، تہمتیں اور بے سر پیر کے الزامات عائد کر کے ان کو رافضی کافر، مشرک اور غالی کہہ کر اور اپنے سابق پیشواوں کے قدم بہ قدم لعن و سب کر کے بے خبر اور صاف دل سنی بھائیوں کی نگاہوں مِیں ان کی قابل نفرت ثابت کرتے ہیں۔

شیخ : کس سنی عالم نے اپنی کتاب میں شیعوں پر تہمت لگائی اور جھوٹ باندھا ہے ؟ اگر آپ اس بات کو ثابت نہ کر سکے تو قطعا آپ کی شکست سمجھی جائے گی کیونکہ ہمارے علماء نے جو کچھ کہا اور لکھا ہے وہ بالکل حقیقت ہے شیعہ اپنے فاسد اعمال و عقائد کو چھوڑ دیں تاکہ محفوظ رہیں اور ان کی گرفت نہ کی جائے۔

۱۸۲

شیعوں پر سنی علماء کی جھوٹی نسبتیں اور تہمتیں

خیر طلب : آپ نے مجھ کو مجبور کیا ہےکہ جس قدر مجھ کو یاد ہے اس میں سے مشتے نمونہ از خرزارے ان ہزاروں دروغ بافتوں بہتانوں اور تہمتوں میں سے اس محترم مجمع کے سامنے کچھ بیان کروں جو آپ کے اکابر علماء نے شیعوں پر عائد کی ہیں تاکہ ناواقف لوگوں کے خیالات صاف ہوں، اس کے بعد فیصلہ روشن ضمیر مسلمانوں کے پاکیزہ نفس پر چھوڑ دوں۔

شیعوں پر ابن عبد ربہ کی تہمتیں

آپ کے بزرگان علمائے ادب میں سے ایک صاحب شہاب الدین ابو عمر احمد بن محمد بن عبد ربہ قرطبی اندلسی مالکی متوفی سنہ۳۲۸ھ تھے جنہوں نے عقد الفرید جلد اول ص۲۶۹ میں موحد و پاک دل شیعوں کو جو اسلام و ایمان کے جوہر کے حامل ہیں ؛ یہ اس امت کے یہودی بتایا ہے اور لکھا ہے کہ جس طرح یہودی و ںصاری کو دشمن رکھتے ہیں اسی طرح شیعہ بھی اسلام کو دشمن رکھتے ہیں۔ اس کے بعد اسی عنوان کے ساتھ شیعوں پر بہت سی تہمتیں لگائی ہیں۔ مثلا کہتے ہیں کہ شیعہ یہودیوں کی طرح تین طلاقوں کا عقیدہ نہیں رکھتے ہیں۔ نیز طلاق کے بعد عدہ کے قائل نہیں ہیں۔

اسی وقت جو شیعہ حضرات جلسے میں موجود ہیں بلکہ خود آپ اور تمام وہ سنی صاحبان جو شیعوں کے ساتھ بود و باش رکھتے ہیں کیا ابن عبد ربہ صاحب کی ان تہمتوں پر نہ ہنسیں گے؟ اس لیے کہ ہماری تمام فقہی کتابیں اور عملی رسالے تین طلاق کے مسائل اور طلاق کے بعد عدہ رکھنے کے طریقے سے بھرے ہوئے ہیں جو علاوہ طلاق اور عدہ بعد از طلاق کے عملدرآمد کے اس ادیب بے ادب کے جھوٹ پر بھی بہت بڑی دلیل ہیں۔

نیز کہتے ہیں کہ شیعہ یہودیوں کی طرح جبرئیل کو دشمن رکھتے ہیں اس وجہ سے کہ وحی کو ہٹا کر پیغمبر(ص) کے پاس کیوں لائے در آنحالیکہ علی(ع) کے پاس لانا چاہئیے تھا۔ ( جلسے میں بیٹھے ہوئے سب شیعہ ہنس پڑے۔)

ملاحظہ فرمائیے کہ شیعہ حضرات اس بات کو سن کر ہی ہنس دیے تو یہ کب ممکن ہے کہ ایسے مہمل عقیدے کو اپنے دل میں جگہ دیں۔

اگر یہ شخص افریقہ کے گوشے سے آگے بڑھتا یا شیعوں کی کتابیں مہیا کرنے اور پڑھنے کی زحمت کرتا تو خود شرمندہ ہوتا، اور ایسی تہمت نہ لگاتا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمدا ایسا کیا ہو تا کہ نا واقف لوگوں سے حقیقت پوشیدہ رہے اور مسلمانوں کے درمیان جدائی پڑ جائے۔

۱۸۳

ہم شیعہ حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء(ص) کو ایک مستقل اور برحق پیغمبر(ص) جانتے ہیں کہ آنحضرت(ص) پر وحی نازل ہونے میں ہرگز کوئی دھوکا نہیں ہوا اور جبرئیل امین کی منزل اس سے بالاتر جانتے ہیں جس کی طرف بے حقیقت شخص نے نسبت دی ہے اور ان علی ابن ابی طالب(ع) کے معتقد ہیں جن کی وصایت اور خلافت رسول(ص) کے لیے جبرئیل امین نے خدائے تعالی کی طرف سے اعلان کیا ہے۔ (۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ ایک مرتبہ جب میں ریل کے ذریعہ چند شیعہ زائروں کے ہمراہ کاظمین سے سامرہ جا رہا تھا تو ہمارے ڈبے میں موصل والوں کی ایک سنی جماعت بھی اپنے قاضیوں اور علماء میں سے دو شخصوں کے ساتھ سفر کررہی تھی ۔ وہ دونوں مسلسل ہم لوگوں پر نکتہ چینی اور تمسخر کررہے تھے اور تہمتیں لگارہے تھے ۔ ان کو یہ پتا نہیں تھا کہ میں عربی زبان سے واقفیت رکھتا ہوں اور ہم لوگ بھی خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ ان میں سے ایک قاضی صاحب نے کہا کہ یہ رافضی لوگ بہت ہی فاسد اخلاق و عادات رکھتے ہیں اور سب کے سب بدعتی (بقیہ صفحہ قبل ) اور مشرک ہیں۔ مثلا ان کی ایک عجیب بدعت یہ ہے کہ نماز میں جب سلام دیتے ہیں تو ہاتھوں کو بلند کرتے ہیں اور تین مرتبہ کہتے ہیں خان الامین یعنی امین نے خیانت کی ۔ ان لوگوں نے پوچھا کہ امین کون تھا اور اس کی خیانت کیا تھی؟ شیخ نے کہا کہ شیعہ مذہب والے کہتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی(ع) جعفر کوہ حرا میں سو رہے تھے کہ جبرئیل امین خدا کی جانب سے مامور ہوئے کہ نبوت کی وحی علی کو پہنچائیں لیکن انہوں نے خیانت کی اور ان کے عوض خاتم الانبیاء کوپہنچا دی۔ یہی وجہ ہے کہ سارے شیعہ جبرئیل کے دشمن ہیں اور ہر نماز کے بعد تین مرتبہ کہتے ہیں کہ جبرئیل نے خیانت کی یعنی وحی کو علی(ع) کے بدلے خاتم الانبیاء(ص) کے سپرد کردیا یہ سن کر مجھ سے نہ رہا گیا میں نے کہا شیخ صاحب ، جھوٹ اور تہمت لگانا گناہ کبیرہ ہے یا صغیرہ ؟ کہا کبیرہ ہے ، میں نے کہا پھر جناب عالی نے اتنی سفید داڑھی کے ساتھ کس لیے دو بڑے گناہ کئے اور شیعوں پر یہ غلط الزام لگایا؟ انتہائی تمکنت کے ساتھ جواب دیا کہ میں ٹھیک کہتا ہوں میں نے ان ان مولوی حضرات سے پوچھا کہ آپ فارسی جانتے ہیں؟ ان میں سے دو تین آدمیوں نے کہا ہاں، تو میں نے دس بارہ نفر بوڑھے اور جوان زائرین کو جو موضوع بحث سے واقف نہیں تھے ایک ایک کرکے آواز دی اور پوچھا کہ آپ لوگ سلام نماز کے بعد جب کانوں تک ہاتھ بلند کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم قبولیت نماز کے لیے تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہیں میں نے کہا شیخ صاحب اب آپ کو کچھ شرم آئی یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ تم نے ان لوگوں کو سکھا دیا ہے میں نے کہا ذرا خدا کا خوف کیجئے۔ میں تو آپ کے پہلو میں بیٹھا ہوا ہوں۔ نہ اپنی جگہ سے اٹھاہوں نہ ایک فقط زبان سے نکالا ہے۔ پھر میں نے ان موصلی حضرات کی طرف رخ کیا اور اور کہا کہ میں التماس کرتا ہوں کہ آپ صاحبان اٹھ کر دوسرے ڈبوں میں جایئے اور ان شیعہ زائرین سے جو اس گاڑی میں سفر کررہے ہیں، دریافت کیجئے چند ہوشیار اشخاص جو زبان سے واقف تھے گئے اور واپس آکر غصے کے عالم میں شخ صاحب پر برسی پڑے کہ اسی جھوٹ اور افتراء سے آپ کا کیا مطلب تھا؟ ہم لوگوں نے تمام دیہاتی اور شہری زائرین سے سوال کیا اور سب نے بالعموم یہی جواب دیا کہ ہم اللہ اکبر کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے کلمہ خان الامین کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو اس قسم کے کلمے سے واقف بھی نہیں ہیں۔ شیخ صاحب نے کہا میں نے بھی کتابوں میں پڑھا ہے کہ شیعہ اسی طرح کہتے ہیں۔ وہ جو ان لوگ چونکہ تحقیق کرچکے تھے۔ لہذا شیخ صاحب کو سخت وسعت کہنا شروع کیا کہ ایک عالم کو جب تک کسی چیز کی تحقیق نہ کرے اس وقت تک زبان سے نہ کہنا چاہئے۔ اس طرح کی حرکتیں ان تہمتوں میں سے ایک نمونہ ہیں جو بعض سنی عالم شیعوں پر تھوپتے ہیں تاکہ عام برادران اہل سنت کو ہم سے بدظن کردیں۔

۱۸۴

نیز کہتے ہیں کہ شیعہ یہودیوں کے مانند ہیں جو سنت رسول(ص) پر عمل نہیں کرتے اور جس وقت کسی سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں السام علیکم یعنی موت ہو تم پر۔ ( شیعہ حضرات ن قہقہہ لگایا) شیعوں کا باہمی طرز عمل اور برادران اہل سنت کے ساتھ معاشرت کا طریقہ ان کی غلط بیانی پر سب سے بڑی دلیل ہے۔

سب سے زیادہ تعجب تو اس بات پر ہے کہ کہتے ہیں ، شیعہ یہودیون کی طرح تمام مسلمانوں کا خون حلال سمجھتے ہیں اور اسی طرح مسلمانوں کا مال ہضم کر لینا جائز جانتے ہیں ۔ حالانکہ آپ خود شیعوں کے اعمال کی گواہی دے سکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم کفار تک کے جان و مال تک کو حلال نہیں جانتے تو مسلمان بھائیوں کے جان و مال پر کیونکر تصرف کریں گے شیعہ مذہب میں حق الناس پر دست درازی بہت بڑا گناہ سمجھا گیا ہے اور قتل نفس بھی گناہان کبیرہ میں سے ہے۔

آپ کے بزرگ علماء میں سے ایک کے بعض اقوال پیش کئے گئے ہیں جلسے کا وقت اجازت نہیں دیتا کہ ان کے ہزلیات پر اس سے زیادہ توجہ کی جائے۔

ابن حزم کی تہمتیں

آپ کے اکابر علماء میں سے ایک صاحب ابو محمد علی ابن احمد بن سعید بن حزم اندلسی متوفی سنہ۴۵۶ھ تھے جنہوں نے اپنی مشہور کتاب الفصل فی الملل و النحل میں عجیب عجیب تہمتوں اور دروغ بافیوں کے ساتھ شیعوں پر حملے کئے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ اس کتاب کی پہلی جلد ملاحظہ فرمائیے تو دیکھئے گا کہ اس میں کتنی مضحکہ خیز باتیں درج ہیں۔ من جملہ ان کے صاف صاف کہتے ہیں کہ شیعہ مسلمان نہیں ہیں بلکہ کافر اور ایسے درغ گو ہیں جنہوں نے یہود و نصاری کی پیروی اختیار کی ہے اور جلد چہارم ص۱۸۲ میں کہتے ہیں کہ شیعہ نو عورتوں کے ساتھ نکاح جائز سمجھتے ہیں ۔ اس مرد کذاب کی افترا پردازی اور اس عجیب تہمت کے خلاف سب سے بڑی دلیل شیعوں کے صدیوں پرانی استدلالی کتاب اور عملیہ رسالے ہیں جن میں ہر جگہ یہی حکم ہے کہ چار عورتوں سے زیادہ کے ساتھ نکاح دائمی حرام ہے، اس کے متعلق تو فقہا اور صاحبان علم و عقل کے علاوہ تمام جاہل اور صحرا نشین شیعہ بھی جانتے ہیں کہ جیسا اس نے لکھا ہے ۔ ہرگز کبھی ایسا حکم موجود نہیں تھا۔ اگر آپ اس کتاب کے وہ حصے دیکھئے جن میں اس نے اس طرح کے غلط اقوال ، تہمتیں، فحش چیزیں اور بری باتیں شیعوں سے منسوب کی

۱۸۵

ہیں تو واقعا آپ کو شرمندگی ہوگی۔ یہاں نمونے کے طور پر اسی قدر کافی ہے۔

ابن تیمیہ کی تہمتیں

آپ کے سارے علماء سے زیادہ بد تہذیب بلکہ بے دین احمد بن عبدالحلیم حنبلی معروف بابن تیمیہ متوفی سنہ ۷۲۸ھ تھا جو شیعوں بلکہ مولا امیرالمومنین علیہ السلام اور عترت طاہرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی حیرت انگیز بغض اور کینہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی اس شخص کی کتاب منہاج السنہ کی جلدین پڑھے تو اس کی شدید عداوت دیکھ کر مبہوت ہو جاتا ہے، جس نے اسی ذہنیت کی بنا پر قطع نظر اس کسے کہ حضرت امیرالمومنین (ع) اور اہل بیت طاہرین علیہم السلام کے بارے میں تمام نصوص صریحہ اور فضائل عالیہ کی تردید و تکذیب کرتا ہے، مظلوم شیعوں پر ایسے عجیب و غیرب جھوٹ اور تہمتیں باندھی ہیں کہ ہر سننے والا متحیر اور انگشت بہ دندان رہ جاتا ہے۔ اگر میں ان میں سے ہر ایک کا جواب دینا چاہوں تو گفتگو کا سلسلہ بہت سی نشستوں کا محتاج ہوگا لیکن اس غرض سے کہ جناب شیخ صاحب یہ سمجھ لیں کہ تہمت اور جھوٹ شیعہ علماء کی نہیں بلکہ انہیں کے بعض علماء کی خصوصیات میں سے ہے نمونے کے طور پر بعض باتیں پیش کررہا ہوں۔ اور تعجب تو یہ ہے کہ ان جھوٹے الزامات کے باوجود جو خود شیعوں پر عائد کرتا ہے بے خبر عوام کو بہکانے کے لیے جلد اول ص۱۵ پر یہ بھی لکھتا ہے کہ اہل قبلہ فرقوں میں شیعوں سے زیادہ جھوٹا کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے صاحبان صحاح نے ان کی روایتوں کو نقل نہیں کیا ہے۔

جلد اول ص۲۳ میں کہتا ہے کہ شیعہ اصول دین چار مانتے ہیں ، توحید، عدل، نبوت، اور امامت حالانکہ فرقہ امامیہ کی کتب کلامیہ بالعموم دستیاب ہوتی ہیں جن میں ہر جگہ لکھا ہوا ہے اور میں نے بھی پچھلی شبوں میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ شیعوں کے عقیدے میں تین اصول دین یعنی توحید ، نبوت، اور معاد ہیں عدل کو توحید اور امامت کو نبوت کا جز مانا گیا ہے۔

جلد اول ص۱۳۱ میں کہتا ہے کہ شیعہ مسجدوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ، ان کی مسجدیں مجمع سے خالی رہتی ہیں۔ ان میں جمعہ و جماعت قائم نہیں کرتے اور اگر کبھی نماز پڑھتے بھی ہیں تو فردی پڑھتے ہیں ( شیعوں کا پر زور قہقہہ)

جناب شیخ : خود آپ نے اور تمام حاضر و غائب برادران اہل سنت نے کیا شیعوں کی مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی اور ان میں منعقد ہونے والی جماعتیں نہیں دیکھی ہیں؟ بالخصوص ہمارے عراق و ایران میں جو شیعیت کے مرکز ہیں۔ اور ان کے علاوہ ہر ایک شہر کے اندر شاندار مساجد عبادت گذاروں سے پر رہتی ہیں۔ بلکہ شیعوں کے جس قریہ اور دیہات میں جائیے گا وہاں ایک مسجد نظر آئے گی جس میں ماہ رمضان المبارک کے علاوہ بھی روز و شب نمازیں اور جماعتیں ہوتی ہوئی ملیں گی۔

آپ جیسے اہل علم حضرات علماء شیعہ کی استدلالی کتب فقہ دیکھیں اور اسی طرح برادران اہل سنت ہمارے فقہاء کے عملیہ رسائل کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ نماز جماعت اور مساجد میں جانے کا کس قدر ثواب نقل کیا گیا ہے۔ یہاں تک

۱۸۶

کہ گھر کی نسبت مسجدوں کے اندر نماز پڑھنے کا ثواب چند در چند زیادہ لکھا ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے جہاں تک ممکن ہو شیعہ کوشش کرتے ہیں کہ نمازیں مسجد میں اور جماعت کے ساتھ ادا کریں۔

اس کے بعد اندازہ کیجئے کہ اس رسواکن اور کذاب شخص نے شیعوں کی طرف کتنی جھوٹی نسبتیں دی ہیں۔

نیز اسی صفحے میں کہتا ہے کہ مسلمانوں کی طرح شیعہ حج بیت اللہ کو نہیں جاتے ہیں بلکہ ان کا حج قبروں کی زیارت کرنا ہے۔حج قبور کو حج خانہ کعبہ سے بالاتر جانتے ہیں بلکہ ان لوگوں کو سب و لعن کرتے ہیں جو حج قبور کو نہیں جاتے ہیں ( شیعوں کا قہقہہ)

حالانکہ اگر شیعوں کے کتب و رسائل عبادات کو کھول کر دیکھئے تو نظر آئے گا کہ اس عبادت کے سلسلے میں ایک مخصوص فصل قائم کی گئی ہے( بنام کتاب الحج ۔ باب الحج) اس سے قطع نظر کہ ہر فقیہہ کی ایک کتاب مناسک حج میں موجود ہے۔ جس میں شیعوں کو ادائگی حج کے لیے خاص طور پر ہدایتیں دی گئی ہیں، یہاں تک کہ ائمہ معصومین علیہم السلام سے اس قسم کی حدیثیں بھی نقل کی گئی ہیں کہ مسلمان (شیعہ وسنی) اگر مستغنی ہو اور حج بیت اللہ کو ترک کرے تو دائرہ اسلام سے خارج ہے اور موت کے وقت:

" يقال له مت أي ميتة شئت إن شئت يهوديا و إن شئت نصرانيا و إن شئت مجوسيا."

( یعنی اس تارک حج سے کہا جاتا ہے تو جیسی موت چاہے مر۔چاہے یہودی چاہے نصرانی اور چاہے مجوسی دین پر)

آیا عقل باور کرتی ہے کہ ایسی ہدایتوں کے بعد شیعہ قوم حج بیت اللہ کو ترک کر دے گی؟ آپ ایک جاہل دیہاتی شیعہ سے جو عتبات عالیات سے مشرف ہوتا ہے اور قبور ائمہ اطہار (ع) کی زیارت بجالاتا ہے سوال کیجئے کہ عمل حج کہاں بجا لانا چاہیئے؟ تو سوا مکہ معظمہ کے اور کوئی جگہ نہ بتائے گا۔

اس کے بعد یہ خدا نہ شناس انسان ایک بزرگ شیعہ عالم شیخ اجل و اعظم محمد بن نعمان مفید علیہ الرحمہ پر بہتان رکھتا ہے کہ ان کی ایک کتاب " مناسک الحج المشاہد" کے نام سے ہے، حالانکہ شیخ علیہ الرحمہ کی کتاب " مناسک الزیارات" کے نام سے ہے جو عام طور پر پائی جاتی ہے اور جس میں دوسرے مزارات کی طرح ائمہ طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین کے مقدس آستانوں سے مشرف ہونے اور زیارت بجالانے کے قواعد درج ہیں۔

اگر آپ کتب زیارات کا مطالعہ کریں تو ان کے شروع میں لکھا ہوا ملے گا کہ پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی مقدس قبروں کی زیارت مستحب عبادتوں میں سے ہے۔ ( نہ واجب)

اور اس نا خدا ترس آدمی کی غلط بیانی پر سب سے بڑی دلیل شیعوں کا عمل ہے جو ہر سال ہزاروں کی تعداد میں حج بیت اللہ سے مشرف ہوتے ہیں اور وہاں سے واپسی کے بعد حاجی کہے جاتے ہیں جو ان کے لیے باعث فخر ہوتا ہے۔ (۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ خود حقیر مترجم بھی بحمدہ اس شرف سے مشرف ہوچکا ہے اور بچشم خود دیکھا ہے کہ علاوہ عراق ویمن اور ہندو پاکستان وغیرہ کے صرف ایران سے پندرہ ہزار شیعہ حاجی آے ہوئے تھے ۱۲ مترجم عفی عنہ۔

۱۸۷

۱۸۸

۱۸۹

کتاب کے کل مطالب کا وزن سمجھ لیں اور اس نا اہل مولف کو پہچان لیں۔

وقائق و حالات اثنا عشریہ کے ضمن میں لکھتا ہے کہ حضرت امام محمد تقی(ع) کے بعد حضرت امام علی ابن ہادی محمد النقی (ع) ہیں اور ان کا روضہ اقدس قم میںہے۔ حالانکہ ہر عالم وجاہل حتی کہ دشمن اور بچے بھی جانتے ہیں کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی قبر مبارک اپنے فرزند ارجمند حضرت حسن عسکری علیہ السلام کے پہلو میں سامرہ کے اندر ہے جو بہت عالی شان طلائی گنبد اور حرم کی مالک ہے اور جس کو مطلا کرنے کا فخر مرحوم ناصر الدین شاہ قاجار کو حاصل تھا۔

میرے خیال میں اب اس سے زیادہ کلام کو طول دینے کی ضرورت نہیں ہے میں نے نمونے کے طور پر

ہزار میں سے ایک کی طرف اشارہ کر دیا ہے تاکہ جناب شیخ صاحب یہ نہ فرمائیں کہ شیعہ جھوٹ بولتے ہیں اور تہمت لگاتے ہیں بلکہ یہ سمجھ لیں کہ یہ کلام خود انہیں کے علماء کا ہے۔

اور اب یہ بتانے کی غرض سے کہ تنہا میں نے ہی جناب ابوہریرہ صاحب کی شان میں جسارت نہیں کی ہے اور کوئی الزام نہیں دیا ہے بلکہ اکابر علمائے اہل سنت نے بھی ان کے حالات و واقعات کو درج کیا ہے، اختصار کے ساتھ ان میں سے چند باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہوں۔

ابوہریرہ کی مذمت میں روایات اور ان کے حالات

ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۳۵۸ نیز جلد چہارم میں اپنے شیخ اور استاد امام ابو جعفر اسکافی سے نقل کرتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان نے صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کو مامور کیا تھا کہ علی علیہ السلام پر طعن اور آپ سے بیزاری اختیار کرنے کی قبیح روایتیں گھڑی جائیں اور لوگوں میں مشہور کی جائیں ، چنانچہ وہ اشخاص برابر اسی کام میں مشغول رہتے تھے اور برائیوں کی اشاعت کیا کرتے تھے۔ من جملہ ان کے ( جو طعن و مذمت علی علیہ السلام میں احادیث قبیجہ وضع کرتے تھے ) ابوہریرہ عمرو عاص اور مغیرہ بن شیبہ بھی تھے۔

ان فقوں کی پوری تفصیل دیتے ہوئے ص۳۵۹ میں اعمش سے روایت کی ہے کہ جس وقت ابوہریرہ معاویہ کے ساتھ مسجد کوفہ میں وارد ہوئے اور استقبال کرنے والوں کی کثرت دیکھی تو دونوں پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے اور دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پیٹنے لگے ( تاکہ لوگ متوجہ ہو جائیں ) اس کے بعد کہا اے اہل عراق کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں خدا اور رسول (ص) پر جھوٹ بولوں گا اور اپنے لیے جہنم کی آگ مول لوں گا سنو مجھ سے جو کچھ میں نے پیغمبر(ص) سے سنا ہے کیہ فرمایا :

" إن لكل نبي حرما، و إن حرمي المدينة ما بين عير إلى ثور، فمن أحدث فيهما حدثا فعليه لعنة اللّه و الملائكة و الناس أجمعين، و أشهد باللّه أن عليا أحدث فيها"

( یعنی ہر پیغمبر کا ایک حرم ہے اور میرا حرم مدینہ ہے ۔ جو شخص مدینے

۱۹۰

میں نئی بات پیدا کرے تو اس پر اللہ اور ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہو اس کے بعد ابوہریرہ نے کہا کہ میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ علی نے مدینے میں نئی بات پیدا کی ( یعنی لوگوں کو ابھارا لہذا قول رسول (ص) کے مطابق علی(ع) پر لعنت کرنا چاہئیے۔) جب معاویہ کو یہ خبر پہنچی ( کہ ابو ہریرہ نے ان کی ایسی خدمت انجام دی اور وہ بھی علی(ع) کے دارالخلافہ کوفہ میں تو کسی کو بھیج کر ان کو بلوایا، ان کی خاطر دارات کی، انعام دیا اور مدینے کا گورنر بنا دیا، انتہی ۔ آیا یہ اعمال ان کی مردودیت کی دلیل نہیں ہے؟ اور کیا یہ مناسب ہے کہ جس نے معاویہ کی خوشامد میں خلفائے راشدین کی ایک فرد بلکہ ان سب میں اکمل و افضل اور اشرف ہستی کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا ہو، ایسے آدمی کو محض اس بنا پر آپ نیک اور ممدوح سمجھیں کہ وہ کبھی رسول اللہ (ص) کے صحابہ میں رہ چکا ہے۔

شیخ : شیعوں کے پاس ان کے ملعون ہونے پر کیا دلیل ہے جو ان کو مردود و ملعون کہتے ہیں؟

خیر طلب : ہمارے پاس بہت سی دلیلیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ پیغمبر(ص) کو گالی دینے والا باتفاق فریقین حتما ملعون و مردود اور جہنمی ہے، بنا بر اس حدیث کے جو میں پہلے عرض کر چکا اور جس کو خود آپ کے اکابر علماء نے بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا جو شخص علی(ع) کو گالی دے اس نے مجھ کو گالی دی اور جس نے مجھ کو گالی دی اس نے خدا کو گالی دی ، ظاہر ہے کہ ابوہریرہ بھی انہیں لوگوں میں سے تھے جو علاوہ مولانا و مولی الموحدین امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر خود سب و لعن کرنے کے، جیسا کہ عرض کرچکا حدیثیں گھڑ گھڑ کے اور سب لوگوں کو بھی ان حضرت پر سب وشتم کرنے کے لیے مجبور کرتے تھے۔

مسلمانوں پر ظلم اور ان کے قتل عام میں بسر ابن ارطاۃ کے ساتھ ابوہریرہ کی شرکت

من جملہ ان دلائل کے یہ بھی ہے کہ آپ کے بڑے بڑے مورخین جیسے طبری، ابن اثیر، ابن ابی الحدید ، علامہ سمہودی، ابن خلدون اور ان خلکان وغیرہ نے لکھا ہے کہ جس وقت معاویہ بن ابی سفیان نے سفاک وخونخوار، قسی القلب اور شقی النفس بسر بن ارطاۃ کو شام کے چار ہزار جنگ آزما سپاہیوں کے ساتھ مدینے کے راستے سے اہل یمن اور شیعیان امیرالمومنین علیہ السلام کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا تو ان لوگوں نے مدینہ، مکہ، طائف، تبالہ ( تہامہ کا ایک شہر) نجران، قبیلہ ارحب ( جو ہمدان کے قبیلوں میں سے تھا ( صفا، حضرموت اور ان کے اطراف میں انتہائی درجہ کی (اہانت ) سفاکی، قتل عام، ظلم اور تعدی دکھائی، بوڑھے اور جوان بنی ہاشم اور شیعیان امیرالمومنین(ع) میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا حتی کہ رسول اللہ کے ابن عم اور امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف سے والی یمن عبید اللہ ابن عباس کے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی قتل کردیا ۔ یہاں تک کہ اس ملعون کے حکم سے اس سفر میں قتل ہونے والوں کی تعداد تیس ہزار سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔ ان لوگوں سے تو زیادہ تعجب نہیں ہے اس لیے کہ بنی امیہ اور ان کے پیرو اس سے بھی زیادہ کر چکے ہیں، لیکن حیرت تو آپ کے منظور نظر جناب ابو ہریرہ

۱۹۱

پر ہے جو اس لشکر کشی میں خونخوار و سفاک بسر بن ارطاۃ کی معیت اور معاونت میں حاضر اور ان دردناک مظالم کے نگران تھے۔ خصوصیت کے ساتھ اس ظلم و جور میں جو مدینہ منورہ والوں پر ڈھایا گیا اور وہ بے گناہ اور نہتے لوگ جیسے جابر ابن عبداللہ اںصاری اور ابو ایوب انصاری وغیرہ سب کے سب ترساں و لرزان کچھ ادھر ادھر بھاگ گئے اور کچھ گھروں میں چھپ گئے لیکن ان کے گھروں کو بھی مثلا ابو ایوب اںصاری کے مکان کو جو رسول اللہ (ص) کے خاص صحابہ میں سے تھے آگ لگا دی گئے ، ابوہریرہ یہ سب دیکھ رہے تھے اور کچھ نہ بولتے تھے بلکہ اس کے معاون و مددگار تھے۔

پھر اس رسوائے زمانہ لشکر کے مکہ معظمہ کی طرف کوچ کرنے کے بعد ابوہریرہ اسی عنوان نیابت کے ساتھ خاص طور پر وہاں مقیم رہے چنانچہ بعد کو بسرابن ارطاۃ کے ساتھ یہ کار گزاری اور ہمدردی دکھانے کے صلے میں معاویہ کی طرف سے مدینہ کے گورنر بنائے گئے۔ آپ کو خدا کا واسطہ اںصاف سے بتائیے کہ اس دنیا پرست انسان نے جو تین سال تک (۱) رسول اللہ (ص) کی زیارت و مصاحبت سے مشرف رہا۔ اور پانچ ہزار سے زیادہ حدیثیں آن حضرت (ص) سے نقل کیں کیا وہ مشہور احادیث جن کو تمام علمائے فریقین جیسے علامہ سہمودی نے تاریخ المدینہ میں، احمد بن حنبل نے مسند میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص۱۶۳ میں اور دوسرے علماء نے سلسلہ اسناد کے ساتھ رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے نہیں سنی تھیں کہ آنحضرت(ص) مکرر فرماتے تھے :

" من أخاف أهل المدينة أخافه اللّه، و عليه لعنة اللّه و الملائكة و النّاس أجمعين و لا يقبل اللّه منه صرفا و لا عدلا لعن الله من اخاف مدينتی لا يريد اهل المدينة احد بسوء الا اذا به الله فی النار ذوب الرصاص"

( یعنی جو شخص اہل مدینہ کو ظلم سے ڈرائے اس کو خدا ڈرائے اور اس پر خدا اور ملائکہ اور سارے انسانوں کی لعنت ہو، خدا اس سے قیامت کے روز کوئی چیز قبول نہیں کرے گا خدا لعنت کرے اس شخص پر جو میرے مدینہ والوں کو ڈرائے جو شخص بھی اہل مدینہ کے ساتھ کوئی بد ارادہ کرے گا خدا اس کو سیسے کی طرح آگ میں پگھلائے گا۔)

پس ایسی صورت میں کیونکر اس لشکر میں شریک ہوئے جس نے مدینے والوں پر اس قدر ظلم و تعدی کی اور ان میں خوف وہراس پھیلایا، قطع نظر اس سے کہ حدیثیں وضع کر کے خلیفہ برحق و وصی رسول(ص) اور آںحضرت(ص) کی عترت طاہرہ کی مخالفت کی اور لوگوں کو ایسے شخص پر گالیوں کی بوچھاڑ کرنے کی ترغیب دی جس کو سب وشتم کرنا پیغمبر(ص) نے اپنے اوپر سب وشتم کرنا قرار دیا تھا۔

خدا کے لیے اںصاف کیجئے کہ جو شخص رسول خدا(ص) کے نام سے جھوٹی حدیثیں تصنیف کرنے میں مشغول رہا ہو کیا وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ طبقات ابن سعد اصابہ ابن حجر اور اکابر علمائے اہل تسنن کی دوسری معتبر کتابوں میں درج ہے کہ ابوہریرہ فتح خیبر میں مسلمان ہوئے اور بروایت نجاری ( باب علامات النبوۃ فی الاسلام میں) تین سال سے زیادہ رسول اللہ(ص) کی ملاقات سے موفق نہیں رہے۔ ابن حجر نے اصابہ میں، حاکم نے مستدرک میں، ابن عبدالبر نے المستطیب میں اور دوسروں نے روایت کی ہے کہ اٹھتر سال کی عمر میں سنہ۵۷ھ میں وادی عقیق کے اندر مرے اور ان کا جنازہ مدینے لاکر بقیع میں دفن کیا گیا۔

۱۹۲

خدا و رسول (ص) کی بارگاہ میں مردود نہ ہوگا۔

شیخ : آپ بے لطفی فرماتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کے سب سے زیادہ موثق صحابی کو بے دین اور وضاع و جعلساز کہتے ہیں۔

ابوہریرہ کا مردود ہونا اور عمر کا ان کو تازیانہ مارنا

خیر طلب : تنہا میں نے ہی ابوہریرہ کے حق میں بے لطفی نہیں برتی بلکہ سب سے پہلے جس شخص نے اس طرح کی بے لطفی ان کے ساتھ کی وہ خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب تھے، کیونکہ ارباب تاریخ مثلا ابن اثیر نے حوادث سنہ۲۳ھ میں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص۱۰۴ مطبوعہ مصر میں نیز اور حضرات نے نقل کیا ہے کہ جب خلیفہ عمر نے سنہ۲۱ھ میں ابوہریرہ کو بحرین کا گورنر بنایا تو لوگوں نے ان کو خبر دی کہ انہوں نے کثرت سے مال جمع کیا ہے او بہت سے گھوڑے خریدے ہیں۔ چنانچہ آپ نے ان کو سنہ۲۳ھ میں معزول کردیا، یہ جیسے ہی دربار خلافت میں پہنچے تو خلیفہ نے کہا : " يا عدو الله و عدو كتابه أ سرقت مال الله" ( یعنی اے دشمن خدا اور دشمن کتاب خدا کیا تو نے مال خدا کی چوری کی ؟ انہوں نے کہا میں نے ہرگز چوری نہیں کی بلکہ لوگوں نے مجھ کو نذرانے دیے۔

نیز ابن سعد طبقات جلد چہارم ص۹۰ میں، ابن حجر عسقلانی اصابہ میں اور ابن عبد ربہ عقد الفرید جلد اول میں لکھتے ہیں کہ خلیفہ نے کہا اے دشمن خدا جس وقت میں نے تجھ کو بحرین کا حاکم بنایا تھا تو تیرے پاوں میں جوتیاں تک نہ تھیں لیکن اب میں نے سنا ہے کہ تو نے ایک ہزار چھ سو دینار کے گھوڑے خریدے ہیں، یہ دولت تو کہاں سے لایا؟ انہوں نے کہا یہ لوگوں کے نذرانے ہیں جن کا نفع بہت ہوگیا۔ خلیفہ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور اٹھ کر ان کی پشت پر اتنے تازیانے مارے کہ خون بہنے لگا، اس کےبعد حکم دیا کہ بحرین میں جو اس نے دس ہزار دینار جمع کئے ہیں وہ اس سے وصول کر کے بیت المال کی تحویل میں دے دئے جائیں۔ اور صرف زمانہ خلافت ہی میں ان کو نہیں مارا بلکہ مسلم اپنی صحیح جلد اول ص۳۴ میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں عمر ابن خطاب نے ابوہریرہ کو اس قدر مارا کہ یہ پیٹھ کے بل زمین پر گر پڑے۔

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول اوائل ص۳۶۰ میں کہتے ہیں:

"قال أبو جعفر: و أبو هريرة مدخول عند شيوخنا غير مرضى الرواية، ضربه عمر بالدرة و قال: قد أكثرت من الرواية، و أحرى بك أن تكون كاذبا على رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و آله"

( یعنی ابوجعفر اسکافی ( شیخ معتزلہ ) نے کہا ہے کہ ابوہریرہ ہمارے شیوخ کے نزدیک بیہودہ شخص ہے۔ اس کی روایت ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے، عمر نے اس کو تازیانے سے مارا اور کہا تو نے روایت میں زیادتی کی ہے اور یقینا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جھوٹی باتیں منسوب کی ہیں۔)

۱۹۳

ابن عساکر تاریخ کبیر اور متقی کنزلاعمال ص۷۳۹ میں نقل کرتے ہیں کہ خلیفہ عمر نے ان کو تازیانے سے مارار اور ڈانٹ ڈپٹ کی اور رسول اللہ(ص) سے حدیث نقل کرنے کو منع کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ تو آن حضرت(ص) سے روایت زیادہ نقل کرتا ہے اور اسی لائق ہے کہ آن حضرت (ص) کی طرف سےجھوٹ بولے ( یعنی تیرے ایسے نا لائق سے یہی ہوسکتا ہے کہ آن حضرت(ص) سےغلط باتیں منسوب کرے) لہذا تجھ کو چاہیئے کہ رسول(ص) کی زبان سے حدیث نقل کرنا چھوڑ دے ورنہ میں تجھ کو زمین روس( یمن میں ایک قبیلہ ہے اور ابوہریرہ وہیں کے رہنے والے تھے) یا بندروں کی سرزمین پر یعنی اس پہاڑی علاقے میں جہاں بندر کثرت سے رہتے ہیں بھیج دوں گا۔

نیز ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۳۶۰ مطبوعہ مصر میں اپنے استاد امام ابو جعفر اسکافی سے نقل کیا ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا :

" ألا ان أكذب الناس أو قال: أكذب الاحياء على رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و آله أبو هريرة الدوسيّ."

( یعنی آگاہ ہو کہ رسول خدا(ص) پر آدمیوں میں سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والا یا یہ فرمایا کہ زندوں میں سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والا ابو ہریرہ دوسی ہے ( دوسی یمن میں ایک قبیلہ ہے)

ابن قتبیہ تاویل مختلف الحدیث میں، حاکم مستدرک جلد سیم میں، ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اور مسلم اپنی صحیح جلد دوم فضائل ابوہریرہ میں سب کے سب نقل کرتے ہیں کہ عائشہ نے بار بار ان کی تردید کی اور کہتی تھیں کہ ابوہریرہ بہت بڑا جھوٹا ہے اور رسول اللہ(ص) سے منسوب کر کے بہت حدیثیں گھڑتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ بوہریرہ کو تنہا میں نے مردود نہیں کہا ہے بلکہ خلیفہ عمر، مولانا امیرالمومنین ، ام المومنین عائشہ اور صحابہ و تابعین کے نزدیک بھی یہ مردود تھے چنانچہ شیوخ معتزلہ اور ان کے بعد حنفیوں کے علماء بالعموم ابوہریرہ کی حدیثوں کو مردود جانتے ہیں اور جس حکم کی سند ابوہریرہ تک منتہی ہوتی ہے اس کو باطل سمجھتے ہیں، چنانچہ نووی نے شرح صحیح مسلم میں بالخصوص جلد چہارم کے اندر اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔

آپ کی جماعت کے بڑٰے پیشوا امام اعظم ابو حنیفہ کہتے تھے کہ صحابہ رسول عام طور پر ثقہ اور عادل تھے، میں ہر ایک سے ہر سند کے ساتھ حدیث لے لیتا ہوں لیکن جس حدیث کی سند ابوہریرہ ، انس ابن مالک اور سمرہ بن جندب تک منتہی ہوتی ہو اس کو قبول نہیں کرتا ۔ پس آپ حضرات ہم پہ یہ اعتراج نہ کیجیئے کہ ابوہریرہ صحابی پر کیوں نکتہ چینی کرتے ہو؟ ہم انہیں ابوہریرہ پر نقد و تبصرہ کرتے ہیں جن کو خلیفہ ثانی عمر نے تازیانے مارے اور بیت المال کو چور اور کذاب کہا ہے۔ ہم انہیں ابو ہریرہ کی گرفت کرتے ہیں جن پر ام المومنین عائشہ، امام اعظم ابوحنیفہ، کبار صحابہ ، تابعین اور بڑے بڑے معتزلی اور حنفی شیوخ و علماء نے تنفقید کی ہے اور مردود کہا ہے۔

خلاصہ یہ کہ ہم انہیں ابوہریرہ کی تنقید کرتے ہیں جن کو مولانا و مولی المدحدین امیرالمومنین (ع) اور ائمہ اہل بیت طاہرین علیہم السلام نے جو عدیل قرآن ہیں کذاب اور مردود فرمایا ہے۔ہم انہیں ابو ہریرہ کی عیب گیری کرتے ہیں جو پیٹ کے بندے تھے۔ اور

۱۹۴

امیرالمومنین(ع) کی افضلیت سے واقف ہوتے ہوئے ان حضرت سے کنار کشی کر کے معاویہ کے چرب و نرم دسترخوان کے حاشیہ نشین بنے تاکہ لوگ ان کی حدیث سازی کے بل پر امام المتقین اور خلیفہ المسلمین کو ( جن کو آپ بھی خلفائے راشدین میں سے مانتے ہیں) سب و شتم اور لعنت کریں۔

اب اس سے زیادہ جلسے کا وقت لینے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔ نیز اس کی معافی چاہتا ہوں کہ آپ کا اتنا وقت صرف کیا۔ چونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ ہم بے لطفی کرتے ہیں لہذا میں نے چاہا کہ یہ ثابت کردوں کہ ہم تنہا نہیں ہیں بلکہ خلفا وصحابہ اور خود آپ کے بڑے بڑے علماء بھی ان کی مردودیت کے مقر اور معترف ہیں۔ پس جب ایسے جعلساز اور وضاع افراد نے جاہ و منصب تک پہنچنے اور اپنی دنیا آباد کرنے کے لیے رسول اللہ(ص) کے نام سے حدیثیں گھڑ گھڑ کے صحیح احادیث میں مخلوط کر دی ہیں تو ایسی صورت میں ہر حدیث پر کیونکر اعتماد کیا جاسکتا ہے، چنانچہ اسی وجہ سے آنحضرت نے فرمایا ہے " کلما حدثتم بحديث منّی فاعرضوه على كتاب اللّه ،"( ترجمہ گذر چکا ۱۲ مترجم)

( چونکہ ہم ایک خاص موضوع میں سرگرم بحث تھے ۔ لہذا مولوی صاحبان کی نماز میں قدرے تاخیر ہوگئی۔ جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو وہ حضرات اٹھ گئے نماز عشاء اور چائے کے بعد بات چیت شروع ہوئی۔)

خیر طلب : سابق بیانات کے پیش نظر اب ہم اور آپ مجبور ہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول احادیث میں سے کوئی حدیث سامنے آئے تو پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع کریں، اگر قرآن کی کسی اصل سے مطابق ہوتو قبول کریں ورنہ رد کریں۔

اس فرضی حدیث کا جواب کہ خدا نے فرمایا میں ابوبکر سے راضی ہوں، وہ بھی مجھ سے راضی ہیں، یا نہیں

یہ حدیث جو آپ نے نقل کی ہے ( اگرچہ یک طرفہ ہے پھر بھی ) ہم قرآن مجید سے اس کی مطابقت کرتے ہیں اگر کوئی نقص مانع نہ ہوگا تو ہم قطعا مان لیں گے۔ چنانچہ ایک جماعت نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ خدائے تعالی سورہ نمبر۵۰ (ق) آیت نمبر۱۵ میں فرماتا ہے:

" وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ وَ نَعْلَمُ ما تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ"

( یعنی ہم نے انسان کو خلق کیا ہے۔ اس کے نفس میں جو وسوسے آتے ہیں ان سے اچھی طرح واقف ہیں اور رگ گردن سے زیادہ اس سے قریب ہیں) آپ حضرات واقف ہیں کہ حبل الورید ایک مشہور مثل ہے جو انتہائی قربت کے معنی میں مستعمل ہے اور اس کا اضافہ بیانی ہے اور ممکن ہے کہ اضافہ لامی زینت کے لیے ہو۔ اور اس آیہ شریفہ کا اصل مفہوم

۱۹۵

اس طرف راجع ہے کہ خدائے تعالی کاعلم انسان کے حالات پر اس طرح حاوی ہے کہ سینوں کے اندر چھپی ہوئی باتوں اور دلوں کے اسرار میں سے کوئی شئے اس کی ذات اقدس پر مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے۔

اور سورہ نمبر۱۰ (یونس) آیت نمبر۶۲ میں ارشاد ہے

" وَ ما تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَ ما تَتْلُوا مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَ لا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُوداً إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ وَ ما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَ لا فِي السَّماءِ وَ لا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَ لا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتابٍ مُبِينٍ "

( یعنی اے ہمارے رسول(ص) ) تم کسی حال میں ہو، قرآن کی کوئی آیت تلاوت کرو اور تم اور تمہاری امت کوئی عمل بھی بجالاو ہم اسی وقت اس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور زمین و آسمان میں کوئی ذرہ بھی تمہارے خدا سے پوشیدہ نہیں ہے اور اس میں سے ہر چھوٹا بڑا ذرہ جو کچھ بھی ہے کتاب مبین ( اور لوح علم الہی ( میں درج ہے۔)

ان آیات شریفہ کے حکم اور عقلی دلائل کی تائید کے پیش نظر کوئی قول و فعل خدا سے مخفی نہیں رہتا اور پروردگار عالم اپنے علم حضوری کے ساتھ بندوں کے تمام اعمال و افعال اور اقوال کا عالم ہے۔ اب ذرا اس حدیث کو ملاحظہ فرمائیے جو آپ نے بیان کی کہ ان دونوں آیتوں اور دوسری آیات شریفہ کے ساتھ ہم اس کو کس طرح مطابق کریں اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ ابوبکر کی رضا مندی اور نا رضامندی خدا سے پوشیدہ ہو یہاں تک کہ وہ خود ان سے دریافت کرنے کا محتاج ہو۔ علاوہ اس کے حق تعالی کی خوشنودی خوشنودی خلق سے وابستہ ہے، بندہ جب تک رضا کی منزل تک نہ پہنچے قطعا خدا کا محبوب نہیں ہوسکتا، پس خدا کیونکر ابوبکر سے رضامندی کا اعلان کررہا ہے حالانکہ ابھی اس کو یہ نہیں معلوم کہ ابوبکر مقام رضا پر پہنچے اور خدا سے راضی ہیں یا نہیں۔

ابوبکر اور عمر کی فضیلت میں احادیث اور ان کا رد

شیخ : اب اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

" إنّ اللّه يتجلّى للناس عامّة و يتجلّى لأبی بكر خاصّة"

( یعنی خدا تمام انسانوں کے لیے عام طور پر اور ابوبکر کے کیے خاص طور پر جلوہ دکھائے گا۔) نیز فرمایا ہے : "ما صبّ اللّه شيئا فى صدرى إلّا و صبّه فى صدر أبى بكر،" ( یعنی خدا نے میرے سینے میں جوئی چیز نہیں ڈالی لیکن یہ کہ وہی چیز ابوبکر کے سینے میں بھی ڈالی) نیز فرمایا " انا و ابوبکر کفرسی ؟؟؟ " ( یعنی میں اور ابوبکر ان دو گھوڑوں کی مثل ہیں جو گھوڑ دوڑ میں ایک دوسرے کے برابر ہوں) نیز فرمایا :

" ان فی السماء الدنيا ثمانين الف ملک يستغفرون لمن احب ابابکر و عمر و فی السماء الثانيه ثمانين الف ملک يلعنون من البغض ابابکر وعمر"

( یعنی آسمانی دنیا میں اسی ہزار فرشتے اس شخص کے لیے استغفار کرتے ہیں جو ابوبکر و عمر کو دوست رکھے

۱۹۶

اور دوسرے آسمان میں اسی فرشتے لعنت کرتے ہیں اس شخص پر جو ابوبکر و عمر کو دشمن رکھے) نیز فرمایا ہے : " ابوبکر و عمر خير الاولين والآخرين " (یعنی ابوبکر و عمر اولین و آخرین میں سب سے بہتر ہیں۔) اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی عظمت منزلت اس حدیث سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے کہ فرمایا :

" خلقنی الل ه من نوره و خلق ابابکر من نوری و خلق عمر من نور ابی بکر و خلق امتی من نور عمر و خمر سراج اهل الجنة "

( یعنی خدا نے مجھ کو اپنے نور سے ا بوبکر کو میرے نور سے عمر کو ابوبکر کے نور سے اور میری امت کو عمر کے نور سے پیدا کیا اور عمر اہل جنت کے چراغ ہیں۔)

اس طرح کی حدیثین ہماری معتبر کتابوں میں بہت وارد ہیں جن میں سے نمونے کے طور پر میں نے بعض کی طرف اشارہ کر دیا ہے تاکہ آپ مقام خلفاء کی حقیقت واضح اور روشن ہوجائے۔

خیر طلب : سب سے پہلے تو ان احادیث کے نمایاں مطالب خود ہی ان کے فساد ور کفر پر پوری دلالت کررہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک سے ایسے مضامین صادر نہیں ہوئے اس لیے کہ پہلی حدیث تجسم کو ثابت کررہی ہے اور خدائے تعالی کی جسمانیت پر عقیدہ رکھتا قطعا کھلا ہوا کفر ہے۔ دوسری حدیث بتاتی ہے کہ رسول اللہ(ص) پر جو کچھ نازل ہوتا تھا ابوبکر اس میں شریک تھے۔ تیسری حدیث کا یہ مطلب ہے کہ خاتم الانبیاء(ص) کو ابوبکر پر کوئی فوقیت حاصل نہ تھی کیونکہ دونوں آپس میں مساوی تھے۔ چوتھی اور پانچویں دونوں حدیثیں ان بے شمار حدیثوں کے خلاف پڑتی ہیں جن پر فریقین کا اجماع ہے کہ اہل عالم میں سب سے بہتر محمد و آل محمد سلام اللہ علیہم اجمعین ہیں۔ اور آخری حدیث قرآن مجید کی مخالف ہے۔ کیونکہ سورہ نمبر۷۳ (دہر) آیت نمبر۱۳ میں ارشاد ہے " لا يَرَوْنَ فِيها شَمْساً وَ لا زَمْهَرِيراً" ( یعنی بہشت آفتاب و ماہتاب کی جگہ نہیں ہے بہشت کے شجر و حجر مکانات اور در دیوار سب روشن اور نورانی ہیں، یہ دنیا والے ہیں جو چراغ کے محتاج ہیں ورنہ اہل جنت کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔

علاوہ ان کھلی باتوں کے خود آپ کے بڑے بڑے علمائے درایت و رجال جیسے عالم جلیل القدر مقدسی نے تذکرۃ الموضوعات میں، فیروز آبادی شافعی نے کتاب سفرالسعادات میں، حسن بن کثیر ذہبی نے میزان الاعتدال میں، ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں، ابوالفرج ابن جوزی نے کتاب الموضوعات میں اور جلال الدین سیوطی نے الئالی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ میں ان احادیث کے موضوع اور فرضی ہونے کا فتوی دیا ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں صاف صاف کہتے ہیں کہ سلسلہ روایت و اسناد کے لحاظ سے یہ حدیثیں جعلی اور گھڑی ہوئی ہیں اس لیے کہ علاوہ ان نا اہل ، جعلساز اور جھوٹے افراد کے جو ان کے راویوں کے سلسلے میں موجود ہیں ان کا باطل ہونا عقلی قواعد و قرآنی آیات سے بھی ظاہر اور واضح ہے۔

شیخ : اچھا اس حدیث میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا

" أبو بكر و عمر سيّد الكهول

۱۹۷

أهل الجنّة"

( یعنی ابوبکر اور عمر دونوں جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں۔

اس حدیث کا جواب کہ ابوبکر و عمر دونوں جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں

خیر طلب : اس حدیث میں بھی اگر ہم تھوڑا غور و فکر کریں تو قطع نظر اس سے کہ خود آپ کے علمائے درایت و رجال اس کو وضعی احادیث میں سے سمجھتے ہیں، اس کی عبارت بھی یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ رسول کا ارشاد نہیں ہوسکتا اسی لیے کہ یہ چیز مسلمات میں سے ہے کہ جنت ضعیفوں اور بوڑھوں کی جگہ نہیں ہے اور وہاں دنیا کی طرح تدریجی ارتقاء نہیں ہے کہ آدمی جوانی سے پیری کی عمر کو پہنچے تاکہ کمال سیادت پر فائز ہو۔

ہماری اور آپ کے روایات میں اس مطلب کی تصدیق کرنے والے کافی اخبار موجود ہیں جن میں سے ایک اشجعیہ کا واقعہ ہے کہ ایک بوڑھی عورت خدمت رسول(ص) میں حاضر ہوئی آں حضرت نے دوران گفتگو میں فرمایا " أنّ الجنّة لا تدخلها العجائز" (یعنی بوڑھی عورتیں بہشت میں داخل نہ ہوں گی، وہ عورت بہت متاثر ہوئی اور رو رک عرض کیا یا رسول اللہ(ص) پھر تو میں جنت میں نہ جاوں گی۔ یہ کہہ کر باہر گئی تو آنحضرت(ص) نے فرمایا " اخبروہا انہا لیست یومئذ بعجوز۔" یعنی اس کو اطلاع دے دو کہ اس روز وہ بوڑھی نہ ہوگی بلکہ سارے بوڑھوں کو خلعت جوانی سے آراستہ کر کے بہشت میں داخل کریں گے۔ اس کے بعد سورہ نمبر۵۶ (واقعہ) کی آیت نمبر۳۶ تلاوت فرمائی کہ خدا فرماتا ہے :

" إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْكاراً عُرُباً أَتْراباً. لِأَصْحابِ الْيَمِينِ "

( انشاء صیغہ ماضی میں تحقیق وقوع کی جہت سے ہے یعنی ہم نے بہشت کی عورتوں کو انتہائی حسن و زیبائی کے ساتھ پیدا کیا ہے جن کو ہمیشہ کے لیے باکرہ اور دوشیزہ ، اپنے شوہروں کی عاشق و وفا دار ، ناز --- والی، شیرین کلام ، ہمسن اور اصحاب یمین کے لیے مخصوص قرار دیا ہے) اور ہمارے اور آپ کے طریقوں سے مروی حدیث میں وارد ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا

" يدخل أهل الجنّة الجنّة جردا مردا بيضا جعادا مكحّلين، أبناء ثلاث و ثلاثين."

( یعنی اہل بہشت جب بہشت میں داخل ہوں گے تو ہمیشہ کے لیے بے ریش و بروت نو جوان، سفید فام گھونگھریالے بالوں والے آنکھوں میں سرمہ لگا ہوئے تیس بتیس سال کی عمر میں ہوں گے۔)

شخ : آپ کے یہ بیانات اپنی جگہ پر صحیح ہیں لیکن اہل بہشت کے لیے یہ ایک حدیث محض ہے۔

خیر طلب : میں جناب عالی کے ارشاد کا مطلب نہیں سمجھا ۔ یہ حدیث مخصص کیا چیز ہے یعنی خدا ایک جماعت کو جنت میں بورھا ہی داخل کرے گا تاکہ ابوبکر و عمر کو ان کا سردار بنائے حالانکہ اگر فرض کیا جائے کہ ابوبکر وعمر جنت میں داخل ہوں گے تو خدا ان کو بھی جوان بنادے گا نہ یہ کہ دوسروں کو بوڑھا بنائے تاکہ ان دونوں کی سرداری ثابت ہو۔ اس کے علاوہ میں نے عرض کیا کہ خود آپ کے اکابر علمائ نے اس حدیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے اور رسول اکرم(ص) نے ہماری رہنمائی کے لیے

۱۹۸

ایک معیار معین فرمایا ہے تاکہ ہمارے خیال کو یکسوئی حاصل ہوجائے جیسا پہلے عرض کرچکا ہوں کہ جو حدیث بھی قرآن سے مطابقت نہ کرے وہ مردود ہے، لہذا ہمارے علمائے رجال اور صاحبان درایت بھی ایسی بہت سی حدیثوں کو جو رسول ائمہ طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین کے نام سے خود ہمارے طریق سے وارد ہوئی ہیں آن حضرت کے اس حکم کے ماتحت کہ :

" إذا روي لکم عني حديث فاعرضوه على كتاب الله فإن وافقه فاقبلوه و إلا فردوه."

( یعنی جس وقت مجھ سے کوئی حدیث تمہارے لیے روایت کی جائے تو اس کو قرآن مجید کے سامنے پیش کرو اگر اس کے موافق ہوتو قبول کرو ورنہ رد کرو) رد کردیتے ہیں اور قبول نہیں کرتے ۔

اور اس سے قبل عرض کرچکا ہوں کہ خود آپ کے بڑے بڑے ارباب جرح و تعدیل علماء نے بھی موضوع احادیث کی رد میں مبسوط کتابیں تالیف و تصنیف کی ہیں۔ مثلا شیخ مجدالدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی ( صاحب قاموس) نے کتاب سفر السعادۃ میں) جلال الدین سیوطی نے کتاب الئالی میں، ان جوزی نے موضوعات میں، مقدسی نے تذکرۃ الموضوعات میں اور شیخ محمد بن درویش مشہور بہ حوت بیروتی نے کتاب اسنی المطالب ص۱۲۳ میں لکھا ہے کہ حدیث " أبو بكر و عمر سيّد الكهول أهل الجنّة" کی سند میں یحی بن عتبہ بھی ہے اور ذہبی کہتے ہیں کہ یحی ضعیف راویوں میں سے ہے۔ اور ابن حبان نے کہا ہے کہ یحی حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ پس علاوہ ان دلائل کے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے خود آپ کے نقاد علماء کے بیان سے بھی جو ارباب جرح و تعدیل ہیں یہ حدیث موضوع ثابت ہوتی ہے۔ در حقیقت قوی احتمال یہی ہے کہ یہ بکری یا اموی گروہ کی گھڑی ہوئی ہے کیونکہ وہ بنی ہاشم اور عترت طاہرہ و اہل بیت رسول (ص) کو حقیر بنانے کے لیے ان احادیث میں سے جو خاندان رسالت کی مدح اور عظمت میں فریقین کے نزدیک ثابت ہیں ہر حدیث کے مقابلے میں ایک فرضی حدیث تیار کر دیتے تھے اور ابوہریرہ جیسے لوگ بھی بنی امیہ کے باطل اقتدار کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرنے کے لیے برابر اس کام میں کوشش کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ اس کینے اور عداوت کی بنا پر جو لوگ آل محمد(ص) سے رکھتے تھے اس معتبر حدیث شریف کے مقابلے میں جس کو علاوہ اجماع علمائے شیعہ کے آپ کے اکابر علماء نے بھی نقل کیا ہے یہ حدیث بھی وضع کی گئی ہے۔

نواب : وہ مسلم حدیث کون سی ہے جس کے مقابلے میں یہ حدیث گھڑی گئی؟

اس حدیث کا ذکر کہ حسن(ع) و حسین(ع) دونوں جوانان اہل جنت کے سردار ہیں

خیر طلب: وہ معتبر اور مسلم حدیث شریف یہ ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا :

" الحسن و الحسين سيدا شباب اهل الجنة و ابوهما خير منهما"

اور آپ کے بہت سے علماء نے اس کو نقل کی اہے جیسے خطیب خوارزمی نے مناقب میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودت ہشتم میں، الامام ابو عبدالرحمن نسائی نے تین حدیثیں خصائص العلوی میں،

۱۹۹

ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص۱۵۹ میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب ۵۴ میں ترمذی ، ابن ماجہ اور احمد ابن حنبل سے سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص۱۲۴ میں، امام احمد حنبل نے مسند میں، ترمذی نے سنن میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۱۴ میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ امام اہل حدیث ابو القاسم طبرانی نے معجم الکبیر کے اندر شرح حال امام حسن علیہ السلام میں بہت سے صحابہ پیغمبر سے اس حدیث شریف کے سارے طرق کو جمع کیا ہے مثلا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب خلیفہ ثانی عمر بن خطاب ، حذیفہ یمانی، ابو سعید خدری، جابر ابن عبداللہ انصاری، ابو ہریرہ، اسامہ بن زید اور عبداللہ بن عمر اس کے بعد محمد بن یوسف نےتبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک حسن حدیث ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا

" الحسن و الحسين سيدا شباب اهل الجنة و ابوهما خير منهما"

اور بعض روایتوں میں ہے افضل منہما ( یعنی حسن(ع) و حسین(ع) دونوں جوانان اہل جنت کے سردار ہیں، اور ان کے باپ ان سے بہتر و افضل ہیں) اور اس حدیث کے اسناد کا باہمی تسلسل اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ نیز حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیہ میں، ابن عساکر نے تاریخ کبیر جلد چہارم ص۲۰۶ میں حاکم نے مستدرک میں، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ ص۸۲ میں، غرضیکہ آپ کے اکابر علماء نے بالاتفاق کہا ہے کہ یہ حدیث رسول خدا(ص) کی زبان مبارک پر جاری ہوئی ہے۔

شیخ : اچھا اس حدیث سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا " لا ينبغي لقوم فيهم أبو بكر أن يتقدّم عليه غيره" یہ حدیث خود عام حیثیت سے امت پر ابوبکر کی فوقیت کی دلیل ہے اس لیے کہ فرمایا کسی قوم کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ ابوبکر اس کے درمیان موجود ہوں اور وہ دوسرے کو ان پر مقدم کرے۔

خیر طلب : مجھ کو افسوس ہے کہ آپ حضرات ہر ایک حدیث کو بغیر غور و فکر کے کیوں قبول کر لیتے ہیں۔ اگر یہ حدیث رسول اللہ(ص) کی فرمائی ہوئی تھی تو اس پر خود کیوں عمل نہیں فرماتے تھے کہ ابوبکر کی موجودگی میں علی علیہ السلام کو مقدم رکھتے تھے ؟ معاملے کے موقع پر کیا ابوبکر موجود نہیں تھے جو علی کو ان پر مقدم فرمایا ؟ جنگ تبوک میں ابوبکر کے ایسے تجربہ کار بوڑھے کی موجودگی میں کس لیے علی(ع) کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا ؟ سفر مکہ میں ابلاغ رسالت اور سورہ برائت کی قرائت کے لیے کس واسطے ابوبکر کو معزول کر کے علی(ع) کو نصب فرمایا ؟ مکے میں ابوبکر کے ہوتے ہوئے کس وجہ سے بت شکنی کے لیے علی(ع) کو اپنے ساتھ لے گئے یہاں تک کہ اپنے شانے پر سوار کیا اور ہبل بت کو توڑنے کا حکم دیا۔ ابوبکر کی موجودگی میں اہل یمن کی حکومت وہدایت کے لیے علی(ع) کو کیوں بھیجا؟ اور ان سب کے علاوہ ابوبکر کے ہوتے ہوئے علی(ع) کو اپنا وصی کس واسطے بنایا؟

شیخ : ایک بہت مضبوط حدیث رسول اللہ(ص) سے مروی ہے جس کا ہرگز انکار نہیں ہوسکتا کہ عمرو بن عاص نے کہا ایک روز میں نے پیغمبر(ص) سے عرض کیا یا بنی اللہ(ص) دنیا کی عورتوں میں آپ سب سے زیادہ کس کو چاہتے ہیں؟ فرمایا عائشہ کو، میں نے عرض کیا مردوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے فرمایا عائشہ کے باپ ابوبکر۔ پس اس لحاظ سے کہ آپ پیغمبر کے محبوب ہیں تمام امت پر فوقیت کا حق رکھتے یں اور یہ خود خلافت ابوبکر رضی اللہ پر ایک قاطع دلیل ہے۔

۲۰۰

اس حدیث کا جواب کہ ابوبکر اور عائشہ پیغمبر(ص) کے محبوب تھے

خیر طلب : یہ حدیث علاوہ اس کے کہ بکری گروہ کی ساختہ و پرداختہ ہے، فریقین کے نزدیک مسلم اور معتبر احادیث کے بھی خلاف ہے لہذا اس کی مردودیت ثابت ہے۔

اس حدیث میں دو پہلووں سے غور کرنا چاہیے۔ اول ام المومنین عائشہ کی جہت سے اور دوسرے خلیفہ ابوبکر کی جہت سے چنانچہ عائشہ کی محبوبیت میں اس حیثیت سے کہ رسول اللہ(ص) کے نزدیک ساری عورتوں سے زیادہ محبوب ہوں اشکال ہے جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں یہ قول صحیح و معتبر احادیث کے خلاف ہے جو فریقین ( شیعہ و سنی) کی معتبر کتابوں میں درج ہیں۔

شیخ : کن حدیثوں کے معارض ہے؟ ممکن ہو تو بیان کیجئے تاکہ ہم مطابقت کر کے عادلانہ فیصلہ کریں۔

خیر طلب : آپ کے قول کے برخلاف آپ کے علماء روایت کے طرق سے بکثرت حدیثیں حضرت صدیقہ کبری ام الائمہ جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا کے بارے میں منقول ہیں۔

فاطمہ(س) زنان عالم میں سب سے بہتر ہیں

من جملہ ان کے حافظ ابوبکر بیہقی نے تاریخ میں، حافظ ابن عبدالبر نے استیعاب میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں اور آپ کے دوسرے علماء نے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) بار بار فرماتے تھے "فاطمة خير نساء امّتي " ( یعنی فاطمہ(س ) میری امت کی عورتوں میں سب سے بہتر ہیں۔

امام احمد بن حنبل نے مسند میں حافظ ابوبکر شیرازی نے نزول القرآن فی علی میں محمد ابن حنفیہ سے انہوں نے امیر المومنین علیہ السلام سے ابن عبدالبر نے استیعاب میں بسلسلہ نقل حالات فاطمہ سلام اللہ علیہا و ام المومنین خدیجہ عبدالوارث ابن سفیان اور ----- حالات ام المومنین خدیجہ کے ضمن میں ابوداوود سے ابوہریرہ و انس بن مالک سے نقل کرتے ہوئے شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب55 میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودت سیزدہم میں انس بن مالک سے نیز بہت سے ثقات محدثیں نے اپنے طرق کےساتھ انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"خير نساء العالمين أربع : مريم بنت عمران، و ابنة مزاحم امرأة فرعون، و خديجة بنت خويلد، و فاطمة بنت محمّد صلى اللّه عليه و آله و سلم."

( یعنی عالمین کی عورتوں میں سب سے بہتر چار ہیں۔ مریم دختر عمران و آسیہ دختم مزاحم خدیجہ دختر خویلد اور فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطیب تاریخ بغداد میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے ان چار

۲۰۱

عورتوں کو دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر شمار فرمایا ہے اس کے بعد فاطمہ کو دینا و آخرت میں ان پر فضیلت دی ہے۔

محمد بن اسماعیل بخاری صحیح میں اور امام احمد حنبل مسند میں عائشہ بنت ابوبکر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فاطمہ(س) سے فرمایا

" يا فاطمه البشری فان الله اصطفيک و طهرک علی نساء العلمين و علی نساء الاسلام وهو خير دين."

( یعنی اے فاطمہ(س) خوشخبری اور بشارت ہو تم کو کہ خدا نے تم کو برگزیدہ کیا عالمین کی عورتوں پر بالعموم ، اور زنان اسلام پر بالخصوص پاکیزہ قرار دیا اور اسلام ہر دین سے بہتر ہے۔)

نیز بخاری نے اپنی صحیح جز چہارم ص64 میں مسلم نے اپنی صحیح جز دوم باب فضائل فاطمہ(س) میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحن میں، عبدی نے جمع بین الصحاح الستہ میں ابن عبدالبر نے استیعاب ضمن حالات حضرت فاطمہ(س) میں، امام ابن حنبل نے مسند جز ششم ص283 میں، محمد بن سعد کاتب نے طبقات جلد دوم مرض و بستر بیماری میں ارشادات رسول(ص) کے ذیل میں اور جلد ششم میں جناب فاطمہ(س) کے حالات نقل کرتے ہوئے ایک طولانی حدیث کے سلسلے میں (جس کو مکمل طور پر نقل کرنے کی وقت میں گنجائش نہیں) ام المومنین عائشہ کی سند سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

" يا فاطمة الا ترضين ان تکونی سيدة نساء العالمين "

(یعنی اے فاطمہ(س) آیا تم خوش نہیں ہو اس سے کہ زنان عالمین کی سردار ہو۔)

ابن حجر عسقلانی نے اسی عبارت کو صابہ میں حالات جناب فاطمہ(س) کے ضمن میں نقل کیا ہے۔ یعنی تم عالمین کی عورتوں میں سب سے بہتر ہو۔ نیز بخاری و سلم نے اپنی صحیحیں میں امام شافعی نے تفسیر میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، طبرانی نے معجم الکبیر میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب42 میں تفسیر ابن ابی حاتم و مناقب و حاکم و و سبط و اسدی حلیۃ الاولیاء حافظ ابونعیم اصفہانی و فرائد حموینی سے، ابن حجر مکی نے صواعق کے-- چہاردھم کے ذیل میں احمد سے ، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، طبری نے تفسیر میں واحدی نے اسباب النزول میں، ابن مغازل شافعی نے مناقب میں، محب الدین طبری نے ریاض میں، شبلنجی نے نورالابصار میں ، زمخشری نے تفسیر میں، سیوطی نے در المنثور میں، ابن عساکر نے تاریخ میں، علامہ سرودی نے تاریخ المدینہ میں فاضل نیشاپوری نے تفسیرمیں، قاضی بیضاوی نے تفسیر میں، امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں، سید ابوبکر شہاب الدین علوی نے شفتہ الصاری باب اول میں ص23 سے ص 24 تک تفسیر -- و ثعلبی و سیرہ ملاو مناقب احمد کبیر و اوسط طبرانی -- سے ، شیخ عبداللہ بن محمد بن عامر شہرادی شافعی نے کتاب الاتحاف ص5 میں حاتم و طبرانی -- جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت میں تفاسیر ابن منذر و ابن ابی حاتم و ابن مرودیہ و معجم الکبیر طبرانی سے، اور ابن ابی حاتم اور حاکم نے یہاں تک کہ عام طور پر آپ کے جملہ اکابر علما نے (سوا چند تھوڑے سے متعصبین بنی امیہ کے پیرو اور دشمنان اہل بیت کے ) ابن عباس خیر امت ، اور دوسروں سے نقل کیا ہے کہ جس وقت سورہ نمبر42 ( سورہ شوری) کی آیت نمبر23 "قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى وَ مَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيها حُسْناً"

(یعنی کہہ دو امت سے ) کہ میں تم سے اجر رسالت سوا اس کے اور کچھ نہیں چاہتا کہ میرے گھر والوں سے محبت رکھو، اور جو شخص نیک کام انجام دے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کرویں گے) نازل ہوئی تو اصحاب کی ایک جماعت نے عرض کیا :

"يا رسول اللّه ، من

۲۰۲

قرابتك ؟ قال: «عليّ و فاطمة و الحسن و الحسين "

یعنی آپ کے قرابتدار کو ن ہیں جن کی دوستی اور مودت خدا نے ہم پر واجب فرمائی ہے؟ ( یعنی اس آیہ مبارک میں) تو آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ وہ افراد علی(ع) و فاطمہ(س) اور حسن(ع) و حسین(ع) ہیں۔ اور بعض روایات میں وابناهما وارد ہے یعنی ان کے دونوں فرزند۔

اسی طرح کے اخبار و احادیث آپ کے معتبر کتابوں میں بہت وارد ہوئے ہیں جن سب کو ذکر کرنے کی وقت میں گنجائش نہیں ہے اور آپ کے علماء کے نزدیک یہ مطلب حد شیاع تک پہنچا ہوا ہے۔

محبت اہل بیت(ع) کے وجوب میں شافعی کا اقرار

یہاں تک کہ ابن حجر ایسے متعصب نے بھی صواعق محرقہ ص88 میں، حافظ جمال الدین زرندی نے معراج الوصول میں، شیخ عبداللہ شبراوی نے کتاب الاتحاف ص26 میں، محمد بن علی صبان مصری نے اسعاف الراغبین ص119 میں اور دوسرے علماء نے امام محمد بن ادریس شافعی سے جو آپ کے ائمہ اربعہ میں سے اور شافعیوں کے رئیس ہیں نقل کیا ہے کہ آپ کہتے تھے۔

يا أهل بيت رسول اللّه حبكم فرض من اللّه في القرآن أنزله

كفاكم من عظيم القدر أنكم من لم يصلّ عليكم لا صلاة له

( یعنی اے اہل بیت رسول خدا (ص) آپ کی محبت اور دوستی خدا کی جانب سے واجب ہوئی ہے جو قرآں میں نازل ہوئی ہے( آیت مذکورہ کی طرف اشارہ ) آپ کی عظمت منزلت میں یہی کافی ہے کہ جو شخص آپ ( آل محمد(ص)) پر صلوات نہ بھیجے اس کی نماز قبول نہ ہوگی) اب میں آپ حضرات سے اںصاف کے ساتھ پوچھتا ہوں کہ آیا وہ ایک طرفہ حدیث جس کو آپ نے نقل کیا ہے، ان ساری صحیح و صریح اور متفق بین الفریقین شیعہ و سنی بے شمار حدیثوں اور آیتوں کے مقابلے میں آسکتی ہیں؟ آیا اس کو عقل قبول کرتی ہے کہ جس کی محبت و مودت کو خدائے تعالی نے قرآن مجید میں لوگوں پر فرض قرار دیا ہو رسول اللہ(ص) اس کو چھوڑ دیں اور دوسروں کو اس پر ترجیح دیں؟

آیا آنحضرت (ص) کے لیے ہوا و ہوس کا تصور ہوسکتا ہے کہ ہم کہیں آپ اپنی خواہش نفس کی بناء پر عائشہ کو جن کی افضلیت پر کوئی دلیل نہیں ہے ( سوا اس کے کہ رسول خدا(ص) کی زوجہ اور تمام ازواج پیغمبر کی طرح ام المومنین تھیں) جناب فاطمہ(س) سے زیادہ دوست رکھتے ہوں گے جن کی محبت و مودت کو خدائے تعالے نے قرآن مجید میں فرض اور واجب قرار دیا ہے۔ جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے اور جن کو بحکم قرآن مباہلے میں شامل ہونے کا فخر حاصل ہے۔ آپ خود جانتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء ہوائے نفس کی پیروی نہیں کرتے اور سوائے خدا کے کسی پر نظر نہیں رکھتے، بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت رسول خدا(ص) جو حقیقتا حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کے حامل تھے اور قطعا اسی کو دوست رکھتے تھے جس کو خدا دوست رکھتا تھا اور اسی شخص کو دشمن رکھتے تھے

۲۰۳

جس کو خدا دشمن رکھتا تھا۔

یہ کیوں کر ممکن ہے کہ آں حضرت (ص) آں فاطمہ(س) کو چھوڑ دیں جن کی محبت و مودت کو خدا نے فرض اور واجب کیا اور دوسرے کو ان ترجیح دیں۔ بس اگر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دوست رکھتے تھے تو محض اسی وجہ سے کہ خدا ان کو محبوب رکھتا تھا۔

آیا عقل باور کرتی ہے کہ آں حضرت(ص) اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کو محبت کے معاملے میں اس ذات پر ترجیح دیں جس کے متعلق خود یہ فرماتے تھے کہ خدا نے ان کو برگزیدہ کیا اور ان کی محبت کو انسانوں پر فرض قرار دیا ہے؟ اب آپ کو چاہیے کہ یا تو ان تمام اخبار صحیحہ و صریحہ کو جو اکابر علمائے فریقین کے یہاں مقبول ہیں اور آیات قرآن مجید ان کی تائید کر رہی ہیں رد کیجئے یا جو یہ حدیث آپ نے بیان کی ہے اس کو طے نشدہ، جعلی حدیثوں میں شمار کیجئے، تاکہ یہ تناقض ختم ہوجائے ۔ اور خلیفہ ابوبکر کے بارے میں جو آپ نے فرمایا کہ آںحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا، میرے نزدیک مردوں میں سب سے زیادہ محبوب ابوبکر ہیں تو یہ آن بکثرت معتبر روایات کے خلاف ہے جو خود آپ ہی کے بڑے بڑے ثقہ راویوں اور عالموں کے طریقوں سے منقول ہیں کہ پیغمبر(ص) کے نزدیک امت کے مردوں میں سب سے زیادہ محبوب علی علیہ السلام تھے۔

پیغمبر(ص) کے نزدیک علی(ع) تمام مردوں سے زیادہ محبوب تھے

چنانچہ شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب 55 میں ترمذی سے بریدہ کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا " کان احب النساء فی رسول الله فاطمة و من الرجال علی "

( یعنی پیغمبر کے نزدیک عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ(س) اور مردوں میں علی علیہ السلام تھے)

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب 91 میں ام المومنین عائشہ کی سند سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا " ما خلق الله خلقا کان احب الی رسول الله من علی ابن ابی طالب " ( یعنی خدا نے کسی ایسی مخلوق کو پیدا نہیں کیا جو رسول اللہ کے لیے علی (ع) سے زیادہ محبوب ہو) اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ وہ حدیث ہے جس کو ابن عساکر نے اپنے مناقب میں اور ابن عساکر دمشقی نے ترجمہ حالات علی علیہ السلام میں روایت کیا ہے۔

محی الدین ( امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی ذخائر العقبی میں ترمذی سے نقل کرتے ہیں کہ عائشہ سے لوگوں نے پوچھا کہ رسول اللہ(ص) کے نزدیک کون عورت سب سے زیادہ محبوب تھی؟ انہوں نے کہا فاطمہ(س) پھر پوچھا کہ مردوں میں آںحضرت(ص) کو کون محبوب تر تھا؟ تو کہا کہ " زوجہا علی ابن ابی طالب" یعنی ان کے شوہر علی ابن ابی طالب۔

نیز مخلص ذہبی اور حافظ ابو القاسم دمشقی سے اور وہ عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

" ما رائيت رجلا احب الی النبی صلی الله عليه وآله وسلم من علی ولا احب اليه من فاطمة "

یعنی میں نے کسی مرد کو رسول (ص) کے

۲۰۴

نزدیک علی (ع) سے زیادہ محبوب نہیں دیکھا اور نہ فاطمہ(س) سے محبوب تر دیکھا۔

نیز حافظ خجندی سے اور وہ معاذۃ الغفاریہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں کہ میں عائشہ کے یہاں خدمت رسول(ص) میں مشرف ہوئی اور علی علیہ السلام گھر کے باہر موجود تھے، آںحضرت(ص) نے عائشہ سے فرمایا:

" انّ هذا احبّ الرجال الىّ و اكرمهم علىّ فاعرفى له حقّه و اكرمى مثواه"

یعنی یہ علی(ع) میرے نزدیک مردوں میں سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ ۔۔۔۔ باعزت ہیں لہذا انکا حق پہچانو اور ان کے مرتبے کی تعظیم و توقیر کرو) شیخ عبداللہ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی جو آپ کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص9 میں، سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت میں اور محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص6 میں ترمذی سے اور وہ جمیع بن عمیر سے نقل کرتے ہیں کہ کہ انہوں نے کہا میں اپنی پھوپھی کے ہمراہ ام المومنین عائشہ کے پاس گیا اور ہم لوگوں نے ان سے پوچھا کہ رسول خدا(ص) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخص کون تھا؟ عائشہ نے کہا کہ عورتوں میں فاطمہ(س) اور مردوں ان کے شوہر علی ابن ابی طالب۔

اسی روایت کو میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت یازدہم میں اتنے فرق کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جمیع نے کہا میں نے اپنی پھوپھی سے دریافت کیا تو یہ جواب ملا۔

نیز خطیب خوارزمی نے مناقب فصل ششم کے آخر میں جمیع بن عمیر سے اور انہوں نے عائشہ سے اس خبر کو نقل کیا ہے ۔ ابن حجر مکی صواعق محرقہ فصل دوم کے آخر میں حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں چالیس حدیثیں نقل کرنے کے بعد عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

" کانت فاطمة احب النساء الی رسول الله صلی الله عليه و آله و زوجها احب الرجال "

یعنی پیغمبر(ص) کے نزدیک عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ(س) اور مردوں میں سب سے زیادہ محبوب ان کے شوہر علی ابن ابی طالب(ع) تھے) نیز محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص7 میں اس موضوع پر چند مفصل روایتیں نقل کرنے کے بعد اس عبارت کے ساتھ اپنے عقیدے اور تحقیق کا اظہار کرتے ہیں۔:

" فثبت بهذه الاحاديث الصحيحة والاخبار الصريحه ان فاطمة کانت احب الی رسول الله من غيرها و انها سيدة نساء اهل الجنة و انها سيدة نساء هذه الامة و سيدة نساء اهل الجنة "

یعنی احادیث صحیحہ اور اخبار صریحہ سے ثابت ہوا کہ فاطمہ(س) رسول اللہ(ص) کو اپنے علاوہ ہر ایک شخصیت سے زیادہ محبوب تھیں اور یقینا وہ بہشت کی عورتوں کی سردار اس امت کی عورتوں کی سردار اور مدینے کی عورتوں کی سردار تھیں۔)

پس یہ مطلب عقلی و نقلی دلائل سے ثابت ہے کہ علی و فاطمہ علیہما السلام سارے مخلوقات میں رسول اللہ(س) کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ اور پیغمبر(ص) ک نزدیک علی کی محبوبیت اور دوسروں پر فوقیت کے ثبوت میں ان تمام روایات سے زیادہ اہم مشہور و معروف حدیث طیر ہے جس سے مکمل طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی آں حضرت (ص) کو ساری امت میں سب سے زیادہ محبوب تھے اور یقینا آپ خود بھی خوب جانتے ہیںکہ حدیث طیر فریقین ( سنی شیعہ) کے درمیان اس قدر مشہور ہے کہ اس کو سند نقل کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن محترم حاضرین جلسہ کی وسعت نظر کے لیے تاکہ ان پر حقیقت مشتبہ نہ رہ جائے اور ان کو

۲۰۵

یہ خیال پیدا نہ ہو کہ شیعہ اس قسم کی حدیثوں کو وضع کرتے ہیں اس کے بعض اسناد جو اس وقت میری نظر میں ہیں عرض کرتا ہوں۔

حدیث طیر

بخاری ، ترمذی، نسائی، اور سجستانی نے اپنی معتبر صحاح میں، امام ابن حنبل نے مسند میں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ کے باب 8 کو حدیث طیر اور اس کے روایات کے نقل سے مخصوص کیا ہے اور احمد بن حنبل ، ترمذی، موفق ابن احمد، ابن مغازلی ، سنن ابی داوود ، رسول کے غلام سفینہ، انس بن مالک اور ابن عباس سے روایت کی ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں حدیث طیر کو چوبیس راویوں نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے اور خصوصیت کے ساتھ مالکی نے فصول المہمہ میں اس عبارت کے ساتھ لکھا ہے کہ

" وذالک انه صح النقل فی کتب الاحاديث الصحيحه والاخبار الصريحه عن انس بن مالک "

جس کا مطلب یہ ہے کہ کتب احادیث صحیحہ اور اخبار صریحہ میں انس بن مالک سے حدیث طیر کی نقل مسلسل طور پر صحیح ہے ۔ سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص23 میں فضائل احمد اور سنن ترمذی سے اور مسعودی نے مروج الذہب جلد دوم ص49 میں حدیث کے آخری حصے کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں پیغمبر(ص) کی دعا اور اس کی قبولیت ہے امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی حدیث نہم میں اور حافظ بن عقدہ و محمد بن جریر طبری دونوں سے ہر ایک نے اس حدیث کے تواتر اسانید میں کہ اس کو پینتیس صحابہ نے انس سے روایت کیا ہے ایک مخصوص کتاب لکھی ہے اور حافظ ابو نعیم نے اس باب میں ایک ضخیم کتاب لکھی ہے خلاصہ یہ کہ آپ کے سارے اکابر علماءنے اس حدیث شریف کی تصدیق کی ہے اور اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے، چنانچہ صاحب زہد و ورع محقق و ثقہ علامہ سید حسین صاحب اعلی اللہ مقامہ نےجن کے علم و عمل اور تقوی کو جو ہندوستان میں اظہر من الشمس تھا آپ حضرات قریب ہونے کی وجہ سے اچھی طرح جانتے ہیں اپنی کتاب طبقات الانوار بڑی بڑی جلدوں میں سے ایک عظیم وضخیم جلد حدیث طیر سے مخصوص کر رکھی ہے اور اس میں آپ کے بزرگ علماء کی خاص کتابوں میں سے تمام معتبر اسناد جمع کردیے ہیں۔ اس وقت میں یہ نہیں بتا سکتا کہ اس حدیث کو کتنی سندوں کےساتھ نقل کیا ہے البتہ اس قدر یاد ہے کہ اس کے اسناد پڑھنے کے وقت میں ان سید بزرگوار کی زحمتوں اور اہم دینی خدمتوں کو دیکھ کر مبہوت ہوگیا تھا کہ ایک چھوٹی سی حدیث کو صرف آپ کے طریقوں سے کس طرح تواتر کےساتھ ثابت کیا ہے۔ان تمام اخبار کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ جملہ شیعہ و سنی مسلمانوں نے ہر دور اور ہر زمانے میں اس حدیث کی صحت کا اقرار و اعتراف اور تصدیق کی ہے کہ ایک روز کوئی عورت ایک بنا ہوا طائر ہدیے کے طور پر جناب رسول اللہ(ص) کی خدمت میں لائی ، آں حضرت(ص) نے اس کو تناول فرمانے سے پہلے بارگاہ الہی میں دست دعا بلند فرمائے اور عرض کیا

" اللّهم ائتني بأحبّ خلقك إليك يأكل معي من هذا الطير فجاء عليّ فأكل معه."

( یعنی پرودگارا جو شخص میرے اور تیرے نزدیک تیری مخلوق میں سب سے زیادہ

۲۰۶

محبوب ہو اس کو میرے پاس بھیج دے تاکہ اس بھنے ہوئے طائر میں سے میرے ساتھ نوش کرے، اس وقت علی علیہ السلام آئے اور آں حضرت(ص) کے ساتھ اس کو تناول کیا۔

اور آپ کی بعض کتابوں میں جیسے فصول المہمہ مالکی، تاریخ حافظ نیشاپوری، کفایت الطالب گنجی شافعی اور مسند احمد وغیرہ جن میں انس بن مالک سے روایت کی ہےاس طرح ذکر کیا کہ انس نے کہا، پیغمبر(ص) اس دعا میں مشغول تھے کہ علی(ع) گھر میں آئے میں نے بہانہ کر دیا اور اس کو پوشیدہ رکھا، تیسری مرتبہ آپ نے پاوں دروازے پر مارا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا ان کو آنے دو۔ جوں ہی علی(ع) پہنچے آنحضرت (ص) نے فرمایا " ماحسبک عنی یرحمک اللہ" خدا تم پر رحمت نازل کرے کس چیز نے تم کو میرے پاس آنے سے باز رکھا ؟ تو آپ نے عرض کیا کہ میں تین مرتبہ دروازے پر حاضر ہوا اور اب کی تیسری دفعہ میں آپ کی خدمت تک پہنچا۔ آںحضرت (ص) نے فرمایا اے انس تم کو کس چیز نے اس حرکت پر مجبور کیا کہ علی(ع) کو میرے پاس آنے سے منع کیا؟ میں نے عرض کیا کہ سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے آپ کی دعا سنی تو یہ تمنا پیدا ہوئی کہ میری ہی قوم کا کوئی شخص اس درجے پر فائز ہو۔ اب میں آپ حضرات سے سوال کرتا ہوں کہ آیا خدائے تعالے نے اپنے رسول خاتم الانبیاء(ص) کی دعا قبول فرمائی یا رد کردی؟

شیخ : بدیہی چیز ہے کہ خدا نے قرآن کریم میں چونکہ دعائیں قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ گرامی منزلت پیغمبر(ص) ہرگز کوئی بے جا درخواست نہیں کرتے لہذا قطعا آن حضرت(ص) کی خواہش اور دعا کو منظور اور قبول فرماتا تھا۔

خیر طلب " پس اس صورت میں خدائے جل و علا نے اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین فرد کو اختیار و انتخاب کر کے اپنے پیغمبر(ص) کے پاس بھیجا اور وہ ساری امت کے درمیان بزرگ و برتر محبوب جو کل مخلوقات میں سے چنا ہوا اور خدا و رسول کے نزدیک امت میں سب سے زیادہ محبوب تھا علی بن ابی طالب علیہ السلام تھے۔ چنانچہ خود آپ کےبڑے بڑے علماء نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ مثلا محمد بن طلحہ شافعی نےجو آپ کے فقہاء اور اکابر علماء میں سے تھے مطالب السئول باب اول فصل پنجم کے اوائل میں ص15 پر حدیث رایت اور حدیث طیر کی مناسبت سے تقریبا ایک صفحے میں شیرین بیانی اور دل نشین تحقیقات کے ساتھ تمام امت کے درمیان خدا و رسول(ص) کی محبوبیت کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت و منزلت کو ثابت کیا ہے اور ضمنا کہتے ہیں

" و اراد النبی ان يتحقق الناس ثبوت هذه المنقبة المنسيئة والصفة العليه التی هی اعلی درجات المتقين لعلی الخ"

( یعنی پیغمبر(ص) نے ارادہ فرمایا کہ اس روشن منقبت اور بلند صفت کا جو پرہیزگاروں کےدرجات میں سب سے بالاتر ہے( یعنی خدا و رسول کا محبوب ہونا) علی (ع) کے اندر قائم ہونا لوگوں کی نگاہوں میں ثابت ہوجائے۔

نیز شام کے حافظ و محدث محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی سنہ658ھ کفایت الطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب علیہ السلام باب33 میں حدیث طیر کو اپنے معتبر اسناد کے ساتھ چار طریقوں سے اس اور سفینہ سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ محاملی نے اپنی جز نہم میں اس حدیث کو درج کیا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اس حدیث میں کھلی ہوئی دلالت ہے اس بات پر کہ علی علیہ السلام

۲۰۷

خدا کی بارگاہ میں کل مخلوق سے زیادہ پیارے ہیں اور اس مقصد پر سب دلیلوں سے اہم دلیل یہ ہے کہ خدا نے اپنے رسول (ص) کی وہ دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے لہذا جب رسول اللہ(ص) نے دعا کی تو خدا نے بھی فورا قبول فرمایا اور محبوب ترین خلق کو آنحضرت(ص) کی طرف بھیج دیا اور وہ علی علیہ السلام تھے۔

اس کے بعد کہتے ہیں کہ انس سے منقول حدیث طیر کو حاکم ابوعبداللہ حافظ نیشاپوری نے چھیاسی راویوں سے نقل کیا ہے اور ان سب نے انس سے روایت کی ہے۔ پھر ان چھیاسی افراد کے نام بھی لکھے ہیں۔ ( شائقین کفایت الطالب(1) باب 33 کی طرف رجوع فرمائیں اب ذرا آپ حضرات انصاف فرمائیں کہ آیا جو حدیث آپ نے نقل کی ہے وہ معارض حدیثوں اور بالخصوص حدیث رایت اور اس با عظمت حدیث طیر کے مقابلے میں آسکتی ہے؟ قطعا جواب نفی میں ہوگا۔ پس ایک آپ کی یک طرفہ حدیث سے ان احادیث کے مقابلے میں جن کو آپ کے اکابر علماء نے سوا چند متعصب کینہ پرور لوگوں کے نقل کیا ہے اور ان کی صحت کی تصدیق کی ہے ہرگز سند نہیں لی جاسکتی بلکہ وہ ارباب تحقیق اور صاحبان جرح و تعدیل کے نزدیک مردود اور ناقابل اعتبار ٹھہرتی ہے۔

شیخ : میرا خیال ہے آپ نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو کچھ ہم کہیں گے اس کو نہ مانیے گا اور کافی اصرار کےساتھ اس کو رد کیجئے گا۔

بیان حقیقت

خیر طلب : مجھ کو آپ جیسے عالم انسان سے سخت تعجب ہے کہ اتنے حاضرین جلسہ کے سامنے مجھ پر ایسا غلط الزام عائد کر رہے ہیں۔ کس وقت آپ حضرات ن علم و عقل اور منطق کے مطابق کوئی دلیل قائم کیجس کے مقابلے میں میں نے ضد سے کام لیا اور اس کو قبول نہیں کیا تاکہ اس کے نتیجے میں آپ کی سرزنش کا مستحق قرار پاوں ؟ میں خدا کی توفیق اور تائید سے محروم ہو جاوں اگر میرے اندر ہٹ دھرمی اور جاہلانہ تعصب و عناد کا شائبہ بھی ہو، یا برادران اہل سنت کے ساتھ عمومی یا خصوصی طور پر کوئی عداوت کا نظریہ رکھتا ہوں۔

میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ یہود و ںصاری اہل ہنود اور برہمنوں ، ایران میں ناقابل بہائیوں ہندوستان میں قادیانیوں یا مادہ اور طبیعت کے پجاریوں اور دوسرے مخالفین کے ساتھ بھی مناظروں میں کبھی میں نے ضد وغیرہ سے کام نہیں لیا، ہر مقام پر اور ہر وقت خدا پر نظر رکھی اور ہمیشہ میرا منطق علم و عقل اور منطق انصاف کے روسے حقیقت کو ظاہر کرنا رہا ہے۔ جب میں نے کافر ، مرتد اور نجس لوگوں سے ہٹ دھرمی نہیں کی ہے تو آپ کے ساتھ ایسا کیوں کر کرسکتا ہوں کیونکہ آپ لوگ ہمارے اسلامی بھائی ہیں۔ ہم سب ایک دین ایک قبلہ ایک کتاب کے ماننے والے اور ایک پیغمبر(ص) کے احکام کے تابع ہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ ابتداء سے آپ کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ غالبا ی بات33 ہے جیسا کہ اس سے قبل کے حوالے میں موجود ہے۔ 12 مترجم۔

۲۰۸

دماغ میں جو غلط فہمیاں راسخ اور عادت کی بنا پر طبیعت ثانیہ بن چکی ہیں ان کی کدورت منطق اور انصاف کے چھینٹوں سے بر طرف کردی جائے۔

خدا کے فضل سے آپ عالم ہیں اگر عادت ، اسلاف کی پیروی اور تعصب سے تھوڑا الگ ہوکر اںصاف کے دائرے میں آجائے تو ہم مکمل طور پر صحیح نتیجے تک پہنچ جائیں۔

شیخ : ہم نے شہر لاہور میں ہندووں اور برہمنوں کے ساتھ آپ کے مناظروں کاطریقہ روز ناموں اور ہفتہ وار اخبارات میں پرھا تھا جس سے ہم کو بہت خوشی ہوئی تھی اور باوجودیکہ ابھی آپ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن ایک قلبی تعلق محسوس کرنے لگے تھے۔ امید ہے کہ خدا ہم کو اور آپ کو توفیق دے تاکہ حق اور حقیقت ظاہر ہوجائے ۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ اگر روایات میں کوئی شبہ ہو تو جیسا کہ خود آپ نے فرمایا ہےقرآن کریم کی طرف رجوع کرنا چاہیئے ۔ اگر آپ خلیفہ ابوبکر کی فضیلت اور خلفائے راشدین کے طریقہ خلافت میں احادیث کو مشتبہ سمجھتے ہیں تو کیا آیات قرآن کریم کے دلائل میں بھی شک و شبہ وارد کیجئے گا؟

خیر طلب : خدا وہ دن نہ لائے کہ میں قرآنی دلائل یا صحیح احادیث میں شک کروں، فقط چیز یہ ہے کہ ہر قوم و ملت یہاں تک کہ دین سے منحرف و مرتد لوگوں سے بھی جب ہمارا مقابلہ ہوا ہے تو وہ بھی اپنی حقانیت پر قرآن کی آیتوں سے استدلال کرتے تھے چونکہ قرآن مجید کے آیات ذو معانی ہیں لہذا خاتم الانبیاء نے لوگوں کی افراط و تفریط اور مغالطوں کوروکنے کے لیے قرآن کو امت کے درمیان تنہا نہیں چھوڑا بلکہ باتفاق علمائے فریقین ( شیعہ وسنی) جیسا کہ پچھلی شبوں میں عرض کرچکا ہوں: " إنّي تارك فيكم الثقلين كتاب اللّه و عترتي ما إن تمسّكتم بهما فقد نجوتم " اور بعض روایات میں ارشاد ہے لن تضلوا ابدا ( یعنی در حقیقت میں تمہارے درمیان دو بزرگ چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، کتاب خدا اور میری عترت اگر ان دونوں ( کتاب وعترت ) سے تمسک رکھوگے ت نجات پاو گے اور ہرگز گمراہ نہ ہوگے ( رجوع ہو اس کتاب کے ص92، 93 کی طرف )

لہذا قرآن کے مفہوم و حقیقت اور شان نزول کو خود رسول اللہ(ص) سے جو قرآن کے حقیقی شارح ہیں اور ان حضرت کے بعد عدیل قرآن سے جو آن حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت ہیں دریافت کرنا چاہئے۔ جیسا کہ سورہ نمبر21 (انبیاء) آیت 7 میں ارشاد ہے " فاسئلوا أهل الذّكر إن كنتم لا تعلمون" ( یعنی اے ہمارے رسول امت سے کہہ دیجئے کہ) اگر تم خود جانتے ہوتو اہل ذکر اور صاحبان علم( یعنی آل محمد(ص) جو سب سے زیادہ عالم ہیں) سے دریافت کرو۔)

اہل ذکر آل محمد(ص) ہیں

اہل ذکر سے مراد حضرت علی(ع) اور آپ کی اولاد میں سے ائمہ علیہم السلام ہیں جو عدیل قرآن ہیں چنانچہ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودہ مطبوعہ اسلامبول باب39 ص119 میں امام ثعلبی کی تفسیر کشف البیان سے بروایت جابر ابن عبداللہ انصاری

۲۰۹

نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا " قال علی ابن ابی طالب نحن اہل الذکر " یعنی علی علیہ السلام نے فرمایا ہم ( خاندان رسالت) اہل ذکر ہیں۔ چونکہ ذکر قرآن کا ایک نام ہے اور اس جلیل القدر خاندان والے اہل قرآن ہیں اسی وجہ سے ہمارے اور آپ کے علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام فرماتے تھے:

" سلونى قبل ان تفقدونى سلونى عن كتاب اللَّه تعالى فان ه ليس من آية الّا قد عرفت بليل نزلت ام نهارا ام فی سهل ام فی جبل و ما نزلت آية إلّا و قد علمت فيمن نزلت و فيما نزلت و إنّ ربّي وهب لي لسانا طلقا و قلبا عقولا"

(یعنی پوچھ مجھ سے قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاو کتاب خدا کے متعلق مجھ سے دریافت کرو کیونکہ قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کو میں نہ جانتا ہوں کہ رات میں نازل ہوئی ہے یا دن میں ہوا اور زمین میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ میں۔ خدا کی قسم کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ہے لیکن یہ یقینا جانتا ہوں کہ کس بارے میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی اور کس پر نازل کی گئی ہے اور در حقیقت خدا نے مجھ کو فصیح زبان اور دانش مند دل عنایت فرمایا ہے) پس قرآن کی جس آیت سے بھی استدلال کیا جائے اس کو حقیقی مفہوم اور مفسرین کے بیان سے مطابق ہونا چاہئیے ورنہ اگر کوئی شخص اپنی طرف سے اور اپنے ذوق و فکر اور عقیدے کے روسے آیات قرآنی کی تفسیر کریگا تو سوا اختلاف بیان اور خیالات کی پراگندگی کے کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوگا اب اس تمہید کے پیش نظر میری درخواست ہے کہ اپنی منتخبہ آیات بیان فرمائیے اگر مقصد سے مطابقت کرے گی تو جان و دل سے قبول کر کے اپنے سر پر جگہ دوں گا۔

خلفائے اربعہ کے طریقہ خلافت میں نقل آیت اور اس کا جواب

شیخ : سورہ 38 (فتح) آیت نمبر29 میں کھلا ہوا ارشاد ہے :

"مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَ الَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُمْ تَراهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً- يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَ رِضْواناً سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ "

( یعنی محمد(ص) خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھی کافروں پر بہت سخت اور آپس میں ایک دوسرے پر شفیق ومہربان ہیں، ان کو تم زیادہ تر رکوع و سجود کے عالم میں دیکھو گے جو فضل و رحمت اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں، ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان پڑے ہوئے ہیں۔)

یہ آیہ شریفہ ایک طرف سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضل و شرف کو ثابت کررہی ہے اور دوسری طرف سے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے طریقہ خلافت کو معین کرتی ہے، بخلاف اس کے کہ جیسا کہ شیعہ فرقے والے دعوی کرتے ہیں کہ علی کرم اللہ وجہہ پہلے خلیفہ ہیں۔ یہ آیت صراحت کے ساتھ علی(ع) کو چوتھا خلیفہ ظاہر کرتی ہیں۔

خیر طلب : آیہ شریفہ کے ظاہر سے تو کوئی ایسی چیز و خلفائے راشدین کے طریقہ خلافت اور ابوبکر کی فضیلت پر دلالت کرتی ہو نظر نہیں آتی ، البتہ ضرورت اس کی ہے کہ آپ وضاحت کیجئے کہ یہ صراحت آیت میں کس مقام پر ہے جس کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔

۲۱۰

شیخ : خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت و شرافت پر آیت کی دلالت یہ ہے کہ آیت کے شروع میں کلمہ وَ الَّذِينَ مَعَهُ سے اس مرد بزرگ کی منزلت کی طرف اشارہ ہوا ہے جو آپ کو لیلۃ الغار میں پیغمبر(ص) کے ساتھ حاصل تھی ۔ اور خلفائے راشدین کا طریقہ خلافت بھی اس آیت میں پوری صراحت کےساتھ واضح ہے کیونکہ وَ الَّذِينَ مَعَهُ سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں جو شب ہجرت غار ثور میں پیغمبر(ص) کے ہمراہ تھے، أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ سے عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ مراد ہیں جو کفار پر بہت سخت گیری کرتے تھے، رُحَماءُ بَيْنَهُمْ عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ ہیں جو بہت رقیق القلب اور رحم دل تھے ۔" سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ " علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ہیں۔

امید ہے کہ یہ چیز آپ کے بے لوث خیال کے موافق ہوگی اور آپ تصدیق کیجئے گا کہ حق ہمارے ساتھ ہے جو علی(ع) کو چوتھا خلیفہ جانتے ہیں نہ کہ خلیفہ اول، کیونکہ خدا نے بھی قرآن میں ان کا ذکر چوتھے نمبر پر کیا ہے۔

خیر طلب: میں حیرت میں ہوں کہ جواب کس انداز میں عرض کروں تاکہ خود غرضی کا الزام عائد نہ ہو، اگر بغیر تعصب کے اںصاف کی ںظر سے دیکھیے تو تصدیق فرمائیے گا کہ کوئی غرض کار فرما نہیں ہے بلکہ مقصد صرف اظہار حقیقت ہے۔ علاوہ اس کے کہ از باب تفسیر نے یہاں تک کہ خود آپ کے علماء نے بڑی بڑی تفسیروں میں اس آیہ شریفہ کے شان نزول میں یہ مطلب بیان نہیں کیا ہے اگر یہ آیت قرآنی امر خلافت کے بارے میں ہوتی تو روز اول وفات رسول(ص) کے بعد حضرت علی علیہ السلام بنی ہاشم اور کبار صحابہ کے اعتراضات کے مقابلے میں فرضی شاخ بزرگ پیدا کرنے کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ یہ آیت پیش کر کے مسکت جواب دے دیا جاتا۔ پس معلوم ہوا کہ آیت کے جو معنی آپ نے بیان کئے ہیں وہ ایجاد بندہ ہیں جو مدتوں بعد حضرت ابوبکر و عمر کے طرف داروں نے تصنیف کئے ہیں۔

اس لیے کہ خود آپ کے اکابر مفسرین جسیسے طبری، امام ثعلبی، فاضل نیشاپوری، جلال الدین سیوطی، قاضی بیضاوی، جار اللہ زمخشری اور امام فخرالدین رازی وغیرہ نے بھی یہ تفسیر بیان نہیں کی ہے پس میں نہیں جانتا کہ آپ کہاں سے یہ بات کہہ رہے ہیں اور یہ معنی کس وقت سے اور کن اشخاص کے ہاتھوں پیدا ہوئے؟ اس کے علاوہ خود آیہ شریفہ میں علمی ، ادبی اور عملی موانع موجود ہیں جو ثابت کررہے ہیں کہ جو شخص اس قول کا قائل ہوا ہے اس نے بے کار ہاتھ پاوں مارے ہیں اور اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہوا ہے جس کو خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے اپنی تفسیروں کے شروع میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آن حضرت(ص) نے فرمایا : " ؟؟؟؟ القرآن برایہ فمقعدہ فی النار" یعنی جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے تو اس کا ٹھکانہ آگ میں ہے( اگر آپ کہئیے کہ تفسیر نہیں ہے تاویل ہے تو آپ حضرات باپ تاویل کو مطلقا مسدود جانتے ہیں، علاوہ اس کے یہ آیت شریفہ علم و ادب اور اصطلاح کے رو سے آپ کے مقصد کے برخلاف نتیجہ دے رہی ہے۔

شیخ : جھ کو یہ امید نہیں تھی کہ جناب عالی اتنی واضح آیت کے مقابلے میں بھی استقامت دکھائیں گے البتہ اگر آپ اس آیت میں کوئی ایراد حقیقت کے برخلاف رکھتے ہیں تو بیان کیجئے تاکہ اصلیت ظاہر ہو۔

۲۱۱

نواب : قبلہ صاحب میری خواہش ہے کہ جس طرح اب تک آپ ن ہماری درخواستوں کو قبول کیا ہے اور مطالب کو ایسے سادہ انداز میں بیان کیا ہے کہ تمام حاضرین جلسہ اور غیر حاضر اشخاص ان سے بہرہ مند ہوئے ہیں اس مقام پر بھی گفتگو میں انتہائی سادگی کا لحاظ فرمائیے ہم سب آپ کے ممنون ہوں گے کیونکہ یہی وہ آیت ہے جو برابر ہمارے سامنے پڑھی جاتی رہی ہے اور ہم سب کو اس کے ذریعہ حکم قرآن کا محکوم اور پابند بنایا گیا ہے۔

خیر طلب: پہلی چیز تو یہ ہے کہ آیت کی عظمت اور شعبدہ بازوں کے نقل قول نے آپ حضرات کو ایسا مبہوت بنا رکھا ہے کہ آیت کے حقیقی معنی اور رموز اسرار سے غافل ہوگئے ہیں، اگر آپ خود اپنی جگہ پر اس کے نحوی ترکیبات اور ادبی معانی پر تھوڑی توجہ کر لیتے تو معلوم ہوجاتا کہ یہ آیت آپ کے مقصد اور مراد سے ہرگز مطابقت نہیں کر رہی ہے۔

شیخ : التماس ہے کہ آپ ہی ضمائر و ترکیبات کو بیان کیجئے تاکہ ہم دیکھیں کیونکر مطابقت نہیں کرتی ہے۔

خیر طلب: ترکیبی جہت سے تو آپ خود بہتر سمجھتے ہیں کہ اس آیہ مبارکہ کی ترکیب یقینی طور پر دو حال سے خارج نہیں ہے۔ یا محمد مبتداء ہے ، رسول اللہ عطف بیان ، والذین معہ عطف بر محمد(ص) ، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے وہ خبر بعد از خبر ہے۔ یا والذین معہ مبتداء ہے ، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے وہ خبر بعد از خبر ہے۔

ان قواعد کے رو سے اگر ہم آپ کے عقیدے اور قول کے مطابق آیت کا ترجمہ کرنا چاہیں تو دو طرح کے معنی ظاہر ہوتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر و عمر، عثمان اور علی(ع) ہیں۔

اور اگر والذین معہ مبتداء ہو، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے خبر بعد از خبر تو آیت کے معنی اس طرح ہوتے ہیں کہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی(ع) ہیں۔ بدیہی چیز ہے جس کو ہر مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ کلام کا یہ طریقہ غیر معقول اور نظم ادب سے خارج ہے۔

علاوہ اس کے اگر آیہ شریفہ سے خلفائے اربعہ مراد ہوتے تو ضرورت تھی کہ کلمات کے درمیان واو عطف رکھا جاتا تاکہ آپ کے مقصود سے مطابق ہوجاتے ، حالانکہ صورت اس کے برخلاف ہے۔

آپ کے جملہ مفسرین نے اس آیہ شریفہ کو تمام مومنین کے حق میں قرار دیا ہے یعنی کہتے ہیں کہ یہ تمام مومنین کی صفتیں ہیں۔ اور ظاہر آیت خود دلیل ہے کہ یہ کل مطالب ایک شخص کی صفتیں ہیں جو ابتداء سے پیغمبر(ص) کے ساتھ تھا نہ کہ چار نفر اور اگر ہم کہیں کہ وہ ایک فرد امیرالمومنین علی علیہ السلام تھے تو یہ دوسروں کی نسبت عقل و نقل کے مطابق کہیں زیادہ قابل قبول ہے۔

آیہ غار سے استدلال اور اس کا جواب

شیخ : تعجب ہے کہ آپ فرماتے ہیں میں کج بحثی نہیں کرتا حالانکہ اس وقت آپ مجادلہ ہی کررہے ہیں۔ کیا ایسا

۲۱۲

نہیں ہے کہ خدا سورہ 9 ( توبہ) آیت نمبر40 میں صاف صاف فرماتا ہے:

" إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُما فِي الْغارِ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنا فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَ أَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْها."

( یعنی یقینا خدا نے ان کی ( رسول اللہ(ص) ) کی مدد کی جب کفار نے ان کو مکے سے خارج کردیا ، ان میں سے ایک(یعنی رسول اللہ(ص)) جو دونوں غار کے اندر تھے جس وقت اپنے ہم سفر سے ( یعنی ابوبکر سے جو مضطرب تھے) فرما رہے تھے غم نہ کرو یقینا خدا ہمارے ساتھ ہے۔ اس وقت خدا نے ان پر ( یعنی رسول اللہ پر) اپنی طرف سے سکون و وقار نازل فرمایا اور ان کی ان غیبی لشکروں سے امداد کی جن کو تم نے نہیں دیکھا۔)

یہ آیت علاوہ اس کے کہ آیت ، قبل کی موئد ہے اور والذین معہ کا مقصد ثابت کرتی ہے کہ ابوبکر غار میں شب ہجرت رسول اللہ(ص) کے ساتھ تھے خود یہ مصاحبت اور پیغمبر(ص) کی ہمراہی تمام امت پر ابوبکر کے فضل و شرف کی ایک بڑی دلیل ہے اس لیے کہ پیغمبر(ص) چونکہ علم باطن سے جانتے تھے کہ ابوبکر ان کے خلیفہ ہیں اور خلیفہ کا وجود ان کے بعد ضروری ہے اور اپنی ذات کے مانند ان کی بھی حفاظت کرنا چاہئے لہذا ان کو اپنے ہمراہ لے گئے تاکہ دشمن کے ہاتھ میں گرفتار نہ ہوجائیں۔ اور یہ بتاو مسلمانوں میں سے کسی اور کے ساتھ نہیں کیا، پس اسی جہت سے ان کے لیے تقدم خلافت کا حق ثابت ہوا۔

خیر طلب : اگر آپ حضرات کسی وقت سنیت کا لباس اتار کے اور تعصب وعادت سےالگ ہو کر ایک غیر جانبدار اور غیر متعصب انسان کے مانند اس آیہ شریفہ کے پہلووں پر غور کریں تو تصدیق کریں گے کہ جو نتیجہ آپ کے پیش نظر ہے وہ اس آیہ سے حاصل نہیں ہوتا۔

شیخ : بہتر ہے کہ اگر مقصد کے خلاف کچھ منطقی دلائل ہیں تو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : میری خواہش ہے کہ اس موقع سے چشم پوشی فرمائیے کیونکہ بات سے بات پیدا ہوتی ہے، اس وقت ممکن ہے کہ بعض غیر منصف لوگ اسی کو عداوت کی نظر سے دیکھیں ، آپس میں رنجش پیدا ہو اور یہ خیال قائم کیا جائے کہ ہم مقام خلفاء کی اہانت کرنا چاہتیے ہیں، حالانکہ ہر فرد کی حیثیت اپنی جگہ پر محفوظ ہے اور ان کے لیے بے جا تفسیر و تاویل کی احتیاج نہیں۔

شیخ : میری درخواست ہے کہ بغلیں نہ جھانکئے اور مطمئن رہئے ، منطقی دلائل رنجش نہیں پیدا کرتے ہیں بلکہ ان سے پردے ہٹتے ہیں۔

خیر طلب: چونکہ آپ نے بغلیں جھانکنے کا نام لیا ہے لہذا میں مجبور ہوں کہ ایک مختصر جواب پیش کردوں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ میں بغلیں نہیں جھانک رہا تھا بلکہ گفتگو میں ادب کا لحاظ مقصود تھا۔ امید ہے کہ میری باتوں میں عیب جوئی نہ کیجئے گا اور اںصاف کی نظر سے دیکھئے گا اس لیے کہ اس بحث کا جواب محققین علماء نے مختلف طریقوں سے دیا ہے۔

اولا : آپ کا یہ جملہ سخت حیرت انگیز اور سطحی تھا کہ رسول اللہ(ص) چونکہ یہ جانتے تھے کہ ابوبکر کے بعد خلیفہ ہوں گے اور خلیفہ کا تحفظ آن حضرت(ص) پر لازم تھا لہذا ان کو اپنے ہمراہ لے گئے۔

آپ کے اس بیان کا جواب بہت سادہ ہے کیونکہ اگر پیغمبر(ص) کے خلیفہ صرف ابوبکر ہی ہوتے تو ایسا احتمال پیدا کیا

۲۱۳

جاسکتا تھا لیکن آپ خود خلفائے راشدین کی خلافت پر اعتماد رکھتے ہیں اور وہ چار نفر تھے۔ اگر آپ کی یہ دلیل صحیح ہے اور خطرات سے خلیفہ محفوظ رکھنا لازم تھا تو پیغمبر(ص) کا فرض تھا کہ چاروں خلفاء کو جو مکے میں موجود تھے اپنے ساتھ لے جائیں ، نہ یہ کہ ایک کو لے جائیں اور دوسرے تین افراد کو چھوڑ دیں، بلکہ ان میں سے ایک کو تلواروں کے خطرے سے گھرے ہوئے مقام پر مقرر کریں، اور اپنے بستر پر لٹائیں جب کہ یقینی طور پر اس رات پیغمبر(ص) کا بستر خطرناک اور دشمنوں کے حملے کی زد میں تھا۔ (1)

دوسرے اس بیان کی بنا پر جو طبری نے اپنی تاریخ جز سیم میں درج کیا ہے ابوبکر آنحضرت(ص) کی روانگی سے واقف ہی نہ تھے بلکہ جس وقت علی علیہ السلام کے پاس آئے اور آنحضرت(ص) کا حال دریافت کیر تو حضرت نے فرمایا کہ وہ غار میں تشریف لے گئے ہیں اگر ان سے کوئی کام ہے تو دوڑ جاو۔ ابوبکر دوڑتے ہوئے چلے اور درمیان راہ میں آنحضرت(ص) سے ملے گئے چنانچہ مجبورا ایک ساتھ روانگی ہوئی۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر(ص) خود ان کو اپنے ہمراہ نہیں لے گئے بلکہ وہ بلا اجازت گئے اور راستے کے درمیان سے آںحضرت(ص) کے ساتھ ہوگئے۔

بلکہ دوسری روایتوں کی بنا پر ابوبکر کو لے جانا اتفاقیہ اور فتنے اور دشمنوں کو خبر دے دینے کے خوف سے تھا جیسا کہ خود آپ کے منصف مزاج علماء نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے منجملہ ان کے شیخ ابوالقاسم بن صباغ جو

آپ کے مشاہیر علماء میں سے ہیں کتاب النور البرہان حالات رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محمد بن اسحق سے اور انہوں نے حسان بن ثابت اںصاری سے روایت کی ہے کہ میں آنحضرت (ص) کی ہجرت سے قبل عمرہ کے لیے مکہ گیا تو میں نے دیکھا کہ کفار قریش آنحضرت (ص) کے اصحاب کو سب و شتم کرتے ہیں چنانچہ اسی زمانے میں :

" امر رسول الله صلی الله عليه وآله عليا فنام فی فراشه و خشی من ابن ابی قحافه ابن يدلهم عليه فاخذه معه و مضي الی الغار "

( یعنی رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو حکم دیا کہ آپ کے بستر پر سو رہیں اور اس بات سے ڈرے کہ ابوبکر کفار کو پتہ دے دیں گے اور آنحضرت (ص) کی طرف ان کی رہنمائی کردیں گے لہذا ان کو اپنے ساتھ لے کر غار کی طرف روانہ ہوئے)

تیسرے مناسب یہ تھا کہ آپ آیت میں محل استشہاد اور وجہ فضیلت کو بیان کرتے کہ رسول خدا(ص) کے ہمراہ سفر کرنا اثبات خلافت پر کیا دلیل قائم کرتا ہے۔

شیخ : محل استشہاد ظاہر ہے اول تو رسول اللہ کی مصاحبت اور یہ کہ خدا ان کو رسول اللہ(ص) کا مصاحب کہتا ہے دوسرے آںحضرت(ص) کے قول سے کہ خبر دیتے ہیں : ان اللہ معنا۔ تیسرے اس آیت میں خدا کی جانب سے ابوبکر پر نزول سکینہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ بلکہ اس سے تو ہمارے موافق ایک اور دلیل قائم ہوتی ہے کہ جو شخص حقیقتا خلیفہ رسول ہونے والا تھا خدا اس کو محفوظ رکھنے کا ذمہ دار تھا ۔ لہذا اس کو خطرے میں چھوڑ گئے اور جس کا وجود بعد رسول ضروری نہیں تھا وہ قتل بھی کیا جاسکتا تھا لہذا اس کو ساتھ لے لیا۔ 12 مترجم عفی عنہ۔

۲۱۴

شرف کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ اور ان دلائل کا مجموعہ ان کے لیے افضلیت اور تقدم خلافت کے حق کو ثابت کر رہا ہے۔

خیر طلب : یقینا کسی شخص کو ابوبکر کے ان مراتب سے انکار نہیں ہے کہ وہ بوڑھے مسلمان سن رسیدہ اصحاب میں سے اور رسول خدا کی بیوی کے باپ تھے لیکن آپ کے یہ دلائل فضیلت خاص اور خلافت میں حق تقدم کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اگر آپ چاہیں کہ اپنے ان بیانات سے جو آپ نے اس آیہ شریفہ کے بارے میں دیے ہیں ، کسی بے غرض اور غیر متعلق انسان کے سامنے ان کی کوئی خاص فضیلت ثابت کریں تو قطعی طور پر آپ اعتراض کی زد میں آجائیںگے کیونکہ وہ آپ کے جواب میں کہے گا کہ تنہا نیک لوگوں کی مصاحبت فضیلت و برتری کی دلیل نہیں ہوا کرتی کتنے زیادہ - ایسے ہیں جنہوں نے نیکوں کی مصاحبت کی اور وہ کتنے زیادہ کفار وہ ہیں جو مسلمانوں کے مصاحب تھے اور ہیں۔ چنانچہ یہ حقائق مسافرت میں اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں۔

شواہد اور مثالیں

غالبا آپ حضرت بھول گئے ہیں کہ سورہ 12 ( یوسف) آیت نمبر49 میں خدائے تعالے حضرت یوسف کا قول نقل فرماتا ہے :

" يا صاحِبَيِ السِّجْنِ أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ"

( یعنی اے میرے دونوں قید خانے کے رفیقو آیا متفرق خدا( جیسے اشنام و فراعنہ) اچھے ہیں ( جو پے حقیقت اور مجبور ہیں) یا خداے یکتا جو صاحب قہر و غلبہ ہے۔)

مفسرین نے اس آیہ شریفہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ جس روز یوسف(ع) کو قید خانے میں داخل کیا، پانچ سال یہ تینوں افراد مومن و کافر) ایک دوسرے کے مصاحب رہے اور یوسف تبلیغ کے موقع پر ان کو اپنا مصاحب کہتے بھی ہیں جیسا کہ اس آیت میں خبر دی گئی ہے تو کیا پیغمبر(ص) کی مصاحبت ان دونوں کافر شخصوں کے لیے شرف اور فضیلت کی دلیل تھی ؟ یا دوران مصاحبت میں ان کے عقیدے کے اندر کوئی تغییر پیدا ہوا؟ صاحبان تفاسیر و تواریخ کی تحریریں تو یہی بتاتی ہیں کہ پانچ سال صحبت میں رہنے کے بعد بھی آخر کار اسی حالت میں ایک دوسرے سے الگ ہوئے ۔ نیز سورہ 18 ( کہف) آیت 45 کی طرف توجہ فرمائیے جس میں ارشاد ہے:

"قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَ هُوَ يُحاوِرُهُ أَ كَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا."

(یعنی اس کے ( باایمان اور فقیر) رفیق نے گفتگو اور نصیحت کے موقع پر اس سے کہا کہ کیا تو نے اس خدا کے ساتھ کفر اختیار کیا ۔ جس نے تجھ کو پہلے مٹی سے اس کے بعد نطفے سے پیدا کیا اور پھر ایک مکمل آدمی بنا دیا)

مفسرین نے عام طور سے لکھا ہے کہ دو بھائی تھے ایک مومن جس کا نام یہود اور دوسرا کافر جس کا نام راطوس تھا( جیسا کہ امام فخر رازی بھی جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں اپنی تفسیر کبیر میں نقل کرتے ہیں) یہ دوںوں آپس میں کچھ بات چیت رکھتے تھے جس کو مفصل نقل کرنے کا وقت نہیں ہے۔ غرضیکہ خدا نے ان دو کافر فرد مومن کو ایک دوسرے کا مصاحب فرمایا ہے تو کیا

۲۱۵

مومن بھائی کی مصاحبت کا ذکر فائدہ اور فیض پہنچا؟ ظاہر ہے کہ جواب قطعا میں سے۔

پس صرف مصاحبت فضیلت و شرافت ، اور برتری کی دلیل نہیں ہوا کرتی ، جس کے دلائل اور نظائر بہت ہیں۔لیکن وقت اس سے زیادہ بیان کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

اور جو آپ نے یہ فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر سے فرمایا ان اللہ معنا لہذا اس لحاظ سے کہ خدا ان کے ساتھ تھا قطعا یہ بات بھی دلیل شرافت اورخلافت کو ثابت کرنے والی ہ۔

تو بہتر ہوگا کہ اپنے ان عقائد اور الفاظ پر ذرا نظر ثانی فرمالیجئے تاکہ اس اعتراض کا نشانہ نہ بن جائیے کہ خدائے تعالی کیا صرف مومنین اور اولیاء اللہ کے ساتھ رہتا ہے اور غیر مومن کے ساتھ نہیں رہتا؟ آیا کوئی ایسی جگہ بیٹھے ہوں تو کیا عقل باور کرتی ہے کہ خدا اس مومن کے ساتھ ہو لیکن کافر کے ساتھ نہ ہو؟ کیا سورہ 58( مجادلہ) آیت نمبر7 میں خدا نہیں فرماتا ہے کہ:

"الم تر ان الله يَعْلَمُ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ وَ لا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سادِسُهُمْ وَ لا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَ لا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ ما كانُوا"

( یعنی بطریق استفہام تقریری فرماتا ہے کہ آیا تم نے نہیں دیکھا اور نہیں جانا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین کے اندر ہے خدا اس سے واقف ہے چنانچہ اگر تین شخص آپس میں راز کی باتیں کریں تو خدا ان کا جو تھا ہوگا اگر باغ شخص ہوں تو خدا، ان کا چھٹا ہوا گا۔ اور نہ اس سے کم اور زیادہ ہوسکتے ہیں بغیر اس کے کہ چاہیے جہاں ہوں خدا ان کے ساتھ ہوگا (کیونکہ وجود الہی عالم کے ہر جزو کل پر احاطہ کامل رکھتا ہے، پس اس آیت اور دوسری آیات اور دلائل عقلیہ و نقلیہ کے پیش نظر خدائے تعالی دوست و دشمن ، مسلمان و کافر، مومن منافق ہر شخص کے ساتھ ہے۔ پس اگر دو نفر ایک جگہ ہوں اور ان میں سے ایک کہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے تو کسی شخص خاص کی فضیلت پر دلیل نہ ہوگی۔ جس طرح سے کہ وہ نیک آدمی اگر یک جا ہوں تو خدا ان کے ساتھ ہے اسی طرح دو برے آدمی یا ایک اچھا ایک برا اکٹھا ہوں تو قطعا خدا ان دونوں کے ہمراہ ہوگا چاہیے وہ سعید ہوں یا شقی، نیک ہوں یا بد۔)

شیخ : اس سے مراد کہ خدا ہمارے ساتھ ہے یہ تھی کہ چونکہ ہم خدا کے محبوب ہیں اس لیے کہ خدا کی یاد میں، خدا کے لیے اور دین خدا کی حفاظت کی غرض سے روانہ ہوئے ہیں لہذا لطف خداوندی ہمارے شامل حال ہے۔

اظہار حقیقت

خیر طلب : اگر یہ مطلب لیا جائے تب بھی قابل اعتراض ہے اور کہا جائے گا کہ ایسا خطاب ابدی سعادت پر دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ خدائے تعالے اشخصاص کے اعمال دیکھتا ہے، کتنے ہی لوگ ایسے گزرے ہیں جو ایک زمانے میں نیک اعمال بجالاتے تھے اور لطف و رحمت خداوندی ان کے شامل حال تھی۔ اس کے بعد ان سے برے اعمال سرزد ہوئے

۲۱۶

اور امتحان کے وقت نتیجہ برعکس نکلا تو پروردگار کے مبغوض ہوگئے اور لطف و رحمت الہی سے محروم ہو کر راندہ درگاہ اور مردود و ملعون ہوگئے۔ چنانچہ ابلیس ایک مدت تک خلوص نیت کے ساتھ عبادت خدا میں مشغول رہا تو الطاف و مراحم خداوندی سے سر فراز تھا لیکن جونہی اس نے سرکشی کی اور احکام الہی سےمنہ موڑ کر ہوائے نفس کا تابع ہوا تو مردود بارگاہ اور اس کی بے حساب رحمتوں سے محروم ہو کر خطاب :

" فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ وَ إِنَ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلى يَوْمِ الدِّينِ "

( یعنی سورہ نمبر15 ( حجر) آیت نمبر34 میں اس پر حق کامیاب ہوا کہ صفوف ملائکہ اور بہشت سے نکل جائے اور راندہ درگاہ ہوگیا اور تجھ پر روز قیامت تک حتمی طور پر ہماری لعنت ہے کہ ساتھ ملعون بدی بن گیا۔)

معاف فرمائیے گا مثل میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ یہ ذہنوں کو مطلب سے قریب لانے کے لیے ہے اور اگر ہم عالم بشریت پر نظر ڈالیں تو ایسے اشخاص کی بہت سی نظیریں ملیں گی جو درگاہ باری تعالی میں مقرب ہوئے لیکن امتحان کے موقع پر مردود و مغضوب پروردگار قرار پائے نمونے کے طور پر ہم دو شخصوں کا ذکر کرتے ہیں جن کی طرف قرآن مجید نے بھی انسانوں کی بیداری اور غافلوں کی تنبیہ کے لیے ارشاد فرمایا ہے۔

بلعم بن باعوراء

من جملہ ان کے بلعم بن باعوراء ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں اس قلہ مقرب الہی ہوا کہ خدا نے اس کو اسم اعظم عطا فرمایا چانچہ اپنی ایک دعا کے اثر سے اس نے حضرت موسی(ع) کو وادی میں تیہ میں سرگردان کردیا، لیکن امتحان کی منزل میں جب جاہ و ریاست طلبی نے اس کو خدا کی مخالفت اور شیطان کی پیروی پر آمادہ کردیا اور نار جہنم اس کا ٹھکانہ بن گیا۔

تمام مفسرین و مورخین نے تفصیل کے ساتھ اس کا حال لکھا ہے یہاں تک کہ امام فخررازی نے بھی اپنی تفسیر جلد چہارم ص463 میں ابن عباس ، ابن مسعود اور مجاہد سے اس کا قصہ نقل کیا ہے ۔ خدا سورہ نمبر7 (اعراف) آیت نمبر174 میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ :

" وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِى ءَاتَيْنَهُ ءَايَتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَنُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ"

( یعنی ( اے پیغمبر(ص)) ان لوگوں پر اس شخص ( یعنی بلعم بن باعوراء) کی حکایت بیان کرو جس کو ہم نے اپنی ؟؟؟؟؟ عطا کیں پس اس نے ان آیات سے روگردانی کی چنانچہ شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں شامل ہوگیا۔)

برصیصائے عابد

دوسرا برصیصا عابد تھا جس نے اولا عبادت میں اس قدر کوشش کی کہ مستجاب الدعوات ہوگیا لیکن امتحان کے وقت

۲۱۷

اس کا انجام خراب نکلا ، شیطان کے فریب میں مبتلا ہو کر ایک لڑکی سے زنا کیا، اپنی ساری محنتوں کو برباد کردیا، دار پر لٹکایا گیا اور دنیا سے کافر اٹھا ۔ چنانچہ سورہ59 ( حشر) آیت نمبر16 میں اس کے واقعے کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔

"كَمَثَلِ الشَّيْطانِ إِذْ قالَ لِلْإِنْسانِ اكْفُرْ- فَلَمَّا كَفَرَ قالَ إِنِّي بَرِي ءٌ مِنْكَ- إِنِّي أَخافُ اللَّهَ رَبَّ الْعالَمِينَ- فَكانَ عاقِبَتَهُما أَنَّهُما فِي النَّارِ خالِدَيْنِ فِيها- وَ ذلِكَ جَزاءُ الظَّالِمِينَ "

( یعنی یہ منافق مثل میں شیطان کے مانند ہیں جس نے انسان سے ( یعنی برصیصائے عابد سے) کہا کہ کفر اختیار کر اور جب وہ کافر ہوگیا تو اس سے کہا کہ میں تجھ سے بیزار ہوں کیونکہ میں پروردگار کے عذاب سے ڈرتا ہوں پس ان دونوں ( شیطان و برصیصا) کا یہ انجام ہوا کہ وہ دونوں ہمیشہ جہنم میں رہیں گے یہی دوزخ ظالمین کا بدلا ہے۔)

غرضیکہ آدمی سے اگر کسی زمانے میں کوئی نیک عمل صادر ہوا ہے تو یہ اس کا انجام بخیر ہونے کی دلیل نہیں ہے ، اس وجہ سے ہدایت ہے کہ دعا میں کہو " اللہم اجعل عواقب امورنا خیرا" یعنی خداوندا ہمارے امور کے نتائج نیک قرار دے۔

ان چیزوں کے علاوہ آپ خود جانتے ہیں کہ علمائے معانی و بیان کے نزدیک طے شدہ بات ہے کہ کلام میں تاکید کا ذکر اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک مخاطب شک اور شبہ میں مبتلا نہ ہو یا اس کے خلاف نہ سوچ رہا ہو، اور آیہ شریفہ کا تصریح سے جس نے اپنا کلام جملہ اسمیہ اور ان مشددہ کے ساتھ پیش کیا ہے دوسرے فریق کے عقیدے کا فساد ظاہر ہوتا ہے کہ متزلزل و متوہم اور شک و شبہ میں مبتلا تھا۔

شیخ : انصاف کیجئے، آپ جیسے انسان کے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ اس محل پر ابلیس بلعم بن باعوراء اور برصیصاء کی مثل پیش کریں۔

خیر طلب : معاف کیجئے ، شاید آپ نے سنا نہیں میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ مثل میں کوئی برائی نہیں ہے ،کیونکہ علمی مباحثات اور مذہبی مناظرات میں ذہنوں کو قریب کرنے اور مقاصد کو ثابت کرنے کے لیے مثالیں بیان کی جاتی ہیں خدا شاہد ہے کہ شواہد و امثال کے ذکر میں میں نے کبھی اہانت کا قصد نہیں کیا بلکہ اپنے نظریئے اور عقیدے کے ثبوت میں جو ںظریں اور مثالیں سامنے آتی ہیں پیش کردیتا ہوں۔

شیخ : اس آیت کے اندر اثبات فضیلت کی دلیل خود آیہ کریمہ کا ایک قرینہ ہے کہ فرماتا ہے" فانزل اللہ سکینۃ علیہ " چنانچہ سکینہ کی ضمیر ابوبکررضی اللہ عنہ کی طرف ہونا دوسروں پر ان کی شرافت و فضیلت اور آپ جیسے لوگوں کا وہم دور کرنے کے لیے خود ایک واضح دلیل ہے۔

خیر طلب: آپ کو دھوکا ہو رہا ہے ، سکینہ کی ضمیر رسول اکرم صلی اللہ علی و آلہ وسلم کی طرف پھرتی ہے اور نزول سکینہ آنحضرت (ص) پر ہوا تھا نہ کہ ابوبکر پر، جس کا قرینہ بعد والے جملے میں موجود ہے کہ فرمایا " وایدہ بجنود لم تروہا" اوریہ حقیقت ہے کہ غیبی لشکروں کی تائید رسول اللہ (ص) کےلیے تھی نہ کہ ابوبکر کے لیے۔

۲۱۸

شیخ : یہ مسلم ہے کہ جنود حق کی تائید رسول خدا(ص) کے لیے تھی لیکن، ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آنحضرت(ص) کی مصاحبت میں بے بہرہ نہ تھے۔

نزول سکینہ رسول خدا(ص) پر ہوا

خیر طلب : اگر الطاف و مراحم الہیہ میں دونوں ہستیاں شامل تھیں تو قاعدے کے رو سے آیہ شریفہ کے تمام جملوں میں تثنیہ کی ضمیریں ہونا لازمی تھا حالانکہ قبل و بعد کی تمام ضمیریں مفرد استعمال ہوئی ہیں تاکہ ذات خاتم الانبیاء (ص) کے مدارج ثابت ہوجائیں اور معلوم ہوجائے کہ پروردگار کی جانب سے جو کچھ ، جہت و مرحمت نازل ہوتی ہے وہ آں حضرت کی ذات سے مخصوص ہوتی ہے اور اگر آنحضرت(ص) طفیل میں دوسروں پر بھی نازل ہو تو ان کا نام ظاہر کیا جاتا ہے۔ لہذا سکینہ و رحمت کے نزول میں بھی اس آیت اور دوسری آیتوں میں صرف پیغمبر(ص) کو مورد عنایت قرار دیا ہے۔

شیخ : رسول خدا(ص) نزول سکینہ سے مستثنی تھے، ان کو اس کی کوئی احتیاج نہ تھی اور سکینہ ہرگز ان سے جدا نہیں ہوتا تھا پس نزول سکینہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مخصوص تھا۔

خیر طلب : آپ کیوں بے لطفی کی باتیں کرتے ہیں اور بار بار انہیں مطالب کو دہرا کے جلسے کاوقت لیتے ہیں۔ آپ کس دلیل سے کہتے ہیں کہ خاتم الانبیاء نزول سکینہ سے مستثنی تھے حالانکہ افراد خلائق میں سے پیغمبر(ص) و امت ،امام اور ماموم کوئی شخص بھی حق تعالی کے الطاف و عنایات سے مستغنی نہیں ہے ۔ کیا آپ سورہ نمبر9 ( توبہ) کی آیت نمبر26 کو بھول گئے ہیں جو حنین کے واقعے میں کہتی ہے "ثُمَ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلى رَسُولِهِ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ" ( یعنی اس وقت اللہ نے اپنے سکینہ و وقار ( یعنی شکوہ و سطوت اور جلال ربانی) کو اپنے رسول اور مومنین پر نازل فرمایا) نیز سورہ نمبر48 (فتح) کی آیت نمبر26 بھی اسی آیت شریفہ کے مانند ہے۔

جس طرح سے کہ اس آیت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد مومنین کی طرف اشارہ کیا ہے آیت غار میں بھی اگر ابوبکر ان مومنین کی ایک فرد ہوتے جن کو سکینہ و وقار میں شامل ہونا چاہیئے تو ضرورت تھی کہ تثنیہ کی ضمیر ہوتی یا علیحدہ ان کے نام کا ذکر کیا گیا ہوتا۔ یہ قصہ اتنا واضح ہے کہ خود آپ کے منصف علماء نے بھی اقرار کیا ہے کہ سکینہ کی ضمیر ابوبکر سے متعلق نہیں تھی۔ بہتر ہے کہ آپ حضرات کتاب نقض العثمانیہ مولفہ ابوجعفر محمد بن عبداللہ اسکافی کو جو آپ کے اکابر علماء اور شیوخ متعزلہ میں سے ہیں مطالعہ کیجئے تو دیکھئے گا کہ اس مرد عالم و منصف نے ابو عثمان بن حظ کی لا طائل باتوں کے جواب میں کس طرح حق کو آشکار کیا ہے، چنانچہ ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص253 تا ص281 میں ان میں سے بعض جواب نقل کئے ہیں۔

۲۱۹

علاوہ ان چیزوں کے خود آیت میں ایک ایسا جملہ موجود ہے جس سے مکمل طور پر آپ کے مقصد کے بر خلاف نتیجہ نکلتا ہے ۔ اور وہ جملہ یہ ہے کہ رسول اللہ(ص) نے لا تحزن کہہ کے ابوبکر کو حزن و اندوہ سے منع فرمایا۔ اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر اس حال میں غم زدہ تھے۔ تو ابوبکر کایہ حزن آیا کوئی اچھا عمل تھا یا برا؟ اگر عمل نیک تھا تو پیغمبر(ص) کسی کو عمل نیک اور اطاعت حق سے قطعا منع نہیں فرماتے اور اگر عمل بد اور گناہ تھا تو ایسے عمل والے کے لیے کوئی شرف و بزرگی نہیں ہوتی جس سے خدا کی رحمت اس کے شامل حال ہو اور وہ نزول سکینہ کا محل قرار پائے۔ بلکہ شرافت و فضیلت صرف مومنین اولیاء اللہ کے لیے ہوتی ہے۔

اور اولیاء اللہ کے لیے کچھ علامتیں ہوتی ہیں جن میں قرآن مجید کے بیان کی بناء پر سب سے اہم یہ ہے کہ حادثات زمانہ کے مقابلے میں ہرگز خوف و حزن اور غم و اندوہ کا اظہار نہ کریں بلکہ صبر و استقامت اختیار کریں، چنانچہ سورہ نمبر10 (یونس) آیت نمبر62 میں ارشاد ہے "أَلا إِنَ أَوْلِياءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ ."

(یعنی آگاہ ہو کہ دوستان خدا کے دلوں میں ( آئندہ حادثات زمانہ کا ) کوئی خوف نہیں ہوتا اور نہ وہ ( دنیا کی اپنی گذشتہ مصیبتوں پر ) غم و اندوہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔)

جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو مولوی صاحبان گھڑیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ رات نصف سے کافی زیادہ گزر چکی ہے۔ نواب صاحب نے کہا کہ ابھی آیت کے بارے میں میں قبلہ صاحب کا بیان مکمل نہیں ہوا ہے اور کوئی آخری نتیجہ ہمارے ہاتھ نہیں آیا ہے ۔ ان حضرات نے کہا کہ ہم اس سے زیادہ زحمت دینا مناسب نہیں سمجھتے لہذا بقیہ باتین کل شب کے لیے ملتوی کی جاتی ہیں۔ چونکہ یہ اسلامی عیدوں میں سب سے بزرگ یعنی عید بعثت کی شب تھی۔ لہذا جلسے میں شربت اور مختلف اقسام کی شیرینی آئی اور مسرت و شادمانی کےساتھ یہ نشست تمام ہوئی۔)

چھٹی نشست

شب چہار شنبہ 28 رجب سنہ1345ھ

( قبل غروب جناب غلام امامین صاحب جو اہل تسنن میں سے ایک معزز تاجر اور شریف و متین انسان ہیں اور پہلی ہی شب سے شریک جلسے تھے تشریف لائے، انہوں نے بہت تہذیب کے ساتھ پر جوش انداز میں ایک مفصل بیان دیا جس کاخلاصہ یہ تھا کہ میں نے ذرا جلد آکر آپ کو اس لیے زحمت دی کہ آپ کی توجہ اس طرف مبذول کراوں کہ آپ نے اپنے مدلل بیانات کے ذریعہ ہم میں سے متعدد افراد کو جذب کر لیا ہے ، دل مکمل طور پر متاثر ہیں اور ایسی نئی نئی باتین سننے میں آئی ہیں جن کو تقیہ کی بنا پر دوسرے لوگ بیان کرنے سے پرہیز کرتے تھے ۔ ہم بھی ان تمام چیزوں سے بالکل بے خبر تھے لیکن

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369