پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310242 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سوالات :

۱ _ اصحاب نے جب کفار کے بارے میں لعن اور نفرین کی بات کہی تو اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا جواب دیا؟

۲ _ عفو کیونکر انسان کے کمالات کی زمین ہموار کرتاہے؟

۳ _ سب سے بلند اور سب سے بہترین معافی کون سی معافی تھی ؟

۴ _ فتح مکہ کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد بن عبادہ سے کیا فرمایا تھا؟

۵ _ فتح مکہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو عفو اور درگذر کے نمونے پیش کئے ان میں سے ایک نمونہ بیان فرمایئے؟

۱۴۱

دسواں سبق:

(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر)

عفو،درگذر، معافی اور چشم پوشی کے حوالے سے رسول اکرم، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کا سبق آموز برتاؤ وہاں بھی نظر آتاہے جہاں ان ہستیوں نے ان لوگوں کو معاف فرمادیا کہ جو ان عظیم و کریم ہستیوں کے حضور توہین، جسارت اور بدزبانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں کو معاف کرکے ان کو شرمندہ کردیتے تھے اور اس طرح ہدایت کا راستہ فراہم ہوجایا کرتا تھا_

اعرابی کا واقعہ

ایک دن ایک اعرابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہونچا اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی چیز مانگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو وہ چیز دینے کے بعد فرمایا کہ : کیا میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہرگز مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے _ اصحاب کو غصہ

۱۴۲

آگیا وہ آگے بڑھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو منع کیا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور واپس آکر کچھ اور بھی عطا فرمایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اب میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احسان کیا ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : تم نے جو بات میرے اصحاب کہ سامنے کہی تھی ہوسکتاہے کہ اس سے ان کے دل میں تمہاری طرف سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہو لہذا اگر تم پسند کرو تو ان کے سامنے چل کر اپنی رضامندی کا اظہار کردو تا کہ ان کے دل میں کوئی بات باقی نہ رہ جائے، وہ اصحاب کے پاس آیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ شخص مجھ سے راضی ہوگیا ہے،کیا ایسا ہی ہے ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو جزائے خیردے، پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میری اور اس شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے جسکی اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہو لوگ اس کا پیچھا کررہے ہوں اور وہ بھاگی جارہی ہو،اونٹنی کا مالک کہے کہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے کہ اس کو کیسے رام کیا جاتا ہے پھر مالک آگے بڑھے اور اس کے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرے اس کے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف کرے اور اسکی رسی پکڑلے، اگر کل میں تم کو چھوڑ دیتا تو تم بد زبانی کی بناپر اس کو قتل کردیتے اور یہ جہنم میں چلاجاتا_

___________________

۱)(سفینةا لبحار ج۱ ص۴۱۶)_

۱۴۳

امام حسن مجتبی اورشامی شخص

ایک دن حسن مجتبیعليه‌السلام مدینہ میں چلے جارہے تھے ایک مرد شامی سے ملاقات ہوئی اس نے آپعليه‌السلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ حاکم شام کے زہریلے پروپیگنڈہ کی بناپر شام کے رہنے والے علیعليه‌السلام اور فرزندان علیعليه‌السلام کے دشمن تھے، اس شخص نے یہ چاہا کہ اپنے دل کے بھڑ اس نکال لے، امامعليه‌السلام خاموش رہے ، وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا تو آپعليه‌السلام نے مسکراتے ہوئے کہا '' اے شخص میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور تم میرے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہو ( یعنی تو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے میری رضامندے حاصل کرنا چاہے تو میں تجھ سے راضی ہوجاونگا ، اگر کچھ سوال کروگے تو ہم عطا کریں گے ، اگر رہنمائی اور ہدایت کا طالب ہے تو ہم تیری رہنمایی کریں گے _ اگر کسی خدمتگار کی تجھ کو ضرورت ہے تو ہم تیرے لئے اس کا بھی انتظام کریں گے _ اگر تو بھوکا ہوگا تو ہم تجھے سیر کریں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس دیں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نیاز کریں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ دیں گے _ اگر تیری کوئی بھی حاجت ہو تو ہم تیری حاجت روائی کریں گے _ اگر تو میرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو میں راضی ہوں یہ تیرے لئے بہت ہی اچھا ہوگا اس لئے کہ میرا گھر بہت وسیع ہے اور میرے پاس عزت و دولت سبھی کچھ موجود ہے _

جب اس شامی نے یہ باتیں سنیں تو رونے لگا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ

۱۴۴

آپعليه‌السلام زمیں پر خلیفة اللہ ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے اپنی رسالت اور خلافت کو کہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے پدر بزرگوار میرے نزدیک بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زیادہ محبوب آپ ہی حضرات ہیں _

پھروہ امام کے گھر گیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ ہی کا مہمان رہا پھر آپ کے دوستوں اور اہلبیت (علیہم السلام )کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا _(۱)

امام سجادعليه‌السلام اور آپ کا ایک دشمن

منقول ہے کہ ایک شخص نے امام زین العابدینعليه‌السلام کو برا بھلا کہا آپ کو اس نے دشنام دی آپعليه‌السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے پلٹ کر کہا: آپ لوگوں نے اس شخص کی باتیں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہمارا بھی جواب سن لیں وہ لوگ آپ کے ساتھ چل دیئے اور جواب کے منتظر رہے _ لیکن انہوں نے دیکھا کہ امامعليه‌السلام راستے میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کر رہے ہیں _

( و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و الله یحب المحسنین ) (۲)

وہ لوگ جو اپنے غصہ کوپی جاتے ہیں; لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے _

___________________

۱) ( منتہی الامال ج ۱ ص ۱۶۲)_

۲) (آل عمران۱۳۴)_

۱۴۵

ان لوگوں نے سمجھا کہ امامعليه‌السلام اس شخص کو معاف کردینا چاہتے ہیں جب اس شخص کے دروازہ پر پہونچے او حضرتعليه‌السلام نے فرمایا : تم اس کو جاکر بتادو علی بن الحسینعليه‌السلام آئے ہیں ، وہ شخص ڈراگیا اور اس نے سمجھا کہ آپعليه‌السلام ان باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں جو باتیں وہ پہلے کہہ کے آیا تھا ، لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا: میرے بھائی تیرے منہ میں جو کچھ ۱آیا تو کہہ کے چلا آیا تو نے جو کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں میرے اندر موجود ہیں تو میں خدا سے مغفرت کا طالب ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا تجھے معاف کرے ، اس شخص نے حضرت کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ باتیں آپ میں نہیں ہیں وہ باتیں خود میرے اندر پائی جاتی ہیں _(۱)

ائمہ معصومین (علیہم السلام ) صرف پسندیدہ صفات اور اخلاق کریمہ کی بلندیوں کے مالک نہ تھے بلکہ ان کے مکتب کے پروردہ افراد بھی شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانیوں کا مجسمہ تھے نیز نا واقف اور خود غرض افراد کو معاف کردیا کرتے تھے _

مالک اشتر کی مہربانی اور عفو

جناب مالک اشتر مکتب اسلام کے شاگرد اور حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے تربیت کردہ تھے اور حضرت علیعليه‌السلام کے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ عرب اور عجم میں علیعليه‌السلام کے علاوہ مالک اشتر

___________________

۱) (بحارالانوار ج ۴۶ ص ۵۵) _

۱۴۶

سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے تو اس کی قسم صحیح ہوگی حضرت علیعليه‌السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا : مالک اشتر میرے لئے اس طرح تھا جیسے میں رسول خدا کے لئے تھا _ نیز آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کاش تمہارے در میان مالک اشتر جیسے دو افراد ہوتے بلکہ ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا _ایسی بلند شخصیت اور شجاعت کے مالک ہونے کے با وجود آپ کا دل رحم و مروت سے لبریز تھا ایک دن آپ بازار کوفہ سے گذر رہے تھے ، ایک معمولی لباس آپ نے زیب تن کر رکھا تھا اور اسی لباس کی جنس کا ایک ٹکڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار کی کسی دو کان پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالک کو دیکھا کہ وہ اس حالت میں چلے جارہے ہیں تو اس نے مالک کو بہت ذلیل سمجھا اور بے عزتی کرنے کی غرض سے آپ کی طرف سبزی کا ایک ٹکڑا اچھال دیا، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہیں کی اور وہاں سے گزر گئے ایک اور شخص یہ منظر دیکھ رہاتھا وہ مالک کو پہچانتا تھا، اس نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین کی ہے؟ اس نے کہا نہیں ، اس شخص نے کہا کہ وہ علیعليه‌السلام کے صحابی مالک اشتر ہیں وہ شخص کانپ اٹھا اور تیزی سے مالک کی طرف دوڑا تا کہ آپ تک پہنچ کر معذرت کرے، مالک مسجد میں داخل ہو چکے تھے اور نماز میں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالک کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام کیا پھر قدموں کے بوسے لینے لگا، مالک نے اس کا شانہ پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کررہے ہوا؟ اس شخص نے کہا کہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچکاہے میں اس کے

۱۴۷

لئے معذرت کررہاہوں، اس لئے کہ میں اب آپ کو پہچان گیا ہوں، مالک نے کہا کوئی بات نہیں تو گناہ گار نہیں ہے اس لئے کہ میں مسجد میں تیری بخشش کی دعا کرنے آیا تھا_(۱)

ظالم سے درگذر

خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان میں غیظ و غضب کا مادہ قرار دیا ہے ، جب کوئی دشمن اس پر حملہ کرتاہے یا اس کا کوئی حق ضاءع ہوتاہے یا اس پر ظلم ہوتاہے یا اس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کو شخصیت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ کرتی ہے اور یہی قوت خطروں کو برطرف کرتی ہے _

قرآن کا ارشاد ہے :

( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا بمثل ما عتدی علیکم ) (۲)

جو تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے کی ہے _

قرآن مجید میں قانون قصاص کو بھی انسان اور معاشرہ کی حیات کا ذریعہ قرار دیا گیاہے اور یہ واقعیت پر مبنی ہے _

( و لکم فی القصاص حیوة یا اولی الالباب ) (۳)

اے عقل والو قصاص تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے ہے_

___________________

۱) (منتہی الامال ص ۱۵۵)_

۲) (بقرہ ۱۹۴)_

۳) (بقرہ ۱۷۹) _

۱۴۸

لیکن بلند نگاہیوں اور ہمتوں کے مالکوںکی نظر میں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آتش غضب کو آپ رحمت سے بجھا دیناہے _

( و ان تعفوااقرب للتقوی ) (۱)

اگر تم معاف کردو تو یہ تقوی سے قریب ہے_

عفو اور درگذر ہر حال میں تقوی سے نزدیک ہے اسلئے کہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس کا مرتبہ محرمات سے پرہیز کرنے والوں سے زیادہ بلند ہے(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار کا ہم کو کچھ اور ہی سلوک نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں حقوق کو پامال کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جب وہی افراد ذلیل و رسوا ہوکر نظر لطف و عنایت کے محتاج بن گئے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار نے ان کو معاف کردیا_

امام زین العابدینعليه‌السلام اور ہشام

بیس سال تک ظلم و استبداد کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد سنہ ۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان دنیا سے رخصت ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا ولید تخت خلافت پر بیٹھا اس نے

___________________

۱) (بقرہ ۲۳۷)_

۲) (المیزان ج۲ ص ۲۵۸)_

۱۴۹

لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور عمومی مخالفت کا زور کم کرنے کے لئے حکومت کے اندر کچھ تبدیلی کی ان تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس نے مدینہ کے گورنر ہشام بن اسماعیل کو معزول کردیا کہ جس نے اہلبیت (علیہم السلام) پر بڑا ظلم کیا تھا جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ کا حاکم بنا تو اس نے حکم دیا کہ ہشام کو مروان حکم کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کیاجائے تا کہ جو اس کے مظالم کا شکا رہوئے ہیں وہ آئیں اور ان کے مظالم کی تلافی ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرین کرتے تھے اور اسے گالیاں دیتے تھے، ہشام علی بن الحسینعليه‌السلام سے بہت خوفزدہ تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے چونکہ ان کے باپ پر لعن کیا ہے لہذا اسکی سزا قتل سے کم نہیں ہوگی ، لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ : یہ شخص اب ضعیف اور کمزور ہوچکاہے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیفوں کی مدد کرنی چاہئے، امامعليه‌السلام ہشام کے قریب آئے اور آپعليه‌السلام نے اس کو سلام کیا ، مصافحہ فرمایا اور کہا کہ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم تیار ہیں ، آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : تم اس کے پاس زیادہ نہ جاو اس لئے کہ تمہیں دیکھ کر اس کو شرم آئے گی ایک روایت کے مطابق امامعليه‌السلام نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس کو آزاد کردو اور ہشام کو چند دنوں کے بعد آزاد کردیا گیا_(۱)

___________________

۱)(بحارالانوار ج۴۶ ص ۹۴)_

۱۵۰

امام رضاعليه‌السلام اور جلودی

جلودی وہ شخص تھا جس کو محمد بن جعفر بن محمد کے قیام کے زمانہ میں مدینہ میں ہارون الرشد کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ علویوں کی سرکوبی کرے ان کو جہاں دیکھے قتل کردے ، اولاد علیعليه‌السلام کے تمام گھروں کو تاراج کردے اور بنی ہاشم کی عورتوں کے زیورات چھین لے ، اس نے یہ کام انجام بھی دیا جب وہ امام رضاعليه‌السلام کے گھر پہونچا تو اس نے آپعليه‌السلام کے گھر پر حملہ کردیاامامعليه‌السلام نے عورتوں اور بچوں کو گھر میں چھپادیا اور خود دروازہ پر کھڑے ہوگئے، اس نے کہاکہ مجھ کو خلیفہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوںکے تمام زیورات لے لوں، امام نے فرمایا: میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں خود ہی تم کو سب لاکردے دونگا کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی لیکن جلودی نے امامعليه‌السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امامعليه‌السلام نے کئی مرتبہ قسم کھاکر اس سے کہا تو وہ راضی ہوگیا اور وہیں ٹھہرگیا، امامعليه‌السلام گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپعليه‌السلام نے سب کچھ یہانتک کہ عورتوں اور بچوں کے لباس نیز جو اثاثہ بھی گھر میں تھا اٹھالائے اور اس کے حوالہ کردیا _

جب مامون نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام رضاعليه‌السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تو جلودی مخالفت کرنے والوں میں تھا اور مامون کے حکم سے قید میں ڈال دیا گیا ، ایک دن قیدخانہ سے نکال کر اسکو ایسی بزم میں لایا گیا جہاں امام رضاعليه‌السلام بھی موجود تھے، مامون جلودی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن امامعليه‌السلام نے کہا : اس کو معاف کردیا جائے، مامون نے کہا : اس نے آپعليه‌السلام پر

۱۵۱

بڑا ظلم کیا ہے _ آپعليه‌السلام نے فرمایا اس کی باوجود اس کو معاف کردیا جائے_

جلودی نے دیکھا کہ امام مامون سے کچھ باتیں کررہے ہیں اس نے سمجھا کہ میرے خلاف کچھ باتیں ہورہی ہیں اور شاید مجھے سزا دینے کی بات ہورہی ہے اس نے مامون کو قسم دیکر کہا کہ امامعليه‌السلام کی بات نہ قبول کی جائے ، مامون نے حکم دیا کہ جلودی کی قسم اور اس کی درخواست کے مطابق اسکو قتل کردیا جائے_(۱)

سازش کرنے والے کی معافی

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ(علیہم السلام) نے ان افراد کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپعليه‌السلام حضرات کے خلاف سازشیں کیں اور آپعليه‌السلام کے قتل کی سازش کی شقی اور سنگدل انسان اپنی غلط فکر کی بدولت اتنا مرجاتاہے کہ وہ حجت خدا کو قتل کرنے کی سازش کرتاہے لیکن جو افراد حقیقی ایمان کے مالک اور لطف و عنایت کے مظہر اعلی ہیں وہ ایسے لوگوں کی منحوس سازشوں کے خبر رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ عفو و بخشش سے پیش آتے ہیں اور قتل سے پہلے قصاص نہیں لیتے البتہ ذہنوں میں اس نکتہ کا رہنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہنے ایک طرف تو اپنے ذاتی حقوق کے پیش نظر ان کو معاف کردیا دوسری طرف انہوں نے اپنے علم غیب پر عمل نہیں کیا، ا س لئے کہ علم غیب پر عمل کرنا ان کا فریضہ نہ تھا وہ ظاہر کے

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۹ ص ۱۶۷ ، ۱۶۶)_

۱۵۲

مطابق عمل کرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انکا جرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن ہے کہ ان کو معاف نہ کیا جائے یہ چیز اسلامی معاشرہ کی عمومی مصلحت و مفسدہ کی تشخیص پر مبنی ہے اس سلسلہ میں رہبر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتاہے_

ایک اعرابی کا واقعہ

جنگ خندق سے واپسی کے بعد سنہ ۵ ھ میں ابوسفیان نے ایک دن قریش کے مجمع میں کہا کہ مدینہ جاکر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کون قتل کرسکتاہے؟ کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں اکیلے ہی گھومتے رہتے ہیں ، ایک اعرابی نے کہا کہ اگر تم مجھے تیار کردو تو میں اس کام کیلئے حاضر ہوں، ابوسفیان نے اس کو سواری اور اسلحہ دیکر آدھی رات خاموشی کے ساتھ مدینہ روانہ کردیا،اعرابی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھنڈھتاہوا مسجد میں پہنچاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اسکو دیکھا تو کہا کہ یہ مکار شخص اپنے دل میں برا ارادہ رکھتاہے، وہ شخص جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آیا تو اس نے پوچھاکہ تم میں سے فرزند عبدالمطلب کون ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں ہوں، اعرابی آگے بڑھ گیا اسید بن خضیر کھڑے ہوئے اسے پکڑلیا اور اس سے کہا : تم جیسا گستاخ آگے نہیں جاسکتا، جب اسکی تلاشی لی تو اس کے پاس خنجر نکلاوہ اعرابی فریاد کرنے لگا پھر اس نے اسید کے پیروں کا بوسہ دیا _

۱۵۳

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سچ سچ بتادو کہ تم کہاں سے اور کیوں آئے تھے؟ اعرابی نے پہلے امان چاہی پھر سارا ماجرا بیان کردیا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے مطابق اسید نے اسکو قید کردیا ، کچھ دنوں بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسکو بلاکر کہا تم جہاں بھی جانا چاہتے ہو چلے جاو لیکن اسلام قبول کرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابی ایمان لایا اور اس نے کہا میں تلوار سے نہیں ڈرا لیکن جب میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طاری ہوگیا، آپ تو میرے ضمیر و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانکہ ابوسفیان اور میرے علاوہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی، کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت حاصل کی اور مکہ واپس چلا گیا _(۱)

اس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو اور درگذر کی بناپر ایک جانی دشمن کیلئے ہدایت کا راستہ پیدا ہوگیا اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل ہوگیا_

یہودیہ عورت کی مسموم غذا

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے ایک گوسفند کی ران کو زہرآلود کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کیا ، لیکن پیغمبر نے جب کھانا چاہا تو گوسفند نے کلام کی اور کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مسموم ہوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ کھائیں _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں یہ سوچا تھا کہ

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص۱۵۱)_

۱۵۴

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زہر نقصان نہیں کریگا اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر نہیں ہیں تو لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھٹکارا مل جائیگا، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا _(۱)

علیعليه‌السلام اور ابن ملجم

حضرت علیعليه‌السلام اگرچہ ابن ملجم کے برے ارادہ سے واقف تھے لیکن آپعليه‌السلام نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا اصحاب امیر المؤمنینعليه‌السلام کو اس کی سازش سے کھٹکا تھا انہوں نے عرض کی کہ آپعليه‌السلام ابن ملجم کو پہچانتے ہیں اور آپعليه‌السلام نے ہم کو یہ بتایا بھی ہے کہ وہ آپ کا قاتل ہے پھر اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا: ابھی اس نے کچھ نہیں کیا ہے میں اسکو کیسے قتل کردوں ؟ ماہ رمضان میں ایک دن علیعليه‌السلام نے منبر سے اسی مہینہ میں اپنے شہید ہوجانے کی خبر دی ابن ملجم بھی اس میں موجود تھا، آپعليه‌السلام کی تقریر ختم ہونے کے بعد آپعليه‌السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے دائیں بائیں ہاتھ میرے پاس ہیں آپعليه‌السلام حکم دےدیجئے کہ میرے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں یا میری گردن اڑادی جائے _

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا: تجھ کو کیسے قتل کردوں حالانکہ ابھی تک تجھ سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا ہے_(۲)

___________________

۱) (حیات القلوب ج۲ ص ۱۲۱)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۱ ص ۲۷۱ ، ۲۶۸)_

۱۵۵

جب ابن ملجم نے آپعليه‌السلام کے سرپر ضربت لگائی تو اسکو گرفتار کرکے آپعليه‌السلام کے پاس لایا گیا آپعليه‌السلام نے فرمایا: میں نے یہ جانتے ہوئے تیرے ساتھ نیکی کہ تو میرا قاتل ہے ، میں چاہتا تھا کہ خدا کی حجت تیرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس کے بعد بھی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا_(۱)

سختی

اب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ (علیہم السلام)کے دشمن پر عفو و مہربانی کے نمونے پیش کئے گئے ہیں اور یہ مہربانیاں ایسے موقع پر ہوتی ہیں جب ذاتی حق کو پامال کیا جائے یا ان کی توہین کی جائے اور ان کی شان میں گستاخی کی جائے، مثلا ً فتح مکہ میں کفار قریش کو معاف کردیا گیا حالانکہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھایا تھا لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ مومنین کے ولی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق حاصل ہے ، اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر بہت سے مشرکین کو معاف فرمادیا تو بعض مشرکین کو قتل بھی کیا ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاف کردینے اور درگذر کرنے کی بات ہر مقام پر نہیں ہے اس لئے کہ جہاں احکام الہی کی بات ہو اور حدود الہی سامنے آجائیں اور کوئی شخص اسلامی قوانین کو پامال کرکے مفاسد اور منکرات کا مرتکب ہوجائے یا سماجی حقوق اور مسلمانوں

___________________

۱) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفید رسول محلاتی ص ۱۱)

۱۵۶

کے بیت المال پر حملہ کرنا چاہے کہ جس میں سب کا حق ہے تو وہ معاف کردینے کی جگہ نہیں ہے وہاں تو حق یہ ہے کہ تمام افراد پر قانون کا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچی سطح کے لوگ ہوں یا نیچی سطح کے ، شریف ہوں یا رذیل_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ( والحافظون لحدود الله ) (۱) (حدود و قوانین الہی کے جاری کرنے والے اور انکی محافظت کرنے والے) کے مکمل مصداق ہیں_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں ایسے بہت سے نمونے مل جاتے ہیں جن میں آپ حضرات نے احکام الہی کو جاری کرنے میں سختی سے کام لیا ہے معمولی سی ہی چشم پوشی نہیں کی _

مخزومیہ عورت

جناب عائشہ سے منقول ہے کہ ایک مخزومی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اسکا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر ہوا ، اس کے قبیلہ والوں نے اس حد کے جاری ہونے میں اپنی بے عزتی محسوس کی تو انہوں نے اسامہ کو واسطہ بنایا تا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کردہ ان کی سفارش کریں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسامہ، حدود خدا کے بارے میں تم کو ئی بات نہ کرنا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ میں فرمایا: خدا کی قسم تم سے پہلے کی امتیں اس لئے ہلاک

___________________

۱) (سورہ توبہ ۱۱۲) _

۱۵۷

ہوگئیں کہ ان میں اہل شرف اور بڑے افراد چوری کیا کرتے تھے ان کو چھوڑدیا جاتا تھا اگر کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حکم خدا کے مطابق حد جاری کرتے تھے ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرکتب ہو تو بھی میرا یہی فیصلہ ہوگا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائی(۱)

آخرمیں خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ ہم کو رحمة للعالمین کے سچے پیروکاروں میں شامل کرے اور یہ توفیق دے کہ ہم( والذین معه اشداء علی الکفار و رحماء بینهم ) کے مصداق بن جائیں، دشمن کے ساتھ سختی کرنیوالے اور آپس میں مہر و محبت سے پیش آنیوالے قرار پائیں _

___________________

۱) (میزان الحکمہ ج۲ ص ۳۰۸)_

۱۵۸

خلاصہ درس

۱) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کاایک تربیتی درس یہ بھی ہے کہ بدزبانی کے بدلے عفو اور چشم پوشی سے کام لیا جائے_

۲ ) نہ صرف یہ کہ ائمہ معصومین ہی پسندیدہ صفات کی بلندیوں پر فائز تھے بلکہ آپعليه‌السلام کے مکتب اخلاق و معرفت کے تربیت یافتہ افراد بھی شرح صدر اور مہربان دل کے مالک تھے، کہ ناواقف اور خودغرض افراد کے ساتھ مہربانی اور رحم و مروت کا سلوک کیا کرتے تھے_

۳) جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کے اوپر ظلم کیا ان کو بھی ان بزرگ شخصیتوں نے معاف کردیا ، یہ معافی اور درگزر کی بڑی مثال ہے _

۴ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کے عفو کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرات نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا جن لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تھی_

۵ ) قابل توجہ بات یہ ہے کہ معافی ہر جگہ نہیں ہے اس لئے کہ جب احکام الہی کی بات ہو تو اور حقوق الہی پامال ہونے کی بات ہو اور جو لوگ قوانین الہی کو پامال کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے معافی کو کوئی گنجائشے نہیں ہے بلکہ عدالت یہ ہے کہ تمام افراد کے ساتھ قانون الہی جاری کرنے میں برابر کا سلوک کیا جائے_

۱۵۹

سوالات

۱ _ وہ اعرابی جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ طلب کررہا تھا اس کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا تفصیل سے تحریر کیجئے؟

۲_ امام زین العابدینعليه‌السلام کی جس شخص نے امانت کی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کب معاف فرمایا؟

۴ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین ( علیہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش کرنیوالوں کو تنبیہ کاکوئی اقدام کیوں نہیں کیا ، مثال کے ذریعہ واضح کیجئے؟

۵ _ جن جگہوں پر قوانین الہی پامال ہورہے ہوں کیاوہاں معاف کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ مثال کے ذریعہ سمجھایئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

جلد ششم ص۱۵۷ میں، سعید بن منصور نے سنن میں، خطیب بغداد نے اپنی تاریخ جلد ۴ ص۳۲ میں، حافظ ابن مردویہ نے مناقب میں، سمعانی نے فضائل الصحابہ میں، امام فخر رازی نے تفسیر کبیر جلد اول ص۱۱۱ میں، ابو القاسم حسین بن محمد ( راغب اصفہانی ) نے محاضرات الادباء جلد دوم ص۱۱۳ میں اور دوسرے علماء نے بھی انہیں ابوہریرہ وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" عَلِيٌ مَعَ الْحَقِ وَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ يَدُورُ مَعَهُ حَيْثُمَا دَارَ."

( یعنی علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے جو آپ کے ساتھ ہی ساتھ مڑتا ہے) اس کے بعد بھی یہ علی(ع) کو چھوڑ کے معاویہ کے گرد و پیش چکر لگائیں تو کیا مردود نہیں ہیں ؟ جو شخص

معاویہ کے افعال شنیعہ اور اس کا ظلم و ستم دیکھ کے خاموش رہے بلکہ مزید بر آں دنیاوی منافع حاصل کرنے اپنا پیٹ بھرنے اور جاہ و نصب تک پہنچنے کے لیے ان کا حاشنی نشین اور مددگار ہو تو کیا وہ مردود نہیں ہے؟

وہ ابو ہریرہ جو خود نقل کرتے ہیں جیسا کہ آپ ہی کے اکابر علماء جیسے حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد سوم ص۱۲۴ میں امام احمد حنبل نے مسند میں، طبرانی نے اوسط میں، ابن مغازلی فقیہ شافعی نے مناقب میں، متقی ہندی نے کنزالعمال جلد ششم ص۱۵۳ میں، شیخ الاسلام حموینی نے فرائد میں ابن حجر مکی نے صواعق ص۷۴،۷۵ میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء ص۱۱۶ میں، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں اور دوسروں نے ان سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" علي مع القرآن و القرآن مع علي لا يفترقان حتى يردا علي الحوض عليّ منّي و أنا من عليّ من سبّه فقد سبّني ، و من سبّني فقد سبّ اللّه"

( یعنی علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے ۔ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض (کوثر) پر میرے پاس آئیں علی(ع) مجھ سے اور میں علی(ع) سے ہوں ، جو شخص علی(ع) کو سب وشتم کرے اس نے مجھ کو سب وشتم کیا اور جس نے مجھ کو سب وشتم کیا اس نے خدا کو سب وشتم کیا( اور ساتھ ہی خود دیکھتے ہیں کہ معاویہ با اعلان اور کھلم کھلا بالائے منبر اور نماز جمعہ کے خطبے میں علی(ع) اور حسن و حسین علیہم السلام پر لعنت کرتا ہے نیز حکم دیتا ہے کہ تمام منبروں اور جلسوں میں ان حضرت پر لعنت کریں، تو جو شخص ایسے ملاعین کا ہم پلہ و ہم نوالہ ہو۔ ان کے عمل سے خوش ہو۔ پھر ان لوگوں کے ساتھ رہنے سہنے کے علاوہ حدیثیں گھڑ کے ان کی مدد کرے اور لوگوں کو ان حضرت پر لعنت کرنے کے لیے برانگیختہ اور مجبور کرے کیا وہ مردود نہیں ہے؟

شیخ : آیا یہ عقل میں آتا ہے کہ ہم ان تہمتوں کو قبول کر لیں کہ ایک پاک دل صحابی حدیثیں وضع کر کے لوگوں کو علی کرم اللہ وجہہ پر لعنت اور سب وشتم کے لیے مجبور کرے ؟ کیا اس قسم کی تہمتیں شیعوں کی تراشی ہوئی نہیں ہیں؟

خیر طلب : یقینا عقل میں نہیں آتا کہ ایک پاک دل صحابی ایسی حرکت کرے گا۔ اور اگر صحابہ میں سے کسی فرد نے ایسا کیا ہے تو یہ قطعی دلیل ہے اس بات پر کہ اس کا دل پاک نہیں تھا اور وہ حتمی طور پر منافق و مردود اور ملعون ہوگا۔ اس لیے کہ خدا و رسول(ص) کو سب وشتم کرنے والے قطعا مردود و ملعون اور جہنمی ہے ، کیونکہ اس پر بکثرت احادیث کی نص

۱۸۱

موجود ہے جیسا کہ اجماع علمائے شیعہ کے علاوہ خود آپ کے اکابر علماء نے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا جو شخص علی(ع) کو سب کرے اس نے مجھ کو اور میرے خدا کو سب کیا لیکن آپ نے جو یہ فرمایا کہ اس قسم کی تمہتیں شیعوں کی تراشی ہوئی ہیں تو غالبا آپ نے دھوکے میں یہ سمجھ لیا کہ اپنے کسی عالم سے گفتگو کر رہے ہیں جو اپنا مطلب نکالنے کے لیے جھوٹ کے پل باندھتے اور پاک نفس شیعوں پر تہمتیں عائد کر کے بے خبر عوام کو گمراہ کرتے ہیں اور روز قیامت خدا کے سامنے بازپرسی ہونے کا کوئی خوف نہیں رکھتے۔

شیخ : حقیقتا جب آپ اصحاب رسول(ص) پر حدیثیں وضع کرنے کی تہمت لگاتے ہیں تو ہم کیا امید کریں کہ اہل اسلام کے ممتاز افراد اور بزرگ علمائے اہل سنت والجماعت کی طرف بری نسبت نہ دیجئے گا۔ آپ شیعہ لوگوں کی سب سے بڑی ہنرمندی بزرگوں کو برا الزام ، تہمت اور گالی دینا ہے۔

خیر طلب : آپ نے بہت زیادتی کی جو ہماری طرف ایسی نسبتیں دیں کیونکہ چودہ سو برسوں کی ( سنی اور شیعوں کی) اسلامی تاریخیں آپ کی گفتگو کے خلاف گواہی دے رہی ہیں۔

مخالفین کے مقابلے میں شیعوں کی مظلومیت

اسلام کے صدر اول اور امویوں کے زمانہ اقتدار سے لے کر اس وقت تک برابر ائمہ معصومین و اہل بیت طاہرین علیہم السلام کی بزرگ ہستیوں اور ان کے مظلوم شیعوں کو فحش باتیں کہنا، لعنت کرنا، گالی دینا اور تہمت لگانا ( سنی یعنی امویوں کی سنت وجماعت کے پیرو( سیاسی شعبدہ باز مسلمانوں کا مخصوص طریقہ رہا ہے اور اب تک آپ کے علماء میں سے نمایاں شخصیتیں اپنی معتبر کتابوں میں بے خبر عوام کو بہکانے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و جدائی ڈالنے کے لیے مظلوم شیعوں پر سینکڑوں ، تہمتیں اور بے سر پیر کے الزامات عائد کر کے ان کو رافضی کافر، مشرک اور غالی کہہ کر اور اپنے سابق پیشواوں کے قدم بہ قدم لعن و سب کر کے بے خبر اور صاف دل سنی بھائیوں کی نگاہوں مِیں ان کی قابل نفرت ثابت کرتے ہیں۔

شیخ : کس سنی عالم نے اپنی کتاب میں شیعوں پر تہمت لگائی اور جھوٹ باندھا ہے ؟ اگر آپ اس بات کو ثابت نہ کر سکے تو قطعا آپ کی شکست سمجھی جائے گی کیونکہ ہمارے علماء نے جو کچھ کہا اور لکھا ہے وہ بالکل حقیقت ہے شیعہ اپنے فاسد اعمال و عقائد کو چھوڑ دیں تاکہ محفوظ رہیں اور ان کی گرفت نہ کی جائے۔

۱۸۲

شیعوں پر سنی علماء کی جھوٹی نسبتیں اور تہمتیں

خیر طلب : آپ نے مجھ کو مجبور کیا ہےکہ جس قدر مجھ کو یاد ہے اس میں سے مشتے نمونہ از خرزارے ان ہزاروں دروغ بافتوں بہتانوں اور تہمتوں میں سے اس محترم مجمع کے سامنے کچھ بیان کروں جو آپ کے اکابر علماء نے شیعوں پر عائد کی ہیں تاکہ ناواقف لوگوں کے خیالات صاف ہوں، اس کے بعد فیصلہ روشن ضمیر مسلمانوں کے پاکیزہ نفس پر چھوڑ دوں۔

شیعوں پر ابن عبد ربہ کی تہمتیں

آپ کے بزرگان علمائے ادب میں سے ایک صاحب شہاب الدین ابو عمر احمد بن محمد بن عبد ربہ قرطبی اندلسی مالکی متوفی سنہ۳۲۸ھ تھے جنہوں نے عقد الفرید جلد اول ص۲۶۹ میں موحد و پاک دل شیعوں کو جو اسلام و ایمان کے جوہر کے حامل ہیں ؛ یہ اس امت کے یہودی بتایا ہے اور لکھا ہے کہ جس طرح یہودی و ںصاری کو دشمن رکھتے ہیں اسی طرح شیعہ بھی اسلام کو دشمن رکھتے ہیں۔ اس کے بعد اسی عنوان کے ساتھ شیعوں پر بہت سی تہمتیں لگائی ہیں۔ مثلا کہتے ہیں کہ شیعہ یہودیوں کی طرح تین طلاقوں کا عقیدہ نہیں رکھتے ہیں۔ نیز طلاق کے بعد عدہ کے قائل نہیں ہیں۔

اسی وقت جو شیعہ حضرات جلسے میں موجود ہیں بلکہ خود آپ اور تمام وہ سنی صاحبان جو شیعوں کے ساتھ بود و باش رکھتے ہیں کیا ابن عبد ربہ صاحب کی ان تہمتوں پر نہ ہنسیں گے؟ اس لیے کہ ہماری تمام فقہی کتابیں اور عملی رسالے تین طلاق کے مسائل اور طلاق کے بعد عدہ رکھنے کے طریقے سے بھرے ہوئے ہیں جو علاوہ طلاق اور عدہ بعد از طلاق کے عملدرآمد کے اس ادیب بے ادب کے جھوٹ پر بھی بہت بڑی دلیل ہیں۔

نیز کہتے ہیں کہ شیعہ یہودیوں کی طرح جبرئیل کو دشمن رکھتے ہیں اس وجہ سے کہ وحی کو ہٹا کر پیغمبر(ص) کے پاس کیوں لائے در آنحالیکہ علی(ع) کے پاس لانا چاہئیے تھا۔ ( جلسے میں بیٹھے ہوئے سب شیعہ ہنس پڑے۔)

ملاحظہ فرمائیے کہ شیعہ حضرات اس بات کو سن کر ہی ہنس دیے تو یہ کب ممکن ہے کہ ایسے مہمل عقیدے کو اپنے دل میں جگہ دیں۔

اگر یہ شخص افریقہ کے گوشے سے آگے بڑھتا یا شیعوں کی کتابیں مہیا کرنے اور پڑھنے کی زحمت کرتا تو خود شرمندہ ہوتا، اور ایسی تہمت نہ لگاتا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمدا ایسا کیا ہو تا کہ نا واقف لوگوں سے حقیقت پوشیدہ رہے اور مسلمانوں کے درمیان جدائی پڑ جائے۔

۱۸۳

ہم شیعہ حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء(ص) کو ایک مستقل اور برحق پیغمبر(ص) جانتے ہیں کہ آنحضرت(ص) پر وحی نازل ہونے میں ہرگز کوئی دھوکا نہیں ہوا اور جبرئیل امین کی منزل اس سے بالاتر جانتے ہیں جس کی طرف بے حقیقت شخص نے نسبت دی ہے اور ان علی ابن ابی طالب(ع) کے معتقد ہیں جن کی وصایت اور خلافت رسول(ص) کے لیے جبرئیل امین نے خدائے تعالی کی طرف سے اعلان کیا ہے۔ (۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ ایک مرتبہ جب میں ریل کے ذریعہ چند شیعہ زائروں کے ہمراہ کاظمین سے سامرہ جا رہا تھا تو ہمارے ڈبے میں موصل والوں کی ایک سنی جماعت بھی اپنے قاضیوں اور علماء میں سے دو شخصوں کے ساتھ سفر کررہی تھی ۔ وہ دونوں مسلسل ہم لوگوں پر نکتہ چینی اور تمسخر کررہے تھے اور تہمتیں لگارہے تھے ۔ ان کو یہ پتا نہیں تھا کہ میں عربی زبان سے واقفیت رکھتا ہوں اور ہم لوگ بھی خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ ان میں سے ایک قاضی صاحب نے کہا کہ یہ رافضی لوگ بہت ہی فاسد اخلاق و عادات رکھتے ہیں اور سب کے سب بدعتی (بقیہ صفحہ قبل ) اور مشرک ہیں۔ مثلا ان کی ایک عجیب بدعت یہ ہے کہ نماز میں جب سلام دیتے ہیں تو ہاتھوں کو بلند کرتے ہیں اور تین مرتبہ کہتے ہیں خان الامین یعنی امین نے خیانت کی ۔ ان لوگوں نے پوچھا کہ امین کون تھا اور اس کی خیانت کیا تھی؟ شیخ نے کہا کہ شیعہ مذہب والے کہتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی(ع) جعفر کوہ حرا میں سو رہے تھے کہ جبرئیل امین خدا کی جانب سے مامور ہوئے کہ نبوت کی وحی علی کو پہنچائیں لیکن انہوں نے خیانت کی اور ان کے عوض خاتم الانبیاء کوپہنچا دی۔ یہی وجہ ہے کہ سارے شیعہ جبرئیل کے دشمن ہیں اور ہر نماز کے بعد تین مرتبہ کہتے ہیں کہ جبرئیل نے خیانت کی یعنی وحی کو علی(ع) کے بدلے خاتم الانبیاء(ص) کے سپرد کردیا یہ سن کر مجھ سے نہ رہا گیا میں نے کہا شیخ صاحب ، جھوٹ اور تہمت لگانا گناہ کبیرہ ہے یا صغیرہ ؟ کہا کبیرہ ہے ، میں نے کہا پھر جناب عالی نے اتنی سفید داڑھی کے ساتھ کس لیے دو بڑے گناہ کئے اور شیعوں پر یہ غلط الزام لگایا؟ انتہائی تمکنت کے ساتھ جواب دیا کہ میں ٹھیک کہتا ہوں میں نے ان ان مولوی حضرات سے پوچھا کہ آپ فارسی جانتے ہیں؟ ان میں سے دو تین آدمیوں نے کہا ہاں، تو میں نے دس بارہ نفر بوڑھے اور جوان زائرین کو جو موضوع بحث سے واقف نہیں تھے ایک ایک کرکے آواز دی اور پوچھا کہ آپ لوگ سلام نماز کے بعد جب کانوں تک ہاتھ بلند کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم قبولیت نماز کے لیے تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہیں میں نے کہا شیخ صاحب اب آپ کو کچھ شرم آئی یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ تم نے ان لوگوں کو سکھا دیا ہے میں نے کہا ذرا خدا کا خوف کیجئے۔ میں تو آپ کے پہلو میں بیٹھا ہوا ہوں۔ نہ اپنی جگہ سے اٹھاہوں نہ ایک فقط زبان سے نکالا ہے۔ پھر میں نے ان موصلی حضرات کی طرف رخ کیا اور اور کہا کہ میں التماس کرتا ہوں کہ آپ صاحبان اٹھ کر دوسرے ڈبوں میں جایئے اور ان شیعہ زائرین سے جو اس گاڑی میں سفر کررہے ہیں، دریافت کیجئے چند ہوشیار اشخاص جو زبان سے واقف تھے گئے اور واپس آکر غصے کے عالم میں شخ صاحب پر برسی پڑے کہ اسی جھوٹ اور افتراء سے آپ کا کیا مطلب تھا؟ ہم لوگوں نے تمام دیہاتی اور شہری زائرین سے سوال کیا اور سب نے بالعموم یہی جواب دیا کہ ہم اللہ اکبر کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے کلمہ خان الامین کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو اس قسم کے کلمے سے واقف بھی نہیں ہیں۔ شیخ صاحب نے کہا میں نے بھی کتابوں میں پڑھا ہے کہ شیعہ اسی طرح کہتے ہیں۔ وہ جو ان لوگ چونکہ تحقیق کرچکے تھے۔ لہذا شیخ صاحب کو سخت وسعت کہنا شروع کیا کہ ایک عالم کو جب تک کسی چیز کی تحقیق نہ کرے اس وقت تک زبان سے نہ کہنا چاہئے۔ اس طرح کی حرکتیں ان تہمتوں میں سے ایک نمونہ ہیں جو بعض سنی عالم شیعوں پر تھوپتے ہیں تاکہ عام برادران اہل سنت کو ہم سے بدظن کردیں۔

۱۸۴

نیز کہتے ہیں کہ شیعہ یہودیوں کے مانند ہیں جو سنت رسول(ص) پر عمل نہیں کرتے اور جس وقت کسی سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں السام علیکم یعنی موت ہو تم پر۔ ( شیعہ حضرات ن قہقہہ لگایا) شیعوں کا باہمی طرز عمل اور برادران اہل سنت کے ساتھ معاشرت کا طریقہ ان کی غلط بیانی پر سب سے بڑی دلیل ہے۔

سب سے زیادہ تعجب تو اس بات پر ہے کہ کہتے ہیں ، شیعہ یہودیون کی طرح تمام مسلمانوں کا خون حلال سمجھتے ہیں اور اسی طرح مسلمانوں کا مال ہضم کر لینا جائز جانتے ہیں ۔ حالانکہ آپ خود شیعوں کے اعمال کی گواہی دے سکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم کفار تک کے جان و مال تک کو حلال نہیں جانتے تو مسلمان بھائیوں کے جان و مال پر کیونکر تصرف کریں گے شیعہ مذہب میں حق الناس پر دست درازی بہت بڑا گناہ سمجھا گیا ہے اور قتل نفس بھی گناہان کبیرہ میں سے ہے۔

آپ کے بزرگ علماء میں سے ایک کے بعض اقوال پیش کئے گئے ہیں جلسے کا وقت اجازت نہیں دیتا کہ ان کے ہزلیات پر اس سے زیادہ توجہ کی جائے۔

ابن حزم کی تہمتیں

آپ کے اکابر علماء میں سے ایک صاحب ابو محمد علی ابن احمد بن سعید بن حزم اندلسی متوفی سنہ۴۵۶ھ تھے جنہوں نے اپنی مشہور کتاب الفصل فی الملل و النحل میں عجیب عجیب تہمتوں اور دروغ بافیوں کے ساتھ شیعوں پر حملے کئے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ اس کتاب کی پہلی جلد ملاحظہ فرمائیے تو دیکھئے گا کہ اس میں کتنی مضحکہ خیز باتیں درج ہیں۔ من جملہ ان کے صاف صاف کہتے ہیں کہ شیعہ مسلمان نہیں ہیں بلکہ کافر اور ایسے درغ گو ہیں جنہوں نے یہود و نصاری کی پیروی اختیار کی ہے اور جلد چہارم ص۱۸۲ میں کہتے ہیں کہ شیعہ نو عورتوں کے ساتھ نکاح جائز سمجھتے ہیں ۔ اس مرد کذاب کی افترا پردازی اور اس عجیب تہمت کے خلاف سب سے بڑی دلیل شیعوں کے صدیوں پرانی استدلالی کتاب اور عملیہ رسالے ہیں جن میں ہر جگہ یہی حکم ہے کہ چار عورتوں سے زیادہ کے ساتھ نکاح دائمی حرام ہے، اس کے متعلق تو فقہا اور صاحبان علم و عقل کے علاوہ تمام جاہل اور صحرا نشین شیعہ بھی جانتے ہیں کہ جیسا اس نے لکھا ہے ۔ ہرگز کبھی ایسا حکم موجود نہیں تھا۔ اگر آپ اس کتاب کے وہ حصے دیکھئے جن میں اس نے اس طرح کے غلط اقوال ، تہمتیں، فحش چیزیں اور بری باتیں شیعوں سے منسوب کی

۱۸۵

ہیں تو واقعا آپ کو شرمندگی ہوگی۔ یہاں نمونے کے طور پر اسی قدر کافی ہے۔

ابن تیمیہ کی تہمتیں

آپ کے سارے علماء سے زیادہ بد تہذیب بلکہ بے دین احمد بن عبدالحلیم حنبلی معروف بابن تیمیہ متوفی سنہ ۷۲۸ھ تھا جو شیعوں بلکہ مولا امیرالمومنین علیہ السلام اور عترت طاہرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی حیرت انگیز بغض اور کینہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی اس شخص کی کتاب منہاج السنہ کی جلدین پڑھے تو اس کی شدید عداوت دیکھ کر مبہوت ہو جاتا ہے، جس نے اسی ذہنیت کی بنا پر قطع نظر اس کسے کہ حضرت امیرالمومنین (ع) اور اہل بیت طاہرین علیہم السلام کے بارے میں تمام نصوص صریحہ اور فضائل عالیہ کی تردید و تکذیب کرتا ہے، مظلوم شیعوں پر ایسے عجیب و غیرب جھوٹ اور تہمتیں باندھی ہیں کہ ہر سننے والا متحیر اور انگشت بہ دندان رہ جاتا ہے۔ اگر میں ان میں سے ہر ایک کا جواب دینا چاہوں تو گفتگو کا سلسلہ بہت سی نشستوں کا محتاج ہوگا لیکن اس غرض سے کہ جناب شیخ صاحب یہ سمجھ لیں کہ تہمت اور جھوٹ شیعہ علماء کی نہیں بلکہ انہیں کے بعض علماء کی خصوصیات میں سے ہے نمونے کے طور پر بعض باتیں پیش کررہا ہوں۔ اور تعجب تو یہ ہے کہ ان جھوٹے الزامات کے باوجود جو خود شیعوں پر عائد کرتا ہے بے خبر عوام کو بہکانے کے لیے جلد اول ص۱۵ پر یہ بھی لکھتا ہے کہ اہل قبلہ فرقوں میں شیعوں سے زیادہ جھوٹا کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے صاحبان صحاح نے ان کی روایتوں کو نقل نہیں کیا ہے۔

جلد اول ص۲۳ میں کہتا ہے کہ شیعہ اصول دین چار مانتے ہیں ، توحید، عدل، نبوت، اور امامت حالانکہ فرقہ امامیہ کی کتب کلامیہ بالعموم دستیاب ہوتی ہیں جن میں ہر جگہ لکھا ہوا ہے اور میں نے بھی پچھلی شبوں میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ شیعوں کے عقیدے میں تین اصول دین یعنی توحید ، نبوت، اور معاد ہیں عدل کو توحید اور امامت کو نبوت کا جز مانا گیا ہے۔

جلد اول ص۱۳۱ میں کہتا ہے کہ شیعہ مسجدوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ، ان کی مسجدیں مجمع سے خالی رہتی ہیں۔ ان میں جمعہ و جماعت قائم نہیں کرتے اور اگر کبھی نماز پڑھتے بھی ہیں تو فردی پڑھتے ہیں ( شیعوں کا پر زور قہقہہ)

جناب شیخ : خود آپ نے اور تمام حاضر و غائب برادران اہل سنت نے کیا شیعوں کی مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی اور ان میں منعقد ہونے والی جماعتیں نہیں دیکھی ہیں؟ بالخصوص ہمارے عراق و ایران میں جو شیعیت کے مرکز ہیں۔ اور ان کے علاوہ ہر ایک شہر کے اندر شاندار مساجد عبادت گذاروں سے پر رہتی ہیں۔ بلکہ شیعوں کے جس قریہ اور دیہات میں جائیے گا وہاں ایک مسجد نظر آئے گی جس میں ماہ رمضان المبارک کے علاوہ بھی روز و شب نمازیں اور جماعتیں ہوتی ہوئی ملیں گی۔

آپ جیسے اہل علم حضرات علماء شیعہ کی استدلالی کتب فقہ دیکھیں اور اسی طرح برادران اہل سنت ہمارے فقہاء کے عملیہ رسائل کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ نماز جماعت اور مساجد میں جانے کا کس قدر ثواب نقل کیا گیا ہے۔ یہاں تک

۱۸۶

کہ گھر کی نسبت مسجدوں کے اندر نماز پڑھنے کا ثواب چند در چند زیادہ لکھا ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے جہاں تک ممکن ہو شیعہ کوشش کرتے ہیں کہ نمازیں مسجد میں اور جماعت کے ساتھ ادا کریں۔

اس کے بعد اندازہ کیجئے کہ اس رسواکن اور کذاب شخص نے شیعوں کی طرف کتنی جھوٹی نسبتیں دی ہیں۔

نیز اسی صفحے میں کہتا ہے کہ مسلمانوں کی طرح شیعہ حج بیت اللہ کو نہیں جاتے ہیں بلکہ ان کا حج قبروں کی زیارت کرنا ہے۔حج قبور کو حج خانہ کعبہ سے بالاتر جانتے ہیں بلکہ ان لوگوں کو سب و لعن کرتے ہیں جو حج قبور کو نہیں جاتے ہیں ( شیعوں کا قہقہہ)

حالانکہ اگر شیعوں کے کتب و رسائل عبادات کو کھول کر دیکھئے تو نظر آئے گا کہ اس عبادت کے سلسلے میں ایک مخصوص فصل قائم کی گئی ہے( بنام کتاب الحج ۔ باب الحج) اس سے قطع نظر کہ ہر فقیہہ کی ایک کتاب مناسک حج میں موجود ہے۔ جس میں شیعوں کو ادائگی حج کے لیے خاص طور پر ہدایتیں دی گئی ہیں، یہاں تک کہ ائمہ معصومین علیہم السلام سے اس قسم کی حدیثیں بھی نقل کی گئی ہیں کہ مسلمان (شیعہ وسنی) اگر مستغنی ہو اور حج بیت اللہ کو ترک کرے تو دائرہ اسلام سے خارج ہے اور موت کے وقت:

" يقال له مت أي ميتة شئت إن شئت يهوديا و إن شئت نصرانيا و إن شئت مجوسيا."

( یعنی اس تارک حج سے کہا جاتا ہے تو جیسی موت چاہے مر۔چاہے یہودی چاہے نصرانی اور چاہے مجوسی دین پر)

آیا عقل باور کرتی ہے کہ ایسی ہدایتوں کے بعد شیعہ قوم حج بیت اللہ کو ترک کر دے گی؟ آپ ایک جاہل دیہاتی شیعہ سے جو عتبات عالیات سے مشرف ہوتا ہے اور قبور ائمہ اطہار (ع) کی زیارت بجالاتا ہے سوال کیجئے کہ عمل حج کہاں بجا لانا چاہیئے؟ تو سوا مکہ معظمہ کے اور کوئی جگہ نہ بتائے گا۔

اس کے بعد یہ خدا نہ شناس انسان ایک بزرگ شیعہ عالم شیخ اجل و اعظم محمد بن نعمان مفید علیہ الرحمہ پر بہتان رکھتا ہے کہ ان کی ایک کتاب " مناسک الحج المشاہد" کے نام سے ہے، حالانکہ شیخ علیہ الرحمہ کی کتاب " مناسک الزیارات" کے نام سے ہے جو عام طور پر پائی جاتی ہے اور جس میں دوسرے مزارات کی طرح ائمہ طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین کے مقدس آستانوں سے مشرف ہونے اور زیارت بجالانے کے قواعد درج ہیں۔

اگر آپ کتب زیارات کا مطالعہ کریں تو ان کے شروع میں لکھا ہوا ملے گا کہ پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی مقدس قبروں کی زیارت مستحب عبادتوں میں سے ہے۔ ( نہ واجب)

اور اس نا خدا ترس آدمی کی غلط بیانی پر سب سے بڑی دلیل شیعوں کا عمل ہے جو ہر سال ہزاروں کی تعداد میں حج بیت اللہ سے مشرف ہوتے ہیں اور وہاں سے واپسی کے بعد حاجی کہے جاتے ہیں جو ان کے لیے باعث فخر ہوتا ہے۔ (۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ خود حقیر مترجم بھی بحمدہ اس شرف سے مشرف ہوچکا ہے اور بچشم خود دیکھا ہے کہ علاوہ عراق ویمن اور ہندو پاکستان وغیرہ کے صرف ایران سے پندرہ ہزار شیعہ حاجی آے ہوئے تھے ۱۲ مترجم عفی عنہ۔

۱۸۷

۱۸۸

۱۸۹

کتاب کے کل مطالب کا وزن سمجھ لیں اور اس نا اہل مولف کو پہچان لیں۔

وقائق و حالات اثنا عشریہ کے ضمن میں لکھتا ہے کہ حضرت امام محمد تقی(ع) کے بعد حضرت امام علی ابن ہادی محمد النقی (ع) ہیں اور ان کا روضہ اقدس قم میںہے۔ حالانکہ ہر عالم وجاہل حتی کہ دشمن اور بچے بھی جانتے ہیں کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی قبر مبارک اپنے فرزند ارجمند حضرت حسن عسکری علیہ السلام کے پہلو میں سامرہ کے اندر ہے جو بہت عالی شان طلائی گنبد اور حرم کی مالک ہے اور جس کو مطلا کرنے کا فخر مرحوم ناصر الدین شاہ قاجار کو حاصل تھا۔

میرے خیال میں اب اس سے زیادہ کلام کو طول دینے کی ضرورت نہیں ہے میں نے نمونے کے طور پر

ہزار میں سے ایک کی طرف اشارہ کر دیا ہے تاکہ جناب شیخ صاحب یہ نہ فرمائیں کہ شیعہ جھوٹ بولتے ہیں اور تہمت لگاتے ہیں بلکہ یہ سمجھ لیں کہ یہ کلام خود انہیں کے علماء کا ہے۔

اور اب یہ بتانے کی غرض سے کہ تنہا میں نے ہی جناب ابوہریرہ صاحب کی شان میں جسارت نہیں کی ہے اور کوئی الزام نہیں دیا ہے بلکہ اکابر علمائے اہل سنت نے بھی ان کے حالات و واقعات کو درج کیا ہے، اختصار کے ساتھ ان میں سے چند باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہوں۔

ابوہریرہ کی مذمت میں روایات اور ان کے حالات

ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۳۵۸ نیز جلد چہارم میں اپنے شیخ اور استاد امام ابو جعفر اسکافی سے نقل کرتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان نے صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کو مامور کیا تھا کہ علی علیہ السلام پر طعن اور آپ سے بیزاری اختیار کرنے کی قبیح روایتیں گھڑی جائیں اور لوگوں میں مشہور کی جائیں ، چنانچہ وہ اشخاص برابر اسی کام میں مشغول رہتے تھے اور برائیوں کی اشاعت کیا کرتے تھے۔ من جملہ ان کے ( جو طعن و مذمت علی علیہ السلام میں احادیث قبیجہ وضع کرتے تھے ) ابوہریرہ عمرو عاص اور مغیرہ بن شیبہ بھی تھے۔

ان فقوں کی پوری تفصیل دیتے ہوئے ص۳۵۹ میں اعمش سے روایت کی ہے کہ جس وقت ابوہریرہ معاویہ کے ساتھ مسجد کوفہ میں وارد ہوئے اور استقبال کرنے والوں کی کثرت دیکھی تو دونوں پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے اور دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پیٹنے لگے ( تاکہ لوگ متوجہ ہو جائیں ) اس کے بعد کہا اے اہل عراق کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں خدا اور رسول (ص) پر جھوٹ بولوں گا اور اپنے لیے جہنم کی آگ مول لوں گا سنو مجھ سے جو کچھ میں نے پیغمبر(ص) سے سنا ہے کیہ فرمایا :

" إن لكل نبي حرما، و إن حرمي المدينة ما بين عير إلى ثور، فمن أحدث فيهما حدثا فعليه لعنة اللّه و الملائكة و الناس أجمعين، و أشهد باللّه أن عليا أحدث فيها"

( یعنی ہر پیغمبر کا ایک حرم ہے اور میرا حرم مدینہ ہے ۔ جو شخص مدینے

۱۹۰

میں نئی بات پیدا کرے تو اس پر اللہ اور ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہو اس کے بعد ابوہریرہ نے کہا کہ میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ علی نے مدینے میں نئی بات پیدا کی ( یعنی لوگوں کو ابھارا لہذا قول رسول (ص) کے مطابق علی(ع) پر لعنت کرنا چاہئیے۔) جب معاویہ کو یہ خبر پہنچی ( کہ ابو ہریرہ نے ان کی ایسی خدمت انجام دی اور وہ بھی علی(ع) کے دارالخلافہ کوفہ میں تو کسی کو بھیج کر ان کو بلوایا، ان کی خاطر دارات کی، انعام دیا اور مدینے کا گورنر بنا دیا، انتہی ۔ آیا یہ اعمال ان کی مردودیت کی دلیل نہیں ہے؟ اور کیا یہ مناسب ہے کہ جس نے معاویہ کی خوشامد میں خلفائے راشدین کی ایک فرد بلکہ ان سب میں اکمل و افضل اور اشرف ہستی کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا ہو، ایسے آدمی کو محض اس بنا پر آپ نیک اور ممدوح سمجھیں کہ وہ کبھی رسول اللہ (ص) کے صحابہ میں رہ چکا ہے۔

شیخ : شیعوں کے پاس ان کے ملعون ہونے پر کیا دلیل ہے جو ان کو مردود و ملعون کہتے ہیں؟

خیر طلب : ہمارے پاس بہت سی دلیلیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ پیغمبر(ص) کو گالی دینے والا باتفاق فریقین حتما ملعون و مردود اور جہنمی ہے، بنا بر اس حدیث کے جو میں پہلے عرض کر چکا اور جس کو خود آپ کے اکابر علماء نے بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا جو شخص علی(ع) کو گالی دے اس نے مجھ کو گالی دی اور جس نے مجھ کو گالی دی اس نے خدا کو گالی دی ، ظاہر ہے کہ ابوہریرہ بھی انہیں لوگوں میں سے تھے جو علاوہ مولانا و مولی الموحدین امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر خود سب و لعن کرنے کے، جیسا کہ عرض کرچکا حدیثیں گھڑ گھڑ کے اور سب لوگوں کو بھی ان حضرت پر سب وشتم کرنے کے لیے مجبور کرتے تھے۔

مسلمانوں پر ظلم اور ان کے قتل عام میں بسر ابن ارطاۃ کے ساتھ ابوہریرہ کی شرکت

من جملہ ان دلائل کے یہ بھی ہے کہ آپ کے بڑے بڑے مورخین جیسے طبری، ابن اثیر، ابن ابی الحدید ، علامہ سمہودی، ابن خلدون اور ان خلکان وغیرہ نے لکھا ہے کہ جس وقت معاویہ بن ابی سفیان نے سفاک وخونخوار، قسی القلب اور شقی النفس بسر بن ارطاۃ کو شام کے چار ہزار جنگ آزما سپاہیوں کے ساتھ مدینے کے راستے سے اہل یمن اور شیعیان امیرالمومنین علیہ السلام کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا تو ان لوگوں نے مدینہ، مکہ، طائف، تبالہ ( تہامہ کا ایک شہر) نجران، قبیلہ ارحب ( جو ہمدان کے قبیلوں میں سے تھا ( صفا، حضرموت اور ان کے اطراف میں انتہائی درجہ کی (اہانت ) سفاکی، قتل عام، ظلم اور تعدی دکھائی، بوڑھے اور جوان بنی ہاشم اور شیعیان امیرالمومنین(ع) میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا حتی کہ رسول اللہ کے ابن عم اور امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف سے والی یمن عبید اللہ ابن عباس کے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی قتل کردیا ۔ یہاں تک کہ اس ملعون کے حکم سے اس سفر میں قتل ہونے والوں کی تعداد تیس ہزار سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔ ان لوگوں سے تو زیادہ تعجب نہیں ہے اس لیے کہ بنی امیہ اور ان کے پیرو اس سے بھی زیادہ کر چکے ہیں، لیکن حیرت تو آپ کے منظور نظر جناب ابو ہریرہ

۱۹۱

پر ہے جو اس لشکر کشی میں خونخوار و سفاک بسر بن ارطاۃ کی معیت اور معاونت میں حاضر اور ان دردناک مظالم کے نگران تھے۔ خصوصیت کے ساتھ اس ظلم و جور میں جو مدینہ منورہ والوں پر ڈھایا گیا اور وہ بے گناہ اور نہتے لوگ جیسے جابر ابن عبداللہ اںصاری اور ابو ایوب انصاری وغیرہ سب کے سب ترساں و لرزان کچھ ادھر ادھر بھاگ گئے اور کچھ گھروں میں چھپ گئے لیکن ان کے گھروں کو بھی مثلا ابو ایوب اںصاری کے مکان کو جو رسول اللہ (ص) کے خاص صحابہ میں سے تھے آگ لگا دی گئے ، ابوہریرہ یہ سب دیکھ رہے تھے اور کچھ نہ بولتے تھے بلکہ اس کے معاون و مددگار تھے۔

پھر اس رسوائے زمانہ لشکر کے مکہ معظمہ کی طرف کوچ کرنے کے بعد ابوہریرہ اسی عنوان نیابت کے ساتھ خاص طور پر وہاں مقیم رہے چنانچہ بعد کو بسرابن ارطاۃ کے ساتھ یہ کار گزاری اور ہمدردی دکھانے کے صلے میں معاویہ کی طرف سے مدینہ کے گورنر بنائے گئے۔ آپ کو خدا کا واسطہ اںصاف سے بتائیے کہ اس دنیا پرست انسان نے جو تین سال تک (۱) رسول اللہ (ص) کی زیارت و مصاحبت سے مشرف رہا۔ اور پانچ ہزار سے زیادہ حدیثیں آن حضرت (ص) سے نقل کیں کیا وہ مشہور احادیث جن کو تمام علمائے فریقین جیسے علامہ سہمودی نے تاریخ المدینہ میں، احمد بن حنبل نے مسند میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص۱۶۳ میں اور دوسرے علماء نے سلسلہ اسناد کے ساتھ رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے نہیں سنی تھیں کہ آنحضرت(ص) مکرر فرماتے تھے :

" من أخاف أهل المدينة أخافه اللّه، و عليه لعنة اللّه و الملائكة و النّاس أجمعين و لا يقبل اللّه منه صرفا و لا عدلا لعن الله من اخاف مدينتی لا يريد اهل المدينة احد بسوء الا اذا به الله فی النار ذوب الرصاص"

( یعنی جو شخص اہل مدینہ کو ظلم سے ڈرائے اس کو خدا ڈرائے اور اس پر خدا اور ملائکہ اور سارے انسانوں کی لعنت ہو، خدا اس سے قیامت کے روز کوئی چیز قبول نہیں کرے گا خدا لعنت کرے اس شخص پر جو میرے مدینہ والوں کو ڈرائے جو شخص بھی اہل مدینہ کے ساتھ کوئی بد ارادہ کرے گا خدا اس کو سیسے کی طرح آگ میں پگھلائے گا۔)

پس ایسی صورت میں کیونکر اس لشکر میں شریک ہوئے جس نے مدینے والوں پر اس قدر ظلم و تعدی کی اور ان میں خوف وہراس پھیلایا، قطع نظر اس سے کہ حدیثیں وضع کر کے خلیفہ برحق و وصی رسول(ص) اور آںحضرت(ص) کی عترت طاہرہ کی مخالفت کی اور لوگوں کو ایسے شخص پر گالیوں کی بوچھاڑ کرنے کی ترغیب دی جس کو سب وشتم کرنا پیغمبر(ص) نے اپنے اوپر سب وشتم کرنا قرار دیا تھا۔

خدا کے لیے اںصاف کیجئے کہ جو شخص رسول خدا(ص) کے نام سے جھوٹی حدیثیں تصنیف کرنے میں مشغول رہا ہو کیا وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ طبقات ابن سعد اصابہ ابن حجر اور اکابر علمائے اہل تسنن کی دوسری معتبر کتابوں میں درج ہے کہ ابوہریرہ فتح خیبر میں مسلمان ہوئے اور بروایت نجاری ( باب علامات النبوۃ فی الاسلام میں) تین سال سے زیادہ رسول اللہ(ص) کی ملاقات سے موفق نہیں رہے۔ ابن حجر نے اصابہ میں، حاکم نے مستدرک میں، ابن عبدالبر نے المستطیب میں اور دوسروں نے روایت کی ہے کہ اٹھتر سال کی عمر میں سنہ۵۷ھ میں وادی عقیق کے اندر مرے اور ان کا جنازہ مدینے لاکر بقیع میں دفن کیا گیا۔

۱۹۲

خدا و رسول (ص) کی بارگاہ میں مردود نہ ہوگا۔

شیخ : آپ بے لطفی فرماتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کے سب سے زیادہ موثق صحابی کو بے دین اور وضاع و جعلساز کہتے ہیں۔

ابوہریرہ کا مردود ہونا اور عمر کا ان کو تازیانہ مارنا

خیر طلب : تنہا میں نے ہی ابوہریرہ کے حق میں بے لطفی نہیں برتی بلکہ سب سے پہلے جس شخص نے اس طرح کی بے لطفی ان کے ساتھ کی وہ خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب تھے، کیونکہ ارباب تاریخ مثلا ابن اثیر نے حوادث سنہ۲۳ھ میں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص۱۰۴ مطبوعہ مصر میں نیز اور حضرات نے نقل کیا ہے کہ جب خلیفہ عمر نے سنہ۲۱ھ میں ابوہریرہ کو بحرین کا گورنر بنایا تو لوگوں نے ان کو خبر دی کہ انہوں نے کثرت سے مال جمع کیا ہے او بہت سے گھوڑے خریدے ہیں۔ چنانچہ آپ نے ان کو سنہ۲۳ھ میں معزول کردیا، یہ جیسے ہی دربار خلافت میں پہنچے تو خلیفہ نے کہا : " يا عدو الله و عدو كتابه أ سرقت مال الله" ( یعنی اے دشمن خدا اور دشمن کتاب خدا کیا تو نے مال خدا کی چوری کی ؟ انہوں نے کہا میں نے ہرگز چوری نہیں کی بلکہ لوگوں نے مجھ کو نذرانے دیے۔

نیز ابن سعد طبقات جلد چہارم ص۹۰ میں، ابن حجر عسقلانی اصابہ میں اور ابن عبد ربہ عقد الفرید جلد اول میں لکھتے ہیں کہ خلیفہ نے کہا اے دشمن خدا جس وقت میں نے تجھ کو بحرین کا حاکم بنایا تھا تو تیرے پاوں میں جوتیاں تک نہ تھیں لیکن اب میں نے سنا ہے کہ تو نے ایک ہزار چھ سو دینار کے گھوڑے خریدے ہیں، یہ دولت تو کہاں سے لایا؟ انہوں نے کہا یہ لوگوں کے نذرانے ہیں جن کا نفع بہت ہوگیا۔ خلیفہ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور اٹھ کر ان کی پشت پر اتنے تازیانے مارے کہ خون بہنے لگا، اس کےبعد حکم دیا کہ بحرین میں جو اس نے دس ہزار دینار جمع کئے ہیں وہ اس سے وصول کر کے بیت المال کی تحویل میں دے دئے جائیں۔ اور صرف زمانہ خلافت ہی میں ان کو نہیں مارا بلکہ مسلم اپنی صحیح جلد اول ص۳۴ میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں عمر ابن خطاب نے ابوہریرہ کو اس قدر مارا کہ یہ پیٹھ کے بل زمین پر گر پڑے۔

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول اوائل ص۳۶۰ میں کہتے ہیں:

"قال أبو جعفر: و أبو هريرة مدخول عند شيوخنا غير مرضى الرواية، ضربه عمر بالدرة و قال: قد أكثرت من الرواية، و أحرى بك أن تكون كاذبا على رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و آله"

( یعنی ابوجعفر اسکافی ( شیخ معتزلہ ) نے کہا ہے کہ ابوہریرہ ہمارے شیوخ کے نزدیک بیہودہ شخص ہے۔ اس کی روایت ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے، عمر نے اس کو تازیانے سے مارا اور کہا تو نے روایت میں زیادتی کی ہے اور یقینا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جھوٹی باتیں منسوب کی ہیں۔)

۱۹۳

ابن عساکر تاریخ کبیر اور متقی کنزلاعمال ص۷۳۹ میں نقل کرتے ہیں کہ خلیفہ عمر نے ان کو تازیانے سے مارار اور ڈانٹ ڈپٹ کی اور رسول اللہ(ص) سے حدیث نقل کرنے کو منع کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ تو آن حضرت(ص) سے روایت زیادہ نقل کرتا ہے اور اسی لائق ہے کہ آن حضرت (ص) کی طرف سےجھوٹ بولے ( یعنی تیرے ایسے نا لائق سے یہی ہوسکتا ہے کہ آن حضرت(ص) سےغلط باتیں منسوب کرے) لہذا تجھ کو چاہیئے کہ رسول(ص) کی زبان سے حدیث نقل کرنا چھوڑ دے ورنہ میں تجھ کو زمین روس( یمن میں ایک قبیلہ ہے اور ابوہریرہ وہیں کے رہنے والے تھے) یا بندروں کی سرزمین پر یعنی اس پہاڑی علاقے میں جہاں بندر کثرت سے رہتے ہیں بھیج دوں گا۔

نیز ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۳۶۰ مطبوعہ مصر میں اپنے استاد امام ابو جعفر اسکافی سے نقل کیا ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا :

" ألا ان أكذب الناس أو قال: أكذب الاحياء على رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و آله أبو هريرة الدوسيّ."

( یعنی آگاہ ہو کہ رسول خدا(ص) پر آدمیوں میں سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والا یا یہ فرمایا کہ زندوں میں سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والا ابو ہریرہ دوسی ہے ( دوسی یمن میں ایک قبیلہ ہے)

ابن قتبیہ تاویل مختلف الحدیث میں، حاکم مستدرک جلد سیم میں، ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اور مسلم اپنی صحیح جلد دوم فضائل ابوہریرہ میں سب کے سب نقل کرتے ہیں کہ عائشہ نے بار بار ان کی تردید کی اور کہتی تھیں کہ ابوہریرہ بہت بڑا جھوٹا ہے اور رسول اللہ(ص) سے منسوب کر کے بہت حدیثیں گھڑتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ بوہریرہ کو تنہا میں نے مردود نہیں کہا ہے بلکہ خلیفہ عمر، مولانا امیرالمومنین ، ام المومنین عائشہ اور صحابہ و تابعین کے نزدیک بھی یہ مردود تھے چنانچہ شیوخ معتزلہ اور ان کے بعد حنفیوں کے علماء بالعموم ابوہریرہ کی حدیثوں کو مردود جانتے ہیں اور جس حکم کی سند ابوہریرہ تک منتہی ہوتی ہے اس کو باطل سمجھتے ہیں، چنانچہ نووی نے شرح صحیح مسلم میں بالخصوص جلد چہارم کے اندر اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔

آپ کی جماعت کے بڑٰے پیشوا امام اعظم ابو حنیفہ کہتے تھے کہ صحابہ رسول عام طور پر ثقہ اور عادل تھے، میں ہر ایک سے ہر سند کے ساتھ حدیث لے لیتا ہوں لیکن جس حدیث کی سند ابوہریرہ ، انس ابن مالک اور سمرہ بن جندب تک منتہی ہوتی ہو اس کو قبول نہیں کرتا ۔ پس آپ حضرات ہم پہ یہ اعتراج نہ کیجیئے کہ ابوہریرہ صحابی پر کیوں نکتہ چینی کرتے ہو؟ ہم انہیں ابوہریرہ پر نقد و تبصرہ کرتے ہیں جن کو خلیفہ ثانی عمر نے تازیانے مارے اور بیت المال کو چور اور کذاب کہا ہے۔ ہم انہیں ابو ہریرہ کی گرفت کرتے ہیں جن پر ام المومنین عائشہ، امام اعظم ابوحنیفہ، کبار صحابہ ، تابعین اور بڑے بڑے معتزلی اور حنفی شیوخ و علماء نے تنفقید کی ہے اور مردود کہا ہے۔

خلاصہ یہ کہ ہم انہیں ابوہریرہ کی تنقید کرتے ہیں جن کو مولانا و مولی المدحدین امیرالمومنین (ع) اور ائمہ اہل بیت طاہرین علیہم السلام نے جو عدیل قرآن ہیں کذاب اور مردود فرمایا ہے۔ہم انہیں ابو ہریرہ کی عیب گیری کرتے ہیں جو پیٹ کے بندے تھے۔ اور

۱۹۴

امیرالمومنین(ع) کی افضلیت سے واقف ہوتے ہوئے ان حضرت سے کنار کشی کر کے معاویہ کے چرب و نرم دسترخوان کے حاشیہ نشین بنے تاکہ لوگ ان کی حدیث سازی کے بل پر امام المتقین اور خلیفہ المسلمین کو ( جن کو آپ بھی خلفائے راشدین میں سے مانتے ہیں) سب و شتم اور لعنت کریں۔

اب اس سے زیادہ جلسے کا وقت لینے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔ نیز اس کی معافی چاہتا ہوں کہ آپ کا اتنا وقت صرف کیا۔ چونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ ہم بے لطفی کرتے ہیں لہذا میں نے چاہا کہ یہ ثابت کردوں کہ ہم تنہا نہیں ہیں بلکہ خلفا وصحابہ اور خود آپ کے بڑے بڑے علماء بھی ان کی مردودیت کے مقر اور معترف ہیں۔ پس جب ایسے جعلساز اور وضاع افراد نے جاہ و منصب تک پہنچنے اور اپنی دنیا آباد کرنے کے لیے رسول اللہ(ص) کے نام سے حدیثیں گھڑ گھڑ کے صحیح احادیث میں مخلوط کر دی ہیں تو ایسی صورت میں ہر حدیث پر کیونکر اعتماد کیا جاسکتا ہے، چنانچہ اسی وجہ سے آنحضرت نے فرمایا ہے " کلما حدثتم بحديث منّی فاعرضوه على كتاب اللّه ،"( ترجمہ گذر چکا ۱۲ مترجم)

( چونکہ ہم ایک خاص موضوع میں سرگرم بحث تھے ۔ لہذا مولوی صاحبان کی نماز میں قدرے تاخیر ہوگئی۔ جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو وہ حضرات اٹھ گئے نماز عشاء اور چائے کے بعد بات چیت شروع ہوئی۔)

خیر طلب : سابق بیانات کے پیش نظر اب ہم اور آپ مجبور ہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول احادیث میں سے کوئی حدیث سامنے آئے تو پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع کریں، اگر قرآن کی کسی اصل سے مطابق ہوتو قبول کریں ورنہ رد کریں۔

اس فرضی حدیث کا جواب کہ خدا نے فرمایا میں ابوبکر سے راضی ہوں، وہ بھی مجھ سے راضی ہیں، یا نہیں

یہ حدیث جو آپ نے نقل کی ہے ( اگرچہ یک طرفہ ہے پھر بھی ) ہم قرآن مجید سے اس کی مطابقت کرتے ہیں اگر کوئی نقص مانع نہ ہوگا تو ہم قطعا مان لیں گے۔ چنانچہ ایک جماعت نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ خدائے تعالی سورہ نمبر۵۰ (ق) آیت نمبر۱۵ میں فرماتا ہے:

" وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ وَ نَعْلَمُ ما تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ"

( یعنی ہم نے انسان کو خلق کیا ہے۔ اس کے نفس میں جو وسوسے آتے ہیں ان سے اچھی طرح واقف ہیں اور رگ گردن سے زیادہ اس سے قریب ہیں) آپ حضرات واقف ہیں کہ حبل الورید ایک مشہور مثل ہے جو انتہائی قربت کے معنی میں مستعمل ہے اور اس کا اضافہ بیانی ہے اور ممکن ہے کہ اضافہ لامی زینت کے لیے ہو۔ اور اس آیہ شریفہ کا اصل مفہوم

۱۹۵

اس طرف راجع ہے کہ خدائے تعالی کاعلم انسان کے حالات پر اس طرح حاوی ہے کہ سینوں کے اندر چھپی ہوئی باتوں اور دلوں کے اسرار میں سے کوئی شئے اس کی ذات اقدس پر مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے۔

اور سورہ نمبر۱۰ (یونس) آیت نمبر۶۲ میں ارشاد ہے

" وَ ما تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَ ما تَتْلُوا مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَ لا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُوداً إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ وَ ما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَ لا فِي السَّماءِ وَ لا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَ لا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتابٍ مُبِينٍ "

( یعنی اے ہمارے رسول(ص) ) تم کسی حال میں ہو، قرآن کی کوئی آیت تلاوت کرو اور تم اور تمہاری امت کوئی عمل بھی بجالاو ہم اسی وقت اس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور زمین و آسمان میں کوئی ذرہ بھی تمہارے خدا سے پوشیدہ نہیں ہے اور اس میں سے ہر چھوٹا بڑا ذرہ جو کچھ بھی ہے کتاب مبین ( اور لوح علم الہی ( میں درج ہے۔)

ان آیات شریفہ کے حکم اور عقلی دلائل کی تائید کے پیش نظر کوئی قول و فعل خدا سے مخفی نہیں رہتا اور پروردگار عالم اپنے علم حضوری کے ساتھ بندوں کے تمام اعمال و افعال اور اقوال کا عالم ہے۔ اب ذرا اس حدیث کو ملاحظہ فرمائیے جو آپ نے بیان کی کہ ان دونوں آیتوں اور دوسری آیات شریفہ کے ساتھ ہم اس کو کس طرح مطابق کریں اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ ابوبکر کی رضا مندی اور نا رضامندی خدا سے پوشیدہ ہو یہاں تک کہ وہ خود ان سے دریافت کرنے کا محتاج ہو۔ علاوہ اس کے حق تعالی کی خوشنودی خوشنودی خلق سے وابستہ ہے، بندہ جب تک رضا کی منزل تک نہ پہنچے قطعا خدا کا محبوب نہیں ہوسکتا، پس خدا کیونکر ابوبکر سے رضامندی کا اعلان کررہا ہے حالانکہ ابھی اس کو یہ نہیں معلوم کہ ابوبکر مقام رضا پر پہنچے اور خدا سے راضی ہیں یا نہیں۔

ابوبکر اور عمر کی فضیلت میں احادیث اور ان کا رد

شیخ : اب اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

" إنّ اللّه يتجلّى للناس عامّة و يتجلّى لأبی بكر خاصّة"

( یعنی خدا تمام انسانوں کے لیے عام طور پر اور ابوبکر کے کیے خاص طور پر جلوہ دکھائے گا۔) نیز فرمایا ہے : "ما صبّ اللّه شيئا فى صدرى إلّا و صبّه فى صدر أبى بكر،" ( یعنی خدا نے میرے سینے میں جوئی چیز نہیں ڈالی لیکن یہ کہ وہی چیز ابوبکر کے سینے میں بھی ڈالی) نیز فرمایا " انا و ابوبکر کفرسی ؟؟؟ " ( یعنی میں اور ابوبکر ان دو گھوڑوں کی مثل ہیں جو گھوڑ دوڑ میں ایک دوسرے کے برابر ہوں) نیز فرمایا :

" ان فی السماء الدنيا ثمانين الف ملک يستغفرون لمن احب ابابکر و عمر و فی السماء الثانيه ثمانين الف ملک يلعنون من البغض ابابکر وعمر"

( یعنی آسمانی دنیا میں اسی ہزار فرشتے اس شخص کے لیے استغفار کرتے ہیں جو ابوبکر و عمر کو دوست رکھے

۱۹۶

اور دوسرے آسمان میں اسی فرشتے لعنت کرتے ہیں اس شخص پر جو ابوبکر و عمر کو دشمن رکھے) نیز فرمایا ہے : " ابوبکر و عمر خير الاولين والآخرين " (یعنی ابوبکر و عمر اولین و آخرین میں سب سے بہتر ہیں۔) اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی عظمت منزلت اس حدیث سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے کہ فرمایا :

" خلقنی الل ه من نوره و خلق ابابکر من نوری و خلق عمر من نور ابی بکر و خلق امتی من نور عمر و خمر سراج اهل الجنة "

( یعنی خدا نے مجھ کو اپنے نور سے ا بوبکر کو میرے نور سے عمر کو ابوبکر کے نور سے اور میری امت کو عمر کے نور سے پیدا کیا اور عمر اہل جنت کے چراغ ہیں۔)

اس طرح کی حدیثین ہماری معتبر کتابوں میں بہت وارد ہیں جن میں سے نمونے کے طور پر میں نے بعض کی طرف اشارہ کر دیا ہے تاکہ آپ مقام خلفاء کی حقیقت واضح اور روشن ہوجائے۔

خیر طلب : سب سے پہلے تو ان احادیث کے نمایاں مطالب خود ہی ان کے فساد ور کفر پر پوری دلالت کررہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک سے ایسے مضامین صادر نہیں ہوئے اس لیے کہ پہلی حدیث تجسم کو ثابت کررہی ہے اور خدائے تعالی کی جسمانیت پر عقیدہ رکھتا قطعا کھلا ہوا کفر ہے۔ دوسری حدیث بتاتی ہے کہ رسول اللہ(ص) پر جو کچھ نازل ہوتا تھا ابوبکر اس میں شریک تھے۔ تیسری حدیث کا یہ مطلب ہے کہ خاتم الانبیاء(ص) کو ابوبکر پر کوئی فوقیت حاصل نہ تھی کیونکہ دونوں آپس میں مساوی تھے۔ چوتھی اور پانچویں دونوں حدیثیں ان بے شمار حدیثوں کے خلاف پڑتی ہیں جن پر فریقین کا اجماع ہے کہ اہل عالم میں سب سے بہتر محمد و آل محمد سلام اللہ علیہم اجمعین ہیں۔ اور آخری حدیث قرآن مجید کی مخالف ہے۔ کیونکہ سورہ نمبر۷۳ (دہر) آیت نمبر۱۳ میں ارشاد ہے " لا يَرَوْنَ فِيها شَمْساً وَ لا زَمْهَرِيراً" ( یعنی بہشت آفتاب و ماہتاب کی جگہ نہیں ہے بہشت کے شجر و حجر مکانات اور در دیوار سب روشن اور نورانی ہیں، یہ دنیا والے ہیں جو چراغ کے محتاج ہیں ورنہ اہل جنت کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔

علاوہ ان کھلی باتوں کے خود آپ کے بڑے بڑے علمائے درایت و رجال جیسے عالم جلیل القدر مقدسی نے تذکرۃ الموضوعات میں، فیروز آبادی شافعی نے کتاب سفرالسعادات میں، حسن بن کثیر ذہبی نے میزان الاعتدال میں، ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں، ابوالفرج ابن جوزی نے کتاب الموضوعات میں اور جلال الدین سیوطی نے الئالی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ میں ان احادیث کے موضوع اور فرضی ہونے کا فتوی دیا ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں صاف صاف کہتے ہیں کہ سلسلہ روایت و اسناد کے لحاظ سے یہ حدیثیں جعلی اور گھڑی ہوئی ہیں اس لیے کہ علاوہ ان نا اہل ، جعلساز اور جھوٹے افراد کے جو ان کے راویوں کے سلسلے میں موجود ہیں ان کا باطل ہونا عقلی قواعد و قرآنی آیات سے بھی ظاہر اور واضح ہے۔

شیخ : اچھا اس حدیث میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا

" أبو بكر و عمر سيّد الكهول

۱۹۷

أهل الجنّة"

( یعنی ابوبکر اور عمر دونوں جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں۔

اس حدیث کا جواب کہ ابوبکر و عمر دونوں جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں

خیر طلب : اس حدیث میں بھی اگر ہم تھوڑا غور و فکر کریں تو قطع نظر اس سے کہ خود آپ کے علمائے درایت و رجال اس کو وضعی احادیث میں سے سمجھتے ہیں، اس کی عبارت بھی یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ رسول کا ارشاد نہیں ہوسکتا اسی لیے کہ یہ چیز مسلمات میں سے ہے کہ جنت ضعیفوں اور بوڑھوں کی جگہ نہیں ہے اور وہاں دنیا کی طرح تدریجی ارتقاء نہیں ہے کہ آدمی جوانی سے پیری کی عمر کو پہنچے تاکہ کمال سیادت پر فائز ہو۔

ہماری اور آپ کے روایات میں اس مطلب کی تصدیق کرنے والے کافی اخبار موجود ہیں جن میں سے ایک اشجعیہ کا واقعہ ہے کہ ایک بوڑھی عورت خدمت رسول(ص) میں حاضر ہوئی آں حضرت نے دوران گفتگو میں فرمایا " أنّ الجنّة لا تدخلها العجائز" (یعنی بوڑھی عورتیں بہشت میں داخل نہ ہوں گی، وہ عورت بہت متاثر ہوئی اور رو رک عرض کیا یا رسول اللہ(ص) پھر تو میں جنت میں نہ جاوں گی۔ یہ کہہ کر باہر گئی تو آنحضرت(ص) نے فرمایا " اخبروہا انہا لیست یومئذ بعجوز۔" یعنی اس کو اطلاع دے دو کہ اس روز وہ بوڑھی نہ ہوگی بلکہ سارے بوڑھوں کو خلعت جوانی سے آراستہ کر کے بہشت میں داخل کریں گے۔ اس کے بعد سورہ نمبر۵۶ (واقعہ) کی آیت نمبر۳۶ تلاوت فرمائی کہ خدا فرماتا ہے :

" إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْكاراً عُرُباً أَتْراباً. لِأَصْحابِ الْيَمِينِ "

( انشاء صیغہ ماضی میں تحقیق وقوع کی جہت سے ہے یعنی ہم نے بہشت کی عورتوں کو انتہائی حسن و زیبائی کے ساتھ پیدا کیا ہے جن کو ہمیشہ کے لیے باکرہ اور دوشیزہ ، اپنے شوہروں کی عاشق و وفا دار ، ناز --- والی، شیرین کلام ، ہمسن اور اصحاب یمین کے لیے مخصوص قرار دیا ہے) اور ہمارے اور آپ کے طریقوں سے مروی حدیث میں وارد ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا

" يدخل أهل الجنّة الجنّة جردا مردا بيضا جعادا مكحّلين، أبناء ثلاث و ثلاثين."

( یعنی اہل بہشت جب بہشت میں داخل ہوں گے تو ہمیشہ کے لیے بے ریش و بروت نو جوان، سفید فام گھونگھریالے بالوں والے آنکھوں میں سرمہ لگا ہوئے تیس بتیس سال کی عمر میں ہوں گے۔)

شخ : آپ کے یہ بیانات اپنی جگہ پر صحیح ہیں لیکن اہل بہشت کے لیے یہ ایک حدیث محض ہے۔

خیر طلب : میں جناب عالی کے ارشاد کا مطلب نہیں سمجھا ۔ یہ حدیث مخصص کیا چیز ہے یعنی خدا ایک جماعت کو جنت میں بورھا ہی داخل کرے گا تاکہ ابوبکر و عمر کو ان کا سردار بنائے حالانکہ اگر فرض کیا جائے کہ ابوبکر وعمر جنت میں داخل ہوں گے تو خدا ان کو بھی جوان بنادے گا نہ یہ کہ دوسروں کو بوڑھا بنائے تاکہ ان دونوں کی سرداری ثابت ہو۔ اس کے علاوہ میں نے عرض کیا کہ خود آپ کے اکابر علمائ نے اس حدیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے اور رسول اکرم(ص) نے ہماری رہنمائی کے لیے

۱۹۸

ایک معیار معین فرمایا ہے تاکہ ہمارے خیال کو یکسوئی حاصل ہوجائے جیسا پہلے عرض کرچکا ہوں کہ جو حدیث بھی قرآن سے مطابقت نہ کرے وہ مردود ہے، لہذا ہمارے علمائے رجال اور صاحبان درایت بھی ایسی بہت سی حدیثوں کو جو رسول ائمہ طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین کے نام سے خود ہمارے طریق سے وارد ہوئی ہیں آن حضرت کے اس حکم کے ماتحت کہ :

" إذا روي لکم عني حديث فاعرضوه على كتاب الله فإن وافقه فاقبلوه و إلا فردوه."

( یعنی جس وقت مجھ سے کوئی حدیث تمہارے لیے روایت کی جائے تو اس کو قرآن مجید کے سامنے پیش کرو اگر اس کے موافق ہوتو قبول کرو ورنہ رد کرو) رد کردیتے ہیں اور قبول نہیں کرتے ۔

اور اس سے قبل عرض کرچکا ہوں کہ خود آپ کے بڑے بڑے ارباب جرح و تعدیل علماء نے بھی موضوع احادیث کی رد میں مبسوط کتابیں تالیف و تصنیف کی ہیں۔ مثلا شیخ مجدالدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی ( صاحب قاموس) نے کتاب سفر السعادۃ میں) جلال الدین سیوطی نے کتاب الئالی میں، ان جوزی نے موضوعات میں، مقدسی نے تذکرۃ الموضوعات میں اور شیخ محمد بن درویش مشہور بہ حوت بیروتی نے کتاب اسنی المطالب ص۱۲۳ میں لکھا ہے کہ حدیث " أبو بكر و عمر سيّد الكهول أهل الجنّة" کی سند میں یحی بن عتبہ بھی ہے اور ذہبی کہتے ہیں کہ یحی ضعیف راویوں میں سے ہے۔ اور ابن حبان نے کہا ہے کہ یحی حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ پس علاوہ ان دلائل کے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے خود آپ کے نقاد علماء کے بیان سے بھی جو ارباب جرح و تعدیل ہیں یہ حدیث موضوع ثابت ہوتی ہے۔ در حقیقت قوی احتمال یہی ہے کہ یہ بکری یا اموی گروہ کی گھڑی ہوئی ہے کیونکہ وہ بنی ہاشم اور عترت طاہرہ و اہل بیت رسول (ص) کو حقیر بنانے کے لیے ان احادیث میں سے جو خاندان رسالت کی مدح اور عظمت میں فریقین کے نزدیک ثابت ہیں ہر حدیث کے مقابلے میں ایک فرضی حدیث تیار کر دیتے تھے اور ابوہریرہ جیسے لوگ بھی بنی امیہ کے باطل اقتدار کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرنے کے لیے برابر اس کام میں کوشش کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ اس کینے اور عداوت کی بنا پر جو لوگ آل محمد(ص) سے رکھتے تھے اس معتبر حدیث شریف کے مقابلے میں جس کو علاوہ اجماع علمائے شیعہ کے آپ کے اکابر علماء نے بھی نقل کیا ہے یہ حدیث بھی وضع کی گئی ہے۔

نواب : وہ مسلم حدیث کون سی ہے جس کے مقابلے میں یہ حدیث گھڑی گئی؟

اس حدیث کا ذکر کہ حسن(ع) و حسین(ع) دونوں جوانان اہل جنت کے سردار ہیں

خیر طلب: وہ معتبر اور مسلم حدیث شریف یہ ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا :

" الحسن و الحسين سيدا شباب اهل الجنة و ابوهما خير منهما"

اور آپ کے بہت سے علماء نے اس کو نقل کی اہے جیسے خطیب خوارزمی نے مناقب میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودت ہشتم میں، الامام ابو عبدالرحمن نسائی نے تین حدیثیں خصائص العلوی میں،

۱۹۹

ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص۱۵۹ میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب ۵۴ میں ترمذی ، ابن ماجہ اور احمد ابن حنبل سے سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص۱۲۴ میں، امام احمد حنبل نے مسند میں، ترمذی نے سنن میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۱۴ میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ امام اہل حدیث ابو القاسم طبرانی نے معجم الکبیر کے اندر شرح حال امام حسن علیہ السلام میں بہت سے صحابہ پیغمبر سے اس حدیث شریف کے سارے طرق کو جمع کیا ہے مثلا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب خلیفہ ثانی عمر بن خطاب ، حذیفہ یمانی، ابو سعید خدری، جابر ابن عبداللہ انصاری، ابو ہریرہ، اسامہ بن زید اور عبداللہ بن عمر اس کے بعد محمد بن یوسف نےتبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک حسن حدیث ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا

" الحسن و الحسين سيدا شباب اهل الجنة و ابوهما خير منهما"

اور بعض روایتوں میں ہے افضل منہما ( یعنی حسن(ع) و حسین(ع) دونوں جوانان اہل جنت کے سردار ہیں، اور ان کے باپ ان سے بہتر و افضل ہیں) اور اس حدیث کے اسناد کا باہمی تسلسل اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ نیز حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیہ میں، ابن عساکر نے تاریخ کبیر جلد چہارم ص۲۰۶ میں حاکم نے مستدرک میں، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ ص۸۲ میں، غرضیکہ آپ کے اکابر علماء نے بالاتفاق کہا ہے کہ یہ حدیث رسول خدا(ص) کی زبان مبارک پر جاری ہوئی ہے۔

شیخ : اچھا اس حدیث سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا " لا ينبغي لقوم فيهم أبو بكر أن يتقدّم عليه غيره" یہ حدیث خود عام حیثیت سے امت پر ابوبکر کی فوقیت کی دلیل ہے اس لیے کہ فرمایا کسی قوم کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ ابوبکر اس کے درمیان موجود ہوں اور وہ دوسرے کو ان پر مقدم کرے۔

خیر طلب : مجھ کو افسوس ہے کہ آپ حضرات ہر ایک حدیث کو بغیر غور و فکر کے کیوں قبول کر لیتے ہیں۔ اگر یہ حدیث رسول اللہ(ص) کی فرمائی ہوئی تھی تو اس پر خود کیوں عمل نہیں فرماتے تھے کہ ابوبکر کی موجودگی میں علی علیہ السلام کو مقدم رکھتے تھے ؟ معاملے کے موقع پر کیا ابوبکر موجود نہیں تھے جو علی کو ان پر مقدم فرمایا ؟ جنگ تبوک میں ابوبکر کے ایسے تجربہ کار بوڑھے کی موجودگی میں کس لیے علی(ع) کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا ؟ سفر مکہ میں ابلاغ رسالت اور سورہ برائت کی قرائت کے لیے کس واسطے ابوبکر کو معزول کر کے علی(ع) کو نصب فرمایا ؟ مکے میں ابوبکر کے ہوتے ہوئے کس وجہ سے بت شکنی کے لیے علی(ع) کو اپنے ساتھ لے گئے یہاں تک کہ اپنے شانے پر سوار کیا اور ہبل بت کو توڑنے کا حکم دیا۔ ابوبکر کی موجودگی میں اہل یمن کی حکومت وہدایت کے لیے علی(ع) کو کیوں بھیجا؟ اور ان سب کے علاوہ ابوبکر کے ہوتے ہوئے علی(ع) کو اپنا وصی کس واسطے بنایا؟

شیخ : ایک بہت مضبوط حدیث رسول اللہ(ص) سے مروی ہے جس کا ہرگز انکار نہیں ہوسکتا کہ عمرو بن عاص نے کہا ایک روز میں نے پیغمبر(ص) سے عرض کیا یا بنی اللہ(ص) دنیا کی عورتوں میں آپ سب سے زیادہ کس کو چاہتے ہیں؟ فرمایا عائشہ کو، میں نے عرض کیا مردوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے فرمایا عائشہ کے باپ ابوبکر۔ پس اس لحاظ سے کہ آپ پیغمبر کے محبوب ہیں تمام امت پر فوقیت کا حق رکھتے یں اور یہ خود خلافت ابوبکر رضی اللہ پر ایک قاطع دلیل ہے۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369