پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310323 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

اس حدیث کا جواب کہ ابوبکر اور عائشہ پیغمبر(ص) کے محبوب تھے

خیر طلب : یہ حدیث علاوہ اس کے کہ بکری گروہ کی ساختہ و پرداختہ ہے، فریقین کے نزدیک مسلم اور معتبر احادیث کے بھی خلاف ہے لہذا اس کی مردودیت ثابت ہے۔

اس حدیث میں دو پہلووں سے غور کرنا چاہیے۔ اول ام المومنین عائشہ کی جہت سے اور دوسرے خلیفہ ابوبکر کی جہت سے چنانچہ عائشہ کی محبوبیت میں اس حیثیت سے کہ رسول اللہ(ص) کے نزدیک ساری عورتوں سے زیادہ محبوب ہوں اشکال ہے جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں یہ قول صحیح و معتبر احادیث کے خلاف ہے جو فریقین ( شیعہ و سنی) کی معتبر کتابوں میں درج ہیں۔

شیخ : کن حدیثوں کے معارض ہے؟ ممکن ہو تو بیان کیجئے تاکہ ہم مطابقت کر کے عادلانہ فیصلہ کریں۔

خیر طلب : آپ کے قول کے برخلاف آپ کے علماء روایت کے طرق سے بکثرت حدیثیں حضرت صدیقہ کبری ام الائمہ جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا کے بارے میں منقول ہیں۔

فاطمہ(س) زنان عالم میں سب سے بہتر ہیں

من جملہ ان کے حافظ ابوبکر بیہقی نے تاریخ میں، حافظ ابن عبدالبر نے استیعاب میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں اور آپ کے دوسرے علماء نے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) بار بار فرماتے تھے "فاطمة خير نساء امّتي " ( یعنی فاطمہ(س ) میری امت کی عورتوں میں سب سے بہتر ہیں۔

امام احمد بن حنبل نے مسند میں حافظ ابوبکر شیرازی نے نزول القرآن فی علی میں محمد ابن حنفیہ سے انہوں نے امیر المومنین علیہ السلام سے ابن عبدالبر نے استیعاب میں بسلسلہ نقل حالات فاطمہ سلام اللہ علیہا و ام المومنین خدیجہ عبدالوارث ابن سفیان اور ----- حالات ام المومنین خدیجہ کے ضمن میں ابوداوود سے ابوہریرہ و انس بن مالک سے نقل کرتے ہوئے شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۵۵ میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودت سیزدہم میں انس بن مالک سے نیز بہت سے ثقات محدثیں نے اپنے طرق کےساتھ انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"خير نساء العالمين أربع : مريم بنت عمران، و ابنة مزاحم امرأة فرعون، و خديجة بنت خويلد، و فاطمة بنت محمّد صلى اللّه عليه و آله و سلم."

( یعنی عالمین کی عورتوں میں سب سے بہتر چار ہیں۔ مریم دختر عمران و آسیہ دختم مزاحم خدیجہ دختر خویلد اور فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطیب تاریخ بغداد میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے ان چار

۲۰۱

عورتوں کو دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر شمار فرمایا ہے اس کے بعد فاطمہ کو دینا و آخرت میں ان پر فضیلت دی ہے۔

محمد بن اسماعیل بخاری صحیح میں اور امام احمد حنبل مسند میں عائشہ بنت ابوبکر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فاطمہ(س) سے فرمایا

" يا فاطمه البشری فان الله اصطفيک و طهرک علی نساء العلمين و علی نساء الاسلام وهو خير دين."

( یعنی اے فاطمہ(س) خوشخبری اور بشارت ہو تم کو کہ خدا نے تم کو برگزیدہ کیا عالمین کی عورتوں پر بالعموم ، اور زنان اسلام پر بالخصوص پاکیزہ قرار دیا اور اسلام ہر دین سے بہتر ہے۔)

نیز بخاری نے اپنی صحیح جز چہارم ص۶۴ میں مسلم نے اپنی صحیح جز دوم باب فضائل فاطمہ(س) میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحن میں، عبدی نے جمع بین الصحاح الستہ میں ابن عبدالبر نے استیعاب ضمن حالات حضرت فاطمہ(س) میں، امام ابن حنبل نے مسند جز ششم ص۲۸۳ میں، محمد بن سعد کاتب نے طبقات جلد دوم مرض و بستر بیماری میں ارشادات رسول(ص) کے ذیل میں اور جلد ششم میں جناب فاطمہ(س) کے حالات نقل کرتے ہوئے ایک طولانی حدیث کے سلسلے میں (جس کو مکمل طور پر نقل کرنے کی وقت میں گنجائش نہیں) ام المومنین عائشہ کی سند سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

" يا فاطمة الا ترضين ان تکونی سيدة نساء العالمين "

(یعنی اے فاطمہ(س) آیا تم خوش نہیں ہو اس سے کہ زنان عالمین کی سردار ہو۔)

ابن حجر عسقلانی نے اسی عبارت کو صابہ میں حالات جناب فاطمہ(س) کے ضمن میں نقل کیا ہے۔ یعنی تم عالمین کی عورتوں میں سب سے بہتر ہو۔ نیز بخاری و سلم نے اپنی صحیحیں میں امام شافعی نے تفسیر میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، طبرانی نے معجم الکبیر میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۴۲ میں تفسیر ابن ابی حاتم و مناقب و حاکم و و سبط و اسدی حلیۃ الاولیاء حافظ ابونعیم اصفہانی و فرائد حموینی سے، ابن حجر مکی نے صواعق کے-- چہاردھم کے ذیل میں احمد سے ، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، طبری نے تفسیر میں واحدی نے اسباب النزول میں، ابن مغازل شافعی نے مناقب میں، محب الدین طبری نے ریاض میں، شبلنجی نے نورالابصار میں ، زمخشری نے تفسیر میں، سیوطی نے در المنثور میں، ابن عساکر نے تاریخ میں، علامہ سرودی نے تاریخ المدینہ میں فاضل نیشاپوری نے تفسیرمیں، قاضی بیضاوی نے تفسیر میں، امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں، سید ابوبکر شہاب الدین علوی نے شفتہ الصاری باب اول میں ص۲۳ سے ص ۲۴ تک تفسیر -- و ثعلبی و سیرہ ملاو مناقب احمد کبیر و اوسط طبرانی -- سے ، شیخ عبداللہ بن محمد بن عامر شہرادی شافعی نے کتاب الاتحاف ص۵ میں حاتم و طبرانی -- جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت میں تفاسیر ابن منذر و ابن ابی حاتم و ابن مرودیہ و معجم الکبیر طبرانی سے، اور ابن ابی حاتم اور حاکم نے یہاں تک کہ عام طور پر آپ کے جملہ اکابر علما نے (سوا چند تھوڑے سے متعصبین بنی امیہ کے پیرو اور دشمنان اہل بیت کے ) ابن عباس خیر امت ، اور دوسروں سے نقل کیا ہے کہ جس وقت سورہ نمبر۴۲ ( سورہ شوری) کی آیت نمبر۲۳ "قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى وَ مَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيها حُسْناً"

(یعنی کہہ دو امت سے ) کہ میں تم سے اجر رسالت سوا اس کے اور کچھ نہیں چاہتا کہ میرے گھر والوں سے محبت رکھو، اور جو شخص نیک کام انجام دے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کرویں گے) نازل ہوئی تو اصحاب کی ایک جماعت نے عرض کیا :

"يا رسول اللّه ، من

۲۰۲

قرابتك ؟ قال: «عليّ و فاطمة و الحسن و الحسين "

یعنی آپ کے قرابتدار کو ن ہیں جن کی دوستی اور مودت خدا نے ہم پر واجب فرمائی ہے؟ ( یعنی اس آیہ مبارک میں) تو آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ وہ افراد علی(ع) و فاطمہ(س) اور حسن(ع) و حسین(ع) ہیں۔ اور بعض روایات میں وابناهما وارد ہے یعنی ان کے دونوں فرزند۔

اسی طرح کے اخبار و احادیث آپ کے معتبر کتابوں میں بہت وارد ہوئے ہیں جن سب کو ذکر کرنے کی وقت میں گنجائش نہیں ہے اور آپ کے علماء کے نزدیک یہ مطلب حد شیاع تک پہنچا ہوا ہے۔

محبت اہل بیت(ع) کے وجوب میں شافعی کا اقرار

یہاں تک کہ ابن حجر ایسے متعصب نے بھی صواعق محرقہ ص۸۸ میں، حافظ جمال الدین زرندی نے معراج الوصول میں، شیخ عبداللہ شبراوی نے کتاب الاتحاف ص۲۶ میں، محمد بن علی صبان مصری نے اسعاف الراغبین ص۱۱۹ میں اور دوسرے علماء نے امام محمد بن ادریس شافعی سے جو آپ کے ائمہ اربعہ میں سے اور شافعیوں کے رئیس ہیں نقل کیا ہے کہ آپ کہتے تھے۔

يا أهل بيت رسول اللّه حبكم فرض من اللّه في القرآن أنزله

كفاكم من عظيم القدر أنكم من لم يصلّ عليكم لا صلاة له

( یعنی اے اہل بیت رسول خدا (ص) آپ کی محبت اور دوستی خدا کی جانب سے واجب ہوئی ہے جو قرآں میں نازل ہوئی ہے( آیت مذکورہ کی طرف اشارہ ) آپ کی عظمت منزلت میں یہی کافی ہے کہ جو شخص آپ ( آل محمد(ص)) پر صلوات نہ بھیجے اس کی نماز قبول نہ ہوگی) اب میں آپ حضرات سے اںصاف کے ساتھ پوچھتا ہوں کہ آیا وہ ایک طرفہ حدیث جس کو آپ نے نقل کیا ہے، ان ساری صحیح و صریح اور متفق بین الفریقین شیعہ و سنی بے شمار حدیثوں اور آیتوں کے مقابلے میں آسکتی ہیں؟ آیا اس کو عقل قبول کرتی ہے کہ جس کی محبت و مودت کو خدائے تعالی نے قرآن مجید میں لوگوں پر فرض قرار دیا ہو رسول اللہ(ص) اس کو چھوڑ دیں اور دوسروں کو اس پر ترجیح دیں؟

آیا آنحضرت (ص) کے لیے ہوا و ہوس کا تصور ہوسکتا ہے کہ ہم کہیں آپ اپنی خواہش نفس کی بناء پر عائشہ کو جن کی افضلیت پر کوئی دلیل نہیں ہے ( سوا اس کے کہ رسول خدا(ص) کی زوجہ اور تمام ازواج پیغمبر کی طرح ام المومنین تھیں) جناب فاطمہ(س) سے زیادہ دوست رکھتے ہوں گے جن کی محبت و مودت کو خدائے تعالے نے قرآن مجید میں فرض اور واجب قرار دیا ہے۔ جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے اور جن کو بحکم قرآن مباہلے میں شامل ہونے کا فخر حاصل ہے۔ آپ خود جانتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء ہوائے نفس کی پیروی نہیں کرتے اور سوائے خدا کے کسی پر نظر نہیں رکھتے، بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت رسول خدا(ص) جو حقیقتا حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کے حامل تھے اور قطعا اسی کو دوست رکھتے تھے جس کو خدا دوست رکھتا تھا اور اسی شخص کو دشمن رکھتے تھے

۲۰۳

جس کو خدا دشمن رکھتا تھا۔

یہ کیوں کر ممکن ہے کہ آں حضرت (ص) آں فاطمہ(س) کو چھوڑ دیں جن کی محبت و مودت کو خدا نے فرض اور واجب کیا اور دوسرے کو ان ترجیح دیں۔ بس اگر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دوست رکھتے تھے تو محض اسی وجہ سے کہ خدا ان کو محبوب رکھتا تھا۔

آیا عقل باور کرتی ہے کہ آں حضرت(ص) اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کو محبت کے معاملے میں اس ذات پر ترجیح دیں جس کے متعلق خود یہ فرماتے تھے کہ خدا نے ان کو برگزیدہ کیا اور ان کی محبت کو انسانوں پر فرض قرار دیا ہے؟ اب آپ کو چاہیے کہ یا تو ان تمام اخبار صحیحہ و صریحہ کو جو اکابر علمائے فریقین کے یہاں مقبول ہیں اور آیات قرآن مجید ان کی تائید کر رہی ہیں رد کیجئے یا جو یہ حدیث آپ نے بیان کی ہے اس کو طے نشدہ، جعلی حدیثوں میں شمار کیجئے، تاکہ یہ تناقض ختم ہوجائے ۔ اور خلیفہ ابوبکر کے بارے میں جو آپ نے فرمایا کہ آںحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا، میرے نزدیک مردوں میں سب سے زیادہ محبوب ابوبکر ہیں تو یہ آن بکثرت معتبر روایات کے خلاف ہے جو خود آپ ہی کے بڑے بڑے ثقہ راویوں اور عالموں کے طریقوں سے منقول ہیں کہ پیغمبر(ص) کے نزدیک امت کے مردوں میں سب سے زیادہ محبوب علی علیہ السلام تھے۔

پیغمبر(ص) کے نزدیک علی(ع) تمام مردوں سے زیادہ محبوب تھے

چنانچہ شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب ۵۵ میں ترمذی سے بریدہ کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا " کان احب النساء فی رسول الله فاطمة و من الرجال علی "

( یعنی پیغمبر کے نزدیک عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ(س) اور مردوں میں علی علیہ السلام تھے)

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب ۹۱ میں ام المومنین عائشہ کی سند سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا " ما خلق الله خلقا کان احب الی رسول الله من علی ابن ابی طالب " ( یعنی خدا نے کسی ایسی مخلوق کو پیدا نہیں کیا جو رسول اللہ کے لیے علی (ع) سے زیادہ محبوب ہو) اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ وہ حدیث ہے جس کو ابن عساکر نے اپنے مناقب میں اور ابن عساکر دمشقی نے ترجمہ حالات علی علیہ السلام میں روایت کیا ہے۔

محی الدین ( امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی ذخائر العقبی میں ترمذی سے نقل کرتے ہیں کہ عائشہ سے لوگوں نے پوچھا کہ رسول اللہ(ص) کے نزدیک کون عورت سب سے زیادہ محبوب تھی؟ انہوں نے کہا فاطمہ(س) پھر پوچھا کہ مردوں میں آںحضرت(ص) کو کون محبوب تر تھا؟ تو کہا کہ " زوجہا علی ابن ابی طالب" یعنی ان کے شوہر علی ابن ابی طالب۔

نیز مخلص ذہبی اور حافظ ابو القاسم دمشقی سے اور وہ عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

" ما رائيت رجلا احب الی النبی صلی الله عليه وآله وسلم من علی ولا احب اليه من فاطمة "

یعنی میں نے کسی مرد کو رسول (ص) کے

۲۰۴

نزدیک علی (ع) سے زیادہ محبوب نہیں دیکھا اور نہ فاطمہ(س) سے محبوب تر دیکھا۔

نیز حافظ خجندی سے اور وہ معاذۃ الغفاریہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں کہ میں عائشہ کے یہاں خدمت رسول(ص) میں مشرف ہوئی اور علی علیہ السلام گھر کے باہر موجود تھے، آںحضرت(ص) نے عائشہ سے فرمایا:

" انّ هذا احبّ الرجال الىّ و اكرمهم علىّ فاعرفى له حقّه و اكرمى مثواه"

یعنی یہ علی(ع) میرے نزدیک مردوں میں سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ ۔۔۔۔ باعزت ہیں لہذا انکا حق پہچانو اور ان کے مرتبے کی تعظیم و توقیر کرو) شیخ عبداللہ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی جو آپ کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص۹ میں، سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت میں اور محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص۶ میں ترمذی سے اور وہ جمیع بن عمیر سے نقل کرتے ہیں کہ کہ انہوں نے کہا میں اپنی پھوپھی کے ہمراہ ام المومنین عائشہ کے پاس گیا اور ہم لوگوں نے ان سے پوچھا کہ رسول خدا(ص) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخص کون تھا؟ عائشہ نے کہا کہ عورتوں میں فاطمہ(س) اور مردوں ان کے شوہر علی ابن ابی طالب۔

اسی روایت کو میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت یازدہم میں اتنے فرق کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جمیع نے کہا میں نے اپنی پھوپھی سے دریافت کیا تو یہ جواب ملا۔

نیز خطیب خوارزمی نے مناقب فصل ششم کے آخر میں جمیع بن عمیر سے اور انہوں نے عائشہ سے اس خبر کو نقل کیا ہے ۔ ابن حجر مکی صواعق محرقہ فصل دوم کے آخر میں حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں چالیس حدیثیں نقل کرنے کے بعد عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

" کانت فاطمة احب النساء الی رسول الله صلی الله عليه و آله و زوجها احب الرجال "

یعنی پیغمبر(ص) کے نزدیک عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ(س) اور مردوں میں سب سے زیادہ محبوب ان کے شوہر علی ابن ابی طالب(ع) تھے) نیز محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص۷ میں اس موضوع پر چند مفصل روایتیں نقل کرنے کے بعد اس عبارت کے ساتھ اپنے عقیدے اور تحقیق کا اظہار کرتے ہیں۔:

" فثبت بهذه الاحاديث الصحيحة والاخبار الصريحه ان فاطمة کانت احب الی رسول الله من غيرها و انها سيدة نساء اهل الجنة و انها سيدة نساء هذه الامة و سيدة نساء اهل الجنة "

یعنی احادیث صحیحہ اور اخبار صریحہ سے ثابت ہوا کہ فاطمہ(س) رسول اللہ(ص) کو اپنے علاوہ ہر ایک شخصیت سے زیادہ محبوب تھیں اور یقینا وہ بہشت کی عورتوں کی سردار اس امت کی عورتوں کی سردار اور مدینے کی عورتوں کی سردار تھیں۔)

پس یہ مطلب عقلی و نقلی دلائل سے ثابت ہے کہ علی و فاطمہ علیہما السلام سارے مخلوقات میں رسول اللہ(س) کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ اور پیغمبر(ص) ک نزدیک علی کی محبوبیت اور دوسروں پر فوقیت کے ثبوت میں ان تمام روایات سے زیادہ اہم مشہور و معروف حدیث طیر ہے جس سے مکمل طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی آں حضرت (ص) کو ساری امت میں سب سے زیادہ محبوب تھے اور یقینا آپ خود بھی خوب جانتے ہیںکہ حدیث طیر فریقین ( سنی شیعہ) کے درمیان اس قدر مشہور ہے کہ اس کو سند نقل کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن محترم حاضرین جلسہ کی وسعت نظر کے لیے تاکہ ان پر حقیقت مشتبہ نہ رہ جائے اور ان کو

۲۰۵

یہ خیال پیدا نہ ہو کہ شیعہ اس قسم کی حدیثوں کو وضع کرتے ہیں اس کے بعض اسناد جو اس وقت میری نظر میں ہیں عرض کرتا ہوں۔

حدیث طیر

بخاری ، ترمذی، نسائی، اور سجستانی نے اپنی معتبر صحاح میں، امام ابن حنبل نے مسند میں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ کے باب ۸ کو حدیث طیر اور اس کے روایات کے نقل سے مخصوص کیا ہے اور احمد بن حنبل ، ترمذی، موفق ابن احمد، ابن مغازلی ، سنن ابی داوود ، رسول کے غلام سفینہ، انس بن مالک اور ابن عباس سے روایت کی ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں حدیث طیر کو چوبیس راویوں نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے اور خصوصیت کے ساتھ مالکی نے فصول المہمہ میں اس عبارت کے ساتھ لکھا ہے کہ

" وذالک انه صح النقل فی کتب الاحاديث الصحيحه والاخبار الصريحه عن انس بن مالک "

جس کا مطلب یہ ہے کہ کتب احادیث صحیحہ اور اخبار صریحہ میں انس بن مالک سے حدیث طیر کی نقل مسلسل طور پر صحیح ہے ۔ سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص۲۳ میں فضائل احمد اور سنن ترمذی سے اور مسعودی نے مروج الذہب جلد دوم ص۴۹ میں حدیث کے آخری حصے کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں پیغمبر(ص) کی دعا اور اس کی قبولیت ہے امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی حدیث نہم میں اور حافظ بن عقدہ و محمد بن جریر طبری دونوں سے ہر ایک نے اس حدیث کے تواتر اسانید میں کہ اس کو پینتیس صحابہ نے انس سے روایت کیا ہے ایک مخصوص کتاب لکھی ہے اور حافظ ابو نعیم نے اس باب میں ایک ضخیم کتاب لکھی ہے خلاصہ یہ کہ آپ کے سارے اکابر علماءنے اس حدیث شریف کی تصدیق کی ہے اور اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے، چنانچہ صاحب زہد و ورع محقق و ثقہ علامہ سید حسین صاحب اعلی اللہ مقامہ نےجن کے علم و عمل اور تقوی کو جو ہندوستان میں اظہر من الشمس تھا آپ حضرات قریب ہونے کی وجہ سے اچھی طرح جانتے ہیں اپنی کتاب طبقات الانوار بڑی بڑی جلدوں میں سے ایک عظیم وضخیم جلد حدیث طیر سے مخصوص کر رکھی ہے اور اس میں آپ کے بزرگ علماء کی خاص کتابوں میں سے تمام معتبر اسناد جمع کردیے ہیں۔ اس وقت میں یہ نہیں بتا سکتا کہ اس حدیث کو کتنی سندوں کےساتھ نقل کیا ہے البتہ اس قدر یاد ہے کہ اس کے اسناد پڑھنے کے وقت میں ان سید بزرگوار کی زحمتوں اور اہم دینی خدمتوں کو دیکھ کر مبہوت ہوگیا تھا کہ ایک چھوٹی سی حدیث کو صرف آپ کے طریقوں سے کس طرح تواتر کےساتھ ثابت کیا ہے۔ان تمام اخبار کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ جملہ شیعہ و سنی مسلمانوں نے ہر دور اور ہر زمانے میں اس حدیث کی صحت کا اقرار و اعتراف اور تصدیق کی ہے کہ ایک روز کوئی عورت ایک بنا ہوا طائر ہدیے کے طور پر جناب رسول اللہ(ص) کی خدمت میں لائی ، آں حضرت(ص) نے اس کو تناول فرمانے سے پہلے بارگاہ الہی میں دست دعا بلند فرمائے اور عرض کیا

" اللّهم ائتني بأحبّ خلقك إليك يأكل معي من هذا الطير فجاء عليّ فأكل معه."

( یعنی پرودگارا جو شخص میرے اور تیرے نزدیک تیری مخلوق میں سب سے زیادہ

۲۰۶

محبوب ہو اس کو میرے پاس بھیج دے تاکہ اس بھنے ہوئے طائر میں سے میرے ساتھ نوش کرے، اس وقت علی علیہ السلام آئے اور آں حضرت(ص) کے ساتھ اس کو تناول کیا۔

اور آپ کی بعض کتابوں میں جیسے فصول المہمہ مالکی، تاریخ حافظ نیشاپوری، کفایت الطالب گنجی شافعی اور مسند احمد وغیرہ جن میں انس بن مالک سے روایت کی ہےاس طرح ذکر کیا کہ انس نے کہا، پیغمبر(ص) اس دعا میں مشغول تھے کہ علی(ع) گھر میں آئے میں نے بہانہ کر دیا اور اس کو پوشیدہ رکھا، تیسری مرتبہ آپ نے پاوں دروازے پر مارا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا ان کو آنے دو۔ جوں ہی علی(ع) پہنچے آنحضرت (ص) نے فرمایا " ماحسبک عنی یرحمک اللہ" خدا تم پر رحمت نازل کرے کس چیز نے تم کو میرے پاس آنے سے باز رکھا ؟ تو آپ نے عرض کیا کہ میں تین مرتبہ دروازے پر حاضر ہوا اور اب کی تیسری دفعہ میں آپ کی خدمت تک پہنچا۔ آںحضرت (ص) نے فرمایا اے انس تم کو کس چیز نے اس حرکت پر مجبور کیا کہ علی(ع) کو میرے پاس آنے سے منع کیا؟ میں نے عرض کیا کہ سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے آپ کی دعا سنی تو یہ تمنا پیدا ہوئی کہ میری ہی قوم کا کوئی شخص اس درجے پر فائز ہو۔ اب میں آپ حضرات سے سوال کرتا ہوں کہ آیا خدائے تعالے نے اپنے رسول خاتم الانبیاء(ص) کی دعا قبول فرمائی یا رد کردی؟

شیخ : بدیہی چیز ہے کہ خدا نے قرآن کریم میں چونکہ دعائیں قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ گرامی منزلت پیغمبر(ص) ہرگز کوئی بے جا درخواست نہیں کرتے لہذا قطعا آن حضرت(ص) کی خواہش اور دعا کو منظور اور قبول فرماتا تھا۔

خیر طلب " پس اس صورت میں خدائے جل و علا نے اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین فرد کو اختیار و انتخاب کر کے اپنے پیغمبر(ص) کے پاس بھیجا اور وہ ساری امت کے درمیان بزرگ و برتر محبوب جو کل مخلوقات میں سے چنا ہوا اور خدا و رسول کے نزدیک امت میں سب سے زیادہ محبوب تھا علی بن ابی طالب علیہ السلام تھے۔ چنانچہ خود آپ کےبڑے بڑے علماء نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ مثلا محمد بن طلحہ شافعی نےجو آپ کے فقہاء اور اکابر علماء میں سے تھے مطالب السئول باب اول فصل پنجم کے اوائل میں ص۱۵ پر حدیث رایت اور حدیث طیر کی مناسبت سے تقریبا ایک صفحے میں شیرین بیانی اور دل نشین تحقیقات کے ساتھ تمام امت کے درمیان خدا و رسول(ص) کی محبوبیت کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت و منزلت کو ثابت کیا ہے اور ضمنا کہتے ہیں

" و اراد النبی ان يتحقق الناس ثبوت هذه المنقبة المنسيئة والصفة العليه التی هی اعلی درجات المتقين لعلی الخ"

( یعنی پیغمبر(ص) نے ارادہ فرمایا کہ اس روشن منقبت اور بلند صفت کا جو پرہیزگاروں کےدرجات میں سب سے بالاتر ہے( یعنی خدا و رسول کا محبوب ہونا) علی (ع) کے اندر قائم ہونا لوگوں کی نگاہوں میں ثابت ہوجائے۔

نیز شام کے حافظ و محدث محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی سنہ۶۵۸ھ کفایت الطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب علیہ السلام باب۳۳ میں حدیث طیر کو اپنے معتبر اسناد کے ساتھ چار طریقوں سے اس اور سفینہ سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ محاملی نے اپنی جز نہم میں اس حدیث کو درج کیا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اس حدیث میں کھلی ہوئی دلالت ہے اس بات پر کہ علی علیہ السلام

۲۰۷

خدا کی بارگاہ میں کل مخلوق سے زیادہ پیارے ہیں اور اس مقصد پر سب دلیلوں سے اہم دلیل یہ ہے کہ خدا نے اپنے رسول (ص) کی وہ دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے لہذا جب رسول اللہ(ص) نے دعا کی تو خدا نے بھی فورا قبول فرمایا اور محبوب ترین خلق کو آنحضرت(ص) کی طرف بھیج دیا اور وہ علی علیہ السلام تھے۔

اس کے بعد کہتے ہیں کہ انس سے منقول حدیث طیر کو حاکم ابوعبداللہ حافظ نیشاپوری نے چھیاسی راویوں سے نقل کیا ہے اور ان سب نے انس سے روایت کی ہے۔ پھر ان چھیاسی افراد کے نام بھی لکھے ہیں۔ ( شائقین کفایت الطالب(۱) باب ۳۳ کی طرف رجوع فرمائیں اب ذرا آپ حضرات انصاف فرمائیں کہ آیا جو حدیث آپ نے نقل کی ہے وہ معارض حدیثوں اور بالخصوص حدیث رایت اور اس با عظمت حدیث طیر کے مقابلے میں آسکتی ہے؟ قطعا جواب نفی میں ہوگا۔ پس ایک آپ کی یک طرفہ حدیث سے ان احادیث کے مقابلے میں جن کو آپ کے اکابر علماء نے سوا چند متعصب کینہ پرور لوگوں کے نقل کیا ہے اور ان کی صحت کی تصدیق کی ہے ہرگز سند نہیں لی جاسکتی بلکہ وہ ارباب تحقیق اور صاحبان جرح و تعدیل کے نزدیک مردود اور ناقابل اعتبار ٹھہرتی ہے۔

شیخ : میرا خیال ہے آپ نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو کچھ ہم کہیں گے اس کو نہ مانیے گا اور کافی اصرار کےساتھ اس کو رد کیجئے گا۔

بیان حقیقت

خیر طلب : مجھ کو آپ جیسے عالم انسان سے سخت تعجب ہے کہ اتنے حاضرین جلسہ کے سامنے مجھ پر ایسا غلط الزام عائد کر رہے ہیں۔ کس وقت آپ حضرات ن علم و عقل اور منطق کے مطابق کوئی دلیل قائم کیجس کے مقابلے میں میں نے ضد سے کام لیا اور اس کو قبول نہیں کیا تاکہ اس کے نتیجے میں آپ کی سرزنش کا مستحق قرار پاوں ؟ میں خدا کی توفیق اور تائید سے محروم ہو جاوں اگر میرے اندر ہٹ دھرمی اور جاہلانہ تعصب و عناد کا شائبہ بھی ہو، یا برادران اہل سنت کے ساتھ عمومی یا خصوصی طور پر کوئی عداوت کا نظریہ رکھتا ہوں۔

میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ یہود و ںصاری اہل ہنود اور برہمنوں ، ایران میں ناقابل بہائیوں ہندوستان میں قادیانیوں یا مادہ اور طبیعت کے پجاریوں اور دوسرے مخالفین کے ساتھ بھی مناظروں میں کبھی میں نے ضد وغیرہ سے کام نہیں لیا، ہر مقام پر اور ہر وقت خدا پر نظر رکھی اور ہمیشہ میرا منطق علم و عقل اور منطق انصاف کے روسے حقیقت کو ظاہر کرنا رہا ہے۔ جب میں نے کافر ، مرتد اور نجس لوگوں سے ہٹ دھرمی نہیں کی ہے تو آپ کے ساتھ ایسا کیوں کر کرسکتا ہوں کیونکہ آپ لوگ ہمارے اسلامی بھائی ہیں۔ ہم سب ایک دین ایک قبلہ ایک کتاب کے ماننے والے اور ایک پیغمبر(ص) کے احکام کے تابع ہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ ابتداء سے آپ کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ غالبا ی بات۳۳ ہے جیسا کہ اس سے قبل کے حوالے میں موجود ہے۔ ۱۲ مترجم۔

۲۰۸

دماغ میں جو غلط فہمیاں راسخ اور عادت کی بنا پر طبیعت ثانیہ بن چکی ہیں ان کی کدورت منطق اور انصاف کے چھینٹوں سے بر طرف کردی جائے۔

خدا کے فضل سے آپ عالم ہیں اگر عادت ، اسلاف کی پیروی اور تعصب سے تھوڑا الگ ہوکر اںصاف کے دائرے میں آجائے تو ہم مکمل طور پر صحیح نتیجے تک پہنچ جائیں۔

شیخ : ہم نے شہر لاہور میں ہندووں اور برہمنوں کے ساتھ آپ کے مناظروں کاطریقہ روز ناموں اور ہفتہ وار اخبارات میں پرھا تھا جس سے ہم کو بہت خوشی ہوئی تھی اور باوجودیکہ ابھی آپ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن ایک قلبی تعلق محسوس کرنے لگے تھے۔ امید ہے کہ خدا ہم کو اور آپ کو توفیق دے تاکہ حق اور حقیقت ظاہر ہوجائے ۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ اگر روایات میں کوئی شبہ ہو تو جیسا کہ خود آپ نے فرمایا ہےقرآن کریم کی طرف رجوع کرنا چاہیئے ۔ اگر آپ خلیفہ ابوبکر کی فضیلت اور خلفائے راشدین کے طریقہ خلافت میں احادیث کو مشتبہ سمجھتے ہیں تو کیا آیات قرآن کریم کے دلائل میں بھی شک و شبہ وارد کیجئے گا؟

خیر طلب : خدا وہ دن نہ لائے کہ میں قرآنی دلائل یا صحیح احادیث میں شک کروں، فقط چیز یہ ہے کہ ہر قوم و ملت یہاں تک کہ دین سے منحرف و مرتد لوگوں سے بھی جب ہمارا مقابلہ ہوا ہے تو وہ بھی اپنی حقانیت پر قرآن کی آیتوں سے استدلال کرتے تھے چونکہ قرآن مجید کے آیات ذو معانی ہیں لہذا خاتم الانبیاء نے لوگوں کی افراط و تفریط اور مغالطوں کوروکنے کے لیے قرآن کو امت کے درمیان تنہا نہیں چھوڑا بلکہ باتفاق علمائے فریقین ( شیعہ وسنی) جیسا کہ پچھلی شبوں میں عرض کرچکا ہوں: " إنّي تارك فيكم الثقلين كتاب اللّه و عترتي ما إن تمسّكتم بهما فقد نجوتم " اور بعض روایات میں ارشاد ہے لن تضلوا ابدا ( یعنی در حقیقت میں تمہارے درمیان دو بزرگ چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، کتاب خدا اور میری عترت اگر ان دونوں ( کتاب وعترت ) سے تمسک رکھوگے ت نجات پاو گے اور ہرگز گمراہ نہ ہوگے ( رجوع ہو اس کتاب کے ص۹۲، ۹۳ کی طرف )

لہذا قرآن کے مفہوم و حقیقت اور شان نزول کو خود رسول اللہ(ص) سے جو قرآن کے حقیقی شارح ہیں اور ان حضرت کے بعد عدیل قرآن سے جو آن حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت ہیں دریافت کرنا چاہئے۔ جیسا کہ سورہ نمبر۲۱ (انبیاء) آیت ۷ میں ارشاد ہے " فاسئلوا أهل الذّكر إن كنتم لا تعلمون" ( یعنی اے ہمارے رسول امت سے کہہ دیجئے کہ) اگر تم خود جانتے ہوتو اہل ذکر اور صاحبان علم( یعنی آل محمد(ص) جو سب سے زیادہ عالم ہیں) سے دریافت کرو۔)

اہل ذکر آل محمد(ص) ہیں

اہل ذکر سے مراد حضرت علی(ع) اور آپ کی اولاد میں سے ائمہ علیہم السلام ہیں جو عدیل قرآن ہیں چنانچہ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودہ مطبوعہ اسلامبول باب۳۹ ص۱۱۹ میں امام ثعلبی کی تفسیر کشف البیان سے بروایت جابر ابن عبداللہ انصاری

۲۰۹

نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا " قال علی ابن ابی طالب نحن اہل الذکر " یعنی علی علیہ السلام نے فرمایا ہم ( خاندان رسالت) اہل ذکر ہیں۔ چونکہ ذکر قرآن کا ایک نام ہے اور اس جلیل القدر خاندان والے اہل قرآن ہیں اسی وجہ سے ہمارے اور آپ کے علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام فرماتے تھے:

" سلونى قبل ان تفقدونى سلونى عن كتاب اللَّه تعالى فان ه ليس من آية الّا قد عرفت بليل نزلت ام نهارا ام فی سهل ام فی جبل و ما نزلت آية إلّا و قد علمت فيمن نزلت و فيما نزلت و إنّ ربّي وهب لي لسانا طلقا و قلبا عقولا"

(یعنی پوچھ مجھ سے قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاو کتاب خدا کے متعلق مجھ سے دریافت کرو کیونکہ قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کو میں نہ جانتا ہوں کہ رات میں نازل ہوئی ہے یا دن میں ہوا اور زمین میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ میں۔ خدا کی قسم کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ہے لیکن یہ یقینا جانتا ہوں کہ کس بارے میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی اور کس پر نازل کی گئی ہے اور در حقیقت خدا نے مجھ کو فصیح زبان اور دانش مند دل عنایت فرمایا ہے) پس قرآن کی جس آیت سے بھی استدلال کیا جائے اس کو حقیقی مفہوم اور مفسرین کے بیان سے مطابق ہونا چاہئیے ورنہ اگر کوئی شخص اپنی طرف سے اور اپنے ذوق و فکر اور عقیدے کے روسے آیات قرآنی کی تفسیر کریگا تو سوا اختلاف بیان اور خیالات کی پراگندگی کے کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوگا اب اس تمہید کے پیش نظر میری درخواست ہے کہ اپنی منتخبہ آیات بیان فرمائیے اگر مقصد سے مطابقت کرے گی تو جان و دل سے قبول کر کے اپنے سر پر جگہ دوں گا۔

خلفائے اربعہ کے طریقہ خلافت میں نقل آیت اور اس کا جواب

شیخ : سورہ ۳۸ (فتح) آیت نمبر۲۹ میں کھلا ہوا ارشاد ہے :

"مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَ الَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُمْ تَراهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً- يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَ رِضْواناً سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ "

( یعنی محمد(ص) خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھی کافروں پر بہت سخت اور آپس میں ایک دوسرے پر شفیق ومہربان ہیں، ان کو تم زیادہ تر رکوع و سجود کے عالم میں دیکھو گے جو فضل و رحمت اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں، ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان پڑے ہوئے ہیں۔)

یہ آیہ شریفہ ایک طرف سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضل و شرف کو ثابت کررہی ہے اور دوسری طرف سے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے طریقہ خلافت کو معین کرتی ہے، بخلاف اس کے کہ جیسا کہ شیعہ فرقے والے دعوی کرتے ہیں کہ علی کرم اللہ وجہہ پہلے خلیفہ ہیں۔ یہ آیت صراحت کے ساتھ علی(ع) کو چوتھا خلیفہ ظاہر کرتی ہیں۔

خیر طلب : آیہ شریفہ کے ظاہر سے تو کوئی ایسی چیز و خلفائے راشدین کے طریقہ خلافت اور ابوبکر کی فضیلت پر دلالت کرتی ہو نظر نہیں آتی ، البتہ ضرورت اس کی ہے کہ آپ وضاحت کیجئے کہ یہ صراحت آیت میں کس مقام پر ہے جس کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔

۲۱۰

شیخ : خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت و شرافت پر آیت کی دلالت یہ ہے کہ آیت کے شروع میں کلمہ وَ الَّذِينَ مَعَهُ سے اس مرد بزرگ کی منزلت کی طرف اشارہ ہوا ہے جو آپ کو لیلۃ الغار میں پیغمبر(ص) کے ساتھ حاصل تھی ۔ اور خلفائے راشدین کا طریقہ خلافت بھی اس آیت میں پوری صراحت کےساتھ واضح ہے کیونکہ وَ الَّذِينَ مَعَهُ سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں جو شب ہجرت غار ثور میں پیغمبر(ص) کے ہمراہ تھے، أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ سے عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ مراد ہیں جو کفار پر بہت سخت گیری کرتے تھے، رُحَماءُ بَيْنَهُمْ عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ ہیں جو بہت رقیق القلب اور رحم دل تھے ۔" سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ " علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ہیں۔

امید ہے کہ یہ چیز آپ کے بے لوث خیال کے موافق ہوگی اور آپ تصدیق کیجئے گا کہ حق ہمارے ساتھ ہے جو علی(ع) کو چوتھا خلیفہ جانتے ہیں نہ کہ خلیفہ اول، کیونکہ خدا نے بھی قرآن میں ان کا ذکر چوتھے نمبر پر کیا ہے۔

خیر طلب: میں حیرت میں ہوں کہ جواب کس انداز میں عرض کروں تاکہ خود غرضی کا الزام عائد نہ ہو، اگر بغیر تعصب کے اںصاف کی ںظر سے دیکھیے تو تصدیق فرمائیے گا کہ کوئی غرض کار فرما نہیں ہے بلکہ مقصد صرف اظہار حقیقت ہے۔ علاوہ اس کے کہ از باب تفسیر نے یہاں تک کہ خود آپ کے علماء نے بڑی بڑی تفسیروں میں اس آیہ شریفہ کے شان نزول میں یہ مطلب بیان نہیں کیا ہے اگر یہ آیت قرآنی امر خلافت کے بارے میں ہوتی تو روز اول وفات رسول(ص) کے بعد حضرت علی علیہ السلام بنی ہاشم اور کبار صحابہ کے اعتراضات کے مقابلے میں فرضی شاخ بزرگ پیدا کرنے کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ یہ آیت پیش کر کے مسکت جواب دے دیا جاتا۔ پس معلوم ہوا کہ آیت کے جو معنی آپ نے بیان کئے ہیں وہ ایجاد بندہ ہیں جو مدتوں بعد حضرت ابوبکر و عمر کے طرف داروں نے تصنیف کئے ہیں۔

اس لیے کہ خود آپ کے اکابر مفسرین جسیسے طبری، امام ثعلبی، فاضل نیشاپوری، جلال الدین سیوطی، قاضی بیضاوی، جار اللہ زمخشری اور امام فخرالدین رازی وغیرہ نے بھی یہ تفسیر بیان نہیں کی ہے پس میں نہیں جانتا کہ آپ کہاں سے یہ بات کہہ رہے ہیں اور یہ معنی کس وقت سے اور کن اشخاص کے ہاتھوں پیدا ہوئے؟ اس کے علاوہ خود آیہ شریفہ میں علمی ، ادبی اور عملی موانع موجود ہیں جو ثابت کررہے ہیں کہ جو شخص اس قول کا قائل ہوا ہے اس نے بے کار ہاتھ پاوں مارے ہیں اور اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہوا ہے جس کو خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے اپنی تفسیروں کے شروع میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آن حضرت(ص) نے فرمایا : " ؟؟؟؟ القرآن برایہ فمقعدہ فی النار" یعنی جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے تو اس کا ٹھکانہ آگ میں ہے( اگر آپ کہئیے کہ تفسیر نہیں ہے تاویل ہے تو آپ حضرات باپ تاویل کو مطلقا مسدود جانتے ہیں، علاوہ اس کے یہ آیت شریفہ علم و ادب اور اصطلاح کے رو سے آپ کے مقصد کے برخلاف نتیجہ دے رہی ہے۔

شیخ : جھ کو یہ امید نہیں تھی کہ جناب عالی اتنی واضح آیت کے مقابلے میں بھی استقامت دکھائیں گے البتہ اگر آپ اس آیت میں کوئی ایراد حقیقت کے برخلاف رکھتے ہیں تو بیان کیجئے تاکہ اصلیت ظاہر ہو۔

۲۱۱

نواب : قبلہ صاحب میری خواہش ہے کہ جس طرح اب تک آپ ن ہماری درخواستوں کو قبول کیا ہے اور مطالب کو ایسے سادہ انداز میں بیان کیا ہے کہ تمام حاضرین جلسہ اور غیر حاضر اشخاص ان سے بہرہ مند ہوئے ہیں اس مقام پر بھی گفتگو میں انتہائی سادگی کا لحاظ فرمائیے ہم سب آپ کے ممنون ہوں گے کیونکہ یہی وہ آیت ہے جو برابر ہمارے سامنے پڑھی جاتی رہی ہے اور ہم سب کو اس کے ذریعہ حکم قرآن کا محکوم اور پابند بنایا گیا ہے۔

خیر طلب: پہلی چیز تو یہ ہے کہ آیت کی عظمت اور شعبدہ بازوں کے نقل قول نے آپ حضرات کو ایسا مبہوت بنا رکھا ہے کہ آیت کے حقیقی معنی اور رموز اسرار سے غافل ہوگئے ہیں، اگر آپ خود اپنی جگہ پر اس کے نحوی ترکیبات اور ادبی معانی پر تھوڑی توجہ کر لیتے تو معلوم ہوجاتا کہ یہ آیت آپ کے مقصد اور مراد سے ہرگز مطابقت نہیں کر رہی ہے۔

شیخ : التماس ہے کہ آپ ہی ضمائر و ترکیبات کو بیان کیجئے تاکہ ہم دیکھیں کیونکر مطابقت نہیں کرتی ہے۔

خیر طلب: ترکیبی جہت سے تو آپ خود بہتر سمجھتے ہیں کہ اس آیہ مبارکہ کی ترکیب یقینی طور پر دو حال سے خارج نہیں ہے۔ یا محمد مبتداء ہے ، رسول اللہ عطف بیان ، والذین معہ عطف بر محمد(ص) ، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے وہ خبر بعد از خبر ہے۔ یا والذین معہ مبتداء ہے ، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے وہ خبر بعد از خبر ہے۔

ان قواعد کے رو سے اگر ہم آپ کے عقیدے اور قول کے مطابق آیت کا ترجمہ کرنا چاہیں تو دو طرح کے معنی ظاہر ہوتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر و عمر، عثمان اور علی(ع) ہیں۔

اور اگر والذین معہ مبتداء ہو، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے خبر بعد از خبر تو آیت کے معنی اس طرح ہوتے ہیں کہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی(ع) ہیں۔ بدیہی چیز ہے جس کو ہر مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ کلام کا یہ طریقہ غیر معقول اور نظم ادب سے خارج ہے۔

علاوہ اس کے اگر آیہ شریفہ سے خلفائے اربعہ مراد ہوتے تو ضرورت تھی کہ کلمات کے درمیان واو عطف رکھا جاتا تاکہ آپ کے مقصود سے مطابق ہوجاتے ، حالانکہ صورت اس کے برخلاف ہے۔

آپ کے جملہ مفسرین نے اس آیہ شریفہ کو تمام مومنین کے حق میں قرار دیا ہے یعنی کہتے ہیں کہ یہ تمام مومنین کی صفتیں ہیں۔ اور ظاہر آیت خود دلیل ہے کہ یہ کل مطالب ایک شخص کی صفتیں ہیں جو ابتداء سے پیغمبر(ص) کے ساتھ تھا نہ کہ چار نفر اور اگر ہم کہیں کہ وہ ایک فرد امیرالمومنین علی علیہ السلام تھے تو یہ دوسروں کی نسبت عقل و نقل کے مطابق کہیں زیادہ قابل قبول ہے۔

آیہ غار سے استدلال اور اس کا جواب

شیخ : تعجب ہے کہ آپ فرماتے ہیں میں کج بحثی نہیں کرتا حالانکہ اس وقت آپ مجادلہ ہی کررہے ہیں۔ کیا ایسا

۲۱۲

نہیں ہے کہ خدا سورہ ۹ ( توبہ) آیت نمبر۴۰ میں صاف صاف فرماتا ہے:

" إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُما فِي الْغارِ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنا فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَ أَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْها."

( یعنی یقینا خدا نے ان کی ( رسول اللہ(ص) ) کی مدد کی جب کفار نے ان کو مکے سے خارج کردیا ، ان میں سے ایک(یعنی رسول اللہ(ص)) جو دونوں غار کے اندر تھے جس وقت اپنے ہم سفر سے ( یعنی ابوبکر سے جو مضطرب تھے) فرما رہے تھے غم نہ کرو یقینا خدا ہمارے ساتھ ہے۔ اس وقت خدا نے ان پر ( یعنی رسول اللہ پر) اپنی طرف سے سکون و وقار نازل فرمایا اور ان کی ان غیبی لشکروں سے امداد کی جن کو تم نے نہیں دیکھا۔)

یہ آیت علاوہ اس کے کہ آیت ، قبل کی موئد ہے اور والذین معہ کا مقصد ثابت کرتی ہے کہ ابوبکر غار میں شب ہجرت رسول اللہ(ص) کے ساتھ تھے خود یہ مصاحبت اور پیغمبر(ص) کی ہمراہی تمام امت پر ابوبکر کے فضل و شرف کی ایک بڑی دلیل ہے اس لیے کہ پیغمبر(ص) چونکہ علم باطن سے جانتے تھے کہ ابوبکر ان کے خلیفہ ہیں اور خلیفہ کا وجود ان کے بعد ضروری ہے اور اپنی ذات کے مانند ان کی بھی حفاظت کرنا چاہئے لہذا ان کو اپنے ہمراہ لے گئے تاکہ دشمن کے ہاتھ میں گرفتار نہ ہوجائیں۔ اور یہ بتاو مسلمانوں میں سے کسی اور کے ساتھ نہیں کیا، پس اسی جہت سے ان کے لیے تقدم خلافت کا حق ثابت ہوا۔

خیر طلب : اگر آپ حضرات کسی وقت سنیت کا لباس اتار کے اور تعصب وعادت سےالگ ہو کر ایک غیر جانبدار اور غیر متعصب انسان کے مانند اس آیہ شریفہ کے پہلووں پر غور کریں تو تصدیق کریں گے کہ جو نتیجہ آپ کے پیش نظر ہے وہ اس آیہ سے حاصل نہیں ہوتا۔

شیخ : بہتر ہے کہ اگر مقصد کے خلاف کچھ منطقی دلائل ہیں تو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : میری خواہش ہے کہ اس موقع سے چشم پوشی فرمائیے کیونکہ بات سے بات پیدا ہوتی ہے، اس وقت ممکن ہے کہ بعض غیر منصف لوگ اسی کو عداوت کی نظر سے دیکھیں ، آپس میں رنجش پیدا ہو اور یہ خیال قائم کیا جائے کہ ہم مقام خلفاء کی اہانت کرنا چاہتیے ہیں، حالانکہ ہر فرد کی حیثیت اپنی جگہ پر محفوظ ہے اور ان کے لیے بے جا تفسیر و تاویل کی احتیاج نہیں۔

شیخ : میری درخواست ہے کہ بغلیں نہ جھانکئے اور مطمئن رہئے ، منطقی دلائل رنجش نہیں پیدا کرتے ہیں بلکہ ان سے پردے ہٹتے ہیں۔

خیر طلب: چونکہ آپ نے بغلیں جھانکنے کا نام لیا ہے لہذا میں مجبور ہوں کہ ایک مختصر جواب پیش کردوں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ میں بغلیں نہیں جھانک رہا تھا بلکہ گفتگو میں ادب کا لحاظ مقصود تھا۔ امید ہے کہ میری باتوں میں عیب جوئی نہ کیجئے گا اور اںصاف کی نظر سے دیکھئے گا اس لیے کہ اس بحث کا جواب محققین علماء نے مختلف طریقوں سے دیا ہے۔

اولا : آپ کا یہ جملہ سخت حیرت انگیز اور سطحی تھا کہ رسول اللہ(ص) چونکہ یہ جانتے تھے کہ ابوبکر کے بعد خلیفہ ہوں گے اور خلیفہ کا تحفظ آن حضرت(ص) پر لازم تھا لہذا ان کو اپنے ہمراہ لے گئے۔

آپ کے اس بیان کا جواب بہت سادہ ہے کیونکہ اگر پیغمبر(ص) کے خلیفہ صرف ابوبکر ہی ہوتے تو ایسا احتمال پیدا کیا

۲۱۳

جاسکتا تھا لیکن آپ خود خلفائے راشدین کی خلافت پر اعتماد رکھتے ہیں اور وہ چار نفر تھے۔ اگر آپ کی یہ دلیل صحیح ہے اور خطرات سے خلیفہ محفوظ رکھنا لازم تھا تو پیغمبر(ص) کا فرض تھا کہ چاروں خلفاء کو جو مکے میں موجود تھے اپنے ساتھ لے جائیں ، نہ یہ کہ ایک کو لے جائیں اور دوسرے تین افراد کو چھوڑ دیں، بلکہ ان میں سے ایک کو تلواروں کے خطرے سے گھرے ہوئے مقام پر مقرر کریں، اور اپنے بستر پر لٹائیں جب کہ یقینی طور پر اس رات پیغمبر(ص) کا بستر خطرناک اور دشمنوں کے حملے کی زد میں تھا۔ (۱)

دوسرے اس بیان کی بنا پر جو طبری نے اپنی تاریخ جز سیم میں درج کیا ہے ابوبکر آنحضرت(ص) کی روانگی سے واقف ہی نہ تھے بلکہ جس وقت علی علیہ السلام کے پاس آئے اور آنحضرت(ص) کا حال دریافت کیر تو حضرت نے فرمایا کہ وہ غار میں تشریف لے گئے ہیں اگر ان سے کوئی کام ہے تو دوڑ جاو۔ ابوبکر دوڑتے ہوئے چلے اور درمیان راہ میں آنحضرت(ص) سے ملے گئے چنانچہ مجبورا ایک ساتھ روانگی ہوئی۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر(ص) خود ان کو اپنے ہمراہ نہیں لے گئے بلکہ وہ بلا اجازت گئے اور راستے کے درمیان سے آںحضرت(ص) کے ساتھ ہوگئے۔

بلکہ دوسری روایتوں کی بنا پر ابوبکر کو لے جانا اتفاقیہ اور فتنے اور دشمنوں کو خبر دے دینے کے خوف سے تھا جیسا کہ خود آپ کے منصف مزاج علماء نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے منجملہ ان کے شیخ ابوالقاسم بن صباغ جو

آپ کے مشاہیر علماء میں سے ہیں کتاب النور البرہان حالات رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محمد بن اسحق سے اور انہوں نے حسان بن ثابت اںصاری سے روایت کی ہے کہ میں آنحضرت (ص) کی ہجرت سے قبل عمرہ کے لیے مکہ گیا تو میں نے دیکھا کہ کفار قریش آنحضرت (ص) کے اصحاب کو سب و شتم کرتے ہیں چنانچہ اسی زمانے میں :

" امر رسول الله صلی الله عليه وآله عليا فنام فی فراشه و خشی من ابن ابی قحافه ابن يدلهم عليه فاخذه معه و مضي الی الغار "

( یعنی رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو حکم دیا کہ آپ کے بستر پر سو رہیں اور اس بات سے ڈرے کہ ابوبکر کفار کو پتہ دے دیں گے اور آنحضرت (ص) کی طرف ان کی رہنمائی کردیں گے لہذا ان کو اپنے ساتھ لے کر غار کی طرف روانہ ہوئے)

تیسرے مناسب یہ تھا کہ آپ آیت میں محل استشہاد اور وجہ فضیلت کو بیان کرتے کہ رسول خدا(ص) کے ہمراہ سفر کرنا اثبات خلافت پر کیا دلیل قائم کرتا ہے۔

شیخ : محل استشہاد ظاہر ہے اول تو رسول اللہ کی مصاحبت اور یہ کہ خدا ان کو رسول اللہ(ص) کا مصاحب کہتا ہے دوسرے آںحضرت(ص) کے قول سے کہ خبر دیتے ہیں : ان اللہ معنا۔ تیسرے اس آیت میں خدا کی جانب سے ابوبکر پر نزول سکینہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ بلکہ اس سے تو ہمارے موافق ایک اور دلیل قائم ہوتی ہے کہ جو شخص حقیقتا خلیفہ رسول ہونے والا تھا خدا اس کو محفوظ رکھنے کا ذمہ دار تھا ۔ لہذا اس کو خطرے میں چھوڑ گئے اور جس کا وجود بعد رسول ضروری نہیں تھا وہ قتل بھی کیا جاسکتا تھا لہذا اس کو ساتھ لے لیا۔ ۱۲ مترجم عفی عنہ۔

۲۱۴

شرف کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ اور ان دلائل کا مجموعہ ان کے لیے افضلیت اور تقدم خلافت کے حق کو ثابت کر رہا ہے۔

خیر طلب : یقینا کسی شخص کو ابوبکر کے ان مراتب سے انکار نہیں ہے کہ وہ بوڑھے مسلمان سن رسیدہ اصحاب میں سے اور رسول خدا کی بیوی کے باپ تھے لیکن آپ کے یہ دلائل فضیلت خاص اور خلافت میں حق تقدم کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اگر آپ چاہیں کہ اپنے ان بیانات سے جو آپ نے اس آیہ شریفہ کے بارے میں دیے ہیں ، کسی بے غرض اور غیر متعلق انسان کے سامنے ان کی کوئی خاص فضیلت ثابت کریں تو قطعی طور پر آپ اعتراض کی زد میں آجائیںگے کیونکہ وہ آپ کے جواب میں کہے گا کہ تنہا نیک لوگوں کی مصاحبت فضیلت و برتری کی دلیل نہیں ہوا کرتی کتنے زیادہ - ایسے ہیں جنہوں نے نیکوں کی مصاحبت کی اور وہ کتنے زیادہ کفار وہ ہیں جو مسلمانوں کے مصاحب تھے اور ہیں۔ چنانچہ یہ حقائق مسافرت میں اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں۔

شواہد اور مثالیں

غالبا آپ حضرت بھول گئے ہیں کہ سورہ ۱۲ ( یوسف) آیت نمبر۴۹ میں خدائے تعالے حضرت یوسف کا قول نقل فرماتا ہے :

" يا صاحِبَيِ السِّجْنِ أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ"

( یعنی اے میرے دونوں قید خانے کے رفیقو آیا متفرق خدا( جیسے اشنام و فراعنہ) اچھے ہیں ( جو پے حقیقت اور مجبور ہیں) یا خداے یکتا جو صاحب قہر و غلبہ ہے۔)

مفسرین نے اس آیہ شریفہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ جس روز یوسف(ع) کو قید خانے میں داخل کیا، پانچ سال یہ تینوں افراد مومن و کافر) ایک دوسرے کے مصاحب رہے اور یوسف تبلیغ کے موقع پر ان کو اپنا مصاحب کہتے بھی ہیں جیسا کہ اس آیت میں خبر دی گئی ہے تو کیا پیغمبر(ص) کی مصاحبت ان دونوں کافر شخصوں کے لیے شرف اور فضیلت کی دلیل تھی ؟ یا دوران مصاحبت میں ان کے عقیدے کے اندر کوئی تغییر پیدا ہوا؟ صاحبان تفاسیر و تواریخ کی تحریریں تو یہی بتاتی ہیں کہ پانچ سال صحبت میں رہنے کے بعد بھی آخر کار اسی حالت میں ایک دوسرے سے الگ ہوئے ۔ نیز سورہ ۱۸ ( کہف) آیت ۴۵ کی طرف توجہ فرمائیے جس میں ارشاد ہے:

"قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَ هُوَ يُحاوِرُهُ أَ كَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا."

(یعنی اس کے ( باایمان اور فقیر) رفیق نے گفتگو اور نصیحت کے موقع پر اس سے کہا کہ کیا تو نے اس خدا کے ساتھ کفر اختیار کیا ۔ جس نے تجھ کو پہلے مٹی سے اس کے بعد نطفے سے پیدا کیا اور پھر ایک مکمل آدمی بنا دیا)

مفسرین نے عام طور سے لکھا ہے کہ دو بھائی تھے ایک مومن جس کا نام یہود اور دوسرا کافر جس کا نام راطوس تھا( جیسا کہ امام فخر رازی بھی جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں اپنی تفسیر کبیر میں نقل کرتے ہیں) یہ دوںوں آپس میں کچھ بات چیت رکھتے تھے جس کو مفصل نقل کرنے کا وقت نہیں ہے۔ غرضیکہ خدا نے ان دو کافر فرد مومن کو ایک دوسرے کا مصاحب فرمایا ہے تو کیا

۲۱۵

مومن بھائی کی مصاحبت کا ذکر فائدہ اور فیض پہنچا؟ ظاہر ہے کہ جواب قطعا میں سے۔

پس صرف مصاحبت فضیلت و شرافت ، اور برتری کی دلیل نہیں ہوا کرتی ، جس کے دلائل اور نظائر بہت ہیں۔لیکن وقت اس سے زیادہ بیان کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

اور جو آپ نے یہ فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر سے فرمایا ان اللہ معنا لہذا اس لحاظ سے کہ خدا ان کے ساتھ تھا قطعا یہ بات بھی دلیل شرافت اورخلافت کو ثابت کرنے والی ہ۔

تو بہتر ہوگا کہ اپنے ان عقائد اور الفاظ پر ذرا نظر ثانی فرمالیجئے تاکہ اس اعتراض کا نشانہ نہ بن جائیے کہ خدائے تعالی کیا صرف مومنین اور اولیاء اللہ کے ساتھ رہتا ہے اور غیر مومن کے ساتھ نہیں رہتا؟ آیا کوئی ایسی جگہ بیٹھے ہوں تو کیا عقل باور کرتی ہے کہ خدا اس مومن کے ساتھ ہو لیکن کافر کے ساتھ نہ ہو؟ کیا سورہ ۵۸( مجادلہ) آیت نمبر۷ میں خدا نہیں فرماتا ہے کہ:

"الم تر ان الله يَعْلَمُ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ وَ لا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سادِسُهُمْ وَ لا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَ لا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ ما كانُوا"

( یعنی بطریق استفہام تقریری فرماتا ہے کہ آیا تم نے نہیں دیکھا اور نہیں جانا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین کے اندر ہے خدا اس سے واقف ہے چنانچہ اگر تین شخص آپس میں راز کی باتیں کریں تو خدا ان کا جو تھا ہوگا اگر باغ شخص ہوں تو خدا، ان کا چھٹا ہوا گا۔ اور نہ اس سے کم اور زیادہ ہوسکتے ہیں بغیر اس کے کہ چاہیے جہاں ہوں خدا ان کے ساتھ ہوگا (کیونکہ وجود الہی عالم کے ہر جزو کل پر احاطہ کامل رکھتا ہے، پس اس آیت اور دوسری آیات اور دلائل عقلیہ و نقلیہ کے پیش نظر خدائے تعالی دوست و دشمن ، مسلمان و کافر، مومن منافق ہر شخص کے ساتھ ہے۔ پس اگر دو نفر ایک جگہ ہوں اور ان میں سے ایک کہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے تو کسی شخص خاص کی فضیلت پر دلیل نہ ہوگی۔ جس طرح سے کہ وہ نیک آدمی اگر یک جا ہوں تو خدا ان کے ساتھ ہے اسی طرح دو برے آدمی یا ایک اچھا ایک برا اکٹھا ہوں تو قطعا خدا ان دونوں کے ہمراہ ہوگا چاہیے وہ سعید ہوں یا شقی، نیک ہوں یا بد۔)

شیخ : اس سے مراد کہ خدا ہمارے ساتھ ہے یہ تھی کہ چونکہ ہم خدا کے محبوب ہیں اس لیے کہ خدا کی یاد میں، خدا کے لیے اور دین خدا کی حفاظت کی غرض سے روانہ ہوئے ہیں لہذا لطف خداوندی ہمارے شامل حال ہے۔

اظہار حقیقت

خیر طلب : اگر یہ مطلب لیا جائے تب بھی قابل اعتراض ہے اور کہا جائے گا کہ ایسا خطاب ابدی سعادت پر دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ خدائے تعالے اشخصاص کے اعمال دیکھتا ہے، کتنے ہی لوگ ایسے گزرے ہیں جو ایک زمانے میں نیک اعمال بجالاتے تھے اور لطف و رحمت خداوندی ان کے شامل حال تھی۔ اس کے بعد ان سے برے اعمال سرزد ہوئے

۲۱۶

اور امتحان کے وقت نتیجہ برعکس نکلا تو پروردگار کے مبغوض ہوگئے اور لطف و رحمت الہی سے محروم ہو کر راندہ درگاہ اور مردود و ملعون ہوگئے۔ چنانچہ ابلیس ایک مدت تک خلوص نیت کے ساتھ عبادت خدا میں مشغول رہا تو الطاف و مراحم خداوندی سے سر فراز تھا لیکن جونہی اس نے سرکشی کی اور احکام الہی سےمنہ موڑ کر ہوائے نفس کا تابع ہوا تو مردود بارگاہ اور اس کی بے حساب رحمتوں سے محروم ہو کر خطاب :

" فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ وَ إِنَ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلى يَوْمِ الدِّينِ "

( یعنی سورہ نمبر۱۵ ( حجر) آیت نمبر۳۴ میں اس پر حق کامیاب ہوا کہ صفوف ملائکہ اور بہشت سے نکل جائے اور راندہ درگاہ ہوگیا اور تجھ پر روز قیامت تک حتمی طور پر ہماری لعنت ہے کہ ساتھ ملعون بدی بن گیا۔)

معاف فرمائیے گا مثل میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ یہ ذہنوں کو مطلب سے قریب لانے کے لیے ہے اور اگر ہم عالم بشریت پر نظر ڈالیں تو ایسے اشخاص کی بہت سی نظیریں ملیں گی جو درگاہ باری تعالی میں مقرب ہوئے لیکن امتحان کے موقع پر مردود و مغضوب پروردگار قرار پائے نمونے کے طور پر ہم دو شخصوں کا ذکر کرتے ہیں جن کی طرف قرآن مجید نے بھی انسانوں کی بیداری اور غافلوں کی تنبیہ کے لیے ارشاد فرمایا ہے۔

بلعم بن باعوراء

من جملہ ان کے بلعم بن باعوراء ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں اس قلہ مقرب الہی ہوا کہ خدا نے اس کو اسم اعظم عطا فرمایا چانچہ اپنی ایک دعا کے اثر سے اس نے حضرت موسی(ع) کو وادی میں تیہ میں سرگردان کردیا، لیکن امتحان کی منزل میں جب جاہ و ریاست طلبی نے اس کو خدا کی مخالفت اور شیطان کی پیروی پر آمادہ کردیا اور نار جہنم اس کا ٹھکانہ بن گیا۔

تمام مفسرین و مورخین نے تفصیل کے ساتھ اس کا حال لکھا ہے یہاں تک کہ امام فخررازی نے بھی اپنی تفسیر جلد چہارم ص۴۶۳ میں ابن عباس ، ابن مسعود اور مجاہد سے اس کا قصہ نقل کیا ہے ۔ خدا سورہ نمبر۷ (اعراف) آیت نمبر۱۷۴ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ :

" وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِى ءَاتَيْنَهُ ءَايَتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَنُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ"

( یعنی ( اے پیغمبر(ص)) ان لوگوں پر اس شخص ( یعنی بلعم بن باعوراء) کی حکایت بیان کرو جس کو ہم نے اپنی ؟؟؟؟؟ عطا کیں پس اس نے ان آیات سے روگردانی کی چنانچہ شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں شامل ہوگیا۔)

برصیصائے عابد

دوسرا برصیصا عابد تھا جس نے اولا عبادت میں اس قدر کوشش کی کہ مستجاب الدعوات ہوگیا لیکن امتحان کے وقت

۲۱۷

اس کا انجام خراب نکلا ، شیطان کے فریب میں مبتلا ہو کر ایک لڑکی سے زنا کیا، اپنی ساری محنتوں کو برباد کردیا، دار پر لٹکایا گیا اور دنیا سے کافر اٹھا ۔ چنانچہ سورہ۵۹ ( حشر) آیت نمبر۱۶ میں اس کے واقعے کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔

"كَمَثَلِ الشَّيْطانِ إِذْ قالَ لِلْإِنْسانِ اكْفُرْ- فَلَمَّا كَفَرَ قالَ إِنِّي بَرِي ءٌ مِنْكَ- إِنِّي أَخافُ اللَّهَ رَبَّ الْعالَمِينَ- فَكانَ عاقِبَتَهُما أَنَّهُما فِي النَّارِ خالِدَيْنِ فِيها- وَ ذلِكَ جَزاءُ الظَّالِمِينَ "

( یعنی یہ منافق مثل میں شیطان کے مانند ہیں جس نے انسان سے ( یعنی برصیصائے عابد سے) کہا کہ کفر اختیار کر اور جب وہ کافر ہوگیا تو اس سے کہا کہ میں تجھ سے بیزار ہوں کیونکہ میں پروردگار کے عذاب سے ڈرتا ہوں پس ان دونوں ( شیطان و برصیصا) کا یہ انجام ہوا کہ وہ دونوں ہمیشہ جہنم میں رہیں گے یہی دوزخ ظالمین کا بدلا ہے۔)

غرضیکہ آدمی سے اگر کسی زمانے میں کوئی نیک عمل صادر ہوا ہے تو یہ اس کا انجام بخیر ہونے کی دلیل نہیں ہے ، اس وجہ سے ہدایت ہے کہ دعا میں کہو " اللہم اجعل عواقب امورنا خیرا" یعنی خداوندا ہمارے امور کے نتائج نیک قرار دے۔

ان چیزوں کے علاوہ آپ خود جانتے ہیں کہ علمائے معانی و بیان کے نزدیک طے شدہ بات ہے کہ کلام میں تاکید کا ذکر اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک مخاطب شک اور شبہ میں مبتلا نہ ہو یا اس کے خلاف نہ سوچ رہا ہو، اور آیہ شریفہ کا تصریح سے جس نے اپنا کلام جملہ اسمیہ اور ان مشددہ کے ساتھ پیش کیا ہے دوسرے فریق کے عقیدے کا فساد ظاہر ہوتا ہے کہ متزلزل و متوہم اور شک و شبہ میں مبتلا تھا۔

شیخ : انصاف کیجئے، آپ جیسے انسان کے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ اس محل پر ابلیس بلعم بن باعوراء اور برصیصاء کی مثل پیش کریں۔

خیر طلب : معاف کیجئے ، شاید آپ نے سنا نہیں میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ مثل میں کوئی برائی نہیں ہے ،کیونکہ علمی مباحثات اور مذہبی مناظرات میں ذہنوں کو قریب کرنے اور مقاصد کو ثابت کرنے کے لیے مثالیں بیان کی جاتی ہیں خدا شاہد ہے کہ شواہد و امثال کے ذکر میں میں نے کبھی اہانت کا قصد نہیں کیا بلکہ اپنے نظریئے اور عقیدے کے ثبوت میں جو ںظریں اور مثالیں سامنے آتی ہیں پیش کردیتا ہوں۔

شیخ : اس آیت کے اندر اثبات فضیلت کی دلیل خود آیہ کریمہ کا ایک قرینہ ہے کہ فرماتا ہے" فانزل اللہ سکینۃ علیہ " چنانچہ سکینہ کی ضمیر ابوبکررضی اللہ عنہ کی طرف ہونا دوسروں پر ان کی شرافت و فضیلت اور آپ جیسے لوگوں کا وہم دور کرنے کے لیے خود ایک واضح دلیل ہے۔

خیر طلب: آپ کو دھوکا ہو رہا ہے ، سکینہ کی ضمیر رسول اکرم صلی اللہ علی و آلہ وسلم کی طرف پھرتی ہے اور نزول سکینہ آنحضرت (ص) پر ہوا تھا نہ کہ ابوبکر پر، جس کا قرینہ بعد والے جملے میں موجود ہے کہ فرمایا " وایدہ بجنود لم تروہا" اوریہ حقیقت ہے کہ غیبی لشکروں کی تائید رسول اللہ (ص) کےلیے تھی نہ کہ ابوبکر کے لیے۔

۲۱۸

شیخ : یہ مسلم ہے کہ جنود حق کی تائید رسول خدا(ص) کے لیے تھی لیکن، ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آنحضرت(ص) کی مصاحبت میں بے بہرہ نہ تھے۔

نزول سکینہ رسول خدا(ص) پر ہوا

خیر طلب : اگر الطاف و مراحم الہیہ میں دونوں ہستیاں شامل تھیں تو قاعدے کے رو سے آیہ شریفہ کے تمام جملوں میں تثنیہ کی ضمیریں ہونا لازمی تھا حالانکہ قبل و بعد کی تمام ضمیریں مفرد استعمال ہوئی ہیں تاکہ ذات خاتم الانبیاء (ص) کے مدارج ثابت ہوجائیں اور معلوم ہوجائے کہ پروردگار کی جانب سے جو کچھ ، جہت و مرحمت نازل ہوتی ہے وہ آں حضرت کی ذات سے مخصوص ہوتی ہے اور اگر آنحضرت(ص) طفیل میں دوسروں پر بھی نازل ہو تو ان کا نام ظاہر کیا جاتا ہے۔ لہذا سکینہ و رحمت کے نزول میں بھی اس آیت اور دوسری آیتوں میں صرف پیغمبر(ص) کو مورد عنایت قرار دیا ہے۔

شیخ : رسول خدا(ص) نزول سکینہ سے مستثنی تھے، ان کو اس کی کوئی احتیاج نہ تھی اور سکینہ ہرگز ان سے جدا نہیں ہوتا تھا پس نزول سکینہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مخصوص تھا۔

خیر طلب : آپ کیوں بے لطفی کی باتیں کرتے ہیں اور بار بار انہیں مطالب کو دہرا کے جلسے کاوقت لیتے ہیں۔ آپ کس دلیل سے کہتے ہیں کہ خاتم الانبیاء نزول سکینہ سے مستثنی تھے حالانکہ افراد خلائق میں سے پیغمبر(ص) و امت ،امام اور ماموم کوئی شخص بھی حق تعالی کے الطاف و عنایات سے مستغنی نہیں ہے ۔ کیا آپ سورہ نمبر۹ ( توبہ) کی آیت نمبر۲۶ کو بھول گئے ہیں جو حنین کے واقعے میں کہتی ہے "ثُمَ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلى رَسُولِهِ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ" ( یعنی اس وقت اللہ نے اپنے سکینہ و وقار ( یعنی شکوہ و سطوت اور جلال ربانی) کو اپنے رسول اور مومنین پر نازل فرمایا) نیز سورہ نمبر۴۸ (فتح) کی آیت نمبر۲۶ بھی اسی آیت شریفہ کے مانند ہے۔

جس طرح سے کہ اس آیت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد مومنین کی طرف اشارہ کیا ہے آیت غار میں بھی اگر ابوبکر ان مومنین کی ایک فرد ہوتے جن کو سکینہ و وقار میں شامل ہونا چاہیئے تو ضرورت تھی کہ تثنیہ کی ضمیر ہوتی یا علیحدہ ان کے نام کا ذکر کیا گیا ہوتا۔ یہ قصہ اتنا واضح ہے کہ خود آپ کے منصف علماء نے بھی اقرار کیا ہے کہ سکینہ کی ضمیر ابوبکر سے متعلق نہیں تھی۔ بہتر ہے کہ آپ حضرات کتاب نقض العثمانیہ مولفہ ابوجعفر محمد بن عبداللہ اسکافی کو جو آپ کے اکابر علماء اور شیوخ متعزلہ میں سے ہیں مطالعہ کیجئے تو دیکھئے گا کہ اس مرد عالم و منصف نے ابو عثمان بن حظ کی لا طائل باتوں کے جواب میں کس طرح حق کو آشکار کیا ہے، چنانچہ ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص۲۵۳ تا ص۲۸۱ میں ان میں سے بعض جواب نقل کئے ہیں۔

۲۱۹

علاوہ ان چیزوں کے خود آیت میں ایک ایسا جملہ موجود ہے جس سے مکمل طور پر آپ کے مقصد کے بر خلاف نتیجہ نکلتا ہے ۔ اور وہ جملہ یہ ہے کہ رسول اللہ(ص) نے لا تحزن کہہ کے ابوبکر کو حزن و اندوہ سے منع فرمایا۔ اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر اس حال میں غم زدہ تھے۔ تو ابوبکر کایہ حزن آیا کوئی اچھا عمل تھا یا برا؟ اگر عمل نیک تھا تو پیغمبر(ص) کسی کو عمل نیک اور اطاعت حق سے قطعا منع نہیں فرماتے اور اگر عمل بد اور گناہ تھا تو ایسے عمل والے کے لیے کوئی شرف و بزرگی نہیں ہوتی جس سے خدا کی رحمت اس کے شامل حال ہو اور وہ نزول سکینہ کا محل قرار پائے۔ بلکہ شرافت و فضیلت صرف مومنین اولیاء اللہ کے لیے ہوتی ہے۔

اور اولیاء اللہ کے لیے کچھ علامتیں ہوتی ہیں جن میں قرآن مجید کے بیان کی بناء پر سب سے اہم یہ ہے کہ حادثات زمانہ کے مقابلے میں ہرگز خوف و حزن اور غم و اندوہ کا اظہار نہ کریں بلکہ صبر و استقامت اختیار کریں، چنانچہ سورہ نمبر۱۰ (یونس) آیت نمبر۶۲ میں ارشاد ہے "أَلا إِنَ أَوْلِياءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ ."

(یعنی آگاہ ہو کہ دوستان خدا کے دلوں میں ( آئندہ حادثات زمانہ کا ) کوئی خوف نہیں ہوتا اور نہ وہ ( دنیا کی اپنی گذشتہ مصیبتوں پر ) غم و اندوہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔)

جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو مولوی صاحبان گھڑیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ رات نصف سے کافی زیادہ گزر چکی ہے۔ نواب صاحب نے کہا کہ ابھی آیت کے بارے میں میں قبلہ صاحب کا بیان مکمل نہیں ہوا ہے اور کوئی آخری نتیجہ ہمارے ہاتھ نہیں آیا ہے ۔ ان حضرات نے کہا کہ ہم اس سے زیادہ زحمت دینا مناسب نہیں سمجھتے لہذا بقیہ باتین کل شب کے لیے ملتوی کی جاتی ہیں۔ چونکہ یہ اسلامی عیدوں میں سب سے بزرگ یعنی عید بعثت کی شب تھی۔ لہذا جلسے میں شربت اور مختلف اقسام کی شیرینی آئی اور مسرت و شادمانی کےساتھ یہ نشست تمام ہوئی۔)

چھٹی نشست

شب چہار شنبہ ۲۸ رجب سنہ۱۳۴۵ھ

( قبل غروب جناب غلام امامین صاحب جو اہل تسنن میں سے ایک معزز تاجر اور شریف و متین انسان ہیں اور پہلی ہی شب سے شریک جلسے تھے تشریف لائے، انہوں نے بہت تہذیب کے ساتھ پر جوش انداز میں ایک مفصل بیان دیا جس کاخلاصہ یہ تھا کہ میں نے ذرا جلد آکر آپ کو اس لیے زحمت دی کہ آپ کی توجہ اس طرف مبذول کراوں کہ آپ نے اپنے مدلل بیانات کے ذریعہ ہم میں سے متعدد افراد کو جذب کر لیا ہے ، دل مکمل طور پر متاثر ہیں اور ایسی نئی نئی باتین سننے میں آئی ہیں جن کو تقیہ کی بنا پر دوسرے لوگ بیان کرنے سے پرہیز کرتے تھے ۔ ہم بھی ان تمام چیزوں سے بالکل بے خبر تھے لیکن

۲۲۰

بحمداللہ آپ نے ہمت و شجاعت کے ساتھ پردے اٹھادیے اور ادب کے پیرائے میں ہم کو حقائق سے روشناس فرمایا۔گزشتہ شب جب ہم لوگ یہاں سے واپس ہوئے تو راستے میں کافی دیر تک حضرات علماء پر ہماری چوٹیں ہوتی رہیں اور آپس میں سخت گفتگو کی نوبت آگئی یہاں تک کہ ہم نے مشکل سے حالات کو درست کیا۔ ہمارے درمیان ایک عجیب دو رنگی پیدا ہوگئی ہے۔ آج کی شب مولوی صاحبان ہم سے بہت نالاں اور برگشتہ خاطر ہیں۔ اتنے میں نماز کا وقت آیا اور انہوں نے مغرب و عشاء کی نماز ہماری اقتداء میں پڑھی اور ہماری ہی طرح سےفریضہ ادا کیا۔ آہستہ آہستہ حضرات تشریف لائے چنانچہ معمولی خاطر و جواضع چائے نوشی اور از حد اظہار خلق و محبت کے بعد نواب عبدالقیوم صاحب کی طرف سے سلسلہ گفتگو شروع ہوا۔

نواب : قبلہ صاحب ہماری خواہش ہے کہ کل شب کے بیان کو مکمل کردیجئے تاکہ مطلب ناقص نہ رہ جائے ،اس لیے کہ ہم سب نتیجہ کلام اور آیت کے حقیقی مفہوم کے منتطر ہیں۔

خیر طلب : بشرطیکہ آپ حضرات (مولوی صاحبان کی طرف اشارہ ) آمادہ ہوں اور اجازت دیں۔

حافظ: ( ناراضگی کے ساتھ) کوئی حرج نہیں اگر ابھی کچھ باقی ہے تو فرمائیے ہم سننے کو تیار ہیں۔

خیر طلب : گزشتہ رات یہ کہنے والوں کے رد میں کہ یہ آیت شریفہ خلفائے راشدین کے طریقہ خلافت میں ذکر کی گئی ہے ہم نے ادبی دلائل پیش کئے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ مطالب کو دوسرے رخ سے زیر بحث لائیں تاکہ پردے ہٹیں اور حقیقت سامنے آجائے۔

جناب شیخ عبدالسلام نے گزشتہ شب میں فرمایا تھا کہ اس آیت کے اندر چار صفتین بتاتی ہیں کہ آیت خلفائے اربعہ اور ترتیب خلافت کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، لیکن اول تو فریقین کے بڑے بڑے مفسرین کی طرف سے اس آیہ شریفہ کی شان نزول میں ایسا کوئی بیان نہیں دیا گیا ہے، دوسرے آپ خود بہتر جانتے ہیں کہ کوئی صفت ہر پہلو سے موصوف کے ساتھ مطابقت کرتی ہے تب لائق اعتنا ہوتی ہے اور اگر صفت موصوف سے مطابق نہ ٹھہرے تو حقیقت کا مصداق نہیں بن سکتی۔

اگر بغیر محبت اور عداوت کے ہم اںصاف کی نگاہ سے دیکھیں اور تحقیق کریں تو دیکھیں گے کہ مندرجہ آیہ مبارکہ کے صفات کے حامل صرف حضرت امیرالمومنین صلوات اللہ علیہ تھے اور ہرگز یہ صفتین ان حضرات سے میل نہیں کھاتیں جن کو شیخ صاحب نے بیان کیا ہے۔

حافظ : کیا یہ ساری آیتیں جو آپ نے علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں نقل کیں کافی نہیں تھیں جو آپ چاہتے ہیں کہ اس آیت کو بھی اپنی جادو بیانی کے زور سے علی(ع) کی شان میں ثابت کریں؟ فرمائیے دیکھیں کیونکر یہ خلفائے راشدین کی خلافت سے مطابقت نہیں کرتی۔

۲۲۱

علی علیہ السلام کی شان میں تین سو آیتیں

خیر طلب : آپ نے جو یہ فرمایا کہ آیات قرآنی کو ہم نے مولانا امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں وارد کیا ہے، تو آپ نے یہ ایک عجیب خلط مبحث کیا ہے۔ کیا اس سے آنکھ بند کی جاسکتی ہے کہ خود آپ کی تمام بڑی بڑی تفسیروں اور معتبر کتابوں میں قرآن مجید کی ان کثیر آیتوں کو نقل کیا گیا ہے جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں؟ نہ یہ کہ اس کو ہم سے مخصوص بتایا جائے آیا حافظ ابونعیم اصفہانی جنہوں نے، ما نزل من القرآن فی علی کو اور حافظ ابوبکر شیرازی جنہوں نے نزول القرآن فی علی کو مستقل حیثیت سے لکھا ہے شیعہ تھے ؟ آیا تمام بڑے بڑے مفسرین جیسے امام ثعلبی، جلال الدین، سیوطی ، طبری ، امام فخرالدین رازی اور اکابر علماء جیسے ابن کثیر، مسلم ، حاکم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابودائود اور احمد ابن حنبل وغیرہ، بیان تک کہ ابن حجر ایسے متعصب جنہوں نے صواعق محرقہ میں ان قرآنی آیات کو اکٹھا کیا ہے جو ان حضرت کی شان میں نازل ہوئی ہیں، شیعہ تھے ؟؟؟ بعض جیسے طبرانی نے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے باب62 کے شروع میں بسند ابن عباس اور محدث شام نے اپنی تاریخ کبیر میں نیز اور حضرات نے جو قرآن کی تین آیات تک ان حضرت کے بارے میں درج کی ہیں تو یہ شیعہ تھے یا آپ کے اکابر علماء اور پیشوا تھے

بہتر ہوگا کہ آپ حضرات تھوڑے غور و تامل کے ساتھ بیان کیا کریں تاکہ ندامت و پشیمانی کا باعث نہ ہو۔

ہم حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی منزلت ثابت کرنے میں کچھ گھڑنے اور وضع کرنے کے محتاج نہیں کہ زبردستی کسی آیت کو ان حضرت کی شان میں نقل کریں آپ کے مدارج آفتاب نصف النہار کی طرح ظاہر و ہویدا ہیں۔ یہ وہ خورشید تاباں ہے جو ابر کے پردے میں نہیں رہتا۔

امام محمد بن ادریس شافعی کہتے ہیں میں تعجب کرتا ہوں علی علیہ السلام سے کیونکہ ان حضرت کے دشمن ( بنی امیہ نواصب اور خوارج بغض و کینہ کی وجہ سے ان حضرت کے فضائل نقل نہیں کرتے اور دوستان علی(ع) بھی خوف و تقیہ کے سبب ذکر مناقب سے احتیاط کرتے ہیں اس کے با وجود کتابیں حضرت کے فضائل و مناقب سے پر ہیں جو ہر جگہ شمع محفل ہیں۔ چنانچہ اس آیت کے موضوع میں ہم کسی سحر آمیزی کو دخل نہیں دیتے بلکہ ان حقائق کو بیان کرتے ہیں جو پر ہم نے خود آپ کی معتبر کتابوں سے استدلال کیا ہے اور کرتے ہیں۔

آپ ملاحظہ فرمارہے ہیں کہ میں نے اب تک شیعہ روایات سے استدلال نہیں کیا ہے اور نہ انشاء اللہ آئندہ کروںگا میں نے منبروں پر اور تقریروں میں بار بار کہا ہے کہ اگر شیعوں کی تمام کتابیں درمیان سے ہٹائی جائیں تو میں صرف اکابر علمائے اہلسنت سے امیرالمومنین علیہ السلام کے مقام ولایت و خلافت اور اولویت کو بہترین طریقے پر ثابت کروں گا۔ چنانچہ اس آیہ شریفہ میں بھی میرا قول تنہا نہیں ہے کہ آپ کو سحر بیان میں مبتلا کروں بلکہ خود آپ کے علماء نے بھی اس مطلب کی

۲۲۲

تصدیق کی ہے۔ مجھ کو اچھی طرح سے یاد ہے کہ فقیہ و مفتی عراقین محدث شام محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب43 میں حدیث تشبیہ کو نقل کرتے ہوئے کہ رسول خدا(ص) نے علی (ع) کو انبیاء(ع) کی شبیہ قرار دیا ہے، کہتے ہیں کہ علی(ع) کوجو حکم و حکمت میں نوح(ع) کی تشبیہ فرمایا تو اس کا سبب یہ ہے کہ

" انه کان شديدا علی الکافرين رئوفا بالمومنين کما وصفه الله تعالی القرآن بقوله والذين معه اشداء علی الکفار رحماء بينهم "

یعنی در حقیقت وہ کافروں پر سخت اور مومنوں پر مہربان تھے، جیسا کہ خدا نے قرآن میں اس آیت سے ان کی تعریف کی ہے کہ علی(ع) ہمیشہ پیغمبر(ص) کے ساتھی تھے کفار پر سختی اور مومنین پر مہربانی کرنے والے تھے۔ اور جو شیخ صاحب نے یہ فرمایا کہ والذین معہ ابوبکر کے بارے میں ہے اس دلیل سے کہ چند روز غار میں رسول اللہ(ص) کے قریب رہے تو (حالانکہ کل شب کو عرض کرچکا ہوں کہ خود آپ ہی کے علماء نے لکھا ہے کہ اتفاقیہ طور پر اور آئندہ خطروں سے بچنے کے لیے ان کو ساتھ لے گئے تھے) اگر فرض کر لیا جائے کہ آنحضرت(ص) مخصوص طریقے سے ان کو اپنے ہمراہ لے گئے تو کیا ایسا مسافر جو چند روز سفر کے عالم میں آں حضرت(ص) کے ساتھ رہا ہو مرتبہ میں اس شخص کی برابری کرسکتا ہے جو اوائل عمر ہی سے رسول اکرم(ص) کے ہمراہ اور آن حضرت(ص) کی تعلیم و تربیت میں رہا ہو؟

اگر انصاف و حقیقت کی نظر سے دیکھیے تو تصدیق کیجئے گا کہ حضرت علی علیہ السلام اس خصوصیت میں ابوبکر اور ان تمام مسلمانوں سے اولی ہیں جو اس آیت کے مصداق بن سکیں کیونکہ آپ نے بچپن ہی سے رسول اللہ(ص) کےساتھ اور آنحضرت(ص) کے زیر تربیت نشو و نما پائی۔ بالخصوص ابتدائے بعثت سے سوا علی علیہ السلام کے دوسرا آن حضرت(ص) کے ساتھ نہیں تھا۔ علی (ع) اس دن بھی پیغمبر(ص) کے ہمراہ تھے جب ابوبکر ، عمر ، عثمان، ابوسفیان، معاویہ اور تمام مسلمان دین توحید سے منحرف اور بت پرستی میں غرق تھے۔

رسول اللہ(ص) پر سب سے پہلے ایمان لانے والے علی(ع) تھے

چنانچہ آپ کے اکابر علماء جیسے بخاری ومسلم نے اپنی صحیحین میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، ابن عبدالبر نے استیعاب جلد سیم ص32 میں، امام ابوعبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص63 میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب13 میں ترمذی و مسلم سے، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول فصل اولی میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص258 میں، ترمذی نے جامع ترمذی جلد دوم ص314 میں، حموینی نے فرائد میں امیر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں، یہاں تک کہ ابن حجر متعصب نے صواعق میں اور آپ کے دوسرے جید علماء نے الفاظ کے مختصر کمی و بیشی ے ساتھ ابن بن مالک نیز اور لوگوں سے نقل کیا ہے کہ " بعث النبی فی يوم الاثنين و آمن علی يوم الثلاث " یعنی پیغمبر(ص) دو شنبے کے روز مبعوث ہوئے اور علی(ع) سہ شنبہ کو ایمان لائے نیز روایت کی ہے " بعث النبی فی يوم الاثنين و صلی علی معهيوم الثلاث " یعنی پیغمبر(ص) دو شنبہ کے روز مبعوث ہوئے اور سہ شبنہ کو علی نے ان کے ساتھ نماز پڑھی) اور

۲۲۳

" انه اول من آمن برسول الله من الذکور " یعنی علی(ع) وہ پہلے مرد تھے جو رسول اللہ پر ایمان لائے۔

نیز طبری نے اپنی تاریخ جلد دوم ص241 میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص251 میں، ترمذی نے جامع جلد دوم ص215 میں، امام احمد نے مسند جلد چہارم ص368 میں، ابن اثیر نے کامل جلد دوم ص24 میں، حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد چہارم ص346 میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب 25 میں اپنے اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اول من صلی علی ( اسلام کے اندر) جس نے سب سے پہلے نماز ادا کی وہ علی(ع) تھے۔ اور زید ابن ارقم سے روایت کی ہے کہ" اول من سلم مع رسول الله علی ابن ابی طالب " یعنی جو شخص سب سے پہلے رسول اللہ(ص) کےساتھ اسلام لایا وہ علی(ع) ابن طالب تھے اور اسی قسم کی روایتیں آپ کی معتبر کتابوں میں بھری پڑی ہیں۔ لیکن نمونے کے لیے اسی قدر کافی ہیں۔

علی(ع) بچپن ہی سے پیغمبر(ص) کی تربیت میں

خصوصیت سے آپ کو اس طرف توجہ کرنا چاہئیے کہ آپ ہی کے ذی علم فقیہہ نور الدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ فصل تربیتہ النبی ص16 میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول فصل اول ص11 میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ جس سال مکہ معظمہ میں قحط پڑا تھا ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ( جو ابھی ظاہری طور پر مبعوث برسالت نہ ہوئے تھے) اپنےچچا عباس سے فرمایا کہ آپکے بھائی ابو طالب کثیر العیال ہیں اور زمانہ بھی بہت سخت ہے لہذا ہم لوگوں چل کے ان کی اولاد میں سے جس کومناسب سمجھیں ایک ایک نفر کو ا پنی کفالت میں لے لیں تاکہ میرے عزیز چچا کو بار ہلکا ہوجائے۔ عباس نے منظور کیا۔ دونوں حضرات مل کے جناب ابو طالب کے پاس گئے اور اپنے آنے کی غرض بیان کی ۔ چنانچہ ابوطالب راضی ہوگئے۔ چنانچہ عباس نے جناب جعفر طیار کو اپنے ذمے لیا اور رسول خدا(ص) نے حضرت علی(ع) کی ذمہ داری لی، اس کے بعد مالکی یہ عبارت لکھتے ہیں کہ

" فلم يزل عليّ مع رسول اللّه صلّى اللّه عليه وآله وسلّم حتّى بعثه اللّه نبيّافاتّبعه علي ّوآمن به وصدّقه و کان عمره اذ ذاک فی السنه الثالثه عشر من عمره لم يبلغ الحلم و انه اول من اسلم و آمن برسول الله من الذکور بعد خديجة"

( یعنی علی(ع) ہمیشہ رسول اللہ(ص) کے ساتھ رہے یہاں تک کہ خدا نے آنحضرت(ص) کو مبعوث برسالت فرمایا تو علی(ع) نے ان کی پیروی کی ان پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق کی، حالانکہ ابھی ان کی عمر کے صرف تیرہ سال گزرے تھے اور حد بلوغ میں نہیں پہنچے تھے، خدیجہ(ع) کے بعد مردوں میں آں حضرت(ص) پر سب سے پہلے اسلام و ایمان لانے والے یہی تھے۔)

۲۲۴

اسلام میں علی(ع) کی سبقت

پھر مالکی اسی فصل میں امام ثعلبی کا قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے سورہ نمبر9 ( توبہ) کی آیت نمبر106 " وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرِينَ وَالْأَنْصارِ" کی تفسیر میں اس طرح روایت کی ہے کہ ابن عباس جابر ابن عبداللہ اںصاری، زید بن ارقم، محمد بن منکور اور بعیتہ الرائی کہتے ہیں کہ خدیجہ کے بعد جو شخص سب سے پہلے رسول خدا(ص) پر ایمان لایا وہ علی(ع) تھے ۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ علی کرم اللہ وجہہ نے اس بات کی طرف اپنے اشعار میں اشارہ فرمایا ہے جن کو ثقات علماء نے آپ سے نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔

محمّدالنبي أخي وصنوي وحمزةسيّدالشهداءعمي

وبنت محمّدسكني وعرسي من وطلحمهابدمي ولحمي

وسبطاأحمدولداي منهافأيكم له سهم كسهمي

سبقتكم الى الاسلام طراعلى ماكان من فهمي وعلمي

فأوجب لي ولايته عليكم رسولاللّه يوم غديرخم

فويل ثم ويل ثم ويل لمن يلقى الإله غدابظلمي

( یعنی محمد رسول اللہ(ص) میرے بھائی اور میرے چچا کے بیٹے ہیں، اور حمزہ سید الشہداء میرے چچا ہیں اور فاطمہ بنت رسول اللہ(ص) میری زوجہ اور شریک زندگی ہیں۔ اور پیغمبر(ص) کے دونوں نواسے میرے دو فرزند ہیں فاطمہ(س) سے، پس تم میں سے کون ہے جس کا حصہ میرے حصے کے برابر ہو، پس تم سب سے پہلے اسلام لایا جب کہ میں کم سن تھا اور حد بلوغ کو نہیں پہنچا تھا، اور پیغمبر(ص) نے میرے لیے اپنی ولایت کو تم پر غدیر خم کے روز واجب کیا، پھر تین مرتبہ فرمایا کہ وائے ہو اس پرجو کل (روز قیامت) اس حالت میں خدا سے ملاقات کرے کہ اس نے مجھ پر ظلم کیا ہو۔)

محمد طن طلحہ شافعی نے مطالب السئول باب اول فصل اول کے ضمن میں ص11 پر اور آپ کے بڑے بڑے علمائے مورخین و محدثین نے نقل کیا ہے کہ حضرت نے یہ اشعار اس موقع پر معاویہ کے جواب لکھے تھے جب اس نے اپنے خط میں ان حضرت کے مقابلے میں فخر و مباہات کیا تھا کہ میرا باپ زمانہ جاہلیت میں سردار قوم تھا اور اسلام میں اس نے بادشاہی کی، اور میں خال المومنین، کاتب وحی اور مصاحب فضائلی ہوں۔

حضرت نے خط پڑھنے کے بعد فرمایا " ابا الفضائل يفخر علی ابن آکلة الاکباد " یعنی آیا میرے سامنے جگر چبانے والی ( یعنی معاویہ کی ماں ہندہ جس کے لیے احد میں سید شہداء حمزہ کا جگر لایا گیا اور اس نے منہ میں رکھ کر چبایا ) کو لڑکا فضائل

۲۲۵

فخر کرتا ہے۔ اس کے بعد مذکورہ بالا اشعار اس کو لکھے جن میں غدیر خم کی طرف اشارہ فرمایا اور ثابت فرمایا کہ آپ ہی امام و خلیفہ اور رسول خدا(ص) کے آں حضرت(ص) ہی کے حکم سے مسلمانوں کے امور میں اولی بہ تصرف ہیں۔ اور معاویہ باوجودیکہ آپ کا اتنا سخت مخالف تھا ان مفاخرات میں آپ کی تکذیب نہیں کرسکتا۔ نیز حاکم ابو القاسم اسکافی جو آپ کےبہت بڑے عالم اور آپ کے علماء کے معتمد علیہ ہیں آیہ مذکورہ کے ذیل میں عبدالرحمن ابن عوف سے نقل کرتے ہیں کہ قریش میں سے دس نفر ایمان لائے جن میں سب سے پہلے علی ابن ابی طالب(ع) تھے۔

آپ کے اکابر علماء جیسے احمد ابن حنبل مسند میں، خطیب خوارزمی مناقب میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب 12 میں انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ رسول (ص) نے فرمایا :

" لَقَدْصَلَّتِ الْمَلَائِكَةُعَلَيّ َوَعَلَى عَلِيِّ سَبْعَ سِنِين َوَذَلِكَ أَنَّهُ لَمْ تُرْفَعْ شَهَادَةُأَنْ لَاإِلَه إِلَّااللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّداًرَسُول ُاللَّهِ إِلَّامِنِّ يوَمِنْ عَلِيٍّ"

یعنی ملائکہ نے سات سال مجھ پر اور علی پر صلوات بھیجی کیونکہ اس مدت میں سوا میرے اور علی(ع) کے کسی اور کی طرف سے کلمہ شہادت آسمان کی جانب بلند نہیں ہوا۔

ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں ص375 سے ص378 تک آپ کے روایات و علماء کےسلسلوں سے بکثرت روایتیں نقل کی ہیں کہ علی علیہ السلام و ایمان میں سارے مسلمانوں سے آگے تھے اور تمام اخبار و اختلاف اقوال کے آخر میں کہتے ہیں :

" فدل مجم وعماذكرناعلى أن علياأول الناس إسلاماوأن المخالف في ذلك شاذوالشاذلايعتدبه انتهى كلامه."

یعنی یہ سب جو ہم نے ذکر کیا اس پر دلالت کرتا ہے کہ علی علیہ السلام سب سے پہلے اسلام لائے اور اس امر کے مخالف بہت کم ہیں اور قول شاذ قابل توجہ نہیں ہوتا۔

امام ابو عبدالرحمن نسائی نے جو ائمہ صحاح ستہ میں سے ایک ہیں خصائص العلوی کی پہلی چھ حدیثیں اسی موضوع میں نقل کی ہیں اور تصدیق کی ہے کہ سب سے پہلے رسول اللہ(ص) پر ایمان لانے والے اور آن حضرت(ص) کے ساتھ نماز پڑھنے والے علی علیہ السلام تھے۔

اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے یابیع المودۃ باب12 میں ترمذی، حموینی، ابن ماجہ، احمد حنبل، حافظ ابونعیم، امام ثعلبی، ابن مغازلی، ابوالموید خوارزمی اور دیلمی سے مختلف مضامین کےساتھ اکتیس (31) روایتیں نقل کی ہیں جن سب کا خلاصہ اور نتیحہ یہ ہے کہ علی علیہ السلام ساری امت سے پہلے اسلام و ایمان لائے یہاں تک کہ ابن حجر مکی جیسے متعصب نے بھی صواعق محرقہ فصل دوم میں انہیں مضامین کی روایتیں نقل کی ہیں، چنانچہ سلیمان بلخی حنفی نے بھی ینابیع المودۃ میں ان میں سے بعض رایتیں ان سے نقل کی ہیں اور ینابیع المودۃ باب14 کے آخر میں اپنے اسناد کےساتھ ابن زبیر مکی سے اور انہوں نے جابر ابن عبداللہ اںصاری سے مناقب کے سلسلے میں ایک مبارک روایت نقل کی ہے جس کو آپ حضرات کی اجازت سے ہیش کررہا ہوں تاکہ حجت تمام ہوجائے رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے:

"إِنَّ اللَّه َتَبَارَكَ وَتَعَالَى اصفَانِي وَاخْتَارَنِي وَجَعَلَنِي رَسُولًاوَأَنْزَل َعَلَيَّ سَيِّدَالْكُتُبِ فَقُلْتُ إِلَهِي وَسَيِّدِي إنَّكَ أَرْسَلْتَ مُوسَى إِلَى فِرْعَوْنَ فَسَأَلَ كَأَنْ تَجْعَلَ مَعَهُ أ َخاهُ هارُونَ وَزِيراً

۲۲۶

تَشُدُّبِه ِعَضُدَهُ وَتُصَدِّقُ بِهِ قَوْلَهُ وَإِنِّي أَسْأَلُكَ يَاسَيِّدِي وَإِلَهِي أَنْ تَجْعَلَ لِي مِنْ أَهْلِي وَزِيراًتَشُدُّبِهِ عَضُدِي فَجَعَل َاللَّهُ لِي عَلِيّاًوَزِيراًوَأَخاًوَجَعَل َالشَّجَاعَةَفِي قَلْبِهِ وَأَلْبَسَهُ الْهَيْبَةَعَلَى عَدُوِّهِ وَهُوَأَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِي وَصَدَّقَنِي وَأَوَّلُ مَنْ وَحَّدَاللَّهَ مَعِي وَإِنِّي سَأَلْتُ ذَلِكَ رَبِّي عَزَّوَجَلَّ فَأَعْطَانِيهِ فَهُوَسَيِّدُالْأَوْصِيَاءِاللُّحُوقُ بِهِ سَعَادَةٌوَالْمَوْتُ فِي طَاعَتِهِ شَهَادَةٌوَاسْمُه ُفِي التَّوْرَاةِمَقْرُون ٌإِلَى اسْمِي وَزَوْجَتُهُ الصِّدِّيقَةُالْكُبْرَى ابْنَتِي وَابْنَاهُ سَيِّدَاشَبَابِ أَهْل ِالْجَنَّةِابْنَايَ وَهُوَوَهُمَاوَالْأَئِمَّةُبَعْدَهُمْ حُجَجُ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ بَعْدَالنَّبِيِّين َوَهُمْ أَبْوَابُالْعِلْمِ فِي أُمَّتِي مَنْ تَبِعَهُمْ نَجَامِنَ النَّارِوَمَنِ اقْتَدَى بِهِمْ هُدِيَ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ لَمْ يَهَبِ اللَّه ُعَزَّوَجَلَّ مَحَبَّتَهُمْ لِعَبْدٍإِلَّاأَدْخَلَهُ اللَّه ُالْجَنَّةَ.انتهی. فاعتبروا يا اولی الالباب"

یعنی خدائے تعالی نے مجھ کو برگزیدہ او منتخب کیا ( مخلوقات میں سے ) مجھ کو پیغمبر بنایا اور مجھ پر سب سے بہتر کتاب نازل کی۔ پس میں نے عرض کیا اے میرے معبود اور مالک تونے موسی کو فرعون کی طرف بھیجا، تو انہوں نے تجھ سے دعا کی کہ میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا دے تاکہ ان سے میرا بازو مضبوط ہو اور ان کے ذریعے میرے قول کی تصدیق ہو۔ چنانچہ اب میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ خداوندا میرے اہل میں سے میرے لیے ایک وزیر قرار دے جس سے میرا بازو مضبوط ہو۔ پس علی (ع) کو میرا وزیرا اور میرا بھائی بنا، شجاعت کو ان کے دل میں قائم کر اور ان کے دشمنوں کے مقابلے میں ان کو ہیبت عطا کر۔ علی(ع) وہ پہلے شخص ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور میری تصدیق کی او سب سے پہلے میرے ساتھ خدا کی وحدانیت کا اقرار کیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ میں نے خدا سے یہ سوال کیاتو اس نے مجھ کو عطا بھی فرمایا ( یعنی علی(ع) کو میرا وزیر اور بھائی قرار دیا) پس علی(ع) اوصیاء کے سردار ہیں، ان سے وابستہ ہونا سعادت اور ن کی اطاعت میں مرنا شہادت ہے، توریت میں ان کا نام میرے نام کے ساتھ ہے، ان کی زوجہ صدیقہ کبری میری بیٹی ہے، ان کے دو بیٹے جو جوانان جنت کے سردار ہیں، میرے فرزند ہیں علی(ع)، حسن(ع)، حسین(ع) اور ان کے بعد سارے امام انبیاء کے بعد تمام خلقت پر خدا کی حجت ہیں اور یہ حضرات میری امت میں علم کے دروازے ہیں جس شخص نے ان کی پیروی کی اس نے۔۔۔۔۔ آتش جہنم سے نجات پائی اور جس نے ان کی اقتداء کی اس نے صراط مستقیم کی ہدایت پائی۔ خدا نے جس بندے کو ان کی محبت عنایت فرمائی اس کو ضرور جنت میں داخل کرے گا ( لہذا اے صاحبان بصیرت عبرت حاصل کرو۔)

اگر میں چاہوں کہ بغیر کتب شیعہ کی سند کی صرف وہی سب روایتیں پیش کروں جو محض آپ ہی کے روات اور اکابر علماء کے سلسلوں سے اس بارے میں مروی ہیں تو ساری رات صرف ہوجائے گی۔ میرا خیال ہے کہ نمونے کے طور پر اسی قدر کافی ہے جس سے آپ حضرات سمجھ لیں گے کہ علی(ع) وہ شخص ہیں جو ابتدا سے رسول خدا (ص) کے ساتھ تھے لہذا اولی و احق بات یہ ہے کہ ہم انہیں بزرگوار کو والذین معہ کا مصداق سمجھیں نہ کہ اس کو جو غار کی مسافرت میں چند راتیں رسول(ص) کے ہمراہ رہا۔

۲۲۷

علی(ع) کے ایمان طفلی میں اشکال اور اس کا جواب

حافظ : یہ بات تو ثابت ہے اور کسی نے اس حقیقت کا انکار نہیں کیا ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ ساری امت سے سابق الاسلام تھے لیکن یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ یہ سبقت دوسرے صحابہ پر علی کرم اللہ وجہہ کی فضیلت و شرافت کی دلیل نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ خلفائے معظم ابوبکر وعمر و عثمان رضی اللہ عنہم علی کرم اللہ وجہہ کے ایک مدت بعد ایمان لائے لیکن ان کا ایمان علی کے ایمان سے فرق رکھتا تھا اور قطعا ان کا ایمان علی(ع) کے ایمان سے افضل تھا کیوں کہ علی(ع) ایک نا بالغ بچے اور یہ لوگ سن رسیدہ اور کامل العقل تھے۔

بدیہی چیز ہے کہ ایک تجربہ کار جہاں دیدہ اور پختہ عقل رکھنے والے بوڑھے کا ایمان ایک نو خیز و نابالغ لڑکے کے ایمان سے افضل اور بالاتر ہے۔ اس کے علاوہ علی(ع) کا ایمان تقلیدی اور ان لوگوں کا تحقیقی تھا تقلیدی ایمان سے قطعا افضل ہے اس لیے کہ نابالغ اور غیر مکلف بچہ بغیر تقلید کے ہرگز ایمان نہیں لانا اور علی(ع) تیرہ سال کے ایک کم سن بچے تھے جن پر کوئی شرعی تکلیف نہیں تھی لہذا یقینا انہوں نے محض تقلید میں ایمان قبول کیا۔

خیر طلب : آپ جیسے علمائے قوم سے اس قسم کی گفتگو سن کے تعجب ہوتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کی ان باتوں کا کیا مطلب سمجھوں۔ آیا یہ کہوں کہ آپ محض عناد کی بنا پر ہٹ دھرمی کررہے ہیں لیکن اس پر میرا دل آمادہ نہیں ہوتا کہ ایک عالم کی طرف ایسی نسبت دوں؟ تو کیا یہ کہوں کہ آپ بغیر سوچے سمجھے اپنے اسلاف کی پیروی میں اس قسم کی باتیں کرتے ہیں یعنی آپ صرف ( بنی امیہ کے زیر اثر خوارج و نواصب کی تقلید میں بول رہے ہیں اور اپنی تقریر میں کسی تحقیق سے مطلب نہیں رکھتے۔)

میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آیا بچپنے میں علی علیہ السلام کی ایمان اپنی خواہش اور ارادے سے تھا یا رسول اللہ(ص) کی دعوت پر ؟

حافظ: پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ طریقہ گفتگو سے کیوں متاثر ہوتے ہیں کیونکہ جب شبہ اور اشکال دل میں الجھن پیدا کرتا ہے تو اس کو زیر بحث لانا ضروری ہوتا ہے تاکہ حقیقتوں کا انکشاف ہو۔

دوسرے آپ کے جواب میں یہ طے شدہ امر ہے کہ علی(ع) رسول خدا(ص) کی دعوت پر ایمان لائے، اپنی خواہش اور ارادے سے نہیں۔

خیر طلب: آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب علی علیہ السلام کو اسلام کی دعوت دی تو آپ یہ جانتے تھے کہ بچے کے اوپر بلوغ سے پہلے شرعی تکلیف نہیں ہے یا نہیں جانتے تھے؟ اگر یہ کہئے کہ نہیں جانتے تھے تو آپ نے آں حضرت (ص) کی طرف جہالت کی نسبت دی اور اگر جانتے تھے کہ چھوٹے بچے کے لیے کوئی دینی ذمہ داری نہیں ہے اس کے باوجود ان کو دعوت دی تو ایک لغو و مہمل اور بے محل کام کیا۔ بدیہی چیز ہے کہ رسول اللہ(ص) کی طرف لغو اور عبث کام کی نسبت دینا کھلا ہوا

۲۲۸

کفر ہے کیونکہ پیغمبر(ص) لغو اور فصول باتوں سے پاک و مبرا ہے خصوصا خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیونکہ خدا سورہ53 ( النجم) آیت نمبر3 میں آنحضرت(ص) کے لیے فرماتا ہے۔ "وَمايَنْطِقُ عَنِ الْهَوى إِنْ هُوَإِلَّاوَحْيٌ يُوحى " ( یعنی رسول خدا(ص) اپنی خواہش نفس سے کوئی بات نہیں کہتے ہیں وہ از روئے وحی ہوتا ہے جو ان پر نازل ہوتی ہے۔)

بچپن میں علی(ع) کا ایمان ان کی عقل و فضل کی زیادتی کی دلیل ہے

پس قطعا آن حضرت(ص) نے علی (ع) کو دعوت دینے کے قابل اور اہل جان کے دعوت دی کیونکہ آنحضرت(ص) سے کوئی لغو عمل سرزد نہیں ہوتا اس کے علاوہ کم سنی کمال عقل کی منافی نہیں ہوتی، بلوغ وجوب تکلیف کی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ صرف احکام شرعی میں اس کے لحاظ کیا جاتا ہے نہ کہ عقلی امور میں، اور ایمان ایک عقلی امر ہے تکلیف شرعی نہیں ہے لہذا" ایمان علی فی الصغر من فضائلہ" بچپن میں علی (ع) کا ایمان ان کی ایک فضیلت ہے، جیسا کہ حضرت عیسی بن مریم علی نبینا و آلہ وعلیہ السلام کے لیے جو ابھی نوزائیدہ بچے تھے خدائے تعالی سورہ نمبر19 ( مریم) آیت نمبر31 میں خبر دیتا ہے کہ انہوں نے کہا :

" قالَ إِنِّي عَبْدُاللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا"

(یعنی در حقیقت میں خدا کا ایک خاص بندہ ہوں، اس نے مجھ کو آسمانی کتاب عطا کی اور نبی بنایا ہے۔ ) اور حضرت یحی علیہ السلام کے لیے اسی سورے کی آیت نمبر13 میں فرماتا ہے " و آت ي نا الحکم صبيا" یعنی ہم نے یحی کو بچپنے ہی میں منصب نبوت عطا کیا۔

سید اسماعیل حمیری یمنی متوفی سنہ175 ہجری نے جو دوسری صدی ہجری کے مشہور شعراء میں سے تھے ان اشعار میں جو انہوں نے حضرت کی مدح میں کہے تھے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:

وصي محمدوأب ابنيه ووارثه وفارسه الوفيا

وقدأوتي الهدى والحكم طفلاكيحيىي ومأوتيه صبيا

یعنی جس طرح یحی عالم طفلی میں نبوت پر فائز ہوئے اسی طرح جانشین پیغمبر(ص)، آپ کے فرزندوں کے باپ، آپ کے وارث اور جان نثار شہسوار علی علیہ السلام بھی بچپنے ہی میں ولایت و ہدایت کے حامل ہوئے۔

جو فضیلت و منزلت خدا عطا فرماتا ہے و سن بلوغ تک پہنچنے کی محتاج نہیں ہے بلکہ عقل کی پختگی اور صلاحیت طبع پاک طینت کا نتیجہ ہے جس سے فقط ہر سر د خفی کا جاننے والا خدا ہی واقف ہے لہذا اگر یحی(ع) بچپنے میں اور عیسی(ع) گہوارے میں نبوت تک اور علی(ع) تیرہ سال کے سن میں ولایت مطلقہ تک پہنچ جائیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ آپ کی اس گفتگو پر جس سے میں متاثر ہوا زیادہ تر تعجب یہ تھا کہ ایسے شبہات و اعتراضات نواصب و خوارج اور بنی امیہ کے پروپیگنڈے سے متاثر معنادین کے پرئووں سے سننے میں آتے ہیں جو علی علیہ السلام کے ایمان پر نکتہ چینی کرتے

۲۲۹

ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا ایمان معرفت و یقین کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ تلقین و تقلید کی بنا پر تھا۔

اول تو آپ کےسارے موثق اکابر علماء اس فضیلت کے معترف ہیں، دوسرے اگر کم سنی کا ایمان ان حضرت کے لیے باعث فخر وبزرگی نہیں تھا تو آپ نے صحابہ کے مقابلے میں اس قدر فخر و مباہات کیوں فرمایا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا آپ کے اکابر علماء جیسے محمد بن طلحہ شافعی، ابن صباغ مالکی، ابن ابی الحدید اور دوسروں نے بھی حضرت کے اشعار نقل کئے ہیں کہ آپ نے ضمنا فرمایا :

سبقتكم الى الإسلام طراصغيرامابلغت أوانحلمي

( یعنی میں نے اس وقت تم لوگوں پر اسلام میں سبقت کی جب کہ میں ایک چھوٹا بچہ تھا اور سن بلوغ کو نہیں پہنچا تھا۔ 12 مترجم عفی عنہ)

اگر بچپن ان حضرت کا ایمان کوئی فضل و شرف نہ ہوتا تو رسول خدا(ص) کو اس فضیلت کے ساتھ خصوصیت نہ دیتے اور آپ خود اس بات پر فخر و مباہات نہ کرتے، چنانچہ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ ضمن باب56 ص402 میں ذخائر العقبی امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی سے بسندخلیفہ ثانی عمر ابن خطاب نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں، ابوبکر، ابو عبیدہ جراح اور ایک جماعت خدمت رسول (ص) میں حاضر تھے کہ آں حضرت(ص) نے اپنا دست مبارک علی(ع) کے شانے پر رکھا اور فرمایا :

"ياعلي أنت أول المؤمنين إيمانا،وأول المسلمين إسلاما،وأنت مني بمنزلةهارون من موسى."

( یعنی یا علی(ع) تم ایمان و اسلام میں تمام مومنین و مسلمین سے اول ہو اور تم میرے لیے بمنزلہ ہارون ہو موسی کے لیے۔)

نیز امام احمد ابن حنبل مسند میں ابن عباس ( خیر امت) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں، ابوبکر، ابو عبیدہ بن جراح اور دوسرے صحابہ کا ایک مجمع پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر تھے کہ آں حضرت(ص) نے علی بن ابی طالب(ع) کے شانے جپر دست مبارک رکھ کے فرمایا :

"فَقَالَ يَاعَلِيُّ أَنْتَ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ إِسْلَاماًوَأَنْتَ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَاناًوَأَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِهَارُونَ مِن ْمُوسَى كَذَبَيَ اعَلِيُّ مَنْ زَعَم َأَنَّهُ يُحِبُّنِي وَيُبْغِضُكَ"

(یعنی تم اسلام و ایمان میں تمام مسلمانوں اور مومنوں سے آگے ہو۔ اور تم میرے لیے بمنزلہ ہارون ہو موسی(ع) سے ۔ اے علی(ع) جھوٹ کہتا ہے وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ مجھ کو دوست رکھتا ہے در آنحالیکہ تم کو دشمن رکھتا ہو۔)

ابن صباغ مالکی فصول المہمہ ص145 میں اسی طرح کی روایت کتاب خصائص سے بروایت ابن عباس نیز امام ابو عبدالرحمن نسائی خصائص العلوی میں نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے عمر ابن خطاب ( خلیفہ ثانی) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ علی(ع) کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو کیونکہ میں نے پیغمبر(ص) سے سنا ہے کہ فرمایا : علی(ع) میں تین خصلتیں ہیں میں ( یعنی عمر) چاہتا تھا کہ ان میں سے ایک ہی مجھ کو حاصل ہوتی کیونکہ ان صفتوں میں سے ہر ایک میرے نزدیک ہر اس چیز سے زیادہ محبوب ہے جس پر آفتاب چمکتا ہے پھر کہا کہ ابوبکر ابوعبیدہ اور صحابہ کا ایک گروہ بھی حاضر تھا کہ آں حضرت(ص) نے علی(ع) کے شانے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:

۲۳۰

(عبارت مذکورہ بالا) اور ابن صباغ نے ان کلمات کو دوسروں سے زیادہ نقل کیا ہے کہ فرمایا :

" وَمَنْ أَحَبَّكَ فَقَدْأَحَبَّنِي وَمَن ْأ َحَبَّنِي فَقَدْأَحَبَّه اللَّهَ وَ مَن أَحَبَّه اللَّهَ ادخله الجنة وَمَنْ أَبْغَضَكَ فَقَدْأَبْغَضَنِي وَمَنْ أَبْغَضَنِي فَقَدْأَبْغَضَه اللَّهُ تَعَالی أَدْخَلَهُ النَّارَ"

( یعنی جو شخص تم کو دوست رکھے اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جس نے مجھ کو دوست رکھا اس کو خدا دوست رکھتا ہے اور جس کو خدا دوست رکھتا ہے اس کو جنت میں داخل کرے گا اور جو شخص تم کو دشمن رکھے اس نے مجھ کو دشمن رکھا اور جس نے مجھ کو دشمن رکھا اس کو خدا دشمن رکھتا ہے اور اس کو جہنم میں داخل کرے گا۔)

پس عالم طفلی میں علی علیہ السلام کا ایمان عقل و خرد کی زیادتی کو ثابت کرتا ہے اور حضرت کے لیے ایک ایسی فضیلت ہے کہ لم یسبقہ احد من المسلمین جس میں مسلمانوں میں سے کسی نے آپ پر سبقت نہیں کی ہے۔

طبری اپنی تاریخ میں محمد بن سعد ابن ابی وقاص سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ آیا ابوبکر سب سے پہلے مسلمان ہیں؟ کہا نہیں " وَلَقَدْأَسْلَمَ قَبْلَهُ أَكْثَرُمِنْ خَمْسِينَ رَجُلًاوَلَكِنْ كَانَ أَفْضَلَنَاإِسْلَاماً ."( یعنی ابوبکر سے پہلے پچاس آدمیوں سے زیادہ اسلام لاچکے تھے لیکن وہ اسلام کی حیثیت سے ہم سے افضل تھے۔ نیز لکھا ہے کہ عمر ابن خطاب پینتالیس (45) مردوں اور اکیس عورتوں کے بعد مسلمان ہوئے "و لکن اسبق الناس اسلاما و ايمانا فهو علی بن ابی طالب" ( یعنی لیکن اسلام و ایمان کی حیثیت سے تمام انسانوں سے سابق تر علی ابن ابی طالب(ع) تھے)

علی(ع) کا ایمان کفر سے نہیں تھا، فطری تھا

علاوہ اس کے کہ علی(ع) تمام مسلمانوں سے پہلے ایمان لائے ان کے لیے اس سلسلے میں ایک فضیلت اور ہے جو تمام فضائل میں اہم اور ان کے مخصوص صفات میں سے ہے کہ " اسلامه عن الفطرة و اسلامهم عن الکفر " یعنی علی(ع) کا اسلام فطرت سے ہے اور دوسروں کا اسلام کفر سے تھا۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام ایک چشم زدن کے لیے بھی کفر وشرک کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ بر خلاف عام مسلمین اور صحابہ کے جو کفر وشرک اور بت پرستی سے نکل کے اسلام لائے ( کیونکہ آپ قبل بلوغ ہی دعوت پیغمبر(ص) پر ایمان لے آئے ) چنانچہ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے مانزل القرآن فی علی میں اور میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ:

" وَاللَّهِ مَامِنْ عَبْدٍآمَنَ بِاللَّهِ إِلَّاوَقَدْعَبَدَالصَّنَمَ فَقَال َوَهُوَالْغَفُورُلِمَن ْتَابَ مِنْ عِبَادَةِالْأَصْنَامِ إِلَّاعَلِيَّ بْنَ أَبِيطَالِبٍ فَإِنَّهُ آمَنَب ِاللَّهِ مِنْ غَيْرِأَنْ عَبَدَصَنَماً"

( یعنی قسم خدا کی بندوں ( یعنی امت) میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو ایمان لانے سے پہلے بت پرستی نہ کرچکا ہو سوا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے کیونکہ آپ بغیر بت کی برستش کئے ہوئے خدا پر ایمان لائے۔)

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب24 میں اپنے اسناد کے ساتھ رسول اللہ(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ

۲۳۱

فرمایا :

"سبّاق الامةثلاثةلم يشرکواباللّه طرفةعين: عليّ بن أبيطالب،وصاحب ياسين،ومؤمن آل فرعون ،فهم الصدّيقون ،حبيب النجارمؤمن آل يسوحزقيل مؤمن آل فرعون وعلي بن أبيطالب وهوأفضلهم."

( یعنی تمام امتوں میں ( ایمان و توحید کی دوڑ میں) سبقت لے جانے والے تین شخص ہیں جنہوں نے چشم زدن کے لیے بھی خدا کے ساتھ شرک نہیں کیا، علی ابن ابی طالب(ع) صاحب یاسین اور مومن آل فرعون، پس یہی لوگ سچے ہیں یعنی نجیب بخار مومن آل یاسین حزقیل مومن آل فرعون اور علی ابن ابی طالب(ع) اور آپ ان سب میں، فضل ہیں۔)

چنانچہ نہج البلاغہ میں ہے کہ حضرت نے خود فرمایا : "فانى ولدت على الفطرةوسبق تالى الايمان والهجرة." ( یعنی میں فطرت توحید پر پیدا ہوا اور رسول خدا(ص) کےساتھ ایمان و ہجرت میں پیش قدمی کی۔)

نیز حافظ ابونعیم اصفہانی، شافعی اور آپ کے دوسرے علماء جیسے ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے: "إنّ عليّالم يكفرباللّه طرفةعين " ( یعنی حقیقتا علی علیہ السلام نے پلک جھپکنے کے برابر بھی خدا کے ساتھ کفر نہیں کیا، اور امام احمد بن حنبل نے مسند اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے زمعہ بن خارجہ سے کہا : " إِنَّ ه لَمْ يَعْبُدْصَنَماًوَلَاوَثَناًوَلَمْ يَشْرَبْ خَمْراً" ( یعنی علی علیہ السلام نے ہرگز بت کو سجدہ نہیں کیا اور کبھی شراب نہیں پی اور تمام انسانوں سے پہلے اسلام لائے۔)

آپ جو یہ کہتے ہیں کہ شیخین کا ایمان علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ایمان سے افضل تھا تو کیا آپ نے یہ حدیث شریف نہیں دیکھی ہے جس کو ابن مغازلی شافعی نے فضائل میں، امام احمد حنبل نے مسند میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

"لَوْوُزِنَ إِيمَانُ عَلِيٍ وَإِيمَانُأ ُمَّتِيل َرَجَحَ إِيمَانُ عَلِيٍّ عَلَى إِيمَانِ أُمَّتِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ."

(یعنی اگر علی(ع) کے ایمان کا میری امت ایمان سے وزن کیا جائے تو علی(ع) کا ایمان میری امت کے قیامت تک کے ایمان پر بھاری ہوگا۔)

نیز سید میر علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودت ہفتم میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں اور امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول خدا(ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا

"لَوْأَنَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعَ وَالْأَرَضِين َالسَّبْع وُضِعَن فِي كِفَّةمِيزَانِ وَوُضِعَ إِيمَانُ عَلِيٍ فِي كِفَّةمِيزَانِ لَرَجَحَ إِيمَانُ عَلِيٍّ."

یعنی اگر ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو ترازو کے ایک پلے میں رکھیں اور علی(ع) کا ایمان دوسرے پلے میں تو یقینا علی(ع) کا ایمان سب پر بھاری پڑے گا۔

اور ایک مشہور شاعر سفیان بن مصعب بن کوفی نے اسی بنیاد پر اپنے اشعار میں نظم کیا ہے۔

أشهدبالله لقدقال لنامحمدوالقول منهماخفي

لوأن إيمان جميعالخلق ممن سكن الأرض ومن حلال سما

۲۳۲

يجعل في كفةميزان لكي يوفى بإيمان علي ماوفى.

یعنی خدا کی قسم میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ (ص) نے ہم سے بیان فرمایا کہ کسی پر مخفی نہ رہے کہ اگر زمین و آسمان میں بسنے والے کل مخلوقات کا ایمان ترازو کے ایک پلے میں رکھا جائے اور علی(ع) کا ایمان دوسرے پلے میں تب بھی علی(ع) ہی کا ایمان وزنی ہوگا۔

علی (ع) تمام صحابہ اور امت سے افضل تھے

شافعی فقیہ و عارف میر سید علی ہمدانی نے کتاب مودۃ القربی میں اس سلسلے کی بکثرت ایسی روایتیں نقل کی ہیں جو دلائل و براہین اور احادیث صحیحہ کےساتھ علی علیہ السلام کی افضلیت ثابت کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے مودت ہفتم میں ابن عباس ( خیر امت) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

"أفضل رجال العالمين في زماني هذاعلي عليه السلام"

( یعنی عالمین کے مردوں میں سب سے افضل میرے زمانے میں یہ علی علیہ السلام ہیں۔)

اور آپ کے اکثر منصف علماء علی علیہ السلام کی افضلیت پر عقیدہ رکھتے تھے، چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص40 میں لکھا ہے کہ فرقہ معتزلہ کے پیشوا ابوجعفر اسکافی کی ایک کتاب مجھ کو ملی جس میں لکھا ہوا تھا کہ بشر بن معتمر، ابوموسی، جعفر بن مبشر اور بغداد کے دوسرے علمائے متقدمین کا مذہب یہ تھا کہ

"أن أفضل المسلمين علي بن أبيطالب ثم ابنه الحسن ثم ابنه الحسين ثم حمزةبن عبدالمطلب ثم جعفربن أبيطالب الخ"

( یعنی تمام مسلمانوں سے افضل و برتر علی بن ابی طالب(ع) پھر آپ کے فرزند حسن(ع) پھر کے آپ کے دوسرے فرزند حسین(ع) پھر حمزہ بن عبدالمطلب پھر جعفر ابن ابی طالب(معروف بہ طیار۔)

ہمارے شیخ ابوعبداللہ بصری، شیخ ابوالقاسم بلخی اور شیخ ابوالحسن خیاط ( جو متاخرین علمائے بغداد کے شیخ تھے) ابوجعفر اسکافی کے اسی عقیدے پر تھے ( یعنی حضرت علی(ع) کو افضلیت تھی) اور افضلیت سے مراد یہ تھی کہ یہ حضرات خدا کے نزدیک تمام انسانوں سے بزرگ تھے، ان کا ثواب سب سے زیادہ تھا، اور روز قیامت ان کا درجہ سب سے بلند ہوگا۔ اس کے بعد شرح نہج البلاغہ کے اسی ص40 کے آخر میں معتزلی عقیدے کی تفصیل نظم کی ہے اور کہا ہے:

وخيرخلق الله بعدالمصطفى أعظمهم يوم الفخارشرفا

السيدالمعظم الوصي بعل البتول المرتضى علي

وابناه ثم حمزةوجعفرثم عتيق بعدهم لاينكر

( یعنی رسول خدا(ص) کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر اور اپنے شرف پر فخر کرنے کے روز سب سے بزرگ سید

۲۳۳

بزرگوار، وصی پیغمبر(ص) اور شوہر بتول فاطمہ زہرا(س)، علی مرتضی(ع) ہیں اور ان کے بعد ان کے دونوں فرزند (حسن و حسین علیہما السلام) پھر حمزہ پھر جعفر ( طیار) تھے۔)

شیخ : اگر آپ نے خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت ایمان کے ثبوت میں علماء کے اقوال دیکھے ہوتے تو ایسی باتیں نہ کہتے ۔

خیر طلب: آپ بھی اگر متعصب لوگوں کے اقوال سے منہ موڑ کے اپنے محقق اور منصف علماء کے بیانات پر توجہ کرتے تو دیکھتے کہ وہ سب کے سب افضلیت علی علیہ السلام کی تصدیق کرتے ہیں۔

نمونے کے لیے شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی جلد سیم ص264 کی طرف رجوع کیجئے جس میں آپ کے اس بیان کو جاحظ سے نقل کیا ہے کہ ابوبکر کا ایمان علی علیہ السلام کے ایمان سے افضل تھا، اس کے بعد فرقہ معتزلہ کے بڑے عالم اور شیخ ابوجعفر اسکافی نے اس کے رد میں جواب دیا ہے اس کو تفصیل سے درج کیا ہے، چنانچہ عقلی و نقلی دلائل سے کئی صفحات میں ثابت کرتے ہیں کہ بچپن میں حضرت علی(ع) کا ایمان ابوبکر اور تمام صحابہ کے ایمان سے افضل تھا، یہاں تک کہ ص275 میں کہتے ہیں کہ ابوجعفر نے کہا ہے:

"إننالاننكرفضل الصحابةوسوابقهم ولكنناننكرتفضيلأحدمن الصحابةعلى علي بن أبيطالب انتهی"

( یعنی ہم صحابہ کے فضائل کا انکار نہیں کرتے لیکن ان میں سے کسی کو علی ابن ابی طالب(ع) سے برتر نہیں مانتے۔)

ان اقوال سے قطع نظر در اصل امیرالمومنین کا نام دوسرے صحابہ کے مقابلے میں لانا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ ان حضرات کی منزل اس قدر بلند ہے کہ صحابہ وغیرہ میں سے کسی کےساتھ ہرگز اس کا موازنہ نہیں ہوسکتا جس سے آپ فضائل صحابہ کو چند یکطرفہ روایتوں کے سہارے ( اگر ان کو صحیح بھی مان لیا جائے) ان حضرات کے جامع و مانع کمالات کے مقابلے پر لانے کی کوشش کریں۔ چنانچہ میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی کی مودت ہفتم میں احمد بن محمد الکرزی بغدادی سے نقل کرتےہیں کہ انہوں نے کہا میں نے عبداللہ بن احمد حنبل کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے اپنے باپ احمد ابن حنبل سے فضیلت صحابہ کا درجہ دریافت کیاتو وہ ابوبکر، عمر اور عثمان کا نام لے کر خاموش ہوگئے۔ " فقلت يا ابت اين علی بن ابی طالب قال هو من اهل البيت لايقاس به هئولاء" یعنی میں نے کہا اے پدر بزرگوار علی ابن ابی طالب (ع) کہاں ہیں؟ ( یعنی ان کا نام کیوں نہیں لیا) میرے باپ نے کہا کہ وہ اہل بیت رسالت میں سےہیں ان پر ان لوگوں کا قیاس نہیں ہوسکتا) یعنی جس طرح سے اہلبیت رسول (ص) کا مقام و مرتبہ آیات قرآنی اور ارشادات رسول کے حکم تمام مقامات و مراتب سے بلند تر ہے اسی طرح علی علیہ السلام کے مدارج تمام صحابہ وغیرہ سے بالاتر ہیں، چنانچہ آپ کا نام صحابہ کے شمار میں نہ لانا چاہیئے بلکہ وہ نبوت اور منصب رسالت کے ساتھ منسوب ہوگا۔

جیسا کہ آیہ مباہلہ میں حضرت کو نفس رسول(ص) کی جگہ پر بتایا گیا ہے۔

اس مقصد پر ایک دوسری حدیث بھی گواہ ہے جو اسی فصل اور مودت ہفتم میں بروایت عبداللہ ابن عمر ابن خطاب ابی وائل سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ ہم نے اصحاب پیغمبر(ص) کو شمار کیا تو ابوبکر ، عمر اور عثمان کا نام لیا، ایک شخص نے کہا :

" يَابَاعَبْدِالرَّحْمَنِ فَعَلِيٌّ ما هوقَالَ: عَلِيٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ لَايُقَاسُ بِهِ احدٌ،هُومَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلیَ اللهُ عَليَه

۲۳۴

وَ آلِه فِي دَرَجَتِهِ"

( یعنی اے ابو عبدالرحمن ( عبد اللہ ابن عمر کی کنیت) علی(ع) کا نام کیوں چھوڑ دیا؟ تو میں نے کہا علی(ع) اہل بیت رسالت میں سے ہیں کسی کا ان پر قیاس نہیں ہوسکتا وہ رسول خدا(ص) کے ساتھ ان کے درجے میں ہیں) یعنی علی علیہ السلام کا حساب امت اور صحابہ سے الگ اور خود پیغمبر(ص) کے ساتھ شامل ہے۔ آپ رسول اللہ(ص) کے ہمراہ آں حضرت کے درجے میں ہیں۔

اجازت دیجئے کہ اسی فصل اور مودت سے ایک حدیث اور پیش کروں ۔ جابر ابن عبداللہ انصاری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک روز مہاجرین و انصار کے سامنے رسول اللہ(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:

"ياعلي لوأنّ أحداعبداللّه حق عبادته ثم يشك فيك وأهل بيتك أنكم أفضل الناس كان في النار"

( یعنی اے علی(ع) اگر کوئی شخص خدا کی پوری عبادت کرے پھر تمہارے اور تمہارے اہل بیت کے تمام لوگوں سے افضل ہونے میں شک کرے تو وہ جہنم میں جھونک دیا جائیگا۔)

یہ حدیث سنتے ہی سارے اہل جلسہ خصوصا حافظ صاحب نے استغفار کیا کہ شک کرنے والوں میں شمار نہ ہوں۔

خلاصہ یہ کہ ان احادیث کثیرہ میں سے جو صحابہ اور تمام امت پر امیرالمومنین علی علیہ السلام کی فضیلت اور حق تقدم کے بارے میں وارد ہوئی ہیں یہ مشتے نمونہ از خروارے ہے اب یا تو ان اخبار صحیحہ کی جو آپ ہی کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں رد کیجئے یا عقل و نقل کے حکم سے تسلیم کیجئے کہ آن حضرت(ع) کا ایمان تمام صحابہ اور امت سے افضل تھا جن میں ابوبکر اور عمر بھی تھے۔

اگر آپ فریقین کی اس متفق علیہ حدیث پر توجہ کیجئے جو غزوہ احزاب اور جنگ خندق میں امیرالمومنین(ع) کے ہاتھ سے مشہور بہادر عمرو بن عبدود کے مارے جانے پر رسول اللہ(ص) نے ارشاد فرمائی کہ:

"ضربةعلي يوم الخندق أفضل من عبادةالثقلين."

( یعنی خندق کے روز علی (ع) کا ایک وار( عمرو بن عبدود پر) جن وانس کی عبادت سے بہتر ہے)

تو آپ خود تصدیق کیجئے گا کہ جب حضرت علی علیہ السلام کا ایک عمل جن و انس کی عبادت سے بہتر ہے تو اگر آپ کے سارے اعمال و عبادات شامل ہو جائیں تو یقینا آپ کی افضلیت ثابت ہوگی اور اس سے سوا متعصب اور کینہ پرور انسان کے اور کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

اگر تمام صحابہ اور اہل عالم پر آپ کی افضلیت کے لیے اور کوئی دلیل نہ ہوتی تو صرف آیت مباہلہ ہی اس کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہوتی جس میں خدا نے علی (ع) کو بمنزلہ نفس رسول (ص) قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ مسلم ہے کہ رسول اللہ اولین و آخرین میں تمام انسانوں سے افضل تھے۔ لہذا آیہ شریفہ میں کلمہ انفسنا کے حکم سے علی علیہ السلام بھی اولین و آخرین میں سب سے افضل ٹھہرتے ہیں۔ پس آپ حضرات تصدیق کیجئے کہ والذین معہ کے حقیقی مصداق امیرالمومنین علیہ السلام ہیں جو تمام مسلمانوں سے پہلے ظہور اسلام کی ابتدا ہی سے رسول خدا(ص) کے ہمراہ تھے اور آخر عمر تک ان سے ذرہ برابر بھی کوئی لغزش نہیں ہوئی۔

( نماز کا وقت ہوگیا لہذا مولوی صاحبان فریضہ ادا کرنے اٹھے، فراغت کے بعد چائے نوشی ہوئی پھر میری طرف سے سلسلہ کلام شروع ہوا۔)

خیر طلب : رہی یہ بات کہ شب ہجرت امیرالمومنین (ع) رسول خدا(ص) کے ہمراہ کیوں روانہ نہیں ہوئے تو یہ بہت واضح چیز ہے کیونکہ آنحضرت(ص) کے حکم سے چند اہم کام آپ کے سپرد تھے جن کو مکہ معظمہ میں ٹھہرکے انجام دینا تھا۔

۲۳۵

اس لیے کہ پیغمبر(ص) کے نزدیک علی(ع) سے زیادہ کوئی امین نہیں تھا جو ان امانتوں کو جو آں حضرت(ص

کے پاس جمع تھیں، ان کے مالکوں تک پہنچاتا۔

( دوست و دشمن کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ(ص) اہل مکہ کے امین تھے، یہاں تک کہ دشمن بھی اپنی امانتیں آںحضرت(ص) کے پاس جمع کرتے تھے تاکہ تلف ہونے سے محفوظ رہیں۔ اسی وجہ سے آںحضرت(ص) مکہ میں محمد امین(ص) کے نام سے مشہور تھے۔)

دوسرا فرض امیرالمومنین(ع) کے ذمے یہ تھا کہ آنحضرت(ص) کے اہل و عیال اور باقی مسلمانوں کو مدینے پہنچائیں۔

علاوہ ان چیزوں کے اگر علی علیہ السلام اس رات غار میں نہیں تھے تو قطعا اس سے بالاتر منزل حاصل کی کہ رسول اللہ(ص) کے بستر اور چادر میں آرام فرمایا اگرچہ خلیفہ ابوبکر آں حضرت(ص) کے طفیل میں ثانی اثنین کہے جاتے ہیں لیکن اسی شب میں مصاحبت غار سے زیادہ نیک اور اہم عمل کے سلسلے میں مستقل طور پر ایک آیت حضرت کی شان میں نازل ہوئی، اور یہ عمل خود آپ کی ایسی فضیلت و منقبت ہے جس پر فریقین ( شیعہ و سنی) کا اتفاق ہے کیونکہ اگر اس رات امیرالمومنین(ع) فداکاری اور جان نثاری نہ فرماتے تو رسول اللہ(ص) کی جان مبارک بہت بڑے خطرے میں تھی۔

شب ہجرت بستر رسول (ص) پر سونے سے علی(ع) کی شان میں نزول آیت

چنانچہ آپ کے موثق اکابر علماء نے اپنی تفسیروں اور معتبر کتابوں میں اس بزرگ فضیلت کو نقل کیا ہے جیسے ابن سبع مغربی نے شفاء الصدور میں، طبرانی نے اوسط اور کبیر میں، ابن اثیر نے اسدالغابہ جلد چہارم ص25 میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ فی معرفت الائمہ ص33 میں، ابو اسحق ثعلبی، فاضل نیشاپوری امام فخر الدین رازی اور جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیروں میں، حافظ ابونعیم اصفہانی مشہور شافعی محدث نے مانزل القرآن فی علی میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، شیخ الاسلام ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب 62 میں، امام احمد حنبل نے مسند میں، محمد بن جریہ نے مختلف طریقوں سے، ابن ہشام نے سیرۃ النبی میں، حافظ محدچ شام نے اربعین طوال میں، امام غزالی نے احیاء العلوم جلد سوم ص223 میں، ابوالسعادات نے فضائل العترۃ الطاہرہ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص21 میں اور آپ کے دوسرے بڑے بڑے علماء نے مختلف عبارات و الفاظ میں اس مطلب کا خلاصہ نقل کیا ہے اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب21 میں بکثرت علماء سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حکم خداوندی سے مدینہ منورہ کے لیے آمادہ ہوئے تو شب ہجرت امیرالمومنین علی علیہ السلام سے فرمایا کہ میری سبز خضرمی چادر جو میں رات کو استعمال کرتا ہوں اوڑھ لو اور میرے بستر پر سوجائو پس علی(ع) آنحضرت(ص) کی جہ سو رہے اور وہ سبز چادر سر سے اوڑھ لی تاکہ گھر کا محاصرہ کئے ہوئے کفار یہ نہ سمجھیں کہ بستر پر علی(ع) ہیں، یہاں تک کہ رسول خدا(ص) صحیح و سلامت تشریف لے گئے۔

۲۳۶

خدا کی جانب سے جبرئیل و میکائیل کو خطاب ہوا کہ میں نے تم دونوں کے درمیان بھائی چارہ قرار دیا ہے اور قطعا تم میں سے ایک کی عمر دوسرے سے زیادہ ہے لہذا کون اس کو منظور کرتا ہے کہ اپنی زیادہ عمر جس کا اس کو علم بھی نہیں ہے دوسرے کو بخش دے؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ حکم ہے یا اختیاری فعل؟ خطاب ہوا کہ حکم نہیں ہے تم کو اختیار حاصل ہے۔ تو ان میں سے کوئی بھی تیار نہیں ہوا کہ اپنی خوشی سے عمر کی زیادتی دوسرے کو دے دے اس وقت ارشاد ہوا۔

" انی آخيتبين علی ولی ومحمدنبيّ (ص) فنثر علی حياته للنبی فوقدعلى فراش النبی بقيه بمهجته اهبطاإلى الأرض ،فاحفظاه من عدوه"

( یعنی در حقیقت میں نے اپنے ولی علی(ع) اور اپنے نبی محمد(ص) کے درمیان برادری قائم کی ہے پس علی(ع) نے پیغمبر(ص) کی زندگی پر اپنی زندگی کو فدا اور نثار کردیا ہے اور ان کے بستر پر سو کردل و جان سے ان کی حفاظت کر رہے ہیں، لہذا تم دونوں زمین پر جائو اور دشمنوں کے شر سے ان کی حفاظت کرو۔)

چنانچہ دونوں زمین پر آئے ، جبرئیل حضرت کے سرہانے اور میکائیل پائینی بیٹھے اور جبرئیل کہہ رہے تھے :

"بخ بخ من مثلك ياابن أبيطالب اللّه عزّوجلّ يباهي بک الملائكة"

( یعنی مبارک ہو مبارک ہو کون ہے تمہارے مثل اے ابوطالب کے فرزند کیونکہ خدائے عزوجل تمہارے وجود سے ملائکہ پر فخر و مباہات کررہا ہے۔)

پھر خاتم الانبیاء(ص) پر سورہ 2 ( بقرہ) کی آیت 203 نازل ہوئی " وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغاءَمَرْضاتِ اللَّهِ واللَّه رئوف بالعبادِ "

( یعنی انسانوں میں سے بعض ( علی علیہ السلام) وہ ہیں جو رضائے الہی کے لیے اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں اور خدا ایسے بندوں پر مہربان ہے۔)

اب میں آپ حضرات سے درخواست کرتا ہوں کہ جب قیام گاہ پر تشریف لے جائیے تو اس آیہ شریفہ کو آیہ غار سے جو آپ کا محل استدلال ہے ملاکر بغیر شیعہ و سنی کے بغض و محبت کے غیر جانبداری اور انصاف سے مطالعہ فرمائیے اور غور کیجئے کہ آیا افضلیت اس شخص کے لیے ہے جو مسافرت میں چند روز غم و اندوہ کے ساتھ پیغمبر(ص) کے ہمراہ رہا ہو یا اس شخص کے لیے جس نے اسی شب میں جان نثاری کی اور قدرت و شجاعت و مسرت کے ساتھ علم و ارادہ سے اپنا نفس رسول اللہ(ص) پر قربان کیا تاکہ آن حضرت(ص) سلامتی کے ساتھ تشریف لے جائیں ، پروردگار عالم نے ملائکہ روحانی کے سامنے اس کی ذات پر فخر و مباہات کیا اور اس کی مدح میں ایک مستقل آیت نازل فرمائی ہے۔ چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے ہٹ دھرمی معاندین کے مقابلے میں تھوڑے غور و فکر سے کام لے کر از روئے انصاف تصدیق کی ہے کہ علی علیہ السلام ابوبکر سے افضل تھے اور بستر پر علی(ع) کا سونا غار میں ابوبکر کی مصاحبت سے بدرجہ ہا بہتر و بالاتر تھا۔

سنی علماء کا اعتراف کہ غار میں مصاحبت ابوبکر سے علی(ع) کا بستر رسول (ص) پر سونا بہتر تھا

اگر شرح نہج البلاغہ جلد سیم کو ص269 سے ص281 تک غور سے پڑھئے اور ابوبکر پر علی(ع) کی افضلیت میں، ابوعثمان

۲۳۷

جاحظ ( ناصبی) کے شبہات کے رد میں معتزلیوں کے بہت بڑے عالم اور شیخ امام ابو جعفر اسکافی کے بیانات اور دلائل پر گہری نظر ڈالئے تو دیکھئے گا کہ یہ انصاف پسند عالم مضبوط دلیلوں کے ساتھ بہ صراحت ثابت کرتا ہے کہ پیغمبر(ص) کے بستر پر آنحضرت (ص) کے حکم سے علی(ع) کا سونا غار کے سفر میں ابوبکر کی چند روزہ مصاحبت سے افضل تھا، یہاں تک کہ لکھا ہے :

"قال علماءالمسلمين إن فضيلةعلي ع تلك الليلةلانعلم أحدامن البشرنالمثله اإلاماكان من إسحاق وإبراهيم عنداستسلامه للذبح"

( یعنی علمائے مسلمین کا اتفاق ہے کہ حقیقتا اس رات میں علی(ع) کی وہ فضیلت ہے جس کو کوئی انسان نہیں پاسکا سوا اسحق وہ ابراہیم کے جب وہ ذبح اور قربانی پر آمادہ تھے)

( لیکن اکثر مفسرین و مورخین اور علمائے اخبار کا عقیدہ ہے کہ ذبیح اسماعیل تھے نہ کہ اسحق) اور ص371 کے آخر میں ابو عثمان جاحظ ( ناصبی) کے جواب میں ابو جعفر اسکافی کا قول نقل کیا ہےکہ وہ کہتے ہیں :

"قد بينا فضيلة المبيت على الفراش على فضيلة الصحبةفي الغار بما هو واضح لمن أنصف و نزيد هاهنا تأكيدا بما لم نذكره فيما تقدم فنقول إن فضيلة المبيت على الفراش على الصحبة في الغار لوجهين أحدهما أن عليا ع قد كان أنس بالنبي ص و حصل له بمصاحبته قديما أنس عظيم و إلف شديد فلما فارقه عدم ذلك الأنس و حصل به أبو بكر فكان ما يجده علي ع من الوحشة و ألم الفرقة موجبا زيادة ثوابه لأن الثواب على قدر المشقة.و ثانيهما أن أبا بكر كان يؤثر الخروج من مكة و قد كان خرج من قبل فردا فازداد كراهية للمقام فلما خرج مع رسول الله ص وافق ذلك هوى قلبه و محبوب نفسه فلم يكن له من الفضيلة ما يوازي فضيلة من احتمل المشقة العظيمة و عرض نفسه لوقع السيوف و رأسه لرضخ الحجارة لأنه على قدر سهولة العبادة يكون نقصان الثواب "

( ماحصل مطلب یہ کہ میں پہلے شب ہجرت علی(ع) سے بستر رسول(ص) پر سونے کو ابوبکر کے غار میں پیغمبر(ص) کے ساتھ ہونے سے اس طرح افضل ثابت کرچکا ہوں کہ کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اب مزید تاکید کے لیے جو کچھ کہہ چکا ہوں اس کے علاوہ اور دو صورتوں سے اس مقصد کو ثابت کرتا ہوں۔ رسول اللہ(ص) کے ساتھ علی علیہ السلام کو قدیمی مصاحبت کی وجہ سے شدید انس و محبت تھی لہذا جب جدائی ہوئی تو سارا لطف الفت جاتا رہا اور اس کے برعکس ابوبکر کو یہی چیز حاصل ہوگئی۔ پس موقع پر علی علیہ السلام جو وحشت اور درد جدائی محسوس کر رہے تھے اس سے آپ کا ثواب بڑھ رہا تھا کیونکہ ثواب عمل مشقت کے لحاظ سے ہوتا ہے( جیسا کہ قول ہے افضل الاعمال احمزہا۔ (یعنی جو عمل زیادہ سخت ہے وہی افضل ہے) اور ابوبکر چونکہ برابر مکے سے نکلنے پر تیار تھے چنانچہ پہلے کبھی اکیلے نکل بھی چکے تھے، لہذا ان کے لیے قیام مکہ کی ناگواریی بڑھ گئی، پس جب وہ رسول اللہ(ص) وہاں سے نکلے تو ان کی تمنائے دلی اور مراد قبلی بر آئی لہذا ان کے لیے کوئی ایسی فضیلت ثابت نہیں ہوتی جو فضیلت علی(ع) کے مقابل لائی جاسکے جنہوں نے عظیم مشقت برداشت کی، اپنی جان کو تلواروں کے سامنے اور سر کو دشمنوں کی سنگباری کے لیے پیش کردیا۔ بدیہی چیز ہے، کہ

۲۳۸

سہولت کے حساب سے عبادت کا ثواب گھٹ جاتا ہے۔ اور ابن سبع مغربی شفاء الصدور میں بسلسلہ بیان شجاعت علی علیہ السلام کہتے ہیں :

" علماء العرب اجمعوا علی ان نوم علی عليه السلام علی فراش رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم افضل لمن خروجه معه و ذالک انه وطن نفسه علی مفاعاته لرسول الله صلی الله عليه و آله وسلم و اثر حياته و اظهر شجاعته بين اقرانه"

یعنی علماء عرب کا اجماع ہے کہ شب ہجرت علی علیہ السلام کا بستر رسول(ص) پر سونا ان کے آں حضرت کے ہمراہ باہر نکلنے سے افضل تھا کیونکہ آپ نے اپنے نفس کو آںحضرت(ص) کا قائم مقام بنایا اپنی زندگی کو آں حضرت(ص) پر قربان کیا اور اپنے ہم عصروں کے درمیان اپنی شجاعت ثابت کردی۔ یہ مطلب اس قدر واضح ہے کہ کسی نے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا ہے سوا جنون یا جنون سے بدترتعصب کی وجہ سے بس اتنا ہی کافی ہے۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ اس مقام پر گفتگو کا سلسلہ طولانی ہوگیا، بہتر ہے کہ اب ہم پھر اصل مطلب پر آجائیں آپ نے جو یہ فرمایا کہ اشداء علی الکفار سے خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب مراد ہیں تو فقط آپ کے دعوے سے یہ بات نہیں مانی جاسکتی، دیکھنا چاہئیے کہ آیا یہ صفت بھی موصوف کی حالت سے مطابقت کرتی ہے یا نہیں چنانچہ اگر مطابق ہے تو ہم دل وجان سے ماننے کے لیے تیار ہیں۔

علمی مباحث اور دینی مناظروں میں عمر کے اندر کوئی تیزی نہیں تھی

بدیہی بات ہے کہ شدت اور تیزی دو طرح کی ہوسکتی ہے ایک علمی مباحث اور مذہبی مناظروں میں تاکہ مخالف علماء کےمقابل زور کلام دکھایا جاسکے۔ دوسرے میدان جنگ اور جہاد فی سبیل اللہ میں بذات خود ثبات قدم، شجاعت اور درشتی کا ثبوت دیا جائے۔ چنانچہ علمی مباحث اور دینی مناظروں کے سلسلے میں تاریخ کے اندر خلیفہ عمر کی قطعا کوئی مضبوطی نظر نہیں آتی کیونکہ جہاں تک میں نے فریقین ( شیعہ و سنی) کی کتب اخبار و تواریخ اور غیروں کی کتابیں پڑھی ہیں اور اس بارے میں خلیفہ عمر کی کوئی شدت اور شہ زوری نہیں دیکھی، چنانچہ اگر آپ حضرات نے موصوف کی کوئی علمی مہارت دینی مباحثہ اور غیر مذہب کے عالموں سے مںاظرے ان کی ساری تاریخ زندگی میں دیکھے ہوں تو بیان کیجئیے میں ممنون ہوں گا کیونکہ اس سے میرے معلومات میں اضافہ ہوگا۔

عمر کا اقرار کہ علی(ع) مجھ سے علم و عمل میں بہتر ہیں

البتہ جہاں تک مجھے معلوم ہے اور آپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی اپنی معتبر کتابوں میں لکھا ہے خلفاء ثلاثہ کے

۲۳۹

زمانوں میں ہر علمی اور مذہبی مشکل مسئلہ کو حل کرنے والے صرف علی علیہ السلام تھے۔

باوجودیکہ بنی امیہ اور خلفائے ثلاثہ کے عقیدت مندوں نے خلفاء کے فضائل میں اس کثرت سے روایتیں گھڑی ہیں( جیسا کہ خود آپ کے علماء نے جرح و تعدیل کی کتابوں میں لکھا ہے) لیکن وہ لوگ ان حقیقتوں کو نہیں چھپا سکے کہ جس وقت یہودی عیسائی اور دوسرے مخالف فرقوں کے علماء ابوبکر، عمر اور عثمان کے دور خلافت میں ان کے پاس آکر یا خطوط بھیج کر مشکل مسائل دریافت کرتے تھے تو یہ لوگ مجبور ہو کر علی علیہ السلام کا وسیلہ اختیار کرتے تھے اور کہتے تھے ان پیچیدہ اور مشکل سوالات کا سوا علی ابن ابی طالب(ع) کے اور کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ تشریف لاتے تھے اور اس طریقے سے ان کو جواب دیتے تھے، کہ وہ مطمئن ہوکر مسلمان ہوجاتے تھے،جیسا کہ خلفاء کے تاریخی حالات میں تفصیل سے درج ہے، خلفاء ابوبکر و عمر وعثمان، کا علی علیہ السلام کے مقابلے میں اپنی مجبوری ظاہر کرنا، آں حضرت کی برتری کا اقرار اور یہ کہنا کہ اگر علی نہ ہوتے تو ہم ہلاک ہوجاتے، اس مقصد کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

چنانچہ آپ کے مخفی اکابر علماء نے نقل کیا ہے کہ خلیفہ ابوبکر کہتے تھے۔ " أقيلوني أقيلوني فلستبخيركم وعليّ فيكم " یعنی مجھ کو برطرف کرود مجھ کو برطرف کردو کیونکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں جب کہ علی(ع) تم میں موجود ہوں۔

اور خلیفہ عمر نے مختلف معاملات اور مواقع پرستر مرتبہ سے زیادہ اقرار کیا کہ " لولاعلي لهلك عمر." یعنی اگر علی(ع) نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوگیا ہوتا۔ کتابوں میں ان خطرناک مواقع میں سے اکثر کا ذکر موجود ہے۔ لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ اب جلسے کا زیادہ وقت خراب ہوکیونکہ شاید اس سے اہم مسائل پر گفتگو کرنا ضروری ہو۔

نواب : قبل صاحب اس موضوع سے بڑھ کے کون سا مطلب اہم ہوگا کیا یہ کلمات ہماری معتبر کتابوں میں موجود ہیں؟ اگر میں اور آپ کے پیش نظر ہیں تو ہماری مزید بصیرت کے لیے بیان فرمائیے ہم ممنون ہوں گے۔

خیر طلب : میں نے عرض کیا کہ اکابر علماء اہلسنت اس بات پر متفق ہیں( سوا چند متعصب اور ضدی لوگوں کے) اور مختلف عبارات و الفاظ کے ساتھ متعدد مقامات پر اس کو نقل کیا ہے۔ میں مطلب کی وضاحت اور اتمام حجت کے لیے ان میں سے بعض اسناد و کتب کی طرف جو اس وقت مجھ کو یاد ہیں اشارہ کرتا ہوں۔

قول عمر لولاعلي لهلك عمر کے اسناد

1۔ قاضی فضل اللہ بن روز بہان متعصب نے ابطال الباطل میں۔ 2۔ ابن حجر عسقلانی متوفی سنہ852 ھ نے تہذیب التہذیب مطبوعہ حیدر آباد دکن ص337 میں۔ 3۔ نیز ابن حجر نے اصابہ جلد دوم مطبوعہ مصر ص509 میں۔ 4۔ ابن قتیبہ دینوری متوفی سنہ376ھ نے کتاب تاویل مختلف الحدیث ص201، 202 میں۔ 5۔ ابن حجر مکی متوفی سنہ973ھ نے صواعق محرقہ ص78 میں۔ 6۔ حاج احمد آفندی نے ہدایت المرتاب ص126 ، ص152 میں۔ 7۔ ابن اثیر جزری متوفی سنہ630ھ نے اسد الغابہ جلد چہارم ص22 میں۔ 8۔ جلال الدین

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369