پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310260 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

بحمداللہ آپ نے ہمت و شجاعت کے ساتھ پردے اٹھادیے اور ادب کے پیرائے میں ہم کو حقائق سے روشناس فرمایا۔گزشتہ شب جب ہم لوگ یہاں سے واپس ہوئے تو راستے میں کافی دیر تک حضرات علماء پر ہماری چوٹیں ہوتی رہیں اور آپس میں سخت گفتگو کی نوبت آگئی یہاں تک کہ ہم نے مشکل سے حالات کو درست کیا۔ ہمارے درمیان ایک عجیب دو رنگی پیدا ہوگئی ہے۔ آج کی شب مولوی صاحبان ہم سے بہت نالاں اور برگشتہ خاطر ہیں۔ اتنے میں نماز کا وقت آیا اور انہوں نے مغرب و عشاء کی نماز ہماری اقتداء میں پڑھی اور ہماری ہی طرح سےفریضہ ادا کیا۔ آہستہ آہستہ حضرات تشریف لائے چنانچہ معمولی خاطر و جواضع چائے نوشی اور از حد اظہار خلق و محبت کے بعد نواب عبدالقیوم صاحب کی طرف سے سلسلہ گفتگو شروع ہوا۔

نواب : قبلہ صاحب ہماری خواہش ہے کہ کل شب کے بیان کو مکمل کردیجئے تاکہ مطلب ناقص نہ رہ جائے ،اس لیے کہ ہم سب نتیجہ کلام اور آیت کے حقیقی مفہوم کے منتطر ہیں۔

خیر طلب : بشرطیکہ آپ حضرات (مولوی صاحبان کی طرف اشارہ ) آمادہ ہوں اور اجازت دیں۔

حافظ: ( ناراضگی کے ساتھ) کوئی حرج نہیں اگر ابھی کچھ باقی ہے تو فرمائیے ہم سننے کو تیار ہیں۔

خیر طلب : گزشتہ رات یہ کہنے والوں کے رد میں کہ یہ آیت شریفہ خلفائے راشدین کے طریقہ خلافت میں ذکر کی گئی ہے ہم نے ادبی دلائل پیش کئے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ مطالب کو دوسرے رخ سے زیر بحث لائیں تاکہ پردے ہٹیں اور حقیقت سامنے آجائے۔

جناب شیخ عبدالسلام نے گزشتہ شب میں فرمایا تھا کہ اس آیت کے اندر چار صفتین بتاتی ہیں کہ آیت خلفائے اربعہ اور ترتیب خلافت کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، لیکن اول تو فریقین کے بڑے بڑے مفسرین کی طرف سے اس آیہ شریفہ کی شان نزول میں ایسا کوئی بیان نہیں دیا گیا ہے، دوسرے آپ خود بہتر جانتے ہیں کہ کوئی صفت ہر پہلو سے موصوف کے ساتھ مطابقت کرتی ہے تب لائق اعتنا ہوتی ہے اور اگر صفت موصوف سے مطابق نہ ٹھہرے تو حقیقت کا مصداق نہیں بن سکتی۔

اگر بغیر محبت اور عداوت کے ہم اںصاف کی نگاہ سے دیکھیں اور تحقیق کریں تو دیکھیں گے کہ مندرجہ آیہ مبارکہ کے صفات کے حامل صرف حضرت امیرالمومنین صلوات اللہ علیہ تھے اور ہرگز یہ صفتین ان حضرات سے میل نہیں کھاتیں جن کو شیخ صاحب نے بیان کیا ہے۔

حافظ : کیا یہ ساری آیتیں جو آپ نے علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں نقل کیں کافی نہیں تھیں جو آپ چاہتے ہیں کہ اس آیت کو بھی اپنی جادو بیانی کے زور سے علی(ع) کی شان میں ثابت کریں؟ فرمائیے دیکھیں کیونکر یہ خلفائے راشدین کی خلافت سے مطابقت نہیں کرتی۔

۲۲۱

علی علیہ السلام کی شان میں تین سو آیتیں

خیر طلب : آپ نے جو یہ فرمایا کہ آیات قرآنی کو ہم نے مولانا امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں وارد کیا ہے، تو آپ نے یہ ایک عجیب خلط مبحث کیا ہے۔ کیا اس سے آنکھ بند کی جاسکتی ہے کہ خود آپ کی تمام بڑی بڑی تفسیروں اور معتبر کتابوں میں قرآن مجید کی ان کثیر آیتوں کو نقل کیا گیا ہے جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں؟ نہ یہ کہ اس کو ہم سے مخصوص بتایا جائے آیا حافظ ابونعیم اصفہانی جنہوں نے، ما نزل من القرآن فی علی کو اور حافظ ابوبکر شیرازی جنہوں نے نزول القرآن فی علی کو مستقل حیثیت سے لکھا ہے شیعہ تھے ؟ آیا تمام بڑے بڑے مفسرین جیسے امام ثعلبی، جلال الدین، سیوطی ، طبری ، امام فخرالدین رازی اور اکابر علماء جیسے ابن کثیر، مسلم ، حاکم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابودائود اور احمد ابن حنبل وغیرہ، بیان تک کہ ابن حجر ایسے متعصب جنہوں نے صواعق محرقہ میں ان قرآنی آیات کو اکٹھا کیا ہے جو ان حضرت کی شان میں نازل ہوئی ہیں، شیعہ تھے ؟؟؟ بعض جیسے طبرانی نے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے باب۶۲ کے شروع میں بسند ابن عباس اور محدث شام نے اپنی تاریخ کبیر میں نیز اور حضرات نے جو قرآن کی تین آیات تک ان حضرت کے بارے میں درج کی ہیں تو یہ شیعہ تھے یا آپ کے اکابر علماء اور پیشوا تھے

بہتر ہوگا کہ آپ حضرات تھوڑے غور و تامل کے ساتھ بیان کیا کریں تاکہ ندامت و پشیمانی کا باعث نہ ہو۔

ہم حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی منزلت ثابت کرنے میں کچھ گھڑنے اور وضع کرنے کے محتاج نہیں کہ زبردستی کسی آیت کو ان حضرت کی شان میں نقل کریں آپ کے مدارج آفتاب نصف النہار کی طرح ظاہر و ہویدا ہیں۔ یہ وہ خورشید تاباں ہے جو ابر کے پردے میں نہیں رہتا۔

امام محمد بن ادریس شافعی کہتے ہیں میں تعجب کرتا ہوں علی علیہ السلام سے کیونکہ ان حضرت کے دشمن ( بنی امیہ نواصب اور خوارج بغض و کینہ کی وجہ سے ان حضرت کے فضائل نقل نہیں کرتے اور دوستان علی(ع) بھی خوف و تقیہ کے سبب ذکر مناقب سے احتیاط کرتے ہیں اس کے با وجود کتابیں حضرت کے فضائل و مناقب سے پر ہیں جو ہر جگہ شمع محفل ہیں۔ چنانچہ اس آیت کے موضوع میں ہم کسی سحر آمیزی کو دخل نہیں دیتے بلکہ ان حقائق کو بیان کرتے ہیں جو پر ہم نے خود آپ کی معتبر کتابوں سے استدلال کیا ہے اور کرتے ہیں۔

آپ ملاحظہ فرمارہے ہیں کہ میں نے اب تک شیعہ روایات سے استدلال نہیں کیا ہے اور نہ انشاء اللہ آئندہ کروںگا میں نے منبروں پر اور تقریروں میں بار بار کہا ہے کہ اگر شیعوں کی تمام کتابیں درمیان سے ہٹائی جائیں تو میں صرف اکابر علمائے اہلسنت سے امیرالمومنین علیہ السلام کے مقام ولایت و خلافت اور اولویت کو بہترین طریقے پر ثابت کروں گا۔ چنانچہ اس آیہ شریفہ میں بھی میرا قول تنہا نہیں ہے کہ آپ کو سحر بیان میں مبتلا کروں بلکہ خود آپ کے علماء نے بھی اس مطلب کی

۲۲۲

تصدیق کی ہے۔ مجھ کو اچھی طرح سے یاد ہے کہ فقیہ و مفتی عراقین محدث شام محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۴۳ میں حدیث تشبیہ کو نقل کرتے ہوئے کہ رسول خدا(ص) نے علی (ع) کو انبیاء(ع) کی شبیہ قرار دیا ہے، کہتے ہیں کہ علی(ع) کوجو حکم و حکمت میں نوح(ع) کی تشبیہ فرمایا تو اس کا سبب یہ ہے کہ

" انه کان شديدا علی الکافرين رئوفا بالمومنين کما وصفه الله تعالی القرآن بقوله والذين معه اشداء علی الکفار رحماء بينهم "

یعنی در حقیقت وہ کافروں پر سخت اور مومنوں پر مہربان تھے، جیسا کہ خدا نے قرآن میں اس آیت سے ان کی تعریف کی ہے کہ علی(ع) ہمیشہ پیغمبر(ص) کے ساتھی تھے کفار پر سختی اور مومنین پر مہربانی کرنے والے تھے۔ اور جو شیخ صاحب نے یہ فرمایا کہ والذین معہ ابوبکر کے بارے میں ہے اس دلیل سے کہ چند روز غار میں رسول اللہ(ص) کے قریب رہے تو (حالانکہ کل شب کو عرض کرچکا ہوں کہ خود آپ ہی کے علماء نے لکھا ہے کہ اتفاقیہ طور پر اور آئندہ خطروں سے بچنے کے لیے ان کو ساتھ لے گئے تھے) اگر فرض کر لیا جائے کہ آنحضرت(ص) مخصوص طریقے سے ان کو اپنے ہمراہ لے گئے تو کیا ایسا مسافر جو چند روز سفر کے عالم میں آں حضرت(ص) کے ساتھ رہا ہو مرتبہ میں اس شخص کی برابری کرسکتا ہے جو اوائل عمر ہی سے رسول اکرم(ص) کے ہمراہ اور آن حضرت(ص) کی تعلیم و تربیت میں رہا ہو؟

اگر انصاف و حقیقت کی نظر سے دیکھیے تو تصدیق کیجئے گا کہ حضرت علی علیہ السلام اس خصوصیت میں ابوبکر اور ان تمام مسلمانوں سے اولی ہیں جو اس آیت کے مصداق بن سکیں کیونکہ آپ نے بچپن ہی سے رسول اللہ(ص) کےساتھ اور آنحضرت(ص) کے زیر تربیت نشو و نما پائی۔ بالخصوص ابتدائے بعثت سے سوا علی علیہ السلام کے دوسرا آن حضرت(ص) کے ساتھ نہیں تھا۔ علی (ع) اس دن بھی پیغمبر(ص) کے ہمراہ تھے جب ابوبکر ، عمر ، عثمان، ابوسفیان، معاویہ اور تمام مسلمان دین توحید سے منحرف اور بت پرستی میں غرق تھے۔

رسول اللہ(ص) پر سب سے پہلے ایمان لانے والے علی(ع) تھے

چنانچہ آپ کے اکابر علماء جیسے بخاری ومسلم نے اپنی صحیحین میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، ابن عبدالبر نے استیعاب جلد سیم ص۳۲ میں، امام ابوعبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص۶۳ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب۱۳ میں ترمذی و مسلم سے، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول فصل اولی میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص۲۵۸ میں، ترمذی نے جامع ترمذی جلد دوم ص۳۱۴ میں، حموینی نے فرائد میں امیر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں، یہاں تک کہ ابن حجر متعصب نے صواعق میں اور آپ کے دوسرے جید علماء نے الفاظ کے مختصر کمی و بیشی ے ساتھ ابن بن مالک نیز اور لوگوں سے نقل کیا ہے کہ " بعث النبی فی يوم الاثنين و آمن علی يوم الثلاث " یعنی پیغمبر(ص) دو شنبے کے روز مبعوث ہوئے اور علی(ع) سہ شنبہ کو ایمان لائے نیز روایت کی ہے " بعث النبی فی يوم الاثنين و صلی علی معهيوم الثلاث " یعنی پیغمبر(ص) دو شنبہ کے روز مبعوث ہوئے اور سہ شبنہ کو علی نے ان کے ساتھ نماز پڑھی) اور

۲۲۳

" انه اول من آمن برسول الله من الذکور " یعنی علی(ع) وہ پہلے مرد تھے جو رسول اللہ پر ایمان لائے۔

نیز طبری نے اپنی تاریخ جلد دوم ص۲۴۱ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص۲۵۱ میں، ترمذی نے جامع جلد دوم ص۲۱۵ میں، امام احمد نے مسند جلد چہارم ص۳۶۸ میں، ابن اثیر نے کامل جلد دوم ص۲۴ میں، حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد چہارم ص۳۴۶ میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب ۲۵ میں اپنے اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اول من صلی علی ( اسلام کے اندر) جس نے سب سے پہلے نماز ادا کی وہ علی(ع) تھے۔ اور زید ابن ارقم سے روایت کی ہے کہ" اول من سلم مع رسول الله علی ابن ابی طالب " یعنی جو شخص سب سے پہلے رسول اللہ(ص) کےساتھ اسلام لایا وہ علی(ع) ابن طالب تھے اور اسی قسم کی روایتیں آپ کی معتبر کتابوں میں بھری پڑی ہیں۔ لیکن نمونے کے لیے اسی قدر کافی ہیں۔

علی(ع) بچپن ہی سے پیغمبر(ص) کی تربیت میں

خصوصیت سے آپ کو اس طرف توجہ کرنا چاہئیے کہ آپ ہی کے ذی علم فقیہہ نور الدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ فصل تربیتہ النبی ص۱۶ میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول فصل اول ص۱۱ میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ جس سال مکہ معظمہ میں قحط پڑا تھا ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ( جو ابھی ظاہری طور پر مبعوث برسالت نہ ہوئے تھے) اپنےچچا عباس سے فرمایا کہ آپکے بھائی ابو طالب کثیر العیال ہیں اور زمانہ بھی بہت سخت ہے لہذا ہم لوگوں چل کے ان کی اولاد میں سے جس کومناسب سمجھیں ایک ایک نفر کو ا پنی کفالت میں لے لیں تاکہ میرے عزیز چچا کو بار ہلکا ہوجائے۔ عباس نے منظور کیا۔ دونوں حضرات مل کے جناب ابو طالب کے پاس گئے اور اپنے آنے کی غرض بیان کی ۔ چنانچہ ابوطالب راضی ہوگئے۔ چنانچہ عباس نے جناب جعفر طیار کو اپنے ذمے لیا اور رسول خدا(ص) نے حضرت علی(ع) کی ذمہ داری لی، اس کے بعد مالکی یہ عبارت لکھتے ہیں کہ

" فلم يزل عليّ مع رسول اللّه صلّى اللّه عليه وآله وسلّم حتّى بعثه اللّه نبيّافاتّبعه علي ّوآمن به وصدّقه و کان عمره اذ ذاک فی السنه الثالثه عشر من عمره لم يبلغ الحلم و انه اول من اسلم و آمن برسول الله من الذکور بعد خديجة"

( یعنی علی(ع) ہمیشہ رسول اللہ(ص) کے ساتھ رہے یہاں تک کہ خدا نے آنحضرت(ص) کو مبعوث برسالت فرمایا تو علی(ع) نے ان کی پیروی کی ان پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق کی، حالانکہ ابھی ان کی عمر کے صرف تیرہ سال گزرے تھے اور حد بلوغ میں نہیں پہنچے تھے، خدیجہ(ع) کے بعد مردوں میں آں حضرت(ص) پر سب سے پہلے اسلام و ایمان لانے والے یہی تھے۔)

۲۲۴

اسلام میں علی(ع) کی سبقت

پھر مالکی اسی فصل میں امام ثعلبی کا قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے سورہ نمبر۹ ( توبہ) کی آیت نمبر۱۰۶ " وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرِينَ وَالْأَنْصارِ" کی تفسیر میں اس طرح روایت کی ہے کہ ابن عباس جابر ابن عبداللہ اںصاری، زید بن ارقم، محمد بن منکور اور بعیتہ الرائی کہتے ہیں کہ خدیجہ کے بعد جو شخص سب سے پہلے رسول خدا(ص) پر ایمان لایا وہ علی(ع) تھے ۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ علی کرم اللہ وجہہ نے اس بات کی طرف اپنے اشعار میں اشارہ فرمایا ہے جن کو ثقات علماء نے آپ سے نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔

محمّدالنبي أخي وصنوي وحمزةسيّدالشهداءعمي

وبنت محمّدسكني وعرسي من وطلحمهابدمي ولحمي

وسبطاأحمدولداي منهافأيكم له سهم كسهمي

سبقتكم الى الاسلام طراعلى ماكان من فهمي وعلمي

فأوجب لي ولايته عليكم رسولاللّه يوم غديرخم

فويل ثم ويل ثم ويل لمن يلقى الإله غدابظلمي

( یعنی محمد رسول اللہ(ص) میرے بھائی اور میرے چچا کے بیٹے ہیں، اور حمزہ سید الشہداء میرے چچا ہیں اور فاطمہ بنت رسول اللہ(ص) میری زوجہ اور شریک زندگی ہیں۔ اور پیغمبر(ص) کے دونوں نواسے میرے دو فرزند ہیں فاطمہ(س) سے، پس تم میں سے کون ہے جس کا حصہ میرے حصے کے برابر ہو، پس تم سب سے پہلے اسلام لایا جب کہ میں کم سن تھا اور حد بلوغ کو نہیں پہنچا تھا، اور پیغمبر(ص) نے میرے لیے اپنی ولایت کو تم پر غدیر خم کے روز واجب کیا، پھر تین مرتبہ فرمایا کہ وائے ہو اس پرجو کل (روز قیامت) اس حالت میں خدا سے ملاقات کرے کہ اس نے مجھ پر ظلم کیا ہو۔)

محمد طن طلحہ شافعی نے مطالب السئول باب اول فصل اول کے ضمن میں ص۱۱ پر اور آپ کے بڑے بڑے علمائے مورخین و محدثین نے نقل کیا ہے کہ حضرت نے یہ اشعار اس موقع پر معاویہ کے جواب لکھے تھے جب اس نے اپنے خط میں ان حضرت کے مقابلے میں فخر و مباہات کیا تھا کہ میرا باپ زمانہ جاہلیت میں سردار قوم تھا اور اسلام میں اس نے بادشاہی کی، اور میں خال المومنین، کاتب وحی اور مصاحب فضائلی ہوں۔

حضرت نے خط پڑھنے کے بعد فرمایا " ابا الفضائل يفخر علی ابن آکلة الاکباد " یعنی آیا میرے سامنے جگر چبانے والی ( یعنی معاویہ کی ماں ہندہ جس کے لیے احد میں سید شہداء حمزہ کا جگر لایا گیا اور اس نے منہ میں رکھ کر چبایا ) کو لڑکا فضائل

۲۲۵

فخر کرتا ہے۔ اس کے بعد مذکورہ بالا اشعار اس کو لکھے جن میں غدیر خم کی طرف اشارہ فرمایا اور ثابت فرمایا کہ آپ ہی امام و خلیفہ اور رسول خدا(ص) کے آں حضرت(ص) ہی کے حکم سے مسلمانوں کے امور میں اولی بہ تصرف ہیں۔ اور معاویہ باوجودیکہ آپ کا اتنا سخت مخالف تھا ان مفاخرات میں آپ کی تکذیب نہیں کرسکتا۔ نیز حاکم ابو القاسم اسکافی جو آپ کےبہت بڑے عالم اور آپ کے علماء کے معتمد علیہ ہیں آیہ مذکورہ کے ذیل میں عبدالرحمن ابن عوف سے نقل کرتے ہیں کہ قریش میں سے دس نفر ایمان لائے جن میں سب سے پہلے علی ابن ابی طالب(ع) تھے۔

آپ کے اکابر علماء جیسے احمد ابن حنبل مسند میں، خطیب خوارزمی مناقب میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب ۱۲ میں انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ رسول (ص) نے فرمایا :

" لَقَدْصَلَّتِ الْمَلَائِكَةُعَلَيّ َوَعَلَى عَلِيِّ سَبْعَ سِنِين َوَذَلِكَ أَنَّهُ لَمْ تُرْفَعْ شَهَادَةُأَنْ لَاإِلَه إِلَّااللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّداًرَسُول ُاللَّهِ إِلَّامِنِّ يوَمِنْ عَلِيٍّ"

یعنی ملائکہ نے سات سال مجھ پر اور علی پر صلوات بھیجی کیونکہ اس مدت میں سوا میرے اور علی(ع) کے کسی اور کی طرف سے کلمہ شہادت آسمان کی جانب بلند نہیں ہوا۔

ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں ص۳۷۵ سے ص۳۷۸ تک آپ کے روایات و علماء کےسلسلوں سے بکثرت روایتیں نقل کی ہیں کہ علی علیہ السلام و ایمان میں سارے مسلمانوں سے آگے تھے اور تمام اخبار و اختلاف اقوال کے آخر میں کہتے ہیں :

" فدل مجم وعماذكرناعلى أن علياأول الناس إسلاماوأن المخالف في ذلك شاذوالشاذلايعتدبه انتهى كلامه."

یعنی یہ سب جو ہم نے ذکر کیا اس پر دلالت کرتا ہے کہ علی علیہ السلام سب سے پہلے اسلام لائے اور اس امر کے مخالف بہت کم ہیں اور قول شاذ قابل توجہ نہیں ہوتا۔

امام ابو عبدالرحمن نسائی نے جو ائمہ صحاح ستہ میں سے ایک ہیں خصائص العلوی کی پہلی چھ حدیثیں اسی موضوع میں نقل کی ہیں اور تصدیق کی ہے کہ سب سے پہلے رسول اللہ(ص) پر ایمان لانے والے اور آن حضرت(ص) کے ساتھ نماز پڑھنے والے علی علیہ السلام تھے۔

اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے یابیع المودۃ باب۱۲ میں ترمذی، حموینی، ابن ماجہ، احمد حنبل، حافظ ابونعیم، امام ثعلبی، ابن مغازلی، ابوالموید خوارزمی اور دیلمی سے مختلف مضامین کےساتھ اکتیس (۳۱) روایتیں نقل کی ہیں جن سب کا خلاصہ اور نتیحہ یہ ہے کہ علی علیہ السلام ساری امت سے پہلے اسلام و ایمان لائے یہاں تک کہ ابن حجر مکی جیسے متعصب نے بھی صواعق محرقہ فصل دوم میں انہیں مضامین کی روایتیں نقل کی ہیں، چنانچہ سلیمان بلخی حنفی نے بھی ینابیع المودۃ میں ان میں سے بعض رایتیں ان سے نقل کی ہیں اور ینابیع المودۃ باب۱۴ کے آخر میں اپنے اسناد کےساتھ ابن زبیر مکی سے اور انہوں نے جابر ابن عبداللہ اںصاری سے مناقب کے سلسلے میں ایک مبارک روایت نقل کی ہے جس کو آپ حضرات کی اجازت سے ہیش کررہا ہوں تاکہ حجت تمام ہوجائے رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے:

"إِنَّ اللَّه َتَبَارَكَ وَتَعَالَى اصفَانِي وَاخْتَارَنِي وَجَعَلَنِي رَسُولًاوَأَنْزَل َعَلَيَّ سَيِّدَالْكُتُبِ فَقُلْتُ إِلَهِي وَسَيِّدِي إنَّكَ أَرْسَلْتَ مُوسَى إِلَى فِرْعَوْنَ فَسَأَلَ كَأَنْ تَجْعَلَ مَعَهُ أ َخاهُ هارُونَ وَزِيراً

۲۲۶

تَشُدُّبِه ِعَضُدَهُ وَتُصَدِّقُ بِهِ قَوْلَهُ وَإِنِّي أَسْأَلُكَ يَاسَيِّدِي وَإِلَهِي أَنْ تَجْعَلَ لِي مِنْ أَهْلِي وَزِيراًتَشُدُّبِهِ عَضُدِي فَجَعَل َاللَّهُ لِي عَلِيّاًوَزِيراًوَأَخاًوَجَعَل َالشَّجَاعَةَفِي قَلْبِهِ وَأَلْبَسَهُ الْهَيْبَةَعَلَى عَدُوِّهِ وَهُوَأَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِي وَصَدَّقَنِي وَأَوَّلُ مَنْ وَحَّدَاللَّهَ مَعِي وَإِنِّي سَأَلْتُ ذَلِكَ رَبِّي عَزَّوَجَلَّ فَأَعْطَانِيهِ فَهُوَسَيِّدُالْأَوْصِيَاءِاللُّحُوقُ بِهِ سَعَادَةٌوَالْمَوْتُ فِي طَاعَتِهِ شَهَادَةٌوَاسْمُه ُفِي التَّوْرَاةِمَقْرُون ٌإِلَى اسْمِي وَزَوْجَتُهُ الصِّدِّيقَةُالْكُبْرَى ابْنَتِي وَابْنَاهُ سَيِّدَاشَبَابِ أَهْل ِالْجَنَّةِابْنَايَ وَهُوَوَهُمَاوَالْأَئِمَّةُبَعْدَهُمْ حُجَجُ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ بَعْدَالنَّبِيِّين َوَهُمْ أَبْوَابُالْعِلْمِ فِي أُمَّتِي مَنْ تَبِعَهُمْ نَجَامِنَ النَّارِوَمَنِ اقْتَدَى بِهِمْ هُدِيَ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ لَمْ يَهَبِ اللَّه ُعَزَّوَجَلَّ مَحَبَّتَهُمْ لِعَبْدٍإِلَّاأَدْخَلَهُ اللَّه ُالْجَنَّةَ.انتهی. فاعتبروا يا اولی الالباب"

یعنی خدائے تعالی نے مجھ کو برگزیدہ او منتخب کیا ( مخلوقات میں سے ) مجھ کو پیغمبر بنایا اور مجھ پر سب سے بہتر کتاب نازل کی۔ پس میں نے عرض کیا اے میرے معبود اور مالک تونے موسی کو فرعون کی طرف بھیجا، تو انہوں نے تجھ سے دعا کی کہ میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا دے تاکہ ان سے میرا بازو مضبوط ہو اور ان کے ذریعے میرے قول کی تصدیق ہو۔ چنانچہ اب میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ خداوندا میرے اہل میں سے میرے لیے ایک وزیر قرار دے جس سے میرا بازو مضبوط ہو۔ پس علی (ع) کو میرا وزیرا اور میرا بھائی بنا، شجاعت کو ان کے دل میں قائم کر اور ان کے دشمنوں کے مقابلے میں ان کو ہیبت عطا کر۔ علی(ع) وہ پہلے شخص ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور میری تصدیق کی او سب سے پہلے میرے ساتھ خدا کی وحدانیت کا اقرار کیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ میں نے خدا سے یہ سوال کیاتو اس نے مجھ کو عطا بھی فرمایا ( یعنی علی(ع) کو میرا وزیر اور بھائی قرار دیا) پس علی(ع) اوصیاء کے سردار ہیں، ان سے وابستہ ہونا سعادت اور ن کی اطاعت میں مرنا شہادت ہے، توریت میں ان کا نام میرے نام کے ساتھ ہے، ان کی زوجہ صدیقہ کبری میری بیٹی ہے، ان کے دو بیٹے جو جوانان جنت کے سردار ہیں، میرے فرزند ہیں علی(ع)، حسن(ع)، حسین(ع) اور ان کے بعد سارے امام انبیاء کے بعد تمام خلقت پر خدا کی حجت ہیں اور یہ حضرات میری امت میں علم کے دروازے ہیں جس شخص نے ان کی پیروی کی اس نے۔۔۔۔۔ آتش جہنم سے نجات پائی اور جس نے ان کی اقتداء کی اس نے صراط مستقیم کی ہدایت پائی۔ خدا نے جس بندے کو ان کی محبت عنایت فرمائی اس کو ضرور جنت میں داخل کرے گا ( لہذا اے صاحبان بصیرت عبرت حاصل کرو۔)

اگر میں چاہوں کہ بغیر کتب شیعہ کی سند کی صرف وہی سب روایتیں پیش کروں جو محض آپ ہی کے روات اور اکابر علماء کے سلسلوں سے اس بارے میں مروی ہیں تو ساری رات صرف ہوجائے گی۔ میرا خیال ہے کہ نمونے کے طور پر اسی قدر کافی ہے جس سے آپ حضرات سمجھ لیں گے کہ علی(ع) وہ شخص ہیں جو ابتدا سے رسول خدا (ص) کے ساتھ تھے لہذا اولی و احق بات یہ ہے کہ ہم انہیں بزرگوار کو والذین معہ کا مصداق سمجھیں نہ کہ اس کو جو غار کی مسافرت میں چند راتیں رسول(ص) کے ہمراہ رہا۔

۲۲۷

علی(ع) کے ایمان طفلی میں اشکال اور اس کا جواب

حافظ : یہ بات تو ثابت ہے اور کسی نے اس حقیقت کا انکار نہیں کیا ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ ساری امت سے سابق الاسلام تھے لیکن یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ یہ سبقت دوسرے صحابہ پر علی کرم اللہ وجہہ کی فضیلت و شرافت کی دلیل نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ خلفائے معظم ابوبکر وعمر و عثمان رضی اللہ عنہم علی کرم اللہ وجہہ کے ایک مدت بعد ایمان لائے لیکن ان کا ایمان علی کے ایمان سے فرق رکھتا تھا اور قطعا ان کا ایمان علی(ع) کے ایمان سے افضل تھا کیوں کہ علی(ع) ایک نا بالغ بچے اور یہ لوگ سن رسیدہ اور کامل العقل تھے۔

بدیہی چیز ہے کہ ایک تجربہ کار جہاں دیدہ اور پختہ عقل رکھنے والے بوڑھے کا ایمان ایک نو خیز و نابالغ لڑکے کے ایمان سے افضل اور بالاتر ہے۔ اس کے علاوہ علی(ع) کا ایمان تقلیدی اور ان لوگوں کا تحقیقی تھا تقلیدی ایمان سے قطعا افضل ہے اس لیے کہ نابالغ اور غیر مکلف بچہ بغیر تقلید کے ہرگز ایمان نہیں لانا اور علی(ع) تیرہ سال کے ایک کم سن بچے تھے جن پر کوئی شرعی تکلیف نہیں تھی لہذا یقینا انہوں نے محض تقلید میں ایمان قبول کیا۔

خیر طلب : آپ جیسے علمائے قوم سے اس قسم کی گفتگو سن کے تعجب ہوتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کی ان باتوں کا کیا مطلب سمجھوں۔ آیا یہ کہوں کہ آپ محض عناد کی بنا پر ہٹ دھرمی کررہے ہیں لیکن اس پر میرا دل آمادہ نہیں ہوتا کہ ایک عالم کی طرف ایسی نسبت دوں؟ تو کیا یہ کہوں کہ آپ بغیر سوچے سمجھے اپنے اسلاف کی پیروی میں اس قسم کی باتیں کرتے ہیں یعنی آپ صرف ( بنی امیہ کے زیر اثر خوارج و نواصب کی تقلید میں بول رہے ہیں اور اپنی تقریر میں کسی تحقیق سے مطلب نہیں رکھتے۔)

میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آیا بچپنے میں علی علیہ السلام کی ایمان اپنی خواہش اور ارادے سے تھا یا رسول اللہ(ص) کی دعوت پر ؟

حافظ: پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ طریقہ گفتگو سے کیوں متاثر ہوتے ہیں کیونکہ جب شبہ اور اشکال دل میں الجھن پیدا کرتا ہے تو اس کو زیر بحث لانا ضروری ہوتا ہے تاکہ حقیقتوں کا انکشاف ہو۔

دوسرے آپ کے جواب میں یہ طے شدہ امر ہے کہ علی(ع) رسول خدا(ص) کی دعوت پر ایمان لائے، اپنی خواہش اور ارادے سے نہیں۔

خیر طلب: آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب علی علیہ السلام کو اسلام کی دعوت دی تو آپ یہ جانتے تھے کہ بچے کے اوپر بلوغ سے پہلے شرعی تکلیف نہیں ہے یا نہیں جانتے تھے؟ اگر یہ کہئے کہ نہیں جانتے تھے تو آپ نے آں حضرت (ص) کی طرف جہالت کی نسبت دی اور اگر جانتے تھے کہ چھوٹے بچے کے لیے کوئی دینی ذمہ داری نہیں ہے اس کے باوجود ان کو دعوت دی تو ایک لغو و مہمل اور بے محل کام کیا۔ بدیہی چیز ہے کہ رسول اللہ(ص) کی طرف لغو اور عبث کام کی نسبت دینا کھلا ہوا

۲۲۸

کفر ہے کیونکہ پیغمبر(ص) لغو اور فصول باتوں سے پاک و مبرا ہے خصوصا خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیونکہ خدا سورہ۵۳ ( النجم) آیت نمبر۳ میں آنحضرت(ص) کے لیے فرماتا ہے۔ "وَمايَنْطِقُ عَنِ الْهَوى إِنْ هُوَإِلَّاوَحْيٌ يُوحى " ( یعنی رسول خدا(ص) اپنی خواہش نفس سے کوئی بات نہیں کہتے ہیں وہ از روئے وحی ہوتا ہے جو ان پر نازل ہوتی ہے۔)

بچپن میں علی(ع) کا ایمان ان کی عقل و فضل کی زیادتی کی دلیل ہے

پس قطعا آن حضرت(ص) نے علی (ع) کو دعوت دینے کے قابل اور اہل جان کے دعوت دی کیونکہ آنحضرت(ص) سے کوئی لغو عمل سرزد نہیں ہوتا اس کے علاوہ کم سنی کمال عقل کی منافی نہیں ہوتی، بلوغ وجوب تکلیف کی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ صرف احکام شرعی میں اس کے لحاظ کیا جاتا ہے نہ کہ عقلی امور میں، اور ایمان ایک عقلی امر ہے تکلیف شرعی نہیں ہے لہذا" ایمان علی فی الصغر من فضائلہ" بچپن میں علی (ع) کا ایمان ان کی ایک فضیلت ہے، جیسا کہ حضرت عیسی بن مریم علی نبینا و آلہ وعلیہ السلام کے لیے جو ابھی نوزائیدہ بچے تھے خدائے تعالی سورہ نمبر۱۹ ( مریم) آیت نمبر۳۱ میں خبر دیتا ہے کہ انہوں نے کہا :

" قالَ إِنِّي عَبْدُاللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا"

(یعنی در حقیقت میں خدا کا ایک خاص بندہ ہوں، اس نے مجھ کو آسمانی کتاب عطا کی اور نبی بنایا ہے۔ ) اور حضرت یحی علیہ السلام کے لیے اسی سورے کی آیت نمبر۱۳ میں فرماتا ہے " و آت ي نا الحکم صبيا" یعنی ہم نے یحی کو بچپنے ہی میں منصب نبوت عطا کیا۔

سید اسماعیل حمیری یمنی متوفی سنہ۱۷۵ ہجری نے جو دوسری صدی ہجری کے مشہور شعراء میں سے تھے ان اشعار میں جو انہوں نے حضرت کی مدح میں کہے تھے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:

وصي محمدوأب ابنيه ووارثه وفارسه الوفيا

وقدأوتي الهدى والحكم طفلاكيحيىي ومأوتيه صبيا

یعنی جس طرح یحی عالم طفلی میں نبوت پر فائز ہوئے اسی طرح جانشین پیغمبر(ص)، آپ کے فرزندوں کے باپ، آپ کے وارث اور جان نثار شہسوار علی علیہ السلام بھی بچپنے ہی میں ولایت و ہدایت کے حامل ہوئے۔

جو فضیلت و منزلت خدا عطا فرماتا ہے و سن بلوغ تک پہنچنے کی محتاج نہیں ہے بلکہ عقل کی پختگی اور صلاحیت طبع پاک طینت کا نتیجہ ہے جس سے فقط ہر سر د خفی کا جاننے والا خدا ہی واقف ہے لہذا اگر یحی(ع) بچپنے میں اور عیسی(ع) گہوارے میں نبوت تک اور علی(ع) تیرہ سال کے سن میں ولایت مطلقہ تک پہنچ جائیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ آپ کی اس گفتگو پر جس سے میں متاثر ہوا زیادہ تر تعجب یہ تھا کہ ایسے شبہات و اعتراضات نواصب و خوارج اور بنی امیہ کے پروپیگنڈے سے متاثر معنادین کے پرئووں سے سننے میں آتے ہیں جو علی علیہ السلام کے ایمان پر نکتہ چینی کرتے

۲۲۹

ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا ایمان معرفت و یقین کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ تلقین و تقلید کی بنا پر تھا۔

اول تو آپ کےسارے موثق اکابر علماء اس فضیلت کے معترف ہیں، دوسرے اگر کم سنی کا ایمان ان حضرت کے لیے باعث فخر وبزرگی نہیں تھا تو آپ نے صحابہ کے مقابلے میں اس قدر فخر و مباہات کیوں فرمایا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا آپ کے اکابر علماء جیسے محمد بن طلحہ شافعی، ابن صباغ مالکی، ابن ابی الحدید اور دوسروں نے بھی حضرت کے اشعار نقل کئے ہیں کہ آپ نے ضمنا فرمایا :

سبقتكم الى الإسلام طراصغيرامابلغت أوانحلمي

( یعنی میں نے اس وقت تم لوگوں پر اسلام میں سبقت کی جب کہ میں ایک چھوٹا بچہ تھا اور سن بلوغ کو نہیں پہنچا تھا۔ ۱۲ مترجم عفی عنہ)

اگر بچپن ان حضرت کا ایمان کوئی فضل و شرف نہ ہوتا تو رسول خدا(ص) کو اس فضیلت کے ساتھ خصوصیت نہ دیتے اور آپ خود اس بات پر فخر و مباہات نہ کرتے، چنانچہ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ ضمن باب۵۶ ص۴۰۲ میں ذخائر العقبی امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی سے بسندخلیفہ ثانی عمر ابن خطاب نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں، ابوبکر، ابو عبیدہ جراح اور ایک جماعت خدمت رسول (ص) میں حاضر تھے کہ آں حضرت(ص) نے اپنا دست مبارک علی(ع) کے شانے پر رکھا اور فرمایا :

"ياعلي أنت أول المؤمنين إيمانا،وأول المسلمين إسلاما،وأنت مني بمنزلةهارون من موسى."

( یعنی یا علی(ع) تم ایمان و اسلام میں تمام مومنین و مسلمین سے اول ہو اور تم میرے لیے بمنزلہ ہارون ہو موسی کے لیے۔)

نیز امام احمد ابن حنبل مسند میں ابن عباس ( خیر امت) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں، ابوبکر، ابو عبیدہ بن جراح اور دوسرے صحابہ کا ایک مجمع پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر تھے کہ آں حضرت(ص) نے علی بن ابی طالب(ع) کے شانے جپر دست مبارک رکھ کے فرمایا :

"فَقَالَ يَاعَلِيُّ أَنْتَ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ إِسْلَاماًوَأَنْتَ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَاناًوَأَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِهَارُونَ مِن ْمُوسَى كَذَبَيَ اعَلِيُّ مَنْ زَعَم َأَنَّهُ يُحِبُّنِي وَيُبْغِضُكَ"

(یعنی تم اسلام و ایمان میں تمام مسلمانوں اور مومنوں سے آگے ہو۔ اور تم میرے لیے بمنزلہ ہارون ہو موسی(ع) سے ۔ اے علی(ع) جھوٹ کہتا ہے وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ مجھ کو دوست رکھتا ہے در آنحالیکہ تم کو دشمن رکھتا ہو۔)

ابن صباغ مالکی فصول المہمہ ص۱۴۵ میں اسی طرح کی روایت کتاب خصائص سے بروایت ابن عباس نیز امام ابو عبدالرحمن نسائی خصائص العلوی میں نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے عمر ابن خطاب ( خلیفہ ثانی) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ علی(ع) کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو کیونکہ میں نے پیغمبر(ص) سے سنا ہے کہ فرمایا : علی(ع) میں تین خصلتیں ہیں میں ( یعنی عمر) چاہتا تھا کہ ان میں سے ایک ہی مجھ کو حاصل ہوتی کیونکہ ان صفتوں میں سے ہر ایک میرے نزدیک ہر اس چیز سے زیادہ محبوب ہے جس پر آفتاب چمکتا ہے پھر کہا کہ ابوبکر ابوعبیدہ اور صحابہ کا ایک گروہ بھی حاضر تھا کہ آں حضرت(ص) نے علی(ع) کے شانے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:

۲۳۰

(عبارت مذکورہ بالا) اور ابن صباغ نے ان کلمات کو دوسروں سے زیادہ نقل کیا ہے کہ فرمایا :

" وَمَنْ أَحَبَّكَ فَقَدْأَحَبَّنِي وَمَن ْأ َحَبَّنِي فَقَدْأَحَبَّه اللَّهَ وَ مَن أَحَبَّه اللَّهَ ادخله الجنة وَمَنْ أَبْغَضَكَ فَقَدْأَبْغَضَنِي وَمَنْ أَبْغَضَنِي فَقَدْأَبْغَضَه اللَّهُ تَعَالی أَدْخَلَهُ النَّارَ"

( یعنی جو شخص تم کو دوست رکھے اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جس نے مجھ کو دوست رکھا اس کو خدا دوست رکھتا ہے اور جس کو خدا دوست رکھتا ہے اس کو جنت میں داخل کرے گا اور جو شخص تم کو دشمن رکھے اس نے مجھ کو دشمن رکھا اور جس نے مجھ کو دشمن رکھا اس کو خدا دشمن رکھتا ہے اور اس کو جہنم میں داخل کرے گا۔)

پس عالم طفلی میں علی علیہ السلام کا ایمان عقل و خرد کی زیادتی کو ثابت کرتا ہے اور حضرت کے لیے ایک ایسی فضیلت ہے کہ لم یسبقہ احد من المسلمین جس میں مسلمانوں میں سے کسی نے آپ پر سبقت نہیں کی ہے۔

طبری اپنی تاریخ میں محمد بن سعد ابن ابی وقاص سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ آیا ابوبکر سب سے پہلے مسلمان ہیں؟ کہا نہیں " وَلَقَدْأَسْلَمَ قَبْلَهُ أَكْثَرُمِنْ خَمْسِينَ رَجُلًاوَلَكِنْ كَانَ أَفْضَلَنَاإِسْلَاماً ."( یعنی ابوبکر سے پہلے پچاس آدمیوں سے زیادہ اسلام لاچکے تھے لیکن وہ اسلام کی حیثیت سے ہم سے افضل تھے۔ نیز لکھا ہے کہ عمر ابن خطاب پینتالیس (۴۵) مردوں اور اکیس عورتوں کے بعد مسلمان ہوئے "و لکن اسبق الناس اسلاما و ايمانا فهو علی بن ابی طالب" ( یعنی لیکن اسلام و ایمان کی حیثیت سے تمام انسانوں سے سابق تر علی ابن ابی طالب(ع) تھے)

علی(ع) کا ایمان کفر سے نہیں تھا، فطری تھا

علاوہ اس کے کہ علی(ع) تمام مسلمانوں سے پہلے ایمان لائے ان کے لیے اس سلسلے میں ایک فضیلت اور ہے جو تمام فضائل میں اہم اور ان کے مخصوص صفات میں سے ہے کہ " اسلامه عن الفطرة و اسلامهم عن الکفر " یعنی علی(ع) کا اسلام فطرت سے ہے اور دوسروں کا اسلام کفر سے تھا۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام ایک چشم زدن کے لیے بھی کفر وشرک کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ بر خلاف عام مسلمین اور صحابہ کے جو کفر وشرک اور بت پرستی سے نکل کے اسلام لائے ( کیونکہ آپ قبل بلوغ ہی دعوت پیغمبر(ص) پر ایمان لے آئے ) چنانچہ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے مانزل القرآن فی علی میں اور میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ:

" وَاللَّهِ مَامِنْ عَبْدٍآمَنَ بِاللَّهِ إِلَّاوَقَدْعَبَدَالصَّنَمَ فَقَال َوَهُوَالْغَفُورُلِمَن ْتَابَ مِنْ عِبَادَةِالْأَصْنَامِ إِلَّاعَلِيَّ بْنَ أَبِيطَالِبٍ فَإِنَّهُ آمَنَب ِاللَّهِ مِنْ غَيْرِأَنْ عَبَدَصَنَماً"

( یعنی قسم خدا کی بندوں ( یعنی امت) میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو ایمان لانے سے پہلے بت پرستی نہ کرچکا ہو سوا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے کیونکہ آپ بغیر بت کی برستش کئے ہوئے خدا پر ایمان لائے۔)

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب۲۴ میں اپنے اسناد کے ساتھ رسول اللہ(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ

۲۳۱

فرمایا :

"سبّاق الامةثلاثةلم يشرکواباللّه طرفةعين: عليّ بن أبيطالب،وصاحب ياسين،ومؤمن آل فرعون ،فهم الصدّيقون ،حبيب النجارمؤمن آل يسوحزقيل مؤمن آل فرعون وعلي بن أبيطالب وهوأفضلهم."

( یعنی تمام امتوں میں ( ایمان و توحید کی دوڑ میں) سبقت لے جانے والے تین شخص ہیں جنہوں نے چشم زدن کے لیے بھی خدا کے ساتھ شرک نہیں کیا، علی ابن ابی طالب(ع) صاحب یاسین اور مومن آل فرعون، پس یہی لوگ سچے ہیں یعنی نجیب بخار مومن آل یاسین حزقیل مومن آل فرعون اور علی ابن ابی طالب(ع) اور آپ ان سب میں، فضل ہیں۔)

چنانچہ نہج البلاغہ میں ہے کہ حضرت نے خود فرمایا : "فانى ولدت على الفطرةوسبق تالى الايمان والهجرة." ( یعنی میں فطرت توحید پر پیدا ہوا اور رسول خدا(ص) کےساتھ ایمان و ہجرت میں پیش قدمی کی۔)

نیز حافظ ابونعیم اصفہانی، شافعی اور آپ کے دوسرے علماء جیسے ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے: "إنّ عليّالم يكفرباللّه طرفةعين " ( یعنی حقیقتا علی علیہ السلام نے پلک جھپکنے کے برابر بھی خدا کے ساتھ کفر نہیں کیا، اور امام احمد بن حنبل نے مسند اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے زمعہ بن خارجہ سے کہا : " إِنَّ ه لَمْ يَعْبُدْصَنَماًوَلَاوَثَناًوَلَمْ يَشْرَبْ خَمْراً" ( یعنی علی علیہ السلام نے ہرگز بت کو سجدہ نہیں کیا اور کبھی شراب نہیں پی اور تمام انسانوں سے پہلے اسلام لائے۔)

آپ جو یہ کہتے ہیں کہ شیخین کا ایمان علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ایمان سے افضل تھا تو کیا آپ نے یہ حدیث شریف نہیں دیکھی ہے جس کو ابن مغازلی شافعی نے فضائل میں، امام احمد حنبل نے مسند میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

"لَوْوُزِنَ إِيمَانُ عَلِيٍ وَإِيمَانُأ ُمَّتِيل َرَجَحَ إِيمَانُ عَلِيٍّ عَلَى إِيمَانِ أُمَّتِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ."

(یعنی اگر علی(ع) کے ایمان کا میری امت ایمان سے وزن کیا جائے تو علی(ع) کا ایمان میری امت کے قیامت تک کے ایمان پر بھاری ہوگا۔)

نیز سید میر علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودت ہفتم میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں اور امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول خدا(ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا

"لَوْأَنَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعَ وَالْأَرَضِين َالسَّبْع وُضِعَن فِي كِفَّةمِيزَانِ وَوُضِعَ إِيمَانُ عَلِيٍ فِي كِفَّةمِيزَانِ لَرَجَحَ إِيمَانُ عَلِيٍّ."

یعنی اگر ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو ترازو کے ایک پلے میں رکھیں اور علی(ع) کا ایمان دوسرے پلے میں تو یقینا علی(ع) کا ایمان سب پر بھاری پڑے گا۔

اور ایک مشہور شاعر سفیان بن مصعب بن کوفی نے اسی بنیاد پر اپنے اشعار میں نظم کیا ہے۔

أشهدبالله لقدقال لنامحمدوالقول منهماخفي

لوأن إيمان جميعالخلق ممن سكن الأرض ومن حلال سما

۲۳۲

يجعل في كفةميزان لكي يوفى بإيمان علي ماوفى.

یعنی خدا کی قسم میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ (ص) نے ہم سے بیان فرمایا کہ کسی پر مخفی نہ رہے کہ اگر زمین و آسمان میں بسنے والے کل مخلوقات کا ایمان ترازو کے ایک پلے میں رکھا جائے اور علی(ع) کا ایمان دوسرے پلے میں تب بھی علی(ع) ہی کا ایمان وزنی ہوگا۔

علی (ع) تمام صحابہ اور امت سے افضل تھے

شافعی فقیہ و عارف میر سید علی ہمدانی نے کتاب مودۃ القربی میں اس سلسلے کی بکثرت ایسی روایتیں نقل کی ہیں جو دلائل و براہین اور احادیث صحیحہ کےساتھ علی علیہ السلام کی افضلیت ثابت کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے مودت ہفتم میں ابن عباس ( خیر امت) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

"أفضل رجال العالمين في زماني هذاعلي عليه السلام"

( یعنی عالمین کے مردوں میں سب سے افضل میرے زمانے میں یہ علی علیہ السلام ہیں۔)

اور آپ کے اکثر منصف علماء علی علیہ السلام کی افضلیت پر عقیدہ رکھتے تھے، چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص۴۰ میں لکھا ہے کہ فرقہ معتزلہ کے پیشوا ابوجعفر اسکافی کی ایک کتاب مجھ کو ملی جس میں لکھا ہوا تھا کہ بشر بن معتمر، ابوموسی، جعفر بن مبشر اور بغداد کے دوسرے علمائے متقدمین کا مذہب یہ تھا کہ

"أن أفضل المسلمين علي بن أبيطالب ثم ابنه الحسن ثم ابنه الحسين ثم حمزةبن عبدالمطلب ثم جعفربن أبيطالب الخ"

( یعنی تمام مسلمانوں سے افضل و برتر علی بن ابی طالب(ع) پھر آپ کے فرزند حسن(ع) پھر کے آپ کے دوسرے فرزند حسین(ع) پھر حمزہ بن عبدالمطلب پھر جعفر ابن ابی طالب(معروف بہ طیار۔)

ہمارے شیخ ابوعبداللہ بصری، شیخ ابوالقاسم بلخی اور شیخ ابوالحسن خیاط ( جو متاخرین علمائے بغداد کے شیخ تھے) ابوجعفر اسکافی کے اسی عقیدے پر تھے ( یعنی حضرت علی(ع) کو افضلیت تھی) اور افضلیت سے مراد یہ تھی کہ یہ حضرات خدا کے نزدیک تمام انسانوں سے بزرگ تھے، ان کا ثواب سب سے زیادہ تھا، اور روز قیامت ان کا درجہ سب سے بلند ہوگا۔ اس کے بعد شرح نہج البلاغہ کے اسی ص۴۰ کے آخر میں معتزلی عقیدے کی تفصیل نظم کی ہے اور کہا ہے:

وخيرخلق الله بعدالمصطفى أعظمهم يوم الفخارشرفا

السيدالمعظم الوصي بعل البتول المرتضى علي

وابناه ثم حمزةوجعفرثم عتيق بعدهم لاينكر

( یعنی رسول خدا(ص) کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر اور اپنے شرف پر فخر کرنے کے روز سب سے بزرگ سید

۲۳۳

بزرگوار، وصی پیغمبر(ص) اور شوہر بتول فاطمہ زہرا(س)، علی مرتضی(ع) ہیں اور ان کے بعد ان کے دونوں فرزند (حسن و حسین علیہما السلام) پھر حمزہ پھر جعفر ( طیار) تھے۔)

شیخ : اگر آپ نے خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت ایمان کے ثبوت میں علماء کے اقوال دیکھے ہوتے تو ایسی باتیں نہ کہتے ۔

خیر طلب: آپ بھی اگر متعصب لوگوں کے اقوال سے منہ موڑ کے اپنے محقق اور منصف علماء کے بیانات پر توجہ کرتے تو دیکھتے کہ وہ سب کے سب افضلیت علی علیہ السلام کی تصدیق کرتے ہیں۔

نمونے کے لیے شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی جلد سیم ص۲۶۴ کی طرف رجوع کیجئے جس میں آپ کے اس بیان کو جاحظ سے نقل کیا ہے کہ ابوبکر کا ایمان علی علیہ السلام کے ایمان سے افضل تھا، اس کے بعد فرقہ معتزلہ کے بڑے عالم اور شیخ ابوجعفر اسکافی نے اس کے رد میں جواب دیا ہے اس کو تفصیل سے درج کیا ہے، چنانچہ عقلی و نقلی دلائل سے کئی صفحات میں ثابت کرتے ہیں کہ بچپن میں حضرت علی(ع) کا ایمان ابوبکر اور تمام صحابہ کے ایمان سے افضل تھا، یہاں تک کہ ص۲۷۵ میں کہتے ہیں کہ ابوجعفر نے کہا ہے:

"إننالاننكرفضل الصحابةوسوابقهم ولكنناننكرتفضيلأحدمن الصحابةعلى علي بن أبيطالب انتهی"

( یعنی ہم صحابہ کے فضائل کا انکار نہیں کرتے لیکن ان میں سے کسی کو علی ابن ابی طالب(ع) سے برتر نہیں مانتے۔)

ان اقوال سے قطع نظر در اصل امیرالمومنین کا نام دوسرے صحابہ کے مقابلے میں لانا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ ان حضرات کی منزل اس قدر بلند ہے کہ صحابہ وغیرہ میں سے کسی کےساتھ ہرگز اس کا موازنہ نہیں ہوسکتا جس سے آپ فضائل صحابہ کو چند یکطرفہ روایتوں کے سہارے ( اگر ان کو صحیح بھی مان لیا جائے) ان حضرات کے جامع و مانع کمالات کے مقابلے پر لانے کی کوشش کریں۔ چنانچہ میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی کی مودت ہفتم میں احمد بن محمد الکرزی بغدادی سے نقل کرتےہیں کہ انہوں نے کہا میں نے عبداللہ بن احمد حنبل کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے اپنے باپ احمد ابن حنبل سے فضیلت صحابہ کا درجہ دریافت کیاتو وہ ابوبکر، عمر اور عثمان کا نام لے کر خاموش ہوگئے۔ " فقلت يا ابت اين علی بن ابی طالب قال هو من اهل البيت لايقاس به هئولاء" یعنی میں نے کہا اے پدر بزرگوار علی ابن ابی طالب (ع) کہاں ہیں؟ ( یعنی ان کا نام کیوں نہیں لیا) میرے باپ نے کہا کہ وہ اہل بیت رسالت میں سےہیں ان پر ان لوگوں کا قیاس نہیں ہوسکتا) یعنی جس طرح سے اہلبیت رسول (ص) کا مقام و مرتبہ آیات قرآنی اور ارشادات رسول کے حکم تمام مقامات و مراتب سے بلند تر ہے اسی طرح علی علیہ السلام کے مدارج تمام صحابہ وغیرہ سے بالاتر ہیں، چنانچہ آپ کا نام صحابہ کے شمار میں نہ لانا چاہیئے بلکہ وہ نبوت اور منصب رسالت کے ساتھ منسوب ہوگا۔

جیسا کہ آیہ مباہلہ میں حضرت کو نفس رسول(ص) کی جگہ پر بتایا گیا ہے۔

اس مقصد پر ایک دوسری حدیث بھی گواہ ہے جو اسی فصل اور مودت ہفتم میں بروایت عبداللہ ابن عمر ابن خطاب ابی وائل سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ ہم نے اصحاب پیغمبر(ص) کو شمار کیا تو ابوبکر ، عمر اور عثمان کا نام لیا، ایک شخص نے کہا :

" يَابَاعَبْدِالرَّحْمَنِ فَعَلِيٌّ ما هوقَالَ: عَلِيٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ لَايُقَاسُ بِهِ احدٌ،هُومَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلیَ اللهُ عَليَه

۲۳۴

وَ آلِه فِي دَرَجَتِهِ"

( یعنی اے ابو عبدالرحمن ( عبد اللہ ابن عمر کی کنیت) علی(ع) کا نام کیوں چھوڑ دیا؟ تو میں نے کہا علی(ع) اہل بیت رسالت میں سے ہیں کسی کا ان پر قیاس نہیں ہوسکتا وہ رسول خدا(ص) کے ساتھ ان کے درجے میں ہیں) یعنی علی علیہ السلام کا حساب امت اور صحابہ سے الگ اور خود پیغمبر(ص) کے ساتھ شامل ہے۔ آپ رسول اللہ(ص) کے ہمراہ آں حضرت کے درجے میں ہیں۔

اجازت دیجئے کہ اسی فصل اور مودت سے ایک حدیث اور پیش کروں ۔ جابر ابن عبداللہ انصاری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک روز مہاجرین و انصار کے سامنے رسول اللہ(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:

"ياعلي لوأنّ أحداعبداللّه حق عبادته ثم يشك فيك وأهل بيتك أنكم أفضل الناس كان في النار"

( یعنی اے علی(ع) اگر کوئی شخص خدا کی پوری عبادت کرے پھر تمہارے اور تمہارے اہل بیت کے تمام لوگوں سے افضل ہونے میں شک کرے تو وہ جہنم میں جھونک دیا جائیگا۔)

یہ حدیث سنتے ہی سارے اہل جلسہ خصوصا حافظ صاحب نے استغفار کیا کہ شک کرنے والوں میں شمار نہ ہوں۔

خلاصہ یہ کہ ان احادیث کثیرہ میں سے جو صحابہ اور تمام امت پر امیرالمومنین علی علیہ السلام کی فضیلت اور حق تقدم کے بارے میں وارد ہوئی ہیں یہ مشتے نمونہ از خروارے ہے اب یا تو ان اخبار صحیحہ کی جو آپ ہی کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں رد کیجئے یا عقل و نقل کے حکم سے تسلیم کیجئے کہ آن حضرت(ع) کا ایمان تمام صحابہ اور امت سے افضل تھا جن میں ابوبکر اور عمر بھی تھے۔

اگر آپ فریقین کی اس متفق علیہ حدیث پر توجہ کیجئے جو غزوہ احزاب اور جنگ خندق میں امیرالمومنین(ع) کے ہاتھ سے مشہور بہادر عمرو بن عبدود کے مارے جانے پر رسول اللہ(ص) نے ارشاد فرمائی کہ:

"ضربةعلي يوم الخندق أفضل من عبادةالثقلين."

( یعنی خندق کے روز علی (ع) کا ایک وار( عمرو بن عبدود پر) جن وانس کی عبادت سے بہتر ہے)

تو آپ خود تصدیق کیجئے گا کہ جب حضرت علی علیہ السلام کا ایک عمل جن و انس کی عبادت سے بہتر ہے تو اگر آپ کے سارے اعمال و عبادات شامل ہو جائیں تو یقینا آپ کی افضلیت ثابت ہوگی اور اس سے سوا متعصب اور کینہ پرور انسان کے اور کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

اگر تمام صحابہ اور اہل عالم پر آپ کی افضلیت کے لیے اور کوئی دلیل نہ ہوتی تو صرف آیت مباہلہ ہی اس کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہوتی جس میں خدا نے علی (ع) کو بمنزلہ نفس رسول (ص) قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ مسلم ہے کہ رسول اللہ اولین و آخرین میں تمام انسانوں سے افضل تھے۔ لہذا آیہ شریفہ میں کلمہ انفسنا کے حکم سے علی علیہ السلام بھی اولین و آخرین میں سب سے افضل ٹھہرتے ہیں۔ پس آپ حضرات تصدیق کیجئے کہ والذین معہ کے حقیقی مصداق امیرالمومنین علیہ السلام ہیں جو تمام مسلمانوں سے پہلے ظہور اسلام کی ابتدا ہی سے رسول خدا(ص) کے ہمراہ تھے اور آخر عمر تک ان سے ذرہ برابر بھی کوئی لغزش نہیں ہوئی۔

( نماز کا وقت ہوگیا لہذا مولوی صاحبان فریضہ ادا کرنے اٹھے، فراغت کے بعد چائے نوشی ہوئی پھر میری طرف سے سلسلہ کلام شروع ہوا۔)

خیر طلب : رہی یہ بات کہ شب ہجرت امیرالمومنین (ع) رسول خدا(ص) کے ہمراہ کیوں روانہ نہیں ہوئے تو یہ بہت واضح چیز ہے کیونکہ آنحضرت(ص) کے حکم سے چند اہم کام آپ کے سپرد تھے جن کو مکہ معظمہ میں ٹھہرکے انجام دینا تھا۔

۲۳۵

اس لیے کہ پیغمبر(ص) کے نزدیک علی(ع) سے زیادہ کوئی امین نہیں تھا جو ان امانتوں کو جو آں حضرت(ص

کے پاس جمع تھیں، ان کے مالکوں تک پہنچاتا۔

( دوست و دشمن کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ(ص) اہل مکہ کے امین تھے، یہاں تک کہ دشمن بھی اپنی امانتیں آںحضرت(ص) کے پاس جمع کرتے تھے تاکہ تلف ہونے سے محفوظ رہیں۔ اسی وجہ سے آںحضرت(ص) مکہ میں محمد امین(ص) کے نام سے مشہور تھے۔)

دوسرا فرض امیرالمومنین(ع) کے ذمے یہ تھا کہ آنحضرت(ص) کے اہل و عیال اور باقی مسلمانوں کو مدینے پہنچائیں۔

علاوہ ان چیزوں کے اگر علی علیہ السلام اس رات غار میں نہیں تھے تو قطعا اس سے بالاتر منزل حاصل کی کہ رسول اللہ(ص) کے بستر اور چادر میں آرام فرمایا اگرچہ خلیفہ ابوبکر آں حضرت(ص) کے طفیل میں ثانی اثنین کہے جاتے ہیں لیکن اسی شب میں مصاحبت غار سے زیادہ نیک اور اہم عمل کے سلسلے میں مستقل طور پر ایک آیت حضرت کی شان میں نازل ہوئی، اور یہ عمل خود آپ کی ایسی فضیلت و منقبت ہے جس پر فریقین ( شیعہ و سنی) کا اتفاق ہے کیونکہ اگر اس رات امیرالمومنین(ع) فداکاری اور جان نثاری نہ فرماتے تو رسول اللہ(ص) کی جان مبارک بہت بڑے خطرے میں تھی۔

شب ہجرت بستر رسول (ص) پر سونے سے علی(ع) کی شان میں نزول آیت

چنانچہ آپ کے موثق اکابر علماء نے اپنی تفسیروں اور معتبر کتابوں میں اس بزرگ فضیلت کو نقل کیا ہے جیسے ابن سبع مغربی نے شفاء الصدور میں، طبرانی نے اوسط اور کبیر میں، ابن اثیر نے اسدالغابہ جلد چہارم ص۲۵ میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ فی معرفت الائمہ ص۳۳ میں، ابو اسحق ثعلبی، فاضل نیشاپوری امام فخر الدین رازی اور جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیروں میں، حافظ ابونعیم اصفہانی مشہور شافعی محدث نے مانزل القرآن فی علی میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، شیخ الاسلام ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب ۶۲ میں، امام احمد حنبل نے مسند میں، محمد بن جریہ نے مختلف طریقوں سے، ابن ہشام نے سیرۃ النبی میں، حافظ محدچ شام نے اربعین طوال میں، امام غزالی نے احیاء العلوم جلد سوم ص۲۲۳ میں، ابوالسعادات نے فضائل العترۃ الطاہرہ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص۲۱ میں اور آپ کے دوسرے بڑے بڑے علماء نے مختلف عبارات و الفاظ میں اس مطلب کا خلاصہ نقل کیا ہے اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۲۱ میں بکثرت علماء سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حکم خداوندی سے مدینہ منورہ کے لیے آمادہ ہوئے تو شب ہجرت امیرالمومنین علی علیہ السلام سے فرمایا کہ میری سبز خضرمی چادر جو میں رات کو استعمال کرتا ہوں اوڑھ لو اور میرے بستر پر سوجائو پس علی(ع) آنحضرت(ص) کی جہ سو رہے اور وہ سبز چادر سر سے اوڑھ لی تاکہ گھر کا محاصرہ کئے ہوئے کفار یہ نہ سمجھیں کہ بستر پر علی(ع) ہیں، یہاں تک کہ رسول خدا(ص) صحیح و سلامت تشریف لے گئے۔

۲۳۶

خدا کی جانب سے جبرئیل و میکائیل کو خطاب ہوا کہ میں نے تم دونوں کے درمیان بھائی چارہ قرار دیا ہے اور قطعا تم میں سے ایک کی عمر دوسرے سے زیادہ ہے لہذا کون اس کو منظور کرتا ہے کہ اپنی زیادہ عمر جس کا اس کو علم بھی نہیں ہے دوسرے کو بخش دے؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ حکم ہے یا اختیاری فعل؟ خطاب ہوا کہ حکم نہیں ہے تم کو اختیار حاصل ہے۔ تو ان میں سے کوئی بھی تیار نہیں ہوا کہ اپنی خوشی سے عمر کی زیادتی دوسرے کو دے دے اس وقت ارشاد ہوا۔

" انی آخيتبين علی ولی ومحمدنبيّ (ص) فنثر علی حياته للنبی فوقدعلى فراش النبی بقيه بمهجته اهبطاإلى الأرض ،فاحفظاه من عدوه"

( یعنی در حقیقت میں نے اپنے ولی علی(ع) اور اپنے نبی محمد(ص) کے درمیان برادری قائم کی ہے پس علی(ع) نے پیغمبر(ص) کی زندگی پر اپنی زندگی کو فدا اور نثار کردیا ہے اور ان کے بستر پر سو کردل و جان سے ان کی حفاظت کر رہے ہیں، لہذا تم دونوں زمین پر جائو اور دشمنوں کے شر سے ان کی حفاظت کرو۔)

چنانچہ دونوں زمین پر آئے ، جبرئیل حضرت کے سرہانے اور میکائیل پائینی بیٹھے اور جبرئیل کہہ رہے تھے :

"بخ بخ من مثلك ياابن أبيطالب اللّه عزّوجلّ يباهي بک الملائكة"

( یعنی مبارک ہو مبارک ہو کون ہے تمہارے مثل اے ابوطالب کے فرزند کیونکہ خدائے عزوجل تمہارے وجود سے ملائکہ پر فخر و مباہات کررہا ہے۔)

پھر خاتم الانبیاء(ص) پر سورہ ۲ ( بقرہ) کی آیت ۲۰۳ نازل ہوئی " وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغاءَمَرْضاتِ اللَّهِ واللَّه رئوف بالعبادِ "

( یعنی انسانوں میں سے بعض ( علی علیہ السلام) وہ ہیں جو رضائے الہی کے لیے اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں اور خدا ایسے بندوں پر مہربان ہے۔)

اب میں آپ حضرات سے درخواست کرتا ہوں کہ جب قیام گاہ پر تشریف لے جائیے تو اس آیہ شریفہ کو آیہ غار سے جو آپ کا محل استدلال ہے ملاکر بغیر شیعہ و سنی کے بغض و محبت کے غیر جانبداری اور انصاف سے مطالعہ فرمائیے اور غور کیجئے کہ آیا افضلیت اس شخص کے لیے ہے جو مسافرت میں چند روز غم و اندوہ کے ساتھ پیغمبر(ص) کے ہمراہ رہا ہو یا اس شخص کے لیے جس نے اسی شب میں جان نثاری کی اور قدرت و شجاعت و مسرت کے ساتھ علم و ارادہ سے اپنا نفس رسول اللہ(ص) پر قربان کیا تاکہ آن حضرت(ص) سلامتی کے ساتھ تشریف لے جائیں ، پروردگار عالم نے ملائکہ روحانی کے سامنے اس کی ذات پر فخر و مباہات کیا اور اس کی مدح میں ایک مستقل آیت نازل فرمائی ہے۔ چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے ہٹ دھرمی معاندین کے مقابلے میں تھوڑے غور و فکر سے کام لے کر از روئے انصاف تصدیق کی ہے کہ علی علیہ السلام ابوبکر سے افضل تھے اور بستر پر علی(ع) کا سونا غار میں ابوبکر کی مصاحبت سے بدرجہ ہا بہتر و بالاتر تھا۔

سنی علماء کا اعتراف کہ غار میں مصاحبت ابوبکر سے علی(ع) کا بستر رسول (ص) پر سونا بہتر تھا

اگر شرح نہج البلاغہ جلد سیم کو ص۲۶۹ سے ص۲۸۱ تک غور سے پڑھئے اور ابوبکر پر علی(ع) کی افضلیت میں، ابوعثمان

۲۳۷

جاحظ ( ناصبی) کے شبہات کے رد میں معتزلیوں کے بہت بڑے عالم اور شیخ امام ابو جعفر اسکافی کے بیانات اور دلائل پر گہری نظر ڈالئے تو دیکھئے گا کہ یہ انصاف پسند عالم مضبوط دلیلوں کے ساتھ بہ صراحت ثابت کرتا ہے کہ پیغمبر(ص) کے بستر پر آنحضرت (ص) کے حکم سے علی(ع) کا سونا غار کے سفر میں ابوبکر کی چند روزہ مصاحبت سے افضل تھا، یہاں تک کہ لکھا ہے :

"قال علماءالمسلمين إن فضيلةعلي ع تلك الليلةلانعلم أحدامن البشرنالمثله اإلاماكان من إسحاق وإبراهيم عنداستسلامه للذبح"

( یعنی علمائے مسلمین کا اتفاق ہے کہ حقیقتا اس رات میں علی(ع) کی وہ فضیلت ہے جس کو کوئی انسان نہیں پاسکا سوا اسحق وہ ابراہیم کے جب وہ ذبح اور قربانی پر آمادہ تھے)

( لیکن اکثر مفسرین و مورخین اور علمائے اخبار کا عقیدہ ہے کہ ذبیح اسماعیل تھے نہ کہ اسحق) اور ص۳۷۱ کے آخر میں ابو عثمان جاحظ ( ناصبی) کے جواب میں ابو جعفر اسکافی کا قول نقل کیا ہےکہ وہ کہتے ہیں :

"قد بينا فضيلة المبيت على الفراش على فضيلة الصحبةفي الغار بما هو واضح لمن أنصف و نزيد هاهنا تأكيدا بما لم نذكره فيما تقدم فنقول إن فضيلة المبيت على الفراش على الصحبة في الغار لوجهين أحدهما أن عليا ع قد كان أنس بالنبي ص و حصل له بمصاحبته قديما أنس عظيم و إلف شديد فلما فارقه عدم ذلك الأنس و حصل به أبو بكر فكان ما يجده علي ع من الوحشة و ألم الفرقة موجبا زيادة ثوابه لأن الثواب على قدر المشقة.و ثانيهما أن أبا بكر كان يؤثر الخروج من مكة و قد كان خرج من قبل فردا فازداد كراهية للمقام فلما خرج مع رسول الله ص وافق ذلك هوى قلبه و محبوب نفسه فلم يكن له من الفضيلة ما يوازي فضيلة من احتمل المشقة العظيمة و عرض نفسه لوقع السيوف و رأسه لرضخ الحجارة لأنه على قدر سهولة العبادة يكون نقصان الثواب "

( ماحصل مطلب یہ کہ میں پہلے شب ہجرت علی(ع) سے بستر رسول(ص) پر سونے کو ابوبکر کے غار میں پیغمبر(ص) کے ساتھ ہونے سے اس طرح افضل ثابت کرچکا ہوں کہ کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اب مزید تاکید کے لیے جو کچھ کہہ چکا ہوں اس کے علاوہ اور دو صورتوں سے اس مقصد کو ثابت کرتا ہوں۔ رسول اللہ(ص) کے ساتھ علی علیہ السلام کو قدیمی مصاحبت کی وجہ سے شدید انس و محبت تھی لہذا جب جدائی ہوئی تو سارا لطف الفت جاتا رہا اور اس کے برعکس ابوبکر کو یہی چیز حاصل ہوگئی۔ پس موقع پر علی علیہ السلام جو وحشت اور درد جدائی محسوس کر رہے تھے اس سے آپ کا ثواب بڑھ رہا تھا کیونکہ ثواب عمل مشقت کے لحاظ سے ہوتا ہے( جیسا کہ قول ہے افضل الاعمال احمزہا۔ (یعنی جو عمل زیادہ سخت ہے وہی افضل ہے) اور ابوبکر چونکہ برابر مکے سے نکلنے پر تیار تھے چنانچہ پہلے کبھی اکیلے نکل بھی چکے تھے، لہذا ان کے لیے قیام مکہ کی ناگواریی بڑھ گئی، پس جب وہ رسول اللہ(ص) وہاں سے نکلے تو ان کی تمنائے دلی اور مراد قبلی بر آئی لہذا ان کے لیے کوئی ایسی فضیلت ثابت نہیں ہوتی جو فضیلت علی(ع) کے مقابل لائی جاسکے جنہوں نے عظیم مشقت برداشت کی، اپنی جان کو تلواروں کے سامنے اور سر کو دشمنوں کی سنگباری کے لیے پیش کردیا۔ بدیہی چیز ہے، کہ

۲۳۸

سہولت کے حساب سے عبادت کا ثواب گھٹ جاتا ہے۔ اور ابن سبع مغربی شفاء الصدور میں بسلسلہ بیان شجاعت علی علیہ السلام کہتے ہیں :

" علماء العرب اجمعوا علی ان نوم علی عليه السلام علی فراش رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم افضل لمن خروجه معه و ذالک انه وطن نفسه علی مفاعاته لرسول الله صلی الله عليه و آله وسلم و اثر حياته و اظهر شجاعته بين اقرانه"

یعنی علماء عرب کا اجماع ہے کہ شب ہجرت علی علیہ السلام کا بستر رسول(ص) پر سونا ان کے آں حضرت کے ہمراہ باہر نکلنے سے افضل تھا کیونکہ آپ نے اپنے نفس کو آںحضرت(ص) کا قائم مقام بنایا اپنی زندگی کو آں حضرت(ص) پر قربان کیا اور اپنے ہم عصروں کے درمیان اپنی شجاعت ثابت کردی۔ یہ مطلب اس قدر واضح ہے کہ کسی نے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا ہے سوا جنون یا جنون سے بدترتعصب کی وجہ سے بس اتنا ہی کافی ہے۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ اس مقام پر گفتگو کا سلسلہ طولانی ہوگیا، بہتر ہے کہ اب ہم پھر اصل مطلب پر آجائیں آپ نے جو یہ فرمایا کہ اشداء علی الکفار سے خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب مراد ہیں تو فقط آپ کے دعوے سے یہ بات نہیں مانی جاسکتی، دیکھنا چاہئیے کہ آیا یہ صفت بھی موصوف کی حالت سے مطابقت کرتی ہے یا نہیں چنانچہ اگر مطابق ہے تو ہم دل وجان سے ماننے کے لیے تیار ہیں۔

علمی مباحث اور دینی مناظروں میں عمر کے اندر کوئی تیزی نہیں تھی

بدیہی بات ہے کہ شدت اور تیزی دو طرح کی ہوسکتی ہے ایک علمی مباحث اور مذہبی مناظروں میں تاکہ مخالف علماء کےمقابل زور کلام دکھایا جاسکے۔ دوسرے میدان جنگ اور جہاد فی سبیل اللہ میں بذات خود ثبات قدم، شجاعت اور درشتی کا ثبوت دیا جائے۔ چنانچہ علمی مباحث اور دینی مناظروں کے سلسلے میں تاریخ کے اندر خلیفہ عمر کی قطعا کوئی مضبوطی نظر نہیں آتی کیونکہ جہاں تک میں نے فریقین ( شیعہ و سنی) کی کتب اخبار و تواریخ اور غیروں کی کتابیں پڑھی ہیں اور اس بارے میں خلیفہ عمر کی کوئی شدت اور شہ زوری نہیں دیکھی، چنانچہ اگر آپ حضرات نے موصوف کی کوئی علمی مہارت دینی مباحثہ اور غیر مذہب کے عالموں سے مںاظرے ان کی ساری تاریخ زندگی میں دیکھے ہوں تو بیان کیجئیے میں ممنون ہوں گا کیونکہ اس سے میرے معلومات میں اضافہ ہوگا۔

عمر کا اقرار کہ علی(ع) مجھ سے علم و عمل میں بہتر ہیں

البتہ جہاں تک مجھے معلوم ہے اور آپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی اپنی معتبر کتابوں میں لکھا ہے خلفاء ثلاثہ کے

۲۳۹

زمانوں میں ہر علمی اور مذہبی مشکل مسئلہ کو حل کرنے والے صرف علی علیہ السلام تھے۔

باوجودیکہ بنی امیہ اور خلفائے ثلاثہ کے عقیدت مندوں نے خلفاء کے فضائل میں اس کثرت سے روایتیں گھڑی ہیں( جیسا کہ خود آپ کے علماء نے جرح و تعدیل کی کتابوں میں لکھا ہے) لیکن وہ لوگ ان حقیقتوں کو نہیں چھپا سکے کہ جس وقت یہودی عیسائی اور دوسرے مخالف فرقوں کے علماء ابوبکر، عمر اور عثمان کے دور خلافت میں ان کے پاس آکر یا خطوط بھیج کر مشکل مسائل دریافت کرتے تھے تو یہ لوگ مجبور ہو کر علی علیہ السلام کا وسیلہ اختیار کرتے تھے اور کہتے تھے ان پیچیدہ اور مشکل سوالات کا سوا علی ابن ابی طالب(ع) کے اور کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ تشریف لاتے تھے اور اس طریقے سے ان کو جواب دیتے تھے، کہ وہ مطمئن ہوکر مسلمان ہوجاتے تھے،جیسا کہ خلفاء کے تاریخی حالات میں تفصیل سے درج ہے، خلفاء ابوبکر و عمر وعثمان، کا علی علیہ السلام کے مقابلے میں اپنی مجبوری ظاہر کرنا، آں حضرت کی برتری کا اقرار اور یہ کہنا کہ اگر علی نہ ہوتے تو ہم ہلاک ہوجاتے، اس مقصد کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

چنانچہ آپ کے مخفی اکابر علماء نے نقل کیا ہے کہ خلیفہ ابوبکر کہتے تھے۔ " أقيلوني أقيلوني فلستبخيركم وعليّ فيكم " یعنی مجھ کو برطرف کرود مجھ کو برطرف کردو کیونکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں جب کہ علی(ع) تم میں موجود ہوں۔

اور خلیفہ عمر نے مختلف معاملات اور مواقع پرستر مرتبہ سے زیادہ اقرار کیا کہ " لولاعلي لهلك عمر." یعنی اگر علی(ع) نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوگیا ہوتا۔ کتابوں میں ان خطرناک مواقع میں سے اکثر کا ذکر موجود ہے۔ لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ اب جلسے کا زیادہ وقت خراب ہوکیونکہ شاید اس سے اہم مسائل پر گفتگو کرنا ضروری ہو۔

نواب : قبل صاحب اس موضوع سے بڑھ کے کون سا مطلب اہم ہوگا کیا یہ کلمات ہماری معتبر کتابوں میں موجود ہیں؟ اگر میں اور آپ کے پیش نظر ہیں تو ہماری مزید بصیرت کے لیے بیان فرمائیے ہم ممنون ہوں گے۔

خیر طلب : میں نے عرض کیا کہ اکابر علماء اہلسنت اس بات پر متفق ہیں( سوا چند متعصب اور ضدی لوگوں کے) اور مختلف عبارات و الفاظ کے ساتھ متعدد مقامات پر اس کو نقل کیا ہے۔ میں مطلب کی وضاحت اور اتمام حجت کے لیے ان میں سے بعض اسناد و کتب کی طرف جو اس وقت مجھ کو یاد ہیں اشارہ کرتا ہوں۔

قول عمر لولاعلي لهلك عمر کے اسناد

۱۔ قاضی فضل اللہ بن روز بہان متعصب نے ابطال الباطل میں۔ ۲۔ ابن حجر عسقلانی متوفی سنہ۸۵۲ ھ نے تہذیب التہذیب مطبوعہ حیدر آباد دکن ص۳۳۷ میں۔ ۳۔ نیز ابن حجر نے اصابہ جلد دوم مطبوعہ مصر ص۵۰۹ میں۔ ۴۔ ابن قتیبہ دینوری متوفی سنہ۳۷۶ھ نے کتاب تاویل مختلف الحدیث ص۲۰۱، ۲۰۲ میں۔ ۵۔ ابن حجر مکی متوفی سنہ۹۷۳ھ نے صواعق محرقہ ص۷۸ میں۔ ۶۔ حاج احمد آفندی نے ہدایت المرتاب ص۱۲۶ ، ص۱۵۲ میں۔ ۷۔ ابن اثیر جزری متوفی سنہ۶۳۰ھ نے اسد الغابہ جلد چہارم ص۲۲ میں۔ ۸۔ جلال الدین

۲۴۰

سیوطی نے تاریخ الخلفاء ص66 میں۔ 9۔ ابن عبدالبر قرطبی متوفی سنہ463ھ نے استیعاب جلد دوم ص474 میں۔ 10۔ سید مومن شبلنجی نے نور الابصار ص73 میں۔ 11۔ شہاب الدین احمد بن عبد القادر عجیلی نے ذخیرۃ الآمال میں۔ 12۔ محمد بن علی الصبان نے اسعاف الراغبین ص152 میں۔ 13۔ نور الدین بن صباغ مالکی متوفی سنہ855ھ نے فصول المہمہ ص18 میں۔ 14۔ نور الدین علی بن عبداللہ ہمودی متوفی سنہ911ھ نے جواہر العقدین میں۔ 15۔ ابن ابی الحدید معتزلی متوفی سنہ655ھ نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص6 میں۔ 16۔ علامہ قوشجی نے شرح تجرید ص407 میں۔ 17۔ خطیب خوارزمی نے مناقب ص47، ص60 میں۔ 18۔ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ضمن فصل ششم ص29 میں۔ 19۔ امام احمد بن حنبل نے فضائل اور مسند میں۔ 20۔ سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص85، ص87 میں۔ 21۔ امام ثعلبی نے تفسیر کشف البیان میں۔ 22۔ علامہ ابن قیم جوزی نے طرق الحکمہ میں ان حضرت کے تعدد قضایا نقل کرتے ہوئے ص41 سے ص53 تک ۔ 23۔ محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی سنہ658ھ نے کفایت الطالب باب 57 میں۔ 24۔ ابن ماجہ قزوینی نے سنن میں۔ 25۔ ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں۔ 26۔ ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد میں۔ 27۔ محمد بن علی بن الحسن الحکیم ترمذی نے شرح فتح المبین میں۔ 28۔ دیلمی نے فردوس میں۔ 29۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب 14میں۔ 30۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء اور مانزل القرآن فی علی میں، اور آپ کے دوسرے بہت سے جلیل القدر علماء نے مختلف الفاظ و عبارات کے ساتھ خلیفہ عمر کے اقوال نقل کئے ہیں اور زیادہ تر ان قضیوں کے مواقع درج کرتے ہوئے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے : " لولاعلي لهلكعمر."

بعض وہ مواقع جہاں علی(ع) نے خلفاء کو نجات دلائی اور انہوں نے اقرار کیا کہ اگر علی (ع) نہ ہوتے تو ہم ہلاک ہوجاتے

منجملہ ان کے فقیہ گنجی شافعی نے کفایت الطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب(ع) باب57 میں چند مستند روایتیں نقل کرنے کے بعد حذیفہ بن الیمان کی روایت نقل کی ہے جس کو آپ کے دوسرے علماء نے بھی درج کیا ہے کہ ایک روز عمر نے ان سے ملاقات کی اور پوچھا کہ تم نے کس حال میں صبح کی ؟ حذیفہ نے کہا :

" اصبحت والله اکره الحق و احب الفتنه و اشهد بما لم اره واحفظ غير المخلوق و اصلی علی غير وضوء ولی فی الارض ما ليس لله فی السماء"

یعنی میں نے اس حالت میں صبح کی کہ حق سے کراہت کرتا ہوں، فتنے کو دوست رکھتا ہوں، ایسی چیز کی گواہی دیتا ہوں جس کو دیکھا نہیں ہے، غیر مخلوق کو حفظ کرتا ہوں، صلوات بغیر وضو کے پڑھتا ہوں اور زمین میرے لیے وہ ہے جو خدا کے لیے آسمان میں نہیں۔

عمر ان الفاظ سے غضب ناک ہوئے اور ان کو سزا دینا چاہی، اتنے میں امیر المومنین علی علیہ السلام تشریف لائے اور عمر کے چہرے کے آثار دیکھ کر فرمایا تم کیوں غضب ناک ہو؟ انہوں نے واقعہ بیان کیا تو حضرت نے فرمایا یہ تو کوئی اہم معاملہ نہیں ہے، انہوں نے ساری باتیں سچ کہیں ہیں۔

۲۴۱

حق سے مراد موت ہے جس سے یہ کراہت کرتے ہیں ، فتنے سے مراد مال و اولاد ہے، جس کو دوست رکھتے ہیں، بن دیکھی چیز سے مراد ذات وحدہ لاشریک نیز موت ، قیامت ، بہشت ،دوزخ اور صراط ہے جن میں سے کسی کو نہیں دیکھا ہے پھر ان کی گواہی دیتے ہیں، غیر مخلوق سے مراد قرآن ہے جس کو حفظ کرتے ہیں، صلواۃ بغیر وضو سے مراد رسول(ص) پر درود بھیجنا ہے جس کے لیے وضو کی ضرورت نہیں اور یہ کہنا کہ زمین میں میرے لیے وہ ہے جو خدا کے لیے آسمان میں نہیں تو اس سے مراد زوجہ ہے کیونکہ خدا کے لیے زوجہ اور اولاد نہیں۔

عمر نے کہا : " کاد یہلک ابن خطاب لو لا علی ابن ابی طالب" یعنی قریب تھا کہ عمر ہلاک ہوجائے اگر علی(ع) نہ پہنچ جاتے۔ اس کے بعد مئولف گنجی کہتے ہیں کہ یہ بات ( یعنی خلیفہ کہتے تھے کہ اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا) اہل خبر کے نزدیک ثابت ہے اور ارباب میر کی ایک بڑی جماعت نے اس کو نقل کیا ہے۔

صاحب مناقب کہتے ہیں کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ بار بار کہتے تھے : " لا غشث فی امة لست فيها يا ابالحسن " یعنی میں زندہ نہ رہوں اس امت میں جس میں تم نہ ہو اے ابو الحسن ( کنیت علی علیہ السلام) نیز کہتے تھے " عقمات النساء ان ي لدن مثل علی ابن ابی طالب " یعنی عورتیں علی(ع) کی ایسی اولاد پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔

محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب14 میں ترمذی سے نقل کرتے ہوئے بسند ابن عباس ایک مفصل روایت لکھی ہے جس کے آخر میں کہتے ہیں :

" کانت الصحابة رضی الله عنهم يرجعون اليه فی احکام الکتاب و ياخذون عنه الفتاوی کما قال عمر بن الخطاب رضی الله عنه فی عدة مواطن لا لو علی لهلک عمر. و قال صلی الله عليه و آله اعلم امتی علی بن ابی طالب."

یعنی اصحاب رسول(ص) احکام قرآن میں علی علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان سے فتوی لیتے تھے، چنانچہ عمر ابن خطاب نے اکثر مواقع پر کہا ہے کہ اگر علی(ع) نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوجاتا۔ اور حضرت رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ امت میں سب سے بڑے عالم و دانا علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔

پس وقت کے لحاظ سے اس مختصر بیان پر غالبا آپ تصدیق کریں گے کہ مذہبی مناظروں اور علمی مباحثوں میں کبھی خلیفہ عمر کی کوئی شدت اور مضبوطی نہیں دیکھی گئی بلکہ وہ خود اپنی معذوری کا اقرار کرتے تھے اور اس بات کی تصدیق کرتے تھے کہ علی(ع) ان کے فریاد رس تھے اور خطرناک مراحل سے ان کو چھٹکارا دلاتے تھے ، یہاں تک کہ آپ کے متعصب علماء جیسے ابن حجر مکی صواعق محرقہ فصل سیم میں ابن سعد سے نقل کرتے ہیں کہ عمر کہتے تھے " اعوذ بالل ه من معضلةليس لها ابوالحسن يعنی عليا " یعنی میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں ایسے دشوار اور سخت مرحلے سے جس کے لیے ابو الحسن یعنی علی(ع) موجود نہ ہوں۔

۲۴۲

کسی میدان جنگ میں خلیفہ عمر کی کوئی شجاعت و پامردی نہیں دیکھی گئی

معرکوں اور لڑائی کے میدانوں میں بھی کوئی تاریخ ؟؟؟؟ دیتی کہ خلیفہ عمر نے بذات خود کسی شدت و شجاعت اور ثبات قدم کا ثبوت دیا ہو بلکہ اس کے برعکس تاریخ اور فریقین کے مورخین گواہ ہیں کہ جب کسی بڑے لشکر یا کسی طاقت ور کافر کا مقابلہ ہوجاتا تھا تو ان کے قدم اکھڑ جاتے تھے جس کے نتیجے میں دوسرے مسلمان بھی بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور لشکر اسلام کو شکست ہوجاتی تھی۔

حافظ : آپ نے آہستہ آہستہ بے لطفی میں شدت پیدا کردی اور خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ جیسے انسان کی جو مسلمانوں کے لیے باعث فخر تھے، ان کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں کو بڑے بڑے فتوحات نصیب ہوئے، اور ساری جنگوں میں انہیں کے وجود سے لشکر اسلام کو فتح حاصل ہوئی ہے توہین کی ہے، ایسی بزرگ ہستی کو بزدل اور بھگوڑا اور ان کی ذات کو مسلمانوں کی شکست کا ذمہ دار ثابت کرتے ہیں۔ آیا یہ مناسب ہے کہ آپ جیسا شریف انسان خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ جیسے بزرگ حضرات کی جو مسلمانوں کے لیے سرمایہ فخر و مباہات ہیں اس قدر اہانت کرے اور ہم بھی چپکے رہیں اور دم نہ ماریں۔

خیر طلب : آپ کو سخت غلط فہمی ہوئی۔ تعجب ہے کہ اتنی راتوں کے بعد بھی آپ نے مجھ کو صحیح طریقے سے نہیں پہچانا اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید میں اپنے جذبات اور جاہلانہ محبت و دشمنی کی بنا پر بغیر دلیل و برہان کے اشخاص کی تعریف یا مذمت کرتا ہوں بالخصوص ان افراد کی جا تاریخ کے اندر شہرت رکھتے ہیں، چاہئے جس طبقے کے ہوں، صرف ایک بڑا عیب جو اس طرح کے جلسوں میں پایا جاتا ہے اور جو صدیوں سے مسلمانوں کے درمیان بدبختی کا سبب بنا ہوا ہے غلط بینی اور بدگمانی ہے جس پر حکم قرآن کے خلاف مسلمانوں کا عمل ہے۔ باجودیکہ سورہ 49 ( حجرات) آیت 12 میں کھلا ہوا ارشاد ہے: " يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِنَ الظَّنِ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ " (یعنی اے ایمان والو ظن اور گمان بدسے پرہیز کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔

چونکہ یہ حملے جو میں نے عرض کئے ہیں ایک شیعہ کی زبان سے نکلے ہیں لہذا آپ نے بدنیتی سے کام لیتے ہوئے ان کو اہانت سمجھا، حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہے، کیونکہ جو کچھ آپ کے علماء مورخین نے لکھا ہے میں نے ایک لفظ اس سے زیادہ نہیں کہا۔ ظاہر ہے کہ ہم اور آپ گزشتہ زمانوں میں نہیں تھے لیکن عقل کہتی ہے کہ صفحات تاریخ کے روسے ہم کو اشخاص کے اچھے برے افعال کا فیصلہ کرنا چاہیے۔

۲۴۳

دوبارہ اظہار حقیقت

آپ نے جو یہ فرمایا کہ میں نے خلیفہ عمر کی توہین کی ہے تو معاف کیجئے گا اس مقام پر آپ کو مغالطہ ہوا ہے۔ یا پھر آپ نے اس جملے سے ہمارے مخالفین کر بھڑکانا چاہا ہے۔ حالانکہ خلیفہ کے بارے میں ہماری گفتگو اہانت کے پہلو سے نہیں تھی بلکہ میں نے تاریخ کا سچا واقعہ بیان کیا ہے اور خود آپ کے بڑے بڑے علماء مورخین نے جو کچھ لکھا ہے اس سے زیادہ نہ کچھ کہا ہے نہ کہتا ہوں ۔ اب میں مجبور ہوں کہ پردہ اٹھائوں اور مطلب کو زیادہ تشریح اور وضاحت سے بیان کروں تاکہ یہ بد گمانی دفع ہو۔ آپ نے فرمایا ہے کہ اسلام کے اہم فتوحات خلیفہ عمر کے مرہوں منت ہیں، تو کسی کو اس سے انکار نہیں کہ حکومت عمر کے زمانے میں اسلام کو بڑے بڑے فتوحات حاصل ہوئے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی نہ بھولنا چاہیئے کہ آپ کے اکابر علماء کہ شہادت اور اقرار کے مطابق جیسا کہ قاضی ابوبکر خطیب نے تاریخ بغداد میں، امام احمد حنبل نے مسند میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نیز دوسروں نے لکھا ہے، تمام ملکی اور انتظامی امور میں بالخصوص فوج کشی کے موقع پر خلیفہ عمر حضرت علی علیہ السلام سے مشورہ کرتے تھے اور انہیں کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے تھے۔

علاوہ ان چیزوں کے ہر دور اور زمانے کے اسلامی فتوحات میں فرق تھا۔ پہلی قسم اسلام کے ان ابتدائی فتوحات کی ہے جو خود حضرت خاتم الانبیاء(ص) کے عہد میں حاصل ہوئے اور جو امیرالمومنین علی علیہ السلام کی ذات والا صفات کے مرہون منت تھے بقول شاعر

سیاہی لشکر نباید بکار کہ یک مرد جنگی بہ از صد ہزار

جوانمرد انسان جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے سرمایہ فخر و مباہات اور جس کا وجود لشکر اسلام کی فتح و فیروزی کا ضامن تھا، امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے، کیونکہ اگر آپ کسی جنگ میں موجود نہ ہوتے تھے تو فتح بھی حاصل نہ ہوتی تھی، چنانچہ خیبر میں جب کہ آپ کو آشوب چشم تھا اور میدان میں جانا ممکن نہیں تھا مسلمانوں نے پے در پے شکست کھائی یہاں تک حضرت نے رسول اللہ کی دعا سے شفا پائی اور دشمن پر حملہ کر کے خیبر کے قلعے فتح کئے۔

غزوہ احد میں جب سارے مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے تو صرف حضرت علی (ع) ہی تھے جو پیغمبر(ص) کی نصرت میں ثابت قدم رہے یہاں تک کہ ہاتف غیب نے ندا دی لا سیف الا ذوالفقار لا فتی الا علی ( یعنی سوا ذوالفقار کے کوئی تلوار نہیں اور سوا علی(ع) کے کوئی جوانمرد نہیں۔)

اور دوسری قسم ان فتوحات کی ہے جو وفات پیغمبر(ص) کے بعد ہوئے اور وہ سب کے سب نامی بہادروں ، اسلام کے بڑے سرداروں اور ان کی تدبیر جنگ اور تجربہ کاری کے ممنون احسان تھے کیونکہ وہ میدان جنگ میں طاقت ور دشمنوں

۲۴۴

کے مقابل شجاعت و فداکاری اور جان بازی دکھا کر ان پر غلبہ حاصل کرتے تھے۔

لیکن ہماری گفتگو فتوحات اسلامی کے بارے میں نہیں تھی جو خلافت خلفاء اور بالخصوص خلیفہ عمر کے زمانہ میں ہوئے بلکہ خلیفہ عمر کی ذاتی شدت و شجاعت اور پامردی کے موضوع پر تھی جس کے متعلق میں نے عرض کیا کہ تاریخ میں اس کا وجود نہیں۔

حافظ : یہ اہانت نہیں ہے کہ آپ فرماتے ہیں خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ میدان جنگ سے بھاگے اور ان کا یہ عمل مسلمانوں کی شکست کا باعث ہوا؟

خیر طلب : اگر لوگوں کے تاریخی واقعات کا نقل کرنا اہانت ہے تو اس طرح کی اہانت کو خود آپ ہی کے بڑے برے علماء اور مورخین نے نقل کیا ہے اور میں نے بھی وہی کہا ہے جس کو آپ کے مورخین نے درج کیا ہے لہذا اگر آپ کا کوئی اعتراض یا اشکال ہے تو اپنے ہی علماء پر وارد کیجئے۔

حافظ : کس جگہ ہمارے علماء نے لکھا ہے کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ میدان جنگ سے بھاگے اور مسلمانوں کی شکست کا باعث بنے؟

خیبر میں ابوبکر و عمر کی شکست

خیر طلب : ان حضرات نے لڑائی کے بہت سے میدانوں میں شکست کھائی جن میں سے ایک خاص واقعہ جنگ خیبر کا ہے ۔ چونکہ حضرت علی علیہ السلام کی آنکھیں درد کررہی تھی لہذا پہلے روز حضرت رسول خدا(ص) نے فوج اسلام کا علم ابوبکر کو دیا، یہ مسلمانوں کے سردار لشکر بن کر یہودیوں کے مقابلے پر گئے اور مختصر سی لڑائی کے بعد شکست کھا کر واپس آگئے ، دوسرے روز نشان فوج عمر کو دیا گیا لیکن یہ ابھی یہودیوں کے مقابل بھی نہیں پہنچے تھے کہ ڈر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

حافظ : آپ کے یہ بیانات محض شیعوں کے گھڑے ہوئے ہیں ورنہ یہ حضرات بہت ہی دلیر اور بہادر تھے۔

خیر طلب : میں نے بار بار عرض کیا ہے کہ شیعہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے پیرو ہیں جو صادق و مصدق تھے۔ نہ ہم نے جھوٹ کہا ہے نہ کہتے ہیں کیونکہ جھوٹ کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور نہ ہم کو قطعا حدیث گھڑنے کی کوئی ضرورت ہی ہے۔ غزوہ خیبر خاتم الانبیاء(ص) کے دور زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے جس کو فریقین کے تمام علماء و مورخین نے لکھا ہے، چنانچہ جتنا اس وقت میرے پیش نظر ہے اس کو عرض کرتا ہوں۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی متوفی سنہ430ھ نے حلیۃ الاولیاء جلد اول ص63 میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص40 میں سیرۃ ابن ہشام سے ، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب 14 میں نیز آپ کے دوسرے اکابر علماء و مورخین نے لکھا ہے۔ لیکن سب کے اقوال نقل کرنے کا وقت نہیں ہے البتہ ان سارے اقوال سے زیادہ اہم اور آپ کے نزدیک محل وثوق و اطمینان دو بڑے عالموں کی تصدیق پیش کرتا ہوں۔ محمد بن اسماعیل

۲۴۵

بخاری نے اپنی صحیح جلد دوم مطبوعہ مصر سنہ 1320ھ ص100 میں اور مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح جلد دوم مطبوعہ مصر سنہ1320 ص324 میں صریحا لکھا ہے فرجع ایضا ضہزما " یعنی ( خلیفہ عمر) دو مرتبہ میدان جنگ سے بھاگ کر واپس آئے۔

اس مطلب کے واضح دلائل میں سے ابن الحدید معتزلی کے وہ کھلے ہوئے اشعار ہیں جو انہوں نے اپنے سات مشہور قصیدوں میں سے جو آیات سبع کے نام سے موسوم اور حضرت امیرالمومنین(ع) کے فضائل میں نظم کئے گئے ہیں قصیدہ بائیہ میں باب خیبر کا ذکر کرتے ہوئے کہے ہیں۔

الم تخبر الاخبار فی فتح خيبر نفيها الذی اللب الملب اعاجيب

وما انس لانس الذين تقد ماو فرهما والفرقد علما حوب

وللراية العظمی و قد ذهبا بهاملابس ذل نوقها و جلابيب

يشلهما من آل موسی شمر دل طويل نجا والسيف اجيد يعبوب

يمج منونا سيفه و سنانه و يلهب نارا عمده و الاقابيب

احضرهما ام حضرا خرج خاضب وذانهما ام فاعم الخد مخضوب

عذرتکما ان الحمام لمبغض وان لقاء النفس للنفس محبوب

ليکره طعم الموت والموت طالب فکيف يلذ الموت والموت مطلوب

( مطلب یہ کہ آیا تم نے فتح خیبر کی داستان نہیں سنی ہے جس میں عجیب عجیب نکات و رموز پوشیدہ ہیں، جن سے عقلمند حیران ہیں۔ چونکہ وہ دونوں ( ابوبکر و عمر) علم سے کوئی انس اور علمداری کی عادت نہیں رکھتے تھے لہذا بھاگ کھڑے ہوئے حالانکہ جانتے تھے کہ میدان جہاد سے بھاگنا ایک کفر آمیز گناہ ہے۔ اور جو با عظمت نشان فوج لے گئے تھے اس کو بھی ذلت و خواری کا جامہ پہنا دیا۔ کیونکہ یہودی سرداروں میں سے ایک بہادر اور بلند قامت جوان برہنہ تلوار لئے ہوئے ایک کوہ پیکر گھوڑے پر سوار پر شہوت نر شتر مرغ کی طرح جس کو موسم بہار کی ہوا اور سبزے نے قوی بنا دیا ہو ان پر حملہ آور ہوا۔ گویا وہ خوبصورت مہندی لگائے ہوئے معشوقوں کی طرف جارہا تھا۔ اس کی تلوار اور نیزے کی بجلی سے آتش مرگ کی شعاعین نکلتی دیکھ کر یہ دونوں ڈر گئے ( پھر ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ ) میں آپ دونوں صاحباں (ابوبکر و عمر) کی جگہ پر عذر خواہی کرتا ہوں ، موت ہر شخص کی نظر میں مکروہ اور زندگی محبوب ہے۔ لہذا آپ بھی موت سے بیزار تھے ، حالانکہ موت ہر شخص کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ پس کیونکر آپ موت چاہتے اور اس کا مزہ چکھتے) اب غالبا آپ تصدیق کریں گے کہ میں اہانت کا ارادہ نہیں رکھتا تھا بلکہ فقط یہ سمجھانے کے لیے تاریخی واقعات نقل کئے تھے کہ لڑائی کے میدانوں میں خلیفہ کے اندر کوئی ذاتی شدت و درشتی اور شجاعت نہیں تھی جس سے اشداء علی الکفار میں شامل ہوسکیں بلکہ طاقتور دشمن کے مقابلے میں جگہ چھوڑ کر جنگ سے منہ موڑ لیتے تھے آپ اگر غور و انصاف کی پوری نظر ڈالیں تو تصدیق کریں گے کہ اس بلند صفت کے حامل بھی علی(ع) تھے جو تمام معرکوں میں کفار پر شدید الغضب اور غالب رہتے چنانچہ خدائے تعالی سورہ نمبر5 ( مائدہ) آیت نمبر59 میں اس کی توثیق

۲۴۶

فرماتا ہے، ارشاد ہے:

" ياأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُوامَنْ يَرْتَدَّمِنْ كُمْ عَن ْدِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّه ُبِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍعَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍعَلَى الْكافِرِينَ يُجاهِدُونَ فِي سَبِيل ِاللَّهِ وَلايَخافُونَ لَوْمَةَلائِمٍ ذلِكَ فَضْل ُاللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشاءُوَاللَّه ُواسِعٌ عَلِيمٌ "

( یعنی اے ایمان لانے والو تم میں سے جو شخص اپنے دین سے مرتد ہوجائے تو عنقریب خدا ایسی قوم کو لائے گا جن کو وہ دوست رکھتا ہے اور وہ بھی خدا کو دوست رکھتے ہیں، مومنین سے نکسار اور فروتنی اور کافروں سے عظمت و اقتدار کے ساتھ پیش آتے ہیں( جیسے علی(ع) اور ان کے پیرو) خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور اس راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ یہ خدا کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور خدا کی رحمت وسیع ہے، وہ ہر مستحق کی حالت سے خوب واقف ہے۔)

حافظ : تعجب ہے کہ آپ اپنی خوش بیانی سے اس آیت کو جو ان تمام مومنین کی شان میں ہے جن میں یہ صفتیں موجود تھیں اور خدا کا لطف و کرم جن کے شامل حال تھا زبردستی علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں ثابت کر رہے ہیں۔

خیر طلب : آپ نے مکرر تجربہ کیا ہے اور دیکھا ہے کہ میں نے اب تک بلا دلیل کوئی بات نہیں کہی ہے جیسا کہ آپ نے برابر ایراد کیا ہے اور ان کا جواب سنا ہے لیکن پھر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ بہتر یہ تھا کہ آپ سوال کے انداز میں فرماتے کہ اس دعوے پر دلیل کیا ہے تاکہ میں جواب عرض کردیتا۔ اب آپ کے ارشاد کا جواب پیش کرتا ہوں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر یہ آیت تمام مومنین کے لیے نازل ہوئی ہوتی اور وہ سب اس کے مصداق ہوتے تو میدان جنگ سے ہرگز فرار نہ کرتے۔

حافظ : آیا یہ انصاف ہے کہ مومنین اور اصحاب رسول (ص) کو جنہوں نے اس قدر جنگیں کیں اور فتوحات حاصل کئے آپ اہانت آمیز انداز میں فرار کرنے والے بتارہے ہیں؟

خیر طلب : اول تو میں نے کوئی اہانت کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ ان کی کیفیت بیان کی ہے۔ دوسرے ان کو میں نے فرار نہیں کہا ہے بلکہ تاریخ یہی بتاتی ہے۔ گویا آپ حضرات احد اور حنین کی لڑائیوں میں مومنین اور صحابہ کا فرار کرنا بھول ہی گئے جب کہ بالعموم حتی کہ کبار صحابہ بھی چل دیے تھے اور پیغبر اسلام کوکفار کے مقابلے میں تنہا چھوڑ دیا تھا، جیسا کہ طبری اور آپ کے دوسرے بڑے مورخین نے لکھا ہے۔

یہ کیونکر ممکن ہے کہ جن لوگوں نے میدان جنگ میں پیٹھ دکھائی، جہاد سے منہ موڑا اور رسول خدا(ص) کو دشمنوں کے سامنے اکیلا چھوڑ دیا وہ خدا و رسول(ص) کے محبوب ہوں۔

تیسرے اس آیت کا علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونا میں نے نہیں بتایا ہے بلکہ آپ ہی کے بڑے بڑے علماء جیسے ابواسحاق اما احمد ثعلبی جن کے متعلق آپ کا عقیدہ ہے کہ اصحاب حدیث کے امام تھے اپنی تفسیر کشف البیان میں کہتے ہیں، کہ یہ آیہ شریفہ علی ابن ابی طالب(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے کیونکہ تمام صفات مدرجہ آیت کا حامل سوا حضرت کے اور کوئی نہیں تھا۔

۲۴۷

اور ساری چھتیس لڑائیوں میں جو رسول اللہ(ص) کو پیش آئیں اپنے یا بیگانے کسی مورخ نے نہیں لکھا ہے کہ علی علیہ السلام نے ایک مرتبہ بھی میدان جنگ اور جہاد فی سبیل اللہ سے منہ موڑا ہو۔ یہاں تک کہ جنگ احد میں جب تمام اصحاب بھاگ گئے تو سخت جنگ مغلوبہ اور مسلمانوں پر دشمنوں کی پانچ ہزار سوار و پیادہ فوج کے حملے نیز رسول اللہ(ص) کے چچا جناب حمزہ سید الشہداء کی شہادت کے بعد جو تن تنہا انسان میدان میں جما رہا اور فتح و فیروزی کی آخری منزل تک ثابت قدم رہا وہ مولا امیرالمومنین علی علیہ السلام تھے باوجودیکہ تقریبا نوے زخم بدن مبارک پر لگے تھے، کثرت سے خون نکل جانے کی وجہ سے سارے اعضا نڈھال ہو رہے تھے، اور متعدد بار آپ زمین پر تشریف لائے لیکن ثابت قدمی کے ساتھ رسول اللہ (ص) کی حفاظت کی اور جنگ مسلمانوں کے حق میں تمام کی۔

حافظ : کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ آپ صحابہ کبار کو فرار کی نسبت دیں حالانکہ تمام اصحاب اور دونوں برحق خلیفہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پروانہ وار رسول اللہ (ص) کے گرد پھرتے تھے اور آں حضرت(ص) کی حفاظت کرتے تھے۔

خیر طلب : آپ تو ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ گویا تاریخ پڑھی ہی نہیں ہے۔ مورخین نے عام طورسے لکھا ہے احد و حنین اور خیبر کی جنگوں میں تمام صحابہ بھاگ گئے تھے خیبر کے متعلق اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے۔ حنین میں بھی مسلم ہے، کہ سب کے سب بھاگ کھڑے ہوئے تھے، چنانچہ حمیدی جمع بین الصحیحن میں اور حلبی سیرۃ الحلبیہ جلد سیم ص123 میں کہتے ہیں ، کہ سوا چار نفر کے تمام اصحاب فرار کر گئے علی علیہ السلام اور عباس پیغمبر(ص) کے آگے، ابوسفیان بن حارث آں حضرت(ص) کے مرکب کی لگام تھامے ہوئے اور عبداللہ ابن مسعود آنحضرت(ص) کے بائیں جانب کھڑے ہوئے تھے۔ اور احد میں تو بالعموم سارے مسلمانوں کے بھاگنے سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ بہتر ہے کہ سیر و تواریخ کا مطالعہ کیجئے تاکہ آپ پر حقیقت آشکار ہو جائے۔ خصوصیت کے ساتھ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص216 میں حافظ ناصبی کی ہرزہ سرائیوں کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ " فرالمسلمون بأجمعهم ولم يبق معه إلاأربعةعلي والزبيروطلحةوأبودجانة "یعنی احد کے روز تمام مسلمان بھاگ گئے سوا ان چار نفر ( علی) ، زبیر، طلحہ اور ابو دجانہ) کے۔ پس جب سارے مسلمانوں میں صرف چار افراد کو مستثنی کیا، تو ظاہر ہے کہ ابوبکر ، عمر اور عثمان بھی بھاگنے والوں میں سے تھے۔ لہذا جبرئیل(ع) نے ندا دی " لا سيف الا ذوالفقار لا فتی الا علی " چنانچہ آپ کے اکابر علماء اور بزرگ مورخین مثلا ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، نور الدین مالکی نے فصول المہمہ ص44 میں اور دوسروں نے درج کیا ہے کہ جیسا پہلے عرض کر چکا ہوں اس روز منادی کی آواز اور ہاتف کی ندا بلند ہوئی "لا سيف الا ذوالفقار لا فتی الا علی" یعنی نہیں ہے کوئی جوانمرد سوا علی(ع) کے اور نہیں ہے کوئی تلوار سوا ذالفقار کے جو حضرت علی(ع) کی تلوار تھی۔)

تمام لڑائیوں میں حضرت کو تائید الہی حاصل تھی اور ملائکہ آپ کی نصرت و نگہبانی پر آمادہ رہتے تھے، چنانچہ محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب بات27 میں اپنے اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

" ما بعث علی فی سرية الا رائيت جبرئيل عن يمينه و ميکائيل عن يساره والسحابة تظله حتی يروقه الله الظفر"

۲۴۸

یعنی جب بھی کسی جنگ میں علی(ع) تنہا بھیجے گئے تو میں نے دیکھا کہ جبرئیل ان کے داہنی جانب میکائیل بائیں جانب اور ایک ابر ان پر سایہ کئے ہوئے ہے یہاں تک کہ اللہ نے ان کو فتح عنایت کی۔

اور امام ابو عبدالرحمن نسائی خصائص العلوی حدیث نمبر202 میں نقل کرتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام سیاہ عمامہ پہنے ہوئے لوگوں کے سامنے آئے اور اپنے باپ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جنگ میں جس وقت حضرت علی(ع) قلعے کی طرف گئے تو " يقاتل جبرئيل عنيمينهوميكائيلعنيساره" (یعنی جبرئیل ان کے داہنی طرف اور مکائیل بائیں طرف جنگ کررہے تھے مترجم عفی عنہ) لہذا تمام لڑائیوں میں نصرت و ظفر حضرت کی تلوار کے زیر سایہ رہتی تھی، چنانچہ آپ انتہائی شدت و شجاعت کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرتے تھے یہاں تک کہ فتح یاب ہوتے تھے، خدا و رسول(ص) کے محبوب قرار پاتے تھے اور وہ مقرب فرشتے جبرئیل و میکائیل حاضر خدمت ہوکر آپ کے دونوں طرف جنگ کرتے تھے۔ حتی کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا اسلام صرف علی علیہ السلام کی تلوار سے مضبوط ہوا۔

علی(ع) خدا اور رسول(ص) کے محبوب تھے

چوتھے اسی آیت میں ارشاد ہے کہ جو لوگ ان صفات کے حامل ہیں خدا ان کو دوست رکھتا ہے اور وہ بھی خدا کو دوست رکھتے ہیں یہ محبوبیت کی صفت امیرالمومنین(ع) کے خصوصیات میں سے ہے اور اس مقصد پر دلائل بکثرت ہیں جن میں سے ایک روایت یہ ہے جس کو محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب 7 میں اپنے اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ایک روز میں اپنے باپ عباس کےساتھ رسول اللہ(ص) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ علی علیہ السلام وارد ہوئے اور سلام کیا، رسول اللہ(ص) جواب سلام دینے کے بعد بشاشت کے ساتھ اپنی جگہ سے اٹھے، علی(ع) کو آغوش میں لے کر ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور اپنے داہنی جانب بٹھایا ۔ میرے باپ عباس نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) آیا آپ ان کو دوست رکھتے ہیں آں حضرت(ص) نے فرمایا اے چچا واللہ اشد حبا لہ منی ( یعنی خدا کی قسم مجھ سے زیادہ ان کو اللہ دوست رکھتا ہے۔)

فتح خیبر میں حدیث رایت

امیرالمومنین(ع) کے محبوب خدا اور میدان جنگ میں کرار غیر فرار ہونے پر سب سے بڑی دلیل حدیث رایت ہے جو آپ کے معتبر صحاح میں درج ہے اور سوا ناصبی یا متعصب مخالف کے اکابر علمائے اہلسنت میں سے کسی نے اس سے انکار نہیں کیا ہے۔

نواب : قبلہ صاحب حدیث رایت کیا ہے؟ متمنی ہوں کہ اگر زحمت نہ ہو تو اس کے اسناد کا سلسلہ بیان فرمائیے۔

۲۴۹

خیر طلب : فریقین ( شیعہ و سنی) کے اکابرعلماء و مورخین نے بالاتفاق حدیث رایت کو نقل کیا ہے۔ مثلا محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح جلد دوم کتاب الجہاد والسیر باب دعاء النبی نیز صحیح جلد سیم کتاب الغازی باب غزوہ خیبر میں، مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح جلد دوم ص324 میں، امام عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں، ترمذی نے سنن میں ابن عسعقلانی نے اصابہ جلد دوم ص508 میں، محدث شام نے اپنی تاریخ میں، احمد ابن حنبل نے مسند میں، ابن ماجد قزوینی نے سنن میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب6 میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ می، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب14 میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، حافظ ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں ابو القاسم طبرانی نے اوسط میں اور ابوالقاسم حسین بن محمد (راغب اصفہانی) نے محاضرات الادباء جلد دوسم ص213 میں، غرضکہ عام طور پر آپ کے مورخین و محدثین نے اپنی معتبر کتابوں میں اس حدیث کو نقل کیا ہے یہاں تک کہ حاکم کہتے ہیں " هذا حديث دخل فی حد التواتر " ( یعنی یہ حدیث حد تواتر میں داخل ہے) اور طبرانی کہتے ہیں" فتح علی لخیبر ثبت بالتواتر" ( یعنی خیبر میں علی(ع) کی فتح تواتر سے ثابت ہے) روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس زمانے میں لشکر اسلام خیبر کے قلعوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھا تو ابوبکر اور عمر کی علمداری میں جیسا کہ میں اشارہ کرچکا ہوں لشکر اسلام کے تین مرتبہ شکست کھا کر بھاگنے کے بعد اصحاب ان پے در پے شکستوں سے ( جن کے مسلمان عادی نہیں تھے اور وہ بھی نا اہل یہود یوں کے مقابلے ہیں) متاثر اور دل تنگ ہوئے تو رسول اکرم(ص) نے اصحاب کی تقویت قلب اور فتح و فیروزی کی بشارت کے لیے فرمایا :

" واللّه لاعطين الرايةغدارجلاكراراغيرفراريحب اللّه ورسوله ويحبّه اللّه و رسوله يفتح اللّه على يديه ."

یعنی خدا کی قسم میں ضرور بالضرور کل ایسے مرد کو علم دوں گا جو دشمنوں پر بڑھ بڑھ کے حملہ کرنے والا ہوگا اور بھاگنے والا نہ ہوگا۔ خدا اس کے ہاتھوں پر فتح عنایت کرے گا۔وہ خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول (ص) اس کو دوست رکھتے ہیں۔

اس رات تمام اصحاب اس فکر میں جاکتے رہے کہ دیکھیں کا یہ فضل و شرف کس کو ملتا ہے، صبح ہوئی تو سب نے آلات حرب سچے اور اپنے کو پیغمبر(ص) کے سامنے نمایاں کرنا شروع کیا، اس وقت آں حضرت(ص) نے اصحاب کے اوپر ایک نظر ڈالی اور فرمایا " يا ابن اخی وابن عمی علی ابن ابی طالب " کہاں ہیں میرے بھائی اور چچا کے بیٹے علی ابن ابی طالب(ع)۔

علی (ع) کو کہ حلال ہر مشکل اوست علی (ع) کو کہ مفتاح قفل ولی اوست

لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) ان کو اتنا سخت آشوب چشم ہے کہ حرکت نہیں کرسکتے۔آں حضرت(ص) نے سلمان سے فرمایا کہ ان کو بلائو۔ سلمان گئے اور علی(ع) کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس حالت سے خدمت رسول میں حاضر ہوئے کہ آپ کی آنکھیں بند تھیں آپ نے سلام عرض کیا آں حضرت نے جواب سلام کے بعد فرمایا " کیف حالک یا ابالحسن" کیا حال ہے تمہارا اے ابوالحسن؟ عرض کیا " بحمد اللہ خیرا صداء براسی و رمد بعینی لا ابصر معہ" ( یعنی بحمداللہ خیریت ہے، میرے سر اور آنکھوں میں اتنا درد ہے کہ میں کچھ دیکھ نہیں سکتا) فرمایا ادن منی میرے پاس آئو آپ قریب آئے" فبصق في عينيه،ودعاله،فبرأحتّى كأن لم يكن به وجع " ( یعنی آں حضرت(ص) نے آپ کی دونوں آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی۔ فورا آنکھیں کھل گئیں اور مرض اس طرح سے دفع ہوا کہ گویا کبھی درد تھا ہی نہیں پھر اسلام کی فتح وفیروزی کا نشان عطا فرمایا، آپ نے خیبر کے قلعوں پر چڑھائی کی، یہودیوں سے جنگ کی، مرحب، حارث، ہشام اور علقمہ وغیرہ کے ایسے افسروں اور بہادروں کو قتل کیا اور خیبر کے قلعے فتح کئے۔

۲۵۰

ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص21 میں یہ روایت صحاح ستہ سے نقل کی ہے۔ نیز محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب14 میں روایتیں لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے مخصوص شاعر حسان بن ثابت موجود تھے انہوں نے حضرت علی(ع) کی مدح میں فی البدایہ یہ اشعار نظم کئے۔

وَكَانَ عَلِيٌ أَرْمَدَالْعَيْنِ يَبْتَغِي

دَوَاءًفَلَمَّالَمْ يُحِسَّمُ دَاوِياً

شَفَاهُ رَسُولُاللَّهِ مِنْهُ بِتَفْلِهِ

فَبُورِكَ مَرْقِيّاًوَبُورِكَ رَاقِياً

فَقَالَ:سَأُعْطِي الرَّايَةَالْيَوْمَ ضَارِباً

كَمِيّاًمُحِبّاًلِلرَّسُولِ موَالِياً

يُحِبُّالْإِلَهَ،وَالْإِلَهُ يُحِبُّهُ

بِهِ يَفْتَحُ اللَّه الْحُصُونَالْأَوَابِيَا

فَخَصَّبِهَادُونَالْبَرِيَّةِكُلِّهَا

عَلِيّاًوَسَمَّاهُ الْوَزِيرَالْمُؤَاخِيَا.

یعنی علی(ع) کو آشوب چشم تھا جس کے علاج کی ضرورت تھی لیکن جب کوئی معالج نہیں ملا تو رسول اللہ(ص) نے اپنے لعاب دہن سے شفا بخشی پس معالج اور مریض دونوں با برکت ہیں آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ آج میں ایسے شہسوار کو علم دوں گا جو بہت دلیر و شجاع اور جنگوں میں میرا مددگار ہے۔ وہ اللہ کو دوست رکھتا ہے اور اللہ اس کو دوست رکھتا ہے چنانچہ اس کے ذریعے دشمنوں کے قلعوں پر فتح دے گا۔ اس کے بعد ساری دنیا کو چھوڑ کر صرف علی(ع) کو منتخب کیا اور ان کو اپنا وصی اور بھائی قرار دیا۔ 12 مترجم عنی عنہ)

ابن صباغ مالکی نے صحیح مسلم سے نقل کیا ہے کہ عمر ابن خطاب نے کہا میں نے کبھی علمداری کی تمنا نہیں کی لیکن اس روز مجھ کو اس کی ہوس تھی اور میں بار بار اپنے کو پیغمبر(ص) کے سامنے نمایاں کر رہا تھا کہ شاید بلالیں اور یہ شرف مجھی کو نصیب ہوجائے لیکن اس کے باوجود علی(ع) کو طلب فرمایا اور یہ فخر ان کے حصے میں آیا۔

سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص15 میں اور امام ابو عبدالرحمن احمد بن علی نسائی نے خصائص العلوی می بارہ روایتیں اور حدیثیں نقل کرنے کے بعد خیبر میں علمداری علی(ع) کے موضوع پر یہی عمر کی روایت اور ان کی آرزوئے علمداری اٹھارہویں حدیث میں نقل کی ہے نیز جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء میں، ابن حجر مکی صواعق محرقہ میں اور ابن شیرویہ فردوس الاخبار میں نقل کرتے ہیں کہ عمر ابن خطاب کہتے تھے، علی(ع) کو تین چیزیں ایسی دی گئیں کہ اگر ان یں سے ایک بھی مجھ کو مل جاتی تو میں اس سے زیادہ پسند کرتا تھا کہ سرخ بالوں کے اوںٹ میرے قبضے میں ہوں(1) علی(ع) کے ساتھ فاطمہ(س) کی تزویج (2) ہر حالت میں مسجد کے اندر سکونت ، اور یہ امر سوا علی(ع) کے اور کسی کےلیے حلال نہیں تھا۔ (3) اور فتح خیبر میں آپ کی علمداری ۔ خلاصہ یہ کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام امت کے درمیان تنہا جو شخص خدا و رسول(ص) کا محبوب قرار پایا وہ علی علیہ السلام تھے۔ اور حدیث طیر بھی جو گذشتہ شب میں ذکر ہوچکیہے خدا و رسول (ص) کے نزدیک حضرت کی محبوبیت پر دوسری دلیل ہے اور یہ باتیں سوا جاہل و بے خبر یا ہٹ دھرمی اور متعصب

۲۵۱

لوگوں کے کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔

آپ کے موثق راویوں کے نقل کئے ہوئے ان دلائل کے بعد جن میں سے کچھ نمونے کے طور پر پیش کئے گئے ثابت ہوا کہ تمام صفات حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ کے مجموعہ اور آیہ شریفہ میں " یحبہم و یحبونہ کے مصداق امیرالمومنین علیہ السلام تھے نہ کہ دوسرے مومنین یا صحابہ۔ اب آپ حضرات کو معلو ہوگیا ہوگا کہ میرا مقصد اہانت نہیں تھا بلکہ اصل واقعہ اور تاریخی حقیقت عرض کی گئی تھی جس کو خود آپ کے علماء صریحی دلیلوں سے ثابت کرتے ہیں اور واضح ہوتا ہے کہ لڑائی کے میدانوں اور علمی مباحثوں میں آیہ شریعہ " أَشِدَّاءُعَلَى الْكُفَّارِ" سے مراد علی علیہ السلام تھے۔

علاوہ میری گفتگو کے آپ کے بڑے بڑے علماء اقرار کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی(ع) ہی کی تعریف میں نازل ہوئی، چنانچہ اس وقت جس قدر میرے پیش نظر ہے عرض کرتا ہوں ، محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی سنہ658ھ کفایت الطالب باب13 میں رسول اکرم(ص) کی حدیث نقل کرنے کے بعد کہ جو شخص آدم (ع) و نوح(ع) اور ابراہیم(ع) کو دیکھنا چاہتا ہے وہ علی(ع) کو دیکھے کچھ اور باتیں بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ کہتے ہیں علی(ع) وہ شخص ہیں جن کی تعریف خدا نے قرآن میں اس آیت کے ساتھ کی ہے " وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُعَلَى الْكُفَّارِرُحَماءُبَيْنَهُمْ" ( چنانچہ اسی کتاب میں تفصیل سے اس کا بیان ہوچکا ہے۔) اور خدائے تعالی آیہ شریفہ میں گواہی دیتا ہے کہ علی علیہ السلام کفار پر غالب اور سخت تھے، کیونکہ اگر بڑے بڑے معرکوں میں حضرت کی شجاعت و شمشیر مناظروں اور مباحثوں میں ان بزرگوار کے علمی دلائل اور مشکل مسائل میں آپ کے منطقی جوابات نہ ہوتے تو اسلام کے اندر کوئی رونق اور مسلمانوں کا کوئی اقتدار نہ ہوتا۔

چنانچہ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا اسلام نے فقط علی(ع) کی شمشیر اور خدیجہ کے مال سے طاقت پکڑی۔ لہذا علی علیہ السلام اس مقام و مرتبہ کے لیے ہر ایک سے زیادہ اولی و اہل اور مستحق تھے اور جو آپ نے یہ فرمایا کہ " رُحَماءُبَيْنَهُمْ" عثمان ابن عفان کی شان میں ہے اور تیسرےنمبر پر ان کے منصب خلافت کا اشارہ ہے کیونکہ وہ بہت رقیق القلب اور رحم دل تھے۔ تو افسوس ہے کہ یہ عقیدہ بھی تاریخی شہادت کی روشنی میں ان کے حالات و اخلاق سے میل نہیں کھاتا۔ اس مقصد پر دلائل بہت ہیں لیکن دل یہاں پہنچ کے ٹھہر گیا۔ آپ حضرات سے گذارش ہے کہ اسی قدر گفتگو پر اکتفا کیجئے اور اس موضوع سے چشم پوشی فرمائے۔ ورنہ میں ڈرتا ہوں کہ آپ کو رنج پہنچ جائے گا۔

حافظ : جب آپ دلائل و براہین اور اسناد صحیحہ بیان کیجئے گا۔ تو رنجش کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لہذا اگر فحش باتوں کے علاوہ کچھ دلیلیں ہیں تو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : اول تو یہ کہ میں فحش بولنے والا انسان نہیں ہوں، چنانچہ حاضرین جلسہ گواہ ہیں کہ ان راتوں میں مجھ کو خود فحش باتیں سننا پڑیں لیکن ان کا جواب بھی میں نے صرف دلیل و برہان سے دیا۔

دوسرے دلائل اس کثرت سے ہیں کہ اگر میں ان سب سے استدلال کرنا چاہوں تو ہماری نشست کا یہ مختصر وقت

۲۵۲

کافی نہیں ہے لیکن چونکہ آپ نے حکم دیا ہے لہذا ان میں سے بعض کا خلاصہ پیش کرتا ہوں تاکہ آپ حضرات خود ہی انصاف سے فیصلہ فرمائیں اور اپنی جگہ پر رحم و عطوفت اور رقت قلب کا اندازہ کریں۔

ابوبکرو عمرکے برخلاف عثمان کا طرز عمل

ہمارے اور آپ کے تمام مورخین مثلا ابن خلدون، ابن خلسکان اور ابن اعثم کوفی کا اتفاق ہے صحاح ستہ اور آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہے، نیز مسعودی نے مردج الذہب جلد اول ص435 میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں اور آپ کے دوسرے علماء نے لکھا ہے کہ عثمان ابن عفان جب عہدہ خلافت پر پہنچے تو سنت رسول(ص) اور سیرت شیخین ( ابوبکر و عمر) کے خلاف عمل کرنے لگے۔

حالانکہ فریقین اور تمام مورخین متفق ہیں کہ مجلس شوری میں عبدالرحمن ابن عوف نے ان سے کتاب خدا، سنت رسول(ص) اور طریقہ شیخین پر بیعت کی تھی اور یہ شرط تھی کہ بنی امیہ کو دخیل نہ کریں گے اور نہ ان لوگوں پر مسلط کریں گے۔ لیکن جب معاملہ پختہ ہوگیا تو ان حضرات کی سیرت کے بالکل خلاف چلنے لگے اور کھلم کھلا وعدے کے برعکس کیا۔ آپ خود جانتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے حکم سے عہد و پیمان کو توڑنا گناہ کبریہ ہے اور آپ کے اکابر علماء ومورخین کی صراحت و شہادت کی بناء پر خلیفہ عثمان نے عملا نقض عہد کی،سارے دور خلافت میں طریقہ شیخین ( ابوبکر و عمر) کے بر خلاف عمل کرتے رہے، بنی امیہ کو لوگوں کے جان و مال اور عزت پر مسلط کیا اور یہ پہلا بہت بڑا داغ تھا جس نے ان کے دامن کو آلودہ کیا۔

حافظ : کیونکر سنت رسول (ص) اور سیرۃ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف عمل کیا؟

خیر طلب : پہلا قدم جو سنت رسول(ص) اور طریقہ شیخین کے برخلاف اٹھایا وہ جیسا کہ مورخین نے تفصیل سے لکھا ہے اور مشہور و مقبول فریقین محدث و مورخ مسعودی نے مروج الذہب جلد اول ص433 میں مختصرا ذکر کیا ہے کہ پتھر کا ایک نقش و نگار والا مکان تعمیر کرایا جن میں ساگون اور سرو کے دروازے لگوائے کثیر مال و دولت جمع کیا اور اس کے علاوہ جب تک زندہ رہے بنی امیہ وغیرہ پر بے جا بخش و انعام کی بارش کرتے رہے( مثلا بلاد آرمینیہ کا خمس جو ان کے زمانے میں فتح ہوا تھا بغیر کسی شرعی جواز کے) مروان ملعون کو بخش دیا نیز بیت الامال سےایک لاکھ درہم دیے، چالاکھ درہم عبداللہ بن خالد کو، ایک لاکھ درہم ملعون و طرید رسول حکم ابن ابی العاص کو اور دو لاکھ درہم ابوسفیان کو بیت المال سے عنایت کئے( جیسا کہ ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص28 میں لکھا ہے) اور جس روز وہ قتل کئے گئے ہیں ان کے ذاتی خزانچی کی تحویل میں ایک لاکھ پچاس ہزار دینار اور دو کڑوڑ درہم نقد موجود تھے علاوہ ان کی اس جائداد کے جو وادی القری اور حنین میں تھی جس میں ایک لاکھ دینار اور صحرائوں کے اندر بے شمار گائیں بھیڑیں اور اونٹ تھے۔

۲۵۳

ان کے اسی عمل کا نتیجہ تھا کہ بنی امیہ وغیرہ کے تمام بڑے لوگوں نے جن کو وہ برسر اقتدار لے آئے تھے ان سے زیادہ دولت جمع کی اور لوگوں کے اموال کو لوٹنے میں مشغول ہوئے۔ انتہی۔

کیونکہ مشہور ہے " الناس على دين ملوكهم " یعنی لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں۔ شیخ فرماتے ہیں۔

اگر زباغ رعیت ملک خورد سیبے برآورند غلامان او درخت زبیخ

اس دور میں اس طرح کے افعال اور کثیر دولت کی فراہمی علاوہ اس کے کہ اس زمانے کے محتاج و تہی دست لوگوں کے مقابلے میں خلیفہ رسول کے لیے عقلی و نقلی حیثیت سے بہت بری بات تھی، ان کے رفقاء ابوبکر و عمر کے رویہ اور طریقے کے بھی برخلاف تھی جب کہ وہ شوری کے روز عہد و پیمان کرچکے تھے کہ ان دونوں کے قدم بہ قدم چلیں گے۔

مسعودی مروج الذہب جلد اول ضمن حالات عثمان میں لکھتے ہیں کہ خلیفہ عمر اپنے بیٹے عبداللہ کے ساتھ حج کرنے گئے تو آنے جانے میں راستے کا خرچ سولہ دینار ہوا ۔ انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا کہ ہم نے اپنے اخراجات میں اسراف کیا۔ اب آپ حضرات خلیفہ عمر کے طریقہ زندگی اور عثمان کی فضول خرچیوں اور زیادتیوں کے درمیان موازنہ کیجئے۔ تو تصدیق کیجئے گا کہ عثمان کا طریقہ کار عہد و میثاق کےبالکل برعکس تھا۔

عثمان کا بنی امیہ کے بدکاروں کو ترقی دینا

دوسرے یہ کہ بنی امیہ کے فاسق و فاجر لوگوں کو جاہ ومنصب دے دے کر لوگوں کے جان و مال اور آبرو پر مسلط کیا چنانچہ بلاد مسلمین میں بنی امیہ کی حکومتوں سے ایک ابتری پھیل گئی تھی اور رسول خدا(ص) و شیخین ( ابوبکر و عمر) کے خلاف مرضی اشخاص کو عہدوں پر معین کر دیا جیسے اپنے ملعون چچا حکم بن ابی العاص اور اس کے بیٹے مروان ابن حکم کو جن کے لیے تاریخ گواہ ہے کہ یہ دوںوں رسول اللہ(ص) کے راندہ درگاہ، دھتکارے ہوئے۔ شہر بدر کئے ہوئے اور آں حضرت(ص) کے ارشاد سے مردود و ملعون تھے۔

حافظ : خصوصیت سے ان لوگوں کے مردود و ملعون ہونے پر آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟

بنی امیہ ، حکم بن ابی العاص اور مروان خدا و رسول(ص) کے ملعون تھے

خیر طلب : لعنت کی دلیلیں دو قسم کی ہیں۔ ایک عمومی حیثیت رکھتی ہے جس میں خدائے تعالی نے بنی امیہ کو صریحا شجرہ ملعونہ فرمایا ہے، سورہ نمبر17( بنی اسرائیل) آیت نمبر " وَالشَّجَرَةَالْمَلْعُونَةَفِي الْقُرْآنِ " ( یعنی قرآن

۲۵۴

میں لعنت کیا ہوا درخت ۔ چنانچہ امام فخر الدین رازی، طبری، قرطبی، نیشاپوری ، سیوطی، شوکانی، آلوسی ابن ابی حاتم ، خطیب بغداد، ابن مردویہ، حاکم، مقریزی، بیہقی اور آپ کے دوسرے مفسرین وعلماء نے اس آیت مذمت کے ذیل میں ابن عباس ( خیر امت) رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے یہ قرآن میں شجرہ ملعونہ سے مراد بنی امیہ تھے، کیونکہ رسول اکرم(ص) نے ان لوگوں کو خواب میں دیکھا کہ بندروں کی شکل میں آپ کے محراب و منبر کو اپنی اچھل کود کا تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں، بیدار ہونے کے بعد جبرئیل یہ آیت لے کر نازل ہوئے اور خبر دی کہ یہ بندر بنی امیہ ہیں جو آپ کے بعد خلافت غصب کریںگے اور آپ کے محراب و منبر ایک ہزار مہینے تک ان کے تصرف میں رہیں گے۔

امام فخر الدین رازی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ تمام بنی امیہ میں رسول حکم بن ابی العاص کا نام خاص طور پر سے لیتے تھے پس بحکم قرآن مجید حکم بن ابی العاص ملعون ہے اس لیے کہ شجرہ ملعونہ میں سے ہے اور پیغمبر(ص) بالخصوص اس کا نام لعنت کے ساتھ زبان پر جاری فرماتے تھے اور فریقین ( شیعہ و سنی) کے معتبر راویوں سے ان لوگوں کے مردود و ملعون ہونے پر کثرت سے حدیثیں مروی ہیں لیکن چونکہ ہم نے پہلی شب میں طے کر لیا ہے کہ احادیث شیعہ سے استدلال نہ کریں گے۔ لہذا فی الحال جن قدر آپ کےعلماء نے لکھا ہے اورمیرے پیش نظر ہے اسی میں سے بعض اقوال عرض کرتا ہوں تاکہ حقیقت ظاہر ہوجوئے۔

حاکم نیشاپوری مستدرک جلد چہارم ص487 میں اور ابن حجر مکی صواعق محرقہ میں حاکم سے نقل کرتے ہیں کہ یہ صحیح حدیث رسول خدا(ص) سے منقول ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

" إنّ أهلبيتي سيلقون من بعدي من أمّتي قتل اوتشريداوإنّ أشدّقوم لنابغضابنواميّةوبنوالمغيرةوبنومخزوم و مروان بن الحکم کان طفلا قال له النبی صلی الله عليه وسلم و الوزغ والملعون بن الملعون"

یعنی یقینا میرے اہل بیت عنقریب میری امت کے ہاتھوں قتل اور پراگندگی میں مبتلا ہوں گے اور در حقیقت بنی امیہ بنی مغیرہ اور بنی مخزوم ہماری عداوت میں سب سے زیادہ سخت ہیں۔ مروان ابن حکم اس زمانے میں بچہ تھا تو آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ یہ چھپکلی کا بچہ چھپکلی اور ملعون پسر ملعون ہے۔

نیز ابن حجر نے ایک حدیث کے فاصلے سے عمر بن مرقا الجہتی سے، حلبی نے سیرۃ الحلبیہ جلد اول ص337 میں، بلاذری نے انساب جلد پنچم ص126 میں، سلیمان بلخی نے ینابیع المودۃ میں، حاکم نے مستدرک جلد چہارم ص481 میں، دمیری نے حیات الحیوان جلد دوم ص291 میں ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں، امام الحرم نے ذخائر العقبی میں اور دوسروں نے بھی عمر بن مرہ سے نقل کیا ہے کہ :

"أَنَ الْحَكَمَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ ص فَعَرَفَ صَوْتَهُ فَقَال َائْذَنُوالَهُ عَلَيْهِ لَعْنَةُاللَّهِ وَعَلَى مَنْ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ إِلَّاالْمُؤْمِنَ مِنْهُمْ وَقَلِيلٌ"

یعنی حکم بن العاص نے خدمت رسول میں آنے کی اجازت چاہی، آں حضرت(ص) نے اس کی آواز پہچانی تو فرمایا اس کو اجازت دے دو اس پر اور اس کے صلب سے پیدا ہونے والی اولاد پر خدا کی لعنت ہو علاوہ ان کے جو ان میں سے مومن ہوں اور وہ بہت کم ہوں گے۔

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد پنجم میں آیہ " وَالشَّجَرَةَالْمَلْعُونَةَ" اور اس کے مفہوم کے ذیل میں ام المومنین

۲۵۵

عائشہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مروان سے کہا " لعن الله اياک وانت فی صلبه فانت بعض من لعنه الله " یعنی خدا نے تیرے باپ پر لعنت فرمائی در آنحالیکہ تو اس کے صلب میں موجود تھا لہذا تو بھی اس کا جز ہے جس پر خدا نے لعنت کی ہے۔

علامہ مسعودی مروج الذہب جلد اول ص435 میں کہتے ہیں کہ مروان بن حکم رسول اللہ(ص) کا طرید اور راندہ درگاہ تھا جو مدینے سے شہر بدر کردیا گیا تھا۔ خلافت ابوبکر و عمر کے زمانے میں اس کو مدینے کی آنے کی اجازت نہیں ملی لیکن جب عثمان خلیفہ ہوئے تو رسول اکرم(ص) اور ابوبکر و عمر کی سیرت و عمل کے خلاف اس کو آنے کی اجازت ۔۔۔۔۔۔ دی، تمام بنی امیہ کے ساتھ اس کو بھی اپنے پاس رکھا اور ان لوگوں پر حد سے زیادہ مہربانی کرتے تھے۔

نواب : قبلہ صاحب حکم ابن ابی العاص کون تھا اور کس وجہ سے پیغمبر (ص) نے اس کو دھتکار دیا تھا۔

حکم بن ابی العاص

خیر طلب :حکم بن ابی العاص خلیفہ عثمان کا چچا تھا، جیسا کہ طبری ، اثیر اور بلاذری نے انساب جلد پنجم ص17 میں لکھا ہے زمانہ جاہلیت میں یہ رسول اللہ(ص) کا ہمسایہ تھا اور آںحضرت(ص) کو بہت اذیت پہنچاتا تھا خصوصا بعثت کے بعد، یہ فتح مکہ کے بعد مدینے میں آیا اور ظاہری اسلام قبول کیا لیکن برابر لوگوں میں آںحضرت(ص) کی توہین کیا کرتا تھا۔جس وقت آں حضرت(ص) چلتے تھے تو یہ ساتھ انگلی سے آںحضرت(ص) کی طرف اشارہ کرتا تھا چنانچہ آںحضرت(ص) کی نفرین سے مستقل اسی طرح تشنج کی حالت پر قائم رہا۔ اس کے علاوہ فاتر العقل اور نیم مجنون بھی ہوگیا تھا۔ ایک روز آںحضرت(ص) کے گھر پر گیا۔ آپ حجرے سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کوئی شخص اس کی طرف سے سفارش نہ کرے اب اس کو اور اس کے بیٹوں مروان وغیرہ کو مدینے سے نکل جانا چاہئیے، چنانچہ آںحضرت(ص) کے حکم سے فورا مسلمانوں نے اس کو طائف کی طرف نکال باہر کیا۔ ابوبکر وعمر کے زمانے میں عثمان نے سفارش کی کہ حکم میرا چچا ہے۔ لہذا آپ اجازت دیجئے کہ وہ مدینے واپس آجائے لیکن ان دونوں صاحبان نے منظور نہیں کیا اور کہا کہ وہ رسول اللہ(ص) کا نکالا ہوا اور شہر بدر کیا ہوا ہے ہم اس کو واپس نہیں بلاسکتے جب عثمان خود منصب خلافت پر پہنچے تو ان لوگوں کو بلالیا ، ہر چند مسلمانوں اور اصحاب رسول(ص) نے اعتراض کیا لیکن انہوں نے کوئی اعتنا نہیں کی بلکہ ان پر انعام و اکرام اور ؟؟؟؟؟؟؟؟ کی بارش کرتے رہے، مروان کو اپنا پیشکار اور دربار خلافت کا افسر بنایا، تمام اشرار بنی امیہ کو اپنے گرد جمع کیا ان کو بڑے بڑے منصب اور نمایاں عہدے سپرد کئے یہاں تک کہ خلیفہ دوم عمر کی پیش گوئی کے مطابق وہی لوگ ان کو بدبختی کا سبب بنے۔

۲۵۶

ولید فاسق نے نشے کی حالت میں نماز پڑھائی

من جملہ ان کے ولید بن عقبہ بن ابی العیط بھی تھا جس کو کوفے کی ولایت و امارت پر بھیجا۔ ولید وہ شخص ہے کہ بنابر روایت مسعودی مروج الذہب جلد اول ذیل حالات عثمان، پیغمبر(ص) نے اس کے بارے میں فرمایا تھا " انهمن ا ه ل النار " یعنی وہ یقینا اہل جہنم میں سے ہے۔ وہ فسق وفجور میں انتہائی بے باک تھا چنانچہ مسعودی مروج الذہب میں، ابوالفداء اپنی تاریخ میں سیوطی تاریخ الخلفاء ص104 میں ابو الفرج اغاتی جلد چہارم ص128 میں امام احمد ابن حنبل مسند جلد اول ص144 میں طبری اپنی تاریخ جلد پنجم ص60 میں، بیہقی سنن جلد ہشتم ص318 میں، ابن اثیر کامل جلد سیم ص43 میں، یعقوبی اپنی تاریخ جلد دوم ص142 ، ابن اثیر اسدالغایہ جلد پنجم ص91 میں، اور دوسرے لوگ لکھتے ہیں کہ امارت کوفہ کے زمانے میں ایک مرتبہ رات بھر محفل عیش و عشرت گرم رہی، صبح کو جب موذن کی آواز آئی تو نشے کی حالت میں مسجد پہنچ گیا اور لوگوں کو صبح کی نماز چار رکعت پڑھائی اس کے بعد کہا کہ اگر تم لوگوں کی خواہش ہو تو اور پڑھا دوں۔

ان میں سے بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ محراب کے اندر قے کردی جس سے تمام لوگ پریشان ہوئے اور عثمان کے پاس شکایت لے گئے ۔ من جملہ ان کے مشہور و معروف آدمی معاویہ بھی تھا اس کو شام کا گورنر بنایا۔ اور ولید کے بعد سعید بن عاص کو کوفے بھیجا ان دونوں کے حرکات سے تمام بلاد مسلمین ظلم و فساد سے بھر گئے، فریادیں بلند ہوئیں اور جو شخص جہاں سے آیا ایک فریادی تحریر ساتھ لایا لیکن اس کو دربار خلافت سے دھتکار دیا گیا۔

عثمان کی غلط کاریاں ان کے قتل کا باعث ہوئیں

جب رسول اللہ(ص) کی سنت و سیرت حتی کہ ابوبکر و عمر کے طور طریقے کے برخلاف ان کے یہ چال چلن مشہور ہوئے تو نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے خون میں جوش پیدا ہوا اور ایک متحدہ محاذ قائم ہوگیا، پھر جو ہونا تھا ہوا۔

اپنے قتل اور بدنصیبی کے ذمہ دار وہ خود تھے کیونکہ انہوں نے اپنے کاموں پر نظر ثانی نہیں کی۔ امیرالمومنین علیہ السلام کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرے اور اپنے حاشیہ نشین بنی امیہ کی چکنی چپڑی باتوں میں بھونے رہے یہاں تک کہ ان کی محبت میں اپنی جان سے ہاتھ دھوئے۔ جیسا کہ خلیفہ عمر نے اس کی پیشین گوئی کر رہی تھی اس لیے کہ وہ عثمان کی خصلتوں سے واقف تھے) چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص186 میں ابن عباس سے عمر کی گفتگو نقل کی ہے۔ یہاں تک کہ کہتے ہیں خلیفہ عمر نے چھ نفر اصحاب شوری میں سے ہر ایک کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہا اور کسی نہ کسی عیب کی گرفت کی۔ جب عثمان کا نام آیا

" أوه ثلاثاوالله لئنوليهاليحملنبنيأبيمعيطعل رقاب الناس ثم لتنهض العرب إليه فقت له ."

یعنی اگر مرتبہ آہ کھینچنے کے بعد کہا کہ اگر زمام حکومت

۲۵۷

عثمان کے ہاتھوں میں پہنچے گی تو وہ ( بڑے بڑے عہدے دے کر) بنی ابی معیط کو لوگوں کی گردنوں پر سوار کریں دیں گے پھر یقینا عرب ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان کو قتل کردیں گے۔

نیز ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص66 میں جملہ مذکورہ نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ عمر کا اندازہ صحیح اترا کیونکہ جب عثمان خلیفہ ہو تو( جیسا عمر پیشن گوئی کرچکے تھے) بنی امیہ کو اپنے گرد جمع کو لیا ان کو لوگوں کی گردنوں پر سوار کر دیا اور ولایتوں کی گورنری عطا کی جس سے ان لوگوں نے وہ کچھ کیا جو نہ کرنا چاہیئے تھا۔ باوجودیکہ یہ ایسا کرسکتے تھے کہ ان کو معزول کردیں، تبادلہ کردیں اور مروان ملعون کو اپنے سے الگ کردیں لیکن نہیں کیا یہاں تک کہ لوگوں میں ناراضگی پھیل گئی اور شورش و قتل تک نوبت پہنچی۔ ان کے سرپر یہ تمام آفتیں اور ؟؟؟؟ مروان اور ان کے دوسرےحاشیہ نشینوں کی لائی ہوئی تھیں۔ اور امت کی درخواستوں سے بے اعتنائی ان کے قتل تک منجر ہوئی صاحبان اںصاف بہتر ہے کہ آپ تیسری صدی ہجری کے اپنے بزرگ اور معتمد علیہ عالم محمد بن جریر طبری کی تاریخ ص357 کی طرف رجوع کیجئے جس میں لکھا ہے۔

"رأى رسول اللّه اباسفيان مقبلاعلى حمارومعاويةيقودبه،ويزيدابنه يسوق به قال: لعن اللّه القائدوالراكب والسائق"

یعنی پیغمبر(ص) نے دیکھا کہ ابوسفیان اپنے گدھے پر سوار آرہا ہے، معاویہ اس کو آگے سے کھینچ رہا اور اس کا دوسرا بیٹا یزید پیچھے سے ہنکا رہا ہے تو فرمایا کہ سوار کھینچنے والے اور ہنکانے والے تینوں پر خدا لعنت کرے۔

اس کے بعد فیصلہ کیجئے کہ خلیفہ عثمان نے پیغمبر(ص) کے ملعون اور راندہ درگاہ اشخاص کو کس لیے عزت و احترام کے ساتھ اپنے آغوش محبت میں لیا بلکہ ان کو امارت و حکومت بھی عطا کی تاکہ وہ دین اسلام کے اندر انقلاب برپا کریں۔

خلیفہ کے ان افعال اور بے فکری پر صرف ہم ہی تعجب نہیں کررہے ہیں بلکہ طبری اور ابی اعثم کوفی جیسے آپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی حیرت کا اظہار کیا ہے اور اپنی تاریخوں میں درج کیا ہے کہ جس وقت ابوسفیان نے خلافت عثمان کے شروع میں سرور بار اسلام اور نزول وحی وجبرئیل کا انکار کیا تو خلیفہ نے اس کو قتل کیوں نہیں کیا فقط معمولی سی ناراضگی پر بات ختم کردی، حالانکہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ایسا ملعون واجب القتل تھا۔ "فَاعْتَبِرُواياأُولِي الْأَبْصارِ"

لوگوں میں غم وغصہ پھیلانا قتل عثمان تک منجر ہوا

جو کچھ عرض کیا جاچکا اس کے علاوہ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر163 اور اسی طرح اس روایت پر توجہ کیجئے جو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ( مطبوعہ مصر) ص482 میں خطبے کی شرح کرتے ہوئے طبری کی تاریخ بزرگ سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ(ص) کے بعض اصحاب نے مختلف صوبوں میں خطوط لکھ کر مدینے کے اندر عثمان کی سر پرستی میں بنی امیہ کے ظلم نہ جور کے خلاف دعوت جہاد دی۔ اور سنہ34ھ میں عثمان کے عالموں سے ناراض لوگوں کی ایک بڑی جماعت مدینے پہنچ کر خدمت امیرالمومنین(ع) میں حاضر ہوئی

۲۵۸

اور حضرت کو درمیان میں ڈالا، آپ خلیفہ کے پاس تشریف لے گئے اور جہاں تک ممکن تھا ان کو نصیحت کی کہ عمال کے تبادلے اور طرز عمل پر نظر ثانی کریں، ان کے حالات کے نتائج سے آگاہ کیا اور سمجھایا کہ یہ جان جو کھوں کا معاملہ ہے، یہاں تک کہ فرمایا :

"وَإِنِّي أَنْشُدُكَ اللَّهَ أَنْ أَلَّاتَكُونَ إِمَامَ هَذِهِ الْأُمَّةِالْمَقْتُولَ فَإِنَّهُ كَانَ يُقَالُ ُقْتَلُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِإِمَامٌ يَفْتَحُ عَلَيْهَ االْقَتْلَوَالْقِتَالَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"

یعنی میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اس امت کے مقتول پیشوا نہ بنو کیونکہ اس سے قبل؛ کہا جاچکا ہے کہ اس امت میں ایک ایسا پیشوا قتل کیا جائے گا جس کے مارے جانے سے روز قیامت تک قتل و خون ریزی کا دروازہ کھل جائے گا۔

لیکن مروان اور اموی مصاحبین نے حضرت کی سچی نصیحتوں کا اثر نہ ہونے دیا۔ چنانچہ حضرت کی واپسی کے بعد عثمان نے حکم دیا کہ لوگ مسجد میں جمع ہوں، پھر منبر پر جاکر بجائے اس کے کہ شکایت کرنے والوں کی تالیف قلوب اور دلدہی کریں اور کہیں کہ متعین عمال اس وقت سے معزول کئے گئے، اس طرح کی باتیں کہیں رنجیدہ دلوں کو اور صدمہ پہنچا اور انجام خلیفہ عمر کی پیشن گوئی تک پہنچا یعنی عثمان ناراض جماعت کے ہاتھو مارے گئے۔

پس قتل عثمان کا سبب ان کی نادانیان تھیں کہ بزرگوں کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرے حتی کہ اپنے پاداش عمل کو پہنچے، بر خلاف ابوبکر وعمر کے کہ وہ امیرالمومنین علیہ السلام کے نصائح کو سن کر اثر لیتے تھے اور قدر دانی کر کے پورا فائدہ اٹھاتے تھے۔

اصحاب رسول(ص) پر عثمان کی زد و کوب

دوسرے یہ کہ وہ چند اصحاب رسول(ص) جو ناصح وخیر خواہ اور ان کے غلط رویے پر معترض تھے ان کے حکم سے اس قدر مارے پیٹے گئے کہ اکثر انہیں چوٹوں کے اثر سے مرگئے اور جو زندہ رہے وہ علیل و ناتوان ہوگئے۔

منجملہ ان کے عبداللہ ابن مسعود تھے جو حافظ و قاری ، محافظ بیت المال، کاتب قرآن اور رسول خدا(ص) کے خاص صحابی تھے یہاں تک کہ ابوبکر و عمر کے نزدیک بھی قابل احترام اور ان کے مشیر کار تھے۔

خصوصیت سے ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ خلیفہ ثانی عمر اپنے زمانہ خلافت میں کوشش کرتے تھے کہ عبداللہ ان سے جدا نہ ہوں اس لیے کہ یہ قرآن اور احکام دین سے پوری واقفیت رکھتے تھے اور رسول اللہ(ص) نے ان کی بہت تعریف فرمائی تھی چنانچہ ابن ابی الحدید اور دوسروں نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

ابن مسعود کی زد و کوب اور ان کی موت

آپ کے علماء و مورخین نے بالعموم لکھا ہے کہ جب عثمان نے قرآن کو جمع کرنا چاہا تو کاتبوں سے تمام نسخے حاصل

۲۵۹

کئے من جملہ ان کے عبداللہ ابن مسعود سے بھی جو کاتبین وحی میں سے اور رسول خدا(ص) کے معتمد علیہ تھے ان کا قرآن طلب کیا لیکن انہوں نے نہیں دیا عثمان خود ان کے گھر پر گئے اور زبردستی ان سے قرآن وصول کیا۔ جس وقت عبداللہ نے سنا کہ دوسرے قرآنیوں کی طرح ان کا قرآن بھی جلا دیا گیا تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ چنانچہ مجالس و محافل میں جو حدیثیں ان کو قدح عثمان میں یاد تھیں بیان کرتے تھے اصلیت سے پردے اٹھاتے تھے اور ارشارات سے لوگوں کو حقائق سمجھاتے تھے، جب یہ خبریں عثمان کو پہنچیں تو ان کے حکم سے غلاموں نے جاکر عبداللہ کو اس قدر مارا کہ ضربات کی شدت سے ان کے دانت ٹوٹ گئے اور وہ بستر سے لگے گئے یہاں تک کہ تین دن کے بعد دنیا سے چل بسے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ( مطبوعہ مصر) ص67 و ص426 ضمن طعن ششم میں ان واقعات کو تفصیل سے لکھا ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں عثمان عبداللہ کی عیادت کو گئے اور دونوں میں کافی بات چیت ہوئی تا اینکہ عثمان نے کہا: " استغفرلي ياأباعبدالرحمن قال أسأل الله أني أخذلي منك حقي. "( یعنی اے عبدالرحمن ( کنیت عبداللہ ابن مسعود) میرے لیے استغفار کرو۔ عبداللہ نے کہا کہ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ تم سے میرا حق وصول کرے( یعنی میں ہرگز تم سے راضی نہ ہوں گا۔)

نیز نقل کیا ہے کہ جس وقت ابوذر کو ربذہ کی طرف جلا وطن کیا گیا تو ان کی مشایعت کے جرم میں عبداللہ کے جسم پر چالیس تازیانے لگائے لہذا عبداللہ نے عمار یاسر کو وصیت کی کہ عثمان کو میرے جنازے پر نماز نہ پڑھنے دینا، عمار نے بھی اس کو منطور کیا اور عبداللہ کی وفات کے بعد اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ ان کے جنازے پر نماز پڑھ کے دفن کیا۔

جس وقت عثمان کو اس کی اطلاع دی گئی تو عبداللہ کی قبر پر آئے اور عمار سے کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا میں ان کی وصیت سے مجبور تھا ( عمار کا یہی عمل اس کینے کا سبب ہوا جو بعد کو ان کے ساتھ برتا گیا۔)

واقعا خلیفہ عثمان کے حرکات جیسا کہ آپ کے اکابر علماء و مورخین نے لکھا ہے حیرت انگیز ہیں، خصوصا وہ برتاوے جو وہ رسول اللہ(ص) کے خاص اور پاکباز صحابہ کے ساتھ عمل میں لاتے تھے کیونکہ ابوبکر اور عمر نے بھی ہرگز ایسے کام نہیں کئے بلکہ وہ عثمان کے طریقے کے خلاف اصحاب رسول(ص) کا پورا احترام کرتے تھے۔

عثمان کے حکم سے عمار کی زد و کوب

عثمان کے جو اعمال ان کی رحم دلی پر دلالت کرتے ہیں ان میں سے پیغمبر(ص) کے خاص صحابی جناب عمار یاسر کی توہین اور زد و کوب بھی ہے۔ چنانچہ فریقین کے علماء و مورخین نے لکھا ہے کہ جب بلاد اسلام میں عمال بنی امیہ کا ظلم و تعدی بہت بڑھ گیا تو اصحاب رسول(ص) نے جمع ہو کر عثمان کو ایک خط لکھا جس میں ان کے مظالم یاد دلائے اور مشفقانہ نصیحتیں گوش گذار کیں کہ اگر آپ ظالم اموی عمال کے رویے کی پیروی اور حمایت کرتے رہئے گا اور نیز اپنے مصاحبین کے طور طریقے پر نظر ثانی نہ

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369