پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور21%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310337 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تھا ممکن ہے کہ وہ پہلے امیرالمومنین ؑ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہوں،اس امید پر کہ شاید اس کے بدلے میں امیرالمومنین ؑ انہیں معاف کردیں لیکن سابقہ روایت میں گذرچکا(کہ امیرالمومنین ؑ نے معاف کرنے کی ٹیڑھی شرط رکھ دی)تو جب عمر امیرالمومنین ؑ سے مایوس ہوگئے تو ان کے دل میں بدخیالی آئی(اور وہ جنت کے خواب دیکھنے لگے)انہوں نے امیرالمومنین ؑ کو اس جماعت میں قرار دیا جو دنیا کے بندے تھے اور خدا پر جسارت کرنےوالے تھے پھر ایسی کہ امیرالمومنین ؑ کی خلافت کے ہر راستے کو مسدود کردیا گیا اور کچھ ایسی تدبیر کی خلافت پھر عثمان ہی کے خاندان میں رہے اس خاندان میں جو حکومت کے لئےکچھ بھی کرسکتا تھا اور دنیا حاصل کرنے ے لئے کسی گناہ سے پرہیز نہیں کرتا تھا عمر کی تدبیر کا یہ منشا بھی یہی تھا کہ خلافت مولا علی ؑ اور آپ ک اہل بیت ؑ تک کبھی پہنچ ہی نہ سکے ۔

عمر نے یہ حرکت یا تو عثمان کی محبت میں کی تھی یا امیرالمومنین علیہ السلام کے اعراض کرنے کے لئے کہ ان کے دل میں آپ کی طرف سے بہت پرانا کینہ تھا یا اس لئے کہ آپ نے انہیں معاف نہیں کیا تھا یا اس لئے کہ وہ ڈ ر رہے تھے کہ حکومت اگر علی ؑ اور ان کے اہلبیت ؑ تک پہنچ گئی تو ان کی حقیقت کھل کر سامنے آجائےگی اور ان کی ناانصافی جو انہوں نے اہلبیت ؑ کے ساتھ کی تھی تا کہ حکومت ان تک نہ پہنچے تو ظاہر ہوجائےگی اور لوگ اہل بیت ؑ کی بات سننے لگیں گے ۔

بہرحال جو بھی ہو یہ روایت سچی ہو یا جھوٹی ایک بات تو سمجھ میں آرہی ہے کہ امیرالمومنین ؑ کو اہمیت دیکے خلافت کے معاملات سے خودبخود پردہ اٹھایا جارہا ہے اور یہ کہ لوگوں کے سامنے حکم الٰہی بالکل ظاہر تھا(اور سب لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مولا علی ؑ خلافت کے مستحق ہیں)اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں اور یہی باتیں امیرالمومنین ؑ کے لئے قوی تر مانع ہیں جو آپ کو اور اہل بیت ؑ کو غیروں کی خلافت کے اقرار سے روکتی ہیں اور خلیفہ غاصب کی شرعیت سے انکار کرتی ہیں کاش کہ انہیں اقرار کا حق ملا ہوتا ۔

۱۲۱

اسلام کی اعلی ظرفی اجازت نہیں دیتی کہ شریعت الٰہیہ کی پیروی قہر و غلبہ اور بزور کروائی جائے

ثانیاً ۔ اسلام کی اعلیٰ مزاجی اس کے پیغام کی بلندی اور مثالی تعلیمات اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ شریع الٰہیہ کی پیروی قوت کے ذریعہ کرائی جائے اور نہ اس کی اجازت دیتی ہے کہ حقدار اپنا حق زبردستی حاصل کرے جب کہ شریعت اسلامی میں خلافت الٰہیہ کا مقام بہت بلند اور بےپناہ قدامت و عظمت کا حامل ہے بخصوص قہر و غلبہ اور زور و زبردستی کی بدولت اپنے حق پر تسلط،حسد و غیرہ کی طرح نفسانی خواہشات کی پیروی اور پسندیدہ صفات اخلاقی کے منافی ہے جس کا تذکرہ دوسرے سوال کے جواب میں بھی کچھ حد تک کیا جاچکا ہے ۔

(اسلام کے بارے میں تو کم از کم یہ بات نہیں کہی جاسکتی)البتہ اسلام ہی کے معاصر اس وقت عرب میں دودین تھے یہودی اور نصرانی،ان کے بیان کے مطابق شریعت مقدسہ کی پابندی قہر و غلبہ کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور دینی مناصب قوت کے ذریعہ حاصل کرنا جائز ہے لیکن یہ جواز بھی ان خرافاتی قصّوں کی بنیاد پر تھا جنہیں دین میں تحریف و تاویل کرکے بنایا گیا تھا اور انھیں باتوں کو وہ دونوں قومیں دین سمجھتی تھیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ہی دین چونکہ آسمانی تھے اس لئے حقیقت میں ان فضول باتوں سے پاک تھے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دین اسلام جیسا عظیم دین جو تمام ادیان کا خاتم ہے اور اپنی تشریع میں مثالیت اور ہر کمال کا جامع ہےس کے اندر یہ غلط بات جائز ہوجائے ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ طے ہوگیا کہ ائمہ اہل بیت ؑ ہی امامت کے حق دار ہیں اور ان کے حق پر خدا کی طرف سے نص ہے جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں تو پھر ان حضرات کی طرف سے دونوں خلیفہ کی خلافت کے اقرار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور شریعت کی جانب داری کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے اس لئے کہ یہ دونوں باتیں نص الٰہی کے منافی ہیں اور دونوں ہی باتیں اسلامی شریعت کے تقدس اور اس کی اعلی ظرفی اور مثالی کردار کو نقصان پہنچاتی ہیں ۔

۱۲۲

خلیفہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امت کے کاروبار کو چلانے کے لئے اپنا نائب بنائے

ہاں خلیفہ شرعی کو اس بات کا حق حاصل ہے یہ کہ وہ امت کے امور کی دیکھ ریکھ کے لئے خاص خاص شہروں میں یا خاص حالات کے تحت کسی کو اپنا نائب بنادے اسی طرح کہ یہ شخص اس کا نائب ہو اس کی زیرنگرانی ہو اور اس کا ماتحت ہو،لیکن خلیفہ وہی(مصوص من اللہ)رہےگا،یہ نیابت خلافت کا بدل ہرگز نہیں ہوگی کہ خلیفہ اس کے حق میں دست بردار ہوگیا ہو یا اس کو ہبہ کردیا ہو یا اس کے ہاتھوں خلافت کو بیج دیا ہو ۔

سب کو معلوم ہے کہ مذکورہ بالا معنی میں نیابت ان دونوں خلفا کو بہرحال حاصل نہیں تھی نہ کسی دوسرے خلیفہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی وہ لوگ تو بس خود ہی حکومت کے ولی بن بیٹھے تھے خود کو حاکم اور خلیفہ اور ائمہ اہل بیت ؑ کو اپنی رعایا اور محکوم سمجھتے تھے ۔

شیعہ اچھی طرح اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اہل بیت ؑ اپنے حق سے دست بردا رنہیں ہوئے

شیعوں کو اس بات کی کامل بصیرت ہے کہ ائمہ اہل بیت ؑ اپنے حق سے دست بردار نہٰں ہوئے تھے بلکہ ان حضرات نے ہر دور میں اس بات کی شکایت کی ہے کہ ان کا حق غصب کرلیا گیا ہے اور ان پر ظلم کیا گیا ہے،ہر عہد میں وہ ظالموں کا انکار کرتے رہے،ان سے اظہار برائت کرتے رہے اور ان کی مخالفت میں بولتے رہے وہ لوگ اس اظہار برائت اور انکار کو دین واجب التُّمسُّک کا تتمّہ مانتے تھے اور نجات کو اس پر موقوف سمجھتے تھے اس بات کی تائید میں شیعوں نے اپنے اماموں سے بیشمار حدیثیں روایت کی ہیں جو استفاضہ کی حد اور تواتر کے مرتبے کو پہنچی ہوئی ہیں،نتیجے میں صورت

۱۲۳

حال یہ ہوگئی کہ یہ عقیدہ ان کے ضروریات دین میں شامل ہوگیا وہ اس میں نہ اختلاف کرتے ہیں نہ ہی اس عقیدے کو چھوڑنے پر تیار ہیں ۔

یہ دعویٰ کرنا کہ شیعہ اپنے اماموں کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں کہاںتک حقیقت پر مبنی ہے؟

ہوسکتا ہے کہ کوئی یہ دعویٰ کرے کہ شیعہ اپنے اماموں کی طرف جھوٹے افعال کی نسبت دیتے ہیں اس معاملے میں شیعہ خطاکار ہیں اور اماموں پر بہتان باندھتے ہیں یہ دعویٰ خاص طور سے ان لوگوں کا ہے جو شیعیت کے چہرے کو مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کے اوپر بڑے بڑے گناہوں کی تہمت رکھتے ہیں لگتا ہے وہ لوگ دین اور حق کو پہچانتے ہی نہیں اور انہوں نے اپنے دینی عقیدے اور مسلک کی بنیاد محض افترا پردازی،گمراہی،بدعت اور خرافات پر رکھی ہے ۔

مذکورہ دعوی کی تردید اور شیعوں کی صداقت کے شواہد

حقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ دعویٰ اس لئے ہے کہ شیعہ حق پر ہیں اور ان کی دلیلوں کی کوئی کاٹ دشمن کے پاس موجود نہیں ہے شیعوں نے اپنی دلیلوں کو ڈ ھال بناکے ان دشمنوں کی خُصومت برداشت کی اور ان کے تمام راستے بند کردیئے،مجبور ہو کے دشمنوں نے ہٹ دھرمی اور بہتان کا سہارا لیا تا کہ شیعوں کے لئے نفرت پیدا کرسکیں اور اتنی نفرت پیدا کردیں کہ ان کا دعویٰ اور ان کی دلیلوں کی طرف کوئی توجہ ہی نہ دے ورنہ اگر ذوق جستجو رکھنےوالا انسان اپنے مسلمات و جذبات سے الگ ہو کے از نگاہ انصاف دیکھے اور دلائل و شواہد کا مطالعہ کرے تو شیعوں کی صداقت اس پر مشکوک نہیں رہےگی وہ سمجھ لےگا کہ شیعوں نے اپنے

۱۲۴

اماموں کی طرف کوئی جھوٹ نہیں منسوب کیا ہے اس لئے کہ شیعہ اماموں سے بہت محبت رکھتے ہیں بڑی عقیدت رکھتے ہیں ان کی سیرت کو مقام استدلال میں پیش کرتے ہیں اور ان کی سیرت سے سبق لےکے اسی پر زندگی گذراتے ہیں ۔

جھوٹ بولنے کی کوئی وجہ نہیں ہے جب کہ شیعہ انھیں عقیدوں کی وجہ سے ہمیشہ بلاؤں کا سامنا کرتے رہے

1 ۔ اگر یہ باتیں ان کے اماموں سے صادر نہیں ہوتیں تو شیعہ ان باتوں کو محض افترا کے طور پر ان کی طرف منسوب نہیں کرتے،نہ انھیں دین سمجھ کے مانتے،نہ ان پر اپنے عقائد کی بنیاد رکھتے اس لئے کہ محض جھوٹ اور افترا کے لئے بلائیں جھیلنے اور مصیبتیں اٹھانے پر کوئی تیار نہیں ہوتا ہے،شیعہ صرف انہیں عقائد کی وجہ سے شروع ہی سے دنیا بھر کی سختیاں جھیلتے رہے اور مصیبتیں اٹھاتے رہے ہیں ۔

پھر یہ سوچیئے کہ عقائد اور معلومات میں غلطی کب ہوتی ہے جب انسان مرکز سے دور ہو مثلاً انبیائے کرام ؐ کے بارے میں یا ان کی تعلیمات کے بارے میں غلطی کا امکان اس لئے ہے کہ انبیاء ؐ اور امت کے درمیان ہزاروں صدیوں کے پردے حائل ہیں صاحب دعوت اور مبشرین اور ان کی سیرت کے ناقلین کے درمیان ایک بُعد زمانی پایا جاتا ہے،لیکن شیعہ اور سنیوں کے اماموں کے درمیان اس بُعد زمانی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لئے کہ یہ عقائد تو شیعوں کے یہاں امیرالمومنین علی علیہ السلام کے دور ہی میں جانے پہچانے جاچکے تھے جیسا کہ ابھی پیش کئے جائیں گے ان عقیدوں کی مزید وضاحت شہادت حسین ؑ کے بعد ہوگئی اس لئے کہ ہمارے اماموں نے یہ سمجھ لیا کہ ابھی ہمیں سلطنت کا مطالبہ نہیں کرنا ہے اور مستقبل قریب میں حکومت ہمیں نہیں ملنےوالی ہے تو آپ حضرات نے شیعہ ثقافت کی تہذیب و تربیت پر بھرپور توجہ دی اور اپنے علوم و معارف کو شیعوں کے درمیان پھیلانا شروع کیا تا کہ شیعوں کا ایک ماحول اور شیعہ طرز زندگی کا ایک خاکہ لوگوں کے سامنے آجائے شیعہ عقائد

۱۲۵

ایسے دور میں سامنے آرہے تھے جس وقت شیعہ اپنے اماموں کے ساتھ رہ رہے تھے انہیں یکے بعد دیگر اپنے ائمہ ؑ سے دوسو سال تک اختصاص حاصل رہا بلکہ غیبت صغریٰ کے زمانے کو بھی اس سے ملا لیا جائے تو یہ مدت اور بڑھ جاتی ہے جس میں شیعہ اپنے اماموں کے ساتھ وقت گذارتے رہے اور بلاواسطہ ان سے مستفید ہوت رہے پھر ملاوٹ کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،میں نے غیبت صغریٰ سے نواب اربعہ کے توسط سے بہرحال لگاؤ بنا ہوا تھا دوسوستر( 270) سال تک شیعہ اپنے اماموں سے ملتے جلتے رہے پھر ممکن نہیں ہے کہ ہر امام کی کوئی رائے یا کوئی نظریہ ان کے شیعوں سے پوشیدہ رہا یا کوئی اختلاف پیدا ہوا ہو ۔

اگر شیعہ مفتری ہوتے تو ان کے امام ان سے الگ ہوجاتے

اگر شیعوں کے پاس ان کے معصوم اماموں کا بنایا ہوا مذہب نہ ہوتا بلکہ ان کا خود ساختہ مذہب ہوتا تو اماموں پر واجب تھا کہ وہ شیعوں کا انکار کردیتے اور اگر شیعہ اپنے افترا اور بہتان پر اصرار کررہے ہوتے تو معصوم امام پر واجب تھا کہ وہ شیعوں کو چھوڑ دیتے انھیں خود سے دور کردیتے ان سے الگ ہوجاتے اور ان کے ساتھ مل جل کے ہرگز نہ رہتے جب کہ غلط کاروں کے ساتھ انہوں نے ایسا ہی سلوک کیا،مثلاً امیرالمومنین علیہ السلام نے انھیں چھوڑ دیا جو آپ کی ذات میں غلو کرتے تھے،امام صادق علیہ السلام ابوالخطاب اور اس کی جماعت سے الگ ہوگئے بعد کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام نے بھی ان لوگوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جو اماموں کے طریقوں سے الگ ہو کے اپنا راستہ بنارہے تھے اور معصوموں کی ذات کو ملوث کررہے تھے لیکن شیعوں کے ساتھ ان حضرات کا لگاؤ ہمیشہ بنارہا،آپ حضرات اپنے شیعوں کے ماحول میں پائے جاتے تھے شیعہ فرقہ ان سے طاقت حاصل کرتا رہا،ان کی محبت شیعوں کی پہیچان بن گئی،شیعہ انھیں کی طرف متوجہ رہے،ان کی خوشی میں خوش اور ان کے غم سے رنجیدہ،ان کی سیرت کے جویا اور ان کے طرز زندگی سے واقف ہونے کے لئے کوشاں،ان کے فقہ

۱۲۶

احادیث اور تعلیمات پر عمل پیراں رہے اور ان گرانقدر چیزوں کے اپنے مکتوبات اور کتابوں میں محافظ رہے،ان کی حدیث اور سیرت کا تذکرہ اپنی مجلسوں میں کرتے رہے،انہیں پر بھروسہ کرتے رہے اور ان کو اپنے لئے عزت کا سبب سمجھتے رہے بلکہ انھیں آثار و معالم کے ذریعہ دشمن پہ حملہ کرتے رہے۔

دنیا کا طریقہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے امام کی رائے اور خیالات کا علم اس امام کے اصحاب کے واسطے سے اور اس کے خاص لوگوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے پھر ائمہ اہل بیتؑ کے مذہب کا علم ان حضرات کے شیعوں کے واسطے سے کیوں نہیں ہوگا؟جب کہ یہ شیعہ ان حضرات کے آس پاس ہمیشہ موجود رہے،ان کے مخصوص افراد بنتے رہے اور ان کے افعال میں مدد کرتے رہے،یہ سلسلہ طویل مدت تک چلتا رہا اور سب کے سامنے یہ عمل ہوتا رہا جب کہ اس دور کے رئیسوں اور بادشاہوں سے شیعہ اتنے قریب نہیں تھے جتنا اپنے اماموں سے تھے۔

ائمہ اہل بیتؑ کی میراث کا تحفظ شیعوں ہی نے کیا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شیعہ ان حضرات سے مخصوص تھے

اس کے باوجود اگر کوئی ہٹ دھرم اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ شیعہ اہل بیت ؑ کے اماموں سے مخصوص نہیں تھے اور ان سے مذہبی معاملات میں ہدایتیں نہیں لیتے تھے اور یہ کہ شیعوں نے اہل بیت ؑ سے جھوٹی حدیثیں منسوب کی ہیں تو میں اس سے کہوں گا کہ پھر ان دعاؤں(1) اور زیارتوں(2) کا کیا کرو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)جیسے دعائے کمیل،صباح،عشرات،نیز وہ دعائیں جو حضرت امیرالمومنینؑ سے مروی ہیں اور عرفہ کے دن امام حسینؑ کی دعا،صحیفہ سجادیہ کی دعائیں،دعائے افتتاح،ابوحمزہ ثمالی جو رمضان میں پڑھی جاتی ہے نیز باقی ماہ رمضان کے روز و شب اور سحر کی دعائیں اور رجب و شعبان کی دعائیں،شب جمعہ کی دعائیں نیز اس کے علاوہ بےشمار دعائیں،مضامین عالیہ جو اللہ کی تمجید سے متعلق ہے اور اس کی تقدیس اور ثناء سے متعلق ہے۔

(2)جیسے حضرت امیرالمومنینؑ کی زیارت جو(امین اللہ)کے نام سے معروف ہے اور آپ کی باقی زیارتیں جو مختلف مناسبتوں سے پڑھی جاتی ہیں،زیارت وارثہ،نصب شعبان کی شب میں امام حسینؑ کے لئے نیز آپ کی باقی زیارتیں جو مختلف مناسبتوں سے پڑھی جاتی ہیں تمام ائمہؑ کے لئے زیارت جامعہ کبیرہ اور باقی معصومینؑ کی زیارتیں جو بلند و بالا مضامین کا دفتر ہے۔

۱۲۷

گے جو صرف شیعوں کے پاس ہیں اور ان کے اماموں سے مروی ہیں دعاؤں اور زیارتوں کی ایک بڑی مقدار ہے جو مختلف مواقع پر مختلف الفاظ میں ائمہ اہل بیت ؑ سے وارد ہوئی ہے وہ دعائیں اور زیارتیں حکمت،موعظہ،خطابت اور دوسرے مضامین عالیہ پر مشتمل ہیں جن کو پڑھ کے پتہ چلتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ودیعت کردہ ہیں جو ائمہ اہل بیت ؑ کو حاصل تھیں اور علم الٰہی کے یہ خزانے صرف شیعوں کے پاس ہیں جو شیعوں کو دوسرے فرقوں سے ممتاز کرتے ہیں اس لئے کہ ان دعاؤں اور زیارتوں کی زبان اور ان کے مضامین پکار پکار کے کہہ رہے ہیں کہ یہ مضامین صرف وہی وارد کرسکتا ہے جس کو ادھر سے علم ملا ہے اور یہ دوسروں کے بس کا روگ نہیں ہے ۔ نگاہ انصاف سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکلےگا کہ ائمہ اہل بیت ؑ نے شیعوں کو جو دعائیں ودیعت کیں یا جو زیارتیں وارد فرمائیں اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ شیعہ ان سے مخصوص تھے شیعوں نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دینا ضروری سمجھا اور شیعہ ان کی رضا کے طالب اور ان کے پسندیدہ افراد تھے ۔

ورنہ یہ دعائیں اور زیارتیں سینوں کے پاس کیوں نہیں ہیں؟انہوں نے کیوں نہیں نقل کیا یا اگر نقل کیا تھا تو کیوں نہیں حفاظت سے رکھا اور اس کےحق کی رعایت کیوں نہیں کی؟(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)ہمعصر دینی مرجع سید شہاب الدین مرعشیؒ صحیفہ سجادیہ کے مقدمہ میں اپنی استدراک جو1361سنہ میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے اور ہم1353سنہگذار رہے ہیں میں نے اس کا ایک نسخہ علامہ معاصر شیخ جوہری طنطاوی کی خدمت میں ارسال کیا جو صاحب التفسیر بھی ہیں جس کی شہرت مفتی اسکندریہ کے نام سے ہوئی ہے تا کہ وہ مطالعہ کریں پھر انھوں نے صحیفہ پہنچنے کی قاہرہ سے مجھے اطلاع دی اور میرا اس گرانقدر ہدیہ پر شکریہ ادا کیا اور اس کی مدح و ثنا میں رطب اللسان ہوگئے یہاں تک کہ آپ نے کہا:اس وقت ہماری بدبختی یہ ہے کہ ہم اس اثر جاوید تک رسائی نہیں رکھتے جو نبوت اور اہل بیتؑ کی میراث کا ایک جزء ہے اور میں نے جتنا غور و خوض کیا اسے مخلوق کے کلام سے بالا اور خالق کے کلام کے بعد ہی پایا،پھر مجھے سے اس کے بارے میں سوال کیا کہ آیا علماء اسلام میں سے کسی نے اس کی شرح کی ہے پھر میں نے شارحین کے اسماء درج کئے جسے میں بھی جانتا تھا پھر میں نے ریاض السالکین سید علی خان کی خدمت پیش کیا تو انھوں نے بھی اس کے پہنچنے کی خبر دی،اور لکھا کہ میں عزم مصمم رکھتا ہوں کہ اس گرانقدر صحیفہ کی شرح کروں،اگر شیخ جوہری طنطاوی اپنی کثیر معلومات اور کثیر اطلاع کے باوجود اس صحیفہ سجادیہ سے بےخبر رہے جب کہ اس کی شہرت اور اس کا چرچا،مکتب خیال کے الگ ہونے کے باوجود شیعوں کے درمیان تھی تو پھر جو کم اطلاع رکھتے ہیں ان کے لئے کیسے ممکن ہے پھر ان کا کیا حال ہوگا جو صحیفہ سجادیہ سے کم رتبہ اور اہمیت کتاب رکھتے ہوں گے۔

۱۲۸

یہ بات ماننی پڑےگی کہ جس طرح قرآن مجید صداقت نبوت کی گواہی دیتا ہے اسی طرح یہ اور وضائف اس بات کی گوہی دیتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت ؑ کو یہ نبی ؐ کی طرف سے میراث میں ملے ہیں اور شیعوں کو یہ علم ائمہ اہل بیت ؑ کی طرف سے درحقیقت نبی ؐ کی ہدایت سے ملا ہے ۔ ائمہ اہل بیت ؑ کی واردہ کردہ دعاؤں اور زیارتوں کو دیکھئے پھر غور کیجئے کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی عظیم المرتبہ دعائیں اور اتنی معنی خیز زیارتیں شیعہ یا کوئی انسان اپنی طرف سے بنالے اور پھر اس کو اہل بیت ؑ کی طرف منسوب کردے،عادۃً یہ مشکل ہے کہ اتنے بڑے مجموعہ کی بنیاد کذب اور بہتان پر ہو اور ان ارشادت کو وارد کرنےوالا کوئی نہ ہو جو ان کو حق پر جمع کرسکے بلکہ حق تو یہ ہے کہ عادۃً یہ مشکل ہے کہ اتنے بڑے مجموعہ کی بنیاد کذب اور بہتان پر ہو اور ان ارشادت کو وارد کرنےوالا کوئی نہ ہو جو ان کو حق پر جمع کرسکے بلکہ حق تو یہ ہے کہ عادۃً ان دعاؤں کا صدور ائمہ اہل بیت ؑ کے علاوہ کسی سے بھی ناممکن ہے اس لئے کہ اہل بیت ؑ نبی کریم ؐ کے وارث ہیں اور انھوں نے سرکار سے علم لیا ہے جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اہل بیت ؑ اطہار گفتگو کے بادشاہ تھے(1) اور انہیں کے پاس حکمت اور فصل خطاب تھا ۔(2) ایک طرف تو یہ علمی ذخیرہ شیعوں کی صداقت کا گواہ ہے اس لئے کہ شیعہ اس خزانے کے تنہا وارث ہیں اس خزانے کی معرفت شیعوں کو ہے اور اسی خزانے کی وجہ سے وہ عالم اسلام میں قابل عزت ہیں دوسری طرف یہ علمی خزانہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ شیعوں اپنے اماموں کی طرف جو نسبت دی ہے وہ سب کی سب صحیح ہے اور شیعہ اپنے اماموں سے مخصوص ہیں ان کی ہدایتوں پر عمل کرتے ہیں،ان کے علوم و معارف کے حامل ہیں اور اماموں کی خاص عنایت کے مستحق ہیں شیعوں کو ان کے اماموں نے اپنے مقدس مبارک اور شریف علوم سے فیضیاب کیا ہے ۔

شیعوں کے کردار میں اماموں کے اخلاق کی جھلک

خیال وہ ہے جو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کے مقدمہ میں امیرالمومنینؑ کی سوانح حیات میں لکھا ہے،وہ لکھتے ہیں جہاں تک وسعت اخلاق خندہ پیشانی،زندہ دلی،اور تبسم کا سوال ہے تو مولائے کائنات کی ان صفات میں مثال دی جاتی ہے یہاں تک کہ آپ کے دشمن ان صفات حسنہ کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:2ص:266 (2)بحارالانوارج:9ص:209،ج:28ص:53

۱۲۹

عیب کہہ کے پیش کرتے تھے،عمروعاص نے اہل شما سے کہا علی ؑ بہت زیادہ پر مذاق آدمی ہیں(ہنسنے ہنسانےوالا)حلانکہ عمروعاص کا یہ جملہ بھی اس کا نہیں ہے بلکہ اس کا نہیں ہے بلکہ اس نے یہ جملہ عمر بن خطاب سے لیا ہے،جب عمر نے مولا علی ؑ کو خلیفہ بنانے کا ارادہ کیا تھا تو یہ کہا تھا کہ خدا تمہارے باپ کو بخشے اگر تم پر مذاق نہ ہوتے تو عمر تم ہی پر اقتصار کرتا عمروعاص نے اس میں کچھ اضافہ کیا ہے اور مقام مذمت میں وارد کیا ہے صعصعہ ابن صوحان اور آپ کے دوسرے شیعہ اور اصحاب آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ ؑ ہمارے درمیان ہم ہی جیسے بن کے رہتے تھے،نرم دل منکسر مزاج اور سہل القیادۃ تھے،پھر بھی ہم پر آپ کی ہیبت اس طرح طاری رہتی تھی جیسے ایک قطار میں بندھے ہوئے قیدیوں پر ان کے سامنے کوئی تلوار لےکے کھڑا ہو ۔

یہ اخلاق حسنہ آپ کے اولیا اور آپ کے چاہنےوالوں میں میراث کے طور پر منتقل ہوئے اور اب تک ان کے اندر باقی ہیں جس طرح آپ کے دشمنوں کو جفا بدروی اور بداخلاقی ان کے بزرگوں سے میراث میں ملی ہے اور اب تک باقی ہے جو اخلاقیات میں سطحی نظر بھی رکھتا ہے وہ اس فرق کو ضرر محسوس کرلےگا ۔(1)

ظاہر ہے کہ جب ائمہ اہل بیت ؑ کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ وہ اپنے شیعوں کو اپنے اخلاق و کردار کے سانچے میں ڈ ھال سکتے تھے اور ان کے اندر اپنے اخلاق عالیہ کو منتقل کرسکتے تھے جیسے نرم دلی،وسعت اخلاق و غیرہ تو پھر ان کے اندر یہ صلاحیت بھی ماننی پڑےگی کہ وہ شیعوں کو امامت و خلافت کے بارے میں اپنے مذہب سے باخبر رکھتے اور انہیں حکم دیتے کہ وہ امامت کے معاملے میں ان کے مذہب کی پیروی کریں اور چونکہ شیعہ ذاتی طور پر ان حضرات سے متاثر تھے اور اخلاق میں ان کے نقش قدم پر چلتے تھے تو وہ بہرحال عقیدہ امامت و خلافت میں بھی ان کی پیروی کرتے تھے اور ان کے مزہب سے الگ نہیں تھے اس لئے کہ یہ تو ایک علمی مسئلہ تھا اور اس کا جان لینا اور مان لینا تو اخلاق و سیرت کی عملی پیروی سے زیادہ آسان ہے شیعہ ایک زمانے سے سنی بھائیوں کی بےرحمی ظلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:25۔26،علیؑ کے ایک قول اور ان کے فضائل کا ذکر۔

۱۳۰

اور زیادتی جھیلتے چلے آرہے ہیں اس کے باوجود ان کے اندر اخلاقی وسعت طبیعت کی نرمی اور خوش خلقی پائی جاتی ہے ورنہ حالات کا تو تقاضا یہ تھا کہ وہ سنیوں کو اپنا دشمن سمجھ لیتے ان کی طرف سے دل میں کینہ رکھتے اور ان سے بداخلاقی سے پیش آتے یہ صرف ائمہ اہل بیت ؑ کی سیرت کا اثر ہے کہ شیعہ دشمنی کینہ اور حسد جھیل رہے ہیں لیکن اپنے اماموں کی سیرت چھوڑنے پر تیار نہیں ۔

اہل سنت کی ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے کنارہ کشی

حالات کا نگاہ انصاف سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلےگا کہ جمہور اہل سنت نے اپنے عقائد و ثقافت میں ائمہ اہل بیت ؑ سے کچھ نہیں لیا ہے اور ہمیشہ ان حضرات کو معزول سمجھا ہے،ہر دور میں سنی سماج چاہے عوام ہوں یا خواص،چاہے فقہا ہوں یا روات،سب کے سب اہل بیت سے ہمیشہ الگ رہے خاص طور سے متاخر،ائمہ ؑ کو سنیوں نے بالکل ہی نظرانداز کردیا جن کے دور میں شیعہ امامیہ کے عقائد اور معالم نکھر کر سامنے آئے اور شیعوں کو ایک مستقل اور ممتاز حیثیت ملی حالانکہ سنی حضرات اس تاریخی حقیقت سے انکار کی کوشش کرتے بہرحال اہل بیت ؑ کا احترام تو وہ بھی کرتے ہیں لیکن ان کا یہ انکار قابل قبول نہیں ہے اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اصول دین میں یہ لوگ اشاعرہ،ماتریدی اور معتزلی فرقہ کی پیروی کرتے ہیں،جب کہ فروع میں مذہب اربعہ میں سے کسی ایک مذہب پر عمل کرتے ہیں وہ اپنے عقائد و فقہ میں سے کسی بات کو ائمہ اہل بیت ؑ کی طرف منسوب نہیں کرتے حلانکہ اہل بیت ؑ کی طرف سے فقہ و اصول اور اقوال جو بھی وارد ہوئے ہیں ان میں سے اکثر مذکورہ بالا فرقوں کے نظریہ سے بالکل ہی الگ ہیں ائمہ اہل بیت ؑ کی باتوں پر صرف ائمہ اہل بیت ؑ کے شیعہ عامل ہیں،سنی ان کو سرے سے نہیں مانتے ۔

شیعیان اہل بیت ع اور دشمنان اہل بیت ع کے بارے میں سنیوں کا نظریہ

جمہور اہل سنت کے ان لوگوں سے خوب دوستی کرتے ہیں جنہوں نے اہل بیت ع سے جنگ کی یا ان کو برا بھلا کہا ایسے افراد کا یہ لوگ بہت احترام کرتے ہیں ، ان کی غلط حرکتوں سے تجاہل برتتے ہوئے انہیں کی

۱۳۱

روایتوں سے احتجاج کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی غلطیوں کی یا تو توجیہ کریں یا ان کی صفائی پیش کرکے ان کی طرف سے معذرت کرلیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اہل بیت ؑ کے شیعہ ایسے لوگوں سے ہمیشہ الگ رہے اور شروع ہی سے ان کی سخت مخالفت کی اور کڑا رویہ اپنایا(لیکن دشمنان اہل بیت ؑ کی حمایت)یہ حضرات صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے کبھی اہل بیت ؑ کی پیروی نہیں کی ان سے کوئی سروکار نہیں رکھا اور اہل بیت ؑ کے نقش قدم پر اس طرح نہیں چلے جس طرح وہ اوّلین یعنی عمر،ابوبکر کے نقش قدم پر چلتے آئے اور انہوں نے اہل بیت ؑ سے ویسی محبت بھی کبھی نہیں کی جیسی ان دونوں سے وہ محبت کرتے رہے ہیں بلکہ بعض مقامات پر تو اہل سنت کے خواص و عوام کے دل میں اہل بیت ؑ کی طرف سے جو کینہ ہے وہ ان کی تحریروں میں ظاہر بھی ہوگیا ہے،افسوس کی بات یہ ہے کہ جوش و جذبہ کے عالم میں انہوں نے اپنے دل کے حالات کھول کے بیان کردئے اور چھپانے کی کوشش کی مگر چھپا نہیں سکے ۔

ائمہ اہل بیت ؑ کے بارے میں علما اہل سنت کے کچھ نظریے

1 ۔ علامہ ذہبی سُنّی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں،ابوجعفر محمد بن علی امام بھی تھے اور مجتہد بھی یعنی کتاب خدا کی تلاوت کرنےوالے،شان میں بڑے تھے،لیکن علم قرآن میں ان کا درجہ ابن کثیر اور ان کے جیسے علما تک نہیں پہنچتا تھا،فقہ میں وہ ابوزنا اور ربیعہ سے کم تھے اور سنت نبوی کی معرفت اور اس کا تحفظ ابن شہاب اور قتادہ سے کم درجہ پر تھا ۔(1)

افسوس!ذرا دنیا کی زبوں حالی اور پستی دیکھئے یہ لوگ کس سے مقابلہ کررہے ہیں حد ہوگئی کہ ایسے(نچلے طبقے کے)لوگ محمد باقر علیہ السلام سے افضل بتائے جارہے ہیں حالانکہ امام محمد باقر ؑ کے لئے آپ کے جد کی سیرت میں نمونہ عمل ہے امیرالمومنین ؑ فرمایا کرتے تھے کہ((میری ذات اوّل ہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سیرہ اعلام النبلاءج:4ص:402ترجمہ ابی جعفر باقر

۱۳۲

کے مقابلے میں مقام شک میں کب تھی کہ مجھے ایسے لوگوں کا مقارن بنایا جارہا ہے ۔(1)

2 ۔ اور سنیوں کے امام الحدیث بخاری،انہوں نے کبھی امام جعفر صادق علیہ السلام کی کسی حدیث سے احتجاج نہیں کیا اپنی صحیح میں آپ سے کوئی روایت بھی نہیں لی(2) حالانکہ مروان بن حکم(3) ( ملعون پیغمبر ؐ )اور عمران بن حطان(4) خارجی(جس نے مولیٰ امیرالمومنین علی ؑ کے قاتل ابن مجلم کی بڑی تعریف کی ہے اور ابن ملجم کو متقی پرہیزگار اور عنداللہ ماجور قرار دیا ہے)تک سے روایتیں لی ہیں ۔

امام بخاری کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن اسود نے ان سے یحییٰ بن سعید نے کہا کہ:اگر جعفر ابن محمد کا معاملہ یہ ہے کہ اگر تم ان سے معافی مانگوگے تو وہ کوئی ہرج نہیں محسوس کریں گےاور اگر تم ان پر محمول کروگے تو وہ خود پر محمول کرلیں گے ۔(5)

3 ۔ یحییٰ بن سعید کہتا ہے کہ جعفر ابن محمد نے مجھے ایک لمبی حدیث لکھوائی وہ حدیث حج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:1ص:35

(2)تذکرۃ الحفاظ،ج:1ص:167،امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات کے ضمن میں،سیر اعلام النبلاءج:6ص:269

میزان الاعتدال،ج:2ص:144،امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات کے ضمن میں،المگنی فی الضعفاء،ص:134،تہذیب التہذیب ج:2ص:90امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات میں۔

(3)صحیح بخاری ج:1ص:265،کتاب صفۃ الصلاۃ،باب مغرب میں قرات کا بیان ج:2ص:567،کتاب الحج،حج تمتع افراد قرآن اور نسخ حج کے بیان میں اگر قربانی ہمراہ نہ ہو،ج:2ص:810،کتاب الوکالۃ باب اگر وکیل کو کوئی چیز ہبہ کردے یا قوم کے شفیع کو تو نبیؐ کے بقول جائز ہے جو آپ نے ہوازن گروہ کے جواب میں فرمایا تھا کہ انھوں غنیمتوں کے بارے میں سوال کیا تھا اس پر رسولؐ نے کہا میرا حصہ تمہارے لئے ہےج:3ص:1042،کتاب الجہاد و السیر،ج:3ص:1362،کتاب فضائل الصحابۃ،ج:4ص:1532،کتاب المغازی،غزوہ حدیبیہ کے باب میں ج:4ص:1677،کتاب التفسیر باب جنگ میں جانےوالوں راہ خدا میں جہاد کرنےوالوں کے برابر نہیں ہیں ج:5ص:2039،کتاب طلاق

(4)صحیح بخاری ج:5ص:کتاب اللباس ص:2194،ریشمی لباس کے باب ص:2220،باب نقص صور

(5)تاریخ کبیرج:2ص:198حالات جعفر بن محمد بن علیؑ

۱۳۳

کے بارے میں تھی لیکن ان کی لکھوائی ہوئی حدیث کے خلاف میرے دل میں پھانس ہے میرے نزدیک مجالدان سے زیادہ پیارا ہے ۔(1)

4 ۔ ابوحاتم محمد بن حبان تمیمی نے امام صادق علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ ان کا ان روایتوں سے احتجاج کیا جاسکتا ہے جو ان کی اولاد کے علاوہ لوگوں نے نقل کی ہیں،اس لئے کہ ان کی اولاد سے جو حدیثیں آئی ہیں ان میں تو بہت سے مناکیر(قابل انکار)باتیں ہیں،ہمارے اماموں میں سے جن لگوں نے ان کی اولاد کی حدیث دیکھی ہے وہی لوگ ان کے اقوال کو کمزور بتاتے ہیں(2)

حالانکہ آپ کی اولاد مسلمانوں میں سادات کا درجہ رکھتی ہے اور انہیں اولاد میں ائمہ اہل بیت ؑ بھی ہیں ۔

5 ۔ مصعب بن عبداللہ زبیری کہتے ہیں کہ مالک ابن انس جعفر بن محمد ؑ سے روایت لیتے تو تھے لیکن جب بلند مرتبہ راویوں کی حدیثیں لکھ لیتے تھے تو سب سے آخر میں امام جعفر صادق ؑ حدیث رکھتے تھے ۔(4)

6 ۔ احمد بن حنبل سے امام صادق علیہ السلام کے بارے میں پوچھا گیا تو کہنے لگے ان سے یحییٰ نے روایت کی ہے لیکن انہیں کمزور بتایا ہے ۔(5)

7 ۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں،امام صادق علیہ السلام قابل اعتبار تھے،صاحب عقل تھے صاحب حکمت،بڑے پرہیزگار اور فاضل تھے،جعفری فقہ انھیں کی طرف منسوب ہے اور شیعہ امامیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(2)سیر اعلام النبلاءج:6ص:256،جعفر بن محمد صادق علیہ السلام کی سوانح حیات میں،الکامل فی ضعفاءالرجال،ج:2ص:131۔132۔133،جعفر بن محمد صادقؑ کی سوانح حیات میں،اور کتاب نصب الرایۃ،ج:2ص:413،اور تہذیب التہذیب ج:2ص:88،

(4)تھذیب الکمال ج:5ص:76،حالات جعفر بن محمد الصادق،الکامل فی ضعفاءالرجال ج:2ص:131،حالات جعفر بن محمد الصادقؑ۔

(5)العلل و معرفۃ الرجال ص:52بحرم الدم ص:97

۱۳۴

انھیں کی فقہ پر عمل کرتے ہیں،لیکن شیعوں نے ان کے بارے میں بہت سے جھوٹ منسوب کر رکھے ہیں مجھے تو یاد نہیں ہے ابن عینیہ نے کہا ہے ان جھوٹی باتوں میں سے اس کے پاس کچھ محفوظ ہیں۔(1)

8۔ابن حجر کہتے ہیں کہ امام صادقؑ کے بارے میں سعد نے کہا ہے کہ آپ کثیرالحدیث تو ہیں لیکن آپ کی روایتوں سے احتجاج نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ وہ ضعیف راوی ہیں،ان سے ایک بار پوچھا گیا کہ کیا آپ نے یہ حدیثیں اپنے والد سے لی ہیں تو بولے ہاں پھر دوسری بار پوچھا گیا تو کہنے لگے میں نے اپنے والد کے مخطوطات میں دیکھا ہے۔(2)

9۔ابوحاتم نے حضرت امام ابوالحسن علی رضا علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے واجب ہے کہ ان کی حدیثوں کا اعتبار کیا جائے لیکن صرف ان حدیثوں کا جن کو ان کی اولاد یا ان کے شیعوں نے روایت نہیں کیا ہو،خاص طور سے ابوصلت نے۔(3)

حالانکہ امام رضا علیہ السلام کے صرف ایک ہی بیٹے تھے یعنی ابوجعفر محمد الجوادؑ۔

ابوحاتم کہتا ہے کہ ان کے صاحبزادے ان کے حوالے سے عجیب و غریب روایتیں بیان کرتے تھے اباصلت و غیرہ بھی عجائب کے راوی تھے لگتا ہے ان کو وہم ہوتا تھا یا غلطی کرتے تھے(4)

10۔ابن طاہر کہتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام اپنے آبا و اجداد کے حوالے سے عجائب بیان کیا کرتے تھے۔(5)

11۔نباتی نے امام رضا علیہ السلام کی طرف منسوب حدیث کا انکار کرتے ہوئے کہا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)التمھید،ابن عبدالبرج ج:2ص:66،حالات جعفر بن محمد بن علیؑ،

(2)تھذیب التہذیب ج:2ص:88حالات جعفر بن محمد بن علیؑ

(3)الثقات ج:8ص:456حالات علی بن موسی رضاؑ

(4)المجروحین ج:2ص:106حالات علی بن موسی الرضاؑ،تھذیب التھذیب ج:7ص:339حالات علی بن موسی الرضا،سیرہ اعلام نبلاءج:9ص:389حالات علی الرضاؑ

(5)المغنی فی الضعفاء،ج:2ص:456،میزان الاعتدال ج:5ص:192حالات علی بن موسی الرضاؑ

۱۳۵

کہ جو ایسی حدیثوں کی روایت کرتا ہے ہمیں حق پہنچتا ہے کہ اس کو چھوڑ دیا جائے اور ان سے بچا جائے۔(1)

12۔اور ابن خلدون نے بہت سخت باتیں لکھی ہیں،لکھتا ہے کہ اہل بیت کا مذہب بالکل اکیلا ہے جس کو انہوں نے بدعۃً ایجاد کیا ہے،ان کی فقہ منفرد ہے،ان کے مذہب کی بنیاد قدح صحابہ اور اپنے اماموں کی عصمت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اماموں میں اختلاف ہو ہی نہیں سکتا حالانکہ یہ سارے اصول بالکل واہیات ہیں اس طرح کی شاذ باتیں خوارج بھی کیا کرتے ہیں،ہمارے علما جمہور کا اس مذہب اور ایسے عقائد میں کوئی رول نہیں ہے بلکہ ہمارے علما نے ان عقائد سے شدت سے انکار کیا ہے اور بڑے پیمانے پر مخالفت کی ہے ہم ان کے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے نہ ان سے کوئی روایت لیتے ہیں اسلامی ملکوں میں ان کے آثار بھی نہین پائے جاتے مگر ان کے وطن میں ملتے ہیں،شیعہ کتابیں ان کے ہی شہروں میں ملیں گی جہاں ان کو حکومت چل رہی ہے۔(2)

مذکورہ بالا بیان ابن خلدون کے قلم سے اگر چہ اہل بیتؑ کی دشمنی اور ان کے بغض میں ڈوب کے نکلا ہے بلکہ خود حضرت نبیؐ کی دشمنی میں ڈوبا ہوا ہے اس لئے کہ آپؐ نے ہی اہلبیتؑ کو اپنی امت کا مرجع قرار دیا تھا جو انہیں گمراہی اور ہلاکت سے بچانے کے ذمہ دار تھے لیکن ایک بات اس بیان سے بہرحال صاف ہوگئی وہ یہ کہ علما جمہور بلکہ جمہور اہل سنت کو اہل بیتؑ سے کوئی مطلب نہیں ہے یہ لوگ اہل بیتؑ سے ہمیشہ کنارہ کشی کرتے رہے۔

مذکورہ بالا بیان اس بات کی بھی شہادت دیتا ہے کہ شیعہ ہمیشہ خود کو اہل بیتؑ سے منسوب کرتے رہے انہیں اپنا امام سمجھتے رہے اور ان کی پیروی کرتے رہے جب کہ سنی ان پر یہ الزام لگاتے رہے کہ یہ لوگ خواہ مخواہ خود کو اہل بیتؑ سے منسوب کرتے ہیں اور جھوٹ باتیں منسوب کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تہذیب التہذیب ج:7ص:339،حالات علی بن موسی الرضّا

(2)مقدمہ ابن خلدون ج:1ص:446ساتویں فصل،علم فقہ اور اس کی اتباع و فرائض

۱۳۶

کاش میں سمجھ سکتا کہ جب یہ بڑے بڑے علما اہل بیتؑ کے لوگوں کو علم میں کمتر،حدیث میں ضعیف اور شاذ و غیرہ بتارہے ہیں تو وہ کون سے اہل بیتؑ تھے جنھیں نبیؐ نے(حدیث عترت و اہل بیت میں)گمراہی سے بچنے کا ذریعہ اور ہلاکت سے نجات کا وسیلہ بتایا تھا۔(1)

کسی بھی صاحب عقل کے لئے میرا یہ سوال قابل غور ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے تا کہ اس سوال کے جواب سے انسان اطمینان بخش نتیجہ تک پہنچ سکے اور خدا کے سامنے عذر پیش کرنے کے لائق بن سکے اس دن جب وہ خدا کے سامنے کھڑا ہوگا،((یوم لا یغنی مولی عن مولی شیئاً ولا ہم ینصرون))(2)

ترجمہ آیت:((جس دن کوئی بھی دوست اپنے دوست کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکےگا اور نہ ان کی مدد کی جائےگی))۔

ائمہ اہل بیتؑ کے بارے میں عام سنیوں کے کچھ نظریئے

عام اہل سنت بھی اہل بیتؑ کے بارے میں اپنے علما کی پیروی کرتے ہیں کبھی اپنے علما کا دفاع بھی کرتے ہیں اور کبھی عجیب و غریب انداز میں صفائیاں پیش کرتے ہیں لیکن ایک بات سب میں مشترک ہے یعنی جب اہل بیتؑ کا معاملہ آتا ہے تو وہ بالکل الگ ہوجاتے ہیں اور شدت سے اہل بیتؑ سے کنارہ کشی کرتے ہیں،تاریخ کے واقعات اور مسلمان ملکوں کے حالات میرے مذکورہ بالا بیان پر شاہد ہیں۔

میں نمونے کے طور پر کچھ واقعات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

1۔ابن اثیر363سنہکے بغداد کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے ابوتغلب بغداد کا کوتوال تھا کہ سرکشی کرنےوالے اور شرپسند عناصر نے بغداد کے مغربی علاقے میں فساد برپا کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)جیسا کہ حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ و غیرہ میں آیا ہے

(2)سورہ دخان آیت:41

۱۳۷

سنی شیعہ فساد شہر میں بہت تیزی سے پھوٹ پڑا،سوق طعام کے کچھ اہل سنت نے ایک عورت کو ناقہ پر بٹھا دیا اور اس کا نام عائشہ رکھا خود ان کے مردوں میں کسی کا نام طلحہ اور کسی کا نام زبیر رکھا گیا اور پھر دوسرے فرقے سے انہوں نے قتال شروع کیا اور کہنے لگے ہم علی بن ابی طالبؑ سے لڑرہے ہیں اسی طرح کی شرانگیز باتیں کرنے لگے۔(1)

ابن کثیر لکھتا ہے کہ عاشور کے دن بغداد میں رافضیوں کی طرح بہت سی شنیع(غلیظ)بدعتوں پر عمل کیا گیا اہل سنت اور رافضیوں کے درمیان ایک بڑا فتنہ ہوا دونوں ہی عقل سے کورے یا کم عقل تھے ان پر کسی کا کنٹرول نہیں تھا فتنہ یہ تھا کہ اہل سنت نے ایک عورت کو اونٹ پر بٹھایا اور اس کا نام عائشہ رکھا مردوں میں کسی نے اپنا نام طلحہ رکھا تو کسی نے زبیر اور کہنے لگے ہم علیؑ کیا صحاب سے جنگ کررہے ہیں نتیجہ میں بغداد کی گلیوں میں بہت خون بہا اور دونوں فرقوں میں سے بہت سے لوگ مارے گئے۔(2)

2۔جب جمہور اہل سنت نے دیکھا کہ وہ عزائے حسینؑ کو روکنے سے عاجز ہیں اور شیعوں کو حسین شہید پر ماتم کرنے سے نیہں روکا جاسکتا نہ آپ کی زیارت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے تو انہوں نے غم حسینؑ کی ضد میں ایسے طریقے قائم کئے جن سے ان کے رجحان فکر کا پتہ چلتا ہے،کاش کسی کی سمجھ میں یہ بات آجاتی کہ وہ شیعوں سے کہتے ہیں کہ ہم تم سے زیادہ حسینؑ اور اہل بیتؑ پر حق رکھتے ہیں پھر وہ اپنے طریقے پر عزائے مولا اور زیارت حسینؑ کا دستور بناتے اور اس طرح زیارت کرتے جو ان کے عقیدے کے مطابق ہوتا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے مقابلہ میں دشمنان اہل بیتؑ کی عزاداری قائم کی اور ان کی بزرگی کا اعلان کیا وہ مصعب ابن زبیر کا ماتم ٹھیک شیعوں کی طرح کرنے لگے اور جس طرح شیعہ حسینؑ مظلوم کی زیارت کرتے ہیں اسی طرح وہ مصعب ابن زبیر کی زیارت کرنے لگے یہ سلسلہ ان میں برسوں چلتا رہا۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الکامل فی التاریخ ج:7ص:363،340سنہکے حادثات۔

(2)البدایہ و النھایہ ج:11ص:363،275سنہکے حادثات۔

(3)البدایہ و النھایہ ج:11ص:363،323،326سنہکے حادثات،الکامل فی التاریخ ج:8ص:363،10سنہکے حادثات

۱۳۸

ظاہر ہے کہ مصعب ابن زبیر کوئی ایسی شخصیت تو ہے نہیں کہ جس کا احترام کیا جائے نہ اس کی اندر ایسی کوئی صفت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کو مقدس سمجھا جائے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں نے مصعب ابن زبیر کا غم عزاداری کے لئے کیوں منتخب کیا،ایک بات سمجھ میں آتی ہے اور وہ اور اس کے مسلک کے لوگ جو زبیریوں کے نام سے جانے جاتے ہیں اہل بیتؑ سے کھلی ہوئی دشمنی رکھتے تھے جمہور اہل سنت کے دل میں اہل بیتؑ سے جو کینہ اور بغض بھرا ہوا ہے اس کا مظاہرہ اسی طرح ہوسکتا تھا کہ کسی دشمن اہل بیتؑ کی عزاداری کا اہتمام کیا جائے اور انہوں نے ایسا ہی کیا اور اپنے دل کینہ کا اظہار اس وسلیہ سے کیا۔

3۔ابن اثیر کے حوالہ سے عرض کرتا ہوں کہ شیعہ کے خلاف بغداد میں جو فتنہ اٹھا تھا وہ بھی اہل بیتؑ سے دشمنی کا ایک مظاہرہ تھا جو اہل سنت کی طرف سے کیا جارہا تھا اس فتنہ کا سبب یہ تھا کہ اہل کرخ(شیعوں)نے باب سماکین کو قلائین نے باب مسعود کی باقی ماندہ عمارت کو تعمیر کیا اور اس میں بہت سے گنبد بنائے ان گنبدوں پر سونے کے پانی سے ایک کتبہ لکھا کتبہ کا مضمون تھا(محمد و علی خیرالبشر)اہل سنت نے کہا یہ تحریر غلط ہے انہوں نے کہا کہ ان گنبدوں پر لکھا ہوا ہے:(محمد و علی خیر البشر فمن رضی فقد شکر و من ابیٰ فقد کفَرَ)یعنی محمد و علی خیر بشر ہیں جو اس پر راضی ہے اس نے شکر ادا کیا اور جو اس کا منکر ہے وہ کافر ہے،اہل کرخ(شیعہ)نے کہا ہم نے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے ہم اپنی مسجدوں پر یہی لکھتے چلے آئے ہیں بات خلیفہ تک پہنچ گئی اس دور میں خلیفہ عباسی قائم بامراللہ تھا اس نے عباسیوں کے نقیب ابوتمام اور علویین کے نقیب عدنان بن رضی کو دریافت حال کے لئے بھیجا اور فتنہ کو روکنے کی بھی ہدایت کی یہ دونوں آئے حالات کا جائزہ لیا اور دونون نے شیعوں کے عمل کو صحیح قرار دیا اور ان کی تصدیق کی،خلیفہ نے حکم دیا اور نواب رحیم نے بھی کہ جنگ و جدال بند کردی جائے لیکن اہل سنت نے نہیں مانا،قاضی ابن مذہب زہری اور دوسرے حنبلیوں نے لکھا ہے ان میں عبدالصمد کے اصحاب بھی شامل ہیں کہ اہل سنت نے بہت طوفان مچایا اور

۱۳۹

شہر کے رئیس الرؤسا نے شیعوں پر بہت تشدد کیا آخر شیعوں نے اس کتبے سے خیرالبشر ہٹا کر وہاں علیہما السلام لکھ دیا لیکن سنی اس پر بھی راضی نہین ہوئے ان کا مطالبہ تھا کہ ہم وہ تختی ہی اکھیڑ دیں گے جس پر محمدؐ و علیؑ لکھا ہوا ہے اور یہ کہ شیعہ اذان میں(حی علیٰ خیر العمل)نہ پکاریں شیعوں نے یہ مطالبہ رد کردیا جس کی وجہ سے فتنہ بڑھتا رہا اور تین ربیع الاول تک آپس میں قتل و غارت اور حربیہ اور باب بصرہ کے علاوہ تمام سنی محلوں میں گھوم کر لوگوں کو اس کے خون کا بدلہ لینے پر ابھارتے رہے جب دفن کرکے واپس پلٹے تو مشہد کے باب سوم پر حملہ کردیا(کاظمین پر حملہ کردیا)لوگوں نے اس کا دروازہ بند کردیا تو انہوں نے دیوار میں نقب لگانی شروع کردی اور دربانوں کو ڈرایا،دھمکایا ان غریبوں نے مارے ڈر کے دروازے کھول دیئے یہ لوگ مشہد میں درّانہ گھسے اور تمام قندیلیں لوغ لیں،محرابوں میں جو کچھ سونا چاندی تھا سب کو لوٹ لیا،سارے پردے لوٹ لئے،تربت اور دیواروں پر جو قیمتی سامان تھے وہ بھی لوٹ لیا یہاں تک کہ راہ ہوگئی تو یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس ہوئے،دوسرے دن پہلے سے زیادہ(بڑا)مجمع آیا اور مشہد(کاظمین)میں آگ لگادی گئی سارے کمروں میں اور برامدوں کو جلا ڈالا،موسیٰ بن جعفر اور محمد بن علی علیہما السلام کی ضریح میں آگ لگادی اور ان دونوں قبوں میں بھی آگ لگادی جو ان کی ضریح کے اوپر بنائے گئے تھے پھر اس ضریح کے آس پاس کی تمام چیزوں کو جلا دیا اور اتنے گندم کام کئے کہ اس سے پہلے دنیا میں ایسے کام نہیں ہوئے تھے۔

(ربیع الاوّل)مہینہ کی پانچویں تاریخ کو وہ لوگ پھر آئے اور دونوں مظلوم اماموں(یعنی موسیٰ بن جعفر اور محمد بن علی رضا علیہما السلام)کی قبر کھودنی شروع کی تا کہ دونوں حضرات کے جسم اطہر کو حنبلیوں کے قبرستان میں لے جائیں لیکن ملبہ بہت تا اس لئے نشان قبر نہیں پاسکے تو پھر آس پاس میں نقب لگا کے قبر تک پہنچنا چاہا عباسیوں کے نقیب ابوتمام نے جب یہ حرکت دیکھی اور دوسرے ہاشمیوں اور کچھ سنیوں کو یہ خبر ملی تو وہ لوگ آئے اور اپنے لوگوں کو اس فعل قبیح سے روکا۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الکام فی التاریخ ج:8ص:301۔302بغداد میں جو جھگڑا ہوا اور مشہد کو جلایا یہ حادثہ سال443سنہمیں ہوا۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

بحمداللہ آپ نے ہمت و شجاعت کے ساتھ پردے اٹھادیے اور ادب کے پیرائے میں ہم کو حقائق سے روشناس فرمایا۔گزشتہ شب جب ہم لوگ یہاں سے واپس ہوئے تو راستے میں کافی دیر تک حضرات علماء پر ہماری چوٹیں ہوتی رہیں اور آپس میں سخت گفتگو کی نوبت آگئی یہاں تک کہ ہم نے مشکل سے حالات کو درست کیا۔ ہمارے درمیان ایک عجیب دو رنگی پیدا ہوگئی ہے۔ آج کی شب مولوی صاحبان ہم سے بہت نالاں اور برگشتہ خاطر ہیں۔ اتنے میں نماز کا وقت آیا اور انہوں نے مغرب و عشاء کی نماز ہماری اقتداء میں پڑھی اور ہماری ہی طرح سےفریضہ ادا کیا۔ آہستہ آہستہ حضرات تشریف لائے چنانچہ معمولی خاطر و جواضع چائے نوشی اور از حد اظہار خلق و محبت کے بعد نواب عبدالقیوم صاحب کی طرف سے سلسلہ گفتگو شروع ہوا۔

نواب : قبلہ صاحب ہماری خواہش ہے کہ کل شب کے بیان کو مکمل کردیجئے تاکہ مطلب ناقص نہ رہ جائے ،اس لیے کہ ہم سب نتیجہ کلام اور آیت کے حقیقی مفہوم کے منتطر ہیں۔

خیر طلب : بشرطیکہ آپ حضرات (مولوی صاحبان کی طرف اشارہ ) آمادہ ہوں اور اجازت دیں۔

حافظ: ( ناراضگی کے ساتھ) کوئی حرج نہیں اگر ابھی کچھ باقی ہے تو فرمائیے ہم سننے کو تیار ہیں۔

خیر طلب : گزشتہ رات یہ کہنے والوں کے رد میں کہ یہ آیت شریفہ خلفائے راشدین کے طریقہ خلافت میں ذکر کی گئی ہے ہم نے ادبی دلائل پیش کئے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ مطالب کو دوسرے رخ سے زیر بحث لائیں تاکہ پردے ہٹیں اور حقیقت سامنے آجائے۔

جناب شیخ عبدالسلام نے گزشتہ شب میں فرمایا تھا کہ اس آیت کے اندر چار صفتین بتاتی ہیں کہ آیت خلفائے اربعہ اور ترتیب خلافت کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، لیکن اول تو فریقین کے بڑے بڑے مفسرین کی طرف سے اس آیہ شریفہ کی شان نزول میں ایسا کوئی بیان نہیں دیا گیا ہے، دوسرے آپ خود بہتر جانتے ہیں کہ کوئی صفت ہر پہلو سے موصوف کے ساتھ مطابقت کرتی ہے تب لائق اعتنا ہوتی ہے اور اگر صفت موصوف سے مطابق نہ ٹھہرے تو حقیقت کا مصداق نہیں بن سکتی۔

اگر بغیر محبت اور عداوت کے ہم اںصاف کی نگاہ سے دیکھیں اور تحقیق کریں تو دیکھیں گے کہ مندرجہ آیہ مبارکہ کے صفات کے حامل صرف حضرت امیرالمومنین صلوات اللہ علیہ تھے اور ہرگز یہ صفتین ان حضرات سے میل نہیں کھاتیں جن کو شیخ صاحب نے بیان کیا ہے۔

حافظ : کیا یہ ساری آیتیں جو آپ نے علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں نقل کیں کافی نہیں تھیں جو آپ چاہتے ہیں کہ اس آیت کو بھی اپنی جادو بیانی کے زور سے علی(ع) کی شان میں ثابت کریں؟ فرمائیے دیکھیں کیونکر یہ خلفائے راشدین کی خلافت سے مطابقت نہیں کرتی۔

۲۲۱

علی علیہ السلام کی شان میں تین سو آیتیں

خیر طلب : آپ نے جو یہ فرمایا کہ آیات قرآنی کو ہم نے مولانا امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں وارد کیا ہے، تو آپ نے یہ ایک عجیب خلط مبحث کیا ہے۔ کیا اس سے آنکھ بند کی جاسکتی ہے کہ خود آپ کی تمام بڑی بڑی تفسیروں اور معتبر کتابوں میں قرآن مجید کی ان کثیر آیتوں کو نقل کیا گیا ہے جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں؟ نہ یہ کہ اس کو ہم سے مخصوص بتایا جائے آیا حافظ ابونعیم اصفہانی جنہوں نے، ما نزل من القرآن فی علی کو اور حافظ ابوبکر شیرازی جنہوں نے نزول القرآن فی علی کو مستقل حیثیت سے لکھا ہے شیعہ تھے ؟ آیا تمام بڑے بڑے مفسرین جیسے امام ثعلبی، جلال الدین، سیوطی ، طبری ، امام فخرالدین رازی اور اکابر علماء جیسے ابن کثیر، مسلم ، حاکم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابودائود اور احمد ابن حنبل وغیرہ، بیان تک کہ ابن حجر ایسے متعصب جنہوں نے صواعق محرقہ میں ان قرآنی آیات کو اکٹھا کیا ہے جو ان حضرت کی شان میں نازل ہوئی ہیں، شیعہ تھے ؟؟؟ بعض جیسے طبرانی نے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے باب۶۲ کے شروع میں بسند ابن عباس اور محدث شام نے اپنی تاریخ کبیر میں نیز اور حضرات نے جو قرآن کی تین آیات تک ان حضرت کے بارے میں درج کی ہیں تو یہ شیعہ تھے یا آپ کے اکابر علماء اور پیشوا تھے

بہتر ہوگا کہ آپ حضرات تھوڑے غور و تامل کے ساتھ بیان کیا کریں تاکہ ندامت و پشیمانی کا باعث نہ ہو۔

ہم حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی منزلت ثابت کرنے میں کچھ گھڑنے اور وضع کرنے کے محتاج نہیں کہ زبردستی کسی آیت کو ان حضرت کی شان میں نقل کریں آپ کے مدارج آفتاب نصف النہار کی طرح ظاہر و ہویدا ہیں۔ یہ وہ خورشید تاباں ہے جو ابر کے پردے میں نہیں رہتا۔

امام محمد بن ادریس شافعی کہتے ہیں میں تعجب کرتا ہوں علی علیہ السلام سے کیونکہ ان حضرت کے دشمن ( بنی امیہ نواصب اور خوارج بغض و کینہ کی وجہ سے ان حضرت کے فضائل نقل نہیں کرتے اور دوستان علی(ع) بھی خوف و تقیہ کے سبب ذکر مناقب سے احتیاط کرتے ہیں اس کے با وجود کتابیں حضرت کے فضائل و مناقب سے پر ہیں جو ہر جگہ شمع محفل ہیں۔ چنانچہ اس آیت کے موضوع میں ہم کسی سحر آمیزی کو دخل نہیں دیتے بلکہ ان حقائق کو بیان کرتے ہیں جو پر ہم نے خود آپ کی معتبر کتابوں سے استدلال کیا ہے اور کرتے ہیں۔

آپ ملاحظہ فرمارہے ہیں کہ میں نے اب تک شیعہ روایات سے استدلال نہیں کیا ہے اور نہ انشاء اللہ آئندہ کروںگا میں نے منبروں پر اور تقریروں میں بار بار کہا ہے کہ اگر شیعوں کی تمام کتابیں درمیان سے ہٹائی جائیں تو میں صرف اکابر علمائے اہلسنت سے امیرالمومنین علیہ السلام کے مقام ولایت و خلافت اور اولویت کو بہترین طریقے پر ثابت کروں گا۔ چنانچہ اس آیہ شریفہ میں بھی میرا قول تنہا نہیں ہے کہ آپ کو سحر بیان میں مبتلا کروں بلکہ خود آپ کے علماء نے بھی اس مطلب کی

۲۲۲

تصدیق کی ہے۔ مجھ کو اچھی طرح سے یاد ہے کہ فقیہ و مفتی عراقین محدث شام محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۴۳ میں حدیث تشبیہ کو نقل کرتے ہوئے کہ رسول خدا(ص) نے علی (ع) کو انبیاء(ع) کی شبیہ قرار دیا ہے، کہتے ہیں کہ علی(ع) کوجو حکم و حکمت میں نوح(ع) کی تشبیہ فرمایا تو اس کا سبب یہ ہے کہ

" انه کان شديدا علی الکافرين رئوفا بالمومنين کما وصفه الله تعالی القرآن بقوله والذين معه اشداء علی الکفار رحماء بينهم "

یعنی در حقیقت وہ کافروں پر سخت اور مومنوں پر مہربان تھے، جیسا کہ خدا نے قرآن میں اس آیت سے ان کی تعریف کی ہے کہ علی(ع) ہمیشہ پیغمبر(ص) کے ساتھی تھے کفار پر سختی اور مومنین پر مہربانی کرنے والے تھے۔ اور جو شیخ صاحب نے یہ فرمایا کہ والذین معہ ابوبکر کے بارے میں ہے اس دلیل سے کہ چند روز غار میں رسول اللہ(ص) کے قریب رہے تو (حالانکہ کل شب کو عرض کرچکا ہوں کہ خود آپ ہی کے علماء نے لکھا ہے کہ اتفاقیہ طور پر اور آئندہ خطروں سے بچنے کے لیے ان کو ساتھ لے گئے تھے) اگر فرض کر لیا جائے کہ آنحضرت(ص) مخصوص طریقے سے ان کو اپنے ہمراہ لے گئے تو کیا ایسا مسافر جو چند روز سفر کے عالم میں آں حضرت(ص) کے ساتھ رہا ہو مرتبہ میں اس شخص کی برابری کرسکتا ہے جو اوائل عمر ہی سے رسول اکرم(ص) کے ہمراہ اور آن حضرت(ص) کی تعلیم و تربیت میں رہا ہو؟

اگر انصاف و حقیقت کی نظر سے دیکھیے تو تصدیق کیجئے گا کہ حضرت علی علیہ السلام اس خصوصیت میں ابوبکر اور ان تمام مسلمانوں سے اولی ہیں جو اس آیت کے مصداق بن سکیں کیونکہ آپ نے بچپن ہی سے رسول اللہ(ص) کےساتھ اور آنحضرت(ص) کے زیر تربیت نشو و نما پائی۔ بالخصوص ابتدائے بعثت سے سوا علی علیہ السلام کے دوسرا آن حضرت(ص) کے ساتھ نہیں تھا۔ علی (ع) اس دن بھی پیغمبر(ص) کے ہمراہ تھے جب ابوبکر ، عمر ، عثمان، ابوسفیان، معاویہ اور تمام مسلمان دین توحید سے منحرف اور بت پرستی میں غرق تھے۔

رسول اللہ(ص) پر سب سے پہلے ایمان لانے والے علی(ع) تھے

چنانچہ آپ کے اکابر علماء جیسے بخاری ومسلم نے اپنی صحیحین میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، ابن عبدالبر نے استیعاب جلد سیم ص۳۲ میں، امام ابوعبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص۶۳ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب۱۳ میں ترمذی و مسلم سے، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول فصل اولی میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص۲۵۸ میں، ترمذی نے جامع ترمذی جلد دوم ص۳۱۴ میں، حموینی نے فرائد میں امیر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں، یہاں تک کہ ابن حجر متعصب نے صواعق میں اور آپ کے دوسرے جید علماء نے الفاظ کے مختصر کمی و بیشی ے ساتھ ابن بن مالک نیز اور لوگوں سے نقل کیا ہے کہ " بعث النبی فی يوم الاثنين و آمن علی يوم الثلاث " یعنی پیغمبر(ص) دو شنبے کے روز مبعوث ہوئے اور علی(ع) سہ شنبہ کو ایمان لائے نیز روایت کی ہے " بعث النبی فی يوم الاثنين و صلی علی معهيوم الثلاث " یعنی پیغمبر(ص) دو شنبہ کے روز مبعوث ہوئے اور سہ شبنہ کو علی نے ان کے ساتھ نماز پڑھی) اور

۲۲۳

" انه اول من آمن برسول الله من الذکور " یعنی علی(ع) وہ پہلے مرد تھے جو رسول اللہ پر ایمان لائے۔

نیز طبری نے اپنی تاریخ جلد دوم ص۲۴۱ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص۲۵۱ میں، ترمذی نے جامع جلد دوم ص۲۱۵ میں، امام احمد نے مسند جلد چہارم ص۳۶۸ میں، ابن اثیر نے کامل جلد دوم ص۲۴ میں، حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد چہارم ص۳۴۶ میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب ۲۵ میں اپنے اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اول من صلی علی ( اسلام کے اندر) جس نے سب سے پہلے نماز ادا کی وہ علی(ع) تھے۔ اور زید ابن ارقم سے روایت کی ہے کہ" اول من سلم مع رسول الله علی ابن ابی طالب " یعنی جو شخص سب سے پہلے رسول اللہ(ص) کےساتھ اسلام لایا وہ علی(ع) ابن طالب تھے اور اسی قسم کی روایتیں آپ کی معتبر کتابوں میں بھری پڑی ہیں۔ لیکن نمونے کے لیے اسی قدر کافی ہیں۔

علی(ع) بچپن ہی سے پیغمبر(ص) کی تربیت میں

خصوصیت سے آپ کو اس طرف توجہ کرنا چاہئیے کہ آپ ہی کے ذی علم فقیہہ نور الدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ فصل تربیتہ النبی ص۱۶ میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول فصل اول ص۱۱ میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ جس سال مکہ معظمہ میں قحط پڑا تھا ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ( جو ابھی ظاہری طور پر مبعوث برسالت نہ ہوئے تھے) اپنےچچا عباس سے فرمایا کہ آپکے بھائی ابو طالب کثیر العیال ہیں اور زمانہ بھی بہت سخت ہے لہذا ہم لوگوں چل کے ان کی اولاد میں سے جس کومناسب سمجھیں ایک ایک نفر کو ا پنی کفالت میں لے لیں تاکہ میرے عزیز چچا کو بار ہلکا ہوجائے۔ عباس نے منظور کیا۔ دونوں حضرات مل کے جناب ابو طالب کے پاس گئے اور اپنے آنے کی غرض بیان کی ۔ چنانچہ ابوطالب راضی ہوگئے۔ چنانچہ عباس نے جناب جعفر طیار کو اپنے ذمے لیا اور رسول خدا(ص) نے حضرت علی(ع) کی ذمہ داری لی، اس کے بعد مالکی یہ عبارت لکھتے ہیں کہ

" فلم يزل عليّ مع رسول اللّه صلّى اللّه عليه وآله وسلّم حتّى بعثه اللّه نبيّافاتّبعه علي ّوآمن به وصدّقه و کان عمره اذ ذاک فی السنه الثالثه عشر من عمره لم يبلغ الحلم و انه اول من اسلم و آمن برسول الله من الذکور بعد خديجة"

( یعنی علی(ع) ہمیشہ رسول اللہ(ص) کے ساتھ رہے یہاں تک کہ خدا نے آنحضرت(ص) کو مبعوث برسالت فرمایا تو علی(ع) نے ان کی پیروی کی ان پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق کی، حالانکہ ابھی ان کی عمر کے صرف تیرہ سال گزرے تھے اور حد بلوغ میں نہیں پہنچے تھے، خدیجہ(ع) کے بعد مردوں میں آں حضرت(ص) پر سب سے پہلے اسلام و ایمان لانے والے یہی تھے۔)

۲۲۴

اسلام میں علی(ع) کی سبقت

پھر مالکی اسی فصل میں امام ثعلبی کا قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے سورہ نمبر۹ ( توبہ) کی آیت نمبر۱۰۶ " وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرِينَ وَالْأَنْصارِ" کی تفسیر میں اس طرح روایت کی ہے کہ ابن عباس جابر ابن عبداللہ اںصاری، زید بن ارقم، محمد بن منکور اور بعیتہ الرائی کہتے ہیں کہ خدیجہ کے بعد جو شخص سب سے پہلے رسول خدا(ص) پر ایمان لایا وہ علی(ع) تھے ۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ علی کرم اللہ وجہہ نے اس بات کی طرف اپنے اشعار میں اشارہ فرمایا ہے جن کو ثقات علماء نے آپ سے نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔

محمّدالنبي أخي وصنوي وحمزةسيّدالشهداءعمي

وبنت محمّدسكني وعرسي من وطلحمهابدمي ولحمي

وسبطاأحمدولداي منهافأيكم له سهم كسهمي

سبقتكم الى الاسلام طراعلى ماكان من فهمي وعلمي

فأوجب لي ولايته عليكم رسولاللّه يوم غديرخم

فويل ثم ويل ثم ويل لمن يلقى الإله غدابظلمي

( یعنی محمد رسول اللہ(ص) میرے بھائی اور میرے چچا کے بیٹے ہیں، اور حمزہ سید الشہداء میرے چچا ہیں اور فاطمہ بنت رسول اللہ(ص) میری زوجہ اور شریک زندگی ہیں۔ اور پیغمبر(ص) کے دونوں نواسے میرے دو فرزند ہیں فاطمہ(س) سے، پس تم میں سے کون ہے جس کا حصہ میرے حصے کے برابر ہو، پس تم سب سے پہلے اسلام لایا جب کہ میں کم سن تھا اور حد بلوغ کو نہیں پہنچا تھا، اور پیغمبر(ص) نے میرے لیے اپنی ولایت کو تم پر غدیر خم کے روز واجب کیا، پھر تین مرتبہ فرمایا کہ وائے ہو اس پرجو کل (روز قیامت) اس حالت میں خدا سے ملاقات کرے کہ اس نے مجھ پر ظلم کیا ہو۔)

محمد طن طلحہ شافعی نے مطالب السئول باب اول فصل اول کے ضمن میں ص۱۱ پر اور آپ کے بڑے بڑے علمائے مورخین و محدثین نے نقل کیا ہے کہ حضرت نے یہ اشعار اس موقع پر معاویہ کے جواب لکھے تھے جب اس نے اپنے خط میں ان حضرت کے مقابلے میں فخر و مباہات کیا تھا کہ میرا باپ زمانہ جاہلیت میں سردار قوم تھا اور اسلام میں اس نے بادشاہی کی، اور میں خال المومنین، کاتب وحی اور مصاحب فضائلی ہوں۔

حضرت نے خط پڑھنے کے بعد فرمایا " ابا الفضائل يفخر علی ابن آکلة الاکباد " یعنی آیا میرے سامنے جگر چبانے والی ( یعنی معاویہ کی ماں ہندہ جس کے لیے احد میں سید شہداء حمزہ کا جگر لایا گیا اور اس نے منہ میں رکھ کر چبایا ) کو لڑکا فضائل

۲۲۵

فخر کرتا ہے۔ اس کے بعد مذکورہ بالا اشعار اس کو لکھے جن میں غدیر خم کی طرف اشارہ فرمایا اور ثابت فرمایا کہ آپ ہی امام و خلیفہ اور رسول خدا(ص) کے آں حضرت(ص) ہی کے حکم سے مسلمانوں کے امور میں اولی بہ تصرف ہیں۔ اور معاویہ باوجودیکہ آپ کا اتنا سخت مخالف تھا ان مفاخرات میں آپ کی تکذیب نہیں کرسکتا۔ نیز حاکم ابو القاسم اسکافی جو آپ کےبہت بڑے عالم اور آپ کے علماء کے معتمد علیہ ہیں آیہ مذکورہ کے ذیل میں عبدالرحمن ابن عوف سے نقل کرتے ہیں کہ قریش میں سے دس نفر ایمان لائے جن میں سب سے پہلے علی ابن ابی طالب(ع) تھے۔

آپ کے اکابر علماء جیسے احمد ابن حنبل مسند میں، خطیب خوارزمی مناقب میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب ۱۲ میں انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ رسول (ص) نے فرمایا :

" لَقَدْصَلَّتِ الْمَلَائِكَةُعَلَيّ َوَعَلَى عَلِيِّ سَبْعَ سِنِين َوَذَلِكَ أَنَّهُ لَمْ تُرْفَعْ شَهَادَةُأَنْ لَاإِلَه إِلَّااللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّداًرَسُول ُاللَّهِ إِلَّامِنِّ يوَمِنْ عَلِيٍّ"

یعنی ملائکہ نے سات سال مجھ پر اور علی پر صلوات بھیجی کیونکہ اس مدت میں سوا میرے اور علی(ع) کے کسی اور کی طرف سے کلمہ شہادت آسمان کی جانب بلند نہیں ہوا۔

ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں ص۳۷۵ سے ص۳۷۸ تک آپ کے روایات و علماء کےسلسلوں سے بکثرت روایتیں نقل کی ہیں کہ علی علیہ السلام و ایمان میں سارے مسلمانوں سے آگے تھے اور تمام اخبار و اختلاف اقوال کے آخر میں کہتے ہیں :

" فدل مجم وعماذكرناعلى أن علياأول الناس إسلاماوأن المخالف في ذلك شاذوالشاذلايعتدبه انتهى كلامه."

یعنی یہ سب جو ہم نے ذکر کیا اس پر دلالت کرتا ہے کہ علی علیہ السلام سب سے پہلے اسلام لائے اور اس امر کے مخالف بہت کم ہیں اور قول شاذ قابل توجہ نہیں ہوتا۔

امام ابو عبدالرحمن نسائی نے جو ائمہ صحاح ستہ میں سے ایک ہیں خصائص العلوی کی پہلی چھ حدیثیں اسی موضوع میں نقل کی ہیں اور تصدیق کی ہے کہ سب سے پہلے رسول اللہ(ص) پر ایمان لانے والے اور آن حضرت(ص) کے ساتھ نماز پڑھنے والے علی علیہ السلام تھے۔

اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے یابیع المودۃ باب۱۲ میں ترمذی، حموینی، ابن ماجہ، احمد حنبل، حافظ ابونعیم، امام ثعلبی، ابن مغازلی، ابوالموید خوارزمی اور دیلمی سے مختلف مضامین کےساتھ اکتیس (۳۱) روایتیں نقل کی ہیں جن سب کا خلاصہ اور نتیحہ یہ ہے کہ علی علیہ السلام ساری امت سے پہلے اسلام و ایمان لائے یہاں تک کہ ابن حجر مکی جیسے متعصب نے بھی صواعق محرقہ فصل دوم میں انہیں مضامین کی روایتیں نقل کی ہیں، چنانچہ سلیمان بلخی حنفی نے بھی ینابیع المودۃ میں ان میں سے بعض رایتیں ان سے نقل کی ہیں اور ینابیع المودۃ باب۱۴ کے آخر میں اپنے اسناد کےساتھ ابن زبیر مکی سے اور انہوں نے جابر ابن عبداللہ اںصاری سے مناقب کے سلسلے میں ایک مبارک روایت نقل کی ہے جس کو آپ حضرات کی اجازت سے ہیش کررہا ہوں تاکہ حجت تمام ہوجائے رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے:

"إِنَّ اللَّه َتَبَارَكَ وَتَعَالَى اصفَانِي وَاخْتَارَنِي وَجَعَلَنِي رَسُولًاوَأَنْزَل َعَلَيَّ سَيِّدَالْكُتُبِ فَقُلْتُ إِلَهِي وَسَيِّدِي إنَّكَ أَرْسَلْتَ مُوسَى إِلَى فِرْعَوْنَ فَسَأَلَ كَأَنْ تَجْعَلَ مَعَهُ أ َخاهُ هارُونَ وَزِيراً

۲۲۶

تَشُدُّبِه ِعَضُدَهُ وَتُصَدِّقُ بِهِ قَوْلَهُ وَإِنِّي أَسْأَلُكَ يَاسَيِّدِي وَإِلَهِي أَنْ تَجْعَلَ لِي مِنْ أَهْلِي وَزِيراًتَشُدُّبِهِ عَضُدِي فَجَعَل َاللَّهُ لِي عَلِيّاًوَزِيراًوَأَخاًوَجَعَل َالشَّجَاعَةَفِي قَلْبِهِ وَأَلْبَسَهُ الْهَيْبَةَعَلَى عَدُوِّهِ وَهُوَأَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِي وَصَدَّقَنِي وَأَوَّلُ مَنْ وَحَّدَاللَّهَ مَعِي وَإِنِّي سَأَلْتُ ذَلِكَ رَبِّي عَزَّوَجَلَّ فَأَعْطَانِيهِ فَهُوَسَيِّدُالْأَوْصِيَاءِاللُّحُوقُ بِهِ سَعَادَةٌوَالْمَوْتُ فِي طَاعَتِهِ شَهَادَةٌوَاسْمُه ُفِي التَّوْرَاةِمَقْرُون ٌإِلَى اسْمِي وَزَوْجَتُهُ الصِّدِّيقَةُالْكُبْرَى ابْنَتِي وَابْنَاهُ سَيِّدَاشَبَابِ أَهْل ِالْجَنَّةِابْنَايَ وَهُوَوَهُمَاوَالْأَئِمَّةُبَعْدَهُمْ حُجَجُ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ بَعْدَالنَّبِيِّين َوَهُمْ أَبْوَابُالْعِلْمِ فِي أُمَّتِي مَنْ تَبِعَهُمْ نَجَامِنَ النَّارِوَمَنِ اقْتَدَى بِهِمْ هُدِيَ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ لَمْ يَهَبِ اللَّه ُعَزَّوَجَلَّ مَحَبَّتَهُمْ لِعَبْدٍإِلَّاأَدْخَلَهُ اللَّه ُالْجَنَّةَ.انتهی. فاعتبروا يا اولی الالباب"

یعنی خدائے تعالی نے مجھ کو برگزیدہ او منتخب کیا ( مخلوقات میں سے ) مجھ کو پیغمبر بنایا اور مجھ پر سب سے بہتر کتاب نازل کی۔ پس میں نے عرض کیا اے میرے معبود اور مالک تونے موسی کو فرعون کی طرف بھیجا، تو انہوں نے تجھ سے دعا کی کہ میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا دے تاکہ ان سے میرا بازو مضبوط ہو اور ان کے ذریعے میرے قول کی تصدیق ہو۔ چنانچہ اب میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ خداوندا میرے اہل میں سے میرے لیے ایک وزیر قرار دے جس سے میرا بازو مضبوط ہو۔ پس علی (ع) کو میرا وزیرا اور میرا بھائی بنا، شجاعت کو ان کے دل میں قائم کر اور ان کے دشمنوں کے مقابلے میں ان کو ہیبت عطا کر۔ علی(ع) وہ پہلے شخص ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور میری تصدیق کی او سب سے پہلے میرے ساتھ خدا کی وحدانیت کا اقرار کیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ میں نے خدا سے یہ سوال کیاتو اس نے مجھ کو عطا بھی فرمایا ( یعنی علی(ع) کو میرا وزیر اور بھائی قرار دیا) پس علی(ع) اوصیاء کے سردار ہیں، ان سے وابستہ ہونا سعادت اور ن کی اطاعت میں مرنا شہادت ہے، توریت میں ان کا نام میرے نام کے ساتھ ہے، ان کی زوجہ صدیقہ کبری میری بیٹی ہے، ان کے دو بیٹے جو جوانان جنت کے سردار ہیں، میرے فرزند ہیں علی(ع)، حسن(ع)، حسین(ع) اور ان کے بعد سارے امام انبیاء کے بعد تمام خلقت پر خدا کی حجت ہیں اور یہ حضرات میری امت میں علم کے دروازے ہیں جس شخص نے ان کی پیروی کی اس نے۔۔۔۔۔ آتش جہنم سے نجات پائی اور جس نے ان کی اقتداء کی اس نے صراط مستقیم کی ہدایت پائی۔ خدا نے جس بندے کو ان کی محبت عنایت فرمائی اس کو ضرور جنت میں داخل کرے گا ( لہذا اے صاحبان بصیرت عبرت حاصل کرو۔)

اگر میں چاہوں کہ بغیر کتب شیعہ کی سند کی صرف وہی سب روایتیں پیش کروں جو محض آپ ہی کے روات اور اکابر علماء کے سلسلوں سے اس بارے میں مروی ہیں تو ساری رات صرف ہوجائے گی۔ میرا خیال ہے کہ نمونے کے طور پر اسی قدر کافی ہے جس سے آپ حضرات سمجھ لیں گے کہ علی(ع) وہ شخص ہیں جو ابتدا سے رسول خدا (ص) کے ساتھ تھے لہذا اولی و احق بات یہ ہے کہ ہم انہیں بزرگوار کو والذین معہ کا مصداق سمجھیں نہ کہ اس کو جو غار کی مسافرت میں چند راتیں رسول(ص) کے ہمراہ رہا۔

۲۲۷

علی(ع) کے ایمان طفلی میں اشکال اور اس کا جواب

حافظ : یہ بات تو ثابت ہے اور کسی نے اس حقیقت کا انکار نہیں کیا ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ ساری امت سے سابق الاسلام تھے لیکن یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ یہ سبقت دوسرے صحابہ پر علی کرم اللہ وجہہ کی فضیلت و شرافت کی دلیل نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ خلفائے معظم ابوبکر وعمر و عثمان رضی اللہ عنہم علی کرم اللہ وجہہ کے ایک مدت بعد ایمان لائے لیکن ان کا ایمان علی کے ایمان سے فرق رکھتا تھا اور قطعا ان کا ایمان علی(ع) کے ایمان سے افضل تھا کیوں کہ علی(ع) ایک نا بالغ بچے اور یہ لوگ سن رسیدہ اور کامل العقل تھے۔

بدیہی چیز ہے کہ ایک تجربہ کار جہاں دیدہ اور پختہ عقل رکھنے والے بوڑھے کا ایمان ایک نو خیز و نابالغ لڑکے کے ایمان سے افضل اور بالاتر ہے۔ اس کے علاوہ علی(ع) کا ایمان تقلیدی اور ان لوگوں کا تحقیقی تھا تقلیدی ایمان سے قطعا افضل ہے اس لیے کہ نابالغ اور غیر مکلف بچہ بغیر تقلید کے ہرگز ایمان نہیں لانا اور علی(ع) تیرہ سال کے ایک کم سن بچے تھے جن پر کوئی شرعی تکلیف نہیں تھی لہذا یقینا انہوں نے محض تقلید میں ایمان قبول کیا۔

خیر طلب : آپ جیسے علمائے قوم سے اس قسم کی گفتگو سن کے تعجب ہوتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کی ان باتوں کا کیا مطلب سمجھوں۔ آیا یہ کہوں کہ آپ محض عناد کی بنا پر ہٹ دھرمی کررہے ہیں لیکن اس پر میرا دل آمادہ نہیں ہوتا کہ ایک عالم کی طرف ایسی نسبت دوں؟ تو کیا یہ کہوں کہ آپ بغیر سوچے سمجھے اپنے اسلاف کی پیروی میں اس قسم کی باتیں کرتے ہیں یعنی آپ صرف ( بنی امیہ کے زیر اثر خوارج و نواصب کی تقلید میں بول رہے ہیں اور اپنی تقریر میں کسی تحقیق سے مطلب نہیں رکھتے۔)

میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آیا بچپنے میں علی علیہ السلام کی ایمان اپنی خواہش اور ارادے سے تھا یا رسول اللہ(ص) کی دعوت پر ؟

حافظ: پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ طریقہ گفتگو سے کیوں متاثر ہوتے ہیں کیونکہ جب شبہ اور اشکال دل میں الجھن پیدا کرتا ہے تو اس کو زیر بحث لانا ضروری ہوتا ہے تاکہ حقیقتوں کا انکشاف ہو۔

دوسرے آپ کے جواب میں یہ طے شدہ امر ہے کہ علی(ع) رسول خدا(ص) کی دعوت پر ایمان لائے، اپنی خواہش اور ارادے سے نہیں۔

خیر طلب: آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب علی علیہ السلام کو اسلام کی دعوت دی تو آپ یہ جانتے تھے کہ بچے کے اوپر بلوغ سے پہلے شرعی تکلیف نہیں ہے یا نہیں جانتے تھے؟ اگر یہ کہئے کہ نہیں جانتے تھے تو آپ نے آں حضرت (ص) کی طرف جہالت کی نسبت دی اور اگر جانتے تھے کہ چھوٹے بچے کے لیے کوئی دینی ذمہ داری نہیں ہے اس کے باوجود ان کو دعوت دی تو ایک لغو و مہمل اور بے محل کام کیا۔ بدیہی چیز ہے کہ رسول اللہ(ص) کی طرف لغو اور عبث کام کی نسبت دینا کھلا ہوا

۲۲۸

کفر ہے کیونکہ پیغمبر(ص) لغو اور فصول باتوں سے پاک و مبرا ہے خصوصا خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیونکہ خدا سورہ۵۳ ( النجم) آیت نمبر۳ میں آنحضرت(ص) کے لیے فرماتا ہے۔ "وَمايَنْطِقُ عَنِ الْهَوى إِنْ هُوَإِلَّاوَحْيٌ يُوحى " ( یعنی رسول خدا(ص) اپنی خواہش نفس سے کوئی بات نہیں کہتے ہیں وہ از روئے وحی ہوتا ہے جو ان پر نازل ہوتی ہے۔)

بچپن میں علی(ع) کا ایمان ان کی عقل و فضل کی زیادتی کی دلیل ہے

پس قطعا آن حضرت(ص) نے علی (ع) کو دعوت دینے کے قابل اور اہل جان کے دعوت دی کیونکہ آنحضرت(ص) سے کوئی لغو عمل سرزد نہیں ہوتا اس کے علاوہ کم سنی کمال عقل کی منافی نہیں ہوتی، بلوغ وجوب تکلیف کی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ صرف احکام شرعی میں اس کے لحاظ کیا جاتا ہے نہ کہ عقلی امور میں، اور ایمان ایک عقلی امر ہے تکلیف شرعی نہیں ہے لہذا" ایمان علی فی الصغر من فضائلہ" بچپن میں علی (ع) کا ایمان ان کی ایک فضیلت ہے، جیسا کہ حضرت عیسی بن مریم علی نبینا و آلہ وعلیہ السلام کے لیے جو ابھی نوزائیدہ بچے تھے خدائے تعالی سورہ نمبر۱۹ ( مریم) آیت نمبر۳۱ میں خبر دیتا ہے کہ انہوں نے کہا :

" قالَ إِنِّي عَبْدُاللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا"

(یعنی در حقیقت میں خدا کا ایک خاص بندہ ہوں، اس نے مجھ کو آسمانی کتاب عطا کی اور نبی بنایا ہے۔ ) اور حضرت یحی علیہ السلام کے لیے اسی سورے کی آیت نمبر۱۳ میں فرماتا ہے " و آت ي نا الحکم صبيا" یعنی ہم نے یحی کو بچپنے ہی میں منصب نبوت عطا کیا۔

سید اسماعیل حمیری یمنی متوفی سنہ۱۷۵ ہجری نے جو دوسری صدی ہجری کے مشہور شعراء میں سے تھے ان اشعار میں جو انہوں نے حضرت کی مدح میں کہے تھے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:

وصي محمدوأب ابنيه ووارثه وفارسه الوفيا

وقدأوتي الهدى والحكم طفلاكيحيىي ومأوتيه صبيا

یعنی جس طرح یحی عالم طفلی میں نبوت پر فائز ہوئے اسی طرح جانشین پیغمبر(ص)، آپ کے فرزندوں کے باپ، آپ کے وارث اور جان نثار شہسوار علی علیہ السلام بھی بچپنے ہی میں ولایت و ہدایت کے حامل ہوئے۔

جو فضیلت و منزلت خدا عطا فرماتا ہے و سن بلوغ تک پہنچنے کی محتاج نہیں ہے بلکہ عقل کی پختگی اور صلاحیت طبع پاک طینت کا نتیجہ ہے جس سے فقط ہر سر د خفی کا جاننے والا خدا ہی واقف ہے لہذا اگر یحی(ع) بچپنے میں اور عیسی(ع) گہوارے میں نبوت تک اور علی(ع) تیرہ سال کے سن میں ولایت مطلقہ تک پہنچ جائیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ آپ کی اس گفتگو پر جس سے میں متاثر ہوا زیادہ تر تعجب یہ تھا کہ ایسے شبہات و اعتراضات نواصب و خوارج اور بنی امیہ کے پروپیگنڈے سے متاثر معنادین کے پرئووں سے سننے میں آتے ہیں جو علی علیہ السلام کے ایمان پر نکتہ چینی کرتے

۲۲۹

ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا ایمان معرفت و یقین کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ تلقین و تقلید کی بنا پر تھا۔

اول تو آپ کےسارے موثق اکابر علماء اس فضیلت کے معترف ہیں، دوسرے اگر کم سنی کا ایمان ان حضرت کے لیے باعث فخر وبزرگی نہیں تھا تو آپ نے صحابہ کے مقابلے میں اس قدر فخر و مباہات کیوں فرمایا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا آپ کے اکابر علماء جیسے محمد بن طلحہ شافعی، ابن صباغ مالکی، ابن ابی الحدید اور دوسروں نے بھی حضرت کے اشعار نقل کئے ہیں کہ آپ نے ضمنا فرمایا :

سبقتكم الى الإسلام طراصغيرامابلغت أوانحلمي

( یعنی میں نے اس وقت تم لوگوں پر اسلام میں سبقت کی جب کہ میں ایک چھوٹا بچہ تھا اور سن بلوغ کو نہیں پہنچا تھا۔ ۱۲ مترجم عفی عنہ)

اگر بچپن ان حضرت کا ایمان کوئی فضل و شرف نہ ہوتا تو رسول خدا(ص) کو اس فضیلت کے ساتھ خصوصیت نہ دیتے اور آپ خود اس بات پر فخر و مباہات نہ کرتے، چنانچہ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ ضمن باب۵۶ ص۴۰۲ میں ذخائر العقبی امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی سے بسندخلیفہ ثانی عمر ابن خطاب نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں، ابوبکر، ابو عبیدہ جراح اور ایک جماعت خدمت رسول (ص) میں حاضر تھے کہ آں حضرت(ص) نے اپنا دست مبارک علی(ع) کے شانے پر رکھا اور فرمایا :

"ياعلي أنت أول المؤمنين إيمانا،وأول المسلمين إسلاما،وأنت مني بمنزلةهارون من موسى."

( یعنی یا علی(ع) تم ایمان و اسلام میں تمام مومنین و مسلمین سے اول ہو اور تم میرے لیے بمنزلہ ہارون ہو موسی کے لیے۔)

نیز امام احمد ابن حنبل مسند میں ابن عباس ( خیر امت) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں، ابوبکر، ابو عبیدہ بن جراح اور دوسرے صحابہ کا ایک مجمع پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر تھے کہ آں حضرت(ص) نے علی بن ابی طالب(ع) کے شانے جپر دست مبارک رکھ کے فرمایا :

"فَقَالَ يَاعَلِيُّ أَنْتَ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ إِسْلَاماًوَأَنْتَ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَاناًوَأَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِهَارُونَ مِن ْمُوسَى كَذَبَيَ اعَلِيُّ مَنْ زَعَم َأَنَّهُ يُحِبُّنِي وَيُبْغِضُكَ"

(یعنی تم اسلام و ایمان میں تمام مسلمانوں اور مومنوں سے آگے ہو۔ اور تم میرے لیے بمنزلہ ہارون ہو موسی(ع) سے ۔ اے علی(ع) جھوٹ کہتا ہے وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ مجھ کو دوست رکھتا ہے در آنحالیکہ تم کو دشمن رکھتا ہو۔)

ابن صباغ مالکی فصول المہمہ ص۱۴۵ میں اسی طرح کی روایت کتاب خصائص سے بروایت ابن عباس نیز امام ابو عبدالرحمن نسائی خصائص العلوی میں نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے عمر ابن خطاب ( خلیفہ ثانی) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ علی(ع) کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو کیونکہ میں نے پیغمبر(ص) سے سنا ہے کہ فرمایا : علی(ع) میں تین خصلتیں ہیں میں ( یعنی عمر) چاہتا تھا کہ ان میں سے ایک ہی مجھ کو حاصل ہوتی کیونکہ ان صفتوں میں سے ہر ایک میرے نزدیک ہر اس چیز سے زیادہ محبوب ہے جس پر آفتاب چمکتا ہے پھر کہا کہ ابوبکر ابوعبیدہ اور صحابہ کا ایک گروہ بھی حاضر تھا کہ آں حضرت(ص) نے علی(ع) کے شانے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:

۲۳۰

(عبارت مذکورہ بالا) اور ابن صباغ نے ان کلمات کو دوسروں سے زیادہ نقل کیا ہے کہ فرمایا :

" وَمَنْ أَحَبَّكَ فَقَدْأَحَبَّنِي وَمَن ْأ َحَبَّنِي فَقَدْأَحَبَّه اللَّهَ وَ مَن أَحَبَّه اللَّهَ ادخله الجنة وَمَنْ أَبْغَضَكَ فَقَدْأَبْغَضَنِي وَمَنْ أَبْغَضَنِي فَقَدْأَبْغَضَه اللَّهُ تَعَالی أَدْخَلَهُ النَّارَ"

( یعنی جو شخص تم کو دوست رکھے اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جس نے مجھ کو دوست رکھا اس کو خدا دوست رکھتا ہے اور جس کو خدا دوست رکھتا ہے اس کو جنت میں داخل کرے گا اور جو شخص تم کو دشمن رکھے اس نے مجھ کو دشمن رکھا اور جس نے مجھ کو دشمن رکھا اس کو خدا دشمن رکھتا ہے اور اس کو جہنم میں داخل کرے گا۔)

پس عالم طفلی میں علی علیہ السلام کا ایمان عقل و خرد کی زیادتی کو ثابت کرتا ہے اور حضرت کے لیے ایک ایسی فضیلت ہے کہ لم یسبقہ احد من المسلمین جس میں مسلمانوں میں سے کسی نے آپ پر سبقت نہیں کی ہے۔

طبری اپنی تاریخ میں محمد بن سعد ابن ابی وقاص سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ آیا ابوبکر سب سے پہلے مسلمان ہیں؟ کہا نہیں " وَلَقَدْأَسْلَمَ قَبْلَهُ أَكْثَرُمِنْ خَمْسِينَ رَجُلًاوَلَكِنْ كَانَ أَفْضَلَنَاإِسْلَاماً ."( یعنی ابوبکر سے پہلے پچاس آدمیوں سے زیادہ اسلام لاچکے تھے لیکن وہ اسلام کی حیثیت سے ہم سے افضل تھے۔ نیز لکھا ہے کہ عمر ابن خطاب پینتالیس (۴۵) مردوں اور اکیس عورتوں کے بعد مسلمان ہوئے "و لکن اسبق الناس اسلاما و ايمانا فهو علی بن ابی طالب" ( یعنی لیکن اسلام و ایمان کی حیثیت سے تمام انسانوں سے سابق تر علی ابن ابی طالب(ع) تھے)

علی(ع) کا ایمان کفر سے نہیں تھا، فطری تھا

علاوہ اس کے کہ علی(ع) تمام مسلمانوں سے پہلے ایمان لائے ان کے لیے اس سلسلے میں ایک فضیلت اور ہے جو تمام فضائل میں اہم اور ان کے مخصوص صفات میں سے ہے کہ " اسلامه عن الفطرة و اسلامهم عن الکفر " یعنی علی(ع) کا اسلام فطرت سے ہے اور دوسروں کا اسلام کفر سے تھا۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام ایک چشم زدن کے لیے بھی کفر وشرک کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ بر خلاف عام مسلمین اور صحابہ کے جو کفر وشرک اور بت پرستی سے نکل کے اسلام لائے ( کیونکہ آپ قبل بلوغ ہی دعوت پیغمبر(ص) پر ایمان لے آئے ) چنانچہ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے مانزل القرآن فی علی میں اور میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ:

" وَاللَّهِ مَامِنْ عَبْدٍآمَنَ بِاللَّهِ إِلَّاوَقَدْعَبَدَالصَّنَمَ فَقَال َوَهُوَالْغَفُورُلِمَن ْتَابَ مِنْ عِبَادَةِالْأَصْنَامِ إِلَّاعَلِيَّ بْنَ أَبِيطَالِبٍ فَإِنَّهُ آمَنَب ِاللَّهِ مِنْ غَيْرِأَنْ عَبَدَصَنَماً"

( یعنی قسم خدا کی بندوں ( یعنی امت) میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو ایمان لانے سے پہلے بت پرستی نہ کرچکا ہو سوا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے کیونکہ آپ بغیر بت کی برستش کئے ہوئے خدا پر ایمان لائے۔)

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب۲۴ میں اپنے اسناد کے ساتھ رسول اللہ(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ

۲۳۱

فرمایا :

"سبّاق الامةثلاثةلم يشرکواباللّه طرفةعين: عليّ بن أبيطالب،وصاحب ياسين،ومؤمن آل فرعون ،فهم الصدّيقون ،حبيب النجارمؤمن آل يسوحزقيل مؤمن آل فرعون وعلي بن أبيطالب وهوأفضلهم."

( یعنی تمام امتوں میں ( ایمان و توحید کی دوڑ میں) سبقت لے جانے والے تین شخص ہیں جنہوں نے چشم زدن کے لیے بھی خدا کے ساتھ شرک نہیں کیا، علی ابن ابی طالب(ع) صاحب یاسین اور مومن آل فرعون، پس یہی لوگ سچے ہیں یعنی نجیب بخار مومن آل یاسین حزقیل مومن آل فرعون اور علی ابن ابی طالب(ع) اور آپ ان سب میں، فضل ہیں۔)

چنانچہ نہج البلاغہ میں ہے کہ حضرت نے خود فرمایا : "فانى ولدت على الفطرةوسبق تالى الايمان والهجرة." ( یعنی میں فطرت توحید پر پیدا ہوا اور رسول خدا(ص) کےساتھ ایمان و ہجرت میں پیش قدمی کی۔)

نیز حافظ ابونعیم اصفہانی، شافعی اور آپ کے دوسرے علماء جیسے ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے: "إنّ عليّالم يكفرباللّه طرفةعين " ( یعنی حقیقتا علی علیہ السلام نے پلک جھپکنے کے برابر بھی خدا کے ساتھ کفر نہیں کیا، اور امام احمد بن حنبل نے مسند اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے زمعہ بن خارجہ سے کہا : " إِنَّ ه لَمْ يَعْبُدْصَنَماًوَلَاوَثَناًوَلَمْ يَشْرَبْ خَمْراً" ( یعنی علی علیہ السلام نے ہرگز بت کو سجدہ نہیں کیا اور کبھی شراب نہیں پی اور تمام انسانوں سے پہلے اسلام لائے۔)

آپ جو یہ کہتے ہیں کہ شیخین کا ایمان علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ایمان سے افضل تھا تو کیا آپ نے یہ حدیث شریف نہیں دیکھی ہے جس کو ابن مغازلی شافعی نے فضائل میں، امام احمد حنبل نے مسند میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

"لَوْوُزِنَ إِيمَانُ عَلِيٍ وَإِيمَانُأ ُمَّتِيل َرَجَحَ إِيمَانُ عَلِيٍّ عَلَى إِيمَانِ أُمَّتِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ."

(یعنی اگر علی(ع) کے ایمان کا میری امت ایمان سے وزن کیا جائے تو علی(ع) کا ایمان میری امت کے قیامت تک کے ایمان پر بھاری ہوگا۔)

نیز سید میر علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودت ہفتم میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں اور امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول خدا(ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا

"لَوْأَنَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعَ وَالْأَرَضِين َالسَّبْع وُضِعَن فِي كِفَّةمِيزَانِ وَوُضِعَ إِيمَانُ عَلِيٍ فِي كِفَّةمِيزَانِ لَرَجَحَ إِيمَانُ عَلِيٍّ."

یعنی اگر ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو ترازو کے ایک پلے میں رکھیں اور علی(ع) کا ایمان دوسرے پلے میں تو یقینا علی(ع) کا ایمان سب پر بھاری پڑے گا۔

اور ایک مشہور شاعر سفیان بن مصعب بن کوفی نے اسی بنیاد پر اپنے اشعار میں نظم کیا ہے۔

أشهدبالله لقدقال لنامحمدوالقول منهماخفي

لوأن إيمان جميعالخلق ممن سكن الأرض ومن حلال سما

۲۳۲

يجعل في كفةميزان لكي يوفى بإيمان علي ماوفى.

یعنی خدا کی قسم میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ (ص) نے ہم سے بیان فرمایا کہ کسی پر مخفی نہ رہے کہ اگر زمین و آسمان میں بسنے والے کل مخلوقات کا ایمان ترازو کے ایک پلے میں رکھا جائے اور علی(ع) کا ایمان دوسرے پلے میں تب بھی علی(ع) ہی کا ایمان وزنی ہوگا۔

علی (ع) تمام صحابہ اور امت سے افضل تھے

شافعی فقیہ و عارف میر سید علی ہمدانی نے کتاب مودۃ القربی میں اس سلسلے کی بکثرت ایسی روایتیں نقل کی ہیں جو دلائل و براہین اور احادیث صحیحہ کےساتھ علی علیہ السلام کی افضلیت ثابت کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے مودت ہفتم میں ابن عباس ( خیر امت) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

"أفضل رجال العالمين في زماني هذاعلي عليه السلام"

( یعنی عالمین کے مردوں میں سب سے افضل میرے زمانے میں یہ علی علیہ السلام ہیں۔)

اور آپ کے اکثر منصف علماء علی علیہ السلام کی افضلیت پر عقیدہ رکھتے تھے، چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص۴۰ میں لکھا ہے کہ فرقہ معتزلہ کے پیشوا ابوجعفر اسکافی کی ایک کتاب مجھ کو ملی جس میں لکھا ہوا تھا کہ بشر بن معتمر، ابوموسی، جعفر بن مبشر اور بغداد کے دوسرے علمائے متقدمین کا مذہب یہ تھا کہ

"أن أفضل المسلمين علي بن أبيطالب ثم ابنه الحسن ثم ابنه الحسين ثم حمزةبن عبدالمطلب ثم جعفربن أبيطالب الخ"

( یعنی تمام مسلمانوں سے افضل و برتر علی بن ابی طالب(ع) پھر آپ کے فرزند حسن(ع) پھر کے آپ کے دوسرے فرزند حسین(ع) پھر حمزہ بن عبدالمطلب پھر جعفر ابن ابی طالب(معروف بہ طیار۔)

ہمارے شیخ ابوعبداللہ بصری، شیخ ابوالقاسم بلخی اور شیخ ابوالحسن خیاط ( جو متاخرین علمائے بغداد کے شیخ تھے) ابوجعفر اسکافی کے اسی عقیدے پر تھے ( یعنی حضرت علی(ع) کو افضلیت تھی) اور افضلیت سے مراد یہ تھی کہ یہ حضرات خدا کے نزدیک تمام انسانوں سے بزرگ تھے، ان کا ثواب سب سے زیادہ تھا، اور روز قیامت ان کا درجہ سب سے بلند ہوگا۔ اس کے بعد شرح نہج البلاغہ کے اسی ص۴۰ کے آخر میں معتزلی عقیدے کی تفصیل نظم کی ہے اور کہا ہے:

وخيرخلق الله بعدالمصطفى أعظمهم يوم الفخارشرفا

السيدالمعظم الوصي بعل البتول المرتضى علي

وابناه ثم حمزةوجعفرثم عتيق بعدهم لاينكر

( یعنی رسول خدا(ص) کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر اور اپنے شرف پر فخر کرنے کے روز سب سے بزرگ سید

۲۳۳

بزرگوار، وصی پیغمبر(ص) اور شوہر بتول فاطمہ زہرا(س)، علی مرتضی(ع) ہیں اور ان کے بعد ان کے دونوں فرزند (حسن و حسین علیہما السلام) پھر حمزہ پھر جعفر ( طیار) تھے۔)

شیخ : اگر آپ نے خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت ایمان کے ثبوت میں علماء کے اقوال دیکھے ہوتے تو ایسی باتیں نہ کہتے ۔

خیر طلب: آپ بھی اگر متعصب لوگوں کے اقوال سے منہ موڑ کے اپنے محقق اور منصف علماء کے بیانات پر توجہ کرتے تو دیکھتے کہ وہ سب کے سب افضلیت علی علیہ السلام کی تصدیق کرتے ہیں۔

نمونے کے لیے شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی جلد سیم ص۲۶۴ کی طرف رجوع کیجئے جس میں آپ کے اس بیان کو جاحظ سے نقل کیا ہے کہ ابوبکر کا ایمان علی علیہ السلام کے ایمان سے افضل تھا، اس کے بعد فرقہ معتزلہ کے بڑے عالم اور شیخ ابوجعفر اسکافی نے اس کے رد میں جواب دیا ہے اس کو تفصیل سے درج کیا ہے، چنانچہ عقلی و نقلی دلائل سے کئی صفحات میں ثابت کرتے ہیں کہ بچپن میں حضرت علی(ع) کا ایمان ابوبکر اور تمام صحابہ کے ایمان سے افضل تھا، یہاں تک کہ ص۲۷۵ میں کہتے ہیں کہ ابوجعفر نے کہا ہے:

"إننالاننكرفضل الصحابةوسوابقهم ولكنناننكرتفضيلأحدمن الصحابةعلى علي بن أبيطالب انتهی"

( یعنی ہم صحابہ کے فضائل کا انکار نہیں کرتے لیکن ان میں سے کسی کو علی ابن ابی طالب(ع) سے برتر نہیں مانتے۔)

ان اقوال سے قطع نظر در اصل امیرالمومنین کا نام دوسرے صحابہ کے مقابلے میں لانا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ ان حضرات کی منزل اس قدر بلند ہے کہ صحابہ وغیرہ میں سے کسی کےساتھ ہرگز اس کا موازنہ نہیں ہوسکتا جس سے آپ فضائل صحابہ کو چند یکطرفہ روایتوں کے سہارے ( اگر ان کو صحیح بھی مان لیا جائے) ان حضرات کے جامع و مانع کمالات کے مقابلے پر لانے کی کوشش کریں۔ چنانچہ میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی کی مودت ہفتم میں احمد بن محمد الکرزی بغدادی سے نقل کرتےہیں کہ انہوں نے کہا میں نے عبداللہ بن احمد حنبل کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے اپنے باپ احمد ابن حنبل سے فضیلت صحابہ کا درجہ دریافت کیاتو وہ ابوبکر، عمر اور عثمان کا نام لے کر خاموش ہوگئے۔ " فقلت يا ابت اين علی بن ابی طالب قال هو من اهل البيت لايقاس به هئولاء" یعنی میں نے کہا اے پدر بزرگوار علی ابن ابی طالب (ع) کہاں ہیں؟ ( یعنی ان کا نام کیوں نہیں لیا) میرے باپ نے کہا کہ وہ اہل بیت رسالت میں سےہیں ان پر ان لوگوں کا قیاس نہیں ہوسکتا) یعنی جس طرح سے اہلبیت رسول (ص) کا مقام و مرتبہ آیات قرآنی اور ارشادات رسول کے حکم تمام مقامات و مراتب سے بلند تر ہے اسی طرح علی علیہ السلام کے مدارج تمام صحابہ وغیرہ سے بالاتر ہیں، چنانچہ آپ کا نام صحابہ کے شمار میں نہ لانا چاہیئے بلکہ وہ نبوت اور منصب رسالت کے ساتھ منسوب ہوگا۔

جیسا کہ آیہ مباہلہ میں حضرت کو نفس رسول(ص) کی جگہ پر بتایا گیا ہے۔

اس مقصد پر ایک دوسری حدیث بھی گواہ ہے جو اسی فصل اور مودت ہفتم میں بروایت عبداللہ ابن عمر ابن خطاب ابی وائل سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ ہم نے اصحاب پیغمبر(ص) کو شمار کیا تو ابوبکر ، عمر اور عثمان کا نام لیا، ایک شخص نے کہا :

" يَابَاعَبْدِالرَّحْمَنِ فَعَلِيٌّ ما هوقَالَ: عَلِيٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ لَايُقَاسُ بِهِ احدٌ،هُومَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلیَ اللهُ عَليَه

۲۳۴

وَ آلِه فِي دَرَجَتِهِ"

( یعنی اے ابو عبدالرحمن ( عبد اللہ ابن عمر کی کنیت) علی(ع) کا نام کیوں چھوڑ دیا؟ تو میں نے کہا علی(ع) اہل بیت رسالت میں سے ہیں کسی کا ان پر قیاس نہیں ہوسکتا وہ رسول خدا(ص) کے ساتھ ان کے درجے میں ہیں) یعنی علی علیہ السلام کا حساب امت اور صحابہ سے الگ اور خود پیغمبر(ص) کے ساتھ شامل ہے۔ آپ رسول اللہ(ص) کے ہمراہ آں حضرت کے درجے میں ہیں۔

اجازت دیجئے کہ اسی فصل اور مودت سے ایک حدیث اور پیش کروں ۔ جابر ابن عبداللہ انصاری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک روز مہاجرین و انصار کے سامنے رسول اللہ(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:

"ياعلي لوأنّ أحداعبداللّه حق عبادته ثم يشك فيك وأهل بيتك أنكم أفضل الناس كان في النار"

( یعنی اے علی(ع) اگر کوئی شخص خدا کی پوری عبادت کرے پھر تمہارے اور تمہارے اہل بیت کے تمام لوگوں سے افضل ہونے میں شک کرے تو وہ جہنم میں جھونک دیا جائیگا۔)

یہ حدیث سنتے ہی سارے اہل جلسہ خصوصا حافظ صاحب نے استغفار کیا کہ شک کرنے والوں میں شمار نہ ہوں۔

خلاصہ یہ کہ ان احادیث کثیرہ میں سے جو صحابہ اور تمام امت پر امیرالمومنین علی علیہ السلام کی فضیلت اور حق تقدم کے بارے میں وارد ہوئی ہیں یہ مشتے نمونہ از خروارے ہے اب یا تو ان اخبار صحیحہ کی جو آپ ہی کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں رد کیجئے یا عقل و نقل کے حکم سے تسلیم کیجئے کہ آن حضرت(ع) کا ایمان تمام صحابہ اور امت سے افضل تھا جن میں ابوبکر اور عمر بھی تھے۔

اگر آپ فریقین کی اس متفق علیہ حدیث پر توجہ کیجئے جو غزوہ احزاب اور جنگ خندق میں امیرالمومنین(ع) کے ہاتھ سے مشہور بہادر عمرو بن عبدود کے مارے جانے پر رسول اللہ(ص) نے ارشاد فرمائی کہ:

"ضربةعلي يوم الخندق أفضل من عبادةالثقلين."

( یعنی خندق کے روز علی (ع) کا ایک وار( عمرو بن عبدود پر) جن وانس کی عبادت سے بہتر ہے)

تو آپ خود تصدیق کیجئے گا کہ جب حضرت علی علیہ السلام کا ایک عمل جن و انس کی عبادت سے بہتر ہے تو اگر آپ کے سارے اعمال و عبادات شامل ہو جائیں تو یقینا آپ کی افضلیت ثابت ہوگی اور اس سے سوا متعصب اور کینہ پرور انسان کے اور کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

اگر تمام صحابہ اور اہل عالم پر آپ کی افضلیت کے لیے اور کوئی دلیل نہ ہوتی تو صرف آیت مباہلہ ہی اس کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہوتی جس میں خدا نے علی (ع) کو بمنزلہ نفس رسول (ص) قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ مسلم ہے کہ رسول اللہ اولین و آخرین میں تمام انسانوں سے افضل تھے۔ لہذا آیہ شریفہ میں کلمہ انفسنا کے حکم سے علی علیہ السلام بھی اولین و آخرین میں سب سے افضل ٹھہرتے ہیں۔ پس آپ حضرات تصدیق کیجئے کہ والذین معہ کے حقیقی مصداق امیرالمومنین علیہ السلام ہیں جو تمام مسلمانوں سے پہلے ظہور اسلام کی ابتدا ہی سے رسول خدا(ص) کے ہمراہ تھے اور آخر عمر تک ان سے ذرہ برابر بھی کوئی لغزش نہیں ہوئی۔

( نماز کا وقت ہوگیا لہذا مولوی صاحبان فریضہ ادا کرنے اٹھے، فراغت کے بعد چائے نوشی ہوئی پھر میری طرف سے سلسلہ کلام شروع ہوا۔)

خیر طلب : رہی یہ بات کہ شب ہجرت امیرالمومنین (ع) رسول خدا(ص) کے ہمراہ کیوں روانہ نہیں ہوئے تو یہ بہت واضح چیز ہے کیونکہ آنحضرت(ص) کے حکم سے چند اہم کام آپ کے سپرد تھے جن کو مکہ معظمہ میں ٹھہرکے انجام دینا تھا۔

۲۳۵

اس لیے کہ پیغمبر(ص) کے نزدیک علی(ع) سے زیادہ کوئی امین نہیں تھا جو ان امانتوں کو جو آں حضرت(ص

کے پاس جمع تھیں، ان کے مالکوں تک پہنچاتا۔

( دوست و دشمن کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ(ص) اہل مکہ کے امین تھے، یہاں تک کہ دشمن بھی اپنی امانتیں آںحضرت(ص) کے پاس جمع کرتے تھے تاکہ تلف ہونے سے محفوظ رہیں۔ اسی وجہ سے آںحضرت(ص) مکہ میں محمد امین(ص) کے نام سے مشہور تھے۔)

دوسرا فرض امیرالمومنین(ع) کے ذمے یہ تھا کہ آنحضرت(ص) کے اہل و عیال اور باقی مسلمانوں کو مدینے پہنچائیں۔

علاوہ ان چیزوں کے اگر علی علیہ السلام اس رات غار میں نہیں تھے تو قطعا اس سے بالاتر منزل حاصل کی کہ رسول اللہ(ص) کے بستر اور چادر میں آرام فرمایا اگرچہ خلیفہ ابوبکر آں حضرت(ص) کے طفیل میں ثانی اثنین کہے جاتے ہیں لیکن اسی شب میں مصاحبت غار سے زیادہ نیک اور اہم عمل کے سلسلے میں مستقل طور پر ایک آیت حضرت کی شان میں نازل ہوئی، اور یہ عمل خود آپ کی ایسی فضیلت و منقبت ہے جس پر فریقین ( شیعہ و سنی) کا اتفاق ہے کیونکہ اگر اس رات امیرالمومنین(ع) فداکاری اور جان نثاری نہ فرماتے تو رسول اللہ(ص) کی جان مبارک بہت بڑے خطرے میں تھی۔

شب ہجرت بستر رسول (ص) پر سونے سے علی(ع) کی شان میں نزول آیت

چنانچہ آپ کے موثق اکابر علماء نے اپنی تفسیروں اور معتبر کتابوں میں اس بزرگ فضیلت کو نقل کیا ہے جیسے ابن سبع مغربی نے شفاء الصدور میں، طبرانی نے اوسط اور کبیر میں، ابن اثیر نے اسدالغابہ جلد چہارم ص۲۵ میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ فی معرفت الائمہ ص۳۳ میں، ابو اسحق ثعلبی، فاضل نیشاپوری امام فخر الدین رازی اور جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیروں میں، حافظ ابونعیم اصفہانی مشہور شافعی محدث نے مانزل القرآن فی علی میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، شیخ الاسلام ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب ۶۲ میں، امام احمد حنبل نے مسند میں، محمد بن جریہ نے مختلف طریقوں سے، ابن ہشام نے سیرۃ النبی میں، حافظ محدچ شام نے اربعین طوال میں، امام غزالی نے احیاء العلوم جلد سوم ص۲۲۳ میں، ابوالسعادات نے فضائل العترۃ الطاہرہ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص۲۱ میں اور آپ کے دوسرے بڑے بڑے علماء نے مختلف عبارات و الفاظ میں اس مطلب کا خلاصہ نقل کیا ہے اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۲۱ میں بکثرت علماء سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حکم خداوندی سے مدینہ منورہ کے لیے آمادہ ہوئے تو شب ہجرت امیرالمومنین علی علیہ السلام سے فرمایا کہ میری سبز خضرمی چادر جو میں رات کو استعمال کرتا ہوں اوڑھ لو اور میرے بستر پر سوجائو پس علی(ع) آنحضرت(ص) کی جہ سو رہے اور وہ سبز چادر سر سے اوڑھ لی تاکہ گھر کا محاصرہ کئے ہوئے کفار یہ نہ سمجھیں کہ بستر پر علی(ع) ہیں، یہاں تک کہ رسول خدا(ص) صحیح و سلامت تشریف لے گئے۔

۲۳۶

خدا کی جانب سے جبرئیل و میکائیل کو خطاب ہوا کہ میں نے تم دونوں کے درمیان بھائی چارہ قرار دیا ہے اور قطعا تم میں سے ایک کی عمر دوسرے سے زیادہ ہے لہذا کون اس کو منظور کرتا ہے کہ اپنی زیادہ عمر جس کا اس کو علم بھی نہیں ہے دوسرے کو بخش دے؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ حکم ہے یا اختیاری فعل؟ خطاب ہوا کہ حکم نہیں ہے تم کو اختیار حاصل ہے۔ تو ان میں سے کوئی بھی تیار نہیں ہوا کہ اپنی خوشی سے عمر کی زیادتی دوسرے کو دے دے اس وقت ارشاد ہوا۔

" انی آخيتبين علی ولی ومحمدنبيّ (ص) فنثر علی حياته للنبی فوقدعلى فراش النبی بقيه بمهجته اهبطاإلى الأرض ،فاحفظاه من عدوه"

( یعنی در حقیقت میں نے اپنے ولی علی(ع) اور اپنے نبی محمد(ص) کے درمیان برادری قائم کی ہے پس علی(ع) نے پیغمبر(ص) کی زندگی پر اپنی زندگی کو فدا اور نثار کردیا ہے اور ان کے بستر پر سو کردل و جان سے ان کی حفاظت کر رہے ہیں، لہذا تم دونوں زمین پر جائو اور دشمنوں کے شر سے ان کی حفاظت کرو۔)

چنانچہ دونوں زمین پر آئے ، جبرئیل حضرت کے سرہانے اور میکائیل پائینی بیٹھے اور جبرئیل کہہ رہے تھے :

"بخ بخ من مثلك ياابن أبيطالب اللّه عزّوجلّ يباهي بک الملائكة"

( یعنی مبارک ہو مبارک ہو کون ہے تمہارے مثل اے ابوطالب کے فرزند کیونکہ خدائے عزوجل تمہارے وجود سے ملائکہ پر فخر و مباہات کررہا ہے۔)

پھر خاتم الانبیاء(ص) پر سورہ ۲ ( بقرہ) کی آیت ۲۰۳ نازل ہوئی " وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغاءَمَرْضاتِ اللَّهِ واللَّه رئوف بالعبادِ "

( یعنی انسانوں میں سے بعض ( علی علیہ السلام) وہ ہیں جو رضائے الہی کے لیے اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں اور خدا ایسے بندوں پر مہربان ہے۔)

اب میں آپ حضرات سے درخواست کرتا ہوں کہ جب قیام گاہ پر تشریف لے جائیے تو اس آیہ شریفہ کو آیہ غار سے جو آپ کا محل استدلال ہے ملاکر بغیر شیعہ و سنی کے بغض و محبت کے غیر جانبداری اور انصاف سے مطالعہ فرمائیے اور غور کیجئے کہ آیا افضلیت اس شخص کے لیے ہے جو مسافرت میں چند روز غم و اندوہ کے ساتھ پیغمبر(ص) کے ہمراہ رہا ہو یا اس شخص کے لیے جس نے اسی شب میں جان نثاری کی اور قدرت و شجاعت و مسرت کے ساتھ علم و ارادہ سے اپنا نفس رسول اللہ(ص) پر قربان کیا تاکہ آن حضرت(ص) سلامتی کے ساتھ تشریف لے جائیں ، پروردگار عالم نے ملائکہ روحانی کے سامنے اس کی ذات پر فخر و مباہات کیا اور اس کی مدح میں ایک مستقل آیت نازل فرمائی ہے۔ چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے ہٹ دھرمی معاندین کے مقابلے میں تھوڑے غور و فکر سے کام لے کر از روئے انصاف تصدیق کی ہے کہ علی علیہ السلام ابوبکر سے افضل تھے اور بستر پر علی(ع) کا سونا غار میں ابوبکر کی مصاحبت سے بدرجہ ہا بہتر و بالاتر تھا۔

سنی علماء کا اعتراف کہ غار میں مصاحبت ابوبکر سے علی(ع) کا بستر رسول (ص) پر سونا بہتر تھا

اگر شرح نہج البلاغہ جلد سیم کو ص۲۶۹ سے ص۲۸۱ تک غور سے پڑھئے اور ابوبکر پر علی(ع) کی افضلیت میں، ابوعثمان

۲۳۷

جاحظ ( ناصبی) کے شبہات کے رد میں معتزلیوں کے بہت بڑے عالم اور شیخ امام ابو جعفر اسکافی کے بیانات اور دلائل پر گہری نظر ڈالئے تو دیکھئے گا کہ یہ انصاف پسند عالم مضبوط دلیلوں کے ساتھ بہ صراحت ثابت کرتا ہے کہ پیغمبر(ص) کے بستر پر آنحضرت (ص) کے حکم سے علی(ع) کا سونا غار کے سفر میں ابوبکر کی چند روزہ مصاحبت سے افضل تھا، یہاں تک کہ لکھا ہے :

"قال علماءالمسلمين إن فضيلةعلي ع تلك الليلةلانعلم أحدامن البشرنالمثله اإلاماكان من إسحاق وإبراهيم عنداستسلامه للذبح"

( یعنی علمائے مسلمین کا اتفاق ہے کہ حقیقتا اس رات میں علی(ع) کی وہ فضیلت ہے جس کو کوئی انسان نہیں پاسکا سوا اسحق وہ ابراہیم کے جب وہ ذبح اور قربانی پر آمادہ تھے)

( لیکن اکثر مفسرین و مورخین اور علمائے اخبار کا عقیدہ ہے کہ ذبیح اسماعیل تھے نہ کہ اسحق) اور ص۳۷۱ کے آخر میں ابو عثمان جاحظ ( ناصبی) کے جواب میں ابو جعفر اسکافی کا قول نقل کیا ہےکہ وہ کہتے ہیں :

"قد بينا فضيلة المبيت على الفراش على فضيلة الصحبةفي الغار بما هو واضح لمن أنصف و نزيد هاهنا تأكيدا بما لم نذكره فيما تقدم فنقول إن فضيلة المبيت على الفراش على الصحبة في الغار لوجهين أحدهما أن عليا ع قد كان أنس بالنبي ص و حصل له بمصاحبته قديما أنس عظيم و إلف شديد فلما فارقه عدم ذلك الأنس و حصل به أبو بكر فكان ما يجده علي ع من الوحشة و ألم الفرقة موجبا زيادة ثوابه لأن الثواب على قدر المشقة.و ثانيهما أن أبا بكر كان يؤثر الخروج من مكة و قد كان خرج من قبل فردا فازداد كراهية للمقام فلما خرج مع رسول الله ص وافق ذلك هوى قلبه و محبوب نفسه فلم يكن له من الفضيلة ما يوازي فضيلة من احتمل المشقة العظيمة و عرض نفسه لوقع السيوف و رأسه لرضخ الحجارة لأنه على قدر سهولة العبادة يكون نقصان الثواب "

( ماحصل مطلب یہ کہ میں پہلے شب ہجرت علی(ع) سے بستر رسول(ص) پر سونے کو ابوبکر کے غار میں پیغمبر(ص) کے ساتھ ہونے سے اس طرح افضل ثابت کرچکا ہوں کہ کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اب مزید تاکید کے لیے جو کچھ کہہ چکا ہوں اس کے علاوہ اور دو صورتوں سے اس مقصد کو ثابت کرتا ہوں۔ رسول اللہ(ص) کے ساتھ علی علیہ السلام کو قدیمی مصاحبت کی وجہ سے شدید انس و محبت تھی لہذا جب جدائی ہوئی تو سارا لطف الفت جاتا رہا اور اس کے برعکس ابوبکر کو یہی چیز حاصل ہوگئی۔ پس موقع پر علی علیہ السلام جو وحشت اور درد جدائی محسوس کر رہے تھے اس سے آپ کا ثواب بڑھ رہا تھا کیونکہ ثواب عمل مشقت کے لحاظ سے ہوتا ہے( جیسا کہ قول ہے افضل الاعمال احمزہا۔ (یعنی جو عمل زیادہ سخت ہے وہی افضل ہے) اور ابوبکر چونکہ برابر مکے سے نکلنے پر تیار تھے چنانچہ پہلے کبھی اکیلے نکل بھی چکے تھے، لہذا ان کے لیے قیام مکہ کی ناگواریی بڑھ گئی، پس جب وہ رسول اللہ(ص) وہاں سے نکلے تو ان کی تمنائے دلی اور مراد قبلی بر آئی لہذا ان کے لیے کوئی ایسی فضیلت ثابت نہیں ہوتی جو فضیلت علی(ع) کے مقابل لائی جاسکے جنہوں نے عظیم مشقت برداشت کی، اپنی جان کو تلواروں کے سامنے اور سر کو دشمنوں کی سنگباری کے لیے پیش کردیا۔ بدیہی چیز ہے، کہ

۲۳۸

سہولت کے حساب سے عبادت کا ثواب گھٹ جاتا ہے۔ اور ابن سبع مغربی شفاء الصدور میں بسلسلہ بیان شجاعت علی علیہ السلام کہتے ہیں :

" علماء العرب اجمعوا علی ان نوم علی عليه السلام علی فراش رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم افضل لمن خروجه معه و ذالک انه وطن نفسه علی مفاعاته لرسول الله صلی الله عليه و آله وسلم و اثر حياته و اظهر شجاعته بين اقرانه"

یعنی علماء عرب کا اجماع ہے کہ شب ہجرت علی علیہ السلام کا بستر رسول(ص) پر سونا ان کے آں حضرت کے ہمراہ باہر نکلنے سے افضل تھا کیونکہ آپ نے اپنے نفس کو آںحضرت(ص) کا قائم مقام بنایا اپنی زندگی کو آں حضرت(ص) پر قربان کیا اور اپنے ہم عصروں کے درمیان اپنی شجاعت ثابت کردی۔ یہ مطلب اس قدر واضح ہے کہ کسی نے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا ہے سوا جنون یا جنون سے بدترتعصب کی وجہ سے بس اتنا ہی کافی ہے۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ اس مقام پر گفتگو کا سلسلہ طولانی ہوگیا، بہتر ہے کہ اب ہم پھر اصل مطلب پر آجائیں آپ نے جو یہ فرمایا کہ اشداء علی الکفار سے خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب مراد ہیں تو فقط آپ کے دعوے سے یہ بات نہیں مانی جاسکتی، دیکھنا چاہئیے کہ آیا یہ صفت بھی موصوف کی حالت سے مطابقت کرتی ہے یا نہیں چنانچہ اگر مطابق ہے تو ہم دل وجان سے ماننے کے لیے تیار ہیں۔

علمی مباحث اور دینی مناظروں میں عمر کے اندر کوئی تیزی نہیں تھی

بدیہی بات ہے کہ شدت اور تیزی دو طرح کی ہوسکتی ہے ایک علمی مباحث اور مذہبی مناظروں میں تاکہ مخالف علماء کےمقابل زور کلام دکھایا جاسکے۔ دوسرے میدان جنگ اور جہاد فی سبیل اللہ میں بذات خود ثبات قدم، شجاعت اور درشتی کا ثبوت دیا جائے۔ چنانچہ علمی مباحث اور دینی مناظروں کے سلسلے میں تاریخ کے اندر خلیفہ عمر کی قطعا کوئی مضبوطی نظر نہیں آتی کیونکہ جہاں تک میں نے فریقین ( شیعہ و سنی) کی کتب اخبار و تواریخ اور غیروں کی کتابیں پڑھی ہیں اور اس بارے میں خلیفہ عمر کی کوئی شدت اور شہ زوری نہیں دیکھی، چنانچہ اگر آپ حضرات نے موصوف کی کوئی علمی مہارت دینی مباحثہ اور غیر مذہب کے عالموں سے مںاظرے ان کی ساری تاریخ زندگی میں دیکھے ہوں تو بیان کیجئیے میں ممنون ہوں گا کیونکہ اس سے میرے معلومات میں اضافہ ہوگا۔

عمر کا اقرار کہ علی(ع) مجھ سے علم و عمل میں بہتر ہیں

البتہ جہاں تک مجھے معلوم ہے اور آپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی اپنی معتبر کتابوں میں لکھا ہے خلفاء ثلاثہ کے

۲۳۹

زمانوں میں ہر علمی اور مذہبی مشکل مسئلہ کو حل کرنے والے صرف علی علیہ السلام تھے۔

باوجودیکہ بنی امیہ اور خلفائے ثلاثہ کے عقیدت مندوں نے خلفاء کے فضائل میں اس کثرت سے روایتیں گھڑی ہیں( جیسا کہ خود آپ کے علماء نے جرح و تعدیل کی کتابوں میں لکھا ہے) لیکن وہ لوگ ان حقیقتوں کو نہیں چھپا سکے کہ جس وقت یہودی عیسائی اور دوسرے مخالف فرقوں کے علماء ابوبکر، عمر اور عثمان کے دور خلافت میں ان کے پاس آکر یا خطوط بھیج کر مشکل مسائل دریافت کرتے تھے تو یہ لوگ مجبور ہو کر علی علیہ السلام کا وسیلہ اختیار کرتے تھے اور کہتے تھے ان پیچیدہ اور مشکل سوالات کا سوا علی ابن ابی طالب(ع) کے اور کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ تشریف لاتے تھے اور اس طریقے سے ان کو جواب دیتے تھے، کہ وہ مطمئن ہوکر مسلمان ہوجاتے تھے،جیسا کہ خلفاء کے تاریخی حالات میں تفصیل سے درج ہے، خلفاء ابوبکر و عمر وعثمان، کا علی علیہ السلام کے مقابلے میں اپنی مجبوری ظاہر کرنا، آں حضرت کی برتری کا اقرار اور یہ کہنا کہ اگر علی نہ ہوتے تو ہم ہلاک ہوجاتے، اس مقصد کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

چنانچہ آپ کے مخفی اکابر علماء نے نقل کیا ہے کہ خلیفہ ابوبکر کہتے تھے۔ " أقيلوني أقيلوني فلستبخيركم وعليّ فيكم " یعنی مجھ کو برطرف کرود مجھ کو برطرف کردو کیونکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں جب کہ علی(ع) تم میں موجود ہوں۔

اور خلیفہ عمر نے مختلف معاملات اور مواقع پرستر مرتبہ سے زیادہ اقرار کیا کہ " لولاعلي لهلك عمر." یعنی اگر علی(ع) نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوگیا ہوتا۔ کتابوں میں ان خطرناک مواقع میں سے اکثر کا ذکر موجود ہے۔ لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ اب جلسے کا زیادہ وقت خراب ہوکیونکہ شاید اس سے اہم مسائل پر گفتگو کرنا ضروری ہو۔

نواب : قبل صاحب اس موضوع سے بڑھ کے کون سا مطلب اہم ہوگا کیا یہ کلمات ہماری معتبر کتابوں میں موجود ہیں؟ اگر میں اور آپ کے پیش نظر ہیں تو ہماری مزید بصیرت کے لیے بیان فرمائیے ہم ممنون ہوں گے۔

خیر طلب : میں نے عرض کیا کہ اکابر علماء اہلسنت اس بات پر متفق ہیں( سوا چند متعصب اور ضدی لوگوں کے) اور مختلف عبارات و الفاظ کے ساتھ متعدد مقامات پر اس کو نقل کیا ہے۔ میں مطلب کی وضاحت اور اتمام حجت کے لیے ان میں سے بعض اسناد و کتب کی طرف جو اس وقت مجھ کو یاد ہیں اشارہ کرتا ہوں۔

قول عمر لولاعلي لهلك عمر کے اسناد

۱۔ قاضی فضل اللہ بن روز بہان متعصب نے ابطال الباطل میں۔ ۲۔ ابن حجر عسقلانی متوفی سنہ۸۵۲ ھ نے تہذیب التہذیب مطبوعہ حیدر آباد دکن ص۳۳۷ میں۔ ۳۔ نیز ابن حجر نے اصابہ جلد دوم مطبوعہ مصر ص۵۰۹ میں۔ ۴۔ ابن قتیبہ دینوری متوفی سنہ۳۷۶ھ نے کتاب تاویل مختلف الحدیث ص۲۰۱، ۲۰۲ میں۔ ۵۔ ابن حجر مکی متوفی سنہ۹۷۳ھ نے صواعق محرقہ ص۷۸ میں۔ ۶۔ حاج احمد آفندی نے ہدایت المرتاب ص۱۲۶ ، ص۱۵۲ میں۔ ۷۔ ابن اثیر جزری متوفی سنہ۶۳۰ھ نے اسد الغابہ جلد چہارم ص۲۲ میں۔ ۸۔ جلال الدین

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369