پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310164 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

فان کان لا بد من واحد فسیری الی الموت سیرا جمیلا

( یعنی ذلت کی زندگی اور عزت کی موت دونوں لقمے بہت تلخ معلوم ہوتے ہیں لیکن اگر دونوں سے ایک لازمی ہوجائے تو اے نفس خوشی کے ساتھ موت کی طرف بڑھ ۔ مترجم) اچانک دشمن کا ایک تیر پیشانی مبارک پر پڑا اور آپ نے شربت شہادت نوش فرمایا ۔ آپ کے فرزدن جناب یحیٰ شیعوں کے ہمراہ اس ہنگامے میں اپنے پدر بزرگوار کا جسد مبارک خفیہ طریقہ پر اٹھا لے گئے، شہر کے کنارے پانی کی نہر کے درمیان قبرکھودی کر دفن کیا اور لحد بند کرنے کے بعد اوپر سے پانی جاری کردیا تاکہ دشمنوں کو پتہ نہ چلے کہ قبر مبارک کہاں پر ہے لیکن شرارت پسند مفسدوں نے یوسف کو خبر دی اس نے چند آدمی بھیجے جو ان جناب کی قبر کھود کر میت کو باہر لائے اور سر اقدس کاٹ کر ہشام کے پاس شام کی طرف روانہ کیا ۔ اس کینے اور بد اصل ملعون نے یسف حاکم کو فہ کو لکھ اکہ جناب زید کے جسم کو عریاں کر کے سولی پر لٹکا دیا جائے ان ملاعین نے اسی پر عملدا آمد کیا اور ماہ صفر سنہ ۱۲۱ھ میں ذریت رسول (ص) کا بدن برہنہ کر کے دار پر آویزاں کیا پورے چار سال تک اسی عالم و زاہد اور رسول اﷲ(ص) کے پارہ تن کا جسم مبارک سولی پر رہا یہاں تک کہ سنہ۱۲۶ ھ میں جب ولید بن یزید بن عبدالملک بن مروان خلیفہ ہوا تو اس کے حکم سے ان بزرگوار کے استخوان دار سے اتار کر آگ میں جلا دے گئے اس کے بعد ان کی خاکستر ہوا میں اڑا دی گئی۔

شہادت جناب یحیٰ

اور یہی سلوک اس ملعون نے جناب یحی بن زید کے جسم کے ساتھ جرجان (۱) میں کیا جو بلاد خراسان میں سے ہے ( اور اب گرگان کہا جاتا ہے۔) کیونکہ ان بزرگوار نے بھی بنی امیہ کے ظلم و جور کے خلاف مقاومت کی ( جس کی مفصل تاریخ موجود ہے) اور میدان جنگ میں شہید ہوئے۔ آپ کے سر کو بدن سے جدا کر کے شام بھیجا گیا اور پدر بزرگوار کی طرح آپ کا جسم بھی دار پر لٹکا دیا گیا جو چھ سال تک اسی طرح آویزاں رہا اور دوست دشمن یہ حال دیکھ کر روتے تھے۔ یہاں تک کہ ولید واصل جہنم ہوا۔ اور ابو مسلم خراسانی نے جو بنی عباس کی خیر خواہی میں بنی امیہ کے مقابلہ پر اٹھا تھا ۔ اس اولاد رسول(ص) کے جسم کو راہ ظلم سے نجات دے کر جرجان ( گرگان) میں دفن کیا۔ آپ کی قر اب تک عام طور پر زیارت گاہ اور مسلمانوں کے لیے محل احترام ہے۔

(سارے اہل جلسہ یہ واقعات سن کر متاثر ہوئے بلکہ رونے لگے اور بے اختیار ان ملاعین پر لعنت کی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ـ ابو الفرح ، اصفہانی اور بعض دوسروں کے نزدیک یحی کی قبر جو زنجان میں ہے جو کہ گورگان کا مغرب ہے۔

۲۱

لہذا اس خبیث و لعین خاندان کے ایسے اقدمات کے پیش نظر جن کا ایک نمونہ ذکر کیا گیا ہے۔کوئی تعجب نہیں تھا ۔ کہ اگر ان لوگوں کو موقع ملتا ہتو امام بر حق حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے جسم مطہر کیسا تھ بھی اس قسم کا برتاؤ کرتے چنانچہ حسب وصیت ان حضرت کا جنازہ رات کے وقت دفن ہوا اور قبر پر کوئی علامت تک بھی نہیں چھوڑی گئی یہ قبر مبارک زمانہ ہارون رشید تک عام طور پر نگاہوں سے مخفی رہی۔ یہ عباسی خلیفہ ایک روز صحرائے

نجف میں جو ایک نیستان اور ہرنوں کی قیامگاہ تھا شکار کے لیے آیا تازی کتوں اور چیتوں نے ہرنوں کا پیچھا کیا۔ انہوں نے تل نجف (۱) کے اوپر پناہ لی لیکن کتے اور چیتے ٹیلے کے اوپر نہیں گئے کئی مرتبہ یہی اتفاق ہوا۔ یعنی جب کتے واپس آجاتے تو ہرن نیچے اترتے تھے اور جیسے ہی حملہ ہوتا تھا وہ پھر ٹیلے پر پناہ لے لیتے تھے خلیفہ نے سوچا کہ اس مقام پر کوئی ایسا راز ہونا چاہئے جس کی وجہ سے کتے اوپر نہیں چڑھتے ۔ چنانچہ آدمیوں کو بھیجا جو وہاں کے باشندوں میں سے ایک بوڑھے شخص کو خلیفہ کے پاس بلا لائے اس نے پوچھا کہ اس ٹیلے میں کیا راز ہے کہ کتے ہرنوں کے تعاقب میں اوپر نہیں جاتے؟

قبر علی علیہ السلام کا ظہور

بوڑھے نے کہا کہ میں اس کا راز جانتا ہوں لیکن کہتے ہوئے ڈرتا ہوں ۔ خلیفہ نے اس کو امان دی تو اس نے بتایا کہ میں ایک مرتبہ اپنے باپ کے ہمراہ آیا۔ اس نے اس ٹیلے پر زیارت اور نماز ادا کی میں نے پوچھا کہ یہاں کیا چیز ہے؟ تو اس نے کہا کہ ہم لوگ اسی جگہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ زیارت کو آئے تھے ، اور ان حضرت نے فرمایا تھا کہ اس مقام پر ہمارے جد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی قبر ہے جو عنقریب ظاہر ہوگی۔

خلیفہ کے حکم سے وہ جگہ کھودی گئی یہاں تک کہ ایک قبر کی علامت ملی اور وہیں پر ایک لوح نظر آئی جس پر سریانی خط می دو سطریں تھیں ترجمہ کیا گیا تو یہ مضمون ظاہر ہوا۔ "بسم اللّه الرحمن الرحيم هذا ما حفره نوح النبىّ لعلىّ وصىّ محمد قبل الطوفان بسبعمأة عام منه " ( ۲ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ـ نجف لغت میں اس پشتے اور بلندی کے معنی میں ہے جس پر پانی نہ پہنچے اور پشت کوفہ پر ایک پانی کے بند کا نام ہے جو اس کے گھروں اور قبروں تک سیلاب کے پہنچنے میں حائل ہے اور اسی بند کے قریب حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی قبر مبارک ہے جیسا کہ فیروز آبادی نے قاموس کے اندر لغت نجف کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔

۲ ـ یہ وہ قبر ہے جسے نوح(ع) پیغمبر نے حضرت محمد مصطفی (ص) کے وصی علی (ع) کے لیے طوفان سے سات سو برس قبل تیار کیا۔

۲۲

ہارون نے اس کا احترام کیا اور حکم دیا کہ مٹی اپنی جگہ پر ڈال دی جائے پا پیادہ ہوا وضو کیا دو رکعت نماز پڑھی کافی گریہ کیا اور اپنے کو قبر مطہر کی خاک پر غلطاں کیا ۔ پھر اس کے حکم سے یہ کیفیت مدینہ میں امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں لکھی گئی۔ اور معاملہ کی حقیقت دریافت کی گئی حضرت نے جواب میں لکھا کہ ہاں اسی مقام پر میرے جد بزرگوار امیرالمومنین علیہ السلام کی قبر ہے، چنانچہ ہارون کے حکم سے ان حضرت (ع) کی قبر مطہر پر ایک پتھر کی عمارت بنی جو حجر ہارونی کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ خبر چاروں طرف مشہور ہوگئی اور مومنین سامان سفر مہیا کر کے حضرت کی زیارت کے لیے پہنچنے گے لہذا جناب سید ابراہیم مجاب وجد سلطان الواعظین ۔۔۔۔ بھی موقع ملتے ہی شیراز سے عازم زیارت ہوئے اور زیارت سے فارغ ہونے کے بعد کربلائے معلے میں واطی اجل کو لبیک کہی۔ اپنے جد ب

زرگوار حضرت ابو عبداﷲ الحسین (ع) کے جوار میں دفن ہوئے انکی قبر شریف رواق حضرت کے شمالی مغربی گوشہ میں دوستوں کی زیارتگاہ ہے۔

مدفن امیرالمومنین علیہ السلام میں اختلاف

حافظ : میرا خیال ہے کہ جو فیصلہ آپ نے فرمایا ہے اس کے باوجود مولانا علی کرم اﷲ وجہ کی قبر نجف میں نہیں ہے۔ کیونکہ علماء کو اس میں اختلاف ہے بعرض کہتے ہیں کہ کوفہ کے دارالامارہ میں بعض نے کہاہے قبلہ مسجد جامع کوفہ میں بعض نے لکھا ہے مسجد کوفہ کے باب کندہ میں بعض کا قول ہے رحبہ

کوفہ میں اور بعض دوسروں کا بیان ہے کہ قبرستان بقیع کے اندر فاطمہ(س) کے پہلو میں ہے۔ ہمارے افغانستان میں کابل کے نزدیک بھی ایک مقام مزار علی(ع) کے نام سے موسوم ہے مشہور ہے کہ مولانا علی کرم اﷲ کا جسد لوگوں نے ایک صندوق میں رکھ کر اور اونٹ کی پشت پر باندھ کے مدینہ کیطرف روانہ کیا ، ایک جماعت اس خیال سے کہ صندوق کے اندر قیمتی چیزیں ہوں گی اس کو چھین لے گئے۔ جب کھولا اور ان حضرت کا جسد مبارک دیکھا تو کابل میں لاکر اسی مقام پر دفن کردیا اور اس وجہ سے عام طور پر لوگ اس بقعہ کا احترام کرتے ہیں۔

خیر طلب : یہ سارے اختلافات ان حضرت کی وصیت کے نتیجہ میں پیدا ہوئے کیونکہ آپ نے پوشیدہ رکھنے کا حکم فرمایا تھا اور جس کی تفصیل مٰں نے ضروری نہیں سمجھی تھی، چانچہ امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی رحلت کے وقت اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام سے فرمایا کہ مجھ کو نجف میں دفن کر دینے کے بعد میرے لیے چار مقامات پر چار قبریں تیار کرانا۔ ۱۔ مسجد کوفہ میں ۲۔ رحبہ میں ۳۔ خانہ جعدہ ہیرہ میں ۴۔ غرمی میں تاکہ کوئی شخص میری قبر سے آگاہ نہ سکے۔

اور در اصل یہ اختلاف آپ کے علماء کے درمیان ہے جو دوسرے اشخاص کی باتوں سے اثر پذیر ہوتے ہیں ورنہ علماء شیعہ کی جماعت اس قول پر متفق ہیں کہ ان حضرت کی قبر مبارک نجف اشرف میں ہے کیونکہ انہوں نے جو

۲۳

کچھ اہل بیت طہارت(ع) سے حاصل کیا ہے وہ یقینی چیز ہے ۔ ا ه ل البيت ادری بما فی البيت ( یعنی گھر والے سب سے زیادہ گھر کی چیزوں سے واقف ہوتے ہیں۔)

لیکن جو آپ نے یہ فرمایا کہ حضرت علی(ع) کا مزار کابل کے قریب ہے تو یہ بہت مضحکہ خیز بات ہے اور یہ شہرت مکمل طور پر غلط ہے یہ قضیہ ایک صحیح خبر کے مقابلہ میں اضافے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ۔

مجھ کو تعجب تو آپ کے علماء پر ہوتا ہے جنہوں نے ہر محل پر عترت طاہرہ (ع) اور ان کے اقوال سے جدائی اختیار کی ہے۔ یہاں تک کہ اس پر بھی آمادہ نہ ہوئے کہ باپ کی قبر کی جگہ اس کے فرزندوں سے دریافت کریں تاکہ اختلاف نہ پیدا ہو کیونکہ اہل الیبت ادری بما فی البیت ۔ یقینی بات ہے کہ دوسروں کے مقابلے میں اولاد باپ کی قبر اور مدفن سے زیادہ آگاہ ہوتی ہے اگر ان شہرتوں میں سے کوئی بھی درست ہوتی تو یقینا ائمہ طاہرین علیہم السلام اپنے شیعوں کو اس کی اطلاع دیتے حالانکہ ان کے برعکس نجف اشرف کے لیے تقویت فرمائی ہے۔ بلکہ خود تشریف لے گئے ہیں اور شیعوں کو بھی نجف اشرف میں ان حضرت(ع) کی زیارت کی ترغیب و تحریص کی ہے سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص۱۰۳ میں اختلاف اقوال کا ذکر کیا ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں۔

" والسادس انه علی النجف فی المکان المشهور الذی يزار فيه وهو الظاهر و قد استفاض---"

یعنی چھٹا قول یہ ہے قبر علی ابن ابی طالب علیہ السلام نجف اشرف میں اسی مقام پر ہے جس کی آج کل عام طور سے زیارت کی جاتی ہے اور بظاہر اس میں کوئی غلطی نہیں ہے اور یہی زبان زد خلائق بھی ہے۔ اسی طرح آپ کے دوسرے علماء جیسے خطیب خطیب ؟؟؟ نے مناقب میں خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں ، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، فیروز آبادی نے قاموس میں لغت نجف کے تحت میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ ان حضرت (ع) کا مدفن نجف اشرف ہے۔

یہاں سے قبلہ سلطان الواعظین نے پھر اپنے اجداد کی ہجرت اور تاریخ کی طرف رجوع کیا ہے جس کو بنظر اختصار حذف کیا جاتا ہے ۔ (مترجم)

" جب مذاکرات یہاں تک پہنچے تو مولوی سید عبدالحی نے گھڑی دیکھ کر فرمایا کہ رات کافی گذر چکی ہے لہذا اب اجازت دیجئے ، بقیہ گفتگو انشاء اﷲ کل شب میں ہوگی ہم لوگ جلد ہی آجائیں گے تاکہ بات چیت کے لیے زیادہ وقت مل سکے، “میں نے تبسم اور خندہ پیشانی کے ساتھ تائید کی وہ حضرات چائے وغیرہ کے بعد رخصت ہوئے اور ہم نے خلوص و محبت کے ساتھ کچھ دور چل کر وداع کیا۔"

۲۴

دوسری نشست

شب شبنہ ۲۴ رجب سنہ ۱۳۴۵ ھ

مغرب کے بعد سب حضرات تشریف لے آئے وہی کل رات والا مجمع تھا سوا چند محترم افراد کے جن کے متعلق یہ معلوم ہوا کہ تجار اور رؤسا میں سے تھے صاحب سلامت کے بعد جناب حافظ صاحب نے سلسلہ کلام شروع کیا۔

حافظ : قبلہ صاحب بغیر کسی چاپلوسی کے میں سچ کہتا ہوں کہ کل رات ہم شیریں خیالات اپنے ساتھ لے گئے جب آپ کی خدمت سے رخصت ہوئے تو راستے بھر ہمرائیوں کیساتھ آپ کی صحبت کا تذکرہ رہا۔ واقعا آپ کی جاذبیت اتنی قوی ہے کہ ہم سب کو آپ نے اپنی صورت و سیرت میں جذب کر لیا ہے۔ بہت کم ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ کسی شخص میں حسن صورت اور حسن سیرت دونوں یک جا ہو جائیں۔

اشهد انک ابن رسول اﷲ حقا ( میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا آپ اولاد رسول(ص) ہیں۔ خصوصیت کیساتھ آج صبح جب میں کتب خانہ گیا تو انساب و تاریخ کی کئی کتابیں بالخصوص ہزار مزار اور آثارت عجم کو سادات جلیل القدر کے انساب میں مطالعہ کیا اور آپ کے کل ارشادات کے بارے میں غورکیا ۔ راقعی میں نے خط اٹھایا ۔۔۔۔ اور لذت حاصل کی بلکہ حقیقتا اس نسب شریف پر مجھ کو غبط ہوا اور کافی دیر تک سوچتا رہا اس غور و فکر کے بعد میں بہت متاثر اور رنجیدہ ہوا کہ جناب عالی کا ایسا شریف اور صحیح انسل انسان اس حسنِ صورت و سیرت کے باوجود کیونکر اسلاف کی ذلیل اور احمقانہ عادتوں کا شکار ہوسکا اور اپنے بزرگوار اجداد کے مضبوط طریقہ سے منحرف ہوکر مجوسی ایرانیوں کے رویہ کو قبول کر لیا۔

خیر طلب : پہلے تو میں جناب عالی کے حسن ظن اور نگاہ لطف کا ممنون و متشکر ہوں اور بغیر انکسار کے کہتا ہوں کہ واقعا میں وہ ذرہ ہوں جس کا کوئی شمار نہ ہو، دوسرے یہ کہ آپ نے چند آپس میں مخلوط اور مبہم جملے ارشاد فرمائے ہیں جن کو دعا گو نہیں سمجھ سکا ۔ آپ کا مطلب و مقصد کیا ہے ، متمنی ہوں کہ جملوں کو الگ الگ بیان فرمائیے تاکہ اصل حقیقت ظاہر ہو۔

گذشتہ لوگوں کی احمقانہ اور ذلیل عادتیں کوںسی ہیں؟ میرے بزرگوار اجداد کا مضبوط طریقہ کیا چیز ہے، جس سے منحرف ہوگیا ہوں ، ( اور ایرانیوں کا سیاسی رویہ کیا ہے جس کی میں نے پیروی کی ہے؟

۲۵

حافظ : اسلاف کی ذلیل اور احمقانہ عادات سے میری مراد وہ اصول و عقائد اور بدعتیں ہیں جو یہودی مخالفین کے ہاتھوں دین حنیف اسلام میں داخل ہوگئی ہیں۔

خیر طلب : ممکن ہے مہربانی فرماکر مزید وضاحت فرمائیے تاکہ معلوم ہو کہ وہ کونسی بدعتیں ہیں جن کی میں نے پیروی کی ہے۔

مذہب شیعہ پر اشکال پیدا کرنا

حافظ : یقینا آپ کا دل تاریخ کی شہادت کے بعد بخوبی قائل ہوگا کہ انبیائے بزرگ میں سے ہر ایک کی رحلت کے بد دشمنوں نے اس دین کی اصل مٰں جو ان کی کتاب تھی، جیسے توریت و انجیل مداخلت کی اور بکثرت تحریفیں کر کے اس دین کو ضائع اور درجہ اعتبار سے ساعط کردیا ۔ لیکن قرآن حکیم کے محکم ہونے کی وجہ سے چونکہ اس پر قادر نہیں ہوسکے لہذا یہودیوں کے ایک گروہ نےجو ہمیشہ سے حیلہ ساز اور مکار رہے ہیں اور ان کی تاریخ زندگی فریب و تزویر سے --- رہ چکی ہے ۔ جیسے عبداﷲ بن سبا صنائی ، کعب الاخبار اور وہب ابن منبہ وغیرہ نے اسلام قبول کر کے زہر پھیلانا شروع کیا اور جو باطل عقائد ان کی رائے اور عقیدے کے موافق تھے، ان کو ارشاد پیغمبر کے نام سے مسلمانوں کے درمیان شائع کیا خلیفہ سوم عثمان رضی اﷲ عنہ نے ان کا پیچھا کیا وہ لوگ خلیفہ کے خوف سے بھاگ کھڑے ہوئے اور مصر کو اپنا ہیڈ کواٹر بنایا ۔ آہستہ آہستہ عوام کی ایک جماعت کو فریب دیکر کچھ پیرو پیدا کیئے “ شیعہ” کے نام سے ایک پارٹی کی تشکیل کی خلیفہ عثمان کے مقابلہ میں علی(ع) کی کرامات و خلافت کا پروپیگنڈا کیا اور اپنے مصنوعی مقصد کے مطابق اس مفہوم کی چند حدیثیں وضع کیں کہ پیغمبر(ص) نے علی (ع) کو خلیفہ اور امام قرار دیا ہے۔

اس فرقے کے قائم ہونے کے نتیجے میں کثرت سے خون بہائے گئے یہاں تک کہ انجام خلیفہ عثمان مظلوم کے قتل اور مسند خلافت پر علی(ع) کے تقرر تک فتح ہوا۔ ایک اور جماعت نے بھی جو عثمان سے کدورتیں رکھتی تھی علی(ع) کی جنبہ داری اختیار کی ۔ چنانچہ اسی زمانہ سے گروہ شیعہ نے اپنی شکل و صورت قائم کی لیکن خلافت بنی امیہ اور حضرت علی (ع) کی اولاد و اصحاب کے قتل عام کے دور میں یہ گروہ بظاہر روپوش ہوگیا، البتہ چند افرد سلمان فارسی ابوذر غفاری اور عمار یاسر علی کرم اﷲ وجہ کی موافقت میں پوری کوشش سے تبلیغیں کرتے رہے جب کہ علی(ع) کی روح اس قسم کے تبلیغات سے قطعا بیزار تھی۔ یہاں تک کہ ہارون الرشید اور بالخصوص اس کے فرزند مامون الرشید عباسی کے زمانہ خلافت میں جو ایرانیوں کی مدد سے اپنے بھائی محمد امین پر غالب آیا اور اس کا تخت خلافت مضبوط

۲۶

ہوا ان لوگوں نے علی ابن ابی طلاب (ع) کو ناحق خلفائے راشدین پر فضیلت دینے سے اس طریقے کی تقویت کرنا شروع کی۔ ایرانی بھی چونکہ عربوں سے بد ظن تھے کیونکہ ان کی سلطنت عربوں کے دست اقتدار کے تصرف میں آچکی تھی اور ان کی آزادی سلب ہوچکی تھی ۔ لہذا وہ اس کا بہانہ تلاش کر رہے تھے کہ دین کے نام پر ایک ایسا راستہ ڈھونڈ نکالیں جس کے ذریعہ عربوں کے مقابلہ پر کھڑے ہوسکیں چنانچہ اس باطل روئیے کو پسند کر کے اس کی پیروی کی بلکہ چاروں طرف سے اس (شیعہ) فرقے نے ایک ہنگامہ برپا کردیا یہاں تک کہ دیالمہ کے دور میں ان کو تقویت حاصل ہوئی با اقتدار صفوی سلطنت میں انہوں نے رسمیت پیدا کی یعنی فرقہ شیعہ ایک با قاعدہ مذہب کے نام سے مشہور ہوگیا اور مجوسی ایرانی بھی اب تک از روئے سیاست اپنے مذہب کو شیعہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں، نتیجہ یہ کہ مذہب شیعہ ایک سیاسی اور نو زائیدہ مذہب ہے جس کی ایجاد عبداﷲ بن سبا (۱) یہودی کے ہاتھوں ہوئی

الصبر مفتاح الفرح ( صبر خوشحالی کی کنجی ہے۔ اس کے بعد جناب حافظ صاحب کے جواب میں کہا)

مخالفین کی اشکال تراشیوں کا جواب

خیر طلب : آپ کے لیے ایسے ذی علم انسان سے یہ بعید تھا کہ گھڑی ہوئی مہمل موہوم اور بے اصل باتوں سے استدلال کرتے جو سوا منافقین و خوارج اور ناصبی اور اموی متعصب دشمنوں کے اور کسی کے لیے زیبا نہیں۔

-------------

۱ ـ عبداﷲ بن سبا کے متعلق مکمل تحقیقات دفتر اصلاح کی کتاب عبداﷲ بن سبا میں ملاحظہ کریں۔

ورنہ پہلے اسلام کے اندر شیعہ مذہب کا کوئی نام و نشان نہٰیں تھا ۔ آپ کے جد بزرگوار نبی اکرم صلعم قطعا اس نام سے بیزار ہیں کیونکہ ان کی منشاء کے خلاف اس راہ میں قدم اٹھایا گیا ہے اور فی الحقیقت کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ فرقہ یہودیوں کے مذہب اور ان کے عقائد کی ایک شاخ ہے ۔ اسی وجہ سے میں تعجب کرتا ہوں کہ آپ کا ایسا شریف انسان ایسے پاک نسب کے ساتھ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ از روئے عادت اور اسلاف کی تقلید میں بغیر دلیل و برہاں کے اپنے جد بزرگوار کے طریقے یعنی اسلام کے پاک دین کو چھوڑ دے اور یہودیوں کے بدعتی روئے کی پیروی کرے در حالیکہ آپ اس کے لیے سب سے زیادہ اولی اور احق ہیں کہ پوری سعی کیساتھ قرآن اور اپنے جد رسول خدا(ص) کی سنت کے پیرو رہیں میں نے دیکھا کہ اہل جلسہ اور ذی شرف ہندی مومنین خصوصا پر جوش اور غیرت ند قزلباش حضرات جو ہندوستان کے با اثر شیعوں میں سے ہیں جناب حافظ صاحب کے بیانات سے بہت جھنجھلائے ہوئے ہیں اور ان کے چہروں کا رنگ متغیر ہوگیا ہے۔ چنانچہ میں نے ان کو تھوڑی نصیحت کی اور صبر و حوصلہ اور تحمل کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں یہ مثل مشہور ہے کہ شاہنامے کا آخر اچھا ہے لہذا صبر کرو۔

۲۷

اب اگر اجازت ہو تو مطلب واضح کرنے کے لیے وقت جلسہ کا لحاظ کرتے ہوئے مختصر طور پر آپ کے بے بنیاد بیانات کا جواب پیش کروں تاکہ یہ معمہ حل ہو اور حقیقت ظاہر ہوجائے۔

حافظ : فرمائیے ۔ میں آپ کی باتیں سننے کے لیے حاضر اور ہمہ تن گوش ہوں۔

خیر طلب : اول یہ کہ آپ نے دو بالکل بے ربط چیزوں کو باہم ایک دوسرے سے مخلوط کردیا ہے اگر منافق ملعون عبداﷲ بن سبا یہودی جس کی شیعہ حدیثوں میں شدید مذمت کی گئی ہے اور علی الاعلان منافقین و ملاعین میں شمار کیا گیا ہے نے چند روز تک حضرت علی علیہ السلام کی دوستی کا سہارا لیا جو عام طور پر لوگوں کو محبوب تھے۔ تو اس کو شیعہ امامیہ سے کیا ربط ہے ۔ اگر کوئی بھیڑیا بکری کی کھال اوڑھ کے یا کوئی چور روحانیت اور اہل علم کا لباس پہن کر منبر اور محراب میں جلوہ گر ہو اور اس کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو کچھ نقصانات پہنچیں تو کیا آپ کا یہی فرض ہے کہ اصل علم اور روحانیت بد ظن ہوجائیں اور سارے اہل علم کو چور اور بہرو پیا کہنے لگیں واقعا آپ نے بے اںصافی کی جو شیعوں کے پاک مذہب کو ملعون عبداﷲ بن سبا سے وابستہ کردیا۔ بہت تعجب کی بات ہے کہ آپ نے برحق شیعہ مذہب کو سبک کر کے سیاسی گروہ کا نام دیا اور اس کو ملعون عبداﷲ بن سبا کے آثار میں سے اور زمانہ عثمان کی ایجاد قرار دیا۔

حقیقتا آپ نے سخت غلطی کی کیونکہ شیعہ کوئی گروہ نہیں تھا بلکہ مذہب و طریقہ حقہ تھا۔ یہ خلافت عثمان کے زمانہ میں پیدا نہیں ہوا بلکہ خود کاتم الانبیاء (ص) کے عہد میں اور آں حضرت(ص) کے فرمان و ارشادات سے پھیلا۔

اگرچہ آپ خورج عامہ اور نواصب کی گھڑی ہوئی باتوں سے استدلال کرتے ہیں لیکن میں قرآن مجید کی آیات اور آپ کی معتبر روایات سے ثبوت پیش کرتا ہوں تاکہ حق وباطل میں امتیاز ہوجائے میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیشہ گفتار و کردار میں غور و فکر سے کام لیجئے تاکہ حقیقیت ظاہر ہونے کے بعد شرمندگی کا باعث نہ ہو۔

چنانچہ اگر اس دعا گو کے بیانات ناگوار خاطر نہ ہوں تو اجازت دیجیے کہ آپ کی باتوں کا جواب دیا جائے تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہے حقیقت اس کے خلاف ہے۔

حافظ : ضرور فرمائیے اس جلسہ کا انعقاد اور ہم لوگوں کے حاضر ہونے کا مقصد ہی یہی ہے حقائق واضح ہوں اور شبہات رفع ہوں ۔ ہم لوگ آپ کے استدلالی بیانات سے قطعا رنجیدہ اور متنفر نہ ہوں گے۔

۲۸

شیعہ اور حقیقت تشیع کے معنی

خیر طلب : آپ حضرات یہ تو جانتے ہی ہیں کہ لغت میں شیعہ کے معنی پیرو کے ہیں اور شیعہ الرجل مرد کے پیرو اور مددگار ہیں فیروز آبادی جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں۔ قاموس اللغات میں کہتے ہیں:

" و قد غلب هذا الاسم على كل من يتولى عليا و أهل بيته حتّى صار اسما لهم خاصا " (۱)

اور ابن اثیر نے نہایہ اللغہ میں لکھے ہیں۔

لیکن آپ کو جو اشتباہ ہوا ہے یعنی عمدا یا سہوا یا تفاسیر و اخبار پر پوری اطلاع نہ ہونے اور اسلاف کی گفتگو سے متاثر ہونے کی وجہ سے بغیر دلیل و برہان کے فرما دیا کہ لفظ شیعہ اور اس کا اطلاق حضرت علی(ع) اور اہل بیت رسالت علیہم السلام کے پیرووں پر عثمان کے زمانے سے شروع ہوا اور اس کے موجد عبدا ﷲ ابن سبا یہودی تھا حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ آپ کی کتب تفاسیر میں مندرج معتبر روایتوں کے مطابق شیعہ اصطلاحی علی بن ابی طالب (ع) کے پیرو کے معنی حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ سے تھے اور پیروان علی(ع) کے لیے لفظ شیعہ کے موجد آپ کے ارشاد کے خلاف خود حضرت رسالت ماب(ص) کی ذات اقدس تھی۔ یہ کلمہ خود صاحب وحی کی زبان پر جاری ہوا۔ انہیں پیغمبر نے جن کے بارےمیں خدا نے سورہ ۵۳ ( النجم) کی آیت نمبر۳ میں فرمایا ۔

" وَ ما يَنْطِقُ عَنِ الْهَوى إِلَّا وَحْيٌ يُوحى " (۲)

حضرت علی علیہ السلام کے اتباع اور پیرووں کو نجات یافتہ اور جنتی فرمایا ہے۔

حافظ : ایسی چیز کس مقام پر ہے جس کو ہم لوگوں نے اب تک نہیں دیکھا ہے؟

خیر طلب : آپ لوگوں نے دیکھا نہیں ہے یا دیکھنا نہیں چاہا ہے ۔ یا دیکھا ہے اور حقیقت کا اعتراف اپنی مصلحت وقت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یا پھر اپنے مقلدین اور مریدوں کا لحاظ کر رہے ہیں۔ لیکن میں نے دیکھا ہے اور حق کو چھپانا اپنی دین و دنیا کی مصلحت کے خالف جناتا ہوں کیونکہ خدائے تعالی نے قرآن مجید کی دو آیتوں میں

صریحی طور پر حق کے چھپانے والوں کو ملعون اور جہنمی فرمایا ہے۔ اول سورہ ۲ ( بقرہ) کی آیت نمبر۱۵۴ میں فرمایا ہے۔

--------------

۱ ـ پھرشیعہ لفظ کے غالب معنی یہ ہوگئے کہ وہ شخص جو علی(ع) اور ان کے اہل بیت(ع) کو دوست رکھے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کا نام ہی شیعہ ہوگیا۔

۲ ـ پیغمبر(ص) ہرگز اپنی خواہش نفس سے کوئی بات نہیں کہتے ان کا کلام سوا وحی خدا کے اور کچھ نہیں ہوتا۔

۲۹

"إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ ما أَنْزَلْنا مِنَ الْبَيِّناتِ وَ الْهُدى مِنْ بَعْدِ ما بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتابِ أُولئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَ يَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ " (۱)

اور دوسرے اسی سورے کی آیت نمبر۱۶۶ میں فرماتا ہے۔

"إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتابِ وَ يَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَناً قَلِيلًا أُولئِكَ ما يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَ لا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَ لا يُزَكِّيهِمْ وَ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ " (۲)

حافظ : آیات شریفہ حق ہیں اور یقینا اگر کوئی شخص ان آیات کو چھپائے تو ان آیات کےتحت آجائے گا

لیکن ہم نے اب تک کسی ایسے حق کو نہیں پہچانا ہے جس کو چھپارہے ہوں ۔ البتہ کسی بھی حق کو پہچان لینے کے بعد اگر پوشیدہ کریں تو ہم بھی انہیں آیات کے حکم میں ہوں گے ۔ اور ہماری تمنا ہے کہ کسی وقت بھی ان آیات کے ذیل میں نہ آئیں۔

خیر طلب : اب خداوند علام کے لطف و عنایت اور حضرت خاتم الانبیاء کے خاص توجہات سے جہاں تک مجھ ممکن ہے اس حق کو بے نقاب کرتا ہوں ، جو اظہر من الشمس ہے اور برادران عزیز پر ( حاضرین جلسہ اہل تسنن کی طرف اشارہ) ظاہر کرتا ہوں کہ غالبا دونوں مذکورہ آیتیں برابر ہماری نگاہوں کے سامنے رہیں گی تاکہ خدا نکردہ ایسا نہ ہو کہ عادت اور تعصب غالب آجائے اور کسی امر حق رپ پردہ ڈال دیا جائے۔

حافظ : میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ جس وقت کوئی حق بات مجھ پر ظاہر ہوجاتی ہے تو میں بے جا حجت نہیں کرتا چونکہ آپ کو میرے ساتھ رہنے ک اتفاق نہیں ہوا اور میرے اخلاق سے واقف نہیں کہ میں کیسا عزم رکھتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ خواہش نفس پر غالب آؤں جب آپ دیکھیے کہ میں کسی بیان کے مقابلے میں خاموش ہوگیا تو سمجھ لیجیئے کہ میں اس موضوع میں پوری طرح سے مطمئن ہوگیا ہوں اگر میرے پاس بے جا حجت ، مغالطہ دیتے اور مطالب میں غالب رہنے کا کوئی حیلہ ہو بھی جب بھی میں مجادلہ نہیں کرتا ہوں ۔ اور اگر ایسا کروں تو قطعا ان دونوں آیتوں کی زد میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ـ جو لوگ ان واضح آیتوں کو جو ہم نے ہدایت خلق کے لیے نازل کی ہیں چھپاتے ہیں اور بعد میں اس کے کہ ہم نے ان لوگوں کی ہدایت کے لیے کتاب میں جو کچھ بیان کیا ہے ۔ پوشیدہ کرتے ہیں خدا اور( تمام جن و انس اور ملائکہ ) ان پر لعنت کرتے ہیں۔

۲ ـ جو لوگ ان آیات کو چھپاتے ہیں ۔ اور ان پر پردہ ڈالتے ہیں جن کو ہم نے آسمانی کتاب سے نازل کیا ہے اور ان کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں تو سوا آتش جہنم کے ان کی کوئی غذا نہیں اور روز قیامت غیظ و غضب کی وجہ سے خدا ان سے بات نہیں کرے گا ۔ ان کو نجاست معصیت سے پاک نہیں کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔

۳۰

آجاؤں گا ۔ اب میں آپ کے بیانات حقہ سننے کے لیے حاضر ہوں اور امید کرتا ہوں کہ خدا ہم کو اور آپ کو حق کی طرف راہنمائی کرے گا۔

خیر طلب : حافظ ابونعیم اصفہانی احمد بن عبداﷲ جو آپ کے اجلہ علمائے عظام محدثین فخام اور محققین کرام میں سے ہیں۔ اور ابن خلکان نے وفیات الاعیان میں ان کی تعریف کی ہے کہ اکابر حفاظ ثقات میں سے ہیں اور اعلم محدثین ہیں اور ان کی کتاب “ حلیة الاولیا” کی دس جلدیں بہترین کتابوں میں سے ہیں۔

اور صلاح الدین خلیل بن بیک الصفدی دانی بالوفیات میں ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ تاج المحدثین حافظ ابو نعیم علم و زہد اور دیانت میں امام تھے روایات کے نقل وفہم اور حفظ در روایات میں بلند و بالا منزلت کے مالک تھے اور ان کی بہترین تصنیفات میں سے حلیة الاولیاء کی دس جلدیں ہیں۔ جو صحیحین سے مستخرج ہیں اور احادیث بخاری و مسلم کے علاوہ بہت سی ایسی حدیثیں نقل کی ہیں کہ گویا ان کو اپنے کانوں سے سنا ہے۔

اور محمد بن عبداﷲ الخطیب رجال مشکوة المصابیح میں ان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

" هو من مشائخ الحديث الثقاة المعمول بحديث ه م المرجوع الی قوم ه م کبير القدر ول ه من العمر ست و تسعون سن ه "

خلاصہ یہ کہ ایک ایسے چھیانوے سال کے عالم حافظ اور محدث جو آپ کے علماء کے نزدیک محلِ وثوق اور مایہ ناز ہیں اپنی معتبر کتاب “ حلیة الاولیا” میں اپنے اسناد کے ساتھ خیر امت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ۔

مقام تشیع کی تشریح میں آیات و روایات

جب سورہ ۹۸ ( البینہ کی آیت نمبر۶)

"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ جَزاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدِينَ فِيها أَبَداً رَضِيَ اللَّه عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ "

یعنی جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیکو کار ہیں وہ یقینا بہترین اہل عالم ہیں ان کی جزا خدا کے نزدیک بہشت عدن کے باغ ہیں جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ لوگ اس بہشت میں ہمیشہ نعمات سے بہرہ اندوز ہوں گے۔ خدا ان سے راضی ہے ۔ اور وہ خدا سے خوش ہیں) نازل ہوئی تو رسول اﷲ(ص) نے علی ابن ابی طالب (ع) سے خطاب کیا اور فرمایا کہ۔

۳۱

"يَا عَلِيُّ انت و شيعتك تاتي انت و شيعتك يوم القيامة راضيين مرضيين "

یعنی یا علی(ع) آیت مبارکہ میں خیر البریہ سے تم اور تمہارے شیعہ مراد ہیں روز قیامت تم اور تمہارے شیعہ اس حالت میں آئیں گے کہ خدا تم سے راضی ہوگا اور تم بھی خدا سے راضی و خوشنود ہوگے۔

ابوالموئد موفق بن احمد خوارزمی نے مناقب کی سترھویں فصل میں حاکم ابوالقاسم عبیداﷲ الحسکانی نے جو آپ کے مفسرین بزرگ کے فحول احلام میں سے ہیں کتاب شواہر التنزیل فی قواعد التفصیل میں محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت المطالب کے ص۱۱۶ میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ خواص الامہ فی معرفتہ الائمہ کے صفحہ ۳۱ میں ( بہ حذف آیت) اور منذر بن محمد منذر نے اور مخصوص طور پر حاکم نے روایت کی ہے کہ حاکم ابو عبداﷲ حافظ نے ( جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں ) ہم کو کبر دی ایسے اسناد کیساتھ جو مرفوع ہیں یزید بن شراعیل اںصادی کاتب حضرا امیرالمومنین علی کرم اﷲ وجہ کی طرف کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ان حضرت سے سنا کہ آپ نے فرمایا حضرت خاتم الانبیاء کی رحلت کے وقت آں حضرت کی پشت مبارک میرے سینے پر تھی۔ اس وقت فرمایا:

"يا علي ، ألم تسمع قول الله تعالى: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ؟ هم شيعتك، و موعدي و موعدكم الحوض إذا اجتمع الأمم للحساب تدعون غرا محجلين."

یعنی یا علی(ع) کیا تم نے یہ آیت شریفہ نہٰں سنی ہے؟ ( صاحبان ایمان واعمال صالحہ اور خیر البریہ) وہ تمہارے شیعہ ہیں اور میری اور تمہاری وعدہ گاہ حوض کوثر ے کنارے ہوگی جس وقت کل مخلوق حساب کے لیے جمع ہوگی تو تم غر محجلین کہہ کے پکارے جاؤ گے یعنی روشن اور سفید چہرے والو۔

جلال الدین سیوطی جو آپ کے مایہ ناز علماء میں سے ہیں اور نویں صدی ہجری میں ان کو طریقہ سنت و جماعت کا مجدد مانا گیا ہے ( جیسا کہ صاحب فتح المقال نے لکھا ہے) اپنی تفسیر در المثور فی کتاب اﷲ بالماثور، کے محل وثوق ہیں ۔ ( جیسا کہ ابن خلکان نے وفیات الاعیان میں ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں خوارزمی نے رجال مسند ابی حنیفہ اور طبقات شافعیہ میں حافظ ابوسعید نے اپنی تاریخ میں ان کی تعریف وتوثیق ی ہے۔ کہ ابن عساکہ فخر شافعیہ او اپنے زمانہ مٰں امام اہل حدیث تھے ۔ کثری العلم عزیز الفضل ثقہ صاحب تقوی اور سنہ۵۵۰ ھ میں علماء اہل سنت وجماعت کے درمیان مشہور تھے) بروایت جابر بن عبداﷲ اںصاری جو حضرت رسول خدا کے کبار صحابہ میں سے تھے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ۔ میں خدمت رسول اکرم میں حاضر تھا کہ اتنے میں علی بن ابی طالب وارد ہوئے پیغمب نے فرمایا ۔

"و الذي نفسي بيده، إن هذا و شيعته هم الفائزون يوم القيامة فنزلت إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ. "

۳۲

یعنی قسم اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے یہ مرد ( اشارہ علی (ع) کی طرف) اور اس کے شیعہ قیامت کے روز نجات یافتہ ہیں اس وقت آیت مذکورہ نازل ہوئی۔

اور اسی تفسیر میں ابن عدی سے بروایت ابن عباس ( خیر امت) نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں خدمت رسول (ص) میں تھا کہ آیت مذکورہ نازل ہوئی ، رسول اﷲ (ص) نے امیرالمومنین علیہ السلام سے فرمایا ۔

"تاتي انت و شيعتك يوم القيامة راضيين مرضيين "

یعنی تم اور تمہارے شیعہ قیامت کے روز اس صورت سے آئیں گے کہ خدا سے راضی ہوں گے اور خدا تم لوگوں سے راضی ہوگا۔

مناقب خوارزمی فصل نہم میں بسند جابر بن عبداﷲ اںصاری نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں رسول اﷲ کی خدمت میں تھا۔ علی علیہ السلام ہم لوگوں کے پاس آئے تو آں حضرت (ص) نے فرمایا ۔ قد اتاکم اخی یعنی تمہاری طرف آیا ہے میرا بھائی و علی(ع)) اس کے بعد کعبہ کی طرف رخ کیا اور علی (ع) کا ہاتھ پکڑ کے فرمایا ۔

"و الذي نفسي بيده، إن هذا و شيعته هم الفائزون يوم القيامة"

یعنی قسم اس خدا کی جس کے قبضے میں میری جان ہے یہ علی(ع) اور اس کے شیعہ قیامت کے روز نجات یافتہ ہیں۔

پھر فرمایا کہ یہ علی (ع) تم سب سے پہلے ایمان لائے عہد خدا میں تم سب سے زیادہ با وفا ہیں رعایا کے درمیان تم سب سے زیادہ اںصاف کرنے والے اور تم سب سے زیادہ عادلانہ تقسیم کرنے والے ہیں اور پروردگار کے نزدیک تم سب سے زیادہ ان کا مرتبہ بلند ہے اسی وقت مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ اس کے بعد علی (ع) کسی مجمع کے اندر آتے تھے تو اصحاب پیغمبر(ص) کہتے تھے جاء خير البري ه یعنی تمام لوگوں سے بہتر انسان آگیا۔

نیز ابن حجر نے صواعق میں اور ابن اثیر نے نہایہ جلد۳ میں اس آیہ شریفہ کی شان نزول میں یہی روایت نقل کی ہے۔

جب اس کے علاوہ ابن حجر نے صواعق کے باب ۱۱ میں حافظ جمال الدین محمد بن یوسف زرندی مدنی سے جو آپ کے فحول فقہاء علماء میں سے ہیں نقل کیا ہے کہ جب آیت مذکورہ نازل ہوئی تو رسول اکرم(ص) نے علی(ع) سے فرمایا :

" ي ا عَلِي أَنْتَ وَ شِيعَتُكَ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ، تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنْتَ وَ شِيعَتُكَ رَاضِينَ مَرْضِيِّينَ وَ يَأْتِي عَدُوُّكَ غُضَّاباً مُقْمَحِينَ .فقال من عدوی قال من تبرئ منک ولعنک"

یعنی یا علی (ع) تم اور تمہارے شیعہ کل مخلوقات سے بہتر ہیں تم اور تمہارے شیعہ قیامت کے روز اس حالت سے آئیں گے کہ خدا بھی تم سب سے راضی ہوگا۔ تمہارے دشمن غصے میں بھرے ہوئے آئیں گے اور ان کے ہاتھ گردنوں سے بندھے ہوں گے پھر امیرالمومنین (ع) نے عرض کیا کہ میرا دشمن کون ہے؟ فرمایا جو شخص تم سے بیزاری اختیار کرے اور تمہارے اوپر لعن کرے۔

۳۳

علامہ سمہودی جواہر العقدین میں حافظ جمال الدین زرندی مدنی اور نورالدین علی بن محمد بن احمد مالکی مکی مشہور بہ ابن صباغ سے جو آپ کے اکابر علماء اور فحول فقہاء میں سے ہیں فصول المہمہ ص۱۲۲ میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ آیت مذکورہ نازل ہوئی تو رسول اکرم(ص) نے علی(ع) سے فرمایا۔

" هو أَنْتَ وَ شِيعَتُكَ تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنْتَ وَ هم رَاضِينَ مَرْضِيِّينَ وَ يَأْتِي اعدائكَ غُضَّاباً مُقْمَحِينَ . "

یعنی وہ ہترین مرد تم اور تمہارے شیعہ ہیں تم اور وہ لوگ روز قیامت اس طرح آئیں گے کہ خدا سے راضی ہوں گے اور خدا ان سے راضی ہوگا اور تمہارے دشمن اس صورت سے آئیں گے کہ غم غصہ سے بھرے ہوئے اور ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے بندھے ہوں گے۔

میر سید علی ہمدانی شافعی جو آپ کے متمد علماء میں سے ہیں کتاب مودة القربیٰ میں اور ابن حجر متعصب صواعق محرقہ میں رسول اﷲ کی زوجہ محترمہ ام المومنین ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا۔

"ي ا علی انت و اصحابک فی الجنه انت و ش ي عتک فی الجنه"

یعنی یا علی(ع) تم اور تمہارے اصحاب اور تمہارے شیعہ جنت میں رہیں گے۔

خوارزم کے اخطب الخطباء موفق بن احمد مناقب کی انیسویں فصل میں مسند کے ہاتھ حضرت رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ علی(ع) سے فرمایا

" مَثَلُكَ فِي أُمَّتِي مَثَلُ الْمَسِيحِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ "

یعنی تمہاری مثل امت میں حضرت مسیح عیسی بن مریم(ع) کے مثل ہے جن کی قوم کے تین فرقے ہوگئے ایک فرقہ مومنین کا جو حوارین تھے۔ ایک فرقہ ان کے دشمن کا جو یہود تھے اور ایک فرقہ غلات کا جنہوں نے ان جناب کے بارے میں غلو کیا ( یعنی ان کو خدا اور خدا کا شریک قرار دیا) اور میری امت بھی تمہارے بارے میں فرقہ پر منقسم ہوجائے گی۔ ( فرقة شيعتک و ه م المومنون ) یعنی ایک فرقہ تمہارے شیعوں کا ہے اور وہی مومنین ہیں۔ ایک فرقہ تمہارے دشمنوں کا ہے ۔ اور ناکثین اور تمہارے عہد اور بیعت کو توڑنے والے ہیں اور ایک فرقہ تمہارے بارے میں غلو کرنے والوں کا ہے۔ جو منکر حق اور گمراہ ہیں۔

" يَا عَلِيُّ وَ شِيعَتُكَ فِي الْجَنَّةِ وَ مُحِبُّو شِيعَتِكَ فِي الْجَنَّةِ وَ عدؤُكَ وَ الْغاَل فِيكَ فِي النَّارِ."

یعنی تم یا علی اور تمہارے شیعہ تمہارے شیعوں کے دوست بہشت میں ہوں گے۔ اور تمہارے دشمن اور تمہارے بارے میں غلو کرنے والے آتش جہنم میں جلیں گے۔

اس موقع پر نماز عشا کے لیے موذن کی آواز آئی اور سب حضرات نماز کے لے اٹھے نماز سے فراغت اور چائے نوشی کے بعد مولوی سید عبدالحی صاحب جو نماز جماعت کے لئے مسجد گئے تھے واپس ہوئے اور فرمایا کہ چونکہ میرا مکان قریب تھا لہذا چند کتابیں اپنے ساتھ لیتا آیا ہوں ۔ جو تفسیر سیوطی مودة القربی ، مسند امام احمد بن حنبل اور مناقب خوارزمی ہیں ( یہ کتابیں جلسوں کی آخری شب تک میرے پاس رہیں گی کتابیں کھول کر وہ حدیثیں اور ان کے علاوہ چند دوسری حدیثیں جو اسی مطلب کی تائید میں تھیں پڑھی گئیں۔ مولوی صاحبان کے چہروں کا رنگ متغیر ہو رہا تھا۔ اور میں خاص طور سے دیکھ رہا تھا کہ اپنے پیروؤں کے سامنے شرمندہ ہو رہے ہیں) جس وقت مودة القربی

۳۴

میں حدیث بالا کو پڑھا تو اس کے علاوہ ایک دوسری حدیث بھی نظر آئی۔ انہوں نے پڑھا کہ ام المومنین رسول اکرم(ص) سے روایت کرتی ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا :

"يا علي ستقدم على اللَّه أنت و شيعتك راضين مرضيين، و يقدم عل ي ه عدوك غضاباً مقمحين. "

یعن ی یا علی( ع) عنقریب تم اور تمہارے شیعہ اس صورت سے خدا کے سامنے آئیں گے کہ خدا سے راضی ہوں گے۔ اور ان سے راضی ہوگا اور تمہارے دشمن خدا پر غصے میں بھرے ہوئے وارد ہوں گے اس حالت سے کہ ان کے ہاتھ ان کی گردنوں پر بندھے ہوں گے۔

خیر طلب : یہ تھا ایک مختصر نمونہ ان محکم دلائل میں سے جن کو کتاب خدا اور معتبر اخبار و روایات کی تائید حاصل ہے جو آپ کے اکابر کی کتابوں میں موجود ہے علاوہ ان روایات کے جو علمائے شیعہ کی تمام کتابون اور تفسیروں میں منقول ہیں۔ اگر میں چاہوں تو پروردگار کی تائید و توفیق سے صرف اپنی یاد داشت پر انہیں کتابوں کے ذریعہ سے جو آپ کے سامنے رکھی ہوئی ہیں، صبح تک برابر اس مقصد پر دلیلیں پیش کر سکتا ہوں، لیکن میرا خیال ہے کہ نمونے اور رفع اشتباہ کے لیے اسی قدر روایات کا نقل کرنا کافی ہوگا۔ تاکہ آپ حضرات اس کے بعد معاندیں کی بے سرو پا باتیں زبان پر نہ لائیں اور خارجیوں ، ناصبیوں اورا مویوں کے جگھڑے ہوئے جملوں سے بے خبر عوام کو یہ دھوکا نہ دیں کہ لفظ شیعہ کا موجد ملعون یہودی عبداﷲ ابن سبا تھا۔

حضرات محترم ! ہم شیعہ یہودی نہیں ہیں بلکہ محمدی ہیں اور پیروان علی (ع) کے لیے لفظ شیعہ کا موجد بھی ملعون عبداﷲ ابن سبا نہیں تھا ۔ بلکہ رسول اکرم(ص) کی ذات مبارک تھی نیز ہم لوگ عبداﷲ کو ایک منفاق اور ملعون شخص سمجھتے ہیں۔ اور کسی فرد یا جماعت کی تقلید بغیر دلیل و برہان کے نہیں کرتے جیسا آپ نے فرمایا ہے کہ زمانہ عثمان کے بعد سے پیروان علی(ع) پر لفظ شیعہ کا اطلاق کیا گیا ہے بلکہ خود پیغمبر(ص) کے زمانہ میں آں حضرت (ع) کے خاص خاص صحابہ کو شیعہ کہا جاتا تھا، جیسا کہ حافظ ابو حاتم رازی کتاب “ الزینتہ” میں جو انہوں نے صاحبان علوم کے درمیان مروجہ الفاظ کیتشریح مٰں لکھی ہے۔ لکھتے ہیں کہ پہلا نام جو زمانہ رسول خدا(ص) میں اسلام کے اندر وجود میں آیا وہ شیعہ تھا اور صحابہ میں سے چار افراد اس لقب کے حامل تھے۔ ابوذر غفاری، سلمان فارسی، مقداد ابن ابود کندی اور عمار یاسر۔ آپ حضرات غور فرمائیں کہ بھلا یہ کیونکر ممکن ہے ،کہ پیغمبر(ص) کے زمانہ میں خاص بلکہ خدا و رسول(ص) کے محبوب صحابہ میں چار افراد لقب شیعہ کے ساتھ یاد کیجئے جائیں اور پیغمبر(ص) سمجھتے ہوں کہ لفظ شیعہ بدعت ہے۔ پھر بھی لوگوں کو منع نہ فرمائیں چنانچہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ ان لوگوں نے خود پیغمبر(ص) سے سنا تھا کہ علی(ع) کے شیعہ نجات یافتہ ہیں لہذا اس کو ذریعہ افتخار سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان حضرات کو کھلم کھلا شیعہ کہتے تھے۔

۳۵

سلمان و ابوذر اور مقداد و عمار کی منزل

اس بیان سے قطع نظر آپ حضرات عمل اصحاب کے حجت سمجھتے یں اور آں حضرت(ص) سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ فرمایا :

"ان اصحابی کالنجوم باي ه م اقتديتم ا ه تديتم ۔" یعنی بہ تحقیق میرے اصحاب مثل ستاروں کے ہیں ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے ) تو کیا ابو الغداء نے اپنی تاریخ میں نہیں لکھا ہے کہ یہ چار نفر جو اصحاب پیغمبر یں سے تھے۔ سقیفہ بنی ساعدہ کے روز علی(ع) کی ہمراہی میں ابوبکر کی بیعت پر تیار نہیں ہوئے۔ پھر آپ حضرات کس وجہ سے ان کے عمل اور بیعت سے انحراف کو حجت نہیں سمجھتے ہیں؟ باوجودیکہ خود آپکے علماء نے لکھا ہے کہ یہ حضرات خدا اور رسول(ص) کے محبوب تھے۔ چنانچہ ہم لوگ بھی انہیں کی پیروی کرتے ہیں، کیونکہ وہ حضرت علی (ع) کے پیرو تھے، لہذا خود آپ ہی کی منقولہ حدیث کے ماتحت ہم ہدایت کے راستے پر ہیں۔

آپ حضرات کی اجازت سے وقت کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کے لیے چند روایتیں نقل کرتا ہوں حافظ ابو نعیم اصفہانی کے علیة الاولیاء جلد اول ص۱۷۲ میں اور حجر مکی نے ان چالیس حدیثوں میں سے جو انہوں نے صواعق محرقہ کے اندر حضرت علی(ع) کے فضائل میں لکھی ہیں۔ پانچویں حدیث میں ترمذی اور حاکم نے بریدہ سے نقل کیا ہے۔ کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"ان اﷲ امرنی بحب اربعة و اخبرنی ان ه يحب ه م ۔" یعنی خدا نے مجھ کو چار شخصوں کی دوستی کا حکم دیا ہے اور مجھ کو خبر دی ہے کہ وہ بھی ان کو دوست رکھتا ہے۔ لوگوں نے عرض کی یا رسول اﷲ(ص) وہ چار نفر کون ہیں؟ تو فرمایا ۔ علی ابن ابی طالب(ع)، و ابوذر و مقداد و سلمان۔

ابن حجر نے حدیث ںمبر ۳۹ میں ترمذی سے اور حاکم نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ آں حضرت (ص) نے فرمایا :

"إِنَّ الْجَنَّةَ لَتَشْتَاقُ إِلَى ثَلَاثَةٍ عَلِيٍّ وَ عَمَّارٍ وَ سَلْمَانَ ."

یعنی بہشت تین شخصوں کی مشتاق ہے اور وہ تین علی(ع) و عمار اور سلمان ہیں۔

تو کیا رسول اﷲ(ص) کے ان اصحاب خاص کا طیرقہ اور طرز عمل جو محبوب خدا اور رسول(ص) اور جتنی ہیں سند نہن ہے او حالی قابل اعتماد نہیں ہے تاکہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول اور لائق تقلید بن سکے ! ایک شرمناک بات نہیں ہے کہ آپ کی نظر میں اصحاب پس وہی لوگ ہیں جنہوں نے سقیفہ کے کھیل سے موافقت کی اور بقیہ رسول اﷲ(ص) کے پاک صحابہ جنہوں نے اہل سقیفہ کے مقصد سے مخالفت کی وجہ سے اعتبار سے ساقط اور بے اثر بن جائیں ؟ ایسی صورت میں تو بہتر یہ تھا کہ جو حدیث آپ حضرات نے نقل کی ہے اس کو عمومیت کیساتھ نہ کہتے بلکہ یہ کہتے کہ

۳۶

ان بعض اصحابی کالنجوم ۔ تاکہ اس مصیبت میں گرفتار نہ ہوتے اور ہم لوگوں کو بھی دائرہ ہدایت سے خارج نہ کہتے۔

خلفاء دیالمہ اور غازاں خان اور شاہ خدا بندہ کے زمانہ میں

ایرانیوں کی توجہ اور تشیع کا سبب

لیکن آپ نے جو یہ فرمایا کہ شیعہ مذہب ایک سیاسی مذہب ہے اور مجوس ایرانیوں نے عربوں کی سلطنت اور اقتدار سے جان بچانے کے لیے اسی کو سیاست کے نظریہ سے قبول کیا ہے تو آپ نے بڑا ظلم کیا کہ بغیر توجہ اور غور و فکر کے اسلاف کی پیروی میں ایسا فرما دیا اس لیے کہ میں اس سے قبل ثابت کرچکا ہوں کہ شیعہ ایک اسلامی مذہب ہے اور ایک ایسا طریقہ ہے جس کو خاتم الانبیاء نے خدا کے حکم سے امت کے سامنے رکھا۔ ہم لوگ آں حضرت (ص) ہی کے حکم سے امیرالمومنین حضرت علی (ع) اور ان کی اولاد طاہرین علیہم السلام کی پیروی کرتے ہیں اور حق کی امید میں ان ہدایات کے مطابق جو ان حضرات نے ہم کو دیئے ہیں، ہم ان پر عمل کرتے ہیں اور اپنے کو نجات کا مستحق سمجھتے ہیں بلکہ جن لوگوں نے بغیر رسول اﷲ(ص) کسی چھوٹی ہدایت کے سقیفے کی بنیاد قائم کی وہ البتہ سیاسی تھے نہ کہ پیغمبر(ص) کے ارشاد سے عترت طاہرہ کی پیروی کرنے والے کیونکہ عترت و اہل بیت رسالت کی پیروی کے لیے تو آں حضرت (ص) سے ہدایت مل چکی ہے اور آپ کی معتبر کتابوں میں کثرت سے اس کا ذکر موجود ہے لیکن سقیفہ اور اہل سقیفہ کی پیروی میں خلیفہ سازی کے عنوان سے کبھی کوئی فرمان صادر نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ منزل ولایت امیرالمومنین و اہل بیت طاہرین علیہم السلام کی طرف ایرانیوں کی توجہ کے بارے میں حضرات اہل تسنن نے عناد و تعصب کے تحت یا عادت کی مطابق خلفاء عن سلف بغیر غور تحقیق کے فیصلہ کیا ہے اور اسی طرح دوسرے مصنفین کو جو اہل تسنن کیساتھ رہنے سہنے اور ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کی وجہ سے دھوکے میں مبتلا ہوگئے ہیں، تنہا پیش قاضی روی راضی آئی، کہ مشہور مثل کے موافق یہ خیال پیدا ہوگیا کہ ایرانیوں نے از روئے سیاست مذہب حق تشیع اختیار کیا ہے۔

در حقیقت یا تو چاہا نہیں ہے یا ممکن نہیں ہوسکا کہ غور کریں اور عادت و تعصب سے الگ ہوکر امیر المومنین (ع) اور ان کے اہل بیت (ع) کی طرف ایرانیوں کی توجہ اور ان کے ساتھ وابستگی کی اصل وجہ دریافت کریں ورنہ اگر تھوڑے سے دقت اور غور و تامل سے کام لیتے تو حقیقت تک رسائی ہوجاتی اور سمجھ لیتے کہ کوئی بھی فرد یا قوم اگر کوئی عمل سیاست کے نظریہ سے انجام دیتی ہے تو وہ وقتی ہوتا ہے۔ اور نتیجہ بر آمد ہوجانے اور مطلب و مقصد حاصل کر لینے کے بعد

۳۷

جس راستے سے آئی تھی اسی راہ پر پلٹ جاتی ہے ۔ نہ یہ کہ ہزاروں سال اس عقیدہ حقہ پر قائم رہیں ، اس راہ میں جان بازیاں دکھائیں یہاں تک کہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے بعد اپنے خون سے کلمہ علی ولی اﷲ کی حفاظت کریں اور اس پر فخر کریں۔

اب میں تاریخ کو روشن کرنے کے لیے آپ حضرات کی اجازت سے اور وقت کا لحاظ کرتے ہوئے مختصر اشارے کے ساتھ دوسرے رہنمایاں اقوام کے درمیان ان حضرت اور ان کے اہل بیت طاہرین(ع) کیساتھ ایرانیوں کی وابستگی کا حقیقی سبب عرض کرتا ہوں تاکہ آپ یہ سمجھ لیں کہ ان لوگوں نے سیاست کے نقطہ نظر سے تشیع کا اظہار نہیں کیا بلکہ حقیقت و برہان اور قلبی لگاؤ کی جہت سے تشیع کا حق مذہب اختیار کیا۔

اولا ایرانیوں کو عقل و زکاوت کا یہ تقاضا ہے کہ اگر جہالت اور عادت و تعصب مانع نہ ہوتو حق اور حقیقت کو جلد سمجھ لیتے ہیں اور دل و جان سے قبول کر لیتے ہیں چنانچہ ہیں جب عرب مسلمانوں نے ایرانیوں کو فتح کیا تو باوجودیکہ ان لوگوں کو کامل آزادی دے رکھی تھی اور مقدس دین اسلام کو قبول کرنے کے لیے کوئی جبر و تشدد نہیں کرتے تھے پھر بھی مسلمانوں کیساتھ معاشرت اور وقت نظر کیساتھ تحقیق کرنے کے نتیجہ میں جیسے ہی حقیقت اسلام کا سراغ لگا لیا فورا کئی ہزار سال کے دین مجوسیت اور آتش پرستی کو باطل قرار دے دیا اور اور انتہائی شوق و رجحان اور قلبی تعلق کے ساتھ ( خداؤں اہرمن ویزداں) کے عقیدے سے منہ موڑ کے دین وحدانیت کو اختیار کر لیا اور اسی طرح جس وقت مذہب شیعہ یعنی حضرت علی علیہ السلام کی پیروی کے برحق ہونے پر ٹھوس دلیلیں نظر آئیں تو عقل و دانش کے حکم سے اس کے اتباع اور پیروی کو فرض سمجھا۔

نیز آپ کے بہت سے کم فہم مصنفین کے قول کے بر خلاف مقام ولایت پر ایرانیوں کی توجہ اور امیرالمومنین علیہ السلام سے ان کا ربط خلافت ہارون و مامون کے زمانے میں پیدا نہیں ہوا بلکہ خود رسول اﷲ(ص) کے عہد سے تخل مودت نے ایرانیوں کے دل میں اپنی جڑیں پھیلائیں۔

کیونکہ جب کوئی ایرانی مدینے آتا تھا۔ اور مسلمان ہوتا تھا تو مخصوص ایرانی ذکاوت اور ہوشمندی کی بنا پر حضرت علی(ع) میں حق اور حقیقت کا مطالبہ کرتا تھا ۔ لہذا رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کے حکم اور راہنمائی سے ولایت علی(ع) کی حبل متین اور ریسمان محکم سے متمسک ہو جاتا تھا ، اس سلسلے کی پیلی کڑی سلمان فارسی تھے جو ایمان کے سارے درجات اور مراتب پر فائز ہوئے یہاں تک کہ خاتم الانبیاء نے جیسا کہ فریقین کے علماء نے لکھا ہے ان کے بارے میں فرمایا سلمان منا اہلبیت ۔ یعنی سلمان ہم اہل بیت سے ہیں ۔ اور وہ اسی زمانے سے سلمان محمدی مشہور ہوئے یہ سلمان خالص شیعوں میں سے ولایت امیرالمومنین (ع) سے متمسک اور سقیفہ کے شدید مخالفین میں سے تھے جن کی پیروی آپ کی کتابوں میں منقول حدیث کے حکم سے شاہراہ ہدایت ہے۔ اس لیے کہ حضرت علی(ع) کے بارے میں انہوں

۳۸

نے قرآن مجید کی آیات اور رسول اﷲ(ص) کے بیانات سنے تھے اور عین الیقین کے ساتھ سمجھ لیا تھا کہ علی(ع) کی اطاعت خدا اور رسول (ص) کی اطاعت ہے کیونکہ رسول برحق(ص) کو بار بار یہ فرماتے ہوئے سنتے تھے کہ

" من اطاع علیا فقد أطاعني و من أطاعنى فقد اطاع اللّه. و من خالف عليا فقد خالفني و من خالفني فقد خالف اللّه"

یعنی جس نے علی(ع) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس شخص نے علی(ع) کی مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی اور جس نے میری مخالفت کی اس نے خدا کی مخالفت کی اس کے علاوہ جو ایرانی بھی مدینے پہنچا اور مسلمان ہوا خواہ پیغمبر(ص) کے زمانے میں ہو یا بعد کے عہدوں میں وہ ان حضرت کے سلسلے اور اطاعت میں داخل ہو جاتا تھا اس وجہ سے خلیفہ ثانی کو سخت تعصب پیدا ہوا اور ان لوگوں پر پابندیاں لگانے کا تہیہ کر لیا۔ چنانچہ انہیں پابندیوں اور سختیوں نے ان کے دلوں میں کینہ اور عداوت پیدا کر دی اور وہ لوگ بہت متاثر ہوئے کہ رسول اﷲ(ص) کی سیرت اور ہدایات کیخلاف خلیفہ نے ہم کو کس لیے راندہ درگاہ اور حقوق اسلام سے محروم بنا دیا ہے ان باتوں کے علاوہ جس چیز نے سب سے زیادہ ایرانیوں کو حضرت علی(ع) کی بلند منزلت اور ان کی عترت طاہرہ کی طرف متوجہ کیا کہ انہوں نے آں حضرت (ص) کے بارے میں پوری تحقیقات کی اور آپ کی محبت ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگئی وہ مقید ایرانی شاہزادوں کے لیے امیرالمومنین علیہ السلام کی مکمل طرفداری تھی کیونکہ جس وقت مدائن ( میسفون) کے قیدی مدینے لائے گئے تو خلیفہ ثانی نے حکم دیا کہ ساری مقید عورتوں کو مسلمانوں کی کنیزی میں دیدیا جائے امیرالمومنین علیہ السلام نے منع کیا اور فرمایا کہ بادشاہوں کی اولاد مستثنی اور لائق احترام ہے۔ یزد جرد شہنشاہ ایران کی دو لڑکیاں بھی اسیروں میں ہیں، ان کو کنیزی میں نہیں دیا جاسکتا ۔ خلیفہ نے کہا پھر کیا کرنا چاہئے۔ حضرت نے فرمایا کہ ان کو حکم دیجئے کہ اٹھیں اور مسلمانوں میں سے جس شخص کو چاہیں آزادی کے ساتھ اپنی شوہری کے لیے منتخب کر لیں چنانچہ آں حضرت کے ارشاد کی مطابق ان دونوں لڑکیوں نے اٹھ کر اصحاب کے درمیان ایک نظر ڈالی، شاہ زنان نے محمد ابن ابی بکر کو ( جو حضرت کے پروردہ اور ربیب تھے) اور شہر بانو نے سبط رسول(ص) حضرت رسول(ص) حضرت امام حسین(ع) کو انتخاب کیا اور عقد شرعی کے ساتھ ان کے گھروں میں گئیں۔ شاہ زنان سے خدا نے محمد کو ایک فرزند عطا فرمایا جن کا نام قاسم فقیہ تھا اور یہ امام ششم حضرت صادق آل محمد علیہ السلام کی مادر گرامی ام فروہ کے پدر بزرگوار ہیں۔ اور شہر بانوں سے ( امام چہارم حضرت زین العابدین علیہ السلام متولد ہوئے۔ جس وقت یہ خبر اور ایرانی شاہزادیوں کے لیے حضرت کی طرفداری کی اطاعت ایران والوں کو پہنچی تو ان کو آپ کی وفات مبارک سے ایک خاص ربط پیدا ہوگیا اور یہی معاملہ اور حضرت کے ساتھ تعلق خاطر اس کا سبب بناکہ وہ آپ کے بارے میں گہری جانچ پڑتال کریں۔ خصوصیت کےساتھ مسلمانوں کے ہاتھوں ایران کے فتح ہونے کے بعد جب ان سے قریب ہوئے تو دلائل حقہ ےساتھ ان حضرت کی ولایت و امانت اور خلافت بلا فصل پر ایمان لائے اور پوری قبلی توجہ حاصل کی اور جیسے ہی مانع برطرف ہوا اور موقع ہاتھ آیا اپنے عقائد اور قلبی تعلق کا اعلان

۳۹

اور اپنے مذہب کا اظہار کر دیا۔

لہذا جیسا آپ نے فرمایا ہے اس عقیدے کا ظہور اور مذہب کی آزادی ہارون و مامون کے زمانہ خلافت یا سلطنت صفویہ کے دور سے کوئی ربط نہیں رکھتی بلکہ سلطنت صفویہ کے ظاہر ہونے سے سات سو سال قبل ( یعنی چودھویں صدی ہجری میں) تشیع کا مذہب حق ایران میں جلوہ گر ہوا۔ جب زمام اختیار آل بویہ کے ہاتھوں میں آئی تو اس حقیقت کا چہرہ بے نقاب ہوگیا اور ایرانیوں نے پوری طرح سے آزاد ہوکر علی الاعلان اپنی نسبت کا اظہار کیا اور دلی عقائد کو نمایاں کر دیا۔

مغلوں کے دور میں تشیع کا ظہور

یہاں تک کہ سنہ۶۹۴ ھ میں جب ایران جکی سلطنت فازاں خان مغل کے ( جس کا اسلامی نام محمود تھا) ہاتھوں میں پہنچی تو اس نے اہل بیت علیہم السلام کے طرف خاص توجہ کی اور تشیع کا مذہب حق اور زیادہ نمایاں ہوگیا۔ اس کی وفات کے بعد سنہ ۷۰۷ ھ میں جب سلطنت فاذاں خان کے بھائی محمد شاہ خدا بندہ کو ملی تو جیسا کہ حافظ و عالم اور مورخ شافعی ہمدانی نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے۔

قاضی القضاة کے ساتھ علامہ حلی کا مناظرہ

ان مباحثوں اور مناظرون کے نتیجہ میں جو دربار شاہی میں باد شاہ کے سانے ممتاز زمانہ اور اس دور کے مایہ ناز شیعہ عالم جمال الملة والدین علامہ کبیر حسن بن یوسف بن علی مطہر علی اور اس زمانہ کے علماء اہل سنت میں افضل و اعلم خواجہ نظام الدین عبدالملک مراغی القضاة شافعی کے درمیان واقع ہوئے اور اس سلسلے میں امامت کا مبحث موضوع گفتگو قرار پایا ۔ جس میں جناب علامہ نے محکم اور قاطع دلائل و براہین اور ایسی وضاحت کے ساتھ امیرالمومنین علیہ السلام کی امامت و خلافت بلافصل کو ثابت اور دوسروں کے دعوے کو رد فرمایا کہ حاضرین دربار سے کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی یہاں تک کہ خواجہ نظام الدین نے کہا کہ جناب علامہ کی دلیلیں بہت روشن اور قوی ہیں لیکن چونکہ ہمارے اسلاف ایک راستے پر گامزن رہے ہیں۔ لہذا ہم کو بھی چاہیئے کہ عوام کو خاموش کرنے اور کلمہ اسلام میں تفرقہ اندازی سے بچنے کے لیے اسی راہ پر چلتے رہیں اور پردہ فاش نہ کریں چونکہ اس موقع پر بادشاہ کے دل میں تعصب نہیں تھا اور گوش تحقیق سے دونوں طرف کی دلیلیں سن رہا تھا۔ لہذا مباحثات

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

(۴۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند المسير إلى الشام قيل إنه خطب بها وهو بالنخيلة خارجا من الكوفة إلى صفين

الْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا وَقَبَ لَيْلٌ وغَسَقَ والْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا لَاحَ نَجْمٌ وخَفَقَ والْحَمْدُ لِلَّه غَيْرَ مَفْقُودِ الإِنْعَامِ ولَا مُكَافَإِ الإِفْضَالِ.

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَعَثْتُ مُقَدِّمَتِي وأَمَرْتُهُمْ بِلُزُومِ هَذَا الْمِلْطَاطِ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرِي - وقَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَقْطَعَ هَذِه النُّطْفَةَ إِلَى شِرْذِمَةٍ مِنْكُمْ - مُوَطِّنِينَ أَكْنَافَ دِجْلَةَ - فَأُنْهِضَهُمْ مَعَكُمْ إِلَى عَدُوِّكُمْ - وأَجْعَلَهُمْ مِنْ أَمْدَادِ الْقُوَّةِ لَكُمْ.

قال السيد الشريف أقول يعنيعليه‌السلام بالملطاط هاهنا السمت الذي أمرهم بلزومه وهو شاطئ الفرات ويقال ذلك أيضا لشاطئ البحر وأصله ما استوى من الأرض ويعني بالنطفة ماء الفرات وهو من غريب العبارات وعجيبها.

(۴۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو صفین کے لئے کوفہ سے نکلتے ہوئے مقام نخیلہ پر ارشاد فرمایا تھا)

پروردگار کی حمد ہے جب بھی رات آئے اورتاریکی چھائے یا ستارہ چمکے اورڈوب جائے۔پروردگار کی حمدوثنا ہے کہ اس کی نعمتیں ختم نہیں ہوتی ہیں اور اس کے احسانات کا بدلہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔

امابعد! میں نے اپنے لشکر کا ہر اول دستہ روانہ کردیا ہے اور انہیں حکم دے دیا ہے کہ اس نہر کے کنارے ٹھہر کر میرے حکم کا انتظار کریں۔میں چاہتا ہوں کہ اس دریائے دجلہ کو عبور کرکے تمہاری(۱) ایک مختصرجماعت تک پہنچ جائوں جو اطراف دجلہ میں مقیم ہیں تاکہ انہیں تمہارے ساتھ جہاد کے لئے آمادہ کر سکوں اور ان کے ذریعہ تمہاری قوت میں اضافہ کر سکوں۔

سید رضی : ملطاط سے مراد دریا کا کنار ہ ہے اور اصل میں یہ لفظ ہموار زمین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نطفہ سے مراد فرات کا پانی ہے اور یہ عجیب و غریب تعبیرات میں ہے۔

(۱)اس جماعت سے مراد اہل مدائن ہیں جنہیں حضرت اس جہاد میں شامل کرنا چاہتے تھے اور ان کے ذریعہ لشکر کی قوت میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔خطبہ کے آغاز میں رات اور ستاروں کاذکر اسامر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ لشکراسلام کو رات کی تاریکی اورستارہ کے غروب و زوال سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔نور مطلق اور ضیاء مکمل ساتھ ہے تو تاریکی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور ستاروں کا کیا بھروسہ ہے۔ستارے تو ڈوب بھی جاتے ہیں لیکن جو پروردگار قابل حمدو ثناء ہے اس کے لئے زوال و غروب نہیں ہے اور وہ ہمیشہ بندۂ مومن کے ساتھ رہتا ہے۔!

۸۱

(۴۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه جملة من صفات الربوبية والعلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي بَطَنَ خَفِيَّاتِ الأَمُوُرِ - ودَلَّتْ عَلَيْه أَعْلَامُ الظُّهُورِ - وامْتَنَعَ عَلَى عَيْنِ الْبَصِيرِ - فَلَا عَيْنُ مَنْ لَمْ يَرَه تُنْكِرُه - ولَا قَلْبُ مَنْ أَثْبَتَه يُبْصِرُه - سَبَقَ فِي الْعُلُوِّ فَلَا شَيْءَ أَعْلَى مِنْه - وقَرُبَ فِي الدُّنُوِّ فَلَا شَيْءَ أَقْرَبُ مِنْه - فَلَا اسْتِعْلَاؤُه بَاعَدَه عَنْ شَيْءٍ مِنْ خَلْقِه - ولَا قُرْبُه سَاوَاهُمْ فِي الْمَكَانِ بِه - لَمْ يُطْلِعِ الْعُقُولَ عَلَى تَحْدِيدِ صِفَتِه - ولَمْ يَحْجُبْهَا عَنْ وَاجِبِ مَعْرِفَتِه - فَهُوَ الَّذِي تَشْهَدُ لَه أَعْلَامُ الْوُجُودِ - عَلَى إِقْرَارِ قَلْبِ ذِي الْجُحُودِ - تَعَالَى اللَّه عَمَّا يَقُولُه الْمُشَبِّهُونَ بِه - والْجَاحِدُونَ لَه عُلُوّاً كَبِيراً!

(۴۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں پروردگار کے مختلف صفات اور اس کے علم کا تذکرہ کیا گیا ہے)

ساری تعریف اس خداکے لئے ہے جو مخفی امور کی گہرائیوں سے با خبر ہے اوراس کے وجود کی رہنمائی ظہور کی تمام نشانیاں کر رہی ہیں۔وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں آنے والا نہیں ہے لیکن نہ کسی نہ دیکھنے والے کی آنکھ اس کا انکار کر سکتی ہے۔اورنہ کسی اثبات کرنے والے کا دل اس کی حقیقت کو دیکھ سکتا ہے۔وہ بلندیوں میں اتنا آگے ہے کہ کوئی شے اس سے بلند تر نہیں ہے اور قربت میں اتنا قریب ہے کہ کوئی شے اس سے قریب تر نہیں ہے۔نہ اس کی بلندی اسے مخلوقات سے دور بنا سکتی ہے اور نہ اس کی قربت برابر کی جگہ پر لا سکتی ہے۔اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حدوں سے باخبر نہیں کیاہے اوربقدر واجب معرفت سے محروم بھی نہیں رکھا ہے۔وہ ایسی ہستی ہے کہ اس کے انکار کرن والے کے دل پر اس کے وجود کی نشانیاں شہادت دے رہی ہیں۔وہ مخلوقات سے تشبیہ دینے والے اور انکار کرنے والے دونوں کی باتوں سے بلند وبالاتر ہے۔

۸۲

(۵۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه بيان لما يخرب العالم به من الفتن وبيان هذه الفتن

إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وأَحْكَامٌ تُبْتَدَعُ - يُخَالَفُ فِيهَا كِتَابُ اللَّه - ويَتَوَلَّى عَلَيْهَا رِجَالٌ رِجَالًا عَلَى غَيْرِ دِينِ اللَّه - فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ - لَمْ يَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِينَ ولَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ - انْقَطَعَتْ عَنْه أَلْسُنُ الْمُعَانِدِينَ - ولَكِنْ يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ ومِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَيُمْزَجَانِ - فَهُنَالِكَ يَسْتَوْلِي الشَّيْطَانُ عَلَى أَوْلِيَائِه - ويَنْجُو( الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ ) مِنَ اللَّه( الْحُسْنى ).

(۵۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس میں ان فتنوں کا تذکرہ ہے جو لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ان کے اثرات کا بھی تذکرہ ہے)

فتنوں) ۱) کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جن کا اتباع کیا جاتا ہے اور ان جدید ترین احکام سے ہوتی ہے جوگڑھ لئے جاتے ہیں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور دین خدا سے الگ ہو جاتے ہیں کہ اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلب گاروں پرمخفی نہ ہو سکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں۔لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے ' اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے اورایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اورصرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہی جن کے لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے۔

(۱)اس ارشاد گرامی کا آغاز لفظ انما سے ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا کا ہرفتنہ خواہشات کی پیروی اور بدعتوں کی ایجاد سے شروع ہوتا ہے اور یہی تاریخی حقیقت ہے کہ اگر امت اسلامیہ نے روز اول کتاب خدا کے خلاف میراث کے احکام وضع نہ کئے ہوتے اور اگرمنصب و اقتدار کی خواہش میں ''من کنت مولاہ '' کا انکار نہ کیا ہوتااور کچھ لوگ کچھ لوگوں کے ہمدرد نہ ہوگئے ہوتے اور نص پیغمبر (ص) کے ساتھ سن و سال اورصحابیت و قرابت کے جھگڑے نہ شامل کردئیے ہوتے تو آج اسلام بالکل خالص اورصریح ہوتا اور امت میں کسی طرح کا فتنہ وفساد نہ ہوتا۔لیکن افسوس کہ یہ سب کچھ ہوگیا اور امت ایک دائمی فتنہ میں مبتلا ہوگئی جس کا سلسلہ چودہ صدیوں سے جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے گا۔

۸۳

(۵۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما غلب أصحاب معاوية أصحابهعليه‌السلام على شريعة الفرات بصفين ومنعوهم الماء

قَدِ اسْتَطْعَمُوكُمُ الْقِتَالَ فَأَقِرُّوا عَلَى مَذَلَّةٍ وتَأْخِيرِ مَحَلَّةٍ - أَوْ رَوُّوا السُّيُوفَ مِنَ الدِّمَاءِ تَرْوَوْا مِنَ الْمَاءِ فَالْمَوْتُ فِي حَيَاتِكُمْ مَقْهُورِينَ،والْحَيَاةُ فِي مَوْتِكُمْ قَاهِرِينَ - أَلَا وإِنَّ مُعَاوِيَةَ قَادَ لُمَةً مِنَ الْغُوَاةِ - وعَمَّسَ عَلَيْهِمُ الْخَبَرَ - حَتَّى جَعَلُوا نُحُورَهُمْ أَغْرَاضَ الْمَنِيَّةِ.

(۵۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في التزهيد في الدنيا وثواب الله للزاهد ونعم الله على الخالق

التزهيد في الدنيا

أَلَا وإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ تَصَرَّمَتْ وآذَنَتْ بِانْقِضَاءٍ - وتَنَكَّرَ مَعْرُوفُهَا وأَدْبَرَتْ حَذَّاءَ فَهِيَ تَحْفِزُ بِالْفَنَاءِ سُكَّانَهَا - وتَحْدُو بِالْمَوْتِ جِيرَانَهَا

(۵۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب معاویہ کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھیوں کو ہٹا کر صفین کے قریب فرات پرغلبہ حاصل کرلیا اور پانی بند کردیا)

دیکھو دشمنوں نے تم سے غذائے جنگ کا مطالبہ کردیا ہے اب یا تو تم ذلت اوراپنے مقام کی پستی پر قائم رہ جائو'یااپنی تلواروں کو خون سے سیراب کر دو اورخود پانی سے سیراب ہو جائو۔در حقیقت موت ذلت کی زندگی میں ہے اور زندگی عزت کی موت میں ہے۔آگاہ ہو جائو کہ معاویہ گمراہوں کی ایک جماعت کی قیادت کر رہا ہے جس پر تمام حقائق پوشیدہ ہیں اور انہوں نے جہالت کی بناپ ر اپنی گردنوں کو تیر اجل کا نشانہ بنادیا ہے۔

(۵۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا میں زہد کی ترغیب اور پیش پروردگاراس کے ثواب اور مخلوقات پر خالق کی نعمتوں کاتذکرہ کیا گیا ہے )

آگاہ ہو جائو دنیا جا رہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیا ہے اور اس کی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں۔وہ تیزی سے منہ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف سے جا رہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔

۸۴

وقَدْ أَمَرَّ فِيهَا مَا كَانَ حُلْواً وكَدِرَ مِنْهَا مَا كَانَ صَفْواً - فَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا سَمَلَةٌ كَسَمَلَةِ الإِدَاوَةِ أَوْ جُرْعَةٌ كَجُرْعَةِ الْمَقْلَةِ لَوْ تَمَزَّزَهَا الصَّدْيَانُ لَمْ يَنْقَعْ فَأَزْمِعُوا عِبَادَ اللَّه - الرَّحِيلَ عَنْ هَذِه الدَّارِ الْمَقْدُورِ عَلَى أَهْلِهَا الزَّوَالُ - ولَا يَغْلِبَنَّكُمْ فِيهَا الأَمَلُ - ولَا يَطُولَنَّ عَلَيْكُمْ فِيهَا الأَمَدُ.

ثواب الزهاد

فَوَاللَّه لَوْ حَنَنْتُمْ حَنِينَ الْوُلَّه الْعِجَالِودَعَوْتُمْ بِهَدِيلِ الْحَمَامِ وجَأَرْتُمْ جُؤَارَ مُتَبَتِّلِي الرُّهْبَانِ - وخَرَجْتُمْ إِلَى اللَّه مِنَ الأَمْوَالِ والأَوْلَادِ - الْتِمَاسَ الْقُرْبَةِ إِلَيْه فِي ارْتِفَاعِ دَرَجَةٍ عِنْدَه - أَوْ غُفْرَانِ سَيِّئَةٍ أَحْصَتْهَا كُتُبُه - وحَفِظَتْهَا رُسُلُه لَكَانَ قَلِيلًا فِيمَا أَرْجُو لَكُمْ مِنْ ثَوَابِه - وأَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ عِقَابِه.

اس کی شیرینی تلخ ہو چکی ہے اور اس کی صفائی مکدر ہو چکی ہے۔اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو تہہ میں بچا ہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیا سا پی بھی لے تو اس کی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے۔لہٰذا بندگان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جس کے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبر دار! تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا۔

خدا کی قسم اگر تم ان اونٹنیوں کی طرح بھی فریاد کرو جن کا بچہ گم ہوگیا ہو اور ان کبوتروں کی طرح نالہ و فغاں کرو جو اپنے جھنڈ سے الگ ہوگئے ہوں اور ان راہبوں کی طرح بھی گریہ و فریاد کرو جو اپنے گھر بار کو چھوڑ چکے ہیں اور مال و اولاد کو چھوڑ کر قربت خدا کی تلاش میں نکل پڑو تاکہ اس کی بارگاہ میں درجات بلند ہو جائیں یا وہ گناہ معاف ہو جائیں جو اس کے دفتر میں ثبت ہوگئے ہیں اور فرشتوں نے انہیں محفوظ کرلیا ہے تو بھی یہ سب اس ثواب سے کم ہوگا(۱) جس کی میں تمہارے بارے میں امید رکھتا ہوں یا جس عذاب کا تمہارے بارے میں خوف رکھتا ہوں۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ '' فکر ہر کس بقدر ہمت اوست'' دنیا کا انسان کتنا ہی بلند نظر اور عالی ہمت کیوں نہ ہو جائے مولائے کائنات کی بلندی فکر کو نہیں پا سکتا ہے اور اس درجہ علم پرفائز نہیں ہو سکتا ہے جس پر مالک کائنات نے باب مدینتہ العلم کوفائز کیا ہے۔آپ فرمانا چاہتے ہیں کہ تم لوگ میری اطاعت کرو اور میرے احکام پر عمل کرو۔اس کا اجروثواب تمہارے افکار کی رسائی کی حدوں سے بالاتر ہے۔میں تمہارے لئے بہترین ثواب کی امید رکھتا ہوں اور تمہیں بد ترین عذاب سے بچانا چاہتا ہوں لیکن اس راہ میں میرے احکام کی اطاعت کرنا ہوگی اور میرے راستہ پر چلنا ہوگا جو در حقیقت شہادت اورقربانی کا راستہ ہے اور انسان اسی راستہ پر قدم آگے بڑھانے سے گھبراتا ہے اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک دنیا دار انسان جس کی ساری فکر مال دنیا اورثروت دنیا ہے وہ بھی کسی ہلاکت کے خطرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اپنے کو ہلاکت سے بچانے کے لئے سارا مال و متاع قربان کردیتا ہے تو پھرآخر دیندار انسان میں یہ جذبہ کیوں نہیں پایا جاتا ہے؟ وہ جنت النعیم کو حاصل کرنے اور عذاب جہنم سے بچنے کے لئے اپنی دنیا کو قربان کیوں نہیں کرتا ہے؟ اس کا تو عقیدہ یہی ہے کہ دنیا چند روزہ اور فانی ہے اور آخرت ابدی اور دائمی ہے تو پھر فانی کوباقی کی راہ میں کیوں قربان نہیں کردیتا ؟''اف هذا الشی عجاب''

۸۵

نعم الله

وتَاللَّه لَوِ انْمَاثَتْ قُلُوبُكُمُ انْمِيَاثاً وسَالَتْ عُيُونُكُمْ مِنْ رَغْبَةٍ إِلَيْه أَوْ رَهْبَةٍ مِنْه دَماً - ثُمَّ عُمِّرْتُمْ فِي الدُّنْيَا مَا الدُّنْيَا بَاقِيَةٌ مَا جَزَتْ أَعْمَالُكُمْ عَنْكُمْ - ولَوْ لَمْ تُبْقُوا شَيْئاً مِنْ جُهْدِكُمْ - أَنْعُمَه عَلَيْكُمُ الْعِظَامَ وهُدَاه إِيَّاكُمْ لِلإِيمَانِ.

(۵۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكرى يوم النحر وصفة الأضحية

ومِنْ تَمَامِ الأُضْحِيَّةِ اسْتِشْرَافُ أُذُنِهَا وسَلَامَةُ عَيْنِهَا - فَإِذَا سَلِمَتِ الأُذُنُ والْعَيْنُ سَلِمَتِ الأُضْحِيَّةُ وتَمَّتْ - ولَوْ كَانَتْ عَضْبَاءَ الْقَرْنِ تَجُرُّ رِجْلَهَا إِلَى الْمَنْسَكِ

قال السيد الشريف والمنسك هاهنا المذبح.

(۵۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف أصحابه بصفين حين طال منعهم له من قتال أهل الشام

خدا کی قسم اگر تمہارے دل بالکل پگھل جائیں اور تمہاری آنکھوں سے آنسوئوں کے بجائے رغبت ثواب یا خوف عذاب میں خون جاری ہوجائے اور تمہیں دنیا میں آخر تک باقی رہنے کا موقع دے دیا جائے تو بھی تمہارے اعمال اس کی عظیم ترین نعمتوں اور ہدایت ایمان کا بدلہ نہیں ہو سکتے ہیں چاہے ان کی راہ میں تم کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھو۔

(۵۳)

(جس میں روز عید الضحیٰ کا تذکرہ ہے اورقربانی کے صفات کاذکر کیا گیا ہے)

قربانی کے جانور کا کمال یہ ہے کہ اس کے کان بلند ہوں اور آنکھیں سلامت ہوں کہ اگر کان اور آنکھ سلامت ہیں توگویا قربانی سالم اورمکمل ہے چاہے اس کی سینگ ٹوٹی ہوئی ہو اور وہ پیروں کو گھسیٹ کر اپنے کوقربان گاہ تک لے جائے۔

سید رضی : اس مقام پر منسلک سے مراد مذبح اورقربان گاہ ہے۔

(۵۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آپ نے اپنی بیعت کا تذکرہ کیا ہے)

۸۶

فَتَدَاكُّوا عَلَيَّ تَدَاكَّ الإِبِلِ الْهِيمِ يَوْمَ وِرْدِهَا وقَدْ أَرْسَلَهَا

رَاعِيهَا وخُلِعَتْ مَثَانِيهَا حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُمْ قَاتِلِيَّ أَوْ بَعْضُهُمْ قَاتِلُ بَعْضٍ لَدَيَّ - وقَدْ قَلَّبْتُ هَذَا الأَمْرَ بَطْنَه وظَهْرَه حَتَّى مَنَعَنِي النَّوْمَ - فَمَا وَجَدْتُنِي يَسَعُنِي إِلَّا قِتَالُهُمْ - أَوِ الْجُحُودُ بِمَا جَاءَ بِه مُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَكَانَتْ مُعَالَجَةُ الْقِتَالِ أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مُعَالَجَةِ الْعِقَابِ - ومَوْتَاتُ الدُّنْيَا أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مَوْتَاتِ الآخِرَةِ.

(۵۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد استبطأ أصحابه إذنه لهم في القتال بصفين

لوگ مجھ) ۱ ( پر یوں ٹوٹ پڑے جیسے وہ پیاسے اونٹ پانی پر ٹوٹ پڑتے ہیں جن کے نگرانوں نے انہیں آزاد چھوڑ دیا ہو اور ان کے پیروں کی رسیاں کھول دی ہوں یہاں تک کہ مجھے یہ احساس پیدا ہوگیا کہ یہ مجھے مار ہی ڈالیں گے یا ایک دوسرے کوقتل کردیں گے۔میں نے اس امرخلافت کو یوں الٹ پلٹ کردیکھاہے کہ میری نیند تک اڑ گئی ہے اور اب یہ محسوس کیا ہے کہ یا ان سے جہاد کرنا ہوگا یا پیغمبر (ص) کے احکام کا انکار کر دینا ہوگا۔ظاہر ہے کہ میرے لئے جنگ کی سختیوں کا برداشت کرنا عذاب کی سختی برداشت کرنے سے آسان تر ہے اور دنیا کی موت آخرت کی موت اورتباہی سے سبک تر ہے۔

(۵۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کے اصحاب نے یہ اظہار کیا کہ اہل صفین سے جہاد کی اجازت میں تاخیر سے کام لے رہے ہیں)

(۱)سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس اسلام میں روز اول سے بزور شمشیر بیعت لی جا رہی تھی اور انکار بیعت کرنے پر گھروں میں آگ لگائی جا رہی تھی یا لوگوں کو خنجر و شمشیر اورتازیانہ و درہ کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔اس میں یکبارگی یہ انقلاب کیسے آگیا کہ لوگ ایک انسان کی بیعت کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے اوریہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔کیا اس کا راز یہ تھا کہ لوگ اس ایک شخص کے علم و فضل ' زہد و تقویٰ اور شجاعت و کرم سے متاثر ہوگئے تھے۔ایسا ہوت تو یہ صورت حال بہت پہلے پیدا ہو جاتی اور لوگ اس شخص پر قربان ہو جاتے۔حالانکہ ایسا نہیں ہو سکا جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم نے شخصیت سے زیادہ حالات کو سمجھ لیا تھا۔اوریہ اندازہ کرلیا تھا کہ وہ شخص جو امت کے درمیان واقعی انصاف کر سکتا ہے اور جس کی زندگی ایک عام انسان کی زندگی کی طرح سادگی رکھتی ہے اور اس میں کسی طرح کی حرص و طمع کا گزر نہیں ہے وہ اس مرد مومن اور کل ایمان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی بیعت میں سبقت کرنا ایک انسانی اور ایمان فریضہ ہے اور در حقیقت مولائے کائنات نے اس پوری صورت حال کو ایک لفظ میں واضح کردیا ہے کہ یہ دن در حقیقت پیاسوں کے سیراب ہونے کادن تھا اور لوگ مدتوں سے تشنہ اورتشنہ کام تھے لہٰذا ان کاٹوٹ پڑنا حق بجانب تھا اس ایک تشبیہ سے ماضی اورحال دونوں کا مکمل اندازہ کیا جا سکتا ہے۔!

۸۷

أَمَّا قَوْلُكُمْ أَكُلَّ ذَلِكَ كَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ - فَوَاللَّه مَا أُبَالِي - دَخَلْتُ إِلَى الْمَوْتِ أَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ إِلَيَّ - وأَمَّا قَوْلُكُمْ شَكَّاً فِي أَهْلِ الشَّامِ - فَوَاللَّه مَا دَفَعْتُ الْحَرْبَ يَوْماً - إِلَّا وأَنَا أَطْمَعُ أَنْ تَلْحَقَ بِي طَائِفَةٌ فَتَهْتَدِيَ بِي - وتَعْشُوَ إِلَى ضَوْئِي - وذَلِكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقْتُلَهَا عَلَى ضَلَالِهَا - وإِنْ كَانَتْ تَبُوءُ بِآثَامِهَا.

(۵۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يصف أصحاب رسول الله وذلك يوم صفين حين أمر الناس بالصلح

ولَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - نَقْتُلُ آبَاءَنَا وأَبْنَاءَنَا وإِخْوَانَنَا وأَعْمَامَنَا - مَا يَزِيدُنَا ذَلِكَ إِلَّا إِيمَاناً وتَسْلِيماً -

تمہارا یہ سوال کہ کیا یہ تاخیر موت کی ناگواری سے ہے تو خدا کی قسم مجھے موت کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں اس کے پاس وارد ہو جائوں یا وہ میری طرف نکل کر آجائے۔اور تمہارا یہ خیال کہ مجھے اہل شام کے باطل کے بارے میں کوئی شک ہے۔تو خدا گواہ ہے کہ میں نے ایک دن بھی جنگ کو نہیں ٹالا ہے مگر اس خیال سے کہ شائد کوئی گروہ مجھ سے ملحق ہو جائے اور ہدایت پاجائے اورمیری روشنی میں اپنی کمزور آنکھوں کا علاج کرلے کہ یہ بات میرے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں اس کی گمراہی کی بنا پر اسے قتل کردوں اگرچہ اس قتل کا گناہ اسی کے ذمہ ہوگا۔

(۵۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اصحاب رسول (ص) کویاد کیا گیا ہے اس وقت جب صفین کے موقع پر آپنے لوگوں کو صلح کا حکم دیا تھا)

ہم(۱) رسول اکرم (ص) کے ساتھ اپنے خاندان کے بزرگ' بچے 'بھائی اور چچائوں کو بھی قتل کردیا کرتے تھے اوراس سے ہمارے ایمان اور جذبہ تسلیم میں اضافہ ہی ہوتا

(۱)حضرت محمد بن ابی بکر شہادت کے بعد معاویہ نے عبداللہ بن عامر حضرمی کو بصرہ میں دوبارہ فساد پھیلانے کے لئے بھیج دیا۔وہاں حضرت کے والی ابن عباس تھے اور وہ محمد کی تعریف کے لئے کوفہ آگئے تھے۔زیاد بن عبید ان کے نائب تھے۔انہوں نے حضرت کو اطلاع دی۔آپ نے بصرہ کے بنی تمیم کا عثمانی رجحان دیکھ کر کوفہ کے بنی تمیم کو مقابلہ پر بھیجنا چاہا لیکن ان لوگوں نے برادری سے جنگ کرنے سے انکار کردیا تو حضرت نے اپنے دور قدیم کا حوالہ دیا کہ اگر رسول اکرم (ص) کے ساتھ ہم لوگ بھی قبائلی تعصب کا شکار ہوگئے ہوتے تو آج اسلام کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔اسلام حق و صداقت کا مذہب ہے اس میں قومی اورقبائلی رجحانات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

۸۸

ومُضِيّاً عَلَى

اللَّقَمِ وصَبْراً عَلَى مَضَضِ الأَلَمِ وجِدّاً فِي جِهَادِ الْعَدُوِّ - ولَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا والآخَرُ مِنْ عَدُوِّنَا - يَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَيْنِ يَتَخَالَسَانِ أَنْفُسَهُمَا أَيُّهُمَا يَسْقِي صَاحِبَه كَأْسَ الْمَنُونِ - فَمَرَّةً لَنَا مِنْ عَدُوِّنَا ومَرَّةً لِعَدُوِّنَا مِنَّا - فَلَمَّا رَأَى اللَّه صِدْقَنَا أَنْزَلَ بِعَدُوِّنَا الْكَبْتَ وأَنْزَلَ عَلَيْنَا النَّصْرَ - حَتَّى اسْتَقَرَّ الإِسْلَامُ مُلْقِياً جِرَانَه ومُتَبَوِّئاً أَوْطَانَه - ولَعَمْرِي لَوْ كُنَّا نَأْتِي مَا أَتَيْتُمْ - مَا قَامَ لِلدِّينِ عَمُودٌ ولَا اخْضَرَّ لِلإِيمَانِ عُودٌ - وايْمُ اللَّه لَتَحْتَلِبُنَّهَا دَماً ولَتُتْبِعُنَّهَا نَدَماً!

(۵۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفة رجل مذموم ثم في فضله هوعليه‌السلام

أَمَّا إِنَّه سَيَظْهَرُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي رَجُلٌ رَحْبُ الْبُلْعُومِ مُنْدَحِقُ الْبَطْنِ يَأْكُلُ مَا يَجِدُ

تھا اور ہم برابر سیدھے راستہ پر بڑھتے ہی جا رہے تھے اور مصیبتوں کی سختیوں پر صبر ہی کرتے جا رہے تھے اور دشمن سے جہاد میں کوششیں ہی کرتے جا رہے تھے۔ہمارا سپاہی دشمن کے سپاہی سے اس طرح مقابلہ کرتا تھا جس طرح مردوں کا مقابلہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جائیں۔اور ہر ایک کو یہی فکر ہو کہ دوسرے کو موت کا جام پلادیں۔پھر کبھی ہم دشمن کو مار لیتے تھے اور کبھی دشمن کو ہم پر غلبہ ہوجاتا تھا۔اس کے بعد جب خدا نے ہماری صداقت(۱) کوآزما لیا تو ہمارے دشمن پر ذلت نازل کردی اورہماری اوپر نصرت کا نزول فرمادیا یہاں تک کہ اسلام سینہ ٹیک کر اپنی جگہ جم گیا اور اپنی منزل پر قائم ہوگیا۔ میری جان کی قسم اگر ہمارا کرداربھی تمہیں جیسا ہوتا تو نہ دین کا کوئی ستون قائم ہوتا اور نہ ایمان کی کوئی شاخ ہری ہوتی۔خدا کی قسم تم اپنے کرتوت سے دودھ کے بدلے خون دوھوگے اور آخرمیں پچھتائو گے۔

(۵۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایک قابل مذمت شخص کے بارے میں)

آگاہ ہو جائو کہ عنقریب تم پر ایک شخص مسلط ہو گا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ بڑا ہوگا۔جو پاجائے گا کھا جائے گا

(۱)ایک عظیم حقیقت کا اعلان ہےکہ پروردگار اپنے بندوں کی بہر حال مدد کرتا ہے۔اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ'' کان حقا علینا نصر المومنین '' (مومنین کی مدد ہماری ذمہ دری ہے )'' ان الله مع الصابرین '' ( اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) لیکن اس سلسلہ میں اس حقیقت کو بہرحال سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نصرت ایمان کے اظہار کے بعد اوریہ معیت صبر کیے بعد سامنے آتی ہے جب تک انسان اپنے ایمان و صبر کا ثبوت نہیں دیدیتا ہے خدائی امداد کا نزول نہیں ہوتا ہے۔'' ان تصنرو الله ینصر کم '' (اگرتم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔نصرت الٰہی تحفہ نہیں ہے مجاہدات کا انعام ہے۔پہلے مجاہدہ نفس اس کے بعد انعام۔!

۸۹

ويَطْلُبُ مَا لَا يَجِدُ - فَاقْتُلُوه ولَنْ تَقْتُلُوه - أَلَا وإِنَّه سَيَأْمُرُكُمْ بِسَبِّي والْبَرَاءَةِ مِنِّي - فَأَمَّا السَّبُّ فَسُبُّونِي فَإِنَّه لِي زَكَاةٌ ولَكُمْ نَجَاةٌ - وأَمَّا الْبَرَاءَةُ فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي - فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وسَبَقْتُ إِلَى الإِيمَانِ والْهِجْرَةِ.

(۵۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به الخوارج حين اعتزلوا الحكومة وتنادوا أن لا حكم إلا لله أَصَابَكُمْ حَاصِبٌ ولَا بَقِيَ مِنْكُمْ آثِرٌ أَبَعْدَ إِيمَانِي بِاللَّه،

وجِهَادِي مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - أَشْهَدُ عَلَى نَفْسِي بِالْكُفْرِ - لَالْكُفْرِ( قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وما أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ) - فَأُوبُوا شَرَّ مَآبٍ وارْجِعُوا عَلَى أَثَرِ الأَعْقَابِ أَمَا إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي ذُلاًّ شَامِلًا وسَيْفاً قَاطِعاً - وأَثَرَةً

اور جونہ پائے گا اس کی جستجو میں رہے گا۔تمہاری ذمہ داری ہوگی کہ اسے قتل کردو مگر تم ہر گز قتل نہ کرو گے۔ خیروہ عنقریب تمہیں' مجھے گالیاں دینے اور مجھ سے بیزاری کرنے کا بھی حکم دے گا۔تو اگر گالیوں کی بات ہو تو مجھے برا بھلا کہہ لینا کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سامان ہے اورتمہارے لئے دشمن سے نجات کا۔لیکن خبردار مجھ سے برائت نہ کرنا کہ میں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور میں نے ایمان اور ہجرت دونوں میں سبقت کی ہے۔

(۵۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کا مخاطب ان خوارج کو بنایا گیا ہے جو تحکیم سے کنارہ کش ہوگئے اور '' لاحکم الا اللہ '' کا نعرہ لگانے لگے)

خدا کرے۔تم پرسخت آندھیاں آئیں اور کوئی تمہارے حال کا اصلاح کرنے والا نہ رہ جائے۔کیا میں پروردگار پر ایمان لانے اور رسول اکرم (ص) کے ساتھ جہاد کرنے کے بعد اپنے بارے میں کفر کا اعلان کردوں۔ایسا کروں گا تو میں گمراہ ہو جائوں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہ جائوں گا۔جائو پلٹ جائو اپنی بدترین منزل کی طرف اور واپس چلے جائو اپنے نشانات قدم پر۔مگرآگاہ رہو کہ میرے بعد تمہیں ہمہ گیر ذلت اور کاٹنے والی تلوار کا سامنا کرنا ہوگا اور اس طریقۂ کار کا مقابلہ کرنا ہوگا

۹۰

يَتَّخِذُهَا الظَّالِمُونَ فِيكُمْ سُنَّةً.

قال الشريف قولهعليه‌السلام ولا بقي منكم آبر يروى على ثلاثة أوجه:

أحدها أن يكون كما ذكرناه آبر بالراء - من قولهم للذي يأبر النخل أي يصلحه -. ويروى آثر وهو الذي يأثر الحديث ويرويه - أي يحكيه وهو أصح الوجوه عندي - كأنهعليه‌السلام قال لا بقي منكم مخبر -. ويروى آبز بالزاي المعجمة وهو الواثب - والهالك أيضا يقال له آبز

(۵۹)

وقالعليه‌السلام

لما عزم على حرب الخوارج - وقيل له:

إن القوم عبروا جسر النهروان!

مَصَارِعُهُمْ دُونَ النُّطْفَةِ - واللَّه لَا يُفْلِتُ مِنْهُمْ عَشَرَةٌ ولَا يَهْلِكُ مِنْكُمْ عَشَرَةٌ.

جسے ظالم تمہارے بارے میں اپنی سنت بنالیں گے یعنی ہر چیز کو اپنے لئے مخصوص کرلینا۔

سید رضی : حضرت کا ارشاد 'لا بقی منکم آبر'' تین طریقوں سے نقل کیا گیا ہے:

آبر: وہ شخص جو درخت خرمہ کو کانٹ چھانٹ کر اس کی اصلاح کرتا ہے۔

آثر: روایت کرنے والا۔یعنی تمہاری خبر دینے والا بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔اوریہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

آبر: کودنے والا یا ہلاک ہونے والا کہ مزید ہلاکت کے لئے بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔

(۵۹)

آپ نے اس وقت ارشاد فرمایا

جب آپ نے خوارج سے جنگ کا عزم کرلیا اور نہر وان کے پل کو پار کرلیا

یادرکھو(۱) !دشمنوں کی قتل گاہ دریا کے اس طرف ہے۔خدا کی قسم نہ ان میں کے دس باقی بچیں گے اور نہ تمہارے دس ہلاک ہو سکیں گے ۔

(۱)جب امیر المومنین کو یہ خبردی گئی کہ خوارج نے سارے ملک میں فساد پھیلانا شروع کردیا ہے ۔جناب عبداللہ بن خباب بن الارت کو ان کے گھر کی عورتوں سمیت قتل کردیا ہے اور لوگوں میں مسلسل دہشت پھیلا رہے ہیں تو آپ نے ایک شخص کو سمجھانے کے لئے بھیجا۔ان ظالموں نے اسے بھی قتل کردیا۔اس کے بعد جب حضرت عبداللہ بن خباب کے قاتلوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو صاف کہہ دیا کہ ہم سب قاتل ہیں۔اس کے بعد حضرت نے بنفس نفیس توبہ کی دعوت دی لیکن ان لوگوں نے اسے بھی ٹھکرادیا۔آخر ایک دن وہ آگیا جب لوگ ایک لاش کو لے کرآئے اور سوال کیا کہ سرکار اب فرمائیں اب کیا حکم ہے؟ تو آپ نے نعرہ تکبیر بلندکرکے جہاد کا حکم دے دیا اور پروردگار کے دئیے ہوئے علم غیب کی بناپر انجام کار سے بھی با خبر کردیا جو بقول ابن الحدید صد فیصد صحیح ثابت ہوا اور خوارج کے صرف نو افراد بچے اور حضرت کے ساتھیوں میں صرف آٹھ افراد شہید ہوئے۔

۹۱

قال الشريف يعني بالنطفة ماء النهر - وهي أفصح كناية عن الماء وإن كان كثيرا جما - وقد أشرنا إلى ذلك فيما تقدم عند مضي ما أشبهه.

(۶۰)

وقالعليه‌السلام

لما قتل الخوارج فقيل له يا أمير المؤمنين هلك القوم بأجمعهم

كَلَّا واللَّه إِنَّهُمْ نُطَفٌ فِي أَصْلَابِ الرِّجَالِ وقَرَارَاتِ النِّسَاءِ،كُلَّمَا نَجَمَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ - حَتَّى يَكُونَ آخِرُهُمْ لُصُوصاً سَلَّابِينَ.

(۶۱)

وقالعليه‌السلام

لَا تُقَاتِلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِي - فَلَيْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَأَخْطَأَه - كَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَأَدْرَكَه.

قال الشريف - يعني معاوية وأصحابه.

(۶۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما خوف من الغيلة

وإِنَّ عَلَيَّ مِنَ اللَّه جُنَّةً حَصِينَةً -.

سید رضی : نطفہ سے مراد نہر کا شفاف پانی ہے۔جو بہترین کنایہ ہے پانی کے بارے میں چاہے اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو

(۶۰)

آپ نے فرمایا

(اس وقت جب خوارج کے قتل کے بعد لوگوں نے کہا کہ اب تو قوم کاخاتمہ ہوچکا ہے)

ہرگز نہیں۔خدا گواہ ہے کہ یہ ابھی مردوں کے صلب اورعورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں کوئی سر نکالے گا اسے کاٹ دیا جائے گا۔یہاں تک کہ آخرمیں صرف لٹیرے اورچور ہو کر رہ جائیں گے۔

(۶۱)

آپ نے فرمایا

خبر دار میرے بعد خروج کرنے والوں سے جنگ نہ کرنا کہ حق کی طلب میں نکل کر بہک جانے والا اس کا جیسا نہیں ہوتا ہے جو باطل کی تلاش میں نکلے اورحاصل بھی کرلے۔

سید شریف رضی نے فرمایا : یعنی معاویہ اور اس کے پیروکار

(۶۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کو اچانک قتل سے ڈرایا گیا )

یاد رکھو میرے لئے خداکی طرف سے ایک مضبوط و مستحکم سپر ہے

۹۲

فَإِذَا جَاءَ يَوْمِي انْفَرَجَتْ عَنِّي وأَسْلَمَتْنِي - فَحِينَئِذٍ لَا يَطِيشُ السَّهْمُ ولَا يَبْرَأُ الْكَلْمُ

(۶۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحذر من فتنة الدنيا

أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا دَارٌ لَا يُسْلَمُ مِنْهَا إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنْجَى بِشَيْءٍ كَانَ لَهَا - ابْتُلِيَ النَّاسُ بِهَا فِتْنَةً - فَمَا أَخَذُوه مِنْهَا لَهَا أُخْرِجُوا مِنْه وحُوسِبُوا عَلَيْه - ومَا أَخَذُوه مِنْهَا لِغَيْرِهَا قَدِمُوا عَلَيْه وأَقَامُوا فِيه - فَإِنَّهَا عِنْدَ ذَوِي الْعُقُولِ كَفَيْءِ الظِّلِّ - بَيْنَا تَرَاه سَابِغاً حَتَّى قَلَصَ وزَائِداً حَتَّى نَقَصَ.

(۶۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في المبادرة إلى صالح الأعمال

فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه وبَادِرُوا آجَالَكُمْ بِأَعْمَالِكُمْ وابْتَاعُوا

اس کے بعد جب میرا دن آجائے گا تو یہ سپر مجھ سے الگ ہوجائےگااور مجھے موت کے حوالے کردے گا۔اس وقت نہ تیر خطاکرےگا اورنہ زخم مندمل ہو سکے گا

(۶۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا کے فتنوں سے ڈرایا گیا ہے)

آگاہ ہوجائو کہ یہ دنیا ایساگھر ہےجس سےسلامتی کاسامان اسی کےاندرسےکیاجاسکتا ہےاورکوئی ایسی شےوسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہےجو دنیا ہی کےلئے ہولوگ اس دنیاکے ذریعہ آزمائےجاتے ہیں جولوگ دنیاکاسامان دنیا ہی کےلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسےچھوڑکرچلےجاتےہیں اورپھرحساب بھی دینا ہوتا ہےاورجولوگ یہاں سےوہاں کےلئےحاصل کرتےہیں وہ وہاں جاکرپالیتےہیں اوراسی میں مقیم ہو جاتے ہیں۔یہ دنیا درحقیقت صاحبان عقل کی نظرمیں ایک سایہ جیسی ہے جودیکھتے دیکھتےسمٹ جاتا ہے اورپھیلتے پھیلتے کم ہو جاتا ہے۔

(۶۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(نیک اعمال کی طرف سبقت کے بارے میں )

بندگان خدا! اللہ سے ڈرو اور اعمال کے ساتھ اجل(۱) کی طرف سبقت کرو۔اس دنیا کے فانی مال کے

(۱)انسان کے قدم موت کی طرف بلا اختیاربڑھتے جا رہے ہیں اور اسے اس امر کا احساس ا بھی نہیں ہوتا ہے نتیجہ یہ ہتا ہے کہ ایک دن موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور دائمی خسارہ اورعذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے لہٰذا تقاضائے عقل و دانش یہی ہے کہ اعمال کو ساتھ لے کر آگے بڑھے گاتا کہ جب موت کا سامانا ہوتواعمال کا سہارا رہے اورعذاب الیم سے نجات حاصل کرنے کا وسیلہ ہاتھ میں رہے۔

۹۳

مَا يَبْقَى لَكُمْ بِمَا يَزُولُ عَنْكُمْ وتَرَحَّلُوا فَقَدْ جُدَّ بِكُمْ واسْتَعِدُّوا لِلْمَوْتِ فَقَدْ أَظَلَّكُمْ وكُونُوا قَوْماً صِيحَ بِهِمْ فَانْتَبَهُوا - وعَلِمُوا أَنَّ الدُّنْيَا لَيْسَتْ لَهُمْ بِدَارٍ فَاسْتَبْدَلُوا - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً ولَمْ يَتْرُكْكُمْ سُدًى ومَا بَيْنَ أَحَدِكُمْ وبَيْنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ - إِلَّا الْمَوْتُ أَنْ يَنْزِلَ بِه - وإِنَّ غَايَةً تَنْقُصُهَا اللَّحْظَةُ وتَهْدِمُهَا السَّاعَةُ - لَجَدِيرَةٌ بِقِصَرِ الْمُدَّةِ - وإِنَّ غَائِباً يَحْدُوه الْجَدِيدَانِ - اللَّيْلُ والنَّهَارُ لَحَرِيٌّ بِسُرْعَةِ الأَوْبَةِ وإِنَّ قَادِماً يَقْدُمُ بِالْفَوْزِ أَوِ الشِّقْوَةِ - لَمُسْتَحِقٌّ لأَفْضَلِ الْعُدَّةِ - فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا - مَا تَحْرُزُونَ بِه أَنْفُسَكُمْ غَداً فَاتَّقَى عَبْدٌ رَبَّه نَصَحَ نَفْسَه وقَدَّمَ تَوْبَتَه وغَلَبَ شَهْوَتَه - فَإِنَّ أَجَلَه مَسْتُورٌ عَنْه وأَمَلَه خَادِعٌ لَه - والشَّيْطَانُ مُوَكَّلٌ بِه يُزَيِّنُ لَه الْمَعْصِيَةَ لِيَرْكَبَهَا - ويُمَنِّيه التَّوْبَةَ لِيُسَوِّفَهَا

ذریعہ باقی رہنے والی آخرت کو خرید لو اور یہاں سے کوچ کر جائو کہ تمہیں تیزی سے لیجا یا جا رہا ہے اور موت کے لئے آمادہ ہوجائو کہ وہ تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے اس قوم جیسے ہو جائو جیسے پکارا گیا تو فورا ہوشیار ہوگئی۔اوراس نے جان لیا کہ دنیا اس کی منزل نہیں ہے تو اسے آخرت سے بدل لیا۔اس لئے کہ پروردگار نے تمہیں بیکارنہیں پیداکیا اور نہ مہمل چھوڑ دیا ہے اور یاد رکھو کہ تمہارے اور جنت و جہنم کے درمیان اتنا ہی وقفہ ہے کہ موت نازل ہو جائے اور انجام سامنے آجائے اور وہ مدت حیات جیسے ہر لحظہ کم کر رہا ہو اور ہر ساعت اس کی عمارت کو منہدم کر رہی ہو وہ قصیر المدة ہی سمجھنے کا لائق ہے اور وہ موت جسے دن و رات ڈھکیل کر آگے لا رہے ہوں اسے بہت جلد آنے والا ہی خیال کرنا چاہیے اور وہ شخص جس کے سامنے کامیابی یا ناکامی اوربد بختی آنے والی ہے اسے بہترین سامان مہیا ہی کرنا چاہیے۔لہٰذا تم دنیا میں رہ کر دنیا سے زاد راہ حاصل کر لو جس سے کل اپنے نفس کاتحفظ کرس کو۔اس کا راستہ یہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار سے ڈرے۔اپنے نفس سے اخلاص رکھتے ' توبہ کو مقدم کرے۔خواہشات پر غلبہ حاصل کرے اس لئے کہ اس کی اجل اس سے پوشیدہ ہے اور اس کی خواہش اسے مسلسل دھوکہ دینے والی ہے اور شیطان اس کے سر پر سوار ہے جو معصیتوں کو آراستہ کر رہا ہے تاکہ انسان مرتکب ہو جائے اور توبہ کی امیدیں دلاتا ہے تاکہ اس میں تاخیر کرے یہاں تک کہ غفلت اور بے خبری کے عالم میں موت اس پر

۹۴

إِذَا هَجَمَتْ مَنِيَّتُه عَلَيْه أَغْفَلَ مَا يَكُونُ عَنْهَا - فَيَا لَهَا حَسْرَةً عَلَى كُلِّ ذِي غَفْلَةٍ أَنْ يَكُونَ عُمُرُه عَلَيْه حُجَّةً - وأَنْ تُؤَدِّيَه أَيَّامُه إِلَى الشِّقْوَةِ - نَسْأَلُ اللَّه سُبْحَانَه - أَنْ يَجْعَلَنَا وإِيَّاكُمْ مِمَّنْ لَا تُبْطِرُه نِعْمَةٌ ولَا تُقَصِّرُ بِه عَنْ طَاعَةِ رَبِّه غَايَةٌ - ولَا تَحُلُّ بِه بَعْدَ الْمَوْتِ نَدَامَةٌ ولَا كَآبَةٌ.

(۶۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها مباحث لطيفة من العلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَمْ تَسْبِقْ لَه حَالٌ حَالًا - فَيَكُونَ أَوَّلًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ آخِراً - ويَكُونَ ظَاهِراً قَبْلَ أَنْ يَكُونَ بَاطِناً - كُلُّ مُسَمًّى بِالْوَحْدَةِ غَيْرَه قَلِيلٌ - وكُلُّ عَزِيزٍ غَيْرَه ذَلِيلٌ وكُلُّ قَوِيٍّ غَيْرَه ضَعِيفٌ - وكُلُّ مَالِكٍ غَيْرَه مَمْلُوكٌ وكُلُّ عَالِمٍ غَيْرَه مُتَعَلِّمٌ - وكُلُّ قَادِرٍ غَيْرَه يَقْدِرُ ويَعْجَزُ - وكُلُّ سَمِيعٍ غَيْرَه يَصَمُّ

حملہ آور ہوجاتی ہے۔ ہائے کس قدر حسرت کا مقام ہے کہ انسان کی عمر ہی اس کے خلاف حجت بن جائے اور اس کا روز گار ہی اسے بدبختی تک پہنچادے۔پروردگار سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں قرار دے جنہیں نعمتیں مغرور نہیں بناتی ہیں اور کوئی مقصد اطاعت خدا میں کوتاہی پرآمادہ نہیں کرتا ہے اور موت کے بعد ان پر ندامت اور رنج و غم کا نزول نہیں ہوتا ہے۔

(۶۵)

(جس میں علم الٰہی کے لطیف ترین مباحث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے)

تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس کے صفات میں تقدم(۱) و تاخرنہیں ہوتا ہے کہ وہ آخر ہونے سے پہلے اول رہا ہو اور باطن بننے سے پہلے ظاہر رہا ہو۔اس کے علاوہ جسے بھی واحد کہا جاتا ہے اس کی وحدت قلت ہے اور جسے بھی عزیز سمجھا جاتا ہے ہے اس کی عزت ذلت ہے۔اس کے سامنے ہر قوی ضعیف ہے اور ہر مالک مملوک ہے' ہر عالم متعلم ہے اور ہر قادر عاجز ہے' ہر سننے والا لطیف آوازوں کے لئے بہرہ ہے اور اونچی آوازیں بھی اسے بہرہ بنا دیتی ہیں

(۱)یہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار کے صفات کمال عین ذات ہیں اور ذات سے الگ کوئی شے نہیں ہیں۔وہ علم کی وجہ سے عالم نہیں ہے۔بلکہ عین حقیقت علم ہے اور قدرت کے ذریعہ قادر نہیں ہے بلکہ عین قدرت کاملہ ہے اور جب یہ سارے صفات عین ذات ہیں تو ان میں تقدم و تاخر کا کوئی سوال ہی نہیں ہے وہ جس لحظہ اول ہے اسی لحظہ آخر بھی ہے اور جس اندازسے ظاہر ہے اسی اندازسے باطن بھی ہے۔اس کی ذات اقدس میں کسی طرح کا تغیر قابل تصور نہیں ہے حدیہ ہے کہ اس کی سماعت و بصارت بھی مخلوقات کی سماعت و بصارت سے بالکل الگ ہے۔دنیا کا ہر سمیع و بصیر کسی شے کو دیکھتا اور سنتا ہے اور کسی شے کے دیکھنے اورسننے سے قاصر رہتا ہے لیکن پروردگار کی ذات اقدس ایسی نہیں ہے وہ مخفی ترین مناظر ک دیکھ رہا ہے اور لطیف ترین آوازوں کو سن رہا ہے ۔وہ ایسا ظاہر ہے جو باطن نہیں ہے اور ایسا باطن ہے جو کسی عقل و فہم پرظاہر نہیں ہو سکتا ہے۔!

۹۵

عَنْ لَطِيفِ الأَصْوَاتِ - ويُصِمُّه كَبِيرُهَا ويَذْهَبُ عَنْه مَا بَعُدَ مِنْهَا - وكُلُّ بَصِيرٍ غَيْرَه يَعْمَى عَنْ خَفِيِّ الأَلْوَانِ ولَطِيفِ الأَجْسَامِ - وكُلُّ ظَاهِرٍ غَيْرَه بَاطِنٌ وكُلُّ بَاطِنٍ غَيْرَه غَيْرُ ظَاهِرٍ - لَمْ يَخْلُقْ مَا خَلَقَه لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ - ولَا تَخَوُّفٍ مِنْ عَوَاقِبِ زَمَانٍ - ولَا اسْتِعَانَةٍ عَلَى نِدٍّ مُثَاوِرٍ ولَا شَرِيكٍ مُكَاثِرٍ ولَا ضِدٍّ مُنَافِرٍ ولَكِنْ خَلَائِقُ مَرْبُوبُونَ وعِبَادٌ دَاخِرُونَلَمْ يَحْلُلْ فِي الأَشْيَاءِ فَيُقَالَ هُوَ كَائِنٌ - ولَمْ يَنْأَ عَنْهَا فَيُقَالَ هُوَ مِنْهَا بَائِنٌ لَمْ يَؤُدْه خَلْقُ مَا ابْتَدَأَ - ولَا تَدْبِيرُ مَا ذَرَأَ ولَا وَقَفَ بِه عَجْزٌ عَمَّا خَلَقَ - ولَا وَلَجَتْ عَلَيْه شُبْهَةٌ فِيمَا قَضَى وقَدَّرَ - بَلْ قَضَاءٌ مُتْقَنٌ وعِلْمٌ مُحْكَمٌ - وأَمْرٌ مُبْرَمٌ الْمَأْمُولُ مَعَ النِّقَمِ - الْمَرْهُوبُ مَعَ النِّعَمِ!

اور دور کی آوازیں بھی اس کی حد سے باہر نکل جاتی ہیں اور اس طرح اس کے علاوہ ہر دیکھنے والا مخفی رنگ اور لطیف جسم کو نہیں دیکھ سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہر ظاہر غیر باطن ہے اور ہر باطن غیر ظاہر ۔اس نے مخلوقات کو اپنی حکومت کے استحکام یا زمانہ کے نتائج کے خوف سے نہیں پیدا کیا ہے۔نہ اسے کسی برابر والے حملہ آور یا صاحب کثرت شریک یا ٹکرانیوالے مد مقابل کے مقابلہ میں مدد لینا تھی۔ یہ ساری مخلوق اسی کی پیدا کی ہوئی اورپالی ہوئی ہے اور یہ سارے بندے اسی کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔اس نے اشیاء میں حلول نہیں کیا ہے کہ اسے کسی کے اندر سمایا ہوا کہا جائے اور نہ اتنا دور ہوگیا ہے کہ الگ تھلگ خیال کیا جائے۔مخلوقات کی خلقت اورمصنوعات کی تدبیر اسے تھکا نہیں سکتی ہے اور نہ کوئی تخلیق اسے عاجز بنا سکتی ہے اور نہ کسی قضاو قدر میں اسے کوئی شبہ پیدا ہو سکتا ہے۔اس کا ہر فیصلہ محکم اوراس کا ہر علم متقن اور اس کا ہر حکم مستحکم ہے۔ناراضگی میں بھی اس سے امید وابستہ کی جاتی ہے اورنعمتوں میں بھی اس کا خوف لاحق رہتا ہے۔

۹۶

(۶۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في تعليم الحرب والمقاتلة

والمشهور أنه قاله لأصحابه ليلة الهرير أو أول اللقاء بصفين

مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِينَ اسْتَشْعِرُوا الْخَشْيَةَ وتَجَلْبَبُوا السَّكِينَةَ وعَضُّوا عَلَى النَّوَاجِذِ فَإِنَّه أَنْبَى لِلسُّيُوفِ عَنِ الْهَامِ وأَكْمِلُوا اللأْمَةَ وقَلْقِلُوا السُّيُوفَ فِي أَغْمَادِهَا قَبْلَ سَلِّهَا - والْحَظُوا الْخَزْرَ واطْعُنُوا الشَّزْرَ ونَافِحُوا بِالظُّبَى وصِلُوا السُّيُوفَ بِالْخُطَا واعْلَمُوا أَنَّكُمْ بِعَيْنِ اللَّه ومَعَ ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللَّه - فَعَاوِدُوا الْكَرَّ واسْتَحْيُوا مِنَ الْفَرِّ فَإِنَّه عَارٌ فِي الأَعْقَابِ ونَارٌ يَوْمَ الْحِسَابِ - وطِيبُوا عَنْ أَنْفُسِكُمْ نَفْساً - وامْشُوا إِلَى الْمَوْتِ مَشْياً سُجُحاً وعَلَيْكُمْ بِهَذَا السَّوَادِ الأَعْظَمِ والرِّوَاقِ الْمُطَنَّبِ فَاضْرِبُوا ثَبَجَه فَإِنَّ الشَّيْطَانَ كَامِنٌ فِي كِسْرِه

(۶۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(تعلیم جنگ کے بارے میں )

مسلمانو!خوف(۱) خداکو اپنا شعار بنائو۔سکون و وقار کی چادر اوڑھ لو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سروں سے اچٹ جاتی ہیں۔زرہ پوشی کو مکمل کرلو۔تلواروں کو نیام سے نکالنے سے پہلے نیام کے اندرحرکت دے لو۔دشمن کو ترچھی نظر سے دیکھتے رہو اور نیزوں سے دونوں طرف وار کرتے رہو۔اسے اپنی تلواروں کی باڑھ پر رکھو اور تلواروں کے حملے قدم آگے بڑھا کرکرو اوریہ یاد رکھو کہ تم پروردگار کی نگا ہ میں اور رسول اکرم (ص) کے ابن عم کے ساتھ ہو ۔دشمن پر مسلسل حملے کرتے رہو اور فرار سے شرم کرو کہ اس کا عار نسلوں میں رہ جاتا ہے اوراس کا انجام جہنم ہوتا ہے۔اپنے نفس کو ہنسی خوشی خدا کے حوالے کردو اور موت کی طرف نہایت درجہ سکون و اطمینان سے قدم آگے بڑھائو۔تمہارا نشانہ ایک دشمن کا عظیم لشکراورطناب دار خیمہ ہونا چاہیے کہ اسی کے وسط پرحملہ کرو کہ شیطان اسی کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا

(۱)ان تعلیمات پرسنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ایک مرد مسلم کے جہاد کا انداز کیا ہونا چاہیے اوراسے دشمن کے مقابلہ میں کس طرح جنگ آزما ہونا چاہیے۔ان تعلیمات کا مختصرخلاصہ یہ ہے:۔ ۱۔دل کے اندر خوف خدا ہو'۲۔باہر سکون و اطمینان کا مظاہر ہو' ۳۔دانتوں کو بھینچ لیا جائے'۴۔آلات جنگ کو مکمل طورپر ساتھ رکھا جائے' ۵۔تلوار کو نیام کے اندرحرکت دے لی جائے کہ بر وقت نکالنے میں زحمت نہ ہو'۶۔دشمن پر غیط آلود نگاہ کی جائے ' ۷۔نیزوں کے حملے ہر طرف ہوں'۸۔تلوار دشمن کے سامنے رہے '۹۔تلوار دشمن تک نہ پہنچے توقدم بڑھاکرحملہ کرے' ۱۰۔فرار کا ارادہ نہ کرے ' ۱۱۔موت کی طرف سکون کے ساتھ قدم بڑھائے'۱۲۔جان جان آفریں کے حوالے کردے' ۱۳۔ہدف اورنشانہ پرنگاہ رکھے '۱۴۔یہ اطمینان رکھے کہ خدا ہمارے اعمال کودیکھ رہا ہے اور پیغمبر (ص) کا بھائی ہماری نگاہ کے سامنے ہے۔

ظاہر ہے کہ ان آداب میں بعض آداب ' تقویٰ ' ایمان وغیرہ دائمی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض کا تعلق نیزہ و شمشیر کے دور سے ہے لیکن اسے بھی ہردور کے آلات حرب و ضرب پرمنطبق کیاجاسکتا ہے اور اس سے فادئہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

۹۷

وقَدْ قَدَّمَ لِلْوَثْبَةِ يَداً وأَخَّرَ لِلنُّكُوصِ رِجْلًا - فَصَمْداً صَمْداً حَتَّى يَنْجَلِيَ لَكُمْ عَمُودُ الْحَقِّ –( وأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ والله مَعَكُمْ ولَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ )

(۶۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قالوا لما انتهت إلى أمير المؤمنينعليه‌السلام أنباء السقيفة بعد وفاة رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قالعليه‌السلام :ما قالت الأنصار قالوا قالت منا أمير ومنكم أمير قالعليه‌السلام :

فَهَلَّا احْتَجَجْتُمْ عَلَيْهِمْ - بِأَنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَصَّى بِأَنْ يُحْسَنَ إِلَى مُحْسِنِهِمْ - ويُتَجَاوَزَ عَنْ مُسِيئِهِمْ؟

قَالُوا ومَا فِي هَذَا مِنَ الْحُجَّةِ عَلَيْهِمْ؟

ہے۔اس کا حال یہ ہے کہ اس نے ایک قدم حملہ کے لئے آگے بڑھا رکھا ہے۔اور ایک بھاگنے کے لئے پیچھے کر رکھا ہے لہٰذا تم مضبوطی سے اپنے ارادہ پرجمے رہو یہاں تک کہ حق صبح کے اجالے کی طرح واضح ہو جائے اور مطمئن ہو کر بلندی تمہارا حصہ ہے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کر سکتا ہے۔

(۶۷)

آپ کا ارشاد گرامی

جب رسول اکرم (ص)کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ(۱) کی خبریں پہنچیں اور آپ نے پوچھا کہ انصار نے کیا احتجاج کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہمارا ہوگا اور ایک تمہارا۔تو آپ نے فرمایا:۔

تم لوگوں نے ان کے خلاف یہ استدلال کیوں نہیں کیا کہ رسول اکرم (ص) نے تمہارے نیک کرداروں کے ساتھ حسن سلوک اور خطا کاروں سے در گزر کرنے کی وصیت فرمائی ہے ؟

لوگوں نے کہا کہ اس میں کیا استد لال ہے؟

(۱)استاد احمد حسن یعقوب نے کتاب نظریہ عدالت صحابہ میں ایک مفصل بحث کی ہے کہ سقیفہ میں کوئی قانونی اجتماع انتخاب خلیفہ کے لئے نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی اس کا ایجنڈہ تھا اورنہ سوا لاکھ صحابہ کی بستی میں سے دس بیس ہزار افراد جمع ہوئے تھے بلکہ سعد بن عبادہ کی بیماری کی بناپر انصارعیادت کے لئے جمع ہوئے تھے اوربعض مہاجرین نے اس اجتماع کودیکھ کر یہ محسوس کیا کہ کہیں خلافت کا فیصلہ نہ ہوجائے' تو بر وقت پہنچ کر اس قدر ہنگامہ کیا کہ انصار میں پھوٹ پڑ گئی اور فی الفور حضرت ابو بکر کی خلافت کا اعلان کردیا اور ساری کاروائی لمحوں میں یوں مکمل ہوگئی کہ سعد بن عبادہ کو پامال کردیا گیا اور حضرت ابو بکر ''تاج خلافت ''سر پر رکھے ہوئے سقیفہ سے برآمد ہوگئے۔اس شان سے کہ اس عظیم مہم کی بنا پرجنازۂ رسول میں شرکت سے بھی محروم ہوگئے اورخلافت کا پہلا اثر سامنے آگیا۔

۹۸

فَقَالَعليه‌السلام :

لَوْ كَانَ الإِمَامَةُ فِيهِمْ لَمْ تَكُنِ الْوَصِيَّةُ بِهِمْ.

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام :

فَمَا ذَا قَالَتْ قُرَيْشٌ - قَالُوا احْتَجَّتْ بِأَنَّهَا شَجَرَةُ الرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَقَالَعليه‌السلام احْتَجُّوا بِالشَّجَرَةِ وأَضَاعُوا الثَّمَرَةَ.

(۶۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما قلد محمد بن أبي بكر مصر فملكت عليه وقتل

وقَدْ أَرَدْتُ تَوْلِيَةَ مِصْرَ هَاشِمَ بْنَ عُتْبَةَ - ولَوْ وَلَّيْتُه إِيَّاهَا لَمَّا خَلَّى لَهُمُ الْعَرْصَةَولَا أَنْهَزَهُمُ الْفُرْصَةَ بِلَا ذَمٍّ لِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ - فَلَقَدْ كَانَ إِلَيَّ حَبِيباً وكَانَ لِي رَبِيباً.

فرمایاکہ اگر امارت ان کا حصہ ہوتی تو ان سے وصیت کی جاتی نہ کہ ان کے بارے میں وصیت کی جاتی ۔اس کے بعد آپ نے سوال کیا کہ قریش کی دلیل کیا تھی؟ لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے کو رسول اکرم (ص) کے شجرہ میں ثابت کر رہے تھے۔فرمایا کہ افسوس شجرہ سے استدلال کیا اورثمرہ کو ضائع کردیا

(۶۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے محمدبن ابی بکر کو مصر کی ذمہ داری حوالہ کی اور انہیں قتل کردیا گیا)

میرا ارادہ تھا کہ مصر کاحاکم ہاشم بن(۱) عتبہ کو بنائوں اور اگر انہیں بنا دیتا تو ہرگزمیدان کو مخالفین کے لئے خالی نہ چھوڑتے اور انہیں موقع سے فائدہ نہ اٹھانے دیتے ( لیکن حالات نے ایسا نہ کرنے دیا)

اس بیان کا مقصد محمد بن ابی بکر کی مذمت نہیں ہے اس لئے کہ وہ مجھے عزیز تھا اور میرا ہی پروردہ(۲) تھا۔

(۱)ہاشم بن عتبہ صفین میں عملدارلشکر امیر المومنین تھے۔مرقال ان کا لقب تھا کہ نہایت تیز رفتاری اورچابکدستی سے حملہ کرتے تھے۔

(۲)محمد بن ابی بکر اسما بنت عمیس کے بطن سے تھے۔جو پہلے جناب جعفر طیارکی زوجہ تھیں اور ان سے عبداللہ بن جعفر پیدا ہوئے تھے اس کے بعد ان کی شہادت کے بعد ابو بکر کی زوجیت میں آگئیں جن سے محمد پیدا ہوئے اور ان کی وفات کے بعد مولائے کائنات کی زوجیت میں آئیں اور محمد نے آپ کے زیر اثر تربیت پائی یہ اوربات ہے کہ جب عمرو عاص نے چار ہزار کے لشکرکے ساتھ مصر پرحملہ کیا تو اپنے آبائی اصول جنگ کی بنا پرمیدان سے فرار اختیار کیا اور بالآخر قتل ہوگئے اورلاش کو گدھے کی کھال میں رکھ کرجلا دیا گیا یا بروایتے زندہ ہی جلادئیے گئے اور معاویہ نے اس خبرکوسن کر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ (مروج الذہب)

امیر المومنین نے اس موقع پر ہاشم کو اسی لئے یاد کیاتھا کہ وہ میدان سے فرار نہ کر سکتے تھے اور کسی گھر کے اندر پناہ لینے کا ارادہ بھی نہیں کر سکتے تھے ۔

۹۹

(۶۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في توبيخ بعض أصحابه

كَمْ أُدَارِيكُمْ كَمَا تُدَارَى الْبِكَارُ الْعَمِدَةُ والثِّيَابُ الْمُتَدَاعِيَةُ !كُلَّمَا حِيصَتْ مِنْ جَانِبٍ تَهَتَّكَتْ مِنْ آخَرَ - كُلَّمَا أَطَلَّ عَلَيْكُمْ مَنْسِرٌ مِنْ مَنَاسِرِ أَهْلِ الشَّامِ - أَغْلَقَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بَابَه - وانْجَحَرَ انْجِحَارَ الضَّبَّةِ فِي جُحْرِهَا والضَّبُعِ فِي وِجَارِهَا الذَّلِيلُ واللَّه مَنْ نَصَرْتُمُوه - ومَنْ رُمِيَ بِكُمْ فَقَدْ رُمِيَ بِأَفْوَقَ نَاصِلٍ إِنَّكُمْ واللَّه لَكَثِيرٌ فِي الْبَاحَاتِ قَلِيلٌ تَحْتَ الرَّايَاتِ - وإِنِّي لَعَالِمٌ بِمَا يُصْلِحُكُمْ ويُقِيمُ أَوَدَكُمْ ولَكِنِّي لَا أَرَى إِصْلَاحَكُمْ بِإِفْسَادِ نَفْسِي - أَضْرَعَ اللَّه خُدُودَكُمْ وأَتْعَسَ جُدُودَكُمْ لَا تَعْرِفُونَ الْحَقَّ كَمَعْرِفَتِكُمُ الْبَاطِلَ - ولَا تُبْطِلُونَ الْبَاطِلَ كَإِبْطَالِكُمُ الْحَقَّ!

(۶۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب کو سر زنش کرتے ہوئے)

کب تک میں تمہارے ساتھ وہ نرمی کا برتائو کروں جو بیمار اونٹ کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کا کوہان اندر سے کھوکھلا ہوگیا ہو یا اس بوسیدہ کپڑے کے ساتھ کیا جاتا ہے جسے ایک طرف سے سیا جائے تو دوسری طرف سے پھٹ جاتا ہے۔ جب بھی شام کا کوئی دستہ تمہارے کسی دستہ کے سامنے آتا ہے تو تم میں س ے ہر شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیتاہے اور اس طرح چھپ جاتا ہے جیسے سوراخ میں گوہ یا بھٹ میں بجو۔ خدا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مدد گار ہوں گے اور جو تمہارے ذریعہ تیر اندازی کرے گا گویا وہ سو فار شکستہ اورپیکان نداشتہ تیرے نشانہ لگائے گا۔خدا کی قسم تم صحن خانہ میں بہت دکھائی دیتے ہواور پرچم لشکرکے زیر سایہ بہت کم نظرآتے ہو۔میں تمہاری اصلاح کا طریقہ جانتا ہوں اور تمہیں سیدھا کر سکتا ہوں لیکن کیا کروں اپنے دین کو برباد کرکے تمہاری اصلاح نہیں کرنا چاہتا ہوں۔خدا تمہارے چہروں کو ذلیل کرے اور تمہارے نصیب کو بد نصیب کرے۔تم حق کو اس طرح نہیں پہچانتے ہو جس طرح باطل کی معرفت رکھتے ہو اور باطل کو اس طرح باطل نہیں قراردیتے ہو جس طرح حق کو غلط ٹھہراتے ہو۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369