پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 369
مشاہدے: 276510
ڈاؤنلوڈ: 7797


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 276510 / ڈاؤنلوڈ: 7797
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سیوطی نے تاریخ الخلفاء ص66 میں۔ 9۔ ابن عبدالبر قرطبی متوفی سنہ463ھ نے استیعاب جلد دوم ص474 میں۔ 10۔ سید مومن شبلنجی نے نور الابصار ص73 میں۔ 11۔ شہاب الدین احمد بن عبد القادر عجیلی نے ذخیرۃ الآمال میں۔ 12۔ محمد بن علی الصبان نے اسعاف الراغبین ص152 میں۔ 13۔ نور الدین بن صباغ مالکی متوفی سنہ855ھ نے فصول المہمہ ص18 میں۔ 14۔ نور الدین علی بن عبداللہ ہمودی متوفی سنہ911ھ نے جواہر العقدین میں۔ 15۔ ابن ابی الحدید معتزلی متوفی سنہ655ھ نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص6 میں۔ 16۔ علامہ قوشجی نے شرح تجرید ص407 میں۔ 17۔ خطیب خوارزمی نے مناقب ص47، ص60 میں۔ 18۔ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ضمن فصل ششم ص29 میں۔ 19۔ امام احمد بن حنبل نے فضائل اور مسند میں۔ 20۔ سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص85، ص87 میں۔ 21۔ امام ثعلبی نے تفسیر کشف البیان میں۔ 22۔ علامہ ابن قیم جوزی نے طرق الحکمہ میں ان حضرت کے تعدد قضایا نقل کرتے ہوئے ص41 سے ص53 تک ۔ 23۔ محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی سنہ658ھ نے کفایت الطالب باب 57 میں۔ 24۔ ابن ماجہ قزوینی نے سنن میں۔ 25۔ ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں۔ 26۔ ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد میں۔ 27۔ محمد بن علی بن الحسن الحکیم ترمذی نے شرح فتح المبین میں۔ 28۔ دیلمی نے فردوس میں۔ 29۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب 14میں۔ 30۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء اور مانزل القرآن فی علی میں، اور آپ کے دوسرے بہت سے جلیل القدر علماء نے مختلف الفاظ و عبارات کے ساتھ خلیفہ عمر کے اقوال نقل کئے ہیں اور زیادہ تر ان قضیوں کے مواقع درج کرتے ہوئے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے : " لولاعلي لهلكعمر."

بعض وہ مواقع جہاں علی(ع) نے خلفاء کو نجات دلائی اور انہوں نے اقرار کیا کہ اگر علی (ع) نہ ہوتے تو ہم ہلاک ہوجاتے

منجملہ ان کے فقیہ گنجی شافعی نے کفایت الطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب(ع) باب57 میں چند مستند روایتیں نقل کرنے کے بعد حذیفہ بن الیمان کی روایت نقل کی ہے جس کو آپ کے دوسرے علماء نے بھی درج کیا ہے کہ ایک روز عمر نے ان سے ملاقات کی اور پوچھا کہ تم نے کس حال میں صبح کی ؟ حذیفہ نے کہا :

" اصبحت والله اکره الحق و احب الفتنه و اشهد بما لم اره واحفظ غير المخلوق و اصلی علی غير وضوء ولی فی الارض ما ليس لله فی السماء"

یعنی میں نے اس حالت میں صبح کی کہ حق سے کراہت کرتا ہوں، فتنے کو دوست رکھتا ہوں، ایسی چیز کی گواہی دیتا ہوں جس کو دیکھا نہیں ہے، غیر مخلوق کو حفظ کرتا ہوں، صلوات بغیر وضو کے پڑھتا ہوں اور زمین میرے لیے وہ ہے جو خدا کے لیے آسمان میں نہیں۔

عمر ان الفاظ سے غضب ناک ہوئے اور ان کو سزا دینا چاہی، اتنے میں امیر المومنین علی علیہ السلام تشریف لائے اور عمر کے چہرے کے آثار دیکھ کر فرمایا تم کیوں غضب ناک ہو؟ انہوں نے واقعہ بیان کیا تو حضرت نے فرمایا یہ تو کوئی اہم معاملہ نہیں ہے، انہوں نے ساری باتیں سچ کہیں ہیں۔

۲۴۱

حق سے مراد موت ہے جس سے یہ کراہت کرتے ہیں ، فتنے سے مراد مال و اولاد ہے، جس کو دوست رکھتے ہیں، بن دیکھی چیز سے مراد ذات وحدہ لاشریک نیز موت ، قیامت ، بہشت ،دوزخ اور صراط ہے جن میں سے کسی کو نہیں دیکھا ہے پھر ان کی گواہی دیتے ہیں، غیر مخلوق سے مراد قرآن ہے جس کو حفظ کرتے ہیں، صلواۃ بغیر وضو سے مراد رسول(ص) پر درود بھیجنا ہے جس کے لیے وضو کی ضرورت نہیں اور یہ کہنا کہ زمین میں میرے لیے وہ ہے جو خدا کے لیے آسمان میں نہیں تو اس سے مراد زوجہ ہے کیونکہ خدا کے لیے زوجہ اور اولاد نہیں۔

عمر نے کہا : " کاد یہلک ابن خطاب لو لا علی ابن ابی طالب" یعنی قریب تھا کہ عمر ہلاک ہوجائے اگر علی(ع) نہ پہنچ جاتے۔ اس کے بعد مئولف گنجی کہتے ہیں کہ یہ بات ( یعنی خلیفہ کہتے تھے کہ اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا) اہل خبر کے نزدیک ثابت ہے اور ارباب میر کی ایک بڑی جماعت نے اس کو نقل کیا ہے۔

صاحب مناقب کہتے ہیں کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ بار بار کہتے تھے : " لا غشث فی امة لست فيها يا ابالحسن " یعنی میں زندہ نہ رہوں اس امت میں جس میں تم نہ ہو اے ابو الحسن ( کنیت علی علیہ السلام) نیز کہتے تھے " عقمات النساء ان ي لدن مثل علی ابن ابی طالب " یعنی عورتیں علی(ع) کی ایسی اولاد پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔

محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب14 میں ترمذی سے نقل کرتے ہوئے بسند ابن عباس ایک مفصل روایت لکھی ہے جس کے آخر میں کہتے ہیں :

" کانت الصحابة رضی الله عنهم يرجعون اليه فی احکام الکتاب و ياخذون عنه الفتاوی کما قال عمر بن الخطاب رضی الله عنه فی عدة مواطن لا لو علی لهلک عمر. و قال صلی الله عليه و آله اعلم امتی علی بن ابی طالب."

یعنی اصحاب رسول(ص) احکام قرآن میں علی علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان سے فتوی لیتے تھے، چنانچہ عمر ابن خطاب نے اکثر مواقع پر کہا ہے کہ اگر علی(ع) نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوجاتا۔ اور حضرت رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ امت میں سب سے بڑے عالم و دانا علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔

پس وقت کے لحاظ سے اس مختصر بیان پر غالبا آپ تصدیق کریں گے کہ مذہبی مناظروں اور علمی مباحثوں میں کبھی خلیفہ عمر کی کوئی شدت اور مضبوطی نہیں دیکھی گئی بلکہ وہ خود اپنی معذوری کا اقرار کرتے تھے اور اس بات کی تصدیق کرتے تھے کہ علی(ع) ان کے فریاد رس تھے اور خطرناک مراحل سے ان کو چھٹکارا دلاتے تھے ، یہاں تک کہ آپ کے متعصب علماء جیسے ابن حجر مکی صواعق محرقہ فصل سیم میں ابن سعد سے نقل کرتے ہیں کہ عمر کہتے تھے " اعوذ بالل ه من معضلةليس لها ابوالحسن يعنی عليا " یعنی میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں ایسے دشوار اور سخت مرحلے سے جس کے لیے ابو الحسن یعنی علی(ع) موجود نہ ہوں۔

۲۴۲

کسی میدان جنگ میں خلیفہ عمر کی کوئی شجاعت و پامردی نہیں دیکھی گئی

معرکوں اور لڑائی کے میدانوں میں بھی کوئی تاریخ ؟؟؟؟ دیتی کہ خلیفہ عمر نے بذات خود کسی شدت و شجاعت اور ثبات قدم کا ثبوت دیا ہو بلکہ اس کے برعکس تاریخ اور فریقین کے مورخین گواہ ہیں کہ جب کسی بڑے لشکر یا کسی طاقت ور کافر کا مقابلہ ہوجاتا تھا تو ان کے قدم اکھڑ جاتے تھے جس کے نتیجے میں دوسرے مسلمان بھی بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور لشکر اسلام کو شکست ہوجاتی تھی۔

حافظ : آپ نے آہستہ آہستہ بے لطفی میں شدت پیدا کردی اور خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ جیسے انسان کی جو مسلمانوں کے لیے باعث فخر تھے، ان کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں کو بڑے بڑے فتوحات نصیب ہوئے، اور ساری جنگوں میں انہیں کے وجود سے لشکر اسلام کو فتح حاصل ہوئی ہے توہین کی ہے، ایسی بزرگ ہستی کو بزدل اور بھگوڑا اور ان کی ذات کو مسلمانوں کی شکست کا ذمہ دار ثابت کرتے ہیں۔ آیا یہ مناسب ہے کہ آپ جیسا شریف انسان خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ جیسے بزرگ حضرات کی جو مسلمانوں کے لیے سرمایہ فخر و مباہات ہیں اس قدر اہانت کرے اور ہم بھی چپکے رہیں اور دم نہ ماریں۔

خیر طلب : آپ کو سخت غلط فہمی ہوئی۔ تعجب ہے کہ اتنی راتوں کے بعد بھی آپ نے مجھ کو صحیح طریقے سے نہیں پہچانا اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید میں اپنے جذبات اور جاہلانہ محبت و دشمنی کی بنا پر بغیر دلیل و برہان کے اشخاص کی تعریف یا مذمت کرتا ہوں بالخصوص ان افراد کی جا تاریخ کے اندر شہرت رکھتے ہیں، چاہئے جس طبقے کے ہوں، صرف ایک بڑا عیب جو اس طرح کے جلسوں میں پایا جاتا ہے اور جو صدیوں سے مسلمانوں کے درمیان بدبختی کا سبب بنا ہوا ہے غلط بینی اور بدگمانی ہے جس پر حکم قرآن کے خلاف مسلمانوں کا عمل ہے۔ باجودیکہ سورہ 49 ( حجرات) آیت 12 میں کھلا ہوا ارشاد ہے: " يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِنَ الظَّنِ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ " (یعنی اے ایمان والو ظن اور گمان بدسے پرہیز کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔

چونکہ یہ حملے جو میں نے عرض کئے ہیں ایک شیعہ کی زبان سے نکلے ہیں لہذا آپ نے بدنیتی سے کام لیتے ہوئے ان کو اہانت سمجھا، حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہے، کیونکہ جو کچھ آپ کے علماء مورخین نے لکھا ہے میں نے ایک لفظ اس سے زیادہ نہیں کہا۔ ظاہر ہے کہ ہم اور آپ گزشتہ زمانوں میں نہیں تھے لیکن عقل کہتی ہے کہ صفحات تاریخ کے روسے ہم کو اشخاص کے اچھے برے افعال کا فیصلہ کرنا چاہیے۔

۲۴۳

دوبارہ اظہار حقیقت

آپ نے جو یہ فرمایا کہ میں نے خلیفہ عمر کی توہین کی ہے تو معاف کیجئے گا اس مقام پر آپ کو مغالطہ ہوا ہے۔ یا پھر آپ نے اس جملے سے ہمارے مخالفین کر بھڑکانا چاہا ہے۔ حالانکہ خلیفہ کے بارے میں ہماری گفتگو اہانت کے پہلو سے نہیں تھی بلکہ میں نے تاریخ کا سچا واقعہ بیان کیا ہے اور خود آپ کے بڑے بڑے علماء مورخین نے جو کچھ لکھا ہے اس سے زیادہ نہ کچھ کہا ہے نہ کہتا ہوں ۔ اب میں مجبور ہوں کہ پردہ اٹھائوں اور مطلب کو زیادہ تشریح اور وضاحت سے بیان کروں تاکہ یہ بد گمانی دفع ہو۔ آپ نے فرمایا ہے کہ اسلام کے اہم فتوحات خلیفہ عمر کے مرہوں منت ہیں، تو کسی کو اس سے انکار نہیں کہ حکومت عمر کے زمانے میں اسلام کو بڑے بڑے فتوحات حاصل ہوئے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی نہ بھولنا چاہیئے کہ آپ کے اکابر علماء کہ شہادت اور اقرار کے مطابق جیسا کہ قاضی ابوبکر خطیب نے تاریخ بغداد میں، امام احمد حنبل نے مسند میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نیز دوسروں نے لکھا ہے، تمام ملکی اور انتظامی امور میں بالخصوص فوج کشی کے موقع پر خلیفہ عمر حضرت علی علیہ السلام سے مشورہ کرتے تھے اور انہیں کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے تھے۔

علاوہ ان چیزوں کے ہر دور اور زمانے کے اسلامی فتوحات میں فرق تھا۔ پہلی قسم اسلام کے ان ابتدائی فتوحات کی ہے جو خود حضرت خاتم الانبیاء(ص) کے عہد میں حاصل ہوئے اور جو امیرالمومنین علی علیہ السلام کی ذات والا صفات کے مرہون منت تھے بقول شاعر

سیاہی لشکر نباید بکار کہ یک مرد جنگی بہ از صد ہزار

جوانمرد انسان جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے سرمایہ فخر و مباہات اور جس کا وجود لشکر اسلام کی فتح و فیروزی کا ضامن تھا، امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے، کیونکہ اگر آپ کسی جنگ میں موجود نہ ہوتے تھے تو فتح بھی حاصل نہ ہوتی تھی، چنانچہ خیبر میں جب کہ آپ کو آشوب چشم تھا اور میدان میں جانا ممکن نہیں تھا مسلمانوں نے پے در پے شکست کھائی یہاں تک حضرت نے رسول اللہ کی دعا سے شفا پائی اور دشمن پر حملہ کر کے خیبر کے قلعے فتح کئے۔

غزوہ احد میں جب سارے مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے تو صرف حضرت علی (ع) ہی تھے جو پیغمبر(ص) کی نصرت میں ثابت قدم رہے یہاں تک کہ ہاتف غیب نے ندا دی لا سیف الا ذوالفقار لا فتی الا علی ( یعنی سوا ذوالفقار کے کوئی تلوار نہیں اور سوا علی(ع) کے کوئی جوانمرد نہیں۔)

اور دوسری قسم ان فتوحات کی ہے جو وفات پیغمبر(ص) کے بعد ہوئے اور وہ سب کے سب نامی بہادروں ، اسلام کے بڑے سرداروں اور ان کی تدبیر جنگ اور تجربہ کاری کے ممنون احسان تھے کیونکہ وہ میدان جنگ میں طاقت ور دشمنوں

۲۴۴

کے مقابل شجاعت و فداکاری اور جان بازی دکھا کر ان پر غلبہ حاصل کرتے تھے۔

لیکن ہماری گفتگو فتوحات اسلامی کے بارے میں نہیں تھی جو خلافت خلفاء اور بالخصوص خلیفہ عمر کے زمانہ میں ہوئے بلکہ خلیفہ عمر کی ذاتی شدت و شجاعت اور پامردی کے موضوع پر تھی جس کے متعلق میں نے عرض کیا کہ تاریخ میں اس کا وجود نہیں۔

حافظ : یہ اہانت نہیں ہے کہ آپ فرماتے ہیں خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ میدان جنگ سے بھاگے اور ان کا یہ عمل مسلمانوں کی شکست کا باعث ہوا؟

خیر طلب : اگر لوگوں کے تاریخی واقعات کا نقل کرنا اہانت ہے تو اس طرح کی اہانت کو خود آپ ہی کے بڑے برے علماء اور مورخین نے نقل کیا ہے اور میں نے بھی وہی کہا ہے جس کو آپ کے مورخین نے درج کیا ہے لہذا اگر آپ کا کوئی اعتراض یا اشکال ہے تو اپنے ہی علماء پر وارد کیجئے۔

حافظ : کس جگہ ہمارے علماء نے لکھا ہے کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ میدان جنگ سے بھاگے اور مسلمانوں کی شکست کا باعث بنے؟

خیبر میں ابوبکر و عمر کی شکست

خیر طلب : ان حضرات نے لڑائی کے بہت سے میدانوں میں شکست کھائی جن میں سے ایک خاص واقعہ جنگ خیبر کا ہے ۔ چونکہ حضرت علی علیہ السلام کی آنکھیں درد کررہی تھی لہذا پہلے روز حضرت رسول خدا(ص) نے فوج اسلام کا علم ابوبکر کو دیا، یہ مسلمانوں کے سردار لشکر بن کر یہودیوں کے مقابلے پر گئے اور مختصر سی لڑائی کے بعد شکست کھا کر واپس آگئے ، دوسرے روز نشان فوج عمر کو دیا گیا لیکن یہ ابھی یہودیوں کے مقابل بھی نہیں پہنچے تھے کہ ڈر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

حافظ : آپ کے یہ بیانات محض شیعوں کے گھڑے ہوئے ہیں ورنہ یہ حضرات بہت ہی دلیر اور بہادر تھے۔

خیر طلب : میں نے بار بار عرض کیا ہے کہ شیعہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے پیرو ہیں جو صادق و مصدق تھے۔ نہ ہم نے جھوٹ کہا ہے نہ کہتے ہیں کیونکہ جھوٹ کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور نہ ہم کو قطعا حدیث گھڑنے کی کوئی ضرورت ہی ہے۔ غزوہ خیبر خاتم الانبیاء(ص) کے دور زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے جس کو فریقین کے تمام علماء و مورخین نے لکھا ہے، چنانچہ جتنا اس وقت میرے پیش نظر ہے اس کو عرض کرتا ہوں۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی متوفی سنہ430ھ نے حلیۃ الاولیاء جلد اول ص63 میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص40 میں سیرۃ ابن ہشام سے ، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب 14 میں نیز آپ کے دوسرے اکابر علماء و مورخین نے لکھا ہے۔ لیکن سب کے اقوال نقل کرنے کا وقت نہیں ہے البتہ ان سارے اقوال سے زیادہ اہم اور آپ کے نزدیک محل وثوق و اطمینان دو بڑے عالموں کی تصدیق پیش کرتا ہوں۔ محمد بن اسماعیل

۲۴۵

بخاری نے اپنی صحیح جلد دوم مطبوعہ مصر سنہ 1320ھ ص100 میں اور مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح جلد دوم مطبوعہ مصر سنہ1320 ص324 میں صریحا لکھا ہے فرجع ایضا ضہزما " یعنی ( خلیفہ عمر) دو مرتبہ میدان جنگ سے بھاگ کر واپس آئے۔

اس مطلب کے واضح دلائل میں سے ابن الحدید معتزلی کے وہ کھلے ہوئے اشعار ہیں جو انہوں نے اپنے سات مشہور قصیدوں میں سے جو آیات سبع کے نام سے موسوم اور حضرت امیرالمومنین(ع) کے فضائل میں نظم کئے گئے ہیں قصیدہ بائیہ میں باب خیبر کا ذکر کرتے ہوئے کہے ہیں۔

الم تخبر الاخبار فی فتح خيبر نفيها الذی اللب الملب اعاجيب

وما انس لانس الذين تقد ماو فرهما والفرقد علما حوب

وللراية العظمی و قد ذهبا بهاملابس ذل نوقها و جلابيب

يشلهما من آل موسی شمر دل طويل نجا والسيف اجيد يعبوب

يمج منونا سيفه و سنانه و يلهب نارا عمده و الاقابيب

احضرهما ام حضرا خرج خاضب وذانهما ام فاعم الخد مخضوب

عذرتکما ان الحمام لمبغض وان لقاء النفس للنفس محبوب

ليکره طعم الموت والموت طالب فکيف يلذ الموت والموت مطلوب

( مطلب یہ کہ آیا تم نے فتح خیبر کی داستان نہیں سنی ہے جس میں عجیب عجیب نکات و رموز پوشیدہ ہیں، جن سے عقلمند حیران ہیں۔ چونکہ وہ دونوں ( ابوبکر و عمر) علم سے کوئی انس اور علمداری کی عادت نہیں رکھتے تھے لہذا بھاگ کھڑے ہوئے حالانکہ جانتے تھے کہ میدان جہاد سے بھاگنا ایک کفر آمیز گناہ ہے۔ اور جو با عظمت نشان فوج لے گئے تھے اس کو بھی ذلت و خواری کا جامہ پہنا دیا۔ کیونکہ یہودی سرداروں میں سے ایک بہادر اور بلند قامت جوان برہنہ تلوار لئے ہوئے ایک کوہ پیکر گھوڑے پر سوار پر شہوت نر شتر مرغ کی طرح جس کو موسم بہار کی ہوا اور سبزے نے قوی بنا دیا ہو ان پر حملہ آور ہوا۔ گویا وہ خوبصورت مہندی لگائے ہوئے معشوقوں کی طرف جارہا تھا۔ اس کی تلوار اور نیزے کی بجلی سے آتش مرگ کی شعاعین نکلتی دیکھ کر یہ دونوں ڈر گئے ( پھر ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ ) میں آپ دونوں صاحباں (ابوبکر و عمر) کی جگہ پر عذر خواہی کرتا ہوں ، موت ہر شخص کی نظر میں مکروہ اور زندگی محبوب ہے۔ لہذا آپ بھی موت سے بیزار تھے ، حالانکہ موت ہر شخص کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ پس کیونکر آپ موت چاہتے اور اس کا مزہ چکھتے) اب غالبا آپ تصدیق کریں گے کہ میں اہانت کا ارادہ نہیں رکھتا تھا بلکہ فقط یہ سمجھانے کے لیے تاریخی واقعات نقل کئے تھے کہ لڑائی کے میدانوں میں خلیفہ کے اندر کوئی ذاتی شدت و درشتی اور شجاعت نہیں تھی جس سے اشداء علی الکفار میں شامل ہوسکیں بلکہ طاقتور دشمن کے مقابلے میں جگہ چھوڑ کر جنگ سے منہ موڑ لیتے تھے آپ اگر غور و انصاف کی پوری نظر ڈالیں تو تصدیق کریں گے کہ اس بلند صفت کے حامل بھی علی(ع) تھے جو تمام معرکوں میں کفار پر شدید الغضب اور غالب رہتے چنانچہ خدائے تعالی سورہ نمبر5 ( مائدہ) آیت نمبر59 میں اس کی توثیق

۲۴۶

فرماتا ہے، ارشاد ہے:

" ياأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُوامَنْ يَرْتَدَّمِنْ كُمْ عَن ْدِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّه ُبِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍعَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍعَلَى الْكافِرِينَ يُجاهِدُونَ فِي سَبِيل ِاللَّهِ وَلايَخافُونَ لَوْمَةَلائِمٍ ذلِكَ فَضْل ُاللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشاءُوَاللَّه ُواسِعٌ عَلِيمٌ "

( یعنی اے ایمان لانے والو تم میں سے جو شخص اپنے دین سے مرتد ہوجائے تو عنقریب خدا ایسی قوم کو لائے گا جن کو وہ دوست رکھتا ہے اور وہ بھی خدا کو دوست رکھتے ہیں، مومنین سے نکسار اور فروتنی اور کافروں سے عظمت و اقتدار کے ساتھ پیش آتے ہیں( جیسے علی(ع) اور ان کے پیرو) خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور اس راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ یہ خدا کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور خدا کی رحمت وسیع ہے، وہ ہر مستحق کی حالت سے خوب واقف ہے۔)

حافظ : تعجب ہے کہ آپ اپنی خوش بیانی سے اس آیت کو جو ان تمام مومنین کی شان میں ہے جن میں یہ صفتیں موجود تھیں اور خدا کا لطف و کرم جن کے شامل حال تھا زبردستی علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں ثابت کر رہے ہیں۔

خیر طلب : آپ نے مکرر تجربہ کیا ہے اور دیکھا ہے کہ میں نے اب تک بلا دلیل کوئی بات نہیں کہی ہے جیسا کہ آپ نے برابر ایراد کیا ہے اور ان کا جواب سنا ہے لیکن پھر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ بہتر یہ تھا کہ آپ سوال کے انداز میں فرماتے کہ اس دعوے پر دلیل کیا ہے تاکہ میں جواب عرض کردیتا۔ اب آپ کے ارشاد کا جواب پیش کرتا ہوں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر یہ آیت تمام مومنین کے لیے نازل ہوئی ہوتی اور وہ سب اس کے مصداق ہوتے تو میدان جنگ سے ہرگز فرار نہ کرتے۔

حافظ : آیا یہ انصاف ہے کہ مومنین اور اصحاب رسول (ص) کو جنہوں نے اس قدر جنگیں کیں اور فتوحات حاصل کئے آپ اہانت آمیز انداز میں فرار کرنے والے بتارہے ہیں؟

خیر طلب : اول تو میں نے کوئی اہانت کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ ان کی کیفیت بیان کی ہے۔ دوسرے ان کو میں نے فرار نہیں کہا ہے بلکہ تاریخ یہی بتاتی ہے۔ گویا آپ حضرات احد اور حنین کی لڑائیوں میں مومنین اور صحابہ کا فرار کرنا بھول ہی گئے جب کہ بالعموم حتی کہ کبار صحابہ بھی چل دیے تھے اور پیغبر اسلام کوکفار کے مقابلے میں تنہا چھوڑ دیا تھا، جیسا کہ طبری اور آپ کے دوسرے بڑے مورخین نے لکھا ہے۔

یہ کیونکر ممکن ہے کہ جن لوگوں نے میدان جنگ میں پیٹھ دکھائی، جہاد سے منہ موڑا اور رسول خدا(ص) کو دشمنوں کے سامنے اکیلا چھوڑ دیا وہ خدا و رسول(ص) کے محبوب ہوں۔

تیسرے اس آیت کا علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونا میں نے نہیں بتایا ہے بلکہ آپ ہی کے بڑے بڑے علماء جیسے ابواسحاق اما احمد ثعلبی جن کے متعلق آپ کا عقیدہ ہے کہ اصحاب حدیث کے امام تھے اپنی تفسیر کشف البیان میں کہتے ہیں، کہ یہ آیہ شریفہ علی ابن ابی طالب(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے کیونکہ تمام صفات مدرجہ آیت کا حامل سوا حضرت کے اور کوئی نہیں تھا۔

۲۴۷

اور ساری چھتیس لڑائیوں میں جو رسول اللہ(ص) کو پیش آئیں اپنے یا بیگانے کسی مورخ نے نہیں لکھا ہے کہ علی علیہ السلام نے ایک مرتبہ بھی میدان جنگ اور جہاد فی سبیل اللہ سے منہ موڑا ہو۔ یہاں تک کہ جنگ احد میں جب تمام اصحاب بھاگ گئے تو سخت جنگ مغلوبہ اور مسلمانوں پر دشمنوں کی پانچ ہزار سوار و پیادہ فوج کے حملے نیز رسول اللہ(ص) کے چچا جناب حمزہ سید الشہداء کی شہادت کے بعد جو تن تنہا انسان میدان میں جما رہا اور فتح و فیروزی کی آخری منزل تک ثابت قدم رہا وہ مولا امیرالمومنین علی علیہ السلام تھے باوجودیکہ تقریبا نوے زخم بدن مبارک پر لگے تھے، کثرت سے خون نکل جانے کی وجہ سے سارے اعضا نڈھال ہو رہے تھے، اور متعدد بار آپ زمین پر تشریف لائے لیکن ثابت قدمی کے ساتھ رسول اللہ (ص) کی حفاظت کی اور جنگ مسلمانوں کے حق میں تمام کی۔

حافظ : کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ آپ صحابہ کبار کو فرار کی نسبت دیں حالانکہ تمام اصحاب اور دونوں برحق خلیفہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پروانہ وار رسول اللہ (ص) کے گرد پھرتے تھے اور آں حضرت(ص) کی حفاظت کرتے تھے۔

خیر طلب : آپ تو ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ گویا تاریخ پڑھی ہی نہیں ہے۔ مورخین نے عام طورسے لکھا ہے احد و حنین اور خیبر کی جنگوں میں تمام صحابہ بھاگ گئے تھے خیبر کے متعلق اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے۔ حنین میں بھی مسلم ہے، کہ سب کے سب بھاگ کھڑے ہوئے تھے، چنانچہ حمیدی جمع بین الصحیحن میں اور حلبی سیرۃ الحلبیہ جلد سیم ص123 میں کہتے ہیں ، کہ سوا چار نفر کے تمام اصحاب فرار کر گئے علی علیہ السلام اور عباس پیغمبر(ص) کے آگے، ابوسفیان بن حارث آں حضرت(ص) کے مرکب کی لگام تھامے ہوئے اور عبداللہ ابن مسعود آنحضرت(ص) کے بائیں جانب کھڑے ہوئے تھے۔ اور احد میں تو بالعموم سارے مسلمانوں کے بھاگنے سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ بہتر ہے کہ سیر و تواریخ کا مطالعہ کیجئے تاکہ آپ پر حقیقت آشکار ہو جائے۔ خصوصیت کے ساتھ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص216 میں حافظ ناصبی کی ہرزہ سرائیوں کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ " فرالمسلمون بأجمعهم ولم يبق معه إلاأربعةعلي والزبيروطلحةوأبودجانة "یعنی احد کے روز تمام مسلمان بھاگ گئے سوا ان چار نفر ( علی) ، زبیر، طلحہ اور ابو دجانہ) کے۔ پس جب سارے مسلمانوں میں صرف چار افراد کو مستثنی کیا، تو ظاہر ہے کہ ابوبکر ، عمر اور عثمان بھی بھاگنے والوں میں سے تھے۔ لہذا جبرئیل(ع) نے ندا دی " لا سيف الا ذوالفقار لا فتی الا علی " چنانچہ آپ کے اکابر علماء اور بزرگ مورخین مثلا ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، نور الدین مالکی نے فصول المہمہ ص44 میں اور دوسروں نے درج کیا ہے کہ جیسا پہلے عرض کر چکا ہوں اس روز منادی کی آواز اور ہاتف کی ندا بلند ہوئی "لا سيف الا ذوالفقار لا فتی الا علی" یعنی نہیں ہے کوئی جوانمرد سوا علی(ع) کے اور نہیں ہے کوئی تلوار سوا ذالفقار کے جو حضرت علی(ع) کی تلوار تھی۔)

تمام لڑائیوں میں حضرت کو تائید الہی حاصل تھی اور ملائکہ آپ کی نصرت و نگہبانی پر آمادہ رہتے تھے، چنانچہ محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب بات27 میں اپنے اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

" ما بعث علی فی سرية الا رائيت جبرئيل عن يمينه و ميکائيل عن يساره والسحابة تظله حتی يروقه الله الظفر"

۲۴۸

یعنی جب بھی کسی جنگ میں علی(ع) تنہا بھیجے گئے تو میں نے دیکھا کہ جبرئیل ان کے داہنی جانب میکائیل بائیں جانب اور ایک ابر ان پر سایہ کئے ہوئے ہے یہاں تک کہ اللہ نے ان کو فتح عنایت کی۔

اور امام ابو عبدالرحمن نسائی خصائص العلوی حدیث نمبر202 میں نقل کرتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام سیاہ عمامہ پہنے ہوئے لوگوں کے سامنے آئے اور اپنے باپ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جنگ میں جس وقت حضرت علی(ع) قلعے کی طرف گئے تو " يقاتل جبرئيل عنيمينهوميكائيلعنيساره" (یعنی جبرئیل ان کے داہنی طرف اور مکائیل بائیں طرف جنگ کررہے تھے مترجم عفی عنہ) لہذا تمام لڑائیوں میں نصرت و ظفر حضرت کی تلوار کے زیر سایہ رہتی تھی، چنانچہ آپ انتہائی شدت و شجاعت کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرتے تھے یہاں تک کہ فتح یاب ہوتے تھے، خدا و رسول(ص) کے محبوب قرار پاتے تھے اور وہ مقرب فرشتے جبرئیل و میکائیل حاضر خدمت ہوکر آپ کے دونوں طرف جنگ کرتے تھے۔ حتی کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا اسلام صرف علی علیہ السلام کی تلوار سے مضبوط ہوا۔

علی(ع) خدا اور رسول(ص) کے محبوب تھے

چوتھے اسی آیت میں ارشاد ہے کہ جو لوگ ان صفات کے حامل ہیں خدا ان کو دوست رکھتا ہے اور وہ بھی خدا کو دوست رکھتے ہیں یہ محبوبیت کی صفت امیرالمومنین(ع) کے خصوصیات میں سے ہے اور اس مقصد پر دلائل بکثرت ہیں جن میں سے ایک روایت یہ ہے جس کو محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب 7 میں اپنے اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ایک روز میں اپنے باپ عباس کےساتھ رسول اللہ(ص) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ علی علیہ السلام وارد ہوئے اور سلام کیا، رسول اللہ(ص) جواب سلام دینے کے بعد بشاشت کے ساتھ اپنی جگہ سے اٹھے، علی(ع) کو آغوش میں لے کر ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور اپنے داہنی جانب بٹھایا ۔ میرے باپ عباس نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) آیا آپ ان کو دوست رکھتے ہیں آں حضرت(ص) نے فرمایا اے چچا واللہ اشد حبا لہ منی ( یعنی خدا کی قسم مجھ سے زیادہ ان کو اللہ دوست رکھتا ہے۔)

فتح خیبر میں حدیث رایت

امیرالمومنین(ع) کے محبوب خدا اور میدان جنگ میں کرار غیر فرار ہونے پر سب سے بڑی دلیل حدیث رایت ہے جو آپ کے معتبر صحاح میں درج ہے اور سوا ناصبی یا متعصب مخالف کے اکابر علمائے اہلسنت میں سے کسی نے اس سے انکار نہیں کیا ہے۔

نواب : قبلہ صاحب حدیث رایت کیا ہے؟ متمنی ہوں کہ اگر زحمت نہ ہو تو اس کے اسناد کا سلسلہ بیان فرمائیے۔

۲۴۹

خیر طلب : فریقین ( شیعہ و سنی) کے اکابرعلماء و مورخین نے بالاتفاق حدیث رایت کو نقل کیا ہے۔ مثلا محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح جلد دوم کتاب الجہاد والسیر باب دعاء النبی نیز صحیح جلد سیم کتاب الغازی باب غزوہ خیبر میں، مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح جلد دوم ص324 میں، امام عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں، ترمذی نے سنن میں ابن عسعقلانی نے اصابہ جلد دوم ص508 میں، محدث شام نے اپنی تاریخ میں، احمد ابن حنبل نے مسند میں، ابن ماجد قزوینی نے سنن میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب6 میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ می، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب14 میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، حافظ ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں ابو القاسم طبرانی نے اوسط میں اور ابوالقاسم حسین بن محمد (راغب اصفہانی) نے محاضرات الادباء جلد دوسم ص213 میں، غرضکہ عام طور پر آپ کے مورخین و محدثین نے اپنی معتبر کتابوں میں اس حدیث کو نقل کیا ہے یہاں تک کہ حاکم کہتے ہیں " هذا حديث دخل فی حد التواتر " ( یعنی یہ حدیث حد تواتر میں داخل ہے) اور طبرانی کہتے ہیں" فتح علی لخیبر ثبت بالتواتر" ( یعنی خیبر میں علی(ع) کی فتح تواتر سے ثابت ہے) روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس زمانے میں لشکر اسلام خیبر کے قلعوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھا تو ابوبکر اور عمر کی علمداری میں جیسا کہ میں اشارہ کرچکا ہوں لشکر اسلام کے تین مرتبہ شکست کھا کر بھاگنے کے بعد اصحاب ان پے در پے شکستوں سے ( جن کے مسلمان عادی نہیں تھے اور وہ بھی نا اہل یہود یوں کے مقابلے ہیں) متاثر اور دل تنگ ہوئے تو رسول اکرم(ص) نے اصحاب کی تقویت قلب اور فتح و فیروزی کی بشارت کے لیے فرمایا :

" واللّه لاعطين الرايةغدارجلاكراراغيرفراريحب اللّه ورسوله ويحبّه اللّه و رسوله يفتح اللّه على يديه ."

یعنی خدا کی قسم میں ضرور بالضرور کل ایسے مرد کو علم دوں گا جو دشمنوں پر بڑھ بڑھ کے حملہ کرنے والا ہوگا اور بھاگنے والا نہ ہوگا۔ خدا اس کے ہاتھوں پر فتح عنایت کرے گا۔وہ خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول (ص) اس کو دوست رکھتے ہیں۔

اس رات تمام اصحاب اس فکر میں جاکتے رہے کہ دیکھیں کا یہ فضل و شرف کس کو ملتا ہے، صبح ہوئی تو سب نے آلات حرب سچے اور اپنے کو پیغمبر(ص) کے سامنے نمایاں کرنا شروع کیا، اس وقت آں حضرت(ص) نے اصحاب کے اوپر ایک نظر ڈالی اور فرمایا " يا ابن اخی وابن عمی علی ابن ابی طالب " کہاں ہیں میرے بھائی اور چچا کے بیٹے علی ابن ابی طالب(ع)۔

علی (ع) کو کہ حلال ہر مشکل اوست علی (ع) کو کہ مفتاح قفل ولی اوست

لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) ان کو اتنا سخت آشوب چشم ہے کہ حرکت نہیں کرسکتے۔آں حضرت(ص) نے سلمان سے فرمایا کہ ان کو بلائو۔ سلمان گئے اور علی(ع) کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس حالت سے خدمت رسول میں حاضر ہوئے کہ آپ کی آنکھیں بند تھیں آپ نے سلام عرض کیا آں حضرت نے جواب سلام کے بعد فرمایا " کیف حالک یا ابالحسن" کیا حال ہے تمہارا اے ابوالحسن؟ عرض کیا " بحمد اللہ خیرا صداء براسی و رمد بعینی لا ابصر معہ" ( یعنی بحمداللہ خیریت ہے، میرے سر اور آنکھوں میں اتنا درد ہے کہ میں کچھ دیکھ نہیں سکتا) فرمایا ادن منی میرے پاس آئو آپ قریب آئے" فبصق في عينيه،ودعاله،فبرأحتّى كأن لم يكن به وجع " ( یعنی آں حضرت(ص) نے آپ کی دونوں آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی۔ فورا آنکھیں کھل گئیں اور مرض اس طرح سے دفع ہوا کہ گویا کبھی درد تھا ہی نہیں پھر اسلام کی فتح وفیروزی کا نشان عطا فرمایا، آپ نے خیبر کے قلعوں پر چڑھائی کی، یہودیوں سے جنگ کی، مرحب، حارث، ہشام اور علقمہ وغیرہ کے ایسے افسروں اور بہادروں کو قتل کیا اور خیبر کے قلعے فتح کئے۔

۲۵۰

ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص21 میں یہ روایت صحاح ستہ سے نقل کی ہے۔ نیز محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب14 میں روایتیں لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے مخصوص شاعر حسان بن ثابت موجود تھے انہوں نے حضرت علی(ع) کی مدح میں فی البدایہ یہ اشعار نظم کئے۔

وَكَانَ عَلِيٌ أَرْمَدَالْعَيْنِ يَبْتَغِي

دَوَاءًفَلَمَّالَمْ يُحِسَّمُ دَاوِياً

شَفَاهُ رَسُولُاللَّهِ مِنْهُ بِتَفْلِهِ

فَبُورِكَ مَرْقِيّاًوَبُورِكَ رَاقِياً

فَقَالَ:سَأُعْطِي الرَّايَةَالْيَوْمَ ضَارِباً

كَمِيّاًمُحِبّاًلِلرَّسُولِ موَالِياً

يُحِبُّالْإِلَهَ،وَالْإِلَهُ يُحِبُّهُ

بِهِ يَفْتَحُ اللَّه الْحُصُونَالْأَوَابِيَا

فَخَصَّبِهَادُونَالْبَرِيَّةِكُلِّهَا

عَلِيّاًوَسَمَّاهُ الْوَزِيرَالْمُؤَاخِيَا.

یعنی علی(ع) کو آشوب چشم تھا جس کے علاج کی ضرورت تھی لیکن جب کوئی معالج نہیں ملا تو رسول اللہ(ص) نے اپنے لعاب دہن سے شفا بخشی پس معالج اور مریض دونوں با برکت ہیں آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ آج میں ایسے شہسوار کو علم دوں گا جو بہت دلیر و شجاع اور جنگوں میں میرا مددگار ہے۔ وہ اللہ کو دوست رکھتا ہے اور اللہ اس کو دوست رکھتا ہے چنانچہ اس کے ذریعے دشمنوں کے قلعوں پر فتح دے گا۔ اس کے بعد ساری دنیا کو چھوڑ کر صرف علی(ع) کو منتخب کیا اور ان کو اپنا وصی اور بھائی قرار دیا۔ 12 مترجم عنی عنہ)

ابن صباغ مالکی نے صحیح مسلم سے نقل کیا ہے کہ عمر ابن خطاب نے کہا میں نے کبھی علمداری کی تمنا نہیں کی لیکن اس روز مجھ کو اس کی ہوس تھی اور میں بار بار اپنے کو پیغمبر(ص) کے سامنے نمایاں کر رہا تھا کہ شاید بلالیں اور یہ شرف مجھی کو نصیب ہوجائے لیکن اس کے باوجود علی(ع) کو طلب فرمایا اور یہ فخر ان کے حصے میں آیا۔

سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص15 میں اور امام ابو عبدالرحمن احمد بن علی نسائی نے خصائص العلوی می بارہ روایتیں اور حدیثیں نقل کرنے کے بعد خیبر میں علمداری علی(ع) کے موضوع پر یہی عمر کی روایت اور ان کی آرزوئے علمداری اٹھارہویں حدیث میں نقل کی ہے نیز جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء میں، ابن حجر مکی صواعق محرقہ میں اور ابن شیرویہ فردوس الاخبار میں نقل کرتے ہیں کہ عمر ابن خطاب کہتے تھے، علی(ع) کو تین چیزیں ایسی دی گئیں کہ اگر ان یں سے ایک بھی مجھ کو مل جاتی تو میں اس سے زیادہ پسند کرتا تھا کہ سرخ بالوں کے اوںٹ میرے قبضے میں ہوں(1) علی(ع) کے ساتھ فاطمہ(س) کی تزویج (2) ہر حالت میں مسجد کے اندر سکونت ، اور یہ امر سوا علی(ع) کے اور کسی کےلیے حلال نہیں تھا۔ (3) اور فتح خیبر میں آپ کی علمداری ۔ خلاصہ یہ کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام امت کے درمیان تنہا جو شخص خدا و رسول(ص) کا محبوب قرار پایا وہ علی علیہ السلام تھے۔ اور حدیث طیر بھی جو گذشتہ شب میں ذکر ہوچکیہے خدا و رسول (ص) کے نزدیک حضرت کی محبوبیت پر دوسری دلیل ہے اور یہ باتیں سوا جاہل و بے خبر یا ہٹ دھرمی اور متعصب

۲۵۱

لوگوں کے کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔

آپ کے موثق راویوں کے نقل کئے ہوئے ان دلائل کے بعد جن میں سے کچھ نمونے کے طور پر پیش کئے گئے ثابت ہوا کہ تمام صفات حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ کے مجموعہ اور آیہ شریفہ میں " یحبہم و یحبونہ کے مصداق امیرالمومنین علیہ السلام تھے نہ کہ دوسرے مومنین یا صحابہ۔ اب آپ حضرات کو معلو ہوگیا ہوگا کہ میرا مقصد اہانت نہیں تھا بلکہ اصل واقعہ اور تاریخی حقیقت عرض کی گئی تھی جس کو خود آپ کے علماء صریحی دلیلوں سے ثابت کرتے ہیں اور واضح ہوتا ہے کہ لڑائی کے میدانوں اور علمی مباحثوں میں آیہ شریعہ " أَشِدَّاءُعَلَى الْكُفَّارِ" سے مراد علی علیہ السلام تھے۔

علاوہ میری گفتگو کے آپ کے بڑے بڑے علماء اقرار کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی(ع) ہی کی تعریف میں نازل ہوئی، چنانچہ اس وقت جس قدر میرے پیش نظر ہے عرض کرتا ہوں ، محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی سنہ658ھ کفایت الطالب باب13 میں رسول اکرم(ص) کی حدیث نقل کرنے کے بعد کہ جو شخص آدم (ع) و نوح(ع) اور ابراہیم(ع) کو دیکھنا چاہتا ہے وہ علی(ع) کو دیکھے کچھ اور باتیں بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ کہتے ہیں علی(ع) وہ شخص ہیں جن کی تعریف خدا نے قرآن میں اس آیت کے ساتھ کی ہے " وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُعَلَى الْكُفَّارِرُحَماءُبَيْنَهُمْ" ( چنانچہ اسی کتاب میں تفصیل سے اس کا بیان ہوچکا ہے۔) اور خدائے تعالی آیہ شریفہ میں گواہی دیتا ہے کہ علی علیہ السلام کفار پر غالب اور سخت تھے، کیونکہ اگر بڑے بڑے معرکوں میں حضرت کی شجاعت و شمشیر مناظروں اور مباحثوں میں ان بزرگوار کے علمی دلائل اور مشکل مسائل میں آپ کے منطقی جوابات نہ ہوتے تو اسلام کے اندر کوئی رونق اور مسلمانوں کا کوئی اقتدار نہ ہوتا۔

چنانچہ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا اسلام نے فقط علی(ع) کی شمشیر اور خدیجہ کے مال سے طاقت پکڑی۔ لہذا علی علیہ السلام اس مقام و مرتبہ کے لیے ہر ایک سے زیادہ اولی و اہل اور مستحق تھے اور جو آپ نے یہ فرمایا کہ " رُحَماءُبَيْنَهُمْ" عثمان ابن عفان کی شان میں ہے اور تیسرےنمبر پر ان کے منصب خلافت کا اشارہ ہے کیونکہ وہ بہت رقیق القلب اور رحم دل تھے۔ تو افسوس ہے کہ یہ عقیدہ بھی تاریخی شہادت کی روشنی میں ان کے حالات و اخلاق سے میل نہیں کھاتا۔ اس مقصد پر دلائل بہت ہیں لیکن دل یہاں پہنچ کے ٹھہر گیا۔ آپ حضرات سے گذارش ہے کہ اسی قدر گفتگو پر اکتفا کیجئے اور اس موضوع سے چشم پوشی فرمائے۔ ورنہ میں ڈرتا ہوں کہ آپ کو رنج پہنچ جائے گا۔

حافظ : جب آپ دلائل و براہین اور اسناد صحیحہ بیان کیجئے گا۔ تو رنجش کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لہذا اگر فحش باتوں کے علاوہ کچھ دلیلیں ہیں تو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : اول تو یہ کہ میں فحش بولنے والا انسان نہیں ہوں، چنانچہ حاضرین جلسہ گواہ ہیں کہ ان راتوں میں مجھ کو خود فحش باتیں سننا پڑیں لیکن ان کا جواب بھی میں نے صرف دلیل و برہان سے دیا۔

دوسرے دلائل اس کثرت سے ہیں کہ اگر میں ان سب سے استدلال کرنا چاہوں تو ہماری نشست کا یہ مختصر وقت

۲۵۲

کافی نہیں ہے لیکن چونکہ آپ نے حکم دیا ہے لہذا ان میں سے بعض کا خلاصہ پیش کرتا ہوں تاکہ آپ حضرات خود ہی انصاف سے فیصلہ فرمائیں اور اپنی جگہ پر رحم و عطوفت اور رقت قلب کا اندازہ کریں۔

ابوبکرو عمرکے برخلاف عثمان کا طرز عمل

ہمارے اور آپ کے تمام مورخین مثلا ابن خلدون، ابن خلسکان اور ابن اعثم کوفی کا اتفاق ہے صحاح ستہ اور آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہے، نیز مسعودی نے مردج الذہب جلد اول ص435 میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں اور آپ کے دوسرے علماء نے لکھا ہے کہ عثمان ابن عفان جب عہدہ خلافت پر پہنچے تو سنت رسول(ص) اور سیرت شیخین ( ابوبکر و عمر) کے خلاف عمل کرنے لگے۔

حالانکہ فریقین اور تمام مورخین متفق ہیں کہ مجلس شوری میں عبدالرحمن ابن عوف نے ان سے کتاب خدا، سنت رسول(ص) اور طریقہ شیخین پر بیعت کی تھی اور یہ شرط تھی کہ بنی امیہ کو دخیل نہ کریں گے اور نہ ان لوگوں پر مسلط کریں گے۔ لیکن جب معاملہ پختہ ہوگیا تو ان حضرات کی سیرت کے بالکل خلاف چلنے لگے اور کھلم کھلا وعدے کے برعکس کیا۔ آپ خود جانتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے حکم سے عہد و پیمان کو توڑنا گناہ کبریہ ہے اور آپ کے اکابر علماء ومورخین کی صراحت و شہادت کی بناء پر خلیفہ عثمان نے عملا نقض عہد کی،سارے دور خلافت میں طریقہ شیخین ( ابوبکر و عمر) کے بر خلاف عمل کرتے رہے، بنی امیہ کو لوگوں کے جان و مال اور عزت پر مسلط کیا اور یہ پہلا بہت بڑا داغ تھا جس نے ان کے دامن کو آلودہ کیا۔

حافظ : کیونکر سنت رسول (ص) اور سیرۃ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف عمل کیا؟

خیر طلب : پہلا قدم جو سنت رسول(ص) اور طریقہ شیخین کے برخلاف اٹھایا وہ جیسا کہ مورخین نے تفصیل سے لکھا ہے اور مشہور و مقبول فریقین محدث و مورخ مسعودی نے مروج الذہب جلد اول ص433 میں مختصرا ذکر کیا ہے کہ پتھر کا ایک نقش و نگار والا مکان تعمیر کرایا جن میں ساگون اور سرو کے دروازے لگوائے کثیر مال و دولت جمع کیا اور اس کے علاوہ جب تک زندہ رہے بنی امیہ وغیرہ پر بے جا بخش و انعام کی بارش کرتے رہے( مثلا بلاد آرمینیہ کا خمس جو ان کے زمانے میں فتح ہوا تھا بغیر کسی شرعی جواز کے) مروان ملعون کو بخش دیا نیز بیت الامال سےایک لاکھ درہم دیے، چالاکھ درہم عبداللہ بن خالد کو، ایک لاکھ درہم ملعون و طرید رسول حکم ابن ابی العاص کو اور دو لاکھ درہم ابوسفیان کو بیت المال سے عنایت کئے( جیسا کہ ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص28 میں لکھا ہے) اور جس روز وہ قتل کئے گئے ہیں ان کے ذاتی خزانچی کی تحویل میں ایک لاکھ پچاس ہزار دینار اور دو کڑوڑ درہم نقد موجود تھے علاوہ ان کی اس جائداد کے جو وادی القری اور حنین میں تھی جس میں ایک لاکھ دینار اور صحرائوں کے اندر بے شمار گائیں بھیڑیں اور اونٹ تھے۔

۲۵۳

ان کے اسی عمل کا نتیجہ تھا کہ بنی امیہ وغیرہ کے تمام بڑے لوگوں نے جن کو وہ برسر اقتدار لے آئے تھے ان سے زیادہ دولت جمع کی اور لوگوں کے اموال کو لوٹنے میں مشغول ہوئے۔ انتہی۔

کیونکہ مشہور ہے " الناس على دين ملوكهم " یعنی لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں۔ شیخ فرماتے ہیں۔

اگر زباغ رعیت ملک خورد سیبے برآورند غلامان او درخت زبیخ

اس دور میں اس طرح کے افعال اور کثیر دولت کی فراہمی علاوہ اس کے کہ اس زمانے کے محتاج و تہی دست لوگوں کے مقابلے میں خلیفہ رسول کے لیے عقلی و نقلی حیثیت سے بہت بری بات تھی، ان کے رفقاء ابوبکر و عمر کے رویہ اور طریقے کے بھی برخلاف تھی جب کہ وہ شوری کے روز عہد و پیمان کرچکے تھے کہ ان دونوں کے قدم بہ قدم چلیں گے۔

مسعودی مروج الذہب جلد اول ضمن حالات عثمان میں لکھتے ہیں کہ خلیفہ عمر اپنے بیٹے عبداللہ کے ساتھ حج کرنے گئے تو آنے جانے میں راستے کا خرچ سولہ دینار ہوا ۔ انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا کہ ہم نے اپنے اخراجات میں اسراف کیا۔ اب آپ حضرات خلیفہ عمر کے طریقہ زندگی اور عثمان کی فضول خرچیوں اور زیادتیوں کے درمیان موازنہ کیجئے۔ تو تصدیق کیجئے گا کہ عثمان کا طریقہ کار عہد و میثاق کےبالکل برعکس تھا۔

عثمان کا بنی امیہ کے بدکاروں کو ترقی دینا

دوسرے یہ کہ بنی امیہ کے فاسق و فاجر لوگوں کو جاہ ومنصب دے دے کر لوگوں کے جان و مال اور آبرو پر مسلط کیا چنانچہ بلاد مسلمین میں بنی امیہ کی حکومتوں سے ایک ابتری پھیل گئی تھی اور رسول خدا(ص) و شیخین ( ابوبکر و عمر) کے خلاف مرضی اشخاص کو عہدوں پر معین کر دیا جیسے اپنے ملعون چچا حکم بن ابی العاص اور اس کے بیٹے مروان ابن حکم کو جن کے لیے تاریخ گواہ ہے کہ یہ دوںوں رسول اللہ(ص) کے راندہ درگاہ، دھتکارے ہوئے۔ شہر بدر کئے ہوئے اور آں حضرت(ص) کے ارشاد سے مردود و ملعون تھے۔

حافظ : خصوصیت سے ان لوگوں کے مردود و ملعون ہونے پر آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟

بنی امیہ ، حکم بن ابی العاص اور مروان خدا و رسول(ص) کے ملعون تھے

خیر طلب : لعنت کی دلیلیں دو قسم کی ہیں۔ ایک عمومی حیثیت رکھتی ہے جس میں خدائے تعالی نے بنی امیہ کو صریحا شجرہ ملعونہ فرمایا ہے، سورہ نمبر17( بنی اسرائیل) آیت نمبر " وَالشَّجَرَةَالْمَلْعُونَةَفِي الْقُرْآنِ " ( یعنی قرآن

۲۵۴

میں لعنت کیا ہوا درخت ۔ چنانچہ امام فخر الدین رازی، طبری، قرطبی، نیشاپوری ، سیوطی، شوکانی، آلوسی ابن ابی حاتم ، خطیب بغداد، ابن مردویہ، حاکم، مقریزی، بیہقی اور آپ کے دوسرے مفسرین وعلماء نے اس آیت مذمت کے ذیل میں ابن عباس ( خیر امت) رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے یہ قرآن میں شجرہ ملعونہ سے مراد بنی امیہ تھے، کیونکہ رسول اکرم(ص) نے ان لوگوں کو خواب میں دیکھا کہ بندروں کی شکل میں آپ کے محراب و منبر کو اپنی اچھل کود کا تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں، بیدار ہونے کے بعد جبرئیل یہ آیت لے کر نازل ہوئے اور خبر دی کہ یہ بندر بنی امیہ ہیں جو آپ کے بعد خلافت غصب کریںگے اور آپ کے محراب و منبر ایک ہزار مہینے تک ان کے تصرف میں رہیں گے۔

امام فخر الدین رازی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ تمام بنی امیہ میں رسول حکم بن ابی العاص کا نام خاص طور پر سے لیتے تھے پس بحکم قرآن مجید حکم بن ابی العاص ملعون ہے اس لیے کہ شجرہ ملعونہ میں سے ہے اور پیغمبر(ص) بالخصوص اس کا نام لعنت کے ساتھ زبان پر جاری فرماتے تھے اور فریقین ( شیعہ و سنی) کے معتبر راویوں سے ان لوگوں کے مردود و ملعون ہونے پر کثرت سے حدیثیں مروی ہیں لیکن چونکہ ہم نے پہلی شب میں طے کر لیا ہے کہ احادیث شیعہ سے استدلال نہ کریں گے۔ لہذا فی الحال جن قدر آپ کےعلماء نے لکھا ہے اورمیرے پیش نظر ہے اسی میں سے بعض اقوال عرض کرتا ہوں تاکہ حقیقت ظاہر ہوجوئے۔

حاکم نیشاپوری مستدرک جلد چہارم ص487 میں اور ابن حجر مکی صواعق محرقہ میں حاکم سے نقل کرتے ہیں کہ یہ صحیح حدیث رسول خدا(ص) سے منقول ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

" إنّ أهلبيتي سيلقون من بعدي من أمّتي قتل اوتشريداوإنّ أشدّقوم لنابغضابنواميّةوبنوالمغيرةوبنومخزوم و مروان بن الحکم کان طفلا قال له النبی صلی الله عليه وسلم و الوزغ والملعون بن الملعون"

یعنی یقینا میرے اہل بیت عنقریب میری امت کے ہاتھوں قتل اور پراگندگی میں مبتلا ہوں گے اور در حقیقت بنی امیہ بنی مغیرہ اور بنی مخزوم ہماری عداوت میں سب سے زیادہ سخت ہیں۔ مروان ابن حکم اس زمانے میں بچہ تھا تو آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ یہ چھپکلی کا بچہ چھپکلی اور ملعون پسر ملعون ہے۔

نیز ابن حجر نے ایک حدیث کے فاصلے سے عمر بن مرقا الجہتی سے، حلبی نے سیرۃ الحلبیہ جلد اول ص337 میں، بلاذری نے انساب جلد پنچم ص126 میں، سلیمان بلخی نے ینابیع المودۃ میں، حاکم نے مستدرک جلد چہارم ص481 میں، دمیری نے حیات الحیوان جلد دوم ص291 میں ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں، امام الحرم نے ذخائر العقبی میں اور دوسروں نے بھی عمر بن مرہ سے نقل کیا ہے کہ :

"أَنَ الْحَكَمَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ ص فَعَرَفَ صَوْتَهُ فَقَال َائْذَنُوالَهُ عَلَيْهِ لَعْنَةُاللَّهِ وَعَلَى مَنْ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ إِلَّاالْمُؤْمِنَ مِنْهُمْ وَقَلِيلٌ"

یعنی حکم بن العاص نے خدمت رسول میں آنے کی اجازت چاہی، آں حضرت(ص) نے اس کی آواز پہچانی تو فرمایا اس کو اجازت دے دو اس پر اور اس کے صلب سے پیدا ہونے والی اولاد پر خدا کی لعنت ہو علاوہ ان کے جو ان میں سے مومن ہوں اور وہ بہت کم ہوں گے۔

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد پنجم میں آیہ " وَالشَّجَرَةَالْمَلْعُونَةَ" اور اس کے مفہوم کے ذیل میں ام المومنین

۲۵۵

عائشہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مروان سے کہا " لعن الله اياک وانت فی صلبه فانت بعض من لعنه الله " یعنی خدا نے تیرے باپ پر لعنت فرمائی در آنحالیکہ تو اس کے صلب میں موجود تھا لہذا تو بھی اس کا جز ہے جس پر خدا نے لعنت کی ہے۔

علامہ مسعودی مروج الذہب جلد اول ص435 میں کہتے ہیں کہ مروان بن حکم رسول اللہ(ص) کا طرید اور راندہ درگاہ تھا جو مدینے سے شہر بدر کردیا گیا تھا۔ خلافت ابوبکر و عمر کے زمانے میں اس کو مدینے کی آنے کی اجازت نہیں ملی لیکن جب عثمان خلیفہ ہوئے تو رسول اکرم(ص) اور ابوبکر و عمر کی سیرت و عمل کے خلاف اس کو آنے کی اجازت ۔۔۔۔۔۔ دی، تمام بنی امیہ کے ساتھ اس کو بھی اپنے پاس رکھا اور ان لوگوں پر حد سے زیادہ مہربانی کرتے تھے۔

نواب : قبلہ صاحب حکم ابن ابی العاص کون تھا اور کس وجہ سے پیغمبر (ص) نے اس کو دھتکار دیا تھا۔

حکم بن ابی العاص

خیر طلب :حکم بن ابی العاص خلیفہ عثمان کا چچا تھا، جیسا کہ طبری ، اثیر اور بلاذری نے انساب جلد پنجم ص17 میں لکھا ہے زمانہ جاہلیت میں یہ رسول اللہ(ص) کا ہمسایہ تھا اور آںحضرت(ص) کو بہت اذیت پہنچاتا تھا خصوصا بعثت کے بعد، یہ فتح مکہ کے بعد مدینے میں آیا اور ظاہری اسلام قبول کیا لیکن برابر لوگوں میں آںحضرت(ص) کی توہین کیا کرتا تھا۔جس وقت آں حضرت(ص) چلتے تھے تو یہ ساتھ انگلی سے آںحضرت(ص) کی طرف اشارہ کرتا تھا چنانچہ آںحضرت(ص) کی نفرین سے مستقل اسی طرح تشنج کی حالت پر قائم رہا۔ اس کے علاوہ فاتر العقل اور نیم مجنون بھی ہوگیا تھا۔ ایک روز آںحضرت(ص) کے گھر پر گیا۔ آپ حجرے سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کوئی شخص اس کی طرف سے سفارش نہ کرے اب اس کو اور اس کے بیٹوں مروان وغیرہ کو مدینے سے نکل جانا چاہئیے، چنانچہ آںحضرت(ص) کے حکم سے فورا مسلمانوں نے اس کو طائف کی طرف نکال باہر کیا۔ ابوبکر وعمر کے زمانے میں عثمان نے سفارش کی کہ حکم میرا چچا ہے۔ لہذا آپ اجازت دیجئے کہ وہ مدینے واپس آجائے لیکن ان دونوں صاحبان نے منظور نہیں کیا اور کہا کہ وہ رسول اللہ(ص) کا نکالا ہوا اور شہر بدر کیا ہوا ہے ہم اس کو واپس نہیں بلاسکتے جب عثمان خود منصب خلافت پر پہنچے تو ان لوگوں کو بلالیا ، ہر چند مسلمانوں اور اصحاب رسول(ص) نے اعتراض کیا لیکن انہوں نے کوئی اعتنا نہیں کی بلکہ ان پر انعام و اکرام اور ؟؟؟؟؟؟؟؟ کی بارش کرتے رہے، مروان کو اپنا پیشکار اور دربار خلافت کا افسر بنایا، تمام اشرار بنی امیہ کو اپنے گرد جمع کیا ان کو بڑے بڑے منصب اور نمایاں عہدے سپرد کئے یہاں تک کہ خلیفہ دوم عمر کی پیش گوئی کے مطابق وہی لوگ ان کو بدبختی کا سبب بنے۔

۲۵۶

ولید فاسق نے نشے کی حالت میں نماز پڑھائی

من جملہ ان کے ولید بن عقبہ بن ابی العیط بھی تھا جس کو کوفے کی ولایت و امارت پر بھیجا۔ ولید وہ شخص ہے کہ بنابر روایت مسعودی مروج الذہب جلد اول ذیل حالات عثمان، پیغمبر(ص) نے اس کے بارے میں فرمایا تھا " انهمن ا ه ل النار " یعنی وہ یقینا اہل جہنم میں سے ہے۔ وہ فسق وفجور میں انتہائی بے باک تھا چنانچہ مسعودی مروج الذہب میں، ابوالفداء اپنی تاریخ میں سیوطی تاریخ الخلفاء ص104 میں ابو الفرج اغاتی جلد چہارم ص128 میں امام احمد ابن حنبل مسند جلد اول ص144 میں طبری اپنی تاریخ جلد پنجم ص60 میں، بیہقی سنن جلد ہشتم ص318 میں، ابن اثیر کامل جلد سیم ص43 میں، یعقوبی اپنی تاریخ جلد دوم ص142 ، ابن اثیر اسدالغایہ جلد پنجم ص91 میں، اور دوسرے لوگ لکھتے ہیں کہ امارت کوفہ کے زمانے میں ایک مرتبہ رات بھر محفل عیش و عشرت گرم رہی، صبح کو جب موذن کی آواز آئی تو نشے کی حالت میں مسجد پہنچ گیا اور لوگوں کو صبح کی نماز چار رکعت پڑھائی اس کے بعد کہا کہ اگر تم لوگوں کی خواہش ہو تو اور پڑھا دوں۔

ان میں سے بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ محراب کے اندر قے کردی جس سے تمام لوگ پریشان ہوئے اور عثمان کے پاس شکایت لے گئے ۔ من جملہ ان کے مشہور و معروف آدمی معاویہ بھی تھا اس کو شام کا گورنر بنایا۔ اور ولید کے بعد سعید بن عاص کو کوفے بھیجا ان دونوں کے حرکات سے تمام بلاد مسلمین ظلم و فساد سے بھر گئے، فریادیں بلند ہوئیں اور جو شخص جہاں سے آیا ایک فریادی تحریر ساتھ لایا لیکن اس کو دربار خلافت سے دھتکار دیا گیا۔

عثمان کی غلط کاریاں ان کے قتل کا باعث ہوئیں

جب رسول اللہ(ص) کی سنت و سیرت حتی کہ ابوبکر و عمر کے طور طریقے کے برخلاف ان کے یہ چال چلن مشہور ہوئے تو نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے خون میں جوش پیدا ہوا اور ایک متحدہ محاذ قائم ہوگیا، پھر جو ہونا تھا ہوا۔

اپنے قتل اور بدنصیبی کے ذمہ دار وہ خود تھے کیونکہ انہوں نے اپنے کاموں پر نظر ثانی نہیں کی۔ امیرالمومنین علیہ السلام کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرے اور اپنے حاشیہ نشین بنی امیہ کی چکنی چپڑی باتوں میں بھونے رہے یہاں تک کہ ان کی محبت میں اپنی جان سے ہاتھ دھوئے۔ جیسا کہ خلیفہ عمر نے اس کی پیشین گوئی کر رہی تھی اس لیے کہ وہ عثمان کی خصلتوں سے واقف تھے) چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص186 میں ابن عباس سے عمر کی گفتگو نقل کی ہے۔ یہاں تک کہ کہتے ہیں خلیفہ عمر نے چھ نفر اصحاب شوری میں سے ہر ایک کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہا اور کسی نہ کسی عیب کی گرفت کی۔ جب عثمان کا نام آیا

" أوه ثلاثاوالله لئنوليهاليحملنبنيأبيمعيطعل رقاب الناس ثم لتنهض العرب إليه فقت له ."

یعنی اگر مرتبہ آہ کھینچنے کے بعد کہا کہ اگر زمام حکومت

۲۵۷

عثمان کے ہاتھوں میں پہنچے گی تو وہ ( بڑے بڑے عہدے دے کر) بنی ابی معیط کو لوگوں کی گردنوں پر سوار کریں دیں گے پھر یقینا عرب ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان کو قتل کردیں گے۔

نیز ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص66 میں جملہ مذکورہ نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ عمر کا اندازہ صحیح اترا کیونکہ جب عثمان خلیفہ ہو تو( جیسا عمر پیشن گوئی کرچکے تھے) بنی امیہ کو اپنے گرد جمع کو لیا ان کو لوگوں کی گردنوں پر سوار کر دیا اور ولایتوں کی گورنری عطا کی جس سے ان لوگوں نے وہ کچھ کیا جو نہ کرنا چاہیئے تھا۔ باوجودیکہ یہ ایسا کرسکتے تھے کہ ان کو معزول کردیں، تبادلہ کردیں اور مروان ملعون کو اپنے سے الگ کردیں لیکن نہیں کیا یہاں تک کہ لوگوں میں ناراضگی پھیل گئی اور شورش و قتل تک نوبت پہنچی۔ ان کے سرپر یہ تمام آفتیں اور ؟؟؟؟ مروان اور ان کے دوسرےحاشیہ نشینوں کی لائی ہوئی تھیں۔ اور امت کی درخواستوں سے بے اعتنائی ان کے قتل تک منجر ہوئی صاحبان اںصاف بہتر ہے کہ آپ تیسری صدی ہجری کے اپنے بزرگ اور معتمد علیہ عالم محمد بن جریر طبری کی تاریخ ص357 کی طرف رجوع کیجئے جس میں لکھا ہے۔

"رأى رسول اللّه اباسفيان مقبلاعلى حمارومعاويةيقودبه،ويزيدابنه يسوق به قال: لعن اللّه القائدوالراكب والسائق"

یعنی پیغمبر(ص) نے دیکھا کہ ابوسفیان اپنے گدھے پر سوار آرہا ہے، معاویہ اس کو آگے سے کھینچ رہا اور اس کا دوسرا بیٹا یزید پیچھے سے ہنکا رہا ہے تو فرمایا کہ سوار کھینچنے والے اور ہنکانے والے تینوں پر خدا لعنت کرے۔

اس کے بعد فیصلہ کیجئے کہ خلیفہ عثمان نے پیغمبر(ص) کے ملعون اور راندہ درگاہ اشخاص کو کس لیے عزت و احترام کے ساتھ اپنے آغوش محبت میں لیا بلکہ ان کو امارت و حکومت بھی عطا کی تاکہ وہ دین اسلام کے اندر انقلاب برپا کریں۔

خلیفہ کے ان افعال اور بے فکری پر صرف ہم ہی تعجب نہیں کررہے ہیں بلکہ طبری اور ابی اعثم کوفی جیسے آپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی حیرت کا اظہار کیا ہے اور اپنی تاریخوں میں درج کیا ہے کہ جس وقت ابوسفیان نے خلافت عثمان کے شروع میں سرور بار اسلام اور نزول وحی وجبرئیل کا انکار کیا تو خلیفہ نے اس کو قتل کیوں نہیں کیا فقط معمولی سی ناراضگی پر بات ختم کردی، حالانکہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ایسا ملعون واجب القتل تھا۔ "فَاعْتَبِرُواياأُولِي الْأَبْصارِ"

لوگوں میں غم وغصہ پھیلانا قتل عثمان تک منجر ہوا

جو کچھ عرض کیا جاچکا اس کے علاوہ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر163 اور اسی طرح اس روایت پر توجہ کیجئے جو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ( مطبوعہ مصر) ص482 میں خطبے کی شرح کرتے ہوئے طبری کی تاریخ بزرگ سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ(ص) کے بعض اصحاب نے مختلف صوبوں میں خطوط لکھ کر مدینے کے اندر عثمان کی سر پرستی میں بنی امیہ کے ظلم نہ جور کے خلاف دعوت جہاد دی۔ اور سنہ34ھ میں عثمان کے عالموں سے ناراض لوگوں کی ایک بڑی جماعت مدینے پہنچ کر خدمت امیرالمومنین(ع) میں حاضر ہوئی

۲۵۸

اور حضرت کو درمیان میں ڈالا، آپ خلیفہ کے پاس تشریف لے گئے اور جہاں تک ممکن تھا ان کو نصیحت کی کہ عمال کے تبادلے اور طرز عمل پر نظر ثانی کریں، ان کے حالات کے نتائج سے آگاہ کیا اور سمجھایا کہ یہ جان جو کھوں کا معاملہ ہے، یہاں تک کہ فرمایا :

"وَإِنِّي أَنْشُدُكَ اللَّهَ أَنْ أَلَّاتَكُونَ إِمَامَ هَذِهِ الْأُمَّةِالْمَقْتُولَ فَإِنَّهُ كَانَ يُقَالُ ُقْتَلُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِإِمَامٌ يَفْتَحُ عَلَيْهَ االْقَتْلَوَالْقِتَالَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"

یعنی میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اس امت کے مقتول پیشوا نہ بنو کیونکہ اس سے قبل؛ کہا جاچکا ہے کہ اس امت میں ایک ایسا پیشوا قتل کیا جائے گا جس کے مارے جانے سے روز قیامت تک قتل و خون ریزی کا دروازہ کھل جائے گا۔

لیکن مروان اور اموی مصاحبین نے حضرت کی سچی نصیحتوں کا اثر نہ ہونے دیا۔ چنانچہ حضرت کی واپسی کے بعد عثمان نے حکم دیا کہ لوگ مسجد میں جمع ہوں، پھر منبر پر جاکر بجائے اس کے کہ شکایت کرنے والوں کی تالیف قلوب اور دلدہی کریں اور کہیں کہ متعین عمال اس وقت سے معزول کئے گئے، اس طرح کی باتیں کہیں رنجیدہ دلوں کو اور صدمہ پہنچا اور انجام خلیفہ عمر کی پیشن گوئی تک پہنچا یعنی عثمان ناراض جماعت کے ہاتھو مارے گئے۔

پس قتل عثمان کا سبب ان کی نادانیان تھیں کہ بزرگوں کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرے حتی کہ اپنے پاداش عمل کو پہنچے، بر خلاف ابوبکر وعمر کے کہ وہ امیرالمومنین علیہ السلام کے نصائح کو سن کر اثر لیتے تھے اور قدر دانی کر کے پورا فائدہ اٹھاتے تھے۔

اصحاب رسول(ص) پر عثمان کی زد و کوب

دوسرے یہ کہ وہ چند اصحاب رسول(ص) جو ناصح وخیر خواہ اور ان کے غلط رویے پر معترض تھے ان کے حکم سے اس قدر مارے پیٹے گئے کہ اکثر انہیں چوٹوں کے اثر سے مرگئے اور جو زندہ رہے وہ علیل و ناتوان ہوگئے۔

منجملہ ان کے عبداللہ ابن مسعود تھے جو حافظ و قاری ، محافظ بیت المال، کاتب قرآن اور رسول خدا(ص) کے خاص صحابی تھے یہاں تک کہ ابوبکر و عمر کے نزدیک بھی قابل احترام اور ان کے مشیر کار تھے۔

خصوصیت سے ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ خلیفہ ثانی عمر اپنے زمانہ خلافت میں کوشش کرتے تھے کہ عبداللہ ان سے جدا نہ ہوں اس لیے کہ یہ قرآن اور احکام دین سے پوری واقفیت رکھتے تھے اور رسول اللہ(ص) نے ان کی بہت تعریف فرمائی تھی چنانچہ ابن ابی الحدید اور دوسروں نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

ابن مسعود کی زد و کوب اور ان کی موت

آپ کے علماء و مورخین نے بالعموم لکھا ہے کہ جب عثمان نے قرآن کو جمع کرنا چاہا تو کاتبوں سے تمام نسخے حاصل

۲۵۹

کئے من جملہ ان کے عبداللہ ابن مسعود سے بھی جو کاتبین وحی میں سے اور رسول خدا(ص) کے معتمد علیہ تھے ان کا قرآن طلب کیا لیکن انہوں نے نہیں دیا عثمان خود ان کے گھر پر گئے اور زبردستی ان سے قرآن وصول کیا۔ جس وقت عبداللہ نے سنا کہ دوسرے قرآنیوں کی طرح ان کا قرآن بھی جلا دیا گیا تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ چنانچہ مجالس و محافل میں جو حدیثیں ان کو قدح عثمان میں یاد تھیں بیان کرتے تھے اصلیت سے پردے اٹھاتے تھے اور ارشارات سے لوگوں کو حقائق سمجھاتے تھے، جب یہ خبریں عثمان کو پہنچیں تو ان کے حکم سے غلاموں نے جاکر عبداللہ کو اس قدر مارا کہ ضربات کی شدت سے ان کے دانت ٹوٹ گئے اور وہ بستر سے لگے گئے یہاں تک کہ تین دن کے بعد دنیا سے چل بسے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ( مطبوعہ مصر) ص67 و ص426 ضمن طعن ششم میں ان واقعات کو تفصیل سے لکھا ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں عثمان عبداللہ کی عیادت کو گئے اور دونوں میں کافی بات چیت ہوئی تا اینکہ عثمان نے کہا: " استغفرلي ياأباعبدالرحمن قال أسأل الله أني أخذلي منك حقي. "( یعنی اے عبدالرحمن ( کنیت عبداللہ ابن مسعود) میرے لیے استغفار کرو۔ عبداللہ نے کہا کہ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ تم سے میرا حق وصول کرے( یعنی میں ہرگز تم سے راضی نہ ہوں گا۔)

نیز نقل کیا ہے کہ جس وقت ابوذر کو ربذہ کی طرف جلا وطن کیا گیا تو ان کی مشایعت کے جرم میں عبداللہ کے جسم پر چالیس تازیانے لگائے لہذا عبداللہ نے عمار یاسر کو وصیت کی کہ عثمان کو میرے جنازے پر نماز نہ پڑھنے دینا، عمار نے بھی اس کو منطور کیا اور عبداللہ کی وفات کے بعد اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ ان کے جنازے پر نماز پڑھ کے دفن کیا۔

جس وقت عثمان کو اس کی اطلاع دی گئی تو عبداللہ کی قبر پر آئے اور عمار سے کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا میں ان کی وصیت سے مجبور تھا ( عمار کا یہی عمل اس کینے کا سبب ہوا جو بعد کو ان کے ساتھ برتا گیا۔)

واقعا خلیفہ عثمان کے حرکات جیسا کہ آپ کے اکابر علماء و مورخین نے لکھا ہے حیرت انگیز ہیں، خصوصا وہ برتاوے جو وہ رسول اللہ(ص) کے خاص اور پاکباز صحابہ کے ساتھ عمل میں لاتے تھے کیونکہ ابوبکر اور عمر نے بھی ہرگز ایسے کام نہیں کئے بلکہ وہ عثمان کے طریقے کے خلاف اصحاب رسول(ص) کا پورا احترام کرتے تھے۔

عثمان کے حکم سے عمار کی زد و کوب

عثمان کے جو اعمال ان کی رحم دلی پر دلالت کرتے ہیں ان میں سے پیغمبر(ص) کے خاص صحابی جناب عمار یاسر کی توہین اور زد و کوب بھی ہے۔ چنانچہ فریقین کے علماء و مورخین نے لکھا ہے کہ جب بلاد اسلام میں عمال بنی امیہ کا ظلم و تعدی بہت بڑھ گیا تو اصحاب رسول(ص) نے جمع ہو کر عثمان کو ایک خط لکھا جس میں ان کے مظالم یاد دلائے اور مشفقانہ نصیحتیں گوش گذار کیں کہ اگر آپ ظالم اموی عمال کے رویے کی پیروی اور حمایت کرتے رہئے گا اور نیز اپنے مصاحبین کے طور طریقے پر نظر ثانی نہ

۲۶۰