پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310264 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

قوم کے خادم ہیں اورمہمانوں کی خاطر و تواضع اور خدمت سے گریز نہیں کرتے، پھر یہ مکان ہمیشہ سے آنے والوں کا مرکز رہا ہے، الخصوص جب سے اس کو یہ رونق عطا کی گئی ہے، علمی صحبت اور دینی و مذہبی بحث ومناظرہ سب کو زیادہ سے زیادہ مسرور متشکر کہ رہا ہے۔

حافظ : باوجودیکہ میرے لیے پشاور میں ٹھہرنا بہت دشوار ہے کیونکہ وطن میں بہت سے کام معطل پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن آپ حضرات کی تعمیل ارشاد کے لیے منظور کرتا ہوں۔ پس اب ہم لوگ انشاء اللہ کل شب تک کےلیے رخصت ہوتے ہیں۔

ساتویں نشست

( شب پنجشنبہ ۲۹ رجب سنہ۱۳۴۵ ہجری)

(شام کے بعد سب حضرات تشریف لائے اور معمولی بات چیت اور چائے نوشی کے بعد مولوی صاحبان کی طرف سے گفتگو شروع ہوئی۔)

سید عبدالحی : ( امام جماعت اہل سنت) قبلہ صاحب چند راتیں قبل آپ نے کچھ بیانات فرمائے تھے۔ جن پر قبلہ جناب حافظ صاحب نے آپ سے دلیل مانگی تھی لیکن آپ نے یا تو حیلہ سازی سے کام لیا یا علمی اصطلاحات سے ہم کو مغالطے میں ڈال دیا اور مطلب خبط ہوگیا۔

خیر طلب : فرمائیے کون سامطلب تھا اور آپ کو کون سا سوال بغیر جواب کے رہ گیا؟ میری نظر میں نہیں ہے آپ یاد دلا دیجئے۔

سید : کیا آپ نے چند شب قبل یہ نہیں فرمایا تھا کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ رسول خدا(ص) کے ساتھ اتحاد نفسانی رکھتے تھے لہذا تمام انبیاء سے افضل تھے؟

خیر طلب: صحیح ہے۔ میرا بیان اور عقیدہ یہی تھا اور ہے۔

سید : پھر آپ نے ہمارے اشکال کا جواب کیوں نہیں دیا؟

خیر طلب : آپ کو سخت غلط فہمی ہے۔ آپ سے تعجب ہے کہ تمام راتوں میں ہمہ تن گوش رہے پھر بھی مجھ کو جلد سازی اور مغالطہ بازی کا الزام دے رہے ہیں۔ کوئی حیلہ اور مغالطہ قطعا نہیں تھا بلکہ بمقتضائے الکلام یجر الکلام بات سے بات نکل آئی تھی۔ اگر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ میں نے کوئی غیر متعلق بات نہیں کہی تھی مولوی صاحبان نے کچھ سوالات کئے

۲۸۱

تھے جن کا جواب دینا میرا فرض تھا۔ اب آپ کا جو سوال ہو بیان فرمائیے میں بتائید الہی جواب کے لیے حاضر ہوں۔

سید : ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ دو ذاتوں کا ؟؟؟ میں متحد ہونا کیونکر ممکن ہے؟ اور پھر ان کے درمیان ایسا نفسانی اتحاد پیدا ہوجائے کہ دونوں ایک ہوجائیں۔

اتحاد مجازی و حقیقی میں فرق

خیر طلب : ظاہر ہے کہ دو ذاتوں کےدرمیان حقیقی اتحاد محال اور باطل ہے ۔ اس کا ناممکن ہونا اپنیجگہ پر ثابت بلکہ بدیہیات اولیہ میں سے ہے۔ پس اتحاد کا دعوی صرف مجاز اور مبالغہ کلام کی حیثیت سے ہے۔

اس لیے کہ دو شخص جب آپس میں شدید محبت یا کسی جہت سے مشابہت رکھتے ہیں تو اکثر اتحاد کا دعوی کرتے ہیں عرب و عجم کے بڑے بڑے۔۔۔۔ ادیبوں اور شاعروں کے کلام میں اس طرح کے مبالغے بہت ہیں یہاں تک کہ اولیائے خدا کے کلمات میں بھی کافی نظر آتے ہیں ۔ من جملہ ان کے حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی طرف منسوب دیوان کے اندر ارشاد ہے۔

هُمُومُ رِجَالٍ فِي أُمُورٍكَثِيرَةٍوَهَمِّي مِنَ الدُّنْيَاصَدِيقٌ مُسَاعِدٌ

يَكُونُ كَرُوحٍ بَيْن َجِسْمَيْنِ قُسِّمَتْ فَجِسْمُهُمَاجِسْمَانِوَالرُّوحُوَاحِدٌ

یعنی مردان عالم کہ ہمتیں بہت سے مختلف امور میں ہوتی ہیں اور میرا مقصد صرف ایک ہمدرد دوست ہے جو دو جسموں میں ایک روح کے مانند ہو۔ پس ہمارے جسم دو ہیں اور روح ایک ہو۔

مجنون عامری کے حالات میں مشہور ہے کہ جب اس کی فصد کھولنا چاہی تو اس نے کہا میری فصد نہ کھولو اور نہ مجھ کو خوف ہے کہ نشر میری لیلی کو لگ جائے گا کیونکہ وہ میری ہر رگ دپے میں پیوست ہے۔ چنانچہ ادیبوں نے اس مطلب کو نظم بھی کیا ہے۔

گفت مجنون من نمی ترسم زینش صبر من از کوہ سنگین است و بیش

لیک از لیلی وجود من پر است این صدف پر از صفات آن در است

وندآن عقلی کہ آن دل روشنی استدرمیان لیلی و من فرق نیست

ترسم اے فصاد چون فصدم کنی نیش را ناگاہ بر لیلی زنی

من کیم لیلی و لیلی کیست من مایکی روحیم اندر دو بدن

روحہ روحی و روحی روحہ من یری الروحین عاشافی البدن

۲۸۲

عربی شعر کا مطلب یہ ہے کہ اس کی روح میری روح اور میری روح اس کی روح ہے۔ کس نے دیکھا ہے کہ دو روحیں ایک ایک بدن میں زندگی بسر کرتی ہوں۔ یعنی در حقیقت ایک روح ہے جو دو بدنوں میں مقیم ہے۔

اگر ارباب ادب کی کتابیں ملاحظہ فرمائیے تو مبالغے کی حیثیت سے مجازا اس قسم کے تعبیرات بکثرت ملیں گے۔ چنانچہ ایک شیرین بیان ادیب اور شاعر نے نظم کیا ہے۔

أنامن أهوى ومنأهوىأنانحنروحانحللنابدنا

فإذاأبصرتنى أبصرته وإذاأبصرته كان أنا

یعنی میں اور میرا معشوق دونوں ایک ہیں۔ ہماری درود ہیں ایک جسم میں حلول کئے ہوئے ہیں۔ لہذا اگر تم نے مجھ کو دیکھا تو اس کو دیکھ لیا اور اگر اس کو دیکھا تو وہ میں ہی ہوں۔

پیغمبر علی(ع) کا اتحاد نفسانی

تمہید میں اس سے زیادہ آپ حضرات کا وقت نہیں لوںگا۔ اب نتیجہ یہ اخذ کرتا ہوں کہ اگر میں نے یہ عرض کیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اتحاد نفسانی رکھتے تھے تو آپ کا خیال اتحاد حقیقی کی طرف نہ جانا چاہئیے کیونکہ کسی نے حقیقی اتحاد کا دعوی نہیں کیا ہے اور اگر کوئی ایسے اتحاد کا قائل ہو تو یہ قطعا غلط اور درجہ اعتبار سے ساقط ہوگا۔ پس یہ اتحاد مجاز کی حیثیت سے ہے نہ کہ حقیقتا اور اس سے روح وکمالات کی شرکت مراد ہے۔ نہ کہ جسم کی اور یہ مسلم ہے کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام تمام فضائل و کمالات اور صفات میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شریک تھے۔ الا ما خرج بالنص والدلیل ( سوا ان چیزوں کے جو نص اور دلیل کے ساتھ مستثنی ہیں۔)

حافظ : پس اس قاعدے کی رو سے محمد(ص) و علی(ع) دونوں کو پیغمبر ہونا چاہئیے اور آپ کی یہ گفتگو ثابت کررہی ہے کہ علی(ع) بھی پیغمبری میں شریک تھے اور لازمی طور سے دونوں پر برابر وحی بھی نازل ہوتی تھی۔

خیر طلب : یہ آپ نے کھلا ہوا مغالطہ دیا ہے۔ جو آپ کہہ رہے ہیں ایسا نہیں ہے۔ ہم یا کوئی شیعہ ہرگز یہ عقیدہ نہیں رکھتا۔ آپ سے یہ امید نہیں تھی کہ کٹ حجتی کر کے جلسے کا وقت ضائع کریں گے تاکہ کہی ہوئی باتیں پھر دہرائی جائیں میں نے ابھی ابھی عرض کیا ہے کہ تمام کمالات میں متحد ہیں الا ما خرج بالنص و الدلیل سوا اس چیز کے جو نص اور دلیل سے مستثنی ہیں اور وہ یہی نبوت خاصہ اور اس کے شرائط کا مقام ہے جس میں احکام اور وحی کانزول بھی ہے۔ غالبا آپ گذشتہ راتوں کے بیانات بھول چکے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو رسائل و اخبارات کی اشاعتیں ملاحظہ فرمالیجئے نظر آجائے گا کہ گذشتہ شبوں میں ہم نے حدیث منزلت کے ضمن میں ثابت کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام منصب نبوت کے اہل تھے

۲۸۳

لیکن خاتم الانبیاء کے دین و شریعت کے پیرو اور پابند تھے لہذا حضرت پر وحی کا نزول نہیں ہوتا تھا اور آپ کی منزلت وہ تھی جو حضرت موسی کے زمانے میں ہارون کو حاصل تھی۔

حافظ : جب آپ جملہ فضائل و کمالات میں شرکت اور برابری کے قائل ہوگئے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نبوت اور شرائط نبوت میں بھی مساوات کا عقیدہ ہونا چاہیئے۔

خیر طلب : بظاہر ممکن ہے ایسا معلوم ہوتا ہو لیکن تھوڑا غور کیجئے گا تو ظاہر ہوجائے گا کہ مطلب اس کے علاوہ ہے جیسا کہ پچھلی راتوں میں ہم ثابت کرچکے ہیں کہ آیات قرآنی کے حکم سے نبوت کے بھی مختلف درجے ہیں اور انبیاء و مرسلین اپنے مراتب کے لحاظ سے ایک دوسرے پر افضلیت رکھتے ہیں چنانچہ قرآن مجید میں صریحا ارشاد ہے " تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنابَعْضَهُمْ عَلى بَعْضٍ " ( یعنی ہم نے انبیاء و مرسلین میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اور تمام مراتب انبیاء سے اکمل نبوت خاصہ محمدیہ کا مرتبہ ہے اس وجہ سے آیت نمبر۴۰ سورہ نمبر ۳۲ ( احزاب) میں ارشاد ہے۔

"ماكانَ مُحَمَّدٌأَباأَحَدٍمِنْ رِجالِكُمْ وَلكِنْ رَسُولَ اللَّه ِوَخاتَمَ النَّبِيِّينَ " ( یعنی محمد(ص) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن خدا کے رسول اور پیغمبروں کے خاتم ہیں۔)

یہی نبوت خاصہ کا کمال ہے جو خاتمیت کا سبب بنا پس اس کمال خصوصی میں کسی اور کو دخل نہیں ہے، لیکن دوسرے کمالات میں شریک یا مساوات پائی جاتی ہے جس کے ثبوت میں بے شمار دلائل و براہین موجود ہیں۔

سید : آیا اس دعوے کے ثبوت میں آپ کے پاس قرآن مجید سے بھی کوئی دلیل ہے؟

آیہ مباہلہ سے استدلال

خیر طلب : کھلی ہوئی بات ہے، البتہ ہماری پہلی دلیل قرآن مجید سے ہے جو ایک مضبوط آسمانی سند ہے۔ اور قرآن مجید میں سب سے بڑی دلیل آیہ مباہلہ ہے جس میں صریحی ارشاد ہے:

"فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِماجاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْانَدْعُ أَبْناءَناوَأَبْناءَكُمْ وَنِساءَناوَنِساءَكُمْ وَأَنْفُسَناوَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبِينَ "

( یعنی پس جو شخص وحی کے ذریعے تمہارے پاس علم آجانے کے بعد عیسی کے بارے میں تم سے مجادلہ کرے تو اس سے کہدو کہ آئو ہم اور تم اپنے بیٹوں اپنی عورتوں اور اپنے اقربا کو جو جان کے برابر ہیں، جمع کر کے آپس میں مباہلہ کریں۔ ( یعنی ایک دوسرے کے لیے نفرین اور بد دعا کریں) تاکہ جھوٹوں کو عذاب خدا میں گرفتار کریں۔)

آیت نمبر۵۴ سورہ نمبر۳ ( آل عمران) آپ کے خاص خاص اور بزرگ علماء و مفسرین جیسے امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں، امام ابو اسحق ثعلبی نے تفسیر کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں، قاضی بیضاوی نے انوار التنزیل میں، جار اللہ زمخشری نے کشاف میں، مسلم بن حجاج نے صحیح میں، ابو الحسن فقیہہ نے ابن مغازلی شافعی واسطی نے مناقب

۲۸۴

میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاء میں، نوالدین مالکی نے فصول المہمہ میں، شیخ الاسلام حموینی نے فرائد میں، ابولمئوئد خوارزمی نے مناقب میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں، محمد بن طلحہ نے مطالب السئول می، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں اور دوسروں نے بھی الفاظ اور عبارت کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ اس آیت کا نزول مباہلے کے روز لکھا ہے جو ذوالحجہ کی چوبیس(۲۴) یا پیچیس (۲۵) تاریخ تھی۔

نصارائے نجران سے پیغمبر(ص) کا مباحثہ

جب خاتم الانبیاء نے نجران کے عیسائیوں کو اسلام کی دعوت دی تو ان کے بڑے بڑے علماء جیسے سید عاقب جاثلیق اور علقمہ وغیرہ جو ستر سے بھی زیادہ تھے اپنے تقریبا تین سو پیروئوں کے ساتھ مدینے آئے اور متعدد نشستون میں پیغمبر(ص) کے ساتھ علمی مناظرے کئے لیکن آنحضرت(ص) کے مفصل اور مضبوط دلائل کے سامنے لا جواب ہوگئے اس لیے کہ آنحضرت(ص) نے ان کی معتبر کتابوں سے اپنی حقانیت اور اس بات پر کہ حضرت عیسی نے آثار اور علامات کے ساتھ آں حضرت(ص) کے آنے کی خبر دی ہے اور نصاری ان اخبار کی روسے ایسے ظہور کے منتظر ہیں کہ اونٹ پر سوار ہو کر ( مکے میں ) فاران کے پہاڑوں سے ظاہر ہو کر عیر اور احد کے ( جو مدینے میں ہے) درمیان ہجرت کریں گے ایسی قوی دلیلیں دین کہ سوا سپر انداختہ ہوجانے کے اور کوئی چارہ نہ تھا لیکن مسند اور اقتدار کی محبت نے قبول نہ کرنے دیا۔ جب انہوں نے اسلام اور معقولیت سے روگردانی کی تو رسول خدا(ص) نے بحکم الہی ان کے سامنے مباہلے کی تجویر رکھی تاکہ سچے اور جھوٹے میں امتیاز ہوجائے، نصاری نے اس کو مان لیا اور یہ امر دوسرے دن پر رکھا گیا۔

مباہلے کے لیے نصاری کی تیاری

حسب وعدہ دوسرے روز عیسائیوں کی ساری جماعت انے ستر نفر سے زیادہ علماء کےساتھ دروازہ مدینہ کے باہر پہاڑ کے کے دامن میں ایک طرف کھڑی ہوئی منظر تھِی کہ رسول اللہ(ص) ان کو مرعوب کرنے کے لیے لازمی طور پر انتہائی شان و شوکت و پورے سازو سامان اور کثیر مجمع کے ساتھ تشریف لائیں گے۔

اتنے میں قلعہ مدینہ کا دروازہ کھلا اور خاتم الانبیاء(ص) اس حالت سے باہر آئے کہ ایک جوان داہنی طرف ایک با وقار برقع پوش عورت بائیں طرف اور دو بچے آگے آگے تھے یہاں تک کہ نصاری کے مقابل ایک درخت کے

۲۸۵

نیچے قیام فرمایا ( اور کوئی دوسرا شخص ان کے ساتھ نہیں آیا تھا) سب سے بڑے نصرانی عالم اسقف نے مترجمین سے پوچھا کہ محمد(ص) کے ہمراہ یہ کون لوگ آئے ہیں؟ انہوں نے کہا وہ جوان ان کا داماد اور پسر عم علی ابن ابی طالب ، وہ عورت ان کی بیٹی فاطمہ(س) اور وہ دو بچے ان کے نواسے حسن (ع) و حسین(ع) ہیں۔

اسقف نے نصرانی عالموں سے کہا کہ دیکھ محمد(ص) کس قدر مطمئن ہیں کہ اپنے فرزندوں اور قریب ترین خاص عزیزوں کو مباہلے میں لاکر معرض بلا میں ڈال دیا ہے قسم خدا کی اگر ان کو اس بارے میں ذرا بھی شک و شبہ یا خوف ہوتا تو ہرگز ان کو منتخب نہ کرتے اور حتما مباہلے سے گریز کرتے یا کم از کم اپنے اعزہ کو اس خطرے سے الگ رکھتے۔، اب ان سے مباہلہ کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔ اگر قیصر روم کا خوف نہ ہوتا تو ہم ایمان لے آتے۔ پس مصلحت اسی میں ہے کہ ہم لوگ جن شرائط پر وہ چاہیں ان سے صلح کر لیں اور اپنے وطن کو پلٹ جائیں۔ سب نے کہا کہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ چنانچہ اسقف نے آںحضرت(ص) کے پاس پیغام بھیجا کہ " انا لا يباهلک يا اباالقاسم " ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ صلح چاہتے ہیں۔ آنحضرت(ص) نے بحی اس کو منظور فرمایا امیرالمومنین(ع) کے قلم سے اس شرط پر صلح نامہ لکھا کہ وہ لوگ دو ہزار اورانی حلے جن میں سے ہر ایک کی قیمت چالیس (۴۰) درہم ہو اور ایک ہزار مثقال سونا ادا کریں، اس مطالبے کا نصف محرم میں اور نصف رجب میں پورا کریں۔ اس کے بعد طرفین کے دستخط ہوئے اور وہ لوگ واپس ہوئے راستے میں ان کے عالم عاقب نے اپنے ہمرہیوں سے کہا کہ قسم خداکی ہم اور تم جانتے ہیں کہ یہ محمد(ص) وہی پیغمبر(ص) موعود ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں خدا کی طرف سے کہتے ہیں ( اللہ جن لوگوں نے بھی کسی پیغمبر سے مباہلہ کیا ہے وہ ہلاک ہوئے ہیں اور ان کا کوئی چھوٹا بڑا زندہ نہیں بچا ہے۔ اگر ہم لوگ بھی مباہلہ کرتے تو قطعا سب کے سب ہلاک ہوجاتے اور روئے زمین پر کوئی عیسائی باقی نہ رہتا۔ خدا کی قسم جب میں نے ان لوگوں پر نظر ڈالی تو ایسی صورتیں دیکھیں کہ اگر خدا سے دعا کر دیتے تو پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جاتے۔

حافظ : جو کچح آپ نے بیان فرمایا سب درست ہے اور سارے مسلمان اس کو مانتے ہیں۔ لیکن ان باتوں کو ہمارے موضوع بحث سے کیا ربط ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ رسول خدا(ص) کے ساتھ اتحاد نفسانی رکھتے ہیں؟

خیر طلب : اس آیت میں ہپمارا استدالل جملہ انفسنا سے ہے کیونکہ اس قضیہ میں کئی اہم مطالب ظاہر ہوتے ہیں ۔ اولا حقانیت رسول خدا(ص) کا اثبات ہے کہ اگ حق پر نہ ہوتے تو مباہلے کی جرائت نہ فرماتے اور بڑے بڑے مسیحی علماء میدان مباہلہ سے فرار نہ کرتے ۔ دوسرے یہ کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام حسن و امام حسین علیہما السلام رسول اللہ(ص) کے فرزند ہیں ( جیسا کہ ہم پہلی شب میں اشارہ کرچکے ہیں) تیسرے اس آیہ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ علی (ع) و فاطمہ(س) اور حسن(ع) و حسین علیہم السلام حضرت ختمی مرتبت کے بعد سارے مخلوقات سے افضل اور آن حضرت(ص) کے نزدیک تمام انسانوں میں عزیز ترین تھے۔ جیسا کہ آپ کے سارے متعصب علماء جیسے زمخشری بیضاوی اور فخر الدین رازی وغیرہ نے بھی لکھا ہے اور خصوصیت سے جار اللہ زمخشری نے اس آیہ شریفہ کے ذیل میں مذکورہ بالا تفصیل کے ساتھ اس پنجتن

۲۸۶

آل عبا(ع) کے اجتماع سے کئی حقیقتوں کا تذکرہ کیا ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں یہ آیت اتنی زبردست دلیل ہے کہ پیغمبر(ص) کے ساتھ جادر کے نیچے جمع ہونے والے پنچ تن پاک (ع) کی افضلیت پر اس سے قوی دلیل اور کوئی نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام جملہ اصحاب رسول(ص) سے بلند اور افضل تھے۔ اس دلیل سے کہ خدائے تعالی نے آیہ شریفہ میں ان کو نفس رسول(ص) قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انفسنا سے خود حضرت خاتم الانبیاء(ص) کا ذاتی نفس مراد نہیں ہے۔ کیونکہ بلانا کسی دوسری ہستی کو چاہتا ہے اور انسان کو ہرگز یہ حکم نہیں دیا جاتا کہ خود اپنے کو بلائے۔ پس ضروری ہے کہ کسی اور کو دعوت دینا مقصود ہو جو پیغمبر(ص) کے لیے بمنزلہ نفس ہو۔ چونکہ فریقین ( شیعہ و سنی) کے موثق مفسرین ، محدثین کا اتفاق ہے کہ مباہلے میں آنحضرت(ص) کے ہمراہ علی، حسن و حسین اور فاطمہ علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور موجود نہ تھا لہذا جملہ ابناء نا و ابناءکم سے حسنین علیہم السلام اور نساءنا و نساءکم سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا خارج ہوجاتے ہیں اور دوسرا شخص جو انفسنا سے مراد لیا جائے اس مقدس گروہ میں سوا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کےکوئی نہیں تھا پس اس جملہ انفسنا سے محمد(ص) علی علیہما السلام کے درمیان اتحاد نفسانی ثابت ہوتا ہے کہ حق تعالی نے علی(ع) کو نفس محمد(ص) فرمایا ہے اور چونکہ دو نفسوں میں اتحاد حقیقی محال ہے لہذا قطعا مجازی اتحاد مراد ہے۔

آپ حضرات بہتر جانتے ہیں کہ علم اصول میں لفظ کو مجاز بعید کے مقابلے میں قریب تر مجاز پر حمل کرنا اولی ہے اور قریب تر مجاز جملہ امور اور سارے کمالات میں شرکت ہے سوا اس کے جو دلیل سے خارج ہوجائے اور ہم پہلے ہی بیان کرچکے ہیں کہ جو چیز دلیل اور اجماع سے خارج ہے وہ آنحضرت(ص) کی نبوت خاتمہ اور نزول وحی ہے لہذا ہم علی علیہ السلام کو اس خصوصیت میں پیغمبر(ص) کا شریک نہیں جانتے ہیں لیکن بحکم آیہ شریفہ دیگر کمالات میں شریک ہیں، اور قطعا مبدا فیاض سے پیغمبر(ص) کے ذریعے علی(ع) کو علی الاطلاق فیض پہنچا اور یہ خود اتحاد نفسانی کی دلیل ہے جو ہمارا مدعا ہے۔

حافظ : آپ کہاں سے کہہ رہے ہیں کہ اپنے نفس کو مجازا دعوت دینا مراد نہیں ہے اور یہ مجاز دوسرے مجاز سے اولی نہیں ہے؟

خیر طلب : میری درخواست ہے کہ خواہ مخواہ اختلاف کر کے جلسے کا وقت ضائع نہ کیجئے اور اںصاف کے راستے سے نہ ہٹئے۔ حق پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ جب کوئی بات اپنی منزل تک پہنچ جائے تو اس کو چھوڑ کر آگے بڑھئے آپ جیسے جلیل القدر اور منصف عالم سے ہم قطعا مجادلے اور کٹ حجتی کی امید نہیں رکھتے ۔ کیونکہ آپ خود جانتے ہیں اور صاحبان علم و فضل کے نزدیک ثابت ہے کہ مجازا نفس کا اطلاق دوسرے مجاز سے زیادہ مستعمل ہے اور عرب و عجم کے فضلاء و ادباء اور شعراء کی زبان اور کلام میں کافی رواج ہے کہ مجازا اتحاد کا دعوی کرتے ہیں جیسا کہ پہلے عرض کرچکا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ تم میری جان کی جگہ پر ہو اور خصوصیت سے اخبار و احادیث کی زبان میں یہ بات حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے بارے میں کثرت سے وارد ہوئی ہے جو مقصد کے اثبات میں الگ الگ ایک مستقل دلیل ہے۔

۲۸۷

اتحاد پیغمبر(ص) و علی(ع) پر اخبار و احادیث کے شواہد

من جملہ امام احمد ابن حنبل مسند میں، ابن مغازلی فقیہہ شافعی نے مناقب میں اور موفق بن احمد خطیب خوارزم مناقب میں نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) مکرر فرماتے تھے:

" عليّ منّي وأنامنه من أحبه فقدأحبني ومن أحبني فقدأحب اللّه"

یعنی علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں جو شخص ان کو دوست رکھے اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جو شخص مجھ کو دوست رکھے اس نے خدا کو دوست رکھا۔

ابن ماجہ نے سنن جزو اول ص۹۲ میں، ترمذی نے صحیح میں، ابن حجر نے ان چالیس حدیثوں میں سے جو صواعق میں فضائل امیرالمومنین (ع) میں نقل کی ہیں چھٹی حدیث میں امام احمد و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ سے۔ امام احمد ابن حنبل نے مسند جلد چہارم ص۱۶۴ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب ۶۸ میں ، مسند بن ہماک جز چہارم اور معجم کبیر طبرانی سے ، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص میں اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب ۷ میں مشکوۃ سے سب نے جیش بن جنادہ سلونی سے روایت کی ہے کہ سفر حجتہ الوداع میں عرفات کے اندر رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

"عليّ منّي وأنامن علی،ولايؤدّي عنّي إلّاأناأوعليّ"

یعنی علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سےہوں اور میری طرف سے کوئی ادا نہیں کرتا ہے ( یعنی میرے فرض تبلیغ کو انجام نہیں دیتا ہے) سوا میرے یا علی(ع) کے۔

سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۷ میں زوائد مسند عبداللہ بن احمد بن حنبل سے بسند ابن عباس نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے ( ام المومنین) ام سلمی رضی اللہ عنہا سے فرمایا :

"عَلِيٌ مِنِّي ،وَأَنَامِنْ عَلِيٍ ،لَحْمُهُ لَحْمِي،وَدَمُهُ دَمِي،وَهُوَمِنِّي بِمَنْزِلَةِهَارُونَ مِنْ مُوسَى،يَاأُمَّ سَلَمَةَ،اسْمَعِي وَاشْهَدِي،هَذَاعَلِيٌّ سَيِّدُالْمُسْلِمِينَ."

یعنی علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں ان کا گوشت اور خون میرے گوشت اور خون سے ہے اور وہ مجھ سے بمنزلہ ہارون(ع) ہیں موسی سے اے ام سلمہ سنو اور گواہ رہو کہ یہ علی(ع) مسلمانوں کے سید و آقا ہیں۔

حمیدی نے جمع بین الصحیحن میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا

"علي مني وأنامنه و علی منی بمنزلة الراس من البدن من اطاعه فقد اطاعنی و من اطاعنی فقد اطاع الله "

یعنی علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں علی(ع) مجھ سے بمنزلہ سر ہیں بدن سے۔ جس نے ان کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی۔

محمد بن جریر طبری اپنی تفسیر میں اور میر سید ہمدانی فقیہ شافعی مودۃ القربی ہشتم میں رسول اکرم(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا :

"ان الله تبارک و تعالی اسد هذا الذين بعلی و انه منی و انا منه و فيه انزل أَفَمَنْ كانَ

۲۸۸

عَلى بَيِّنَةٍمِنْ رَبِّه ِوَيَتْلُوهُ شاهِدٌمِنْهُ "

یعنی در حقیقت خدائے تعالی نے اس دین کی علی(ع) کے ذریعے تائید فرمائی ہے کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں اور ان کے بارے میں آیہ شریفہ نمبر۲۰ سورہ نمبر۱۱ ( ہود) نازل ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر خدا(ص) کی طرف سے قرآن جیسی روشن دلیل رکھتے ہیں اور ان کا ( علی جیسا) سچا گواہ ہے( جو اپنے ہر قول و فعل سے رسالت کی سچائی ثابت کرتا ہے ) اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ کے باب ۷ کو اسی موضوع سے مخصوص کیا ہے اس عنوان کےساتھ کہ

" الباب السابع فی بيان ان علیا کرم الله وجهه کنفس رسول الله صلی الله عليه و آله وسلم و حديث علی منی و انا منه "

یعنی ساتوان باب اس بیان میں کہ علی کرم اللہ وجہہ رسول اللہ(ص) کے نفس کے مانند ہیں اور اس حدیث میں کہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔

اس باب میں مختلف طریقوں اور متفاوت الفاظ کے ساتھ رسول خدا(ص) سے چوبیس حدیثیں نقل کرتے ہیں کہ فرمایا علی(ع) میرے نفس کی جگہ پر ہیں اور آخر باب میں مناقب سے بروایتجابر ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ فرمایا علی(ع) میں ایسی خصلتیں ہیں کہ اگر کسی شخص کے لیے ان میں سے ایک بھی ہوتی تو اس کے فضل و شرف کےلیے کافی تھی اور ان خصلتوںسے مراد علی(ع) کے بارے میں رسول اللہ(ص) کے ارشادات ہیں مثلا :

" من كنت مولاه فعلى مولاه -يا علی منی کهارون من موسی، يا علی منی و انا منه.يا علی منی کنفسی طاعته طاعتی و معصيتهمعصيتی يا حرب علی حرب الله و سلم علی سلم الله.يا ولی علی ولی الله وعدو علی عدو الله.يا. علی حجت الله علی عباده.يا حب علی ايمان و بغضه کفر –يا- حزب علی حزب الله و حزب اعدائه حزب الشيطان -يا- علی مع الحق و الحق معه لا يفترقان -يا - علی قسيم الجنة و النار-يا - من فارق عليا فقد فارقنی و من فارقنی فقد فارق الله-يا-شيعه علی هم الفائزون يوم القيمة."

یعنی جس شخص کا میں مولا ہوں پس علی(ع) بھی اس کے مولا ( اس کے امر میں اولی بتصرف ) ہیں۔ علی(ع) مجھ سے مثل ہارون کے ہیں موسی(ع) سے ۔ علی(ع) مجھ سے اور میں علی(ع) سے ہوں۔ علی(ع) مجھ سے مثل میرے نفس کے ہیں ان کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی نا فرمانی میری نافرمانی ہے۔ علی(ع) کےساتھ جنگ خدا کےساتھ جنگ ہے اور علی (ع) کے ساتھ صلح و آشتی خدا کے ساتھ صلح و آشتی ہے۔ علی(ع) کا دوست خدا کا دوست اور علی کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ علی(ع) خدا کی حجت ہیں اس کے بندوں پر ، علی(ع) کی محبت ایمان اور ان کی عداوت کفر ہے۔ علی(ع) کا گروہ خدا کا گروہ اور ان کے دشمنوں کا گروہ شیطان کا گروہ ہے۔ علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کےساتھ ہے۔دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے ، علی(ع) بہشت و دوزخ کےتقسیم کرنے والے ہیں جو شخص علی(ع) سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوا او جو شخص مجھ سے جدا ہوا وہ خدا سے جدا ہوا۔ علی(ع) کے شیعہ قیامت کے روز رستگار ہیں۔

آخر میں مناقب سے ایک اورمفصل حدیث نقل کرتے ہیں جس کے خاتمے میں ارشاد ہے:

" اقسم بالله الذی

۲۸۹

بعثنی بالنبوة و جعلنی خير البريه انک لحجة الله علی خلقه و امينه علی سره و خليفة الله علی عباده"

یعنی قسم اس خدا کی جس نے مجھ کو نبوت کےساتھ مبعوث کیا اور مجھ کو بہترین خلق قرار دیا۔ در حقیقت تم( اے علی) خدا کی حجت ہو اس کی مخلوق پر اور اس کے امانت دار ہو اس کے راز پر اور خلیفہ خدا ہو اس کے بندوں پر۔

اس قسم کے اخبار و احادیث صحاح اور آپ کی معتبر کتابوں میں بکثرت وارد ہوئے ہیں جو آپ کی نظرسے گذر چکے ہوں گے یا آئندہ ان کا مطالعہ کریں گے تو تصدیق کریں گے کہ یہ سب اس مجاز کا قرینہ ہیں، پس کلمہ انفسنا نسبی و حسبی ظاہری و باطنی اور علمی و عملی کمالات میں حضرت علی علیہ السلام کے انتہائی ارتباط و اتحاد پر واضح دلالت کرتا ہے۔ آپ چونکہ صاحب علم وعقل ہیں لہذا امید ہے کہ انشاء اللہ ضد اور ہٹ دھرمی سے الگ رہ کر تسلیم کریں گے کہ یہ آیہ شریفہ مطلب و مقصود کے اثبات میں، ایک قاطع دلیل ہے۔ اور اسی آیت سے آپ کے دوسرے سوال کا جواب بھی دیا جاتا ہے جب ہم ثابت کرچکے علی علیہ السلام سوا نبوت خاصہ اور نزول وحی کے بحکم آیہ انفسنا خاتم الانبیاء(ص) کےساتھ تمام کمالات میں شریک تھے تو معلوم ہوا کہ آپ کے کمالات مراتب اور خصائص میں سے جملہ صحابہ اور امت پر افضل ہونا بھی ہے اور نہ صرف صحابہ و امت پر افضل تھے بلکہ اسی آیہ مبارکہ کی دلیل اور عقل کے حکم سے انبیاء پر بھی بلا استثناء افضل ہونا چاہئیے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام انبیاء و امت پر افضل تھے۔

چونکہ پیغمبر(ص) انبیاء پر افضل ہیں لہذا علی(ع) بھی ان سے افضل ہیں

اگر آپ اپنی معتبر کتابیں جیسے احیاء العلوم امام غزالی، شرح نہج البلاغہ ابی ابی الحدید ، معتزلی تفسیر امام فخر رازی، تفسیر جار اللہ زمخشری و بیضاوی و نیشاپوری وغیرہ مطالعہ فرمائیے تو دیکھئے گا کہ رسول اکرم (ص) سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ علماء امتی کانبیاء بنیا اسرائیل یعنی میری امت کے علماء انبیائے بنی اسرائیل کے مثل ہیں اور دوسری حدیث میں ارشاد ہے علماء امتی افضل من انبیاء بنی اسرائیل یعنی میری امت کے علماء انبیائے بنی اسرائیل سے افضل و بہتر ہیں۔ اس وقت از روئے انصاف کہنا پڑے گا کہ جب اس امت کے علماء محض اس وجہ سے کہ ان کا علم سر چشمہ علم محمدی کا فیض ہے انبیائے بنی اسرائیل کے مثل یا ان سے بہتر قرار پائے تو علی بن ابی طالب علیہ السلام تو یقینا ان سے افضل ہوں گے کیونکہ ان کے لیے قول رسول (ص) کی یہ نص موجود ہے جس کو آپ کے بڑے علماء نے نقل کیا ہے کہ " انا مدينة العلم وعلی بابها و انا دار الحکمة و علی بابها" یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کے دروازہ ہیں اور میں حکمت کا گھر ہوں اور علی(ع) اس کے دروازہ ہیں۔ اور اس میں ہرگز کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا خود حضرت علی علیہ السلام سے جب اس موضوع پر سوال کیا گیا تو آپ نے افضلیت کے بعض پہلو ظاہر فرمائے۔

۲۹۰

انبیاء سے افضل ہونے کے سبب میں صعصعہ کے سوالات اور حضرت علی(ع) کے جوابات

ماہ رمضان المبارک سنہ۴۰ ھ کی بیسویں تاریخ جب شقی ترین اولین و آخرین ( جیسا کہ رسول اللہ(ص) نے خبر دی تھی) عبدالرحمن ابن ملجم مرادی ملعون کی زہر آلود تلوار کے زخم سے حضرت پر موت کے آثار طاری ہوئے تو اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام سے فرمایا کہ جو شیعہ دروازے پر مجتمع ہیں ان کو اندر بلا لو تاکہ مجھ سے ملاقات کر لیں۔ جب وہ لوگ آئے تو چاروں طرف سے بستر کو گھیر لیا اور حضرت کی حالت پر چپکے چپکے رونے لگے۔ حضرت نے انتہائی ناتوانی کے ساتھ فرمایا : " سلونی قبل ان تفقدونی ولکن خففوا مسائلکم "( یعنی مجھ سے جو چاہو پوچھ لو قبل اس کے کے مجھ کو نہ پائو لیکن سبک اور مختصر سوالات کرو۔ )چنانچہ اصحاب نے باری باری سوال کرتے تھے اور جواب سنتے تھے۔

من جملہ صعصعہ بن صوحان بھی تھے۔ جو ایک سر برآوردہ شیعہ ، کونے کے مشہور خطیب اور بزرگ راویوں میں سے ہیں جن کی روایتوں کو علاوہ شیعہ کے آپ کے بڑے بڑے علماء یہاں تک کہ صاحبان صحاح نے بھی علی علیہ السلام اور ابن عباس سے نقل کیا ہے۔ ان کی سیرت نقل کرنے میں آپ کے کبار علماء جیسے ابن عبدالبر نے استیعاب میں، ابن سعد نے طبقات میں، ابن قتیبہ نے معارف میں اور دوسروں نے بھی کافی تفصیل سے کام لیا ہے اور ان کی توثیق کی ہے کہ ایک عالم و فاضل اور صادق و متدین انسان اور علی علیہ السلام کے اصحاب خاص میں سے تھے۔ صعصعہ نے عرض کیا۔ " اخبرنی انت افضل ام آدم " مجھ کو خبر دیجئے کہ آپ افضل ہیں یا آدم؟ حضرت نے فرمایا " تزکية المرء لنفسهقب ي ح " انسان کے لیے خود اپنی تعریف کرنا اچھا نہیں ہے لیکن بفحوائے و اما بنعمۃ ربک فحدث" ( یعنی اپنے خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو بیان کرو۔)میں کہتا ہوں کہ انا افضل من آدم میں آدم سے افضل ہوں۔ عرض کیا ولم ذالک یا امیرالمومنین کس دلیل سے ایسا ہے؟ حضرت نے مفصل تقریر کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آدم کے لیے بہشت میں رحمت اورنعمت کے سارے وسائل مہیا تھے صرف ایک درخت گندم سے روکے گئے تھے لیکن وہ باز نہ رہے۔ اور اس شجرہ ممنوعہ میں سے کھایا جس کی وجہ سے بہشت اور اللہ کے جوار رحمت سے خارج ہوئے۔ لیکن باوجودیکہ خدا نے مجھ کو گندم کھانے سے منع نہیں فرمایا تھا میں نے چونکہ دنیا کو قابل توجہ نہیں سمجھتا لہذا اپنی مرضی اور ارادے سے گیہوں نہیں کھایا مطلب یہ ہے کہ خدا کے نزدیک انسان کی فضیلت و بزرگی ، زہد و ورع اور تقوی سے ہے۔ دنیا اور متاع دنیا سے جس شخص کی پرہیزگاری جتنی زیادہ ہے یقینا خدا کی بارگاہ میں اس کا قرب و منزلت بھی زیادہ ہے اور زہد کی انتہا یہ

۲۹۱

ہے کہ غیر ممنوع مباح سے بھی پرہیز کرے۔

عرض کیا انت افضل ام نوح آپ افضل ہیںیا نوح؟ قال انا افضل من نوح فرمایا میں نوح سے افضل ہوں عرض کیا لم ذالک کس وجہ سے؟ فرمایا نوح نے اپنی قوم کو خدا کی طرف دعوت دی تو ان لوگوں نے قبول نہیں کیا بلکہ ان بزرگوار کو بہت تکلیفیں پہنچائیں یہاں تک کہ انہوں نے بد دعا کی " رب لا تذر علی الارض من الکافرين ديارا ." ( یعنی پروردگارا روئے زمین میں کافروں مِیں سے کسی باشندے کو زندہ نہ چھوڑ) لیکن مجھ کو خاتم الانبیاء کے بعد امت نے باوجودیکہ اس قدر صدمات اور بے شمار اذیتیں پہنچائیں لیکن میں نے بد دعا نہیں کی بلکہ مکمل صبر اختیار کیا ( جیسا کہ خطبہ شقشقیہ کے ضمن میں فرمایا ہے "صبرت وفی العين قذی و فی الحلق شجی" ( یعنی میں نے صبر کیا در آنحالیکہ آنکھ میں تنکا اور حلق میں ہڈی تھی) کنایہ اس طرف ہے کہ خدا کی طرف سب سے زیادہ قریب وہ ہے جس کا صبر بلا پر سب سے زیادہ ہو۔

عرض کیا انت افضل ام ابراهیم آپ افضل ہیں یا ابراہیم ؟ فرمایا "انا افضل من ابراهیم " عرض کیا لم ذالک؟ ایسا کس لیے ہے؟ فرمایا ابراہیم نے عرض کیا :

" رَبّ ِأَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتى قالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قالَ بَلى وَلكِنْ لِيَطْمَئِنّ َقَلْبِي"

یعنی پروردگارا مجھ کو دکھا دے کہ تو کیوں کر مردوں کو زندہ کرے گا، خدا نے فرمایا کیا تم ایمان نہیں رکھتے عرض کیا ایمان تو رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ ( مشاہدہ کر کے) اطمینان قلب حاصل کروں۔

لیکن میرا ایمان اس منزل پر پہنچا ہوا ہے کہ میں نے کہا " لو کشف الغطا ما ازددت يقينا " یعنی یقینا اگر پردے ہٹا دے جائیں جب بھی میرے یقین میں زیادتی کی گنجائش نہیں۔ مقصد یہ کہ انسان کی رفعت اس کے یقین کے مطابق ہے یہاں تک کہ حق الیقین کی منزل پر پہنچ جائے عرض کیا انت افضل ام موسی آپ افضل ہیں یا موسی؟ قال انا افضل من موسی فرمایا میں موسی سے افضل ہوں عرض کیا۔ کس سبب سے ؟ فرمایا جس وقت خدا نے ان کو مامور کیا کہ مصر جا کر فرعون کو حق کی دعوت دیں تو انہوں نے عرض کیا :

"رَبِ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْساًفَأَخافُ أَنْ يَقْتُلُونِ* وَأَخِي هارُونُ هُوَأَفْصَحُ مِنِّي لِساناًفَأَرْسِلْهُ مَعِي رِدْءاًيُصَدِّقُنِي إِنِّي أَخافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ*"

یعنی خداوندا میں نے ان میں سے ایک شخص کو قتل کیا ہے لہذا ڈرتا ہوں کہ وہ مجھ کو قتل کردیں گے اور میرے بھائی ہارون چونکہ مجھ سے زیادہ خوش بیان ہیں لہذا ان کو میرا شریک کار بنا کر بھیج دے تاکہ وہ میری تصدیق کریں۔ مجھ کو خوف ہے کہ وہ لوگ میری رسالت کو جھٹلائیں گے۔

لیکن جب مجھ کو من جانب خدا رسول اکرم(ص) نے مامور کیا کہ مکہ معظمہ پہنچ کر خانہ کعبہ کی چھت سے سورہ برائت ک شروع کی آیتیں کفار قریش کے سامنے پڑھوں تو باوجودیکہ بہت کم ایسے لوگ تھے جن کے بھائی یا باپ یا چچا یا ماموں یا دوسرے عزیز و قریب میرے ہاتھ قتل نہ ہوچکے ہوں لیکن میں نے قطعا خوف نہیں کیا اور تعمیل حکم کرتے ہوئے تنہا جا کر اپنا فرض انجام دیا اور سورہ برائت ان کوسنا کر واپس آیا۔

اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ انسان کی فضیلت توکل علی اللہ سے ہے جس کا توکل سب سے زیادہ ہے اس کا مرتبہ بھی سب سے زیادہ ہے موسی(ع) نے اپنے بھائی پر بھروسا کیا لیکن امیرالمومنین علیہ السلام نے ذات الہی اور اس کے لطف و کرم پر

۲۹۲

کامل اعتماد رکھا۔

قال انت افضل ام عيسی عرض کیا آپ افضل ہیں یا عیسی ؟ قال انا افضل من عيسی فرمایا میں عیسی سے افضل ہوں۔ قال لم ذالک عرض کیا ایسا کیوں ہے؟ فرمایا جب مریم کے گریباں میں جبرئیل کے دم کرنے سے وہ بقدرت خدا حاملہ ہوگئیں اور وضع حمل کا وقت قریب آیا تو مریم کو وحی ہوئی کہ " اخرجی عن البيت فان هذهبيت العبادة لا بيت الولادة" بیت المقدس سے باہر چلی جائو کیونکہ یہ عبادت کا گھر ہے زچہ خانہ نہیں ہے چنانچہ وہ بیت المقدس سے نکل کر صحرا میں ایک خشک درخت خرما کے نیچے گئیں اور وہیں عیسی(ع) کی ولادت ہوئی۔

لیکن میں جس وقت مسجد الحرام کے اندر میری ماں فاطمہ بن اسد کو درد زہ عارض ہوا تو مستجار کعبہ سے متمسک ہو کر دعا کی خداوندا اس گھر اور اس گھر کے بنانے والے کا واسطہ اس درد کو مجھ پر آسان فرما۔ اس وقت دیوار خانہ کعبہ شگاف پیدا ہوا اور میری ماں فاطمہ کو غیب سے آواز آئی کہ یا فاطمہ ادخلی البیت ۔ ( یعنی اے فاطمہ خانہ کعبہ میں داخل ہو جائو) فاطمہ اندر گئیں اور وہیں میری ولادت ہوئی۔

مراد یہ ہے کہ شرافت انسانی کا پہلا درجہ حسب و نسب اور طہارت مولد ہے۔ جس کی روح ، نفس اور جسم پاکیزہ ہے وہ افضل ہے ( خانہ کعبہ میں داخل ہونے کے لیے فاطمہ کو حکم خدا ہونے اور مریم کو بیت المقدس میں وضع حمل سے منع کرنے سے نیز بیت المقدس پر مکہ معظمہ کی فضیلت کے پیش نظر مریم پر فاطمہ کی اور حضرت عیسی(ع) پر حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت ثابت ہوتی ہے۔)

علی (ع) تمام انبیاء کے آئینہ تھے

نماز کا وقت آگیا لہذا مولوی صاحبان اٹھ گئے۔ ادائے فریضہ اور چائے نوشی وغیرہ کے بعد میں نے سلسلہ کلام شروع کیا) جو کچھ عرض کرچکا اس کے علاوہ خود آپ کے علماء کی معتبر اور موثق کتابوں میں موجود ہے۔ کہ علی علیہ السلام کو تمام انبیاء کے صفات کا آئینہ اور اان کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۴۴۹ میں، حافظ ابوبکر فقیہ شافعی احمد بن الحسین بیہقی نے مناقب میں، امام احمد ابن حنبل ے مسند میں، امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں آیہ مباہلہ کے ذیل میں، محی الدین عربی نے کتاب یواقیت و جواہر کے مبحث نمبر۳۲ ص۱۷۳ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ شروع باب ۴۰ میں مسند احمد، صحیح بیہقی اور شرح المواقف والطریقہ المحمدیہ سے، نورالدین مالکی نے فصول المہمہ ص۱۲۱ میں بیہقی سے، محمد طلحہ شافعی نے مطال بالسئول ص۲۲ میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۲۳ میں الفااظ و عبارات کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ روایت کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

" مَنْ أَرَادَأَنْ يَنْظُرَإِلَى آدَمَ فِي عِلْمِهِ،وَإِلَى نُوحٍ فِي تَقْوَاهُ،(فی حکمته)وَإِلَى

۲۹۳

إِبْرَاهِيمَ فِي خلته(فی حِلْمِهِ)وَإِلَى مُوسَى فِي هَيْبَتِهِ،وَإِلَى عِيسَى فِي عِبَادَتِهِ: فَلْيَنْظُرْإِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِيطَالِبٍ."

یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ آدم کو ان کے علم میں و نوح کو ان کے تقوی یا حکمت میں، ابراہیم کو ان کی خلت یا حلم میں، موسی کو ان کی ہیبت میں اور عیسی کو ان کی عبادت میں دیکھے تو وہ علی ابن ابی طالب(ع) کو دیکھے۔

اور میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت ہشتم میں اس حدیث مبارک کو چند انسانوں کے ساتھ نقل کیا ہے ان کے آخر میں جابر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"فان فيه تسعين خصلة من خصال الانبياء جمعها الله فيه ولم يجمعها فی احد غيره. "

یعنی در حقیقت خدا نے علی(ع) کے اندر انبیاء کی نوے خصلتیں جمع کی ہیں جو دوسرے کو نہیں دیں۔

حدیث تشبیہ کے بارے میں گنجی شافعی کا بیان

شیخ فقیہ محدث شام صدر الفاظ محمد بن یوسف گنجی شافعی یہ حدیث نقل کرنے کے بعد بعنوان قلب ( میرا قول ہے) مزید بیان دیتے ہیں کہ آدم(ع) کے ساتھ ان کے علم میں علی کو تشبیہ اس وجہ سے دی گئی کہ خدا نے آدم کو ہر چیز کا علم اور صفت تعلیم کی تھی جیسا کہ سورہ بقر میں فرماتا ہے: " وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَكُلَّها " (یعنی خدا نے آدم کو سارے اسماء کی تعلیم دی۔ آیت نمبر۲۹ سورہ نمبر۴ ( بقرہ) اور اسی طرح کوئی چیز یا حادثہ و واقعہ ایسا نہیں ہے جس کا علم اور اس کے مقصد کا ادراک و استنباط علی(ع) کے پاس نہ ہو اسی علم الہی کا نتیجہ تھا کہ ھضرت آدم خلعت خلافت سے سر فراز ہوئے جیسا کہ آیت نمبر۲۸ سورہ نمبر۴ ( بقرہ) میں خبر دیتا ہے کہ " إِنِّي جاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً " ( یعنی میں زمین میں خلیفہ مقرکرنے والا ہوں) پس ہر باذوق انسان آں حضرت(ص) کی اس تشبیہ سے سمجھ سکتا ہے کہ جب یہ علم آدم افضلیت و برتری ، مسجودیت ملائکہ اور منصب خلافت کا سبب بنا تو علی(ع) بھی تمام مخلوقات سے افضل و برتر اور خاتم الانبیاء کے بعد عہدہ خلافت پر فائز ہیں۔

نوح کے ساتھ ان کی حکمت میں تشبیہ دینے سے گویا یہ مراد ہے کہ علی علیہ السلام کفار پر سخت اور مومنین پر مہربان تھے جیسا کہ خدا نے قرآن مجید میں ان کی تعریف فرمائی ہے کہ : " وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُعَلَى الْكُفَّارِرُحَماءُبَيْنَهُمْ "( یہ بات بھی ایک دلیل ہے اس بات پر کہ یہ آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے۔)کیونکہ نوح کفار کے لیے بہت سخت تھے چنانچہ قرآن مجید خبر دے رہا ہے " رب لا تذر علی الارض من الکافرين ديارا ."(یعنی نوح نے عرض کیا کہ خداوندا زمین پر کافروں میں سے کسی باشندے کو نہ چھوڑ) آیت نمبر۲۷ سورہ نمبر۷۱ ( نوح) اور ابراہیم کے ساتھ حلم میں علی(ع) کی تشبیہ دینے سے یہ مقصد ہے کہ قرآن میں ابراہیم علی نبینا و آلہ وعلیہ السلام کا اس صفت کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے " إِنَّإِبْراهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ " ( یعنی درحقیقت ابراہیم یقینا آہ و زاری کرنے

۲۹۴

والے برد بار تھے آیت نمبر۱۱۵ سورہ نمبر۹ (توبہ) یہ تشبیہات ثابت کرتی ہیں کہ علی علیہ السلام اخلاق انبیاء سے آراستہ اور صفات اصفیاء سے متصف تھے۔ انتہی۔

اب آپ حضرات اگر ذرا اںصاف سے غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس فریقین ( شیعہ و سنی) کی متفق علیہ حدیث شریف سے واضح ہوتا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام جملہ ممکن صفات عالیہ کے جامع ہیں جن میں سے ہر صفت انبیاء کی بہترین صفت کے برابر ہے لہذا قاعدے کے روسے ضروری ہے کہ ان سب صفات کے جامع ہونے کی حثیت سے آپ کے سارے انبیاء میں ہرایک سے افضل ہوں اور یہ حدیث ( باستثنائے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) انبیائے عظام پر علی علیہ السلام کی افضلیت کی دوسری دلیل ہے کیونکہ جب آپ ہر نبی کی مخصوص فضیلت و خصلت میں ان کے مساوی ہیں اور دوسروں کے فضائل و خصائل کے بھی حامل ہیں تو لازمی طور پر ہر ایک سے افضل ہوں گے۔ چنانچہ خود محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد اس مطلب کی وضاحت کی ہے اور صاف صاف کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اس حدیث سے علی علیہ السلام کے لیے آدم کا ایسا علم نوح کا ایسا تقوی ابراہیم کا ایسا حلم موسی کی ایسی ہیبت اور عیسی کی ایسی عبادت ثابت فرمائی ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں " و تعلوا هذه الصفات الی اوج العلی حيث شبهها بهولا والانبياء المرسلين من الصفات المذکوره" یعنی یہ اوصاف حمیدہ علی علیہ السلام کو انتہائی بلندی پر فائز کرتے ہیں اس لیے کہ پیغمبر(ص) نے آپ کو صفات مذکورہ میں انبیائے مرسلین سے تشبیہ دی ہے، کیا آپ آمت مرحومہ کے صحابہ و تابعین وغیرہ میں امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کوئی ایسی فرد دکھا سکتے ہیں جو انبیاء عظام کے تمام صفات حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ کی حامل ہو اور آپ کے سر برآوردہ علماء اس کے اس مرتبے کو تسلیم بھی کرتے ہوں؟

چنانچہ شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب ۴۰ میں مناقب خوارزمی سے بسلسلہ محمد بن منصور نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے امام احمد ابن حنبل کو کہتے ہوئے سنا کہ " ماجاءلاحدمن الصحابةمنالفضائلمثل ماجاءلعليبنأبيطالب" (یعنی جیسی فضیلتیں علی ابن ابی طالب(ع) کے لیے ہیں ویسی ایک بھی اصحاب میں سے کسی کے لیے نہیں آئی ہے) اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۳ میں بسند محمد منصور طوسی امام احمد سے اس طرح نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا " ماجاءلاحدمن اصحاب رسول اللَّه منالفضائلماجاءلعلىّ (عليهالسلام)"

یعنی اصحاب رسول(ص) میں سے کسی کے لیے وہ چیز وارد نہیں ہوئی ہے جو علی ابن ابی طالب(ع) کے لیے آئی ہے۔

فضیلت امیرالمومنین(ع) کا قول صرف امام احمد ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کے اکثر اںصاف پسند علماء نے ؟؟؟ چیز کی تصدیق کی ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۴۶ میں کہتے ہین کہ :

"إنّه عليه السّلام كان أولى بالأمروأحقّ لاعلى وجه النّصّ بل على وجه الأفضليّة،فانّه أفضل البشربعدرسول اللّه صلّى اللّه عليه وآله وأحقّ بالخلافةمن جميع المسلمين"

یعنی علی علیہ السلام امر میں اولی اور احق تھے نص کی جہت سے نہیں بلکہ افضلیت کی وجہ سے اس لیے کہ وہ رسول خدا(ص) ک بعد تمام انسانوں سے افضل اور سارے مسلمانوں سے زیادہ خلافت کے حقدار تھے۔

۲۹۵

آپ کو پروردگار عالم کی بزرگ ذات کی قسم ذرا اںصاف کی نظر سے دیکھئے ، آیا یہ بے انصافی نہیں ہے کہ محض عادت کی بنا پر اور اپنے اسلاف کی تقلید کرتے ہوئے بغیر غور و فکر اور دلیل و برہان کے ایسی بزرگ شخصیت کے مقابلے میں ان لوگوں کو مقدم کردیا جائے جو ان صفات سے محروم تھے۔

آیا صاحبان عقل و دانش پچھلے لوگوں کے فہم و شعور کا مذاق نہ اڑائیں گے کہ انہوں نے سیاست اور گروہ بندی کی بنا پر امت کے افضل انسان کو خانہ نشینی پر مجبور کیا اور ہر حیثیت سے مفضول ( کم رتبہ) شخص کو مسند خلافت پر بٹھا دیا اور کم سے کم اتنا بھی نہ کیا کہ سقیفہ کے اندر خلافت جیسے امر عظیم میں مشورہ کرنے کے لیے ان بزرگوار کو بھی خبر کر دیتے ۔ تاکہ یہ ذات بالکل ہی نظر انداز ہوجائے۔

حافظ : بے انصاف ہم ہیں یا جناب عالی؟ جو یہ فرمارہے ہیں کہ اصحاب رسول (ص) نے بغیر دلیل و برہان کے دوسروں کو مقدم قرار دیا اور خلافت غصب کر لی۔ واقعی آپ نے ہم سب کو بے عقل و نادان اور بے سر و پا مقلد فرض کر لیا ہے ۔ کون سی دلیل اجماع کی دلیل سے بالاتر ہوگی جب کہ تمام صحابہ و امت نے حتی کہ مولان علی کرم اللہ وجہہ نے بھی اجماع کر کے ابوبکر کی خلافت قائم کی اور اس پر راضی ہوئے؟

مخالفین کا قول کہ اجماع برحق ہے

بدیہی چیز ہے کہ امت کا اجماع حجت اور اس کی اطاعت واجب ہے کیونکہ رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے :

"لاتجتمع أمتي على الخطإلاتجتمع أمّتي على الضلالة." ( یعنی میری امت خطا پر یا میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوتی) چنانچہ ہم نے اپنے اسلاف کی اندھی تقلید نہیں کی ہے بلکہ جب وفات پیغمبر(ص) کے بعد پہلے ہی روز تمام امت نے اجماع کر کے خلافت ابوبکر کا فیصلہ کر دیا اور ایک طے شدہ امر ہمارے سامنے آیا تو عقلا ہم کو صرف پیروی کرنا چاہئیے ۔

خیر طلب : سچ بتائیے رسول اکرم(ص) ک بعد حقانیت خلافت کی کیا دلیل ہے؟ یعنی خلافت کس دلیل سے ثابت ہوتی ہے؟

حافظ : ظاہر ہے کہ رسول خدا (ص) کے بعد وجود خلیفہ کے اثبات پر سب سے بڑی دلیل تمام امت کا اجماع ہے اس کے علاوہ جس دلیل کے سامنے ہر صاحب عقل و دانش کو گھٹنے ٹیکنا پڑتے ہیں وہ عمر کی زیادتی اور بڑھاپا ہے جس نے ابوبکر و عمر کو تقدم کا حق دیا اور علی کرم اللہ وجہہ باوجود انتہائی فضل و کمال اور قرابت رسول(ص) کے جس کو ساری امت مانتی ہے

۲۹۶

کم سنی اور جوانی کی وجہ سے پچھے رہ گئے اور از روئے اںصاف ایک نو عمر جوان کو بزرگ صحابہ سے آگے بڑھںے کا حق بھی نہیں تھا۔

خلافت کی حیثیت سے علی کرم اللہ وجہہ کے اس پیچھے رہ جانے کو ہم نقض نہیں سمجھتے کیونکہ ان جناب کی افضلیت سب کے نزدیک ثابت ہے۔ نیز خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ جو حدیث نقل کی ہے کہ فرمایا :

"لَايَجْتَمِعُ النُّبُوَّةُوَالْمُلْكُ فِي أَهْلِبَيْتٍ وَاحِدٍ" ( یعنی نبوت او سلطنت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی۔) اس نے بھی علی کرم اللہ وجہہ کو منصب خلافت سے بر طرف کردیا۔ چونکہ علی اہل بیت رسول(ص) میں سے تھے لہذا خلافت کا عہدہ پا ہی نہیں سکتے تھے۔

خیر طلب : جب آپ کے ایسے ذی علم اور ہوشمند انسانوں سے اس قسم کی دلیلیں سننے میں آتی ہیں تو سخت حیرت اور تعجب ہوتا ہے کہ آپ لوگ اپنی عادت کے کس قدر پابند ہوچکے ہیں کہ بغیر سوچے سمجھے آںکھ بند کر کے حق کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور ایسی دلیلیں بیان کرتے ہیں جن پر پسر مردہ عورتیں بھی ہنس پڑیں۔ اگر آپ تھوڑا سا بھی غور کر لیں تو سمجھ میں آجائے کہ اس طرح کے دلائل بالکل مہمل اور تنکنے کا سہارا ہیں۔ لیکن افسوس تو اس کا ہے کہ آپ حضرات ایک لمحے کے لیے بھی اس پر تیار نہیں ہوتے کہ ذرا تعصب اور سنیت کی عینک اتار کے اپنے بے سرو پا دلائل کے مقابل شیعہ علماء کی دلیلیں پر اںصاف اور غور و فکر کی نظر ڈالیں۔

صرف آپ کے عوام ہی ان دلائل سے ناواقف نہیں ہیں بلکہ جہاں جہاں میں نے آپ کے علماء سے گفتگو کی ، ان کو بھی شیعوں کے دلائل و براہین سے بے خبر اور تعصب میں غرق پایا۔ یہ سب محض اس وجہ سے ہے کہ اکابر متکلمین و محدثین اور علمائے شیعہ کی معتبر کابیں آپ کے کتب خانوں میں مطالعے کے لیے رکھی ہی نہیں جاتیں بلکہ ان کو کتب ضلال کہہ کے ایک دوسرے کو ان کے مطالعے سے منع کیا جا تا ہے۔

میں نے خود بصرہ ، بغداد ، شام، بیروت اور حلب وغیرہ بلاد اہل سنت کے بازارون میں کتب فروشوں سے علمائے شیعہ کی معتبر کتابوں میں سے ایک ایک کا نام پوچھا لیکن انہوں نے یہی کہا کہ ہم کو معلوم نہیں ۔ بلکہ وہ خا ص خاص کتابیں بھی جو علمائے اہل سنت نے اہل بیت طہارت اور عترت رسول(ص) کی تعریف اور منزل ولایت کے اثبات میں لکھی ہیں اور شائع بھی ہوچکی ہیں دو کانوں میں نہیں بگاتے۔

اگر آپ حضرات کبھی اتفاقیہ طور پر شیعوں کی کوئِ کتاب دیکھ بھی لیتے ہیں تو چونکہ کینے اور عداوت کی نظر سے دیکھتے ہیں لہذا اس قدر برانگیختہ اور مشتعل ہوجاتے ہیں کہ اںصاف اور علم و منطق کے ترازو پر اس کو تولنا ہی نہیں چاہتے جس سے انکشاف حقیقت ہو کر صحیح نتیجہ برآمد ہو لیکن اس کے برعکس ہماری شیعہ جماعت کی طرف سے آپ کے علماء کی کتابیں نشر کرنے میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ بلکہ انہوں ن جو معتبر کتابیں حدیث ، تفسیر ، یا ادب میں سپرد قلم کی ہیں وہ شیعوں کے بازار میں فروخت کے لیے موجود رہتی ہیں اور مکانوں یا ذاتی اور عمومی کتب خانوں میں ان کے مطالعے سے

۲۹۷

نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔

اب میں اپنی اہم ذمہ داری کے خیال سے مجبور ہوں کہ آپ حضرات کو متوجہ کرنے کے لیے وقت کے لحاظ سے مختصر جواب عرض کروں تاکہ آپ کو یہ غلط فہمی نہ رہ جائے کہ واقعی آپ کی دلیلیں مضبوط اور ناقابل تردید ہیں۔

اجماع کے رد میں دلائل

پہلے آپ نے حدیث پیش کر کے فرمایا ہے کہ امت کا جماع حجت اور مضبوط دلیل ہے۔

یقینا آپ بہتر جانتے ہیں کہ یائے متکلم کے ساتھ امت کا لفظ عموم کا فائدہ دیتا ہے ۔ پس حدیث کے معنی ( اگر صحیح فرض کر لی جائے) یہ ہوتے ہیں کہ میری تمام امت خطا اور گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔ یعنی جس وقت پیغمبر (ص) کی ساری امت کسی امر پر متفق ہو جائے تو ہو غلط نہین ہوتا ہم بھی اس مطلب کو قبول کرتے ہیں کہ بغیر کسی ایک فرد کو مستثنی کئے ہوئے تمام امت کا اجتماع صحیح نتیجہ پیدا کرے گا، اس لیے کہ خدا نے اس امت کے خصوصیات میں سے قرار دیا ہے کہ ہمیشہ اس کے اندر کچھ ایسےافراد موجود رہیں گے جن کے ساتھ حق ہوگا اور وہ حق کے ساتھ ہوں گے یعنی حتمی طور پر حجت خدا اور الہی نمائندہ موجود رہے گا، اور ساری امت کے مجتمع ہو جانے کی صورت میں وہ اہل حق اور حجت خدا بھی اس کے درمیان ہوگا جو امت کو غلط کاری اور گمراہی سے منع کرے گا۔اگر آپ سنجیدگی کےساتھ غور کیجئے تو ثابت ہوگا کہ یہ حدیث ( بہ فرض صحت) ہرگز اس بات کا ثبوت نہیں دیتی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تعین خلافت کے حق سے ( خود دستبردار ہو کر) امت کو سرفراز کردیا تھا۔

اگر آُ کا یہ قول اور عقیدہ صحیح ہو کہ صاحب دین کامل پیغمبر(ص) " لاتجتمع أمتي على الخطإلاتجتمع أمّتي على الضلالة. " فرما کر تعیین خلافت کا حق اپنے سے الگ کر کے امت کے قبضے میں دیدیا تھا ( حالانکہ قطعا اس کی کوئی دلیل نہیں ہے) تو یقینا یہ پوری امت کا حق ہے یعنی چونکہ جملہ مسلمان امر خلافت سے فائدہ اٹھاتے ہِں لہذا خلافت کی رائے اور مشورے میں بھی سب کو دخل ہونا چاہئیے اور وفات رسول (ص) کے بعد کل امت کا جمع ہونا ضروری تھا تاکہ مشورہ کر کے سب کے رائے سے ایک کامل فرد کو خلیفہ مقرر کردیا جاتا۔

اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آیا وفات رسول(ص) کےبعد ان چند دنوں میں ایک سقیفہ نام کے چھوٹے سے چھتے کے اندر جس وقت خلافت ابوبکر کی آواز اٹھی تو ایسا اجماع جس میں تمام مسلمانوں نے متفقہ رائے دی ہو واقع ہوا تھا یا نہیں؟

حافظ : آپ تو ایک انوکھی بات کہہ رہے ہیں۔ دو سال سے کچھ زائدہ مدت کے اندر جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ

۲۹۸

مسئلہ خلافت پر بر قرار رہے عام طور پر مسلمانوں نے ان کی اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار کیا اور یہی اجماع کے منعی ہیں جو حقانیت کی دلیل ہے۔

خیر طلب : در اصل آپ نے جواب میں مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے، میرا سوال خلافت ابوبکر کے پورے دور کے متعلق نہیں تھا بلکہ میں نے عرض کیا تھا کہ سقیفہ (۱) بنی ساعدہ میں خلافت ابوبکر کی رائے دینے کے وقت امت کا با قاعدہ اجماع ہوا تھا یا فقط چند اشخاص نے جو ایک چھوٹا سا گروہ بنائے ہوئے تھے اس چھوٹے سے چھتے کے اندر رائے دے کر بیعت کر لی۔

حافظ : یہ تو بدہی بات ہے کہ وہ کبار صحابہ میں سے چند نفر تھے لیکن بعد کو رفتہ رفتہ اجماع واقع ہوگیا۔

خیرطلب : میں بہت ممنون ہوں کہ آپ نے بات کو گھمایا نہیں اور حقیقت بیان کر دی۔ خدا کے لیے انصاف کیجئے کیا رسول خدا(ص) نے جو اس کے لیے اولی اور احق تھے کہ امت کے سامنے صراط مستقیم اور راہ راست کو واضح کریں اس عظیم ذمہ داری کو اپنی گردن سے اتار کر امت کے سر ڈال دیا کہ صرف چند افراد سیاسی گوئیں چلیں اور ان

میں سے ایک دوسرے کی بیعت کرے نیز تھوڑے سے ساتھی باراتی بھی بیعت کر لیں اور قبیلہ اوس دالے اس عداوت کی بنا پر جو وہ ہمیشہ سے قبیلہ خزرج کےساتھ رکھتے تھے اور اس خوف کی وجہ سے بیعت کر لیں کہ ایسا نہ ہو وہ لوگ پیش قدمی کر جائیں (اور سعد بن عبادہ امیر بن جائیں) بعدک رفتہ رفتہ لوگ خوف یا لالچ میں فرمانبردار بنیں اورایک حکومت ہو جائے تاکہ آج کی رات جناب عالی ان چند اشخاص کا نام اجماع رکھ دیں؟ آیا بلاد مکہ، یمن، جدہ، طائف، حبشہ اور دوسرے شہروں اور دیہات میں پھیلے ہوئے باقی مسلمان امت مرحومہ میں نہ تھے اور خلافت کے معاملے میں ان کو رائے دینے کا حق نہ تھا ؟ اگر کوئی سازش نہیں کی گئی تھی، پہلے سے کچھ قرار دادیں اور سیاسی چالیں پیش نظر نہ تھیں اور آپ کی یہ دلیل سچ تھی تو اتنا صبر کیوں نہیں کیا کہ خلافت جیسے اہم کام میں سارے مسلمانوں کا نقطہ نظر معلوم کر لیا جائے تاکہ تمام امت کا حقیقی اجماع صادق آجائے اور اس میں کسی غلطی یا گمراہی کی گنجائش نہ رہ جائے؟

چنانچہ دنیا کی ساری ترقی یافتہ قوموں کا دستور ہے کہ جمہوری حکومت قائم کرنے یا اپنا قائد چننے کے لیے عام اعلان کیا جاتا ہے اور پوری قوم کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اکثریت کی تجویز پر عملدر آمد ہوتا ہے۔ تاریخ عالم کو چھان ڈالئے ایسی بے بنیاد تشکیل اور ایسے رئیس کا تقرر تھوڑے سے لوگوں کے ہاتھوں کا کرشمہ ہو ڈھونڈھے نہ ملے گا۔ بلکہ متمدن فرمانبردار اور صاحبان عقل و ہوش اس عمل کی ہنسی اڑاتے ہیں۔ پھر تعجب بالائے تعجب یہ کہ ایک چھوٹے سے چھتے کے اندر ایسے مختصر سے مجمع کا نام اجماع رکھا جائے اور متعصب لوگ ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد اب بھی اس بے محل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ سقیفہ انصار کے قبیلہ بنی ساعدہ کا ایک چھتہ تھا جس میں وہ لوگ مخصوس موقعوں پر صلاح و مشورہ کیا کرتے تھے۔

۲۹۹

لفظ اور بے سرو پا عمل پر خواہ مخواہ اڑے رہیں اور کہیں کہ امت کا اجماع حقانیت خلافت کی دلیل ہے یعنی کچھ آدمیوں کی مٹھی بھر جماعت نے ایک گوشے میں اکٹھا ہو کر پوری ملت اور امت کے سیاہ و سفید کا اختیار ایک شخص کے ہاتھ میں دیدیا لہذا یہ برحق ہے اور لامحالہ اس کی اطاعت میں سر جھکانا ہی چاہئیے۔

حافظ : آپ کیوں بے لطفی کی بات کرتے ہیں۔ اجماع سے مراد صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ کا اجماع تھا جو سقیفے کے اندر واقع ہوا۔

خیر طلب : آپ کا یہ فرمانا کہ اجماع سے مراد صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ کا اجماع تھا محض زبردستی اور بغیر دلیل کی منطق ہے اس لیے کہ آپ کے پاس سوا اس حدیث کے اور کچھ نہیں ہے فرمائیے جس حدیث پر آپ کا سارا دار و مدار ہے اس میں صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ کی بات کہاں سے نکلتی ہے ؟ آپ اپنی منشاء کے مطابق حدیث کے ایسے معنی کرتے ہیں کہ عقلمند اور اہل علم حیران رہ جاتے ہیں۔

حالانکہ میں عرض کرچکا ہوں کہ امتی میں یائے نسبت عمومیت کا پتہ دیتی ہے نہ کہ چند نفر صحابہ کا چاہے وہ عاقل و فاضل ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیا جائے کہ آپ کا فرمانا ( کہ عقلا ، کبار اصحاب کا اجماع مراد ہے) درست ہے تو کیا صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ صرف وہی گنے چنے افراد تھے جنہوں نے سقیفہ کے مختصر سے چھتے میں ابوبکر و عمر اور ابو عبیدہ جراح ( گورکن) کی پیشوائی کے لیے رائے دی اور بیعت کی۔

آیا مسلمانوں کے دوسرے شہروں میں صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ نہیں رہتے تھے؟ آیا قوم کے سارے عقلمند اور کبار اصحاب وفات رسول (ص) کے وقت مدینے کے اندر اور وہ بھی ایک چھوٹے سے چھتے میں جمع تھے اور سب نے مل کر اس امر پر اجماع کیا تھا تاکہ آج کی شب وہ آپ کے لیے دلیل بنے؟

حافظ : چونکہ خلافت کا معاملہ اہم تھا اور ممکن تھا کہ کوئی فتنہ اٹھ کھڑا ہو لہذا اس کا موقع نہیں تھا کہ دیگر مقامات کے مسلمانوں کو اطلاع کی جائے۔ چنانچہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے جس وقت یہ سنا کہ کچھ انصار وہاں جمع ہیں تو فورا خود بھی پہنچے اور بات چیت کی۔ عمر چونکہ ایک سیاست دان انسان تھے لہذا انہوں نے امت کی بھلائی اسی میں دیکھی کہ ابوبکر کی بیعت کر لیں۔ چند اور اشخاص نے بھی ان کی پیروی میں بیعت کی لیکن انصار کی ایک جماعت اور قبیلہ خزرج نے سعد بن عبادہ کا ساتھ دیتے ہوئے بیعت نہیں کی اور سقیفے سے چلے گئے۔ یہ تھا جلدی کرنے کا سبب۔

خیر طلب : تو جیسا کہ آپ کے سارے مورخین اور اکابر علماء تصدیق کر چکے ہیں آپ نے بھی تصدیق کردی ہے کہ سقیفے کی بنیادی کاروائی میں کوئی اجماع واقع نہیں ہوا۔ ابوبکر نے سیاسی مصلحت سے عمر اور ابوعبیدہ جراح کو پیش کیا، اور ان لوگوں نے بھی پیش کش کو پلٹتے ہوئے کہا کہ آپ سب سے زیادہ لائق اور اولی ہیں، از روئے سیاست فورا بیعت کر لی اور قبیلہ اوس کے کچھ لوگوں نے بھی جو وہاں موجود تھے خزرج والوں سے اپنی سابقہ عداوت کے

۳۰۰

پیش نظر بیعت کرلی تاکہ ایسا نہ ہو یہ لوگ آگے بڑھ جائیں اور سعد بن عبادہ امیر ہوجائیں۔ یہاں تک کہ اس میں بعد کو رفتہ رفتہ توسیع ہوتی گئی حالانکہ اجماع کیدلیل اگرمضبوط چیز تھی تو، اتنا توقف کرنا چاہئیے تھا کہ ساری امت ( یا بقول آپ کے عقلمند گروہ) جمع ہوجائے اور مجمع عام کے اندر استصواب رائے کر لیا جائے تاکہ صحیح طور پر اجماع صادق آجائے۔

حافظ : میں نے عرض کیا کہ فتنے اٹھ رہے تھے۔ اوس و خزرج دو قبیلے سقیفے میں جمع تھے اور آپس میں نزاع کر رہے تھے۔ ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ مسلمانوں کی امارت و حکومت کا تقرر اپنی طرف سے کرے بدیہی بات ہے، کہ ایک ادنی سی غفلت بھی انصار کے حق میں مفید ثابت ہوتی اور مہاجرین کا کوئی قابو نہ رہتا، اسی وجہ سے مجبور تھے کہ کام میں جلدی کریں۔

خیر طلب : ہم بھی چشم پوشی کرتے ہوئے آپ کی بات تسلیم کئے لیتے ہیں اور آپ ہی کے قول سے سند لیتے ہیں نیز جیسا کہ آپ کے مورخین مثلا محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ جلد دوم ص457 میں اور دوسروں نے لکھا ہے کہ مسلمان سقیفے میں امر خلافت پر رائے زنی کرنے جمع نہیں ہوئے تھے بلکہ اوس خزرج ک دو قبیلے چاہتے تھے کہ اپنے لیے امیر معین کریں۔ ابوبکر و عمر نے بھی اپنے کو ، اس صف آرائی میں پہنچا یا اور اس اختلاف سے خود فائدہ اٹھا لیا۔ اگر واقعی امر خلافت میں صلاح و مشورہ کرنے اکٹھا ہوئے ہوتے تو پہلے جملہ مسلمانوں کو ضرور خبر دیتے کہ رائے دینے کے لیے حاضر ہوں۔

بازیگروں سے اسامہ کی گفتگو

چنانچہ جیسا آپ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو خبر دینے کا موقع نہیں تھا اور وقت گزرا جارہا تھا۔ ہم بھی آپ کے ہم آواز ہوکر کہتے کہ مکہ، یمن، طائف اور دوسری مسلمان آبادیوں تک دسترس نہیں تھا مگر کیا اسامہ بن زید کے لشکر تک بھی رسائی ممکن نہ تھی جو مدینے کے باہر ہی پڑائو ڈالے ہوئے تھا کہ ان بزرگ اصحاب کو بلا کر مشورہ لے لیتے جو اس فوج میں شامل تھے اور جن میں سے ایک نمایاں فرد مسلمانوں کے امیر لشکر اسامہ بن زید بھی تھے جن کو خود رسول اللہ(ص) نے افسری عطا فرمائی تھی اور ابوبکر و عمر بھی ان کے ماتحت تھےجس وقت اسامہ نے سنا کہ ایک سازش کے ذریعے تین آدمیوں کے ہاتھ خلیفہ سازی ہوئی ہے اور ان لوگوں نے بغیر کسی مشورے اور اطلاع کے ایک شخص کی بیعت کر لیے ہے تو سوار ہو کر مسجد رسول(ص) میں آئے اور بقول تمام مورخین کے ایک نعرہ مارا کہ تم لوگوں نے یہ کیا ہنگامہ برپا کر رکھا ہے؟ کس کی اجازت سے خلیفہ گھڑ لیا ہے؟ تم چند نفر کیا حیثیت رکھتے تھے کہ مسلمانوں اور بزرگان صحابہ کے مشورے اور اجماع سے خلیفہ مقرر کر لیا؟ عمر نے لیپ پوت کرتے ہوئے کہا اسامہ کام ختم ہوچکا اور بیعت واقع ہوچکی ، اب پھوٹ نہ پیدا کرو بلکہ تم بھی بیعت کر لو۔ اسامہ کو تائو آگیا،

۳۰۱

انہوں نے کہا کہ پیغمبر(ص) نے مجھ کو تمہارا سردار بنایا تھا اور امارت سے معزول بھی نہیں کیا تھا۔ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ تم لوگوں پر رسول خدا(ص) کا منتخب فرمایا ہوا امیر اپنے ہاتحتوں اور محکوموں کی بیعت کرے۔ اس کے علاوہ اور بہت کچھ بات چیت ہوئی لیکن نمونتہ اسی قدر کافی ہے۔ اگر آپ کہئے کہ اسامہ کا لشکر بھی شہر سے کچھ فاصلے پر تھا اور وقت نکلا جا رہا تھا تو حضرات کیا سقیفے سے مسجد اور خانہ پیغمبر(ص) بھی بہت دور تھا؟ آخر علی علیہ السلام کو جو باتفاق فریقین مسلمانوں کے اندر ایک بڑی شخصیت کے مالک تھے، عم رسول(ص) عباس کو تمام بن ہاشم اور عترت پیغمبر(ص) کو جن کے لیے آں حضرت(ص) نے وصیتیں فرمائی تھیں اور جو عدیل قرآن تھے اور کبار صحابہ کو جو وہاں موجود تھے کیوں مطلع نہیں کیا تاکہ ان کی رائے سے فائدہ اٹھایا جائے؟

حافظ : میرا خیال ہے کہ صورت حال ایسی خطرناک تھی کی غفلت اور سقیفہ سے باہر آنے کا موقع نہیں تھا۔

خیر طلب : آپ زیادتی کر رہے ہیں، موقع تھا لیکن انہوں نے جان بوجھ کر علی علیہ السلام ، بنی ہاشم اور کبار صحابہ کو جو خانہ رسول(ص) میں جمع تھے اطلاع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

حافظ : ان کے عمدا ایسا کرنے پر آپ کی دلیل کیا ہے؟

خیر طلب : سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خلیفہ عمر رسول اللہ(ص) کے دروازے تک آئے تھے لیکن اندر داخل نہیں ہوئے تاکہ اس گھر میں مجتمع علی علیہ السلام ، بنی ہاشم اور اصحاب کبار کوخبر نہ ہونے پائے۔

حافظ : یہ بات تو قطعا رافضیوں کی گھڑی ہوئی ہے۔

خیر طلب: پھر آپ نے بے لطفی کی بات کی۔ یہ بات کسی کا گھڑی ہوئی نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ اسے تیسری صدی کے بڑے عالم محمد بن جریرطبری کی مشہور تاریخ جلد دوم ص256 کا مطالعہ فرمائیے۔

وہ لکھتے ہیں کہ عمر خانہ رسول (ص) کے در تک آئے لیکن اندر نہیں گئے بلکہ ابوبکر کو پیغام بھیجا کہ جلدی آئو بہت ضروری کام ہے ۔ ابوبکر نے جواب دیا کہ اس وقت مجھ کو فرصت نہیں ہے۔ انہوں نے پھر کہلایا کہ ایک خاص کام در پیش ہے جس میں تمہاری موجودگی ضروری ہے۔ ابوبکر باہر آئے تو خفیہ طور سے ان کو سقیفے میں اںصار کے جمع ہونے کا معاملہ بتایا اور کہاکہ ہم کو فورا وہاں پہنچ جانا چایئے ۔ یہ دونوں چلے او راستے میں ابو عبیدہ ( گور رکن) کو بھی ساتھ لے لیا۔ تاکہ تین آدمی مل کر اجماع امت کی تشکیل کریں اور آج آپ اسی کا سہارا لیں خدا کے لیے انصاف کیجئے کہ اگر کوئی سازش اور قرار واد کام نہیں کر رہی تھی تو عمر خانہ پیغمبر (ص) تک جارکر اندر کیوں نہیں گئے تاکہ صورت واقعہ کو تمام بنی ہاشم اور کبار صحابہ کے گوش کر کے سب سے مدد طلب کریں؟ کیا ساری امت رسول(ص) امت میں صرف ایک ابوبکر ہی عقل کلی رہ گئے تھے اور دوسرے صحابہ اور عترت رسول سب بیگانہ تھے جن کو اس حادثے کی خبر ہی نہ ہونا چاہتے تھا۔

چشم باز و گوش بازو این عمیحیر تم از چشم بندی خدا

آیا آپ کا یہ خود ساختہ اجماع جیسا کہ آپ کے تمام مورخین نے لکھا ہے فقط تین آدمیوں ( ابوبکر و عمر

۳۰۲

اور ابوعبیدہ جراح ( گورکن) کے ہاتھوں پر قائم ہوگیا؟ آیا دنیا کے کس خطے میں عقیدہ قابل قبول ہے کہ اگر تین شخص یا کوئی جتھہ کسی شہر یا دار السلطنت میں اکٹھا ہو اور فرض کیا جائے کہ اس شہر کے باشندے کسی شخص کی ریاست و حکومت یا خلافت پر اجماع بھی کرلیں تو دوسرے مقامات کے صاحبان عقل و علم اور دانش مندوں پر ان کی پیروی واجب ہوجائے؟ یا ایسے چند عقلمندوں کی رائے جن کو دوسروں نے منتخب نہ کیا ہو باقی عقلندوں کے لیے واجب العمل بن جائے؟ آیا یہ جائز ہے کہ ایک گروہ کی ہنگامہ سازی اور دھمکی کے مقابلے میں پوری قوم کے خیالات کا گلا گھونٹ دیا جائے؟ حضرات انصاف کیجئے ! اگر ایک جماعت والے حق بات کہنا چاہیں اور علمی مباحثوں او عملی تنقیدوں کی روشنی میں بتایں کہ یہ خود ساختہ خلافت و اجماع کسی دینی یا دنیاوی قانوں کے مطابق صحیح نہیں ے تو ان کو رافضی، مشرک اور نجس کہا جائے، ان کا قتل واجب سمجھا جائے اور کوئی ایسی تہمت باقی ن رہے جو ان پر تھوپ دی جائے؟

آپ کہتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے خلافت کا معاملہ امت پر ( یا بقول آپ کے عقلائے امت پر) چھوڑ دیا۔ خدا کے لیے انصاف سے کہئے گا کہ امت اور عقلائے امت کیا فقط تین ہی آدمی تھے ابوبکر وعمر اور ابو عبیدہ جراح( گورکن) جنہوں نے آپس می سمجھوتہ کر کے دونے ایک کو مان لیا تو سارے مسلمانوں پر فرض ہوگیا کہ انہیں کے راستے پر چلیں؟ اور اگر کچھ لوگ یہ کہہ دیں کہ یہ تینوں اشخاص بھی باقی امت اور صحابہ کے مانند تھے لہذا سارے اصحاب سے صلاح و مشورہ کیوں نہیں کیا؟ تو وہ کافر، مردود اور گردن زدنی قرار پائیں؟

باتفاق فریقین اجماع کا واقع نہ ہونا

حضرات اگر آپ تعصب کا جامہ اتار کر تھوڑا غور کیجئے تو بخوبی واضح ہوجائے گا کہ اقلیت واکثریت اور اجماع کے درمیان بڑا فرق ہے۔ اگر کسی خاص مقصد کےلیے بزم مشاورت منعقد کی جائے تو تھوڑے لوگ کوئی رائے دیں تو کہا جائے گا کہ جلسے کی اقلیت نے یہ رائے دی، اگر زیادہ مجمع رائے دے تو اکثریت کی رائے کہی جائے گی اور اگر سب کے سب باتفاق رائے کوئی بات کہیں تو کہا جائے گا کہ اجماع واقع ہوا یعنی ایک فرد بھی مخالف نہیں تھی۔ اب برائے خدا یہ بتائیے کہ کیا سقیفہ میں اور اس کے بعد مسجد میں پھر شہر مدینہ میں لوگوں نے خلافت ابوبکر کے لیے ایسی اجماعی رائے دی اگر آپ کے حسب خواہش ہم جبرا ساری امت سے حق رائے دہندگی چھین لیں اور آپ کی آواز میں آواز ملاکر کہنے لگیں کہ اجماع سے صرف مرکز اسلامی یعنی مدینہ منورہ کے عقلاء اورکبار صحابہ ہی کو مراد لینا کافی ہے تب بھی آپ کو خدا کی قسم سچ بتائیے کہ آیا ایسا اجماع واقع ہوا جس میں مدینے کے تمام عقلاء کبار صحابہ بالاتفاق خلافت ابوبکر کے لیے رائے دی ہو؟ آیا اس تھوڑی سی جماعت نے بھی متفقہ رائے دی تھی جو سقیفے میں حاضر تھی ؟ قطعا

۳۰۳

جواب نفی میں ہوگا۔ چنانچہ صاحب مواقف نے خود اعتراف کیا ہے کہ خلافت ابوبکر میں کوئی اجماع واقع نہیں ہوا یہاں تک کہ خود مدینے کے اندر اور اہل حل و عقد میں بھی، اس لیے کہ سعد بن عبادہ انصاری ان کی اولاد، خاص خاص صحابہ، تمام بنی ہاشم ، ان کے دوست اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام چھ ماہ تک مخالفت کرتے رہے اور بیعت نہیں کی۔

در اصل جب ہم حق و انصاف کے روسے تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ خود مدینہ منورہ میں بھی جو نبوت اور حکومت اسلامی کا مرکز تھا ایسا اجماع واقع نہیں ہوا جس میں وہاں پر موجود صاحبان عقل اور صحابہ نے خلافت ابوبکر کی متحدہ تائید کی ہو۔

چنانچہ خود آپ کے اکثر ثقہ راویوں اور بڑے بڑے مورخون نے جیسے امام فخر الدین رازی ، جلال الدین سیوطی، ابن ابی الحدید معتزلی، طبری، بخاری اور مسلم وغیرہ نے مختلف عبارتوں کے ساتھ بتایا ہے اور نقل کیا ہے کہ خود مدینے میں پورا اجماع منعقد نہیں ہوا۔

علاوہ اس کے کہ تمام بنی ہاشم و رسول اللہ(ص) کے اہل بیت(ع) جو عدیل قرآن تھے اور دوسرے اہل خاندان جن کی رائے اچھی خاصی اہمیت رکھتی تھی اور بنی امیہ بلکہ عام اصحاب بھی سوا تین نفر کے سقیفہ میں خلافت پر رائے دینے کے لیے حاضر نہ تھے۔ بلکہ سننے کے بعد انہوں نے اس پر پورا اعتراض بھی کیا۔ یہاں تک کہ مہاجرین و انصار میں سے جن بزرگ اصحاب نے بیعت سقیفہ کو غلط بتایا تھا ان میں سے چند مقتدر حضرات سے مسجد میں جاکر ابوبکر سے احتجاجات بھی کئے جیسے مہاجرین میں سے سلمان فارسی، ابوذر غفاری، مقداد بن اسود کندی، عمار یاسر، بریدہ اسلمی اور خالد بن سعید بن عاص اموی۔ اور انصار میں سے ابوالہیثم بن التیہان خذیفہ بن ثابت ذوالشہادتین ( جن کو رسول اکرم(ص) نے ذوالشہادتین لقب دیا تھا، ابو ایوب انصاری، ابی بن کعب، سہل بن حنیف اور عثمان بن حنیف۔ ان میں سے ہر ایک نے مسجد کے اندر کافی اور شافی دلائل و براہین پیش کئے جن کی تفصیل بیان کرنے کا وقت نہیں ہے۔ صرف حاضرین اور سامعین کی بصیرت افروزی اور اتمام حجت کے لیے یہ مختصر خاکہ پیش کر دیا تاکہ واضح ہوجائے کہ اجماع مکمل طور پر باطل اور بے بنیاد ہے کیونکہ خود مدینے میں بھی اجماع واقع نہیں ہوا بلکہ مدینے کے عقلاء اور اکابر اصحاب کا اجماع بھی صریحی جھوٹ ہے کچھ مخالفین خلافت کے نام آپ کی معتبر کتابوں سے عرض کرتا ہوں۔

کبار صحابہ کی بیعت ابوبکر سے علیحدگی

ابن حجر عسقلانی اور بلاذری تاریخ میں، محمد خاوندشاہ روضتہ الصفا می، ابن عبدالبر استیعاب میں، اور دوسرے علماء کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ، قبیلہ خزرج اور قریش کے ایک گروہ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کہ نیز اٹھارہ

۳۰۴

نفر بزرگان صحابہ نے بیعت نہیں کی اور رافضی ہوگئے۔ یہ لوگ علی ابن ابی طالب(ع) کے شیعہ تھے۔

ان اٹھارہ اصحاب کے نام یہ تھے ۔1۔ سلمان فارسی۔ 2۔ ابوذر غفاری۔3۔ مقداد بن اسود (کندی) ۔ 4۔ عمار یاسر۔ 5۔ خالد بن سعید بن العاص۔ 6۔ بریدہ الاسلمی۔ 7۔ ابی بن کعب۔ 8۔ خذیمہ بن ثابت ذوالشہادتین۔9۔ ابوالہیثم بن التیہان۔ 10۔ سہل بن حنیف ۔ 11۔ عثمان بن حنیف ذوالشہادتین۔ 12۔ ابو ایوب انصاری۔ 13۔ جابر بن عبداللہ انصاری۔ 14۔ حذیفہ بن الیمان۔ 15۔ سعد بن عبادہ ۔ 16۔ قیس بن سعد ۔ 17۔ عبداللہ بن عباس۔ 18۔ زید بن ارقم۔

یعقوبی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ :

" لقد تخلف عن بيعة ابی بکر قوم من المهاجرين والانصار ومالوا مع علی ابن ابی طالب. منهم العباس بن عبدالمطلب و الفضل بن العباس و الزبير بن العوام بن العاص و خالد بن سعيد والمقداد بن عمر و سلمان الفارسی و ابوذر الغفاری و عمار بن ياسر و البراء بن عازب و ابی بن کعب."

یعنی مہاجرین و اںصار کی ایک جماعت نے بیعت ابی بکر سے اختلاف اور علیحدگی اختیار کی اور علی بن ابی طالب(ع) کی طرف مائل ہوئی من جملہ ان کے عباس ابن عبدالمطلب، فضل بن عباس، زبیر بن عوام بن العاص، خالد بن سعید، مقداد بن عمر، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عماریاسر، براء بن عازب اور ابی بن کعب بھی تھے۔

تو کیا یہ افراد قوم کے صاحبان عقل، اکابر اصحاب اور رسول اللہ(ص) کے ہمدم و ہمراز نہیں تھے؟ کیا علی علیہ السلام ، عباس عم پیغمبر(ص) اور دوسرے بزرگان بنی ہاشم عقلائے قوم نہ تھے؟ خدا کے لیے ذرا اںصاف سے بتائیے یہ کیسا اجماع تھا، جو بغیر ان حضرات کی موجودگی ، مشورے، رضامندی اور تصدیق کے قائم ہوگیا؟ اس مجمع کے درمیان سے راز دانہ طور پر صرف تنہا ابوبکر کو بلا کر لے جائیں اور دوسرے کبار صحابہ کو نہ کوئی اطلاع دیں نہ ان سے صلاح ومشورہ لیں تو آیا اس سے اجماع کے معنی پیدا ہوتے ہیں یا یہ مطلب نکلتا ہے کہ ایک سیاسی سازش کام کر رہی تھی؟

پس علاوہ اس کے کہ تعیین خلافت کے موقع پر تمام امت کا اجماع منعقد نہیں ہوا تمام اہل مدینہ کا اجماع ہوسکا بلکہ سعد بن عبادہ اور ان کے ہمراہیوں کے نکل جانے سے اہل سقیفہ کے اس چھوٹے موٹے گروہ میں بھی اجماع نہیں ہوسکا البتہ یہ وہ پہلا کھیل تماشا تھا جو عالم اسلامی نے انسانی تاریخ کو امانت دیا۔

حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ

ان سب سے قطع نظر بنی ہاشم اور عترت و اہل بیت رسول(ص) بھی جن کا اجماع یقینا حجت تھا باعتبار حدیث مسلم بین الفریقین جس کو میں گزشتہ شبوں میں معتبر اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

" إنّي تارك

۳۰۵

فيكم الثقلين كتاباللّه وعترتي في أهلبيتي،ان تمسّكتم بهمافقد نجوتم ( و فی نسخة) لنتضلّوا بعدها ابدا"

یعنی میں تمہارے درمیان دو بزرگ چیزیں چھوڑ رہا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت و اہل بیت اگر ان دونوں سے تمسک رکھوگے تو یقینا نجات پائوگے ( اور ایک نسخے میں ہے) ہرگز گمراہ نہ ہوگے ( دیکھئے اس کتاب کا صفحہ نہ سقیفے میں موجود تھے نہ خلافت ابوبکر کی حمایت کی( یعنی ان کو اطلاع ہی نہیں دی گئی کہ وہاں اکٹھا ہوں تاکہ اجماع صادق آسکے۔

دوسری مشہور حدیث جو حدیث سفینہ کے نام سے موسوم ہے اور پچھلی راتوں میں مع اسناد کے ذکر کی جاچکی ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

" مثل اهل بيتى كمثل سفينةنوح من توسل بهم نجى ومن تخلّف عنه اهلك"

یعنی میرے اہلبیت(ع) کی مثال کشتی نوح(ع) کے مانند ہے جو شخص اس سے متوسل رہے گا وہ نجات پائے گا اور جو شخص ان سے رو گردانی کرے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔

ثابت کرتی ہے کہ جس طرح طوفان اور بلائوں میں امت نوح کی نجات سفینے کے ذریعے سے تھی اس امت کو بھی حوادث اور آفات میں اہل بیت(ع) رسول(ص) کے دامن سے متمسک رہنا چاہیے تاکہ نجات حاصل ہو۔ اسی طرح جو ان کے دور اور الگ رہے گا ہلاک ہوگا۔

نیز ابن حجر صواعق محرقہ ذیل آیہ چہارم ص90 میں ابن سعد سے دو حدیثیں اہل بیت رسالت(ص) اور عترت پاک(ع) سے وابستہ رہنے کے وجوب میں نقل کرتے ہیں یہ کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا:

"أناوأهل بيتي شجرةفي الجنّة،وأغصانهافي الدنيا،فمن شاء ان يتّخذإلى ربّه سبيلا فليتمسک بها"

یعنی میں اور میرے اہل بیت جنت کے ایک درخت ہیں جس کی شاخیں دنیا میں ہیں۔ پس جو شخص خدا کی طرف راستہ چاہتا ہو اس کو اس سے تمسک ضروری ہے۔

دوسری حدیث یہ کہ فرمایا :

"فى كُلِ خَلَفٍ مِنْ امتى عُدُولٌ مِنْ اهلبيتى يَنْفُونَ عَنْ هَذَاالدِّينِ تَحْرِيفَالضَّالِّين َوَانْتِحَال َالْمُبْطِلِينَ،وَتَأْوِيل َالْجَاهِلِينَ الاوانائمتكم وَفْدُكُمْ الى اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ فَانْظُرُوامَنْ تُوفِدُونَ"

یعنی میری امت کے لیے ہر دور میں میرے اہل بیت(ع) میں سے کچھ عادل افراد ہیں جو اس دین سے گمراہوں کی تحریف باطل پرستوں کے دعوی اور جاہلوں کی تاویل کو دور کرتے رہتے ہیں۔ آگاہ ہو کہ یقینا تمہارے ائمہ اللہ کی طرف تمہارے سفیر ہیں پس یہ دیکھ لو کہ سفارت کس کے سپرد کرتے ہو۔

غرضیکہ تمام وہ اشخاص جن کی موجودگی اجماع و بیعت اور تعیین خلیفہ میں اثر انداز ہوتی بیعت کے مخالف تھے پس یہ کیسا اجماع تھا کہ صحابہ کبار، دانشمندان قوم اور عترت و اہل بیت رسالت(ص) مدینے میں ہوتے ہوئے اس میں شریک نہ تھے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اجماع کیسا اکثریت بھی نہیں پیدا ہوئی۔ چنانچہ ابن عبدالبر قرطبی جو آپ کے بڑے عالم ہیں، استیعاب میں، ابن حجر اصابہ میں اور دوسرے علماء کہتےہیں کہ سعد بن عبادہ نے جو خلافت کے دعویدار

۳۰۶

تھے قطعا ابوبکر اور عمر کی بیعت نہیں کی اور وہ بھی اس لیے ان سے متعرض نہیں ہوئے کہ ان کا قبیلہ اچھا خاصا ہے کہیں کوئی فساد نہ اٹھ کھڑا ہو۔ سعد امی اختلاف کی وجہ سے شام چلے گئے اور بروایت روضتہ الصفا ایک بزرگ شخصیت کی تحریک؟؟؟ سے ( جس سے با خبر ہستیاں واقف ہیں کہ کون شخص تھا جس کا حکم نافظ تھا) رات کے وقت تیر مار کر ہلاک کرادئے گئے اور کہا گیا کہ جنات نے مار ڈالا ( لیکن مورخین روایت کرتے ہیں کہ تیر مارنے والے خالد ابن ولید تھے جو مالک ابن نویرہ کو قتل کرنے اور ان کی زوجہ پر تصرف کرنے کے بعد شروع خلافت ابوبکر سے خلیفہ ثانی عمر کے غیظ و غضب کی زد میں تھے چنانچہ عمر کے زمانہ خلافت میں انہوں نے چاہا کہ خلیفہ کی نظر میں اپنا وقار قائم کریں اور یہی کیا کہ رات کو انہیں تیر سے مار ڈالا اور مشہور یہ ہوا کہ جنات نے مارا) اب آپ حضرات خدا کے لیے اپنی عادت اور تعصب کو الگ رکھ کے تھوڑا غور کیجئے کہ یہ کیسا اجماع تھا جس میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، عباس عم رسول(ص)، ابن عباس تمام بنی ہاشم، عترت و اہل بیت پیغمبر(ص)، بنی امیہ اور انصار داخل نہیں تھے۔

حافظ : چونکہ فساد کا احتمال تھا اور ساری امت تک پہنچ نہیں تھی لہذا مجبورا جلد بازی میں انہیں چند حاضرین سقیفہ پر اکتفا کر کے بیعت لے لی، بعد کو امت نے بھی مان لیا۔

خیر طلب : مدینے سے باہر کی نمایاں شخصیتوں ، بزرگاں صحابہ اور دانشمندان قوم تک رسائی نہیں تھی لیکن خدا کے لیے اںصاف کیجئے کہ اگرکوئی چال نہیں جارہی تھی تو بزم شوری میں حاضرین مدینہ کو کیوں نہیں بلایا؟ آیا رسول خدا(ص) کے عم محترم ( شیخ القبیلہ) عباس، آںحضرت(ص) کے دماد علی ابن ابی طالب(ع) ، بنی ہاشم اورمدینے کے اندر موجود کبار صحابہ کی رائے لینا ضروری نہیں تھا؟ فقب عمر اور ابوعبیدہ جراح کی رائے ساری دنیائے اسلام کے لیے کافی تھی؟ فَاعْتَبِرُواياأُولِي الْأَبْصارِ !!!

پس آپ کی دلیل اجماع عمومی حیثیت سے نیز خصوصی طور پر کیوں کہ مہاجرین و اںصار میں سے عقلاء کبار صحابہ نے اس میں شرکت نہیں کی۔ بلکہ مخالفت بھی کی بالکل مہمل و باطل اور صاحبان عقل کے نزدیک درجہ اعتبار سے ساقط ہے۔

چونکہ جیسا عرض کرچکا ہوں اجماع اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اس سے اختلاف نہ کرے اور آپ کے اس خود ساختہ اجماع میں عام طور پر آپ کے علماء ومورخین کے اقرار اور آپ کی تصدیق کے مطابق ارباب علم و عقل نےرائے دینے میں عمومی شرکت نہیں کی۔ چنانچہ امام فخرالدین رازی نہایت الاصول میں صاف صاف کہتے ہیں کہ خلافت ابوبکر و عمر میں ہرگز اجماع واقعی نہیں ہوا یہاں تک کہ سعد بن عبادہ کے قتل ہوجانے کے بعد اجماع منعقد ہوا لہذا سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے معدوم اور فرضی اجماع کو آپ نے حقانیت کی دلیل کیونکر بنالیا۔

وقت کا لحاظ کرتے ہوئے اس مختصر بیان کے ساتھ آپ کی پہلی دلیل کا جواب دیا گیا۔

۳۰۷

اس کی تردید کی ابوبکر سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے خلیفہ ہوئے

رہی آپ کی دوسری دلیل کہ ابوبکر چونکہ امیرالمومنین علیہ السلام سے عمر میں زیادہ تھے لہذا ان کا حق مقدم تھا تو یہ خلافت کے معاملے میں انتہائی مردود اور پہلی دلیل کے بھی زیادہی مہمل، بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔

اس لیے کہ اگر خلافت میں سن کی شرط تھی تو ابوبکر و عمر سے زیادہ بوڑھے بہت لوگ تھے اور یہ تو کھلی ہوئی بات ہے کہ ابوبکر کے باپ ابوقحافہ اپنے بیٹے سے بڑے تھے اور اس وقت زندہ بھی تھے، ان کو کس لیے خلیفہ نہیں بنایا ؟

حافظ : ابوبکر کا بڑھاپا لیاقت کے ساتھ تھا۔ جب کسی قوم کے اندر ایک جہاں دیدہ اور محبوب رسول اللہ(ص) بزرگ ہوتو کسی نا تجربہ کار جوان کو سردار نہیں بنایا کرتے۔

بوڑھے اصحاب کی موجودگی میں پیغمبر(ص) جوان علی(ع) کو ترجیح دیتے تھے

خیرطلب : اگر جیسا آپ کہہ رہے ہیں۔ سچ مچ ایسا ہی ہو کہ آزمودہ کار بوڑھے کی موجودگی میں کسی جوان کو کام پر اور وہ بھی خدا کے کام پر مقرر نہ کرنا چاہئیے تو یہ اعتراض سب سے پہلے رسول خدا(ص) پر وارد ہوتا ہے کیونکہ جس وقت آںحضرت(ص) غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو منافقین نے خفیہ طور پر یہ طے کیا کہ آں حضرت(ص) کی عدم موجودگی میں مدینے کے اندر ایک انقلاب بر پا کریں گے۔ لہذا مدینے کا انتظام سنبھالنے کےلیے ایک تجربہ کار انسان کی ضرورت تھی جو آنحضرت(ص) کی جگہ پر یہاں ٹھہرے، ہمت اور حسن تدبیر کے ساتھ حالات کو قابو میں رکھے اور منافقین کے ہاتھ پائوں ڈھیلے کردے آپ حضرات سے میری درخواست ہے کہ فرمائیے پیغمبر(ص) نے مدینے میں کس شخص کو اپنی خلافت اور جانشینی سپرد فرمائی؟

حافظ : مسلم سے کہ علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا خلیفہ اور قائم مقام بنایا تھا۔

خیر طلب : تو کیا ابوبکر و عمر اور دوسرے بوڑھے اصحاب مدینے نہیں تھے کہ رسول اکرم(ص) نے امیرالمومنین علیہ السلام جیسے جوان کو با قاعدہ اپنا خلیفہ اور جانشین بنایا اور صاف صاف فرمایا " انت خليفتی فی اهلبيتی و دار هجرتی " یعنی تم میرے خلیفہ ہو میرے اہل بیت(ع) میں اور میرے مقام ہجرت یعنی مدینے میں۔

بہتر ہوگا کہ آپ حضرات ذرا سوچ سمجھ کے دلیلیں قائم کیا کریں تاکہ جواب کے موقع پر لا جواب نہ رہ جائیں

۳۰۸

پس ابوبکر و عمر وغیرہ کے ایسے بوڑھے صحابہ کے سامنے علی علیہ السلام کو عین شباب میں خلیفہ مقرر کرنے سے آنحضرت(ص) کا ایک خاص مقصد یہ بھی تھا کہ آج آپ کے لیے ایک عملی جواب مہیا ہوجائے اور آپ یہ نہ کہیں کہ جہاندیدہ بوڑھے کے سامنے جوان کو ذمہ دار نہ بنانا چاہئیے ۔ رسول خدا(ص) کا عمل اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ تعیین خلافت اور تبلیغ رسالت میں پیری اور جوانی کو کوئی دخل نہیں ہے۔

اگر سال خوردہ بوڑھوں کے ہوتے ہوئے نو عمر جوان کا تقرر نہ ہونا چاہئیے تو اہل مکہ پر سورہ برائت کی ابتدائی آیتیں پڑھنے کے لیے جب کہ ایسے موقع پر قطعا ایک پیر کہن سال اور ہوشیار و جہاندیدہ بزرگ کی ضرورت تھی جو خوش اسلوبی اور سیاست کے ساتھ اس فریضے کو ادا کرے۔ رسول اکرم(ص) نے کس لیے بوڑھے ابوبکر کو راستے سے واپس بلا لیا اور جوان علی(ع) کو اس عذر کے ساتھ اس اہم کام پر مامور کردیا کہ خدا فرماتا ہے میری رسالت کو یا تم پہنچا سکتے ہو یا تمہیں جیسا کوئی مرد؟

اسی طرح اہل یمن کی ہدایت کرنےکے لیے ابوبکر وعمر وغیرہ کے ایسے سن رسیدہ بزرگوں کے وجود سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا اور امیرالمومنین علیہ السلام کو یمن والوں کی ہدایت پر مامور فرما دیا۔

اس قسم کے مواقع بہت ہیں جب کہ ابوبکر و عمر جیسے شیوخ قوم کی موجودگی میں آں حضرت(ص) نے علی(ع) جیسے جوان کو منتخب فرمایا اور بڑے بڑے کام آن کے سپرد فرمائے۔ پس معلوم ہوا کہ آپ کی یہ بڑھاپے والی شرط انتہائی پھس پھسی اور فضول و مہمل ہے۔ نبوت و ولایت اور خلافت کے شرائط میں بوڑھا ہونا ہرگز نہیں ہے بلکہ خلافت کی اصلی شرط نبوت کے مانند مکمل جامعیت ہے جو خداوند عالم کے نزدیک محبوب و پسندیدہ ہو او رجو فرد بذھی جملہ صفات عالیہ کی جامع ہو چاہے وہ کوئی بوڑھا شخص ہو یا جوان، خدائے تعالی اسی کو منصب خلافت کے لیے چنتا ہے اور نبی و رسول کے ذریعے لوگوں میں اعلان فرماتا ہے اور لوگوں پر واجب ہے کہ خدا و رسول کی طرح اس کی بھی اطاعت کریں۔

ایک اور بڑی دلیل مجھ کو یاد آگئی جس کو ان لوگوں کی خلافت کے رد میں بہت بڑا ثبوت سمجھنا چاہئیے اور وہ یہ کہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف سے اس مصنوعی اجماع کی مخالفت ہوئی ہے۔

علی(ع) حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں

اس لیے کہ ارشاد رسول(ص) کے مطابق علی علیہ السلام کو ذات حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی تھی، چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے اس بارے میں بہت سی روایتیں نقل کی ہیں۔

۳۰۹

من جملہ ان کے شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب16 میں کتاب السبطین فی فضائل امیرالمومنین(ع) سے،امام الحرم ابوجعفر احمد بن عبداللہ شافعی نے ستر حدیثوں میں سے بارہویں حدیث کو فردوس دیلمی کے، امیرسید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت ششم میں، حافظ نے امالی میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب44 ،میں بسند ابن عباس و ابی لیلی غفاری و ابو غفاری الفاظ و عبارت کے مختضر فرق اور کمی وبیشی کے ساتھ حضرت رسول خدا(ص) سے یہ حدیث نقل کی ہے جس کا آخری جملہ ہر جگہ ایک ہے کہ فرمایا :

"سَتَكُونُ مِنْ بَعْدِي فِتْنَةٌفَإِذَاكَانَ ذَلِكَ فَالْزَمُواعَلِيَّ بْنَ أَبِيطَالِبٍ فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ يَرَانِي وَأَوَّلُ مَنْ يُصَافِحُنِي يَوْمَالْ قِيَامَةِوَهُوَمعِی فِی السَّماءِ العُليَاوَهُوَفَارُوقُ هَذِهِ الْأُمَّةِيَفْرُق ُبَيْنَ الْحَقّ ِوَالْبَاطِلِ"

یعنی عنقریب میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا۔ پس جب ایسا ہو تو تم لوگ لازمی طور پر علی ابن ابی طالب(ع) کے ساتھ رہنا کیونکہ وہ پہلے شخص ہیں جو قیامت کے روز مجھ کو دیکھیں گے اور سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ وہ بلند منزلوں میں میرے ساتھ اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔

پس اصولا وفات رسول(ص) کے بعد ایسی صورت حال اور فتنہ عظیم جب مہاجرین و اںصار آپس میں دست و گریبان تھے اور ہر فریق یہ چاہتا تھا کہ خلیفہ ہم میں سے ہو ( گویا ہر ایک بہتے دریا سے ہاتھ دھونا چاہتا تھا) آںحضرت(ص) کے حکم و ہدایت کے مطابق امت والوں کا فرض تھا کہ علی علیہ السلام کو لاتے اور ان کا دامن پکڑتے کہ حق کو باطل سے جدا کریں۔ اور یقینا ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق جس طرف علی علیہ السلام ہوتے ادھر حق ہوتا اور دوسری طرف باطل۔

حافظ : یہ حدیث جو آپ نے نقل کی ہے خبر واحد ہے اور خبر واحد قابل اعتماد نہیں تھی کہ اس پر علمدر آمد ہوتا۔

خیر طلب : بہت تعجب ہے کہ آپ اتنی جلدی بھول جاتے ہیں یا عملا بھلا دیتے ہیں۔ خبر واحد کا جواب شروع میں عرض کرچکا ہوں کہ علمائے اہل سنت خبر واحد کو حجت مانتے ہیں لہذا اس بنا پر آپ اس روایت کو خبر واحد کہہ کر رد نہیں کرسکتے۔ علاوہ اس کے یہی ایک روایت نہیں ہے بلکہ آپ کے موثق علماء کے طریق سے مختلف عبارتوں کے ساتھ بہت سی روایتیں اس مطلب کو ثابت کررہی ہیں جن میں سے بعض کو ہم پچھلی راتوں میں بیان بھی کرچکے ہیں۔ اس وقت جہاں تک وقت اجازت دیتا ہے اپنی یادداشت کے موافق مختصرا صرف راویوں اور کتابوں کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے مزید تائید کے لیے بجائے ان تمام مستند احادیث کو پیش کرنے کے چند کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔ من جملہ ان کے ایک حدیث ہے جس کو محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں طبرانی نے کبیر میں، بیہقی نے سنن میں، نور الدین مالکی نے فصول المہمہ میں، حاکم نے مستدرک میں، حافظ ابو نعیم نے حلیہ میں، ابن عساکر نے تاریخ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، طبرانی نے اوسط میں، محب الدین نے ریاض نفرہ میں، حموینی نے فرائد میں، اور سیوطی نے درالمنثور میں ، ابن العباس و سلمان و ابوذر حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے دست مبارک سے علی ابن ابی طالب(ع) کی طرف اشارہ کر کے فرمایا :

"إنّ هذاأوّل من آمن بي ،وأوّل من يصافحني يومالقيامة،

۳۱۰

وهذاالصّديق الأكبر،وهذافاروق هذه الأمّةيفرّق بين الحقّ والباطل"

یعنی در حقیقت یہ (علی) پہلے شخص ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور پہلے شخص ہیںجو روز قیامت مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ یہ علی(ع) صدیق اکبر(یعنی سب سے بڑے سچ بولنے والے) اور اس امت کے فاروق ہیں جو حق و باطل کے درمیان جدائی ڈالیں گے۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب 44 میں اسی حدیث کو ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے۔

"وهويعسوب المؤمنين والمال يعسوب الظلمة،وهوبابي الذي اوتي منه،وهوخليفتي من بعدي."

یعنی وہ مومنین کے بادشاہ ہیں، یہ میرے دروازہ ہیں جس سے لوگ آتے ہیں اور وہ میرے بعد خلیفہ ہیں۔

( اس کے بعد گنجی شافعی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو محدث شام نے اپنی کتاب کے انچاسویں(49) جزء میں فضائل علی (ع) میں تین سو حدیثوں کے بعد لکھا ہے) محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد جلد چہاردہم ص21 میں، حافظ مردویہ نے مناقب میں، سمعانی نے فضائل الصحابہ میں، دیلمی نے فردوس میں، ابن قتیبہ نے الامامتہ والسیاسہ جلد اول ص68 میں زمخشری نے ربیع الابرار میں، حموینی نے فرائد باب37 میں، طبرانی نے اوسط میں، فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر جلد اول ص111 میں، گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، امام احمد نے مسند میں اور آپ کے دوسرے علماء نے نقل کیاہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا " علی مع الحق والحق مع علی حيث دار " یعنی علی (ع) حق کے ساتھ اور حق علی (ع) کے ساتھ پھرتا ہے ( یعنی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے)

انہیں کتابوں میں ہے نیز شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے ینابیع المودت باب20 میں حموینی سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا " علی مع الحق والحق مع علی يميل مع الحق کيف مال " یعنی علی (ع) حق کے ساتھ اور حق علی (ع) کے ساتھ ہے جس طرف حق مائل ہوتا ہے اسی طرف علی(ع) بھی مائل ہوتے ہیں۔)

اور حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی متوفی سنہ431ھ نے حلیتہ الاولیاء جلد اول ص63 میں اپنے اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"يامعشرالأنصارألاأدلكم على من إن تمسكتم به لن تضلوابعده أبداقالوابلى يارسول الله قال هذاعلي فأحبوه بحبي وأكرموه بكرامتي فإن جبرائيل أمرني بالذي قلت لكم عن الله عزوجل "

یعنی اے جماعت انصار آیا تمہاری رہنمائی نہ کروں میں اس شخص کی طرف کہ اگر اس سے تمسک کرو گے تو س کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے؟ سب نے

۳۱۱

عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ(ص) آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ وہ شخص یہ علی(ع) ہیں لہذا ان کو دوست رکھو میری محبت کے ساتھ اور ان کا اکرام کرو میری کرامت کے ساتھ کیونکہ جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے جبرئیل نے خدا کی طرف سے مجھ کو اس کا حکم دیا ہے۔

ان میں سے ہر حدیث رسول(ص) اپنے الفاظ اور راوی و حافظ کے اختلاف کی وجہ سے اگر چہ پہلی نظر میں خبر واحد معلوم ہوتی ہے جس میں ایک خاص مفہوم ادا کیا گیا ہے لیکن اہل علم کی نگاہوں میں اس سے تواتر معنوی ثابت ہوتا ہے کیونکہ ان سب کے مضامین سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کچھ خاص دلائل ہیں جو ایک عام مقصود کے لیے وارد ہوئے ہیں اور ان کی باہمی شرکت سے وہی مقصود عام ثابت ہوتا ہے۔

اس مقصود عام سے مراد ولایت و امامت کی منزل میں رسول اللہ(ص) کی عنایت ہے جو بلا شرکت غیرے صرف علی علیہ السلام کی طرف آنحضرت(ص) کا میلان ظاہر کرتی ہے نیز اس کا ثبوت دیتی ہے کہ پیغمبر(ص) کی یہ شفقت و مہربانی تنہا علی علیہ السلام کے لیے مخصوص تھی اور آںحضرت(ص) ہمیشہ انہیں سے امداد طلب فرماتے تھے کیونکہ آپ نصرت کرنے میں یکتا تھے اور اسی وجہ سے امت کو بھی حکم فرماتے ہیں کہ میرے بعد علی (ع) کی طرف رجوع کرو اور ان سے تمسک اختیار کرو اس لیے کہ یہ ہمیشہ حق کے ساتھی اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔

اس قسم کی حدیثوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اںصاف کیجئے کہ آیا ابوبکر سے علی علیہ السلام کی مخالفت و آپ کے خیالی اجماع سے علیحدگی اور بیعت نہ کرنا ابوبکر کی حقانیت ثابت کرتا ہے یا ان کی خلافت باطل ہونے کا دلیل ہے؟ اگر ابوبکر کی خلافت دست تھی تو علی علیہ السلام نے جو حق و صداقت کے پیکر تھے اور رسول اکرم(ص) نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ ہمیشہ حق کے ساتھ اور حق ان کے ساتھ گردش کرتا ہے ان کی بیعت کیوں نہیں کی بلکہ مخالفت بھی کی؟ واقعی سقیفے کے روز جتنی پھرتی سے کام لیا گیا وہ بہت افسوس اور حیرت کا مقام ہے اور اس روز کا طریقہ کار ہر نکتہ رس ہوشمند انسان کو قطعی طر پر شبے میں ڈالتا ہے کہ اگر کوئی سازش کار فرما نہیں تھی تو ( چند گھنٹے ہی سہی) آخر انتظار کیوں نہ کیا کہ علی ابن ابی طالب(ع) جو بقول رسول (ص) حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے تھے ، کبار صحابہ، بنی ہاشم اور بالخصوص آن حضرت(ص) کے چچا عباس سب ک سب جمع ہوجائیں اور امر خلافت میں جو ایک عمومی فریضہ تھا اپنے خیالات ظاہر کریں؟

حافظ : یہ بات تو یقینی ہے کہ کوئی سازش نہیں چل رہی تھی بلکہ حالات چونکہ خطرناک دیکھے لہذا حفاظت اسلام کے لیے تعیین میں جلدی کی۔

خیرطلب : یعنی آپ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ ابوعبیدہ جراح ( مکے سابق گورکن) وغیرہ کو رسول اللہ(ص) کے بزرگ چچا عباس اور علی بن ابی طالب(ع) سے جنہوں نے اس دین کے راستے میں اپنی زندگی وقف کردی تھی یا دوسرے

۳۱۲

کبار صحابہ اور بنی ہاشم سے زیادہ اسلام کا درد تھا اور جتنی دیر وہاں باتیں بنائی تھیں اگر اتنی دیر ٹھہرجاتے یا ابوبکر وعمر مجمع کو باتوں میں مشغول رکھتے اور فورا ابوعبیدہ یا کسی اور کو بھیج کر عباس و علی(ع) کو اس خطرناک صورت حال سے آگاہ کردیتے تاکہ جلد وہاں پہنچ جائیں اور پھر تھوڑی دیر صبر کر لیتے کہ وہ بزرگوار آجائیں تو کیا اسلام ہاتھ سے نکل جاتا؟ اور ایسا فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا کہ اس کو روک تھام ہو ہی نہ سکتی؟

اںصاف سے کام لیجئے تو قطعا اگر تھوڑا صبر کر کے کم از کم بنی ہاشم اور بزرگان صحابہ کو مع عباس و علی(ع) کے سقیفے میں بلا لیتے تو وہ تینوں اشخاص و ابوبکر و عمر اور ابوعبیدہ اگر حق بات کہتے تھے تو ان کی طاقت اور بڑھ جاتی، اسلام کے اندر اتنا اختلاف رونما نہ ہوتا اور آج ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد ہم اور آپ برادران اسلامی اس جلسے میں ایک دوسرے کے مقابلے پر نہ آجاتے بلکہ تمام قوتوں کو متحد کر کے دشمنوں سے ٹکر لیتے ۔

پس تصدیق کیجئے کہ اسلام کے سرپر جو آفت آئی اسی روز سے آئی اور وہ فقط اسی تعجیل کا نتیجہ تھی جس پر تینوں افراد ( ابوبکر و عمر و ابوعبیدہ) نے عمل کر کے اپنے خفیہ ولی مقاصد پورے گئے۔

نواب : قبلہ صاحب آخر سبب کیا تھا کہ ان لوگوں نے اس قدر جلدی کی اور بقول آپ کے حاضرین مسجد و خانہ رسول(ص) کو بھی خبر نہیں دی؟

خیر طلب : اتنی جلدی کرنے کے سبب قطعا یہی تھا کہ وہ جانتے تھے کہ اگر تمام مسلمانوں کے آںے کا انتظار کریں گے یا کم سے کم اسامہ بن زید کی سر برآوردہ ہستیاں، مدینے کے اندر موجود بزرگ اصحاب اور بنی ہاشم وغیرہ سب جمع ہو کر مشورے میں شرکت کریں گے تو نامزدگی کے وقت علی علیہ السلام کا نام ضرور لیا جائے گا اور اگر علی(ع) یا عباس کا نام آگیا تو اس مجمع میں حق اور حقیقت کے طرفدار لوگ ا پنی مضبوط اور واضح دلیلوں سے میدان سیاست میں ہماری پگڑی اچھال دیں گے لہذا عجلت کی تاکہ جب تک بنی ہاشم اور بزرگ اصحاب پیغمبر(ص) کے غسل و کفن اور دفن میں مشغول ہیں ہم اپنا کام بنالیں اور ابوبکر کو اسی دو نفری تدبیر سے مسند خلافت پر بٹھا دیں چنانچہ وہی کیا اور آپ حضرات بھی آج تک اس کو مسلمانوں کا اجماع کہے چلے آرہے ہیں۔

آپ کے اکابر علماء جیسے طبری اور ابن ابی الحدید وغیرہ نے بھی لکھا ہے کہ عمر کہتے تھے ابوبکر کی خلافت جلدی میں اچانک قائم ہوگئی ہے خدا خیر کرے۔

۳۱۳

عمر کے اس قول کی تردید کہ نبوت و سلطنت ایک جگہ جمع نہ ہوگی

اب رہی آپ کی دوسری دلیل خلیفہ عمر کی سند سے کہ نبوت و سلطنت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی ہے تو یہ بھی آیت نمبر57 سورہ4 ( نساء) کی نص صریح سے باطل ہے ارشاد ہے۔

"أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلى ماآتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ِفَقَدْآتَيْناآلَإِبْراهِيمَ الْكِتاب َوَالْحِكْمَةَوَآتَيْناهُمْ مُلْكاًعَظِيماً"

یعنی آیا خدا نے جو کچھ ان کو اپنے فضل و کرم سے عطا کیا ہے اس پر لوگ حسد کرتے ہیں؟ پس یقینا ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت دی اور ان کو زبردست ملک و سلطنت عطا کیا۔

پس اس آیہ شریفہ کے حکم سے آپ کی یہ دلیل مردود ہے اور یہ حدیث قطعا ضعیف بلکہ موضوعات میں سے ہے جو خلیفہ عمر کی طرف منسوب کی گئی ہے اس لیے کہ رسول اللہ(ص) قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں فرماتے اور یہ آیت خود اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ نبوت و سلطنت کا ایک جگہ جمع ہونا ممکن ہے ( جیسا کہ آل ابراہیم وغیرہ میں جمع ہوئی) اس کے علاوہ منصب خلافت عہدہ نبوت کا ایک جزء ہے بلکہ اس کا تتمہ ہے ، سلطنت اور بادشاہی نہیں ہے جس کے لیے آپ کہہ سکیں کہ ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی۔

اگر حضرت موسی علیہ السلام کے بھائی جناب ہارون علیہ السلام خلافت موسی سے برطرف ہیں تو علی علیہ السلام بھی خلافت خاتم الانبیاء سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اور اگر بحکم قرآن موسی ہارون علیہما السلام میں نبوت و خلافت جمع ہوئی تو قطعا محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام میں بھی جمع ہوگی ۔ چنانچہ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں حدیث منزلت اس کی گواہ ہے پس آپ کی یہ حدیث قطعا بنی امیہ کے موضوعات میں سے ہے اور مجہول اور ہر پہلو سے ناقابل قبول ہے۔

اگر نبوت اورخلافت ( یا بقول خلیفہ عمر کے سلطنت) ایک جگہ جمع نہیں ہوتی ہے تو پھر مجلس شوری میں خلیفہ عمر نے علی علیہ السلام کو خلافت کےلیے کیوں نامزد کیا تھا؟ اور اسی کے بعد چوتھے نمبر پر آپ لوگ بھی حضرت کو خلیفہ کیوں مانتے ہیں؟ عجیب بات ہے کہ خلافت بلافصل تو ( حدیث گھڑ کے نبوت کےساتھ جمع نہ ہو لیکن خلافت مع الفصل جمع ہو جائے۔

چشم باز و گوش باز داں عمی حیرتم از چشم بندی خدا

اس کے علاوہ رسول اللہ (ص) صاف صاف فرماتے ہیں کہ جس راستے پر علی (ع) چلیں ادھر تم بھی چلو، دوسرون کی پیروی نہ کرو آپ کہتے ہیں کہ نبوت و سلطنت ایک خاندان میں اکھٹا نہیں ہوتیں، حالانکہ آنحضرت(ص) نے اپنی عترت کی پیروی امت پر واجب قرار دی ہے اور ان کی مخالفت کو محض ضلالت و گمراہی جانا ہے۔ جیسا کہ گذشتہ راتوں

۳۱۴

میں میں نے یہ معتبر اور متفق علیہ فریقین صریحی حدیث مع اس کے اسناد کے عرض کی ہے کہ آنحضرت(ص) نے بار بار فرمایا :

"إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَبَيْتِي إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَالَن ْتَضِلُّوابَعْدِي أَبَداً"

یعنی میں تمہارے درمیان دو بزرگ و بہتر گراں چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ، ایک قرآن مجید اور دوسری میری عترت اور اہل بیت(ع)، اگر ان دونوں سے تمسک رکھو گے تو ہرگز کبھی گمراہ نہ ہوگے۔

جس طرح سے طوفان نوح کی آمد مِں حضرت نوح(ع) کے حکم سے جو شخص آپ کی بنائی ہوئی کشتی میں بیٹھ گیا اس نے نجات پائی اور جس نے منہ موڑا ہلاک ہوگیا چاہے وہ ان کا بیٹا ہی کیوں نہ رہا ہو۔ اسی طرح اس امت مرحومہ میں بھی حضرت خاتم الانبیاء (ص) نے اپنی عترت اور اہل بیت (ع) کو بمنزلہ کشتی نوح(ع) بیان فرمایا ہے کہ آیندہ مشکلات و اختلافات میں اس گھرانے کے علم و عقل اور ظاہر و باطن کے دامن سے وابستہ رہیںگ ے تو نجات حاصل کریں گے اور کشتی نوح(ع) سے روگردانی کرنے والوں کے مانند تخلف کریں گے تو ہلاک ہوجائیں گے (جسیا کہ اسی کتاب کے ص؟؟؟؟؟؟؟؟؟ میں تفصیل سے گزر چکا )

پس اس قسم کے نصوص صریحہ اور قواعد واضحہ کے رو سے امت کا فرض ہے کہ اختلاف اور دشواریوں میں عترت و اہل بیت رسالت(ع) کی رائے سے فائدہ اٹھائیں اور امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام چونکہ مزید علمی و عملی فضائل اور پیغمبر(ص) کے تاکیدی احکام کی روشنی میں آں حضرت(ص) کی عترت و اہل بیت کی ایک فرد اکمل تھے پس کیوں تھوڑی دیر تامل کر کے آپکو اطلاع نہیں دی تاکہ آپ کے غور وفکر اور صائب رائے سے مدد ملتی؟

اس میں قطعا ایسا راز پوشیدہ تھا جس پر عقل و علم اور اںصاف والے حیران اور مبہوت ہیں جس وقت یہ لوگ اپنے اسلاف کی اندھی تقلید چھوڑ کر عادلانہ جائزہ لیتے ہیں تو حقیقت کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ سیاسی بازیگروں نے علی(ع) کو انکے مستقل حق سے محروم کرنے کے لیے جلدی کر کے آپ کی اور دوسرے اصحاب و اہل تقوی کی غیر موجودگی میں ابوبکر کو مسند خلافت پر بٹھا دیا۔

شیخ : آپ کس دلیل سے فرماتے ہیں کہ صرف علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی پیروی کر کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی رایوں اور اجماع کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیئے تھا؟

تعیین خلافت میں پھر اظہار حقیقت

خیر طلب : اول تو ہم نے یہ کہا ہی نہیں ہے کہ صحابہ کی رائیں اور ان کا اجماع قابل احترام نہیں ہے۔ البتہ ہمارے اور آپ کے درمیان فرق یہ ہے کہ آپ نے جونہی کسی صحابی کا نام سنا بس چاہیے وہ کوئی منافق ہی ہو یا ابوہریرہ ہی ہوں جن کو خلیفہ عمر کوڑے سے مارتے تھے اور کذاب ( بہت بڑا جھوٹا ) کہتے تھے فورا زانوئے ادب

۳۱۵

تہ کردیتے ہیں، لیکن ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک وہی صحابی محترم ہے اور اسی کے قدم آنکھوں سے لگانے کے قابل ہیں جس نے رسول اللہ(ص) کی مصاحبت کے شرائط پورے کئے ہوں، ہوائو ہوس کا بندہ نہ رہا ہو اور احکام خدا و رسول(ص) کا آخر عمر تک دیانتداری سے پا بند رہا ہے۔

دوسرے ہم واضح دلائل سے آپ کے سامنے ثابت کرچکے کہ سقیفہ میں خلیفہ ابوبکر کی بیعت پر کوئی اجماع نہیں ہوا تاکہ امت کی اجماعی رائے سے ان کی خلافت مسلم ہوجائے۔ اب اس کے خلاف اگر آپ کے پاس کوئی قاعدے کا جواب ہو تو بیان فرمائیے تاکہ حضرات حاضرین جلسہ بے لاگ فیصلہ کرسکیں اور میں بھی اس اجماعی تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کروں، اگر آپ اپنی کتابوں سے اس کا ثبوت دے دیجئے کہ سقیفہ میں ساری امت یا کم از کم بقول آپ کے تمام عقلائے قوم جمع ہوئے اور سب نے مل کر رائے دی کہ ابوبکر کو خلیفہ ہونا چاہئیے تو میں مان لوں گا اور اگر سوا دو نفر ( عمر و ابوعبیدہ) اور قبیلہ اوس کے چند افراد کے جن کو قبیلہ خزرج کے ساتھ اپنی دیرینہ عداوت و مخالفت کا لحاظ تھا دوسرے اشخاص نے بیعت نہیں کی تھی تو آپ تصدیق کیجئے کہ ہم(شیعہ) غلط راستے پر نہیں ہیں۔

تیسرے اس سب پر ہماری تنقید یہ ہے اور ہم دینا کے سارے عقلمندوں پر اس کا فیصلہ چھوڑتے ہیں کہ آیا صرف تین صحابی ایسا کرنے کے مجاز ہیں کہ پوری ملت کی باگ ڈور ہاتھ میں لے لیں اور باہمی گفت و شنید اور جنگ زرگری کر کے دو نفر ایک نفر کی بیعت کرلیں اس کے بعد لوگوں کو دھونس دے کےتلوار ، آگ اور اہانت سے مرعوب کر کے اپنا بنایا ہوا خاکہ ماننے پر مجبور کریں؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔

میں مطلب کو دہراتے ہوئے پھر عرض کرتا ہوں کہ ہمارا اعتراض اس بات پ؛ر ہے کہ اس روز جب وہ تین نفر ( ابوبکر و عمر اور ابو عبیدہ جراح) سقیفہ پہنچے اور دیکھا کہ خلافت کی بحث در پیش ہے تو بزرگان قوم اور عقلا و کبار صحابہ کا تعاون کیوں نہیں حاصل کیا جن میں سے کچھ لوگ خانہ رسول (ص) میں تھے اور ایک جماعت لشکر اسامہ میں تھی؟

شیخ : ہم کہتے ہیں کہ کوئی غفلت ہوئی یا نہیں ہوئی ہم اس روز موجود نہیں تھے کہ دیکھتے وہ لوگ کس دشواری میں پھنسے ہوئے تھے، لیکن آج جب کہ ہمارے سامنے ایک طے شدہ عمل ہے چاہے وہ اجماع رفتہ رفتہ واقع ہو۔ ہم کو اس کے مقابلے میں اختلاف کی آواز نہ اٹھانا چاہیئے بلکہ سر تسلیم خم کر کے جس راستے وہ گئے ہیں اسی راستے پر گامزن ہوجانا چاہیئے۔

خیرطلب : خوب خوب ۔ مرحبا آپ کے استدلال پر اور آفرین آپ کے خیال اور عقیدے پر کہ آپ خواہ مخواہ ہم سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ مقدس دین اسلام ایک بھیڑیا دھسان مذہب ہے جس میں اگر دو تین آدمیوں نے ایک جگہ جمع ہوکر منصوبہ بنایا اور چند اشخاص نے ان کی حمایت میں ؟؟؟؟؟؟؟ مچادیا تو اب سارے مسلمانوں کا فرض ہوگیا کہ آنکھیں بند کر کے اس پر عملدرآمد کو قبول کریں۔ کیا خاتم النبیین(ص) کے پاک دین کا یہی مطلب ہے جب کہ صریحا آیت

۳۱۶

نمبر19 سورہ 29 ( زمر) ارشاد ہے۔

"فَبَشِّرْعِبادِالَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ"

یعنی اے رسول(ص) ان بندوں کو میرے لطف و رحمت کی بشارت دے دیجئے جو بات سنتے ہیں پس اس میں سے بہتر کی پیروی کرتے ہیں۔ (یعنی تحقیق کرلیتے ہیں، اندھی تقلید نہیں کرتے۔)؟

حالانکہ اسلام ایک تحقیقی دین ہے تقلیدی نہیں اور وہ بھی ابوعبیدہ (گورکن) معروف بہ جراح کی تقلید رسول اکرم(ص) نے خود ہمارے لیے راستہ کھول دیا ہے اور ہم کو پتہ دے دیا ہے کہ جس وقت امت دو گروہوں میں بٹ جائے تو ہم ان دونوں میں سے کس کی طرف جائیں تاکہ نجات پاسکیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہم کو کس دلیل سے امیرالمومنین علیہ السلام کی پیروی واجب ہے؟ اس کا جواب کھلا ہوا ہے کہ آیات قرآنی اور آپ کی معتبر کتابوں میں درج موثق حدیثوں کی دلیل ہے۔

من جملہ ان روایات و ںصوص کے جن کے ماتحت امت مجبور ہے کہ حوادث و انقلابات میں علی علیہ السلام کی پیروی کرے عمار یاسر کی مشہور حدیث ہے جس کو آپ کے بڑے بڑَ علماء جیسے حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیہ میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، بلاذری نے اپنی تاریخ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب43 میں حموینی سے، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں، دیلمی نے فردوس میں اور آپ کے دوسرے موثق علماء نے ابوایوب اںصاری سے ایک مفصل حدیث نقل کی ہے جس کو مکمل بیان کرنے کا وقت نہیں لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت لوگوں نے ابو ایوب سے سوال کیا ( بلکہ ان پر اعتراض کیا) کہ تم علی ابن ابی طالب(ع) کے طرفدار کیوں بن گئے اور ابوبکر کی بیعت کیوں نہیں کی؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک روز میں رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر تھا کہ عمار یاسر وارد ہوئے اور آنحضرت سے سوال کیا حضرت نے گفتگو کے ضمن میں فرمایا

" يَاعَمَّارُ إِنْ سَلَكَ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَادِياًوَسَلَكَ عَلِيّ ٌوَادِياًفَاسْلُكْوَادِيَ عَلِيٍّ وَخَلِّ عَنِ النَّاسِ يَاعَمَّارُإِنَّ عَلِيّاًلَايَرُدُّكَ عَنْ هُدًى وَلَايَدُلُّكَ عَلَى رَدًى يَاعَمَّارُطَاعَةُعَلِيٍّ طَاعَتِي وَطَاعَتِي طَاعَةُاللَّهِ."

یعنی اے عمار اگر تمام لوگ ایک راستے پر جائیں اور تنہا علی(ع) ایک راستے پر تو تم علی(ع) کے راستے پر چلنا اور دوسروں سے بے نیاز ہوجانا اے عمار علی(ع) تم کو ہدایت سے برگشتہ نہ کریں گے اور ہلاکت کی طرف نہ لے جائیں گے اے عمار علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے اور میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔

آیا جائز تھا کہ ان واضح نصوص اور صاف صاف احکام کے ہوتے ہوئے جو آپ کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں، باوجودیکہ علی علیہ السلام نے خلافت ابوبکر کی کھلی ہوئی مخالفت کی، چاہے ساری امت میں سے بنی ہاشم، بنی امیہ کبار صحابہ عقلاء قوم اور مہاجرین و انصار ان کے ہم آواز نہ بھی رہے ہوں (حالانکہ ہم آواز تھے) لوگ علی(ع) کی راہ کو چھوڑ دیں اور ایک غیر پیشوا کی پیروی کریں؟ کم سے کم یہی خواہش کرتے کہ اس قدر تامل کیا جائے کہ علی(ع) آجائیں اور ان کی تجویز معلوم کر لی جائے۔

( اتنے میں نماز عشاء کے لیے موذن کی آواز آئی اور مولوی صاحبان فریضہ ادا کرنے کے لیے اٹھ گئے نماز اور چائے کے بعد حافظ صاحب نے بات شروع کی۔)

۳۱۷

حافظ : جناب آپ نے اپنے بیانات کے ضمن میں دو باتیں عجیب فرمائیں ۔ اول تو آپ بار بار فرماتے ہیں۔ ( ابوعبیدہ گور کن) تو یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ یہ محترم بزرگ قبر کھودنے کا پیشہ کرتے تھے؟ دوسرے آپ نے فرمایا کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب بیعت میں شامل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے مخالفت بھی کی در آنحالیکہ جملہ ارباب حدیث و تاریخ نے لکھا ہے کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب سب نے بیعت کی۔

خیر طلب : معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرات اپنے علماء کی تحریریں بھی غور سے نہیں پڑھتے۔ پہلی بات کہ ابوعبیدہ گوکن تھے۔ میں نے نہیں کہی ہے بلکہ آپ ہی کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ کتاب الہدایہ ولنہایہ مئولفہ ابن کثیر شامی جلد پنجم ص266 و ص267 کو ملاحظہ فرمائیے دفن رسول(ص) کے باب میں لکھا ہے کہ ابوعبیدہ جراح چونکہ اہل مکہ کی قبریں کھودا کرتے تھے لہذا جناب عباس نے ایک شخص کو مدینے کے گورکن ابوطلحہ کی تلاش میں اور ایک کو ابو عبیدہ کے تجسس میں روانہ کیا تاکہ دونوں آکر رسول اللہ(ص) کی قبر تیار کریں۔

دوسرے آپ نے فرمایا کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب سبھی نے بیعت کی۔ ہاں آپ بیعت کا لفظ تو ضرور پڑھ لیتے ہیں لیکن حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ کس نے کس وقت بیعت کی اور کیوں کر بیعت کی آپ کے سارے علمائے حدیث اور بڑے بڑے مورخین نے لکھا ہے کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم نے بیعت تو کر لی لیکن چھ مہینے کے بعد اور وہ بھی جبر و تشدد ، قتل و خون کی دھمکیوں اور انتہائی اہانتوں کے بعد جو ان بزرگوار کے لیے عمل میں لائی گئیں اور ان حضرات کا ہر طرح سے بائیکاٹ کردینے کے بعد۔

حافظ : آپ جیسے شریف انسان کے لیے مناسب نہیں کہ شیعہ عوام کے الفاظ اور عقائد کو زبان پر جاری کیجئے جو یہ کہتے ہیں کہ علی(ع) کو جبرا کھینچتے ہوئے لے گئے اور ان کو قتل کردینے کی دھمکی دی۔ حالانکہ ان جناب نے انہیں ابتدائی دنوں میں انتہائی خواہش و رغبت کے ساتھ ابوبکر کی خلافت قبول کر لی تھی۔

چھ ماہ کے بعد زبردستی علی (ع) اور بنی ہاشم کی بیعت

خیر طلب : آپ جو یہ فرمارہے ہیں کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم نے فوار بیعت کی تو میرا خیال کہ آپ جان بوجھ کر اپنے کو دھوکا دے رہے ہیں اس لیے کہ عام عام طور پر آپ کے مورخین تو یہ لکھتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی بیعت جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد ہوئی ہے۔ چنانچہ بخاری نے صحیح جلد سوم ص37 باب غزوۃ خیبر میں اور مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح جلد پنجم ص54 باب قول النبی لا نورث میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام کی بیعت وفات فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بعد ہوئی۔ اسی طرح عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری متوفی سنہ276ھ الامامت والسیاست آخر ص14 میں کہتے ہیں :

"فلم يبايع عليّ كرّم اللّه وجهه حتّى ماتت فاطمةرضي اللّه عنها"

یعنی علی علیہ السلام نے ( ابوبکر کی) بیعت نہیں کی یہاں تک کہ جناب فاطمہ(س) نے

۳۱۸

انتقال فرمایا۔

آپ کے بعض علماء وفات فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا وفات رسول اللہ صلعم کے پچھتر روز بعد جانتے ہیں جیسے خود ابن قتیبہ لیکن بالعموم آپ کے مورخین آںحضرت کے وفات کے چھ مہینے بعد سمجھتے ہیں جس سے نتیجہ یہ نکلا کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم کی بیعت خلافت کے چھ ماہ بعد ہوئی ۔ چنانچہ مسعودی مروج الذہب جلد اول ص414 میں کہتے ہیں " ولم يبايع ه أحدمن بني هاشم حتّى ماتت فاطمة "

یعنی بنی ہاشم میں سے کسی ایک فرد نے بھی (ابوبکر کی ) بیعت نہیں کی یہاں تک کہ حضرت فاطمہ(س) نے وفات پائی۔

ابراہیم بن سعد ثقفی نے جو ثقات علماء میں سے ہیں زہری سے روایت کی ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بیعت نہیں کی لیکن چھ مہینے کے بعد اور ان کے اوپر لوگوں کی جرائت نہیں بڑھی لیکن وفات فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بعد جیسا کہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے۔

غرضیکہ آپ ہی کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام کی بیعت فورا نہیں ہوئی بلکہ بہت مدت کے بعد واقع ہوئی جب اس کے وسائل و اسباب اکٹھا ہوگئے اور حالات نے مجبور کردیا۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم آخر ص18 میں زہری سے اور انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ :

" فَلَمْ يُبَايِعْهُ عَلِيٌّ سِتَّةَأَشْهُرٍوَلَاأَحَدٌمِن ْبَنِي هَاشِمٍ حَتَّى بَايَعَهُ عَلِيٌّ"

" یعنی علی(ع) نے چھ ماہ تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور بنی ہاشم میں سے کسی نے بھی بیعت نہیں کی جب تک علی(ع) نے نہیں کی۔

نیز احمد بن اعثم کوفی شافعی نے فتوح میں اور ابونصر حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں نافع سے اور انہوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ " ان عَلِيّا لَمْ يُبَايِعْهُ الا بعد سِتَّةَأَشْهُرٍ " ( یعنی علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی مگر چھ مہینے کے بعد) رہا آپ کا یہ فرمانا کہ تم عوام کے عقائد کی پیروی بے خودی میں ہم پر حملہ کرتے ہیں حالانکہ اپنی کتابوں کے مضامین سے واقف ہیں۔ قسم خدا کی ہر قوم کے علماء ہی فسادات کے ذمہ دار ہیں جو عوام کو دھوکا دیتے ہیں تاکہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ ان روایتوں کو ہم نے گھڑا ہے۔ حالانکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے ان باتوں کا اقرار کیا ہے۔

حافظ ہمارے علماء نے کہاں یہ کہا ہے کہ علی(ع) کع جبرا کھینچا اور ان کے گھر میں آگ لگائی جیسا کہ شیعوں کے یہاں مشہور ہے اور اپنے مجالس میں جوش و خروش سے بیان کرتے ہیں۔ نیز یہ کہہ کر لوگوں کے جذبات ابھارتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف پہنچائی اور ان کا حمل ساقط کیا؟

خیر طلب : محترم حضرات یا تو واقعی آپ کو مطالعہ ہی بہت کم ہے یا عادتا اور قصدا اپنے اسلاف کی پیروی میں بیچارے مظلوم شیعوں کو عوام کی نگاہوں میں متہم کر کے ایسے جملوں سے اپنے بزرگوں کو پاکدامن دکھانا چاہتے ہیں۔ لہذا کہتے بھی

۳۱۹

ہیں اور لکھتے بھی ہیں کہ یہ روایتیں شیعوں نے بنائی ہیں( خصوصا سلطنت صفویہ کے زمانے سے ) کہ ابوبکر کے حکم سے عمر ایک مجمع کے ساتھ علی(ع) کے دروازے پر آگ لے کر گئے اور علی(ع) کو قتل کی دھمکی دے کر شور و شر کے ساتھ کھینچتے ہوئے بیعت کے لیے مسجد میں لے گئے۔

حالانکہ ایسا ہے نہیں میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ان تاریخی قضیوں کو صرف شیعوں نے درج نہیں کیا ہے بلکہ آپ کے اںصاف پسند اکابر علماء و مورخین نے بھی لکھا ہے ۔ البتہ بعض نے تعصب کی وجہ سے احتراز کیا ہے۔ اگر آپ چاہیں ، تو وقت کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کے معتمد علماء سے چند روایتیں جو اس وقت پیش نظر ہیں ثبوت کے لیے نقل کردوں تاکہ صاحبان انصاف کو معلوم ہوجائے کہ ہم بے قصور ہیں اور جو کچھ آپ نے کہا ہے وہی ہم بھی کہتے ہیں ۔

حافظ : فرمائیے ہم سننے کے لیے حاضر ہیں۔

بارہ دلیلیں اس پر کہ علی(ع) کو بزود شمشیر مسجد میں لے گئے

خیر طلب : 1۔ ابو جعفر بلاذری احمد بن یحیی بن جابر بغدادی متوفی سنہ279ھ نے جو آپ کے ایک موثق محدث اور مشہور مورخ ہیں اپنی تاریخ میں روایت کی ہے کہ جب ابوبکر نے علی علیہ السلام کو بیعت کے لیے طلب کیا ہے اور آپ نے قبول نہ کیا تو انہوں نے عمر کو بھیجا ، وہ آگ لے کر آئے کہ گھر کو جلا دیں گے۔ حضرت فاطمہ(س) نے دروازے کے قریب آکر فرمایا اے پسر خطاب کیا تم مجھ پر گھر جلا دوگے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ جو کچھ تمہارے باپ لے کر آئے ہیں اس میں یہ عمل بہت موثر ہے۔

2۔ عزالدین ابن ابی الحدید معتزلی اور محمد بن جریر طبری جو آپ کے معتمد ترین مورخ ہیں، روایت کرتے ہیں کہ عمر اسید بن خضیر ، سلمہ بن اسلم اور ایک جماعت کےہمراہ علی(ع) کے دروازے پر گئے اور کہا باہر نکلو ورنہ ہم گھر کو تمہارے اوپر جلا دیں گے۔

3۔ ابن خزابہ نے کتاب عزر میں زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا میں ان لوگوں میں سے تھا جو عمر کے ہاں لکڑیاں اٹھا کر فاطمہ(ع) کے دروازے پر لے گئے ۔ جب علی (ع) اور ان کے اصحاب نے بیعت سے انکار کیا تو عمر نے فاطمہ (ع) سے کہا کہ جو شخص اس گھر کے اندر ہو اس کو باہر نکالو ورنہ اور گھر والوں کو جلائے دیتا ہوں اس وقت علی و حسنین اور فاطمہ علیہم السلام اور صحابہ و بنی ہاشم کی ایک جماعت گھر کے اندر موجود تھی۔ فاطمہ(ع) نے فرمایا کیا تم مجھ پر اور میرے بچوں پر گھر جلادوگے؟ کہا ہاں خدا کی قسم، یہاں تک کہ سب باہر آکر خلیفہ رسول (ص) کی بیعت کریں۔

4۔ ابن عبدربہ نے جو آپ کے مشاہیر علماء میں سے ہیں حقدالفرید جلد سیم ص63 میں لکھا ہے کہ علی علیہ السلام اور عباس(ع) فاطمہ(ع) کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ابوبکر نے عمر سے کہا جائو ان لوگوں کو لائو، اور اگر آنے سے انکار کریں تو ان سے جنگ کرو پس عمر آگ لے کر آئے تاکہ گھر جلادیں ، فاطمہ(ع) دروازے پرآئیں اور فرمایا اے پسر خطاب کیا تم میرا گھر جلانے آئے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں۔ الخ

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369