پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310310 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

(۱۲۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لأصحابه في ساحة الحرب - بصفين

وأَيُّ امْرِئٍ مِنْكُمْ أَحَسَّ مِنْ نَفْسِه - رَبَاطَةَ جَأْشٍ عِنْدَ اللِّقَاءِ، ورَأَى مِنْ أَحَدٍ مِنْ إِخْوَانِه فَشَلًا - فَلْيَذُبَّ عَنْ أَخِيه بِفَضْلِ نَجْدَتِه - الَّتِي فُضِّلَ بِهَا عَلَيْه - كَمَا يَذُبُّ عَنْ نَفْسِه - فَلَوْ شَاءَ اللَّه لَجَعَلَه مِثْلَه - إِنَّ الْمَوْتَ طَالِبٌ حَثِيثٌ لَا يَفُوتُه الْمُقِيمُ - ولَا يُعْجِزُه الْهَارِبُ - إِنَّ أَكْرَمَ الْمَوْتِ الْقَتْلُ - والَّذِي نَفْسُ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ بِيَدِه - لأَلْفُ ضَرْبَةٍ بِالسَّيْفِ أَهْوَنُ عَلَيَّ - مِنْ مِيتَةٍ عَلَى الْفِرَاشِ فِي غَيْرِ طَاعَةِ اللَّه وكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْكُمْ - تَكِشُّونَ كَشِيشَ الضِّبَابِ - لَا تَأْخُذُونَ حَقّاً ولَا تَمْنَعُونَ ضَيْماً - قَدْ خُلِّيتُمْ والطَّرِيقَ - فَالنَّجَاةُ لِلْمُقْتَحِمِ والْهَلَكَةُ لِلْمُتَلَوِّمِ

(۱۲۳)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو صفین کے میدان میں اپنے اصحاب سے فرمایا تھا)

دیکھو ! اگر تم سے کوئی شخص بھی جنگ کے وقت اپنے اندر قوت قلب اور اپنے کسی بھائی میں کمزوری کا احساس کرے تو اس کا فرض ہے کہ اپنے بھائی سے اسی طرح دفاع کرے جس طرح اپنے نفس سے کرتا ہے کہ خدا چاہتا تو اسے بھی ویسا ہی بنا دیتا لیکن اس نے تمہیں ایک خاص فضیلت عطا فرمائی ہے۔

دیکھو!موت ایک تیز رفتار طلب گار ہے جس سے نہ کوئی ٹھہرا ہوا بچ سکتا ہے اور نہ بھاگنے والا بچ نکل سکتا ہے اور بہترین موت شہادت ہے۔قسم ہے اس پروردگار کی جس کے قبضہ قدرت میں فرزند ابو طالب کی جان ہے کہ میرے لئے تلوار کی ہزار ضربیں اطاعت خداسے الگ ہو کر بستر پرمرنے سے بہتر ہیں۔

گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ ویسی ہی آوازیں نکال رہے ہو جیسی سو سماروں کے جسموں کی رگڑ سے پیدا ہوتی ہیں کہ نہ اپناحق حاصل کر رہے ہو اورنہ ذلت کا دفاع کر رہے ہو جب کہ تمہیں راستہ پر کھلاچھوڑ دیا گیا ہے اور نجات اسی کے لئے ہے جو جنگ میں کود پڑے اورہلاکت اسی کے لئے ہے جودیکھتا ہی رہ جائے ۔

۲۲۱

(۱۲۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في حث أصحابه على القتال

فَقَدِّمُوا الدَّارِعَ وأَخِّرُوا الْحَاسِرَ - وعَضُّوا عَلَى الأَضْرَاسِ - فَإِنَّه أَنْبَى لِلسُّيُوفِ عَنِ الْهَامِ - والْتَوُوا فِي أَطْرَافِ الرِّمَاحِ فَإِنَّه أَمْوَرُ لِلأَسِنَّةِ - وغُضُّوا الأَبْصَارَ فَإِنَّه أَرْبَطُ لِلْجَأْشِ وأَسْكَنُ لِلْقُلُوبِ - وأَمِيتُوا الأَصْوَاتَ فَإِنَّه أَطْرَدُ لِلْفَشَلِ - ورَايَتَكُمْ فَلَا تُمِيلُوهَا ولَا تُخِلُّوهَا - ولَا تَجْعَلُوهَا إِلَّا بِأَيْدِي شُجْعَانِكُمْ - والْمَانِعِينَ الذِّمَارَ مِنْكُمْ - فَإِنَّ الصَّابِرِينَ عَلَى نُزُولِ الْحَقَائِقِ - هُمُ الَّذِينَ يَحُفُّونَ بِرَايَاتِهِمْ - ويَكْتَنِفُونَهَا حِفَافَيْهَا ووَرَاءَهَا، وأَمَامَهَا - لَا يَتَأَخَّرُونَ عَنْهَا فَيُسْلِمُوهَا - ولَا يَتَقَدَّمُونَ عَلَيْهَا فَيُفْرِدُوهَا أَجْزَأَ امْرُؤٌ قِرْنَه وآسَى أَخَاه بِنَفْسِه - ولَمْ يَكِلْ قِرْنَه إِلَى أَخِيه - فَيَجْتَمِعَ عَلَيْه قِرْنُه وقِرْنُ أَخِيه - وايْمُ اللَّه لَئِنْ فَرَرْتُمْ مِنْ سَيْفِ الْعَاجِلَةِ - لَا تَسْلَمُوا مِنْ سَيْفِ الآخِرَةِ - وأَنْتُمْ لَهَامِيمُ الْعَرَبِ والسَّنَامُ الأَعْظَمُ - إِنَّ فِي الْفِرَارِ مَوْجِدَةَ اللَّه

(۱۲۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب کو جنگ پرآمادہ کرتے ہوئے)

زرہ پوش افراد کو آگے بڑھائو اوربے زرہ لوگوں کو پیچھے رکھو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سر سے اچٹ جاتی ہیں اورنیزوں کے اطراف سے پہلوئوں کو بچائے رکھو کہ اس سے نیزوں کے رخ پلٹ جاتے ہیں۔نگاہوں کو نیچا رکھو کہ اس سے قوت قلب میں اضافہ ہوتا ہے اورحوصلے بلند رہتے ہیں۔آوازیں دھیمی رکھو کہ اس سے کمزوری دور ہوتی ہے۔دیکھو اپنے پرچم کا خیال رکھنا۔وہ نہ جھکنے پائے اور نہ اکیلا رہنے پائے اسے صرف بہادر افراد اور عزت کے پاسبانوں کے ہاتھ میں رکھنا کہ مصائب پر صبر کرنے والے ہی پرچموں کے گرد جمع ہوتے ہیں اور داہنے بائیں آگے ' پیچھے ہرطرف سے گھیرا ڈال کر اس کا تحفظ کرتے ہیں۔نہ اس سے پیچھے رہ جاتے ہیں کہ اسے دشمنوں کے حوالے کردیں اورنہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ تنہا رہ جائے۔

دیکھو۔ہرشخص اپنے مقابل کا خود مقابلہ کرے اور اپنے بھائی کابھی ساتھ دے اورخبردار اپنے مقابلہ کو اپنے ساتھی کے حوالہ نہ کردینا کہ اس پر یہ اور اس کا ساتھی دونوں مل کرحملہ کردیں۔

خداکی قسم اگر تم دنیا کی تلوار سے بچ کر بھاگ بھی نکلے تو آخرت کی تلوار سے بچ کر نہیں جاسکتے ہو۔پھر تم تو عرب کے جوانمردوں اور سربلند افراد ہو۔تمہیں معلوم ہے کہ فرار میں خدا کا غضب بھی ہے کو

۲۲۲

والذُّلَّ اللَّازِمَ والْعَارَ الْبَاقِيَ - وإِنَّ الْفَارَّ لَغَيْرُ مَزِيدٍ فِي عُمُرِه - ولَا مَحْجُوزٍ بَيْنَه وبَيْنَ يَوْمِه - مَنِ الرَّائِحُ إِلَى اللَّه كَالظَّمْآنِ يَرِدُ الْمَاءَ - الْجَنَّةُ تَحْتَ أَطْرَافِ الْعَوَالِي - الْيَوْمَ تُبْلَى الأَخْبَارُ - واللَّه لأَنَا أَشْوَقُ إِلَى لِقَائِهِمْ مِنْهُمْ إِلَى دِيَارِهِمْ - اللَّهُمَّ فَإِنْ رَدُّوا الْحَقَّ فَافْضُضْ جَمَاعَتَهُمْ - وشَتِّتْ كَلِمَتَهُمْ وأَبْسِلْهُمْ بِخَطَايَاهُمْ إِنَّهُمْ لَنْ يَزُولُوا عَنْ مَوَاقِفِهِمْ - دُونَ طَعْنٍ دِرَاكٍ يَخْرُجُ مِنْهُمُ النَّسِيمُ - وضَرْبٍ يَفْلِقُ الْهَامَ ويُطِيحُ الْعِظَامَ - ويُنْدِرُ السَّوَاعِدَ والأَقْدَامَ - وحَتَّى يُرْمَوْا بِالْمَنَاسِرِ تَتْبَعُهَا الْمَنَاسِرُ - ويُرْجَمُوا بِالْكَتَائِبِ تَقْفُوهَا الْحَلَائِبُ - وحَتَّى يُجَرَّ بِبِلَادِهِمُ الْخَمِيسُ يَتْلُوه الْخَمِيسُ - وحَتَّى تَدْعَقَ الْخُيُولُ فِي نَوَاحِرِ أَرْضِهِمْ - وبِأَعْنَانِ مَسَارِبِهِمْ ومَسَارِحِهِمْ.

قال السيد الشريف أقول - الدعق الدق أي تدق الخيول بحوافرها أرضهم - ونواحر أرضهم متقابلاتها - ويقال منازل بني فلان تتناحر أي تتقابل.

اور ہمیشہ کی ذلت بھی ہے۔فرار کرنے والا نہ اپنی عمر میں اضافہ کر سکتا ہے اور نہ اپنے وقت کے درمیان حائل ہو سکتا ہے۔کون ہے جو للہ کی طرف یوں جائے جس طرح پیاسا(۱) پانی کی طرف جاتا ہے۔جنت نیزوں کے اطراف کے سایہ میں ہے آج ہر ایک کے حالات کا امتحان ہو جائے گا۔خدا کی قسم مجھے دشمنوں سے جنگ کا اشتیاق اس سے زیادہ ہے جتنا انہیں اپنے گھروں کا اشتیاق ہے۔خدایا: یہ ظالم اگرحق کو رد کردیں توان کی جماعت کو پراگندہ کردے۔ان کے کلمہ کو متحد نہ ہونے دے۔ان کو ان کے کئے کی سزا دیدے کہ یہ اس وقت تک اپنے موقف سے نہ ہٹیں گے جب تک نیزے ان کے جسموں میں نسیم سحر کے راستے نہ بنا دیں اور تلواریں ان کے سروں کو شگافتہ ' ہڈیوں کو چور چور اور ہاتھ پیر کو شکستہ نہ بنادیں اور جب تک ان پر لشکر کے بعد لشکر اورسپاہ کے بعد سپاہ حملہ آور نہ ہو جائیں اور ان کے شہروں پر مسلسل فوجوں کی یلغار نہ ہو اور گھوڑے ان کی زمینوں کو آخرتک روند نہ ڈالیں اور ان کی چراگاہوں اورسبزہ زاروں کو پامال نہ کردیں۔

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کی زندگی کی ہر تشنگی کا علاج جنت کے علاوہ کہیں نہیں ہے۔یہ دنیا صرف ضروریات کی تکمیل کے لئے بنائی گئی ہے اور بڑے سے بڑے انسان کاحصہ بھی اس کے خواہشات سے کمتر ہے ورنہ سارے روئے زمین پر حکومت کرنے والا بھی اس سے بیشتر کاخواہش مندرہتا ہے اور دامان زمین میں اس سے زیادہ کی وسعت نہیں ہے۔یہ صرف جنت ہے جس کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہاں ہرخواہش نفس اور لذت نگاہ کی تسکین کا سامان موجود ہے۔اب سوال صف یہ رہ جاتا ہے کہ وہاںتک جانے کاراستہ کیا ہے۔مولائے کائنات نے اپنے ساتھیوں کو اسینکتہ کی طرف متوجہ کیا ہے کہ جنت تلواروں کے سایہ کے نیچے ہے اور اس کا راستہ صرف میدان جہاد ہے لہٰذا میدان جہاد کی طرف اس طرح بڑھو جس طرح پیاسا پانی کی طرف بڑھتا ہے کہ اسی راہ میں ہر جذبہ دل کی تسکین کا سامان پایا جاتا ہے اور پھر دین خدا کی سر بلندی سے بالاتر کوئی شرف بھی نہیں ہے۔

۲۲۳

(۱۲۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في التحكيموذلك بعد سماعه لأمر الحكمين

إِنَّا لَمْ نُحَكِّمِ الرِّجَالَ - وإِنَّمَا حَكَّمْنَا الْقُرْآنَ هَذَا الْقُرْآنُ - إِنَّمَا هُوَ خَطٍّ مَسْطُورٌ بَيْنَ الدَّفَّتَيْنِ - لَا يَنْطِقُ بِلِسَانٍ ولَا بُدَّ لَه مِنْ تَرْجُمَانٍ - وإِنَّمَا يَنْطِقُ عَنْه الرِّجَالُ - ولَمَّا دَعَانَا الْقَوْمُ - إلَى أَنْ نُحَكِّمَ بَيْنَنَا الْقُرْآنَ - لَمْ نَكُنِ الْفَرِيقَ الْمُتَوَلِّيَ - عَنْ كِتَابِ اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى - وقَدْ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوه إِلَى الله والرَّسُولِ ) - فَرَدُّه إِلَى اللَّه أَنْ نَحْكُمَ بِكِتَابِه - ورَدُّه إِلَى الرَّسُولِ أَنْ نَأْخُذَ بِسُنَّتِه - فَإِذَا حُكِمَ بِالصِّدْقِ فِي كِتَابِ اللَّه - فَنَحْنُ أَحَقُّ النَّاسِ بِه - وإِنْ حُكِمَ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَنَحْنُ أَحَقُّ النَّاسِ وأَوْلَاهُمْ بِهَا - وأَمَّا قَوْلُكُمْ - لِمَ جَعَلْتَ بَيْنَكَ وبَيْنَهُمْ أَجَلًا فِي التَّحْكِيمِ - فَإِنَّمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ لِيَتَبَيَّنَ الْجَاهِلُ -

(۱۲۵)

(آپ کا ارشاد گرامی)

(تحکیم کے بارے میں ۔حکمین کی داستان سننے کے بعد)

یاد رکھو! ہم نے افراد کوحکم نہیں بنایا تھا بلکہ قرآن کو حکم قراردیا تھا اور قرآن وہی کتاب ہے جو دو دفینوں کے درمیان موجود ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ خود نہیں بولتاہے اور اسے ترجمان کی ضرورت ہوتی ہے اور ترجمان افراد ہی ہوتے ہیں ۔اس قوم نے ہمیں دعوت دی کہ ہم قرآن سے فیصلہ کرائیں تو ہم تو قرآن سے رو گردانی کرنے والے نہیں تھے جب کہ پروردگار نے فرمادیا ہے کہ اپنے اختلافات کوخدا اور رسول کی طرف موڑو دواورخدا کی طرف موڑنے کا مطلب اس کی کتاب سے فیصلہ کرانا ہے اور رسول (ص) کی طرف موڑنے کا مقصد بھی سنت کا اتباع کرنا ہے اور یہ طے ہے کہ اگر کتاب خدا سے سچائی کے ساتھ فیصلہ کیا جائے تو اس کے سب سے زیادہ ح قدار ہم ہی ہیں اور اسی طرح سنت پیغمبر کے لئے سب سے اولیٰ و اقرب ہم ہی ہیں۔اب تمہارا یہ کہنا کہ آپ نے تحکیم کی مہلت کیوں(۱) دی؟ تو اس کا راز یہ ہے کہ میں چاہتا تھا کہ بے خبر با خبر ہو جائے

(۱) حضرت نے تحکیم کا فیصلہ کرتے ہوئے دونوں افراد کو ایک سال کی مہلت دی تھی تاکہ اس دوران نا واقف افراد حق و باطل کی اطلاع حاصل کرلیں اور جو کسی مقدار میں حق سے آگاہ ہیں وہ مزید تحقیق کرلیں۔ایسا نہ ہو کربے خبر افراد پہلے ہی مرحلہ میں گمراہ ہو جائیں اور عمر و عاص کی مکاری کا شکار ہو جائیں۔مگر افسوس یہ ہے کہ ہر دور میں ایسے افراد ضرور رہتے ہیں جو اپنے عقل وفکر کو ہر ایک سے بالاتر تصور کرتے ہیں اور اپنے قاد کے فیصلوں کوبھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب امام کے ساتھ ایسا برتائو کیا گیا ہے تونائب امام یا عالم دین کی کیا حیثیت ہے ؟

۲۲۴

ويَتَثَبَّتَ الْعَالِمُ - ولَعَلَّ اللَّه أَنْ يُصْلِحَ فِي هَذِه الْهُدْنَةِ - أَمْرَ هَذِه الأُمَّةِ - ولَا تُؤْخَذَ بِأَكْظَامِهَا - فَتَعْجَلَ عَنْ تَبَيُّنِ الْحَقِّ - وتَنْقَادَ لأَوَّلِ الْغَيِّ - إِنَّ أَفْضَلَ النَّاسِ عِنْدَ اللَّه - مَنْ كَانَ الْعَمَلُ بِالْحَقِّ أَحَبَّ إِلَيْه - وإِنْ نَقَصَه وكَرَثَه مِنَ الْبَاطِلِ - وإِنْ جَرَّ إِلَيْه فَائِدَةً وزَادَه - فَأَيْنَ يُتَاه بِكُمْ - ومِنْ أَيْنَ أُتِيتُمْ - اسْتَعِدُّوا لِلْمَسِيرِ إِلَى قَوْمٍ حَيَارَى - عَنِ الْحَقِّ لَا يُبْصِرُونَه - ومُوزَعِينَ بِالْجَوْرِ لَايَعْدِلُونَ بِه - جُفَاةٍ عَنِ الْكِتَابِ - نُكُبٍ عَنِ الطَّرِيقِ - مَا أَنْتُمْ بِوَثِيقَةٍ يُعْلَقُ بِهَا - ولَا زَوَافِرِ عِزٍّ يُعْتَصَمُ إِلَيْهَا - لَبِئْسَ حُشَّاشُ نَارِ الْحَرْبِ أَنْتُمْ - أُفٍّ لَكُمْ - لَقَدْ لَقِيتُ مِنْكُمْ بَرْحاً يَوْماً أُنَادِيكُمْ - ويَوْماً أُنَاجِيكُمْ - فَلَا أَحْرَارُ صِدْقٍ عِنْدَ النِّدَاءِ - ولَا إِخْوَانُ ثِقَةٍ عِنْدَ النَّجَاءِ

(۱۲۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما عوتب على التسوية في العطاء

أَتَأْمُرُونِّي أَنْ أَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَوْرِ - فِيمَنْ وُلِّيتُ عَلَيْه -

اورباخبرتحقیق کرلے کہ شائد پروردگار اس وقفہ میں امت کے امور کی اصلاح کردے اور اس کا گلا نہ گھونٹا جائے کہ تحقیق حق سے پہلے گمراہی کے پہلے ہی مرحلہ میں بھٹک جائے۔اوریاد رکھو کہ پروردگار کے نزدیک بہترین انسان وہ ہے جسے حق پر عملدار آمد کرنا (چاہے اس میں نقصان ہی کیوں نہ ہو)باطل پر عمل کرنے سے زیادہ محبوب ہو( چاہے اس میں فائدہ ہی کیوں نہ ہو) تو آخر تمہیں کدھر لے جایا جا رہا ہے اور تمہارے پاس شیطان کدھر سے آگیا ہے۔دیکھو اس قوم سے جہاد کے لئے تیار ہو جائو جو حق کے معاملہ میں اس طرح سرگرداں ہے کہ اسے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ہے اورباطل پر اس طرح اتارو کردی گئی ہے کہ سیدھے راستہ پر آنا ہی نہیں چاہتی ہے۔یہ کتاب خداسے الگ اور راہ حق سے منحرف ہیں مگر تم بھی قابل اعتماد افراد اور لائق تمسک شرف کے پاسبان نہیں ہو۔تم آتش جنگ کے بھڑکانے کا بد ترین ذریعہ ہو۔تم پر حیف ہے میں نے تم سے بہت تکلیف اٹھائی ہے۔تمہیں علی الاعلان بھی پکارا ہے اورآہستہ بھی سمجھایا ہے لیکن تم نہ آواز جنگ پر سچے شریف ثابت ہوئے اور نہ راز داری پر قابل اعتماد ساتھی نکلے۔

(۱۲۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب عطا یا کی برابری پر اعتراض کیا گیا)

کیاتم مجھے اس بات پرآمادہ کرنا چاہتے ہو کہ میں جن رعایا کا ذمہ دار بنایا گیا ہوں

۲۲۵

واللَّه لَا أَطُورُ بِه مَا سَمَرَ سَمِيرٌ - ومَا أَمَّ نَجْمٌ فِي السَّمَاءِ نَجْماً - لَوْ كَانَ الْمَالُ لِي لَسَوَّيْتُ بَيْنَهُمْ - فَكَيْفَ وإِنَّمَا الْمَالُ مَالُ اللَّه - أَلَا وإِنَّ إِعْطَاءَ الْمَالِ فِي غَيْرِ حَقِّه تَبْذِيرٌ وإِسْرَافٌ - وهُوَ يَرْفَعُ صَاحِبَه فِي الدُّنْيَا - ويَضَعُه فِي الآخِرَةِ - ويُكْرِمُه فِي النَّاسِ ويُهِينُه عِنْدَ اللَّه - ولَمْ يَضَعِ امْرُؤٌ مَالَه فِي غَيْرِ حَقِّه ولَا عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِه - إِلَّا حَرَمَه اللَّه شُكْرَهُمْ - وكَانَ لِغَيْرِه وُدُّهُمْ - فَإِنْ زَلَّتْ بِه النَّعْلُ يَوْماً - فَاحْتَاجَ إِلَى مَعُونَتِهِمْ فَشَرُّ خَلِيلٍ - وأَلأَمُ خَدِينٍ !

(۱۲۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه يبين بعض أحكام الدين ويكشف للخوارج الشبهة وينقض حكم الحكمين

فَإِنْ أَبَيْتُمْ إِلَّا أَنْ تَزْعُمُوا أَنِّي أَخْطَأْتُ وضَلَلْتُ - فَلِمَ تُضَلِّلُونَ عَامَّةَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِضَلَالِي - وتَأْخُذُونَهُمْ بِخَطَئِي -

ان پر ظلم کرکے چند افراد کی کمک حاصل کرلوں ۔خدا کی قسم جب تک اس دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور ایک ستارہ دوسرے ستارہ کی طرف جھکتا رہے گا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔یہ مال اگر میرا ذاتی ہوتا جب بھی میں برابر سے تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال مال خداہے اور یادرکھو کہ مال کا نا حق عطا کردینا بھی اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہے اوریہ کام انسان کو دنیا میں بلند بھی کر دیتا ہے تو آخرت میں ذلیل کر دیتا ہے۔لوگوں میں محترم بھی بنادیتا ہے تو خدا کی نگاہ میں پست تر بنا دیتا ہے اور جب بھی کوئی شخص مال کو نا حق یا نا اہل پر صرف کرتا ہے تو پروردگار اس کے شکریہ سے بھی محروم کر دیتا ہے اور اس کی محبت کا رخ بھی دوسروں کی طرف مڑ جاتا ہے ۔پھر اگرکسی دن پیر پھسل گئے اور ان کی امداد کا بھی محتا ج ہوگیا تو وہ بد ترین دوست اور ذلیل ترین ساتھی ہی ثابت ہوتے ہیں۔

(۱۲۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں بعض احکام دین کے بیان کے ساتھ خوارج کے شبہات کا ازالہ اورحکمین کے توڑ کا فیصلہ بیان کیا گیا ہے)

اگر تمہارااصرار اسی بات پرہےکہ مجھےخطاکاراور گمراہ قرار دو تو ساری امت پیغمبر (ص) کو کیوں خطا کار قراردےرہےہواور میری'' غلطی '' کا مواخذہ ان سے کیوں کر

۲۲۶

وتُكَفِّرُونَهُمْ بِذُنُوبِي - سُيُوفُكُمْ عَلَى عَوَاتِقِكُمْ - تَضَعُونَهَا مَوَاضِعَ الْبُرْءِ والسُّقْمِ - وتَخْلِطُونَ مَنْ أَذْنَبَ بِمَنْ لَمْ يُذْنِبْ - وقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رَجَمَ الزَّانِيَ الْمُحْصَنَ - ثُمَّ صَلَّى عَلَيْه ثُمَّ وَرَّثَه أَهْلَه - وقَتَلَ الْقَاتِلَ ووَرَّثَ مِيرَاثَه أَهْلَه - وقَطَعَ السَّارِقَ وجَلَدَ الزَّانِيَ غَيْرَ الْمُحْصَنِ - ثُمَّ قَسَمَ عَلَيْهِمَا مِنَ الْفَيْءِ ونَكَحَا الْمُسْلِمَاتِ - فَأَخَذَهُمْ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِذُنُوبِهِمْ - وأَقَامَ حَقَّ اللَّه فِيهِمْ - ولَمْ يَمْنَعْهُمْ سَهْمَهُمْ مِنَ الإِسْلَامِ - ولَمْ يُخْرِجْ أَسْمَاءَهُمْ مِنْ بَيْنِ أَهْلِه - ثُمَّ أَنْتُمْ شِرَارُ النَّاسِ - ومَنْ رَمَى بِه الشَّيْطَانُ مَرَامِيَه وضَرَبَ بِه تِيهَه - وسَيَهْلِكُ فِيَّ صِنْفَانِ - مُحِبٌّ مُفْرِطٌ يَذْهَبُ بِه الْحُبُّ إِلَى غَيْرِ الْحَقِّ - ومُبْغِضٌ مُفْرِطٌ يَذْهَبُ بِه الْبُغْضُ إِلَى غَيْرِ الْحَقِّ - وخَيْرُ النَّاسِ فِيَّ حَالًا النَّمَطُ الأَوْسَطُ فَالْزَمُوه - والْزَمُوا السَّوَادَ الأَعْظَمَ - فَإِنَّ يَدَ اللَّه مَعَ الْجَمَاعَةِ - وإِيَّاكُمْ والْفُرْقَةَ!

رہے ہو اور میرے ''گناہ '' کی بناپر انہیں کیوں کافر قرار دے رہے ہو۔تمہاری تلواریں تمہارے کاندھوں پر رکھی ہیں جہاں چاہتے ہو خطا ' بے خطا چلادیتے ہو اور گناہ گار اوربے گناہ میں کوئی فرق نہیں کرتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اکرم (ص) نے زنائے محضہ کے مجرم کو سنگسار کیا تواس کی نمازجنازہ بھی پڑھی تھی اور اس کے اہل کو وارث بھی قرار دیا تھا۔اور اسی طرح قاتل کو قتل کیا تو اس کی میراث بھی تقسیم کی اور چور کے ہاتھ کاٹے یا غیر شادی شدہ زنا کار کو کوڑے لگوائے تو انہیں مال غنیمت میں حصہ بھی دیا اور ان کا مسلمان عورتوں سے نکاح بھی کرایا گویا کہ آپ نے ان کے گناہوں کا مواخذہ کیا اور ان کے بارے میں حق خداکو قائم کیا لیکن اسلام میں ان کے حصہ کو نہیں روکا اور نہ ان کے نام کواہل اسلام کی فہرست سے خارج کیا۔مگر تم بد ترین افراد ہو کہ شیطان تمہارے ذریعہ اپنے مقاصد کو حاصل کرلیتا ہے اورتمہیں صحرائے ضلالت میں ڈال دیتا ہے اور عنقریب میرے بارے میں دو طرح کے افراد گمراہ ہوں گے۔محبت میں غلو کرنے والے جنہیں محبت غیرحق کی طرف لے جائے گی اور عداوت میں زیادتی کرنے والے جنہیں عداوت باطل کی طرف کھینچ لے جائے گی۔اوربہترین افراد وہ ہوں گے جو درمیانی منزل پر ہوں لہٰذا تم بھی اسی راستہ کو اختیار کرو اور اسی نظر یہ کی جماعت کے ساتھ ہو جائو کہ اللہ کاہاتھ اسی جماعت کے ساتھ ہے اورخبردارتفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ جاتا ہے

۲۲۷

فَإِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّيْطَانِ - كَمَا أَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ. أَلَا مَنْ دَعَا إِلَى هَذَا الشِّعَارِ فَاقْتُلُوه - ولَوْ كَانَ تَحْتَ عِمَامَتِي هَذِه - فَإِنَّمَا حُكِّمَ الْحَكَمَانِ لِيُحْيِيَا مَا أَحْيَا الْقُرْآنُ - ويُمِيتَا مَا أَمَاتَ الْقُرْآنُ - وإِحْيَاؤُه الِاجْتِمَاعُ عَلَيْه - وإِمَاتَتُه الِافْتِرَاقُ عَنْه - فَإِنْ جَرَّنَا الْقُرْآنُ إِلَيْهِمُ اتَّبَعْنَاهُمْ - وإِنْ جَرَّهُمْ إِلَيْنَا اتَّبَعُونَا - فَلَمْ آتِ لَا أَبَا لَكُمْ بُجْراً - ولَا خَتَلْتُكُمْ عَنْ أَمْرِكُمْ - ولَا لَبَّسْتُه عَلَيْكُمْ - إِنَّمَا اجْتَمَعَ رَأْيُ مَلَئِكُمْ عَلَى اخْتِيَارِ رَجُلَيْنِ - أَخَذْنَا عَلَيْهِمَا أَلَّا يَتَعَدَّيَا الْقُرْآنَ فَتَاهَا عَنْه - وتَرَكَا الْحَقَّ وهُمَا يُبْصِرَانِه - وكَانَ الْجَوْرُ هَوَاهُمَا فَمَضَيَا عَلَيْه - وقَدْ سَبَقَ اسْتِثْنَاؤُنَا عَلَيْهِمَا فِي الْحُكُومَةِ بِالْعَدْلِ - والصَّمْدِ لِلْحَقِّ سُوءَ رَأْيِهِمَا وجَوْرَ حُكْمِهِمَا.

(۱۲۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

فيما يخبر به عن الملاحم بالبصرة

وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہو جاتا ہے جس طرح گلہ سے الگ ہوجانے والی بھیڑ بھیڑئیے کی نذر ہوجاتی ہے۔آگاہ ہو جائو کہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے اسے قتل کردو چاہے وہ میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو۔ ان دونوں افراد کو حکم بنایا گیا تھا تاکہ ان امور کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور ان امور کو مردہ بنادیں جنہیں قرآن نے مردہ بنا دیا ہے اور زندہکرنے کے معنی اس پر اتفاق کرنے اورمردہ بنانے کے معنی اس سے الگ ہو جانے کے ہیں۔ہم اس بات پر تیار تھے کہ اگر قرآن ہمیں دشمن کی طرف کھینچ لے جائے گا تو ہم ان کا اتباع کرلیں گے اور اگر انہیں ہماری طرف لے آئے گا تو انہیں آنا پڑے گا لیکن خدا تمہارا برا کرے۔اس بات میںمیں نے کوئی غلط کام تو نہیں کیا اور نہ تمہیں کوئی دھوکہ دیا ہے۔اور نہ کسی بات کو شبہ میں رکھا ہے۔لیکن تمہاری جماعت نے دوآدمیوں کے انتخاب پر اتفاق کرلیا اورمیں نے ان پر شرط لگا دی کہ قرآن کے حدود سے تجاوز نہیں کریں گے مگر وہ دونوں قرآن سے منحرف ہوگئے اورحق کو دیکھ بھال کر نظر انداز کردیا اور اصل بات یہ ہے کہ ان کا مقصد ہی ظلم تھا اوروہ اسی راستہ پرچلے گئے جب کہ میں نے ان کی غلط رائے اورظالمانہ فیصلہ سے پہلے ہی فیصلہ میں عدالت اور ارادہ حق کی شرط لگادی تھی۔

(۱۲۸)

آپ کا ارشادگرامی

(بصرہ کے حوادث کی خبر دیتے ہوئے )

۲۲۸

يَا أَحْنَفُ كَأَنِّي بِه وقَدْ سَارَ بِالْجَيْشِ - الَّذِي لَا يَكُونُ لَه غُبَارٌ ولَا لَجَبٌ - ولَا قَعْقَعَةُ لُجُمٍ ولَا حَمْحَمَةُ خَيْلٍ - يُثِيرُونَ الأَرْضَ بِأَقْدَامِهِمْ - كَأَنَّهَا أَقْدَامُ النَّعَامِ.

قال الشريف يومئ بذلك إلى صاحب الزنج.

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام - وَيْلٌ لِسِكَكِكُمُ الْعَامِرَةِ والدُّورِ الْمُزَخْرَفَةِ - الَّتِي لَهَا أَجْنِحَةٌ كَأَجْنِحَةِ النُّسُورِ - وخَرَاطِيمُ كَخَرَاطِيمِ

الْفِيَلَةِ - مِنْ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَا يُنْدَبُ قَتِيلُهُمْ - ولَا يُفْقَدُ غَائِبُهُمْ - أَنَا كَابُّ الدُّنْيَا لِوَجْهِهَا - وقَادِرُهَا بِقَدْرِهَا ونَاظِرُهَا بِعَيْنِهَا.

منه في وصف الأتراك

كَأَنِّي أَرَاهُمْ قَوْماً –( كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطَرَّقَةُ ) - يَلْبَسُونَ السَّرَقَ والدِّيبَاجَ - ويَعْتَقِبُونَ الْخَيْلَ الْعِتَاقَ - ويَكُونُ هُنَاكَ اسْتِحْرَارُ قَتْلٍ - حَتَّى يَمْشِيَ الْمَجْرُوحُ عَلَى الْمَقْتُولِ -

اے(۱) احنف ! گویا کہ میں اس شخص کو دیکھ رہا ہوں جو ایک ایسا لشکر لے کر آیا ہے جس میں نہ گردو غبار ہے اور نہ شورو غوغا ۔نہ لجاموں کی کھڑکھڑاہٹ ہے اور نہ گھوڑوں کی ہنہناہٹ ۔یہ زمین کو اسی طرح روند رہے ہیں جس طرح شتر مرغ کے پیر۔

سید رضی : حضرت نے اس خبر میں صاحب زنج کی طرف اشارہ کیا ہے( جس کا نام علی بن محمد تھااور اس نے۲۲۵ ھ میں بصرہ میں غلاموں کو مالکوں کے خلاف متحد کیا اور ہر غلام سے اس کے مالک کو۵۰۰ کوڑے لگوائے ۔

افسوس ہے تمہاری آباد گلیوں اور ان سجے سجائے مکانات کے حال پر جن کے چھجے گدوں کے پر اور ہاتھیوں کے سونڈ کے مانند ہے ان لوگوں کی طرف سے جن کے مقتول پر گریہ نہیں کیاجاتا ہے اور ان کے غائب کو تلاش نہیں کیا جاتا ہے۔میں دنیا کو منہ کے بھل اوندھا کر دینے والا اور اس کی صحیح اوقات کا جاننے والا اور اس کی حالت کو اس کے شایان شان نگاہ سے دیکھنے والا ہوں۔

(ترکوں کے بارے میں )

میں ایک ایسی قوم کو دیکھ رہا ہوں جن کے چہرہ چمڑے سے منڈھی ڈھال کے مانند ہیں۔ریشم و دیبا کے لباس پہنتے ہیں اور بہترین اصیل گھوڑوں سے محبت رکھتے ہیں۔ان کے درمیان عنقریب قتل کی گرم بازاری ہوگی جہاں زخمی مقتول کے اوپر سے گزریں گے

(۱)بنی تمیم کے سردار احنف بن قیس سے خطاب ہے جنہوں نے رسول اکرم (ص) کی زیارت نہیں کی مگر اسلام قبول کیا اورجنگ جمل کے موقع پر اپنے علاقہ میں ام المومنین کے فتنوں کا دفاع کرتے رہے اور پھر جنگ صفین میں مولائے کائنات کے ساتھ شریک ہوگئے اور جہاد راہ خداکا حق ادا کردیا

۲۲۹

ويَكُونَ الْمُفْلِتُ أَقَلَّ مِنَ الْمَأْسُورِ.

فَقَالَ لَه بَعْضُ أَصْحَابِه - لَقَدْ أُعْطِيتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عِلْمَ الْغَيْبِ - فَضَحِكَعليه‌السلام وقَالَ لِلرَّجُلِ وكَانَ كَلْبِيّاً.

يَا أَخَا كَلْبٍ لَيْسَ هُوَ بِعِلْمِ غَيْبٍ - وإِنَّمَا هُوَ تَعَلُّمٌ مِنْ ذِي عِلْمٍ - وإِنَّمَا عِلْمُ الْغَيْبِ عِلْمُ السَّاعَةِ - ومَا عَدَّدَه اللَّه سُبْحَانَه بِقَوْلِه –( إِنَّ الله عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ - ويُنَزِّلُ الْغَيْثَ ويَعْلَمُ ما فِي الأَرْحامِ - وما تَدْرِي نَفْسٌ ما ذا تَكْسِبُ غَداً - وما تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ) الآيَةَ - فَيَعْلَمُ اللَّه سُبْحَانَه مَا فِي الأَرْحَامِ - مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وقَبِيحٍ أَوْ جَمِيلٍ - وسَخِيٍّ أَوْ بَخِيلٍ - وشَقِيٍّ أَوْ سَعِيدٍ - ومَنْ يَكُونُ فِي النَّارِ حَطَباً - أَوْ فِي الْجِنَانِ لِلنَّبِيِّينَ مُرَافِقاً - فَهَذَا عِلْمُ الْغَيْبِ الَّذِي لَا يَعْلَمُه أَحَدٌ إِلَّا اللَّه - ومَا سِوَى ذَلِكَ فَعِلْمٌ - عَلَّمَه اللَّه نَبِيَّه فَعَلَّمَنِيه - ودَعَا لِي بِأَنْ يَعِيَه صَدْرِي - وتَضْطَمَّ عَلَيْه جَوَانِحِي

اوراب بھاگنے والے قیدیوں سے کم ہوں گے ( یہ تاتاریوں کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے جہاں چنگیز خاں اور اس کی قوم نے تمام اسلامی ملکوں کو تباہ و برباد کردیا اور کتے' سور کو اپنی غذا بنا کر ایسے حملے کئے کہ شہروں کو خاک میں ملا دیا) یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ آپ تو علم غیب کی باتیں کر رہے ہیں تو آپ نے مسکرا کر اس کلبی شخص سے فرمایا اے برادر کلبی! یہ علم غیب نہیں ہے بلکہ صاحب علم سے تعلم ہے۔علم غیب قیامت کا اور ان چیزوں کا علم ہے جن کو خدانے قرآن مجید میں شمار کردیا ہے کہ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اور بارش کابرسانے والا وہی ہے اور پیٹ میں پلنے والے بچہ کا مقدر وہی جانتا ہے۔اس کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم ہے کہ کل کیا کمائے گا اور کس سر زمین پرموت آئے گی۔ پروردگار جانتا ہے کہ رحم کا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی حسین ہے یا قبیح' سخی ہے یا بخیل' شقی ہے یا سعید' کون جہنم کا کندہ بن جائے گا اور کون جنت میں ابنیاء کرام کا ہمنشین ہوگا۔یہ وہ علم غیب ہے جسے خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔اس کے علاوہ جو بھی علم ہے وہ ایسا علم ہے جسے اللہ نے پیغمبر (ص) کو تعلیم دیا ہے اور انہوں نے مجھے اس کی تعلیم دی ہے اورمیرے حق میں دعا کی ہے کہ میرا سینہ اسے محفوظ کرلے اور اس دل میں اسے محفوظ کردے جومیرے پہلو میں ہے۔

۲۳۰

(۱۲۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكر المكاييل والموازين

عِبَادَ اللَّه إِنَّكُمْ ومَا تَأْمُلُونَ - مِنْ هَذِه الدُّنْيَا أَثْوِيَاءُ مُؤَجَّلُونَ - ومَدِينُونَ مُقْتَضَوْنَ أَجَلٌ مَنْقُوصٌ - وعَمَلٌ مَحْفُوظٌ - فَرُبَّ دَائِبٍ مُضَيَّعٌ ورُبَّ كَادِحٍ خَاسِرٌ - وقَدْ أَصْبَحْتُمْ فِي زَمَنٍ لَا يَزْدَادُ الْخَيْرُ فِيه إِلَّا إِدْبَاراً - ولَا الشَّرُّ فِيه إِلَّا إِقْبَالًا - ولَا الشَّيْطَانُ فِي هَلَاكِ النَّاسِ إِلَّا طَمَعاً - فَهَذَا أَوَانٌ قَوِيَتْ عُدَّتُه - وعَمَّتْ مَكِيدَتُه وأَمْكَنَتْ فَرِيسَتُه - اضْرِبْ بِطَرْفِكَ حَيْثُ شِئْتَ مِنَ النَّاسِ - فَهَلْ تُبْصِرُ إِلَّا فَقِيراً يُكَابِدُ فَقْراً - أَوْ غَنِيّاً بَدَّلَ نِعْمَةَ اللَّه كُفْراً - أَوْ بَخِيلًا اتَّخَذَ الْبُخْلَ بِحَقِّ اللَّه وَفْراً - أَوْ مُتَمَرِّداً كَأَنَّ بِأُذُنِه عَنْ سَمْعِ الْمَوَاعِظِ وَقْراً - أَيْنَ أَخْيَارُكُمْ وصُلَحَاؤُكُمْ - وأَيْنَ أَحْرَارُكُمْ وسُمَحَاؤُكُمْ - وأَيْنَ الْمُتَوَرِّعُونَ فِي مَكَاسِبِهِمْ - والْمُتَنَزِّهُونَ فِي مَذَاهِبِهِمْ - أَلَيْسَ قَدْ ظَعَنُوا جَمِيعاً - عَنْ هَذِه الدُّنْيَا الدَّنِيَّةِ -

(۱۲۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(ناپ تول کے بارے میں )

اللہ کے بندو! تم اور جو کچھ اس دنیا سے توقع رکھتے ہو سب ایک مقررہ مدت کے مہمان ہیں اور ایسے قرضدار ہیں جن سے قرضہ کامطالبہ ہو رہا ہو۔عمریں گھٹ رہی ہیں اور اعمال محفوظ کئے جا رہے ہیں۔کتنے دوڑ دھوپ کرنے والے ہیں جن کی محنت برباد ہو رہی ہے اور کتنے کوشش کرنے والے ہیں جو مسلسل گھاٹے کاشکار ہیں تم ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے ہو جس میں نیکی مسلسل منہ پھیر کر جا رہی ہے اور برائی برابر سامنے آرہی ہے۔شیطان لوگوں کو تباہ کرنے کی ہوس میں لگا ہوا ہے۔اس کا سازو سامان مستحکم ہو چکا ہے۔اس کی سازشیں عام ہو چکی ہیں اور اس کے شکار اس کے قابو میں ہیں۔تم جدھر چاہو نگاہ اٹھا کر دیکھ لو سوائے اس فقیر کے جو فقر کی مصیبتیں جھیل رہا ہے اور اس امیر کے جس نے نعمت خدا کی نا شکری کی ہے اور اس بخیل کے جس نے حق خدا میں بخل ہی کو مال کے اضافہ کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اس سرکش کے جس کے کان نصیحتوں کے لئے بہترے ہوگئے ہیں اور کچھ نظرنہیں آئے گا۔کہاں چلے گئے وہ نیک اور صالح بندے اور کدھر ہیں وہ شریف اور کریم النفس لوگ ۔کہاں ہیں وہ افراد جو کسب معاش میں احتیاط برتنے والے تھے اور راستوں میں پاکیزہ راستہ اختیار کرنے والے تھے کیا سب کے سب اس پست اور زندگی کو مکدربنا دینے والی دنیا سے نہیں چلے گئے

۲۳۱

والْعَاجِلَةِ الْمُنَغِّصَةِ - وهَلْ خُلِقْتُمْ إِلَّا فِي حُثَالَةٍ - لَا تَلْتَقِي إِلَّا بِذَمِّهِمُ الشَّفَتَانِ - اسْتِصْغَاراً لِقَدْرِهِمْ وذَهَاباً عَنْ ذِكْرِهِمْ - فَ «إِنَّا لِلَّه وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ» - ظَهَرَ الْفَسَادُ فَلَا مُنْكِرٌ مُغَيِّرٌ - ولَا زَاجِرٌ مُزْدَجِرٌ - أَفَبِهَذَا تُرِيدُونَ أَنْ تُجَاوِرُوا اللَّه فِي دَارِ قُدْسِه - وتَكُونُوا أَعَزَّ أَوْلِيَائِه عِنْدَه - هَيْهَاتَ لَا يُخْدَعُ اللَّه عَنْ جَنَّتِه - ولَا تُنَالُ مَرْضَاتُه إِلَّا بِطَاعَتِه - لَعَنَ اللَّه الآمِرِينَ بِالْمَعْرُوفِ التَّارِكِينَ لَه - والنَّاهِينَ عَنِ الْمُنْكَرِ الْعَامِلِينَ بِه.

(۱۳۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لأبي ذر رحمهالله - لما أخرج إلى الربذة

يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ غَضِبْتَ لِلَّه فَارْجُ مَنْ غَضِبْتَ لَه - إِنَّ الْقَوْمَ خَافُوكَ عَلَى دُنْيَاهُمْ وخِفْتَهُمْ عَلَى دِينِكَ - فَاتْرُكْ فِي أَيْدِيهِمْ مَا خَافُوكَ عَلَيْه - واهْرُبْ مِنْهُمْ بِمَا خِفْتَهُمْ عَلَيْه - فَمَا أَحْوَجَهُمْ إِلَى مَا مَنَعْتَهُمْ -

اور کیا تمہیں ایسے افراد میں نہیں چھوڑ گئے جن کی حقارت اور جن کے ذکر سے اعراض کی بنا پر ہونٹ سوائے ان کی مذمت کے کسی بات کے لئے آپس میں نہیں ملتے ہیں۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔فساد اس قدر پھیل چکا ہے کہ نہ کوئی حالات کا بدلنے والاہے اور نہ کوئی منع کرنے والا اور نہخود پر پرہیز کرنے والا ہے۔تو کیا تم انہیں حالات کے ذریعہ خدا کے مقدس جوارمیں رہنا چاہیے ہو اوراس کے عزیز ترین دوست بننا چاہتے ہو۔افسوس ! اللہ کو جنت کے بارے میں دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی مرضی کو اطاعت کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے۔اللہ لعنت کرے ان لوگوں پر جو دوسروں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور خود عمل نہیں کرتے ہیں ۔سماج کو برائیوں سے روکتے ہیں اور خود انہیں میں مبتلا ہیں۔

(۱۳۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو آپ نے ابو ذر غفاری سے فرمایا جب انہیں ربذہ کی طرف شہر بدر کردیا گیا )

ابو ذر تمہارا غیظ و غضب اللہ کے لئے ہے لہٰذا اس سے امید وابستہ رکھو جس کے لئے یہ غیظ و غضب اختیار کیا ہے۔قوم کو تم سے اپنی دنیاکے بارے میں خطرہ تھا اور تمہیں ان سے اپنے دین کے بارے میں خوف تھا لہٰذا جس کا انہیں خطرہ تھا وہ ان کے لئے چھوڑ دو اور جس کے لئے تمہیں خوف تھا اسے بچاکرنکل جائو۔یہ لوگ بہر حال اس کے محتاج ہیں جس کو تم نے ان سے روکا ہے

۲۳۲

ومَا أَغْنَاكَ عَمَّا مَنَعُوكَ - وسَتَعْلَمُ مَنِ الرَّابِحُ غَداً والأَكْثَرُ حُسَّداً - ولَوْ أَنَّ السَّمَاوَاتِ والأَرَضِينَ كَانَتَا عَلَى عَبْدٍ رَتْقاً - ثُمَّ اتَّقَى اللَّه لَجَعَلَ اللَّه لَه مِنْهُمَا مَخْرَجاً - لَا يُؤْنِسَنَّكَ إِلَّا الْحَقُّ - ولَا يُوحِشَنَّكَ إِلَّا الْبَاطِلُ - فَلَوْ قَبِلْتَ دُنْيَاهُمْ لأَحَبُّوكَ - ولَوْ قَرَضْتَ مِنْهَا لأَمَّنُوكَ.

(۱۳۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه يبين سبب طلبه الحكم ويصف الإمام الحق

أَيَّتُهَا النُّفُوسُ الْمُخْتَلِفَةُ والْقُلُوبُ الْمُتَشَتِّتَةُ - الشَّاهِدَةُ أَبْدَانُهُمْ والْغَائِبَةُ عَنْهُمْ عُقُولُهُمْ - أَظْأَرُكُمْ عَلَى الْحَقِّ - وأَنْتُمْ تَنْفِرُونَ عَنْه نُفُورَ الْمِعْزَى مِنْ وَعْوَعَةِ الأَسَدِ - هَيْهَاتَ أَنْ أَطْلَعَ بِكُمْ سَرَارَ الْعَدْلِ - أَوْ أُقِيمَ اعْوِجَاجَ الْحَقِّ - اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ - أَنَّه لَمْ يَكُنِ الَّذِي كَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِي سُلْطَانٍ - ولَا الْتِمَاسَ شَيْءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ - ولَكِنْ لِنَرِدَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ -

اورتم اس سے بہرحال بے نیاز ہو جس سے ان لوگوں نے تمہیں محروم کیا ہے عنقریب یہ معلوم ہو جائے گا کہ فائدہ میں کون رہا اور کس سے حسد کرنے والے زیادہ ہیں۔یاد رکھو کہ کسی بندہ خدا پر اگر زمین وآسمان دونوں کے راستے بند ہوجائیں اور وہ تقوائے الٰہی اختیار کرلے تو اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال دے گا۔دیکھو تمہیں صرف حق سے انس اور باطل سے وحشت ہونی چاہیے تم اگر ان کی دنیا کو قبول کر لیتے تو یہ تم سے محبت کرتے اور اگردنیا میں سے اپنا حصہ لے لیتے تو تمہاری طرف سے مطمئن ہو جاتے ۔

(۱۳۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اپنی حکومت طلبی کا سبب بیان فرمایا ہے اور امام بر حق کے اوصاف کا تذکرہ کیا ہے )

اے وہ لوگو جن کے نفس مختلف ہیں اوردل متفرق۔بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب ۔میں تمہیں مہرانی کے ساتھ حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس طرح فرار کر تے ہو جیسے شیر کی ڈرکار سے بکریاں۔افسوس تمہارے ذریعہ عدل کی تاریکیوں کو کیسے روشن کیا جا سکتا ہے اور حق میں پیداہو جانے والی کجی کو کس طرح سیدھا کیا جا سکتا ہے۔خدایا تو جانتا ہے کہ میں نے حکومت کے بارے میں جو اقدام کیا ہے اس میں نہ سلطنت کی لالچ تھی اور نہمالی دنیا کی تلاش۔میرا مقصد صرف یہ تھا کہ دین کے آثارکو ان کی منزل تک پہنچائوں

۲۳۳

ونُظْهِرَ الإِصْلَاحَ فِي بِلَادِكَ - فَيَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ - وتُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ - اللَّهُمَّ إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَنَابَ - وسَمِعَ وأَجَابَ - لَمْ يَسْبِقْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّه بِالصَّلَاةِ.

وقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّه لَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ الْوَالِي عَلَى الْفُرُوجِ - والدِّمَاءِ والْمَغَانِمِ والأَحْكَامِ - وإِمَامَةِ الْمُسْلِمِينَ الْبَخِيلُ - فَتَكُونَ فِي أَمْوَالِهِمْ نَهْمَتُه - ولَا الْجَاهِلُ فَيُضِلَّهُمْ بِجَهْلِه - ولَا الْجَافِي فَيَقْطَعَهُمْ بِجَفَائِه - ولَا الْحَائِفُ لِلدُّوَلِ فَيَتَّخِذَ قَوْماً دُونَ قَوْمٍ - ولَا الْمُرْتَشِي فِي الْحُكْمِ - فَيَذْهَبَ بِالْحُقُوقِ - ويَقِفَ بِهَا دُونَ الْمَقَاطِعِ - ولَا الْمُعَطِّلُ لِلسُّنَّةِ فَيُهْلِكَ الأُمَّةَ.

(۱۳۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يعظ فيها ويزهد في الدنيا

حمد اللَّه

نَحْمَدُه عَلَى مَا أَخَذَ وأَعْطَى -

اور شہروں میں اصلاح پیدا کردوں تاکہ مظلوم بندے محفوظ ہو جائیں اور معطل حدود قائم ہو جائیں۔خدایا تجھے معلوم ہے کہ میں نے سب سے پہلے تیریر طرف رخ کیا ہے۔تیری آواز سنی ہے اوراسے قبول کیا ہے اور تیری بندگی میں رسول اکرم (ص) کے علاوہ کسی نے بھی مجھ پرسبقت نہیں کی ہے۔

تم لوگوں کو معلوم ہے کہ لوگوں کی آبرو۔ ان کی جان۔ان کے منافع۔الٰہی احکام اور امامت مسلمین کاذمہ دار نہ کوئی بخیل ہو سکتا ہے کہ وہ اموال مسلمین پر ہمیشہ دانت لگائے رہے گا۔اور نہ کوئی جاہل ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی جہالت سے لوگوں کو گمراہ کردے گا اور نہ کوئی بد اخلاق ہو سکتا ہے کہ وہ بد اخلاقی کے چر کے لگاتا رہے گا اور نہ کوئی مالیات کابددیانت ہوسکتا ہے کہوہ ایک کو مال دے گا اور ایک کومحروم کردے گا اورنہ کوئی فیصلہ میں رشوت لینے والا ہو سکتا ہے کہ وہ حقوق کو برباد کردے گا اور انہیں ان کی منزل تک نہ پہنچنے دے گا اور نہ کوئی سنت کو معطل کرنے والا ہوسکتا ہے کہ وہ امت کو ہلاک و برباد کردے گا۔

(۱۳۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کو نصیحت فرمائی ہے اور زہد کی ترغیب دی ہے )

شکر ہے خدا کا اس پر بھی جو دیا ہے اور اس پر بھی جولے لیا ہے ۔اس کے انعام پر بھی

۲۳۴

وعَلَى مَا أَبْلَى وابْتَلَى – الْبَاطِنُ لِكُلِّ خَفِيَّةٍ - والْحَاضِرُ لِكُلِّ سَرِيرَةٍ - الْعَالِمُ بِمَا تُكِنُّ الصُّدُورُ - ومَا تَخُونُ الْعُيُونُ - ونَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه غَيْرُه - وأَنَّ مُحَمَّداً نَجِيبُه وبَعِيثُه - شَهَادَةً يُوَافِقُ فِيهَا السِّرُّ الإِعْلَانَ والْقَلْبُ اللِّسَانَ.

عظة الناس

ومنها: فَإِنَّه واللَّه الْجِدُّ لَا اللَّعِبُ - والْحَقُّ لَا الْكَذِبُ - ومَا هُوَ إِلَّا الْمَوْتُ أَسْمَعَ دَاعِيه - وأَعْجَلَ حَادِيه - فَلَا يَغُرَّنَّكَ سَوَادُ النَّاسِ مِنْ نَفْسِكَ - وقَدْ رَأَيْتَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ - مِمَّنْ جَمَعَ الْمَالَ وحَذِرَ الإِقْلَالَ - وأَمِنَ الْعَوَاقِبَ طُولَ أَمَلٍ واسْتِبْعَادَ أَجَلٍ - كَيْفَ نَزَلَ بِه الْمَوْتُ فَأَزْعَجَه عَنْ وَطَنِه - وأَخَذَه مِنْ مَأْمَنِه - مَحْمُولًا عَلَى أَعْوَادِ الْمَنَايَا - يَتَعَاطَى بِه الرِّجَالُ الرِّجَالَ - حَمْلًا عَلَى الْمَنَاكِبِ - وإِمْسَاكاً بِالأَنَامِلِ - أَمَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَأْمُلُونَ بَعِيداً - ويَبْنُونَ مَشِيداً ويَجْمَعُونَ كَثِيراً - كَيْفَ أَصْبَحَتْ بُيُوتُهُمْ قُبُوراً - ومَا جَمَعُوا بُوراً - وصَارَتْ أَمْوَالُهُمْ لِلْوَارِثِينَ - وأَزْوَاجُهُمْ لِقَوْمٍ آخَرِينَ - لَا فِي حَسَنَةٍ يَزِيدُونَ

اور اس کے امتحان پربھی۔وہ ہر مخفی چیز کے اندر کابھی علم رکھتا ہے اور ہر پوشیدہ امر کے لئے حاضر بھی ہے۔دلوں کے اندر چھپے ہوئے اسرار اورآنکھوں کی خیانت سب کو بخوبی جانتا ہے اورمیں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور حضرت محمد (ص)اس کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور اس گواہی میں باطن ظاہر سے اور دل زبان سے ہم آہنگ ہے۔

خدا کی قسم وہ شے جو حقیقت ہے اورکھیل تماشہ نہیں ہے۔حق ہے اور جھوٹ نہیں ہے وہ صرف موت ہے جس کے داعی نے اپنی آواز سب کو سنا دی ہے اورجس کا ہنکانے والا جلدی مچائے ہوئے ہے لہٰذا خبردار لوگوں کی کثرت تمہارے نفس کو دھوکہ میں نہ ڈال دے۔تم دیکھ چکے ہو کہ تم سے پہلے والوں نے مالک جمع کیا۔افلاس سے خوفزدہ رہے۔انجام سے بے خبر رہے۔صرف لمبی لمبی امیدوں اور موت کی تاخیر کے خیال میں رہے اورایک مرتبہ موت نازل ہوگئی اور اس نے انہیں وطن سے بے وطن کردیا ۔محفوظ مقامات سے گرفتار کرلیا اور تابوت پر اٹھوادیا جہاں لوگ کاندھوں پر اٹھائے ہوئے۔انگلیوں کاسہارا دئیے ہوئے ایک دوسرے کے حوالے کر رہے تھے۔کیاتم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دور دراز امیدیں رکھتے تھے اورمستحکم مکانات بناتے تھے اوربے تحاشہ مال جمع کرتے تھے کہ کس طرح ان کے گھر قبروں میں تبدیل ہوگئے اورسب کیا دھرا تباہ ہوگیا۔اب اموال ورثہ کے لئے ہیں اور ازواج دوسرے لوگوں کے لئے نہ نیکیوں میں اضافہ کر سکتے ہیں

۲۳۵

ولَا مِنْ سَيِّئَةٍ يَسْتَعْتِبُونَ - فَمَنْ أَشْعَرَ التَّقْوَى قَلْبَه بَرَّزَ مَهَلُه - وفَازَ عَمَلُه فَاهْتَبِلُوا هَبَلَهَا - واعْمَلُوا لِلْجَنَّةِ عَمَلَهَا - فَإِنَّ الدُّنْيَا لَمْ تُخْلَقْ لَكُمْ دَارَ مُقَامٍ - بَلْ خُلِقَتْ لَكُمْ مَجَازاً - لِتَزَوَّدُوا مِنْهَا الأَعْمَالَ إِلَى دَارِ الْقَرَارِ - فَكُونُوا مِنْهَا عَلَى أَوْفَازٍ - وقَرِّبُوا الظُّهُورَ لِلزِّيَالِ

(۱۳۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يعظم اللَّه سبحانه ويذكر القرآن والنبي ويعظ الناس

عظمة اللَّه تعالى

وانْقَادَتْ لَه الدُّنْيَا والآخِرَةُ بِأَزِمَّتِهَا - وقَذَفَتْ إِلَيْه السَّمَاوَاتُ والأَرَضُونَ مَقَالِيدَهَا - وسَجَدَتْ لَه بِالْغُدُوِّ والآصَالِ الأَشْجَارُ النَّاضِرَةُ - وقَدَحَتْ لَه مِنْ قُضْبَانِهَا النِّيرَانَ الْمُضِيئَةَ - وآتَتْ أُكُلَهَا بِكَلِمَاتِه الثِّمَارُ الْيَانِعَةُ.

اور نہ برائیوں کے سلسلہ میں رضائے الٰہی کا سامان فراہم کر سکتے ہیں۔یاد رکھو جس نے تقویٰ کو شعار بنالیا وہی آگے نکل گیا اور اسی کا عمل کامیاب ہوگیا۔لہٰذا تقوی کے موقع کو غنیمت سمجھ اور جنت کے لئے اس کے اعمال انجام دے لو۔یہ دنیا تمہارے قیام(۱) کی جگہ نہیں ہے۔یہ فقط ایک گزر گاہ ہے کہ یہاں سے ہمیشگی کے مکان کے لئے سامان فراہم کرلو لہٰذا جلدی تیاری کرو اور سواریوں کو کوچ کے لئے اپنے سے قریب تر کرلو۔

(۱۳۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں اللہ کی عظمت اور قرآن کی جلالت کا ذکر ہے اور پھر لوگوں کو نصیحت بھی کی گئی ہے )

(پروردگار ) دنیا و آخرت دونوں نے اپنی باگ ڈور اسی کے حوالہ کر رکھی ہے اور زمین و آسمان نے اپنی کنجیاں اسی کی خدمت میں پیش کردی ہیں۔اس کی بارگاہ میں صبح و شام سر سبز شاداب درخت سجدہ ریز رہتے ہیں اور اپنی لکڑی سے چمکدار آگ نکالتے رہتے ہیں اور اسی کے حکم کے مطابق پکے ہوئے پھل پیش کر تے رہتے ہیں۔

(۱)انسانی زندگی میں کامیابی کا راز یہی ایک نکتہ ہے کہ یہ دنیا انسان کی منزل نہیں ہے بلکہ ایک گذر گاہ ہے جس سے گزر کر ایک عظیم منزل کی طرف جانا ہے اور یہ مالک کا کرم ہے کہ اس نے یہاں سے سامان فراہم کرنے کی اجازت دیدی ہے اور یہاں کے سامان کو وہاں کے لئے کارآمد بنادیا ہے۔یہ اوربات ہے کہ دونوں جگہ کا فرق یہ ہے کہ یہاں کے لئے سامان رکھاجاتا ہے تو کام آتا ہے اور وہاں کے لئے راہ خدا میں دے دیا جاتا ہے تو کام آتا ہے۔غنی اورمالداردنیا سجا سکتے ہیں لیکن آخرت نہیں بنا سکتے ہیں ۔وہ صرف کریم اور صاحب خیر افراد کے لئے ہے جن کاشعار تقویٰ ہے اور جن کا اعتماد وعدہ ٔ الٰہی پر ہے۔

۲۳۶

القرآن

منها: وكِتَابُ اللَّه بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ - نَاطِقٌ لَا يَعْيَا لِسَانُه - وبَيْتٌ لَا تُهْدَمُ أَرْكَانُه - وعِزٌّ لَا تُهْزَمُ أَعْوَانُه.

رسول اللَّه

منها: أَرْسَلَه عَلَى حِينِ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ - وتَنَازُعٍ مِنَ الأَلْسُنِ - فَقَفَّى بِه الرُّسُلَ وخَتَمَ بِه الْوَحْيَ - فَجَاهَدَ فِي اللَّه الْمُدْبِرِينَ عَنْه والْعَادِلِينَ بِه.

الدنيا

منها: وإِنَّمَا الدُّنْيَا مُنْتَهَى بَصَرِ الأَعْمَى - لَا يُبْصِرُ مِمَّا وَرَاءَهَا شَيْئاً - والْبَصِيرُ يَنْفُذُهَا بَصَرُه - ويَعْلَمُ أَنَّ الدَّارَ وَرَاءَهَا - فَالْبَصِيرُ مِنْهَا

شَاخِصٌ - والأَعْمَى إِلَيْهَا شَاخِصٌ - والْبَصِيرُ مِنْهَا مُتَزَوِّدٌ - والأَعْمَى لَهَا مُتَزَوِّدٌ.

عظة الناس

منها: واعْلَمُوا أَنَّه لَيْسَ مِنْ شَيْءٍ - إِلَّا ويَكَادُ صَاحِبُه يَشْبَعُ مِنْه - ويَمَلُّه إِلَّا الْحَيَاةَ فَإِنَّه لَا يَجِدُ فِي الْمَوْتِ رَاحَةً -

(قرآن حکیم)

کتاب خدا نگاہ کے سامنے ہے۔یہ وہ ناطق ہے جس کی زبان عاجز نہیں ہوتی ہے اور یہ وہ گھر ہے جس کے ارکان منہدم نہیں ہوتے ہیں۔یہی وہ عزت ہے جس کے اعوان و انصار شکست خوردہ نہیں ہوتے ہیں۔

(رسول اکرم (ص))

اللہ نے آپ کو اس وقت بھیجا جب رسولوں کا سلسلہ رکا ہوا تھا اور زبانیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں۔آپ کے ذریعہ رسولوں کے سلسلہ کو تمام کیا اور وحی کے سلسلہ کو موقوف کیا تو آپ نے بھی اس سے انحراف کرنے والوں اور اس کاہمسرٹھہرانے والوں سے جم کر جہاد کیا۔

(دنیا)

یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ہے جو اس کے ماوراء کچھ نہیں دیکھتا ہے جب کہ صاحب بصیرت کی نگاہ اس پار نکل جاتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ منزل اس کے ماورا ہے۔صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنے والا ہے اور اندھا اس کی طرف کوچ کرنے والا ہے۔بصیرا اس سے زاد راہ فراہم کرنے والا ہے اور اندھا اس کے لئے زاد راہ اکٹھا کرنے والا ہے ۔

(موعظہ)

یاد رکھو کہ دنیا میں جو شے بھی ہے اس کامالک سیر ہوجاتا ہے اور اکتا جاتا ہے علاوہ زندگی کے کہ کوئی شخص موت میں راحت نہیں محسوس کرتا ہے

۲۳۷

وإِنَّمَا ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الْحِكْمَةِ - الَّتِي هِيَ حَيَاةٌ لِلْقَلْبِ الْمَيِّتِ - وبَصَرٌ لِلْعَيْنِ الْعَمْيَاءِ - وسَمْعٌ لِلأُذُنِ الصَّمَّاءِ - ورِيٌّ لِلظَّمْآنِ وفِيهَا الْغِنَى كُلُّه والسَّلَامَةُ - كِتَابُ اللَّه تُبْصِرُونَ بِه - وتَنْطِقُونَ بِه وتَسْمَعُونَ بِه - ويَنْطِقُ بَعْضُه بِبَعْضٍ - ويَشْهَدُ بَعْضُه عَلَى بَعْضٍ - ولَا يَخْتَلِفُ فِي اللَّه - ولَا يُخَالِفُ بِصَاحِبِه عَنِ اللَّه - قَدِ اصْطَلَحْتُمْ عَلَى الْغِلِّ فِيمَا بَيْنَكُمْ - ونَبَتَ الْمَرْعَى عَلَى دِمَنِكُمْ - وتَصَافَيْتُمْ عَلَى حُبِّ الآمَالِ - وتَعَادَيْتُمْ فِي كَسْبِ الأَمْوَالِ - لَقَدِ اسْتَهَامَ بِكُمُ الْخَبِيثُ وتَاه بِكُمُ الْغُرُورُ - واللَّه الْمُسْتَعَانُ عَلَى نَفْسِي وأَنْفُسِكُمْ.

(۱۳۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد شاوره عمر بن الخطاب في الخروج إلى غزو الروم

وقَدْ تَوَكَّلَ اللَّه - لأَهْلِ هَذَا الدِّينِ بِإِعْزَازِ الْحَوْزَةِ

اور یہ بات اس حکمت(۱) کی طرح ہے جس میں مردہ دلوں کیزندگی ، اندھی آنکھوں کی بصارت ' بہرے کانوں کی سماعت اور پیاسے کی سیرابی کا سامان ہے اور اسی میں ساری مالداری ہے اور مکمل سلامتی ہے۔ یہ کتاب خدا ہے جس میں تمہاری بصارت اور سماعت کا سارا سامان موجود ہے۔اس میں ایک حصہ دوسرے کی وضاحت کرتا ہے اور ایک دوسرے کی گواہی دیتا ہے۔یہ خدا کے بارے میں اختلاف نہیں رکھتا ہے اور اپنے ساتھی کو خدا سے الگ نہیں کرتا ہے۔مگر تم نے آپس میں کینہ و حسد پر اتفاق کرلیا ہے اور اسی گھورےپر پر سبزہ اگ آیا ہے۔امیدوں کی محبت میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوا اور مال جمع کرنے میں یک دوسرے کے دشمن ہو۔شیطان نے تمہیں سر گرداں کردیا ہے اورفریب نے تم کو بہکا دیا ہے۔اب اللہ ہی میرے اور تمہارے نفسوں کے مقابلہ میں ایک سہارا ہے۔

(۱۳۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب عمر نے روم کی جنگ کے بارے میں آپ سے مشورہ کیا)

اللہ نے صاحبا ن دین کے لئے یہ ذمہ داری لے لی ہے کہ وہ ان کے حدود کو تقویت دے گا

(۱)اگرچہ دنیامیں زندہ رہنے کی خواہش عام طور سے آخرت کے خوف سے پیدا ہوتی ہے کہ انسان اپنے اعمال اور انجام کی طرف سے مطمئن نہیں ہوتا ہے اور اسی لئے موت کے تصور سے لرز جاتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ خواہش عیب نہیں ہے بلکہ یہی جذبہ ہے جو انسان کو عمل کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور اسی کے لئے انسان دن اور رات کوایک کردیتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خواہش حیات کو حکمت کے ساتھ استعمال کرے اور اس سے ویسا ہی کام لے جو حکمت صحیح اورف کر سلیم سے لیا جاتا ہے ورنہ یہی خواہش و بال جان بھی بن سکتی ہے۔

۲۳۸

وسَتْرِ الْعَوْرَةِ. والَّذِي نَصَرَهُمْ - وهُمْ قَلِيلٌ لَا يَنْتَصِرُونَ - ومَنَعَهُمْ وهُمْ قَلِيلٌ لَا يَمْتَنِعُونَ - حَيٌّ لَا يَمُوتُ.

إِنَّكَ مَتَى تَسِرْ إِلَى هَذَا الْعَدُوِّ بِنَفْسِكَ - فَتَلْقَهُمْ فَتُنْكَبْ - لَا تَكُنْ لِلْمُسْلِمِينَ كَانِفَةٌ دُونَ أَقْصَى بِلَادِهِمْ - لَيْسَ بَعْدَكَ مَرْجِعٌ يَرْجِعُونَ إِلَيْه - فَابْعَثْ إِلَيْهِمْ رَجُلًا مِحْرَباً - واحْفِزْ مَعَه أَهْلَ الْبَلَاءِ والنَّصِيحَةِ - فَإِنْ أَظْهَرَ اللَّه فَذَاكَ مَا تُحِبُّ - وإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى - كُنْتَ رِدْءاً لِلنَّاسِ ومَثَابَةً لِلْمُسْلِمِينَ.

(۱۳۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد وقعت مشاجرة بينه وبين عثمان فقال المغيرة بن الأخنس لعثمان: أنا أكفيكه، فقال عليعليه‌السلام للمغيرة:

اور ان کے محفوظ مقامات کی حفاظت کرے گا۔اور جس نے ان کی اس وقت مدد کی ہے جب وہ قلت کی بنا پر انتقام کے قابل بھی نہ تے اور اپنی حفاظت کا انتظام بھی نہ کر سکتے تھے وہ ابھی بھی زندہ ہے اور اس کے لئے موت نہیں ہے۔تم اگر خود دشمن کی طرف جائو گے اور ان کا سامنا کروگے اور نکبت(۱) میں مبتلا ہوگئے تو مسلمانوں کے لئے آخری شہرکے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہ رہ جائے گی اور تمہارے بعد میدان میں کوئی مرکز بھی نہ رہ جائے گا جس کی طرف رجوع کرسکیں لہٰذا مناسب یہی ہے کہ کسی تجربہ کارآدمی کو بھیج دو اور اس کے ساتھ صاحبان خیرو مہارت کی ایک جماعت کو کردو۔اس کے بعداگر خدا نے غلبہ دے دیا تویہی تمہارامقصد ہے اور اگر اس کے خلاف ہوگیا تو تم لوگوں کا سہارااورمسلمانوں کےلئے ایک پلٹنےکا مرکز رہو گے۔

(۱۳۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کااورعثمان کے درمیان اختلافات پیداہوا اورمغیرہ بن اخنس نے عثمان سے کہا کہ میں ان کا کام تمام کرسکتا ہوں توآپ نےفرمایا )

(۱)میدان جنگ میں نکبت و رسوائی کے احتمال کے ساتھ کسی مرد میدان کے بھیجنے کا مشورہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ میدان جہاد میں ثبات قدم تمہاری تاریخ نہیں ہے اور نہ یہ تمہارے بس کاکام ہے لہٰذا مناسب یہی ہے کہکسی تجربہ کارشخص کو ماہرین کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ کردو تاکہ اسلام کی رسوائی نہ ہوسکے اورمذہب کا وقار بر قرار رہے۔اس کے بعد تمہیں ''فاتح اعظم '' کا لقب تو بہر حال مل ہی جائے گا جس کے دورمیں علاقہ فتح ہوتا ہے تاریخ اسی کو فاتح کا لقب دیتی ہے اورمجاہدین کویکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔

یہ بھی امیر المومنین کا ایک حوصلہ تھا کہ شدید اختلافات اور بے پناہ مصائب کے باوجود مشورہ سے دریغ نہیں کیا اور وہی مشورہ دیا جو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں تھا۔اس لئے کہ آپ اس حقیقت سے بہر حال با خبرتھے کہافراد سے اختلاف مقصد اور مذہب کی حفاظت کو ذمہ داری سے بے نیاز نہیں بنا سکتا ہے اور اسلام کے تحفظ کی ذمہ داری ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے چاہے وہ بر سراقتدار ہو یا نہ ہو۔

۲۳۹

يَا ابْنَ اللَّعِينِ الأَبْتَرِ - والشَّجَرَةِ الَّتِي لَا أَصْلَ لَهَا ولَا فَرْعَ - أَنْتَ تَكْفِينِي - فَوَ اللَّه مَا أَعَزَّ اللَّه مَنْ أَنْتَ نَاصِرُه - ولَا قَامَ مَنْ أَنْتَ مُنْهِضُه - اخْرُجْ عَنَّا أَبْعَدَ اللَّه نَوَاكَ ثُمَّ ابْلُغْ جَهْدَكَ - فَلَا أَبْقَى اللَّه عَلَيْكَ إِنْ أَبْقَيْتَ!

(۱۳۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في أمر البيعة

لَمْ تَكُنْ بَيْعَتُكُمْ إِيَّايَ فَلْتَةً - ولَيْسَ أَمْرِي وأَمْرُكُمْ وَاحِداً - إِنِّي أُرِيدُكُمْ لِلَّه وأَنْتُمْ تُرِيدُونَنِي لأَنْفُسِكُمْ.

أَيُّهَا النَّاسُ أَعِينُونِي عَلَى أَنْفُسِكُمْ وايْمُ اللَّه لأُنْصِفَنَّ الْمَظْلُومَ مِنْ ظَالِمِه ولأَقُودَنَّ الظَّالِمَ بِخِزَامَتِه - حَتَّى أُورِدَه مَنْهَلَ الْحَقِّ وإِنْ كَانَ كَارِهاً.

(۱۳۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في شأن طلحة والزبير وفي البيعة له

طلحة والزبير

واللَّه مَا أَنْكَرُوا عَلَيَّ مُنْكَراً - ولَا جَعَلُوا بَيْنِي وبَيْنَهُمْ

اے بد نسل ملعون کے بچے ! اور اس درخت کے پھل جس کی نہ کوئی اصل ہے اور نہ فرع۔تو میرے لئے کافی ہو جائے گا؟ خدا کی قسم جس کا تومدد گار ہوگا اسکے لئے عزت نہیں ہے اور جسے تو اٹھائے گا وہ کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوگا۔نکل جا۔اللہ تیری منزل کو دور کردے۔جا اپنی کوششیں تمام کرلے۔خدا تجھ پر رحم نہ کرے گا اگر تو مجھ پرترس بھی کھائے۔

(۱۳۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(بیعت کے بارے میں )

میرے ہاتھوں پر تمہاری بیعت کوئی نا گہانی حادثہ نہیں ہے۔اور میرا اور تمہارا معاملہ ایک جیسا بھی نہیں ہے۔میں تمہیں اللہ کے لئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے فائدہ کے لئے چاہتے ہو۔

لوگو! اپنی نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں میری مدد کرو۔خدا کی قسم میں مظلوم کوظالم سے اس کاحق دلوائوں گا اور ظالم کو اس کی ناک میں نکیل ڈال کرکھینچوں گا تاکہ اسے چشمہ حق پر وارد کردوں چاہے وہ کسی قدرناراض کیوں نہ ہو۔

(۱۳۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(طلحہ و زبیر اور ان کی بیعت کے بارے میں )

خدا کی قسم ان لوگوں نے نہ میری کسی واقعی برائی کی گرفت کی ہے اورنہ میرے اور اپنے

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

قوم کے خادم ہیں اورمہمانوں کی خاطر و تواضع اور خدمت سے گریز نہیں کرتے، پھر یہ مکان ہمیشہ سے آنے والوں کا مرکز رہا ہے، الخصوص جب سے اس کو یہ رونق عطا کی گئی ہے، علمی صحبت اور دینی و مذہبی بحث ومناظرہ سب کو زیادہ سے زیادہ مسرور متشکر کہ رہا ہے۔

حافظ : باوجودیکہ میرے لیے پشاور میں ٹھہرنا بہت دشوار ہے کیونکہ وطن میں بہت سے کام معطل پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن آپ حضرات کی تعمیل ارشاد کے لیے منظور کرتا ہوں۔ پس اب ہم لوگ انشاء اللہ کل شب تک کےلیے رخصت ہوتے ہیں۔

ساتویں نشست

( شب پنجشنبہ ۲۹ رجب سنہ۱۳۴۵ ہجری)

(شام کے بعد سب حضرات تشریف لائے اور معمولی بات چیت اور چائے نوشی کے بعد مولوی صاحبان کی طرف سے گفتگو شروع ہوئی۔)

سید عبدالحی : ( امام جماعت اہل سنت) قبلہ صاحب چند راتیں قبل آپ نے کچھ بیانات فرمائے تھے۔ جن پر قبلہ جناب حافظ صاحب نے آپ سے دلیل مانگی تھی لیکن آپ نے یا تو حیلہ سازی سے کام لیا یا علمی اصطلاحات سے ہم کو مغالطے میں ڈال دیا اور مطلب خبط ہوگیا۔

خیر طلب : فرمائیے کون سامطلب تھا اور آپ کو کون سا سوال بغیر جواب کے رہ گیا؟ میری نظر میں نہیں ہے آپ یاد دلا دیجئے۔

سید : کیا آپ نے چند شب قبل یہ نہیں فرمایا تھا کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ رسول خدا(ص) کے ساتھ اتحاد نفسانی رکھتے تھے لہذا تمام انبیاء سے افضل تھے؟

خیر طلب: صحیح ہے۔ میرا بیان اور عقیدہ یہی تھا اور ہے۔

سید : پھر آپ نے ہمارے اشکال کا جواب کیوں نہیں دیا؟

خیر طلب : آپ کو سخت غلط فہمی ہے۔ آپ سے تعجب ہے کہ تمام راتوں میں ہمہ تن گوش رہے پھر بھی مجھ کو جلد سازی اور مغالطہ بازی کا الزام دے رہے ہیں۔ کوئی حیلہ اور مغالطہ قطعا نہیں تھا بلکہ بمقتضائے الکلام یجر الکلام بات سے بات نکل آئی تھی۔ اگر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ میں نے کوئی غیر متعلق بات نہیں کہی تھی مولوی صاحبان نے کچھ سوالات کئے

۲۸۱

تھے جن کا جواب دینا میرا فرض تھا۔ اب آپ کا جو سوال ہو بیان فرمائیے میں بتائید الہی جواب کے لیے حاضر ہوں۔

سید : ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ دو ذاتوں کا ؟؟؟ میں متحد ہونا کیونکر ممکن ہے؟ اور پھر ان کے درمیان ایسا نفسانی اتحاد پیدا ہوجائے کہ دونوں ایک ہوجائیں۔

اتحاد مجازی و حقیقی میں فرق

خیر طلب : ظاہر ہے کہ دو ذاتوں کےدرمیان حقیقی اتحاد محال اور باطل ہے ۔ اس کا ناممکن ہونا اپنیجگہ پر ثابت بلکہ بدیہیات اولیہ میں سے ہے۔ پس اتحاد کا دعوی صرف مجاز اور مبالغہ کلام کی حیثیت سے ہے۔

اس لیے کہ دو شخص جب آپس میں شدید محبت یا کسی جہت سے مشابہت رکھتے ہیں تو اکثر اتحاد کا دعوی کرتے ہیں عرب و عجم کے بڑے بڑے۔۔۔۔ ادیبوں اور شاعروں کے کلام میں اس طرح کے مبالغے بہت ہیں یہاں تک کہ اولیائے خدا کے کلمات میں بھی کافی نظر آتے ہیں ۔ من جملہ ان کے حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی طرف منسوب دیوان کے اندر ارشاد ہے۔

هُمُومُ رِجَالٍ فِي أُمُورٍكَثِيرَةٍوَهَمِّي مِنَ الدُّنْيَاصَدِيقٌ مُسَاعِدٌ

يَكُونُ كَرُوحٍ بَيْن َجِسْمَيْنِ قُسِّمَتْ فَجِسْمُهُمَاجِسْمَانِوَالرُّوحُوَاحِدٌ

یعنی مردان عالم کہ ہمتیں بہت سے مختلف امور میں ہوتی ہیں اور میرا مقصد صرف ایک ہمدرد دوست ہے جو دو جسموں میں ایک روح کے مانند ہو۔ پس ہمارے جسم دو ہیں اور روح ایک ہو۔

مجنون عامری کے حالات میں مشہور ہے کہ جب اس کی فصد کھولنا چاہی تو اس نے کہا میری فصد نہ کھولو اور نہ مجھ کو خوف ہے کہ نشر میری لیلی کو لگ جائے گا کیونکہ وہ میری ہر رگ دپے میں پیوست ہے۔ چنانچہ ادیبوں نے اس مطلب کو نظم بھی کیا ہے۔

گفت مجنون من نمی ترسم زینش صبر من از کوہ سنگین است و بیش

لیک از لیلی وجود من پر است این صدف پر از صفات آن در است

وندآن عقلی کہ آن دل روشنی استدرمیان لیلی و من فرق نیست

ترسم اے فصاد چون فصدم کنی نیش را ناگاہ بر لیلی زنی

من کیم لیلی و لیلی کیست من مایکی روحیم اندر دو بدن

روحہ روحی و روحی روحہ من یری الروحین عاشافی البدن

۲۸۲

عربی شعر کا مطلب یہ ہے کہ اس کی روح میری روح اور میری روح اس کی روح ہے۔ کس نے دیکھا ہے کہ دو روحیں ایک ایک بدن میں زندگی بسر کرتی ہوں۔ یعنی در حقیقت ایک روح ہے جو دو بدنوں میں مقیم ہے۔

اگر ارباب ادب کی کتابیں ملاحظہ فرمائیے تو مبالغے کی حیثیت سے مجازا اس قسم کے تعبیرات بکثرت ملیں گے۔ چنانچہ ایک شیرین بیان ادیب اور شاعر نے نظم کیا ہے۔

أنامن أهوى ومنأهوىأنانحنروحانحللنابدنا

فإذاأبصرتنى أبصرته وإذاأبصرته كان أنا

یعنی میں اور میرا معشوق دونوں ایک ہیں۔ ہماری درود ہیں ایک جسم میں حلول کئے ہوئے ہیں۔ لہذا اگر تم نے مجھ کو دیکھا تو اس کو دیکھ لیا اور اگر اس کو دیکھا تو وہ میں ہی ہوں۔

پیغمبر علی(ع) کا اتحاد نفسانی

تمہید میں اس سے زیادہ آپ حضرات کا وقت نہیں لوںگا۔ اب نتیجہ یہ اخذ کرتا ہوں کہ اگر میں نے یہ عرض کیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اتحاد نفسانی رکھتے تھے تو آپ کا خیال اتحاد حقیقی کی طرف نہ جانا چاہئیے کیونکہ کسی نے حقیقی اتحاد کا دعوی نہیں کیا ہے اور اگر کوئی ایسے اتحاد کا قائل ہو تو یہ قطعا غلط اور درجہ اعتبار سے ساقط ہوگا۔ پس یہ اتحاد مجاز کی حیثیت سے ہے نہ کہ حقیقتا اور اس سے روح وکمالات کی شرکت مراد ہے۔ نہ کہ جسم کی اور یہ مسلم ہے کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام تمام فضائل و کمالات اور صفات میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شریک تھے۔ الا ما خرج بالنص والدلیل ( سوا ان چیزوں کے جو نص اور دلیل کے ساتھ مستثنی ہیں۔)

حافظ : پس اس قاعدے کی رو سے محمد(ص) و علی(ع) دونوں کو پیغمبر ہونا چاہئیے اور آپ کی یہ گفتگو ثابت کررہی ہے کہ علی(ع) بھی پیغمبری میں شریک تھے اور لازمی طور سے دونوں پر برابر وحی بھی نازل ہوتی تھی۔

خیر طلب : یہ آپ نے کھلا ہوا مغالطہ دیا ہے۔ جو آپ کہہ رہے ہیں ایسا نہیں ہے۔ ہم یا کوئی شیعہ ہرگز یہ عقیدہ نہیں رکھتا۔ آپ سے یہ امید نہیں تھی کہ کٹ حجتی کر کے جلسے کا وقت ضائع کریں گے تاکہ کہی ہوئی باتیں پھر دہرائی جائیں میں نے ابھی ابھی عرض کیا ہے کہ تمام کمالات میں متحد ہیں الا ما خرج بالنص و الدلیل سوا اس چیز کے جو نص اور دلیل سے مستثنی ہیں اور وہ یہی نبوت خاصہ اور اس کے شرائط کا مقام ہے جس میں احکام اور وحی کانزول بھی ہے۔ غالبا آپ گذشتہ راتوں کے بیانات بھول چکے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو رسائل و اخبارات کی اشاعتیں ملاحظہ فرمالیجئے نظر آجائے گا کہ گذشتہ شبوں میں ہم نے حدیث منزلت کے ضمن میں ثابت کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام منصب نبوت کے اہل تھے

۲۸۳

لیکن خاتم الانبیاء کے دین و شریعت کے پیرو اور پابند تھے لہذا حضرت پر وحی کا نزول نہیں ہوتا تھا اور آپ کی منزلت وہ تھی جو حضرت موسی کے زمانے میں ہارون کو حاصل تھی۔

حافظ : جب آپ جملہ فضائل و کمالات میں شرکت اور برابری کے قائل ہوگئے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نبوت اور شرائط نبوت میں بھی مساوات کا عقیدہ ہونا چاہیئے۔

خیر طلب : بظاہر ممکن ہے ایسا معلوم ہوتا ہو لیکن تھوڑا غور کیجئے گا تو ظاہر ہوجائے گا کہ مطلب اس کے علاوہ ہے جیسا کہ پچھلی راتوں میں ہم ثابت کرچکے ہیں کہ آیات قرآنی کے حکم سے نبوت کے بھی مختلف درجے ہیں اور انبیاء و مرسلین اپنے مراتب کے لحاظ سے ایک دوسرے پر افضلیت رکھتے ہیں چنانچہ قرآن مجید میں صریحا ارشاد ہے " تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنابَعْضَهُمْ عَلى بَعْضٍ " ( یعنی ہم نے انبیاء و مرسلین میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اور تمام مراتب انبیاء سے اکمل نبوت خاصہ محمدیہ کا مرتبہ ہے اس وجہ سے آیت نمبر۴۰ سورہ نمبر ۳۲ ( احزاب) میں ارشاد ہے۔

"ماكانَ مُحَمَّدٌأَباأَحَدٍمِنْ رِجالِكُمْ وَلكِنْ رَسُولَ اللَّه ِوَخاتَمَ النَّبِيِّينَ " ( یعنی محمد(ص) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن خدا کے رسول اور پیغمبروں کے خاتم ہیں۔)

یہی نبوت خاصہ کا کمال ہے جو خاتمیت کا سبب بنا پس اس کمال خصوصی میں کسی اور کو دخل نہیں ہے، لیکن دوسرے کمالات میں شریک یا مساوات پائی جاتی ہے جس کے ثبوت میں بے شمار دلائل و براہین موجود ہیں۔

سید : آیا اس دعوے کے ثبوت میں آپ کے پاس قرآن مجید سے بھی کوئی دلیل ہے؟

آیہ مباہلہ سے استدلال

خیر طلب : کھلی ہوئی بات ہے، البتہ ہماری پہلی دلیل قرآن مجید سے ہے جو ایک مضبوط آسمانی سند ہے۔ اور قرآن مجید میں سب سے بڑی دلیل آیہ مباہلہ ہے جس میں صریحی ارشاد ہے:

"فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِماجاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْانَدْعُ أَبْناءَناوَأَبْناءَكُمْ وَنِساءَناوَنِساءَكُمْ وَأَنْفُسَناوَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبِينَ "

( یعنی پس جو شخص وحی کے ذریعے تمہارے پاس علم آجانے کے بعد عیسی کے بارے میں تم سے مجادلہ کرے تو اس سے کہدو کہ آئو ہم اور تم اپنے بیٹوں اپنی عورتوں اور اپنے اقربا کو جو جان کے برابر ہیں، جمع کر کے آپس میں مباہلہ کریں۔ ( یعنی ایک دوسرے کے لیے نفرین اور بد دعا کریں) تاکہ جھوٹوں کو عذاب خدا میں گرفتار کریں۔)

آیت نمبر۵۴ سورہ نمبر۳ ( آل عمران) آپ کے خاص خاص اور بزرگ علماء و مفسرین جیسے امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں، امام ابو اسحق ثعلبی نے تفسیر کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں، قاضی بیضاوی نے انوار التنزیل میں، جار اللہ زمخشری نے کشاف میں، مسلم بن حجاج نے صحیح میں، ابو الحسن فقیہہ نے ابن مغازلی شافعی واسطی نے مناقب

۲۸۴

میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاء میں، نوالدین مالکی نے فصول المہمہ میں، شیخ الاسلام حموینی نے فرائد میں، ابولمئوئد خوارزمی نے مناقب میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں، محمد بن طلحہ نے مطالب السئول می، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں اور دوسروں نے بھی الفاظ اور عبارت کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ اس آیت کا نزول مباہلے کے روز لکھا ہے جو ذوالحجہ کی چوبیس(۲۴) یا پیچیس (۲۵) تاریخ تھی۔

نصارائے نجران سے پیغمبر(ص) کا مباحثہ

جب خاتم الانبیاء نے نجران کے عیسائیوں کو اسلام کی دعوت دی تو ان کے بڑے بڑے علماء جیسے سید عاقب جاثلیق اور علقمہ وغیرہ جو ستر سے بھی زیادہ تھے اپنے تقریبا تین سو پیروئوں کے ساتھ مدینے آئے اور متعدد نشستون میں پیغمبر(ص) کے ساتھ علمی مناظرے کئے لیکن آنحضرت(ص) کے مفصل اور مضبوط دلائل کے سامنے لا جواب ہوگئے اس لیے کہ آنحضرت(ص) نے ان کی معتبر کتابوں سے اپنی حقانیت اور اس بات پر کہ حضرت عیسی نے آثار اور علامات کے ساتھ آں حضرت(ص) کے آنے کی خبر دی ہے اور نصاری ان اخبار کی روسے ایسے ظہور کے منتظر ہیں کہ اونٹ پر سوار ہو کر ( مکے میں ) فاران کے پہاڑوں سے ظاہر ہو کر عیر اور احد کے ( جو مدینے میں ہے) درمیان ہجرت کریں گے ایسی قوی دلیلیں دین کہ سوا سپر انداختہ ہوجانے کے اور کوئی چارہ نہ تھا لیکن مسند اور اقتدار کی محبت نے قبول نہ کرنے دیا۔ جب انہوں نے اسلام اور معقولیت سے روگردانی کی تو رسول خدا(ص) نے بحکم الہی ان کے سامنے مباہلے کی تجویر رکھی تاکہ سچے اور جھوٹے میں امتیاز ہوجائے، نصاری نے اس کو مان لیا اور یہ امر دوسرے دن پر رکھا گیا۔

مباہلے کے لیے نصاری کی تیاری

حسب وعدہ دوسرے روز عیسائیوں کی ساری جماعت انے ستر نفر سے زیادہ علماء کےساتھ دروازہ مدینہ کے باہر پہاڑ کے کے دامن میں ایک طرف کھڑی ہوئی منظر تھِی کہ رسول اللہ(ص) ان کو مرعوب کرنے کے لیے لازمی طور پر انتہائی شان و شوکت و پورے سازو سامان اور کثیر مجمع کے ساتھ تشریف لائیں گے۔

اتنے میں قلعہ مدینہ کا دروازہ کھلا اور خاتم الانبیاء(ص) اس حالت سے باہر آئے کہ ایک جوان داہنی طرف ایک با وقار برقع پوش عورت بائیں طرف اور دو بچے آگے آگے تھے یہاں تک کہ نصاری کے مقابل ایک درخت کے

۲۸۵

نیچے قیام فرمایا ( اور کوئی دوسرا شخص ان کے ساتھ نہیں آیا تھا) سب سے بڑے نصرانی عالم اسقف نے مترجمین سے پوچھا کہ محمد(ص) کے ہمراہ یہ کون لوگ آئے ہیں؟ انہوں نے کہا وہ جوان ان کا داماد اور پسر عم علی ابن ابی طالب ، وہ عورت ان کی بیٹی فاطمہ(س) اور وہ دو بچے ان کے نواسے حسن (ع) و حسین(ع) ہیں۔

اسقف نے نصرانی عالموں سے کہا کہ دیکھ محمد(ص) کس قدر مطمئن ہیں کہ اپنے فرزندوں اور قریب ترین خاص عزیزوں کو مباہلے میں لاکر معرض بلا میں ڈال دیا ہے قسم خدا کی اگر ان کو اس بارے میں ذرا بھی شک و شبہ یا خوف ہوتا تو ہرگز ان کو منتخب نہ کرتے اور حتما مباہلے سے گریز کرتے یا کم از کم اپنے اعزہ کو اس خطرے سے الگ رکھتے۔، اب ان سے مباہلہ کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔ اگر قیصر روم کا خوف نہ ہوتا تو ہم ایمان لے آتے۔ پس مصلحت اسی میں ہے کہ ہم لوگ جن شرائط پر وہ چاہیں ان سے صلح کر لیں اور اپنے وطن کو پلٹ جائیں۔ سب نے کہا کہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ چنانچہ اسقف نے آںحضرت(ص) کے پاس پیغام بھیجا کہ " انا لا يباهلک يا اباالقاسم " ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ صلح چاہتے ہیں۔ آنحضرت(ص) نے بحی اس کو منظور فرمایا امیرالمومنین(ع) کے قلم سے اس شرط پر صلح نامہ لکھا کہ وہ لوگ دو ہزار اورانی حلے جن میں سے ہر ایک کی قیمت چالیس (۴۰) درہم ہو اور ایک ہزار مثقال سونا ادا کریں، اس مطالبے کا نصف محرم میں اور نصف رجب میں پورا کریں۔ اس کے بعد طرفین کے دستخط ہوئے اور وہ لوگ واپس ہوئے راستے میں ان کے عالم عاقب نے اپنے ہمرہیوں سے کہا کہ قسم خداکی ہم اور تم جانتے ہیں کہ یہ محمد(ص) وہی پیغمبر(ص) موعود ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں خدا کی طرف سے کہتے ہیں ( اللہ جن لوگوں نے بھی کسی پیغمبر سے مباہلہ کیا ہے وہ ہلاک ہوئے ہیں اور ان کا کوئی چھوٹا بڑا زندہ نہیں بچا ہے۔ اگر ہم لوگ بھی مباہلہ کرتے تو قطعا سب کے سب ہلاک ہوجاتے اور روئے زمین پر کوئی عیسائی باقی نہ رہتا۔ خدا کی قسم جب میں نے ان لوگوں پر نظر ڈالی تو ایسی صورتیں دیکھیں کہ اگر خدا سے دعا کر دیتے تو پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جاتے۔

حافظ : جو کچح آپ نے بیان فرمایا سب درست ہے اور سارے مسلمان اس کو مانتے ہیں۔ لیکن ان باتوں کو ہمارے موضوع بحث سے کیا ربط ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ رسول خدا(ص) کے ساتھ اتحاد نفسانی رکھتے ہیں؟

خیر طلب : اس آیت میں ہپمارا استدالل جملہ انفسنا سے ہے کیونکہ اس قضیہ میں کئی اہم مطالب ظاہر ہوتے ہیں ۔ اولا حقانیت رسول خدا(ص) کا اثبات ہے کہ اگ حق پر نہ ہوتے تو مباہلے کی جرائت نہ فرماتے اور بڑے بڑے مسیحی علماء میدان مباہلہ سے فرار نہ کرتے ۔ دوسرے یہ کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام حسن و امام حسین علیہما السلام رسول اللہ(ص) کے فرزند ہیں ( جیسا کہ ہم پہلی شب میں اشارہ کرچکے ہیں) تیسرے اس آیہ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ علی (ع) و فاطمہ(س) اور حسن(ع) و حسین علیہم السلام حضرت ختمی مرتبت کے بعد سارے مخلوقات سے افضل اور آن حضرت(ص) کے نزدیک تمام انسانوں میں عزیز ترین تھے۔ جیسا کہ آپ کے سارے متعصب علماء جیسے زمخشری بیضاوی اور فخر الدین رازی وغیرہ نے بھی لکھا ہے اور خصوصیت سے جار اللہ زمخشری نے اس آیہ شریفہ کے ذیل میں مذکورہ بالا تفصیل کے ساتھ اس پنجتن

۲۸۶

آل عبا(ع) کے اجتماع سے کئی حقیقتوں کا تذکرہ کیا ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں یہ آیت اتنی زبردست دلیل ہے کہ پیغمبر(ص) کے ساتھ جادر کے نیچے جمع ہونے والے پنچ تن پاک (ع) کی افضلیت پر اس سے قوی دلیل اور کوئی نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام جملہ اصحاب رسول(ص) سے بلند اور افضل تھے۔ اس دلیل سے کہ خدائے تعالی نے آیہ شریفہ میں ان کو نفس رسول(ص) قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انفسنا سے خود حضرت خاتم الانبیاء(ص) کا ذاتی نفس مراد نہیں ہے۔ کیونکہ بلانا کسی دوسری ہستی کو چاہتا ہے اور انسان کو ہرگز یہ حکم نہیں دیا جاتا کہ خود اپنے کو بلائے۔ پس ضروری ہے کہ کسی اور کو دعوت دینا مقصود ہو جو پیغمبر(ص) کے لیے بمنزلہ نفس ہو۔ چونکہ فریقین ( شیعہ و سنی) کے موثق مفسرین ، محدثین کا اتفاق ہے کہ مباہلے میں آنحضرت(ص) کے ہمراہ علی، حسن و حسین اور فاطمہ علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور موجود نہ تھا لہذا جملہ ابناء نا و ابناءکم سے حسنین علیہم السلام اور نساءنا و نساءکم سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا خارج ہوجاتے ہیں اور دوسرا شخص جو انفسنا سے مراد لیا جائے اس مقدس گروہ میں سوا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کےکوئی نہیں تھا پس اس جملہ انفسنا سے محمد(ص) علی علیہما السلام کے درمیان اتحاد نفسانی ثابت ہوتا ہے کہ حق تعالی نے علی(ع) کو نفس محمد(ص) فرمایا ہے اور چونکہ دو نفسوں میں اتحاد حقیقی محال ہے لہذا قطعا مجازی اتحاد مراد ہے۔

آپ حضرات بہتر جانتے ہیں کہ علم اصول میں لفظ کو مجاز بعید کے مقابلے میں قریب تر مجاز پر حمل کرنا اولی ہے اور قریب تر مجاز جملہ امور اور سارے کمالات میں شرکت ہے سوا اس کے جو دلیل سے خارج ہوجائے اور ہم پہلے ہی بیان کرچکے ہیں کہ جو چیز دلیل اور اجماع سے خارج ہے وہ آنحضرت(ص) کی نبوت خاتمہ اور نزول وحی ہے لہذا ہم علی علیہ السلام کو اس خصوصیت میں پیغمبر(ص) کا شریک نہیں جانتے ہیں لیکن بحکم آیہ شریفہ دیگر کمالات میں شریک ہیں، اور قطعا مبدا فیاض سے پیغمبر(ص) کے ذریعے علی(ع) کو علی الاطلاق فیض پہنچا اور یہ خود اتحاد نفسانی کی دلیل ہے جو ہمارا مدعا ہے۔

حافظ : آپ کہاں سے کہہ رہے ہیں کہ اپنے نفس کو مجازا دعوت دینا مراد نہیں ہے اور یہ مجاز دوسرے مجاز سے اولی نہیں ہے؟

خیر طلب : میری درخواست ہے کہ خواہ مخواہ اختلاف کر کے جلسے کا وقت ضائع نہ کیجئے اور اںصاف کے راستے سے نہ ہٹئے۔ حق پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ جب کوئی بات اپنی منزل تک پہنچ جائے تو اس کو چھوڑ کر آگے بڑھئے آپ جیسے جلیل القدر اور منصف عالم سے ہم قطعا مجادلے اور کٹ حجتی کی امید نہیں رکھتے ۔ کیونکہ آپ خود جانتے ہیں اور صاحبان علم و فضل کے نزدیک ثابت ہے کہ مجازا نفس کا اطلاق دوسرے مجاز سے زیادہ مستعمل ہے اور عرب و عجم کے فضلاء و ادباء اور شعراء کی زبان اور کلام میں کافی رواج ہے کہ مجازا اتحاد کا دعوی کرتے ہیں جیسا کہ پہلے عرض کرچکا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ تم میری جان کی جگہ پر ہو اور خصوصیت سے اخبار و احادیث کی زبان میں یہ بات حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے بارے میں کثرت سے وارد ہوئی ہے جو مقصد کے اثبات میں الگ الگ ایک مستقل دلیل ہے۔

۲۸۷

اتحاد پیغمبر(ص) و علی(ع) پر اخبار و احادیث کے شواہد

من جملہ امام احمد ابن حنبل مسند میں، ابن مغازلی فقیہہ شافعی نے مناقب میں اور موفق بن احمد خطیب خوارزم مناقب میں نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) مکرر فرماتے تھے:

" عليّ منّي وأنامنه من أحبه فقدأحبني ومن أحبني فقدأحب اللّه"

یعنی علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں جو شخص ان کو دوست رکھے اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جو شخص مجھ کو دوست رکھے اس نے خدا کو دوست رکھا۔

ابن ماجہ نے سنن جزو اول ص۹۲ میں، ترمذی نے صحیح میں، ابن حجر نے ان چالیس حدیثوں میں سے جو صواعق میں فضائل امیرالمومنین (ع) میں نقل کی ہیں چھٹی حدیث میں امام احمد و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ سے۔ امام احمد ابن حنبل نے مسند جلد چہارم ص۱۶۴ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب ۶۸ میں ، مسند بن ہماک جز چہارم اور معجم کبیر طبرانی سے ، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص میں اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب ۷ میں مشکوۃ سے سب نے جیش بن جنادہ سلونی سے روایت کی ہے کہ سفر حجتہ الوداع میں عرفات کے اندر رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

"عليّ منّي وأنامن علی،ولايؤدّي عنّي إلّاأناأوعليّ"

یعنی علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سےہوں اور میری طرف سے کوئی ادا نہیں کرتا ہے ( یعنی میرے فرض تبلیغ کو انجام نہیں دیتا ہے) سوا میرے یا علی(ع) کے۔

سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۷ میں زوائد مسند عبداللہ بن احمد بن حنبل سے بسند ابن عباس نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے ( ام المومنین) ام سلمی رضی اللہ عنہا سے فرمایا :

"عَلِيٌ مِنِّي ،وَأَنَامِنْ عَلِيٍ ،لَحْمُهُ لَحْمِي،وَدَمُهُ دَمِي،وَهُوَمِنِّي بِمَنْزِلَةِهَارُونَ مِنْ مُوسَى،يَاأُمَّ سَلَمَةَ،اسْمَعِي وَاشْهَدِي،هَذَاعَلِيٌّ سَيِّدُالْمُسْلِمِينَ."

یعنی علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں ان کا گوشت اور خون میرے گوشت اور خون سے ہے اور وہ مجھ سے بمنزلہ ہارون(ع) ہیں موسی سے اے ام سلمہ سنو اور گواہ رہو کہ یہ علی(ع) مسلمانوں کے سید و آقا ہیں۔

حمیدی نے جمع بین الصحیحن میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا

"علي مني وأنامنه و علی منی بمنزلة الراس من البدن من اطاعه فقد اطاعنی و من اطاعنی فقد اطاع الله "

یعنی علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں علی(ع) مجھ سے بمنزلہ سر ہیں بدن سے۔ جس نے ان کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی۔

محمد بن جریر طبری اپنی تفسیر میں اور میر سید ہمدانی فقیہ شافعی مودۃ القربی ہشتم میں رسول اکرم(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا :

"ان الله تبارک و تعالی اسد هذا الذين بعلی و انه منی و انا منه و فيه انزل أَفَمَنْ كانَ

۲۸۸

عَلى بَيِّنَةٍمِنْ رَبِّه ِوَيَتْلُوهُ شاهِدٌمِنْهُ "

یعنی در حقیقت خدائے تعالی نے اس دین کی علی(ع) کے ذریعے تائید فرمائی ہے کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں اور ان کے بارے میں آیہ شریفہ نمبر۲۰ سورہ نمبر۱۱ ( ہود) نازل ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر خدا(ص) کی طرف سے قرآن جیسی روشن دلیل رکھتے ہیں اور ان کا ( علی جیسا) سچا گواہ ہے( جو اپنے ہر قول و فعل سے رسالت کی سچائی ثابت کرتا ہے ) اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ کے باب ۷ کو اسی موضوع سے مخصوص کیا ہے اس عنوان کےساتھ کہ

" الباب السابع فی بيان ان علیا کرم الله وجهه کنفس رسول الله صلی الله عليه و آله وسلم و حديث علی منی و انا منه "

یعنی ساتوان باب اس بیان میں کہ علی کرم اللہ وجہہ رسول اللہ(ص) کے نفس کے مانند ہیں اور اس حدیث میں کہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔

اس باب میں مختلف طریقوں اور متفاوت الفاظ کے ساتھ رسول خدا(ص) سے چوبیس حدیثیں نقل کرتے ہیں کہ فرمایا علی(ع) میرے نفس کی جگہ پر ہیں اور آخر باب میں مناقب سے بروایتجابر ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ فرمایا علی(ع) میں ایسی خصلتیں ہیں کہ اگر کسی شخص کے لیے ان میں سے ایک بھی ہوتی تو اس کے فضل و شرف کےلیے کافی تھی اور ان خصلتوںسے مراد علی(ع) کے بارے میں رسول اللہ(ص) کے ارشادات ہیں مثلا :

" من كنت مولاه فعلى مولاه -يا علی منی کهارون من موسی، يا علی منی و انا منه.يا علی منی کنفسی طاعته طاعتی و معصيتهمعصيتی يا حرب علی حرب الله و سلم علی سلم الله.يا ولی علی ولی الله وعدو علی عدو الله.يا. علی حجت الله علی عباده.يا حب علی ايمان و بغضه کفر –يا- حزب علی حزب الله و حزب اعدائه حزب الشيطان -يا- علی مع الحق و الحق معه لا يفترقان -يا - علی قسيم الجنة و النار-يا - من فارق عليا فقد فارقنی و من فارقنی فقد فارق الله-يا-شيعه علی هم الفائزون يوم القيمة."

یعنی جس شخص کا میں مولا ہوں پس علی(ع) بھی اس کے مولا ( اس کے امر میں اولی بتصرف ) ہیں۔ علی(ع) مجھ سے مثل ہارون کے ہیں موسی(ع) سے ۔ علی(ع) مجھ سے اور میں علی(ع) سے ہوں۔ علی(ع) مجھ سے مثل میرے نفس کے ہیں ان کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی نا فرمانی میری نافرمانی ہے۔ علی(ع) کےساتھ جنگ خدا کےساتھ جنگ ہے اور علی (ع) کے ساتھ صلح و آشتی خدا کے ساتھ صلح و آشتی ہے۔ علی(ع) کا دوست خدا کا دوست اور علی کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ علی(ع) خدا کی حجت ہیں اس کے بندوں پر ، علی(ع) کی محبت ایمان اور ان کی عداوت کفر ہے۔ علی(ع) کا گروہ خدا کا گروہ اور ان کے دشمنوں کا گروہ شیطان کا گروہ ہے۔ علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کےساتھ ہے۔دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے ، علی(ع) بہشت و دوزخ کےتقسیم کرنے والے ہیں جو شخص علی(ع) سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوا او جو شخص مجھ سے جدا ہوا وہ خدا سے جدا ہوا۔ علی(ع) کے شیعہ قیامت کے روز رستگار ہیں۔

آخر میں مناقب سے ایک اورمفصل حدیث نقل کرتے ہیں جس کے خاتمے میں ارشاد ہے:

" اقسم بالله الذی

۲۸۹

بعثنی بالنبوة و جعلنی خير البريه انک لحجة الله علی خلقه و امينه علی سره و خليفة الله علی عباده"

یعنی قسم اس خدا کی جس نے مجھ کو نبوت کےساتھ مبعوث کیا اور مجھ کو بہترین خلق قرار دیا۔ در حقیقت تم( اے علی) خدا کی حجت ہو اس کی مخلوق پر اور اس کے امانت دار ہو اس کے راز پر اور خلیفہ خدا ہو اس کے بندوں پر۔

اس قسم کے اخبار و احادیث صحاح اور آپ کی معتبر کتابوں میں بکثرت وارد ہوئے ہیں جو آپ کی نظرسے گذر چکے ہوں گے یا آئندہ ان کا مطالعہ کریں گے تو تصدیق کریں گے کہ یہ سب اس مجاز کا قرینہ ہیں، پس کلمہ انفسنا نسبی و حسبی ظاہری و باطنی اور علمی و عملی کمالات میں حضرت علی علیہ السلام کے انتہائی ارتباط و اتحاد پر واضح دلالت کرتا ہے۔ آپ چونکہ صاحب علم وعقل ہیں لہذا امید ہے کہ انشاء اللہ ضد اور ہٹ دھرمی سے الگ رہ کر تسلیم کریں گے کہ یہ آیہ شریفہ مطلب و مقصود کے اثبات میں، ایک قاطع دلیل ہے۔ اور اسی آیت سے آپ کے دوسرے سوال کا جواب بھی دیا جاتا ہے جب ہم ثابت کرچکے علی علیہ السلام سوا نبوت خاصہ اور نزول وحی کے بحکم آیہ انفسنا خاتم الانبیاء(ص) کےساتھ تمام کمالات میں شریک تھے تو معلوم ہوا کہ آپ کے کمالات مراتب اور خصائص میں سے جملہ صحابہ اور امت پر افضل ہونا بھی ہے اور نہ صرف صحابہ و امت پر افضل تھے بلکہ اسی آیہ مبارکہ کی دلیل اور عقل کے حکم سے انبیاء پر بھی بلا استثناء افضل ہونا چاہئیے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام انبیاء و امت پر افضل تھے۔

چونکہ پیغمبر(ص) انبیاء پر افضل ہیں لہذا علی(ع) بھی ان سے افضل ہیں

اگر آپ اپنی معتبر کتابیں جیسے احیاء العلوم امام غزالی، شرح نہج البلاغہ ابی ابی الحدید ، معتزلی تفسیر امام فخر رازی، تفسیر جار اللہ زمخشری و بیضاوی و نیشاپوری وغیرہ مطالعہ فرمائیے تو دیکھئے گا کہ رسول اکرم (ص) سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ علماء امتی کانبیاء بنیا اسرائیل یعنی میری امت کے علماء انبیائے بنی اسرائیل کے مثل ہیں اور دوسری حدیث میں ارشاد ہے علماء امتی افضل من انبیاء بنی اسرائیل یعنی میری امت کے علماء انبیائے بنی اسرائیل سے افضل و بہتر ہیں۔ اس وقت از روئے انصاف کہنا پڑے گا کہ جب اس امت کے علماء محض اس وجہ سے کہ ان کا علم سر چشمہ علم محمدی کا فیض ہے انبیائے بنی اسرائیل کے مثل یا ان سے بہتر قرار پائے تو علی بن ابی طالب علیہ السلام تو یقینا ان سے افضل ہوں گے کیونکہ ان کے لیے قول رسول (ص) کی یہ نص موجود ہے جس کو آپ کے بڑے علماء نے نقل کیا ہے کہ " انا مدينة العلم وعلی بابها و انا دار الحکمة و علی بابها" یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کے دروازہ ہیں اور میں حکمت کا گھر ہوں اور علی(ع) اس کے دروازہ ہیں۔ اور اس میں ہرگز کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا خود حضرت علی علیہ السلام سے جب اس موضوع پر سوال کیا گیا تو آپ نے افضلیت کے بعض پہلو ظاہر فرمائے۔

۲۹۰

انبیاء سے افضل ہونے کے سبب میں صعصعہ کے سوالات اور حضرت علی(ع) کے جوابات

ماہ رمضان المبارک سنہ۴۰ ھ کی بیسویں تاریخ جب شقی ترین اولین و آخرین ( جیسا کہ رسول اللہ(ص) نے خبر دی تھی) عبدالرحمن ابن ملجم مرادی ملعون کی زہر آلود تلوار کے زخم سے حضرت پر موت کے آثار طاری ہوئے تو اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام سے فرمایا کہ جو شیعہ دروازے پر مجتمع ہیں ان کو اندر بلا لو تاکہ مجھ سے ملاقات کر لیں۔ جب وہ لوگ آئے تو چاروں طرف سے بستر کو گھیر لیا اور حضرت کی حالت پر چپکے چپکے رونے لگے۔ حضرت نے انتہائی ناتوانی کے ساتھ فرمایا : " سلونی قبل ان تفقدونی ولکن خففوا مسائلکم "( یعنی مجھ سے جو چاہو پوچھ لو قبل اس کے کے مجھ کو نہ پائو لیکن سبک اور مختصر سوالات کرو۔ )چنانچہ اصحاب نے باری باری سوال کرتے تھے اور جواب سنتے تھے۔

من جملہ صعصعہ بن صوحان بھی تھے۔ جو ایک سر برآوردہ شیعہ ، کونے کے مشہور خطیب اور بزرگ راویوں میں سے ہیں جن کی روایتوں کو علاوہ شیعہ کے آپ کے بڑے بڑے علماء یہاں تک کہ صاحبان صحاح نے بھی علی علیہ السلام اور ابن عباس سے نقل کیا ہے۔ ان کی سیرت نقل کرنے میں آپ کے کبار علماء جیسے ابن عبدالبر نے استیعاب میں، ابن سعد نے طبقات میں، ابن قتیبہ نے معارف میں اور دوسروں نے بھی کافی تفصیل سے کام لیا ہے اور ان کی توثیق کی ہے کہ ایک عالم و فاضل اور صادق و متدین انسان اور علی علیہ السلام کے اصحاب خاص میں سے تھے۔ صعصعہ نے عرض کیا۔ " اخبرنی انت افضل ام آدم " مجھ کو خبر دیجئے کہ آپ افضل ہیں یا آدم؟ حضرت نے فرمایا " تزکية المرء لنفسهقب ي ح " انسان کے لیے خود اپنی تعریف کرنا اچھا نہیں ہے لیکن بفحوائے و اما بنعمۃ ربک فحدث" ( یعنی اپنے خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو بیان کرو۔)میں کہتا ہوں کہ انا افضل من آدم میں آدم سے افضل ہوں۔ عرض کیا ولم ذالک یا امیرالمومنین کس دلیل سے ایسا ہے؟ حضرت نے مفصل تقریر کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آدم کے لیے بہشت میں رحمت اورنعمت کے سارے وسائل مہیا تھے صرف ایک درخت گندم سے روکے گئے تھے لیکن وہ باز نہ رہے۔ اور اس شجرہ ممنوعہ میں سے کھایا جس کی وجہ سے بہشت اور اللہ کے جوار رحمت سے خارج ہوئے۔ لیکن باوجودیکہ خدا نے مجھ کو گندم کھانے سے منع نہیں فرمایا تھا میں نے چونکہ دنیا کو قابل توجہ نہیں سمجھتا لہذا اپنی مرضی اور ارادے سے گیہوں نہیں کھایا مطلب یہ ہے کہ خدا کے نزدیک انسان کی فضیلت و بزرگی ، زہد و ورع اور تقوی سے ہے۔ دنیا اور متاع دنیا سے جس شخص کی پرہیزگاری جتنی زیادہ ہے یقینا خدا کی بارگاہ میں اس کا قرب و منزلت بھی زیادہ ہے اور زہد کی انتہا یہ

۲۹۱

ہے کہ غیر ممنوع مباح سے بھی پرہیز کرے۔

عرض کیا انت افضل ام نوح آپ افضل ہیںیا نوح؟ قال انا افضل من نوح فرمایا میں نوح سے افضل ہوں عرض کیا لم ذالک کس وجہ سے؟ فرمایا نوح نے اپنی قوم کو خدا کی طرف دعوت دی تو ان لوگوں نے قبول نہیں کیا بلکہ ان بزرگوار کو بہت تکلیفیں پہنچائیں یہاں تک کہ انہوں نے بد دعا کی " رب لا تذر علی الارض من الکافرين ديارا ." ( یعنی پروردگارا روئے زمین میں کافروں مِیں سے کسی باشندے کو زندہ نہ چھوڑ) لیکن مجھ کو خاتم الانبیاء کے بعد امت نے باوجودیکہ اس قدر صدمات اور بے شمار اذیتیں پہنچائیں لیکن میں نے بد دعا نہیں کی بلکہ مکمل صبر اختیار کیا ( جیسا کہ خطبہ شقشقیہ کے ضمن میں فرمایا ہے "صبرت وفی العين قذی و فی الحلق شجی" ( یعنی میں نے صبر کیا در آنحالیکہ آنکھ میں تنکا اور حلق میں ہڈی تھی) کنایہ اس طرف ہے کہ خدا کی طرف سب سے زیادہ قریب وہ ہے جس کا صبر بلا پر سب سے زیادہ ہو۔

عرض کیا انت افضل ام ابراهیم آپ افضل ہیں یا ابراہیم ؟ فرمایا "انا افضل من ابراهیم " عرض کیا لم ذالک؟ ایسا کس لیے ہے؟ فرمایا ابراہیم نے عرض کیا :

" رَبّ ِأَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتى قالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قالَ بَلى وَلكِنْ لِيَطْمَئِنّ َقَلْبِي"

یعنی پروردگارا مجھ کو دکھا دے کہ تو کیوں کر مردوں کو زندہ کرے گا، خدا نے فرمایا کیا تم ایمان نہیں رکھتے عرض کیا ایمان تو رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ ( مشاہدہ کر کے) اطمینان قلب حاصل کروں۔

لیکن میرا ایمان اس منزل پر پہنچا ہوا ہے کہ میں نے کہا " لو کشف الغطا ما ازددت يقينا " یعنی یقینا اگر پردے ہٹا دے جائیں جب بھی میرے یقین میں زیادتی کی گنجائش نہیں۔ مقصد یہ کہ انسان کی رفعت اس کے یقین کے مطابق ہے یہاں تک کہ حق الیقین کی منزل پر پہنچ جائے عرض کیا انت افضل ام موسی آپ افضل ہیں یا موسی؟ قال انا افضل من موسی فرمایا میں موسی سے افضل ہوں عرض کیا۔ کس سبب سے ؟ فرمایا جس وقت خدا نے ان کو مامور کیا کہ مصر جا کر فرعون کو حق کی دعوت دیں تو انہوں نے عرض کیا :

"رَبِ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْساًفَأَخافُ أَنْ يَقْتُلُونِ* وَأَخِي هارُونُ هُوَأَفْصَحُ مِنِّي لِساناًفَأَرْسِلْهُ مَعِي رِدْءاًيُصَدِّقُنِي إِنِّي أَخافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ*"

یعنی خداوندا میں نے ان میں سے ایک شخص کو قتل کیا ہے لہذا ڈرتا ہوں کہ وہ مجھ کو قتل کردیں گے اور میرے بھائی ہارون چونکہ مجھ سے زیادہ خوش بیان ہیں لہذا ان کو میرا شریک کار بنا کر بھیج دے تاکہ وہ میری تصدیق کریں۔ مجھ کو خوف ہے کہ وہ لوگ میری رسالت کو جھٹلائیں گے۔

لیکن جب مجھ کو من جانب خدا رسول اکرم(ص) نے مامور کیا کہ مکہ معظمہ پہنچ کر خانہ کعبہ کی چھت سے سورہ برائت ک شروع کی آیتیں کفار قریش کے سامنے پڑھوں تو باوجودیکہ بہت کم ایسے لوگ تھے جن کے بھائی یا باپ یا چچا یا ماموں یا دوسرے عزیز و قریب میرے ہاتھ قتل نہ ہوچکے ہوں لیکن میں نے قطعا خوف نہیں کیا اور تعمیل حکم کرتے ہوئے تنہا جا کر اپنا فرض انجام دیا اور سورہ برائت ان کوسنا کر واپس آیا۔

اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ انسان کی فضیلت توکل علی اللہ سے ہے جس کا توکل سب سے زیادہ ہے اس کا مرتبہ بھی سب سے زیادہ ہے موسی(ع) نے اپنے بھائی پر بھروسا کیا لیکن امیرالمومنین علیہ السلام نے ذات الہی اور اس کے لطف و کرم پر

۲۹۲

کامل اعتماد رکھا۔

قال انت افضل ام عيسی عرض کیا آپ افضل ہیں یا عیسی ؟ قال انا افضل من عيسی فرمایا میں عیسی سے افضل ہوں۔ قال لم ذالک عرض کیا ایسا کیوں ہے؟ فرمایا جب مریم کے گریباں میں جبرئیل کے دم کرنے سے وہ بقدرت خدا حاملہ ہوگئیں اور وضع حمل کا وقت قریب آیا تو مریم کو وحی ہوئی کہ " اخرجی عن البيت فان هذهبيت العبادة لا بيت الولادة" بیت المقدس سے باہر چلی جائو کیونکہ یہ عبادت کا گھر ہے زچہ خانہ نہیں ہے چنانچہ وہ بیت المقدس سے نکل کر صحرا میں ایک خشک درخت خرما کے نیچے گئیں اور وہیں عیسی(ع) کی ولادت ہوئی۔

لیکن میں جس وقت مسجد الحرام کے اندر میری ماں فاطمہ بن اسد کو درد زہ عارض ہوا تو مستجار کعبہ سے متمسک ہو کر دعا کی خداوندا اس گھر اور اس گھر کے بنانے والے کا واسطہ اس درد کو مجھ پر آسان فرما۔ اس وقت دیوار خانہ کعبہ شگاف پیدا ہوا اور میری ماں فاطمہ کو غیب سے آواز آئی کہ یا فاطمہ ادخلی البیت ۔ ( یعنی اے فاطمہ خانہ کعبہ میں داخل ہو جائو) فاطمہ اندر گئیں اور وہیں میری ولادت ہوئی۔

مراد یہ ہے کہ شرافت انسانی کا پہلا درجہ حسب و نسب اور طہارت مولد ہے۔ جس کی روح ، نفس اور جسم پاکیزہ ہے وہ افضل ہے ( خانہ کعبہ میں داخل ہونے کے لیے فاطمہ کو حکم خدا ہونے اور مریم کو بیت المقدس میں وضع حمل سے منع کرنے سے نیز بیت المقدس پر مکہ معظمہ کی فضیلت کے پیش نظر مریم پر فاطمہ کی اور حضرت عیسی(ع) پر حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت ثابت ہوتی ہے۔)

علی (ع) تمام انبیاء کے آئینہ تھے

نماز کا وقت آگیا لہذا مولوی صاحبان اٹھ گئے۔ ادائے فریضہ اور چائے نوشی وغیرہ کے بعد میں نے سلسلہ کلام شروع کیا) جو کچھ عرض کرچکا اس کے علاوہ خود آپ کے علماء کی معتبر اور موثق کتابوں میں موجود ہے۔ کہ علی علیہ السلام کو تمام انبیاء کے صفات کا آئینہ اور اان کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۴۴۹ میں، حافظ ابوبکر فقیہ شافعی احمد بن الحسین بیہقی نے مناقب میں، امام احمد ابن حنبل ے مسند میں، امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں آیہ مباہلہ کے ذیل میں، محی الدین عربی نے کتاب یواقیت و جواہر کے مبحث نمبر۳۲ ص۱۷۳ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ شروع باب ۴۰ میں مسند احمد، صحیح بیہقی اور شرح المواقف والطریقہ المحمدیہ سے، نورالدین مالکی نے فصول المہمہ ص۱۲۱ میں بیہقی سے، محمد طلحہ شافعی نے مطال بالسئول ص۲۲ میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۲۳ میں الفااظ و عبارات کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ روایت کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

" مَنْ أَرَادَأَنْ يَنْظُرَإِلَى آدَمَ فِي عِلْمِهِ،وَإِلَى نُوحٍ فِي تَقْوَاهُ،(فی حکمته)وَإِلَى

۲۹۳

إِبْرَاهِيمَ فِي خلته(فی حِلْمِهِ)وَإِلَى مُوسَى فِي هَيْبَتِهِ،وَإِلَى عِيسَى فِي عِبَادَتِهِ: فَلْيَنْظُرْإِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِيطَالِبٍ."

یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ آدم کو ان کے علم میں و نوح کو ان کے تقوی یا حکمت میں، ابراہیم کو ان کی خلت یا حلم میں، موسی کو ان کی ہیبت میں اور عیسی کو ان کی عبادت میں دیکھے تو وہ علی ابن ابی طالب(ع) کو دیکھے۔

اور میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت ہشتم میں اس حدیث مبارک کو چند انسانوں کے ساتھ نقل کیا ہے ان کے آخر میں جابر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"فان فيه تسعين خصلة من خصال الانبياء جمعها الله فيه ولم يجمعها فی احد غيره. "

یعنی در حقیقت خدا نے علی(ع) کے اندر انبیاء کی نوے خصلتیں جمع کی ہیں جو دوسرے کو نہیں دیں۔

حدیث تشبیہ کے بارے میں گنجی شافعی کا بیان

شیخ فقیہ محدث شام صدر الفاظ محمد بن یوسف گنجی شافعی یہ حدیث نقل کرنے کے بعد بعنوان قلب ( میرا قول ہے) مزید بیان دیتے ہیں کہ آدم(ع) کے ساتھ ان کے علم میں علی کو تشبیہ اس وجہ سے دی گئی کہ خدا نے آدم کو ہر چیز کا علم اور صفت تعلیم کی تھی جیسا کہ سورہ بقر میں فرماتا ہے: " وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَكُلَّها " (یعنی خدا نے آدم کو سارے اسماء کی تعلیم دی۔ آیت نمبر۲۹ سورہ نمبر۴ ( بقرہ) اور اسی طرح کوئی چیز یا حادثہ و واقعہ ایسا نہیں ہے جس کا علم اور اس کے مقصد کا ادراک و استنباط علی(ع) کے پاس نہ ہو اسی علم الہی کا نتیجہ تھا کہ ھضرت آدم خلعت خلافت سے سر فراز ہوئے جیسا کہ آیت نمبر۲۸ سورہ نمبر۴ ( بقرہ) میں خبر دیتا ہے کہ " إِنِّي جاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً " ( یعنی میں زمین میں خلیفہ مقرکرنے والا ہوں) پس ہر باذوق انسان آں حضرت(ص) کی اس تشبیہ سے سمجھ سکتا ہے کہ جب یہ علم آدم افضلیت و برتری ، مسجودیت ملائکہ اور منصب خلافت کا سبب بنا تو علی(ع) بھی تمام مخلوقات سے افضل و برتر اور خاتم الانبیاء کے بعد عہدہ خلافت پر فائز ہیں۔

نوح کے ساتھ ان کی حکمت میں تشبیہ دینے سے گویا یہ مراد ہے کہ علی علیہ السلام کفار پر سخت اور مومنین پر مہربان تھے جیسا کہ خدا نے قرآن مجید میں ان کی تعریف فرمائی ہے کہ : " وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُعَلَى الْكُفَّارِرُحَماءُبَيْنَهُمْ "( یہ بات بھی ایک دلیل ہے اس بات پر کہ یہ آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے۔)کیونکہ نوح کفار کے لیے بہت سخت تھے چنانچہ قرآن مجید خبر دے رہا ہے " رب لا تذر علی الارض من الکافرين ديارا ."(یعنی نوح نے عرض کیا کہ خداوندا زمین پر کافروں میں سے کسی باشندے کو نہ چھوڑ) آیت نمبر۲۷ سورہ نمبر۷۱ ( نوح) اور ابراہیم کے ساتھ حلم میں علی(ع) کی تشبیہ دینے سے یہ مقصد ہے کہ قرآن میں ابراہیم علی نبینا و آلہ وعلیہ السلام کا اس صفت کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے " إِنَّإِبْراهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ " ( یعنی درحقیقت ابراہیم یقینا آہ و زاری کرنے

۲۹۴

والے برد بار تھے آیت نمبر۱۱۵ سورہ نمبر۹ (توبہ) یہ تشبیہات ثابت کرتی ہیں کہ علی علیہ السلام اخلاق انبیاء سے آراستہ اور صفات اصفیاء سے متصف تھے۔ انتہی۔

اب آپ حضرات اگر ذرا اںصاف سے غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس فریقین ( شیعہ و سنی) کی متفق علیہ حدیث شریف سے واضح ہوتا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام جملہ ممکن صفات عالیہ کے جامع ہیں جن میں سے ہر صفت انبیاء کی بہترین صفت کے برابر ہے لہذا قاعدے کے روسے ضروری ہے کہ ان سب صفات کے جامع ہونے کی حثیت سے آپ کے سارے انبیاء میں ہرایک سے افضل ہوں اور یہ حدیث ( باستثنائے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) انبیائے عظام پر علی علیہ السلام کی افضلیت کی دوسری دلیل ہے کیونکہ جب آپ ہر نبی کی مخصوص فضیلت و خصلت میں ان کے مساوی ہیں اور دوسروں کے فضائل و خصائل کے بھی حامل ہیں تو لازمی طور پر ہر ایک سے افضل ہوں گے۔ چنانچہ خود محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد اس مطلب کی وضاحت کی ہے اور صاف صاف کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اس حدیث سے علی علیہ السلام کے لیے آدم کا ایسا علم نوح کا ایسا تقوی ابراہیم کا ایسا حلم موسی کی ایسی ہیبت اور عیسی کی ایسی عبادت ثابت فرمائی ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں " و تعلوا هذه الصفات الی اوج العلی حيث شبهها بهولا والانبياء المرسلين من الصفات المذکوره" یعنی یہ اوصاف حمیدہ علی علیہ السلام کو انتہائی بلندی پر فائز کرتے ہیں اس لیے کہ پیغمبر(ص) نے آپ کو صفات مذکورہ میں انبیائے مرسلین سے تشبیہ دی ہے، کیا آپ آمت مرحومہ کے صحابہ و تابعین وغیرہ میں امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کوئی ایسی فرد دکھا سکتے ہیں جو انبیاء عظام کے تمام صفات حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ کی حامل ہو اور آپ کے سر برآوردہ علماء اس کے اس مرتبے کو تسلیم بھی کرتے ہوں؟

چنانچہ شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب ۴۰ میں مناقب خوارزمی سے بسلسلہ محمد بن منصور نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے امام احمد ابن حنبل کو کہتے ہوئے سنا کہ " ماجاءلاحدمن الصحابةمنالفضائلمثل ماجاءلعليبنأبيطالب" (یعنی جیسی فضیلتیں علی ابن ابی طالب(ع) کے لیے ہیں ویسی ایک بھی اصحاب میں سے کسی کے لیے نہیں آئی ہے) اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۳ میں بسند محمد منصور طوسی امام احمد سے اس طرح نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا " ماجاءلاحدمن اصحاب رسول اللَّه منالفضائلماجاءلعلىّ (عليهالسلام)"

یعنی اصحاب رسول(ص) میں سے کسی کے لیے وہ چیز وارد نہیں ہوئی ہے جو علی ابن ابی طالب(ع) کے لیے آئی ہے۔

فضیلت امیرالمومنین(ع) کا قول صرف امام احمد ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کے اکثر اںصاف پسند علماء نے ؟؟؟ چیز کی تصدیق کی ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۴۶ میں کہتے ہین کہ :

"إنّه عليه السّلام كان أولى بالأمروأحقّ لاعلى وجه النّصّ بل على وجه الأفضليّة،فانّه أفضل البشربعدرسول اللّه صلّى اللّه عليه وآله وأحقّ بالخلافةمن جميع المسلمين"

یعنی علی علیہ السلام امر میں اولی اور احق تھے نص کی جہت سے نہیں بلکہ افضلیت کی وجہ سے اس لیے کہ وہ رسول خدا(ص) ک بعد تمام انسانوں سے افضل اور سارے مسلمانوں سے زیادہ خلافت کے حقدار تھے۔

۲۹۵

آپ کو پروردگار عالم کی بزرگ ذات کی قسم ذرا اںصاف کی نظر سے دیکھئے ، آیا یہ بے انصافی نہیں ہے کہ محض عادت کی بنا پر اور اپنے اسلاف کی تقلید کرتے ہوئے بغیر غور و فکر اور دلیل و برہان کے ایسی بزرگ شخصیت کے مقابلے میں ان لوگوں کو مقدم کردیا جائے جو ان صفات سے محروم تھے۔

آیا صاحبان عقل و دانش پچھلے لوگوں کے فہم و شعور کا مذاق نہ اڑائیں گے کہ انہوں نے سیاست اور گروہ بندی کی بنا پر امت کے افضل انسان کو خانہ نشینی پر مجبور کیا اور ہر حیثیت سے مفضول ( کم رتبہ) شخص کو مسند خلافت پر بٹھا دیا اور کم سے کم اتنا بھی نہ کیا کہ سقیفہ کے اندر خلافت جیسے امر عظیم میں مشورہ کرنے کے لیے ان بزرگوار کو بھی خبر کر دیتے ۔ تاکہ یہ ذات بالکل ہی نظر انداز ہوجائے۔

حافظ : بے انصاف ہم ہیں یا جناب عالی؟ جو یہ فرمارہے ہیں کہ اصحاب رسول (ص) نے بغیر دلیل و برہان کے دوسروں کو مقدم قرار دیا اور خلافت غصب کر لی۔ واقعی آپ نے ہم سب کو بے عقل و نادان اور بے سر و پا مقلد فرض کر لیا ہے ۔ کون سی دلیل اجماع کی دلیل سے بالاتر ہوگی جب کہ تمام صحابہ و امت نے حتی کہ مولان علی کرم اللہ وجہہ نے بھی اجماع کر کے ابوبکر کی خلافت قائم کی اور اس پر راضی ہوئے؟

مخالفین کا قول کہ اجماع برحق ہے

بدیہی چیز ہے کہ امت کا اجماع حجت اور اس کی اطاعت واجب ہے کیونکہ رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے :

"لاتجتمع أمتي على الخطإلاتجتمع أمّتي على الضلالة." ( یعنی میری امت خطا پر یا میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوتی) چنانچہ ہم نے اپنے اسلاف کی اندھی تقلید نہیں کی ہے بلکہ جب وفات پیغمبر(ص) کے بعد پہلے ہی روز تمام امت نے اجماع کر کے خلافت ابوبکر کا فیصلہ کر دیا اور ایک طے شدہ امر ہمارے سامنے آیا تو عقلا ہم کو صرف پیروی کرنا چاہئیے ۔

خیر طلب : سچ بتائیے رسول اکرم(ص) ک بعد حقانیت خلافت کی کیا دلیل ہے؟ یعنی خلافت کس دلیل سے ثابت ہوتی ہے؟

حافظ : ظاہر ہے کہ رسول خدا (ص) کے بعد وجود خلیفہ کے اثبات پر سب سے بڑی دلیل تمام امت کا اجماع ہے اس کے علاوہ جس دلیل کے سامنے ہر صاحب عقل و دانش کو گھٹنے ٹیکنا پڑتے ہیں وہ عمر کی زیادتی اور بڑھاپا ہے جس نے ابوبکر و عمر کو تقدم کا حق دیا اور علی کرم اللہ وجہہ باوجود انتہائی فضل و کمال اور قرابت رسول(ص) کے جس کو ساری امت مانتی ہے

۲۹۶

کم سنی اور جوانی کی وجہ سے پچھے رہ گئے اور از روئے اںصاف ایک نو عمر جوان کو بزرگ صحابہ سے آگے بڑھںے کا حق بھی نہیں تھا۔

خلافت کی حیثیت سے علی کرم اللہ وجہہ کے اس پیچھے رہ جانے کو ہم نقض نہیں سمجھتے کیونکہ ان جناب کی افضلیت سب کے نزدیک ثابت ہے۔ نیز خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ جو حدیث نقل کی ہے کہ فرمایا :

"لَايَجْتَمِعُ النُّبُوَّةُوَالْمُلْكُ فِي أَهْلِبَيْتٍ وَاحِدٍ" ( یعنی نبوت او سلطنت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی۔) اس نے بھی علی کرم اللہ وجہہ کو منصب خلافت سے بر طرف کردیا۔ چونکہ علی اہل بیت رسول(ص) میں سے تھے لہذا خلافت کا عہدہ پا ہی نہیں سکتے تھے۔

خیر طلب : جب آپ کے ایسے ذی علم اور ہوشمند انسانوں سے اس قسم کی دلیلیں سننے میں آتی ہیں تو سخت حیرت اور تعجب ہوتا ہے کہ آپ لوگ اپنی عادت کے کس قدر پابند ہوچکے ہیں کہ بغیر سوچے سمجھے آںکھ بند کر کے حق کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور ایسی دلیلیں بیان کرتے ہیں جن پر پسر مردہ عورتیں بھی ہنس پڑیں۔ اگر آپ تھوڑا سا بھی غور کر لیں تو سمجھ میں آجائے کہ اس طرح کے دلائل بالکل مہمل اور تنکنے کا سہارا ہیں۔ لیکن افسوس تو اس کا ہے کہ آپ حضرات ایک لمحے کے لیے بھی اس پر تیار نہیں ہوتے کہ ذرا تعصب اور سنیت کی عینک اتار کے اپنے بے سرو پا دلائل کے مقابل شیعہ علماء کی دلیلیں پر اںصاف اور غور و فکر کی نظر ڈالیں۔

صرف آپ کے عوام ہی ان دلائل سے ناواقف نہیں ہیں بلکہ جہاں جہاں میں نے آپ کے علماء سے گفتگو کی ، ان کو بھی شیعوں کے دلائل و براہین سے بے خبر اور تعصب میں غرق پایا۔ یہ سب محض اس وجہ سے ہے کہ اکابر متکلمین و محدثین اور علمائے شیعہ کی معتبر کابیں آپ کے کتب خانوں میں مطالعے کے لیے رکھی ہی نہیں جاتیں بلکہ ان کو کتب ضلال کہہ کے ایک دوسرے کو ان کے مطالعے سے منع کیا جا تا ہے۔

میں نے خود بصرہ ، بغداد ، شام، بیروت اور حلب وغیرہ بلاد اہل سنت کے بازارون میں کتب فروشوں سے علمائے شیعہ کی معتبر کتابوں میں سے ایک ایک کا نام پوچھا لیکن انہوں نے یہی کہا کہ ہم کو معلوم نہیں ۔ بلکہ وہ خا ص خاص کتابیں بھی جو علمائے اہل سنت نے اہل بیت طہارت اور عترت رسول(ص) کی تعریف اور منزل ولایت کے اثبات میں لکھی ہیں اور شائع بھی ہوچکی ہیں دو کانوں میں نہیں بگاتے۔

اگر آپ حضرات کبھی اتفاقیہ طور پر شیعوں کی کوئِ کتاب دیکھ بھی لیتے ہیں تو چونکہ کینے اور عداوت کی نظر سے دیکھتے ہیں لہذا اس قدر برانگیختہ اور مشتعل ہوجاتے ہیں کہ اںصاف اور علم و منطق کے ترازو پر اس کو تولنا ہی نہیں چاہتے جس سے انکشاف حقیقت ہو کر صحیح نتیجہ برآمد ہو لیکن اس کے برعکس ہماری شیعہ جماعت کی طرف سے آپ کے علماء کی کتابیں نشر کرنے میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ بلکہ انہوں ن جو معتبر کتابیں حدیث ، تفسیر ، یا ادب میں سپرد قلم کی ہیں وہ شیعوں کے بازار میں فروخت کے لیے موجود رہتی ہیں اور مکانوں یا ذاتی اور عمومی کتب خانوں میں ان کے مطالعے سے

۲۹۷

نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔

اب میں اپنی اہم ذمہ داری کے خیال سے مجبور ہوں کہ آپ حضرات کو متوجہ کرنے کے لیے وقت کے لحاظ سے مختصر جواب عرض کروں تاکہ آپ کو یہ غلط فہمی نہ رہ جائے کہ واقعی آپ کی دلیلیں مضبوط اور ناقابل تردید ہیں۔

اجماع کے رد میں دلائل

پہلے آپ نے حدیث پیش کر کے فرمایا ہے کہ امت کا جماع حجت اور مضبوط دلیل ہے۔

یقینا آپ بہتر جانتے ہیں کہ یائے متکلم کے ساتھ امت کا لفظ عموم کا فائدہ دیتا ہے ۔ پس حدیث کے معنی ( اگر صحیح فرض کر لی جائے) یہ ہوتے ہیں کہ میری تمام امت خطا اور گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔ یعنی جس وقت پیغمبر (ص) کی ساری امت کسی امر پر متفق ہو جائے تو ہو غلط نہین ہوتا ہم بھی اس مطلب کو قبول کرتے ہیں کہ بغیر کسی ایک فرد کو مستثنی کئے ہوئے تمام امت کا اجتماع صحیح نتیجہ پیدا کرے گا، اس لیے کہ خدا نے اس امت کے خصوصیات میں سے قرار دیا ہے کہ ہمیشہ اس کے اندر کچھ ایسےافراد موجود رہیں گے جن کے ساتھ حق ہوگا اور وہ حق کے ساتھ ہوں گے یعنی حتمی طور پر حجت خدا اور الہی نمائندہ موجود رہے گا، اور ساری امت کے مجتمع ہو جانے کی صورت میں وہ اہل حق اور حجت خدا بھی اس کے درمیان ہوگا جو امت کو غلط کاری اور گمراہی سے منع کرے گا۔اگر آپ سنجیدگی کےساتھ غور کیجئے تو ثابت ہوگا کہ یہ حدیث ( بہ فرض صحت) ہرگز اس بات کا ثبوت نہیں دیتی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تعین خلافت کے حق سے ( خود دستبردار ہو کر) امت کو سرفراز کردیا تھا۔

اگر آُ کا یہ قول اور عقیدہ صحیح ہو کہ صاحب دین کامل پیغمبر(ص) " لاتجتمع أمتي على الخطإلاتجتمع أمّتي على الضلالة. " فرما کر تعیین خلافت کا حق اپنے سے الگ کر کے امت کے قبضے میں دیدیا تھا ( حالانکہ قطعا اس کی کوئی دلیل نہیں ہے) تو یقینا یہ پوری امت کا حق ہے یعنی چونکہ جملہ مسلمان امر خلافت سے فائدہ اٹھاتے ہِں لہذا خلافت کی رائے اور مشورے میں بھی سب کو دخل ہونا چاہئیے اور وفات رسول (ص) کے بعد کل امت کا جمع ہونا ضروری تھا تاکہ مشورہ کر کے سب کے رائے سے ایک کامل فرد کو خلیفہ مقرر کردیا جاتا۔

اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آیا وفات رسول(ص) کےبعد ان چند دنوں میں ایک سقیفہ نام کے چھوٹے سے چھتے کے اندر جس وقت خلافت ابوبکر کی آواز اٹھی تو ایسا اجماع جس میں تمام مسلمانوں نے متفقہ رائے دی ہو واقع ہوا تھا یا نہیں؟

حافظ : آپ تو ایک انوکھی بات کہہ رہے ہیں۔ دو سال سے کچھ زائدہ مدت کے اندر جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ

۲۹۸

مسئلہ خلافت پر بر قرار رہے عام طور پر مسلمانوں نے ان کی اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار کیا اور یہی اجماع کے منعی ہیں جو حقانیت کی دلیل ہے۔

خیر طلب : در اصل آپ نے جواب میں مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے، میرا سوال خلافت ابوبکر کے پورے دور کے متعلق نہیں تھا بلکہ میں نے عرض کیا تھا کہ سقیفہ (۱) بنی ساعدہ میں خلافت ابوبکر کی رائے دینے کے وقت امت کا با قاعدہ اجماع ہوا تھا یا فقط چند اشخاص نے جو ایک چھوٹا سا گروہ بنائے ہوئے تھے اس چھوٹے سے چھتے کے اندر رائے دے کر بیعت کر لی۔

حافظ : یہ تو بدہی بات ہے کہ وہ کبار صحابہ میں سے چند نفر تھے لیکن بعد کو رفتہ رفتہ اجماع واقع ہوگیا۔

خیرطلب : میں بہت ممنون ہوں کہ آپ نے بات کو گھمایا نہیں اور حقیقت بیان کر دی۔ خدا کے لیے انصاف کیجئے کیا رسول خدا(ص) نے جو اس کے لیے اولی اور احق تھے کہ امت کے سامنے صراط مستقیم اور راہ راست کو واضح کریں اس عظیم ذمہ داری کو اپنی گردن سے اتار کر امت کے سر ڈال دیا کہ صرف چند افراد سیاسی گوئیں چلیں اور ان

میں سے ایک دوسرے کی بیعت کرے نیز تھوڑے سے ساتھی باراتی بھی بیعت کر لیں اور قبیلہ اوس دالے اس عداوت کی بنا پر جو وہ ہمیشہ سے قبیلہ خزرج کےساتھ رکھتے تھے اور اس خوف کی وجہ سے بیعت کر لیں کہ ایسا نہ ہو وہ لوگ پیش قدمی کر جائیں (اور سعد بن عبادہ امیر بن جائیں) بعدک رفتہ رفتہ لوگ خوف یا لالچ میں فرمانبردار بنیں اورایک حکومت ہو جائے تاکہ آج کی رات جناب عالی ان چند اشخاص کا نام اجماع رکھ دیں؟ آیا بلاد مکہ، یمن، جدہ، طائف، حبشہ اور دوسرے شہروں اور دیہات میں پھیلے ہوئے باقی مسلمان امت مرحومہ میں نہ تھے اور خلافت کے معاملے میں ان کو رائے دینے کا حق نہ تھا ؟ اگر کوئی سازش نہیں کی گئی تھی، پہلے سے کچھ قرار دادیں اور سیاسی چالیں پیش نظر نہ تھیں اور آپ کی یہ دلیل سچ تھی تو اتنا صبر کیوں نہیں کیا کہ خلافت جیسے اہم کام میں سارے مسلمانوں کا نقطہ نظر معلوم کر لیا جائے تاکہ تمام امت کا حقیقی اجماع صادق آجائے اور اس میں کسی غلطی یا گمراہی کی گنجائش نہ رہ جائے؟

چنانچہ دنیا کی ساری ترقی یافتہ قوموں کا دستور ہے کہ جمہوری حکومت قائم کرنے یا اپنا قائد چننے کے لیے عام اعلان کیا جاتا ہے اور پوری قوم کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اکثریت کی تجویز پر عملدر آمد ہوتا ہے۔ تاریخ عالم کو چھان ڈالئے ایسی بے بنیاد تشکیل اور ایسے رئیس کا تقرر تھوڑے سے لوگوں کے ہاتھوں کا کرشمہ ہو ڈھونڈھے نہ ملے گا۔ بلکہ متمدن فرمانبردار اور صاحبان عقل و ہوش اس عمل کی ہنسی اڑاتے ہیں۔ پھر تعجب بالائے تعجب یہ کہ ایک چھوٹے سے چھتے کے اندر ایسے مختصر سے مجمع کا نام اجماع رکھا جائے اور متعصب لوگ ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد اب بھی اس بے محل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ سقیفہ انصار کے قبیلہ بنی ساعدہ کا ایک چھتہ تھا جس میں وہ لوگ مخصوس موقعوں پر صلاح و مشورہ کیا کرتے تھے۔

۲۹۹

لفظ اور بے سرو پا عمل پر خواہ مخواہ اڑے رہیں اور کہیں کہ امت کا اجماع حقانیت خلافت کی دلیل ہے یعنی کچھ آدمیوں کی مٹھی بھر جماعت نے ایک گوشے میں اکٹھا ہو کر پوری ملت اور امت کے سیاہ و سفید کا اختیار ایک شخص کے ہاتھ میں دیدیا لہذا یہ برحق ہے اور لامحالہ اس کی اطاعت میں سر جھکانا ہی چاہئیے۔

حافظ : آپ کیوں بے لطفی کی بات کرتے ہیں۔ اجماع سے مراد صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ کا اجماع تھا جو سقیفے کے اندر واقع ہوا۔

خیر طلب : آپ کا یہ فرمانا کہ اجماع سے مراد صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ کا اجماع تھا محض زبردستی اور بغیر دلیل کی منطق ہے اس لیے کہ آپ کے پاس سوا اس حدیث کے اور کچھ نہیں ہے فرمائیے جس حدیث پر آپ کا سارا دار و مدار ہے اس میں صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ کی بات کہاں سے نکلتی ہے ؟ آپ اپنی منشاء کے مطابق حدیث کے ایسے معنی کرتے ہیں کہ عقلمند اور اہل علم حیران رہ جاتے ہیں۔

حالانکہ میں عرض کرچکا ہوں کہ امتی میں یائے نسبت عمومیت کا پتہ دیتی ہے نہ کہ چند نفر صحابہ کا چاہے وہ عاقل و فاضل ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیا جائے کہ آپ کا فرمانا ( کہ عقلا ، کبار اصحاب کا اجماع مراد ہے) درست ہے تو کیا صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ صرف وہی گنے چنے افراد تھے جنہوں نے سقیفہ کے مختصر سے چھتے میں ابوبکر و عمر اور ابو عبیدہ جراح ( گورکن) کی پیشوائی کے لیے رائے دی اور بیعت کی۔

آیا مسلمانوں کے دوسرے شہروں میں صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ نہیں رہتے تھے؟ آیا قوم کے سارے عقلمند اور کبار اصحاب وفات رسول (ص) کے وقت مدینے کے اندر اور وہ بھی ایک چھوٹے سے چھتے میں جمع تھے اور سب نے مل کر اس امر پر اجماع کیا تھا تاکہ آج کی شب وہ آپ کے لیے دلیل بنے؟

حافظ : چونکہ خلافت کا معاملہ اہم تھا اور ممکن تھا کہ کوئی فتنہ اٹھ کھڑا ہو لہذا اس کا موقع نہیں تھا کہ دیگر مقامات کے مسلمانوں کو اطلاع کی جائے۔ چنانچہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے جس وقت یہ سنا کہ کچھ انصار وہاں جمع ہیں تو فورا خود بھی پہنچے اور بات چیت کی۔ عمر چونکہ ایک سیاست دان انسان تھے لہذا انہوں نے امت کی بھلائی اسی میں دیکھی کہ ابوبکر کی بیعت کر لیں۔ چند اور اشخاص نے بھی ان کی پیروی میں بیعت کی لیکن انصار کی ایک جماعت اور قبیلہ خزرج نے سعد بن عبادہ کا ساتھ دیتے ہوئے بیعت نہیں کی اور سقیفے سے چلے گئے۔ یہ تھا جلدی کرنے کا سبب۔

خیر طلب : تو جیسا کہ آپ کے سارے مورخین اور اکابر علماء تصدیق کر چکے ہیں آپ نے بھی تصدیق کردی ہے کہ سقیفے کی بنیادی کاروائی میں کوئی اجماع واقع نہیں ہوا۔ ابوبکر نے سیاسی مصلحت سے عمر اور ابوعبیدہ جراح کو پیش کیا، اور ان لوگوں نے بھی پیش کش کو پلٹتے ہوئے کہا کہ آپ سب سے زیادہ لائق اور اولی ہیں، از روئے سیاست فورا بیعت کر لی اور قبیلہ اوس کے کچھ لوگوں نے بھی جو وہاں موجود تھے خزرج والوں سے اپنی سابقہ عداوت کے

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369