پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310227 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کے خاتمے پر مذہب شیعہ کی حقیقت اس پر ظاہر اور روشن ہوگئی اور اس نے مذہب حقہ امامیہ اختیار کر لیا۔ اور تمام بلاد ایران میں شیعہ مذہب کی آزادی کا اعلان نافذ کردیا ۔ اور اسی وقت سے سارے حکام اور ولایتوں کے گورنروں کو اطلاع دے دی کہ ساری مسجدوں اور مجمعوں میں امیرالمومنین علیہ السلام اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے نام کا خطبہ پڑھیں اور حکم دیا کہ دیناروں پر تین متوازی سطروں میں کلمہ طیبہ" لا اله الا اﷲ محمد رسول اﷲ علی ولی اﷲ" کو سکہ نقش کیا جائے۔

جناب علامہ حلی کو جنہیں ایک اختلافی مسئلہ حل کرنے کے لیے جلہ سے بلوایا تھا ( اور اسی کی بنا پر اس جلسے میں مناظرہ کا دروازہ کھل گیا ۔ اور تشیع کی حقیقت ظاہر ہوئی) اپنے پاس ٹھہرا لیا آپ کے لیے مدرسہ سیارہ تعمیر کرایا اور طالبان علوم آپ کے گرد جمع ہوگئے چونکہ آپ بلا تقیہ اور کھلم کھلا حقائق کو بیان فرماتے تھے لہذا بے خبر لوگوں نے بھی طریقہ حقہ امامیہ کا پتہ لگا لیا، ولایت کا آفتاب درخشان ابر خفا سے باہر آگیا اور اسی زمانے سے مذہب حقہ، شیعہ کی روشنی جہالت و نادانی کا پردہ چاک کر کے ظاہر اور نمایاں ہوئی۔

تقریبا سات سو سال کے بعد با اقتدار صفوی بادشاہوں کی حمایت اور اس زمانے کی مکمل تبلیغات کے اثر سے باطل تیرہ و تار بادل بالکل چھٹ گئے اور ولایت و امامت کا آفتاب عالمگیر ضیا پاشی کرنے لگا۔

چنانچہ ایرانی اگر چہ ایک روز مجوسی اور دو خداؤں ( یزادن و اہرمن) کے معتقد تھے لیکن جس وقت سے انہوں نے اہل اسلام کے عقلی دلائل و براہین کو سنا ان کو دل و جان سے قبول کیا اور اب تک پورے خلوص کے ساتھ اپنے اسلامی عقیدے پر ثابت قدم ہیں۔

اگر ایرانیوں میں چند افراد ایسے پیدا ہوجائیں جو مجوسی ہوں یا کسی طریقے کے پابند نہ ہوں یا غلات کے سلسلے میں شامل ہوکر حضرت علی(ع) کو ان کی منزل سے بلند کر کے الوہیت کے درجے پر پہنچا دیں اور ان کو بندوں کا خالق و رازق سمجھنے لگیں ۔، حلول و اتحاد اور وحدت وجود کے قائل ہوں تو اس کو پاک نفس ایرانیوں کی اصل جماعت اور اکثریت سے کوئی ربط نہیں ہے۔

اس طرح کے غیر مناسب اور بے عقل و خرد افراد ہر قوم و ملت میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن شریف و عقلمند ایرانی قوم کی اکثریت وحدانیت حق تعالی اور نبوت خاتم الانبیاء پر مضبوط عقیدے سے اور ایمان کی حامل ہے۔ اور رسول اﷲ(ص) کے حسب الحکم سب امیرالمومنین علیہ السلام اور ان حضرت کے گیارہ فرزندوں کے پیرو ہیں۔

حافظ : آپ کے ایسے حجازی ، مکی اور مدنی بزرگ سے تعجب ہے کہ چند روز کے لیے ایران میں قیام کر لیا تو ایرانیوں کی اس قدر طرفداری کررہے ہیں۔ اور ان کو علی کرم اﷲ وجہ ، کا پیرو سمجھتے ہیں باوجودیکہ علی (ع) خود خدائے تعالی کے مطیع و فرمانبردار بندے تھے لیکن ایرانی شیعہ سب کےسب آپ کو خدا سمجھتے ہیں اور

۴۱

خدا سے جدا نہیں جانتے اور اپنے اشعار میں آپ کو بمنزلہ حق بلکہ عین حق قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ ان کے دلوں اور مکتوبات میں ا س طرح کی کفریات واضح طور پر موجود ہیں کیا ۔ اس قسم کے اشعار ایرانی شیعہ عارفین سے وارد نہیں ہیں جنہیں علی کرم اﷲ وجہ کی زبان سے نقل کرتے ہیں ۔ ( حالانکہ علی(ع) قطعا اس قسم کے عقیدے سے بیزار ہیں۔)

من طلسم عیب و کنز لاستم چون بہ کنیز لارسی الاستم

یعنی از اﷲ ولا بالا ستم نقطہ ام بار بار گویا ستم

کثرت تاترات پندارت کند

مظہر کل عجائب کیست من مظہر سرِ غرائب کیست من

صاحب عون نواسب کیست من در حقیقت ذاب واجب کیست من

ایک دوسرے شخص نے کہا ہے۔

در مذہب عارفان آگاہ ( گمراہ) اﷲ علی، علی است اﷲ

خیر طلب : آپ سے تعجب ہے کہ بغیر تحقیق کے قوم ایرانی شیعوں کو غالی اور علی پرست سمجھتے ہیں اور اس قسم کی باتوں سے بے خبر سنی بھائیوں کے سامنے معاملے کو شبہ کر کے برادر کشی کا دروازہ کھولتے ہیں ، چنانچہ افغانستان ، ہندوستان، ازبکستان اور تاجکستان وغیرہ میں اس قدر شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا کہ خون کے دھارے بہہ گئے۔

ازبکستان اور ترکستان کے مسلمان اپنے علماء کے بھڑکانے سے کہتے تھے کہ شیعہ علی پرست مشرک اور کافر ہیں اور ان کا قتل واجب ہے ان سبھوں نے ایرانی مسلمانوں کا اس کثرت سے خون بہایا کہ تاریخ کے صفحات کو داغدار بنا دیا۔

بے چارے سنی عوام آپ کے ایسے بزرگ علماء کی رہنمائی میں ایرانی مسلمانوں کو نگاہ کینہ بلکہ کفر و شرک اور ارتداد کے خیالی سے دیکھتے ہیں۔

گذشتہ زبانوں میں ترکمان لوگ خراسان کے راستے میں سر راہ ایرانی قافلوں کو گرفتار کر کے قتل و غارت میں مشغول ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ جو شخص سات عدد رافضیوں ( شیعوں ) کو قتل کردے اس پر بہشت واجب ہوجاتی ہے۔

قطعی طور پر جان لیجئے کہ اس طرح کے افعال اور قتل عام کی جواب دہی آپ ہی جیسے حضرات کے ذمے ہے جو ان کے کانوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ شیعہ علی(ع) پرست مشرک اور کافر ہیں اور بے خبر عقیدت مند سنی عوام

۴۲

اس کو قبول بھی کر لیتے ہیں ۔ لہذا بقصد ثواب اس قسم کی حرکتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

اسلام نے نسلی تفاخرات کو جڑ سے کاٹ دیا

پہلے میں آپ کے جملہ اول کا جواب عرض کرتا ہوں تاکہ ہم لوگ اصل مطلب تک پہنچیں۔ آپ نے جو یہ فرمایا کہ تم حجازی ، مکی اور مدنی ہو کر ایرانی بھائیوں کی طرفداری کس لیے کرتے ہو؟ تو یہ بدیہی بات ہے کہ مجھ کو اپنے مکی مدنی اور محمدی ہونے پر فخر ہے لیکن نسلی تعصب جو جہالت اور نادانی کے آثار میں سے ہے میں اپنے دل مین نہیں رکھتا ہوں۔ اس لیے کہ میرے جد بزرگوار حضرت خاتم الانبیاء (ص) نے باوجودیکہ ہر ملت کی قومیت اور وطنیت کی حفاظت ملحوظ رکھی ہے۔ اور جملہ حب الوطن من الایمان کے ساتھ ہر قوم و ملت کو محب وطن کی ہدایت کی ہے ۔ لیکن آں حضرت (ص) نے النافوں کے اتحاد اور ہر فرد بشر کے دل سے ہر طرح کے بیہودہ خیالات دور کرنے کے لیے جو بڑے قدم اٹھائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کو کلی طور پر جڑ سے کاٹ دیا اور ایک بلند اور موثر آواز کے ساتھ دنیا والوں کو اپنے اس اعلان کی طرف متوجہ فرمایا کہ

"لافخر للعرب علی العجم ولا للعجم علی العرب ولا للابيض علی الاسود ولا للاسود علی الابيض الا بالعلم و التقی ۔" (1)

اور نیز اس لیے کہ عالم اور متقی اشخاص کو اشتباہ نہ پیدا ہوجائے کہ آں حضرت (ص) کے ارشاد سے سند لے کر تواضع اور خاکساری سے ہٹ جائیں اور دوسروں پر کبر و خودی کا اظہار کرنے لگیں فرمایا ۔

" انا من العرب ولا فخروا فاسيد ولد الآدم ولا فخر ۔ " (2)

نتیجہ کلام یہ کہ میں باوجودیکہ عرب اور سید آدم ہوں لیکن اس نسل اور منزلت سے دوسروں پر کوئی فخر و مباہات نہیں کرتا۔

پیغمبر(ص) کا فخر صرف اس بات پر تھا کہ پروردگار کے اطاعت گذار بندے ہیں۔ آں حضرت(ص) مقام مناجات میں عرض کرتے تھے۔

" کفی بی فخرا ان اکون لک عبدا " یعنی میرے لیے یہی فخر ومباہات کافی ہے کہ تجھ ایسے پروردگار کا بندہ ہوں۔

خدا تعالی سورہ نمبر49 ( حجرات) آیت نمبر13 میں ارشاد فرماتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ عرب کو عجم پر عجم کو عرب پر ، سفید کو سیاہ پر اور سیاہ کو سفید پر کوئی فخر و مباہات نہیں ہے سوا علم و تقوی کے۔

2 ـ میں قوم عرب سے ہوں لیکن ان پر فخر نہیں کرتا میں اولاد آدم کا سردار ہوں۔ لیکن اس پر فخر نہیں کرتا ہوں۔

۴۳

" يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ " (الحجرات، 13) (1)

اس نے فضل و شرف اور بزرگی تقوی میں قرار دی ہے۔ نیز اسی سورے کے آیت نمبر 10 میں فرمایا ہے:

" إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ "( الحجرات ، 10)

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا ہمیشہ اپنے ایمانی بھائیوں کے درمیان اگر کوئی نزاع پیدا ہو تو صلح کرا دیا کرو ) چنانچہ ایشائی ، افریقی، یورپی اور امریکی سفید و سیاہ ، سرخ و زرد شہرستانی اور کوہستانی نسلوں کے جملہ افراد لوائے اسلام اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے ماتحت آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے پر کوئی فخر و مباہات نہیں رکھتے۔

اسلام کے عظیم المرتب قائد حضرت خاتم الانبیاء نے عملی طور پر اس کا ثبوت دیا ہے عجم سے سلمان فارسی کو روم سے صہیب رومی کو اور حبش سے بلال سیاہ کو اپنے آغوش محبت میں قبول فرمایا لیکن اپنے شریف النسل چچا ابولہب کو جو عرب کی بہترین نسل سے تھا اپنے سے دور فرمادیا اور اس کی مذمت میں ایک سورہ نازل ہوا جس میں صریح طور پر ارشاد ہے ۔ تبت یدا ابی لھب۔ ( یعنی ابولہب کے ددنوں ہاتھ قطع ہوجائیں ( جو رسول اﷲ(ص) کے درپے آزار تھے۔)

سارے فسادات اور لڑائیاں نسلی تفاخرات کی بنا پر ہوتی ہیں

انسانوں کے تمام فتنہ و فساد اور جنگ و جدال انہیں نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کی بنا پر ہیں۔ جرمنی کے باشندے کہتے ہیں کہ آرین اور جرمنی نسلی سب سے بلند ہے ۔ جاپانی کہتے ہیں کہ سرداری کا حق ان کی زرد نسل کو حاصل ہے اور یورپ والے کہتے ہیں کہ سفید فام لوگ حاکم اور سب کے اوپر افسر ہیں۔ امریکہ کے متمدن ممالک میں اب تک سیاہ فام لوگ اجتماعی حقوق سے محروم ہیں ۔ یہاں تک کہ سفید فاموں کے کیفے ، سینما اور مہمان خانوں میں داخل ہونے کا حق نہیں رکھتے اور سیاہ فام عیسائی کو سفید فاموں کے کلیساء میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے تعجب خیز بات یہ ہے کہ عبادت گاہ میں بھی ایک دوسرے کے برابر بیٹھنے کے حقدار نہیں ، سیاہ کھال کے علماء اور افاضل اگر سفید کھال کے دانشمندوں کے جلسوں میں جاتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ جوتے اتارنے کی جگہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ اے انسانو ! ہم نے سب کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے ۔ اور ان میں مختلف شاخیں اور قبیلے قرار دیئے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو( اور سمجھ لو کہ اصل ونسب اور نسلی سرمایہ افتخار نہیں ہے بلکہ خدا کے نزدیک تم سب میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو تم لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

۴۴

بیٹھیں ، ان کو سفید فاموں کے سامنے علم و ہنر کا اظہار نہ کرنا چاہئیے ایک بوڑھے سیاہ فام عالم کو چاہیئے کہ سفید فام جوان کے سامنے تعظیم بجالائے اور مطیع و فرمانبردار رہے۔ سفید فام اساتذہ سیاہ فاموں کو اپنے مدرسوں میں داخل نہیں کرتے ، یہاں تک کہ ریلوے اسٹیشنوں پر اگر کوئی سیاہ فام چھوٹ گیا ہو تو ان کو سفید فاموں کے مسافر خانوں میں گھسنے کا اختیار نہیں۔ خلاصہ یہ کہ امریکہ میں سیاہ فام لوگ باوجود ان کوششوں کے جو ان لوگوں کی آزادی کے لیے عمل میں لائی جاتی ہیں) حیوانات میں شمار ہوتے ہیں اور سفید فاموں کی طرح وسائل تمدن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ (1)

لیکن مقدس دین اسلام نے سارے بیہودہ اور موہوم عقائد کو تیرہ سو سال پہلے ہی درمیان سے اٹھادیا تھا، اس کا اعلان ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں چاہے جس نسل اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ یورپ ، ایشا، امریکہ اور افریقہ کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ ایک دوسرے کے لیے خلوص و محبت کا آغوش کھلا رکھیں اور دنیا کے جس مقام پر بھی ہوں، ہمیشہ ایک دوسرے کے یار و غمگسار رہیں۔ اسلام حجازی، مکی اور مدنی مسلمانوں اور دوسرے ممالک کے مسلمین میں کوئی فرق نہیں کرتا ۔ چنانچہ اگر میری نسل حجازی ، قریشی ، ہاشمی اور محمدی ہے تو جائز نہیں ہے کہ سچی بات کو چھپاؤں اور مہمل خیالات کی بنا پر حق کو پس پشت ڈال دوں ۔ میں قطعی طور پر حجازی گمراہوں سے متنفر اور ایرانی شیعوں کا دوستدار ہوں۔

مادروں را بنگریم و حال را نے درون را بنگریم و قال را

دوسری چیز یہ ہے کہ آپ نے ایرانی غالیوں کو بغیر کسی مناسبت اور دلیل و برہان کے پاک باز موحد اور خالص شیعوں کے ساتھ مخلوط کردیا ہے۔

غالیوں کے عقائد، ان کی مذمت اور لعن بر عبد اﷲ ابن سبا

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے شیعہ سب کے سب حق تعالےٰ کے خالص بندے ہیں۔ خدا اور اس کے بندے و رسول محمد(ص) کے مطیع و فرمانبردار ہیں اور علی ابن ابی طالب (ع) کے بارے میں پیغمبر(ص) نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کے علاوہ نہ اور کچھ کہتے ہیں نہ ہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ہم لوگ حضرت علی(ع) کو پروردگار کا عبد صالح اور رسول اﷲ(ص) کا وصی اور خلیفہ مںصوص سمجھتے ہیں۔ اور جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو اس کے مردود اور اپنے سے الگ جانتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ اٹلی کے قائد اور پیشوا مسولینی نے حکم دیا تھا کہ اس کا نمائندہ ادارہ مجلس اقوام سے نکل آئے۔ اس کا عذر یہ تھا کہ میرے لیے باعث ننگ ہے کہ میرا نمائندہ ایسے مجمع میں بیٹھے جہاں حبشی سیاہ فاموں کا نمائیندہ بیٹھا ہوا ہو۔ لیکن اسلام کے عظیم المرتبت پیغمبر(ص) نے چودہ سو برس پہلے) بلال سیاہ و حبشی کو اپنے آغوش محبت میں لے لیا اور فرماتے تھے کہ ارحنا یا بلال ! یعنی اے بلال میرے سامنے قرآن پڑھو اور مجھ کو شاد و مسرور کرو ۔ اب ناظرین محترم انصاف کریں اور دیکھیں کہ تفاوت راہ کہاں تک ہے۔

۴۵

جیسے مسلمانوں میں سے غلات از قبیل سائیبہ ، خطابیہ، غرابیہ، علیادیہ مخمہ وبزیفیہ اور انہیں کے امثال جیسے نصیریہ جو ایران کے بعض شہروں اور قریوں اور دوسرے بلاد میں مثل موصل اور شام کے اہل حق کے نام سے متفرق طور پر آباد ہیں۔

شیعہ بالعموم ان سے علیحدہ اور ان کو کافر و مرتد اور نجس سمجھتے ہیں ۔ فقہ کی ساری کتابوں اور عملیہ رسالوں میں فقہائے امامیہ نے غلات کو کافروں میں شمار کیا ہے کیونکہ وہ لوگ بے شمار فاسد عقیدوں کے حامل ہیں جن میں سے کچھ کہتے ہیں کہ چونکہ جسم کے قالب میں روح کا ظہور محال نہیں ہے ۔ جیسے کہ جبرائیل وحبہ کلبی کی صورت میں پیغمبر(ص) کے سامنے ظاہر ہوتے تھے۔لہذا خدا کی حکیمانہ مصلحت کا تقاضا ہوا کہ اس کی ذات اقدس انسانی قالب میں ظاہر ہو چنانچہ علی(ع) کی صورت اور جسم میں نمایاں ہوا، اسی سبب سے علی(ع) کی منزل کو رسول اﷲ(ص) کی مقدس منزل سے بلند تر سمجھتے ہیں اور خود انہیں حضرت کے زمانے میں شیاطین جن و انس کے بہکانے سے ایک جماعت اس عقیدے کی قائل تھی۔ ہند اور سوڈان کے باشندون کی ایک جماعت آئی اور اس نے آپ کی الوہیت کا اقرار کیا۔ حضرت نے ہر چند ان لوگوں کو نصیحت کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر کار جس طریقے سے کہ کتب اخبار میں درج ہے آپ کے حکم سے دھویں کے کنووں میں ہلاک کردئیے گئے۔ چنانچہ اس قبیلے کی مفصل تشریح علامہ جلیل ملا محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کی تالیف بحار الانوار جلد ہفتم میں لکھی ہوئی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین سلام اﷲ علیہم اجمعین نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ مثلا جو ہماری معتبر کتابوں میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے نقل ہوا ہے۔ کہ فرمایا :

" اللَّهُمَّ إِنِّي بَرِي ءٌ مِنَ الْغُلَاةِ كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مِنَ النَّصَارَى اللَّهُمَّ اخْذُلْهُمْ أَبَداًوَ لَا تَنْصُرْ مِنْهُمْ أَحَداً."

یعنی خداوندا میں گروہ غلات سے بری ہوں ۔ جیسے عیسی بن مریم نصاری سے بیزار تھے ۔ خداوندا ان کو ہمیشہ ذلیل و خوار رکھ۔ اور ان میں سے کسی کی مدد نہ فرما۔

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :

" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ وَ لَا ذَنْبَ لِي مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَ مُبْغِضٌ مُفَرِّطٌ وَ أَنَا أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مِمَّنْ يَغْلُو فِينَا وَ يَرْفَعُنَا فَوْقَ حَدِّنَا كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ع مِنَ النَّصَارَى "

یعنی میرے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوتے ہیں اورمیرے ذمے کوئی گناہ نہیں ہے (یعنی چونکہ میں ان کے عمل سے راضی نہیں لہذا گنہگار نہیں ہوں) ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو میری محبت میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو بلا سبب مجھ سے بغض و عداوت رکھتے ہیں یقینا میں ان لوگوں سے خدا کی طرف بیزاری اختیار کرتا ہوں جو ہمارے بارے میں غلو کرتے ہیں اور ہم کو ہماری حد سے بڑھاتے ہیں جس طرح سے عیسی بن مریم(ع) نے ںصاری سے بیزاری اختیار کی۔

۴۶

نیز فرمایا ہے۔" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ. " ( یعنی میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوتے ہیں، ایک ایسے دوست جو محبت میں غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ دشمن جو مجھ کو میری منزل سے گھٹاتے ہیں۔

اسی وجہ سے شیعہ امامیہ اثنا عشریہ ہر اس شخص سے بیزاری اختیار کرتے ہیں جو نظم و نثر میں امیرالمومنین (ع) اور ان کے اہل بیت اطہار (ع) کے لیے غلو کرے اور مقام تعریف میں ان کو منزل سے بلند قرار دے جو خدا و رسول(ص) نے ان کے لیے معین فرمائی ہے اور بندگی سے خدائی پر پہنچا دے جو لوگ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہوں وہ ہم میں سے نہیں ہیں بلکہ غالی اور ملعون ہیں۔ آپ اثنا عشریہ شیعہ امامیہ جماعت کا معاملہ ان سے الگ سمجھئے کیونکہ غالی فرقوں کے کفر و نجاست پر علمائے امامیہ کا اجماع ہے اور اگر آپ فقہاء شیعہ کی استدلالی کتابوں جیسے جواہر الکلام اور مسالک وغیرہ اور عملیہ رسالوں جیسے مرحوم آیتہ اﷲ یزدی قدس سرہ کی عروة الوثقی اور آیتہ اﷲ اصفہانی اعلی اﷲ مقامہ کی وسیلہ النجات کے باب طہارت باب زکوة ، باب ازدواج اور باب ارث کی طرف رجوع کریں تو ہمارے فقہاء کے فتوے ان لوگوں کے کفر ونجاست پر ملیں گے اور آپ دیکھیں گے کہ سب نے یہی فتوی دیا ہے کہ ان کے غسل و دفن میں شرکت جائز نہیں ہے ۔ ان کے ساتھ نکاح حرام ہے ( باوجودیکہ متعہ کی صورت سے اہل کتاب کیساتھ تزویج کو جائز جانتے ہیں۔) اور مسلمانوں کا حق وراثت ان کو نہیں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو صدقات و زکوة کادینا بھی ممنوع ہے۔

فرقہ ناجیہ شیعہ کی فن کلام اور عقائد کی کتابوں میں تفصیل اور استدلالی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ فرقہ فاسد اور کافر ہے ہر مسلمان پر اور خاص طور سے خالص العقیدہ شیعوں پر ان سے تبرا اور بیزاری واجب و لازم ہے۔

غلات کی مخالفت اور رد میں آیات و اخبار سے کافی مضبوط اور مکمل دلیلیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں نے اشارہ کر دیا ہے ۔ سورہ نمبر5( مائدہ) آیت نمبر81 میں کھلا ہوا ارشاد ہے :

" قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لا تَغْلُوا في دينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَ لا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَ أَضَلُّوا كَثيراً وَ ضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبيلِ "( المائدة ، 77 )

یعنی کہہ دو( اے رسول(ص)) کہ اے اہل کتاب غلو مت کرو اپنے دین میں کہ وہ حق نہیں ہے اور اس قوم کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو خود گمراہ ہوئے بہتوں کو گمراہ کردیا اور راہ راست سے دور جا پڑے۔

مرحوم علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحار الانوار جلد سوم میں ( جو شیعہ امامیہ فرقے کا دائرة المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے ، ان کی مذمت اور ان لوگوں کے مدعا سے خاندان رسالت کے دور ہونے میں بہت سی روائتیں نقل کی ہیں، من جملہ ان کے امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔ کہ آپ فرمایا :

" و ما نحن الا عبيد الذي خلقنا و اصطفانا، ما لنا على اللّه من حجة، و لا معنا من اللّه براءة، و انا لميتون، و موقوفون، و

۴۷

مسئولون، من احب الغلاة فقد ابغضنا و من ابغضهم فقد احبنا الغلاة كفّار و المفوضة مشركون، لعن اﷲ الغلاة ۔۔۔۔۔۔ "

( خلاصہ مطلب یہ کہ ہم اس خدا کے بندے ہیں جس نے ہم کو پیدا کیا اور مخلوقات میں سے منتخب کیا۔ در حقیقت غالیوں کو دوست رکھے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو شخص ان کو دشمن رکھے وہ ہمارا دوست ہے غلات کافر اور ملفوضہ مشرک ہیں۔ خدا کی لعنت ہو غلات پر)

نیز انہیں حضرت سے شیعوں کے ایک بڑے پیشوا نے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

" لعن اللّه عبد اللّه بن سبأ إنه ادّعى الربوبية في أمير المؤمنين و كان و اللّه أمير المؤمنين عبدا للّه طائعا، الويل لمن كذب علينا، و إن قوما يقولون فينا ما لا نقوله في أنفسنا نبرأ إلى اللّه منهم نبرأ إلى اللّه منهم "

(یعنی لعنت خدا کی، عبداﷲ بن سبا پر جس نے امیرالمومنین (ع) کےلیے ربوبیت اور خدائی کا دعوی کیا ۔ خدا کی قسم وہ حضرت خدا کے مطیع بندے تھے ، وائے ہو ان لوگوں پر جنہوں نے ہم پر افترا کیا، ایک گروہ ہمارے بارےمیں وہ باتیں کہتا ہے جو ہم خود اپنے بارےمیں نہیں کہتے ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ، ان سے خدا کی طرف ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ان سے خدا کی طرف۔

صدوق ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن موسی بن بابویہ قمی قدس سرہ نے جو جلیل القدر فقہائے امامیہ میں سے ہیں کتاب عقائد میں ایک روایت زرارہ بن اعین سے جو موثق شیعہ راوی ، حافظ علم اہل بیت(ع) اور حضرت باقر العلوم و صادق آل محمد علیہم السلام کے اصحاب میں سے تھے نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ عبداﷲ بن سبا کی اولاد میں سے ایک شخص تفویض کا قائل ہے ۔ فرمایا تفویض کیا؟ میں نے عرض کیا وہ کہتا ہے:

"إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ مُحَمَّداً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ وَ عَلِيّاً- عَلَيْهِ السَّلَامُ- ثُمَّ فَوَّضَ الْأَمْرَ إِلَيْهِمَا، فَخَلَقَا، وَ رَزَقَا، وَ أَحْيَيَا، وَ أَمَاتَا."

( یعنی خدائے عزوجل نے محمد (ص) و علی(ع) کو پیدا کیا پھر بندوں کے امور ان کے سپرد کردئیے چنانچہ وہی خالق ہیں وہی رازق ہیں وہی زندہ کرتے ہیں ۔ وہی مارتے ہیں ) حضرت نے فرمایا کذب واﷲ جھوٹ بولتا ہے دشمن خدا جب تم پلٹ کر اس کے پاس جاؤ تو سورہ رعد کی یہ آیت پڑھو :

"أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْ ءٍ وَ هُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ " ( الرعد ،16)

“ یعنی کیا مشرکین نے خدائے تعالیٰ کے کچھ شریک قرار دیئے کہ خدا کا پیدا کیا ہوا کون اور ان شرکاء کا پیدا کیا ہوا کون ہے۔ کہدو (اے محمد(ص)) کہ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ صرف خدائے تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی الوہیت میں یکتا ہے جس کا ارادہ ساری کائنات پر غالب ہے۔”

یہ آیت خود توحید باری تعالی کی تصریح کر رہی ہے۔ زرارہ کہتے ہیں کہ جس وقت میں اس کے پاس گیا اور یہ آیت حسبِ

۴۸

ارشاد امام(ع) میں نے اس کے سامنے پڑھی تو گویا میں نے اس کے منہ پر پتھر مار دیا وہ مبہوت ہو کے رہ گیا۔

اس طرح کی روایتیں ہماری معتبر کتابوں میں آئمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم اجمعین اور شیعوں کے برحق پیشواؤں کی طرف سے گروہ غلات کے لیے لعن و طعن اور بر کہنے میں کثرت سے وارد ہوئی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ جس طرح ہم آپ کے علماء کی کتابیں پڑھتے ہیں آپ بھی علمائے شیعہ کی معتبر کتابیں پڑھا کیجئے تاکہ ایسے الفاظ زبان سے نہ نکالیے جو بے چارے عوام کو بہکانے والے ہوں۔ اور آپ بھی خدا کے دربار عدالت میں گرفتار ہوں۔

حضرات محترم! میں آپ سے انصاف چاہتا ہوں ۔ آیا ایسی صورت میں جب کہ ہمارے ائمہ نے اپنے شیعوں کی رہنمائی کے لیے ایسے بیانات ارشاد فرمائے ہیں اور سچے شیعہ علی (ع) واولاد علی(ع) کے پیرو اپنے مقتداؤں سے ان روایتوں کے سنے ہوئے ہیں اس کے بعد بھی ان کو خدا یا خدائی کی جگہ پر قرار دیں گے؟ غالیوں کا گروہ ہم سے بالکل الگ اور ہم ان لوگوں سے بیزار اور علیحدہ ہیں۔ چاہے وہ بظاہر تشیع کا دعوی کریں۔ لیکن خدا اور رسول(ص) علی و اولا علی علیہم السلام سب کےسب ان سے بیزار اور سارے شیعہ بھی ان سے بیزار اورالگ ہیں۔

چنانچہ ہمارے مولا امیرالمومنین علیہ السلام نے رئیس غلات عبداﷲ بن سبا ملعون کو تین روز تک مقید رکھا اور توبہ کا حکم دیا جب اس نے قبول نہ کیا تو مجبورا اس کو آگ میں جلوا دیا۔ آپ کو خدا کے سامنے اس سے شرم آنا چاہئیے کہ آپ کے علماء تعصب و عادت اور اسلاف کی پیروی میں یہ لکھیں کہ تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا یہی عبداﷲ ملعون تھا جو حضرت علی(ع) کے حکم سے جلا دیا گیا۔ حالانکہ علمائے شیعہ نے ساری متعلقہ کتابوں میں اپنے ائمہ کی پیروی کرتے ہوئے عبداﷲ بن سبا کو ملعون بتایا ہے۔ لہذا عبداﷲ کے پیرو بھی ملعون ہیں کیونکہ وہ غلات میں سے ہیں نہ کہ آل محمد(ص) اور عترت طاہرہ پیغمبر(ص) کے محبت خالص شیعوں مین سے اس لیے کہ وہ س خداندان جلیل کے بارے میں غلو کی وہ سے دور اور مطرود ہیں۔

اگر تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا عبداﷲ ملعون ہوتا اور شیعہ اس کے پیرو ہوتے جیسا کہ آپ کے متعصب علماء نے لکھا ہے اور دوسرے ان کی اندھی تقلید کر کے جلسوں میں اس کو نقل کرتے ہیں تو کم سے کم شیعوں کی کسی ایک ہی کتاب میں اس کی کچھ تعریف درج ہونا چاہئیے تھی۔ اگر آپ علماء شیعہ امامیہ کی کسی ایک ایسی کتاب کا پتہ دے دیجئے جس میں عبداﷲ ملعون کی کوئی تعریف کی گئی ہو تو میں آپ کی ساری باتیں ماننے کے لیے تیار ہوں اور اگر یہ پتہ نہ دیں ( اور ہرگز نہیں دے سکتے ہیں) تو روز حساب اور محکمہ عدل الہی سے ڈرئیے ، پاک و موحد شیعوں کو عبداﷲ ملعون کا پیرو نہ کہیئے اور حقیقت کو بیخبر عوام کی نگاہوں میں مشتبہ نہ بنائیے۔

اس کے علاوہ میں آپ سے برادرانہ التماس کرتا ہوں کہ آپ چونکہ اہل علم ہیں لہذا ہمیشہ قاعدہ علم و منطق اور حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے گفتگو فرمائیں اور خلاف عقل و حقیقت باتوں اور بے بنیاد شہرتوں کا سہارا نہ لیں۔

۴۹

جن کو دشمنوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے شیعوں کی طرف منسوب کیا ہے۔

حافظ : آپ کی برادرانہ نصیحتیں ہر عقلمند کے لیے قابل قبول و توجہ ہیں لیکن اجازت دیجئیے کہ میں بھی فرمائش کے طور پر چند جملے عرض کروں۔

خیر طلب : میں بہت ممنوں ہوں گا فرمائیے!

حافظ : آپ اپنے بیانات میں برابر یہی فرمارہے ہیں کہ ہم اماموں کے بارے میں غلو نہیں کرتے اور غلات کو مردود و ملعون اور جہنمی جانتے ہیں لیکن ان دو راتوں میں آپ کی زبان سے بار بار اماموں کے حق میں ایسے الفاظ سنے جارہے ہیں کہ آپ ہی کے بیان کیئے ہوئے قواعد کی روسے وہ حضرات اس قسم امور پر راضی نہیں ہیں ۔ لہذا ممکن ہو تو آپ بھی بات چیت کے موقع پر اس کا لحاظ رکھیں تاکہ مطعون نہ ہوں۔

خیر طلب : میں خشک و تنگ نظر اور متعصب و جاہل انسان نہیں ہوں ، بہت ممنون ہونگا کہ اگر میری گفتگو میں کوئی لغزش پائی جاتی ہو تو اس کی یاد دہانی فرما دیجئیے چونکہ انسان سہو و نسیان کا مرکز ہے لہذا تمنا رکھتا ہوں کہ ان دو راتوں میں جوکچھ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوکہ ائمہ ہدی علیہم السلام کے خلاف مرضی کہا گیا ہے اور علم و عقل و منطق سے مطابقت نہیں کرتا اس کو بیان فرمائیے۔

حافظ : میں نے ان دو شبوں میں مکرر آپ سے سنا ہے کہ جس موقع پر اپنے اماموں کا نام لیتے ہین تو بجائے اس کے کہ رضی اﷲ عنہم کہیں ، سلام اﷲ علیہم اور صلوات اﷲ علیہم کہا ہے در آںحالیکہ خود جانتے ہیں کہ سورہ احزاب کی آیہ شریفہ کے حکم سے جس میں ارشاد ہے :

" إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً" ( الاحزاب، 56 )

یعنی خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر کی روح پاک پر درود بھیجتے ہیں۔ اے اہل ایمان تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کرو ( اور ان کے فرمان کو تسلیم کرو) آیت نمبر56 سورہ نمبر133 ( احزاب) سلام اور صلوة صرف رسول خدا(ص) سے مخصوص ہے چونکہ آپ اپنے بیانات میں اماموں کے لیے بھی صلوات و سلام کا ذکر کرتے ہیں ۔ لہذا بدیہی چیز ہے کہ یہ عمل قرآن مجید کی ںص صریح کے خلاف ہے۔

آپ کے اوپر جو اعتراض کئیے جاتے ہیں ان میں سے ایک موضوع یہ بھی ہے کہ کہتے ہیں یہ امر بدعت ہے اور اہل بدعت اہل ضلالت ہیں۔

آل محمد علیھ م السلام پر سلام اور صلوات بھیجنے کے بار ے م یں مناظرہ

خیر طلب :- جماعت شیعہ نے ہ رگز کوئ ی عمل نص کے خلاف ن ہ ک یا ہے ن ہ کرت ے ہیں ۔ ہ وا یہ کہ گذشت ہ

۵۰

صد یوں میں خوارج و نواصب ،بنی امیہ اور ان کے پ یرووں نے ح یلہ سازیاں شروع کیں اور شیعوں کو اہ ل بدعت نام زد کرنے ک یلئے فرضی دلیلیں قائم کیں جن کا بڑے ب ڑے ش یعہ علماء نے مکمل جواب د یا اور ثابت کیا ہے ک ہ ہ م ا ہ ل بد عت ن ہیں ہیں ۔ چونک ہ دشمن ک ے ہ ات ھ و ں م یں قلم ہے ل ہ ذا تن ہ ا قاض ی بن کر جو چاہ ت ے ہیں لکھ ت ے ہیں ۔ اس موضوع پر ب ھی مفصّل جواب دیا جاچکا ہے ۔ ل یکن چونکہ وقت کاف ی گزر چکا ہے ۔ ل ہ ذا تفص یلی جواب سے قظع نظر کرتا ہ و ں محض اس لئ ے ک ی آپ کی فرمائش بغیر جواب کے ن ہ ر ہ جائ ے اور حضرات ا ہ ل جلس ہ اور م یرے برادران عزیز کے سامن ے حق یقت امر مشتبہ ن ہ ر ہے مختصر طور س ے عرض کرتا ہ و ں ، اوّل تو یہ کہ اس آیت میں کسی دوسرے پر سلام وصلوات ب ھیجنے کو منع نہیں کیا گیا ہے ۔ فقط حکم د یا جاتا ہے ک ہ مسلمانو ں کو لازم ہے ک ہ آ ں حضرت (ص) پر صلوات ب ھیجیں ۔

دوسرے جس خدائے بر تر ن ے یہ آیت نازل فرمائی ہے و ہی سورہ 37 (صافات)آ یت 130میں فرماتا ہے ۔ سلام عل ی آل یاسین (یعنی سلام ہ و یسین کی آل پر )خاندان رسالت کی اہ م خصوص یات میں سے ا یک یہ بھی ہے ک ہ قرآن مج ید میں ہ رجگ ہ مخصوص طور پر انب یائے کرام پر سلام ہے و ہ ف رماتا ہے ۔ "سلام عل ی نوح فی العالمین"،"سلام علی ابراہیم "،"سلام علی موسی وھ ارون" (سور ہ صافات ) ل یکن کسی مقام پر اولاد انبیا ء کے ل یئے سلام نہیں آیا ہے ،سوا اولاد خاتم الانب یاء کے جن ک ے لئ ے ارشاد ال ہی ہے ، سلام عل ی آل یا سین ، یاسین بھی رسول خدا(ص) کا ایک نام ہے ۔

"یس "کے معن ی اور یہ کہ "س"پ یغمبر صلّی اللہ عل یہ وآلہ کا نام مبارک ہے

آپ کو معلوم ہے ک ہ قرآن مج ید میں پیغمبر(ص)کے بار ہ نامو ں م یں سے پانچ نام امت ک ی مزید معرفت کیلئے ذکر کئے گئ ے ہیں اور وہ پانچ مقدس اسماء محمد، احمد، عبدالل ہ ، نون اور یاسین ہیں ۔ سور ہ نمبر 36 ک ے شروع م یں فرماتا ہے " یس و القرآن الحکیم انّک لمن المر سلین " یا حرف ندا اور "س"آنحضرت (ص) کا نام مبارک اور آنحضرت (ص) کی ظاہ ر ی وباطنی معتدل حقیقت اور مساوات کی طرف اشارہ ہے ۔

نواب:- اس کا کیا سبب ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی میں "س" آنحضرت (ص) کا نام مبارک قرار پایا ؟

خیر طلب :- میں نے عرض ک یا کہ آنحضرت(ص) ک ے عالم معنو ی اورحقیقت اعتدال کی طرف ایک اشارہ ہے ۔ ک یونکہ منزل خاتمیت کی حقدار وہی ذات ہے جس کا وجود حد اعتدال کو پ ہ نچا ہ وا ہے یہ اس وقت ممکن ہے جب اس کا

۵۱

ظا ہ ر وباطن یکساں ہ و اور یہ مرتبہ آ ں حضرت (ص) ک ے وجود مق دس کو حاصل تھ ا ،ل ہ ذا حرف "س" ک ے سات ھ اس ح یثیت کا اظہار فرمایا ۔

عام عقلوں س ے قر یب تر بیان یہ ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی کے درم یان صرف "س" ہی ایسا ہے جس کا ظا ہ ر وباطن برابر ہے اس معن ی سے ک ہ ا ٹھ ائ یس حرفوں م یں سے ہ ر ا یک کے لئ ے علمائ ے علم اعداد ک ے نزد یک ایک زبر اور ایک بیّنہ ہے اور حرف ک ے زبر و ب یّنہ کا تطابق کرنے م یں قطعی طور پر یا اس کا زبر زیادہ ہ وتا ہے یا بیّنہ ۔

نواب :- قبلہ معاف فرمائ یے گا میں جسارت کر رہ ا ہ و ں ۔ چونک ہ م یں گہ ر ے مضام ین کو سمجھ ن ے س ے معذور ہ و ں ل ہ ذا استدعا ہے ک ہ ان راتو ں م یں مطالب کو سادہ اور واضح طر یقے سے ب یان فرمائیے تاکہ ہم سب کے لئ ے لائق توج ہ اور قابل قبول ہ و ں چونک ہ ہ م لوگو ں ن ے زبر وب یّنہ ک ے معن ی نہیں سمجھے ،ل ہ ذا م یں متمنی ہ و ں ک ہ ساد ہ ب یان کے سات ھ وضاحت فرمائ یے تاکہ یہ معمّا حل ہ و جائ ے ۔

خیرطلب :-بسرو چشم ،زبر سے حرف ک ی صورت مراد ہے جو کاغذ پر لک ھی جاتی ہے ا ور بیّنہ سے و ہ ز یادتی ہے جو بولن ے ک ے وقت ظا ہ ر ہ وت ی ہے "س" کاغذ ک ے اوپر ا یک حرف ہے ل یکن تلفظ کے وقت ت ین حرف ہ وجات ے ہیں ۔ س ۔ی ۔ ن ۔ بولن ے ہیں اس پر یا اور نون کا اضافہ ہ وجاتا ہے ۔ اورا ٹھ ائ یس حروف تہ ج ی میں صرف "س" ہی وہ حرف ہے ک ہ حساب ک ی مطابقت کرنے م یں اس کا زبر اور بیّنہ برابر رہ تا ہے "س" ک ے عدد سا ٹھ ہیں اور اس کا بیّنہ بھی جس سے " ی"اور"ن"مراد ہیں ساٹھ عدد کا حامل ہے " ی" کے (10)اور"ن"ک ے (50)مل کر سا ٹھ ہ وئ ے اس ی وجہ سے قرآن مج ید میں خاتم الانبیاء کوآنحضرت (ص)کے ظا ہ ر و باطن ک ی طرف اشارہ کرت ے ہ وئ ے " یس"کہہ کر مخاطب ک یا ۔یعنی اے و ہ شخص جو ظا ہ ر وباطن دونو ں ح یثیتوں سے اعتدال پر ہے ۔

آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں

اب چونکہ حضرت کا نام مبارک "س" ہے ل ہ ذا اس آ یہ مبارکہ م یں فرماتا ہے "سلام عل ی آل یسین "یعنی سلام آل محمد(ص) پر۔

حافظ:- یہ ایسے مطالب ہیں جن کو آپ اپنے جادو ب یانی سے ثابت کرنا ہ ت ے ہیں ورنہ علماء ک ے درم یان اس کا ذکر نہیں آیا ہے ک ہ آل یا سین پر سلام ہ و ۔

۵۲

خیر طلب :- میں متمنی ہ و ں ک ہ انکار ک ے مواقع پر قطع ی طور سے کوئ ی بات نہ ک ہہ د یا کیجیئے بلکہ ترد ید کی صورت میں فرمایا کیجئے تاکہ جواب ک ے وقت آپ کو پچ ھ تان ے ک ی ضرورت نہ ہ و ۔ اگر آپ اپن ے علماء ک ی کتابو ں س ے ب ے خبر یا واقف ہیں لیکن تصدیق کرنے ک ے خلاف سمج ھتے ہیں تو میں آپ کی کتابوں س ے باخبر ہ و ں اور حق س ے من ہ ب ھی نہیں موڑ تا ہ و ں ۔

آپ کے ب ڑے ب ڑے علماء ک ی کتابوں م یں کثرت سے اس معن ی کی طرف اشارہ ک یا گیا ہے ،منجمل ہ ان ک ے متعصب ابن حجر ن ے صواعق محرق ہ ک ے اندر جو آ یات فضائل اہ ل ب یت علیھ م السلام میں نقل کی ہے ان م یں سے ت یسری آیت کے ذ یل میں لکھ ا ہے ک ہ مفسّر ین کی ایک جماعت نے مفسّر اور خ یر امّت ابن عباس سے نقل ک یا ہے ک ہ "المراد بذالک سلام عل ی آل محمد"یعنی الیاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں لہ ذا آل یاسین پر سلام کا مطلب ہے سلام آل محمد(ص) پر اور لک ھ ت ے ہیں کہ اما م فخر الد ین رازی نے ذکر ک یا ہے ۔ ان اهل بیته صلّی الله علیه وآله وسلّم یساوونه فی خمسة اشیاء ،فی السلام قال" السلام علیک ایها النبی" و قال" سلام علی الیاسین "، فی الصلواة علیه علیهم فی التشهد وفی الطهارة قال الله تعالی "طه یا طاهر "وقال " یطهرکم تطهیرا "،و فی تحریم الصدقة ،وفی المحبة قال تعالی "قل ان کنتم تحبّون الله فاتبعونی یحببکم الله وقال قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربی"

(یعنی رسول کے ا ہ ل ب یت علیھ م السلام پانچ چیزوں میں آنحضرت (ص) کے برابر ہیں اول سلام میں فرمایا سلام پیغمبر بزرگوار اور یہ بھی فرمایا سلا م آل یاسین پر (یعنی سلام آل محمد پر۔ )دوسر ے صلوات م یں تشہ د نماز م یں۔ ت یسرے طہ ارت م یں خدائے تعال ی نے فرمایا ہے ط ہ یعنی اے طا ہ ر اور ان حضرات ک ے بار ے م یں آیت تظہیر نازل فرمائی ۔ چوت ھے تحر یم صدقہ م یں کیونکہ پیغمبر اور ان کے ا ہ ل ب یت پر صدقہ حرام ہے ،پانچو یں محبت میں ،ک یوں کہ خدائ ے تعال ی نے فرما یا (محمدص) کہہ دو(امت س ے )م یں تم سے کوئ ی اجر اور مزدوری نہیں چاہ تا ہ و ں سوا م یرے ذوی القربی اور اہ لب یت سے محبت ک ے ) ۔

سید ابو بکر بن شہ اب الد ین علوی کتاب "شفتہ الصاد ی من الصادی من بحر فضائل بنی النبی الھ اد ی(مطبوعہ مطبع ہ اعلام یہ مصر سنہ 1303 ھ ک ے باب اول صفح ہ 24 پر مفسر ین کی ایک جماعت سے بروا یت ابن عباس ونقاش کلبی سے اور باب 2 صفح ہ 42 پر نقل ک یا ہے ک ہ آ یت میں آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں اور امام فخرالدین رازی نے تفس یر کبیر جلد ہ فتم صفح ہ 163 م یں اسی آیت شریفہ کے ما تحت آ یت کے معن ی میں کئی وجہیں نقل کی ہیں اور وجہ دوم م یں کہ ا ہے ک ہ ال یا سین سے مراد آل محمد سلام الل ہ عل یھ م اجمعین ہیں نیز ابن حجر نے صواعق محرق ہ م یں ذکر کیا ہے ک ہ مفسر ین کی ایک جماعت نے ابن عباس سے نقل ک یا ہے ، ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "سلام عل ی الیاسین" سلام آل محمد (ص) پر۔

۵۳

لیکن اہ ل ب یت علیھ م السلام پر صلواۃ بھیجنا تو ایک ایسا امر ہے جو فر یقین کے درم یان مسلم ہے یہ ا ں تک کہ بخار ی اور مسلم بھی اپنی صحیحین میں تصدیق کرتے ہیں کہ پ یغمبر نے فرما یا میرے اور میرے اہ ل ب یت علیھ م السلام کے دوم یان صلواۃ میں جدائی نہ ڈ الو ۔

آل محمد(ص) پر صلوات بھیجنا سنت اور تشہ د نماز م یں واجب ہے

مخصوص طور پر بخاری اپنی صحیح کی جلد سوم میں مسلم اپنی صحیح کی جلد اول میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ میں حتی ابن حجر ایسے متعصب نے صواعق م یں اور آپ کے دوسر ے ب ڑے علماء کعب بن عجز ہ س ے نقل کرت ے ہیں کہ جب آ یت "انّ اللہ و ملائکت ہ یصلون علی النبی "(سورہ احزاب 43) ہ وئ ی تو ہ م لوگو ں ن ے عرض ک یا کہ یا رسو ل اللہ آپ پر سلام کرن ے کا طر یقہ تو ہ م کو معلوم ہ وا ل یکن "کیف یصلی علیک ؟" آپ پر صلواۃ کس طرح بھیجیں ؟ آں حضرت ن ے فرما یا صلوات اس طریقے سے ب ھیجو" اللھ م صلّ عل ی محمد وآل محمد اور دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے ک ہ "کما صلّ یت علی ابراھیم و آل ابراھیم انّک حمید مجید "

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 797 م یں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص) س ے لوگو ں ن ے سوال ک یا کہ ہ م آپ پر کس طرح س ے صلوا ۃ بھیجیں ؟ آنحضرت (ص) نے فرما یا کہ و " اللهم صلّ علی محمد و علی آل محمد کما صلّیت علی ابراهیم وعلی آل ابرا هیم وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراهیم و علی آل ابراهیم انّک حمید مجید.

اور ابن حجر نے ت ھ و ڑے س ے لفظ ی اختلاف کے سات ھ یہی روایت حاکم سے نقل ک ی ہے اس ک ے بعد اپن ے عق یدے اوررائے کا اظ ہ ار کرت ے ہ و ے ک ہ ت ے ہیں ۔ "وف یہ دلیل ظاھ ر عل ی ان الامر بالصلوات علیہ الصلوات علی آلہ " یعنی حدیث میں اس پر کھ ل ی ہ وئ ی دلیل ہے ک ہ پ یغمبر (ص)پر صلوات بھیجنے کا حکم آنحضرت (ص)کی آل پر بھی صلوات بھیجنے کے لئ ے ہے ۔ ن یز روایت کی ہے ک ہ فرما یا "لا تصلّوا علیّ الصلواة البتراء" یعنی مجھ پر بترا اور دم بر یدہ صلوات نہ ب ھیجو لوگوں ن ے عرض ک یا یا رسول اللہ صلوا ۃ بتراء کون ہے ؟ فرما یا اگر کہ و "اللھ م صلّ عل ی محمد "لہ ذا یوں کہ و"الل ھ م صلّ عل ی محمدو علی آل محمد۔

اس کے علاو ہ د یلمی نے نقل ک یا ہے ک ہ رسول اکرم (ص)"الدعا ء محجوب حت ی یصلی علی محمد وآلہ " ۔ دعا پرد ے م یں رہ ت ی ہے (اور قبول ن ہیں ہ وت ی )جب تک محمد وآل محمد پر درود نہ ب ھیجیں ۔ اور اما م شافع ی سے نقل ک یا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا :

۵۴

یا اهل بیت رسول الله حبکم ----- فرض من الله فی القرآن انزله

کفاکم من عظیم القدر انکم ----- من لم یصل علیکم لا صلواة له

(یعنی اے ا ہ ل ب یت رسول اللہ (ص) تم ہ ار ی دوستی خدا نے قرآن مجید میں واجب کی ہے ،تم ہ ار ی بزرگی ،منزلت اور مرتبے ک یلئے یہی کافی ہے ک ہ جو شخص تم پر صلوا ۃ نہ ب ھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہ وت ی ، شافعی کی مراد تشہ د نماز م یں صلوات ہے ، جس کو اگر عمدا ترک کرد یں تو نماز باطل اور غیر مقبول ہے ۔)

رسول اکرم(ص)کے اس ارشاد ک ے پ یش نظر کہ "الصلواة عمود الدین ان قبلت قبل ما سواها وان ردّت ردّ ما سواها "( یعنی نماز دین کا نگہ بان اور ستون ہے اگر نماز قبول ہ وجائ ے تو اس ک ے علاو ہ دوسر ے تمام اعمال ب ھی قبول ہ وجات ے ہیں ، اور اگر نماز رد ہ وجائ ے تو دوسر ے اع مال بھی رد ہ وجات ے ہیں ۔ تمام اعمال ک ی قبولیت نماز سے وابست ہ ہے اور جو روا یتیں پیش کی گئی ہیں ، ان پر نظر کرتے ہیں ہ وئ ے نماز ک ی قبولیت بھی محمد وآل محمد (ص) پر صلوات بھیجنے میں منحصر ہے ج یسا کہ شافع ی نے خود اقرار ک یا ہے ۔

سید ابو بکر شہ اب الد ین نے کتاب "شفت ہ الصاد ی من بحر فضائل بنی النبی الہ اد ی"باب 2 میں صفحہ 29-35 تک محمد وآل محمد پر صلوات ب ھیجنے کے وجوب م یں کئی بیانات درج کئے ہیں اور دلائلی نے نسائ ی سے دارقطن ی ،ابن حجر اور بہیقی نے ابوبکر طوس ی سے ان ہ و ں ن ے ابو اسحاق مروزی اور سمہ ود ی سے ، نوو ی نے تنق یح میں اور شیخ سراج الدین قصیمی یمنی نے نقل ک یا ہے ک ہ نماز ک ے تش ہ د م یں محمد صلی اللہ عل یہ وآلہ وسلم ک ے نام مبارک ک ے بعد آل محمد پر صلوات ب ھیجنا واجب ہے ۔

چونکہ وقت کافی گزر چکا ہے ل ہ ذا مفصل ب یان سے قطع نظر کرتا ہ و ں اور ف یصلہ آپ حضرات کے پاک ضم یر پر چھ و ڑ تا ہ و ں ۔

چنانچہ آپ حضرات اس کی تصدیق فرما ئیں کہ ا ہ ل ب یت پیغمبر پر درود سلام بدعت نہیں بلکہ سنت اور ا یسی عبادت ہے جس ک ے لئ ے خود رسول (ص) ک ی تاکید ہے اور اس ک ی حقیقت سے کوئ ی انکار نہیں کرسکتا سوا خوارج و نواصب اور ضدی کینہ تو پرور اور دشمن متعصبین( خذلھ م الل ہ )ک ے جن ہ و ں ن ے اصل ی بات کو برادران اہ ل سنت ک ی نگاہ و ں پر مشتب ہ بنا د یا ہے اور بنات ے ر ہ ت ے ہیں ۔

یہ بدیہی بات ہے ک ہ جو ہ ست یاں اس حکم میں خاتم الانبیاء (ص) سے اس قدر قر یب ہیں اور ذکر میں دوسروں پر مقدم ہیں ان کا دوسروں پر ق یاس کرنا اور دوسروں کو ان ک ے اوپر ترج یح دینا سوا سفاہ ت اور ج ہ الت یا تعصب کے وب ے خبر ی کے اور ک یا ہے ؟

اس موقع پر چونکہ آدھی رات گزرچکی تھی۔ اور بعض حاضرین جلسہ کے چہروں پر کسل مندی کے

۵۵

آثار ظاہر تھے ۔ لہذا ہم لوگوں نے نشست کو ختم کردیا اور چائے نوشی اور اس اقرار کے بعد کہ کل شب میں ذرا سویرے تشریف لائینگے سب حضرات متفرق ہوگئے -

تیسری نشست

شب یک شنبہ 25 رجب سنہ1345ھ

ہم لوگ نماز مغرب سے فارغ ہوچکے تو مولوی صاحبان تشریف لے آئے اور معمولی صاحب سلامت کے بعد چاء نوش میں مشغول ہوئے میں بھی نماز عشاء ختم کرنے کے بعد اطمینان کے ساتھ ان حضرات کی گفتگو سننے کے لیے حاضر ہوا۔

حافظ : قبلہ صاحب کا شب میں جب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس گئے تو میں نے اپنے کو بہت ملامت کی کہ ہم دوسری قوموں کے عقائد میں اس لیے زیادہ غور فکر نہیں کرتے اور (بقول آپ کے) صرف بعض متعصب لوگوں کی کتابوں پر اکتفا کر لیتے ہیں جس سے حقیقت ہم پر ظاہر نہیں ہوتی۔

خیر طلب : جیسا کہ خدائے تعالی نے سورہ نمبر5( انعام ) ، آیت ص150 میں ارشاد فرمایا ہے کہ قل ﷲ الحجة البالغہ ۔ (1) کل شب کی نشست بھی خدائی دلیلوں میں سے ایک دلیل تھی تاکہ اس کے ذریعہ سے آپ حضرات ابتدائے صحبت ہی میں کسی قدر اپنی عادت سے ہٹ کے اور دیدہ انصاف و علم و عقل کے ساتھ میری گزارش پر توجہ کر کے یہ جان لیں کہ جو کچھ میں عرض کررہا ہوں وہ علم عقل اور منطق و حقیقت کی میزان پر تلا ہوا ہے۔اور جو

باتیں پہلے سے آپ حضرات کے سمع مبارک میں پہنچائی گئی ہیں، اور جنہوں نے آپ کے ذہن کو غلط راستہ پر ڈال دیا ہے اور خود غرض متعصب لوگوں کے عناد اور ضد کا نتیجہ ہیں۔

میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ ان جلسوں میں میرا نظر یہ قطعی طور پر یہ نہیں ہے ۔ کہ گفتگو میں خود غالب رہوں اور آپ حضرات کو مغلوب کروں بلکہ ہمیشہ کی طرح میرا مقصد اور نقطہ نظر حریم تشیع کی طرف سے دفاع اورحق و حقیقت کو نمایاں کرنا ہے۔

حافظ : کل شب کے بیانات میں آپ کے فقرات سے ظاہر ہوا کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں، تو آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ کہدو اے پیغمبر کہ خدا کے لیے کامل حجت ہے۔

۵۶

شیعوں کے کس طبقے کو برحق اور ان کے اقوال و عقائد کو صحیح سمجھتے ہیں ؟ اگر ممکن ہوتو مطلب واضح ہونے کے کیے ان طبقات کو بیان فرمائیے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ کس گروہ کے بارے میں ہم کو بحث کرنا چاہیے۔

خیرطلب : میں نے گذشتہ شب میں یہ تو عرض نہیں کیا ہے کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں بلکہ شیعہ کی جس معنی کے ساتھ میں نے تشریح کی ہے یعنی خدا و رسول(ص) کے فرمانبردار بندے اورآں حضرت(ص) کے حکم سے خاندان رسالت کے پیرور دہ ایک طبقے سے زیادہ نہیں ہیں۔ البتہ چند شعبدہ باز فرقوں نے تشیع کے نام پر اپنی نمائش کر کے بے خبر جاہل لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیا۔ مقدس شیعہ نام سے غلط فائدہ اٹھایا اور باطل عقائد بلکہ کفر و بے دینی کو اس نام سے لوگوں کے درمیان رائج کیا لہذا نا واقف اشخاص نے جو حقائق کی تشخیص نہٰیں کرتے ہیں تاریخ میں لفظ شیعہ سے ان کو موسوم کیا ہے ۔ ان لوگوں کے بنیادی طبقے چار ہیں جن میں صرف دو باقی رہ گئے ہیں اور دو بالکل فنا ہوچکے ہیں۔ اور ان کے ہر طبقے سے اور دوسرے فرقے پیدا ہوئے ان چار فرقوں سے مراد ہیں زیدیہ ، کیسانیہ، قداحیہ اور غلات۔

عقائد زیدیہ

پہلا فرقہ زیدیہ ہے اور وہ ایسے لوگ ہیں جو زید ابن علی ابن الحسین علیہما السلام کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور امام زین العابدین علیہ السلام کے بعد زید کو امام مانتے ہیں ، زیدیہ فرقے والے فی الحال یمن اور اس کے اطراف میں کثرت سے ہیں ، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو علوی اور فاطمی شخص عالم و زاہد اور شجاع ہو ، اس کے علاوہ تلوار کے ساتھ خروج کرے اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے وہ امام ہے اور چونکہ جناب زید نے ہشام ابن عبدالملک اموی کے زمانہ خلافت میں بنی امیہ کے ظلم اور چیرہ دستی کی وجہ سے کوفہ میں خروج کیا اور شربت شہادت نوش فرمایا۔ جیسا کہ پرسوں کی شب میں میں نے ایک موقع پر ان بزرگواروں کی مفصل کیفیت عرض کی ہے۔ لہذا ان کو امام سمجھ کر ان کی پیروی اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔ حالانکہ جناب زید کی منزل اس سے کہیں الگ ہے کہ ان کی طرف ایسی نسبت دیں ۔ جناب زید بنی ہاشم کے بزرگ سادات میں سے تھے۔ زہد، علم، فضل ، فہم، دینداری، پرہیزگاری، عبادت ، شجاعت اور سخاوت میں قوم کے اندر نمایاں اور ہمیشہ قائم اللیل اور صائم النہار تھے۔

رسول اکرم(ص) آں جناب کی خبر شہادت دے چکے تھے جیسا کہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

" وضع رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم يده على صلبي فقال: يا حسين يخرج من صلبك رجل يقال له زيد يقتل شهيدا إذا كان يوم القيامة يتخطّى هو و أصحابه رقاب الناس، فيدخلون الجنة "

( یعنی رسول اﷲ(ص) نے اپنا دست مبارک میری پشت پر رکھا اور فرمایا کہ اے حسین(ع)

۵۷

عنقریب تمہاری صلب سے ایک مرد پیدا ہوگا۔ جس کا نام زید ہوگا وہ شہید قتل ہوگا۔ اور جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ اور اس کے اصحاب لوگوں کی گردنوں پر قدم رکھتے ہوئے بہشت میں داخل ہوں گے۔)

( اور یہ بدیہی بات ہے کہ اصحاب سے وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے خروج کے موقع پر ظلم بنی امیہ کے مقابلے میں ان جناب کے ہمراہ مقاومت کی لیکن خود جناب زید نے کبھی امامت کا دعوی نہیں کیا۔ اور یہ ایک تہمت ہے جو ان پر لگائی گئی ہے ورنہ وہ خود اپنے کو اپنے برادر بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کا تابع اور مطیع سمجھتے تھے۔ البتہ ان جناب کے بعد چند شعبدہ باز اس اصول کے قائل ہوگئے کہ:

"ليس الامام من جلس في بيته و أرخى عليه ستره، بل الامام كل فاطمي عالم صالح ذي رأي يخرج بالسيف."

( یعنی وہ شخص اور امام نہیں ہے جو گھر میں بیٹھ رہے اور اپنے کو لوگوں سے پوشیدہ رکھے بلکہ ہر وہ عالم، صالح اور صاحب رائے فاطمی امام ہے۔جو خروج بہ شمشیر کرے۔)

لوگوں کو آپ کی امامت کی طرف دعوت دی اور نئی نئی شکلیں ایجاد کر کے اپنے مقاصد حل کرنے کے لیے ایک وکان کھول دی یہ لوگ پانچ فرقوں میں تقسیم ہوئے ۔ مغیریہ ، جارودیہ، ذکریہ، خشییہ اور خلقیہ۔

عقائد کیسانیہ

دوسرا فرقہ کیسانیہ ہے یہ لوگ کیسان غلام و آزاد کردہ علی ابن ابی طالب کے اصحاب شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ حسنین علیہما السلام کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کے سب سے بڑے فرزند محمد ابن حنفیہ کی امت کے قائل تھے ۔ لیکن جناب محمدخود ایسا دعوی نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ ان کو سید لتابعین کہا جاتا تھا اور علم زہد ورع و تقوی اور امر مولیٰ کی اطاعت میں مشہور تھے بعض بازی گروہ نے حضرت زین العابدین علیہ السلام کے ساتھ آپ کی مخالفتوں کے قضیہ کو حیلہ بنایا اور آپ کے دعوی امامت کی دلیل قرار دیا ۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ نہیں تھی کہ آپ امامت کے مدعی تھے بلکہ ان مخالفتوں سے جناب محمد کا مقصود امام چہارم حضرت سید سجاد علیہ السلام کی منزل ظاہر کرتا تھا تاکہ اس طریقہ سے اپنے جاہل مریدین اور سادہ لوح معتقدین کو متوجہ فرما دیں کہ میں اس منصب پر فائز نہیں ہوں چنانچہ اسی مسجد الحرام کے اندر حجر اسود کے سامنے ثبوت حق اور حضرت سید سجاد علیہ السلام کی امامت کے بارے میں حجر اسود کے اقرار کے بعد جیسا کہ کتب اخبار و تاریخ میں اس کی تفصیل موجود ہے، ابو خالد کابلی نے ان جناب کے معتقدین کا راس و رئیس تھا محمد حنیفہ کو امام ماننے والوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان جناب کی پیروی کرتے ہوئے امامت حضرت سید سجاد علیہ السلام کا اعتراف کیا، لیکن چند مکاروں نے بے عقل اور بے خبر عوام کے ایک گروہ کو اسی عقیدے پر باقی رکھا۔ اور

۵۸

بہانہ یہ بنایا کہ جناب محمد نے انکسار سے کام لیا ہے اور بنی امیہ کے مقابلہ میں سیاست کا یہی تقاضا بھی تھا ورنہ ان کی امامت مسلم ہے آپ کی وفات کے بعد بھی یہ لوگ اس پر جمے رہے اور کہا کہ جناب محمد مرے نہیں بلکہ جبل رضوی کے غار میں پوشیدہ ہوگئے ہیں ایک زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و داد سے بھر دیں گے ۔ ان کے چار فرقے تھے۔ مختاریہ، کربیہ، اسحاقیہ اور حربیہ، لیکن آج اس عقیدے پر کوئی شخص باقی نہیں ہے۔

عقائد قداحیہ

تیسرا گروہ قداحیہ ہے ان لوگوں کے مذہب کی بنیاد بظاہر تشیع مگر باطنا محض کفر ہے۔ اس مذہب کی اصل تشکیلات میمون ابن سالم یا ( ویصان) معروف بہ قداح اور عیسی جہار لختان کے ہاتھوں مصر میں شروع ہوئیں اور انہوں نے قرآن مجید و اخبار میں اپنی خواہش کے مطابق تاویلات کا دروازہ کھولا ۔ شریعت کے لیے ایک ظاہر اور ایک باطن قرار دیا اور کیا کہ باطن شریعت کی خدا نے پیغمبر کو پیغمبر نے علی(ع) کو انہوں نے اپنے فرزندوں کو اور خالص شیعوں کو تعلیم دی۔ ان کا قول ہے کہ جن لوگوں نے باطن شریعت کو سمجھ لیا وہ ظاہری طاعت و عبادت ی قید سے آزاد اوربے فکر ہوگئے۔

انہوں نے مذہب کی بنیاد سات ستونوں پر قائم کی۔ سات پیغمبروں کے معتقد ہیں۔ سات امام مانتے ہیں اور ساتویں امام کا غائب جانتے ہیں۔ اور ان کے ظہور کے منتظر ہیں۔ یہ دو جماعتوں پر متقسم تھے۔

ناصریہ : مذہب خسرو علوی کے اصحاب جنہوں نے اپنے اشعار و گفتار اور کتابوں میں شیعہ کے نام پر بہت سے لوگوں کو کفر و الحاد کی طرف کھینچ لیا اور طبرستان میں کافی پھیلے ہوئے تھے۔

صباحیہ : یہ دوسری جماعت حسن صباح کے اصحاب تھے جو در اصل معرکا باشندہ تھا لیکن ایران میں آکر قزوین کے اندر واقعہ اسفناک اور الموت کا فتنہ عظیم پرپا کیا اور بکثرت قتل و خونریزی کا باعث بنا جس کی تفصیل تاریخ میں موجود ہے لیکن اس مختصر مجلس میں اس کے مفصل تاریخی حالات بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔

عقائد غلات

چوتھی جماعت غالیہ ہے جو تمام قوموں اور فرقوں سے زیادہ پست ہے یہ لوگ تشیع کے نام سے مشہور ہوگئے لیکن یہ سب کےسب کافر نجس اور فاسد و مفسد ہیں ان کے اصلی فرقے سات میں سبائیہ، منصوریہ، غرابیہ،

۵۹

بزیعینہ، یعقوبیہ، اسماعیلیہ، اور ازدریہ، ان کے حالات اور پیدائش کی تشریح کل کی شب میں مقتضائے مجلس کے لحاظ سے مختصر طور پر عرض کرچکا ہوں ۔ ہم شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کی پوری ملت بلکہ دنیا کے سارے مسلمان ان سے اور ان کے عقائد سے بیزار ہیں ہم ان کو ہر نجس سے زیادہ نجس کافر ملحد اور بے دین سمجھتے ہیں۔

کفر والحاد کے قاعدے پر جو عقیدہ بھی صراحتہ یا کنایة شیعوں کے نام سے زبانوں پر مشہور اور بعض کتابوں میں عمدا یا سہوا درج ہوا ہے، وہ زیادہ تراسی گروہ سے ہے جو اپنے کو شیعہ علی کہتا ہے لیکن جماعت شیعہ امامیہ اثنا عشریہ جو دنیا میں اسی کروڑ سے زیادہ تعداد کے مالک ہے ان فاسد عقائد سے دور ہے بلکہ اصلی دین، پاکیزہ مذہب اور شریعت کا لب لباب جو باب علم رسول امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام سے حاصل ہوا ہے انہیں لوگوں کے پاس ملتا ہے۔

عقائد شیعہ امامیہ اثنا عشریہ

پانچواں گروہ شیعہ امامیہ اور فرقہ فقہ اثناعشریہ ہے جو عقل و نقل کے مطابق شریعت کے لب و لباب کا حامل ہے اور در اصل حقیقی شیعہ یہی لوگ ہیں اور وہ چار فرقے فرضی شیعہ ہیں۔

ان میں حقیقی شیعوں کے اعتقاد کا خلاصہ فہرست کے طور پر آپ کے سامنے پیش کیئے دیتا ہوں تاکہ بعد کو ان کی طرف غلط باتیں منسوب نہ کیجئے۔

شیعہ امامیہ کی پوری جماعت ذات واجب الوجود خداوند جل و علا کا اعتقاد رکھتی ہے کہ وہ ایسا واحد یکتا ہے جو اپنا شبیہ و عدیل اور نظیر نہیں رکھتا نہ جسم ہے نہ صورت نہ جوہر ہے نہ عرض ، جملہ صفات مکانیہ سے مبرا و معرا ہے بلکہ سارے اعراض و جواہر کا خالق ہے اور خلق موجودات اور ان پر فیوض نازل کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ بعض عارفین نے پروردگار کی صفات سلبیہ کو شعر میں اس طرح نظم کیا ہے۔

نہ مرکب بود نہ جسم نہ جوہر نہ عرضبے شریک است و معانی تو غنی داں خالق

چونکہ ذات واجب الوجود ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ دیکھا جا سکے اور دوسری طرف مخلوق کی ہدایت و رہنمائی بھی ضروری تھی۔ لہذا قوم انسانی سے معیار کے لحاظ سے کامل انبیاء و مرسلین منتخب کر کے ہر زمانہ والوں کے حالات و ضروریات کے مطابق دلائل و براہین ، معجزات ، بینات اور کافی ہدیات سپرد کر کےبھیجے ۔ جن کی تعداد بہت اور بے شمار ہے یہ سب کے سب ان پانچوں اولوالعزم پیغمبروں کے احکام کے ماتحت

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

پیش نظر بیعت کرلی تاکہ ایسا نہ ہو یہ لوگ آگے بڑھ جائیں اور سعد بن عبادہ امیر ہوجائیں۔ یہاں تک کہ اس میں بعد کو رفتہ رفتہ توسیع ہوتی گئی حالانکہ اجماع کیدلیل اگرمضبوط چیز تھی تو، اتنا توقف کرنا چاہئیے تھا کہ ساری امت ( یا بقول آپ کے عقلمند گروہ) جمع ہوجائے اور مجمع عام کے اندر استصواب رائے کر لیا جائے تاکہ صحیح طور پر اجماع صادق آجائے۔

حافظ : میں نے عرض کیا کہ فتنے اٹھ رہے تھے۔ اوس و خزرج دو قبیلے سقیفے میں جمع تھے اور آپس میں نزاع کر رہے تھے۔ ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ مسلمانوں کی امارت و حکومت کا تقرر اپنی طرف سے کرے بدیہی بات ہے، کہ ایک ادنی سی غفلت بھی انصار کے حق میں مفید ثابت ہوتی اور مہاجرین کا کوئی قابو نہ رہتا، اسی وجہ سے مجبور تھے کہ کام میں جلدی کریں۔

خیر طلب : ہم بھی چشم پوشی کرتے ہوئے آپ کی بات تسلیم کئے لیتے ہیں اور آپ ہی کے قول سے سند لیتے ہیں نیز جیسا کہ آپ کے مورخین مثلا محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ جلد دوم ص۴۵۷ میں اور دوسروں نے لکھا ہے کہ مسلمان سقیفے میں امر خلافت پر رائے زنی کرنے جمع نہیں ہوئے تھے بلکہ اوس خزرج ک دو قبیلے چاہتے تھے کہ اپنے لیے امیر معین کریں۔ ابوبکر و عمر نے بھی اپنے کو ، اس صف آرائی میں پہنچا یا اور اس اختلاف سے خود فائدہ اٹھا لیا۔ اگر واقعی امر خلافت میں صلاح و مشورہ کرنے اکٹھا ہوئے ہوتے تو پہلے جملہ مسلمانوں کو ضرور خبر دیتے کہ رائے دینے کے لیے حاضر ہوں۔

بازیگروں سے اسامہ کی گفتگو

چنانچہ جیسا آپ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو خبر دینے کا موقع نہیں تھا اور وقت گزرا جارہا تھا۔ ہم بھی آپ کے ہم آواز ہوکر کہتے کہ مکہ، یمن، طائف اور دوسری مسلمان آبادیوں تک دسترس نہیں تھا مگر کیا اسامہ بن زید کے لشکر تک بھی رسائی ممکن نہ تھی جو مدینے کے باہر ہی پڑائو ڈالے ہوئے تھا کہ ان بزرگ اصحاب کو بلا کر مشورہ لے لیتے جو اس فوج میں شامل تھے اور جن میں سے ایک نمایاں فرد مسلمانوں کے امیر لشکر اسامہ بن زید بھی تھے جن کو خود رسول اللہ(ص) نے افسری عطا فرمائی تھی اور ابوبکر و عمر بھی ان کے ماتحت تھےجس وقت اسامہ نے سنا کہ ایک سازش کے ذریعے تین آدمیوں کے ہاتھ خلیفہ سازی ہوئی ہے اور ان لوگوں نے بغیر کسی مشورے اور اطلاع کے ایک شخص کی بیعت کر لیے ہے تو سوار ہو کر مسجد رسول(ص) میں آئے اور بقول تمام مورخین کے ایک نعرہ مارا کہ تم لوگوں نے یہ کیا ہنگامہ برپا کر رکھا ہے؟ کس کی اجازت سے خلیفہ گھڑ لیا ہے؟ تم چند نفر کیا حیثیت رکھتے تھے کہ مسلمانوں اور بزرگان صحابہ کے مشورے اور اجماع سے خلیفہ مقرر کر لیا؟ عمر نے لیپ پوت کرتے ہوئے کہا اسامہ کام ختم ہوچکا اور بیعت واقع ہوچکی ، اب پھوٹ نہ پیدا کرو بلکہ تم بھی بیعت کر لو۔ اسامہ کو تائو آگیا،

۳۰۱

انہوں نے کہا کہ پیغمبر(ص) نے مجھ کو تمہارا سردار بنایا تھا اور امارت سے معزول بھی نہیں کیا تھا۔ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ تم لوگوں پر رسول خدا(ص) کا منتخب فرمایا ہوا امیر اپنے ہاتحتوں اور محکوموں کی بیعت کرے۔ اس کے علاوہ اور بہت کچھ بات چیت ہوئی لیکن نمونتہ اسی قدر کافی ہے۔ اگر آپ کہئے کہ اسامہ کا لشکر بھی شہر سے کچھ فاصلے پر تھا اور وقت نکلا جا رہا تھا تو حضرات کیا سقیفے سے مسجد اور خانہ پیغمبر(ص) بھی بہت دور تھا؟ آخر علی علیہ السلام کو جو باتفاق فریقین مسلمانوں کے اندر ایک بڑی شخصیت کے مالک تھے، عم رسول(ص) عباس کو تمام بن ہاشم اور عترت پیغمبر(ص) کو جن کے لیے آں حضرت(ص) نے وصیتیں فرمائی تھیں اور جو عدیل قرآن تھے اور کبار صحابہ کو جو وہاں موجود تھے کیوں مطلع نہیں کیا تاکہ ان کی رائے سے فائدہ اٹھایا جائے؟

حافظ : میرا خیال ہے کہ صورت حال ایسی خطرناک تھی کی غفلت اور سقیفہ سے باہر آنے کا موقع نہیں تھا۔

خیر طلب : آپ زیادتی کر رہے ہیں، موقع تھا لیکن انہوں نے جان بوجھ کر علی علیہ السلام ، بنی ہاشم اور کبار صحابہ کو جو خانہ رسول(ص) میں جمع تھے اطلاع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

حافظ : ان کے عمدا ایسا کرنے پر آپ کی دلیل کیا ہے؟

خیر طلب : سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خلیفہ عمر رسول اللہ(ص) کے دروازے تک آئے تھے لیکن اندر داخل نہیں ہوئے تاکہ اس گھر میں مجتمع علی علیہ السلام ، بنی ہاشم اور اصحاب کبار کوخبر نہ ہونے پائے۔

حافظ : یہ بات تو قطعا رافضیوں کی گھڑی ہوئی ہے۔

خیر طلب: پھر آپ نے بے لطفی کی بات کی۔ یہ بات کسی کا گھڑی ہوئی نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ اسے تیسری صدی کے بڑے عالم محمد بن جریرطبری کی مشہور تاریخ جلد دوم ص۲۵۶ کا مطالعہ فرمائیے۔

وہ لکھتے ہیں کہ عمر خانہ رسول (ص) کے در تک آئے لیکن اندر نہیں گئے بلکہ ابوبکر کو پیغام بھیجا کہ جلدی آئو بہت ضروری کام ہے ۔ ابوبکر نے جواب دیا کہ اس وقت مجھ کو فرصت نہیں ہے۔ انہوں نے پھر کہلایا کہ ایک خاص کام در پیش ہے جس میں تمہاری موجودگی ضروری ہے۔ ابوبکر باہر آئے تو خفیہ طور سے ان کو سقیفے میں اںصار کے جمع ہونے کا معاملہ بتایا اور کہاکہ ہم کو فورا وہاں پہنچ جانا چایئے ۔ یہ دونوں چلے او راستے میں ابو عبیدہ ( گور رکن) کو بھی ساتھ لے لیا۔ تاکہ تین آدمی مل کر اجماع امت کی تشکیل کریں اور آج آپ اسی کا سہارا لیں خدا کے لیے انصاف کیجئے کہ اگر کوئی سازش اور قرار واد کام نہیں کر رہی تھی تو عمر خانہ پیغمبر (ص) تک جارکر اندر کیوں نہیں گئے تاکہ صورت واقعہ کو تمام بنی ہاشم اور کبار صحابہ کے گوش کر کے سب سے مدد طلب کریں؟ کیا ساری امت رسول(ص) امت میں صرف ایک ابوبکر ہی عقل کلی رہ گئے تھے اور دوسرے صحابہ اور عترت رسول سب بیگانہ تھے جن کو اس حادثے کی خبر ہی نہ ہونا چاہتے تھا۔

چشم باز و گوش بازو این عمیحیر تم از چشم بندی خدا

آیا آپ کا یہ خود ساختہ اجماع جیسا کہ آپ کے تمام مورخین نے لکھا ہے فقط تین آدمیوں ( ابوبکر و عمر

۳۰۲

اور ابوعبیدہ جراح ( گورکن) کے ہاتھوں پر قائم ہوگیا؟ آیا دنیا کے کس خطے میں عقیدہ قابل قبول ہے کہ اگر تین شخص یا کوئی جتھہ کسی شہر یا دار السلطنت میں اکٹھا ہو اور فرض کیا جائے کہ اس شہر کے باشندے کسی شخص کی ریاست و حکومت یا خلافت پر اجماع بھی کرلیں تو دوسرے مقامات کے صاحبان عقل و علم اور دانش مندوں پر ان کی پیروی واجب ہوجائے؟ یا ایسے چند عقلمندوں کی رائے جن کو دوسروں نے منتخب نہ کیا ہو باقی عقلندوں کے لیے واجب العمل بن جائے؟ آیا یہ جائز ہے کہ ایک گروہ کی ہنگامہ سازی اور دھمکی کے مقابلے میں پوری قوم کے خیالات کا گلا گھونٹ دیا جائے؟ حضرات انصاف کیجئے ! اگر ایک جماعت والے حق بات کہنا چاہیں اور علمی مباحثوں او عملی تنقیدوں کی روشنی میں بتایں کہ یہ خود ساختہ خلافت و اجماع کسی دینی یا دنیاوی قانوں کے مطابق صحیح نہیں ے تو ان کو رافضی، مشرک اور نجس کہا جائے، ان کا قتل واجب سمجھا جائے اور کوئی ایسی تہمت باقی ن رہے جو ان پر تھوپ دی جائے؟

آپ کہتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے خلافت کا معاملہ امت پر ( یا بقول آپ کے عقلائے امت پر) چھوڑ دیا۔ خدا کے لیے انصاف سے کہئے گا کہ امت اور عقلائے امت کیا فقط تین ہی آدمی تھے ابوبکر وعمر اور ابو عبیدہ جراح( گورکن) جنہوں نے آپس می سمجھوتہ کر کے دونے ایک کو مان لیا تو سارے مسلمانوں پر فرض ہوگیا کہ انہیں کے راستے پر چلیں؟ اور اگر کچھ لوگ یہ کہہ دیں کہ یہ تینوں اشخاص بھی باقی امت اور صحابہ کے مانند تھے لہذا سارے اصحاب سے صلاح و مشورہ کیوں نہیں کیا؟ تو وہ کافر، مردود اور گردن زدنی قرار پائیں؟

باتفاق فریقین اجماع کا واقع نہ ہونا

حضرات اگر آپ تعصب کا جامہ اتار کر تھوڑا غور کیجئے تو بخوبی واضح ہوجائے گا کہ اقلیت واکثریت اور اجماع کے درمیان بڑا فرق ہے۔ اگر کسی خاص مقصد کےلیے بزم مشاورت منعقد کی جائے تو تھوڑے لوگ کوئی رائے دیں تو کہا جائے گا کہ جلسے کی اقلیت نے یہ رائے دی، اگر زیادہ مجمع رائے دے تو اکثریت کی رائے کہی جائے گی اور اگر سب کے سب باتفاق رائے کوئی بات کہیں تو کہا جائے گا کہ اجماع واقع ہوا یعنی ایک فرد بھی مخالف نہیں تھی۔ اب برائے خدا یہ بتائیے کہ کیا سقیفہ میں اور اس کے بعد مسجد میں پھر شہر مدینہ میں لوگوں نے خلافت ابوبکر کے لیے ایسی اجماعی رائے دی اگر آپ کے حسب خواہش ہم جبرا ساری امت سے حق رائے دہندگی چھین لیں اور آپ کی آواز میں آواز ملاکر کہنے لگیں کہ اجماع سے صرف مرکز اسلامی یعنی مدینہ منورہ کے عقلاء اورکبار صحابہ ہی کو مراد لینا کافی ہے تب بھی آپ کو خدا کی قسم سچ بتائیے کہ آیا ایسا اجماع واقع ہوا جس میں مدینے کے تمام عقلاء کبار صحابہ بالاتفاق خلافت ابوبکر کے لیے رائے دی ہو؟ آیا اس تھوڑی سی جماعت نے بھی متفقہ رائے دی تھی جو سقیفے میں حاضر تھی ؟ قطعا

۳۰۳

جواب نفی میں ہوگا۔ چنانچہ صاحب مواقف نے خود اعتراف کیا ہے کہ خلافت ابوبکر میں کوئی اجماع واقع نہیں ہوا یہاں تک کہ خود مدینے کے اندر اور اہل حل و عقد میں بھی، اس لیے کہ سعد بن عبادہ انصاری ان کی اولاد، خاص خاص صحابہ، تمام بنی ہاشم ، ان کے دوست اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام چھ ماہ تک مخالفت کرتے رہے اور بیعت نہیں کی۔

در اصل جب ہم حق و انصاف کے روسے تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ خود مدینہ منورہ میں بھی جو نبوت اور حکومت اسلامی کا مرکز تھا ایسا اجماع واقع نہیں ہوا جس میں وہاں پر موجود صاحبان عقل اور صحابہ نے خلافت ابوبکر کی متحدہ تائید کی ہو۔

چنانچہ خود آپ کے اکثر ثقہ راویوں اور بڑے بڑے مورخون نے جیسے امام فخر الدین رازی ، جلال الدین سیوطی، ابن ابی الحدید معتزلی، طبری، بخاری اور مسلم وغیرہ نے مختلف عبارتوں کے ساتھ بتایا ہے اور نقل کیا ہے کہ خود مدینے میں پورا اجماع منعقد نہیں ہوا۔

علاوہ اس کے کہ تمام بنی ہاشم و رسول اللہ(ص) کے اہل بیت(ع) جو عدیل قرآن تھے اور دوسرے اہل خاندان جن کی رائے اچھی خاصی اہمیت رکھتی تھی اور بنی امیہ بلکہ عام اصحاب بھی سوا تین نفر کے سقیفہ میں خلافت پر رائے دینے کے لیے حاضر نہ تھے۔ بلکہ سننے کے بعد انہوں نے اس پر پورا اعتراض بھی کیا۔ یہاں تک کہ مہاجرین و انصار میں سے جن بزرگ اصحاب نے بیعت سقیفہ کو غلط بتایا تھا ان میں سے چند مقتدر حضرات سے مسجد میں جاکر ابوبکر سے احتجاجات بھی کئے جیسے مہاجرین میں سے سلمان فارسی، ابوذر غفاری، مقداد بن اسود کندی، عمار یاسر، بریدہ اسلمی اور خالد بن سعید بن عاص اموی۔ اور انصار میں سے ابوالہیثم بن التیہان خذیفہ بن ثابت ذوالشہادتین ( جن کو رسول اکرم(ص) نے ذوالشہادتین لقب دیا تھا، ابو ایوب انصاری، ابی بن کعب، سہل بن حنیف اور عثمان بن حنیف۔ ان میں سے ہر ایک نے مسجد کے اندر کافی اور شافی دلائل و براہین پیش کئے جن کی تفصیل بیان کرنے کا وقت نہیں ہے۔ صرف حاضرین اور سامعین کی بصیرت افروزی اور اتمام حجت کے لیے یہ مختصر خاکہ پیش کر دیا تاکہ واضح ہوجائے کہ اجماع مکمل طور پر باطل اور بے بنیاد ہے کیونکہ خود مدینے میں بھی اجماع واقع نہیں ہوا بلکہ مدینے کے عقلاء اور اکابر اصحاب کا اجماع بھی صریحی جھوٹ ہے کچھ مخالفین خلافت کے نام آپ کی معتبر کتابوں سے عرض کرتا ہوں۔

کبار صحابہ کی بیعت ابوبکر سے علیحدگی

ابن حجر عسقلانی اور بلاذری تاریخ میں، محمد خاوندشاہ روضتہ الصفا می، ابن عبدالبر استیعاب میں، اور دوسرے علماء کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ، قبیلہ خزرج اور قریش کے ایک گروہ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کہ نیز اٹھارہ

۳۰۴

نفر بزرگان صحابہ نے بیعت نہیں کی اور رافضی ہوگئے۔ یہ لوگ علی ابن ابی طالب(ع) کے شیعہ تھے۔

ان اٹھارہ اصحاب کے نام یہ تھے ۔۱۔ سلمان فارسی۔ ۲۔ ابوذر غفاری۔۳۔ مقداد بن اسود (کندی) ۔ ۴۔ عمار یاسر۔ ۵۔ خالد بن سعید بن العاص۔ ۶۔ بریدہ الاسلمی۔ ۷۔ ابی بن کعب۔ ۸۔ خذیمہ بن ثابت ذوالشہادتین۔۹۔ ابوالہیثم بن التیہان۔ ۱۰۔ سہل بن حنیف ۔ ۱۱۔ عثمان بن حنیف ذوالشہادتین۔ ۱۲۔ ابو ایوب انصاری۔ ۱۳۔ جابر بن عبداللہ انصاری۔ ۱۴۔ حذیفہ بن الیمان۔ ۱۵۔ سعد بن عبادہ ۔ ۱۶۔ قیس بن سعد ۔ ۱۷۔ عبداللہ بن عباس۔ ۱۸۔ زید بن ارقم۔

یعقوبی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ :

" لقد تخلف عن بيعة ابی بکر قوم من المهاجرين والانصار ومالوا مع علی ابن ابی طالب. منهم العباس بن عبدالمطلب و الفضل بن العباس و الزبير بن العوام بن العاص و خالد بن سعيد والمقداد بن عمر و سلمان الفارسی و ابوذر الغفاری و عمار بن ياسر و البراء بن عازب و ابی بن کعب."

یعنی مہاجرین و اںصار کی ایک جماعت نے بیعت ابی بکر سے اختلاف اور علیحدگی اختیار کی اور علی بن ابی طالب(ع) کی طرف مائل ہوئی من جملہ ان کے عباس ابن عبدالمطلب، فضل بن عباس، زبیر بن عوام بن العاص، خالد بن سعید، مقداد بن عمر، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عماریاسر، براء بن عازب اور ابی بن کعب بھی تھے۔

تو کیا یہ افراد قوم کے صاحبان عقل، اکابر اصحاب اور رسول اللہ(ص) کے ہمدم و ہمراز نہیں تھے؟ کیا علی علیہ السلام ، عباس عم پیغمبر(ص) اور دوسرے بزرگان بنی ہاشم عقلائے قوم نہ تھے؟ خدا کے لیے ذرا اںصاف سے بتائیے یہ کیسا اجماع تھا، جو بغیر ان حضرات کی موجودگی ، مشورے، رضامندی اور تصدیق کے قائم ہوگیا؟ اس مجمع کے درمیان سے راز دانہ طور پر صرف تنہا ابوبکر کو بلا کر لے جائیں اور دوسرے کبار صحابہ کو نہ کوئی اطلاع دیں نہ ان سے صلاح ومشورہ لیں تو آیا اس سے اجماع کے معنی پیدا ہوتے ہیں یا یہ مطلب نکلتا ہے کہ ایک سیاسی سازش کام کر رہی تھی؟

پس علاوہ اس کے کہ تعیین خلافت کے موقع پر تمام امت کا اجماع منعقد نہیں ہوا تمام اہل مدینہ کا اجماع ہوسکا بلکہ سعد بن عبادہ اور ان کے ہمراہیوں کے نکل جانے سے اہل سقیفہ کے اس چھوٹے موٹے گروہ میں بھی اجماع نہیں ہوسکا البتہ یہ وہ پہلا کھیل تماشا تھا جو عالم اسلامی نے انسانی تاریخ کو امانت دیا۔

حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ

ان سب سے قطع نظر بنی ہاشم اور عترت و اہل بیت رسول(ص) بھی جن کا اجماع یقینا حجت تھا باعتبار حدیث مسلم بین الفریقین جس کو میں گزشتہ شبوں میں معتبر اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

" إنّي تارك

۳۰۵

فيكم الثقلين كتاباللّه وعترتي في أهلبيتي،ان تمسّكتم بهمافقد نجوتم ( و فی نسخة) لنتضلّوا بعدها ابدا"

یعنی میں تمہارے درمیان دو بزرگ چیزیں چھوڑ رہا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت و اہل بیت اگر ان دونوں سے تمسک رکھوگے تو یقینا نجات پائوگے ( اور ایک نسخے میں ہے) ہرگز گمراہ نہ ہوگے ( دیکھئے اس کتاب کا صفحہ نہ سقیفے میں موجود تھے نہ خلافت ابوبکر کی حمایت کی( یعنی ان کو اطلاع ہی نہیں دی گئی کہ وہاں اکٹھا ہوں تاکہ اجماع صادق آسکے۔

دوسری مشہور حدیث جو حدیث سفینہ کے نام سے موسوم ہے اور پچھلی راتوں میں مع اسناد کے ذکر کی جاچکی ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

" مثل اهل بيتى كمثل سفينةنوح من توسل بهم نجى ومن تخلّف عنه اهلك"

یعنی میرے اہلبیت(ع) کی مثال کشتی نوح(ع) کے مانند ہے جو شخص اس سے متوسل رہے گا وہ نجات پائے گا اور جو شخص ان سے رو گردانی کرے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔

ثابت کرتی ہے کہ جس طرح طوفان اور بلائوں میں امت نوح کی نجات سفینے کے ذریعے سے تھی اس امت کو بھی حوادث اور آفات میں اہل بیت(ع) رسول(ص) کے دامن سے متمسک رہنا چاہیے تاکہ نجات حاصل ہو۔ اسی طرح جو ان کے دور اور الگ رہے گا ہلاک ہوگا۔

نیز ابن حجر صواعق محرقہ ذیل آیہ چہارم ص۹۰ میں ابن سعد سے دو حدیثیں اہل بیت رسالت(ص) اور عترت پاک(ع) سے وابستہ رہنے کے وجوب میں نقل کرتے ہیں یہ کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا:

"أناوأهل بيتي شجرةفي الجنّة،وأغصانهافي الدنيا،فمن شاء ان يتّخذإلى ربّه سبيلا فليتمسک بها"

یعنی میں اور میرے اہل بیت جنت کے ایک درخت ہیں جس کی شاخیں دنیا میں ہیں۔ پس جو شخص خدا کی طرف راستہ چاہتا ہو اس کو اس سے تمسک ضروری ہے۔

دوسری حدیث یہ کہ فرمایا :

"فى كُلِ خَلَفٍ مِنْ امتى عُدُولٌ مِنْ اهلبيتى يَنْفُونَ عَنْ هَذَاالدِّينِ تَحْرِيفَالضَّالِّين َوَانْتِحَال َالْمُبْطِلِينَ،وَتَأْوِيل َالْجَاهِلِينَ الاوانائمتكم وَفْدُكُمْ الى اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ فَانْظُرُوامَنْ تُوفِدُونَ"

یعنی میری امت کے لیے ہر دور میں میرے اہل بیت(ع) میں سے کچھ عادل افراد ہیں جو اس دین سے گمراہوں کی تحریف باطل پرستوں کے دعوی اور جاہلوں کی تاویل کو دور کرتے رہتے ہیں۔ آگاہ ہو کہ یقینا تمہارے ائمہ اللہ کی طرف تمہارے سفیر ہیں پس یہ دیکھ لو کہ سفارت کس کے سپرد کرتے ہو۔

غرضیکہ تمام وہ اشخاص جن کی موجودگی اجماع و بیعت اور تعیین خلیفہ میں اثر انداز ہوتی بیعت کے مخالف تھے پس یہ کیسا اجماع تھا کہ صحابہ کبار، دانشمندان قوم اور عترت و اہل بیت رسالت(ص) مدینے میں ہوتے ہوئے اس میں شریک نہ تھے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اجماع کیسا اکثریت بھی نہیں پیدا ہوئی۔ چنانچہ ابن عبدالبر قرطبی جو آپ کے بڑے عالم ہیں، استیعاب میں، ابن حجر اصابہ میں اور دوسرے علماء کہتےہیں کہ سعد بن عبادہ نے جو خلافت کے دعویدار

۳۰۶

تھے قطعا ابوبکر اور عمر کی بیعت نہیں کی اور وہ بھی اس لیے ان سے متعرض نہیں ہوئے کہ ان کا قبیلہ اچھا خاصا ہے کہیں کوئی فساد نہ اٹھ کھڑا ہو۔ سعد امی اختلاف کی وجہ سے شام چلے گئے اور بروایت روضتہ الصفا ایک بزرگ شخصیت کی تحریک؟؟؟ سے ( جس سے با خبر ہستیاں واقف ہیں کہ کون شخص تھا جس کا حکم نافظ تھا) رات کے وقت تیر مار کر ہلاک کرادئے گئے اور کہا گیا کہ جنات نے مار ڈالا ( لیکن مورخین روایت کرتے ہیں کہ تیر مارنے والے خالد ابن ولید تھے جو مالک ابن نویرہ کو قتل کرنے اور ان کی زوجہ پر تصرف کرنے کے بعد شروع خلافت ابوبکر سے خلیفہ ثانی عمر کے غیظ و غضب کی زد میں تھے چنانچہ عمر کے زمانہ خلافت میں انہوں نے چاہا کہ خلیفہ کی نظر میں اپنا وقار قائم کریں اور یہی کیا کہ رات کو انہیں تیر سے مار ڈالا اور مشہور یہ ہوا کہ جنات نے مارا) اب آپ حضرات خدا کے لیے اپنی عادت اور تعصب کو الگ رکھ کے تھوڑا غور کیجئے کہ یہ کیسا اجماع تھا جس میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، عباس عم رسول(ص)، ابن عباس تمام بنی ہاشم، عترت و اہل بیت پیغمبر(ص)، بنی امیہ اور انصار داخل نہیں تھے۔

حافظ : چونکہ فساد کا احتمال تھا اور ساری امت تک پہنچ نہیں تھی لہذا مجبورا جلد بازی میں انہیں چند حاضرین سقیفہ پر اکتفا کر کے بیعت لے لی، بعد کو امت نے بھی مان لیا۔

خیر طلب : مدینے سے باہر کی نمایاں شخصیتوں ، بزرگاں صحابہ اور دانشمندان قوم تک رسائی نہیں تھی لیکن خدا کے لیے اںصاف کیجئے کہ اگرکوئی چال نہیں جارہی تھی تو بزم شوری میں حاضرین مدینہ کو کیوں نہیں بلایا؟ آیا رسول خدا(ص) کے عم محترم ( شیخ القبیلہ) عباس، آںحضرت(ص) کے دماد علی ابن ابی طالب(ع) ، بنی ہاشم اورمدینے کے اندر موجود کبار صحابہ کی رائے لینا ضروری نہیں تھا؟ فقب عمر اور ابوعبیدہ جراح کی رائے ساری دنیائے اسلام کے لیے کافی تھی؟ فَاعْتَبِرُواياأُولِي الْأَبْصارِ !!!

پس آپ کی دلیل اجماع عمومی حیثیت سے نیز خصوصی طور پر کیوں کہ مہاجرین و اںصار میں سے عقلاء کبار صحابہ نے اس میں شرکت نہیں کی۔ بلکہ مخالفت بھی کی بالکل مہمل و باطل اور صاحبان عقل کے نزدیک درجہ اعتبار سے ساقط ہے۔

چونکہ جیسا عرض کرچکا ہوں اجماع اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اس سے اختلاف نہ کرے اور آپ کے اس خود ساختہ اجماع میں عام طور پر آپ کے علماء ومورخین کے اقرار اور آپ کی تصدیق کے مطابق ارباب علم و عقل نےرائے دینے میں عمومی شرکت نہیں کی۔ چنانچہ امام فخرالدین رازی نہایت الاصول میں صاف صاف کہتے ہیں کہ خلافت ابوبکر و عمر میں ہرگز اجماع واقعی نہیں ہوا یہاں تک کہ سعد بن عبادہ کے قتل ہوجانے کے بعد اجماع منعقد ہوا لہذا سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے معدوم اور فرضی اجماع کو آپ نے حقانیت کی دلیل کیونکر بنالیا۔

وقت کا لحاظ کرتے ہوئے اس مختصر بیان کے ساتھ آپ کی پہلی دلیل کا جواب دیا گیا۔

۳۰۷

اس کی تردید کی ابوبکر سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے خلیفہ ہوئے

رہی آپ کی دوسری دلیل کہ ابوبکر چونکہ امیرالمومنین علیہ السلام سے عمر میں زیادہ تھے لہذا ان کا حق مقدم تھا تو یہ خلافت کے معاملے میں انتہائی مردود اور پہلی دلیل کے بھی زیادہی مہمل، بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔

اس لیے کہ اگر خلافت میں سن کی شرط تھی تو ابوبکر و عمر سے زیادہ بوڑھے بہت لوگ تھے اور یہ تو کھلی ہوئی بات ہے کہ ابوبکر کے باپ ابوقحافہ اپنے بیٹے سے بڑے تھے اور اس وقت زندہ بھی تھے، ان کو کس لیے خلیفہ نہیں بنایا ؟

حافظ : ابوبکر کا بڑھاپا لیاقت کے ساتھ تھا۔ جب کسی قوم کے اندر ایک جہاں دیدہ اور محبوب رسول اللہ(ص) بزرگ ہوتو کسی نا تجربہ کار جوان کو سردار نہیں بنایا کرتے۔

بوڑھے اصحاب کی موجودگی میں پیغمبر(ص) جوان علی(ع) کو ترجیح دیتے تھے

خیرطلب : اگر جیسا آپ کہہ رہے ہیں۔ سچ مچ ایسا ہی ہو کہ آزمودہ کار بوڑھے کی موجودگی میں کسی جوان کو کام پر اور وہ بھی خدا کے کام پر مقرر نہ کرنا چاہئیے تو یہ اعتراض سب سے پہلے رسول خدا(ص) پر وارد ہوتا ہے کیونکہ جس وقت آںحضرت(ص) غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو منافقین نے خفیہ طور پر یہ طے کیا کہ آں حضرت(ص) کی عدم موجودگی میں مدینے کے اندر ایک انقلاب بر پا کریں گے۔ لہذا مدینے کا انتظام سنبھالنے کےلیے ایک تجربہ کار انسان کی ضرورت تھی جو آنحضرت(ص) کی جگہ پر یہاں ٹھہرے، ہمت اور حسن تدبیر کے ساتھ حالات کو قابو میں رکھے اور منافقین کے ہاتھ پائوں ڈھیلے کردے آپ حضرات سے میری درخواست ہے کہ فرمائیے پیغمبر(ص) نے مدینے میں کس شخص کو اپنی خلافت اور جانشینی سپرد فرمائی؟

حافظ : مسلم سے کہ علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا خلیفہ اور قائم مقام بنایا تھا۔

خیر طلب : تو کیا ابوبکر و عمر اور دوسرے بوڑھے اصحاب مدینے نہیں تھے کہ رسول اکرم(ص) نے امیرالمومنین علیہ السلام جیسے جوان کو با قاعدہ اپنا خلیفہ اور جانشین بنایا اور صاف صاف فرمایا " انت خليفتی فی اهلبيتی و دار هجرتی " یعنی تم میرے خلیفہ ہو میرے اہل بیت(ع) میں اور میرے مقام ہجرت یعنی مدینے میں۔

بہتر ہوگا کہ آپ حضرات ذرا سوچ سمجھ کے دلیلیں قائم کیا کریں تاکہ جواب کے موقع پر لا جواب نہ رہ جائیں

۳۰۸

پس ابوبکر و عمر وغیرہ کے ایسے بوڑھے صحابہ کے سامنے علی علیہ السلام کو عین شباب میں خلیفہ مقرر کرنے سے آنحضرت(ص) کا ایک خاص مقصد یہ بھی تھا کہ آج آپ کے لیے ایک عملی جواب مہیا ہوجائے اور آپ یہ نہ کہیں کہ جہاندیدہ بوڑھے کے سامنے جوان کو ذمہ دار نہ بنانا چاہئیے ۔ رسول خدا(ص) کا عمل اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ تعیین خلافت اور تبلیغ رسالت میں پیری اور جوانی کو کوئی دخل نہیں ہے۔

اگر سال خوردہ بوڑھوں کے ہوتے ہوئے نو عمر جوان کا تقرر نہ ہونا چاہئیے تو اہل مکہ پر سورہ برائت کی ابتدائی آیتیں پڑھنے کے لیے جب کہ ایسے موقع پر قطعا ایک پیر کہن سال اور ہوشیار و جہاندیدہ بزرگ کی ضرورت تھی جو خوش اسلوبی اور سیاست کے ساتھ اس فریضے کو ادا کرے۔ رسول اکرم(ص) نے کس لیے بوڑھے ابوبکر کو راستے سے واپس بلا لیا اور جوان علی(ع) کو اس عذر کے ساتھ اس اہم کام پر مامور کردیا کہ خدا فرماتا ہے میری رسالت کو یا تم پہنچا سکتے ہو یا تمہیں جیسا کوئی مرد؟

اسی طرح اہل یمن کی ہدایت کرنےکے لیے ابوبکر وعمر وغیرہ کے ایسے سن رسیدہ بزرگوں کے وجود سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا اور امیرالمومنین علیہ السلام کو یمن والوں کی ہدایت پر مامور فرما دیا۔

اس قسم کے مواقع بہت ہیں جب کہ ابوبکر و عمر جیسے شیوخ قوم کی موجودگی میں آں حضرت(ص) نے علی(ع) جیسے جوان کو منتخب فرمایا اور بڑے بڑے کام آن کے سپرد فرمائے۔ پس معلوم ہوا کہ آپ کی یہ بڑھاپے والی شرط انتہائی پھس پھسی اور فضول و مہمل ہے۔ نبوت و ولایت اور خلافت کے شرائط میں بوڑھا ہونا ہرگز نہیں ہے بلکہ خلافت کی اصلی شرط نبوت کے مانند مکمل جامعیت ہے جو خداوند عالم کے نزدیک محبوب و پسندیدہ ہو او رجو فرد بذھی جملہ صفات عالیہ کی جامع ہو چاہے وہ کوئی بوڑھا شخص ہو یا جوان، خدائے تعالی اسی کو منصب خلافت کے لیے چنتا ہے اور نبی و رسول کے ذریعے لوگوں میں اعلان فرماتا ہے اور لوگوں پر واجب ہے کہ خدا و رسول کی طرح اس کی بھی اطاعت کریں۔

ایک اور بڑی دلیل مجھ کو یاد آگئی جس کو ان لوگوں کی خلافت کے رد میں بہت بڑا ثبوت سمجھنا چاہئیے اور وہ یہ کہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف سے اس مصنوعی اجماع کی مخالفت ہوئی ہے۔

علی(ع) حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں

اس لیے کہ ارشاد رسول(ص) کے مطابق علی علیہ السلام کو ذات حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی تھی، چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے اس بارے میں بہت سی روایتیں نقل کی ہیں۔

۳۰۹

من جملہ ان کے شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب۱۶ میں کتاب السبطین فی فضائل امیرالمومنین(ع) سے،امام الحرم ابوجعفر احمد بن عبداللہ شافعی نے ستر حدیثوں میں سے بارہویں حدیث کو فردوس دیلمی کے، امیرسید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت ششم میں، حافظ نے امالی میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۴۴ ،میں بسند ابن عباس و ابی لیلی غفاری و ابو غفاری الفاظ و عبارت کے مختضر فرق اور کمی وبیشی کے ساتھ حضرت رسول خدا(ص) سے یہ حدیث نقل کی ہے جس کا آخری جملہ ہر جگہ ایک ہے کہ فرمایا :

"سَتَكُونُ مِنْ بَعْدِي فِتْنَةٌفَإِذَاكَانَ ذَلِكَ فَالْزَمُواعَلِيَّ بْنَ أَبِيطَالِبٍ فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ يَرَانِي وَأَوَّلُ مَنْ يُصَافِحُنِي يَوْمَالْ قِيَامَةِوَهُوَمعِی فِی السَّماءِ العُليَاوَهُوَفَارُوقُ هَذِهِ الْأُمَّةِيَفْرُق ُبَيْنَ الْحَقّ ِوَالْبَاطِلِ"

یعنی عنقریب میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا۔ پس جب ایسا ہو تو تم لوگ لازمی طور پر علی ابن ابی طالب(ع) کے ساتھ رہنا کیونکہ وہ پہلے شخص ہیں جو قیامت کے روز مجھ کو دیکھیں گے اور سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ وہ بلند منزلوں میں میرے ساتھ اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔

پس اصولا وفات رسول(ص) کے بعد ایسی صورت حال اور فتنہ عظیم جب مہاجرین و اںصار آپس میں دست و گریبان تھے اور ہر فریق یہ چاہتا تھا کہ خلیفہ ہم میں سے ہو ( گویا ہر ایک بہتے دریا سے ہاتھ دھونا چاہتا تھا) آںحضرت(ص) کے حکم و ہدایت کے مطابق امت والوں کا فرض تھا کہ علی علیہ السلام کو لاتے اور ان کا دامن پکڑتے کہ حق کو باطل سے جدا کریں۔ اور یقینا ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق جس طرف علی علیہ السلام ہوتے ادھر حق ہوتا اور دوسری طرف باطل۔

حافظ : یہ حدیث جو آپ نے نقل کی ہے خبر واحد ہے اور خبر واحد قابل اعتماد نہیں تھی کہ اس پر علمدر آمد ہوتا۔

خیر طلب : بہت تعجب ہے کہ آپ اتنی جلدی بھول جاتے ہیں یا عملا بھلا دیتے ہیں۔ خبر واحد کا جواب شروع میں عرض کرچکا ہوں کہ علمائے اہل سنت خبر واحد کو حجت مانتے ہیں لہذا اس بنا پر آپ اس روایت کو خبر واحد کہہ کر رد نہیں کرسکتے۔ علاوہ اس کے یہی ایک روایت نہیں ہے بلکہ آپ کے موثق علماء کے طریق سے مختلف عبارتوں کے ساتھ بہت سی روایتیں اس مطلب کو ثابت کررہی ہیں جن میں سے بعض کو ہم پچھلی راتوں میں بیان بھی کرچکے ہیں۔ اس وقت جہاں تک وقت اجازت دیتا ہے اپنی یادداشت کے موافق مختصرا صرف راویوں اور کتابوں کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے مزید تائید کے لیے بجائے ان تمام مستند احادیث کو پیش کرنے کے چند کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔ من جملہ ان کے ایک حدیث ہے جس کو محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں طبرانی نے کبیر میں، بیہقی نے سنن میں، نور الدین مالکی نے فصول المہمہ میں، حاکم نے مستدرک میں، حافظ ابو نعیم نے حلیہ میں، ابن عساکر نے تاریخ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، طبرانی نے اوسط میں، محب الدین نے ریاض نفرہ میں، حموینی نے فرائد میں، اور سیوطی نے درالمنثور میں ، ابن العباس و سلمان و ابوذر حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے دست مبارک سے علی ابن ابی طالب(ع) کی طرف اشارہ کر کے فرمایا :

"إنّ هذاأوّل من آمن بي ،وأوّل من يصافحني يومالقيامة،

۳۱۰

وهذاالصّديق الأكبر،وهذافاروق هذه الأمّةيفرّق بين الحقّ والباطل"

یعنی در حقیقت یہ (علی) پہلے شخص ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور پہلے شخص ہیںجو روز قیامت مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ یہ علی(ع) صدیق اکبر(یعنی سب سے بڑے سچ بولنے والے) اور اس امت کے فاروق ہیں جو حق و باطل کے درمیان جدائی ڈالیں گے۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب ۴۴ میں اسی حدیث کو ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے۔

"وهويعسوب المؤمنين والمال يعسوب الظلمة،وهوبابي الذي اوتي منه،وهوخليفتي من بعدي."

یعنی وہ مومنین کے بادشاہ ہیں، یہ میرے دروازہ ہیں جس سے لوگ آتے ہیں اور وہ میرے بعد خلیفہ ہیں۔

( اس کے بعد گنجی شافعی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو محدث شام نے اپنی کتاب کے انچاسویں(۴۹) جزء میں فضائل علی (ع) میں تین سو حدیثوں کے بعد لکھا ہے) محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد جلد چہاردہم ص۲۱ میں، حافظ مردویہ نے مناقب میں، سمعانی نے فضائل الصحابہ میں، دیلمی نے فردوس میں، ابن قتیبہ نے الامامتہ والسیاسہ جلد اول ص۶۸ میں زمخشری نے ربیع الابرار میں، حموینی نے فرائد باب۳۷ میں، طبرانی نے اوسط میں، فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر جلد اول ص۱۱۱ میں، گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، امام احمد نے مسند میں اور آپ کے دوسرے علماء نے نقل کیاہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا " علی مع الحق والحق مع علی حيث دار " یعنی علی (ع) حق کے ساتھ اور حق علی (ع) کے ساتھ پھرتا ہے ( یعنی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے)

انہیں کتابوں میں ہے نیز شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے ینابیع المودت باب۲۰ میں حموینی سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا " علی مع الحق والحق مع علی يميل مع الحق کيف مال " یعنی علی (ع) حق کے ساتھ اور حق علی (ع) کے ساتھ ہے جس طرف حق مائل ہوتا ہے اسی طرف علی(ع) بھی مائل ہوتے ہیں۔)

اور حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی متوفی سنہ۴۳۱ھ نے حلیتہ الاولیاء جلد اول ص۶۳ میں اپنے اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"يامعشرالأنصارألاأدلكم على من إن تمسكتم به لن تضلوابعده أبداقالوابلى يارسول الله قال هذاعلي فأحبوه بحبي وأكرموه بكرامتي فإن جبرائيل أمرني بالذي قلت لكم عن الله عزوجل "

یعنی اے جماعت انصار آیا تمہاری رہنمائی نہ کروں میں اس شخص کی طرف کہ اگر اس سے تمسک کرو گے تو س کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے؟ سب نے

۳۱۱

عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ(ص) آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ وہ شخص یہ علی(ع) ہیں لہذا ان کو دوست رکھو میری محبت کے ساتھ اور ان کا اکرام کرو میری کرامت کے ساتھ کیونکہ جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے جبرئیل نے خدا کی طرف سے مجھ کو اس کا حکم دیا ہے۔

ان میں سے ہر حدیث رسول(ص) اپنے الفاظ اور راوی و حافظ کے اختلاف کی وجہ سے اگر چہ پہلی نظر میں خبر واحد معلوم ہوتی ہے جس میں ایک خاص مفہوم ادا کیا گیا ہے لیکن اہل علم کی نگاہوں میں اس سے تواتر معنوی ثابت ہوتا ہے کیونکہ ان سب کے مضامین سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کچھ خاص دلائل ہیں جو ایک عام مقصود کے لیے وارد ہوئے ہیں اور ان کی باہمی شرکت سے وہی مقصود عام ثابت ہوتا ہے۔

اس مقصود عام سے مراد ولایت و امامت کی منزل میں رسول اللہ(ص) کی عنایت ہے جو بلا شرکت غیرے صرف علی علیہ السلام کی طرف آنحضرت(ص) کا میلان ظاہر کرتی ہے نیز اس کا ثبوت دیتی ہے کہ پیغمبر(ص) کی یہ شفقت و مہربانی تنہا علی علیہ السلام کے لیے مخصوص تھی اور آںحضرت(ص) ہمیشہ انہیں سے امداد طلب فرماتے تھے کیونکہ آپ نصرت کرنے میں یکتا تھے اور اسی وجہ سے امت کو بھی حکم فرماتے ہیں کہ میرے بعد علی (ع) کی طرف رجوع کرو اور ان سے تمسک اختیار کرو اس لیے کہ یہ ہمیشہ حق کے ساتھی اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔

اس قسم کی حدیثوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اںصاف کیجئے کہ آیا ابوبکر سے علی علیہ السلام کی مخالفت و آپ کے خیالی اجماع سے علیحدگی اور بیعت نہ کرنا ابوبکر کی حقانیت ثابت کرتا ہے یا ان کی خلافت باطل ہونے کا دلیل ہے؟ اگر ابوبکر کی خلافت دست تھی تو علی علیہ السلام نے جو حق و صداقت کے پیکر تھے اور رسول اکرم(ص) نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ ہمیشہ حق کے ساتھ اور حق ان کے ساتھ گردش کرتا ہے ان کی بیعت کیوں نہیں کی بلکہ مخالفت بھی کی؟ واقعی سقیفے کے روز جتنی پھرتی سے کام لیا گیا وہ بہت افسوس اور حیرت کا مقام ہے اور اس روز کا طریقہ کار ہر نکتہ رس ہوشمند انسان کو قطعی طر پر شبے میں ڈالتا ہے کہ اگر کوئی سازش کار فرما نہیں تھی تو ( چند گھنٹے ہی سہی) آخر انتظار کیوں نہ کیا کہ علی ابن ابی طالب(ع) جو بقول رسول (ص) حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے تھے ، کبار صحابہ، بنی ہاشم اور بالخصوص آن حضرت(ص) کے چچا عباس سب ک سب جمع ہوجائیں اور امر خلافت میں جو ایک عمومی فریضہ تھا اپنے خیالات ظاہر کریں؟

حافظ : یہ بات تو یقینی ہے کہ کوئی سازش نہیں چل رہی تھی بلکہ حالات چونکہ خطرناک دیکھے لہذا حفاظت اسلام کے لیے تعیین میں جلدی کی۔

خیرطلب : یعنی آپ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ ابوعبیدہ جراح ( مکے سابق گورکن) وغیرہ کو رسول اللہ(ص) کے بزرگ چچا عباس اور علی بن ابی طالب(ع) سے جنہوں نے اس دین کے راستے میں اپنی زندگی وقف کردی تھی یا دوسرے

۳۱۲

کبار صحابہ اور بنی ہاشم سے زیادہ اسلام کا درد تھا اور جتنی دیر وہاں باتیں بنائی تھیں اگر اتنی دیر ٹھہرجاتے یا ابوبکر وعمر مجمع کو باتوں میں مشغول رکھتے اور فورا ابوعبیدہ یا کسی اور کو بھیج کر عباس و علی(ع) کو اس خطرناک صورت حال سے آگاہ کردیتے تاکہ جلد وہاں پہنچ جائیں اور پھر تھوڑی دیر صبر کر لیتے کہ وہ بزرگوار آجائیں تو کیا اسلام ہاتھ سے نکل جاتا؟ اور ایسا فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا کہ اس کو روک تھام ہو ہی نہ سکتی؟

اںصاف سے کام لیجئے تو قطعا اگر تھوڑا صبر کر کے کم از کم بنی ہاشم اور بزرگان صحابہ کو مع عباس و علی(ع) کے سقیفے میں بلا لیتے تو وہ تینوں اشخاص و ابوبکر و عمر اور ابوعبیدہ اگر حق بات کہتے تھے تو ان کی طاقت اور بڑھ جاتی، اسلام کے اندر اتنا اختلاف رونما نہ ہوتا اور آج ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد ہم اور آپ برادران اسلامی اس جلسے میں ایک دوسرے کے مقابلے پر نہ آجاتے بلکہ تمام قوتوں کو متحد کر کے دشمنوں سے ٹکر لیتے ۔

پس تصدیق کیجئے کہ اسلام کے سرپر جو آفت آئی اسی روز سے آئی اور وہ فقط اسی تعجیل کا نتیجہ تھی جس پر تینوں افراد ( ابوبکر و عمر و ابوعبیدہ) نے عمل کر کے اپنے خفیہ ولی مقاصد پورے گئے۔

نواب : قبلہ صاحب آخر سبب کیا تھا کہ ان لوگوں نے اس قدر جلدی کی اور بقول آپ کے حاضرین مسجد و خانہ رسول(ص) کو بھی خبر نہیں دی؟

خیر طلب : اتنی جلدی کرنے کے سبب قطعا یہی تھا کہ وہ جانتے تھے کہ اگر تمام مسلمانوں کے آںے کا انتظار کریں گے یا کم سے کم اسامہ بن زید کی سر برآوردہ ہستیاں، مدینے کے اندر موجود بزرگ اصحاب اور بنی ہاشم وغیرہ سب جمع ہو کر مشورے میں شرکت کریں گے تو نامزدگی کے وقت علی علیہ السلام کا نام ضرور لیا جائے گا اور اگر علی(ع) یا عباس کا نام آگیا تو اس مجمع میں حق اور حقیقت کے طرفدار لوگ ا پنی مضبوط اور واضح دلیلوں سے میدان سیاست میں ہماری پگڑی اچھال دیں گے لہذا عجلت کی تاکہ جب تک بنی ہاشم اور بزرگ اصحاب پیغمبر(ص) کے غسل و کفن اور دفن میں مشغول ہیں ہم اپنا کام بنالیں اور ابوبکر کو اسی دو نفری تدبیر سے مسند خلافت پر بٹھا دیں چنانچہ وہی کیا اور آپ حضرات بھی آج تک اس کو مسلمانوں کا اجماع کہے چلے آرہے ہیں۔

آپ کے اکابر علماء جیسے طبری اور ابن ابی الحدید وغیرہ نے بھی لکھا ہے کہ عمر کہتے تھے ابوبکر کی خلافت جلدی میں اچانک قائم ہوگئی ہے خدا خیر کرے۔

۳۱۳

عمر کے اس قول کی تردید کہ نبوت و سلطنت ایک جگہ جمع نہ ہوگی

اب رہی آپ کی دوسری دلیل خلیفہ عمر کی سند سے کہ نبوت و سلطنت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی ہے تو یہ بھی آیت نمبر۵۷ سورہ۴ ( نساء) کی نص صریح سے باطل ہے ارشاد ہے۔

"أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلى ماآتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ِفَقَدْآتَيْناآلَإِبْراهِيمَ الْكِتاب َوَالْحِكْمَةَوَآتَيْناهُمْ مُلْكاًعَظِيماً"

یعنی آیا خدا نے جو کچھ ان کو اپنے فضل و کرم سے عطا کیا ہے اس پر لوگ حسد کرتے ہیں؟ پس یقینا ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت دی اور ان کو زبردست ملک و سلطنت عطا کیا۔

پس اس آیہ شریفہ کے حکم سے آپ کی یہ دلیل مردود ہے اور یہ حدیث قطعا ضعیف بلکہ موضوعات میں سے ہے جو خلیفہ عمر کی طرف منسوب کی گئی ہے اس لیے کہ رسول اللہ(ص) قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں فرماتے اور یہ آیت خود اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ نبوت و سلطنت کا ایک جگہ جمع ہونا ممکن ہے ( جیسا کہ آل ابراہیم وغیرہ میں جمع ہوئی) اس کے علاوہ منصب خلافت عہدہ نبوت کا ایک جزء ہے بلکہ اس کا تتمہ ہے ، سلطنت اور بادشاہی نہیں ہے جس کے لیے آپ کہہ سکیں کہ ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی۔

اگر حضرت موسی علیہ السلام کے بھائی جناب ہارون علیہ السلام خلافت موسی سے برطرف ہیں تو علی علیہ السلام بھی خلافت خاتم الانبیاء سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اور اگر بحکم قرآن موسی ہارون علیہما السلام میں نبوت و خلافت جمع ہوئی تو قطعا محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام میں بھی جمع ہوگی ۔ چنانچہ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں حدیث منزلت اس کی گواہ ہے پس آپ کی یہ حدیث قطعا بنی امیہ کے موضوعات میں سے ہے اور مجہول اور ہر پہلو سے ناقابل قبول ہے۔

اگر نبوت اورخلافت ( یا بقول خلیفہ عمر کے سلطنت) ایک جگہ جمع نہیں ہوتی ہے تو پھر مجلس شوری میں خلیفہ عمر نے علی علیہ السلام کو خلافت کےلیے کیوں نامزد کیا تھا؟ اور اسی کے بعد چوتھے نمبر پر آپ لوگ بھی حضرت کو خلیفہ کیوں مانتے ہیں؟ عجیب بات ہے کہ خلافت بلافصل تو ( حدیث گھڑ کے نبوت کےساتھ جمع نہ ہو لیکن خلافت مع الفصل جمع ہو جائے۔

چشم باز و گوش باز داں عمی حیرتم از چشم بندی خدا

اس کے علاوہ رسول اللہ (ص) صاف صاف فرماتے ہیں کہ جس راستے پر علی (ع) چلیں ادھر تم بھی چلو، دوسرون کی پیروی نہ کرو آپ کہتے ہیں کہ نبوت و سلطنت ایک خاندان میں اکھٹا نہیں ہوتیں، حالانکہ آنحضرت(ص) نے اپنی عترت کی پیروی امت پر واجب قرار دی ہے اور ان کی مخالفت کو محض ضلالت و گمراہی جانا ہے۔ جیسا کہ گذشتہ راتوں

۳۱۴

میں میں نے یہ معتبر اور متفق علیہ فریقین صریحی حدیث مع اس کے اسناد کے عرض کی ہے کہ آنحضرت(ص) نے بار بار فرمایا :

"إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَبَيْتِي إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَالَن ْتَضِلُّوابَعْدِي أَبَداً"

یعنی میں تمہارے درمیان دو بزرگ و بہتر گراں چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ، ایک قرآن مجید اور دوسری میری عترت اور اہل بیت(ع)، اگر ان دونوں سے تمسک رکھو گے تو ہرگز کبھی گمراہ نہ ہوگے۔

جس طرح سے طوفان نوح کی آمد مِں حضرت نوح(ع) کے حکم سے جو شخص آپ کی بنائی ہوئی کشتی میں بیٹھ گیا اس نے نجات پائی اور جس نے منہ موڑا ہلاک ہوگیا چاہے وہ ان کا بیٹا ہی کیوں نہ رہا ہو۔ اسی طرح اس امت مرحومہ میں بھی حضرت خاتم الانبیاء (ص) نے اپنی عترت اور اہل بیت (ع) کو بمنزلہ کشتی نوح(ع) بیان فرمایا ہے کہ آیندہ مشکلات و اختلافات میں اس گھرانے کے علم و عقل اور ظاہر و باطن کے دامن سے وابستہ رہیںگ ے تو نجات حاصل کریں گے اور کشتی نوح(ع) سے روگردانی کرنے والوں کے مانند تخلف کریں گے تو ہلاک ہوجائیں گے (جسیا کہ اسی کتاب کے ص؟؟؟؟؟؟؟؟؟ میں تفصیل سے گزر چکا )

پس اس قسم کے نصوص صریحہ اور قواعد واضحہ کے رو سے امت کا فرض ہے کہ اختلاف اور دشواریوں میں عترت و اہل بیت رسالت(ع) کی رائے سے فائدہ اٹھائیں اور امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام چونکہ مزید علمی و عملی فضائل اور پیغمبر(ص) کے تاکیدی احکام کی روشنی میں آں حضرت(ص) کی عترت و اہل بیت کی ایک فرد اکمل تھے پس کیوں تھوڑی دیر تامل کر کے آپکو اطلاع نہیں دی تاکہ آپ کے غور وفکر اور صائب رائے سے مدد ملتی؟

اس میں قطعا ایسا راز پوشیدہ تھا جس پر عقل و علم اور اںصاف والے حیران اور مبہوت ہیں جس وقت یہ لوگ اپنے اسلاف کی اندھی تقلید چھوڑ کر عادلانہ جائزہ لیتے ہیں تو حقیقت کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ سیاسی بازیگروں نے علی(ع) کو انکے مستقل حق سے محروم کرنے کے لیے جلدی کر کے آپ کی اور دوسرے اصحاب و اہل تقوی کی غیر موجودگی میں ابوبکر کو مسند خلافت پر بٹھا دیا۔

شیخ : آپ کس دلیل سے فرماتے ہیں کہ صرف علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی پیروی کر کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی رایوں اور اجماع کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیئے تھا؟

تعیین خلافت میں پھر اظہار حقیقت

خیر طلب : اول تو ہم نے یہ کہا ہی نہیں ہے کہ صحابہ کی رائیں اور ان کا اجماع قابل احترام نہیں ہے۔ البتہ ہمارے اور آپ کے درمیان فرق یہ ہے کہ آپ نے جونہی کسی صحابی کا نام سنا بس چاہیے وہ کوئی منافق ہی ہو یا ابوہریرہ ہی ہوں جن کو خلیفہ عمر کوڑے سے مارتے تھے اور کذاب ( بہت بڑا جھوٹا ) کہتے تھے فورا زانوئے ادب

۳۱۵

تہ کردیتے ہیں، لیکن ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک وہی صحابی محترم ہے اور اسی کے قدم آنکھوں سے لگانے کے قابل ہیں جس نے رسول اللہ(ص) کی مصاحبت کے شرائط پورے کئے ہوں، ہوائو ہوس کا بندہ نہ رہا ہو اور احکام خدا و رسول(ص) کا آخر عمر تک دیانتداری سے پا بند رہا ہے۔

دوسرے ہم واضح دلائل سے آپ کے سامنے ثابت کرچکے کہ سقیفہ میں خلیفہ ابوبکر کی بیعت پر کوئی اجماع نہیں ہوا تاکہ امت کی اجماعی رائے سے ان کی خلافت مسلم ہوجائے۔ اب اس کے خلاف اگر آپ کے پاس کوئی قاعدے کا جواب ہو تو بیان فرمائیے تاکہ حضرات حاضرین جلسہ بے لاگ فیصلہ کرسکیں اور میں بھی اس اجماعی تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کروں، اگر آپ اپنی کتابوں سے اس کا ثبوت دے دیجئے کہ سقیفہ میں ساری امت یا کم از کم بقول آپ کے تمام عقلائے قوم جمع ہوئے اور سب نے مل کر رائے دی کہ ابوبکر کو خلیفہ ہونا چاہئیے تو میں مان لوں گا اور اگر سوا دو نفر ( عمر و ابوعبیدہ) اور قبیلہ اوس کے چند افراد کے جن کو قبیلہ خزرج کے ساتھ اپنی دیرینہ عداوت و مخالفت کا لحاظ تھا دوسرے اشخاص نے بیعت نہیں کی تھی تو آپ تصدیق کیجئے کہ ہم(شیعہ) غلط راستے پر نہیں ہیں۔

تیسرے اس سب پر ہماری تنقید یہ ہے اور ہم دینا کے سارے عقلمندوں پر اس کا فیصلہ چھوڑتے ہیں کہ آیا صرف تین صحابی ایسا کرنے کے مجاز ہیں کہ پوری ملت کی باگ ڈور ہاتھ میں لے لیں اور باہمی گفت و شنید اور جنگ زرگری کر کے دو نفر ایک نفر کی بیعت کرلیں اس کے بعد لوگوں کو دھونس دے کےتلوار ، آگ اور اہانت سے مرعوب کر کے اپنا بنایا ہوا خاکہ ماننے پر مجبور کریں؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔

میں مطلب کو دہراتے ہوئے پھر عرض کرتا ہوں کہ ہمارا اعتراض اس بات پ؛ر ہے کہ اس روز جب وہ تین نفر ( ابوبکر و عمر اور ابو عبیدہ جراح) سقیفہ پہنچے اور دیکھا کہ خلافت کی بحث در پیش ہے تو بزرگان قوم اور عقلا و کبار صحابہ کا تعاون کیوں نہیں حاصل کیا جن میں سے کچھ لوگ خانہ رسول (ص) میں تھے اور ایک جماعت لشکر اسامہ میں تھی؟

شیخ : ہم کہتے ہیں کہ کوئی غفلت ہوئی یا نہیں ہوئی ہم اس روز موجود نہیں تھے کہ دیکھتے وہ لوگ کس دشواری میں پھنسے ہوئے تھے، لیکن آج جب کہ ہمارے سامنے ایک طے شدہ عمل ہے چاہے وہ اجماع رفتہ رفتہ واقع ہو۔ ہم کو اس کے مقابلے میں اختلاف کی آواز نہ اٹھانا چاہیئے بلکہ سر تسلیم خم کر کے جس راستے وہ گئے ہیں اسی راستے پر گامزن ہوجانا چاہیئے۔

خیرطلب : خوب خوب ۔ مرحبا آپ کے استدلال پر اور آفرین آپ کے خیال اور عقیدے پر کہ آپ خواہ مخواہ ہم سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ مقدس دین اسلام ایک بھیڑیا دھسان مذہب ہے جس میں اگر دو تین آدمیوں نے ایک جگہ جمع ہوکر منصوبہ بنایا اور چند اشخاص نے ان کی حمایت میں ؟؟؟؟؟؟؟ مچادیا تو اب سارے مسلمانوں کا فرض ہوگیا کہ آنکھیں بند کر کے اس پر عملدرآمد کو قبول کریں۔ کیا خاتم النبیین(ص) کے پاک دین کا یہی مطلب ہے جب کہ صریحا آیت

۳۱۶

نمبر۱۹ سورہ ۲۹ ( زمر) ارشاد ہے۔

"فَبَشِّرْعِبادِالَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ"

یعنی اے رسول(ص) ان بندوں کو میرے لطف و رحمت کی بشارت دے دیجئے جو بات سنتے ہیں پس اس میں سے بہتر کی پیروی کرتے ہیں۔ (یعنی تحقیق کرلیتے ہیں، اندھی تقلید نہیں کرتے۔)؟

حالانکہ اسلام ایک تحقیقی دین ہے تقلیدی نہیں اور وہ بھی ابوعبیدہ (گورکن) معروف بہ جراح کی تقلید رسول اکرم(ص) نے خود ہمارے لیے راستہ کھول دیا ہے اور ہم کو پتہ دے دیا ہے کہ جس وقت امت دو گروہوں میں بٹ جائے تو ہم ان دونوں میں سے کس کی طرف جائیں تاکہ نجات پاسکیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہم کو کس دلیل سے امیرالمومنین علیہ السلام کی پیروی واجب ہے؟ اس کا جواب کھلا ہوا ہے کہ آیات قرآنی اور آپ کی معتبر کتابوں میں درج موثق حدیثوں کی دلیل ہے۔

من جملہ ان روایات و ںصوص کے جن کے ماتحت امت مجبور ہے کہ حوادث و انقلابات میں علی علیہ السلام کی پیروی کرے عمار یاسر کی مشہور حدیث ہے جس کو آپ کے بڑے بڑَ علماء جیسے حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیہ میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، بلاذری نے اپنی تاریخ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب۴۳ میں حموینی سے، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں، دیلمی نے فردوس میں اور آپ کے دوسرے موثق علماء نے ابوایوب اںصاری سے ایک مفصل حدیث نقل کی ہے جس کو مکمل بیان کرنے کا وقت نہیں لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت لوگوں نے ابو ایوب سے سوال کیا ( بلکہ ان پر اعتراض کیا) کہ تم علی ابن ابی طالب(ع) کے طرفدار کیوں بن گئے اور ابوبکر کی بیعت کیوں نہیں کی؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک روز میں رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر تھا کہ عمار یاسر وارد ہوئے اور آنحضرت سے سوال کیا حضرت نے گفتگو کے ضمن میں فرمایا

" يَاعَمَّارُ إِنْ سَلَكَ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَادِياًوَسَلَكَ عَلِيّ ٌوَادِياًفَاسْلُكْوَادِيَ عَلِيٍّ وَخَلِّ عَنِ النَّاسِ يَاعَمَّارُإِنَّ عَلِيّاًلَايَرُدُّكَ عَنْ هُدًى وَلَايَدُلُّكَ عَلَى رَدًى يَاعَمَّارُطَاعَةُعَلِيٍّ طَاعَتِي وَطَاعَتِي طَاعَةُاللَّهِ."

یعنی اے عمار اگر تمام لوگ ایک راستے پر جائیں اور تنہا علی(ع) ایک راستے پر تو تم علی(ع) کے راستے پر چلنا اور دوسروں سے بے نیاز ہوجانا اے عمار علی(ع) تم کو ہدایت سے برگشتہ نہ کریں گے اور ہلاکت کی طرف نہ لے جائیں گے اے عمار علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے اور میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔

آیا جائز تھا کہ ان واضح نصوص اور صاف صاف احکام کے ہوتے ہوئے جو آپ کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں، باوجودیکہ علی علیہ السلام نے خلافت ابوبکر کی کھلی ہوئی مخالفت کی، چاہے ساری امت میں سے بنی ہاشم، بنی امیہ کبار صحابہ عقلاء قوم اور مہاجرین و انصار ان کے ہم آواز نہ بھی رہے ہوں (حالانکہ ہم آواز تھے) لوگ علی(ع) کی راہ کو چھوڑ دیں اور ایک غیر پیشوا کی پیروی کریں؟ کم سے کم یہی خواہش کرتے کہ اس قدر تامل کیا جائے کہ علی(ع) آجائیں اور ان کی تجویز معلوم کر لی جائے۔

( اتنے میں نماز عشاء کے لیے موذن کی آواز آئی اور مولوی صاحبان فریضہ ادا کرنے کے لیے اٹھ گئے نماز اور چائے کے بعد حافظ صاحب نے بات شروع کی۔)

۳۱۷

حافظ : جناب آپ نے اپنے بیانات کے ضمن میں دو باتیں عجیب فرمائیں ۔ اول تو آپ بار بار فرماتے ہیں۔ ( ابوعبیدہ گور کن) تو یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ یہ محترم بزرگ قبر کھودنے کا پیشہ کرتے تھے؟ دوسرے آپ نے فرمایا کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب بیعت میں شامل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے مخالفت بھی کی در آنحالیکہ جملہ ارباب حدیث و تاریخ نے لکھا ہے کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب سب نے بیعت کی۔

خیر طلب : معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرات اپنے علماء کی تحریریں بھی غور سے نہیں پڑھتے۔ پہلی بات کہ ابوعبیدہ گوکن تھے۔ میں نے نہیں کہی ہے بلکہ آپ ہی کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ کتاب الہدایہ ولنہایہ مئولفہ ابن کثیر شامی جلد پنجم ص۲۶۶ و ص۲۶۷ کو ملاحظہ فرمائیے دفن رسول(ص) کے باب میں لکھا ہے کہ ابوعبیدہ جراح چونکہ اہل مکہ کی قبریں کھودا کرتے تھے لہذا جناب عباس نے ایک شخص کو مدینے کے گورکن ابوطلحہ کی تلاش میں اور ایک کو ابو عبیدہ کے تجسس میں روانہ کیا تاکہ دونوں آکر رسول اللہ(ص) کی قبر تیار کریں۔

دوسرے آپ نے فرمایا کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب سبھی نے بیعت کی۔ ہاں آپ بیعت کا لفظ تو ضرور پڑھ لیتے ہیں لیکن حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ کس نے کس وقت بیعت کی اور کیوں کر بیعت کی آپ کے سارے علمائے حدیث اور بڑے بڑے مورخین نے لکھا ہے کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم نے بیعت تو کر لی لیکن چھ مہینے کے بعد اور وہ بھی جبر و تشدد ، قتل و خون کی دھمکیوں اور انتہائی اہانتوں کے بعد جو ان بزرگوار کے لیے عمل میں لائی گئیں اور ان حضرات کا ہر طرح سے بائیکاٹ کردینے کے بعد۔

حافظ : آپ جیسے شریف انسان کے لیے مناسب نہیں کہ شیعہ عوام کے الفاظ اور عقائد کو زبان پر جاری کیجئے جو یہ کہتے ہیں کہ علی(ع) کو جبرا کھینچتے ہوئے لے گئے اور ان کو قتل کردینے کی دھمکی دی۔ حالانکہ ان جناب نے انہیں ابتدائی دنوں میں انتہائی خواہش و رغبت کے ساتھ ابوبکر کی خلافت قبول کر لی تھی۔

چھ ماہ کے بعد زبردستی علی (ع) اور بنی ہاشم کی بیعت

خیر طلب : آپ جو یہ فرمارہے ہیں کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم نے فوار بیعت کی تو میرا خیال کہ آپ جان بوجھ کر اپنے کو دھوکا دے رہے ہیں اس لیے کہ عام عام طور پر آپ کے مورخین تو یہ لکھتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی بیعت جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد ہوئی ہے۔ چنانچہ بخاری نے صحیح جلد سوم ص۳۷ باب غزوۃ خیبر میں اور مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح جلد پنجم ص۵۴ باب قول النبی لا نورث میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام کی بیعت وفات فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بعد ہوئی۔ اسی طرح عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری متوفی سنہ۲۷۶ھ الامامت والسیاست آخر ص۱۴ میں کہتے ہیں :

"فلم يبايع عليّ كرّم اللّه وجهه حتّى ماتت فاطمةرضي اللّه عنها"

یعنی علی علیہ السلام نے ( ابوبکر کی) بیعت نہیں کی یہاں تک کہ جناب فاطمہ(س) نے

۳۱۸

انتقال فرمایا۔

آپ کے بعض علماء وفات فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا وفات رسول اللہ صلعم کے پچھتر روز بعد جانتے ہیں جیسے خود ابن قتیبہ لیکن بالعموم آپ کے مورخین آںحضرت کے وفات کے چھ مہینے بعد سمجھتے ہیں جس سے نتیجہ یہ نکلا کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم کی بیعت خلافت کے چھ ماہ بعد ہوئی ۔ چنانچہ مسعودی مروج الذہب جلد اول ص۴۱۴ میں کہتے ہیں " ولم يبايع ه أحدمن بني هاشم حتّى ماتت فاطمة "

یعنی بنی ہاشم میں سے کسی ایک فرد نے بھی (ابوبکر کی ) بیعت نہیں کی یہاں تک کہ حضرت فاطمہ(س) نے وفات پائی۔

ابراہیم بن سعد ثقفی نے جو ثقات علماء میں سے ہیں زہری سے روایت کی ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بیعت نہیں کی لیکن چھ مہینے کے بعد اور ان کے اوپر لوگوں کی جرائت نہیں بڑھی لیکن وفات فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بعد جیسا کہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے۔

غرضیکہ آپ ہی کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام کی بیعت فورا نہیں ہوئی بلکہ بہت مدت کے بعد واقع ہوئی جب اس کے وسائل و اسباب اکٹھا ہوگئے اور حالات نے مجبور کردیا۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم آخر ص۱۸ میں زہری سے اور انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ :

" فَلَمْ يُبَايِعْهُ عَلِيٌّ سِتَّةَأَشْهُرٍوَلَاأَحَدٌمِن ْبَنِي هَاشِمٍ حَتَّى بَايَعَهُ عَلِيٌّ"

" یعنی علی(ع) نے چھ ماہ تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور بنی ہاشم میں سے کسی نے بھی بیعت نہیں کی جب تک علی(ع) نے نہیں کی۔

نیز احمد بن اعثم کوفی شافعی نے فتوح میں اور ابونصر حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں نافع سے اور انہوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ " ان عَلِيّا لَمْ يُبَايِعْهُ الا بعد سِتَّةَأَشْهُرٍ " ( یعنی علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی مگر چھ مہینے کے بعد) رہا آپ کا یہ فرمانا کہ تم عوام کے عقائد کی پیروی بے خودی میں ہم پر حملہ کرتے ہیں حالانکہ اپنی کتابوں کے مضامین سے واقف ہیں۔ قسم خدا کی ہر قوم کے علماء ہی فسادات کے ذمہ دار ہیں جو عوام کو دھوکا دیتے ہیں تاکہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ ان روایتوں کو ہم نے گھڑا ہے۔ حالانکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے ان باتوں کا اقرار کیا ہے۔

حافظ ہمارے علماء نے کہاں یہ کہا ہے کہ علی(ع) کع جبرا کھینچا اور ان کے گھر میں آگ لگائی جیسا کہ شیعوں کے یہاں مشہور ہے اور اپنے مجالس میں جوش و خروش سے بیان کرتے ہیں۔ نیز یہ کہہ کر لوگوں کے جذبات ابھارتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف پہنچائی اور ان کا حمل ساقط کیا؟

خیر طلب : محترم حضرات یا تو واقعی آپ کو مطالعہ ہی بہت کم ہے یا عادتا اور قصدا اپنے اسلاف کی پیروی میں بیچارے مظلوم شیعوں کو عوام کی نگاہوں میں متہم کر کے ایسے جملوں سے اپنے بزرگوں کو پاکدامن دکھانا چاہتے ہیں۔ لہذا کہتے بھی

۳۱۹

ہیں اور لکھتے بھی ہیں کہ یہ روایتیں شیعوں نے بنائی ہیں( خصوصا سلطنت صفویہ کے زمانے سے ) کہ ابوبکر کے حکم سے عمر ایک مجمع کے ساتھ علی(ع) کے دروازے پر آگ لے کر گئے اور علی(ع) کو قتل کی دھمکی دے کر شور و شر کے ساتھ کھینچتے ہوئے بیعت کے لیے مسجد میں لے گئے۔

حالانکہ ایسا ہے نہیں میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ان تاریخی قضیوں کو صرف شیعوں نے درج نہیں کیا ہے بلکہ آپ کے اںصاف پسند اکابر علماء و مورخین نے بھی لکھا ہے ۔ البتہ بعض نے تعصب کی وجہ سے احتراز کیا ہے۔ اگر آپ چاہیں ، تو وقت کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کے معتمد علماء سے چند روایتیں جو اس وقت پیش نظر ہیں ثبوت کے لیے نقل کردوں تاکہ صاحبان انصاف کو معلوم ہوجائے کہ ہم بے قصور ہیں اور جو کچھ آپ نے کہا ہے وہی ہم بھی کہتے ہیں ۔

حافظ : فرمائیے ہم سننے کے لیے حاضر ہیں۔

بارہ دلیلیں اس پر کہ علی(ع) کو بزود شمشیر مسجد میں لے گئے

خیر طلب : ۱۔ ابو جعفر بلاذری احمد بن یحیی بن جابر بغدادی متوفی سنہ۲۷۹ھ نے جو آپ کے ایک موثق محدث اور مشہور مورخ ہیں اپنی تاریخ میں روایت کی ہے کہ جب ابوبکر نے علی علیہ السلام کو بیعت کے لیے طلب کیا ہے اور آپ نے قبول نہ کیا تو انہوں نے عمر کو بھیجا ، وہ آگ لے کر آئے کہ گھر کو جلا دیں گے۔ حضرت فاطمہ(س) نے دروازے کے قریب آکر فرمایا اے پسر خطاب کیا تم مجھ پر گھر جلا دوگے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ جو کچھ تمہارے باپ لے کر آئے ہیں اس میں یہ عمل بہت موثر ہے۔

۲۔ عزالدین ابن ابی الحدید معتزلی اور محمد بن جریر طبری جو آپ کے معتمد ترین مورخ ہیں، روایت کرتے ہیں کہ عمر اسید بن خضیر ، سلمہ بن اسلم اور ایک جماعت کےہمراہ علی(ع) کے دروازے پر گئے اور کہا باہر نکلو ورنہ ہم گھر کو تمہارے اوپر جلا دیں گے۔

۳۔ ابن خزابہ نے کتاب عزر میں زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا میں ان لوگوں میں سے تھا جو عمر کے ہاں لکڑیاں اٹھا کر فاطمہ(ع) کے دروازے پر لے گئے ۔ جب علی (ع) اور ان کے اصحاب نے بیعت سے انکار کیا تو عمر نے فاطمہ (ع) سے کہا کہ جو شخص اس گھر کے اندر ہو اس کو باہر نکالو ورنہ اور گھر والوں کو جلائے دیتا ہوں اس وقت علی و حسنین اور فاطمہ علیہم السلام اور صحابہ و بنی ہاشم کی ایک جماعت گھر کے اندر موجود تھی۔ فاطمہ(ع) نے فرمایا کیا تم مجھ پر اور میرے بچوں پر گھر جلادوگے؟ کہا ہاں خدا کی قسم، یہاں تک کہ سب باہر آکر خلیفہ رسول (ص) کی بیعت کریں۔

۴۔ ابن عبدربہ نے جو آپ کے مشاہیر علماء میں سے ہیں حقدالفرید جلد سیم ص۶۳ میں لکھا ہے کہ علی علیہ السلام اور عباس(ع) فاطمہ(ع) کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ابوبکر نے عمر سے کہا جائو ان لوگوں کو لائو، اور اگر آنے سے انکار کریں تو ان سے جنگ کرو پس عمر آگ لے کر آئے تاکہ گھر جلادیں ، فاطمہ(ع) دروازے پرآئیں اور فرمایا اے پسر خطاب کیا تم میرا گھر جلانے آئے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں۔ الخ

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369