پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310382 / ڈاؤنلوڈ: 9440
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

۵۔ ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۱۳۴ مطبوعہ مصر میں جوہری کی کتاب سقیفہ سے سقیفہ بنی ساعدہ کا قضیہ تفصیل سے نقل کیا ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں، بن ہاشم علی علیہ السلام کے گھر میں جمع ہوئے اور زبیر بھی ان کے ساتھ تھے اس لیے کہ وہ اپنے کو بنی ہاشم میں شمار کرتے تھے( حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے تھے کہ زبیر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے یہاں تک کہ ان کے لڑکے بڑے ہوئے اور ان کو ہم سے برگشتہ کردیا) پس عمر ایک گروہ لے کر سید اور سلمہ کے ہمراہ حضرت فاطمہ(ع) کے گھر پر گئے اور کہا باہر نکل کے بیعت کرو، ان لوگوں نے انکار کیا اور زبیر تلوار کھینچ کر باہر نکل آئے۔ عمر نے کہا اس کتے کو پکڑ لو سلمہ بن اسلم نے ان کی تلوار پکڑ کر دیوار پر دے ماری اس کے بعد علی(ع) کو جبر و تشدد کے ساتھ کھینچتے ہوئے ابوبکر کی طرف لے چلے بنی ہاشم بھی ان کے ساتھ ساتھ آرہے تھے اور دیکھ رہے تھے کہ آپ کیا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ علی(ع) کہتے تھے کہ میں خدا کا بندہ اور اس کے رسول(ص) کا بھائی ہوں لیکن کوئی ان کی بات پر کان نہیں دھرتا تھا یہاں تک کہ ان کو ابوبکر کے پاس لے گئے انہوں نے کہا بیعت کرو آپ نے فرمایا کہ میں اس منصب کا سب سے زیادہ حقدار ہوں اور تمہاری بیعت نہیں کروں گا البتہ تمہارا فرض ہے کہ میری بیعت کرو۔ تم نے قرابت رسول(ص) کی دلیل سے یہ عہدہ انصار سے لیا ہے اور میں بھی اسی دلیل سے تمہارے مقابلے میں احتجاج کرتا ہوں۔ پس اگر تم خدا سے ڈرتے ہو تو انصاف سے کام لو اور میرے حق کا اعتراف کرو جس طرح انصار نے تمہارے حق میں انصاف کیا ، ورنہ اس کا اقرار کرو کہ جان بوجھ کر مجھ پر ظلم کر رہے ہو۔

عمر نے کہا جب تک بیعت نہ کروگے میں تم کو نہیں چھوڑوں گا۔ حضرت نے فرمایا خوب تم لوگوں نے آپس میں سازباز کر رکھا ہے، آج تم ان کے لیے کام کر رہے ہوتا کہ کلی وہ تمہاری طرف پلٹائیں ( اس عہدے کہ) خدا کی قسم میں تمہاری بات نہیں مانوں گا اور ان کی بیعت نہیں کروں گا اسلیے کہ ان کو میری بیعت کرنا چاہیئے پھر لوگوں کی طرف رخ کر کے فرمایا، اے گروہ مہاجرین خدا سے ڈرو۔ محمدی سلطنت اور اقتدار کو ان کے گھرانے سے جہان اس کو خدا نے قرار دیا ہے باہر نہ لے جائو اور اس کے اہل کو اس کے منصب اور حق سے الگ نہ کرو۔ خدا کی قسم ہم اہل بیت(ع) اس امر میں تم سے کہیں زیادہ حقدار ہیں جب تک ہمارے درمیان کوئی کتاب خدا و سنت رسول(ص) کا عالم اور دین کا فقیہہ موجود رہے۔ خدا کی قسم یہ تمام صفتین ہمارے اندر لہذا اپنے نفس کی پیروی نہ کرو جس سے حق سے دور ہوجائو۔ اس کے بعد علی علیہ السلام بغیر بیعت کئے ہوئے گھر واپس گئے اور خانہ نشین ہوگئے یہاں تک کہ حضرت فاطمہ(ع) نے رحلت فرمائی اور آپ نے بے بس ہوکر بیعت کی۔

۶۔ ابو محمد عبداللہ بن مسلم ن قتیبہ بن عمرو الباہلی الدینوری متوفی سنہ۳۷۶ھ جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں اور مدتوں شہر دینور میں باقاعدہ قاضی رہے ہیں اپنی مشہور کتاب تاریخ الخلفاء الراشدین و دولت بنی امیہ معروف بہ الامامہ والسیاسہ (مطبوعہ مصر) جلد اول ص۱۳ میں سقیفے کا قضیہ تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور اس عبارت سے مضمون شروع کرتے ہیں۔

"وإنّ أبابكررضى اللّه عنه تفقّدقوماتخلّفواعن بيعته عندعليّ كرّماللّه وجهه فبعث إليهم

۳۲۱

عمرفجاءفناداهم وهم في دارعليّ،فأبواأن يخرجوافدعابالحطب وقال: والّذي نفس عمربيده لتخرجنّ أولأحرقّنهاعليكم على من فيها،فقيل له: ياأباحفص،إنّ فيهافاطمةفقال: وإن فخرجوا فبايعوا الا عليا الخ."

خلاصہ یہ کہ جب ابوبکر کو معلوم ہوا کہ امت کی ایک جماعت ان کی بیعت سے انحراف کر کے علی علیہ السلام کے گھر میں جمع ہوئی ہے تو عمر کو ان کی طرف بھیجا، عمر نے آکر ان کو آواز دی لیکن ان لوگوں نے گھر سے باہر نکلنا گوارا نہیں کیا، عمر نے لکڑی منگوائی اور کہا اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے یا تم باہر آئو گے یا میں گھر کو گھر والوں سمیت جلائے دیتا ہوں۔ لوگوں نے کہا اے ابو حفص ( کنیت عمر) اس گھر میں فاطمہ(ع) بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کچھ پرواہ نہیں، وہ ہیں تب بھی جلا دوں گا۔ پس سب لوگ باہر آگے اور بیعت کی سوا علی علیہ السلام کے کہ انہوں نے فرمایا میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک قرآن جمع نہ کرلوں گا نہ باہر نکلوں گا نہ عباپہنوں گا، عمر نے قبول نہیں کیا لیکن فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نالہ و زاری اور لوگوں کی ملامت سے مجبور ہو کر ابوبکر کے پاس واپس گئے اور ان کو حضرت سے بیعت لینے پر ابھارا ابوبکر نے حضرت کو بلانے کے لیے کئی مرتبہ قنفذ کو بھیجا لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ بالآخر عمر ایک مجمع کے ساتھ فاطمہ(ع) کے دروازے پر گئے اور دق الباب کیا، فاطمہ(ع) نے ان لوگوں کی صدا سنی تو با آواز بلند فرماد کی۔

"ياأبت يارسول اللّه ،ماذالقينابعدك من ابن الخطّاب وابن أبي قحافة؟!!."

یعنی اے بابا رسول اللہ (ص) آپ کے بعد ہم کو عمر ابن خطاب اور ابوبکر ابن ابو قحافہ کی طرف سے کیا کیا مصیبتیں پہنچ رہی ہیں۔

جب لوگوں نے فاطمہ(ع) کی گریہ و زاری کی آواز سنی تو اس حالت سے پلٹے کہ آنسو بہ رہے تھے اور کلیجے بھن رہے تھے۔لیکن چند اشخاص کےساتھ عمر ٹھہر گئے یہاں تک کہ علی (ع) کو جبرا گھر سے نکال کے ابوبکر کے پاس لے گئے اور ان سے کہا کی ابوبکر کی بیعت کرو حضرت نے فرمایا کہ اگر بیعت نہ کروں تو کیا کرو گے؟ " قالوااذاواللَّه الّذى لااله الّاهونضرب عنقك " ( کہا خدا کی قسم ہم تمہاری گردن ماردیں گے۔ علی علیہ السلام نے فرمایا تو کیا بندہ خدا اور برادر رسول(ص) کو قتل کروگے؟ عمر نے کہا تم رسول خدا(ص) کے بھائی نہیں ہو۔ ابوبکر یہ سارے واقعات اور گفتگو خاموشی سے دیکھ رہے تھے اور کچھ نہیں کہتے تھے۔ عمر نے ابوبکر سے کہا کہ آیا یہ سب کام میں تمہارے حکم سے نہیں کر رہا ہوں ؟ ابوبکر نے کہا جب تک فاطمہ(ع) ہیں میں ان کو مجبور نہیں کروں گا۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے کو قبر رسول (ص) تک پہنچایا اور نالہ و فریاد کے ساتھ آنحضرت(ص) سے وہی بات عرض کی جو ہارون نے اپنے بھائی موسی(ع) سے کہی تھی اور خدا نے قرآن میں اس کی خبر دی ہے کہ:

" ياابنأمّ إنالقوم استضعفوني وكادوايقتلونني" ( یعنی اے میری مان کے فرزند قوم نے مجھ کو ضعیف بنا دیا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کردیں۔)

اس قضیے کی مفصل شرح نقل کرنے کے بعدکہتے ہیں کہ علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی اور گھر واپس چلے آئے۔ بعد کو ایک مرتبہ ابوبکر و عمر فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر پر آئے تاکہ ان کی خوشنودی حاصل کریں۔ آپ نے فرمایا میں خدا کو گواہ کرتی ہوں کہ

۳۲۲

تم دونوں نے مجھ کو اذیت پہنچائی ہے، میں ہر نماز میں تم پر نفرین کرتی ہوں یہاں تک کہ اپنے باپ کے پاس پہنچوں اور تمہاری شکایت کروں۔ انتہی۔

بے لاگ فیصلہ کرنا چاہیئے

حضرات آپ کو خدا کیا واسطہ دے کے انصاف چاہتا ہوں، کیا اجماع کے یہی معنی ہیں کہ اصحاب پیغمبر(ص) کو اہانت ، زد و کوب اور زبردستی کےساتھ قتل اور گھر پھونکنے کی دھمکیاں دے کر بیعت کے لیے لے جائیں۔ اس کا نام اجماع رکھیں؟ ارباب انصاف اگر آپ حضرات تعصب سے ہٹ کر ذرا سنجیدگی کے ساتھ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس روز کی شعبدہ بازی بھی آج ہی کے مانند تھی جس کی مثالیں اکثرملتی ہیں کہ چند اشخاص ایک آدمی کا ساتھ پکڑ کے شور و شغب اور ہنگامہ برپا کر کے اس کو ریاست یا سلطنت کی کرسی تک پہنچا دیتے ہیں اور بعد کو کہتے ہیںکہ قوم نے اس کو منتخب کیا ہے۔ اس روز بھی چند بازیگروں نے پارٹی بناکر ایک نفر کا انتخاب کر لیا اور بعد کو شور و غوغا اہانت ، آتش زنی اور قتل و خون کی دھمکی سے دبائو ڈال کر بقیہ لوگوں کو بیعت کے لیے تیار کیا جس کا آج کی شب آپ حضرات نام رکھتے ہیں، اجماع، اور اس کند حربے کو اپنی حقانیت کی دلیل بناتے ہیں۔

پھر تعجب یہ کہ ہم سے بھی فرمائش ہے کہ اندھے بہرے اور نادان بن جائو، پچھلی تاریخ پر قطعی دھیان نہ دو دین میں کوئی تحقیق نہ کرو، چاہے جو کچھ بھی کیا ہو لیکن سب کے نیک سمجھو اور اندھا دھند تصدیق کردو کہ اجماع واقع ہوا اور یہ خلافت برحق ہے اس لیے کہ اجماع کے ذریعے قائم ہوئی ہے۔

خدا کی قسم اگر آپ حضرات غیر جانبداری اور عدل و باریک بینی کی نظر سے دیکھیں تو خود تصدیق کریں گے کہ ان لوگوں کی جتھہ بندی اور پارٹی بازی اس روز سیاسی تھی برخلاف جماعت شیعہ کے جنہوں نے ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق آں حضرت(ص) کی عترت طاہرہ(ع) کا ساتھ اختیار کیا اور کہا کہ جب خود پیغمبر(ص) کی ہدایت ہے کہ قرآن اور میرے اہل بیت(ع) سے متمسک رہو تو ہم بھی تعمیل کرتے ہوئے ان سے جدا نہیں ہوتے ہیں اور کسی غیر کی نہیں بلکہ صرف انہیں کی پیروی کرتے ہیں۔

۷۔ احمد بن عبدالعزیز جوہری جو آپ کے ثقات علماء میں سے ہیں جیسا کہ ابن ابی الحدید نے اس عبارت کے ساتھ ان کی توثیق کی ہے کہ

" هو عالم محدث کثير الادب ثقة ورع اثنی عليه المحدثون رووا عنه فی مصنفاتهم "

یعنی وہ عالم، محدث ، بہت بڑے ادیب، ثقہ اور صاحب ورع تھے، محدثین نے ان کی مدح و ثناء کی ہے اور اپنے تصنیفات میں ان سے روایت کی ہے، انہوں نے کتاب سقیفہ میں روایت کی ہے اور ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۱۹ مطبوعہ مصر میں بسند ابواسود اس سے نقل کیا ہے کہ اصحاب کی ایک

۳۲۳

جماعت اور سربرآوردہ مہاجرین نے ابوبکر کی بیعت میں غیظ و غضب کا اظہار کیا کہ ان مشورہ کیوں نہیں کیوں نہیں لیا گیا۔ نیز علی(ع) اور زبیر بھی غضبناک ہوکر بیعت سے کنارہ کش ہوئے اور خانہ جناب فاطمہ(ع) میں آگئے۔ عمر نے اسید بن غضیر اور سلمہ بن سلامہ بن قریش ( جو دوںوں بنی عبدالاشہل سے تھے) اور لوگوں کا ایک گروہ لے کر خانہ فاطمہ(ع) پر چڑھائی کردی فاطمہ(ع) نے ہر چند فریاد کی اور ان لوگوں کو قسم دی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ علی(ع) و زبیر کی تلواریں لے کر دیوار پر مار مار کے توڑ ڈالیں اور ان کو جبر و تشدد کے ساتھ کھینچ کے بیعت کے لیے مسجد میں لے گئے۔

۸۔ نیز جوہری نے سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ جب ابوبکر منبر پر بیٹھے اور سنا کہ علی(ع) و زبیر اور بنی ہاشم ایک جماعت خانہ فاطمہ(ع) میں جمع ہوئے ہیں اور عمر کو بھیجا کہ ان کو لے آئو، عمر فاطمہ(ع) کے گھر پر آکر چیخے کہ باہر آئو ورنہ خدا کی قسم میں تم کو اور تمہارے گھر کو جلائے دیتا ہوں۔

۹۔ نیز جوہری نے جیسا کہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۱۹ مطبوعہ مصر میں لکھا ہے، اسناد کے ساتھ شعبی سے روایت کی ہے کہ جس وقت ابوبکر کو خانہ علی علیہ السلام میں بنی ہاشم کے اجتماع کی خبر ملی تو عمر سے کہا کہ خالد کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا موجود ہیں۔ ابوبکر نے کہا تم دوںوں جا کر علی(ع) اور زبیر کو نکال کے لائو تاکہ بیعت کریں، پس عمر فاطمہ(ع) کے گھر میں داخل ہوئے اور خالد دروازے پر کھڑے ہوئے عمر نے زبیر سے کہا یہ تلوار کیسی ہے ؟ انہوں نے کہا میں نے اس کو بیعت علی(ع) کے لیے مہیا کیا ہے۔ عمر نے وہ تلوار کھینچ کر گھر کے اندر ہی ایک پتھر پر مار کر توڑ ڈالی، اس کے بعد زبیر کا ہاتھ پکڑ کے اٹھایا اور باہر لاکر خالد کے قبضے میں دیا۔ پھر مکان کے اندر واپس گئے وہاں کافی لوگ جمع تھے، جیسے مقداد اور جملہ بنی ہاشم عمر نے علی علیہ السلام سے کہا اٹھو اور چل کر ابوبکر کی بیعت کرو۔ حضرت نے انکار کیا تو حضرت کا ہاتھ پکڑکے کھینچا، اور خالد کے ہاتھ میں دیا خالد کے ساتھ کثیر مجمع تھا جو ابوبکر نے مدد کے لیے بھیجا تھا۔ خالد اور عمر مل کے حضرت کو جبر اور سختی کےساتھ کھینچ رہے تھے۔ تمام گلیوں میں لوگ بھرے ہوئے تھے اور یہ منظر دیکھ رہے تھے، حضرت فاطمہ(ع) نے جس وقت عمر کی یہ بدسلوکیاں دیکھیں تو بنی ہاشم وغیرہ کی بہت سی عورتوں کے ساتھ ( جو جناب فاطمہ(ع) کو تسکین دینے کے لیے جمع ہوئی تھیں) باہر آگئیں اور ان کے نالہ و شیون اور فریاد و فغان کی آوازیں بلند تھیں، یہاں تک کہ حضرت فاطمہ(ع) نے مسجد کے اندر ابوبکر کو آواز دے کر فریاد کی کہ کتنی جلدی تم لوگوں نے اہل بیت رسول اللہ(ص) کے گھر پر ڈاکہ ڈال دیا۔ قسم ہے خدا کی کہ میں عمر سے بات بھی نہیں کروں گی یہاں تک کہ اپنے خدا سے ملاقات کروں( معصومہ اپنی قسم اور عہد کی پابند رہیں اور زندگی بھر ان لوگوں سے بات نہیں کی) چنانچہ بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحین میں لکھا ہے۔

"فغضبت فاطمةعلى ابى بكرفهجرته فلم تكلّمه حتّى توفّيت"

یعنی فاطمہ سلام اللہ علیہا ابوبکر پر غضبناک ہوئیں اور وفات کے وقت تک ان سے بات نہیں کی۔ جیسا کہ صحیح بخاری کے جزء پنجم و ہفتم میں نقل ہوا ہے۔

۱۰۔ ابو ولید محب الدین محمد بن الشختہ الحنفی متوفی سنہ۸۱۵ھ جو آپ کے اکابر علماء میں سے اور حلب میں برسوں حنفی

۳۲۴

مذہب کے قاضی رہے تھے۔ اپنی تاریخ کی کتاب روضتہ المناظر فی اخبار الاوائل والاواخر میں قضیہ سقیفہ کی تشریح کرتے ہوئے آگ والا واقعہ ان الفاظ میں لکھتے ہیں۔

"ان عمر جاء الی بيت علی ليحرقه علی من فيه فلقيته فاطمة فقال ادخلوا فيما دخلت الامة"

یعنی عمر علی(ع) کے گھر پر آئے تاکہ اس کو مع گھر والوں کے جلا دیں پس فاطمہ(ع) نے ان سے گفتگو کی تو عمر نے کہا جس چیز میں امت داخل ہوئی ہے تم بھی داخل ہو) اور آخر تک یہ واقعہ نقل کرتے ہیں۔

۱۱۔ طبری نے اپنی تاریخ جلد دوم ص۴۴۳ میں زیاد ابن کلب سے نقل کیا ہے کہ طلحہ و زبیر اور مہاجرین کی ایک جماعت علی(ع) کے گھر میں تھی، عمر ابن خطاب آئے اور کہا بیعت کے لیے باہر نکلو ورنہ سب کو آگ سے جلائے دیتا ہوں۔

۱۲۔ مشہور مورخ ابن شحنہ حاشیہ کامل ابن اثیر جلد یا زدہم ص۱۱۲ ضمن واقعہ سقیفہ میں لکھتے ہیں کہ جس وقت اصحاب اور بنی ہاشم کی ایک جماعت جیسے زبیر ، عتبہ بن ابی لہب، خالد بن سعید بن عاص، ،مقداد ابن اسود کندی، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عماریاسر، براء بن عازب اور ابی بن کعب نے بیت ابوبکر سے اختلاف کیا اور علی علیہ السلام کی طرف میلان ہونے کی وجہ سے سب آپ کے گھر میں جمع تھے تو عمر ابن خطاب آئے تاکہ اس مکان میں جو بھی ہو آگ سے اس کو جلا دیں، فاطمہ سلام اللہ علیہا نے احتجاج کیا تو عمر نے کہا کہ اس کام میں شامل ہو جس میں اورلوگ شامل ہوئے ہیں۔ ( یعنی بیعت کرنے والے اشخاص کی پیروی کرتے ہوئے بیعت کرو۔)

ان مطالب کا شاید مقبول فریقین مورخ اور جلیل القدر فاضل ابوالحسن علی ابن الحسین مسعودی کا قول ہے جو تاریخ مروج الذہب جلد دوم ص۱۰۰ میں واقعات عبداللہ ابن زبیر کو جنہوں نے مکے میں ریاست و خلافت کا دعوی کیا تھا۔ نقل کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ جس وقت بنی ہاشم مع فرزند امیرالمومنین محمد ابن حنفیہ کے شعب ابوطالب میں جمع تھے اور عبداللہ کا لشکر ان کا محاصرہ کئے ہوئے تھا تو وہ لوگ بہت سی لکڑی لائے تاکہ سب کو جلادیں اور آگ کے شعلے بھی بلند ہوئے لیکن پھر بھی بنی ہاشم نے اطاعت قبول نہیں کی یہاں تک کہ مختار کے لشکر نے پہنچ کر ان کو نجات دلائی۔

کہتے ہیں کہ نوفلی نے اپنی کتاب میں روایت کیا ہے کہ ایک جلسے میں محاصرہ ثعب ابوطالب کا قضیہ زیر بحث تھا اور لوگ اس آتش زنی کی ملامت کررہے تھے تو وہ عروہ بن زبیر اپنے بھائی عبداللہ کی طرف سے لوگوں کے سامنے یہ عذر پیش کررہے تھے کہ میرے بھائی عبداللہ قصور وار نہیں تھے اس لیے کہ آگ اور لکڑی لانے اور آگ روشن کرنے سے بنی ہاشم کو ڈرانا مقصود تھا:

" إنّماأرادبذلك إرهابهم ليدخلوافي طاعته كماأرهب بنوهاشم وجمع لهم الحطب لإحراقهم اذهم أبواالبيعةفيماسلف"

مطلب یہ کہ عبد اللہ ابن زہیر کا شعب ابو طالب میں ہاشم کیلے آگ لے جانا ان کو خوف زدہ کرنے کیلے تھا تاکہ وہ ان کی اطاعت کریں ٹھیک اسی طرح جیسے (عمر اور اصحاب ابو بکر نے)بنی ہاشم اور بزرگان قوم کو اس وقت ڈرایا دھمکایا تھا اور ان کو

۳۲۵

جلانے کیلے لکڑی جمع کی تھی جب وہ بیعت پر تیار نہیں ہورہے تھے (تاکہ کسی طرح اجماع کا نام ہوجاے اور آج آپ کے لیے دلیل محکم بنے )یہ روایتیں اور مورخین کا بیان ان کثیر اخبار و بیانات میں سے صرف ایک نمونہ ہے جو آپ کے موثق راویوںنے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے۔انصاف پسند علماءکے نزدیک یہ واقعہ اس قدر مشہور تھا کہ شعراء اس کو اپنے اشعار میں نظم کرتے تھے۔

ہاں آپ کے بعض علماء احتیاطاًاس خیال سے کہ اگر ہم ان معاملات کو بیان کریںگے تو عقیدہ اجماع کے باطل ہونےپر ایک دلیل ہوجا ےگی اس واقعہ کو نقل کرنے سے پرہیزکرتے تھے ورنہ اصلیت سب کے سامنے ظاہر تھی۔آپ کے مشہورومعروف شعراءمیںسے ایک بزرگ عالم حافظ ابراہیم مصری قصیدہ عمریہ میں خلیفہ کی مدح وتمھید کرتے ہوے کہتےہیں

وقولة لعلي قالها عمر

أكرم بسامعها أعظم بملقيها

حرقت دارك لا أبقي عليك بها

إن لم تبايع وبنت المصطفى فيها

ما كان غير أبي حفص يفوه بها

أمام فارس عدنان وحاميها

مطلب یہ کہ سو ابوحفص(کنیت عمر)کے شہسوار قبیلہ عدنان،علی اور ان کے حامیوں سے کوئی اور یہ نہیں کہ سکتا تھا کہ اگر بیعت نہ کروگے تو تمہارا گھر پُھونک دوںگا اور اُس میں سے کسی کو زندہ نہ چھورں گا چاہے یہاں رسول کی بیٹی ہی ہو۔

حافظ: یہ روایتیں بتاتی ہیںکہ ڈرانے دھمکانے اور مخالفین خلافت کا مجمع منتشر کرنے کےلئےآگ لائے تھے حلانکہ شیعوں نے یہ گھڑا ہے کہ گھر میں آگ لگادی اور دروازےاور دیوار کے درمیاں محسن کا ششماہہ حمل ساقط ہوگیا۔

جناب فاطمہ کے اسقاط حمل کی روایتیں

خیرطلب: میں نے عرض کیا تھا کہ تنگی وقت کی وجہ سے اختصار کی کوشش کررہاہوں اوراسی وجہ سے میں نے مفصّل روایتیں نقل کرنے سے گریز کیا ورنہ اس بارے میں بھی بہت ہے نمونے کے طور پر اور یہ ثابت کرنے کیلے کہ ہم موّحد اورروز جزا پر ایمان رکھنے والے شیعہ دروغ اورجعلسازی سے کام نہیں لیتے اور نہ کسی سے ذاتی پر خاش رکھتےے ہیں۔بہتر ہوگا کہ آپ مقبول فریقین(شیعہ و سنی )مشہور عالم فاضل موّرخ ابوالحسن علی ابن حسین سعودی صاحب مروج الذہب متوفی سنہ۳۴۶ھ کی تالیف کتاب اثبات الوصیہ کی طرف رجوع فرمائیے، جس میں اس روز کے مفصل واقعات درج کئے ہیں یہاں تک کہ کہتے ہیں۔

"اللّه عليه وآله فوجهواالى منزله فهجمواعليه ،وأحرقوابابه،واستخرجوه

۳۲۶

منه كرها،وضغطواسيّدةالنساءبالبابحتىاسقطت محسنا"

پس علی علیہ السلام پر ہجوم کر لیا ان کا دروازہ جلا ڈالا، ان کو زبردستی گھر سے باہر نکالا اور سیدہ زنان جناب فاطمہ(ع) کو دروازے اور دیوار کے درمیان اس طرح سے دبایا کہ محسن کا حمل ساقط ہوگیا۔

اس سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ شیعوں کی گھڑی ہوئی باتین نہیں ہیں بلکہ جو کچھ ہوا ہے وہ تاریخ کے اندر محفوظ ہے۔ تاریخ ہرگز گم نہ ہوگی، اگر بعض جانب داری سے کام لیں گے اور اس کو تحریر کرنے سے پرہیز کریں گے تو دوسرے انصاف پسند حضرات بھی ہیں جو درج کر کے رہیں گے۔

اسقاط حمل کا سانحہ تو تاریخ کے اندر اظہر من الشمس ہے۔ یہاں تک کہ بعض علماء نے اپنے خلفاء کی محبت میں پردہ پوشی اور سکوت سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھی یہ حقیقت بے اختیار ان کی زبان قلم پر آگئی ہے اور ہمارے دعوے کے ثبوت میں ایک سچا گواہ بن گئی ہے۔

ملاحظہ فرمائیے شرح نہج البلاغہ مطبوعہ مصر جلد سیم ص۳۵۱ تاکہ مطلب آپ کے سامنے واضح ہوجائے، ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ جب میں نے اپنے استاد ابو جعفر نقیب شیخ معتزلہ کےسامنے یہ روایت نقل کی کہ جس وقت سول خدا(ص) کو یہ اطلاع دی گئی کہ ہبار ابن اسود نے آپ کی دختر زینب کی عماری پر نیزے سے حملہ کیا جس کے خوف سے زینب کا حمل ساقط ہوگیا (۱) تو حضرت نے اس کا خون مباح فرمادیا تو ابوجعفر نے کہا :

"لوكان رسول اللّه حيّالأباحدممن روّع فاطمةحتّى ألقت ذابطنها."

یعنی اگر رسول اللہ (ص) زندہ ہوتے تو یقینا اس شخص کا خون بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ رسول اللہ(ص) کی ربیبہ زینب اپنے خالہ زاد بھائی ابوالعاص بن ربیع بن عبدالعز کو بیاہی ہوئی تھیں جنگ بدر میں کفار کے بہت سے قیدیوں کے ساتھ ابوالعاص بھی اسیر ہوا۔ طے یہ پایا کہ مشرکین فدیہ دے دے کر اپنے کو رہا کرائیں۔ ابوالعاص نے زینت کے پاس کہلا بھیجا کہ میرے لیے فدیہ بھیج دو۔ ان بی بی نے کچھ مال مہیا کیا اور اس کے ساتھ ایک مروارید کا گلو بند جو عقیق یمنی اور یاقوت رمانی سے موصع تھا اور جناب خدیجہ سے ان کو ملا تھا۔ پیغمبر(ص) کی خدمت میں بھیجا۔ رسول اللہ(ص) اس کو دیکھ کر غمگین ہوگئے تو امت نے آنحضرت(ص) کے لحاظ سے فدیہ چھوڑ دیا اور ابوالعاص کو آزاد کردیا۔ پیغمبر(ص) نے ابوالعاص سے فرمایا کہ زینب چونکہ تجھ پر حرام ہے لہذا ان کو مدینے بھیج دے۔ اس نے منظور کیا آں حضرت(ص) نے زینب کو لانے کے لیے اس کے ہمراہ مرد پیر حضرت زید بن حارث کو روانہ فرمایا۔ جب مشرکین کو معلوم ہوا کہ زینب کی روانگی ہوگئی تو ابوسفیان کےساتھ ایک گروہ نے تعاقب کیا اور ذی طوی میں ان تک پہنچ گئے ہبار ابن اسود نے زینب کی عماری میں نیزہ مارا اور نیزے کی انی ان کی پشت میں لگی جس سے وہ گھبرا گئیں اور دہشت کی وجہ سے حمل ساقط ہوگیا جس وقت زینب مدینے پہنچیں اور رسول اللہ(ص) سے واقعہ بیان کیا تو آں حضرت(ص) کو بہت صدمہ ہوا اور ہبار کا خون حلال فرما دیا نیز حکم دیا کہ اس کے ہاتھ پائوں کاٹ کے اس کو قتل کیا جائے۔

۳۲۷

حلال کردیتے جس نے فاطمہ(ع) کو خوف زدہ کیا یہاں تک کہ ان کا حمل ( محسن) ساقط ہوگیا۔

نیز صلاح الدین خلیل بن ابیک الصعدی نے وافی الوفیات ضمن حرف الف میں ابراہیم بن سیار بن باقی بصری معروف بہ نظام معتزلی کے کلمات عقائد نقل کئے ہیں، یہاں تک کہ کہتے ہیں کہ نظام نے کہا ہے۔

"إنّ عمرضرب بطن فاطمةعليهاالسّلام يومال بيعةحتّى ألقت المحسن من بطنها."

یعنی عمر نے بیعت کے روز حضرت فاطمہ(ع) کے بطن پر ایسی ضرب لگائی کہ محسن ان کے شکم سے ساقط ہوگئے۔

وافی الوفیات کی یہ قلمی جلد حاجی حسین آقا ملک کے کتب خانہ ملی تہران میں موجود ہے۔ لہذا آپ حضرات اپنے بزرگوں کی پیروی میں بلا وجہ شیعہ قوم کو بدنام نہ کیجئے اور ناواقف عوام کے سامنے ہم کو قصور وار مشہور نہ کیجئے جس

سے ان کو دھوکا ہو کہ واقعی یہ روایتیں شیعون نے وضع کی ہیں۔ اور پھر آپ ان میں غلط فہمی پھیلائیں اور کہیں کہ ہمارے خلفاء نے علی(ع) و فاطمہ(ع) کو کوئی ایذا نہیں پہنچائی بلکہ یہ خود ان کی خلافت پر راضی تھے۔ آتش زنی، جبرو تشدد ، بیعت کے لیے علی(ع) و بنی ہاشم کی توہین و تذلیل اور اسقاط کے واقعات نیز دوسرے مظالم آپ کے منصف مزاج علماء کی معتبر کتابوں میں مندرج ہیں۔ اگر آپ کو کوئی اعتراض کرنا ہے تو بلاذری، طبری، ابن خزابہ، ابن عبدربہ، جوہری، مسعودی، نظام، ابن ابی الحدید ، ابن قتیبہ، ابن شخبہ اور حافظ ابراہیم وغیرہ پر کیجئے کہ انہوں نے کیوں اپنی کتابون میں لکھا اور کیوں اپنے اشعار میں نظم کیا۔ ہم تو جو کچھ کہتے ہیں مضبوط اور مسلم سند کے ساتھ کہتے ہیں۔ جذبات اور جاہلانہ تعصب سے روایتیں نہیں گھڑتے۔

حافظ : آخر اس قسم کی روایتیں نقل کرنے سے نتیجہ کیا ہے؟ سوا باہمی نفاق و عداوت اور اختلاف پیدا ہونے کے قطعا ان سے کوئی فائدہ نہیں نکلتا۔

نصرت حق اور اثبات مظلومیت ضروری ہے

خیر طلب : اولا بہتر تویہ ہے کہ اپنے علماء مورخین پر یہ اعتراض کیجئے کہ انہوں نے لکھا کیوں؟ ورنہ حق چھپا نہیں رہتا۔" فَلِلَّهِ الْحُجَّةُالْبالِغَةُ،" اور تاریخ محو نہیں ہوتی۔ آخر کار ہر قوم و ملت میں کچھ پاک نفس، انصاف پسند اور بے لوث افراد پیدا ہوتے ہیں جو حقائق پیش کرتے ہیں۔ جیسے آپ کے منصف مزاج علماء کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں درج کر کے حقیقتوں کو ظاہر کردیا۔

دوسرے آپ کا یہ فرمانا کہ تم کیوں کہتے ہو اور کیوں لکھتے ہو؟ تو بدیہی چیز ہے کہ ہمارا یہ کہنا اور لکھنا آپ کے ان کج فہم مطلب پرست اور افترا پرداز مقررین و مصنفین کے حملوں اور تہمتوں کے جواب میں دفاعی حیثیت رکھتا ہے جو مسلمانوں کے اندر تفرقہ ڈالنے کے لیے ہمارے ناواقف بھائیوں کو بہکاتے ہیں، مومن و موحد شیعہ

۳۲۸

جماعت کو کافر و مشرک اور ملحد مشہور کرتے ہیں اور اس قسم کے حالات اور تاریخی واقعات کو شیعون کی من گھڑت بتا کے سادہ طبیعتوں کو غلط الزامات کے ذریعہ مکدر بناتے ہیں۔

ہم مجبور ہیں کہ اپنے مظلومانہ حق سے دفاع کریں اور اطراف عالم میں پھیلے ہوئے اپنے روشن دماغ مسلمان بھائیوں پر واضح کریں کہ شیعیان اہل بیت رسالت(ص) یعنی علی(ع) اور اولاد علی(ع) کے پیرو " لاإله إلّااللّه ،محمّدرسولاللّه " کے کہنے والے ہیں اور علی علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہتے چنانچہ ہم نے گزشتہ شبوں میں عقلی و نقلی دلائل و براہین کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ ہم علی(ع) کو خدا کا بندہ صالح رسول اللہ(ص) کا وصی و خلیفہ منصوص اور بھائی سمجھتے ہیں، اور ہر اس عمل کے مخالف ہیں جو غیر خدا کے لیے ہو۔

آپ فرماتے ہیں کہ تم کیوں کہتے ہو؟ حقائق بیان کرنے سے کیا نتیجہ ہے؟ تو ہم بھی آپ سے کہتے ہیں کہ آپ نہ کہئے تاکہ ہم بھی نہ کہیں، آپ نہ لکھئے تاکہ ہم بھی نہ لکھیں، حق اور واجبی حقوق کی حمایت فرض ہے۔ ہم خود نہیں کہتے ہیں آپ ہم کو کہنے پر مجبور کرتے ہیں، اب اسی رات میں اگر آپ یہ نہ فرماتے کہ یہ شیعہ عوام کے عقائد ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں، تو میں پردہ اٹھانے پر مجبور نہ ہوتا اور حضرات حاضرین جلسہ کو یہ نہ بتاتا کہ جیسا آپ نے سنا ہے، یہ شیعہ عوام کے عقائد نہیں ہیں بلکہ حق گو علمائے اہلسنت والجماعت کے اعتقادات ہیں۔ چنانچہ ان میں سے نمونے کے طور پر کچھ عرض بھی کرنا پڑا۔ ہم شیعہ لوگ خاص موحد ہیں۔ اور کتاب وسنت اور عقل و اجماع کی روشنی میں صرف صحیح عقائد کے حامل ہیں۔

حافظ : آپ کی ان باتوں پر حیرت اور تعجب ہے، اس لیے کہ علمائے شیعہ کی خاص کتابوں میں ایسی روایتیں موجود ہیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہیں اور پورے پورے شیعوں کی جسارت اور گناہوں میں ان کی بے پروائی کا باعث ہوتی ہیں۔ اس قسم کے روایات قطعا موضوع ہیں۔ اور ان سے امت کے اخلاق بگڑنے کے علاوہ اور کوئی نتیجہ نہیں۔ آپ لوگ بھی ان سے منع نہیں کرتے۔

خیر طلب : سخت تعجب ہے کہ جناب عالی مطالب کو بے ربط بیان فرماتے ہیں۔

بہتر ہے، جو روایتیں آپ کی نظر میں غلط و موضوع اور موجب فساد ہیں ان کو بیان فرمائیے تاکہ مطلب واضح ہو۔

۳۲۹

حدیث حب علی حسنہ و من بکی علی الحسین

میں اشکال اور اس کا جواب

حافظ : آخوند ملا محمد باقر مجلسی اصفہانی جو آپ کے بزرگ علماء میں سے بحارالانوار کی اکثر جلدوں میں ایسی روایتیں درج کرتے ہیں جن میں سے فی الحال ایک تعجب خیز حدیث میرے پیش نظر ہے جس کو رسول خدا(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا " حبّ علىّ حسنةلاتضرّمعهاسيّئة" یعنی علی علیہ السلام کی محبت ایسی نیکی ہے کہ اس کے ساتھ کوئی گناہ (صغیرہ) نقصان نہیں پہنچاتا، نیز نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا " من بكى على الحسين وجبتلهالجنة" ( یعنی جو شخص حسین علیہ السلام پر روئے بہشت اس کے لیے واجب ہے)۔ اور اس طرح کے بہت سے روایات میں نے دیکھے ہیں جن سے امت میں فساد پیدا ہوتا ہے اور انہی کی وجہ سے شیعوں میں جسارت اور گناہوں کی طرف سے بے پروائی پیدا ہوتی ہے کہ چاہے جیسا گناہ کریں ان کو یہ امید ہے کہ چونکہ علی(ع) کو دوست رکھتے ہیں ان معاصی سے ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچے گا یا اس خیال سے ہر گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے لیے ایک قطرہ آنسو ہمارے گناہوں کو دھو دے گا اور ہم جنت میں چلے جائیں گے جب لوگوں میں یہ بے قاعدہ امید کافی بڑھ جاتی ہے تو رفتہ رفتہ بدکاری اور بد اخلاقی پھیل جاتی ہے۔ چنانچہ ہم شیعوں کے اکثر ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو سال بھر گناہوں میں غرق رہنے کے بعد ایام عاشورہ میں عزاداری میں مشغول ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ دس دن ختم ہونے کے بعد عزاداری کے اثر سے ہم اس طرح گناہوں سے باہر آجاتے ہیں جیسے پیدائش کے روز تھے۔

بلاد اہل تسنن میں گناہوں کی گرم بازاری

خیر طلب : اول تو آپ حضرات نے بہت بڑا دھوکا کھایا ہے کہ بعض شیعوں میں بدکاری یا لا ابالی پن کا رواج پایا تو اس قسم کی روایتوں پر عقیدہ رکھنے کا نتیجہ سمجھ لیا۔ اگر بعض شیعہ عوام کا ارتکاب گناہ اس طرح کی حدیثوں سے وابستہ ہے تو فرمائیے برادران اہل سنت جن کے اعتقادات آپ جیسے حضرات کی رہنمائی کے باعث ان احادیث کے برخلاف ہیں کس لیے گناہوں اور بدکاریوں میں غرق بلکہ علی الاعلان معاصی میں مبتلا رہتے ہیں؟ بلاد اہل تسنن اور ان کے خاص خاص شہروں جیسے مصر، اسکندریہ، شام، بیت المقدس، بیروت، عمان، حلب، بغداد، بصرہ عشار اور بہت سے چھوٹے چھوٹے

۳۳۰

قصبوں میں جن کو میں نے دیکھا ہے اور جہاں اکثریت بلکہ بعض بعض شہروں اور قصبوں میں پوری پوری آبادی، اہل سنت کی ہے۔ تمام چھوٹے بڑے عمومی قہوہ خانوں میں مختلف اقسام کا جو ارائج ہے جو ان کی عادت اور طبیعت ثانیہ بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے گناہ اور بد اعمالیاں جس قدر بعض شیعہ عوام میں پائی جاتی ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ ان لوگوں کے اندر رائج ہیں۔ تمام پارکوں اور راستوں میں قمار بازی، شراب نوشی رقص و سرود، باقاعدہ حرامکاری کے اڈے اور دوسرے فحش حرکات جن کے ذکر سے بھی شرم آتی ہے ہر جگہ موجود ملیں گے۔ اگر ہم بھی آپ کی طرح نکتہ چینی اور حیلہ سازی کرتے اور کہدیتے کہ برادران اہل تسنن میں بدکاری، زنا، لواطہ، شراب اور حوئے وغیرہ کا اس قدر رواج اور احکام دین میں ان کی اس قدر جسارت اور لا ابالی پن ان کے اماموں اور فقیہوں کے بے جا فتوی کی وجہ سے ہے۔ مثلا کتے کی طہارت کا حکم اس کا گوشت حلال جاننا، منی و سکرات اور حرام سے ؟؟؟؟؟ ہونے والے کا پسینہ پاک سمجھنا، سفر میں اطفال کےساتھ مقاربت اور ریشم یا کوئی اور چیز آلہ تناسل پر لپیٹ کے محرم عورتوں سے مباشرت کا جواز اور اسی قسم کے دیگر مسائل نے عوام کو گناہوں میں جری اور بے پروا بنا دیا ہے۔

لیکن شیعہ فقہاء ان تمام باتوں کو حرام سمجھتے ہیں اور ان کے مرتکب سے بیزاری اختیار کرتے ہیں۔

حافظ : یہ جھوٹے الزامات محض افسانہ ہیں۔ آپ کے پاس اپنی گفتگو پر دلیل کیا ہے؟

اہل تسنن میں سے زمخشری کا اعتراف اور تنقید

خیر طلب : آپ خود ہی جانتے ہیں لیکن بیچارگی میں عمدا مدعی سست گواہ چست کا مصداق بنتے ہیں۔ ورنہ آپ کی فقہی کتابوں میں آپ کے فقہاء کے یہ فتاوی موجود ہیں۔ وقت میں اتنی گنجائش نہیں کہ سب کو نقل کرسکوں لیکن یہ اتنی واضح اور بدیہی چیز ہے کہ خود آپ کے اکابر علماء نے بھی اس کی تنقید کی ہے۔ نمونے کے لیے آخر تفسیر کشاف جلد سیم ص۳۰۱ میں جار اللہ زمخشری کا یہ قول آپ کے ملاحظے کے قابل ہے۔

إذا سألوا عن مذهبي لم أبح به*وأكتمه كتمانه لي أسلم

فإن حنفيا قلت قالوا بأنني * أبيح الطلا وهو الشراب المحرم

وإن مالكيا قلت قالوا بأنني * أبيح لهم أكل الكلاب وهم هم

وإن شافعيا قلت قالوا بأنني* أبيح نكاح البنت والبنت محرم

وإن حنبليا قلت قالوا بأنني * ثقيل حلولي بغيض مجسم

وإن قلت من أهل الحديث وحزبه* يقولون تيس ليس يدري ويفهم

۳۳۱

تعجبت من هذا الزمان وأهله*** فما أحد من ألسن الناس يسلم

وأخرني دهري وقدم معشرا** على أنهم لا يعلمون وأعلم

ومذ أفلح الجهال أيقنت أنني * أنا الميم والأيام أفلح أعلم"

یعنی اگر مجھ سے میرا مذہب دریافت کریں تو میں اس کو ظاہر نہیں کروں گا۔ کیوں کہ اس کے پوشیدہ رکھنے میں سلامتی ہے۔ اس لیے کہ اگر میں کہوں حنفی ہوں تو کہتے ہیں کہ تم حرام شراب کو حلال جانتے ہو۔ اگر کہوں مالکی ہوں تو کہتے ہیں کہ تم کتے کا گوشت حلال سمجھتے ہو۔ اگر کہوں شافعی ہوں تو کہتے ہیں کہ تمہارے یہاں اپنی لڑکی سے نکاح جائز ہے حالانکہ لڑکی حرام ہے۔ اگر کہوں حنبلی ہوں تو کہتے ہیں کہ تم حلولی اور مجسمہ مذہب کے ہو۔ اگر کہوں اہل حدیث ہوں تو کہتے ہیں کہ یہ بکرا ہے کچھ جانتا بوجھتا نہیں ہے۔ ( مطلب یہ ہے کہ یہ فقہائے مذاہب اربعہ کے فتاوی ہیں بلکہ مشتے نمونہ از خروارے ہیں) اس زمانے اور زمانے والوں سے مجھ کو تعجب ہے کہ کوئی شخص لوگوں کی زبان سے محفوظ نہیں ہے۔ میں کیا کروں کہ زمانے نے مجھ کو پیچھے ڈال دیا ہے کیونکہ میں جانتا ہوں اور اس گروہ کو آگے بڑھا دیا ہے جو نافہم ہے جب میں نے دیکھا کہ جاہلوں نے ترقی کی ہے تو میں نے یقین کر لیا کہ مجھ کو شمع کی طرح جلتا ہے اور زمانے کے لیے کامیابی ہے۔

ایک ایسا عالم جلیل اور مفسر نبیل کہہ رہا ہے کہ مجھ کو مذاہب اربعہ کے فاسد فتاوی اور غلط عقائد کی بناء پر شرم آتی ہے کہ اپنے کو انہیں میں سے ظاہر کروں۔ اس کے بعد بھی آپ حضرات امید کرتے ہیں کہ ہم ایسے عجیب و غریب مذاہب کی پیروی اختیار کریں گے۔

اچھا اب اس کو چھوڑ کر اصل مطلب پر آتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جیساآپ کہہ رہے ہیں۔ اس کے برخلاف اس قسم کے روایات دو وجہوں سے شیعوں کے گڑھے ہوئے نہیں ہوسکتے۔ اول یہ کہ میں بار بار عرض کرچکا ہوں کہ شیعوں کو حدیثیں وضع کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ دوم یہ کہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء کی اکثر معتبر کتابوں میں اس طرح کی روایتیں کثرت سے مروی ہیں۔ صرف علامہ مجلسی علیہ الرحمہ ہی کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ شیعوں نے بالعموم نقل کیا ہے، چونکہ میں وعدے کے خلاف نہیں کرنا چاہتا۔ لہذا علمائے شیعہ کے اقوال چھوڑتا ہوں اور علمائے اہل سنت کے اقوال پیش کرتا ہوں۔

کتب اہل تسنن سے حدیث حب علی حسنہ کے اسناد اور اس کے معنی

یہی روایت جو آپ نے علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کی بحار الانوار سے نقل کی ہے۔ امام احمد بن حنبل نے مسند میں خطیب

۳۳۲

خوارزمی نے مناقب کے آخر فصل ششم میں، سلیمان قندوزی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۴۲ میں نیز ضمن باب ۵۶ ص۱۸۰ میں کنز الدقائق شیخ عبدالرئوف المنادی المصری ص۲۳۹ سے اور وہ مناقب السبعین سے حدیث نمبر۴۹ اور وہ فردوس دیلمی سے بروایت معاذ بن جبل، میر سید علی ہمدانی فقیہ شافعی نے مودۃ القربی مودت ششم میں، امام الحرم، شافعی محب الدین ابوجعفر احمد بن عبداللہ طبری نے ان ستر حدیثوں میں سے جو اہل بیت طہارت(ع) کے فضائل میں نقل کی ہیں حدیث نمبر۵۹ ذخائز العقبی میں محمد طن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں اور آپ کے دوسرے علماء نے انس بن مالک اور معاذ ابن جبل سے اور انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ فرمایا:

"حب على حسنة لايضرمعهاسيئةوبغض على سيئةلاتنفع معه احسنة"

یعنی علی علیہ السلام کی محبت وہ نیکی اور کار ثواب ہے کہ اس کے ساتھ کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچاتا اور علی(ع) کی دشمنی وہ گناہ ہے جس کی موجودگی میں کوئی عمل خیر فائدہ نہیں پہنچاتا۔

نیز امام الحرم احمد بن عبداللہ طبری شافعی نے ذخائر العقبی میں، ابن حجر نے ص۲۱۵ میں ملا سے نقل کرتے ہوئے سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ ص۲۴۷ ضمن باب۵۶ میں حدیث ص۳۳ مناقب السبعین سے اور اس میں فردوس دیلمی سے اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ جلد چہارم ص۱۵۹ میں نسائی سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

"حب علي ابن ابی طالب يأكل الذنوب كماتأكلالنارالحطب"

یعنی علی (ع) کی محبت گناہوں کو اس طرح کھالیتی ہے جس طرح آگ ایندھن کو کھا جاتی ہے۔

تیسرے جو لوگ روایات میں سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ پوری طرح غور و فکر کرتے ہیں تاکہ انکشاف حقیقت ہو جائے اور گتھی سلجھ جائے، نہ یہ کہ جہاں کوئی حدیث سمجھ میں نہ آئی یا اس کی تہ تک نہ پہنچ سکے بس فورا طعن و تشنیع شروع کردی اور ؟؟؟ اس کو موضوع کہتے۔ مخالفانہ پروپیگنڈا کرنا آسان ہے لیکن خدا کی اطاعت بھی تو ضروری ہے جو قرآن مجید سورہ نمبر۲۱ ( انبیاء) آیت نمبر۷ میں ہم کو ہدایت دے رہا ہے کہ" فَسْئَلُواأَهْلَ الذِّكْرِإِنْكُنْتُمْ لاتَعْلَمُونَ " ( یعنی سوال کرو اہل ذکر سے ( مراد قرآن ہے یا رسول اللہ(ص) ) اگر تم کو معلوم نہیں ہے) چنانچہ اس متفق علیہ فریقین حدیث کے معنی جو آپ کی اور اکثر سطحی نظر رکھنے والے اشخاص کی نگاہوں میں معما معلوم ہوتی ہے۔ اتفاق سے بہت سہل الحصول ہیں، اس لیے کہ جب ہم قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں تو گناہوں کی تقسیم دو حصوں میں نظر آتی ہے۔ کبیرہ اور صغیرہ اور بعض آیات میں کبیرہ کے مقابل صغیرہ کو سیئہ سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ سورہ نمبر۴(نساء) آیت نمبر۳۵ میں صریح ارشاد ہے۔

"إِنْ تَجْتَنِبُواكَبائِرَماتُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْعَنْكُمْ سَيِّئاتِكُم ْوَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًاكَرِيماً."

(یعنی اگر تم لوگ منہیات میں سے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو تو ہم تمہارے دوسرے گناہوں سے ( جو چھوٹے ہیں) درگزر کریں گے اور تم کو بلند منزل تک پہنچائیں گے)

پس اس آیت کے حکم سے اگر بندہ گناہان کبیرہ کا ارتکاب نہ کرے تو اس کے

۳۳۳

سیئات اور گناہان صغیرہ سے چشم پوشی کی جاتی ہے اور وہ بخش دیا جاتا ہے۔

اور اس حدیث میں بھی یہی ارشاد ہے کہ علی(ع) کی محبت ایسا نیک عمل ہے کہ کوئی سئیہ اور گناہ صغیرہ اس کے سامنے ضرر نہیں پہنچاتا۔

حافظ : مگر کیا خداوند عالم صریحا ارشاد نہیں فرماتا ہے کہ " إِنَّ اللَّهَ َغْفِرُالذُّنُوبَ جَمِيعاً" ( یعنی حقیقتا خدا تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے) کوئی گنہگار بندہ چاہے اس کا گناہ کبیرہ ہو یا صغیرہ جس وقت نادم ہو کہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے تو قطعا بخش دیا جاتا ہے۔ لہذا کبیرہ اور صغیرہ کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

انکشاف حقیقت

خیر طلب: گویا آپ نے آیہ مبارکہ پر کوئی دھیان ہی نہیں دیا ورنہ اس ایراد کو ہمت نہ کرتے اول تو کبیرہ اور صغیرہ کے درمیان میں نے فرق نہیں قائم کیا ہے بلکہ پروردگار عالم نے فرمایا ہے۔ دوسرے آپ کی طرح مجھ کو بھی اعتراف ہے کہ جو گنہگار مومن بندہ خداوند کریم کی عفاریت کا معتقد ہوتا ہے وہ جس وقت نادم ہو کہ اس کی طرف لو لگائے تو خدائے غفار اس کو بخش دیتا ہے لیکن اگر دینا سے توبہ کے چلائے تو ؟؟؟؟ کے بعد کی دشوار منزلوں میں حساب کے موقع پر اس کو بخش دیا جاتا ہے اور اگر اس کے اعمال بد اور گناہان کبیرہ زیادہ ثابت ہوئے تو اس کو جہنم میں لے جائیں گے اور اس کی نافرمانی کے مطابق عذاب کرنے کے بعد نجات دیں گے۔

لیکن سئیات اور گناہان صغیرہ میں اگر بغیر توبہ کے بھی دینا سے چلا جائے اور علی علیہ السلام کا چاہنے والا ہو تو خدا اس کو معاف فرما دیتا ہے اور موت کے بعد کی منزلوں میں اس پر سختیاں نہیں کی جاتیں۔ وہ جہنم میں نہیں بھیجا جاتا بلکہ بہشت میں داخل کیا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے" وَنُدْخِلْ كُمْ مُدْخَلًا كَرِيماً " میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ نے اس حدیث کو کس رخ سے جسارت اور بے پروائی کا سبب سمجھ لیا۔ آیا حدیث شریف میں سئیات یا گناہان کبیرہ وصغیرہ کا حکم دیا گیا ہے جس سے آپ نے اس کو شیعوں کی جرات اور لا ابالی پن کا باعث قرار دیا ظاہر ہے کہ جواب نفی ہوگا۔ اب اسکو سوا بد گمانی اور عصیبت کے اور کیا کہا جائے۔ حالانکہ یہ حدیث انسان کو صرف مایوسی سے روکتی ہے۔ حد سے زیادہ امیدوار نہیں بناتی۔ اس لیے کہ لوگوں کو یقین ہے کہ ہم ہوائے نفس میں گرفتار ہیں اور جب وہ گناہان صغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں تو شیاطین جن و انس ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالتے ہیں کہ اب وہ رحمت الہی کے مستحق نہیں رہے۔ چونکہ اکثر جوان وجاہل اور نادان ہوتے ہیں لہذا اس فریب میں آکر امید ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہم بخشے ہی نہیں

۳۳۴

جائیں گے تو پھر اپنی نفسانی خواہشوں کا خون کیوں کریں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ ان میں بغاوت اور سرکشی پیدا ہوتی ہے اور صغائر سے آگے بڑھ کے کبائر میں غرق ہوجاتے ہیں لیکن اس طرح کی حدیثیں دلوں میں امید کا دروازہ کھولتی ہیں اور سمجھاتی ہے کہ انسان چونکہ جائز لخطا ہے لہذا اگر اس سے کچھ گناہ سرزد ہوگئے ہیں اور حقیقتا وہ علی علیہ السلام کا سچا دوست ہے تو اس کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا۔

چونکہ خدائے تعالے نے آیہ شریفہ میں بخشش کا وعدہ فرمایا ہے اور مغفرت کے لیے کچھ وسائل قرار دیئے ہیں لہذا علی علیہ السلام کی محبت بھی ان میں سے ایک وسیلہ ہے جو گناہوں سے معافی دلاتا ہے۔ ورنہ شیعہ جب تشیع کے معنی سمجھ لے گا تو ہرگز لا ابالی نہ ہوگا۔ وہ دیکھے گا کہ شیعہ علی(ع) یعنی علی(ع) کا پیرو وہ شخص ہے جو رفتار و گفتار میں حضرت کے قدم بہ قدم چلے پھر اسی کی نجات بھی یقینی ہے کیوں کہ آپ کے علماء کی تمام تفسیروں اور معتبر کتابوں میں مختلف الفاظ و عبارت کے ساتھ وارد ہے جس کے ایک جزو کو ہم گزشتہ راتوں میں پیش کرچکے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے" يَاعَلِيُ أَنْتَ وَشِيعَتُكَ هُمُ الفَائِزُون فِيالْجَنَّةِ" ( یعنی اے علی(ع) تم اور تمہارے شیعہ جنت میں رستگار ہیں۔ ملاحظہ ہوں اسی کتاب کے صفحات) پس اگر آپ اعتراض کرنا چاہیں تو اس طرح کے اکثر احادیث پر بھی اعتراض کرسکتے ہیں کہ جب شیعہ یہ سمجھ لے گا کہ رسول اللہ(ص) نے اس کو رستگار اور جنتی فرمایا ہے تو اس میں جرائت اور جسارت پیدا ہوجائے گا اور ہر طرح کا گناہ کرنے لگے گا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

معرفت خدا اور رسول(ص) کےبعد ایک مکلف شیعہ کا پہلا فرض یہ ہے کہ تشیع کے معنی سمجھے جب یہ سمجھ لے گا کہ شیعہ سے مراد علی(ع) اور آل علی(ع) کا پیرو ہے تو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ علی(ع) کا پیرو وہ شخص ہے جو علم و عمل قول و فعل اور کردار و گفتار میں حضرت کا نمونہ ہو اور حضرت کے نقش قدم پر چلے۔ یعنی جو کچھ علی(ع) نے کیا ہے یہ بھی کرے اور جو کچھ علی علیہ السلام نے نہیں کیا یہ بھی نہ کرے۔ پس شیعہ علی(ع) جس وقت یہ جانے گا کہ علی علیہ السلام کسی کبیرہ یا صغیرہ گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے بلکہ کوئی مکروہ عمل بھی ان سے صادر نہیں ہوا تو وہ پوری کوشش کرے گا کہ اپنے مولا کے مانند صفات حمیدہ سے متصف ہو اور اخلاق و عادات رذیلہ سے علیحدگی اختیار کرے، چونکہ یہ عصمت کی قوت سے جو نبوت و امامت کی ایک مخصوص منزل ہے، محروم ہے اور ہر پہلو سے علی(ع) بن جانا مشکل بلکہ محال ہے لہذا سعی کرے گا کہ کم از کم کبائر کا مرتکب قطعا نہ ہو اور صغائر پر اصرار نہ کرے تاکہ علی علیہ السلام کا محبوب رہے اور اس کا نام شیعوں کے زمرے میں شمار ہو۔ غیر معصوم اور جائز الخطا ہونے کی وجہ سے اگر کوئی سئیہ یا گناہ صغیرہ اس سے صادر بھی ہوجائے تو امیرالمومنین علیہ السلام کی محبت و دوستی کے وسیلے سے معافی اور چشم پوشی کا مستحق قرار پائے گا۔ اگر خدا نخواستہ اس دنیا سے بغیر توبہ کئے اٹھا ہے تو اس محبت کے طفیل صغائر و سئیات کی باز پرس اس سے نہ ہوگی۔

رہے حدیث " من بكى على الحسين وجبت له الجنة" کے معنی تو یہ بہت سادہ اور ہر عالم وجاہل کی سمجھ میں آنے والے ہیں۔ اور انہیں کے ساتھ ایک جواب بھی ہے جو فی الحال اکثر حضرات حاضرین جلسہ کے حسب دلخواہ

۳۳۵

ہوگا کیونکہ ان کی طرف سے مکرر جواب میں سادگی کی فرمائش کی جاچکی ہے میں عرض کرتا ہوں کہ اس حدیث شریف کے صاف صاف اور تحت اللفظ معنی یہ ہے کہ جو شخص ( کس) گریہ کرے حسین(ع) پر واجب ہوتی ہے اس کے لیے بہشت جس الٹا مفہوم یہ ہوا کہ اگر ناکس گریہ کرے تو بہشت اس پر واجب نہیں ہوتی بلکہ اس کو اس گریہ سے کوئی فائدہ ہی نہیں۔

حافظ : کس اور ناکس میں کیا فرق ہے کہ گریہ کس کے لیے تو نتیجہ بخش ہو لیکن ناکس کے لیے بے سود ہو۔

کس اور ناکس میں فرق

خیر طلب : اگرچہ کلمہ موصولہ میں کس اور ناکس کا سوال نہیں ہے لیکن فارسی معنی میں کس اور ناکس آتا ہے ( ملحوظ رہے کہ گفتگو فارسی ہی زبان میں ہوئی ہے ۱۲ مترجم عفی عنہا لہذا عرض کرتا ہوں کہ کس اس مومن کو کہتے ہیں جو موحد اور خدا پرست ہو، اصول عقائد کو استدلال یا یقین کے ساتھ مانتا ہو۔ از آدم(ع) تا خاتم (ص) انبیائے کرام کی نبوت کا معتقد ہو اور اپنے کو نبی آخر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہدایت پر پابند سمجھتا ہو، معاد جسمانی وجود بہشت و دوزخ اور ولایت آل محمد و عترت رسول(ص) پر عقیدہ رکھتے ہوئے حضرت علی(ع) اور ان کے گیارہ فرزند بزرگوار کو بندگان صالح، امام برحق اور رسول خدا(ص) کے مقرر کئے ہوئے نائب جانتا ہو، حضرت کے گیارہویں فرزند یعنی پیغمبر(ص) کے بارہویں خلیفہ کو زندہ و قائم اور عالم کا امام مانتا ہو، کتب سماویہ پر اعتقاد رکھتے ہوئے قرآن مجید کو برحق اور منجانب خدا سمجھتا ہو، اس کے مضامین کا معتقد اور اس کے ہدایات اور اوامر و نواہی پر عمل پیرا ہو۔

اور ناکس اس مسلمان کو کہتے ہیں جو صورت اور نام سے مسلمان اور تمام احکام دین کا قائل ہو لیکن مقام عمل میں صالح نہ ہو یا بالکل تارک ہو یا بعض پر عمل پیرا ہو اور بعض سے منحرف ہو یا بعض کبائر کا مرتکب ہو جیسے قتل، شراب نوشی، زنا، لواطہ سود خوری یا کم فروشی وغیرہ ایسا آدمی چاہے جس قدر گریہ کرے اس کے لیے بے سود ہے اور ترک واجبات جیسے نماز و روزہ حج خمس زکوۃ وغیرہ بدل نہیں ہوسکتا۔ البتہ اگر اعمال زشت سے توبہ کرے ، تلافی مافات کا عہد کرے ، انسانی حقوق کو ادا کرے اور حقداروں کو رضا مند کرے یا وہ اگر مرچکے ہیں تو ان کے وارثوں کو پہنچائے تو اس وقت گریہ اور خاندان رسالت کی محبت اس کے لیے بخشش اور خامیوں کو پورا کرنے کا وسیلہ ہوگی۔

لیکن اگر مثلا نماز نہیں پڑھی ہے یا روزہ نہیں رکھا ہے یا مستطیع ہونے کے بعد حج بیت اللہ نہیں بجالایا ہے یا خمس و زکوۃ عائد ہونے کے بعد اس کو ادا نہیں کیا ہے یا حرامکاریاں کی ہیں یا سود کھایا ہے یا لوگوں کا مال ناجائز طور سے ہضم کیا ہے اور حرام طریقوں سے روزی حاصل کی ہے یا سودا کم دیا ہے یا ظلم و تعدی اور قتل وخونریزی کی ہے اور پھر

۳۳۶

اس خیال سے گریہ کرے کہ اس کےگناہ رونے سےمعاف ہوجائیں گے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ آل محمد علیہ السلام ایسے لوگوں سے بیزار ہیں اور ان کے لیے گریہ سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ جیسا کہ ہم نے اکثر محافل و مجالس اور مذہبی جلسوں میں اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

ورنہ اگر یہ غلط عقیدہ صحیح ہو کہ آدمی چاہے جو زشت عمل کرے، گناہان کبیرہ اس سے صادر ہوں اور واجبات کو ترک کرے اس کے بعد خیال کرے کہ گریہ یا زیارت آل محمد علیہم السلام سے تلافی مافات ہو کہ نجات حاصل ہوگی تو دشمنان آل محمد کو بھی جنتی ہونا چاہیئے کیونکہ ان میں سے اکثر لوگوں نے اہلبیت(ع) کی مظلومی پر گریہ کیا ہے۔ چنانچہ ارباب مقاتل نے واقعہ کربلا میں لکھا ہے " واللَّه بکت و ابكت كلّ عدوّوصديق " دوست دشمن بھی اس مصیبت عظمی میں روئے۔ فرزند رسول(ص) اور ان کے اعزہ و اصحاب یہاں تک کہ کمسن اور شیر خوار بچوں کو بھی قتل کیا لیکن مصائب اہلبیت(ع)دیکھ کر گریہ بھی کرتے تھے۔ پس آپ قطعا یہ سمجھ لیجئے کہ ایسے ناکس مسلمانوں کو جن کے پاس صورت تو ہے لیکن سیرت نہیں کوئی نفع اور نتیجہ نہیں۔ جب تک مومن نہ ہوں یہ رونا بیکار ہے۔

حافظ : اگر کوئی مسلمان شخص اصول عقائد کا معتقد اور احکام شرعیہ پر عامل ہو تو خود ہی نجات یافتہ ہے گریہ سے اس کو کیا فائدہ ہوگا۔ اور مجالس عزا کی تشکیل سے کیا نتیجہ مد نظر ہے کہ ہر سال ایسی مجلسوں پر زر کثیر صرف کیا جائے تاکہ مومن گریہ کریں؟

گریہ اور مجالس عزا کا اثر اورنتیجہ

خیر طلب: بدیہی چیزہے کہ مسلمان چاہے جتنا نیک عمل اور معیاری ہو معصوم نہ ہوگا۔ آخر انسان ہے اور جائز الخطا ہے لہذا اگر اس سے کچھ لغزش اور خطائیں سرزد ہوئی ہیں اور وہ غافل رہا ہے تو خدائے تعالی جو اپنے بندوں پر انتہائی لطف و مہربانی رکھتا ہے اپنے فضل و کرم سے چند وسائل و اسباب کے ذریعے اس کو بخش دیتا ہے۔ کبھی علی ابن ابی طالب(ع) کی محبت کو وسیلہ قرار دیتا ہے، کبھی حضرت سید الشہداء(ع) اور خاندان رسالت کی مظلومیت پر رونے اور آنحضرت(ص) و اہلبیت طاہرین (ع) کی زیارت کے ذریعے سے رحم و کرم فرماتا ہے اور اس کے آنسوئوں کو آب توبہ قرار دے کر گناہووں کو دھوکہ دیتا ہے۔

اگر مومن و عادل ہے اور کوئی صغیرہ و کبیرہ گناہ اس سے سرزد نہیں ہوا ہے تو علی(ع) و اہلبیت رسالت(ع) کی محبت و مودت اور ان حضرات کے مصائب پر رونا جو اس جلیل القدر خاندان سے مہرو محبت کی علامت ہے۔ اس کی رفعت منزلت کا وسیلہ بنتا ہے۔

اور آپ نے جو یہ فرمایا کہ آل محمد(ع) کی عزاداری میں مجالس کے انعقاد اور کثیر اخراجات سے کیا فائدہ ہے تو محترم حضرات

۳۳۷

چونکہ آپ سے علیحدہ ہیں لہذا ان مجالس کے جو اثرات و نتائج مرتب ہوتے ہیں ان سے بھی بے خبر رہتے ہیں اول تو اپنی عادت اور اس مسلسل غلط پروپیگنڈے کے تحت کہ یہ مجلس بدعت ہیں۔ آپ حضرات ان میں شریک ہی نہیں ہوتے یا اگر کبھی کسی وجہ سے شرکت بھی ہوگئی تو بری نظر سے دیکھنے کے باعث پوری توجہ سے غور نہیں کرتے تاکہ ان کے اثرات نظر آئیں۔ اگر آپ حضرات اس طرح کی مجلسوں میں تشریف لے جائیں اور اںصاف و محبت کی نگاہ سے مطالعہ کریں تو تصدیق کریں گے کہ یہ مجالس آل محمد علیہم السلام کی بہت بڑی درسگاہیں ہیں کیونکہ انہیں حضرات کے نام پر ان کی تشکیل کی جاتی ہے اور اس بزرگ خانوادے کی کشش میں ہر طبقے کے مسلمان افراد یہاں تک کہ غیر مذاہب کے لوگ بھی حاضر ہوتے ہیں جن کے سامنے ذاکرین و واعظین ، متکلمین و محدیثین اور ذی علم مقررین توحید، نبوت، معاد اور فروع دین کے متعلق مذہبی حقائق اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے اصول بیان کرتے ہیں۔ ان کو اخلاق رذیلہ اور بد اعمالیوں کے مفاسد اور نقصانات سے آگاہ کرتے ہیں اور دیگر مذاہب کے مقابلے میں مقدس دین اسلام کی حقانیت پر دلیلیں پیش کرتے ہیں جس سے کافی بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جب انہیں مجالس اور دینی تبلیغات کی وجہ سے کچھ غیر افراد اسلام قبول نہ کرتے ہوں۔ اور بکثرت گمراہ اشخاص ان تبلیغی بیانات سے متاثر ہوکر اور اپنے گزشتہ اعمال سے توبہ کر کے صحیح راستے پر نہ آجاتے ہوں ہر سال ان اجتماعات اور مجالس عزا میں شرکت کے سبب سے اور آیات و احادیث کے ذریعے وعظ و تبلیغ کے اثر سے بہترے لا ابالی اور بدکردار لوگ توبہ کر کے پرہیزگار اور نیک بخت بن جاتے ہیں۔

یہ ہے رسول خدا صلعم کے ارشاد کا ایک رخ جس کو علمائے فریقین نے نقل کیا ہے کہ " حسين مني وأنامن حسين" حسین(ع) مجھ سے ہیں اور میں حسین(ع) سے ہوں یعنی میرا دین حسین(ع) کے ذریعے زندہ ہوگا۔ جنہوں نے اپنے زمانہ حیات میں ایسی جانبازی دکھائی کہ مطلومیت کی طاقت سے بنی امیہ کے ظلم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اس لیے کہ وہ دین کی جڑ کو کھودنا چاہتے تھے اور اب ہزار سال سے زیادہ ہوگئے۔ ان بزرگوار کے نام سے خفیہ اور ظاہری طور پر شاندار مجلسیں منعقد ہوتی ہیں جن میں لوگ حاضر ہو کر مبلغین وذاکرین کے ذریعے دینی حقائق سے واقفیت حاصل کرتے ہیں اور صراط مستقیم پر گامزن ہوتے ہیں۔ یہ ہے مجالس عزا کے اثرات و نتائج کا مختصر نمونہ جو آل محمد علیہم السلام کی درسگاہیں کہی جاسکتی ہیں۔

مزید وضاحت کے لیے یہ بھی عرض کردوں کہ حقیقتا علی علیہ السلام کے دوست اور شیعہ حسین ابن علی علیہ السلام کے زائر اور عزادار اور حضرت کے سچے غلام اور چاہنے والے نہ واجبات کو ترک کرتے ہیں نہ گناہان کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں کیوںکہ وہ جانتے ہیں اور ان کو بتایا جاتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام شہید راہ خدا ہیں اور آپ نے شعائر دین کی ترویج کے لیے شربت شہادت نوش فرمایا ہے ، جیسا کہ زیارت وارثہ اور دیگر زیارات میں وارد ہے اور ہم پڑھتے ہیں کہ :

"أشهدأنّك قدأقمت الصّلوةواتيت الزّكاةوامرت بالمعروف ونهيت عن المنكرواطعت الله

۳۳۸

و رسوله حتی اتاک اليقين "

یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے ( اے ابو عبداللہ ) در حقیقت نماز کو قائم کیا، زکوۃ ادا کی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرمایا اور زندگی کی آخری سانسوں تک خدا و رسول کی اطاعت کی۔

فریقین کی معتبر روایتوں میں ام المومنین عائشہ، جابر ابن عبداللہ اور انس وغیرہ سے منقول ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :" مَنْ زَارَالْحُسَيْنَ ععَارِفاًبِحَقِّهِ و َ جَبَت لَه الَجنَّة" (یعنی جو شخص حسین علیہ السلام پر ان کا حق پہچانتے ہوئے روئے اس پر جنت واجب ہے، جس طرح سے واجب اور مستحب عبادتین معرفت خدا کی فروع ہیں اگر کماحقہ خدا کی معرفت نہیں ہے تو قصد قربت پیدا نہیں ہوتا ہے لہذا اس کے عبادات چاہے جس قدر کامل ہوں بیکار اور باطل ہیں۔

گریہ اور زیارت بھی پیغمبر(ص) اور امام کی معرفت کی فرع ہے یعنی چاہئیے کہ ان بزرگوار کو فرزند رسول امام برحق اور رسول اللہ (ص) کا تیسرا جانشین سمجھے جو حق پر قائم رہے اور حق ہی کے لیے قتل ہوئے اور یزید سے آپ کی مخالفت اس بناء پر تھی کہ وہ احکام دین کو پامال کر کے واجبات کا تارک اور محرمات پر عامل تھا اور بد اخلاقیوں کو رواج دے رہا تھا۔ ایسا زائر و عزادار اپنے مولا کے طور طریقے کے خلاف ہرگز عمل نہیں کرتا۔

نواب : قبل صاحب اگرچہ ہمارا اعتقاد ہے کہ حسین (ع) شہید حق پر تھے اور حق کے لیے عمال بنی امیہ کے ہاتھوں ناحق قتل کئے گئے لیکن ہم لوگوں میں ایک گروہ اور ہے بالخصوص وہ نوجوان افراد جو جدید مدرسوں اور اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں کہتے کہ کربلا کی جنگ دنیاوی جنگ تھی۔ یعنی حسین بن علی (ع) کو حکومت و خلافت کی خواہش کوفے کی طرف لے گئی اور ہر صاحب اقتدار سلطنت کا فرض ہے کہ خطرات کا سد باب کرے لہذا یزید اور اس کے عمال نے مجبورا اس فتنے کا مقابلہ کیا اور ان جناب کے سامنے ( بلاشرط) بیعت اور خلیفہ یزید کی اطاعت کی پیشکش کی اس لیے کہ اس کی فرمانبرداری واجب تھی اور خواہش کی کہ آپ شام چلے جائیں تاکہ خلیفہ کے پاس عزت سے رہیں یا اپنے وطن پلٹ جائیں لیکن ان جناب نے نہ مانا یہاں تک کہ قتل ہوگئے پس ایسے دینا طلب انسان کے لیے جو جاہ و سلطنت کی محبت میں قتل ہوا ہو عزاداری فضول بلکہ بدعت ہے۔ آیا آپ کے پاس کوئی ایسا صحیح جواب ہے کہ ان کو خاموش کر دیجئے تاکہ وہ اس عقیدے سے دستبردار ہوجائیں اور جان لیں کہ جنگ کربلا دنیاوی جنگ نہیں تھی بلکہ وہ جناب فقط خدا کے لیے اور دین خدا کی حفاظت کے لیے اٹھے اور مقابلہ کر کے شہید ہوئے؟

خیر طلب : چونکہ وقت کافی گزر چکا ہے لہذا سوچنتا ہوں کہ اگر اس مسئلے کو چھیڑوں گا تو دیر لگے گی جس سے نکان اور بڑھے گا۔

۳۳۹

نواب : نہیں نہیں ہم کو بالکل تکان نہیں ہے کہ بلکہ ہم انتہائی اشتیاق کے ساتھ اس موضوع کو سننے اور حقیقت معلوم کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ مخالفین کے مقابلے میں جواب دہی پر قادر ہوں۔ آپ یقین کیجئے کہ اس قوم کو جواب دینا چاہئیے وہ مختصر ہو کیوں نہ ہو بہت بڑی دینی خدمت ہے۔ مہربانی کر کے ارشاد فرمائیے۔

امام حسین (ع) جاہ و منصب کے خواہاں نہیں تھے

خیر طلب : میں نے پہلے ہی عرض کیا کہ ہر نیک و بد عمل معرفت کی بنیاد پر ہے۔ معترضین کو چاہئیے کہ پہلے اپنے خدا کو پہچانیں اور اس کے بعد آسمانی کتاب( قرآن) کی تصدیق کریں جو خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے خاتم الانبیاء(ص) پر نازل ہوئی ہے اور تصدیق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو کچھ اس کتاب میں ہے اس کو بہتر اور قابل قبول سمجھا جائے۔ اگر معترضین اہل مادہ اور محسوسات کے قائل ہیں اور دلائل محسوسہ چاہتے ہیں تو ان کا جواب بہت سہل ہے۔ اب میں وقت کا لحاظ کرتے ہوئے مختصرا دونوں پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔

خمسہ نجباء ہرگندے عمل سے مبراء تھے

اولا جو مسلمان قرآن کا تابع اس کا ریحانہ رسول حسین بن علی علیہما السلام کی طرف دنیا طلبی اور حب جاہ و ریاست کی نسبت دینا حق و حقیقت کے خلاف اور در اصل قرآن و رسول خدا(ص) کا انکار کرنا ہے اس لیے کہ خدائے تعالی نے سورہ نمبر۳۳ ( احزاب) آیت نمبر۳۳ میں ان جناب کی طہارت پر گواہی دی ہے اور ان کو نانا ماں باپ او بھائی کی طرح ہر رجس و پلیدی سے معرا و مبرا قرار دیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے۔

"إِنَّمايُرِيدُاللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْل َالْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً."

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ خدا کا ارادہ ہے کہ تم سے اے اہلبیت رسول(ص) ہر رجس و ناپاکی کو دور رکھے اور تم کو ہر عیب سے پاک و منزہ قرار دے۔

آپ کے جمہور اکابر علماء جیسے مسلم ، ترمذی، ثعلبی، سجستانی، ابونعیم اصفہانی، ابوبکر شیرازی، سیوطی، حموینی، احمد بن حنبل، زمخشری بیضاوی، ابن اثیر ، بیہقی ، طبرانی، ابن حجر، فخر الدین رازی، نیشاپوری، عسقلانی اور ابن عساکر وغیرہ بالاتفاق معتقد ہیں اور تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت پنجتن آل عبا محمد، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہ آیت شریفہ ان پنجتن پاکی کی عصمت اور ہر رجس و پلیدی سے طہارت پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ ظاہر ہے کہ سب سے بڑی پلیدی جاہ و منصب کی محبت اور دنیائے وفی کی طرف رغبت ہے کیوںکہ اس دنیا یعنی امراء و سلاطین کے مانند

۳۴۰

نفسانی خواہش کی بناء پر دنیاوی ریاست و حکومت حاصل کرنے کی مذمت میں رسول خدا(ص) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے کافی حدیثیں مروی ہیں۔ یہاں تک کہ پیغمبر(ص) کا ارشاد ہے۔" حب الدنيارأس كل خطيئة" (یعنی دنیا کی محبت و رغبت ہر بدی کی سردار ہے) پس قطعا ابو عبداللہ علیہ السلام دنیاوی جاہ و ریاست کے طالب نہیں تھے اور نہ ایسی فانی حکومت کے لیے جانبازی کی تھی اور اپنے اہلبیت (ع) کی اسیری گوارا کی تھی۔اگر کوئی شخص اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے ان حضرات کو دنیا طلب کہے تو وہ یقینا قرآن مجید کا منکر ہے۔

امام حسین(ع) کا قیام ریاست اور خلافت ظاہری کے لیے نہیں تھا

رہا دوسرا فرقہ جس میں وہ لوگ ہیں جو حسی دلائل چاہتے ہیں۔ ان کے لیے محسوس دلائل بہت ہیں جن کو اس تنگ وقت میں مکمل طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ نمونتہ چند چیزوں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔

اول ۔ یزید پلید کے مقابلے میں حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام کا قیام اگر جاہ طلبی اور حکومت کے شوق میں ہوتا تو رسول اللہ(ص) ان حضرت کی نصرت کا حکم دیتے چنانچہ آپ کے سلسلوں سے اس بارے میں بکثرت روایتیں مروی ہیں جن میں سے صرف ایک پر اکتفا کرتا ہوں۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب60 میں تاریخ بخاری و بغوی و ابن السکین و ذخائر العقبی امام الحرم شافعی سے سیرۃ ملا وغیرہ سے بروایت انس بن حارث بن بعیہ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ(ص) سے سنا کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

"إِنَ ابْنِي هَذَايَعْنِي الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِأَرْضٍ يُقالُ لها کَربَلا فَمَنْ شهد ذالک مِنْكُمْ فَلْيَنْصُرْهُ فخرج انس ابن الحارث الی کربلا فَقُتِلَ أَنَسٌ مَعَ الْحُسَيْن ِرَضِی الله عنه معهه"

یعنی بتحقیق میرا یہ فرزند حسین(ع) زمین کربلا پر قتل کیا جائے گا۔ پس تم میں سے جو شخص اس وقت موجود ہو وہ حسین(ع) کی مدد کرے ۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ انس بن حارث کربلا پہنچے اور حکم رسول(ص) پر عمل کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ قتل ہوئے۔

پس معلوم ہوا کہ حضرت کربلا میں حق کے لیے کھڑے ہوئے تھے نہ کہ دنیاوی ریاست کی محبت میں۔

ان چیزوں سے قطع نظر اگر معترصین غور کریں تو خود حضرت کی روانگی سے لے کر شہادت اور اسیری اہلبیت (ع) تک حق اور حقیقت برابر نمایاں ہے، اس لیے کہ اگر کسی ملک میں کوئی شخص ریاست کو خواہش رکھتا ہے اور حکومت وقت کے خلاف خروج کرنا چاہتا ہے تو اپنے عیال و اطفال کو لے کر نہیں نکلتا ہے ، چھوٹ چھوٹے اور شیر خوار بچوں اور حاملہ عورتوں کو ہمراہ نہیں لے جاتا بلکہ بذات خود ایک لچنی ہوئی فوج لے کر بڑھتا ہے اور جب دشمن پر غالب آجاتا ہے حالات قابو میں آجاتے ہیں اور انتظامات درست ہوجاتے ہیں۔ اس وقت بال بچوں کو بلواتا ہے۔

۳۴۱

حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کا اپنی عورتوں اور خورد سال بچوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا قافلہ لے کر سفر کرنا خود اس کی مکمل دلیل ہے کہ حضرت ریاست و خلافت ظاہری اور دشمن کو شکست دینے کے خیال سے تشریف نہیں لائے تھے اگر ایسا ارادہ ہوتا تو آپ یقینا یمن کی طرف جاتے جہاں سب آپ کے اور آپ کے پدر بزرگوار کے دوست اور پختہ عقیدت رکھنے والے تھے، اور اس کو اپنا مرکزی مقام قرار دے کر پورے ساز و سامان کے ساتھ بنفس بفیس حملے شروع کرتے چنانچہ حضرت کے بنی دوستوں اور بھائیوں نے بار بار یہی مشہورہ دیا ور ان کو مایوس ہونا پڑا کیوں کہ وہ لوگ حضرت کے اصلی نقطہ نظر اور مقصد سے واقف نہیں تھے۔

امام حسین (ع) کا قیام شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی حفاظت کے لیے تھا

لیکن خود حضرت جانتے تھے کہ ظاہری غلبے کے اسباب فراہم نہ ہوں گے لہذا مع عورتوں بچوں کے چوراسی افراد کے ہمراہ حضرت کا سفر ایک آخری اور بنیادی نتیجے کے لیے تھا کیوںکہ امام دیکھ رہے تھے کہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو ان کے جد بزرگوار خاتم الانبیاء نے اپنے خون جگر اور شہدائے بدر و احد و حنین کے لہو سے سینچا تھا اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسے باغبان کے سپرد کیا تھا تاکہ یہ اس کی نگہداشت کریں لیکن اس ماہر فن اور واقفکار باغبان کو ظلم و تعدی ، تلوار اور قتل و آتشزنی کا دبائو دال کر الگ کردیا گیا تھا۔ اور شجرہ طیبہ کی آبیاری سے روک دیا گیا جس سے توحید و نبوت کی بہار خزاں کی صورت اختیار کر رہی تھی۔ پھر بھی باغبان اصلی کی توجہ سے کبھی کبھی حقیقی اور کامل طاقت نہ سہی لیکن تھوڑی بہت تقویت پہنچ جاتی تھی یہاں تک باغ کے کل اختیارات جاہل ہٹ دھرم اور کینہ پرور باغبانوں ( یعنی بنی امیہ) کے ہاتھوں میں پہنچ گئے۔

خلیفہ سوم عثمان ابن عفان کے زمانہ خلافت سے جب بنی امیہ کےہاتھ پائوں کھلے اور یہی حکومت کے کرتا و دھرتا بنے، ابوسفیان کو جو اس وقت اندھا ہوچکا تھا۔ ہاتھ پکڑ کے دربار میں لائے اور اس نے بآواز بلند کہا۔" يابني أميةتداولوا الخلاف ة فانه لا جنةولانار" ( یعنی اے بنی امیہ اب دولت خلافت کو گھما کر اپنے ہی خاندان میں رکھو کیوںکہ جنت اور دوزخ کچھ بھی نہیں ہے۔ ( یعنی سب ڈھونگ ہے)

نیز کہا " يابني أميّةتلقّفوهاتلقّفالكرة،والذي يحلف به أبوسفيان مازلت أرجوهالكم ولتصيرنّ الىصبيانكم وراثة"

یعنی ابنی امیہ کوشش کر کے خلافت کے گیند کی طرح دبوچ لو۔ قسم اس چیز کی جس کی میں قسم کھاتا ہوں( اس سے مراویت ہیں جن کی یہ لوگ قسم کھاتے تھے) کہ میں ہمیشہ تمہارے لیے ایسی حکومت کا متمنی تھا اور تم بھی اس کی حفاظت کرو تاکہ تمہاری اولاد اس کی وارث ہو۔اس رسوائے زمانہ بد عقیدہ قوم نے تمام راستے

۳۴۲

مسدود کردئیے، حقیقی اور معنوی باغبانوں کی باغ سے بالکل بے دخل کردیا اور آب حیات پر پہرے بٹھادیئے۔ شجرہ طیبہ دھیرے دھیرے پژمردہ ہونے لگا یہاں تک کہ یزید پلید کے دور خلافت میں درخت شریعت کو کاٹ دیا گیا اور قریب تھا کہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ بالکل خشک ہوجائے۔ خدا کا نام فراموش ہو جائے اور دین کی حقیقت مٹ جائے۔

بدیہی چیز ہے کہ کوئی ہوشیار باغبان جب دیکھے کہ اس کے باغ پر ہر طرف سے آفتیں نازل ہو رہی ہیں تو اس کو فورا حفاظتی تدابیر اور علاج کی فکر کرنا چاہئیے ورنہ اس کے منافع اور پھلوں سے بالکل ہی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اس موقع پر بھی--گلستان توحید و رسالت ک باغبانی حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام جیسے عالم دین باغبان کے سپرد تھی جب آپ نے دیکھا کہ بنی امیہ کی ہٹ دھرمی اور الحاد و عناد نے بات کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ عنقریب توحید کا درخت خشک ہونے والا ہے بلکی وہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں تو آپ مردانہ وار اٹھ کھڑے ہوئے اور محض اور صرف محض باغ رسالت کی جڑوں کی آبیاری اور تقویت شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کے لیے کربلا کی طرف سفر اختیار کیا۔ کیونکہ آپ بخوبی جانتے تھے کہ درخت کی جڑوں میں خشکی دوڑ چکی ہے اور معمولی آب پاشی سے کوئی نتیجہ نہ ہوگا۔ جب تک اس کو پوری طاقت نہ پہنچائی جائے۔

جیسا کہ فلاحت کے علم عملی میں طریقہ ہے کہ جس وقت ہوشیار باغبان اور فلاح دیکھتے ہیں کہ کوئی درخت بالکل کمزور ہوگیا ہے اور اس کو زیادہ طاقت پہنچانے کی ضرورت ہے تو اس کا علاج قربانی سے کرتے ہیں یعنی کوئی گوسفند یا دوسرا جانور اس کے پاس ذبح کر کے اس کا خون اور گوشت و پوست درخت کی جڑ میں دفن کر دیتے ہیں تاکہ اس میں سرنو قوت اور نشو و نما پیدا ہوجائے۔ ریحانہ رسول حضرت سید الشہداء (ع) بھی ایک ماہر و عالم باغبان تھے۔ آپ نے دیکھا کہ شجرہ طیبہ کو سیرابی سے اس قدر محروم رکھا ہے ( بالخصوص اخیری برسوں اور بنی امیہ کے اقتدار میں) کہ معمولی سی آبیاری اور علمی خدمت سے شادابی نہ آئے گی جب تک فداکاری سے کام نہ لیا جائے۔ شجرہ طیبہ اور درخت شریعت کی سر سبزی قطعا قومی خونابے کی محتاج ہے۔ لہذا اپنے بہترین جوانوں ، خورد سال بچوں اور اصحاب کو لے کر قربانی اور شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو سیراب کرنے کے لیے کربلا کی طرف روانہ ہوگئے۔ بعض کوتاہ نظر لوگ کہتے ہیں کہ مدینے سے نکلے ہی کیوں؟ وہیں رہ کر علم مخالفت بلند کرتے اور قربانیاں دیتے لیکن وہ نہیں جانتے کہ اگر آپ مدینے میں رہتے تو آپ کا مقصد دانشمندان عالم سے پوشیدہ رہتا اور ان کو پتا نہ لگتا کہ حضرت کی مخالفت کس بنیاد پر تھی جس طرح اور ہزاروں حامیان دین کسی شہر میں حمایت حق کے لیے کھڑے ہوئے اور قتل ہوگئے لیکن کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ ان کا مقصد اور نقطہ نظر کیا تھا اور کیوں قتل ہوئے

۳۴۳

نیز دشمنوں نے بھی معاملہ کو دبا دینے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس امام حسین علیہ السلام جیسے یکتا دور اندیش مرد میدان حق و صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے ماہ رجب میں جس موقع پر لوگ عمرے کے لیے مکہ معظمہ میں جمع ہوتے ہیں تشریف لے گئے اور روز عرفہ تک خانہ خدا میں اکٹھا ہونے والے لاکھوں انسانوں کے سامنے اپنے خطبوں اور تقریروں کے ذریعے حق اور سچائی کو بے نقاب کیا اور سب کو بتایا کہ یزید پلید شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی جڑیں کاٹ رہا ہے اور یہ حقیقت عام مسلمانوں کے گوش گزار کردی کہ جو یزید اسلامی خلافت کا دعوے کرتا ہے وہ اپنے عمل سے دین کو ملیامٹ کر رہا ہے۔ شراب پیتا ہے ، جوا کھیلتا ہے،کتے اور بندر سے دل بہلاتا ہے احکام دین کو پامال کرتا ہے اور میرے نانا رسول خدا(ص) کی محنتوں کو برباد کر رہا ہے۔ میں اپنے جد بزرگوار کا دین مٹنے نہ دوں گا۔ مجھ پر واجب ہے کہ قربانی دے کر اور جان نثار کر کے اس کی حفاظت کروں۔ پس حضرت کا قیام اور مدینے سے مکے اور مکے سے کوفے اور عراق کی طرف خروج شعائر دین کی حفاظت اور بنی نوع انسان کو دین یزید پلید کے اطوار و کردار ، مفاسد اخلاق، بیہودہ عقائد اور نفرت انگیز جابرانہ حرکات سے روشناس کرانے کے لیے تھا۔ آپ کے بنی اعمام بھائی اور دوست جو منع کرنے کے لیے آتے تھے وہ عرض کرتے تھے کہ جن کوفے والوں نے آپ کا خیر مقدم کرنا چاہا ہے اور دعوت نامے بھیجے ہیں۔ وہ بے وفائی میں مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ یزید کی سلطنت اور بنی امیہ کے اقتدار سے جنہوں نے سالہا سال سے اس ملک کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں۔ آپ مقابلہ نہیں کرسکتے ، چونکہ اہل حق کم ہیں، لوگ دنیا کےبندے ہیں اور بنی امیہ کے پاس ان کو دنیاوی خوشحالی ملتی ہے۔ لہذا ان کے گرد جمع ہیں اور آپ کو کوئی نفع یا غلبہ نہیں ہوسکتا ۔ پس اس سفر کو ملتوی کیجئے اور اگر حجاز میں ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھتے تو یمن چلے جائیں کیونکہ وہاں آپ کے ماننے والے بہت ہیں ، وہ لوگ غیرت مند ہیں آپ کوتنہا نہ چھوڑیں گے اور آپ ان اطراف میں آرام سے زندگی بسر کرسکیں گے لیکن حضرت سب کے سامنے پوری وضاحت نہیں کر سکتے تھے لہذا ہر ایک کو مختصر جوابات سے خاموش فرماتے تھے البتہ بعض ہمراز اور خاص اعزہ جیسے اپنے بھائی محمد حنفیہ اور ان عباس سے فرماتے تھے کہ تم سچ کہتے ہو میں بھی جانتا ہوں کہ مجھ کو ظاہری غلبہ نہ ہوگا اور نہ میں فتح اور غلبہ ظاہری کے لیے جا رہا ہوں بلکہ قتل ہونے جاتا ہوں یعنی مظلومیت کی طاقت سے ظلم و فساد کی بنیاد ہلانا چاہتا ہوں۔

بعض کی تسکین قلب کے لیے اصلیت کو ظاہر کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ میں نے اپنے نانا رسول خدا(ص) کو خواب میں دیکھا کہ مجھ سے فرما رہے ہیں۔" اخرج إلى العراق فإنّ اللّه قدشاءأن يراك قتيلا" (یعنی عراق کی طرف سفر کرو کیوں کہ در اصل خدا تم کو شہید دیکھنا چاہتا ہے۔

محمد ابن حنفیہ اور ابن عباس نے عرض کیا کہ اگر یہ بات ہے تو آپ عورتوں کو کیوں لیے جارہے ہیں؟ فرمایا

۳۴۴

میرے جد کا ارشاد ہے کہ " إنّ اللّه قدشاءأن يراهنّ سبايا" ( یعنی در حقیقت اللہ نے ان کو اسیر دیکھنا چاہا ہے۔) بحکم رسول (ص) میں ان کو اسیری کے واسطے لیے جارہا ہوں یعنی میری شہادت اور اہل بیت (ع) کی اسیری میں یہ رموز اسرار پوشیدہ ہیں کہ عورتوں کی اسیری میری شہادت کا تتمہ ہو جو مظلومیت کا علم اپنے کاندھوں پر لے کر یزید کے مرکز خلافت و اقتدار کی طرف جائیں گی وہاں اس کی بنیادیں ہلائیں گی اور اس کے ظلم وکفر کا پرچم سرنگوں کریں گی۔

چنانچہ عقیلہ بنی ہاشم صدیقہ صغری جناب زینب کبری سلام اللہ علیہا نے یزید کے بھرے ہوئے دربار اور جشن فتح میں اشراف قوم، بزرگان بنی امیہ ، غیر ممالک کے سفراء اور اور رئوسا، یہود و نصاری کے سامنے جو تقریر کی اور سید الساجدین امام چہارم زین العابدین علی ابن الحسین علیہ السلام نے شام کی مسجد اموی میں بالائے منبر یزید کے مقابل جو مشہور و معروف خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس نے اس کے اقتدار کی طاقت کو زیر کر دیا، عظمت بنی امیہ کا پرچم سرنگوں کردیا۔ اور خواب غفلت سے لوگوں کی انکھیں کھول دیں۔

حضرت نے حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا :

"ايّهاالناس! اعطيناستّاوفضّلنابسبع،اعطيناالعلم والحلم والسّماحةوالفصاحةوالشّجاعةوالمحبّةفي قلوب المؤمنين،وفضّلنابأنّ منّاالنّبىّ المختارمحمّدا صلی الله عليه و آله وسلم،ومنّاالصّدّيق،ومنّاالطيّار،ومنّااسداللَّه واسدرسوله،ومنّاسبطاهذه الامّة و منا مهدی هذه الامة"

یعنی اے لوگو ہم کو ( یعنی آل محمد(ص) کو خدائے تعالی کی طرف سے ) چھ خصلتیں عطاکی گئی ہیں اور سات فضیلتوں کے ذریعے ہم کو ساری مخلوق پر ترجیح دی گئی ہے۔ ہم کو علم ، بردباری، جوانمردی، خوشروئی، فصاحت، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں محبت عطا ہوئی ہے کہ رسول مختار محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں سے ہین ، اسد اللہ اور اسد رسول (ص) ہم میں سے ہیں۔ اس امت کے و وسبط ( حسن و حسین(ع) ) ہم میں سے ہیں اور اس امت کے مہدی(عج) ( حضرت حجتہ ابن امام حسن العسکری عجل اللہ فرجہ ) ہم میں سے ہیں اس کے بعد اپنے کو پہچنواتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص مجھ کو پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ اب میرا حسب و نسب جان لے کہ میں صاحب صفات و فضائل مخصوصہ ( یہاں ان صفات کا طولانی بیان ہے جس کو مکمل طور سے بیان کرنے کا وقت نہیں) خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرزند ہوں۔ اس کے بعد اس منبر پر جہاں معاویہ کے زمانے سے شب و روز حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام پر کھلم کھلا لعنت اور سب وشتم کا سلسلہ قائم تھا اور حضرت پر جھوٹے الزامات عائد کئےجاتے تھے خود یزید اور رئوسائے بنی امیہ کے سے دشمن مجمع کے سامنے اپنے جدبزرگوار امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل و مناقب ( جن کو سننے کا اب تک شام والوں کو موقع ہی نہیں دیا گیا تھا) بیان کئے اور فرمایا ۔

"" أنا ابن من ضرب خراطين الخلق حتى قالوا: لا إله إلا الله.أنا أبن من ضرب بين يدي

۳۴۵

رسول الله نقرتين لعرض الصورة في صفحة مستقلة بسيفين وطعن برمحين، وهاجر الهجرتين، وبايع البيعتين، وقاتل ببدر وحنين، ولم يكفر بالله طرفة عين.

أنا أبن صالح المؤمنين، ووارث النبيين، وقامع الملحدين، ويعسوب المسلمين، ونور المجاهدين، وزين العابدين، وتاج البكائين، وأصبر الصابرين، وأفضل القائمين من آل ياسين، رسول رب العالمين.

أنا ابن المؤيد بجبرائيل، المنصور بميكائيل.

أنا ابن المحامي عن حرم المسلمين، وقاتل المارقين والناكثين والقاسطين والمجاهدين أعداءه الناصبين، وأفخر من مشى من قريش أجمعين، وأول من أجاب واستجاب لله ولرسوله من المؤمنين، وأول السابقين، وقاصم المعتدين، ومبيد المشركين، وسهم من مرامي الله على المنافقين، ولسكان حكمة العابدين، وناصر دين الله وولي أمر الله، وبستان حكمة الله، وعيبة علمه.

سمح، سخي بهي، بهلول، زكي، أبطحي، رضي، مقدام، همام، صابر، صوام، مهذب، قوام، قاطع الأصلاب، مفرق الأحزاب، أربطهم عناناً وأثبتهم جناناً، وأمضاهم عزيمة، وأشدهم شكيمة، أسد باسل، يطحنهم في الحروب إذا ازدلف الأسنة، وقربت الأعنة، طحن الرحا، ويذرهم فيها ذرو الريح الهشيم، ليث الحجاز وكبش العراق، مكي، مدني، خيفي، عقبي، بدري أحدي، شجري، مهاجري، من العرب سيدها، ومن الوغى ليثها، وارث المشعرين، وأبو السبطين: الحسن والحسين، ذك جدي علي بن أبي طالب (ع) " یعنی اس کا فرزند ہوں جس نے لوگوں کی ناکوں پر ضربیں لگائیں یہاں تک کہ انہوں نے لا الہ اللہ کہا میں اس کا فرزند ہوں جس نے رسول اللہ(ص) کے سامنے دو تلواروں سے جنگ کی ( یعنی ایک زمانے تک معمولی تلوار سے اور ایک مدت تک ذوالفقار سے ) دو نیزے چلائے، دو ہجرتیں کیں اور دوسری بیعتیں کیں، بدر وحنین میں کافروں سے جہاد کیا اور چشم زدن کے لیے بھی خدا سے کفر اختیار نہیں کیا۔ میں صالح المومنین انبیاء کے وارث، ملحدین کے سر توڑنے والے ، مسلمانوں کے بادشاہ جہاد کرنے والے کے نور اور عبادت کرنے والوں کی رونق و خوف خدا میں رونے والوں کے سرتاج، صبر کرنے والوں کے سردار اور اہلبیت(ع) رسول اللہ(ص) کے نماز گزاروں میں سب سے بہتر کا فرزند ہوں جس کی جبرئیل نے تائید کی اور میکائیل نے نصرت کی۔ میں فرزند ہوں مسلمانوں کی عزت بچانے والے، دین سے پھر جانے والوں (یعنی اہل نہروان) بیعت توڑنے والوں( یعنی اصحاب جمل) اور ظالموں اور باغیوں ( یعنی صفین والوں) کے قاتل اپنے ناصبی دشمنوں سے جہاد کرنے والے، طائفہ قریش کے سارے چلنے پھرنے والوں سے زیادہ صاحب فخر، سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول(ص) کی دعوت قبول کرنے والے ، ایمان کی طرف سبقت کرنے والوں کے پیش رو ظالمین کو توڑنے والے، مشرکین کو ہلاک کرنے والے

۳۴۶

منافقین پر خدا کے تیروں میں سے ایک تیر، پروردگار عالم کی زبان حکمت دین خدا کے مددگار ، امر الہی کے کفیل، حکمت خدا کے باغ، اس کے علم کے خزانے ، جوانمرد ، صاحب سخاوت ، کشادہ رو، نیک و پاکیزہ بطحا کے ساکن ، پسندیدہ صفات، میدان جنگ میں پیش قدمی کرنے والے، بزرگ سردار صبر کرنے والے، بلند اخلاق ، کثیر القیام، پشتوں کے قطع کرنے والے اور گمراہ گروہوں کے پراگندہ کرنے والے کا جس نے مستقل طور پر اپنے نفس کو ان سب سے زیادہ قابو میں رکھا جس کا دل سب سے زیادہ مضبوط اور جس کا شکم سب سے زیادہ محکم تھا ( یعنی مظلوموں کا حق ثابت کرنے میں جملہ افراد بشر سے زیادہ ثابت قدم تھا) میدان جنگ میں شیر زیاں تھا جو سواروں اور پیادوں کے اپنے نیزوں کے ساتھ قریب ہونے کے وقت مخالفین کو پیس کر رکھ دیتا تھا اور ان کو اس طرح ریزہ ریزہ اور متفرق کر دیتا تھا جیسے طوفانی آندھی خس و خاشاک کو منتشر کردیتی ہے ، حجاز والوں کا شیر، عراق والوں کا قائد، مکی، مدنی ، دین میں پاکیزہ ترین مسلم، عقبہ میں بیعت کرنے والا بدر و احد کا شہسوار ۔ بیعت شجرہ کا جوانمردہجرت کا یکتا فداکار ، عرب کا سید وسردار ، شیر پیشہ رہیجا۔ مشعرین کا وارث اور دو سبط پیغمبر حسن و حسین(ع) کا باپ، یہ ہیں میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل اس کے بعد فرمایا۔

"أناابن خديجةالكبرى ،أناابن فاطمةالزهراء،أناابن المزرحمن القفا،أناابن العطشان حتّى قضى،أناابن من منعه من الماء و احلوه علی سائر الوری. انا ابن من لا يغسل له و لا کفن يری. انا ابن من وقع راسه علی القنا. انا ابن من هتک حريمه بارضكربلا، انا ابن من جمه بارض و راسه باخری انا ابن من سبيت حريمه الی الشام تهدی. ثم انه صلوات الله عليه انتحب و بکی فلم يزل يقول انا انا حتی ضبع الناس بالبکاء والنحيب."

یعنی میں ہوں فرزند خدیجہ کبری(ع) کا، میں ہوں فرزند فاطمہ زہرا(ع) کا میں ہوں فرزند اس کا جو پشت گردن سے مذبوح ہوا۔ میں ہوں فرزند اس کا جو پیاسا دنیا سے اٹھا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس پر پانی بند کردیا گیا اور ساری مخلوق پر مباح رکھا گیا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کو نہ غسل دیا گیا نہ کفن ملا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کا سر مطہر نیزے پر بلند کیا گیا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کے حرم کو اسیر کر کے شام کی طرف لایا گیا۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے بہ آواز بلند گریہ فرمایا اور برابر انا انا فرماتے رہے یعنی یونہی مسلسل اپنے آبا و اجداد کے فضائل و مناقب اور پدر بزرگوار و اہلبیت (ع) کے مصائب بیان فرماتے رہے یہاں تک کہ لوگ چیخین مار مار کے روئے اور فریاد کرنے لگے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کے بعد بیان مصائب کی جو پہلی مجلس منعقد ہوئی وہ یہیں شام کی مسجد جامع اموی کے اندر تھی جس میں سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے جد بزرگوار امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل و مناقب نقل کرنے کے بعد دشمنوں کے مجمع میں اپنے پدر عالی قدر کے اس قدر مصائب بیان فرمائے کہ یزید پلید کی موجودگی میں شام والوں کی صدائے نالہ و بکا اس طرح بلند ہوئی جس سے یزید ڈر گیا اور وہاں بیٹھ نہیں سکا بلکہ گھبرا کر مسجد سے چلا گیا۔

اسی مسجد اور حضرت کی تقریر سے بنی امیہ کے خلاف لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہونے لگا ( جس سے مجبور ہو کر یزید نے سیاسی رنگ میں ندامت کا اظہار کیا اور عبید اللہ ابن مرجانہ ملعون پر لعنت کی کہ اس نے ایسی افسوسناک حرکت کی۔ آخر کار بنی امیہ کے کفر و ظلم اور الحاد کے

۳۴۷

محل کے اینٹ سے اینٹ بچ گئی۔ یہاں تک کہ آج اس نابکار قوم کے پایہ تخت شام کے اندر بنی امیہ قبر بھی موجود نہیں ہے البتہ بنی ہاشم کا قبرستان شامیوں کا مرکز توجہ ہے اور عترت و اہلبیت رسول(ص) کی کافی قبریں شیعہ و سنی عوام و خواص کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہیں۔

غرضیکہ تمام ارباب مقاتل اور تواریخ نے لکھا ہے کہ حضرت مدینے سے مکے اور کربلا تک برابر کنایہ اور صراحتا اپنی شہادت کی خبر دیتے رہے اور لوگوں کو سمجھاتے رہے کہ میں قتل ہونے کے لیے جا رہا ہوں۔

من جملہ اور خطبوں کے ایک تفصیلی خطبہ ہے جو حضرت نے روز ترویہ مکہ معظمہ میں تمام مسلمانوں کے سامنے ارشاد فرمایا اور جس میں صاف صاف اپنی شہادت کی خبر دی ۔ چنانچہ حمد الہی اور خاتم الانبیاء پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا :

" خط الموت على ولد آدم مخط القلادة على جيد الفتاة وما أولهني إلى أسلافي اشتياق يعقوب إلى يوسف ، وخير لي مصرع انا لاقيه ، كأني بأوصالي تقطعها عسلان الفلوات بين النواويس " (1)

یعنی اولاد آدم(ع) کے موت اس طرح گلوگیر ہے جیسے جوان عورت کی گردن میں گلو بند ہیں اپنے اسلاف سے جاملنے کا کس قدر مشتاق ہوں جیسے کہ یعقوب یوسف(ع) کے لیے بیچین تھے اور میرے

گرنے کے لیے وہ زمین منتخب کی گئی ہے جہاں مجھ کو پہنچنا ہے، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ صحرائی بھیڑئیے نواویس و کربلا کے درمیان میرے جسم کا بند بند جدا کررہے ہیں، حضرت اس قسم کے جملوں سے لوگوں کو سمجھاتے تھے کہ میں کوفے اور مقام خلافت تک پہنچوں گا بلکہ نواویس اور کربلا کے درمیان خونخوار بھیڑیوں کے ہاتھوں قتل ہوجائوں گا ۔ بھیڑیوں سے مراد آپ کے قاتل اور بنی امیہ وغیرہ ہیں اور وہ خونخوار بھیڑیوں کے مانند مجھ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے قتل کریں گے۔

اس قسم کی باتوں اور روایتوں سے آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے شہادت کے قصد سے سفر فرمایا تھا نہ کہ ریاست و خلافت کے خیال سے۔ آپ راستے بھر مختلف طریقوں سے اپنی موت کی خبر دیتے تھے اور برابر ہر منزل پر اپنے اصحاب و اعزہ کو جمع کر کے فرماتے تھے کہ دینا کی پستی اور بے وقعتی کے لیے یہی واقعہ کافی ہے کہ حضرت یحی (ع) کا سر قلم کر کے ایک زنا کار عورت کے سامنے ہدیہ لے گئے تھے اور عنقریب مجھ مظلوم کا سر بھی بدن سے جدا کر کے یزید شراب خوار کے پاس لے جاییں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ جلیل القدر محدث ثقہ الاسلام حاجی شیخ عباس قمی طاب ثراہ نفس المہموم میں کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ محدث نوری رحمتہ اللہ نے کتاب نفس الرحمن میں کہا ہے کہ نواویس عیسائیوں کا قبرستان ۔ چنانچہ حواشی کفعمی میں لکھا ہے اور ہم نے سنا ہے کہ یہ قبرستان اس مقام پر واقع تھا جہان اب حر ابن یزید ریاحی کا مزار ہے یعنی شہر کربلا کے شمال جنوب میں اور کربلا جو لوگوں میں معروف ہے اور اس نہر کے کنارے ایک خطہ زمین ہے جو جنوب سے شہر کی طرف جارہی ہے اور مزار معروف بہ ابن حمزہ سے گزرتی ہے اس کے ایک حصے پر کھیت ہیں اور شہر کربلا ان دونوں کے درمیان ہے۔

۳۴۸

حضرات ذرا غور کیجئے کہ جس وقت کوفے سے دس فرسخ پر حر ابن یزید ریاحی نے ایک ہزار سواروں کے ساتھ حضرت کی راہ روکی اور عرض کیا کہ عبید اللہ ابن زیادکے حکم سے میں آپ کا نگران مقرر ہوا ہوں، نہ آپ کو کوفے جانے دوں گا اور نہ تا حکم ثانی ساتھ چھوڑوں گا تو حضرت کہنا مان کر کیوں اتر پڑَ اور اپنے کو حر کے قابو میں دے دیا۔

اگر حضرت امارت و خلافت کے خیال میں ہوتے تو لشکر حر کی خواہش ہرگز قبول نہ کرتے در آنحالیکہ حر کے ساتھ ایک ہزار سے زیادہ سپاہی نہیں تھے اور حضرت کے ہمراہ تیرہ سو سوار اور پیاے تھے جن میں قمر بنی ہاشم جناب عباس(ع) اور علی اکبر(ع) جیسے ہاشمی جوان بھی تھے جن میں سے ایک ایک فرد ایک ہزار سپاہیوں کو زیر کرنے کے لیے کافی تھا اور کوفے تک بھی دس فرسخ کچھ زیادہ نہیں تھے۔ قاعدے کے مطابق چاہئیے تو یہ تھا کہ ان کو شکست دے کر اپنے کو مرکز حکومت ( کوفہ) تک پہنچا دیتے جہاں لوگ آپ کے منتظر بھی تھے ۔ وہاں سازو سامان سے مضبوط ہو کر مقابلہ کرتے ۔۔۔۔ تاکہ غلبہ حاصل ہوتا ، نہ یہ کہ حر کی باتیں مان کے فورا ٹھہر جائیں اور اپنے کو ایک بیابیان میں دشمنوں کے اندر محصور کر لیں، کہ چار روز کے بعد جب دشمن کی کمک پہنچ جائے تو فرزند رسول (ص) کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑے ۔ حضرات اگر اس واقعے کے قرائن پر گہری نظر ڈالیے تو آپ کو خود ہی جواب مل جائے گا اور سمجھ میں آجائے گا کہ حضرت نے کسی اور ہی نیت سے یہ مسافت طے کی تھی ۔ اس لیے کہ اگر ریاست کی خواہش ہوتی تو جس وقت دشمنوں کا محاصرہ انتہائی شدت پر تھا اور چاروں طرف کوسوں تک دشمن کی فوجیں پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ ایسے طریقے اختیار نہ فرماتے کہ اپنی چھوٹی سی جماعت اور موجودہ طاقت کو بھی منتشر کردیں۔

عاشورا کی شب میں حضرت کا خطبہ ہمارے دعوے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ اس لیے کہ شب عاشور تک حضرت کی خدمت میں تیرہ سو سپاہی موجود تھے جو لڑنے مرنے پر آمادہ تھے لیکن اسی رات کو نماز مغربین کے بعد حضرت کرسی پر تشریف لے گئے اور ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں صاف صاف ایسے کلمات بیان فرمائے کہ اس لشکر اور جاہ طلب اشخاص پر خوف طاری ہوگیا ، تمام ارباب مقاتل نے لکھا ہے کہ حضرت نے فرمایا جو لوگ دنیاوی ریاست و حکومت کے خیال میں آئے ہیں وہ جان لیں کہ کل جو شخص اس سر زمین پر رہے گا وہ قتل ہوجائے گا۔ یہ لوگ سوا میرے کسی اور کو نہیں چاہتے ۔ میں تمہاری گردنوں سے اپنی بیعت اٹھائے لیتا ہوں، رات کا وقت ہے اٹھو اور چلے جائو ۔ ابھی حضرت کی تقریر ختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ ساری جماعت روانہ ہوگئی اور صرف بیالیس نفر باقی رہ گئے ، جن میں اٹھارہ بنی ہاشم اور چوبیس اصحاب تھے۔ آدھی رات کے بعد دشمن کے لشکر سے تیس بہادر سپاہی شبخوں کے ارادے سے نکل کے آئے لیکن جب حضرت کے تلاوت قرآن کی آواز سنی تو وجد کے عالم میں آکر امام کی خدا پرست فوج سے مل گئے۔ چنانچہ بناء بر مشہور یہی کل بہتر افراد روز عاشور حق پر قربان ہوئے جن میں سے اکثر زہاد و عباد اور قاریان قرآن تھے۔

یہ سب ایسے واضح دلائل اور قرائن ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ حضرت نے دنیاوی انقلاب کے قصد سے اور جاہ و سلطنت کی محبت میں مسند خلافت تک پہنچنے کے لیے سفر نہیں فرمایا تھا بلکہ آپ کا واحد مقصد ترویج دین حمایت حق اور حریم اسلام سے دفاع کرنا تھا۔ اور وہ بھی اس طریقے سے کہ جان نثار کر کے لا الہ الا اللہ کا پرچم بلند کریں اور کفر و فساد کا علم سر نگوں کردیں۔ کیونکہ دین

۳۴۹

کی نصرت و حمایت کبھی تو قتل کرنے سے ہوتی ہے اور کبھی قتل ہونے سے ۔ چنانچہ حضرت کمر باندھے مردانہ وار اٹھ کھڑے ہوئے اور مظلومیت کی قوت سے نیز احباب و اعزاء بالخصوص چھوٹے چھوٹے بچوں کی قربانیوں کی طاقت سے بنی امیہ کے ظلم و فساد کی جڑ اس طرح اکھاڑی کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو بلند کرنے اور شجرہ مقدسہ اصلہا ثابت کو سیراب کرنے میں آپ کی جلیل القدر خدمات کا آج ہر دوست و دشمن کو اعتراف ہے کہ یہاں تک کہ دیں سے بیگانہ افراد بھی دلیل و برہان کے روسے اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں۔

امام حسین (ع) کی مظلومیت پر انگلینڈ کی خاتون کا مقالہ

فرانس کے انیسویں صدی کے دائرۃ المعارف میں تین شہید کے عنوان سے انگلینڈ کی ایک ذی علم خاتون کا مقالہ ہے جو بہت تفصیلی ہے لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے کہ لکھتی ہیں تاریخ انسانیت میں اعلائے کلمہ حق کے لیے تین شخصیتوں نے ایسی جانبازی اور فداکاری دکھائی کہ سارے جانبازوں اور فداکاروں سے گوئے سبقت لے گئیں۔

اول یونان کے حکیم سقراط نے ایتھنس میں دوسرے حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام نے فلسطین میں ( یہ عقیدہ موصوفہ کا ہے جو عیسائی ہیں ۔ ورنہ ہم مسلمانوں کا اعتقاد تو یہ ے کہ حضرت مسیح مصلوب و مقتول نہیں ہوئے جیسا کہ سورہ نمبر4 ( نساء) آیت نمبر156 میں صریحی ارشاد ہے۔

"وَماقَتَلُوهُ وَماصَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِين َاخْتَلَفُوافِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّااتِّباعَ الظَّنّ ِوَماقَتَلُوه يَقِيناًبَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ"

یعنی عیسی بن مریم کو نہ قتل کیا نہ سولی دی بلکہ حقیقت ان پر مشتبہ ہوگئی اور جن لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیا وہ در حقیقت شک و شبہ میں مبتلا ہوگئے۔ ان کو سوا اپنے گمان کی پیروی کے کوئی علم حاصل نہیں تھا اور یقینی طور پر مسیح کو انہوں نے قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔

تیسرے مسلمانوں کے پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ ) کے فرزند حضرت حسین علیہ السلام ، نے اس کے بعد لکھا ہے کہ جب ان تینوں بزرگ شہیدوں میں سے ہر ایک شہادت و جانبازی کی کیفیت اور تاریخی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ حضرت حسین (ع) کی جانبازی اور فداکاری ان دو ہستیوں ( یعنی سقراط و عیسی(ع)) سے کہیں وزنی اور اہم تحی اور اسی وجہ سے آپ کو سید الشہداء کا لقب حاصل ہوا کیوں کہ سقراط اور حضرت مسیح نے خدا کی راہ میں صرف اپنی اپنی جانیں قربان کیں، لیکن حضرت حسین علیہ السلام نے سفر غربت اختیار کر کے اپنی جماعت سے دور ایک بیابان میں دشمنوں کے محاصرے کے اندر اپنے ایسے عزیزترین اعزہ کو حق پر قربان کیا اور ان کو اپنے ہاتھوں دشمن کے سامنے بھیج کے دین خدا پر نثار کیا جن میں سے ایک ایک کو ہاتھ سے دینا خود اپنا سر دینے سے زیادہ سخت تھا۔

مظلومیت حسین (ع) کی سب سے بڑی دلیل مسلمانوں کے سامنے آپ کا اپنے شیر خوار کی قربانی دینا ہے۔ اس لیے کہ کسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ ایک شیر خوار بچے کو بے قدر و قیمت پانی طلب کرنے کے لیے لایا جائے اور مکار و غاباز قوم پانی دینے کے عوض اس کو تیر جفا کا نشانہ بنادے۔

۳۵۰

دشمن کے اس عمل نے حسین(ع) کی مظلومیت کو ثابت کردیا اور اسی مظلومیت کی طاقت نے بنی امیہ کے مقتدر خاندان کی بساط عزت پلٹ کے اس کو رسوائے زمانہ بنا دیا۔ آپ کی اور آپ کے محترم اہلبیت (ع) ہی کی جانبازیوں کا نتیجہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دین کو از سر نو زندگی حاصل ہوئی۔ ( انتہی)

ڈاکٹر ماربین جرمنی، ڈاکٹر جوزف فرانسیسی اور دوسرے یورپین مورخین سب کے سب اپنی تاریخوں میں تصدیق کرتے ہیں کہ حضرت سید الشہداء علیہ السلام کا کردار اور ان بزرگوار کی فداکاری ہی مقدس دین اسلام کے لیے سبب حیات بنیں۔ یعنی آپ نے بنی امیہ کے ظلم و کفر کی رگیں کاٹ دیں، ورنہ اگر حضرت کے یہ خدمات اور نصرت حق میں ایسا ثابت قدم نہ ہوتا تو بنی امیہ دین توحید کی جڑیں بالکل ہی کاٹ دیتے اور خدا و رسول(ص) اور دین و شریعت کا نام ہی دنیا سے مٹا دیتے۔

نتیجہ مطلوب اور انکشاف حقیقت

پس میرے معروضات کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت سید الشہداء ارواحنا لہ الفداء کی مقاوست اور جنگ صرف دین کے لیے تھی جس کے انصاف پسند دوست و دشمن بھی معترف ہیں۔

لہذا حضرت کے زوار و عزادار اور دوستدار شیعہ جس وقت سنتے ہیں کہ آپ نے یزید سے اس لیے مقابلہ کیا کہ وہ حرام اور ناجائز افعال کا مرتکب تھا تو ان کو توجہ ہوجاتی ہے کہ بد اعمالیاں حضرت کی ناراضگی کا باعث ہیں اور پھر و محرمات و منکرات سے الگ رہنے کی کوشش کرتے ہیں جو امام کو ناگوار ہیں، اور واجبات پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جب وہ سنتے ہیں اور کتب مقاتل و تواریخ میں پڑھتے ہیں کہ حضرت نے روز عاشورا بلائوں کے اس ہجوم اور مصائب کی اس شدت میں جس کی مثال پیش کرنے سے تاریخ عالم قاصر ہے اپنی نماز ترک نہیں کی بلکہ نماز ظہر با جامعت ادا فرمائی تو ادائے واجبات بلکہ نوافل و مستحبات میں بھی سعی بلیغ سے کام لیتے ہیں تاکہ حضرت کے نزدیک محبوب اور لائق توجہ قرار پائیں۔ اس لیے کہ حضرت کا محبوب یقینا خدائے تعالی کا محبوب ہے لہذا جو تصور آپ یا دوسرے لوگوں نے قائم کیا ہے وہ خلاف حقیقت اور مغالطہ بازی ہے۔ آپ دھوکے میں ہیں اور مطلب غلط نکالا ہے بلکہ آپ حضرات کے قول کے بر خلاف اس طرح کی حدیثیں شیعوں کی روحانی قوت کو بیدار کر کے ان کو اور زیادہ عمل پر آمادہ کرتی ہیں۔ خصوصا جب علماء و ذاکرین مطالب کی تشریح کرتے ہیں اور حضرت کے فلسفہ شہادت کو کما حقہ بیان کرتے ہیں تو بہت ہی اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے خود برابر ان حقائق کامشاہدہ کیا ہے کہ ہر سال محرم میں حضرت کے طفیل اور ان مجلسوں کی برکت سے جو آپ کے نام منعقد ہوتی ہیں اور لوگ ان میں اکٹھا ہوتے ہیں۔ اکثر بہکے ہوئے نوجوان واعظین کرام اور مبلغین عظام کے تبلیغی بیانات سے متاثر ہو کر راہ راست اور صراط مستقیم پر آگئے اور جملہ افعال بد سے توبہ کر کے سچے شیعوں کی صف میں شامل ہوگئے۔

( جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو اکثر حضرات اشکبار آنکھوں کے ساتھ سکوت کے عالم میں ںظر آئے اور ہم نے ارادہ کیا کہ اب جلسہ برخاست کریں۔)

۳۵۱

نواب : قبلہ صاحب باوجودیکہ وقت کافی گزرا لیکن آپ نے ہم لوگوں کو حد سے زیادہ متاثر فرمایا اور اس بزرگ و فداکار شخصیت کو جو ریحانہ رسول(ص) تھی اپنے اس مختصر بیان سے بخوبی پہچنواکر ہم سب کو ممنون کیا۔ آپ کے جد رسول خدا(ص) آپ کو اس کا صلہ عنایت فرمائیں۔ میں ہیں سمجھتا کہ آج کی شب اس جلسے میں کوئی ایسا شخص ہو جس پر جناب کا اثر نہ پڑا ہو۔ خدا آپ سے راضی رہے اور اپنا لطف و کرم آپ کے شامل حال رکھے ہم کو اس طرح مستفیض فرمایا۔ در حقیقت بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہم اب تک لوگوں کی باتوں میں آکر ان کی اندھی تقلید کرتے رہے اور ان مظلوم آقا کی زیارت اور مجالس عزا کی شرکت کے فیوض و برکات سے محروم رہے یہ محض اس غلط پروپیگینڈے کا اثر تھا جو وہ تعصب کی بناء پر ہمارے درمیان کرتے رہے اور کہتے رہے کہ زیارت امام حسین(ع) اور مجالس عزا میں جانا بدعت ہے۔ واقعی کیا اچھی بدعت ہے جو انسان کو بیدار اور صاحب معرفت بناتی ہے اور اہلبیت(ع) رسول(ص) و خدمت گزاران دین و شریعت کی حقیت سے روشناس کرتی ہے۔

زیارت کا ثواب اور اس کے فوائد

خیر طلب : یہ جو آپ نے اہلبیت و عترت رسول (ع) کی عزاداری اور ان کی زیارت قبور کے متعلق بدعت کا جملہ فرمایا تو اس کا سرچشمہ قطعی طور پر نواصب و خوارج کے عقائد ہیں اور علماء اہلسنت نے بھی بغیر اس پر غور کئے ہوئے کہ بدعت وہ چیز ہے جس کے بارے میں خدا و رسول(ص) یا اہلبیت رسول(ع) کی جانب سے جو عدیل قرآن ہیں کوئی ہدایت نہ ملی ہو۔ بر بنائے عادت ان کی پیروی کی ہے حالانکہ امام حسین علیہ السلام کے لیے رونے اور ان کی زیارت کے بارے میں علاوہ اس کے کہ شیعوں کی معتبر کتابوں میں تواتر کےساتھ وارد ہوا ہے۔ خود آپ کی معتبر کتب اور مقاتل میں بھی تمام بڑے بڑے علماء نے کافی روایتیں نقل کی ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں اس سے قبل اشارہ کرچکا ہوں۔ اس وقت تنگی وقت کے لحاظ سے زیارت کے متعلق ایک مشہور روایت پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں جو تمام مقاتل اور حدیث کی کتابوں میں درج ہے۔ ایک روز رسول خدا(ص) ام المومنین عائشہ کے حجرے میں تشریف رکھتے تھے کہ حسین علیہ السلام حاضر ہوئے پیغمبر(ص) نے ان کو آغوش محبت میں لے کر کثرت سے بوسے دیئے اور سونگھا۔ عائشہ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ(ص) حسین(ع) کو کس قدر چاہتے ہیں؟ آںحضرت (ص) نے فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتی ہو کہ یہ میرا پارہ جگر اور میرا پھول ہے؟ اس کے بعد آنحضرت(ص) رونے لگے۔ عائشہ نے گریے کا سبب پوچھا تو فرمایا میں تلواروں اور نیزوں کے مقامات چومتا ہوں جو بنی امیہ میرے حسین(ع) پ؛ر لگائیں گے۔ عائشہ نے عرض کای کیا ان کو قتل کرینگے؟ فرمایا ہاں ان کو بھوکا اور پیاسا شہید کریں گے۔ ان لوگوں کو ہرگز میری شفاعت نصیب نہیں نہ ہوگی خوشا حال اس شخص کا جو بعد شہادت ان کی زیارت کرے۔ عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) ان کے زائر کو کیا ثواب ملے گا؟ فرمایا میرے ایک حج کا ثواب۔ عائشہ نے تعجب سے کہا کہ آپ کا ایک حج؟ فرمایا میرے دو حج کا۔ عائشہ نے اور زیادہ تعجب کیا تو فرمایا میرے چار حج کا۔ عائشہ برابر تعجب ظاہر کرتی جاتی تھیں اور آنحضرت(ص) ثواب میں اضافہ فرماتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ فرمایا عائشہ جو شخص میرے حسین(ع) کی زیارت کرے خدا اس کے نامہ اعمال میں میرے نوے حج اور نوے عمروں کا ثواب درج فرمائیگا۔ اس کے بعد عائشہ چپ ہوگئیں۔ خدا کے لیے آپ حضرات انصاف

۳۵۲

کیجئے کہ کیا ایسی زیارت بدعت ہے جو رسول اللہ (ص) کی سفارش اور توجہ کی مرکز ہو؟ حضرت کی زیارت اور مجالس عزا میں شرکت کی مخالفت اور اس کو بدعت سے تعبیر کرنا یقینا آںحضرت(ص) اور اہلبیت طاہرین(ع) کی دشمنی ہے۔

زیارت قبور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے اثرات

باطنی فوائد اور اخروی اجر کے علاوہ قبور ائمہ طاہرین(ع) کی زیارت میں جو ظاہری منافع ملحوظ ہیں۔ وہ ہر عقل مند انسان کو اس بزرگ عبادت کی طرف راغب کرتے ہیں جو اور بہت سی عبادتوں کی باعث ہوتی ہے۔

آپ اگر ان عتبات عالیات سے مشرف ہوں تو کھلا ہوا مشاہدہ کریں گے کہ (رات کے درمیان چند گھنٹوں کے علاوہ جب کہ خدام کے آرام اور صفائی کے لیے حرم بند رہتا ہے طلوع صبح کے دو گھنٹے قبل سے تقریبا آدھی رات تک روز و شب وہ حرم اور قبروں کے پاس کی مسجدیں زائرین اور مجاورین اور خواص و عوام سے بھری رہتی ہیں اور یہ سب لوگ مختلف عبادتوں، واجب و مستحب نمازوں، تلاوت قرآن درورد و اداء وظائف می سرگرم رہتے ہیں۔ جو لوگ اپنے گھروں اور وطنوں میں سوا واجبات ادا کرنے کے زیادہ عبادتوں کی توفیق نہیں رکھتے وہ بھی ان مقدس مقامات میں زیارت اور قربت محبوب کے شوق میں طلوع صبح سے دو گھنٹے پہلے مشرف ہو کر تہجد اور اپنے پروردگار سے مناجات میں مصروف رہتے ہیں اور تلاوت قرآن اور خوف خدا سے گریہ و زاری ان کی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے۔ چنانچہ وہاں سے واپسی کے بعد بھی عبادات میں مشغول اور گناہوں سے الگ رہتے ہیں اور بڑے اشتیاق کے ساتھ نوافل اور قضا نمازیں بجالاتے ہیں۔

آیا یہ عمل جو دوسرے بہت سے اعمال کا سبب بنتا ہے اور لوگ اس کے ذریعے توفیق حاصل کر کے طرح طرح کی عبادتوں میں منہمک ہوتے ہیں اور رات دن میں کم از کم صبح سے پہر اور رات کو دو تین گھنٹے نماز و دعا و تلاوت قرآن اور ورد وظائف میں مشغول رہ کر اپنے کو پروردگار کی رحمت و عنایت کا مستحق بناتے ہیں بدعت ہے؟

اگر زیارت مزارات ائمہ اطہار(ع) کا اور کوئی نتیجہ نہ ہوتا تو صرف یہی عبادتوں کی توفیق اور سرگرمی ہی اس کا شوق دلانے کے لیے کافی تھی تاکہ ان وسائل سے اپنے معبود کے ساتھ رابطہ مضبوط کر کے روحانی طہارت حاصل کریں جو تمام نیک بختیوں کی جڑ ہے۔( کیونکہ اپنے شہروں اور گھروں میں رہ کے دنیاوی مشاغل کی وجہ سے پورا میلان پیدا نہیں ہوتا۔)

کیا آپ بلاد اہل تسنن میں ہم کو کوئی ایسا مقدس مقام بتاسکتے ہیں جہاں عالم و جاہل اور عوام وخواص چوبیس گھنٹے عبادات میں مشغول رہتے ہوں سوا مسجدوں کے جہاں فقط نماز پڑھ کے فورا متفرق ہوجاتے ہیں؟ بغداد اور معظم میں جہاں شیخ عبدالقادر جیلانی اور امام ابوحنیفہ کی قبریں ہیں۔ ہمیشہ ان کے دروازے بند رہتے ہیں ، صرف نماز کے وقت ان مزاروں کی مسجدیں کھولی جاتی ہیں اور چند مخصوص آدمی آکر نماز پڑھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ شہر سامراء میں جہاں شیعوں کے دو برحق امام حضرت ہادی علی نقی علیہ السلام ( امام دہم)

۳۵۳

اور حضرت حسن عسکری علیہ السلام ( امام یازدہم) مدفون ہیں تمام شہر کے باشندے یہاں تک کہ آستانہ مقدس کے خدام بھی جو برادران اہل سنت میں سے ہیں، طلوع فجر کے قریب بڑی زحمت سے جب شیعہ زائرین و مجاورین اور اہل علم چیخ پکار مچاتے ہیں۔ تب حرم کا پھاٹک کھولتے ہیں لیکن ہم کو ایک بھی بوڑھا جوان عالم و جاہل سنی ایسا نظر نہیں آتا جو اس مسجد کے کسی گوشے میں مشغول عبادت ہو۔ یہاں تک کہ خدام بھی دروازہ کھولنے کے بعد جا کر سوجاتے ہیں۔ البتہ شیعہ لوگ حرم کے اندر پورے ذوق و شوق کے ساتھ عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ہیں وہ اثرات اور برکات جو ان مقدس مزارات سے شیعوں کو نصیب ہوتے ہیں۔ خدا آپ کو مشرف ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ عراق عرب میں آپ کو دو شہر ایک دوسرے کے پہلو میں صرف دو فرسخ کے فاصلے سے نظر آئیں گے یعنی کاظمین اور بغداد ۔ اول الذکر شیعوں کا مرکز ہے جس میں امام ہفتم حضرت ابو ابراہیم موسی بن جعفر اور امام نہم ابو جعفر محمد ابن علی الجواد علیہم السلام کا مزار مبارک ہے اور دوسرا اہل سنت کا مرکز ہے جس میں شیخ عبدالقادر جیلانی اور آپ کے امام اعظم ابوحنیفہ کی قبریں ہیں۔ اگر اگر آپ غور کیجئے تو شیعوں کے برحق پیشوائوں اور اماموں کے بلند تعلیمات کا اندازہ ہوجائے گا اور بچشم خود دیکھئے گا کہ ان دونوں مقدس قبروں اور ان کی زیارت کے برکات سے کاظمین کے باشندے اور زوار شب میں جلد سوجاتے ہیں اور طلوع فجر سے دو گھنٹے قبل بیدار ہو کر پورے ذوق و شوق سے عبادت وتہجد کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے شیعہ تجار بھی جن کی دکانیں اور تجارتیں بغداد میں ہیں لیکن مکانات کاظمین میں ہیں سحر کے وقت حرم مطہر کے اندر عبادت الہی میں مشغول رہتے ہیں۔

لیکن اہ بغداد کس قدر گناہوں میں غرق، عیاشی اور شہوت پرستی کے دلدادہ اور خواب غفلت میں مدہوش ہیں۔

نواب : واقعی اس وقت اپنے اوپر لعنت کرنے کا موقع ہے کہ ہم لوگ بغیر تحقیق کئے کس لیے اںکھیں بند کر کے بہکانے والوں کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ چند سال قبل ایک قافلہ یہاں سے روانہ ہوا جس میں بدقسمتی سے میں بھی شامل تھا۔ ہم لوگ امام اعظم ابوحنیفہ اور جناب عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہما کی زیارت کے لیے بغداد گئے لیکن ایک روز میں گھومنے کے لیے کاظمین چلا گیا جب واپس ہوا تو میرے رفیقوں نے مجھ کو کچھ سخت و سست کہا۔ بڑے تعجب کا مقام ہے کہ معظم میں امام اعظم کی، بغداد میں شیخ عبدالقادر کی، ہندوستان میں خواجہ نظام الدین کی اور مصر میں شیخ اکبر مقبل الدین کی زیارتیں تو جائز اور موجب ثواب ہوں جن کے لیے ہر سال ہم لوگوں میں سے کافی اشخاص جاتے رہتے ہیں حالاکہ ان کے بارے میں رسول اللہ(ص) سے قطعا کوئی روایت بھی مروی نہیں ہے لیکن راہ خدا کے فدا کار مجاہد اور ریحانہ رسول(ص) کی زیارت جس کے لیے پیغمبر(ص) نے اس قدر ثواب بیان فرمایا ہے اور عقلا بھی یہ ایک مستحسن کام ہے بدعت ہوجائے۔ اس وقت میں نے قطعی اور پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ انشاء اللہ اگر زندہ رہا تو اس سال قربتہ الی اللہ اور خوشنودی خدا کے لیے رسول خدا(ص) کے فرزند عزیز جناب حسین شہید(ع) کی زیارت کے لیے جائوں گا اور خدا سے دعا کروں گا کہ میری پچھلی غلطیوں کو معاف فرمائے۔

اب آج کی شب میں دلی تاثر کے ساتھ انشاء اللہ کل رات تک کے لیے رخصت ہوتا ہوں۔

ختم شد

۳۵۴

فہرست

من لم یشکر الناس لم یشکر اﷲ 2

اشارہ 3

بسم اﷲ الرحمن الرحیم 4

آغازِ سفر 4

مجلسِ مناظرہ 6

پہلی نشست 6

شب جمعہ 23 رجب سنہ 1345 ہج 6

ذریت رسول (ص)کے بارے میں بارون رشید اور امام موسی کاظم (ع)کا سوال وجواب 9

اس بات پر کافی دلائل کہ اولاد فاطمہ (س)اولاد رسول(ص)ہیں 11

پیغمبر(ص)نماز ظہ ر ین و مغربین جمع وتفریق دونوں طرح س ے پ ڑھ ت ے ت ھے 13

بنی امیہ کے دلدوز حرکات 19

واقعہ شہادت زیدبن علی علیہ السلام 20

شہادت جناب یحیٰ 21

قبر علی علیہ السلام کا ظہور 22

مدفن امیرالمومنین علیہ السلام میں اختلاف 23

دوسری نشست 25

۳۵۵

شب شبنہ 24 رجب سنہ 1345 ھ 25

مذہب شیعہ پر اشکال پیدا کرنا 26

مخالفین کی اشکال تراشیوں کا جواب 27

شیعہ اور حقیقت تشیع کے معنی 29

مقام تشیع کی تشریح میں آیات و روایات 31

سلمان و ابوذر اور مقداد و عمار کی منزل 36

خلفاء دیالمہ اور غازاں خان اور شاہ خدا بندہ کے زمانہ میں 37

ایرانیوں کی توجہ اور تشیع کا سبب 37

مغلوں کے دور میں تشیع کا ظہور 40

قاضی القضاة کے ساتھ علامہ حلی کا مناظرہ 40

اسلام نے نسلی تفاخرات کو جڑ سے کاٹ دیا 43

سارے فسادات اور لڑائیاں نسلی تفاخرات کی بنا پر ہوتی ہیں 44

غالیوں کے عقائد، ان کی مذمت اور لعن بر عبد اﷲ ابن سبا 45

آل محمد علیھ م السلام پر سلام اور صلوات بھیجنے کے بار ے م یں مناظرہ 50

"یس "کے معن ی اور یہ کہ "س"پ یغمبر صلّی اللہ عل یہ وآلہ کا نام مبارک ہے 51

آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں 52

آل محمد(ص) پر صلوات بھیجنا سنت اور تشہ د نماز م یں واجب ہے 54

۳۵۶

تیسری نشست 56

شب یک شنبہ 25 رجب سنہ1345ھ 56

عقائد زیدیہ 57

عقائد کیسانیہ 58

عقائد قداحیہ 59

عقائد غلات 59

عقائد شیعہ امامیہ اثنا عشریہ 60

حدیث معرفت پر اعتراض 63

اعترض کا جواب 63

صحیحین بخاری ومسلم میں خلاف عقل روایتیں 65

رویت باری تعالی کے بار ے م یں اہ ل سنت ک ی چند روایتیں 66

اللہ تعالی کے عدم رو یت پر دلائل اخبار 68

خرافات صحیحین کی طرف اشارہ 69

ملک الموت کے چ ہ ر ے پر موس ی علیہ السلام کا تھ پ ڑ مارنا 71

انصاف موجب معرفت اور سبب سعادت ہے 72

شیعوں کی طرف شرک کی نسبت دینا 75

شرک کے اقسام 76

۳۵۷

شرک جلی 77

شرک در ذات 77

عقائد نصاری 77

شرک درصفات 78

شرک در افعال 78

شرک در عبادت 79

نذر کے بار ے م یں 80

شرک خفی 82

شرک در اسباب 83

شیعہ کسی پہ لو س ے مشرک ن ہیں 83

آصف بن برخیا کا سلیمان کے پاس تخت بلق یس لانا 85

آل محمد (ع)فیض الہی کے ذر یعے ہیں 86

حدیث ثقلین 87

بغیر تعصّب کے بار یک بینی سعادت کا سبب ہے 88

بخاری اور مسلم نے مردود اور جعل سازرجال س ے روا یتیں نقل کی ہیں 90

صحیحین بخاری ومسلم میں مضحک روایت اور رسو ل(ص)کی اہ انت 91

حدیث ثقلین کے اسناد 92

۳۵۸

حدیث سفینہ 94

دعائے توسل 98

اس جماعت کے فتو ے س ے ش ہید اول کی شہ ادت 100

"قاضی صیدا" کی بد گوئی سے ش ہید ثانی کی شہ ادت 102

انصاف پسند لوگوں کی توجہ کیلئے عمدہ بحث 103

ایرانیوں کے ساتھ ترکیوں ، خوارزمیوں ، ازبکوں اور افغانوں کا شرمناک رویہ 104

ایران مین خان خیوہ کے مظالم اور شیعوں کے قتل وغارت کے لئے علمائے اہل سنت کے فتوے 105

شیعوں کے قتل وغارت پر علمائے اہل سنت کے فتوے اور خراسان پر عبداللہ خاں ازبککے حملے 106

افغانستان کے شیعوں سے افعانی امیروں کا سلوک 106

شہید ثالث کی شہ ادت 107

شیخ کا اقدام، شبہہ ک ی ایجاد حملے ک ے لئ ے وس یلے کی تیاری-----اور---- اس کا دفاع 108

زیارت کے آداب 110

نماز زیارت اور دعائے بعد از نماز 110

ائمہ علیھ م السلام کے روضو ں پر آستان ہ بوس ی شرک نہیں ہے 112

بھائیوں کا یوسف(ع) کے لیے خاک پر گرنا اور سجدہ کرنا 114

جسم کی فنا کے بعد روح کی بقا 115

بقائے روح میں اشکال اور اس کا جواب 116

۳۵۹

اہل مادہ طبیعت کا ظہور اور حکیم سقراط سے ویمقراطیس کا مقابلہ 116

یورپ میں علمائے الہی کے اقوال 117

معاویہ و یزید کی خلافت اور ان کے کفر کی طرف سے مخالفین کا دفاع اور اس کا جواب 119

یزید کے کفر ارتداد پر دلائل 120

یزید پلید(لع) کی لعن پر علمائے اہل سنت کی اجازت 123

یزید کی بیعت توڑنے کے جرم میں اہل مدینہ کا قتل عام 124

گمنام جاں نثار 127

آل محمد(ص) شہدائے راہ خدا اور زندہ ہیں 129

چوتھی نشست 131

شب دوشنبہ 26 رجب سنہ 1345 ھ 131

آپ نے حقیقت کا نکشاف کر کے ہم پر احسان کیا 131

امامت کے بارے میں بحث 132

اہلسنت کے مذاہب اربعہ پر بحث اور کشف حقیقت 132

مذاہب اربعہ کی پیروی پر کوئی دلیل نہیں ہے 134

یہ عجیب معاملہ صاحبان عقل و اںصاف کے لیے قابل غور ہے 134

اہل تسنن کے علماء اور اماموں کا ابوحنیفہ کو رد کرنا 137

امامت شیعوں کے عقیدے میں ریاست عالیہ الہیہ ہے 139

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369