پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310312 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

(۱۲۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لأصحابه في ساحة الحرب - بصفين

وأَيُّ امْرِئٍ مِنْكُمْ أَحَسَّ مِنْ نَفْسِه - رَبَاطَةَ جَأْشٍ عِنْدَ اللِّقَاءِ، ورَأَى مِنْ أَحَدٍ مِنْ إِخْوَانِه فَشَلًا - فَلْيَذُبَّ عَنْ أَخِيه بِفَضْلِ نَجْدَتِه - الَّتِي فُضِّلَ بِهَا عَلَيْه - كَمَا يَذُبُّ عَنْ نَفْسِه - فَلَوْ شَاءَ اللَّه لَجَعَلَه مِثْلَه - إِنَّ الْمَوْتَ طَالِبٌ حَثِيثٌ لَا يَفُوتُه الْمُقِيمُ - ولَا يُعْجِزُه الْهَارِبُ - إِنَّ أَكْرَمَ الْمَوْتِ الْقَتْلُ - والَّذِي نَفْسُ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ بِيَدِه - لأَلْفُ ضَرْبَةٍ بِالسَّيْفِ أَهْوَنُ عَلَيَّ - مِنْ مِيتَةٍ عَلَى الْفِرَاشِ فِي غَيْرِ طَاعَةِ اللَّه وكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْكُمْ - تَكِشُّونَ كَشِيشَ الضِّبَابِ - لَا تَأْخُذُونَ حَقّاً ولَا تَمْنَعُونَ ضَيْماً - قَدْ خُلِّيتُمْ والطَّرِيقَ - فَالنَّجَاةُ لِلْمُقْتَحِمِ والْهَلَكَةُ لِلْمُتَلَوِّمِ

(۱۲۳)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو صفین کے میدان میں اپنے اصحاب سے فرمایا تھا)

دیکھو ! اگر تم سے کوئی شخص بھی جنگ کے وقت اپنے اندر قوت قلب اور اپنے کسی بھائی میں کمزوری کا احساس کرے تو اس کا فرض ہے کہ اپنے بھائی سے اسی طرح دفاع کرے جس طرح اپنے نفس سے کرتا ہے کہ خدا چاہتا تو اسے بھی ویسا ہی بنا دیتا لیکن اس نے تمہیں ایک خاص فضیلت عطا فرمائی ہے۔

دیکھو!موت ایک تیز رفتار طلب گار ہے جس سے نہ کوئی ٹھہرا ہوا بچ سکتا ہے اور نہ بھاگنے والا بچ نکل سکتا ہے اور بہترین موت شہادت ہے۔قسم ہے اس پروردگار کی جس کے قبضہ قدرت میں فرزند ابو طالب کی جان ہے کہ میرے لئے تلوار کی ہزار ضربیں اطاعت خداسے الگ ہو کر بستر پرمرنے سے بہتر ہیں۔

گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ ویسی ہی آوازیں نکال رہے ہو جیسی سو سماروں کے جسموں کی رگڑ سے پیدا ہوتی ہیں کہ نہ اپناحق حاصل کر رہے ہو اورنہ ذلت کا دفاع کر رہے ہو جب کہ تمہیں راستہ پر کھلاچھوڑ دیا گیا ہے اور نجات اسی کے لئے ہے جو جنگ میں کود پڑے اورہلاکت اسی کے لئے ہے جودیکھتا ہی رہ جائے ۔

۲۲۱

(۱۲۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في حث أصحابه على القتال

فَقَدِّمُوا الدَّارِعَ وأَخِّرُوا الْحَاسِرَ - وعَضُّوا عَلَى الأَضْرَاسِ - فَإِنَّه أَنْبَى لِلسُّيُوفِ عَنِ الْهَامِ - والْتَوُوا فِي أَطْرَافِ الرِّمَاحِ فَإِنَّه أَمْوَرُ لِلأَسِنَّةِ - وغُضُّوا الأَبْصَارَ فَإِنَّه أَرْبَطُ لِلْجَأْشِ وأَسْكَنُ لِلْقُلُوبِ - وأَمِيتُوا الأَصْوَاتَ فَإِنَّه أَطْرَدُ لِلْفَشَلِ - ورَايَتَكُمْ فَلَا تُمِيلُوهَا ولَا تُخِلُّوهَا - ولَا تَجْعَلُوهَا إِلَّا بِأَيْدِي شُجْعَانِكُمْ - والْمَانِعِينَ الذِّمَارَ مِنْكُمْ - فَإِنَّ الصَّابِرِينَ عَلَى نُزُولِ الْحَقَائِقِ - هُمُ الَّذِينَ يَحُفُّونَ بِرَايَاتِهِمْ - ويَكْتَنِفُونَهَا حِفَافَيْهَا ووَرَاءَهَا، وأَمَامَهَا - لَا يَتَأَخَّرُونَ عَنْهَا فَيُسْلِمُوهَا - ولَا يَتَقَدَّمُونَ عَلَيْهَا فَيُفْرِدُوهَا أَجْزَأَ امْرُؤٌ قِرْنَه وآسَى أَخَاه بِنَفْسِه - ولَمْ يَكِلْ قِرْنَه إِلَى أَخِيه - فَيَجْتَمِعَ عَلَيْه قِرْنُه وقِرْنُ أَخِيه - وايْمُ اللَّه لَئِنْ فَرَرْتُمْ مِنْ سَيْفِ الْعَاجِلَةِ - لَا تَسْلَمُوا مِنْ سَيْفِ الآخِرَةِ - وأَنْتُمْ لَهَامِيمُ الْعَرَبِ والسَّنَامُ الأَعْظَمُ - إِنَّ فِي الْفِرَارِ مَوْجِدَةَ اللَّه

(۱۲۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب کو جنگ پرآمادہ کرتے ہوئے)

زرہ پوش افراد کو آگے بڑھائو اوربے زرہ لوگوں کو پیچھے رکھو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سر سے اچٹ جاتی ہیں اورنیزوں کے اطراف سے پہلوئوں کو بچائے رکھو کہ اس سے نیزوں کے رخ پلٹ جاتے ہیں۔نگاہوں کو نیچا رکھو کہ اس سے قوت قلب میں اضافہ ہوتا ہے اورحوصلے بلند رہتے ہیں۔آوازیں دھیمی رکھو کہ اس سے کمزوری دور ہوتی ہے۔دیکھو اپنے پرچم کا خیال رکھنا۔وہ نہ جھکنے پائے اور نہ اکیلا رہنے پائے اسے صرف بہادر افراد اور عزت کے پاسبانوں کے ہاتھ میں رکھنا کہ مصائب پر صبر کرنے والے ہی پرچموں کے گرد جمع ہوتے ہیں اور داہنے بائیں آگے ' پیچھے ہرطرف سے گھیرا ڈال کر اس کا تحفظ کرتے ہیں۔نہ اس سے پیچھے رہ جاتے ہیں کہ اسے دشمنوں کے حوالے کردیں اورنہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ تنہا رہ جائے۔

دیکھو۔ہرشخص اپنے مقابل کا خود مقابلہ کرے اور اپنے بھائی کابھی ساتھ دے اورخبردار اپنے مقابلہ کو اپنے ساتھی کے حوالہ نہ کردینا کہ اس پر یہ اور اس کا ساتھی دونوں مل کرحملہ کردیں۔

خداکی قسم اگر تم دنیا کی تلوار سے بچ کر بھاگ بھی نکلے تو آخرت کی تلوار سے بچ کر نہیں جاسکتے ہو۔پھر تم تو عرب کے جوانمردوں اور سربلند افراد ہو۔تمہیں معلوم ہے کہ فرار میں خدا کا غضب بھی ہے کو

۲۲۲

والذُّلَّ اللَّازِمَ والْعَارَ الْبَاقِيَ - وإِنَّ الْفَارَّ لَغَيْرُ مَزِيدٍ فِي عُمُرِه - ولَا مَحْجُوزٍ بَيْنَه وبَيْنَ يَوْمِه - مَنِ الرَّائِحُ إِلَى اللَّه كَالظَّمْآنِ يَرِدُ الْمَاءَ - الْجَنَّةُ تَحْتَ أَطْرَافِ الْعَوَالِي - الْيَوْمَ تُبْلَى الأَخْبَارُ - واللَّه لأَنَا أَشْوَقُ إِلَى لِقَائِهِمْ مِنْهُمْ إِلَى دِيَارِهِمْ - اللَّهُمَّ فَإِنْ رَدُّوا الْحَقَّ فَافْضُضْ جَمَاعَتَهُمْ - وشَتِّتْ كَلِمَتَهُمْ وأَبْسِلْهُمْ بِخَطَايَاهُمْ إِنَّهُمْ لَنْ يَزُولُوا عَنْ مَوَاقِفِهِمْ - دُونَ طَعْنٍ دِرَاكٍ يَخْرُجُ مِنْهُمُ النَّسِيمُ - وضَرْبٍ يَفْلِقُ الْهَامَ ويُطِيحُ الْعِظَامَ - ويُنْدِرُ السَّوَاعِدَ والأَقْدَامَ - وحَتَّى يُرْمَوْا بِالْمَنَاسِرِ تَتْبَعُهَا الْمَنَاسِرُ - ويُرْجَمُوا بِالْكَتَائِبِ تَقْفُوهَا الْحَلَائِبُ - وحَتَّى يُجَرَّ بِبِلَادِهِمُ الْخَمِيسُ يَتْلُوه الْخَمِيسُ - وحَتَّى تَدْعَقَ الْخُيُولُ فِي نَوَاحِرِ أَرْضِهِمْ - وبِأَعْنَانِ مَسَارِبِهِمْ ومَسَارِحِهِمْ.

قال السيد الشريف أقول - الدعق الدق أي تدق الخيول بحوافرها أرضهم - ونواحر أرضهم متقابلاتها - ويقال منازل بني فلان تتناحر أي تتقابل.

اور ہمیشہ کی ذلت بھی ہے۔فرار کرنے والا نہ اپنی عمر میں اضافہ کر سکتا ہے اور نہ اپنے وقت کے درمیان حائل ہو سکتا ہے۔کون ہے جو للہ کی طرف یوں جائے جس طرح پیاسا(۱) پانی کی طرف جاتا ہے۔جنت نیزوں کے اطراف کے سایہ میں ہے آج ہر ایک کے حالات کا امتحان ہو جائے گا۔خدا کی قسم مجھے دشمنوں سے جنگ کا اشتیاق اس سے زیادہ ہے جتنا انہیں اپنے گھروں کا اشتیاق ہے۔خدایا: یہ ظالم اگرحق کو رد کردیں توان کی جماعت کو پراگندہ کردے۔ان کے کلمہ کو متحد نہ ہونے دے۔ان کو ان کے کئے کی سزا دیدے کہ یہ اس وقت تک اپنے موقف سے نہ ہٹیں گے جب تک نیزے ان کے جسموں میں نسیم سحر کے راستے نہ بنا دیں اور تلواریں ان کے سروں کو شگافتہ ' ہڈیوں کو چور چور اور ہاتھ پیر کو شکستہ نہ بنادیں اور جب تک ان پر لشکر کے بعد لشکر اورسپاہ کے بعد سپاہ حملہ آور نہ ہو جائیں اور ان کے شہروں پر مسلسل فوجوں کی یلغار نہ ہو اور گھوڑے ان کی زمینوں کو آخرتک روند نہ ڈالیں اور ان کی چراگاہوں اورسبزہ زاروں کو پامال نہ کردیں۔

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کی زندگی کی ہر تشنگی کا علاج جنت کے علاوہ کہیں نہیں ہے۔یہ دنیا صرف ضروریات کی تکمیل کے لئے بنائی گئی ہے اور بڑے سے بڑے انسان کاحصہ بھی اس کے خواہشات سے کمتر ہے ورنہ سارے روئے زمین پر حکومت کرنے والا بھی اس سے بیشتر کاخواہش مندرہتا ہے اور دامان زمین میں اس سے زیادہ کی وسعت نہیں ہے۔یہ صرف جنت ہے جس کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہاں ہرخواہش نفس اور لذت نگاہ کی تسکین کا سامان موجود ہے۔اب سوال صف یہ رہ جاتا ہے کہ وہاںتک جانے کاراستہ کیا ہے۔مولائے کائنات نے اپنے ساتھیوں کو اسینکتہ کی طرف متوجہ کیا ہے کہ جنت تلواروں کے سایہ کے نیچے ہے اور اس کا راستہ صرف میدان جہاد ہے لہٰذا میدان جہاد کی طرف اس طرح بڑھو جس طرح پیاسا پانی کی طرف بڑھتا ہے کہ اسی راہ میں ہر جذبہ دل کی تسکین کا سامان پایا جاتا ہے اور پھر دین خدا کی سر بلندی سے بالاتر کوئی شرف بھی نہیں ہے۔

۲۲۳

(۱۲۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في التحكيموذلك بعد سماعه لأمر الحكمين

إِنَّا لَمْ نُحَكِّمِ الرِّجَالَ - وإِنَّمَا حَكَّمْنَا الْقُرْآنَ هَذَا الْقُرْآنُ - إِنَّمَا هُوَ خَطٍّ مَسْطُورٌ بَيْنَ الدَّفَّتَيْنِ - لَا يَنْطِقُ بِلِسَانٍ ولَا بُدَّ لَه مِنْ تَرْجُمَانٍ - وإِنَّمَا يَنْطِقُ عَنْه الرِّجَالُ - ولَمَّا دَعَانَا الْقَوْمُ - إلَى أَنْ نُحَكِّمَ بَيْنَنَا الْقُرْآنَ - لَمْ نَكُنِ الْفَرِيقَ الْمُتَوَلِّيَ - عَنْ كِتَابِ اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى - وقَدْ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوه إِلَى الله والرَّسُولِ ) - فَرَدُّه إِلَى اللَّه أَنْ نَحْكُمَ بِكِتَابِه - ورَدُّه إِلَى الرَّسُولِ أَنْ نَأْخُذَ بِسُنَّتِه - فَإِذَا حُكِمَ بِالصِّدْقِ فِي كِتَابِ اللَّه - فَنَحْنُ أَحَقُّ النَّاسِ بِه - وإِنْ حُكِمَ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَنَحْنُ أَحَقُّ النَّاسِ وأَوْلَاهُمْ بِهَا - وأَمَّا قَوْلُكُمْ - لِمَ جَعَلْتَ بَيْنَكَ وبَيْنَهُمْ أَجَلًا فِي التَّحْكِيمِ - فَإِنَّمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ لِيَتَبَيَّنَ الْجَاهِلُ -

(۱۲۵)

(آپ کا ارشاد گرامی)

(تحکیم کے بارے میں ۔حکمین کی داستان سننے کے بعد)

یاد رکھو! ہم نے افراد کوحکم نہیں بنایا تھا بلکہ قرآن کو حکم قراردیا تھا اور قرآن وہی کتاب ہے جو دو دفینوں کے درمیان موجود ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ خود نہیں بولتاہے اور اسے ترجمان کی ضرورت ہوتی ہے اور ترجمان افراد ہی ہوتے ہیں ۔اس قوم نے ہمیں دعوت دی کہ ہم قرآن سے فیصلہ کرائیں تو ہم تو قرآن سے رو گردانی کرنے والے نہیں تھے جب کہ پروردگار نے فرمادیا ہے کہ اپنے اختلافات کوخدا اور رسول کی طرف موڑو دواورخدا کی طرف موڑنے کا مطلب اس کی کتاب سے فیصلہ کرانا ہے اور رسول (ص) کی طرف موڑنے کا مقصد بھی سنت کا اتباع کرنا ہے اور یہ طے ہے کہ اگر کتاب خدا سے سچائی کے ساتھ فیصلہ کیا جائے تو اس کے سب سے زیادہ ح قدار ہم ہی ہیں اور اسی طرح سنت پیغمبر کے لئے سب سے اولیٰ و اقرب ہم ہی ہیں۔اب تمہارا یہ کہنا کہ آپ نے تحکیم کی مہلت کیوں(۱) دی؟ تو اس کا راز یہ ہے کہ میں چاہتا تھا کہ بے خبر با خبر ہو جائے

(۱) حضرت نے تحکیم کا فیصلہ کرتے ہوئے دونوں افراد کو ایک سال کی مہلت دی تھی تاکہ اس دوران نا واقف افراد حق و باطل کی اطلاع حاصل کرلیں اور جو کسی مقدار میں حق سے آگاہ ہیں وہ مزید تحقیق کرلیں۔ایسا نہ ہو کربے خبر افراد پہلے ہی مرحلہ میں گمراہ ہو جائیں اور عمر و عاص کی مکاری کا شکار ہو جائیں۔مگر افسوس یہ ہے کہ ہر دور میں ایسے افراد ضرور رہتے ہیں جو اپنے عقل وفکر کو ہر ایک سے بالاتر تصور کرتے ہیں اور اپنے قاد کے فیصلوں کوبھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب امام کے ساتھ ایسا برتائو کیا گیا ہے تونائب امام یا عالم دین کی کیا حیثیت ہے ؟

۲۲۴

ويَتَثَبَّتَ الْعَالِمُ - ولَعَلَّ اللَّه أَنْ يُصْلِحَ فِي هَذِه الْهُدْنَةِ - أَمْرَ هَذِه الأُمَّةِ - ولَا تُؤْخَذَ بِأَكْظَامِهَا - فَتَعْجَلَ عَنْ تَبَيُّنِ الْحَقِّ - وتَنْقَادَ لأَوَّلِ الْغَيِّ - إِنَّ أَفْضَلَ النَّاسِ عِنْدَ اللَّه - مَنْ كَانَ الْعَمَلُ بِالْحَقِّ أَحَبَّ إِلَيْه - وإِنْ نَقَصَه وكَرَثَه مِنَ الْبَاطِلِ - وإِنْ جَرَّ إِلَيْه فَائِدَةً وزَادَه - فَأَيْنَ يُتَاه بِكُمْ - ومِنْ أَيْنَ أُتِيتُمْ - اسْتَعِدُّوا لِلْمَسِيرِ إِلَى قَوْمٍ حَيَارَى - عَنِ الْحَقِّ لَا يُبْصِرُونَه - ومُوزَعِينَ بِالْجَوْرِ لَايَعْدِلُونَ بِه - جُفَاةٍ عَنِ الْكِتَابِ - نُكُبٍ عَنِ الطَّرِيقِ - مَا أَنْتُمْ بِوَثِيقَةٍ يُعْلَقُ بِهَا - ولَا زَوَافِرِ عِزٍّ يُعْتَصَمُ إِلَيْهَا - لَبِئْسَ حُشَّاشُ نَارِ الْحَرْبِ أَنْتُمْ - أُفٍّ لَكُمْ - لَقَدْ لَقِيتُ مِنْكُمْ بَرْحاً يَوْماً أُنَادِيكُمْ - ويَوْماً أُنَاجِيكُمْ - فَلَا أَحْرَارُ صِدْقٍ عِنْدَ النِّدَاءِ - ولَا إِخْوَانُ ثِقَةٍ عِنْدَ النَّجَاءِ

(۱۲۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما عوتب على التسوية في العطاء

أَتَأْمُرُونِّي أَنْ أَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَوْرِ - فِيمَنْ وُلِّيتُ عَلَيْه -

اورباخبرتحقیق کرلے کہ شائد پروردگار اس وقفہ میں امت کے امور کی اصلاح کردے اور اس کا گلا نہ گھونٹا جائے کہ تحقیق حق سے پہلے گمراہی کے پہلے ہی مرحلہ میں بھٹک جائے۔اوریاد رکھو کہ پروردگار کے نزدیک بہترین انسان وہ ہے جسے حق پر عملدار آمد کرنا (چاہے اس میں نقصان ہی کیوں نہ ہو)باطل پر عمل کرنے سے زیادہ محبوب ہو( چاہے اس میں فائدہ ہی کیوں نہ ہو) تو آخر تمہیں کدھر لے جایا جا رہا ہے اور تمہارے پاس شیطان کدھر سے آگیا ہے۔دیکھو اس قوم سے جہاد کے لئے تیار ہو جائو جو حق کے معاملہ میں اس طرح سرگرداں ہے کہ اسے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ہے اورباطل پر اس طرح اتارو کردی گئی ہے کہ سیدھے راستہ پر آنا ہی نہیں چاہتی ہے۔یہ کتاب خداسے الگ اور راہ حق سے منحرف ہیں مگر تم بھی قابل اعتماد افراد اور لائق تمسک شرف کے پاسبان نہیں ہو۔تم آتش جنگ کے بھڑکانے کا بد ترین ذریعہ ہو۔تم پر حیف ہے میں نے تم سے بہت تکلیف اٹھائی ہے۔تمہیں علی الاعلان بھی پکارا ہے اورآہستہ بھی سمجھایا ہے لیکن تم نہ آواز جنگ پر سچے شریف ثابت ہوئے اور نہ راز داری پر قابل اعتماد ساتھی نکلے۔

(۱۲۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب عطا یا کی برابری پر اعتراض کیا گیا)

کیاتم مجھے اس بات پرآمادہ کرنا چاہتے ہو کہ میں جن رعایا کا ذمہ دار بنایا گیا ہوں

۲۲۵

واللَّه لَا أَطُورُ بِه مَا سَمَرَ سَمِيرٌ - ومَا أَمَّ نَجْمٌ فِي السَّمَاءِ نَجْماً - لَوْ كَانَ الْمَالُ لِي لَسَوَّيْتُ بَيْنَهُمْ - فَكَيْفَ وإِنَّمَا الْمَالُ مَالُ اللَّه - أَلَا وإِنَّ إِعْطَاءَ الْمَالِ فِي غَيْرِ حَقِّه تَبْذِيرٌ وإِسْرَافٌ - وهُوَ يَرْفَعُ صَاحِبَه فِي الدُّنْيَا - ويَضَعُه فِي الآخِرَةِ - ويُكْرِمُه فِي النَّاسِ ويُهِينُه عِنْدَ اللَّه - ولَمْ يَضَعِ امْرُؤٌ مَالَه فِي غَيْرِ حَقِّه ولَا عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِه - إِلَّا حَرَمَه اللَّه شُكْرَهُمْ - وكَانَ لِغَيْرِه وُدُّهُمْ - فَإِنْ زَلَّتْ بِه النَّعْلُ يَوْماً - فَاحْتَاجَ إِلَى مَعُونَتِهِمْ فَشَرُّ خَلِيلٍ - وأَلأَمُ خَدِينٍ !

(۱۲۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه يبين بعض أحكام الدين ويكشف للخوارج الشبهة وينقض حكم الحكمين

فَإِنْ أَبَيْتُمْ إِلَّا أَنْ تَزْعُمُوا أَنِّي أَخْطَأْتُ وضَلَلْتُ - فَلِمَ تُضَلِّلُونَ عَامَّةَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِضَلَالِي - وتَأْخُذُونَهُمْ بِخَطَئِي -

ان پر ظلم کرکے چند افراد کی کمک حاصل کرلوں ۔خدا کی قسم جب تک اس دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور ایک ستارہ دوسرے ستارہ کی طرف جھکتا رہے گا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔یہ مال اگر میرا ذاتی ہوتا جب بھی میں برابر سے تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال مال خداہے اور یادرکھو کہ مال کا نا حق عطا کردینا بھی اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہے اوریہ کام انسان کو دنیا میں بلند بھی کر دیتا ہے تو آخرت میں ذلیل کر دیتا ہے۔لوگوں میں محترم بھی بنادیتا ہے تو خدا کی نگاہ میں پست تر بنا دیتا ہے اور جب بھی کوئی شخص مال کو نا حق یا نا اہل پر صرف کرتا ہے تو پروردگار اس کے شکریہ سے بھی محروم کر دیتا ہے اور اس کی محبت کا رخ بھی دوسروں کی طرف مڑ جاتا ہے ۔پھر اگرکسی دن پیر پھسل گئے اور ان کی امداد کا بھی محتا ج ہوگیا تو وہ بد ترین دوست اور ذلیل ترین ساتھی ہی ثابت ہوتے ہیں۔

(۱۲۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں بعض احکام دین کے بیان کے ساتھ خوارج کے شبہات کا ازالہ اورحکمین کے توڑ کا فیصلہ بیان کیا گیا ہے)

اگر تمہارااصرار اسی بات پرہےکہ مجھےخطاکاراور گمراہ قرار دو تو ساری امت پیغمبر (ص) کو کیوں خطا کار قراردےرہےہواور میری'' غلطی '' کا مواخذہ ان سے کیوں کر

۲۲۶

وتُكَفِّرُونَهُمْ بِذُنُوبِي - سُيُوفُكُمْ عَلَى عَوَاتِقِكُمْ - تَضَعُونَهَا مَوَاضِعَ الْبُرْءِ والسُّقْمِ - وتَخْلِطُونَ مَنْ أَذْنَبَ بِمَنْ لَمْ يُذْنِبْ - وقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رَجَمَ الزَّانِيَ الْمُحْصَنَ - ثُمَّ صَلَّى عَلَيْه ثُمَّ وَرَّثَه أَهْلَه - وقَتَلَ الْقَاتِلَ ووَرَّثَ مِيرَاثَه أَهْلَه - وقَطَعَ السَّارِقَ وجَلَدَ الزَّانِيَ غَيْرَ الْمُحْصَنِ - ثُمَّ قَسَمَ عَلَيْهِمَا مِنَ الْفَيْءِ ونَكَحَا الْمُسْلِمَاتِ - فَأَخَذَهُمْ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِذُنُوبِهِمْ - وأَقَامَ حَقَّ اللَّه فِيهِمْ - ولَمْ يَمْنَعْهُمْ سَهْمَهُمْ مِنَ الإِسْلَامِ - ولَمْ يُخْرِجْ أَسْمَاءَهُمْ مِنْ بَيْنِ أَهْلِه - ثُمَّ أَنْتُمْ شِرَارُ النَّاسِ - ومَنْ رَمَى بِه الشَّيْطَانُ مَرَامِيَه وضَرَبَ بِه تِيهَه - وسَيَهْلِكُ فِيَّ صِنْفَانِ - مُحِبٌّ مُفْرِطٌ يَذْهَبُ بِه الْحُبُّ إِلَى غَيْرِ الْحَقِّ - ومُبْغِضٌ مُفْرِطٌ يَذْهَبُ بِه الْبُغْضُ إِلَى غَيْرِ الْحَقِّ - وخَيْرُ النَّاسِ فِيَّ حَالًا النَّمَطُ الأَوْسَطُ فَالْزَمُوه - والْزَمُوا السَّوَادَ الأَعْظَمَ - فَإِنَّ يَدَ اللَّه مَعَ الْجَمَاعَةِ - وإِيَّاكُمْ والْفُرْقَةَ!

رہے ہو اور میرے ''گناہ '' کی بناپر انہیں کیوں کافر قرار دے رہے ہو۔تمہاری تلواریں تمہارے کاندھوں پر رکھی ہیں جہاں چاہتے ہو خطا ' بے خطا چلادیتے ہو اور گناہ گار اوربے گناہ میں کوئی فرق نہیں کرتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اکرم (ص) نے زنائے محضہ کے مجرم کو سنگسار کیا تواس کی نمازجنازہ بھی پڑھی تھی اور اس کے اہل کو وارث بھی قرار دیا تھا۔اور اسی طرح قاتل کو قتل کیا تو اس کی میراث بھی تقسیم کی اور چور کے ہاتھ کاٹے یا غیر شادی شدہ زنا کار کو کوڑے لگوائے تو انہیں مال غنیمت میں حصہ بھی دیا اور ان کا مسلمان عورتوں سے نکاح بھی کرایا گویا کہ آپ نے ان کے گناہوں کا مواخذہ کیا اور ان کے بارے میں حق خداکو قائم کیا لیکن اسلام میں ان کے حصہ کو نہیں روکا اور نہ ان کے نام کواہل اسلام کی فہرست سے خارج کیا۔مگر تم بد ترین افراد ہو کہ شیطان تمہارے ذریعہ اپنے مقاصد کو حاصل کرلیتا ہے اورتمہیں صحرائے ضلالت میں ڈال دیتا ہے اور عنقریب میرے بارے میں دو طرح کے افراد گمراہ ہوں گے۔محبت میں غلو کرنے والے جنہیں محبت غیرحق کی طرف لے جائے گی اور عداوت میں زیادتی کرنے والے جنہیں عداوت باطل کی طرف کھینچ لے جائے گی۔اوربہترین افراد وہ ہوں گے جو درمیانی منزل پر ہوں لہٰذا تم بھی اسی راستہ کو اختیار کرو اور اسی نظر یہ کی جماعت کے ساتھ ہو جائو کہ اللہ کاہاتھ اسی جماعت کے ساتھ ہے اورخبردارتفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ جاتا ہے

۲۲۷

فَإِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّيْطَانِ - كَمَا أَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ. أَلَا مَنْ دَعَا إِلَى هَذَا الشِّعَارِ فَاقْتُلُوه - ولَوْ كَانَ تَحْتَ عِمَامَتِي هَذِه - فَإِنَّمَا حُكِّمَ الْحَكَمَانِ لِيُحْيِيَا مَا أَحْيَا الْقُرْآنُ - ويُمِيتَا مَا أَمَاتَ الْقُرْآنُ - وإِحْيَاؤُه الِاجْتِمَاعُ عَلَيْه - وإِمَاتَتُه الِافْتِرَاقُ عَنْه - فَإِنْ جَرَّنَا الْقُرْآنُ إِلَيْهِمُ اتَّبَعْنَاهُمْ - وإِنْ جَرَّهُمْ إِلَيْنَا اتَّبَعُونَا - فَلَمْ آتِ لَا أَبَا لَكُمْ بُجْراً - ولَا خَتَلْتُكُمْ عَنْ أَمْرِكُمْ - ولَا لَبَّسْتُه عَلَيْكُمْ - إِنَّمَا اجْتَمَعَ رَأْيُ مَلَئِكُمْ عَلَى اخْتِيَارِ رَجُلَيْنِ - أَخَذْنَا عَلَيْهِمَا أَلَّا يَتَعَدَّيَا الْقُرْآنَ فَتَاهَا عَنْه - وتَرَكَا الْحَقَّ وهُمَا يُبْصِرَانِه - وكَانَ الْجَوْرُ هَوَاهُمَا فَمَضَيَا عَلَيْه - وقَدْ سَبَقَ اسْتِثْنَاؤُنَا عَلَيْهِمَا فِي الْحُكُومَةِ بِالْعَدْلِ - والصَّمْدِ لِلْحَقِّ سُوءَ رَأْيِهِمَا وجَوْرَ حُكْمِهِمَا.

(۱۲۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

فيما يخبر به عن الملاحم بالبصرة

وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہو جاتا ہے جس طرح گلہ سے الگ ہوجانے والی بھیڑ بھیڑئیے کی نذر ہوجاتی ہے۔آگاہ ہو جائو کہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے اسے قتل کردو چاہے وہ میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو۔ ان دونوں افراد کو حکم بنایا گیا تھا تاکہ ان امور کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور ان امور کو مردہ بنادیں جنہیں قرآن نے مردہ بنا دیا ہے اور زندہکرنے کے معنی اس پر اتفاق کرنے اورمردہ بنانے کے معنی اس سے الگ ہو جانے کے ہیں۔ہم اس بات پر تیار تھے کہ اگر قرآن ہمیں دشمن کی طرف کھینچ لے جائے گا تو ہم ان کا اتباع کرلیں گے اور اگر انہیں ہماری طرف لے آئے گا تو انہیں آنا پڑے گا لیکن خدا تمہارا برا کرے۔اس بات میںمیں نے کوئی غلط کام تو نہیں کیا اور نہ تمہیں کوئی دھوکہ دیا ہے۔اور نہ کسی بات کو شبہ میں رکھا ہے۔لیکن تمہاری جماعت نے دوآدمیوں کے انتخاب پر اتفاق کرلیا اورمیں نے ان پر شرط لگا دی کہ قرآن کے حدود سے تجاوز نہیں کریں گے مگر وہ دونوں قرآن سے منحرف ہوگئے اورحق کو دیکھ بھال کر نظر انداز کردیا اور اصل بات یہ ہے کہ ان کا مقصد ہی ظلم تھا اوروہ اسی راستہ پرچلے گئے جب کہ میں نے ان کی غلط رائے اورظالمانہ فیصلہ سے پہلے ہی فیصلہ میں عدالت اور ارادہ حق کی شرط لگادی تھی۔

(۱۲۸)

آپ کا ارشادگرامی

(بصرہ کے حوادث کی خبر دیتے ہوئے )

۲۲۸

يَا أَحْنَفُ كَأَنِّي بِه وقَدْ سَارَ بِالْجَيْشِ - الَّذِي لَا يَكُونُ لَه غُبَارٌ ولَا لَجَبٌ - ولَا قَعْقَعَةُ لُجُمٍ ولَا حَمْحَمَةُ خَيْلٍ - يُثِيرُونَ الأَرْضَ بِأَقْدَامِهِمْ - كَأَنَّهَا أَقْدَامُ النَّعَامِ.

قال الشريف يومئ بذلك إلى صاحب الزنج.

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام - وَيْلٌ لِسِكَكِكُمُ الْعَامِرَةِ والدُّورِ الْمُزَخْرَفَةِ - الَّتِي لَهَا أَجْنِحَةٌ كَأَجْنِحَةِ النُّسُورِ - وخَرَاطِيمُ كَخَرَاطِيمِ

الْفِيَلَةِ - مِنْ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَا يُنْدَبُ قَتِيلُهُمْ - ولَا يُفْقَدُ غَائِبُهُمْ - أَنَا كَابُّ الدُّنْيَا لِوَجْهِهَا - وقَادِرُهَا بِقَدْرِهَا ونَاظِرُهَا بِعَيْنِهَا.

منه في وصف الأتراك

كَأَنِّي أَرَاهُمْ قَوْماً –( كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطَرَّقَةُ ) - يَلْبَسُونَ السَّرَقَ والدِّيبَاجَ - ويَعْتَقِبُونَ الْخَيْلَ الْعِتَاقَ - ويَكُونُ هُنَاكَ اسْتِحْرَارُ قَتْلٍ - حَتَّى يَمْشِيَ الْمَجْرُوحُ عَلَى الْمَقْتُولِ -

اے(۱) احنف ! گویا کہ میں اس شخص کو دیکھ رہا ہوں جو ایک ایسا لشکر لے کر آیا ہے جس میں نہ گردو غبار ہے اور نہ شورو غوغا ۔نہ لجاموں کی کھڑکھڑاہٹ ہے اور نہ گھوڑوں کی ہنہناہٹ ۔یہ زمین کو اسی طرح روند رہے ہیں جس طرح شتر مرغ کے پیر۔

سید رضی : حضرت نے اس خبر میں صاحب زنج کی طرف اشارہ کیا ہے( جس کا نام علی بن محمد تھااور اس نے۲۲۵ ھ میں بصرہ میں غلاموں کو مالکوں کے خلاف متحد کیا اور ہر غلام سے اس کے مالک کو۵۰۰ کوڑے لگوائے ۔

افسوس ہے تمہاری آباد گلیوں اور ان سجے سجائے مکانات کے حال پر جن کے چھجے گدوں کے پر اور ہاتھیوں کے سونڈ کے مانند ہے ان لوگوں کی طرف سے جن کے مقتول پر گریہ نہیں کیاجاتا ہے اور ان کے غائب کو تلاش نہیں کیا جاتا ہے۔میں دنیا کو منہ کے بھل اوندھا کر دینے والا اور اس کی صحیح اوقات کا جاننے والا اور اس کی حالت کو اس کے شایان شان نگاہ سے دیکھنے والا ہوں۔

(ترکوں کے بارے میں )

میں ایک ایسی قوم کو دیکھ رہا ہوں جن کے چہرہ چمڑے سے منڈھی ڈھال کے مانند ہیں۔ریشم و دیبا کے لباس پہنتے ہیں اور بہترین اصیل گھوڑوں سے محبت رکھتے ہیں۔ان کے درمیان عنقریب قتل کی گرم بازاری ہوگی جہاں زخمی مقتول کے اوپر سے گزریں گے

(۱)بنی تمیم کے سردار احنف بن قیس سے خطاب ہے جنہوں نے رسول اکرم (ص) کی زیارت نہیں کی مگر اسلام قبول کیا اورجنگ جمل کے موقع پر اپنے علاقہ میں ام المومنین کے فتنوں کا دفاع کرتے رہے اور پھر جنگ صفین میں مولائے کائنات کے ساتھ شریک ہوگئے اور جہاد راہ خداکا حق ادا کردیا

۲۲۹

ويَكُونَ الْمُفْلِتُ أَقَلَّ مِنَ الْمَأْسُورِ.

فَقَالَ لَه بَعْضُ أَصْحَابِه - لَقَدْ أُعْطِيتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عِلْمَ الْغَيْبِ - فَضَحِكَعليه‌السلام وقَالَ لِلرَّجُلِ وكَانَ كَلْبِيّاً.

يَا أَخَا كَلْبٍ لَيْسَ هُوَ بِعِلْمِ غَيْبٍ - وإِنَّمَا هُوَ تَعَلُّمٌ مِنْ ذِي عِلْمٍ - وإِنَّمَا عِلْمُ الْغَيْبِ عِلْمُ السَّاعَةِ - ومَا عَدَّدَه اللَّه سُبْحَانَه بِقَوْلِه –( إِنَّ الله عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ - ويُنَزِّلُ الْغَيْثَ ويَعْلَمُ ما فِي الأَرْحامِ - وما تَدْرِي نَفْسٌ ما ذا تَكْسِبُ غَداً - وما تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ) الآيَةَ - فَيَعْلَمُ اللَّه سُبْحَانَه مَا فِي الأَرْحَامِ - مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وقَبِيحٍ أَوْ جَمِيلٍ - وسَخِيٍّ أَوْ بَخِيلٍ - وشَقِيٍّ أَوْ سَعِيدٍ - ومَنْ يَكُونُ فِي النَّارِ حَطَباً - أَوْ فِي الْجِنَانِ لِلنَّبِيِّينَ مُرَافِقاً - فَهَذَا عِلْمُ الْغَيْبِ الَّذِي لَا يَعْلَمُه أَحَدٌ إِلَّا اللَّه - ومَا سِوَى ذَلِكَ فَعِلْمٌ - عَلَّمَه اللَّه نَبِيَّه فَعَلَّمَنِيه - ودَعَا لِي بِأَنْ يَعِيَه صَدْرِي - وتَضْطَمَّ عَلَيْه جَوَانِحِي

اوراب بھاگنے والے قیدیوں سے کم ہوں گے ( یہ تاتاریوں کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے جہاں چنگیز خاں اور اس کی قوم نے تمام اسلامی ملکوں کو تباہ و برباد کردیا اور کتے' سور کو اپنی غذا بنا کر ایسے حملے کئے کہ شہروں کو خاک میں ملا دیا) یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ آپ تو علم غیب کی باتیں کر رہے ہیں تو آپ نے مسکرا کر اس کلبی شخص سے فرمایا اے برادر کلبی! یہ علم غیب نہیں ہے بلکہ صاحب علم سے تعلم ہے۔علم غیب قیامت کا اور ان چیزوں کا علم ہے جن کو خدانے قرآن مجید میں شمار کردیا ہے کہ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اور بارش کابرسانے والا وہی ہے اور پیٹ میں پلنے والے بچہ کا مقدر وہی جانتا ہے۔اس کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم ہے کہ کل کیا کمائے گا اور کس سر زمین پرموت آئے گی۔ پروردگار جانتا ہے کہ رحم کا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی حسین ہے یا قبیح' سخی ہے یا بخیل' شقی ہے یا سعید' کون جہنم کا کندہ بن جائے گا اور کون جنت میں ابنیاء کرام کا ہمنشین ہوگا۔یہ وہ علم غیب ہے جسے خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔اس کے علاوہ جو بھی علم ہے وہ ایسا علم ہے جسے اللہ نے پیغمبر (ص) کو تعلیم دیا ہے اور انہوں نے مجھے اس کی تعلیم دی ہے اورمیرے حق میں دعا کی ہے کہ میرا سینہ اسے محفوظ کرلے اور اس دل میں اسے محفوظ کردے جومیرے پہلو میں ہے۔

۲۳۰

(۱۲۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكر المكاييل والموازين

عِبَادَ اللَّه إِنَّكُمْ ومَا تَأْمُلُونَ - مِنْ هَذِه الدُّنْيَا أَثْوِيَاءُ مُؤَجَّلُونَ - ومَدِينُونَ مُقْتَضَوْنَ أَجَلٌ مَنْقُوصٌ - وعَمَلٌ مَحْفُوظٌ - فَرُبَّ دَائِبٍ مُضَيَّعٌ ورُبَّ كَادِحٍ خَاسِرٌ - وقَدْ أَصْبَحْتُمْ فِي زَمَنٍ لَا يَزْدَادُ الْخَيْرُ فِيه إِلَّا إِدْبَاراً - ولَا الشَّرُّ فِيه إِلَّا إِقْبَالًا - ولَا الشَّيْطَانُ فِي هَلَاكِ النَّاسِ إِلَّا طَمَعاً - فَهَذَا أَوَانٌ قَوِيَتْ عُدَّتُه - وعَمَّتْ مَكِيدَتُه وأَمْكَنَتْ فَرِيسَتُه - اضْرِبْ بِطَرْفِكَ حَيْثُ شِئْتَ مِنَ النَّاسِ - فَهَلْ تُبْصِرُ إِلَّا فَقِيراً يُكَابِدُ فَقْراً - أَوْ غَنِيّاً بَدَّلَ نِعْمَةَ اللَّه كُفْراً - أَوْ بَخِيلًا اتَّخَذَ الْبُخْلَ بِحَقِّ اللَّه وَفْراً - أَوْ مُتَمَرِّداً كَأَنَّ بِأُذُنِه عَنْ سَمْعِ الْمَوَاعِظِ وَقْراً - أَيْنَ أَخْيَارُكُمْ وصُلَحَاؤُكُمْ - وأَيْنَ أَحْرَارُكُمْ وسُمَحَاؤُكُمْ - وأَيْنَ الْمُتَوَرِّعُونَ فِي مَكَاسِبِهِمْ - والْمُتَنَزِّهُونَ فِي مَذَاهِبِهِمْ - أَلَيْسَ قَدْ ظَعَنُوا جَمِيعاً - عَنْ هَذِه الدُّنْيَا الدَّنِيَّةِ -

(۱۲۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(ناپ تول کے بارے میں )

اللہ کے بندو! تم اور جو کچھ اس دنیا سے توقع رکھتے ہو سب ایک مقررہ مدت کے مہمان ہیں اور ایسے قرضدار ہیں جن سے قرضہ کامطالبہ ہو رہا ہو۔عمریں گھٹ رہی ہیں اور اعمال محفوظ کئے جا رہے ہیں۔کتنے دوڑ دھوپ کرنے والے ہیں جن کی محنت برباد ہو رہی ہے اور کتنے کوشش کرنے والے ہیں جو مسلسل گھاٹے کاشکار ہیں تم ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے ہو جس میں نیکی مسلسل منہ پھیر کر جا رہی ہے اور برائی برابر سامنے آرہی ہے۔شیطان لوگوں کو تباہ کرنے کی ہوس میں لگا ہوا ہے۔اس کا سازو سامان مستحکم ہو چکا ہے۔اس کی سازشیں عام ہو چکی ہیں اور اس کے شکار اس کے قابو میں ہیں۔تم جدھر چاہو نگاہ اٹھا کر دیکھ لو سوائے اس فقیر کے جو فقر کی مصیبتیں جھیل رہا ہے اور اس امیر کے جس نے نعمت خدا کی نا شکری کی ہے اور اس بخیل کے جس نے حق خدا میں بخل ہی کو مال کے اضافہ کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اس سرکش کے جس کے کان نصیحتوں کے لئے بہترے ہوگئے ہیں اور کچھ نظرنہیں آئے گا۔کہاں چلے گئے وہ نیک اور صالح بندے اور کدھر ہیں وہ شریف اور کریم النفس لوگ ۔کہاں ہیں وہ افراد جو کسب معاش میں احتیاط برتنے والے تھے اور راستوں میں پاکیزہ راستہ اختیار کرنے والے تھے کیا سب کے سب اس پست اور زندگی کو مکدربنا دینے والی دنیا سے نہیں چلے گئے

۲۳۱

والْعَاجِلَةِ الْمُنَغِّصَةِ - وهَلْ خُلِقْتُمْ إِلَّا فِي حُثَالَةٍ - لَا تَلْتَقِي إِلَّا بِذَمِّهِمُ الشَّفَتَانِ - اسْتِصْغَاراً لِقَدْرِهِمْ وذَهَاباً عَنْ ذِكْرِهِمْ - فَ «إِنَّا لِلَّه وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ» - ظَهَرَ الْفَسَادُ فَلَا مُنْكِرٌ مُغَيِّرٌ - ولَا زَاجِرٌ مُزْدَجِرٌ - أَفَبِهَذَا تُرِيدُونَ أَنْ تُجَاوِرُوا اللَّه فِي دَارِ قُدْسِه - وتَكُونُوا أَعَزَّ أَوْلِيَائِه عِنْدَه - هَيْهَاتَ لَا يُخْدَعُ اللَّه عَنْ جَنَّتِه - ولَا تُنَالُ مَرْضَاتُه إِلَّا بِطَاعَتِه - لَعَنَ اللَّه الآمِرِينَ بِالْمَعْرُوفِ التَّارِكِينَ لَه - والنَّاهِينَ عَنِ الْمُنْكَرِ الْعَامِلِينَ بِه.

(۱۳۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لأبي ذر رحمهالله - لما أخرج إلى الربذة

يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ غَضِبْتَ لِلَّه فَارْجُ مَنْ غَضِبْتَ لَه - إِنَّ الْقَوْمَ خَافُوكَ عَلَى دُنْيَاهُمْ وخِفْتَهُمْ عَلَى دِينِكَ - فَاتْرُكْ فِي أَيْدِيهِمْ مَا خَافُوكَ عَلَيْه - واهْرُبْ مِنْهُمْ بِمَا خِفْتَهُمْ عَلَيْه - فَمَا أَحْوَجَهُمْ إِلَى مَا مَنَعْتَهُمْ -

اور کیا تمہیں ایسے افراد میں نہیں چھوڑ گئے جن کی حقارت اور جن کے ذکر سے اعراض کی بنا پر ہونٹ سوائے ان کی مذمت کے کسی بات کے لئے آپس میں نہیں ملتے ہیں۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔فساد اس قدر پھیل چکا ہے کہ نہ کوئی حالات کا بدلنے والاہے اور نہ کوئی منع کرنے والا اور نہخود پر پرہیز کرنے والا ہے۔تو کیا تم انہیں حالات کے ذریعہ خدا کے مقدس جوارمیں رہنا چاہیے ہو اوراس کے عزیز ترین دوست بننا چاہتے ہو۔افسوس ! اللہ کو جنت کے بارے میں دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی مرضی کو اطاعت کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے۔اللہ لعنت کرے ان لوگوں پر جو دوسروں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور خود عمل نہیں کرتے ہیں ۔سماج کو برائیوں سے روکتے ہیں اور خود انہیں میں مبتلا ہیں۔

(۱۳۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو آپ نے ابو ذر غفاری سے فرمایا جب انہیں ربذہ کی طرف شہر بدر کردیا گیا )

ابو ذر تمہارا غیظ و غضب اللہ کے لئے ہے لہٰذا اس سے امید وابستہ رکھو جس کے لئے یہ غیظ و غضب اختیار کیا ہے۔قوم کو تم سے اپنی دنیاکے بارے میں خطرہ تھا اور تمہیں ان سے اپنے دین کے بارے میں خوف تھا لہٰذا جس کا انہیں خطرہ تھا وہ ان کے لئے چھوڑ دو اور جس کے لئے تمہیں خوف تھا اسے بچاکرنکل جائو۔یہ لوگ بہر حال اس کے محتاج ہیں جس کو تم نے ان سے روکا ہے

۲۳۲

ومَا أَغْنَاكَ عَمَّا مَنَعُوكَ - وسَتَعْلَمُ مَنِ الرَّابِحُ غَداً والأَكْثَرُ حُسَّداً - ولَوْ أَنَّ السَّمَاوَاتِ والأَرَضِينَ كَانَتَا عَلَى عَبْدٍ رَتْقاً - ثُمَّ اتَّقَى اللَّه لَجَعَلَ اللَّه لَه مِنْهُمَا مَخْرَجاً - لَا يُؤْنِسَنَّكَ إِلَّا الْحَقُّ - ولَا يُوحِشَنَّكَ إِلَّا الْبَاطِلُ - فَلَوْ قَبِلْتَ دُنْيَاهُمْ لأَحَبُّوكَ - ولَوْ قَرَضْتَ مِنْهَا لأَمَّنُوكَ.

(۱۳۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه يبين سبب طلبه الحكم ويصف الإمام الحق

أَيَّتُهَا النُّفُوسُ الْمُخْتَلِفَةُ والْقُلُوبُ الْمُتَشَتِّتَةُ - الشَّاهِدَةُ أَبْدَانُهُمْ والْغَائِبَةُ عَنْهُمْ عُقُولُهُمْ - أَظْأَرُكُمْ عَلَى الْحَقِّ - وأَنْتُمْ تَنْفِرُونَ عَنْه نُفُورَ الْمِعْزَى مِنْ وَعْوَعَةِ الأَسَدِ - هَيْهَاتَ أَنْ أَطْلَعَ بِكُمْ سَرَارَ الْعَدْلِ - أَوْ أُقِيمَ اعْوِجَاجَ الْحَقِّ - اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ - أَنَّه لَمْ يَكُنِ الَّذِي كَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِي سُلْطَانٍ - ولَا الْتِمَاسَ شَيْءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ - ولَكِنْ لِنَرِدَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ -

اورتم اس سے بہرحال بے نیاز ہو جس سے ان لوگوں نے تمہیں محروم کیا ہے عنقریب یہ معلوم ہو جائے گا کہ فائدہ میں کون رہا اور کس سے حسد کرنے والے زیادہ ہیں۔یاد رکھو کہ کسی بندہ خدا پر اگر زمین وآسمان دونوں کے راستے بند ہوجائیں اور وہ تقوائے الٰہی اختیار کرلے تو اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال دے گا۔دیکھو تمہیں صرف حق سے انس اور باطل سے وحشت ہونی چاہیے تم اگر ان کی دنیا کو قبول کر لیتے تو یہ تم سے محبت کرتے اور اگردنیا میں سے اپنا حصہ لے لیتے تو تمہاری طرف سے مطمئن ہو جاتے ۔

(۱۳۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اپنی حکومت طلبی کا سبب بیان فرمایا ہے اور امام بر حق کے اوصاف کا تذکرہ کیا ہے )

اے وہ لوگو جن کے نفس مختلف ہیں اوردل متفرق۔بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب ۔میں تمہیں مہرانی کے ساتھ حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس طرح فرار کر تے ہو جیسے شیر کی ڈرکار سے بکریاں۔افسوس تمہارے ذریعہ عدل کی تاریکیوں کو کیسے روشن کیا جا سکتا ہے اور حق میں پیداہو جانے والی کجی کو کس طرح سیدھا کیا جا سکتا ہے۔خدایا تو جانتا ہے کہ میں نے حکومت کے بارے میں جو اقدام کیا ہے اس میں نہ سلطنت کی لالچ تھی اور نہمالی دنیا کی تلاش۔میرا مقصد صرف یہ تھا کہ دین کے آثارکو ان کی منزل تک پہنچائوں

۲۳۳

ونُظْهِرَ الإِصْلَاحَ فِي بِلَادِكَ - فَيَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ - وتُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ - اللَّهُمَّ إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَنَابَ - وسَمِعَ وأَجَابَ - لَمْ يَسْبِقْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّه بِالصَّلَاةِ.

وقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّه لَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ الْوَالِي عَلَى الْفُرُوجِ - والدِّمَاءِ والْمَغَانِمِ والأَحْكَامِ - وإِمَامَةِ الْمُسْلِمِينَ الْبَخِيلُ - فَتَكُونَ فِي أَمْوَالِهِمْ نَهْمَتُه - ولَا الْجَاهِلُ فَيُضِلَّهُمْ بِجَهْلِه - ولَا الْجَافِي فَيَقْطَعَهُمْ بِجَفَائِه - ولَا الْحَائِفُ لِلدُّوَلِ فَيَتَّخِذَ قَوْماً دُونَ قَوْمٍ - ولَا الْمُرْتَشِي فِي الْحُكْمِ - فَيَذْهَبَ بِالْحُقُوقِ - ويَقِفَ بِهَا دُونَ الْمَقَاطِعِ - ولَا الْمُعَطِّلُ لِلسُّنَّةِ فَيُهْلِكَ الأُمَّةَ.

(۱۳۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يعظ فيها ويزهد في الدنيا

حمد اللَّه

نَحْمَدُه عَلَى مَا أَخَذَ وأَعْطَى -

اور شہروں میں اصلاح پیدا کردوں تاکہ مظلوم بندے محفوظ ہو جائیں اور معطل حدود قائم ہو جائیں۔خدایا تجھے معلوم ہے کہ میں نے سب سے پہلے تیریر طرف رخ کیا ہے۔تیری آواز سنی ہے اوراسے قبول کیا ہے اور تیری بندگی میں رسول اکرم (ص) کے علاوہ کسی نے بھی مجھ پرسبقت نہیں کی ہے۔

تم لوگوں کو معلوم ہے کہ لوگوں کی آبرو۔ ان کی جان۔ان کے منافع۔الٰہی احکام اور امامت مسلمین کاذمہ دار نہ کوئی بخیل ہو سکتا ہے کہ وہ اموال مسلمین پر ہمیشہ دانت لگائے رہے گا۔اور نہ کوئی جاہل ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی جہالت سے لوگوں کو گمراہ کردے گا اور نہ کوئی بد اخلاق ہو سکتا ہے کہ وہ بد اخلاقی کے چر کے لگاتا رہے گا اور نہ کوئی مالیات کابددیانت ہوسکتا ہے کہوہ ایک کو مال دے گا اور ایک کومحروم کردے گا اورنہ کوئی فیصلہ میں رشوت لینے والا ہو سکتا ہے کہ وہ حقوق کو برباد کردے گا اور انہیں ان کی منزل تک نہ پہنچنے دے گا اور نہ کوئی سنت کو معطل کرنے والا ہوسکتا ہے کہ وہ امت کو ہلاک و برباد کردے گا۔

(۱۳۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کو نصیحت فرمائی ہے اور زہد کی ترغیب دی ہے )

شکر ہے خدا کا اس پر بھی جو دیا ہے اور اس پر بھی جولے لیا ہے ۔اس کے انعام پر بھی

۲۳۴

وعَلَى مَا أَبْلَى وابْتَلَى – الْبَاطِنُ لِكُلِّ خَفِيَّةٍ - والْحَاضِرُ لِكُلِّ سَرِيرَةٍ - الْعَالِمُ بِمَا تُكِنُّ الصُّدُورُ - ومَا تَخُونُ الْعُيُونُ - ونَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه غَيْرُه - وأَنَّ مُحَمَّداً نَجِيبُه وبَعِيثُه - شَهَادَةً يُوَافِقُ فِيهَا السِّرُّ الإِعْلَانَ والْقَلْبُ اللِّسَانَ.

عظة الناس

ومنها: فَإِنَّه واللَّه الْجِدُّ لَا اللَّعِبُ - والْحَقُّ لَا الْكَذِبُ - ومَا هُوَ إِلَّا الْمَوْتُ أَسْمَعَ دَاعِيه - وأَعْجَلَ حَادِيه - فَلَا يَغُرَّنَّكَ سَوَادُ النَّاسِ مِنْ نَفْسِكَ - وقَدْ رَأَيْتَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ - مِمَّنْ جَمَعَ الْمَالَ وحَذِرَ الإِقْلَالَ - وأَمِنَ الْعَوَاقِبَ طُولَ أَمَلٍ واسْتِبْعَادَ أَجَلٍ - كَيْفَ نَزَلَ بِه الْمَوْتُ فَأَزْعَجَه عَنْ وَطَنِه - وأَخَذَه مِنْ مَأْمَنِه - مَحْمُولًا عَلَى أَعْوَادِ الْمَنَايَا - يَتَعَاطَى بِه الرِّجَالُ الرِّجَالَ - حَمْلًا عَلَى الْمَنَاكِبِ - وإِمْسَاكاً بِالأَنَامِلِ - أَمَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَأْمُلُونَ بَعِيداً - ويَبْنُونَ مَشِيداً ويَجْمَعُونَ كَثِيراً - كَيْفَ أَصْبَحَتْ بُيُوتُهُمْ قُبُوراً - ومَا جَمَعُوا بُوراً - وصَارَتْ أَمْوَالُهُمْ لِلْوَارِثِينَ - وأَزْوَاجُهُمْ لِقَوْمٍ آخَرِينَ - لَا فِي حَسَنَةٍ يَزِيدُونَ

اور اس کے امتحان پربھی۔وہ ہر مخفی چیز کے اندر کابھی علم رکھتا ہے اور ہر پوشیدہ امر کے لئے حاضر بھی ہے۔دلوں کے اندر چھپے ہوئے اسرار اورآنکھوں کی خیانت سب کو بخوبی جانتا ہے اورمیں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور حضرت محمد (ص)اس کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور اس گواہی میں باطن ظاہر سے اور دل زبان سے ہم آہنگ ہے۔

خدا کی قسم وہ شے جو حقیقت ہے اورکھیل تماشہ نہیں ہے۔حق ہے اور جھوٹ نہیں ہے وہ صرف موت ہے جس کے داعی نے اپنی آواز سب کو سنا دی ہے اورجس کا ہنکانے والا جلدی مچائے ہوئے ہے لہٰذا خبردار لوگوں کی کثرت تمہارے نفس کو دھوکہ میں نہ ڈال دے۔تم دیکھ چکے ہو کہ تم سے پہلے والوں نے مالک جمع کیا۔افلاس سے خوفزدہ رہے۔انجام سے بے خبر رہے۔صرف لمبی لمبی امیدوں اور موت کی تاخیر کے خیال میں رہے اورایک مرتبہ موت نازل ہوگئی اور اس نے انہیں وطن سے بے وطن کردیا ۔محفوظ مقامات سے گرفتار کرلیا اور تابوت پر اٹھوادیا جہاں لوگ کاندھوں پر اٹھائے ہوئے۔انگلیوں کاسہارا دئیے ہوئے ایک دوسرے کے حوالے کر رہے تھے۔کیاتم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دور دراز امیدیں رکھتے تھے اورمستحکم مکانات بناتے تھے اوربے تحاشہ مال جمع کرتے تھے کہ کس طرح ان کے گھر قبروں میں تبدیل ہوگئے اورسب کیا دھرا تباہ ہوگیا۔اب اموال ورثہ کے لئے ہیں اور ازواج دوسرے لوگوں کے لئے نہ نیکیوں میں اضافہ کر سکتے ہیں

۲۳۵

ولَا مِنْ سَيِّئَةٍ يَسْتَعْتِبُونَ - فَمَنْ أَشْعَرَ التَّقْوَى قَلْبَه بَرَّزَ مَهَلُه - وفَازَ عَمَلُه فَاهْتَبِلُوا هَبَلَهَا - واعْمَلُوا لِلْجَنَّةِ عَمَلَهَا - فَإِنَّ الدُّنْيَا لَمْ تُخْلَقْ لَكُمْ دَارَ مُقَامٍ - بَلْ خُلِقَتْ لَكُمْ مَجَازاً - لِتَزَوَّدُوا مِنْهَا الأَعْمَالَ إِلَى دَارِ الْقَرَارِ - فَكُونُوا مِنْهَا عَلَى أَوْفَازٍ - وقَرِّبُوا الظُّهُورَ لِلزِّيَالِ

(۱۳۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يعظم اللَّه سبحانه ويذكر القرآن والنبي ويعظ الناس

عظمة اللَّه تعالى

وانْقَادَتْ لَه الدُّنْيَا والآخِرَةُ بِأَزِمَّتِهَا - وقَذَفَتْ إِلَيْه السَّمَاوَاتُ والأَرَضُونَ مَقَالِيدَهَا - وسَجَدَتْ لَه بِالْغُدُوِّ والآصَالِ الأَشْجَارُ النَّاضِرَةُ - وقَدَحَتْ لَه مِنْ قُضْبَانِهَا النِّيرَانَ الْمُضِيئَةَ - وآتَتْ أُكُلَهَا بِكَلِمَاتِه الثِّمَارُ الْيَانِعَةُ.

اور نہ برائیوں کے سلسلہ میں رضائے الٰہی کا سامان فراہم کر سکتے ہیں۔یاد رکھو جس نے تقویٰ کو شعار بنالیا وہی آگے نکل گیا اور اسی کا عمل کامیاب ہوگیا۔لہٰذا تقوی کے موقع کو غنیمت سمجھ اور جنت کے لئے اس کے اعمال انجام دے لو۔یہ دنیا تمہارے قیام(۱) کی جگہ نہیں ہے۔یہ فقط ایک گزر گاہ ہے کہ یہاں سے ہمیشگی کے مکان کے لئے سامان فراہم کرلو لہٰذا جلدی تیاری کرو اور سواریوں کو کوچ کے لئے اپنے سے قریب تر کرلو۔

(۱۳۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں اللہ کی عظمت اور قرآن کی جلالت کا ذکر ہے اور پھر لوگوں کو نصیحت بھی کی گئی ہے )

(پروردگار ) دنیا و آخرت دونوں نے اپنی باگ ڈور اسی کے حوالہ کر رکھی ہے اور زمین و آسمان نے اپنی کنجیاں اسی کی خدمت میں پیش کردی ہیں۔اس کی بارگاہ میں صبح و شام سر سبز شاداب درخت سجدہ ریز رہتے ہیں اور اپنی لکڑی سے چمکدار آگ نکالتے رہتے ہیں اور اسی کے حکم کے مطابق پکے ہوئے پھل پیش کر تے رہتے ہیں۔

(۱)انسانی زندگی میں کامیابی کا راز یہی ایک نکتہ ہے کہ یہ دنیا انسان کی منزل نہیں ہے بلکہ ایک گذر گاہ ہے جس سے گزر کر ایک عظیم منزل کی طرف جانا ہے اور یہ مالک کا کرم ہے کہ اس نے یہاں سے سامان فراہم کرنے کی اجازت دیدی ہے اور یہاں کے سامان کو وہاں کے لئے کارآمد بنادیا ہے۔یہ اوربات ہے کہ دونوں جگہ کا فرق یہ ہے کہ یہاں کے لئے سامان رکھاجاتا ہے تو کام آتا ہے اور وہاں کے لئے راہ خدا میں دے دیا جاتا ہے تو کام آتا ہے۔غنی اورمالداردنیا سجا سکتے ہیں لیکن آخرت نہیں بنا سکتے ہیں ۔وہ صرف کریم اور صاحب خیر افراد کے لئے ہے جن کاشعار تقویٰ ہے اور جن کا اعتماد وعدہ ٔ الٰہی پر ہے۔

۲۳۶

القرآن

منها: وكِتَابُ اللَّه بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ - نَاطِقٌ لَا يَعْيَا لِسَانُه - وبَيْتٌ لَا تُهْدَمُ أَرْكَانُه - وعِزٌّ لَا تُهْزَمُ أَعْوَانُه.

رسول اللَّه

منها: أَرْسَلَه عَلَى حِينِ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ - وتَنَازُعٍ مِنَ الأَلْسُنِ - فَقَفَّى بِه الرُّسُلَ وخَتَمَ بِه الْوَحْيَ - فَجَاهَدَ فِي اللَّه الْمُدْبِرِينَ عَنْه والْعَادِلِينَ بِه.

الدنيا

منها: وإِنَّمَا الدُّنْيَا مُنْتَهَى بَصَرِ الأَعْمَى - لَا يُبْصِرُ مِمَّا وَرَاءَهَا شَيْئاً - والْبَصِيرُ يَنْفُذُهَا بَصَرُه - ويَعْلَمُ أَنَّ الدَّارَ وَرَاءَهَا - فَالْبَصِيرُ مِنْهَا

شَاخِصٌ - والأَعْمَى إِلَيْهَا شَاخِصٌ - والْبَصِيرُ مِنْهَا مُتَزَوِّدٌ - والأَعْمَى لَهَا مُتَزَوِّدٌ.

عظة الناس

منها: واعْلَمُوا أَنَّه لَيْسَ مِنْ شَيْءٍ - إِلَّا ويَكَادُ صَاحِبُه يَشْبَعُ مِنْه - ويَمَلُّه إِلَّا الْحَيَاةَ فَإِنَّه لَا يَجِدُ فِي الْمَوْتِ رَاحَةً -

(قرآن حکیم)

کتاب خدا نگاہ کے سامنے ہے۔یہ وہ ناطق ہے جس کی زبان عاجز نہیں ہوتی ہے اور یہ وہ گھر ہے جس کے ارکان منہدم نہیں ہوتے ہیں۔یہی وہ عزت ہے جس کے اعوان و انصار شکست خوردہ نہیں ہوتے ہیں۔

(رسول اکرم (ص))

اللہ نے آپ کو اس وقت بھیجا جب رسولوں کا سلسلہ رکا ہوا تھا اور زبانیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں۔آپ کے ذریعہ رسولوں کے سلسلہ کو تمام کیا اور وحی کے سلسلہ کو موقوف کیا تو آپ نے بھی اس سے انحراف کرنے والوں اور اس کاہمسرٹھہرانے والوں سے جم کر جہاد کیا۔

(دنیا)

یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ہے جو اس کے ماوراء کچھ نہیں دیکھتا ہے جب کہ صاحب بصیرت کی نگاہ اس پار نکل جاتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ منزل اس کے ماورا ہے۔صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنے والا ہے اور اندھا اس کی طرف کوچ کرنے والا ہے۔بصیرا اس سے زاد راہ فراہم کرنے والا ہے اور اندھا اس کے لئے زاد راہ اکٹھا کرنے والا ہے ۔

(موعظہ)

یاد رکھو کہ دنیا میں جو شے بھی ہے اس کامالک سیر ہوجاتا ہے اور اکتا جاتا ہے علاوہ زندگی کے کہ کوئی شخص موت میں راحت نہیں محسوس کرتا ہے

۲۳۷

وإِنَّمَا ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الْحِكْمَةِ - الَّتِي هِيَ حَيَاةٌ لِلْقَلْبِ الْمَيِّتِ - وبَصَرٌ لِلْعَيْنِ الْعَمْيَاءِ - وسَمْعٌ لِلأُذُنِ الصَّمَّاءِ - ورِيٌّ لِلظَّمْآنِ وفِيهَا الْغِنَى كُلُّه والسَّلَامَةُ - كِتَابُ اللَّه تُبْصِرُونَ بِه - وتَنْطِقُونَ بِه وتَسْمَعُونَ بِه - ويَنْطِقُ بَعْضُه بِبَعْضٍ - ويَشْهَدُ بَعْضُه عَلَى بَعْضٍ - ولَا يَخْتَلِفُ فِي اللَّه - ولَا يُخَالِفُ بِصَاحِبِه عَنِ اللَّه - قَدِ اصْطَلَحْتُمْ عَلَى الْغِلِّ فِيمَا بَيْنَكُمْ - ونَبَتَ الْمَرْعَى عَلَى دِمَنِكُمْ - وتَصَافَيْتُمْ عَلَى حُبِّ الآمَالِ - وتَعَادَيْتُمْ فِي كَسْبِ الأَمْوَالِ - لَقَدِ اسْتَهَامَ بِكُمُ الْخَبِيثُ وتَاه بِكُمُ الْغُرُورُ - واللَّه الْمُسْتَعَانُ عَلَى نَفْسِي وأَنْفُسِكُمْ.

(۱۳۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد شاوره عمر بن الخطاب في الخروج إلى غزو الروم

وقَدْ تَوَكَّلَ اللَّه - لأَهْلِ هَذَا الدِّينِ بِإِعْزَازِ الْحَوْزَةِ

اور یہ بات اس حکمت(۱) کی طرح ہے جس میں مردہ دلوں کیزندگی ، اندھی آنکھوں کی بصارت ' بہرے کانوں کی سماعت اور پیاسے کی سیرابی کا سامان ہے اور اسی میں ساری مالداری ہے اور مکمل سلامتی ہے۔ یہ کتاب خدا ہے جس میں تمہاری بصارت اور سماعت کا سارا سامان موجود ہے۔اس میں ایک حصہ دوسرے کی وضاحت کرتا ہے اور ایک دوسرے کی گواہی دیتا ہے۔یہ خدا کے بارے میں اختلاف نہیں رکھتا ہے اور اپنے ساتھی کو خدا سے الگ نہیں کرتا ہے۔مگر تم نے آپس میں کینہ و حسد پر اتفاق کرلیا ہے اور اسی گھورےپر پر سبزہ اگ آیا ہے۔امیدوں کی محبت میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوا اور مال جمع کرنے میں یک دوسرے کے دشمن ہو۔شیطان نے تمہیں سر گرداں کردیا ہے اورفریب نے تم کو بہکا دیا ہے۔اب اللہ ہی میرے اور تمہارے نفسوں کے مقابلہ میں ایک سہارا ہے۔

(۱۳۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب عمر نے روم کی جنگ کے بارے میں آپ سے مشورہ کیا)

اللہ نے صاحبا ن دین کے لئے یہ ذمہ داری لے لی ہے کہ وہ ان کے حدود کو تقویت دے گا

(۱)اگرچہ دنیامیں زندہ رہنے کی خواہش عام طور سے آخرت کے خوف سے پیدا ہوتی ہے کہ انسان اپنے اعمال اور انجام کی طرف سے مطمئن نہیں ہوتا ہے اور اسی لئے موت کے تصور سے لرز جاتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ خواہش عیب نہیں ہے بلکہ یہی جذبہ ہے جو انسان کو عمل کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور اسی کے لئے انسان دن اور رات کوایک کردیتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خواہش حیات کو حکمت کے ساتھ استعمال کرے اور اس سے ویسا ہی کام لے جو حکمت صحیح اورف کر سلیم سے لیا جاتا ہے ورنہ یہی خواہش و بال جان بھی بن سکتی ہے۔

۲۳۸

وسَتْرِ الْعَوْرَةِ. والَّذِي نَصَرَهُمْ - وهُمْ قَلِيلٌ لَا يَنْتَصِرُونَ - ومَنَعَهُمْ وهُمْ قَلِيلٌ لَا يَمْتَنِعُونَ - حَيٌّ لَا يَمُوتُ.

إِنَّكَ مَتَى تَسِرْ إِلَى هَذَا الْعَدُوِّ بِنَفْسِكَ - فَتَلْقَهُمْ فَتُنْكَبْ - لَا تَكُنْ لِلْمُسْلِمِينَ كَانِفَةٌ دُونَ أَقْصَى بِلَادِهِمْ - لَيْسَ بَعْدَكَ مَرْجِعٌ يَرْجِعُونَ إِلَيْه - فَابْعَثْ إِلَيْهِمْ رَجُلًا مِحْرَباً - واحْفِزْ مَعَه أَهْلَ الْبَلَاءِ والنَّصِيحَةِ - فَإِنْ أَظْهَرَ اللَّه فَذَاكَ مَا تُحِبُّ - وإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى - كُنْتَ رِدْءاً لِلنَّاسِ ومَثَابَةً لِلْمُسْلِمِينَ.

(۱۳۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد وقعت مشاجرة بينه وبين عثمان فقال المغيرة بن الأخنس لعثمان: أنا أكفيكه، فقال عليعليه‌السلام للمغيرة:

اور ان کے محفوظ مقامات کی حفاظت کرے گا۔اور جس نے ان کی اس وقت مدد کی ہے جب وہ قلت کی بنا پر انتقام کے قابل بھی نہ تے اور اپنی حفاظت کا انتظام بھی نہ کر سکتے تھے وہ ابھی بھی زندہ ہے اور اس کے لئے موت نہیں ہے۔تم اگر خود دشمن کی طرف جائو گے اور ان کا سامنا کروگے اور نکبت(۱) میں مبتلا ہوگئے تو مسلمانوں کے لئے آخری شہرکے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہ رہ جائے گی اور تمہارے بعد میدان میں کوئی مرکز بھی نہ رہ جائے گا جس کی طرف رجوع کرسکیں لہٰذا مناسب یہی ہے کہ کسی تجربہ کارآدمی کو بھیج دو اور اس کے ساتھ صاحبان خیرو مہارت کی ایک جماعت کو کردو۔اس کے بعداگر خدا نے غلبہ دے دیا تویہی تمہارامقصد ہے اور اگر اس کے خلاف ہوگیا تو تم لوگوں کا سہارااورمسلمانوں کےلئے ایک پلٹنےکا مرکز رہو گے۔

(۱۳۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کااورعثمان کے درمیان اختلافات پیداہوا اورمغیرہ بن اخنس نے عثمان سے کہا کہ میں ان کا کام تمام کرسکتا ہوں توآپ نےفرمایا )

(۱)میدان جنگ میں نکبت و رسوائی کے احتمال کے ساتھ کسی مرد میدان کے بھیجنے کا مشورہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ میدان جہاد میں ثبات قدم تمہاری تاریخ نہیں ہے اور نہ یہ تمہارے بس کاکام ہے لہٰذا مناسب یہی ہے کہکسی تجربہ کارشخص کو ماہرین کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ کردو تاکہ اسلام کی رسوائی نہ ہوسکے اورمذہب کا وقار بر قرار رہے۔اس کے بعد تمہیں ''فاتح اعظم '' کا لقب تو بہر حال مل ہی جائے گا جس کے دورمیں علاقہ فتح ہوتا ہے تاریخ اسی کو فاتح کا لقب دیتی ہے اورمجاہدین کویکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔

یہ بھی امیر المومنین کا ایک حوصلہ تھا کہ شدید اختلافات اور بے پناہ مصائب کے باوجود مشورہ سے دریغ نہیں کیا اور وہی مشورہ دیا جو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں تھا۔اس لئے کہ آپ اس حقیقت سے بہر حال با خبرتھے کہافراد سے اختلاف مقصد اور مذہب کی حفاظت کو ذمہ داری سے بے نیاز نہیں بنا سکتا ہے اور اسلام کے تحفظ کی ذمہ داری ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے چاہے وہ بر سراقتدار ہو یا نہ ہو۔

۲۳۹

يَا ابْنَ اللَّعِينِ الأَبْتَرِ - والشَّجَرَةِ الَّتِي لَا أَصْلَ لَهَا ولَا فَرْعَ - أَنْتَ تَكْفِينِي - فَوَ اللَّه مَا أَعَزَّ اللَّه مَنْ أَنْتَ نَاصِرُه - ولَا قَامَ مَنْ أَنْتَ مُنْهِضُه - اخْرُجْ عَنَّا أَبْعَدَ اللَّه نَوَاكَ ثُمَّ ابْلُغْ جَهْدَكَ - فَلَا أَبْقَى اللَّه عَلَيْكَ إِنْ أَبْقَيْتَ!

(۱۳۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في أمر البيعة

لَمْ تَكُنْ بَيْعَتُكُمْ إِيَّايَ فَلْتَةً - ولَيْسَ أَمْرِي وأَمْرُكُمْ وَاحِداً - إِنِّي أُرِيدُكُمْ لِلَّه وأَنْتُمْ تُرِيدُونَنِي لأَنْفُسِكُمْ.

أَيُّهَا النَّاسُ أَعِينُونِي عَلَى أَنْفُسِكُمْ وايْمُ اللَّه لأُنْصِفَنَّ الْمَظْلُومَ مِنْ ظَالِمِه ولأَقُودَنَّ الظَّالِمَ بِخِزَامَتِه - حَتَّى أُورِدَه مَنْهَلَ الْحَقِّ وإِنْ كَانَ كَارِهاً.

(۱۳۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في شأن طلحة والزبير وفي البيعة له

طلحة والزبير

واللَّه مَا أَنْكَرُوا عَلَيَّ مُنْكَراً - ولَا جَعَلُوا بَيْنِي وبَيْنَهُمْ

اے بد نسل ملعون کے بچے ! اور اس درخت کے پھل جس کی نہ کوئی اصل ہے اور نہ فرع۔تو میرے لئے کافی ہو جائے گا؟ خدا کی قسم جس کا تومدد گار ہوگا اسکے لئے عزت نہیں ہے اور جسے تو اٹھائے گا وہ کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوگا۔نکل جا۔اللہ تیری منزل کو دور کردے۔جا اپنی کوششیں تمام کرلے۔خدا تجھ پر رحم نہ کرے گا اگر تو مجھ پرترس بھی کھائے۔

(۱۳۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(بیعت کے بارے میں )

میرے ہاتھوں پر تمہاری بیعت کوئی نا گہانی حادثہ نہیں ہے۔اور میرا اور تمہارا معاملہ ایک جیسا بھی نہیں ہے۔میں تمہیں اللہ کے لئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے فائدہ کے لئے چاہتے ہو۔

لوگو! اپنی نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں میری مدد کرو۔خدا کی قسم میں مظلوم کوظالم سے اس کاحق دلوائوں گا اور ظالم کو اس کی ناک میں نکیل ڈال کرکھینچوں گا تاکہ اسے چشمہ حق پر وارد کردوں چاہے وہ کسی قدرناراض کیوں نہ ہو۔

(۱۳۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(طلحہ و زبیر اور ان کی بیعت کے بارے میں )

خدا کی قسم ان لوگوں نے نہ میری کسی واقعی برائی کی گرفت کی ہے اورنہ میرے اور اپنے

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

نفسانی خواہش کی بناء پر دنیاوی ریاست و حکومت حاصل کرنے کی مذمت میں رسول خدا(ص) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے کافی حدیثیں مروی ہیں۔ یہاں تک کہ پیغمبر(ص) کا ارشاد ہے۔" حب الدنيارأس كل خطيئة" (یعنی دنیا کی محبت و رغبت ہر بدی کی سردار ہے) پس قطعا ابو عبداللہ علیہ السلام دنیاوی جاہ و ریاست کے طالب نہیں تھے اور نہ ایسی فانی حکومت کے لیے جانبازی کی تھی اور اپنے اہلبیت (ع) کی اسیری گوارا کی تھی۔اگر کوئی شخص اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے ان حضرات کو دنیا طلب کہے تو وہ یقینا قرآن مجید کا منکر ہے۔

امام حسین(ع) کا قیام ریاست اور خلافت ظاہری کے لیے نہیں تھا

رہا دوسرا فرقہ جس میں وہ لوگ ہیں جو حسی دلائل چاہتے ہیں۔ ان کے لیے محسوس دلائل بہت ہیں جن کو اس تنگ وقت میں مکمل طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ نمونتہ چند چیزوں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔

اول ۔ یزید پلید کے مقابلے میں حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام کا قیام اگر جاہ طلبی اور حکومت کے شوق میں ہوتا تو رسول اللہ(ص) ان حضرت کی نصرت کا حکم دیتے چنانچہ آپ کے سلسلوں سے اس بارے میں بکثرت روایتیں مروی ہیں جن میں سے صرف ایک پر اکتفا کرتا ہوں۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب۶۰ میں تاریخ بخاری و بغوی و ابن السکین و ذخائر العقبی امام الحرم شافعی سے سیرۃ ملا وغیرہ سے بروایت انس بن حارث بن بعیہ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ(ص) سے سنا کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

"إِنَ ابْنِي هَذَايَعْنِي الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِأَرْضٍ يُقالُ لها کَربَلا فَمَنْ شهد ذالک مِنْكُمْ فَلْيَنْصُرْهُ فخرج انس ابن الحارث الی کربلا فَقُتِلَ أَنَسٌ مَعَ الْحُسَيْن ِرَضِی الله عنه معهه"

یعنی بتحقیق میرا یہ فرزند حسین(ع) زمین کربلا پر قتل کیا جائے گا۔ پس تم میں سے جو شخص اس وقت موجود ہو وہ حسین(ع) کی مدد کرے ۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ انس بن حارث کربلا پہنچے اور حکم رسول(ص) پر عمل کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ قتل ہوئے۔

پس معلوم ہوا کہ حضرت کربلا میں حق کے لیے کھڑے ہوئے تھے نہ کہ دنیاوی ریاست کی محبت میں۔

ان چیزوں سے قطع نظر اگر معترصین غور کریں تو خود حضرت کی روانگی سے لے کر شہادت اور اسیری اہلبیت (ع) تک حق اور حقیقت برابر نمایاں ہے، اس لیے کہ اگر کسی ملک میں کوئی شخص ریاست کو خواہش رکھتا ہے اور حکومت وقت کے خلاف خروج کرنا چاہتا ہے تو اپنے عیال و اطفال کو لے کر نہیں نکلتا ہے ، چھوٹ چھوٹے اور شیر خوار بچوں اور حاملہ عورتوں کو ہمراہ نہیں لے جاتا بلکہ بذات خود ایک لچنی ہوئی فوج لے کر بڑھتا ہے اور جب دشمن پر غالب آجاتا ہے حالات قابو میں آجاتے ہیں اور انتظامات درست ہوجاتے ہیں۔ اس وقت بال بچوں کو بلواتا ہے۔

۳۴۱

حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کا اپنی عورتوں اور خورد سال بچوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا قافلہ لے کر سفر کرنا خود اس کی مکمل دلیل ہے کہ حضرت ریاست و خلافت ظاہری اور دشمن کو شکست دینے کے خیال سے تشریف نہیں لائے تھے اگر ایسا ارادہ ہوتا تو آپ یقینا یمن کی طرف جاتے جہاں سب آپ کے اور آپ کے پدر بزرگوار کے دوست اور پختہ عقیدت رکھنے والے تھے، اور اس کو اپنا مرکزی مقام قرار دے کر پورے ساز و سامان کے ساتھ بنفس بفیس حملے شروع کرتے چنانچہ حضرت کے بنی دوستوں اور بھائیوں نے بار بار یہی مشہورہ دیا ور ان کو مایوس ہونا پڑا کیوں کہ وہ لوگ حضرت کے اصلی نقطہ نظر اور مقصد سے واقف نہیں تھے۔

امام حسین (ع) کا قیام شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی حفاظت کے لیے تھا

لیکن خود حضرت جانتے تھے کہ ظاہری غلبے کے اسباب فراہم نہ ہوں گے لہذا مع عورتوں بچوں کے چوراسی افراد کے ہمراہ حضرت کا سفر ایک آخری اور بنیادی نتیجے کے لیے تھا کیوںکہ امام دیکھ رہے تھے کہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو ان کے جد بزرگوار خاتم الانبیاء نے اپنے خون جگر اور شہدائے بدر و احد و حنین کے لہو سے سینچا تھا اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسے باغبان کے سپرد کیا تھا تاکہ یہ اس کی نگہداشت کریں لیکن اس ماہر فن اور واقفکار باغبان کو ظلم و تعدی ، تلوار اور قتل و آتشزنی کا دبائو دال کر الگ کردیا گیا تھا۔ اور شجرہ طیبہ کی آبیاری سے روک دیا گیا جس سے توحید و نبوت کی بہار خزاں کی صورت اختیار کر رہی تھی۔ پھر بھی باغبان اصلی کی توجہ سے کبھی کبھی حقیقی اور کامل طاقت نہ سہی لیکن تھوڑی بہت تقویت پہنچ جاتی تھی یہاں تک باغ کے کل اختیارات جاہل ہٹ دھرم اور کینہ پرور باغبانوں ( یعنی بنی امیہ) کے ہاتھوں میں پہنچ گئے۔

خلیفہ سوم عثمان ابن عفان کے زمانہ خلافت سے جب بنی امیہ کےہاتھ پائوں کھلے اور یہی حکومت کے کرتا و دھرتا بنے، ابوسفیان کو جو اس وقت اندھا ہوچکا تھا۔ ہاتھ پکڑ کے دربار میں لائے اور اس نے بآواز بلند کہا۔" يابني أميةتداولوا الخلاف ة فانه لا جنةولانار" ( یعنی اے بنی امیہ اب دولت خلافت کو گھما کر اپنے ہی خاندان میں رکھو کیوںکہ جنت اور دوزخ کچھ بھی نہیں ہے۔ ( یعنی سب ڈھونگ ہے)

نیز کہا " يابني أميّةتلقّفوهاتلقّفالكرة،والذي يحلف به أبوسفيان مازلت أرجوهالكم ولتصيرنّ الىصبيانكم وراثة"

یعنی ابنی امیہ کوشش کر کے خلافت کے گیند کی طرح دبوچ لو۔ قسم اس چیز کی جس کی میں قسم کھاتا ہوں( اس سے مراویت ہیں جن کی یہ لوگ قسم کھاتے تھے) کہ میں ہمیشہ تمہارے لیے ایسی حکومت کا متمنی تھا اور تم بھی اس کی حفاظت کرو تاکہ تمہاری اولاد اس کی وارث ہو۔اس رسوائے زمانہ بد عقیدہ قوم نے تمام راستے

۳۴۲

مسدود کردئیے، حقیقی اور معنوی باغبانوں کی باغ سے بالکل بے دخل کردیا اور آب حیات پر پہرے بٹھادیئے۔ شجرہ طیبہ دھیرے دھیرے پژمردہ ہونے لگا یہاں تک کہ یزید پلید کے دور خلافت میں درخت شریعت کو کاٹ دیا گیا اور قریب تھا کہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ بالکل خشک ہوجائے۔ خدا کا نام فراموش ہو جائے اور دین کی حقیقت مٹ جائے۔

بدیہی چیز ہے کہ کوئی ہوشیار باغبان جب دیکھے کہ اس کے باغ پر ہر طرف سے آفتیں نازل ہو رہی ہیں تو اس کو فورا حفاظتی تدابیر اور علاج کی فکر کرنا چاہئیے ورنہ اس کے منافع اور پھلوں سے بالکل ہی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اس موقع پر بھی--گلستان توحید و رسالت ک باغبانی حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام جیسے عالم دین باغبان کے سپرد تھی جب آپ نے دیکھا کہ بنی امیہ کی ہٹ دھرمی اور الحاد و عناد نے بات کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ عنقریب توحید کا درخت خشک ہونے والا ہے بلکی وہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں تو آپ مردانہ وار اٹھ کھڑے ہوئے اور محض اور صرف محض باغ رسالت کی جڑوں کی آبیاری اور تقویت شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کے لیے کربلا کی طرف سفر اختیار کیا۔ کیونکہ آپ بخوبی جانتے تھے کہ درخت کی جڑوں میں خشکی دوڑ چکی ہے اور معمولی آب پاشی سے کوئی نتیجہ نہ ہوگا۔ جب تک اس کو پوری طاقت نہ پہنچائی جائے۔

جیسا کہ فلاحت کے علم عملی میں طریقہ ہے کہ جس وقت ہوشیار باغبان اور فلاح دیکھتے ہیں کہ کوئی درخت بالکل کمزور ہوگیا ہے اور اس کو زیادہ طاقت پہنچانے کی ضرورت ہے تو اس کا علاج قربانی سے کرتے ہیں یعنی کوئی گوسفند یا دوسرا جانور اس کے پاس ذبح کر کے اس کا خون اور گوشت و پوست درخت کی جڑ میں دفن کر دیتے ہیں تاکہ اس میں سرنو قوت اور نشو و نما پیدا ہوجائے۔ ریحانہ رسول حضرت سید الشہداء (ع) بھی ایک ماہر و عالم باغبان تھے۔ آپ نے دیکھا کہ شجرہ طیبہ کو سیرابی سے اس قدر محروم رکھا ہے ( بالخصوص اخیری برسوں اور بنی امیہ کے اقتدار میں) کہ معمولی سی آبیاری اور علمی خدمت سے شادابی نہ آئے گی جب تک فداکاری سے کام نہ لیا جائے۔ شجرہ طیبہ اور درخت شریعت کی سر سبزی قطعا قومی خونابے کی محتاج ہے۔ لہذا اپنے بہترین جوانوں ، خورد سال بچوں اور اصحاب کو لے کر قربانی اور شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو سیراب کرنے کے لیے کربلا کی طرف روانہ ہوگئے۔ بعض کوتاہ نظر لوگ کہتے ہیں کہ مدینے سے نکلے ہی کیوں؟ وہیں رہ کر علم مخالفت بلند کرتے اور قربانیاں دیتے لیکن وہ نہیں جانتے کہ اگر آپ مدینے میں رہتے تو آپ کا مقصد دانشمندان عالم سے پوشیدہ رہتا اور ان کو پتا نہ لگتا کہ حضرت کی مخالفت کس بنیاد پر تھی جس طرح اور ہزاروں حامیان دین کسی شہر میں حمایت حق کے لیے کھڑے ہوئے اور قتل ہوگئے لیکن کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ ان کا مقصد اور نقطہ نظر کیا تھا اور کیوں قتل ہوئے

۳۴۳

نیز دشمنوں نے بھی معاملہ کو دبا دینے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس امام حسین علیہ السلام جیسے یکتا دور اندیش مرد میدان حق و صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے ماہ رجب میں جس موقع پر لوگ عمرے کے لیے مکہ معظمہ میں جمع ہوتے ہیں تشریف لے گئے اور روز عرفہ تک خانہ خدا میں اکٹھا ہونے والے لاکھوں انسانوں کے سامنے اپنے خطبوں اور تقریروں کے ذریعے حق اور سچائی کو بے نقاب کیا اور سب کو بتایا کہ یزید پلید شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی جڑیں کاٹ رہا ہے اور یہ حقیقت عام مسلمانوں کے گوش گزار کردی کہ جو یزید اسلامی خلافت کا دعوے کرتا ہے وہ اپنے عمل سے دین کو ملیامٹ کر رہا ہے۔ شراب پیتا ہے ، جوا کھیلتا ہے،کتے اور بندر سے دل بہلاتا ہے احکام دین کو پامال کرتا ہے اور میرے نانا رسول خدا(ص) کی محنتوں کو برباد کر رہا ہے۔ میں اپنے جد بزرگوار کا دین مٹنے نہ دوں گا۔ مجھ پر واجب ہے کہ قربانی دے کر اور جان نثار کر کے اس کی حفاظت کروں۔ پس حضرت کا قیام اور مدینے سے مکے اور مکے سے کوفے اور عراق کی طرف خروج شعائر دین کی حفاظت اور بنی نوع انسان کو دین یزید پلید کے اطوار و کردار ، مفاسد اخلاق، بیہودہ عقائد اور نفرت انگیز جابرانہ حرکات سے روشناس کرانے کے لیے تھا۔ آپ کے بنی اعمام بھائی اور دوست جو منع کرنے کے لیے آتے تھے وہ عرض کرتے تھے کہ جن کوفے والوں نے آپ کا خیر مقدم کرنا چاہا ہے اور دعوت نامے بھیجے ہیں۔ وہ بے وفائی میں مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ یزید کی سلطنت اور بنی امیہ کے اقتدار سے جنہوں نے سالہا سال سے اس ملک کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں۔ آپ مقابلہ نہیں کرسکتے ، چونکہ اہل حق کم ہیں، لوگ دنیا کےبندے ہیں اور بنی امیہ کے پاس ان کو دنیاوی خوشحالی ملتی ہے۔ لہذا ان کے گرد جمع ہیں اور آپ کو کوئی نفع یا غلبہ نہیں ہوسکتا ۔ پس اس سفر کو ملتوی کیجئے اور اگر حجاز میں ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھتے تو یمن چلے جائیں کیونکہ وہاں آپ کے ماننے والے بہت ہیں ، وہ لوگ غیرت مند ہیں آپ کوتنہا نہ چھوڑیں گے اور آپ ان اطراف میں آرام سے زندگی بسر کرسکیں گے لیکن حضرت سب کے سامنے پوری وضاحت نہیں کر سکتے تھے لہذا ہر ایک کو مختصر جوابات سے خاموش فرماتے تھے البتہ بعض ہمراز اور خاص اعزہ جیسے اپنے بھائی محمد حنفیہ اور ان عباس سے فرماتے تھے کہ تم سچ کہتے ہو میں بھی جانتا ہوں کہ مجھ کو ظاہری غلبہ نہ ہوگا اور نہ میں فتح اور غلبہ ظاہری کے لیے جا رہا ہوں بلکہ قتل ہونے جاتا ہوں یعنی مظلومیت کی طاقت سے ظلم و فساد کی بنیاد ہلانا چاہتا ہوں۔

بعض کی تسکین قلب کے لیے اصلیت کو ظاہر کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ میں نے اپنے نانا رسول خدا(ص) کو خواب میں دیکھا کہ مجھ سے فرما رہے ہیں۔" اخرج إلى العراق فإنّ اللّه قدشاءأن يراك قتيلا" (یعنی عراق کی طرف سفر کرو کیوں کہ در اصل خدا تم کو شہید دیکھنا چاہتا ہے۔

محمد ابن حنفیہ اور ابن عباس نے عرض کیا کہ اگر یہ بات ہے تو آپ عورتوں کو کیوں لیے جارہے ہیں؟ فرمایا

۳۴۴

میرے جد کا ارشاد ہے کہ " إنّ اللّه قدشاءأن يراهنّ سبايا" ( یعنی در حقیقت اللہ نے ان کو اسیر دیکھنا چاہا ہے۔) بحکم رسول (ص) میں ان کو اسیری کے واسطے لیے جارہا ہوں یعنی میری شہادت اور اہل بیت (ع) کی اسیری میں یہ رموز اسرار پوشیدہ ہیں کہ عورتوں کی اسیری میری شہادت کا تتمہ ہو جو مظلومیت کا علم اپنے کاندھوں پر لے کر یزید کے مرکز خلافت و اقتدار کی طرف جائیں گی وہاں اس کی بنیادیں ہلائیں گی اور اس کے ظلم وکفر کا پرچم سرنگوں کریں گی۔

چنانچہ عقیلہ بنی ہاشم صدیقہ صغری جناب زینب کبری سلام اللہ علیہا نے یزید کے بھرے ہوئے دربار اور جشن فتح میں اشراف قوم، بزرگان بنی امیہ ، غیر ممالک کے سفراء اور اور رئوسا، یہود و نصاری کے سامنے جو تقریر کی اور سید الساجدین امام چہارم زین العابدین علی ابن الحسین علیہ السلام نے شام کی مسجد اموی میں بالائے منبر یزید کے مقابل جو مشہور و معروف خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس نے اس کے اقتدار کی طاقت کو زیر کر دیا، عظمت بنی امیہ کا پرچم سرنگوں کردیا۔ اور خواب غفلت سے لوگوں کی انکھیں کھول دیں۔

حضرت نے حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا :

"ايّهاالناس! اعطيناستّاوفضّلنابسبع،اعطيناالعلم والحلم والسّماحةوالفصاحةوالشّجاعةوالمحبّةفي قلوب المؤمنين،وفضّلنابأنّ منّاالنّبىّ المختارمحمّدا صلی الله عليه و آله وسلم،ومنّاالصّدّيق،ومنّاالطيّار،ومنّااسداللَّه واسدرسوله،ومنّاسبطاهذه الامّة و منا مهدی هذه الامة"

یعنی اے لوگو ہم کو ( یعنی آل محمد(ص) کو خدائے تعالی کی طرف سے ) چھ خصلتیں عطاکی گئی ہیں اور سات فضیلتوں کے ذریعے ہم کو ساری مخلوق پر ترجیح دی گئی ہے۔ ہم کو علم ، بردباری، جوانمردی، خوشروئی، فصاحت، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں محبت عطا ہوئی ہے کہ رسول مختار محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں سے ہین ، اسد اللہ اور اسد رسول (ص) ہم میں سے ہیں۔ اس امت کے و وسبط ( حسن و حسین(ع) ) ہم میں سے ہیں اور اس امت کے مہدی(عج) ( حضرت حجتہ ابن امام حسن العسکری عجل اللہ فرجہ ) ہم میں سے ہیں اس کے بعد اپنے کو پہچنواتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص مجھ کو پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ اب میرا حسب و نسب جان لے کہ میں صاحب صفات و فضائل مخصوصہ ( یہاں ان صفات کا طولانی بیان ہے جس کو مکمل طور سے بیان کرنے کا وقت نہیں) خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرزند ہوں۔ اس کے بعد اس منبر پر جہاں معاویہ کے زمانے سے شب و روز حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام پر کھلم کھلا لعنت اور سب وشتم کا سلسلہ قائم تھا اور حضرت پر جھوٹے الزامات عائد کئےجاتے تھے خود یزید اور رئوسائے بنی امیہ کے سے دشمن مجمع کے سامنے اپنے جدبزرگوار امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل و مناقب ( جن کو سننے کا اب تک شام والوں کو موقع ہی نہیں دیا گیا تھا) بیان کئے اور فرمایا ۔

"" أنا ابن من ضرب خراطين الخلق حتى قالوا: لا إله إلا الله.أنا أبن من ضرب بين يدي

۳۴۵

رسول الله نقرتين لعرض الصورة في صفحة مستقلة بسيفين وطعن برمحين، وهاجر الهجرتين، وبايع البيعتين، وقاتل ببدر وحنين، ولم يكفر بالله طرفة عين.

أنا أبن صالح المؤمنين، ووارث النبيين، وقامع الملحدين، ويعسوب المسلمين، ونور المجاهدين، وزين العابدين، وتاج البكائين، وأصبر الصابرين، وأفضل القائمين من آل ياسين، رسول رب العالمين.

أنا ابن المؤيد بجبرائيل، المنصور بميكائيل.

أنا ابن المحامي عن حرم المسلمين، وقاتل المارقين والناكثين والقاسطين والمجاهدين أعداءه الناصبين، وأفخر من مشى من قريش أجمعين، وأول من أجاب واستجاب لله ولرسوله من المؤمنين، وأول السابقين، وقاصم المعتدين، ومبيد المشركين، وسهم من مرامي الله على المنافقين، ولسكان حكمة العابدين، وناصر دين الله وولي أمر الله، وبستان حكمة الله، وعيبة علمه.

سمح، سخي بهي، بهلول، زكي، أبطحي، رضي، مقدام، همام، صابر، صوام، مهذب، قوام، قاطع الأصلاب، مفرق الأحزاب، أربطهم عناناً وأثبتهم جناناً، وأمضاهم عزيمة، وأشدهم شكيمة، أسد باسل، يطحنهم في الحروب إذا ازدلف الأسنة، وقربت الأعنة، طحن الرحا، ويذرهم فيها ذرو الريح الهشيم، ليث الحجاز وكبش العراق، مكي، مدني، خيفي، عقبي، بدري أحدي، شجري، مهاجري، من العرب سيدها، ومن الوغى ليثها، وارث المشعرين، وأبو السبطين: الحسن والحسين، ذك جدي علي بن أبي طالب (ع) " یعنی اس کا فرزند ہوں جس نے لوگوں کی ناکوں پر ضربیں لگائیں یہاں تک کہ انہوں نے لا الہ اللہ کہا میں اس کا فرزند ہوں جس نے رسول اللہ(ص) کے سامنے دو تلواروں سے جنگ کی ( یعنی ایک زمانے تک معمولی تلوار سے اور ایک مدت تک ذوالفقار سے ) دو نیزے چلائے، دو ہجرتیں کیں اور دوسری بیعتیں کیں، بدر وحنین میں کافروں سے جہاد کیا اور چشم زدن کے لیے بھی خدا سے کفر اختیار نہیں کیا۔ میں صالح المومنین انبیاء کے وارث، ملحدین کے سر توڑنے والے ، مسلمانوں کے بادشاہ جہاد کرنے والے کے نور اور عبادت کرنے والوں کی رونق و خوف خدا میں رونے والوں کے سرتاج، صبر کرنے والوں کے سردار اور اہلبیت(ع) رسول اللہ(ص) کے نماز گزاروں میں سب سے بہتر کا فرزند ہوں جس کی جبرئیل نے تائید کی اور میکائیل نے نصرت کی۔ میں فرزند ہوں مسلمانوں کی عزت بچانے والے، دین سے پھر جانے والوں (یعنی اہل نہروان) بیعت توڑنے والوں( یعنی اصحاب جمل) اور ظالموں اور باغیوں ( یعنی صفین والوں) کے قاتل اپنے ناصبی دشمنوں سے جہاد کرنے والے، طائفہ قریش کے سارے چلنے پھرنے والوں سے زیادہ صاحب فخر، سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول(ص) کی دعوت قبول کرنے والے ، ایمان کی طرف سبقت کرنے والوں کے پیش رو ظالمین کو توڑنے والے، مشرکین کو ہلاک کرنے والے

۳۴۶

منافقین پر خدا کے تیروں میں سے ایک تیر، پروردگار عالم کی زبان حکمت دین خدا کے مددگار ، امر الہی کے کفیل، حکمت خدا کے باغ، اس کے علم کے خزانے ، جوانمرد ، صاحب سخاوت ، کشادہ رو، نیک و پاکیزہ بطحا کے ساکن ، پسندیدہ صفات، میدان جنگ میں پیش قدمی کرنے والے، بزرگ سردار صبر کرنے والے، بلند اخلاق ، کثیر القیام، پشتوں کے قطع کرنے والے اور گمراہ گروہوں کے پراگندہ کرنے والے کا جس نے مستقل طور پر اپنے نفس کو ان سب سے زیادہ قابو میں رکھا جس کا دل سب سے زیادہ مضبوط اور جس کا شکم سب سے زیادہ محکم تھا ( یعنی مظلوموں کا حق ثابت کرنے میں جملہ افراد بشر سے زیادہ ثابت قدم تھا) میدان جنگ میں شیر زیاں تھا جو سواروں اور پیادوں کے اپنے نیزوں کے ساتھ قریب ہونے کے وقت مخالفین کو پیس کر رکھ دیتا تھا اور ان کو اس طرح ریزہ ریزہ اور متفرق کر دیتا تھا جیسے طوفانی آندھی خس و خاشاک کو منتشر کردیتی ہے ، حجاز والوں کا شیر، عراق والوں کا قائد، مکی، مدنی ، دین میں پاکیزہ ترین مسلم، عقبہ میں بیعت کرنے والا بدر و احد کا شہسوار ۔ بیعت شجرہ کا جوانمردہجرت کا یکتا فداکار ، عرب کا سید وسردار ، شیر پیشہ رہیجا۔ مشعرین کا وارث اور دو سبط پیغمبر حسن و حسین(ع) کا باپ، یہ ہیں میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل اس کے بعد فرمایا۔

"أناابن خديجةالكبرى ،أناابن فاطمةالزهراء،أناابن المزرحمن القفا،أناابن العطشان حتّى قضى،أناابن من منعه من الماء و احلوه علی سائر الوری. انا ابن من لا يغسل له و لا کفن يری. انا ابن من وقع راسه علی القنا. انا ابن من هتک حريمه بارضكربلا، انا ابن من جمه بارض و راسه باخری انا ابن من سبيت حريمه الی الشام تهدی. ثم انه صلوات الله عليه انتحب و بکی فلم يزل يقول انا انا حتی ضبع الناس بالبکاء والنحيب."

یعنی میں ہوں فرزند خدیجہ کبری(ع) کا، میں ہوں فرزند فاطمہ زہرا(ع) کا میں ہوں فرزند اس کا جو پشت گردن سے مذبوح ہوا۔ میں ہوں فرزند اس کا جو پیاسا دنیا سے اٹھا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس پر پانی بند کردیا گیا اور ساری مخلوق پر مباح رکھا گیا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کو نہ غسل دیا گیا نہ کفن ملا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کا سر مطہر نیزے پر بلند کیا گیا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کے حرم کو اسیر کر کے شام کی طرف لایا گیا۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے بہ آواز بلند گریہ فرمایا اور برابر انا انا فرماتے رہے یعنی یونہی مسلسل اپنے آبا و اجداد کے فضائل و مناقب اور پدر بزرگوار و اہلبیت (ع) کے مصائب بیان فرماتے رہے یہاں تک کہ لوگ چیخین مار مار کے روئے اور فریاد کرنے لگے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کے بعد بیان مصائب کی جو پہلی مجلس منعقد ہوئی وہ یہیں شام کی مسجد جامع اموی کے اندر تھی جس میں سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے جد بزرگوار امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل و مناقب نقل کرنے کے بعد دشمنوں کے مجمع میں اپنے پدر عالی قدر کے اس قدر مصائب بیان فرمائے کہ یزید پلید کی موجودگی میں شام والوں کی صدائے نالہ و بکا اس طرح بلند ہوئی جس سے یزید ڈر گیا اور وہاں بیٹھ نہیں سکا بلکہ گھبرا کر مسجد سے چلا گیا۔

اسی مسجد اور حضرت کی تقریر سے بنی امیہ کے خلاف لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہونے لگا ( جس سے مجبور ہو کر یزید نے سیاسی رنگ میں ندامت کا اظہار کیا اور عبید اللہ ابن مرجانہ ملعون پر لعنت کی کہ اس نے ایسی افسوسناک حرکت کی۔ آخر کار بنی امیہ کے کفر و ظلم اور الحاد کے

۳۴۷

محل کے اینٹ سے اینٹ بچ گئی۔ یہاں تک کہ آج اس نابکار قوم کے پایہ تخت شام کے اندر بنی امیہ قبر بھی موجود نہیں ہے البتہ بنی ہاشم کا قبرستان شامیوں کا مرکز توجہ ہے اور عترت و اہلبیت رسول(ص) کی کافی قبریں شیعہ و سنی عوام و خواص کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہیں۔

غرضیکہ تمام ارباب مقاتل اور تواریخ نے لکھا ہے کہ حضرت مدینے سے مکے اور کربلا تک برابر کنایہ اور صراحتا اپنی شہادت کی خبر دیتے رہے اور لوگوں کو سمجھاتے رہے کہ میں قتل ہونے کے لیے جا رہا ہوں۔

من جملہ اور خطبوں کے ایک تفصیلی خطبہ ہے جو حضرت نے روز ترویہ مکہ معظمہ میں تمام مسلمانوں کے سامنے ارشاد فرمایا اور جس میں صاف صاف اپنی شہادت کی خبر دی ۔ چنانچہ حمد الہی اور خاتم الانبیاء پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا :

" خط الموت على ولد آدم مخط القلادة على جيد الفتاة وما أولهني إلى أسلافي اشتياق يعقوب إلى يوسف ، وخير لي مصرع انا لاقيه ، كأني بأوصالي تقطعها عسلان الفلوات بين النواويس " (۱)

یعنی اولاد آدم(ع) کے موت اس طرح گلوگیر ہے جیسے جوان عورت کی گردن میں گلو بند ہیں اپنے اسلاف سے جاملنے کا کس قدر مشتاق ہوں جیسے کہ یعقوب یوسف(ع) کے لیے بیچین تھے اور میرے

گرنے کے لیے وہ زمین منتخب کی گئی ہے جہاں مجھ کو پہنچنا ہے، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ صحرائی بھیڑئیے نواویس و کربلا کے درمیان میرے جسم کا بند بند جدا کررہے ہیں، حضرت اس قسم کے جملوں سے لوگوں کو سمجھاتے تھے کہ میں کوفے اور مقام خلافت تک پہنچوں گا بلکہ نواویس اور کربلا کے درمیان خونخوار بھیڑیوں کے ہاتھوں قتل ہوجائوں گا ۔ بھیڑیوں سے مراد آپ کے قاتل اور بنی امیہ وغیرہ ہیں اور وہ خونخوار بھیڑیوں کے مانند مجھ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے قتل کریں گے۔

اس قسم کی باتوں اور روایتوں سے آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے شہادت کے قصد سے سفر فرمایا تھا نہ کہ ریاست و خلافت کے خیال سے۔ آپ راستے بھر مختلف طریقوں سے اپنی موت کی خبر دیتے تھے اور برابر ہر منزل پر اپنے اصحاب و اعزہ کو جمع کر کے فرماتے تھے کہ دینا کی پستی اور بے وقعتی کے لیے یہی واقعہ کافی ہے کہ حضرت یحی (ع) کا سر قلم کر کے ایک زنا کار عورت کے سامنے ہدیہ لے گئے تھے اور عنقریب مجھ مظلوم کا سر بھی بدن سے جدا کر کے یزید شراب خوار کے پاس لے جاییں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ جلیل القدر محدث ثقہ الاسلام حاجی شیخ عباس قمی طاب ثراہ نفس المہموم میں کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ محدث نوری رحمتہ اللہ نے کتاب نفس الرحمن میں کہا ہے کہ نواویس عیسائیوں کا قبرستان ۔ چنانچہ حواشی کفعمی میں لکھا ہے اور ہم نے سنا ہے کہ یہ قبرستان اس مقام پر واقع تھا جہان اب حر ابن یزید ریاحی کا مزار ہے یعنی شہر کربلا کے شمال جنوب میں اور کربلا جو لوگوں میں معروف ہے اور اس نہر کے کنارے ایک خطہ زمین ہے جو جنوب سے شہر کی طرف جارہی ہے اور مزار معروف بہ ابن حمزہ سے گزرتی ہے اس کے ایک حصے پر کھیت ہیں اور شہر کربلا ان دونوں کے درمیان ہے۔

۳۴۸

حضرات ذرا غور کیجئے کہ جس وقت کوفے سے دس فرسخ پر حر ابن یزید ریاحی نے ایک ہزار سواروں کے ساتھ حضرت کی راہ روکی اور عرض کیا کہ عبید اللہ ابن زیادکے حکم سے میں آپ کا نگران مقرر ہوا ہوں، نہ آپ کو کوفے جانے دوں گا اور نہ تا حکم ثانی ساتھ چھوڑوں گا تو حضرت کہنا مان کر کیوں اتر پڑَ اور اپنے کو حر کے قابو میں دے دیا۔

اگر حضرت امارت و خلافت کے خیال میں ہوتے تو لشکر حر کی خواہش ہرگز قبول نہ کرتے در آنحالیکہ حر کے ساتھ ایک ہزار سے زیادہ سپاہی نہیں تھے اور حضرت کے ہمراہ تیرہ سو سوار اور پیاے تھے جن میں قمر بنی ہاشم جناب عباس(ع) اور علی اکبر(ع) جیسے ہاشمی جوان بھی تھے جن میں سے ایک ایک فرد ایک ہزار سپاہیوں کو زیر کرنے کے لیے کافی تھا اور کوفے تک بھی دس فرسخ کچھ زیادہ نہیں تھے۔ قاعدے کے مطابق چاہئیے تو یہ تھا کہ ان کو شکست دے کر اپنے کو مرکز حکومت ( کوفہ) تک پہنچا دیتے جہاں لوگ آپ کے منتظر بھی تھے ۔ وہاں سازو سامان سے مضبوط ہو کر مقابلہ کرتے ۔۔۔۔ تاکہ غلبہ حاصل ہوتا ، نہ یہ کہ حر کی باتیں مان کے فورا ٹھہر جائیں اور اپنے کو ایک بیابیان میں دشمنوں کے اندر محصور کر لیں، کہ چار روز کے بعد جب دشمن کی کمک پہنچ جائے تو فرزند رسول (ص) کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑے ۔ حضرات اگر اس واقعے کے قرائن پر گہری نظر ڈالیے تو آپ کو خود ہی جواب مل جائے گا اور سمجھ میں آجائے گا کہ حضرت نے کسی اور ہی نیت سے یہ مسافت طے کی تھی ۔ اس لیے کہ اگر ریاست کی خواہش ہوتی تو جس وقت دشمنوں کا محاصرہ انتہائی شدت پر تھا اور چاروں طرف کوسوں تک دشمن کی فوجیں پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ ایسے طریقے اختیار نہ فرماتے کہ اپنی چھوٹی سی جماعت اور موجودہ طاقت کو بھی منتشر کردیں۔

عاشورا کی شب میں حضرت کا خطبہ ہمارے دعوے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ اس لیے کہ شب عاشور تک حضرت کی خدمت میں تیرہ سو سپاہی موجود تھے جو لڑنے مرنے پر آمادہ تھے لیکن اسی رات کو نماز مغربین کے بعد حضرت کرسی پر تشریف لے گئے اور ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں صاف صاف ایسے کلمات بیان فرمائے کہ اس لشکر اور جاہ طلب اشخاص پر خوف طاری ہوگیا ، تمام ارباب مقاتل نے لکھا ہے کہ حضرت نے فرمایا جو لوگ دنیاوی ریاست و حکومت کے خیال میں آئے ہیں وہ جان لیں کہ کل جو شخص اس سر زمین پر رہے گا وہ قتل ہوجائے گا۔ یہ لوگ سوا میرے کسی اور کو نہیں چاہتے ۔ میں تمہاری گردنوں سے اپنی بیعت اٹھائے لیتا ہوں، رات کا وقت ہے اٹھو اور چلے جائو ۔ ابھی حضرت کی تقریر ختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ ساری جماعت روانہ ہوگئی اور صرف بیالیس نفر باقی رہ گئے ، جن میں اٹھارہ بنی ہاشم اور چوبیس اصحاب تھے۔ آدھی رات کے بعد دشمن کے لشکر سے تیس بہادر سپاہی شبخوں کے ارادے سے نکل کے آئے لیکن جب حضرت کے تلاوت قرآن کی آواز سنی تو وجد کے عالم میں آکر امام کی خدا پرست فوج سے مل گئے۔ چنانچہ بناء بر مشہور یہی کل بہتر افراد روز عاشور حق پر قربان ہوئے جن میں سے اکثر زہاد و عباد اور قاریان قرآن تھے۔

یہ سب ایسے واضح دلائل اور قرائن ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ حضرت نے دنیاوی انقلاب کے قصد سے اور جاہ و سلطنت کی محبت میں مسند خلافت تک پہنچنے کے لیے سفر نہیں فرمایا تھا بلکہ آپ کا واحد مقصد ترویج دین حمایت حق اور حریم اسلام سے دفاع کرنا تھا۔ اور وہ بھی اس طریقے سے کہ جان نثار کر کے لا الہ الا اللہ کا پرچم بلند کریں اور کفر و فساد کا علم سر نگوں کردیں۔ کیونکہ دین

۳۴۹

کی نصرت و حمایت کبھی تو قتل کرنے سے ہوتی ہے اور کبھی قتل ہونے سے ۔ چنانچہ حضرت کمر باندھے مردانہ وار اٹھ کھڑے ہوئے اور مظلومیت کی قوت سے نیز احباب و اعزاء بالخصوص چھوٹے چھوٹے بچوں کی قربانیوں کی طاقت سے بنی امیہ کے ظلم و فساد کی جڑ اس طرح اکھاڑی کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو بلند کرنے اور شجرہ مقدسہ اصلہا ثابت کو سیراب کرنے میں آپ کی جلیل القدر خدمات کا آج ہر دوست و دشمن کو اعتراف ہے کہ یہاں تک کہ دیں سے بیگانہ افراد بھی دلیل و برہان کے روسے اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں۔

امام حسین (ع) کی مظلومیت پر انگلینڈ کی خاتون کا مقالہ

فرانس کے انیسویں صدی کے دائرۃ المعارف میں تین شہید کے عنوان سے انگلینڈ کی ایک ذی علم خاتون کا مقالہ ہے جو بہت تفصیلی ہے لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے کہ لکھتی ہیں تاریخ انسانیت میں اعلائے کلمہ حق کے لیے تین شخصیتوں نے ایسی جانبازی اور فداکاری دکھائی کہ سارے جانبازوں اور فداکاروں سے گوئے سبقت لے گئیں۔

اول یونان کے حکیم سقراط نے ایتھنس میں دوسرے حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام نے فلسطین میں ( یہ عقیدہ موصوفہ کا ہے جو عیسائی ہیں ۔ ورنہ ہم مسلمانوں کا اعتقاد تو یہ ے کہ حضرت مسیح مصلوب و مقتول نہیں ہوئے جیسا کہ سورہ نمبر۴ ( نساء) آیت نمبر۱۵۶ میں صریحی ارشاد ہے۔

"وَماقَتَلُوهُ وَماصَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِين َاخْتَلَفُوافِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّااتِّباعَ الظَّنّ ِوَماقَتَلُوه يَقِيناًبَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ"

یعنی عیسی بن مریم کو نہ قتل کیا نہ سولی دی بلکہ حقیقت ان پر مشتبہ ہوگئی اور جن لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیا وہ در حقیقت شک و شبہ میں مبتلا ہوگئے۔ ان کو سوا اپنے گمان کی پیروی کے کوئی علم حاصل نہیں تھا اور یقینی طور پر مسیح کو انہوں نے قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔

تیسرے مسلمانوں کے پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ ) کے فرزند حضرت حسین علیہ السلام ، نے اس کے بعد لکھا ہے کہ جب ان تینوں بزرگ شہیدوں میں سے ہر ایک شہادت و جانبازی کی کیفیت اور تاریخی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ حضرت حسین (ع) کی جانبازی اور فداکاری ان دو ہستیوں ( یعنی سقراط و عیسی(ع)) سے کہیں وزنی اور اہم تحی اور اسی وجہ سے آپ کو سید الشہداء کا لقب حاصل ہوا کیوں کہ سقراط اور حضرت مسیح نے خدا کی راہ میں صرف اپنی اپنی جانیں قربان کیں، لیکن حضرت حسین علیہ السلام نے سفر غربت اختیار کر کے اپنی جماعت سے دور ایک بیابان میں دشمنوں کے محاصرے کے اندر اپنے ایسے عزیزترین اعزہ کو حق پر قربان کیا اور ان کو اپنے ہاتھوں دشمن کے سامنے بھیج کے دین خدا پر نثار کیا جن میں سے ایک ایک کو ہاتھ سے دینا خود اپنا سر دینے سے زیادہ سخت تھا۔

مظلومیت حسین (ع) کی سب سے بڑی دلیل مسلمانوں کے سامنے آپ کا اپنے شیر خوار کی قربانی دینا ہے۔ اس لیے کہ کسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ ایک شیر خوار بچے کو بے قدر و قیمت پانی طلب کرنے کے لیے لایا جائے اور مکار و غاباز قوم پانی دینے کے عوض اس کو تیر جفا کا نشانہ بنادے۔

۳۵۰

دشمن کے اس عمل نے حسین(ع) کی مظلومیت کو ثابت کردیا اور اسی مظلومیت کی طاقت نے بنی امیہ کے مقتدر خاندان کی بساط عزت پلٹ کے اس کو رسوائے زمانہ بنا دیا۔ آپ کی اور آپ کے محترم اہلبیت (ع) ہی کی جانبازیوں کا نتیجہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دین کو از سر نو زندگی حاصل ہوئی۔ ( انتہی)

ڈاکٹر ماربین جرمنی، ڈاکٹر جوزف فرانسیسی اور دوسرے یورپین مورخین سب کے سب اپنی تاریخوں میں تصدیق کرتے ہیں کہ حضرت سید الشہداء علیہ السلام کا کردار اور ان بزرگوار کی فداکاری ہی مقدس دین اسلام کے لیے سبب حیات بنیں۔ یعنی آپ نے بنی امیہ کے ظلم و کفر کی رگیں کاٹ دیں، ورنہ اگر حضرت کے یہ خدمات اور نصرت حق میں ایسا ثابت قدم نہ ہوتا تو بنی امیہ دین توحید کی جڑیں بالکل ہی کاٹ دیتے اور خدا و رسول(ص) اور دین و شریعت کا نام ہی دنیا سے مٹا دیتے۔

نتیجہ مطلوب اور انکشاف حقیقت

پس میرے معروضات کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت سید الشہداء ارواحنا لہ الفداء کی مقاوست اور جنگ صرف دین کے لیے تھی جس کے انصاف پسند دوست و دشمن بھی معترف ہیں۔

لہذا حضرت کے زوار و عزادار اور دوستدار شیعہ جس وقت سنتے ہیں کہ آپ نے یزید سے اس لیے مقابلہ کیا کہ وہ حرام اور ناجائز افعال کا مرتکب تھا تو ان کو توجہ ہوجاتی ہے کہ بد اعمالیاں حضرت کی ناراضگی کا باعث ہیں اور پھر و محرمات و منکرات سے الگ رہنے کی کوشش کرتے ہیں جو امام کو ناگوار ہیں، اور واجبات پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جب وہ سنتے ہیں اور کتب مقاتل و تواریخ میں پڑھتے ہیں کہ حضرت نے روز عاشورا بلائوں کے اس ہجوم اور مصائب کی اس شدت میں جس کی مثال پیش کرنے سے تاریخ عالم قاصر ہے اپنی نماز ترک نہیں کی بلکہ نماز ظہر با جامعت ادا فرمائی تو ادائے واجبات بلکہ نوافل و مستحبات میں بھی سعی بلیغ سے کام لیتے ہیں تاکہ حضرت کے نزدیک محبوب اور لائق توجہ قرار پائیں۔ اس لیے کہ حضرت کا محبوب یقینا خدائے تعالی کا محبوب ہے لہذا جو تصور آپ یا دوسرے لوگوں نے قائم کیا ہے وہ خلاف حقیقت اور مغالطہ بازی ہے۔ آپ دھوکے میں ہیں اور مطلب غلط نکالا ہے بلکہ آپ حضرات کے قول کے بر خلاف اس طرح کی حدیثیں شیعوں کی روحانی قوت کو بیدار کر کے ان کو اور زیادہ عمل پر آمادہ کرتی ہیں۔ خصوصا جب علماء و ذاکرین مطالب کی تشریح کرتے ہیں اور حضرت کے فلسفہ شہادت کو کما حقہ بیان کرتے ہیں تو بہت ہی اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے خود برابر ان حقائق کامشاہدہ کیا ہے کہ ہر سال محرم میں حضرت کے طفیل اور ان مجلسوں کی برکت سے جو آپ کے نام منعقد ہوتی ہیں اور لوگ ان میں اکٹھا ہوتے ہیں۔ اکثر بہکے ہوئے نوجوان واعظین کرام اور مبلغین عظام کے تبلیغی بیانات سے متاثر ہو کر راہ راست اور صراط مستقیم پر آگئے اور جملہ افعال بد سے توبہ کر کے سچے شیعوں کی صف میں شامل ہوگئے۔

( جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو اکثر حضرات اشکبار آنکھوں کے ساتھ سکوت کے عالم میں ںظر آئے اور ہم نے ارادہ کیا کہ اب جلسہ برخاست کریں۔)

۳۵۱

نواب : قبلہ صاحب باوجودیکہ وقت کافی گزرا لیکن آپ نے ہم لوگوں کو حد سے زیادہ متاثر فرمایا اور اس بزرگ و فداکار شخصیت کو جو ریحانہ رسول(ص) تھی اپنے اس مختصر بیان سے بخوبی پہچنواکر ہم سب کو ممنون کیا۔ آپ کے جد رسول خدا(ص) آپ کو اس کا صلہ عنایت فرمائیں۔ میں ہیں سمجھتا کہ آج کی شب اس جلسے میں کوئی ایسا شخص ہو جس پر جناب کا اثر نہ پڑا ہو۔ خدا آپ سے راضی رہے اور اپنا لطف و کرم آپ کے شامل حال رکھے ہم کو اس طرح مستفیض فرمایا۔ در حقیقت بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہم اب تک لوگوں کی باتوں میں آکر ان کی اندھی تقلید کرتے رہے اور ان مظلوم آقا کی زیارت اور مجالس عزا کی شرکت کے فیوض و برکات سے محروم رہے یہ محض اس غلط پروپیگینڈے کا اثر تھا جو وہ تعصب کی بناء پر ہمارے درمیان کرتے رہے اور کہتے رہے کہ زیارت امام حسین(ع) اور مجالس عزا میں جانا بدعت ہے۔ واقعی کیا اچھی بدعت ہے جو انسان کو بیدار اور صاحب معرفت بناتی ہے اور اہلبیت(ع) رسول(ص) و خدمت گزاران دین و شریعت کی حقیت سے روشناس کرتی ہے۔

زیارت کا ثواب اور اس کے فوائد

خیر طلب : یہ جو آپ نے اہلبیت و عترت رسول (ع) کی عزاداری اور ان کی زیارت قبور کے متعلق بدعت کا جملہ فرمایا تو اس کا سرچشمہ قطعی طور پر نواصب و خوارج کے عقائد ہیں اور علماء اہلسنت نے بھی بغیر اس پر غور کئے ہوئے کہ بدعت وہ چیز ہے جس کے بارے میں خدا و رسول(ص) یا اہلبیت رسول(ع) کی جانب سے جو عدیل قرآن ہیں کوئی ہدایت نہ ملی ہو۔ بر بنائے عادت ان کی پیروی کی ہے حالانکہ امام حسین علیہ السلام کے لیے رونے اور ان کی زیارت کے بارے میں علاوہ اس کے کہ شیعوں کی معتبر کتابوں میں تواتر کےساتھ وارد ہوا ہے۔ خود آپ کی معتبر کتب اور مقاتل میں بھی تمام بڑے بڑے علماء نے کافی روایتیں نقل کی ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں اس سے قبل اشارہ کرچکا ہوں۔ اس وقت تنگی وقت کے لحاظ سے زیارت کے متعلق ایک مشہور روایت پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں جو تمام مقاتل اور حدیث کی کتابوں میں درج ہے۔ ایک روز رسول خدا(ص) ام المومنین عائشہ کے حجرے میں تشریف رکھتے تھے کہ حسین علیہ السلام حاضر ہوئے پیغمبر(ص) نے ان کو آغوش محبت میں لے کر کثرت سے بوسے دیئے اور سونگھا۔ عائشہ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ(ص) حسین(ع) کو کس قدر چاہتے ہیں؟ آںحضرت (ص) نے فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتی ہو کہ یہ میرا پارہ جگر اور میرا پھول ہے؟ اس کے بعد آنحضرت(ص) رونے لگے۔ عائشہ نے گریے کا سبب پوچھا تو فرمایا میں تلواروں اور نیزوں کے مقامات چومتا ہوں جو بنی امیہ میرے حسین(ع) پ؛ر لگائیں گے۔ عائشہ نے عرض کای کیا ان کو قتل کرینگے؟ فرمایا ہاں ان کو بھوکا اور پیاسا شہید کریں گے۔ ان لوگوں کو ہرگز میری شفاعت نصیب نہیں نہ ہوگی خوشا حال اس شخص کا جو بعد شہادت ان کی زیارت کرے۔ عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) ان کے زائر کو کیا ثواب ملے گا؟ فرمایا میرے ایک حج کا ثواب۔ عائشہ نے تعجب سے کہا کہ آپ کا ایک حج؟ فرمایا میرے دو حج کا۔ عائشہ نے اور زیادہ تعجب کیا تو فرمایا میرے چار حج کا۔ عائشہ برابر تعجب ظاہر کرتی جاتی تھیں اور آنحضرت(ص) ثواب میں اضافہ فرماتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ فرمایا عائشہ جو شخص میرے حسین(ع) کی زیارت کرے خدا اس کے نامہ اعمال میں میرے نوے حج اور نوے عمروں کا ثواب درج فرمائیگا۔ اس کے بعد عائشہ چپ ہوگئیں۔ خدا کے لیے آپ حضرات انصاف

۳۵۲

کیجئے کہ کیا ایسی زیارت بدعت ہے جو رسول اللہ (ص) کی سفارش اور توجہ کی مرکز ہو؟ حضرت کی زیارت اور مجالس عزا میں شرکت کی مخالفت اور اس کو بدعت سے تعبیر کرنا یقینا آںحضرت(ص) اور اہلبیت طاہرین(ع) کی دشمنی ہے۔

زیارت قبور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے اثرات

باطنی فوائد اور اخروی اجر کے علاوہ قبور ائمہ طاہرین(ع) کی زیارت میں جو ظاہری منافع ملحوظ ہیں۔ وہ ہر عقل مند انسان کو اس بزرگ عبادت کی طرف راغب کرتے ہیں جو اور بہت سی عبادتوں کی باعث ہوتی ہے۔

آپ اگر ان عتبات عالیات سے مشرف ہوں تو کھلا ہوا مشاہدہ کریں گے کہ (رات کے درمیان چند گھنٹوں کے علاوہ جب کہ خدام کے آرام اور صفائی کے لیے حرم بند رہتا ہے طلوع صبح کے دو گھنٹے قبل سے تقریبا آدھی رات تک روز و شب وہ حرم اور قبروں کے پاس کی مسجدیں زائرین اور مجاورین اور خواص و عوام سے بھری رہتی ہیں اور یہ سب لوگ مختلف عبادتوں، واجب و مستحب نمازوں، تلاوت قرآن درورد و اداء وظائف می سرگرم رہتے ہیں۔ جو لوگ اپنے گھروں اور وطنوں میں سوا واجبات ادا کرنے کے زیادہ عبادتوں کی توفیق نہیں رکھتے وہ بھی ان مقدس مقامات میں زیارت اور قربت محبوب کے شوق میں طلوع صبح سے دو گھنٹے پہلے مشرف ہو کر تہجد اور اپنے پروردگار سے مناجات میں مصروف رہتے ہیں اور تلاوت قرآن اور خوف خدا سے گریہ و زاری ان کی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے۔ چنانچہ وہاں سے واپسی کے بعد بھی عبادات میں مشغول اور گناہوں سے الگ رہتے ہیں اور بڑے اشتیاق کے ساتھ نوافل اور قضا نمازیں بجالاتے ہیں۔

آیا یہ عمل جو دوسرے بہت سے اعمال کا سبب بنتا ہے اور لوگ اس کے ذریعے توفیق حاصل کر کے طرح طرح کی عبادتوں میں منہمک ہوتے ہیں اور رات دن میں کم از کم صبح سے پہر اور رات کو دو تین گھنٹے نماز و دعا و تلاوت قرآن اور ورد وظائف میں مشغول رہ کر اپنے کو پروردگار کی رحمت و عنایت کا مستحق بناتے ہیں بدعت ہے؟

اگر زیارت مزارات ائمہ اطہار(ع) کا اور کوئی نتیجہ نہ ہوتا تو صرف یہی عبادتوں کی توفیق اور سرگرمی ہی اس کا شوق دلانے کے لیے کافی تھی تاکہ ان وسائل سے اپنے معبود کے ساتھ رابطہ مضبوط کر کے روحانی طہارت حاصل کریں جو تمام نیک بختیوں کی جڑ ہے۔( کیونکہ اپنے شہروں اور گھروں میں رہ کے دنیاوی مشاغل کی وجہ سے پورا میلان پیدا نہیں ہوتا۔)

کیا آپ بلاد اہل تسنن میں ہم کو کوئی ایسا مقدس مقام بتاسکتے ہیں جہاں عالم و جاہل اور عوام وخواص چوبیس گھنٹے عبادات میں مشغول رہتے ہوں سوا مسجدوں کے جہاں فقط نماز پڑھ کے فورا متفرق ہوجاتے ہیں؟ بغداد اور معظم میں جہاں شیخ عبدالقادر جیلانی اور امام ابوحنیفہ کی قبریں ہیں۔ ہمیشہ ان کے دروازے بند رہتے ہیں ، صرف نماز کے وقت ان مزاروں کی مسجدیں کھولی جاتی ہیں اور چند مخصوص آدمی آکر نماز پڑھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ شہر سامراء میں جہاں شیعوں کے دو برحق امام حضرت ہادی علی نقی علیہ السلام ( امام دہم)

۳۵۳

اور حضرت حسن عسکری علیہ السلام ( امام یازدہم) مدفون ہیں تمام شہر کے باشندے یہاں تک کہ آستانہ مقدس کے خدام بھی جو برادران اہل سنت میں سے ہیں، طلوع فجر کے قریب بڑی زحمت سے جب شیعہ زائرین و مجاورین اور اہل علم چیخ پکار مچاتے ہیں۔ تب حرم کا پھاٹک کھولتے ہیں لیکن ہم کو ایک بھی بوڑھا جوان عالم و جاہل سنی ایسا نظر نہیں آتا جو اس مسجد کے کسی گوشے میں مشغول عبادت ہو۔ یہاں تک کہ خدام بھی دروازہ کھولنے کے بعد جا کر سوجاتے ہیں۔ البتہ شیعہ لوگ حرم کے اندر پورے ذوق و شوق کے ساتھ عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ہیں وہ اثرات اور برکات جو ان مقدس مزارات سے شیعوں کو نصیب ہوتے ہیں۔ خدا آپ کو مشرف ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ عراق عرب میں آپ کو دو شہر ایک دوسرے کے پہلو میں صرف دو فرسخ کے فاصلے سے نظر آئیں گے یعنی کاظمین اور بغداد ۔ اول الذکر شیعوں کا مرکز ہے جس میں امام ہفتم حضرت ابو ابراہیم موسی بن جعفر اور امام نہم ابو جعفر محمد ابن علی الجواد علیہم السلام کا مزار مبارک ہے اور دوسرا اہل سنت کا مرکز ہے جس میں شیخ عبدالقادر جیلانی اور آپ کے امام اعظم ابوحنیفہ کی قبریں ہیں۔ اگر اگر آپ غور کیجئے تو شیعوں کے برحق پیشوائوں اور اماموں کے بلند تعلیمات کا اندازہ ہوجائے گا اور بچشم خود دیکھئے گا کہ ان دونوں مقدس قبروں اور ان کی زیارت کے برکات سے کاظمین کے باشندے اور زوار شب میں جلد سوجاتے ہیں اور طلوع فجر سے دو گھنٹے قبل بیدار ہو کر پورے ذوق و شوق سے عبادت وتہجد کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے شیعہ تجار بھی جن کی دکانیں اور تجارتیں بغداد میں ہیں لیکن مکانات کاظمین میں ہیں سحر کے وقت حرم مطہر کے اندر عبادت الہی میں مشغول رہتے ہیں۔

لیکن اہ بغداد کس قدر گناہوں میں غرق، عیاشی اور شہوت پرستی کے دلدادہ اور خواب غفلت میں مدہوش ہیں۔

نواب : واقعی اس وقت اپنے اوپر لعنت کرنے کا موقع ہے کہ ہم لوگ بغیر تحقیق کئے کس لیے اںکھیں بند کر کے بہکانے والوں کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ چند سال قبل ایک قافلہ یہاں سے روانہ ہوا جس میں بدقسمتی سے میں بھی شامل تھا۔ ہم لوگ امام اعظم ابوحنیفہ اور جناب عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہما کی زیارت کے لیے بغداد گئے لیکن ایک روز میں گھومنے کے لیے کاظمین چلا گیا جب واپس ہوا تو میرے رفیقوں نے مجھ کو کچھ سخت و سست کہا۔ بڑے تعجب کا مقام ہے کہ معظم میں امام اعظم کی، بغداد میں شیخ عبدالقادر کی، ہندوستان میں خواجہ نظام الدین کی اور مصر میں شیخ اکبر مقبل الدین کی زیارتیں تو جائز اور موجب ثواب ہوں جن کے لیے ہر سال ہم لوگوں میں سے کافی اشخاص جاتے رہتے ہیں حالاکہ ان کے بارے میں رسول اللہ(ص) سے قطعا کوئی روایت بھی مروی نہیں ہے لیکن راہ خدا کے فدا کار مجاہد اور ریحانہ رسول(ص) کی زیارت جس کے لیے پیغمبر(ص) نے اس قدر ثواب بیان فرمایا ہے اور عقلا بھی یہ ایک مستحسن کام ہے بدعت ہوجائے۔ اس وقت میں نے قطعی اور پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ انشاء اللہ اگر زندہ رہا تو اس سال قربتہ الی اللہ اور خوشنودی خدا کے لیے رسول خدا(ص) کے فرزند عزیز جناب حسین شہید(ع) کی زیارت کے لیے جائوں گا اور خدا سے دعا کروں گا کہ میری پچھلی غلطیوں کو معاف فرمائے۔

اب آج کی شب میں دلی تاثر کے ساتھ انشاء اللہ کل رات تک کے لیے رخصت ہوتا ہوں۔

ختم شد

۳۵۴

فہرست

من لم یشکر الناس لم یشکر اﷲ ۲

اشارہ ۳

بسم اﷲ الرحمن الرحیم ۴

آغازِ سفر ۴

مجلسِ مناظرہ ۶

پہلی نشست ۶

شب جمعہ ۲۳ رجب سنہ ۱۳۴۵ ہج ۶

ذریت رسول (ص)کے بارے میں بارون رشید اور امام موسی کاظم (ع)کا سوال وجواب ۹

اس بات پر کافی دلائل کہ اولاد فاطمہ (س)اولاد رسول(ص)ہیں ۱۱

پیغمبر(ص)نماز ظہ ر ین و مغربین جمع وتفریق دونوں طرح س ے پ ڑھ ت ے ت ھے ۱۳

بنی امیہ کے دلدوز حرکات ۱۹

واقعہ شہادت زیدبن علی علیہ السلام ۲۰

شہادت جناب یحیٰ ۲۱

قبر علی علیہ السلام کا ظہور ۲۲

مدفن امیرالمومنین علیہ السلام میں اختلاف ۲۳

دوسری نشست ۲۵

۳۵۵

شب شبنہ ۲۴ رجب سنہ ۱۳۴۵ ھ ۲۵

مذہب شیعہ پر اشکال پیدا کرنا ۲۶

مخالفین کی اشکال تراشیوں کا جواب ۲۷

شیعہ اور حقیقت تشیع کے معنی ۲۹

مقام تشیع کی تشریح میں آیات و روایات ۳۱

سلمان و ابوذر اور مقداد و عمار کی منزل ۳۶

خلفاء دیالمہ اور غازاں خان اور شاہ خدا بندہ کے زمانہ میں ۳۷

ایرانیوں کی توجہ اور تشیع کا سبب ۳۷

مغلوں کے دور میں تشیع کا ظہور ۴۰

قاضی القضاة کے ساتھ علامہ حلی کا مناظرہ ۴۰

اسلام نے نسلی تفاخرات کو جڑ سے کاٹ دیا ۴۳

سارے فسادات اور لڑائیاں نسلی تفاخرات کی بنا پر ہوتی ہیں ۴۴

غالیوں کے عقائد، ان کی مذمت اور لعن بر عبد اﷲ ابن سبا ۴۵

آل محمد علیھ م السلام پر سلام اور صلوات بھیجنے کے بار ے م یں مناظرہ ۵۰

"یس "کے معن ی اور یہ کہ "س"پ یغمبر صلّی اللہ عل یہ وآلہ کا نام مبارک ہے ۵۱

آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں ۵۲

آل محمد(ص) پر صلوات بھیجنا سنت اور تشہ د نماز م یں واجب ہے ۵۴

۳۵۶

تیسری نشست ۵۶

شب یک شنبہ ۲۵ رجب سنہ۱۳۴۵ھ ۵۶

عقائد زیدیہ ۵۷

عقائد کیسانیہ ۵۸

عقائد قداحیہ ۵۹

عقائد غلات ۵۹

عقائد شیعہ امامیہ اثنا عشریہ ۶۰

حدیث معرفت پر اعتراض ۶۳

اعترض کا جواب ۶۳

صحیحین بخاری ومسلم میں خلاف عقل روایتیں ۶۵

رویت باری تعالی کے بار ے م یں اہ ل سنت ک ی چند روایتیں ۶۶

اللہ تعالی کے عدم رو یت پر دلائل اخبار ۶۸

خرافات صحیحین کی طرف اشارہ ۶۹

ملک الموت کے چ ہ ر ے پر موس ی علیہ السلام کا تھ پ ڑ مارنا ۷۱

انصاف موجب معرفت اور سبب سعادت ہے ۷۲

شیعوں کی طرف شرک کی نسبت دینا ۷۵

شرک کے اقسام ۷۶

۳۵۷

شرک جلی ۷۷

شرک در ذات ۷۷

عقائد نصاری ۷۷

شرک درصفات ۷۸

شرک در افعال ۷۸

شرک در عبادت ۷۹

نذر کے بار ے م یں ۸۰

شرک خفی ۸۲

شرک در اسباب ۸۳

شیعہ کسی پہ لو س ے مشرک ن ہیں ۸۳

آصف بن برخیا کا سلیمان کے پاس تخت بلق یس لانا ۸۵

آل محمد (ع)فیض الہی کے ذر یعے ہیں ۸۶

حدیث ثقلین ۸۷

بغیر تعصّب کے بار یک بینی سعادت کا سبب ہے ۸۸

بخاری اور مسلم نے مردود اور جعل سازرجال س ے روا یتیں نقل کی ہیں ۹۰

صحیحین بخاری ومسلم میں مضحک روایت اور رسو ل(ص)کی اہ انت ۹۱

حدیث ثقلین کے اسناد ۹۲

۳۵۸

حدیث سفینہ ۹۴

دعائے توسل ۹۸

اس جماعت کے فتو ے س ے ش ہید اول کی شہ ادت ۱۰۰

"قاضی صیدا" کی بد گوئی سے ش ہید ثانی کی شہ ادت ۱۰۲

انصاف پسند لوگوں کی توجہ کیلئے عمدہ بحث ۱۰۳

ایرانیوں کے ساتھ ترکیوں ، خوارزمیوں ، ازبکوں اور افغانوں کا شرمناک رویہ ۱۰۴

ایران مین خان خیوہ کے مظالم اور شیعوں کے قتل وغارت کے لئے علمائے اہل سنت کے فتوے ۱۰۵

شیعوں کے قتل وغارت پر علمائے اہل سنت کے فتوے اور خراسان پر عبداللہ خاں ازبککے حملے ۱۰۶

افغانستان کے شیعوں سے افعانی امیروں کا سلوک ۱۰۶

شہید ثالث کی شہ ادت ۱۰۷

شیخ کا اقدام، شبہہ ک ی ایجاد حملے ک ے لئ ے وس یلے کی تیاری-----اور---- اس کا دفاع ۱۰۸

زیارت کے آداب ۱۱۰

نماز زیارت اور دعائے بعد از نماز ۱۱۰

ائمہ علیھ م السلام کے روضو ں پر آستان ہ بوس ی شرک نہیں ہے ۱۱۲

بھائیوں کا یوسف(ع) کے لیے خاک پر گرنا اور سجدہ کرنا ۱۱۴

جسم کی فنا کے بعد روح کی بقا ۱۱۵

بقائے روح میں اشکال اور اس کا جواب ۱۱۶

۳۵۹

اہل مادہ طبیعت کا ظہور اور حکیم سقراط سے ویمقراطیس کا مقابلہ ۱۱۶

یورپ میں علمائے الہی کے اقوال ۱۱۷

معاویہ و یزید کی خلافت اور ان کے کفر کی طرف سے مخالفین کا دفاع اور اس کا جواب ۱۱۹

یزید کے کفر ارتداد پر دلائل ۱۲۰

یزید پلید(لع) کی لعن پر علمائے اہل سنت کی اجازت ۱۲۳

یزید کی بیعت توڑنے کے جرم میں اہل مدینہ کا قتل عام ۱۲۴

گمنام جاں نثار ۱۲۷

آل محمد(ص) شہدائے راہ خدا اور زندہ ہیں ۱۲۹

چوتھی نشست ۱۳۱

شب دوشنبہ ۲۶ رجب سنہ ۱۳۴۵ ھ ۱۳۱

آپ نے حقیقت کا نکشاف کر کے ہم پر احسان کیا ۱۳۱

امامت کے بارے میں بحث ۱۳۲

اہلسنت کے مذاہب اربعہ پر بحث اور کشف حقیقت ۱۳۲

مذاہب اربعہ کی پیروی پر کوئی دلیل نہیں ہے ۱۳۴

یہ عجیب معاملہ صاحبان عقل و اںصاف کے لیے قابل غور ہے ۱۳۴

اہل تسنن کے علماء اور اماموں کا ابوحنیفہ کو رد کرنا ۱۳۷

امامت شیعوں کے عقیدے میں ریاست عالیہ الہیہ ہے ۱۳۹

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369