پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310270 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کے خاتمے پر مذہب شیعہ کی حقیقت اس پر ظاہر اور روشن ہوگئی اور اس نے مذہب حقہ امامیہ اختیار کر لیا۔ اور تمام بلاد ایران میں شیعہ مذہب کی آزادی کا اعلان نافذ کردیا ۔ اور اسی وقت سے سارے حکام اور ولایتوں کے گورنروں کو اطلاع دے دی کہ ساری مسجدوں اور مجمعوں میں امیرالمومنین علیہ السلام اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے نام کا خطبہ پڑھیں اور حکم دیا کہ دیناروں پر تین متوازی سطروں میں کلمہ طیبہ" لا اله الا اﷲ محمد رسول اﷲ علی ولی اﷲ" کو سکہ نقش کیا جائے۔

جناب علامہ حلی کو جنہیں ایک اختلافی مسئلہ حل کرنے کے لیے جلہ سے بلوایا تھا ( اور اسی کی بنا پر اس جلسے میں مناظرہ کا دروازہ کھل گیا ۔ اور تشیع کی حقیقت ظاہر ہوئی) اپنے پاس ٹھہرا لیا آپ کے لیے مدرسہ سیارہ تعمیر کرایا اور طالبان علوم آپ کے گرد جمع ہوگئے چونکہ آپ بلا تقیہ اور کھلم کھلا حقائق کو بیان فرماتے تھے لہذا بے خبر لوگوں نے بھی طریقہ حقہ امامیہ کا پتہ لگا لیا، ولایت کا آفتاب درخشان ابر خفا سے باہر آگیا اور اسی زمانے سے مذہب حقہ، شیعہ کی روشنی جہالت و نادانی کا پردہ چاک کر کے ظاہر اور نمایاں ہوئی۔

تقریبا سات سو سال کے بعد با اقتدار صفوی بادشاہوں کی حمایت اور اس زمانے کی مکمل تبلیغات کے اثر سے باطل تیرہ و تار بادل بالکل چھٹ گئے اور ولایت و امامت کا آفتاب عالمگیر ضیا پاشی کرنے لگا۔

چنانچہ ایرانی اگر چہ ایک روز مجوسی اور دو خداؤں ( یزادن و اہرمن) کے معتقد تھے لیکن جس وقت سے انہوں نے اہل اسلام کے عقلی دلائل و براہین کو سنا ان کو دل و جان سے قبول کیا اور اب تک پورے خلوص کے ساتھ اپنے اسلامی عقیدے پر ثابت قدم ہیں۔

اگر ایرانیوں میں چند افراد ایسے پیدا ہوجائیں جو مجوسی ہوں یا کسی طریقے کے پابند نہ ہوں یا غلات کے سلسلے میں شامل ہوکر حضرت علی(ع) کو ان کی منزل سے بلند کر کے الوہیت کے درجے پر پہنچا دیں اور ان کو بندوں کا خالق و رازق سمجھنے لگیں ۔، حلول و اتحاد اور وحدت وجود کے قائل ہوں تو اس کو پاک نفس ایرانیوں کی اصل جماعت اور اکثریت سے کوئی ربط نہیں ہے۔

اس طرح کے غیر مناسب اور بے عقل و خرد افراد ہر قوم و ملت میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن شریف و عقلمند ایرانی قوم کی اکثریت وحدانیت حق تعالی اور نبوت خاتم الانبیاء پر مضبوط عقیدے سے اور ایمان کی حامل ہے۔ اور رسول اﷲ(ص) کے حسب الحکم سب امیرالمومنین علیہ السلام اور ان حضرت کے گیارہ فرزندوں کے پیرو ہیں۔

حافظ : آپ کے ایسے حجازی ، مکی اور مدنی بزرگ سے تعجب ہے کہ چند روز کے لیے ایران میں قیام کر لیا تو ایرانیوں کی اس قدر طرفداری کررہے ہیں۔ اور ان کو علی کرم اﷲ وجہ ، کا پیرو سمجھتے ہیں باوجودیکہ علی (ع) خود خدائے تعالی کے مطیع و فرمانبردار بندے تھے لیکن ایرانی شیعہ سب کےسب آپ کو خدا سمجھتے ہیں اور

۴۱

خدا سے جدا نہیں جانتے اور اپنے اشعار میں آپ کو بمنزلہ حق بلکہ عین حق قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ ان کے دلوں اور مکتوبات میں ا س طرح کی کفریات واضح طور پر موجود ہیں کیا ۔ اس قسم کے اشعار ایرانی شیعہ عارفین سے وارد نہیں ہیں جنہیں علی کرم اﷲ وجہ کی زبان سے نقل کرتے ہیں ۔ ( حالانکہ علی(ع) قطعا اس قسم کے عقیدے سے بیزار ہیں۔)

من طلسم عیب و کنز لاستم چون بہ کنیز لارسی الاستم

یعنی از اﷲ ولا بالا ستم نقطہ ام بار بار گویا ستم

کثرت تاترات پندارت کند

مظہر کل عجائب کیست من مظہر سرِ غرائب کیست من

صاحب عون نواسب کیست من در حقیقت ذاب واجب کیست من

ایک دوسرے شخص نے کہا ہے۔

در مذہب عارفان آگاہ ( گمراہ) اﷲ علی، علی است اﷲ

خیر طلب : آپ سے تعجب ہے کہ بغیر تحقیق کے قوم ایرانی شیعوں کو غالی اور علی پرست سمجھتے ہیں اور اس قسم کی باتوں سے بے خبر سنی بھائیوں کے سامنے معاملے کو شبہ کر کے برادر کشی کا دروازہ کھولتے ہیں ، چنانچہ افغانستان ، ہندوستان، ازبکستان اور تاجکستان وغیرہ میں اس قدر شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا کہ خون کے دھارے بہہ گئے۔

ازبکستان اور ترکستان کے مسلمان اپنے علماء کے بھڑکانے سے کہتے تھے کہ شیعہ علی پرست مشرک اور کافر ہیں اور ان کا قتل واجب ہے ان سبھوں نے ایرانی مسلمانوں کا اس کثرت سے خون بہایا کہ تاریخ کے صفحات کو داغدار بنا دیا۔

بے چارے سنی عوام آپ کے ایسے بزرگ علماء کی رہنمائی میں ایرانی مسلمانوں کو نگاہ کینہ بلکہ کفر و شرک اور ارتداد کے خیالی سے دیکھتے ہیں۔

گذشتہ زبانوں میں ترکمان لوگ خراسان کے راستے میں سر راہ ایرانی قافلوں کو گرفتار کر کے قتل و غارت میں مشغول ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ جو شخص سات عدد رافضیوں ( شیعوں ) کو قتل کردے اس پر بہشت واجب ہوجاتی ہے۔

قطعی طور پر جان لیجئے کہ اس طرح کے افعال اور قتل عام کی جواب دہی آپ ہی جیسے حضرات کے ذمے ہے جو ان کے کانوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ شیعہ علی(ع) پرست مشرک اور کافر ہیں اور بے خبر عقیدت مند سنی عوام

۴۲

اس کو قبول بھی کر لیتے ہیں ۔ لہذا بقصد ثواب اس قسم کی حرکتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

اسلام نے نسلی تفاخرات کو جڑ سے کاٹ دیا

پہلے میں آپ کے جملہ اول کا جواب عرض کرتا ہوں تاکہ ہم لوگ اصل مطلب تک پہنچیں۔ آپ نے جو یہ فرمایا کہ تم حجازی ، مکی اور مدنی ہو کر ایرانی بھائیوں کی طرفداری کس لیے کرتے ہو؟ تو یہ بدیہی بات ہے کہ مجھ کو اپنے مکی مدنی اور محمدی ہونے پر فخر ہے لیکن نسلی تعصب جو جہالت اور نادانی کے آثار میں سے ہے میں اپنے دل مین نہیں رکھتا ہوں۔ اس لیے کہ میرے جد بزرگوار حضرت خاتم الانبیاء (ص) نے باوجودیکہ ہر ملت کی قومیت اور وطنیت کی حفاظت ملحوظ رکھی ہے۔ اور جملہ حب الوطن من الایمان کے ساتھ ہر قوم و ملت کو محب وطن کی ہدایت کی ہے ۔ لیکن آں حضرت (ص) نے النافوں کے اتحاد اور ہر فرد بشر کے دل سے ہر طرح کے بیہودہ خیالات دور کرنے کے لیے جو بڑے قدم اٹھائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کو کلی طور پر جڑ سے کاٹ دیا اور ایک بلند اور موثر آواز کے ساتھ دنیا والوں کو اپنے اس اعلان کی طرف متوجہ فرمایا کہ

"لافخر للعرب علی العجم ولا للعجم علی العرب ولا للابيض علی الاسود ولا للاسود علی الابيض الا بالعلم و التقی ۔" (۱)

اور نیز اس لیے کہ عالم اور متقی اشخاص کو اشتباہ نہ پیدا ہوجائے کہ آں حضرت (ص) کے ارشاد سے سند لے کر تواضع اور خاکساری سے ہٹ جائیں اور دوسروں پر کبر و خودی کا اظہار کرنے لگیں فرمایا ۔

" انا من العرب ولا فخروا فاسيد ولد الآدم ولا فخر ۔ " (۲)

نتیجہ کلام یہ کہ میں باوجودیکہ عرب اور سید آدم ہوں لیکن اس نسل اور منزلت سے دوسروں پر کوئی فخر و مباہات نہیں کرتا۔

پیغمبر(ص) کا فخر صرف اس بات پر تھا کہ پروردگار کے اطاعت گذار بندے ہیں۔ آں حضرت(ص) مقام مناجات میں عرض کرتے تھے۔

" کفی بی فخرا ان اکون لک عبدا " یعنی میرے لیے یہی فخر ومباہات کافی ہے کہ تجھ ایسے پروردگار کا بندہ ہوں۔

خدا تعالی سورہ نمبر۴۹ ( حجرات) آیت نمبر۱۳ میں ارشاد فرماتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ـ عرب کو عجم پر عجم کو عرب پر ، سفید کو سیاہ پر اور سیاہ کو سفید پر کوئی فخر و مباہات نہیں ہے سوا علم و تقوی کے۔

۲ ـ میں قوم عرب سے ہوں لیکن ان پر فخر نہیں کرتا میں اولاد آدم کا سردار ہوں۔ لیکن اس پر فخر نہیں کرتا ہوں۔

۴۳

" يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ " (الحجرات، ۱۳) (۱)

اس نے فضل و شرف اور بزرگی تقوی میں قرار دی ہے۔ نیز اسی سورے کے آیت نمبر ۱۰ میں فرمایا ہے:

" إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ "( الحجرات ، ۱۰)

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا ہمیشہ اپنے ایمانی بھائیوں کے درمیان اگر کوئی نزاع پیدا ہو تو صلح کرا دیا کرو ) چنانچہ ایشائی ، افریقی، یورپی اور امریکی سفید و سیاہ ، سرخ و زرد شہرستانی اور کوہستانی نسلوں کے جملہ افراد لوائے اسلام اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے ماتحت آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے پر کوئی فخر و مباہات نہیں رکھتے۔

اسلام کے عظیم المرتب قائد حضرت خاتم الانبیاء نے عملی طور پر اس کا ثبوت دیا ہے عجم سے سلمان فارسی کو روم سے صہیب رومی کو اور حبش سے بلال سیاہ کو اپنے آغوش محبت میں قبول فرمایا لیکن اپنے شریف النسل چچا ابولہب کو جو عرب کی بہترین نسل سے تھا اپنے سے دور فرمادیا اور اس کی مذمت میں ایک سورہ نازل ہوا جس میں صریح طور پر ارشاد ہے ۔ تبت یدا ابی لھب۔ ( یعنی ابولہب کے ددنوں ہاتھ قطع ہوجائیں ( جو رسول اﷲ(ص) کے درپے آزار تھے۔)

سارے فسادات اور لڑائیاں نسلی تفاخرات کی بنا پر ہوتی ہیں

انسانوں کے تمام فتنہ و فساد اور جنگ و جدال انہیں نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کی بنا پر ہیں۔ جرمنی کے باشندے کہتے ہیں کہ آرین اور جرمنی نسلی سب سے بلند ہے ۔ جاپانی کہتے ہیں کہ سرداری کا حق ان کی زرد نسل کو حاصل ہے اور یورپ والے کہتے ہیں کہ سفید فام لوگ حاکم اور سب کے اوپر افسر ہیں۔ امریکہ کے متمدن ممالک میں اب تک سیاہ فام لوگ اجتماعی حقوق سے محروم ہیں ۔ یہاں تک کہ سفید فاموں کے کیفے ، سینما اور مہمان خانوں میں داخل ہونے کا حق نہیں رکھتے اور سیاہ فام عیسائی کو سفید فاموں کے کلیساء میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے تعجب خیز بات یہ ہے کہ عبادت گاہ میں بھی ایک دوسرے کے برابر بیٹھنے کے حقدار نہیں ، سیاہ کھال کے علماء اور افاضل اگر سفید کھال کے دانشمندوں کے جلسوں میں جاتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ جوتے اتارنے کی جگہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ـ اے انسانو ! ہم نے سب کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے ۔ اور ان میں مختلف شاخیں اور قبیلے قرار دیئے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو( اور سمجھ لو کہ اصل ونسب اور نسلی سرمایہ افتخار نہیں ہے بلکہ خدا کے نزدیک تم سب میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو تم لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

۴۴

بیٹھیں ، ان کو سفید فاموں کے سامنے علم و ہنر کا اظہار نہ کرنا چاہئیے ایک بوڑھے سیاہ فام عالم کو چاہیئے کہ سفید فام جوان کے سامنے تعظیم بجالائے اور مطیع و فرمانبردار رہے۔ سفید فام اساتذہ سیاہ فاموں کو اپنے مدرسوں میں داخل نہیں کرتے ، یہاں تک کہ ریلوے اسٹیشنوں پر اگر کوئی سیاہ فام چھوٹ گیا ہو تو ان کو سفید فاموں کے مسافر خانوں میں گھسنے کا اختیار نہیں۔ خلاصہ یہ کہ امریکہ میں سیاہ فام لوگ باوجود ان کوششوں کے جو ان لوگوں کی آزادی کے لیے عمل میں لائی جاتی ہیں) حیوانات میں شمار ہوتے ہیں اور سفید فاموں کی طرح وسائل تمدن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ (۱)

لیکن مقدس دین اسلام نے سارے بیہودہ اور موہوم عقائد کو تیرہ سو سال پہلے ہی درمیان سے اٹھادیا تھا، اس کا اعلان ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں چاہے جس نسل اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ یورپ ، ایشا، امریکہ اور افریقہ کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ ایک دوسرے کے لیے خلوص و محبت کا آغوش کھلا رکھیں اور دنیا کے جس مقام پر بھی ہوں، ہمیشہ ایک دوسرے کے یار و غمگسار رہیں۔ اسلام حجازی، مکی اور مدنی مسلمانوں اور دوسرے ممالک کے مسلمین میں کوئی فرق نہیں کرتا ۔ چنانچہ اگر میری نسل حجازی ، قریشی ، ہاشمی اور محمدی ہے تو جائز نہیں ہے کہ سچی بات کو چھپاؤں اور مہمل خیالات کی بنا پر حق کو پس پشت ڈال دوں ۔ میں قطعی طور پر حجازی گمراہوں سے متنفر اور ایرانی شیعوں کا دوستدار ہوں۔

مادروں را بنگریم و حال را نے درون را بنگریم و قال را

دوسری چیز یہ ہے کہ آپ نے ایرانی غالیوں کو بغیر کسی مناسبت اور دلیل و برہان کے پاک باز موحد اور خالص شیعوں کے ساتھ مخلوط کردیا ہے۔

غالیوں کے عقائد، ان کی مذمت اور لعن بر عبد اﷲ ابن سبا

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے شیعہ سب کے سب حق تعالےٰ کے خالص بندے ہیں۔ خدا اور اس کے بندے و رسول محمد(ص) کے مطیع و فرمانبردار ہیں اور علی ابن ابی طالب (ع) کے بارے میں پیغمبر(ص) نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کے علاوہ نہ اور کچھ کہتے ہیں نہ ہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ہم لوگ حضرت علی(ع) کو پروردگار کا عبد صالح اور رسول اﷲ(ص) کا وصی اور خلیفہ مںصوص سمجھتے ہیں۔ اور جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو اس کے مردود اور اپنے سے الگ جانتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ـ اٹلی کے قائد اور پیشوا مسولینی نے حکم دیا تھا کہ اس کا نمائندہ ادارہ مجلس اقوام سے نکل آئے۔ اس کا عذر یہ تھا کہ میرے لیے باعث ننگ ہے کہ میرا نمائندہ ایسے مجمع میں بیٹھے جہاں حبشی سیاہ فاموں کا نمائیندہ بیٹھا ہوا ہو۔ لیکن اسلام کے عظیم المرتبت پیغمبر(ص) نے چودہ سو برس پہلے) بلال سیاہ و حبشی کو اپنے آغوش محبت میں لے لیا اور فرماتے تھے کہ ارحنا یا بلال ! یعنی اے بلال میرے سامنے قرآن پڑھو اور مجھ کو شاد و مسرور کرو ۔ اب ناظرین محترم انصاف کریں اور دیکھیں کہ تفاوت راہ کہاں تک ہے۔

۴۵

جیسے مسلمانوں میں سے غلات از قبیل سائیبہ ، خطابیہ، غرابیہ، علیادیہ مخمہ وبزیفیہ اور انہیں کے امثال جیسے نصیریہ جو ایران کے بعض شہروں اور قریوں اور دوسرے بلاد میں مثل موصل اور شام کے اہل حق کے نام سے متفرق طور پر آباد ہیں۔

شیعہ بالعموم ان سے علیحدہ اور ان کو کافر و مرتد اور نجس سمجھتے ہیں ۔ فقہ کی ساری کتابوں اور عملیہ رسالوں میں فقہائے امامیہ نے غلات کو کافروں میں شمار کیا ہے کیونکہ وہ لوگ بے شمار فاسد عقیدوں کے حامل ہیں جن میں سے کچھ کہتے ہیں کہ چونکہ جسم کے قالب میں روح کا ظہور محال نہیں ہے ۔ جیسے کہ جبرائیل وحبہ کلبی کی صورت میں پیغمبر(ص) کے سامنے ظاہر ہوتے تھے۔لہذا خدا کی حکیمانہ مصلحت کا تقاضا ہوا کہ اس کی ذات اقدس انسانی قالب میں ظاہر ہو چنانچہ علی(ع) کی صورت اور جسم میں نمایاں ہوا، اسی سبب سے علی(ع) کی منزل کو رسول اﷲ(ص) کی مقدس منزل سے بلند تر سمجھتے ہیں اور خود انہیں حضرت کے زمانے میں شیاطین جن و انس کے بہکانے سے ایک جماعت اس عقیدے کی قائل تھی۔ ہند اور سوڈان کے باشندون کی ایک جماعت آئی اور اس نے آپ کی الوہیت کا اقرار کیا۔ حضرت نے ہر چند ان لوگوں کو نصیحت کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر کار جس طریقے سے کہ کتب اخبار میں درج ہے آپ کے حکم سے دھویں کے کنووں میں ہلاک کردئیے گئے۔ چنانچہ اس قبیلے کی مفصل تشریح علامہ جلیل ملا محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کی تالیف بحار الانوار جلد ہفتم میں لکھی ہوئی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین سلام اﷲ علیہم اجمعین نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ مثلا جو ہماری معتبر کتابوں میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے نقل ہوا ہے۔ کہ فرمایا :

" اللَّهُمَّ إِنِّي بَرِي ءٌ مِنَ الْغُلَاةِ كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مِنَ النَّصَارَى اللَّهُمَّ اخْذُلْهُمْ أَبَداًوَ لَا تَنْصُرْ مِنْهُمْ أَحَداً."

یعنی خداوندا میں گروہ غلات سے بری ہوں ۔ جیسے عیسی بن مریم نصاری سے بیزار تھے ۔ خداوندا ان کو ہمیشہ ذلیل و خوار رکھ۔ اور ان میں سے کسی کی مدد نہ فرما۔

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :

" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ وَ لَا ذَنْبَ لِي مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَ مُبْغِضٌ مُفَرِّطٌ وَ أَنَا أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مِمَّنْ يَغْلُو فِينَا وَ يَرْفَعُنَا فَوْقَ حَدِّنَا كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ع مِنَ النَّصَارَى "

یعنی میرے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوتے ہیں اورمیرے ذمے کوئی گناہ نہیں ہے (یعنی چونکہ میں ان کے عمل سے راضی نہیں لہذا گنہگار نہیں ہوں) ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو میری محبت میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو بلا سبب مجھ سے بغض و عداوت رکھتے ہیں یقینا میں ان لوگوں سے خدا کی طرف بیزاری اختیار کرتا ہوں جو ہمارے بارے میں غلو کرتے ہیں اور ہم کو ہماری حد سے بڑھاتے ہیں جس طرح سے عیسی بن مریم(ع) نے ںصاری سے بیزاری اختیار کی۔

۴۶

نیز فرمایا ہے۔" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ. " ( یعنی میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوتے ہیں، ایک ایسے دوست جو محبت میں غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ دشمن جو مجھ کو میری منزل سے گھٹاتے ہیں۔

اسی وجہ سے شیعہ امامیہ اثنا عشریہ ہر اس شخص سے بیزاری اختیار کرتے ہیں جو نظم و نثر میں امیرالمومنین (ع) اور ان کے اہل بیت اطہار (ع) کے لیے غلو کرے اور مقام تعریف میں ان کو منزل سے بلند قرار دے جو خدا و رسول(ص) نے ان کے لیے معین فرمائی ہے اور بندگی سے خدائی پر پہنچا دے جو لوگ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہوں وہ ہم میں سے نہیں ہیں بلکہ غالی اور ملعون ہیں۔ آپ اثنا عشریہ شیعہ امامیہ جماعت کا معاملہ ان سے الگ سمجھئے کیونکہ غالی فرقوں کے کفر و نجاست پر علمائے امامیہ کا اجماع ہے اور اگر آپ فقہاء شیعہ کی استدلالی کتابوں جیسے جواہر الکلام اور مسالک وغیرہ اور عملیہ رسالوں جیسے مرحوم آیتہ اﷲ یزدی قدس سرہ کی عروة الوثقی اور آیتہ اﷲ اصفہانی اعلی اﷲ مقامہ کی وسیلہ النجات کے باب طہارت باب زکوة ، باب ازدواج اور باب ارث کی طرف رجوع کریں تو ہمارے فقہاء کے فتوے ان لوگوں کے کفر ونجاست پر ملیں گے اور آپ دیکھیں گے کہ سب نے یہی فتوی دیا ہے کہ ان کے غسل و دفن میں شرکت جائز نہیں ہے ۔ ان کے ساتھ نکاح حرام ہے ( باوجودیکہ متعہ کی صورت سے اہل کتاب کیساتھ تزویج کو جائز جانتے ہیں۔) اور مسلمانوں کا حق وراثت ان کو نہیں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو صدقات و زکوة کادینا بھی ممنوع ہے۔

فرقہ ناجیہ شیعہ کی فن کلام اور عقائد کی کتابوں میں تفصیل اور استدلالی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ فرقہ فاسد اور کافر ہے ہر مسلمان پر اور خاص طور سے خالص العقیدہ شیعوں پر ان سے تبرا اور بیزاری واجب و لازم ہے۔

غلات کی مخالفت اور رد میں آیات و اخبار سے کافی مضبوط اور مکمل دلیلیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں نے اشارہ کر دیا ہے ۔ سورہ نمبر۵( مائدہ) آیت نمبر۸۱ میں کھلا ہوا ارشاد ہے :

" قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لا تَغْلُوا في دينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَ لا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَ أَضَلُّوا كَثيراً وَ ضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبيلِ "( المائدة ، ۷۷ )

یعنی کہہ دو( اے رسول(ص)) کہ اے اہل کتاب غلو مت کرو اپنے دین میں کہ وہ حق نہیں ہے اور اس قوم کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو خود گمراہ ہوئے بہتوں کو گمراہ کردیا اور راہ راست سے دور جا پڑے۔

مرحوم علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحار الانوار جلد سوم میں ( جو شیعہ امامیہ فرقے کا دائرة المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے ، ان کی مذمت اور ان لوگوں کے مدعا سے خاندان رسالت کے دور ہونے میں بہت سی روائتیں نقل کی ہیں، من جملہ ان کے امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔ کہ آپ فرمایا :

" و ما نحن الا عبيد الذي خلقنا و اصطفانا، ما لنا على اللّه من حجة، و لا معنا من اللّه براءة، و انا لميتون، و موقوفون، و

۴۷

مسئولون، من احب الغلاة فقد ابغضنا و من ابغضهم فقد احبنا الغلاة كفّار و المفوضة مشركون، لعن اﷲ الغلاة ۔۔۔۔۔۔ "

( خلاصہ مطلب یہ کہ ہم اس خدا کے بندے ہیں جس نے ہم کو پیدا کیا اور مخلوقات میں سے منتخب کیا۔ در حقیقت غالیوں کو دوست رکھے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو شخص ان کو دشمن رکھے وہ ہمارا دوست ہے غلات کافر اور ملفوضہ مشرک ہیں۔ خدا کی لعنت ہو غلات پر)

نیز انہیں حضرت سے شیعوں کے ایک بڑے پیشوا نے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

" لعن اللّه عبد اللّه بن سبأ إنه ادّعى الربوبية في أمير المؤمنين و كان و اللّه أمير المؤمنين عبدا للّه طائعا، الويل لمن كذب علينا، و إن قوما يقولون فينا ما لا نقوله في أنفسنا نبرأ إلى اللّه منهم نبرأ إلى اللّه منهم "

(یعنی لعنت خدا کی، عبداﷲ بن سبا پر جس نے امیرالمومنین (ع) کےلیے ربوبیت اور خدائی کا دعوی کیا ۔ خدا کی قسم وہ حضرت خدا کے مطیع بندے تھے ، وائے ہو ان لوگوں پر جنہوں نے ہم پر افترا کیا، ایک گروہ ہمارے بارےمیں وہ باتیں کہتا ہے جو ہم خود اپنے بارےمیں نہیں کہتے ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ، ان سے خدا کی طرف ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ان سے خدا کی طرف۔

صدوق ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن موسی بن بابویہ قمی قدس سرہ نے جو جلیل القدر فقہائے امامیہ میں سے ہیں کتاب عقائد میں ایک روایت زرارہ بن اعین سے جو موثق شیعہ راوی ، حافظ علم اہل بیت(ع) اور حضرت باقر العلوم و صادق آل محمد علیہم السلام کے اصحاب میں سے تھے نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ عبداﷲ بن سبا کی اولاد میں سے ایک شخص تفویض کا قائل ہے ۔ فرمایا تفویض کیا؟ میں نے عرض کیا وہ کہتا ہے:

"إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ مُحَمَّداً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ وَ عَلِيّاً- عَلَيْهِ السَّلَامُ- ثُمَّ فَوَّضَ الْأَمْرَ إِلَيْهِمَا، فَخَلَقَا، وَ رَزَقَا، وَ أَحْيَيَا، وَ أَمَاتَا."

( یعنی خدائے عزوجل نے محمد (ص) و علی(ع) کو پیدا کیا پھر بندوں کے امور ان کے سپرد کردئیے چنانچہ وہی خالق ہیں وہی رازق ہیں وہی زندہ کرتے ہیں ۔ وہی مارتے ہیں ) حضرت نے فرمایا کذب واﷲ جھوٹ بولتا ہے دشمن خدا جب تم پلٹ کر اس کے پاس جاؤ تو سورہ رعد کی یہ آیت پڑھو :

"أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْ ءٍ وَ هُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ " ( الرعد ،۱۶)

“ یعنی کیا مشرکین نے خدائے تعالیٰ کے کچھ شریک قرار دیئے کہ خدا کا پیدا کیا ہوا کون اور ان شرکاء کا پیدا کیا ہوا کون ہے۔ کہدو (اے محمد(ص)) کہ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ صرف خدائے تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی الوہیت میں یکتا ہے جس کا ارادہ ساری کائنات پر غالب ہے۔”

یہ آیت خود توحید باری تعالی کی تصریح کر رہی ہے۔ زرارہ کہتے ہیں کہ جس وقت میں اس کے پاس گیا اور یہ آیت حسبِ

۴۸

ارشاد امام(ع) میں نے اس کے سامنے پڑھی تو گویا میں نے اس کے منہ پر پتھر مار دیا وہ مبہوت ہو کے رہ گیا۔

اس طرح کی روایتیں ہماری معتبر کتابوں میں آئمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم اجمعین اور شیعوں کے برحق پیشواؤں کی طرف سے گروہ غلات کے لیے لعن و طعن اور بر کہنے میں کثرت سے وارد ہوئی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ جس طرح ہم آپ کے علماء کی کتابیں پڑھتے ہیں آپ بھی علمائے شیعہ کی معتبر کتابیں پڑھا کیجئے تاکہ ایسے الفاظ زبان سے نہ نکالیے جو بے چارے عوام کو بہکانے والے ہوں۔ اور آپ بھی خدا کے دربار عدالت میں گرفتار ہوں۔

حضرات محترم! میں آپ سے انصاف چاہتا ہوں ۔ آیا ایسی صورت میں جب کہ ہمارے ائمہ نے اپنے شیعوں کی رہنمائی کے لیے ایسے بیانات ارشاد فرمائے ہیں اور سچے شیعہ علی (ع) واولاد علی(ع) کے پیرو اپنے مقتداؤں سے ان روایتوں کے سنے ہوئے ہیں اس کے بعد بھی ان کو خدا یا خدائی کی جگہ پر قرار دیں گے؟ غالیوں کا گروہ ہم سے بالکل الگ اور ہم ان لوگوں سے بیزار اور علیحدہ ہیں۔ چاہے وہ بظاہر تشیع کا دعوی کریں۔ لیکن خدا اور رسول(ص) علی و اولا علی علیہم السلام سب کےسب ان سے بیزار اور سارے شیعہ بھی ان سے بیزار اورالگ ہیں۔

چنانچہ ہمارے مولا امیرالمومنین علیہ السلام نے رئیس غلات عبداﷲ بن سبا ملعون کو تین روز تک مقید رکھا اور توبہ کا حکم دیا جب اس نے قبول نہ کیا تو مجبورا اس کو آگ میں جلوا دیا۔ آپ کو خدا کے سامنے اس سے شرم آنا چاہئیے کہ آپ کے علماء تعصب و عادت اور اسلاف کی پیروی میں یہ لکھیں کہ تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا یہی عبداﷲ ملعون تھا جو حضرت علی(ع) کے حکم سے جلا دیا گیا۔ حالانکہ علمائے شیعہ نے ساری متعلقہ کتابوں میں اپنے ائمہ کی پیروی کرتے ہوئے عبداﷲ بن سبا کو ملعون بتایا ہے۔ لہذا عبداﷲ کے پیرو بھی ملعون ہیں کیونکہ وہ غلات میں سے ہیں نہ کہ آل محمد(ص) اور عترت طاہرہ پیغمبر(ص) کے محبت خالص شیعوں مین سے اس لیے کہ وہ س خداندان جلیل کے بارے میں غلو کی وہ سے دور اور مطرود ہیں۔

اگر تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا عبداﷲ ملعون ہوتا اور شیعہ اس کے پیرو ہوتے جیسا کہ آپ کے متعصب علماء نے لکھا ہے اور دوسرے ان کی اندھی تقلید کر کے جلسوں میں اس کو نقل کرتے ہیں تو کم سے کم شیعوں کی کسی ایک ہی کتاب میں اس کی کچھ تعریف درج ہونا چاہئیے تھی۔ اگر آپ علماء شیعہ امامیہ کی کسی ایک ایسی کتاب کا پتہ دے دیجئے جس میں عبداﷲ ملعون کی کوئی تعریف کی گئی ہو تو میں آپ کی ساری باتیں ماننے کے لیے تیار ہوں اور اگر یہ پتہ نہ دیں ( اور ہرگز نہیں دے سکتے ہیں) تو روز حساب اور محکمہ عدل الہی سے ڈرئیے ، پاک و موحد شیعوں کو عبداﷲ ملعون کا پیرو نہ کہیئے اور حقیقت کو بیخبر عوام کی نگاہوں میں مشتبہ نہ بنائیے۔

اس کے علاوہ میں آپ سے برادرانہ التماس کرتا ہوں کہ آپ چونکہ اہل علم ہیں لہذا ہمیشہ قاعدہ علم و منطق اور حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے گفتگو فرمائیں اور خلاف عقل و حقیقت باتوں اور بے بنیاد شہرتوں کا سہارا نہ لیں۔

۴۹

جن کو دشمنوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے شیعوں کی طرف منسوب کیا ہے۔

حافظ : آپ کی برادرانہ نصیحتیں ہر عقلمند کے لیے قابل قبول و توجہ ہیں لیکن اجازت دیجئیے کہ میں بھی فرمائش کے طور پر چند جملے عرض کروں۔

خیر طلب : میں بہت ممنوں ہوں گا فرمائیے!

حافظ : آپ اپنے بیانات میں برابر یہی فرمارہے ہیں کہ ہم اماموں کے بارے میں غلو نہیں کرتے اور غلات کو مردود و ملعون اور جہنمی جانتے ہیں لیکن ان دو راتوں میں آپ کی زبان سے بار بار اماموں کے حق میں ایسے الفاظ سنے جارہے ہیں کہ آپ ہی کے بیان کیئے ہوئے قواعد کی روسے وہ حضرات اس قسم امور پر راضی نہیں ہیں ۔ لہذا ممکن ہو تو آپ بھی بات چیت کے موقع پر اس کا لحاظ رکھیں تاکہ مطعون نہ ہوں۔

خیر طلب : میں خشک و تنگ نظر اور متعصب و جاہل انسان نہیں ہوں ، بہت ممنون ہونگا کہ اگر میری گفتگو میں کوئی لغزش پائی جاتی ہو تو اس کی یاد دہانی فرما دیجئیے چونکہ انسان سہو و نسیان کا مرکز ہے لہذا تمنا رکھتا ہوں کہ ان دو راتوں میں جوکچھ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوکہ ائمہ ہدی علیہم السلام کے خلاف مرضی کہا گیا ہے اور علم و عقل و منطق سے مطابقت نہیں کرتا اس کو بیان فرمائیے۔

حافظ : میں نے ان دو شبوں میں مکرر آپ سے سنا ہے کہ جس موقع پر اپنے اماموں کا نام لیتے ہین تو بجائے اس کے کہ رضی اﷲ عنہم کہیں ، سلام اﷲ علیہم اور صلوات اﷲ علیہم کہا ہے در آںحالیکہ خود جانتے ہیں کہ سورہ احزاب کی آیہ شریفہ کے حکم سے جس میں ارشاد ہے :

" إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً" ( الاحزاب، ۵۶ )

یعنی خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر کی روح پاک پر درود بھیجتے ہیں۔ اے اہل ایمان تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کرو ( اور ان کے فرمان کو تسلیم کرو) آیت نمبر۵۶ سورہ نمبر۱۳۳ ( احزاب) سلام اور صلوة صرف رسول خدا(ص) سے مخصوص ہے چونکہ آپ اپنے بیانات میں اماموں کے لیے بھی صلوات و سلام کا ذکر کرتے ہیں ۔ لہذا بدیہی چیز ہے کہ یہ عمل قرآن مجید کی ںص صریح کے خلاف ہے۔

آپ کے اوپر جو اعتراض کئیے جاتے ہیں ان میں سے ایک موضوع یہ بھی ہے کہ کہتے ہیں یہ امر بدعت ہے اور اہل بدعت اہل ضلالت ہیں۔

آل محمد علیھ م السلام پر سلام اور صلوات بھیجنے کے بار ے م یں مناظرہ

خیر طلب :- جماعت شیعہ نے ہ رگز کوئ ی عمل نص کے خلاف ن ہ ک یا ہے ن ہ کرت ے ہیں ۔ ہ وا یہ کہ گذشت ہ

۵۰

صد یوں میں خوارج و نواصب ،بنی امیہ اور ان کے پ یرووں نے ح یلہ سازیاں شروع کیں اور شیعوں کو اہ ل بدعت نام زد کرنے ک یلئے فرضی دلیلیں قائم کیں جن کا بڑے ب ڑے ش یعہ علماء نے مکمل جواب د یا اور ثابت کیا ہے ک ہ ہ م ا ہ ل بد عت ن ہیں ہیں ۔ چونک ہ دشمن ک ے ہ ات ھ و ں م یں قلم ہے ل ہ ذا تن ہ ا قاض ی بن کر جو چاہ ت ے ہیں لکھ ت ے ہیں ۔ اس موضوع پر ب ھی مفصّل جواب دیا جاچکا ہے ۔ ل یکن چونکہ وقت کاف ی گزر چکا ہے ۔ ل ہ ذا تفص یلی جواب سے قظع نظر کرتا ہ و ں محض اس لئ ے ک ی آپ کی فرمائش بغیر جواب کے ن ہ ر ہ جائ ے اور حضرات ا ہ ل جلس ہ اور م یرے برادران عزیز کے سامن ے حق یقت امر مشتبہ ن ہ ر ہے مختصر طور س ے عرض کرتا ہ و ں ، اوّل تو یہ کہ اس آیت میں کسی دوسرے پر سلام وصلوات ب ھیجنے کو منع نہیں کیا گیا ہے ۔ فقط حکم د یا جاتا ہے ک ہ مسلمانو ں کو لازم ہے ک ہ آ ں حضرت (ص) پر صلوات ب ھیجیں ۔

دوسرے جس خدائے بر تر ن ے یہ آیت نازل فرمائی ہے و ہی سورہ ۳۷ (صافات)آ یت ۱۳۰میں فرماتا ہے ۔ سلام عل ی آل یاسین (یعنی سلام ہ و یسین کی آل پر )خاندان رسالت کی اہ م خصوص یات میں سے ا یک یہ بھی ہے ک ہ قرآن مج ید میں ہ رجگ ہ مخصوص طور پر انب یائے کرام پر سلام ہے و ہ ف رماتا ہے ۔ "سلام عل ی نوح فی العالمین"،"سلام علی ابراہیم "،"سلام علی موسی وھ ارون" (سور ہ صافات ) ل یکن کسی مقام پر اولاد انبیا ء کے ل یئے سلام نہیں آیا ہے ،سوا اولاد خاتم الانب یاء کے جن ک ے لئ ے ارشاد ال ہی ہے ، سلام عل ی آل یا سین ، یاسین بھی رسول خدا(ص) کا ایک نام ہے ۔

"یس "کے معن ی اور یہ کہ "س"پ یغمبر صلّی اللہ عل یہ وآلہ کا نام مبارک ہے

آپ کو معلوم ہے ک ہ قرآن مج ید میں پیغمبر(ص)کے بار ہ نامو ں م یں سے پانچ نام امت ک ی مزید معرفت کیلئے ذکر کئے گئ ے ہیں اور وہ پانچ مقدس اسماء محمد، احمد، عبدالل ہ ، نون اور یاسین ہیں ۔ سور ہ نمبر ۳۶ ک ے شروع م یں فرماتا ہے " یس و القرآن الحکیم انّک لمن المر سلین " یا حرف ندا اور "س"آنحضرت (ص) کا نام مبارک اور آنحضرت (ص) کی ظاہ ر ی وباطنی معتدل حقیقت اور مساوات کی طرف اشارہ ہے ۔

نواب:- اس کا کیا سبب ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی میں "س" آنحضرت (ص) کا نام مبارک قرار پایا ؟

خیر طلب :- میں نے عرض ک یا کہ آنحضرت(ص) ک ے عالم معنو ی اورحقیقت اعتدال کی طرف ایک اشارہ ہے ۔ ک یونکہ منزل خاتمیت کی حقدار وہی ذات ہے جس کا وجود حد اعتدال کو پ ہ نچا ہ وا ہے یہ اس وقت ممکن ہے جب اس کا

۵۱

ظا ہ ر وباطن یکساں ہ و اور یہ مرتبہ آ ں حضرت (ص) ک ے وجود مق دس کو حاصل تھ ا ،ل ہ ذا حرف "س" ک ے سات ھ اس ح یثیت کا اظہار فرمایا ۔

عام عقلوں س ے قر یب تر بیان یہ ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی کے درم یان صرف "س" ہی ایسا ہے جس کا ظا ہ ر وباطن برابر ہے اس معن ی سے ک ہ ا ٹھ ائ یس حرفوں م یں سے ہ ر ا یک کے لئ ے علمائ ے علم اعداد ک ے نزد یک ایک زبر اور ایک بیّنہ ہے اور حرف ک ے زبر و ب یّنہ کا تطابق کرنے م یں قطعی طور پر یا اس کا زبر زیادہ ہ وتا ہے یا بیّنہ ۔

نواب :- قبلہ معاف فرمائ یے گا میں جسارت کر رہ ا ہ و ں ۔ چونک ہ م یں گہ ر ے مضام ین کو سمجھ ن ے س ے معذور ہ و ں ل ہ ذا استدعا ہے ک ہ ان راتو ں م یں مطالب کو سادہ اور واضح طر یقے سے ب یان فرمائیے تاکہ ہم سب کے لئ ے لائق توج ہ اور قابل قبول ہ و ں چونک ہ ہ م لوگو ں ن ے زبر وب یّنہ ک ے معن ی نہیں سمجھے ،ل ہ ذا م یں متمنی ہ و ں ک ہ ساد ہ ب یان کے سات ھ وضاحت فرمائ یے تاکہ یہ معمّا حل ہ و جائ ے ۔

خیرطلب :-بسرو چشم ،زبر سے حرف ک ی صورت مراد ہے جو کاغذ پر لک ھی جاتی ہے ا ور بیّنہ سے و ہ ز یادتی ہے جو بولن ے ک ے وقت ظا ہ ر ہ وت ی ہے "س" کاغذ ک ے اوپر ا یک حرف ہے ل یکن تلفظ کے وقت ت ین حرف ہ وجات ے ہیں ۔ س ۔ی ۔ ن ۔ بولن ے ہیں اس پر یا اور نون کا اضافہ ہ وجاتا ہے ۔ اورا ٹھ ائ یس حروف تہ ج ی میں صرف "س" ہی وہ حرف ہے ک ہ حساب ک ی مطابقت کرنے م یں اس کا زبر اور بیّنہ برابر رہ تا ہے "س" ک ے عدد سا ٹھ ہیں اور اس کا بیّنہ بھی جس سے " ی"اور"ن"مراد ہیں ساٹھ عدد کا حامل ہے " ی" کے (۱۰)اور"ن"ک ے (۵۰)مل کر سا ٹھ ہ وئ ے اس ی وجہ سے قرآن مج ید میں خاتم الانبیاء کوآنحضرت (ص)کے ظا ہ ر و باطن ک ی طرف اشارہ کرت ے ہ وئ ے " یس"کہہ کر مخاطب ک یا ۔یعنی اے و ہ شخص جو ظا ہ ر وباطن دونو ں ح یثیتوں سے اعتدال پر ہے ۔

آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں

اب چونکہ حضرت کا نام مبارک "س" ہے ل ہ ذا اس آ یہ مبارکہ م یں فرماتا ہے "سلام عل ی آل یسین "یعنی سلام آل محمد(ص) پر۔

حافظ:- یہ ایسے مطالب ہیں جن کو آپ اپنے جادو ب یانی سے ثابت کرنا ہ ت ے ہیں ورنہ علماء ک ے درم یان اس کا ذکر نہیں آیا ہے ک ہ آل یا سین پر سلام ہ و ۔

۵۲

خیر طلب :- میں متمنی ہ و ں ک ہ انکار ک ے مواقع پر قطع ی طور سے کوئ ی بات نہ ک ہہ د یا کیجیئے بلکہ ترد ید کی صورت میں فرمایا کیجئے تاکہ جواب ک ے وقت آپ کو پچ ھ تان ے ک ی ضرورت نہ ہ و ۔ اگر آپ اپن ے علماء ک ی کتابو ں س ے ب ے خبر یا واقف ہیں لیکن تصدیق کرنے ک ے خلاف سمج ھتے ہیں تو میں آپ کی کتابوں س ے باخبر ہ و ں اور حق س ے من ہ ب ھی نہیں موڑ تا ہ و ں ۔

آپ کے ب ڑے ب ڑے علماء ک ی کتابوں م یں کثرت سے اس معن ی کی طرف اشارہ ک یا گیا ہے ،منجمل ہ ان ک ے متعصب ابن حجر ن ے صواعق محرق ہ ک ے اندر جو آ یات فضائل اہ ل ب یت علیھ م السلام میں نقل کی ہے ان م یں سے ت یسری آیت کے ذ یل میں لکھ ا ہے ک ہ مفسّر ین کی ایک جماعت نے مفسّر اور خ یر امّت ابن عباس سے نقل ک یا ہے ک ہ "المراد بذالک سلام عل ی آل محمد"یعنی الیاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں لہ ذا آل یاسین پر سلام کا مطلب ہے سلام آل محمد(ص) پر اور لک ھ ت ے ہیں کہ اما م فخر الد ین رازی نے ذکر ک یا ہے ۔ ان اهل بیته صلّی الله علیه وآله وسلّم یساوونه فی خمسة اشیاء ،فی السلام قال" السلام علیک ایها النبی" و قال" سلام علی الیاسین "، فی الصلواة علیه علیهم فی التشهد وفی الطهارة قال الله تعالی "طه یا طاهر "وقال " یطهرکم تطهیرا "،و فی تحریم الصدقة ،وفی المحبة قال تعالی "قل ان کنتم تحبّون الله فاتبعونی یحببکم الله وقال قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربی"

(یعنی رسول کے ا ہ ل ب یت علیھ م السلام پانچ چیزوں میں آنحضرت (ص) کے برابر ہیں اول سلام میں فرمایا سلام پیغمبر بزرگوار اور یہ بھی فرمایا سلا م آل یاسین پر (یعنی سلام آل محمد پر۔ )دوسر ے صلوات م یں تشہ د نماز م یں۔ ت یسرے طہ ارت م یں خدائے تعال ی نے فرمایا ہے ط ہ یعنی اے طا ہ ر اور ان حضرات ک ے بار ے م یں آیت تظہیر نازل فرمائی ۔ چوت ھے تحر یم صدقہ م یں کیونکہ پیغمبر اور ان کے ا ہ ل ب یت پر صدقہ حرام ہے ،پانچو یں محبت میں ،ک یوں کہ خدائ ے تعال ی نے فرما یا (محمدص) کہہ دو(امت س ے )م یں تم سے کوئ ی اجر اور مزدوری نہیں چاہ تا ہ و ں سوا م یرے ذوی القربی اور اہ لب یت سے محبت ک ے ) ۔

سید ابو بکر بن شہ اب الد ین علوی کتاب "شفتہ الصاد ی من الصادی من بحر فضائل بنی النبی الھ اد ی(مطبوعہ مطبع ہ اعلام یہ مصر سنہ ۱۳۰۳ ھ ک ے باب اول صفح ہ ۲۴ پر مفسر ین کی ایک جماعت سے بروا یت ابن عباس ونقاش کلبی سے اور باب ۲ صفح ہ ۴۲ پر نقل ک یا ہے ک ہ آ یت میں آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں اور امام فخرالدین رازی نے تفس یر کبیر جلد ہ فتم صفح ہ ۱۶۳ م یں اسی آیت شریفہ کے ما تحت آ یت کے معن ی میں کئی وجہیں نقل کی ہیں اور وجہ دوم م یں کہ ا ہے ک ہ ال یا سین سے مراد آل محمد سلام الل ہ عل یھ م اجمعین ہیں نیز ابن حجر نے صواعق محرق ہ م یں ذکر کیا ہے ک ہ مفسر ین کی ایک جماعت نے ابن عباس سے نقل ک یا ہے ، ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "سلام عل ی الیاسین" سلام آل محمد (ص) پر۔

۵۳

لیکن اہ ل ب یت علیھ م السلام پر صلواۃ بھیجنا تو ایک ایسا امر ہے جو فر یقین کے درم یان مسلم ہے یہ ا ں تک کہ بخار ی اور مسلم بھی اپنی صحیحین میں تصدیق کرتے ہیں کہ پ یغمبر نے فرما یا میرے اور میرے اہ ل ب یت علیھ م السلام کے دوم یان صلواۃ میں جدائی نہ ڈ الو ۔

آل محمد(ص) پر صلوات بھیجنا سنت اور تشہ د نماز م یں واجب ہے

مخصوص طور پر بخاری اپنی صحیح کی جلد سوم میں مسلم اپنی صحیح کی جلد اول میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ میں حتی ابن حجر ایسے متعصب نے صواعق م یں اور آپ کے دوسر ے ب ڑے علماء کعب بن عجز ہ س ے نقل کرت ے ہیں کہ جب آ یت "انّ اللہ و ملائکت ہ یصلون علی النبی "(سورہ احزاب ۴۳) ہ وئ ی تو ہ م لوگو ں ن ے عرض ک یا کہ یا رسو ل اللہ آپ پر سلام کرن ے کا طر یقہ تو ہ م کو معلوم ہ وا ل یکن "کیف یصلی علیک ؟" آپ پر صلواۃ کس طرح بھیجیں ؟ آں حضرت ن ے فرما یا صلوات اس طریقے سے ب ھیجو" اللھ م صلّ عل ی محمد وآل محمد اور دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے ک ہ "کما صلّ یت علی ابراھیم و آل ابراھیم انّک حمید مجید "

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۷۹۷ م یں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص) س ے لوگو ں ن ے سوال ک یا کہ ہ م آپ پر کس طرح س ے صلوا ۃ بھیجیں ؟ آنحضرت (ص) نے فرما یا کہ و " اللهم صلّ علی محمد و علی آل محمد کما صلّیت علی ابراهیم وعلی آل ابرا هیم وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراهیم و علی آل ابراهیم انّک حمید مجید.

اور ابن حجر نے ت ھ و ڑے س ے لفظ ی اختلاف کے سات ھ یہی روایت حاکم سے نقل ک ی ہے اس ک ے بعد اپن ے عق یدے اوررائے کا اظ ہ ار کرت ے ہ و ے ک ہ ت ے ہیں ۔ "وف یہ دلیل ظاھ ر عل ی ان الامر بالصلوات علیہ الصلوات علی آلہ " یعنی حدیث میں اس پر کھ ل ی ہ وئ ی دلیل ہے ک ہ پ یغمبر (ص)پر صلوات بھیجنے کا حکم آنحضرت (ص)کی آل پر بھی صلوات بھیجنے کے لئ ے ہے ۔ ن یز روایت کی ہے ک ہ فرما یا "لا تصلّوا علیّ الصلواة البتراء" یعنی مجھ پر بترا اور دم بر یدہ صلوات نہ ب ھیجو لوگوں ن ے عرض ک یا یا رسول اللہ صلوا ۃ بتراء کون ہے ؟ فرما یا اگر کہ و "اللھ م صلّ عل ی محمد "لہ ذا یوں کہ و"الل ھ م صلّ عل ی محمدو علی آل محمد۔

اس کے علاو ہ د یلمی نے نقل ک یا ہے ک ہ رسول اکرم (ص)"الدعا ء محجوب حت ی یصلی علی محمد وآلہ " ۔ دعا پرد ے م یں رہ ت ی ہے (اور قبول ن ہیں ہ وت ی )جب تک محمد وآل محمد پر درود نہ ب ھیجیں ۔ اور اما م شافع ی سے نقل ک یا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا :

۵۴

یا اهل بیت رسول الله حبکم ----- فرض من الله فی القرآن انزله

کفاکم من عظیم القدر انکم ----- من لم یصل علیکم لا صلواة له

(یعنی اے ا ہ ل ب یت رسول اللہ (ص) تم ہ ار ی دوستی خدا نے قرآن مجید میں واجب کی ہے ،تم ہ ار ی بزرگی ،منزلت اور مرتبے ک یلئے یہی کافی ہے ک ہ جو شخص تم پر صلوا ۃ نہ ب ھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہ وت ی ، شافعی کی مراد تشہ د نماز م یں صلوات ہے ، جس کو اگر عمدا ترک کرد یں تو نماز باطل اور غیر مقبول ہے ۔)

رسول اکرم(ص)کے اس ارشاد ک ے پ یش نظر کہ "الصلواة عمود الدین ان قبلت قبل ما سواها وان ردّت ردّ ما سواها "( یعنی نماز دین کا نگہ بان اور ستون ہے اگر نماز قبول ہ وجائ ے تو اس ک ے علاو ہ دوسر ے تمام اعمال ب ھی قبول ہ وجات ے ہیں ، اور اگر نماز رد ہ وجائ ے تو دوسر ے اع مال بھی رد ہ وجات ے ہیں ۔ تمام اعمال ک ی قبولیت نماز سے وابست ہ ہے اور جو روا یتیں پیش کی گئی ہیں ، ان پر نظر کرتے ہیں ہ وئ ے نماز ک ی قبولیت بھی محمد وآل محمد (ص) پر صلوات بھیجنے میں منحصر ہے ج یسا کہ شافع ی نے خود اقرار ک یا ہے ۔

سید ابو بکر شہ اب الد ین نے کتاب "شفت ہ الصاد ی من بحر فضائل بنی النبی الہ اد ی"باب ۲ میں صفحہ ۲۹-۳۵ تک محمد وآل محمد پر صلوات ب ھیجنے کے وجوب م یں کئی بیانات درج کئے ہیں اور دلائلی نے نسائ ی سے دارقطن ی ،ابن حجر اور بہیقی نے ابوبکر طوس ی سے ان ہ و ں ن ے ابو اسحاق مروزی اور سمہ ود ی سے ، نوو ی نے تنق یح میں اور شیخ سراج الدین قصیمی یمنی نے نقل ک یا ہے ک ہ نماز ک ے تش ہ د م یں محمد صلی اللہ عل یہ وآلہ وسلم ک ے نام مبارک ک ے بعد آل محمد پر صلوات ب ھیجنا واجب ہے ۔

چونکہ وقت کافی گزر چکا ہے ل ہ ذا مفصل ب یان سے قطع نظر کرتا ہ و ں اور ف یصلہ آپ حضرات کے پاک ضم یر پر چھ و ڑ تا ہ و ں ۔

چنانچہ آپ حضرات اس کی تصدیق فرما ئیں کہ ا ہ ل ب یت پیغمبر پر درود سلام بدعت نہیں بلکہ سنت اور ا یسی عبادت ہے جس ک ے لئ ے خود رسول (ص) ک ی تاکید ہے اور اس ک ی حقیقت سے کوئ ی انکار نہیں کرسکتا سوا خوارج و نواصب اور ضدی کینہ تو پرور اور دشمن متعصبین( خذلھ م الل ہ )ک ے جن ہ و ں ن ے اصل ی بات کو برادران اہ ل سنت ک ی نگاہ و ں پر مشتب ہ بنا د یا ہے اور بنات ے ر ہ ت ے ہیں ۔

یہ بدیہی بات ہے ک ہ جو ہ ست یاں اس حکم میں خاتم الانبیاء (ص) سے اس قدر قر یب ہیں اور ذکر میں دوسروں پر مقدم ہیں ان کا دوسروں پر ق یاس کرنا اور دوسروں کو ان ک ے اوپر ترج یح دینا سوا سفاہ ت اور ج ہ الت یا تعصب کے وب ے خبر ی کے اور ک یا ہے ؟

اس موقع پر چونکہ آدھی رات گزرچکی تھی۔ اور بعض حاضرین جلسہ کے چہروں پر کسل مندی کے

۵۵

آثار ظاہر تھے ۔ لہذا ہم لوگوں نے نشست کو ختم کردیا اور چائے نوشی اور اس اقرار کے بعد کہ کل شب میں ذرا سویرے تشریف لائینگے سب حضرات متفرق ہوگئے -

تیسری نشست

شب یک شنبہ ۲۵ رجب سنہ۱۳۴۵ھ

ہم لوگ نماز مغرب سے فارغ ہوچکے تو مولوی صاحبان تشریف لے آئے اور معمولی صاحب سلامت کے بعد چاء نوش میں مشغول ہوئے میں بھی نماز عشاء ختم کرنے کے بعد اطمینان کے ساتھ ان حضرات کی گفتگو سننے کے لیے حاضر ہوا۔

حافظ : قبلہ صاحب کا شب میں جب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس گئے تو میں نے اپنے کو بہت ملامت کی کہ ہم دوسری قوموں کے عقائد میں اس لیے زیادہ غور فکر نہیں کرتے اور (بقول آپ کے) صرف بعض متعصب لوگوں کی کتابوں پر اکتفا کر لیتے ہیں جس سے حقیقت ہم پر ظاہر نہیں ہوتی۔

خیر طلب : جیسا کہ خدائے تعالی نے سورہ نمبر۵( انعام ) ، آیت ص۱۵۰ میں ارشاد فرمایا ہے کہ قل ﷲ الحجة البالغہ ۔ (۱) کل شب کی نشست بھی خدائی دلیلوں میں سے ایک دلیل تھی تاکہ اس کے ذریعہ سے آپ حضرات ابتدائے صحبت ہی میں کسی قدر اپنی عادت سے ہٹ کے اور دیدہ انصاف و علم و عقل کے ساتھ میری گزارش پر توجہ کر کے یہ جان لیں کہ جو کچھ میں عرض کررہا ہوں وہ علم عقل اور منطق و حقیقت کی میزان پر تلا ہوا ہے۔اور جو

باتیں پہلے سے آپ حضرات کے سمع مبارک میں پہنچائی گئی ہیں، اور جنہوں نے آپ کے ذہن کو غلط راستہ پر ڈال دیا ہے اور خود غرض متعصب لوگوں کے عناد اور ضد کا نتیجہ ہیں۔

میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ ان جلسوں میں میرا نظر یہ قطعی طور پر یہ نہیں ہے ۔ کہ گفتگو میں خود غالب رہوں اور آپ حضرات کو مغلوب کروں بلکہ ہمیشہ کی طرح میرا مقصد اور نقطہ نظر حریم تشیع کی طرف سے دفاع اورحق و حقیقت کو نمایاں کرنا ہے۔

حافظ : کل شب کے بیانات میں آپ کے فقرات سے ظاہر ہوا کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں، تو آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ کہدو اے پیغمبر کہ خدا کے لیے کامل حجت ہے۔

۵۶

شیعوں کے کس طبقے کو برحق اور ان کے اقوال و عقائد کو صحیح سمجھتے ہیں ؟ اگر ممکن ہوتو مطلب واضح ہونے کے کیے ان طبقات کو بیان فرمائیے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ کس گروہ کے بارے میں ہم کو بحث کرنا چاہیے۔

خیرطلب : میں نے گذشتہ شب میں یہ تو عرض نہیں کیا ہے کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں بلکہ شیعہ کی جس معنی کے ساتھ میں نے تشریح کی ہے یعنی خدا و رسول(ص) کے فرمانبردار بندے اورآں حضرت(ص) کے حکم سے خاندان رسالت کے پیرور دہ ایک طبقے سے زیادہ نہیں ہیں۔ البتہ چند شعبدہ باز فرقوں نے تشیع کے نام پر اپنی نمائش کر کے بے خبر جاہل لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیا۔ مقدس شیعہ نام سے غلط فائدہ اٹھایا اور باطل عقائد بلکہ کفر و بے دینی کو اس نام سے لوگوں کے درمیان رائج کیا لہذا نا واقف اشخاص نے جو حقائق کی تشخیص نہٰیں کرتے ہیں تاریخ میں لفظ شیعہ سے ان کو موسوم کیا ہے ۔ ان لوگوں کے بنیادی طبقے چار ہیں جن میں صرف دو باقی رہ گئے ہیں اور دو بالکل فنا ہوچکے ہیں۔ اور ان کے ہر طبقے سے اور دوسرے فرقے پیدا ہوئے ان چار فرقوں سے مراد ہیں زیدیہ ، کیسانیہ، قداحیہ اور غلات۔

عقائد زیدیہ

پہلا فرقہ زیدیہ ہے اور وہ ایسے لوگ ہیں جو زید ابن علی ابن الحسین علیہما السلام کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور امام زین العابدین علیہ السلام کے بعد زید کو امام مانتے ہیں ، زیدیہ فرقے والے فی الحال یمن اور اس کے اطراف میں کثرت سے ہیں ، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو علوی اور فاطمی شخص عالم و زاہد اور شجاع ہو ، اس کے علاوہ تلوار کے ساتھ خروج کرے اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے وہ امام ہے اور چونکہ جناب زید نے ہشام ابن عبدالملک اموی کے زمانہ خلافت میں بنی امیہ کے ظلم اور چیرہ دستی کی وجہ سے کوفہ میں خروج کیا اور شربت شہادت نوش فرمایا۔ جیسا کہ پرسوں کی شب میں میں نے ایک موقع پر ان بزرگواروں کی مفصل کیفیت عرض کی ہے۔ لہذا ان کو امام سمجھ کر ان کی پیروی اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔ حالانکہ جناب زید کی منزل اس سے کہیں الگ ہے کہ ان کی طرف ایسی نسبت دیں ۔ جناب زید بنی ہاشم کے بزرگ سادات میں سے تھے۔ زہد، علم، فضل ، فہم، دینداری، پرہیزگاری، عبادت ، شجاعت اور سخاوت میں قوم کے اندر نمایاں اور ہمیشہ قائم اللیل اور صائم النہار تھے۔

رسول اکرم(ص) آں جناب کی خبر شہادت دے چکے تھے جیسا کہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

" وضع رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم يده على صلبي فقال: يا حسين يخرج من صلبك رجل يقال له زيد يقتل شهيدا إذا كان يوم القيامة يتخطّى هو و أصحابه رقاب الناس، فيدخلون الجنة "

( یعنی رسول اﷲ(ص) نے اپنا دست مبارک میری پشت پر رکھا اور فرمایا کہ اے حسین(ع)

۵۷

عنقریب تمہاری صلب سے ایک مرد پیدا ہوگا۔ جس کا نام زید ہوگا وہ شہید قتل ہوگا۔ اور جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ اور اس کے اصحاب لوگوں کی گردنوں پر قدم رکھتے ہوئے بہشت میں داخل ہوں گے۔)

( اور یہ بدیہی بات ہے کہ اصحاب سے وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے خروج کے موقع پر ظلم بنی امیہ کے مقابلے میں ان جناب کے ہمراہ مقاومت کی لیکن خود جناب زید نے کبھی امامت کا دعوی نہیں کیا۔ اور یہ ایک تہمت ہے جو ان پر لگائی گئی ہے ورنہ وہ خود اپنے کو اپنے برادر بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کا تابع اور مطیع سمجھتے تھے۔ البتہ ان جناب کے بعد چند شعبدہ باز اس اصول کے قائل ہوگئے کہ:

"ليس الامام من جلس في بيته و أرخى عليه ستره، بل الامام كل فاطمي عالم صالح ذي رأي يخرج بالسيف."

( یعنی وہ شخص اور امام نہیں ہے جو گھر میں بیٹھ رہے اور اپنے کو لوگوں سے پوشیدہ رکھے بلکہ ہر وہ عالم، صالح اور صاحب رائے فاطمی امام ہے۔جو خروج بہ شمشیر کرے۔)

لوگوں کو آپ کی امامت کی طرف دعوت دی اور نئی نئی شکلیں ایجاد کر کے اپنے مقاصد حل کرنے کے لیے ایک وکان کھول دی یہ لوگ پانچ فرقوں میں تقسیم ہوئے ۔ مغیریہ ، جارودیہ، ذکریہ، خشییہ اور خلقیہ۔

عقائد کیسانیہ

دوسرا فرقہ کیسانیہ ہے یہ لوگ کیسان غلام و آزاد کردہ علی ابن ابی طالب کے اصحاب شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ حسنین علیہما السلام کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کے سب سے بڑے فرزند محمد ابن حنفیہ کی امت کے قائل تھے ۔ لیکن جناب محمدخود ایسا دعوی نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ ان کو سید لتابعین کہا جاتا تھا اور علم زہد ورع و تقوی اور امر مولیٰ کی اطاعت میں مشہور تھے بعض بازی گروہ نے حضرت زین العابدین علیہ السلام کے ساتھ آپ کی مخالفتوں کے قضیہ کو حیلہ بنایا اور آپ کے دعوی امامت کی دلیل قرار دیا ۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ نہیں تھی کہ آپ امامت کے مدعی تھے بلکہ ان مخالفتوں سے جناب محمد کا مقصود امام چہارم حضرت سید سجاد علیہ السلام کی منزل ظاہر کرتا تھا تاکہ اس طریقہ سے اپنے جاہل مریدین اور سادہ لوح معتقدین کو متوجہ فرما دیں کہ میں اس منصب پر فائز نہیں ہوں چنانچہ اسی مسجد الحرام کے اندر حجر اسود کے سامنے ثبوت حق اور حضرت سید سجاد علیہ السلام کی امامت کے بارے میں حجر اسود کے اقرار کے بعد جیسا کہ کتب اخبار و تاریخ میں اس کی تفصیل موجود ہے، ابو خالد کابلی نے ان جناب کے معتقدین کا راس و رئیس تھا محمد حنیفہ کو امام ماننے والوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان جناب کی پیروی کرتے ہوئے امامت حضرت سید سجاد علیہ السلام کا اعتراف کیا، لیکن چند مکاروں نے بے عقل اور بے خبر عوام کے ایک گروہ کو اسی عقیدے پر باقی رکھا۔ اور

۵۸

بہانہ یہ بنایا کہ جناب محمد نے انکسار سے کام لیا ہے اور بنی امیہ کے مقابلہ میں سیاست کا یہی تقاضا بھی تھا ورنہ ان کی امامت مسلم ہے آپ کی وفات کے بعد بھی یہ لوگ اس پر جمے رہے اور کہا کہ جناب محمد مرے نہیں بلکہ جبل رضوی کے غار میں پوشیدہ ہوگئے ہیں ایک زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و داد سے بھر دیں گے ۔ ان کے چار فرقے تھے۔ مختاریہ، کربیہ، اسحاقیہ اور حربیہ، لیکن آج اس عقیدے پر کوئی شخص باقی نہیں ہے۔

عقائد قداحیہ

تیسرا گروہ قداحیہ ہے ان لوگوں کے مذہب کی بنیاد بظاہر تشیع مگر باطنا محض کفر ہے۔ اس مذہب کی اصل تشکیلات میمون ابن سالم یا ( ویصان) معروف بہ قداح اور عیسی جہار لختان کے ہاتھوں مصر میں شروع ہوئیں اور انہوں نے قرآن مجید و اخبار میں اپنی خواہش کے مطابق تاویلات کا دروازہ کھولا ۔ شریعت کے لیے ایک ظاہر اور ایک باطن قرار دیا اور کیا کہ باطن شریعت کی خدا نے پیغمبر کو پیغمبر نے علی(ع) کو انہوں نے اپنے فرزندوں کو اور خالص شیعوں کو تعلیم دی۔ ان کا قول ہے کہ جن لوگوں نے باطن شریعت کو سمجھ لیا وہ ظاہری طاعت و عبادت ی قید سے آزاد اوربے فکر ہوگئے۔

انہوں نے مذہب کی بنیاد سات ستونوں پر قائم کی۔ سات پیغمبروں کے معتقد ہیں۔ سات امام مانتے ہیں اور ساتویں امام کا غائب جانتے ہیں۔ اور ان کے ظہور کے منتظر ہیں۔ یہ دو جماعتوں پر متقسم تھے۔

ناصریہ : مذہب خسرو علوی کے اصحاب جنہوں نے اپنے اشعار و گفتار اور کتابوں میں شیعہ کے نام پر بہت سے لوگوں کو کفر و الحاد کی طرف کھینچ لیا اور طبرستان میں کافی پھیلے ہوئے تھے۔

صباحیہ : یہ دوسری جماعت حسن صباح کے اصحاب تھے جو در اصل معرکا باشندہ تھا لیکن ایران میں آکر قزوین کے اندر واقعہ اسفناک اور الموت کا فتنہ عظیم پرپا کیا اور بکثرت قتل و خونریزی کا باعث بنا جس کی تفصیل تاریخ میں موجود ہے لیکن اس مختصر مجلس میں اس کے مفصل تاریخی حالات بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔

عقائد غلات

چوتھی جماعت غالیہ ہے جو تمام قوموں اور فرقوں سے زیادہ پست ہے یہ لوگ تشیع کے نام سے مشہور ہوگئے لیکن یہ سب کےسب کافر نجس اور فاسد و مفسد ہیں ان کے اصلی فرقے سات میں سبائیہ، منصوریہ، غرابیہ،

۵۹

بزیعینہ، یعقوبیہ، اسماعیلیہ، اور ازدریہ، ان کے حالات اور پیدائش کی تشریح کل کی شب میں مقتضائے مجلس کے لحاظ سے مختصر طور پر عرض کرچکا ہوں ۔ ہم شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کی پوری ملت بلکہ دنیا کے سارے مسلمان ان سے اور ان کے عقائد سے بیزار ہیں ہم ان کو ہر نجس سے زیادہ نجس کافر ملحد اور بے دین سمجھتے ہیں۔

کفر والحاد کے قاعدے پر جو عقیدہ بھی صراحتہ یا کنایة شیعوں کے نام سے زبانوں پر مشہور اور بعض کتابوں میں عمدا یا سہوا درج ہوا ہے، وہ زیادہ تراسی گروہ سے ہے جو اپنے کو شیعہ علی کہتا ہے لیکن جماعت شیعہ امامیہ اثنا عشریہ جو دنیا میں اسی کروڑ سے زیادہ تعداد کے مالک ہے ان فاسد عقائد سے دور ہے بلکہ اصلی دین، پاکیزہ مذہب اور شریعت کا لب لباب جو باب علم رسول امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام سے حاصل ہوا ہے انہیں لوگوں کے پاس ملتا ہے۔

عقائد شیعہ امامیہ اثنا عشریہ

پانچواں گروہ شیعہ امامیہ اور فرقہ فقہ اثناعشریہ ہے جو عقل و نقل کے مطابق شریعت کے لب و لباب کا حامل ہے اور در اصل حقیقی شیعہ یہی لوگ ہیں اور وہ چار فرقے فرضی شیعہ ہیں۔

ان میں حقیقی شیعوں کے اعتقاد کا خلاصہ فہرست کے طور پر آپ کے سامنے پیش کیئے دیتا ہوں تاکہ بعد کو ان کی طرف غلط باتیں منسوب نہ کیجئے۔

شیعہ امامیہ کی پوری جماعت ذات واجب الوجود خداوند جل و علا کا اعتقاد رکھتی ہے کہ وہ ایسا واحد یکتا ہے جو اپنا شبیہ و عدیل اور نظیر نہیں رکھتا نہ جسم ہے نہ صورت نہ جوہر ہے نہ عرض ، جملہ صفات مکانیہ سے مبرا و معرا ہے بلکہ سارے اعراض و جواہر کا خالق ہے اور خلق موجودات اور ان پر فیوض نازل کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ بعض عارفین نے پروردگار کی صفات سلبیہ کو شعر میں اس طرح نظم کیا ہے۔

نہ مرکب بود نہ جسم نہ جوہر نہ عرضبے شریک است و معانی تو غنی داں خالق

چونکہ ذات واجب الوجود ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ دیکھا جا سکے اور دوسری طرف مخلوق کی ہدایت و رہنمائی بھی ضروری تھی۔ لہذا قوم انسانی سے معیار کے لحاظ سے کامل انبیاء و مرسلین منتخب کر کے ہر زمانہ والوں کے حالات و ضروریات کے مطابق دلائل و براہین ، معجزات ، بینات اور کافی ہدیات سپرد کر کےبھیجے ۔ جن کی تعداد بہت اور بے شمار ہے یہ سب کے سب ان پانچوں اولوالعزم پیغمبروں کے احکام کے ماتحت

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

اس حدیث کا جواب کہ ابوبکر اور عائشہ پیغمبر(ص) کے محبوب تھے

خیر طلب : یہ حدیث علاوہ اس کے کہ بکری گروہ کی ساختہ و پرداختہ ہے، فریقین کے نزدیک مسلم اور معتبر احادیث کے بھی خلاف ہے لہذا اس کی مردودیت ثابت ہے۔

اس حدیث میں دو پہلووں سے غور کرنا چاہیے۔ اول ام المومنین عائشہ کی جہت سے اور دوسرے خلیفہ ابوبکر کی جہت سے چنانچہ عائشہ کی محبوبیت میں اس حیثیت سے کہ رسول اللہ(ص) کے نزدیک ساری عورتوں سے زیادہ محبوب ہوں اشکال ہے جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں یہ قول صحیح و معتبر احادیث کے خلاف ہے جو فریقین ( شیعہ و سنی) کی معتبر کتابوں میں درج ہیں۔

شیخ : کن حدیثوں کے معارض ہے؟ ممکن ہو تو بیان کیجئے تاکہ ہم مطابقت کر کے عادلانہ فیصلہ کریں۔

خیر طلب : آپ کے قول کے برخلاف آپ کے علماء روایت کے طرق سے بکثرت حدیثیں حضرت صدیقہ کبری ام الائمہ جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا کے بارے میں منقول ہیں۔

فاطمہ(س) زنان عالم میں سب سے بہتر ہیں

من جملہ ان کے حافظ ابوبکر بیہقی نے تاریخ میں، حافظ ابن عبدالبر نے استیعاب میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں اور آپ کے دوسرے علماء نے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) بار بار فرماتے تھے "فاطمة خير نساء امّتي " ( یعنی فاطمہ(س ) میری امت کی عورتوں میں سب سے بہتر ہیں۔

امام احمد بن حنبل نے مسند میں حافظ ابوبکر شیرازی نے نزول القرآن فی علی میں محمد ابن حنفیہ سے انہوں نے امیر المومنین علیہ السلام سے ابن عبدالبر نے استیعاب میں بسلسلہ نقل حالات فاطمہ سلام اللہ علیہا و ام المومنین خدیجہ عبدالوارث ابن سفیان اور ----- حالات ام المومنین خدیجہ کے ضمن میں ابوداوود سے ابوہریرہ و انس بن مالک سے نقل کرتے ہوئے شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب55 میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودت سیزدہم میں انس بن مالک سے نیز بہت سے ثقات محدثیں نے اپنے طرق کےساتھ انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"خير نساء العالمين أربع : مريم بنت عمران، و ابنة مزاحم امرأة فرعون، و خديجة بنت خويلد، و فاطمة بنت محمّد صلى اللّه عليه و آله و سلم."

( یعنی عالمین کی عورتوں میں سب سے بہتر چار ہیں۔ مریم دختر عمران و آسیہ دختم مزاحم خدیجہ دختر خویلد اور فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطیب تاریخ بغداد میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے ان چار

۲۰۱

عورتوں کو دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر شمار فرمایا ہے اس کے بعد فاطمہ کو دینا و آخرت میں ان پر فضیلت دی ہے۔

محمد بن اسماعیل بخاری صحیح میں اور امام احمد حنبل مسند میں عائشہ بنت ابوبکر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فاطمہ(س) سے فرمایا

" يا فاطمه البشری فان الله اصطفيک و طهرک علی نساء العلمين و علی نساء الاسلام وهو خير دين."

( یعنی اے فاطمہ(س) خوشخبری اور بشارت ہو تم کو کہ خدا نے تم کو برگزیدہ کیا عالمین کی عورتوں پر بالعموم ، اور زنان اسلام پر بالخصوص پاکیزہ قرار دیا اور اسلام ہر دین سے بہتر ہے۔)

نیز بخاری نے اپنی صحیح جز چہارم ص64 میں مسلم نے اپنی صحیح جز دوم باب فضائل فاطمہ(س) میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحن میں، عبدی نے جمع بین الصحاح الستہ میں ابن عبدالبر نے استیعاب ضمن حالات حضرت فاطمہ(س) میں، امام ابن حنبل نے مسند جز ششم ص283 میں، محمد بن سعد کاتب نے طبقات جلد دوم مرض و بستر بیماری میں ارشادات رسول(ص) کے ذیل میں اور جلد ششم میں جناب فاطمہ(س) کے حالات نقل کرتے ہوئے ایک طولانی حدیث کے سلسلے میں (جس کو مکمل طور پر نقل کرنے کی وقت میں گنجائش نہیں) ام المومنین عائشہ کی سند سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

" يا فاطمة الا ترضين ان تکونی سيدة نساء العالمين "

(یعنی اے فاطمہ(س) آیا تم خوش نہیں ہو اس سے کہ زنان عالمین کی سردار ہو۔)

ابن حجر عسقلانی نے اسی عبارت کو صابہ میں حالات جناب فاطمہ(س) کے ضمن میں نقل کیا ہے۔ یعنی تم عالمین کی عورتوں میں سب سے بہتر ہو۔ نیز بخاری و سلم نے اپنی صحیحیں میں امام شافعی نے تفسیر میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، طبرانی نے معجم الکبیر میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب42 میں تفسیر ابن ابی حاتم و مناقب و حاکم و و سبط و اسدی حلیۃ الاولیاء حافظ ابونعیم اصفہانی و فرائد حموینی سے، ابن حجر مکی نے صواعق کے-- چہاردھم کے ذیل میں احمد سے ، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، طبری نے تفسیر میں واحدی نے اسباب النزول میں، ابن مغازل شافعی نے مناقب میں، محب الدین طبری نے ریاض میں، شبلنجی نے نورالابصار میں ، زمخشری نے تفسیر میں، سیوطی نے در المنثور میں، ابن عساکر نے تاریخ میں، علامہ سرودی نے تاریخ المدینہ میں فاضل نیشاپوری نے تفسیرمیں، قاضی بیضاوی نے تفسیر میں، امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں، سید ابوبکر شہاب الدین علوی نے شفتہ الصاری باب اول میں ص23 سے ص 24 تک تفسیر -- و ثعلبی و سیرہ ملاو مناقب احمد کبیر و اوسط طبرانی -- سے ، شیخ عبداللہ بن محمد بن عامر شہرادی شافعی نے کتاب الاتحاف ص5 میں حاتم و طبرانی -- جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت میں تفاسیر ابن منذر و ابن ابی حاتم و ابن مرودیہ و معجم الکبیر طبرانی سے، اور ابن ابی حاتم اور حاکم نے یہاں تک کہ عام طور پر آپ کے جملہ اکابر علما نے (سوا چند تھوڑے سے متعصبین بنی امیہ کے پیرو اور دشمنان اہل بیت کے ) ابن عباس خیر امت ، اور دوسروں سے نقل کیا ہے کہ جس وقت سورہ نمبر42 ( سورہ شوری) کی آیت نمبر23 "قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى وَ مَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيها حُسْناً"

(یعنی کہہ دو امت سے ) کہ میں تم سے اجر رسالت سوا اس کے اور کچھ نہیں چاہتا کہ میرے گھر والوں سے محبت رکھو، اور جو شخص نیک کام انجام دے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کرویں گے) نازل ہوئی تو اصحاب کی ایک جماعت نے عرض کیا :

"يا رسول اللّه ، من

۲۰۲

قرابتك ؟ قال: «عليّ و فاطمة و الحسن و الحسين "

یعنی آپ کے قرابتدار کو ن ہیں جن کی دوستی اور مودت خدا نے ہم پر واجب فرمائی ہے؟ ( یعنی اس آیہ مبارک میں) تو آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ وہ افراد علی(ع) و فاطمہ(س) اور حسن(ع) و حسین(ع) ہیں۔ اور بعض روایات میں وابناهما وارد ہے یعنی ان کے دونوں فرزند۔

اسی طرح کے اخبار و احادیث آپ کے معتبر کتابوں میں بہت وارد ہوئے ہیں جن سب کو ذکر کرنے کی وقت میں گنجائش نہیں ہے اور آپ کے علماء کے نزدیک یہ مطلب حد شیاع تک پہنچا ہوا ہے۔

محبت اہل بیت(ع) کے وجوب میں شافعی کا اقرار

یہاں تک کہ ابن حجر ایسے متعصب نے بھی صواعق محرقہ ص88 میں، حافظ جمال الدین زرندی نے معراج الوصول میں، شیخ عبداللہ شبراوی نے کتاب الاتحاف ص26 میں، محمد بن علی صبان مصری نے اسعاف الراغبین ص119 میں اور دوسرے علماء نے امام محمد بن ادریس شافعی سے جو آپ کے ائمہ اربعہ میں سے اور شافعیوں کے رئیس ہیں نقل کیا ہے کہ آپ کہتے تھے۔

يا أهل بيت رسول اللّه حبكم فرض من اللّه في القرآن أنزله

كفاكم من عظيم القدر أنكم من لم يصلّ عليكم لا صلاة له

( یعنی اے اہل بیت رسول خدا (ص) آپ کی محبت اور دوستی خدا کی جانب سے واجب ہوئی ہے جو قرآں میں نازل ہوئی ہے( آیت مذکورہ کی طرف اشارہ ) آپ کی عظمت منزلت میں یہی کافی ہے کہ جو شخص آپ ( آل محمد(ص)) پر صلوات نہ بھیجے اس کی نماز قبول نہ ہوگی) اب میں آپ حضرات سے اںصاف کے ساتھ پوچھتا ہوں کہ آیا وہ ایک طرفہ حدیث جس کو آپ نے نقل کیا ہے، ان ساری صحیح و صریح اور متفق بین الفریقین شیعہ و سنی بے شمار حدیثوں اور آیتوں کے مقابلے میں آسکتی ہیں؟ آیا اس کو عقل قبول کرتی ہے کہ جس کی محبت و مودت کو خدائے تعالی نے قرآن مجید میں لوگوں پر فرض قرار دیا ہو رسول اللہ(ص) اس کو چھوڑ دیں اور دوسروں کو اس پر ترجیح دیں؟

آیا آنحضرت (ص) کے لیے ہوا و ہوس کا تصور ہوسکتا ہے کہ ہم کہیں آپ اپنی خواہش نفس کی بناء پر عائشہ کو جن کی افضلیت پر کوئی دلیل نہیں ہے ( سوا اس کے کہ رسول خدا(ص) کی زوجہ اور تمام ازواج پیغمبر کی طرح ام المومنین تھیں) جناب فاطمہ(س) سے زیادہ دوست رکھتے ہوں گے جن کی محبت و مودت کو خدائے تعالے نے قرآن مجید میں فرض اور واجب قرار دیا ہے۔ جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے اور جن کو بحکم قرآن مباہلے میں شامل ہونے کا فخر حاصل ہے۔ آپ خود جانتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء ہوائے نفس کی پیروی نہیں کرتے اور سوائے خدا کے کسی پر نظر نہیں رکھتے، بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت رسول خدا(ص) جو حقیقتا حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کے حامل تھے اور قطعا اسی کو دوست رکھتے تھے جس کو خدا دوست رکھتا تھا اور اسی شخص کو دشمن رکھتے تھے

۲۰۳

جس کو خدا دشمن رکھتا تھا۔

یہ کیوں کر ممکن ہے کہ آں حضرت (ص) آں فاطمہ(س) کو چھوڑ دیں جن کی محبت و مودت کو خدا نے فرض اور واجب کیا اور دوسرے کو ان ترجیح دیں۔ بس اگر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دوست رکھتے تھے تو محض اسی وجہ سے کہ خدا ان کو محبوب رکھتا تھا۔

آیا عقل باور کرتی ہے کہ آں حضرت(ص) اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کو محبت کے معاملے میں اس ذات پر ترجیح دیں جس کے متعلق خود یہ فرماتے تھے کہ خدا نے ان کو برگزیدہ کیا اور ان کی محبت کو انسانوں پر فرض قرار دیا ہے؟ اب آپ کو چاہیے کہ یا تو ان تمام اخبار صحیحہ و صریحہ کو جو اکابر علمائے فریقین کے یہاں مقبول ہیں اور آیات قرآن مجید ان کی تائید کر رہی ہیں رد کیجئے یا جو یہ حدیث آپ نے بیان کی ہے اس کو طے نشدہ، جعلی حدیثوں میں شمار کیجئے، تاکہ یہ تناقض ختم ہوجائے ۔ اور خلیفہ ابوبکر کے بارے میں جو آپ نے فرمایا کہ آںحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا، میرے نزدیک مردوں میں سب سے زیادہ محبوب ابوبکر ہیں تو یہ آن بکثرت معتبر روایات کے خلاف ہے جو خود آپ ہی کے بڑے بڑے ثقہ راویوں اور عالموں کے طریقوں سے منقول ہیں کہ پیغمبر(ص) کے نزدیک امت کے مردوں میں سب سے زیادہ محبوب علی علیہ السلام تھے۔

پیغمبر(ص) کے نزدیک علی(ع) تمام مردوں سے زیادہ محبوب تھے

چنانچہ شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب 55 میں ترمذی سے بریدہ کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا " کان احب النساء فی رسول الله فاطمة و من الرجال علی "

( یعنی پیغمبر کے نزدیک عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ(س) اور مردوں میں علی علیہ السلام تھے)

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب 91 میں ام المومنین عائشہ کی سند سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا " ما خلق الله خلقا کان احب الی رسول الله من علی ابن ابی طالب " ( یعنی خدا نے کسی ایسی مخلوق کو پیدا نہیں کیا جو رسول اللہ کے لیے علی (ع) سے زیادہ محبوب ہو) اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ وہ حدیث ہے جس کو ابن عساکر نے اپنے مناقب میں اور ابن عساکر دمشقی نے ترجمہ حالات علی علیہ السلام میں روایت کیا ہے۔

محی الدین ( امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی ذخائر العقبی میں ترمذی سے نقل کرتے ہیں کہ عائشہ سے لوگوں نے پوچھا کہ رسول اللہ(ص) کے نزدیک کون عورت سب سے زیادہ محبوب تھی؟ انہوں نے کہا فاطمہ(س) پھر پوچھا کہ مردوں میں آںحضرت(ص) کو کون محبوب تر تھا؟ تو کہا کہ " زوجہا علی ابن ابی طالب" یعنی ان کے شوہر علی ابن ابی طالب۔

نیز مخلص ذہبی اور حافظ ابو القاسم دمشقی سے اور وہ عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

" ما رائيت رجلا احب الی النبی صلی الله عليه وآله وسلم من علی ولا احب اليه من فاطمة "

یعنی میں نے کسی مرد کو رسول (ص) کے

۲۰۴

نزدیک علی (ع) سے زیادہ محبوب نہیں دیکھا اور نہ فاطمہ(س) سے محبوب تر دیکھا۔

نیز حافظ خجندی سے اور وہ معاذۃ الغفاریہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں کہ میں عائشہ کے یہاں خدمت رسول(ص) میں مشرف ہوئی اور علی علیہ السلام گھر کے باہر موجود تھے، آںحضرت(ص) نے عائشہ سے فرمایا:

" انّ هذا احبّ الرجال الىّ و اكرمهم علىّ فاعرفى له حقّه و اكرمى مثواه"

یعنی یہ علی(ع) میرے نزدیک مردوں میں سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ ۔۔۔۔ باعزت ہیں لہذا انکا حق پہچانو اور ان کے مرتبے کی تعظیم و توقیر کرو) شیخ عبداللہ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی جو آپ کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص9 میں، سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت میں اور محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص6 میں ترمذی سے اور وہ جمیع بن عمیر سے نقل کرتے ہیں کہ کہ انہوں نے کہا میں اپنی پھوپھی کے ہمراہ ام المومنین عائشہ کے پاس گیا اور ہم لوگوں نے ان سے پوچھا کہ رسول خدا(ص) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخص کون تھا؟ عائشہ نے کہا کہ عورتوں میں فاطمہ(س) اور مردوں ان کے شوہر علی ابن ابی طالب۔

اسی روایت کو میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت یازدہم میں اتنے فرق کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جمیع نے کہا میں نے اپنی پھوپھی سے دریافت کیا تو یہ جواب ملا۔

نیز خطیب خوارزمی نے مناقب فصل ششم کے آخر میں جمیع بن عمیر سے اور انہوں نے عائشہ سے اس خبر کو نقل کیا ہے ۔ ابن حجر مکی صواعق محرقہ فصل دوم کے آخر میں حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں چالیس حدیثیں نقل کرنے کے بعد عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

" کانت فاطمة احب النساء الی رسول الله صلی الله عليه و آله و زوجها احب الرجال "

یعنی پیغمبر(ص) کے نزدیک عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ(س) اور مردوں میں سب سے زیادہ محبوب ان کے شوہر علی ابن ابی طالب(ع) تھے) نیز محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص7 میں اس موضوع پر چند مفصل روایتیں نقل کرنے کے بعد اس عبارت کے ساتھ اپنے عقیدے اور تحقیق کا اظہار کرتے ہیں۔:

" فثبت بهذه الاحاديث الصحيحة والاخبار الصريحه ان فاطمة کانت احب الی رسول الله من غيرها و انها سيدة نساء اهل الجنة و انها سيدة نساء هذه الامة و سيدة نساء اهل الجنة "

یعنی احادیث صحیحہ اور اخبار صریحہ سے ثابت ہوا کہ فاطمہ(س) رسول اللہ(ص) کو اپنے علاوہ ہر ایک شخصیت سے زیادہ محبوب تھیں اور یقینا وہ بہشت کی عورتوں کی سردار اس امت کی عورتوں کی سردار اور مدینے کی عورتوں کی سردار تھیں۔)

پس یہ مطلب عقلی و نقلی دلائل سے ثابت ہے کہ علی و فاطمہ علیہما السلام سارے مخلوقات میں رسول اللہ(س) کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ اور پیغمبر(ص) ک نزدیک علی کی محبوبیت اور دوسروں پر فوقیت کے ثبوت میں ان تمام روایات سے زیادہ اہم مشہور و معروف حدیث طیر ہے جس سے مکمل طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی آں حضرت (ص) کو ساری امت میں سب سے زیادہ محبوب تھے اور یقینا آپ خود بھی خوب جانتے ہیںکہ حدیث طیر فریقین ( سنی شیعہ) کے درمیان اس قدر مشہور ہے کہ اس کو سند نقل کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن محترم حاضرین جلسہ کی وسعت نظر کے لیے تاکہ ان پر حقیقت مشتبہ نہ رہ جائے اور ان کو

۲۰۵

یہ خیال پیدا نہ ہو کہ شیعہ اس قسم کی حدیثوں کو وضع کرتے ہیں اس کے بعض اسناد جو اس وقت میری نظر میں ہیں عرض کرتا ہوں۔

حدیث طیر

بخاری ، ترمذی، نسائی، اور سجستانی نے اپنی معتبر صحاح میں، امام ابن حنبل نے مسند میں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ کے باب 8 کو حدیث طیر اور اس کے روایات کے نقل سے مخصوص کیا ہے اور احمد بن حنبل ، ترمذی، موفق ابن احمد، ابن مغازلی ، سنن ابی داوود ، رسول کے غلام سفینہ، انس بن مالک اور ابن عباس سے روایت کی ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں حدیث طیر کو چوبیس راویوں نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے اور خصوصیت کے ساتھ مالکی نے فصول المہمہ میں اس عبارت کے ساتھ لکھا ہے کہ

" وذالک انه صح النقل فی کتب الاحاديث الصحيحه والاخبار الصريحه عن انس بن مالک "

جس کا مطلب یہ ہے کہ کتب احادیث صحیحہ اور اخبار صریحہ میں انس بن مالک سے حدیث طیر کی نقل مسلسل طور پر صحیح ہے ۔ سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص23 میں فضائل احمد اور سنن ترمذی سے اور مسعودی نے مروج الذہب جلد دوم ص49 میں حدیث کے آخری حصے کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں پیغمبر(ص) کی دعا اور اس کی قبولیت ہے امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی حدیث نہم میں اور حافظ بن عقدہ و محمد بن جریر طبری دونوں سے ہر ایک نے اس حدیث کے تواتر اسانید میں کہ اس کو پینتیس صحابہ نے انس سے روایت کیا ہے ایک مخصوص کتاب لکھی ہے اور حافظ ابو نعیم نے اس باب میں ایک ضخیم کتاب لکھی ہے خلاصہ یہ کہ آپ کے سارے اکابر علماءنے اس حدیث شریف کی تصدیق کی ہے اور اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے، چنانچہ صاحب زہد و ورع محقق و ثقہ علامہ سید حسین صاحب اعلی اللہ مقامہ نےجن کے علم و عمل اور تقوی کو جو ہندوستان میں اظہر من الشمس تھا آپ حضرات قریب ہونے کی وجہ سے اچھی طرح جانتے ہیں اپنی کتاب طبقات الانوار بڑی بڑی جلدوں میں سے ایک عظیم وضخیم جلد حدیث طیر سے مخصوص کر رکھی ہے اور اس میں آپ کے بزرگ علماء کی خاص کتابوں میں سے تمام معتبر اسناد جمع کردیے ہیں۔ اس وقت میں یہ نہیں بتا سکتا کہ اس حدیث کو کتنی سندوں کےساتھ نقل کیا ہے البتہ اس قدر یاد ہے کہ اس کے اسناد پڑھنے کے وقت میں ان سید بزرگوار کی زحمتوں اور اہم دینی خدمتوں کو دیکھ کر مبہوت ہوگیا تھا کہ ایک چھوٹی سی حدیث کو صرف آپ کے طریقوں سے کس طرح تواتر کےساتھ ثابت کیا ہے۔ان تمام اخبار کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ جملہ شیعہ و سنی مسلمانوں نے ہر دور اور ہر زمانے میں اس حدیث کی صحت کا اقرار و اعتراف اور تصدیق کی ہے کہ ایک روز کوئی عورت ایک بنا ہوا طائر ہدیے کے طور پر جناب رسول اللہ(ص) کی خدمت میں لائی ، آں حضرت(ص) نے اس کو تناول فرمانے سے پہلے بارگاہ الہی میں دست دعا بلند فرمائے اور عرض کیا

" اللّهم ائتني بأحبّ خلقك إليك يأكل معي من هذا الطير فجاء عليّ فأكل معه."

( یعنی پرودگارا جو شخص میرے اور تیرے نزدیک تیری مخلوق میں سب سے زیادہ

۲۰۶

محبوب ہو اس کو میرے پاس بھیج دے تاکہ اس بھنے ہوئے طائر میں سے میرے ساتھ نوش کرے، اس وقت علی علیہ السلام آئے اور آں حضرت(ص) کے ساتھ اس کو تناول کیا۔

اور آپ کی بعض کتابوں میں جیسے فصول المہمہ مالکی، تاریخ حافظ نیشاپوری، کفایت الطالب گنجی شافعی اور مسند احمد وغیرہ جن میں انس بن مالک سے روایت کی ہےاس طرح ذکر کیا کہ انس نے کہا، پیغمبر(ص) اس دعا میں مشغول تھے کہ علی(ع) گھر میں آئے میں نے بہانہ کر دیا اور اس کو پوشیدہ رکھا، تیسری مرتبہ آپ نے پاوں دروازے پر مارا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا ان کو آنے دو۔ جوں ہی علی(ع) پہنچے آنحضرت (ص) نے فرمایا " ماحسبک عنی یرحمک اللہ" خدا تم پر رحمت نازل کرے کس چیز نے تم کو میرے پاس آنے سے باز رکھا ؟ تو آپ نے عرض کیا کہ میں تین مرتبہ دروازے پر حاضر ہوا اور اب کی تیسری دفعہ میں آپ کی خدمت تک پہنچا۔ آںحضرت (ص) نے فرمایا اے انس تم کو کس چیز نے اس حرکت پر مجبور کیا کہ علی(ع) کو میرے پاس آنے سے منع کیا؟ میں نے عرض کیا کہ سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے آپ کی دعا سنی تو یہ تمنا پیدا ہوئی کہ میری ہی قوم کا کوئی شخص اس درجے پر فائز ہو۔ اب میں آپ حضرات سے سوال کرتا ہوں کہ آیا خدائے تعالے نے اپنے رسول خاتم الانبیاء(ص) کی دعا قبول فرمائی یا رد کردی؟

شیخ : بدیہی چیز ہے کہ خدا نے قرآن کریم میں چونکہ دعائیں قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ گرامی منزلت پیغمبر(ص) ہرگز کوئی بے جا درخواست نہیں کرتے لہذا قطعا آن حضرت(ص) کی خواہش اور دعا کو منظور اور قبول فرماتا تھا۔

خیر طلب " پس اس صورت میں خدائے جل و علا نے اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین فرد کو اختیار و انتخاب کر کے اپنے پیغمبر(ص) کے پاس بھیجا اور وہ ساری امت کے درمیان بزرگ و برتر محبوب جو کل مخلوقات میں سے چنا ہوا اور خدا و رسول کے نزدیک امت میں سب سے زیادہ محبوب تھا علی بن ابی طالب علیہ السلام تھے۔ چنانچہ خود آپ کےبڑے بڑے علماء نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ مثلا محمد بن طلحہ شافعی نےجو آپ کے فقہاء اور اکابر علماء میں سے تھے مطالب السئول باب اول فصل پنجم کے اوائل میں ص15 پر حدیث رایت اور حدیث طیر کی مناسبت سے تقریبا ایک صفحے میں شیرین بیانی اور دل نشین تحقیقات کے ساتھ تمام امت کے درمیان خدا و رسول(ص) کی محبوبیت کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت و منزلت کو ثابت کیا ہے اور ضمنا کہتے ہیں

" و اراد النبی ان يتحقق الناس ثبوت هذه المنقبة المنسيئة والصفة العليه التی هی اعلی درجات المتقين لعلی الخ"

( یعنی پیغمبر(ص) نے ارادہ فرمایا کہ اس روشن منقبت اور بلند صفت کا جو پرہیزگاروں کےدرجات میں سب سے بالاتر ہے( یعنی خدا و رسول کا محبوب ہونا) علی (ع) کے اندر قائم ہونا لوگوں کی نگاہوں میں ثابت ہوجائے۔

نیز شام کے حافظ و محدث محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی سنہ658ھ کفایت الطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب علیہ السلام باب33 میں حدیث طیر کو اپنے معتبر اسناد کے ساتھ چار طریقوں سے اس اور سفینہ سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ محاملی نے اپنی جز نہم میں اس حدیث کو درج کیا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اس حدیث میں کھلی ہوئی دلالت ہے اس بات پر کہ علی علیہ السلام

۲۰۷

خدا کی بارگاہ میں کل مخلوق سے زیادہ پیارے ہیں اور اس مقصد پر سب دلیلوں سے اہم دلیل یہ ہے کہ خدا نے اپنے رسول (ص) کی وہ دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے لہذا جب رسول اللہ(ص) نے دعا کی تو خدا نے بھی فورا قبول فرمایا اور محبوب ترین خلق کو آنحضرت(ص) کی طرف بھیج دیا اور وہ علی علیہ السلام تھے۔

اس کے بعد کہتے ہیں کہ انس سے منقول حدیث طیر کو حاکم ابوعبداللہ حافظ نیشاپوری نے چھیاسی راویوں سے نقل کیا ہے اور ان سب نے انس سے روایت کی ہے۔ پھر ان چھیاسی افراد کے نام بھی لکھے ہیں۔ ( شائقین کفایت الطالب(1) باب 33 کی طرف رجوع فرمائیں اب ذرا آپ حضرات انصاف فرمائیں کہ آیا جو حدیث آپ نے نقل کی ہے وہ معارض حدیثوں اور بالخصوص حدیث رایت اور اس با عظمت حدیث طیر کے مقابلے میں آسکتی ہے؟ قطعا جواب نفی میں ہوگا۔ پس ایک آپ کی یک طرفہ حدیث سے ان احادیث کے مقابلے میں جن کو آپ کے اکابر علماء نے سوا چند متعصب کینہ پرور لوگوں کے نقل کیا ہے اور ان کی صحت کی تصدیق کی ہے ہرگز سند نہیں لی جاسکتی بلکہ وہ ارباب تحقیق اور صاحبان جرح و تعدیل کے نزدیک مردود اور ناقابل اعتبار ٹھہرتی ہے۔

شیخ : میرا خیال ہے آپ نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو کچھ ہم کہیں گے اس کو نہ مانیے گا اور کافی اصرار کےساتھ اس کو رد کیجئے گا۔

بیان حقیقت

خیر طلب : مجھ کو آپ جیسے عالم انسان سے سخت تعجب ہے کہ اتنے حاضرین جلسہ کے سامنے مجھ پر ایسا غلط الزام عائد کر رہے ہیں۔ کس وقت آپ حضرات ن علم و عقل اور منطق کے مطابق کوئی دلیل قائم کیجس کے مقابلے میں میں نے ضد سے کام لیا اور اس کو قبول نہیں کیا تاکہ اس کے نتیجے میں آپ کی سرزنش کا مستحق قرار پاوں ؟ میں خدا کی توفیق اور تائید سے محروم ہو جاوں اگر میرے اندر ہٹ دھرمی اور جاہلانہ تعصب و عناد کا شائبہ بھی ہو، یا برادران اہل سنت کے ساتھ عمومی یا خصوصی طور پر کوئی عداوت کا نظریہ رکھتا ہوں۔

میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ یہود و ںصاری اہل ہنود اور برہمنوں ، ایران میں ناقابل بہائیوں ہندوستان میں قادیانیوں یا مادہ اور طبیعت کے پجاریوں اور دوسرے مخالفین کے ساتھ بھی مناظروں میں کبھی میں نے ضد وغیرہ سے کام نہیں لیا، ہر مقام پر اور ہر وقت خدا پر نظر رکھی اور ہمیشہ میرا منطق علم و عقل اور منطق انصاف کے روسے حقیقت کو ظاہر کرنا رہا ہے۔ جب میں نے کافر ، مرتد اور نجس لوگوں سے ہٹ دھرمی نہیں کی ہے تو آپ کے ساتھ ایسا کیوں کر کرسکتا ہوں کیونکہ آپ لوگ ہمارے اسلامی بھائی ہیں۔ ہم سب ایک دین ایک قبلہ ایک کتاب کے ماننے والے اور ایک پیغمبر(ص) کے احکام کے تابع ہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ ابتداء سے آپ کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ غالبا ی بات33 ہے جیسا کہ اس سے قبل کے حوالے میں موجود ہے۔ 12 مترجم۔

۲۰۸

دماغ میں جو غلط فہمیاں راسخ اور عادت کی بنا پر طبیعت ثانیہ بن چکی ہیں ان کی کدورت منطق اور انصاف کے چھینٹوں سے بر طرف کردی جائے۔

خدا کے فضل سے آپ عالم ہیں اگر عادت ، اسلاف کی پیروی اور تعصب سے تھوڑا الگ ہوکر اںصاف کے دائرے میں آجائے تو ہم مکمل طور پر صحیح نتیجے تک پہنچ جائیں۔

شیخ : ہم نے شہر لاہور میں ہندووں اور برہمنوں کے ساتھ آپ کے مناظروں کاطریقہ روز ناموں اور ہفتہ وار اخبارات میں پرھا تھا جس سے ہم کو بہت خوشی ہوئی تھی اور باوجودیکہ ابھی آپ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن ایک قلبی تعلق محسوس کرنے لگے تھے۔ امید ہے کہ خدا ہم کو اور آپ کو توفیق دے تاکہ حق اور حقیقت ظاہر ہوجائے ۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ اگر روایات میں کوئی شبہ ہو تو جیسا کہ خود آپ نے فرمایا ہےقرآن کریم کی طرف رجوع کرنا چاہیئے ۔ اگر آپ خلیفہ ابوبکر کی فضیلت اور خلفائے راشدین کے طریقہ خلافت میں احادیث کو مشتبہ سمجھتے ہیں تو کیا آیات قرآن کریم کے دلائل میں بھی شک و شبہ وارد کیجئے گا؟

خیر طلب : خدا وہ دن نہ لائے کہ میں قرآنی دلائل یا صحیح احادیث میں شک کروں، فقط چیز یہ ہے کہ ہر قوم و ملت یہاں تک کہ دین سے منحرف و مرتد لوگوں سے بھی جب ہمارا مقابلہ ہوا ہے تو وہ بھی اپنی حقانیت پر قرآن کی آیتوں سے استدلال کرتے تھے چونکہ قرآن مجید کے آیات ذو معانی ہیں لہذا خاتم الانبیاء نے لوگوں کی افراط و تفریط اور مغالطوں کوروکنے کے لیے قرآن کو امت کے درمیان تنہا نہیں چھوڑا بلکہ باتفاق علمائے فریقین ( شیعہ وسنی) جیسا کہ پچھلی شبوں میں عرض کرچکا ہوں: " إنّي تارك فيكم الثقلين كتاب اللّه و عترتي ما إن تمسّكتم بهما فقد نجوتم " اور بعض روایات میں ارشاد ہے لن تضلوا ابدا ( یعنی در حقیقت میں تمہارے درمیان دو بزرگ چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، کتاب خدا اور میری عترت اگر ان دونوں ( کتاب وعترت ) سے تمسک رکھوگے ت نجات پاو گے اور ہرگز گمراہ نہ ہوگے ( رجوع ہو اس کتاب کے ص92، 93 کی طرف )

لہذا قرآن کے مفہوم و حقیقت اور شان نزول کو خود رسول اللہ(ص) سے جو قرآن کے حقیقی شارح ہیں اور ان حضرت کے بعد عدیل قرآن سے جو آن حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت ہیں دریافت کرنا چاہئے۔ جیسا کہ سورہ نمبر21 (انبیاء) آیت 7 میں ارشاد ہے " فاسئلوا أهل الذّكر إن كنتم لا تعلمون" ( یعنی اے ہمارے رسول امت سے کہہ دیجئے کہ) اگر تم خود جانتے ہوتو اہل ذکر اور صاحبان علم( یعنی آل محمد(ص) جو سب سے زیادہ عالم ہیں) سے دریافت کرو۔)

اہل ذکر آل محمد(ص) ہیں

اہل ذکر سے مراد حضرت علی(ع) اور آپ کی اولاد میں سے ائمہ علیہم السلام ہیں جو عدیل قرآن ہیں چنانچہ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودہ مطبوعہ اسلامبول باب39 ص119 میں امام ثعلبی کی تفسیر کشف البیان سے بروایت جابر ابن عبداللہ انصاری

۲۰۹

نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا " قال علی ابن ابی طالب نحن اہل الذکر " یعنی علی علیہ السلام نے فرمایا ہم ( خاندان رسالت) اہل ذکر ہیں۔ چونکہ ذکر قرآن کا ایک نام ہے اور اس جلیل القدر خاندان والے اہل قرآن ہیں اسی وجہ سے ہمارے اور آپ کے علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام فرماتے تھے:

" سلونى قبل ان تفقدونى سلونى عن كتاب اللَّه تعالى فان ه ليس من آية الّا قد عرفت بليل نزلت ام نهارا ام فی سهل ام فی جبل و ما نزلت آية إلّا و قد علمت فيمن نزلت و فيما نزلت و إنّ ربّي وهب لي لسانا طلقا و قلبا عقولا"

(یعنی پوچھ مجھ سے قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاو کتاب خدا کے متعلق مجھ سے دریافت کرو کیونکہ قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کو میں نہ جانتا ہوں کہ رات میں نازل ہوئی ہے یا دن میں ہوا اور زمین میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ میں۔ خدا کی قسم کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ہے لیکن یہ یقینا جانتا ہوں کہ کس بارے میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی اور کس پر نازل کی گئی ہے اور در حقیقت خدا نے مجھ کو فصیح زبان اور دانش مند دل عنایت فرمایا ہے) پس قرآن کی جس آیت سے بھی استدلال کیا جائے اس کو حقیقی مفہوم اور مفسرین کے بیان سے مطابق ہونا چاہئیے ورنہ اگر کوئی شخص اپنی طرف سے اور اپنے ذوق و فکر اور عقیدے کے روسے آیات قرآنی کی تفسیر کریگا تو سوا اختلاف بیان اور خیالات کی پراگندگی کے کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوگا اب اس تمہید کے پیش نظر میری درخواست ہے کہ اپنی منتخبہ آیات بیان فرمائیے اگر مقصد سے مطابقت کرے گی تو جان و دل سے قبول کر کے اپنے سر پر جگہ دوں گا۔

خلفائے اربعہ کے طریقہ خلافت میں نقل آیت اور اس کا جواب

شیخ : سورہ 38 (فتح) آیت نمبر29 میں کھلا ہوا ارشاد ہے :

"مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَ الَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُمْ تَراهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً- يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَ رِضْواناً سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ "

( یعنی محمد(ص) خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھی کافروں پر بہت سخت اور آپس میں ایک دوسرے پر شفیق ومہربان ہیں، ان کو تم زیادہ تر رکوع و سجود کے عالم میں دیکھو گے جو فضل و رحمت اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں، ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان پڑے ہوئے ہیں۔)

یہ آیہ شریفہ ایک طرف سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضل و شرف کو ثابت کررہی ہے اور دوسری طرف سے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے طریقہ خلافت کو معین کرتی ہے، بخلاف اس کے کہ جیسا کہ شیعہ فرقے والے دعوی کرتے ہیں کہ علی کرم اللہ وجہہ پہلے خلیفہ ہیں۔ یہ آیت صراحت کے ساتھ علی(ع) کو چوتھا خلیفہ ظاہر کرتی ہیں۔

خیر طلب : آیہ شریفہ کے ظاہر سے تو کوئی ایسی چیز و خلفائے راشدین کے طریقہ خلافت اور ابوبکر کی فضیلت پر دلالت کرتی ہو نظر نہیں آتی ، البتہ ضرورت اس کی ہے کہ آپ وضاحت کیجئے کہ یہ صراحت آیت میں کس مقام پر ہے جس کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔

۲۱۰

شیخ : خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت و شرافت پر آیت کی دلالت یہ ہے کہ آیت کے شروع میں کلمہ وَ الَّذِينَ مَعَهُ سے اس مرد بزرگ کی منزلت کی طرف اشارہ ہوا ہے جو آپ کو لیلۃ الغار میں پیغمبر(ص) کے ساتھ حاصل تھی ۔ اور خلفائے راشدین کا طریقہ خلافت بھی اس آیت میں پوری صراحت کےساتھ واضح ہے کیونکہ وَ الَّذِينَ مَعَهُ سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں جو شب ہجرت غار ثور میں پیغمبر(ص) کے ہمراہ تھے، أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ سے عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ مراد ہیں جو کفار پر بہت سخت گیری کرتے تھے، رُحَماءُ بَيْنَهُمْ عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ ہیں جو بہت رقیق القلب اور رحم دل تھے ۔" سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ " علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ہیں۔

امید ہے کہ یہ چیز آپ کے بے لوث خیال کے موافق ہوگی اور آپ تصدیق کیجئے گا کہ حق ہمارے ساتھ ہے جو علی(ع) کو چوتھا خلیفہ جانتے ہیں نہ کہ خلیفہ اول، کیونکہ خدا نے بھی قرآن میں ان کا ذکر چوتھے نمبر پر کیا ہے۔

خیر طلب: میں حیرت میں ہوں کہ جواب کس انداز میں عرض کروں تاکہ خود غرضی کا الزام عائد نہ ہو، اگر بغیر تعصب کے اںصاف کی ںظر سے دیکھیے تو تصدیق فرمائیے گا کہ کوئی غرض کار فرما نہیں ہے بلکہ مقصد صرف اظہار حقیقت ہے۔ علاوہ اس کے کہ از باب تفسیر نے یہاں تک کہ خود آپ کے علماء نے بڑی بڑی تفسیروں میں اس آیہ شریفہ کے شان نزول میں یہ مطلب بیان نہیں کیا ہے اگر یہ آیت قرآنی امر خلافت کے بارے میں ہوتی تو روز اول وفات رسول(ص) کے بعد حضرت علی علیہ السلام بنی ہاشم اور کبار صحابہ کے اعتراضات کے مقابلے میں فرضی شاخ بزرگ پیدا کرنے کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ یہ آیت پیش کر کے مسکت جواب دے دیا جاتا۔ پس معلوم ہوا کہ آیت کے جو معنی آپ نے بیان کئے ہیں وہ ایجاد بندہ ہیں جو مدتوں بعد حضرت ابوبکر و عمر کے طرف داروں نے تصنیف کئے ہیں۔

اس لیے کہ خود آپ کے اکابر مفسرین جسیسے طبری، امام ثعلبی، فاضل نیشاپوری، جلال الدین سیوطی، قاضی بیضاوی، جار اللہ زمخشری اور امام فخرالدین رازی وغیرہ نے بھی یہ تفسیر بیان نہیں کی ہے پس میں نہیں جانتا کہ آپ کہاں سے یہ بات کہہ رہے ہیں اور یہ معنی کس وقت سے اور کن اشخاص کے ہاتھوں پیدا ہوئے؟ اس کے علاوہ خود آیہ شریفہ میں علمی ، ادبی اور عملی موانع موجود ہیں جو ثابت کررہے ہیں کہ جو شخص اس قول کا قائل ہوا ہے اس نے بے کار ہاتھ پاوں مارے ہیں اور اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہوا ہے جس کو خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے اپنی تفسیروں کے شروع میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آن حضرت(ص) نے فرمایا : " ؟؟؟؟ القرآن برایہ فمقعدہ فی النار" یعنی جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے تو اس کا ٹھکانہ آگ میں ہے( اگر آپ کہئیے کہ تفسیر نہیں ہے تاویل ہے تو آپ حضرات باپ تاویل کو مطلقا مسدود جانتے ہیں، علاوہ اس کے یہ آیت شریفہ علم و ادب اور اصطلاح کے رو سے آپ کے مقصد کے برخلاف نتیجہ دے رہی ہے۔

شیخ : جھ کو یہ امید نہیں تھی کہ جناب عالی اتنی واضح آیت کے مقابلے میں بھی استقامت دکھائیں گے البتہ اگر آپ اس آیت میں کوئی ایراد حقیقت کے برخلاف رکھتے ہیں تو بیان کیجئے تاکہ اصلیت ظاہر ہو۔

۲۱۱

نواب : قبلہ صاحب میری خواہش ہے کہ جس طرح اب تک آپ ن ہماری درخواستوں کو قبول کیا ہے اور مطالب کو ایسے سادہ انداز میں بیان کیا ہے کہ تمام حاضرین جلسہ اور غیر حاضر اشخاص ان سے بہرہ مند ہوئے ہیں اس مقام پر بھی گفتگو میں انتہائی سادگی کا لحاظ فرمائیے ہم سب آپ کے ممنون ہوں گے کیونکہ یہی وہ آیت ہے جو برابر ہمارے سامنے پڑھی جاتی رہی ہے اور ہم سب کو اس کے ذریعہ حکم قرآن کا محکوم اور پابند بنایا گیا ہے۔

خیر طلب: پہلی چیز تو یہ ہے کہ آیت کی عظمت اور شعبدہ بازوں کے نقل قول نے آپ حضرات کو ایسا مبہوت بنا رکھا ہے کہ آیت کے حقیقی معنی اور رموز اسرار سے غافل ہوگئے ہیں، اگر آپ خود اپنی جگہ پر اس کے نحوی ترکیبات اور ادبی معانی پر تھوڑی توجہ کر لیتے تو معلوم ہوجاتا کہ یہ آیت آپ کے مقصد اور مراد سے ہرگز مطابقت نہیں کر رہی ہے۔

شیخ : التماس ہے کہ آپ ہی ضمائر و ترکیبات کو بیان کیجئے تاکہ ہم دیکھیں کیونکر مطابقت نہیں کرتی ہے۔

خیر طلب: ترکیبی جہت سے تو آپ خود بہتر سمجھتے ہیں کہ اس آیہ مبارکہ کی ترکیب یقینی طور پر دو حال سے خارج نہیں ہے۔ یا محمد مبتداء ہے ، رسول اللہ عطف بیان ، والذین معہ عطف بر محمد(ص) ، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے وہ خبر بعد از خبر ہے۔ یا والذین معہ مبتداء ہے ، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے وہ خبر بعد از خبر ہے۔

ان قواعد کے رو سے اگر ہم آپ کے عقیدے اور قول کے مطابق آیت کا ترجمہ کرنا چاہیں تو دو طرح کے معنی ظاہر ہوتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر و عمر، عثمان اور علی(ع) ہیں۔

اور اگر والذین معہ مبتداء ہو، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے خبر بعد از خبر تو آیت کے معنی اس طرح ہوتے ہیں کہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی(ع) ہیں۔ بدیہی چیز ہے جس کو ہر مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ کلام کا یہ طریقہ غیر معقول اور نظم ادب سے خارج ہے۔

علاوہ اس کے اگر آیہ شریفہ سے خلفائے اربعہ مراد ہوتے تو ضرورت تھی کہ کلمات کے درمیان واو عطف رکھا جاتا تاکہ آپ کے مقصود سے مطابق ہوجاتے ، حالانکہ صورت اس کے برخلاف ہے۔

آپ کے جملہ مفسرین نے اس آیہ شریفہ کو تمام مومنین کے حق میں قرار دیا ہے یعنی کہتے ہیں کہ یہ تمام مومنین کی صفتیں ہیں۔ اور ظاہر آیت خود دلیل ہے کہ یہ کل مطالب ایک شخص کی صفتیں ہیں جو ابتداء سے پیغمبر(ص) کے ساتھ تھا نہ کہ چار نفر اور اگر ہم کہیں کہ وہ ایک فرد امیرالمومنین علی علیہ السلام تھے تو یہ دوسروں کی نسبت عقل و نقل کے مطابق کہیں زیادہ قابل قبول ہے۔

آیہ غار سے استدلال اور اس کا جواب

شیخ : تعجب ہے کہ آپ فرماتے ہیں میں کج بحثی نہیں کرتا حالانکہ اس وقت آپ مجادلہ ہی کررہے ہیں۔ کیا ایسا

۲۱۲

نہیں ہے کہ خدا سورہ 9 ( توبہ) آیت نمبر40 میں صاف صاف فرماتا ہے:

" إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُما فِي الْغارِ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنا فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَ أَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْها."

( یعنی یقینا خدا نے ان کی ( رسول اللہ(ص) ) کی مدد کی جب کفار نے ان کو مکے سے خارج کردیا ، ان میں سے ایک(یعنی رسول اللہ(ص)) جو دونوں غار کے اندر تھے جس وقت اپنے ہم سفر سے ( یعنی ابوبکر سے جو مضطرب تھے) فرما رہے تھے غم نہ کرو یقینا خدا ہمارے ساتھ ہے۔ اس وقت خدا نے ان پر ( یعنی رسول اللہ پر) اپنی طرف سے سکون و وقار نازل فرمایا اور ان کی ان غیبی لشکروں سے امداد کی جن کو تم نے نہیں دیکھا۔)

یہ آیت علاوہ اس کے کہ آیت ، قبل کی موئد ہے اور والذین معہ کا مقصد ثابت کرتی ہے کہ ابوبکر غار میں شب ہجرت رسول اللہ(ص) کے ساتھ تھے خود یہ مصاحبت اور پیغمبر(ص) کی ہمراہی تمام امت پر ابوبکر کے فضل و شرف کی ایک بڑی دلیل ہے اس لیے کہ پیغمبر(ص) چونکہ علم باطن سے جانتے تھے کہ ابوبکر ان کے خلیفہ ہیں اور خلیفہ کا وجود ان کے بعد ضروری ہے اور اپنی ذات کے مانند ان کی بھی حفاظت کرنا چاہئے لہذا ان کو اپنے ہمراہ لے گئے تاکہ دشمن کے ہاتھ میں گرفتار نہ ہوجائیں۔ اور یہ بتاو مسلمانوں میں سے کسی اور کے ساتھ نہیں کیا، پس اسی جہت سے ان کے لیے تقدم خلافت کا حق ثابت ہوا۔

خیر طلب : اگر آپ حضرات کسی وقت سنیت کا لباس اتار کے اور تعصب وعادت سےالگ ہو کر ایک غیر جانبدار اور غیر متعصب انسان کے مانند اس آیہ شریفہ کے پہلووں پر غور کریں تو تصدیق کریں گے کہ جو نتیجہ آپ کے پیش نظر ہے وہ اس آیہ سے حاصل نہیں ہوتا۔

شیخ : بہتر ہے کہ اگر مقصد کے خلاف کچھ منطقی دلائل ہیں تو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : میری خواہش ہے کہ اس موقع سے چشم پوشی فرمائیے کیونکہ بات سے بات پیدا ہوتی ہے، اس وقت ممکن ہے کہ بعض غیر منصف لوگ اسی کو عداوت کی نظر سے دیکھیں ، آپس میں رنجش پیدا ہو اور یہ خیال قائم کیا جائے کہ ہم مقام خلفاء کی اہانت کرنا چاہتیے ہیں، حالانکہ ہر فرد کی حیثیت اپنی جگہ پر محفوظ ہے اور ان کے لیے بے جا تفسیر و تاویل کی احتیاج نہیں۔

شیخ : میری درخواست ہے کہ بغلیں نہ جھانکئے اور مطمئن رہئے ، منطقی دلائل رنجش نہیں پیدا کرتے ہیں بلکہ ان سے پردے ہٹتے ہیں۔

خیر طلب: چونکہ آپ نے بغلیں جھانکنے کا نام لیا ہے لہذا میں مجبور ہوں کہ ایک مختصر جواب پیش کردوں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ میں بغلیں نہیں جھانک رہا تھا بلکہ گفتگو میں ادب کا لحاظ مقصود تھا۔ امید ہے کہ میری باتوں میں عیب جوئی نہ کیجئے گا اور اںصاف کی نظر سے دیکھئے گا اس لیے کہ اس بحث کا جواب محققین علماء نے مختلف طریقوں سے دیا ہے۔

اولا : آپ کا یہ جملہ سخت حیرت انگیز اور سطحی تھا کہ رسول اللہ(ص) چونکہ یہ جانتے تھے کہ ابوبکر کے بعد خلیفہ ہوں گے اور خلیفہ کا تحفظ آن حضرت(ص) پر لازم تھا لہذا ان کو اپنے ہمراہ لے گئے۔

آپ کے اس بیان کا جواب بہت سادہ ہے کیونکہ اگر پیغمبر(ص) کے خلیفہ صرف ابوبکر ہی ہوتے تو ایسا احتمال پیدا کیا

۲۱۳

جاسکتا تھا لیکن آپ خود خلفائے راشدین کی خلافت پر اعتماد رکھتے ہیں اور وہ چار نفر تھے۔ اگر آپ کی یہ دلیل صحیح ہے اور خطرات سے خلیفہ محفوظ رکھنا لازم تھا تو پیغمبر(ص) کا فرض تھا کہ چاروں خلفاء کو جو مکے میں موجود تھے اپنے ساتھ لے جائیں ، نہ یہ کہ ایک کو لے جائیں اور دوسرے تین افراد کو چھوڑ دیں، بلکہ ان میں سے ایک کو تلواروں کے خطرے سے گھرے ہوئے مقام پر مقرر کریں، اور اپنے بستر پر لٹائیں جب کہ یقینی طور پر اس رات پیغمبر(ص) کا بستر خطرناک اور دشمنوں کے حملے کی زد میں تھا۔ (1)

دوسرے اس بیان کی بنا پر جو طبری نے اپنی تاریخ جز سیم میں درج کیا ہے ابوبکر آنحضرت(ص) کی روانگی سے واقف ہی نہ تھے بلکہ جس وقت علی علیہ السلام کے پاس آئے اور آنحضرت(ص) کا حال دریافت کیر تو حضرت نے فرمایا کہ وہ غار میں تشریف لے گئے ہیں اگر ان سے کوئی کام ہے تو دوڑ جاو۔ ابوبکر دوڑتے ہوئے چلے اور درمیان راہ میں آنحضرت(ص) سے ملے گئے چنانچہ مجبورا ایک ساتھ روانگی ہوئی۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر(ص) خود ان کو اپنے ہمراہ نہیں لے گئے بلکہ وہ بلا اجازت گئے اور راستے کے درمیان سے آںحضرت(ص) کے ساتھ ہوگئے۔

بلکہ دوسری روایتوں کی بنا پر ابوبکر کو لے جانا اتفاقیہ اور فتنے اور دشمنوں کو خبر دے دینے کے خوف سے تھا جیسا کہ خود آپ کے منصف مزاج علماء نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے منجملہ ان کے شیخ ابوالقاسم بن صباغ جو

آپ کے مشاہیر علماء میں سے ہیں کتاب النور البرہان حالات رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محمد بن اسحق سے اور انہوں نے حسان بن ثابت اںصاری سے روایت کی ہے کہ میں آنحضرت (ص) کی ہجرت سے قبل عمرہ کے لیے مکہ گیا تو میں نے دیکھا کہ کفار قریش آنحضرت (ص) کے اصحاب کو سب و شتم کرتے ہیں چنانچہ اسی زمانے میں :

" امر رسول الله صلی الله عليه وآله عليا فنام فی فراشه و خشی من ابن ابی قحافه ابن يدلهم عليه فاخذه معه و مضي الی الغار "

( یعنی رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو حکم دیا کہ آپ کے بستر پر سو رہیں اور اس بات سے ڈرے کہ ابوبکر کفار کو پتہ دے دیں گے اور آنحضرت (ص) کی طرف ان کی رہنمائی کردیں گے لہذا ان کو اپنے ساتھ لے کر غار کی طرف روانہ ہوئے)

تیسرے مناسب یہ تھا کہ آپ آیت میں محل استشہاد اور وجہ فضیلت کو بیان کرتے کہ رسول خدا(ص) کے ہمراہ سفر کرنا اثبات خلافت پر کیا دلیل قائم کرتا ہے۔

شیخ : محل استشہاد ظاہر ہے اول تو رسول اللہ کی مصاحبت اور یہ کہ خدا ان کو رسول اللہ(ص) کا مصاحب کہتا ہے دوسرے آںحضرت(ص) کے قول سے کہ خبر دیتے ہیں : ان اللہ معنا۔ تیسرے اس آیت میں خدا کی جانب سے ابوبکر پر نزول سکینہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ بلکہ اس سے تو ہمارے موافق ایک اور دلیل قائم ہوتی ہے کہ جو شخص حقیقتا خلیفہ رسول ہونے والا تھا خدا اس کو محفوظ رکھنے کا ذمہ دار تھا ۔ لہذا اس کو خطرے میں چھوڑ گئے اور جس کا وجود بعد رسول ضروری نہیں تھا وہ قتل بھی کیا جاسکتا تھا لہذا اس کو ساتھ لے لیا۔ 12 مترجم عفی عنہ۔

۲۱۴

شرف کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ اور ان دلائل کا مجموعہ ان کے لیے افضلیت اور تقدم خلافت کے حق کو ثابت کر رہا ہے۔

خیر طلب : یقینا کسی شخص کو ابوبکر کے ان مراتب سے انکار نہیں ہے کہ وہ بوڑھے مسلمان سن رسیدہ اصحاب میں سے اور رسول خدا کی بیوی کے باپ تھے لیکن آپ کے یہ دلائل فضیلت خاص اور خلافت میں حق تقدم کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اگر آپ چاہیں کہ اپنے ان بیانات سے جو آپ نے اس آیہ شریفہ کے بارے میں دیے ہیں ، کسی بے غرض اور غیر متعلق انسان کے سامنے ان کی کوئی خاص فضیلت ثابت کریں تو قطعی طور پر آپ اعتراض کی زد میں آجائیںگے کیونکہ وہ آپ کے جواب میں کہے گا کہ تنہا نیک لوگوں کی مصاحبت فضیلت و برتری کی دلیل نہیں ہوا کرتی کتنے زیادہ - ایسے ہیں جنہوں نے نیکوں کی مصاحبت کی اور وہ کتنے زیادہ کفار وہ ہیں جو مسلمانوں کے مصاحب تھے اور ہیں۔ چنانچہ یہ حقائق مسافرت میں اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں۔

شواہد اور مثالیں

غالبا آپ حضرت بھول گئے ہیں کہ سورہ 12 ( یوسف) آیت نمبر49 میں خدائے تعالے حضرت یوسف کا قول نقل فرماتا ہے :

" يا صاحِبَيِ السِّجْنِ أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ"

( یعنی اے میرے دونوں قید خانے کے رفیقو آیا متفرق خدا( جیسے اشنام و فراعنہ) اچھے ہیں ( جو پے حقیقت اور مجبور ہیں) یا خداے یکتا جو صاحب قہر و غلبہ ہے۔)

مفسرین نے اس آیہ شریفہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ جس روز یوسف(ع) کو قید خانے میں داخل کیا، پانچ سال یہ تینوں افراد مومن و کافر) ایک دوسرے کے مصاحب رہے اور یوسف تبلیغ کے موقع پر ان کو اپنا مصاحب کہتے بھی ہیں جیسا کہ اس آیت میں خبر دی گئی ہے تو کیا پیغمبر(ص) کی مصاحبت ان دونوں کافر شخصوں کے لیے شرف اور فضیلت کی دلیل تھی ؟ یا دوران مصاحبت میں ان کے عقیدے کے اندر کوئی تغییر پیدا ہوا؟ صاحبان تفاسیر و تواریخ کی تحریریں تو یہی بتاتی ہیں کہ پانچ سال صحبت میں رہنے کے بعد بھی آخر کار اسی حالت میں ایک دوسرے سے الگ ہوئے ۔ نیز سورہ 18 ( کہف) آیت 45 کی طرف توجہ فرمائیے جس میں ارشاد ہے:

"قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَ هُوَ يُحاوِرُهُ أَ كَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا."

(یعنی اس کے ( باایمان اور فقیر) رفیق نے گفتگو اور نصیحت کے موقع پر اس سے کہا کہ کیا تو نے اس خدا کے ساتھ کفر اختیار کیا ۔ جس نے تجھ کو پہلے مٹی سے اس کے بعد نطفے سے پیدا کیا اور پھر ایک مکمل آدمی بنا دیا)

مفسرین نے عام طور سے لکھا ہے کہ دو بھائی تھے ایک مومن جس کا نام یہود اور دوسرا کافر جس کا نام راطوس تھا( جیسا کہ امام فخر رازی بھی جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں اپنی تفسیر کبیر میں نقل کرتے ہیں) یہ دوںوں آپس میں کچھ بات چیت رکھتے تھے جس کو مفصل نقل کرنے کا وقت نہیں ہے۔ غرضیکہ خدا نے ان دو کافر فرد مومن کو ایک دوسرے کا مصاحب فرمایا ہے تو کیا

۲۱۵

مومن بھائی کی مصاحبت کا ذکر فائدہ اور فیض پہنچا؟ ظاہر ہے کہ جواب قطعا میں سے۔

پس صرف مصاحبت فضیلت و شرافت ، اور برتری کی دلیل نہیں ہوا کرتی ، جس کے دلائل اور نظائر بہت ہیں۔لیکن وقت اس سے زیادہ بیان کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

اور جو آپ نے یہ فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر سے فرمایا ان اللہ معنا لہذا اس لحاظ سے کہ خدا ان کے ساتھ تھا قطعا یہ بات بھی دلیل شرافت اورخلافت کو ثابت کرنے والی ہ۔

تو بہتر ہوگا کہ اپنے ان عقائد اور الفاظ پر ذرا نظر ثانی فرمالیجئے تاکہ اس اعتراض کا نشانہ نہ بن جائیے کہ خدائے تعالی کیا صرف مومنین اور اولیاء اللہ کے ساتھ رہتا ہے اور غیر مومن کے ساتھ نہیں رہتا؟ آیا کوئی ایسی جگہ بیٹھے ہوں تو کیا عقل باور کرتی ہے کہ خدا اس مومن کے ساتھ ہو لیکن کافر کے ساتھ نہ ہو؟ کیا سورہ 58( مجادلہ) آیت نمبر7 میں خدا نہیں فرماتا ہے کہ:

"الم تر ان الله يَعْلَمُ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ وَ لا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سادِسُهُمْ وَ لا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَ لا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ ما كانُوا"

( یعنی بطریق استفہام تقریری فرماتا ہے کہ آیا تم نے نہیں دیکھا اور نہیں جانا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین کے اندر ہے خدا اس سے واقف ہے چنانچہ اگر تین شخص آپس میں راز کی باتیں کریں تو خدا ان کا جو تھا ہوگا اگر باغ شخص ہوں تو خدا، ان کا چھٹا ہوا گا۔ اور نہ اس سے کم اور زیادہ ہوسکتے ہیں بغیر اس کے کہ چاہیے جہاں ہوں خدا ان کے ساتھ ہوگا (کیونکہ وجود الہی عالم کے ہر جزو کل پر احاطہ کامل رکھتا ہے، پس اس آیت اور دوسری آیات اور دلائل عقلیہ و نقلیہ کے پیش نظر خدائے تعالی دوست و دشمن ، مسلمان و کافر، مومن منافق ہر شخص کے ساتھ ہے۔ پس اگر دو نفر ایک جگہ ہوں اور ان میں سے ایک کہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے تو کسی شخص خاص کی فضیلت پر دلیل نہ ہوگی۔ جس طرح سے کہ وہ نیک آدمی اگر یک جا ہوں تو خدا ان کے ساتھ ہے اسی طرح دو برے آدمی یا ایک اچھا ایک برا اکٹھا ہوں تو قطعا خدا ان دونوں کے ہمراہ ہوگا چاہیے وہ سعید ہوں یا شقی، نیک ہوں یا بد۔)

شیخ : اس سے مراد کہ خدا ہمارے ساتھ ہے یہ تھی کہ چونکہ ہم خدا کے محبوب ہیں اس لیے کہ خدا کی یاد میں، خدا کے لیے اور دین خدا کی حفاظت کی غرض سے روانہ ہوئے ہیں لہذا لطف خداوندی ہمارے شامل حال ہے۔

اظہار حقیقت

خیر طلب : اگر یہ مطلب لیا جائے تب بھی قابل اعتراض ہے اور کہا جائے گا کہ ایسا خطاب ابدی سعادت پر دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ خدائے تعالے اشخصاص کے اعمال دیکھتا ہے، کتنے ہی لوگ ایسے گزرے ہیں جو ایک زمانے میں نیک اعمال بجالاتے تھے اور لطف و رحمت خداوندی ان کے شامل حال تھی۔ اس کے بعد ان سے برے اعمال سرزد ہوئے

۲۱۶

اور امتحان کے وقت نتیجہ برعکس نکلا تو پروردگار کے مبغوض ہوگئے اور لطف و رحمت الہی سے محروم ہو کر راندہ درگاہ اور مردود و ملعون ہوگئے۔ چنانچہ ابلیس ایک مدت تک خلوص نیت کے ساتھ عبادت خدا میں مشغول رہا تو الطاف و مراحم خداوندی سے سر فراز تھا لیکن جونہی اس نے سرکشی کی اور احکام الہی سےمنہ موڑ کر ہوائے نفس کا تابع ہوا تو مردود بارگاہ اور اس کی بے حساب رحمتوں سے محروم ہو کر خطاب :

" فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ وَ إِنَ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلى يَوْمِ الدِّينِ "

( یعنی سورہ نمبر15 ( حجر) آیت نمبر34 میں اس پر حق کامیاب ہوا کہ صفوف ملائکہ اور بہشت سے نکل جائے اور راندہ درگاہ ہوگیا اور تجھ پر روز قیامت تک حتمی طور پر ہماری لعنت ہے کہ ساتھ ملعون بدی بن گیا۔)

معاف فرمائیے گا مثل میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ یہ ذہنوں کو مطلب سے قریب لانے کے لیے ہے اور اگر ہم عالم بشریت پر نظر ڈالیں تو ایسے اشخاص کی بہت سی نظیریں ملیں گی جو درگاہ باری تعالی میں مقرب ہوئے لیکن امتحان کے موقع پر مردود و مغضوب پروردگار قرار پائے نمونے کے طور پر ہم دو شخصوں کا ذکر کرتے ہیں جن کی طرف قرآن مجید نے بھی انسانوں کی بیداری اور غافلوں کی تنبیہ کے لیے ارشاد فرمایا ہے۔

بلعم بن باعوراء

من جملہ ان کے بلعم بن باعوراء ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں اس قلہ مقرب الہی ہوا کہ خدا نے اس کو اسم اعظم عطا فرمایا چانچہ اپنی ایک دعا کے اثر سے اس نے حضرت موسی(ع) کو وادی میں تیہ میں سرگردان کردیا، لیکن امتحان کی منزل میں جب جاہ و ریاست طلبی نے اس کو خدا کی مخالفت اور شیطان کی پیروی پر آمادہ کردیا اور نار جہنم اس کا ٹھکانہ بن گیا۔

تمام مفسرین و مورخین نے تفصیل کے ساتھ اس کا حال لکھا ہے یہاں تک کہ امام فخررازی نے بھی اپنی تفسیر جلد چہارم ص463 میں ابن عباس ، ابن مسعود اور مجاہد سے اس کا قصہ نقل کیا ہے ۔ خدا سورہ نمبر7 (اعراف) آیت نمبر174 میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ :

" وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِى ءَاتَيْنَهُ ءَايَتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَنُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ"

( یعنی ( اے پیغمبر(ص)) ان لوگوں پر اس شخص ( یعنی بلعم بن باعوراء) کی حکایت بیان کرو جس کو ہم نے اپنی ؟؟؟؟؟ عطا کیں پس اس نے ان آیات سے روگردانی کی چنانچہ شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں شامل ہوگیا۔)

برصیصائے عابد

دوسرا برصیصا عابد تھا جس نے اولا عبادت میں اس قدر کوشش کی کہ مستجاب الدعوات ہوگیا لیکن امتحان کے وقت

۲۱۷

اس کا انجام خراب نکلا ، شیطان کے فریب میں مبتلا ہو کر ایک لڑکی سے زنا کیا، اپنی ساری محنتوں کو برباد کردیا، دار پر لٹکایا گیا اور دنیا سے کافر اٹھا ۔ چنانچہ سورہ59 ( حشر) آیت نمبر16 میں اس کے واقعے کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔

"كَمَثَلِ الشَّيْطانِ إِذْ قالَ لِلْإِنْسانِ اكْفُرْ- فَلَمَّا كَفَرَ قالَ إِنِّي بَرِي ءٌ مِنْكَ- إِنِّي أَخافُ اللَّهَ رَبَّ الْعالَمِينَ- فَكانَ عاقِبَتَهُما أَنَّهُما فِي النَّارِ خالِدَيْنِ فِيها- وَ ذلِكَ جَزاءُ الظَّالِمِينَ "

( یعنی یہ منافق مثل میں شیطان کے مانند ہیں جس نے انسان سے ( یعنی برصیصائے عابد سے) کہا کہ کفر اختیار کر اور جب وہ کافر ہوگیا تو اس سے کہا کہ میں تجھ سے بیزار ہوں کیونکہ میں پروردگار کے عذاب سے ڈرتا ہوں پس ان دونوں ( شیطان و برصیصا) کا یہ انجام ہوا کہ وہ دونوں ہمیشہ جہنم میں رہیں گے یہی دوزخ ظالمین کا بدلا ہے۔)

غرضیکہ آدمی سے اگر کسی زمانے میں کوئی نیک عمل صادر ہوا ہے تو یہ اس کا انجام بخیر ہونے کی دلیل نہیں ہے ، اس وجہ سے ہدایت ہے کہ دعا میں کہو " اللہم اجعل عواقب امورنا خیرا" یعنی خداوندا ہمارے امور کے نتائج نیک قرار دے۔

ان چیزوں کے علاوہ آپ خود جانتے ہیں کہ علمائے معانی و بیان کے نزدیک طے شدہ بات ہے کہ کلام میں تاکید کا ذکر اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک مخاطب شک اور شبہ میں مبتلا نہ ہو یا اس کے خلاف نہ سوچ رہا ہو، اور آیہ شریفہ کا تصریح سے جس نے اپنا کلام جملہ اسمیہ اور ان مشددہ کے ساتھ پیش کیا ہے دوسرے فریق کے عقیدے کا فساد ظاہر ہوتا ہے کہ متزلزل و متوہم اور شک و شبہ میں مبتلا تھا۔

شیخ : انصاف کیجئے، آپ جیسے انسان کے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ اس محل پر ابلیس بلعم بن باعوراء اور برصیصاء کی مثل پیش کریں۔

خیر طلب : معاف کیجئے ، شاید آپ نے سنا نہیں میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ مثل میں کوئی برائی نہیں ہے ،کیونکہ علمی مباحثات اور مذہبی مناظرات میں ذہنوں کو قریب کرنے اور مقاصد کو ثابت کرنے کے لیے مثالیں بیان کی جاتی ہیں خدا شاہد ہے کہ شواہد و امثال کے ذکر میں میں نے کبھی اہانت کا قصد نہیں کیا بلکہ اپنے نظریئے اور عقیدے کے ثبوت میں جو ںظریں اور مثالیں سامنے آتی ہیں پیش کردیتا ہوں۔

شیخ : اس آیت کے اندر اثبات فضیلت کی دلیل خود آیہ کریمہ کا ایک قرینہ ہے کہ فرماتا ہے" فانزل اللہ سکینۃ علیہ " چنانچہ سکینہ کی ضمیر ابوبکررضی اللہ عنہ کی طرف ہونا دوسروں پر ان کی شرافت و فضیلت اور آپ جیسے لوگوں کا وہم دور کرنے کے لیے خود ایک واضح دلیل ہے۔

خیر طلب: آپ کو دھوکا ہو رہا ہے ، سکینہ کی ضمیر رسول اکرم صلی اللہ علی و آلہ وسلم کی طرف پھرتی ہے اور نزول سکینہ آنحضرت (ص) پر ہوا تھا نہ کہ ابوبکر پر، جس کا قرینہ بعد والے جملے میں موجود ہے کہ فرمایا " وایدہ بجنود لم تروہا" اوریہ حقیقت ہے کہ غیبی لشکروں کی تائید رسول اللہ (ص) کےلیے تھی نہ کہ ابوبکر کے لیے۔

۲۱۸

شیخ : یہ مسلم ہے کہ جنود حق کی تائید رسول خدا(ص) کے لیے تھی لیکن، ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آنحضرت(ص) کی مصاحبت میں بے بہرہ نہ تھے۔

نزول سکینہ رسول خدا(ص) پر ہوا

خیر طلب : اگر الطاف و مراحم الہیہ میں دونوں ہستیاں شامل تھیں تو قاعدے کے رو سے آیہ شریفہ کے تمام جملوں میں تثنیہ کی ضمیریں ہونا لازمی تھا حالانکہ قبل و بعد کی تمام ضمیریں مفرد استعمال ہوئی ہیں تاکہ ذات خاتم الانبیاء (ص) کے مدارج ثابت ہوجائیں اور معلوم ہوجائے کہ پروردگار کی جانب سے جو کچھ ، جہت و مرحمت نازل ہوتی ہے وہ آں حضرت کی ذات سے مخصوص ہوتی ہے اور اگر آنحضرت(ص) طفیل میں دوسروں پر بھی نازل ہو تو ان کا نام ظاہر کیا جاتا ہے۔ لہذا سکینہ و رحمت کے نزول میں بھی اس آیت اور دوسری آیتوں میں صرف پیغمبر(ص) کو مورد عنایت قرار دیا ہے۔

شیخ : رسول خدا(ص) نزول سکینہ سے مستثنی تھے، ان کو اس کی کوئی احتیاج نہ تھی اور سکینہ ہرگز ان سے جدا نہیں ہوتا تھا پس نزول سکینہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مخصوص تھا۔

خیر طلب : آپ کیوں بے لطفی کی باتیں کرتے ہیں اور بار بار انہیں مطالب کو دہرا کے جلسے کاوقت لیتے ہیں۔ آپ کس دلیل سے کہتے ہیں کہ خاتم الانبیاء نزول سکینہ سے مستثنی تھے حالانکہ افراد خلائق میں سے پیغمبر(ص) و امت ،امام اور ماموم کوئی شخص بھی حق تعالی کے الطاف و عنایات سے مستغنی نہیں ہے ۔ کیا آپ سورہ نمبر9 ( توبہ) کی آیت نمبر26 کو بھول گئے ہیں جو حنین کے واقعے میں کہتی ہے "ثُمَ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلى رَسُولِهِ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ" ( یعنی اس وقت اللہ نے اپنے سکینہ و وقار ( یعنی شکوہ و سطوت اور جلال ربانی) کو اپنے رسول اور مومنین پر نازل فرمایا) نیز سورہ نمبر48 (فتح) کی آیت نمبر26 بھی اسی آیت شریفہ کے مانند ہے۔

جس طرح سے کہ اس آیت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد مومنین کی طرف اشارہ کیا ہے آیت غار میں بھی اگر ابوبکر ان مومنین کی ایک فرد ہوتے جن کو سکینہ و وقار میں شامل ہونا چاہیئے تو ضرورت تھی کہ تثنیہ کی ضمیر ہوتی یا علیحدہ ان کے نام کا ذکر کیا گیا ہوتا۔ یہ قصہ اتنا واضح ہے کہ خود آپ کے منصف علماء نے بھی اقرار کیا ہے کہ سکینہ کی ضمیر ابوبکر سے متعلق نہیں تھی۔ بہتر ہے کہ آپ حضرات کتاب نقض العثمانیہ مولفہ ابوجعفر محمد بن عبداللہ اسکافی کو جو آپ کے اکابر علماء اور شیوخ متعزلہ میں سے ہیں مطالعہ کیجئے تو دیکھئے گا کہ اس مرد عالم و منصف نے ابو عثمان بن حظ کی لا طائل باتوں کے جواب میں کس طرح حق کو آشکار کیا ہے، چنانچہ ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص253 تا ص281 میں ان میں سے بعض جواب نقل کئے ہیں۔

۲۱۹

علاوہ ان چیزوں کے خود آیت میں ایک ایسا جملہ موجود ہے جس سے مکمل طور پر آپ کے مقصد کے بر خلاف نتیجہ نکلتا ہے ۔ اور وہ جملہ یہ ہے کہ رسول اللہ(ص) نے لا تحزن کہہ کے ابوبکر کو حزن و اندوہ سے منع فرمایا۔ اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر اس حال میں غم زدہ تھے۔ تو ابوبکر کایہ حزن آیا کوئی اچھا عمل تھا یا برا؟ اگر عمل نیک تھا تو پیغمبر(ص) کسی کو عمل نیک اور اطاعت حق سے قطعا منع نہیں فرماتے اور اگر عمل بد اور گناہ تھا تو ایسے عمل والے کے لیے کوئی شرف و بزرگی نہیں ہوتی جس سے خدا کی رحمت اس کے شامل حال ہو اور وہ نزول سکینہ کا محل قرار پائے۔ بلکہ شرافت و فضیلت صرف مومنین اولیاء اللہ کے لیے ہوتی ہے۔

اور اولیاء اللہ کے لیے کچھ علامتیں ہوتی ہیں جن میں قرآن مجید کے بیان کی بناء پر سب سے اہم یہ ہے کہ حادثات زمانہ کے مقابلے میں ہرگز خوف و حزن اور غم و اندوہ کا اظہار نہ کریں بلکہ صبر و استقامت اختیار کریں، چنانچہ سورہ نمبر10 (یونس) آیت نمبر62 میں ارشاد ہے "أَلا إِنَ أَوْلِياءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ ."

(یعنی آگاہ ہو کہ دوستان خدا کے دلوں میں ( آئندہ حادثات زمانہ کا ) کوئی خوف نہیں ہوتا اور نہ وہ ( دنیا کی اپنی گذشتہ مصیبتوں پر ) غم و اندوہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔)

جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو مولوی صاحبان گھڑیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ رات نصف سے کافی زیادہ گزر چکی ہے۔ نواب صاحب نے کہا کہ ابھی آیت کے بارے میں میں قبلہ صاحب کا بیان مکمل نہیں ہوا ہے اور کوئی آخری نتیجہ ہمارے ہاتھ نہیں آیا ہے ۔ ان حضرات نے کہا کہ ہم اس سے زیادہ زحمت دینا مناسب نہیں سمجھتے لہذا بقیہ باتین کل شب کے لیے ملتوی کی جاتی ہیں۔ چونکہ یہ اسلامی عیدوں میں سب سے بزرگ یعنی عید بعثت کی شب تھی۔ لہذا جلسے میں شربت اور مختلف اقسام کی شیرینی آئی اور مسرت و شادمانی کےساتھ یہ نشست تمام ہوئی۔)

چھٹی نشست

شب چہار شنبہ 28 رجب سنہ1345ھ

( قبل غروب جناب غلام امامین صاحب جو اہل تسنن میں سے ایک معزز تاجر اور شریف و متین انسان ہیں اور پہلی ہی شب سے شریک جلسے تھے تشریف لائے، انہوں نے بہت تہذیب کے ساتھ پر جوش انداز میں ایک مفصل بیان دیا جس کاخلاصہ یہ تھا کہ میں نے ذرا جلد آکر آپ کو اس لیے زحمت دی کہ آپ کی توجہ اس طرف مبذول کراوں کہ آپ نے اپنے مدلل بیانات کے ذریعہ ہم میں سے متعدد افراد کو جذب کر لیا ہے ، دل مکمل طور پر متاثر ہیں اور ایسی نئی نئی باتین سننے میں آئی ہیں جن کو تقیہ کی بنا پر دوسرے لوگ بیان کرنے سے پرہیز کرتے تھے ۔ ہم بھی ان تمام چیزوں سے بالکل بے خبر تھے لیکن

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369