پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310221 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کے خاتمے پر مذہب شیعہ کی حقیقت اس پر ظاہر اور روشن ہوگئی اور اس نے مذہب حقہ امامیہ اختیار کر لیا۔ اور تمام بلاد ایران میں شیعہ مذہب کی آزادی کا اعلان نافذ کردیا ۔ اور اسی وقت سے سارے حکام اور ولایتوں کے گورنروں کو اطلاع دے دی کہ ساری مسجدوں اور مجمعوں میں امیرالمومنین علیہ السلام اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے نام کا خطبہ پڑھیں اور حکم دیا کہ دیناروں پر تین متوازی سطروں میں کلمہ طیبہ" لا اله الا اﷲ محمد رسول اﷲ علی ولی اﷲ" کو سکہ نقش کیا جائے۔

جناب علامہ حلی کو جنہیں ایک اختلافی مسئلہ حل کرنے کے لیے جلہ سے بلوایا تھا ( اور اسی کی بنا پر اس جلسے میں مناظرہ کا دروازہ کھل گیا ۔ اور تشیع کی حقیقت ظاہر ہوئی) اپنے پاس ٹھہرا لیا آپ کے لیے مدرسہ سیارہ تعمیر کرایا اور طالبان علوم آپ کے گرد جمع ہوگئے چونکہ آپ بلا تقیہ اور کھلم کھلا حقائق کو بیان فرماتے تھے لہذا بے خبر لوگوں نے بھی طریقہ حقہ امامیہ کا پتہ لگا لیا، ولایت کا آفتاب درخشان ابر خفا سے باہر آگیا اور اسی زمانے سے مذہب حقہ، شیعہ کی روشنی جہالت و نادانی کا پردہ چاک کر کے ظاہر اور نمایاں ہوئی۔

تقریبا سات سو سال کے بعد با اقتدار صفوی بادشاہوں کی حمایت اور اس زمانے کی مکمل تبلیغات کے اثر سے باطل تیرہ و تار بادل بالکل چھٹ گئے اور ولایت و امامت کا آفتاب عالمگیر ضیا پاشی کرنے لگا۔

چنانچہ ایرانی اگر چہ ایک روز مجوسی اور دو خداؤں ( یزادن و اہرمن) کے معتقد تھے لیکن جس وقت سے انہوں نے اہل اسلام کے عقلی دلائل و براہین کو سنا ان کو دل و جان سے قبول کیا اور اب تک پورے خلوص کے ساتھ اپنے اسلامی عقیدے پر ثابت قدم ہیں۔

اگر ایرانیوں میں چند افراد ایسے پیدا ہوجائیں جو مجوسی ہوں یا کسی طریقے کے پابند نہ ہوں یا غلات کے سلسلے میں شامل ہوکر حضرت علی(ع) کو ان کی منزل سے بلند کر کے الوہیت کے درجے پر پہنچا دیں اور ان کو بندوں کا خالق و رازق سمجھنے لگیں ۔، حلول و اتحاد اور وحدت وجود کے قائل ہوں تو اس کو پاک نفس ایرانیوں کی اصل جماعت اور اکثریت سے کوئی ربط نہیں ہے۔

اس طرح کے غیر مناسب اور بے عقل و خرد افراد ہر قوم و ملت میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن شریف و عقلمند ایرانی قوم کی اکثریت وحدانیت حق تعالی اور نبوت خاتم الانبیاء پر مضبوط عقیدے سے اور ایمان کی حامل ہے۔ اور رسول اﷲ(ص) کے حسب الحکم سب امیرالمومنین علیہ السلام اور ان حضرت کے گیارہ فرزندوں کے پیرو ہیں۔

حافظ : آپ کے ایسے حجازی ، مکی اور مدنی بزرگ سے تعجب ہے کہ چند روز کے لیے ایران میں قیام کر لیا تو ایرانیوں کی اس قدر طرفداری کررہے ہیں۔ اور ان کو علی کرم اﷲ وجہ ، کا پیرو سمجھتے ہیں باوجودیکہ علی (ع) خود خدائے تعالی کے مطیع و فرمانبردار بندے تھے لیکن ایرانی شیعہ سب کےسب آپ کو خدا سمجھتے ہیں اور

۴۱

خدا سے جدا نہیں جانتے اور اپنے اشعار میں آپ کو بمنزلہ حق بلکہ عین حق قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ ان کے دلوں اور مکتوبات میں ا س طرح کی کفریات واضح طور پر موجود ہیں کیا ۔ اس قسم کے اشعار ایرانی شیعہ عارفین سے وارد نہیں ہیں جنہیں علی کرم اﷲ وجہ کی زبان سے نقل کرتے ہیں ۔ ( حالانکہ علی(ع) قطعا اس قسم کے عقیدے سے بیزار ہیں۔)

من طلسم عیب و کنز لاستم چون بہ کنیز لارسی الاستم

یعنی از اﷲ ولا بالا ستم نقطہ ام بار بار گویا ستم

کثرت تاترات پندارت کند

مظہر کل عجائب کیست من مظہر سرِ غرائب کیست من

صاحب عون نواسب کیست من در حقیقت ذاب واجب کیست من

ایک دوسرے شخص نے کہا ہے۔

در مذہب عارفان آگاہ ( گمراہ) اﷲ علی، علی است اﷲ

خیر طلب : آپ سے تعجب ہے کہ بغیر تحقیق کے قوم ایرانی شیعوں کو غالی اور علی پرست سمجھتے ہیں اور اس قسم کی باتوں سے بے خبر سنی بھائیوں کے سامنے معاملے کو شبہ کر کے برادر کشی کا دروازہ کھولتے ہیں ، چنانچہ افغانستان ، ہندوستان، ازبکستان اور تاجکستان وغیرہ میں اس قدر شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا کہ خون کے دھارے بہہ گئے۔

ازبکستان اور ترکستان کے مسلمان اپنے علماء کے بھڑکانے سے کہتے تھے کہ شیعہ علی پرست مشرک اور کافر ہیں اور ان کا قتل واجب ہے ان سبھوں نے ایرانی مسلمانوں کا اس کثرت سے خون بہایا کہ تاریخ کے صفحات کو داغدار بنا دیا۔

بے چارے سنی عوام آپ کے ایسے بزرگ علماء کی رہنمائی میں ایرانی مسلمانوں کو نگاہ کینہ بلکہ کفر و شرک اور ارتداد کے خیالی سے دیکھتے ہیں۔

گذشتہ زبانوں میں ترکمان لوگ خراسان کے راستے میں سر راہ ایرانی قافلوں کو گرفتار کر کے قتل و غارت میں مشغول ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ جو شخص سات عدد رافضیوں ( شیعوں ) کو قتل کردے اس پر بہشت واجب ہوجاتی ہے۔

قطعی طور پر جان لیجئے کہ اس طرح کے افعال اور قتل عام کی جواب دہی آپ ہی جیسے حضرات کے ذمے ہے جو ان کے کانوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ شیعہ علی(ع) پرست مشرک اور کافر ہیں اور بے خبر عقیدت مند سنی عوام

۴۲

اس کو قبول بھی کر لیتے ہیں ۔ لہذا بقصد ثواب اس قسم کی حرکتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

اسلام نے نسلی تفاخرات کو جڑ سے کاٹ دیا

پہلے میں آپ کے جملہ اول کا جواب عرض کرتا ہوں تاکہ ہم لوگ اصل مطلب تک پہنچیں۔ آپ نے جو یہ فرمایا کہ تم حجازی ، مکی اور مدنی ہو کر ایرانی بھائیوں کی طرفداری کس لیے کرتے ہو؟ تو یہ بدیہی بات ہے کہ مجھ کو اپنے مکی مدنی اور محمدی ہونے پر فخر ہے لیکن نسلی تعصب جو جہالت اور نادانی کے آثار میں سے ہے میں اپنے دل مین نہیں رکھتا ہوں۔ اس لیے کہ میرے جد بزرگوار حضرت خاتم الانبیاء (ص) نے باوجودیکہ ہر ملت کی قومیت اور وطنیت کی حفاظت ملحوظ رکھی ہے۔ اور جملہ حب الوطن من الایمان کے ساتھ ہر قوم و ملت کو محب وطن کی ہدایت کی ہے ۔ لیکن آں حضرت (ص) نے النافوں کے اتحاد اور ہر فرد بشر کے دل سے ہر طرح کے بیہودہ خیالات دور کرنے کے لیے جو بڑے قدم اٹھائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کو کلی طور پر جڑ سے کاٹ دیا اور ایک بلند اور موثر آواز کے ساتھ دنیا والوں کو اپنے اس اعلان کی طرف متوجہ فرمایا کہ

"لافخر للعرب علی العجم ولا للعجم علی العرب ولا للابيض علی الاسود ولا للاسود علی الابيض الا بالعلم و التقی ۔" (۱)

اور نیز اس لیے کہ عالم اور متقی اشخاص کو اشتباہ نہ پیدا ہوجائے کہ آں حضرت (ص) کے ارشاد سے سند لے کر تواضع اور خاکساری سے ہٹ جائیں اور دوسروں پر کبر و خودی کا اظہار کرنے لگیں فرمایا ۔

" انا من العرب ولا فخروا فاسيد ولد الآدم ولا فخر ۔ " (۲)

نتیجہ کلام یہ کہ میں باوجودیکہ عرب اور سید آدم ہوں لیکن اس نسل اور منزلت سے دوسروں پر کوئی فخر و مباہات نہیں کرتا۔

پیغمبر(ص) کا فخر صرف اس بات پر تھا کہ پروردگار کے اطاعت گذار بندے ہیں۔ آں حضرت(ص) مقام مناجات میں عرض کرتے تھے۔

" کفی بی فخرا ان اکون لک عبدا " یعنی میرے لیے یہی فخر ومباہات کافی ہے کہ تجھ ایسے پروردگار کا بندہ ہوں۔

خدا تعالی سورہ نمبر۴۹ ( حجرات) آیت نمبر۱۳ میں ارشاد فرماتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ـ عرب کو عجم پر عجم کو عرب پر ، سفید کو سیاہ پر اور سیاہ کو سفید پر کوئی فخر و مباہات نہیں ہے سوا علم و تقوی کے۔

۲ ـ میں قوم عرب سے ہوں لیکن ان پر فخر نہیں کرتا میں اولاد آدم کا سردار ہوں۔ لیکن اس پر فخر نہیں کرتا ہوں۔

۴۳

" يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ " (الحجرات، ۱۳) (۱)

اس نے فضل و شرف اور بزرگی تقوی میں قرار دی ہے۔ نیز اسی سورے کے آیت نمبر ۱۰ میں فرمایا ہے:

" إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ "( الحجرات ، ۱۰)

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا ہمیشہ اپنے ایمانی بھائیوں کے درمیان اگر کوئی نزاع پیدا ہو تو صلح کرا دیا کرو ) چنانچہ ایشائی ، افریقی، یورپی اور امریکی سفید و سیاہ ، سرخ و زرد شہرستانی اور کوہستانی نسلوں کے جملہ افراد لوائے اسلام اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے ماتحت آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے پر کوئی فخر و مباہات نہیں رکھتے۔

اسلام کے عظیم المرتب قائد حضرت خاتم الانبیاء نے عملی طور پر اس کا ثبوت دیا ہے عجم سے سلمان فارسی کو روم سے صہیب رومی کو اور حبش سے بلال سیاہ کو اپنے آغوش محبت میں قبول فرمایا لیکن اپنے شریف النسل چچا ابولہب کو جو عرب کی بہترین نسل سے تھا اپنے سے دور فرمادیا اور اس کی مذمت میں ایک سورہ نازل ہوا جس میں صریح طور پر ارشاد ہے ۔ تبت یدا ابی لھب۔ ( یعنی ابولہب کے ددنوں ہاتھ قطع ہوجائیں ( جو رسول اﷲ(ص) کے درپے آزار تھے۔)

سارے فسادات اور لڑائیاں نسلی تفاخرات کی بنا پر ہوتی ہیں

انسانوں کے تمام فتنہ و فساد اور جنگ و جدال انہیں نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کی بنا پر ہیں۔ جرمنی کے باشندے کہتے ہیں کہ آرین اور جرمنی نسلی سب سے بلند ہے ۔ جاپانی کہتے ہیں کہ سرداری کا حق ان کی زرد نسل کو حاصل ہے اور یورپ والے کہتے ہیں کہ سفید فام لوگ حاکم اور سب کے اوپر افسر ہیں۔ امریکہ کے متمدن ممالک میں اب تک سیاہ فام لوگ اجتماعی حقوق سے محروم ہیں ۔ یہاں تک کہ سفید فاموں کے کیفے ، سینما اور مہمان خانوں میں داخل ہونے کا حق نہیں رکھتے اور سیاہ فام عیسائی کو سفید فاموں کے کلیساء میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے تعجب خیز بات یہ ہے کہ عبادت گاہ میں بھی ایک دوسرے کے برابر بیٹھنے کے حقدار نہیں ، سیاہ کھال کے علماء اور افاضل اگر سفید کھال کے دانشمندوں کے جلسوں میں جاتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ جوتے اتارنے کی جگہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ـ اے انسانو ! ہم نے سب کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے ۔ اور ان میں مختلف شاخیں اور قبیلے قرار دیئے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو( اور سمجھ لو کہ اصل ونسب اور نسلی سرمایہ افتخار نہیں ہے بلکہ خدا کے نزدیک تم سب میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو تم لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

۴۴

بیٹھیں ، ان کو سفید فاموں کے سامنے علم و ہنر کا اظہار نہ کرنا چاہئیے ایک بوڑھے سیاہ فام عالم کو چاہیئے کہ سفید فام جوان کے سامنے تعظیم بجالائے اور مطیع و فرمانبردار رہے۔ سفید فام اساتذہ سیاہ فاموں کو اپنے مدرسوں میں داخل نہیں کرتے ، یہاں تک کہ ریلوے اسٹیشنوں پر اگر کوئی سیاہ فام چھوٹ گیا ہو تو ان کو سفید فاموں کے مسافر خانوں میں گھسنے کا اختیار نہیں۔ خلاصہ یہ کہ امریکہ میں سیاہ فام لوگ باوجود ان کوششوں کے جو ان لوگوں کی آزادی کے لیے عمل میں لائی جاتی ہیں) حیوانات میں شمار ہوتے ہیں اور سفید فاموں کی طرح وسائل تمدن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ (۱)

لیکن مقدس دین اسلام نے سارے بیہودہ اور موہوم عقائد کو تیرہ سو سال پہلے ہی درمیان سے اٹھادیا تھا، اس کا اعلان ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں چاہے جس نسل اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ یورپ ، ایشا، امریکہ اور افریقہ کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ ایک دوسرے کے لیے خلوص و محبت کا آغوش کھلا رکھیں اور دنیا کے جس مقام پر بھی ہوں، ہمیشہ ایک دوسرے کے یار و غمگسار رہیں۔ اسلام حجازی، مکی اور مدنی مسلمانوں اور دوسرے ممالک کے مسلمین میں کوئی فرق نہیں کرتا ۔ چنانچہ اگر میری نسل حجازی ، قریشی ، ہاشمی اور محمدی ہے تو جائز نہیں ہے کہ سچی بات کو چھپاؤں اور مہمل خیالات کی بنا پر حق کو پس پشت ڈال دوں ۔ میں قطعی طور پر حجازی گمراہوں سے متنفر اور ایرانی شیعوں کا دوستدار ہوں۔

مادروں را بنگریم و حال را نے درون را بنگریم و قال را

دوسری چیز یہ ہے کہ آپ نے ایرانی غالیوں کو بغیر کسی مناسبت اور دلیل و برہان کے پاک باز موحد اور خالص شیعوں کے ساتھ مخلوط کردیا ہے۔

غالیوں کے عقائد، ان کی مذمت اور لعن بر عبد اﷲ ابن سبا

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے شیعہ سب کے سب حق تعالےٰ کے خالص بندے ہیں۔ خدا اور اس کے بندے و رسول محمد(ص) کے مطیع و فرمانبردار ہیں اور علی ابن ابی طالب (ع) کے بارے میں پیغمبر(ص) نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کے علاوہ نہ اور کچھ کہتے ہیں نہ ہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ہم لوگ حضرت علی(ع) کو پروردگار کا عبد صالح اور رسول اﷲ(ص) کا وصی اور خلیفہ مںصوص سمجھتے ہیں۔ اور جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو اس کے مردود اور اپنے سے الگ جانتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ـ اٹلی کے قائد اور پیشوا مسولینی نے حکم دیا تھا کہ اس کا نمائندہ ادارہ مجلس اقوام سے نکل آئے۔ اس کا عذر یہ تھا کہ میرے لیے باعث ننگ ہے کہ میرا نمائندہ ایسے مجمع میں بیٹھے جہاں حبشی سیاہ فاموں کا نمائیندہ بیٹھا ہوا ہو۔ لیکن اسلام کے عظیم المرتبت پیغمبر(ص) نے چودہ سو برس پہلے) بلال سیاہ و حبشی کو اپنے آغوش محبت میں لے لیا اور فرماتے تھے کہ ارحنا یا بلال ! یعنی اے بلال میرے سامنے قرآن پڑھو اور مجھ کو شاد و مسرور کرو ۔ اب ناظرین محترم انصاف کریں اور دیکھیں کہ تفاوت راہ کہاں تک ہے۔

۴۵

جیسے مسلمانوں میں سے غلات از قبیل سائیبہ ، خطابیہ، غرابیہ، علیادیہ مخمہ وبزیفیہ اور انہیں کے امثال جیسے نصیریہ جو ایران کے بعض شہروں اور قریوں اور دوسرے بلاد میں مثل موصل اور شام کے اہل حق کے نام سے متفرق طور پر آباد ہیں۔

شیعہ بالعموم ان سے علیحدہ اور ان کو کافر و مرتد اور نجس سمجھتے ہیں ۔ فقہ کی ساری کتابوں اور عملیہ رسالوں میں فقہائے امامیہ نے غلات کو کافروں میں شمار کیا ہے کیونکہ وہ لوگ بے شمار فاسد عقیدوں کے حامل ہیں جن میں سے کچھ کہتے ہیں کہ چونکہ جسم کے قالب میں روح کا ظہور محال نہیں ہے ۔ جیسے کہ جبرائیل وحبہ کلبی کی صورت میں پیغمبر(ص) کے سامنے ظاہر ہوتے تھے۔لہذا خدا کی حکیمانہ مصلحت کا تقاضا ہوا کہ اس کی ذات اقدس انسانی قالب میں ظاہر ہو چنانچہ علی(ع) کی صورت اور جسم میں نمایاں ہوا، اسی سبب سے علی(ع) کی منزل کو رسول اﷲ(ص) کی مقدس منزل سے بلند تر سمجھتے ہیں اور خود انہیں حضرت کے زمانے میں شیاطین جن و انس کے بہکانے سے ایک جماعت اس عقیدے کی قائل تھی۔ ہند اور سوڈان کے باشندون کی ایک جماعت آئی اور اس نے آپ کی الوہیت کا اقرار کیا۔ حضرت نے ہر چند ان لوگوں کو نصیحت کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر کار جس طریقے سے کہ کتب اخبار میں درج ہے آپ کے حکم سے دھویں کے کنووں میں ہلاک کردئیے گئے۔ چنانچہ اس قبیلے کی مفصل تشریح علامہ جلیل ملا محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کی تالیف بحار الانوار جلد ہفتم میں لکھی ہوئی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین سلام اﷲ علیہم اجمعین نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ مثلا جو ہماری معتبر کتابوں میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے نقل ہوا ہے۔ کہ فرمایا :

" اللَّهُمَّ إِنِّي بَرِي ءٌ مِنَ الْغُلَاةِ كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مِنَ النَّصَارَى اللَّهُمَّ اخْذُلْهُمْ أَبَداًوَ لَا تَنْصُرْ مِنْهُمْ أَحَداً."

یعنی خداوندا میں گروہ غلات سے بری ہوں ۔ جیسے عیسی بن مریم نصاری سے بیزار تھے ۔ خداوندا ان کو ہمیشہ ذلیل و خوار رکھ۔ اور ان میں سے کسی کی مدد نہ فرما۔

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :

" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ وَ لَا ذَنْبَ لِي مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَ مُبْغِضٌ مُفَرِّطٌ وَ أَنَا أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مِمَّنْ يَغْلُو فِينَا وَ يَرْفَعُنَا فَوْقَ حَدِّنَا كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ع مِنَ النَّصَارَى "

یعنی میرے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوتے ہیں اورمیرے ذمے کوئی گناہ نہیں ہے (یعنی چونکہ میں ان کے عمل سے راضی نہیں لہذا گنہگار نہیں ہوں) ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو میری محبت میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو بلا سبب مجھ سے بغض و عداوت رکھتے ہیں یقینا میں ان لوگوں سے خدا کی طرف بیزاری اختیار کرتا ہوں جو ہمارے بارے میں غلو کرتے ہیں اور ہم کو ہماری حد سے بڑھاتے ہیں جس طرح سے عیسی بن مریم(ع) نے ںصاری سے بیزاری اختیار کی۔

۴۶

نیز فرمایا ہے۔" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ. " ( یعنی میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوتے ہیں، ایک ایسے دوست جو محبت میں غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ دشمن جو مجھ کو میری منزل سے گھٹاتے ہیں۔

اسی وجہ سے شیعہ امامیہ اثنا عشریہ ہر اس شخص سے بیزاری اختیار کرتے ہیں جو نظم و نثر میں امیرالمومنین (ع) اور ان کے اہل بیت اطہار (ع) کے لیے غلو کرے اور مقام تعریف میں ان کو منزل سے بلند قرار دے جو خدا و رسول(ص) نے ان کے لیے معین فرمائی ہے اور بندگی سے خدائی پر پہنچا دے جو لوگ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہوں وہ ہم میں سے نہیں ہیں بلکہ غالی اور ملعون ہیں۔ آپ اثنا عشریہ شیعہ امامیہ جماعت کا معاملہ ان سے الگ سمجھئے کیونکہ غالی فرقوں کے کفر و نجاست پر علمائے امامیہ کا اجماع ہے اور اگر آپ فقہاء شیعہ کی استدلالی کتابوں جیسے جواہر الکلام اور مسالک وغیرہ اور عملیہ رسالوں جیسے مرحوم آیتہ اﷲ یزدی قدس سرہ کی عروة الوثقی اور آیتہ اﷲ اصفہانی اعلی اﷲ مقامہ کی وسیلہ النجات کے باب طہارت باب زکوة ، باب ازدواج اور باب ارث کی طرف رجوع کریں تو ہمارے فقہاء کے فتوے ان لوگوں کے کفر ونجاست پر ملیں گے اور آپ دیکھیں گے کہ سب نے یہی فتوی دیا ہے کہ ان کے غسل و دفن میں شرکت جائز نہیں ہے ۔ ان کے ساتھ نکاح حرام ہے ( باوجودیکہ متعہ کی صورت سے اہل کتاب کیساتھ تزویج کو جائز جانتے ہیں۔) اور مسلمانوں کا حق وراثت ان کو نہیں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو صدقات و زکوة کادینا بھی ممنوع ہے۔

فرقہ ناجیہ شیعہ کی فن کلام اور عقائد کی کتابوں میں تفصیل اور استدلالی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ فرقہ فاسد اور کافر ہے ہر مسلمان پر اور خاص طور سے خالص العقیدہ شیعوں پر ان سے تبرا اور بیزاری واجب و لازم ہے۔

غلات کی مخالفت اور رد میں آیات و اخبار سے کافی مضبوط اور مکمل دلیلیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں نے اشارہ کر دیا ہے ۔ سورہ نمبر۵( مائدہ) آیت نمبر۸۱ میں کھلا ہوا ارشاد ہے :

" قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لا تَغْلُوا في دينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَ لا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَ أَضَلُّوا كَثيراً وَ ضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبيلِ "( المائدة ، ۷۷ )

یعنی کہہ دو( اے رسول(ص)) کہ اے اہل کتاب غلو مت کرو اپنے دین میں کہ وہ حق نہیں ہے اور اس قوم کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو خود گمراہ ہوئے بہتوں کو گمراہ کردیا اور راہ راست سے دور جا پڑے۔

مرحوم علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحار الانوار جلد سوم میں ( جو شیعہ امامیہ فرقے کا دائرة المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے ، ان کی مذمت اور ان لوگوں کے مدعا سے خاندان رسالت کے دور ہونے میں بہت سی روائتیں نقل کی ہیں، من جملہ ان کے امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔ کہ آپ فرمایا :

" و ما نحن الا عبيد الذي خلقنا و اصطفانا، ما لنا على اللّه من حجة، و لا معنا من اللّه براءة، و انا لميتون، و موقوفون، و

۴۷

مسئولون، من احب الغلاة فقد ابغضنا و من ابغضهم فقد احبنا الغلاة كفّار و المفوضة مشركون، لعن اﷲ الغلاة ۔۔۔۔۔۔ "

( خلاصہ مطلب یہ کہ ہم اس خدا کے بندے ہیں جس نے ہم کو پیدا کیا اور مخلوقات میں سے منتخب کیا۔ در حقیقت غالیوں کو دوست رکھے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو شخص ان کو دشمن رکھے وہ ہمارا دوست ہے غلات کافر اور ملفوضہ مشرک ہیں۔ خدا کی لعنت ہو غلات پر)

نیز انہیں حضرت سے شیعوں کے ایک بڑے پیشوا نے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

" لعن اللّه عبد اللّه بن سبأ إنه ادّعى الربوبية في أمير المؤمنين و كان و اللّه أمير المؤمنين عبدا للّه طائعا، الويل لمن كذب علينا، و إن قوما يقولون فينا ما لا نقوله في أنفسنا نبرأ إلى اللّه منهم نبرأ إلى اللّه منهم "

(یعنی لعنت خدا کی، عبداﷲ بن سبا پر جس نے امیرالمومنین (ع) کےلیے ربوبیت اور خدائی کا دعوی کیا ۔ خدا کی قسم وہ حضرت خدا کے مطیع بندے تھے ، وائے ہو ان لوگوں پر جنہوں نے ہم پر افترا کیا، ایک گروہ ہمارے بارےمیں وہ باتیں کہتا ہے جو ہم خود اپنے بارےمیں نہیں کہتے ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ، ان سے خدا کی طرف ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ان سے خدا کی طرف۔

صدوق ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن موسی بن بابویہ قمی قدس سرہ نے جو جلیل القدر فقہائے امامیہ میں سے ہیں کتاب عقائد میں ایک روایت زرارہ بن اعین سے جو موثق شیعہ راوی ، حافظ علم اہل بیت(ع) اور حضرت باقر العلوم و صادق آل محمد علیہم السلام کے اصحاب میں سے تھے نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ عبداﷲ بن سبا کی اولاد میں سے ایک شخص تفویض کا قائل ہے ۔ فرمایا تفویض کیا؟ میں نے عرض کیا وہ کہتا ہے:

"إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ مُحَمَّداً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ وَ عَلِيّاً- عَلَيْهِ السَّلَامُ- ثُمَّ فَوَّضَ الْأَمْرَ إِلَيْهِمَا، فَخَلَقَا، وَ رَزَقَا، وَ أَحْيَيَا، وَ أَمَاتَا."

( یعنی خدائے عزوجل نے محمد (ص) و علی(ع) کو پیدا کیا پھر بندوں کے امور ان کے سپرد کردئیے چنانچہ وہی خالق ہیں وہی رازق ہیں وہی زندہ کرتے ہیں ۔ وہی مارتے ہیں ) حضرت نے فرمایا کذب واﷲ جھوٹ بولتا ہے دشمن خدا جب تم پلٹ کر اس کے پاس جاؤ تو سورہ رعد کی یہ آیت پڑھو :

"أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْ ءٍ وَ هُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ " ( الرعد ،۱۶)

“ یعنی کیا مشرکین نے خدائے تعالیٰ کے کچھ شریک قرار دیئے کہ خدا کا پیدا کیا ہوا کون اور ان شرکاء کا پیدا کیا ہوا کون ہے۔ کہدو (اے محمد(ص)) کہ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ صرف خدائے تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی الوہیت میں یکتا ہے جس کا ارادہ ساری کائنات پر غالب ہے۔”

یہ آیت خود توحید باری تعالی کی تصریح کر رہی ہے۔ زرارہ کہتے ہیں کہ جس وقت میں اس کے پاس گیا اور یہ آیت حسبِ

۴۸

ارشاد امام(ع) میں نے اس کے سامنے پڑھی تو گویا میں نے اس کے منہ پر پتھر مار دیا وہ مبہوت ہو کے رہ گیا۔

اس طرح کی روایتیں ہماری معتبر کتابوں میں آئمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم اجمعین اور شیعوں کے برحق پیشواؤں کی طرف سے گروہ غلات کے لیے لعن و طعن اور بر کہنے میں کثرت سے وارد ہوئی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ جس طرح ہم آپ کے علماء کی کتابیں پڑھتے ہیں آپ بھی علمائے شیعہ کی معتبر کتابیں پڑھا کیجئے تاکہ ایسے الفاظ زبان سے نہ نکالیے جو بے چارے عوام کو بہکانے والے ہوں۔ اور آپ بھی خدا کے دربار عدالت میں گرفتار ہوں۔

حضرات محترم! میں آپ سے انصاف چاہتا ہوں ۔ آیا ایسی صورت میں جب کہ ہمارے ائمہ نے اپنے شیعوں کی رہنمائی کے لیے ایسے بیانات ارشاد فرمائے ہیں اور سچے شیعہ علی (ع) واولاد علی(ع) کے پیرو اپنے مقتداؤں سے ان روایتوں کے سنے ہوئے ہیں اس کے بعد بھی ان کو خدا یا خدائی کی جگہ پر قرار دیں گے؟ غالیوں کا گروہ ہم سے بالکل الگ اور ہم ان لوگوں سے بیزار اور علیحدہ ہیں۔ چاہے وہ بظاہر تشیع کا دعوی کریں۔ لیکن خدا اور رسول(ص) علی و اولا علی علیہم السلام سب کےسب ان سے بیزار اور سارے شیعہ بھی ان سے بیزار اورالگ ہیں۔

چنانچہ ہمارے مولا امیرالمومنین علیہ السلام نے رئیس غلات عبداﷲ بن سبا ملعون کو تین روز تک مقید رکھا اور توبہ کا حکم دیا جب اس نے قبول نہ کیا تو مجبورا اس کو آگ میں جلوا دیا۔ آپ کو خدا کے سامنے اس سے شرم آنا چاہئیے کہ آپ کے علماء تعصب و عادت اور اسلاف کی پیروی میں یہ لکھیں کہ تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا یہی عبداﷲ ملعون تھا جو حضرت علی(ع) کے حکم سے جلا دیا گیا۔ حالانکہ علمائے شیعہ نے ساری متعلقہ کتابوں میں اپنے ائمہ کی پیروی کرتے ہوئے عبداﷲ بن سبا کو ملعون بتایا ہے۔ لہذا عبداﷲ کے پیرو بھی ملعون ہیں کیونکہ وہ غلات میں سے ہیں نہ کہ آل محمد(ص) اور عترت طاہرہ پیغمبر(ص) کے محبت خالص شیعوں مین سے اس لیے کہ وہ س خداندان جلیل کے بارے میں غلو کی وہ سے دور اور مطرود ہیں۔

اگر تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا عبداﷲ ملعون ہوتا اور شیعہ اس کے پیرو ہوتے جیسا کہ آپ کے متعصب علماء نے لکھا ہے اور دوسرے ان کی اندھی تقلید کر کے جلسوں میں اس کو نقل کرتے ہیں تو کم سے کم شیعوں کی کسی ایک ہی کتاب میں اس کی کچھ تعریف درج ہونا چاہئیے تھی۔ اگر آپ علماء شیعہ امامیہ کی کسی ایک ایسی کتاب کا پتہ دے دیجئے جس میں عبداﷲ ملعون کی کوئی تعریف کی گئی ہو تو میں آپ کی ساری باتیں ماننے کے لیے تیار ہوں اور اگر یہ پتہ نہ دیں ( اور ہرگز نہیں دے سکتے ہیں) تو روز حساب اور محکمہ عدل الہی سے ڈرئیے ، پاک و موحد شیعوں کو عبداﷲ ملعون کا پیرو نہ کہیئے اور حقیقت کو بیخبر عوام کی نگاہوں میں مشتبہ نہ بنائیے۔

اس کے علاوہ میں آپ سے برادرانہ التماس کرتا ہوں کہ آپ چونکہ اہل علم ہیں لہذا ہمیشہ قاعدہ علم و منطق اور حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے گفتگو فرمائیں اور خلاف عقل و حقیقت باتوں اور بے بنیاد شہرتوں کا سہارا نہ لیں۔

۴۹

جن کو دشمنوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے شیعوں کی طرف منسوب کیا ہے۔

حافظ : آپ کی برادرانہ نصیحتیں ہر عقلمند کے لیے قابل قبول و توجہ ہیں لیکن اجازت دیجئیے کہ میں بھی فرمائش کے طور پر چند جملے عرض کروں۔

خیر طلب : میں بہت ممنوں ہوں گا فرمائیے!

حافظ : آپ اپنے بیانات میں برابر یہی فرمارہے ہیں کہ ہم اماموں کے بارے میں غلو نہیں کرتے اور غلات کو مردود و ملعون اور جہنمی جانتے ہیں لیکن ان دو راتوں میں آپ کی زبان سے بار بار اماموں کے حق میں ایسے الفاظ سنے جارہے ہیں کہ آپ ہی کے بیان کیئے ہوئے قواعد کی روسے وہ حضرات اس قسم امور پر راضی نہیں ہیں ۔ لہذا ممکن ہو تو آپ بھی بات چیت کے موقع پر اس کا لحاظ رکھیں تاکہ مطعون نہ ہوں۔

خیر طلب : میں خشک و تنگ نظر اور متعصب و جاہل انسان نہیں ہوں ، بہت ممنون ہونگا کہ اگر میری گفتگو میں کوئی لغزش پائی جاتی ہو تو اس کی یاد دہانی فرما دیجئیے چونکہ انسان سہو و نسیان کا مرکز ہے لہذا تمنا رکھتا ہوں کہ ان دو راتوں میں جوکچھ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوکہ ائمہ ہدی علیہم السلام کے خلاف مرضی کہا گیا ہے اور علم و عقل و منطق سے مطابقت نہیں کرتا اس کو بیان فرمائیے۔

حافظ : میں نے ان دو شبوں میں مکرر آپ سے سنا ہے کہ جس موقع پر اپنے اماموں کا نام لیتے ہین تو بجائے اس کے کہ رضی اﷲ عنہم کہیں ، سلام اﷲ علیہم اور صلوات اﷲ علیہم کہا ہے در آںحالیکہ خود جانتے ہیں کہ سورہ احزاب کی آیہ شریفہ کے حکم سے جس میں ارشاد ہے :

" إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً" ( الاحزاب، ۵۶ )

یعنی خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر کی روح پاک پر درود بھیجتے ہیں۔ اے اہل ایمان تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کرو ( اور ان کے فرمان کو تسلیم کرو) آیت نمبر۵۶ سورہ نمبر۱۳۳ ( احزاب) سلام اور صلوة صرف رسول خدا(ص) سے مخصوص ہے چونکہ آپ اپنے بیانات میں اماموں کے لیے بھی صلوات و سلام کا ذکر کرتے ہیں ۔ لہذا بدیہی چیز ہے کہ یہ عمل قرآن مجید کی ںص صریح کے خلاف ہے۔

آپ کے اوپر جو اعتراض کئیے جاتے ہیں ان میں سے ایک موضوع یہ بھی ہے کہ کہتے ہیں یہ امر بدعت ہے اور اہل بدعت اہل ضلالت ہیں۔

آل محمد علیھ م السلام پر سلام اور صلوات بھیجنے کے بار ے م یں مناظرہ

خیر طلب :- جماعت شیعہ نے ہ رگز کوئ ی عمل نص کے خلاف ن ہ ک یا ہے ن ہ کرت ے ہیں ۔ ہ وا یہ کہ گذشت ہ

۵۰

صد یوں میں خوارج و نواصب ،بنی امیہ اور ان کے پ یرووں نے ح یلہ سازیاں شروع کیں اور شیعوں کو اہ ل بدعت نام زد کرنے ک یلئے فرضی دلیلیں قائم کیں جن کا بڑے ب ڑے ش یعہ علماء نے مکمل جواب د یا اور ثابت کیا ہے ک ہ ہ م ا ہ ل بد عت ن ہیں ہیں ۔ چونک ہ دشمن ک ے ہ ات ھ و ں م یں قلم ہے ل ہ ذا تن ہ ا قاض ی بن کر جو چاہ ت ے ہیں لکھ ت ے ہیں ۔ اس موضوع پر ب ھی مفصّل جواب دیا جاچکا ہے ۔ ل یکن چونکہ وقت کاف ی گزر چکا ہے ۔ ل ہ ذا تفص یلی جواب سے قظع نظر کرتا ہ و ں محض اس لئ ے ک ی آپ کی فرمائش بغیر جواب کے ن ہ ر ہ جائ ے اور حضرات ا ہ ل جلس ہ اور م یرے برادران عزیز کے سامن ے حق یقت امر مشتبہ ن ہ ر ہے مختصر طور س ے عرض کرتا ہ و ں ، اوّل تو یہ کہ اس آیت میں کسی دوسرے پر سلام وصلوات ب ھیجنے کو منع نہیں کیا گیا ہے ۔ فقط حکم د یا جاتا ہے ک ہ مسلمانو ں کو لازم ہے ک ہ آ ں حضرت (ص) پر صلوات ب ھیجیں ۔

دوسرے جس خدائے بر تر ن ے یہ آیت نازل فرمائی ہے و ہی سورہ ۳۷ (صافات)آ یت ۱۳۰میں فرماتا ہے ۔ سلام عل ی آل یاسین (یعنی سلام ہ و یسین کی آل پر )خاندان رسالت کی اہ م خصوص یات میں سے ا یک یہ بھی ہے ک ہ قرآن مج ید میں ہ رجگ ہ مخصوص طور پر انب یائے کرام پر سلام ہے و ہ ف رماتا ہے ۔ "سلام عل ی نوح فی العالمین"،"سلام علی ابراہیم "،"سلام علی موسی وھ ارون" (سور ہ صافات ) ل یکن کسی مقام پر اولاد انبیا ء کے ل یئے سلام نہیں آیا ہے ،سوا اولاد خاتم الانب یاء کے جن ک ے لئ ے ارشاد ال ہی ہے ، سلام عل ی آل یا سین ، یاسین بھی رسول خدا(ص) کا ایک نام ہے ۔

"یس "کے معن ی اور یہ کہ "س"پ یغمبر صلّی اللہ عل یہ وآلہ کا نام مبارک ہے

آپ کو معلوم ہے ک ہ قرآن مج ید میں پیغمبر(ص)کے بار ہ نامو ں م یں سے پانچ نام امت ک ی مزید معرفت کیلئے ذکر کئے گئ ے ہیں اور وہ پانچ مقدس اسماء محمد، احمد، عبدالل ہ ، نون اور یاسین ہیں ۔ سور ہ نمبر ۳۶ ک ے شروع م یں فرماتا ہے " یس و القرآن الحکیم انّک لمن المر سلین " یا حرف ندا اور "س"آنحضرت (ص) کا نام مبارک اور آنحضرت (ص) کی ظاہ ر ی وباطنی معتدل حقیقت اور مساوات کی طرف اشارہ ہے ۔

نواب:- اس کا کیا سبب ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی میں "س" آنحضرت (ص) کا نام مبارک قرار پایا ؟

خیر طلب :- میں نے عرض ک یا کہ آنحضرت(ص) ک ے عالم معنو ی اورحقیقت اعتدال کی طرف ایک اشارہ ہے ۔ ک یونکہ منزل خاتمیت کی حقدار وہی ذات ہے جس کا وجود حد اعتدال کو پ ہ نچا ہ وا ہے یہ اس وقت ممکن ہے جب اس کا

۵۱

ظا ہ ر وباطن یکساں ہ و اور یہ مرتبہ آ ں حضرت (ص) ک ے وجود مق دس کو حاصل تھ ا ،ل ہ ذا حرف "س" ک ے سات ھ اس ح یثیت کا اظہار فرمایا ۔

عام عقلوں س ے قر یب تر بیان یہ ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی کے درم یان صرف "س" ہی ایسا ہے جس کا ظا ہ ر وباطن برابر ہے اس معن ی سے ک ہ ا ٹھ ائ یس حرفوں م یں سے ہ ر ا یک کے لئ ے علمائ ے علم اعداد ک ے نزد یک ایک زبر اور ایک بیّنہ ہے اور حرف ک ے زبر و ب یّنہ کا تطابق کرنے م یں قطعی طور پر یا اس کا زبر زیادہ ہ وتا ہے یا بیّنہ ۔

نواب :- قبلہ معاف فرمائ یے گا میں جسارت کر رہ ا ہ و ں ۔ چونک ہ م یں گہ ر ے مضام ین کو سمجھ ن ے س ے معذور ہ و ں ل ہ ذا استدعا ہے ک ہ ان راتو ں م یں مطالب کو سادہ اور واضح طر یقے سے ب یان فرمائیے تاکہ ہم سب کے لئ ے لائق توج ہ اور قابل قبول ہ و ں چونک ہ ہ م لوگو ں ن ے زبر وب یّنہ ک ے معن ی نہیں سمجھے ،ل ہ ذا م یں متمنی ہ و ں ک ہ ساد ہ ب یان کے سات ھ وضاحت فرمائ یے تاکہ یہ معمّا حل ہ و جائ ے ۔

خیرطلب :-بسرو چشم ،زبر سے حرف ک ی صورت مراد ہے جو کاغذ پر لک ھی جاتی ہے ا ور بیّنہ سے و ہ ز یادتی ہے جو بولن ے ک ے وقت ظا ہ ر ہ وت ی ہے "س" کاغذ ک ے اوپر ا یک حرف ہے ل یکن تلفظ کے وقت ت ین حرف ہ وجات ے ہیں ۔ س ۔ی ۔ ن ۔ بولن ے ہیں اس پر یا اور نون کا اضافہ ہ وجاتا ہے ۔ اورا ٹھ ائ یس حروف تہ ج ی میں صرف "س" ہی وہ حرف ہے ک ہ حساب ک ی مطابقت کرنے م یں اس کا زبر اور بیّنہ برابر رہ تا ہے "س" ک ے عدد سا ٹھ ہیں اور اس کا بیّنہ بھی جس سے " ی"اور"ن"مراد ہیں ساٹھ عدد کا حامل ہے " ی" کے (۱۰)اور"ن"ک ے (۵۰)مل کر سا ٹھ ہ وئ ے اس ی وجہ سے قرآن مج ید میں خاتم الانبیاء کوآنحضرت (ص)کے ظا ہ ر و باطن ک ی طرف اشارہ کرت ے ہ وئ ے " یس"کہہ کر مخاطب ک یا ۔یعنی اے و ہ شخص جو ظا ہ ر وباطن دونو ں ح یثیتوں سے اعتدال پر ہے ۔

آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں

اب چونکہ حضرت کا نام مبارک "س" ہے ل ہ ذا اس آ یہ مبارکہ م یں فرماتا ہے "سلام عل ی آل یسین "یعنی سلام آل محمد(ص) پر۔

حافظ:- یہ ایسے مطالب ہیں جن کو آپ اپنے جادو ب یانی سے ثابت کرنا ہ ت ے ہیں ورنہ علماء ک ے درم یان اس کا ذکر نہیں آیا ہے ک ہ آل یا سین پر سلام ہ و ۔

۵۲

خیر طلب :- میں متمنی ہ و ں ک ہ انکار ک ے مواقع پر قطع ی طور سے کوئ ی بات نہ ک ہہ د یا کیجیئے بلکہ ترد ید کی صورت میں فرمایا کیجئے تاکہ جواب ک ے وقت آپ کو پچ ھ تان ے ک ی ضرورت نہ ہ و ۔ اگر آپ اپن ے علماء ک ی کتابو ں س ے ب ے خبر یا واقف ہیں لیکن تصدیق کرنے ک ے خلاف سمج ھتے ہیں تو میں آپ کی کتابوں س ے باخبر ہ و ں اور حق س ے من ہ ب ھی نہیں موڑ تا ہ و ں ۔

آپ کے ب ڑے ب ڑے علماء ک ی کتابوں م یں کثرت سے اس معن ی کی طرف اشارہ ک یا گیا ہے ،منجمل ہ ان ک ے متعصب ابن حجر ن ے صواعق محرق ہ ک ے اندر جو آ یات فضائل اہ ل ب یت علیھ م السلام میں نقل کی ہے ان م یں سے ت یسری آیت کے ذ یل میں لکھ ا ہے ک ہ مفسّر ین کی ایک جماعت نے مفسّر اور خ یر امّت ابن عباس سے نقل ک یا ہے ک ہ "المراد بذالک سلام عل ی آل محمد"یعنی الیاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں لہ ذا آل یاسین پر سلام کا مطلب ہے سلام آل محمد(ص) پر اور لک ھ ت ے ہیں کہ اما م فخر الد ین رازی نے ذکر ک یا ہے ۔ ان اهل بیته صلّی الله علیه وآله وسلّم یساوونه فی خمسة اشیاء ،فی السلام قال" السلام علیک ایها النبی" و قال" سلام علی الیاسین "، فی الصلواة علیه علیهم فی التشهد وفی الطهارة قال الله تعالی "طه یا طاهر "وقال " یطهرکم تطهیرا "،و فی تحریم الصدقة ،وفی المحبة قال تعالی "قل ان کنتم تحبّون الله فاتبعونی یحببکم الله وقال قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربی"

(یعنی رسول کے ا ہ ل ب یت علیھ م السلام پانچ چیزوں میں آنحضرت (ص) کے برابر ہیں اول سلام میں فرمایا سلام پیغمبر بزرگوار اور یہ بھی فرمایا سلا م آل یاسین پر (یعنی سلام آل محمد پر۔ )دوسر ے صلوات م یں تشہ د نماز م یں۔ ت یسرے طہ ارت م یں خدائے تعال ی نے فرمایا ہے ط ہ یعنی اے طا ہ ر اور ان حضرات ک ے بار ے م یں آیت تظہیر نازل فرمائی ۔ چوت ھے تحر یم صدقہ م یں کیونکہ پیغمبر اور ان کے ا ہ ل ب یت پر صدقہ حرام ہے ،پانچو یں محبت میں ،ک یوں کہ خدائ ے تعال ی نے فرما یا (محمدص) کہہ دو(امت س ے )م یں تم سے کوئ ی اجر اور مزدوری نہیں چاہ تا ہ و ں سوا م یرے ذوی القربی اور اہ لب یت سے محبت ک ے ) ۔

سید ابو بکر بن شہ اب الد ین علوی کتاب "شفتہ الصاد ی من الصادی من بحر فضائل بنی النبی الھ اد ی(مطبوعہ مطبع ہ اعلام یہ مصر سنہ ۱۳۰۳ ھ ک ے باب اول صفح ہ ۲۴ پر مفسر ین کی ایک جماعت سے بروا یت ابن عباس ونقاش کلبی سے اور باب ۲ صفح ہ ۴۲ پر نقل ک یا ہے ک ہ آ یت میں آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں اور امام فخرالدین رازی نے تفس یر کبیر جلد ہ فتم صفح ہ ۱۶۳ م یں اسی آیت شریفہ کے ما تحت آ یت کے معن ی میں کئی وجہیں نقل کی ہیں اور وجہ دوم م یں کہ ا ہے ک ہ ال یا سین سے مراد آل محمد سلام الل ہ عل یھ م اجمعین ہیں نیز ابن حجر نے صواعق محرق ہ م یں ذکر کیا ہے ک ہ مفسر ین کی ایک جماعت نے ابن عباس سے نقل ک یا ہے ، ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "سلام عل ی الیاسین" سلام آل محمد (ص) پر۔

۵۳

لیکن اہ ل ب یت علیھ م السلام پر صلواۃ بھیجنا تو ایک ایسا امر ہے جو فر یقین کے درم یان مسلم ہے یہ ا ں تک کہ بخار ی اور مسلم بھی اپنی صحیحین میں تصدیق کرتے ہیں کہ پ یغمبر نے فرما یا میرے اور میرے اہ ل ب یت علیھ م السلام کے دوم یان صلواۃ میں جدائی نہ ڈ الو ۔

آل محمد(ص) پر صلوات بھیجنا سنت اور تشہ د نماز م یں واجب ہے

مخصوص طور پر بخاری اپنی صحیح کی جلد سوم میں مسلم اپنی صحیح کی جلد اول میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ میں حتی ابن حجر ایسے متعصب نے صواعق م یں اور آپ کے دوسر ے ب ڑے علماء کعب بن عجز ہ س ے نقل کرت ے ہیں کہ جب آ یت "انّ اللہ و ملائکت ہ یصلون علی النبی "(سورہ احزاب ۴۳) ہ وئ ی تو ہ م لوگو ں ن ے عرض ک یا کہ یا رسو ل اللہ آپ پر سلام کرن ے کا طر یقہ تو ہ م کو معلوم ہ وا ل یکن "کیف یصلی علیک ؟" آپ پر صلواۃ کس طرح بھیجیں ؟ آں حضرت ن ے فرما یا صلوات اس طریقے سے ب ھیجو" اللھ م صلّ عل ی محمد وآل محمد اور دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے ک ہ "کما صلّ یت علی ابراھیم و آل ابراھیم انّک حمید مجید "

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۷۹۷ م یں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص) س ے لوگو ں ن ے سوال ک یا کہ ہ م آپ پر کس طرح س ے صلوا ۃ بھیجیں ؟ آنحضرت (ص) نے فرما یا کہ و " اللهم صلّ علی محمد و علی آل محمد کما صلّیت علی ابراهیم وعلی آل ابرا هیم وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراهیم و علی آل ابراهیم انّک حمید مجید.

اور ابن حجر نے ت ھ و ڑے س ے لفظ ی اختلاف کے سات ھ یہی روایت حاکم سے نقل ک ی ہے اس ک ے بعد اپن ے عق یدے اوررائے کا اظ ہ ار کرت ے ہ و ے ک ہ ت ے ہیں ۔ "وف یہ دلیل ظاھ ر عل ی ان الامر بالصلوات علیہ الصلوات علی آلہ " یعنی حدیث میں اس پر کھ ل ی ہ وئ ی دلیل ہے ک ہ پ یغمبر (ص)پر صلوات بھیجنے کا حکم آنحضرت (ص)کی آل پر بھی صلوات بھیجنے کے لئ ے ہے ۔ ن یز روایت کی ہے ک ہ فرما یا "لا تصلّوا علیّ الصلواة البتراء" یعنی مجھ پر بترا اور دم بر یدہ صلوات نہ ب ھیجو لوگوں ن ے عرض ک یا یا رسول اللہ صلوا ۃ بتراء کون ہے ؟ فرما یا اگر کہ و "اللھ م صلّ عل ی محمد "لہ ذا یوں کہ و"الل ھ م صلّ عل ی محمدو علی آل محمد۔

اس کے علاو ہ د یلمی نے نقل ک یا ہے ک ہ رسول اکرم (ص)"الدعا ء محجوب حت ی یصلی علی محمد وآلہ " ۔ دعا پرد ے م یں رہ ت ی ہے (اور قبول ن ہیں ہ وت ی )جب تک محمد وآل محمد پر درود نہ ب ھیجیں ۔ اور اما م شافع ی سے نقل ک یا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا :

۵۴

یا اهل بیت رسول الله حبکم ----- فرض من الله فی القرآن انزله

کفاکم من عظیم القدر انکم ----- من لم یصل علیکم لا صلواة له

(یعنی اے ا ہ ل ب یت رسول اللہ (ص) تم ہ ار ی دوستی خدا نے قرآن مجید میں واجب کی ہے ،تم ہ ار ی بزرگی ،منزلت اور مرتبے ک یلئے یہی کافی ہے ک ہ جو شخص تم پر صلوا ۃ نہ ب ھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہ وت ی ، شافعی کی مراد تشہ د نماز م یں صلوات ہے ، جس کو اگر عمدا ترک کرد یں تو نماز باطل اور غیر مقبول ہے ۔)

رسول اکرم(ص)کے اس ارشاد ک ے پ یش نظر کہ "الصلواة عمود الدین ان قبلت قبل ما سواها وان ردّت ردّ ما سواها "( یعنی نماز دین کا نگہ بان اور ستون ہے اگر نماز قبول ہ وجائ ے تو اس ک ے علاو ہ دوسر ے تمام اعمال ب ھی قبول ہ وجات ے ہیں ، اور اگر نماز رد ہ وجائ ے تو دوسر ے اع مال بھی رد ہ وجات ے ہیں ۔ تمام اعمال ک ی قبولیت نماز سے وابست ہ ہے اور جو روا یتیں پیش کی گئی ہیں ، ان پر نظر کرتے ہیں ہ وئ ے نماز ک ی قبولیت بھی محمد وآل محمد (ص) پر صلوات بھیجنے میں منحصر ہے ج یسا کہ شافع ی نے خود اقرار ک یا ہے ۔

سید ابو بکر شہ اب الد ین نے کتاب "شفت ہ الصاد ی من بحر فضائل بنی النبی الہ اد ی"باب ۲ میں صفحہ ۲۹-۳۵ تک محمد وآل محمد پر صلوات ب ھیجنے کے وجوب م یں کئی بیانات درج کئے ہیں اور دلائلی نے نسائ ی سے دارقطن ی ،ابن حجر اور بہیقی نے ابوبکر طوس ی سے ان ہ و ں ن ے ابو اسحاق مروزی اور سمہ ود ی سے ، نوو ی نے تنق یح میں اور شیخ سراج الدین قصیمی یمنی نے نقل ک یا ہے ک ہ نماز ک ے تش ہ د م یں محمد صلی اللہ عل یہ وآلہ وسلم ک ے نام مبارک ک ے بعد آل محمد پر صلوات ب ھیجنا واجب ہے ۔

چونکہ وقت کافی گزر چکا ہے ل ہ ذا مفصل ب یان سے قطع نظر کرتا ہ و ں اور ف یصلہ آپ حضرات کے پاک ضم یر پر چھ و ڑ تا ہ و ں ۔

چنانچہ آپ حضرات اس کی تصدیق فرما ئیں کہ ا ہ ل ب یت پیغمبر پر درود سلام بدعت نہیں بلکہ سنت اور ا یسی عبادت ہے جس ک ے لئ ے خود رسول (ص) ک ی تاکید ہے اور اس ک ی حقیقت سے کوئ ی انکار نہیں کرسکتا سوا خوارج و نواصب اور ضدی کینہ تو پرور اور دشمن متعصبین( خذلھ م الل ہ )ک ے جن ہ و ں ن ے اصل ی بات کو برادران اہ ل سنت ک ی نگاہ و ں پر مشتب ہ بنا د یا ہے اور بنات ے ر ہ ت ے ہیں ۔

یہ بدیہی بات ہے ک ہ جو ہ ست یاں اس حکم میں خاتم الانبیاء (ص) سے اس قدر قر یب ہیں اور ذکر میں دوسروں پر مقدم ہیں ان کا دوسروں پر ق یاس کرنا اور دوسروں کو ان ک ے اوپر ترج یح دینا سوا سفاہ ت اور ج ہ الت یا تعصب کے وب ے خبر ی کے اور ک یا ہے ؟

اس موقع پر چونکہ آدھی رات گزرچکی تھی۔ اور بعض حاضرین جلسہ کے چہروں پر کسل مندی کے

۵۵

آثار ظاہر تھے ۔ لہذا ہم لوگوں نے نشست کو ختم کردیا اور چائے نوشی اور اس اقرار کے بعد کہ کل شب میں ذرا سویرے تشریف لائینگے سب حضرات متفرق ہوگئے -

تیسری نشست

شب یک شنبہ ۲۵ رجب سنہ۱۳۴۵ھ

ہم لوگ نماز مغرب سے فارغ ہوچکے تو مولوی صاحبان تشریف لے آئے اور معمولی صاحب سلامت کے بعد چاء نوش میں مشغول ہوئے میں بھی نماز عشاء ختم کرنے کے بعد اطمینان کے ساتھ ان حضرات کی گفتگو سننے کے لیے حاضر ہوا۔

حافظ : قبلہ صاحب کا شب میں جب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس گئے تو میں نے اپنے کو بہت ملامت کی کہ ہم دوسری قوموں کے عقائد میں اس لیے زیادہ غور فکر نہیں کرتے اور (بقول آپ کے) صرف بعض متعصب لوگوں کی کتابوں پر اکتفا کر لیتے ہیں جس سے حقیقت ہم پر ظاہر نہیں ہوتی۔

خیر طلب : جیسا کہ خدائے تعالی نے سورہ نمبر۵( انعام ) ، آیت ص۱۵۰ میں ارشاد فرمایا ہے کہ قل ﷲ الحجة البالغہ ۔ (۱) کل شب کی نشست بھی خدائی دلیلوں میں سے ایک دلیل تھی تاکہ اس کے ذریعہ سے آپ حضرات ابتدائے صحبت ہی میں کسی قدر اپنی عادت سے ہٹ کے اور دیدہ انصاف و علم و عقل کے ساتھ میری گزارش پر توجہ کر کے یہ جان لیں کہ جو کچھ میں عرض کررہا ہوں وہ علم عقل اور منطق و حقیقت کی میزان پر تلا ہوا ہے۔اور جو

باتیں پہلے سے آپ حضرات کے سمع مبارک میں پہنچائی گئی ہیں، اور جنہوں نے آپ کے ذہن کو غلط راستہ پر ڈال دیا ہے اور خود غرض متعصب لوگوں کے عناد اور ضد کا نتیجہ ہیں۔

میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ ان جلسوں میں میرا نظر یہ قطعی طور پر یہ نہیں ہے ۔ کہ گفتگو میں خود غالب رہوں اور آپ حضرات کو مغلوب کروں بلکہ ہمیشہ کی طرح میرا مقصد اور نقطہ نظر حریم تشیع کی طرف سے دفاع اورحق و حقیقت کو نمایاں کرنا ہے۔

حافظ : کل شب کے بیانات میں آپ کے فقرات سے ظاہر ہوا کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں، تو آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ کہدو اے پیغمبر کہ خدا کے لیے کامل حجت ہے۔

۵۶

شیعوں کے کس طبقے کو برحق اور ان کے اقوال و عقائد کو صحیح سمجھتے ہیں ؟ اگر ممکن ہوتو مطلب واضح ہونے کے کیے ان طبقات کو بیان فرمائیے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ کس گروہ کے بارے میں ہم کو بحث کرنا چاہیے۔

خیرطلب : میں نے گذشتہ شب میں یہ تو عرض نہیں کیا ہے کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں بلکہ شیعہ کی جس معنی کے ساتھ میں نے تشریح کی ہے یعنی خدا و رسول(ص) کے فرمانبردار بندے اورآں حضرت(ص) کے حکم سے خاندان رسالت کے پیرور دہ ایک طبقے سے زیادہ نہیں ہیں۔ البتہ چند شعبدہ باز فرقوں نے تشیع کے نام پر اپنی نمائش کر کے بے خبر جاہل لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیا۔ مقدس شیعہ نام سے غلط فائدہ اٹھایا اور باطل عقائد بلکہ کفر و بے دینی کو اس نام سے لوگوں کے درمیان رائج کیا لہذا نا واقف اشخاص نے جو حقائق کی تشخیص نہٰیں کرتے ہیں تاریخ میں لفظ شیعہ سے ان کو موسوم کیا ہے ۔ ان لوگوں کے بنیادی طبقے چار ہیں جن میں صرف دو باقی رہ گئے ہیں اور دو بالکل فنا ہوچکے ہیں۔ اور ان کے ہر طبقے سے اور دوسرے فرقے پیدا ہوئے ان چار فرقوں سے مراد ہیں زیدیہ ، کیسانیہ، قداحیہ اور غلات۔

عقائد زیدیہ

پہلا فرقہ زیدیہ ہے اور وہ ایسے لوگ ہیں جو زید ابن علی ابن الحسین علیہما السلام کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور امام زین العابدین علیہ السلام کے بعد زید کو امام مانتے ہیں ، زیدیہ فرقے والے فی الحال یمن اور اس کے اطراف میں کثرت سے ہیں ، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو علوی اور فاطمی شخص عالم و زاہد اور شجاع ہو ، اس کے علاوہ تلوار کے ساتھ خروج کرے اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے وہ امام ہے اور چونکہ جناب زید نے ہشام ابن عبدالملک اموی کے زمانہ خلافت میں بنی امیہ کے ظلم اور چیرہ دستی کی وجہ سے کوفہ میں خروج کیا اور شربت شہادت نوش فرمایا۔ جیسا کہ پرسوں کی شب میں میں نے ایک موقع پر ان بزرگواروں کی مفصل کیفیت عرض کی ہے۔ لہذا ان کو امام سمجھ کر ان کی پیروی اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔ حالانکہ جناب زید کی منزل اس سے کہیں الگ ہے کہ ان کی طرف ایسی نسبت دیں ۔ جناب زید بنی ہاشم کے بزرگ سادات میں سے تھے۔ زہد، علم، فضل ، فہم، دینداری، پرہیزگاری، عبادت ، شجاعت اور سخاوت میں قوم کے اندر نمایاں اور ہمیشہ قائم اللیل اور صائم النہار تھے۔

رسول اکرم(ص) آں جناب کی خبر شہادت دے چکے تھے جیسا کہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

" وضع رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم يده على صلبي فقال: يا حسين يخرج من صلبك رجل يقال له زيد يقتل شهيدا إذا كان يوم القيامة يتخطّى هو و أصحابه رقاب الناس، فيدخلون الجنة "

( یعنی رسول اﷲ(ص) نے اپنا دست مبارک میری پشت پر رکھا اور فرمایا کہ اے حسین(ع)

۵۷

عنقریب تمہاری صلب سے ایک مرد پیدا ہوگا۔ جس کا نام زید ہوگا وہ شہید قتل ہوگا۔ اور جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ اور اس کے اصحاب لوگوں کی گردنوں پر قدم رکھتے ہوئے بہشت میں داخل ہوں گے۔)

( اور یہ بدیہی بات ہے کہ اصحاب سے وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے خروج کے موقع پر ظلم بنی امیہ کے مقابلے میں ان جناب کے ہمراہ مقاومت کی لیکن خود جناب زید نے کبھی امامت کا دعوی نہیں کیا۔ اور یہ ایک تہمت ہے جو ان پر لگائی گئی ہے ورنہ وہ خود اپنے کو اپنے برادر بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کا تابع اور مطیع سمجھتے تھے۔ البتہ ان جناب کے بعد چند شعبدہ باز اس اصول کے قائل ہوگئے کہ:

"ليس الامام من جلس في بيته و أرخى عليه ستره، بل الامام كل فاطمي عالم صالح ذي رأي يخرج بالسيف."

( یعنی وہ شخص اور امام نہیں ہے جو گھر میں بیٹھ رہے اور اپنے کو لوگوں سے پوشیدہ رکھے بلکہ ہر وہ عالم، صالح اور صاحب رائے فاطمی امام ہے۔جو خروج بہ شمشیر کرے۔)

لوگوں کو آپ کی امامت کی طرف دعوت دی اور نئی نئی شکلیں ایجاد کر کے اپنے مقاصد حل کرنے کے لیے ایک وکان کھول دی یہ لوگ پانچ فرقوں میں تقسیم ہوئے ۔ مغیریہ ، جارودیہ، ذکریہ، خشییہ اور خلقیہ۔

عقائد کیسانیہ

دوسرا فرقہ کیسانیہ ہے یہ لوگ کیسان غلام و آزاد کردہ علی ابن ابی طالب کے اصحاب شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ حسنین علیہما السلام کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کے سب سے بڑے فرزند محمد ابن حنفیہ کی امت کے قائل تھے ۔ لیکن جناب محمدخود ایسا دعوی نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ ان کو سید لتابعین کہا جاتا تھا اور علم زہد ورع و تقوی اور امر مولیٰ کی اطاعت میں مشہور تھے بعض بازی گروہ نے حضرت زین العابدین علیہ السلام کے ساتھ آپ کی مخالفتوں کے قضیہ کو حیلہ بنایا اور آپ کے دعوی امامت کی دلیل قرار دیا ۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ نہیں تھی کہ آپ امامت کے مدعی تھے بلکہ ان مخالفتوں سے جناب محمد کا مقصود امام چہارم حضرت سید سجاد علیہ السلام کی منزل ظاہر کرتا تھا تاکہ اس طریقہ سے اپنے جاہل مریدین اور سادہ لوح معتقدین کو متوجہ فرما دیں کہ میں اس منصب پر فائز نہیں ہوں چنانچہ اسی مسجد الحرام کے اندر حجر اسود کے سامنے ثبوت حق اور حضرت سید سجاد علیہ السلام کی امامت کے بارے میں حجر اسود کے اقرار کے بعد جیسا کہ کتب اخبار و تاریخ میں اس کی تفصیل موجود ہے، ابو خالد کابلی نے ان جناب کے معتقدین کا راس و رئیس تھا محمد حنیفہ کو امام ماننے والوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان جناب کی پیروی کرتے ہوئے امامت حضرت سید سجاد علیہ السلام کا اعتراف کیا، لیکن چند مکاروں نے بے عقل اور بے خبر عوام کے ایک گروہ کو اسی عقیدے پر باقی رکھا۔ اور

۵۸

بہانہ یہ بنایا کہ جناب محمد نے انکسار سے کام لیا ہے اور بنی امیہ کے مقابلہ میں سیاست کا یہی تقاضا بھی تھا ورنہ ان کی امامت مسلم ہے آپ کی وفات کے بعد بھی یہ لوگ اس پر جمے رہے اور کہا کہ جناب محمد مرے نہیں بلکہ جبل رضوی کے غار میں پوشیدہ ہوگئے ہیں ایک زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و داد سے بھر دیں گے ۔ ان کے چار فرقے تھے۔ مختاریہ، کربیہ، اسحاقیہ اور حربیہ، لیکن آج اس عقیدے پر کوئی شخص باقی نہیں ہے۔

عقائد قداحیہ

تیسرا گروہ قداحیہ ہے ان لوگوں کے مذہب کی بنیاد بظاہر تشیع مگر باطنا محض کفر ہے۔ اس مذہب کی اصل تشکیلات میمون ابن سالم یا ( ویصان) معروف بہ قداح اور عیسی جہار لختان کے ہاتھوں مصر میں شروع ہوئیں اور انہوں نے قرآن مجید و اخبار میں اپنی خواہش کے مطابق تاویلات کا دروازہ کھولا ۔ شریعت کے لیے ایک ظاہر اور ایک باطن قرار دیا اور کیا کہ باطن شریعت کی خدا نے پیغمبر کو پیغمبر نے علی(ع) کو انہوں نے اپنے فرزندوں کو اور خالص شیعوں کو تعلیم دی۔ ان کا قول ہے کہ جن لوگوں نے باطن شریعت کو سمجھ لیا وہ ظاہری طاعت و عبادت ی قید سے آزاد اوربے فکر ہوگئے۔

انہوں نے مذہب کی بنیاد سات ستونوں پر قائم کی۔ سات پیغمبروں کے معتقد ہیں۔ سات امام مانتے ہیں اور ساتویں امام کا غائب جانتے ہیں۔ اور ان کے ظہور کے منتظر ہیں۔ یہ دو جماعتوں پر متقسم تھے۔

ناصریہ : مذہب خسرو علوی کے اصحاب جنہوں نے اپنے اشعار و گفتار اور کتابوں میں شیعہ کے نام پر بہت سے لوگوں کو کفر و الحاد کی طرف کھینچ لیا اور طبرستان میں کافی پھیلے ہوئے تھے۔

صباحیہ : یہ دوسری جماعت حسن صباح کے اصحاب تھے جو در اصل معرکا باشندہ تھا لیکن ایران میں آکر قزوین کے اندر واقعہ اسفناک اور الموت کا فتنہ عظیم پرپا کیا اور بکثرت قتل و خونریزی کا باعث بنا جس کی تفصیل تاریخ میں موجود ہے لیکن اس مختصر مجلس میں اس کے مفصل تاریخی حالات بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔

عقائد غلات

چوتھی جماعت غالیہ ہے جو تمام قوموں اور فرقوں سے زیادہ پست ہے یہ لوگ تشیع کے نام سے مشہور ہوگئے لیکن یہ سب کےسب کافر نجس اور فاسد و مفسد ہیں ان کے اصلی فرقے سات میں سبائیہ، منصوریہ، غرابیہ،

۵۹

بزیعینہ، یعقوبیہ، اسماعیلیہ، اور ازدریہ، ان کے حالات اور پیدائش کی تشریح کل کی شب میں مقتضائے مجلس کے لحاظ سے مختصر طور پر عرض کرچکا ہوں ۔ ہم شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کی پوری ملت بلکہ دنیا کے سارے مسلمان ان سے اور ان کے عقائد سے بیزار ہیں ہم ان کو ہر نجس سے زیادہ نجس کافر ملحد اور بے دین سمجھتے ہیں۔

کفر والحاد کے قاعدے پر جو عقیدہ بھی صراحتہ یا کنایة شیعوں کے نام سے زبانوں پر مشہور اور بعض کتابوں میں عمدا یا سہوا درج ہوا ہے، وہ زیادہ تراسی گروہ سے ہے جو اپنے کو شیعہ علی کہتا ہے لیکن جماعت شیعہ امامیہ اثنا عشریہ جو دنیا میں اسی کروڑ سے زیادہ تعداد کے مالک ہے ان فاسد عقائد سے دور ہے بلکہ اصلی دین، پاکیزہ مذہب اور شریعت کا لب لباب جو باب علم رسول امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام سے حاصل ہوا ہے انہیں لوگوں کے پاس ملتا ہے۔

عقائد شیعہ امامیہ اثنا عشریہ

پانچواں گروہ شیعہ امامیہ اور فرقہ فقہ اثناعشریہ ہے جو عقل و نقل کے مطابق شریعت کے لب و لباب کا حامل ہے اور در اصل حقیقی شیعہ یہی لوگ ہیں اور وہ چار فرقے فرضی شیعہ ہیں۔

ان میں حقیقی شیعوں کے اعتقاد کا خلاصہ فہرست کے طور پر آپ کے سامنے پیش کیئے دیتا ہوں تاکہ بعد کو ان کی طرف غلط باتیں منسوب نہ کیجئے۔

شیعہ امامیہ کی پوری جماعت ذات واجب الوجود خداوند جل و علا کا اعتقاد رکھتی ہے کہ وہ ایسا واحد یکتا ہے جو اپنا شبیہ و عدیل اور نظیر نہیں رکھتا نہ جسم ہے نہ صورت نہ جوہر ہے نہ عرض ، جملہ صفات مکانیہ سے مبرا و معرا ہے بلکہ سارے اعراض و جواہر کا خالق ہے اور خلق موجودات اور ان پر فیوض نازل کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ بعض عارفین نے پروردگار کی صفات سلبیہ کو شعر میں اس طرح نظم کیا ہے۔

نہ مرکب بود نہ جسم نہ جوہر نہ عرضبے شریک است و معانی تو غنی داں خالق

چونکہ ذات واجب الوجود ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ دیکھا جا سکے اور دوسری طرف مخلوق کی ہدایت و رہنمائی بھی ضروری تھی۔ لہذا قوم انسانی سے معیار کے لحاظ سے کامل انبیاء و مرسلین منتخب کر کے ہر زمانہ والوں کے حالات و ضروریات کے مطابق دلائل و براہین ، معجزات ، بینات اور کافی ہدیات سپرد کر کےبھیجے ۔ جن کی تعداد بہت اور بے شمار ہے یہ سب کے سب ان پانچوں اولوالعزم پیغمبروں کے احکام کے ماتحت

۶۰

نوع بشر کے ہادی و رہنما تھے۔ نوح(ع) شیخ الانبیاء ابراہیم (ع) خلیل الرحمن، موسی (ع) کلیم اﷲ، عیسی(ع) روح اﷲ، اور پیغمبر آخرالزمان خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جن کا دین اور شریعت تا روز قیامت باقی اور برقرار ہے۔

جماعت شیعہ کا اعتقاد ہے کہ : "حلال محمّد حلال إلى يوم القيامة، و حرامه حرام إلى يوم القيامة و شريعته مستمرة الی يوم الق ي م ه "

( یعن ی حلال محمد(ص) حلال ہے روز قیامت تک اور حرام آں حضرت(ص) حرام ہے روز قیامت تک اور آپ کی شریعت باقی رہنے والی ہے روز قیامت تک۔)

خدائے تعالی نے سارے نیک و بد اعمال کے لیے ایک جزا اور سزا معین فرمائی ہے جو بہشت یا دوزخ میں بندوں کو دی جائے گی۔

اعمال کی سزا و جزا کے لیے جو دن مقرر ہوا ہے اس کو یوم الجزاء کہتے ہیں کیونکہ دنیا کی عمر ختم ہونے کے بعد خدا اولین و آخرین میں سے تمام نیک و بد مخلوقات کو اسی بدن عںصری جسمانی کیساتھ زندہ کر کے صحرائے محشر میں جمع کرے گا اور حساب و کتاب اور جانچ پڑتال کے بعد ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا۔

چنانچہ آسمانی کتابوں میں بالعموم اور توریت و انجیل و قرآن مجید میں بالخصوص خبر دی گئی ہے اور ہماری ثابت و محکم اور محقق سند یہی قرآن مجید ہے جو بغیر تحریف و ترمیم کے زمانہ رسول(ص) سے متواتر سند کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے ہم اس کے احکام پر حامل ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ عنداﷲ ماجور ہوں گے ہم ان تمام احکام واجبہ کے معتقد ہیں جو اس کتاب مقدس میں درج ہیں جیسے نماز روزہ، زکوة ، خمس اور جہاد وغیرہ۔

اسی طرح جو واجبات و فروعات اور مستحبات و ہدایات رسول خدا(ص) کے ذریعہ ہم کو پہنچے ہیں، ان کے معترف ہیں اور توفیقات الہی سے ان پر عمل کرنے کا عزم بالجزم رکھتے ہیں اور جملہ معاصی اور گناہاں کبیرہ وصغیرہ سے جیسے شراب نوشی، قمار بازی ، زنا ، لواط، سود خوری قتل اور ظلم وغیرہ جن سے قرآن مجید اور احادیث و اخبار میں منع کیا گیا ہے پرہیز کرتے ہیں۔

ہم سب شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس طرح خدائی احکام و ہدایات کا ایک لانے والا ہوتا ہے جس کو خدا نے منتخب کیا ہو اور آدمیوں کے درمیان پہنچایا ہو اسی طرح وصی و خلیفہ اور دین کا محافظ بھی خدا کی طرف سے منتخب ہونا چاہئیے جو پیغمبر (ص) کے ذریعہ امت میں پہچنوایا جائے چنانچہ سارے انبیاء نے خدائے تعالی کے حکم سے اپنے ؟؟؟؟؟ تعارف کرایا اور پیغمبر خاتم (ص) نے بھی جو ان سب سے زیادہ اکمل و افضل تھے فساد و اختلاف سے بچانے کے لیے امت کو اس حال پر نہیں چھوڑا بلکہ سنت جاریہ کے مطابق پروردگار کے حکم سے امت والوں کے درمیان اپنے اوصیاء کا اعلان فرما دیا۔

رسول اکرم(ص) کے ان منصوص اوصیاء کی تعداد جو خدا کی طرف سے معین ہوئے ، بارہ ہے۔

۶۱

یعنی ان میں اول سید الاوصیا علی ابن ابی طالب(ع) دوسرے حسن(ع) تیسرے حسین(ع) چوتھے علی زین العابدین(ع) پانچویں محمد باقر(ع) چھٹے جعفر صادق(ع) ساتویں موسی کاظم (ع) آٹھویں علی رضا(ع) نویں محمد تقی (ع) دسویں علی نقی(ع) گیارہویں حسن عسکری(ع) اور بارہویں محمد مہدی(عج) جو حجتہ قائم ہیں آپ نگاہوں سے غائب ہیں لیکن دنیا موجود ہیں اور اﷲ ان کے ذریعہ زمین کو اس طرح عدل و داد سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی۔(مترجم)

شیعہ امامیہ کا اعتقاد یہ ہے کہ یہ بارہ امام برحق خدا کی جانب سے پیغمبر(ص) کے ذریعہ ہم کو پہنچنوائے گئے ہیں جن سے بارہویں امام نے واضح اور متواتر اخبار کی بنا پر جو آپ کے علماء سے بھی بکثرت منقول ہیں۔ غیبت اختیار فرمائی جیسا کہ دوسرے انبیاء و اوصیاء کے زمانوں میں بھی غیبت واقع ہوتی رہی ہے۔ اس مقدس وجود کو خدا نے رفع ظلم اور اشاعت عدل کے لیے محفوظ رکھا ہے۔ یہ وہ مصلح کل ہے کہ سارے اہل عالم ایسے مصالح کے ظہور کا انتظار کر رہے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ جماعت شیعہ ان جملہ احکام کی جو قرآن مجید میں موجود ہیں اور ان اخبار صحیحہ کی معتقد ہے جو معتبر راویوں کے ذریعہ اہل بیت طہارت(ع) و عترت رسول(ص) اور آں حضرت کے نیک سیرت اور مومن اصحاب خاص کے سلسلے سے اس کو پہنچے ہیں اول باب طہارت سے لےکر آخر باب دیات تک میں خدائے تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھ کو اس کی توفیق عطا فرمائی کہ ماں باپ کی تقلید میں نہیں بلکہ تحقیق و منطق اور برہان کے ذریعہ ان مقدس عقائد کا معتقد ہوں اور اس دین و مذہب پر فخر کرتا ہوں جو شخص اس دین و مذہب میں کلام رکھتا ہو --- شک و شبہ اور فریب میں مبتلا ہو تو میں خدا کی مدد سے شبہات کو دور کرنے و حقائق کو ثابت کرنے کے لیے -- اتنےمیں موذن کی آواز بلند ہوئی اور نماز کا وقت آگیا نماز سے فراغت اور چائے نوشی کے بعد جناب حافظ صاحب نے سلسلہ کلام شروع کیا۔)

حافظ : قبلہ صاحب میں بہت ممنون ہوا کہ آپ نے شیعہ فرقوں کے حالات کی تشریح فرمائی لیکن آپ کی کتب اخبار و ادعیہ میں ایسے مطالب وارد ہوئے ہیں جو بظاہر آپ کی گفتگو کے بر خلاف خاص طور پر اثناء عشری شیعوں کے کفر و الحاد کو ثابت کرتے ہیں۔

۶۲

خیر طلب : بہتر ہے کہ وہ اخبار و ادعیہ اور اشکال کے مواقع بیان فرمائیے تاکہ حق ظاہر ہو جائے۔

حدیث معرفت پر اعتراض

حافظ :- میں نے ب ہ ت س ی حدیثیں دیکھی ہیں لیکن جو اس وقت پیش نظر ہے ک ہ و ہ یہ ہے ک ہ تفس یر صافی میں جو آپ کے ا یک جلیل القدر عالم اور مفسر فیض کاشانی کی لکھی ہ وئ ی ہے ۔ ا یک حدیث نقل کرتے ہیں کہ ا یک روز حضرت حسین شہید کربلا اپنے اصحاب ک ے سامن ے ک ھڑے ہ وئ ے اور فرما یا ۔ "ا یھ ا الناس ان اللہ تعال ی جل ذکرہ ما خلق العباد الا ل یعرفوہ فاذا عرفوہ عبدو ہ واذا عبدو ہ استغنو بعبا دت ہ عن عباد ۃ من سواہ قال رجل من اصحاب ہ باب ی انت واخی یابن رسول اللہ فما معرف ۃ اللہ ؟قال معرف ۃ اھ ل کل زمان امام ھ م الذ ی تجب علیھ م طاعتہ " ۔ ( یعنی اے لوگو خداوند عالم جلّ ذکرہ ن ے خلق ن ہیں کیا ہے بندو ں کو ل یکن اپنی معرفت کے لئ ے اور جب بندو ں ن ے اس کو پ ہ چان ل یا تو اس کی عبادت کی اور جب اس کی عبادت کی تو اس کی عبادت کی وجہ س ے اس ک ے ما سوا ک ی عبادت سے مستغن ی ہ وگئ ے آپ کے اصحاب م یں سے ا یک شخص نے عرض ک یا کہ م یرے باپ بھ ائ ی آپ پر فدا ہ و ں ا ے فرزند رسول (ص) ،معرفت ال ہی کی حقیقت کیا ہے ؟ فرما یا ہ ر زمان ے والو ں کا اپن ے اس امام کو پ ہ چاننا جس ک ی اطاعت ان پر فرض ہے ۔

اعترض کا جواب

خیر طلب:- سب سے پ ہ ل ے تو حد یث کے سلسل ہ اسناد ک ی طرف توجہ کرنا چائ یے کہ آ یا یہ حدیث صحیح ہے یا موثق ومعتبر ،حسن ہے یا ضعیف ،قابل توجہ ہے یا مردود ؟ اگر فرض کر لیا جائے ک ہ صح یح ہے تو توح ید کے بار ے م یں آیات قرآن مجید اورآل اطہ ار وائم ہ ہ د ی علیھ م السلام کے سلسل ے میں احادیث متواترہ ک ے نصوص صر یحہ کو خبر واحد کی وجہ س ے اپن ے ک ھ ل ے ہ وئ ے مطلب س ے پ ھیرا تو نہیں جاسکتا ۔

آپ توحید کے بار ے ان سار ے اخباروآحاد یث ،ائمہ د ین کے ارشادات اور ان ک ے مناظرو ں جو ہ مار ے بزرگان د ین اور ائمہ اثناعشر ن ے مناسب موقعو ں پر مادّ یین اور دہ ر یین سے فرمائ ے ہیں اور خالص توحید کو ثابت فرمایا ہے ک یونکہ نہیں دیکھ ت ے اور ان پر پرتوجہ ک یوں نہیں دیکھ ت ے ؟ اور ان پر توجہ ک یوں نہیں فرماتے ؟ درآنحال یکہ شیعوں کی تمام خاص خاص

۶۳

تفسریں اور کتب اخبار جیسے توحید مفضل وتو حید صدوق اوربحار الانوار علامہ مجلس ی علیہ الرحمۃ کی کتاب توحید اور دیگر بڑے ب ڑے علمائ ے ش یعہ امامیہ کی کتب توحید یہ اہ ل ب یت طاہ ر ین(ص)کی متواتر حدیثوں سے چ ھ لک ر ہی ہیں ۔

آپ چوتھی صدی کے مفاخر علمائ ے ش یعہ میں سے ابو عبد الل ہ محمد بن نعمان معروف ب ہ "مف ید" متوفی سنہ 413 ھ کا رسال ہ "النّکت الاعتقاد یۃ"اور انہیں بزرگوار کی تالیف "اوائل المقالات فی المذاھ ب والمختاران"کا مطالع ہ ک یوں نہیں فرماتے ن یز ہ مار ے ش یخ اجل ابو منصور احمد بن علی ابن ابی طالب الطبرسی کی کتاب "احتجاج"کی طرف کیوں رجوع نہیں کرتے تاک ہ آپ کو پت ہ چل ے ک ہ امام برحق حضرت امام رضا عل یہ السلام نے مخالف ین ومنکرین توحید کے مقابل ے م یں کس طرح خالص توحید کو ثابت فرمایا ہے ن ہ ک ہ آپ اس ی فکر میں پڑے ہ وئ ے ہیں کہ کچ ھ واحدو متشابہ خبر یں ڈھ ون ڈ نکال یں اور انہیں کا سہ ارا ل ے کر ش یعوں پر لعن طعن کریں ۔

کیا خوب کہ تا ہے شاعر عرب :

اتبصر فی العین منی القذی ----- وفی عینک الجذع لاتبصر

(یعنی آیا میری آنکھ کاتنکا ڈھ ون ڈھ ت ے ہ و اور اپن ی آنکھ کا ش ہ ت یر نہیں دیکھ ت ے ؟کنایہ یہ ہے ک ہ م یرا چھ و ٹ ا ع یب دیکھ ت ے ہ و اور اپنا ب ڑ ا ع یب نظر نہیں آتا یہ مثل اس لئے پ یش کر رہ ا ہ و ں ک ہ آپ اپن ی کتابوں پر غور ن ہیں فرماتے تاک ہ ان ک ے اندر ا یسے خرافات ومو ہ وما ت بلکہ کفر یات نظر آئیں ۔ " یضحک بہ الثکل ی" (یعنی جس پر پسر مردہ عورت ب ھی ہ نس د ے :مترجم) اورپ ھ ر شرم ک ی وجہ س ے سر ن ہ ا ٹھ ائ یں یہ ا ں تک کہ آپ ک ی معتبر صحاح کے اندر ب ھی اس قدر مضحکہ خ یز روایتیں منقول ہیں کہ عقل مب ہ وت اور ح یران ہ وجات ی ہے ۔

حافظ:- مضحکہ خ یز در اصل آپ کے الفاظ ہیں کہ ا یسی کتابوں پر ع یب لگارہے ہیں جو عظمت وبزرگی میں اپنا جواب نہیں رکھ ت ی ہیں خصوصیت کیساتھ صحیح بخاری اور صحیح مسلم جن کے بار ے م یں عام طور سے ہ مار ے علماء کا اتفاق ہے ک ہ ان ک ے اندر جتن ی حدیثیں ہیں وہ سب قطعی طور پر صحیح ہیں ۔ اوراگر کوئ ی شخص ان دونوں کتابو ں کا اوران ک ے اندر مندرج ہ اخبار کا انکار کر ے اور ان کو غلط بتائ ے تو درحق یقت اس نے اصل مذ ھ ب سنت وجماعت کا انکار ک یا ،کیونکہ قرآن مجید کے بعد ا ہ ل سنت ک ے اعتبار کا دارومدار ان ہیں دونوں بزرگ کتابو ں پر ہے جیسا کہ اگر آپ ک ی نظرسے گزرا ہ و تو ابن حجر مک ی نے صواعق محرق ہ ک ے شروع م یں لکھ ا ہے ۔ "الفصل ف ی بیان کیفیتھ ا رای کیفیۃ خلافۃ ابی بکر روی الشیخان البخاری ومسلم فی صحیحھ ا الذین ھ ما اصح الکتب بعد القرآن اجماع من یعتد بہ "(فصل اس ک یفیت کے ب یان میں (یعنی کیفیت خلافت ابی بکر)شیخین یعنی بخاری ومسلم نے اپن ی صحیحین میں جو با اجماع امت قرآن کے بعد تمام کتابو ں م یں سے سب س ے ز یادہ صحیح ہیں کیونکہ امت نے ان ک ی قبولیت پر اجماع کیا ہے

۶۴

اور جس چ یز پر امت کا اجماع ہ و و ہ قطع ی ہے ل ہ ذا بخار ی اور صحیح مسلم میں جتنی حدیثیں درج ہیں وہ قطع ی طور پر صادر ہ وئ ی ہیں ۔ ل ہ ذا کوئ ی شخص یہ کہ ن ے ک ی جرات کیونکر کر سکتا ہے ک ہ ان دونو ں کتابو ں م یں کفریات اور خرافات وموہ ومات موجود ہیں ؟

صحیحین بخاری ومسلم میں خلاف عقل روایتیں

خیرطلب :- اول تو آپ کے ب یان میں اس جملے پر ک ہ دونو ں کتاب یں ساری امت کی نظر میں قابل قبول ہیں ،علمی اعتراضات قائم ہیں اور ابن حجر کے حوال ے س ے آپ کا یہ دعوی دس کروڑ صاحبان علم وعمل مسلمانو ں ک ے نزد یک علمی عملی ،منطقی طور سے بلکل ب ے وقعت ہے ل ہ ذا اس موقع پر امت کا اجماع ویسا ہی ہے اجماع ہے جس ک ے آپ صدر اسلام م ین امر خلافت کے لئ ے قائل ہیں ۔

دوسرے جو کچھ م یں کہہ ر ہ ا ہ و ں دل یل اور برہ ان ک ے سات ھ ہے ۔ آپ حضرات ب ھی اگر خوش عقیدگی کی آنکھ س ے ن ہیں بلکہ حق یقت ہیں نگاہ س ے ان کتابو ں کو ملاحض ہ فرمائ یں تو جو کچھ م یں دیکھ رہ ا ہ و ں و ہی آپ کو بھی نظر آئے گا ۔ اور ہ مار ے اور سار ے ا ہ ل عقل ک ی طرح ان کے مندرجات س ے متح یر ومتبسم ہ و ں گ ے ۔ ج یسا کہ آپ ک ے ب ہ ت س ے اکابر علماء ج یسے دار قطنی و ابن حزم اور شہ اب الد ین احمد بن محمد قسطلانی" ارشاد الساری"میں ، علامہ ابو الفضل جعفر بن ثعلب شافعی "کتاب الامتاع فی احکام السماع " میں ، شیخ عبد القادر بن محمد قریشی حنفی" جواہ ر المض یۃ فی طبقات الخفیہ " میں ،شیخ الاسلام ابو زکریا ئے نوو ی" شرح صحیح" میں شمس الدین علقمی" کوکب منیر شرح جامع الصغیر" میں اور ابن القیم "زاد المعاد فی ہ د ی خیر العباد " میں بلکہ سار ے حنف ی علماء اور دوسرے سن ی اکابر صحیحین کی بعض احادیث پر تنقید اور نکتہ چ ینی کر چکے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ صح یحین کے اندر ب ہ ت س ی ضعیف اور غیر صحیح حدیثیں موجود ہیں چونکہ بخار ی اور مسلم کا مطمع نظر حدیثوں کو جمع کرنا تھ ا ن ہ ک ہ ان ک ی صحت پر غور وخوص کرنا ۔ آپ ک ے ب عض محقق علماء جیسے کما ل الدین جعفری ثعلب نے صح یحین کی روائتوں ک ے فضائح و قبائح ب یان کرنے اور ان ک ے مثالب ومعائب ظا ہ ر کرن ے م یں سعی بلیغ کی ہے اور اس بار ے م یں روشن اور آشکار دلائل وبراہین قائم کئے ہیں ۔

لہ ذا تنہ ا ہ م ہی مطالب کی تحقیق نہیں کرتے ہیں بلکہ آپ ک ے نشان ہ ملامت ن ہیں بلکہ آپ ک ے اکابر علماء ن ے ب ھی جو حقیقتوں کی جانچ کرتے ہیں اسی طرح کے ب یانات دیئے ہیں۔

حافظ :- بہ تر ہے اپن ے دلائل وبرا ہین حاضرین جلسہ ک ے سامن ے ب یان کیجیئے تاکہ صح یح فیصلہ کر سکیں ۔

۶۵

خیر طلب :- اگر چہ اس وقت ہ مار ی بحث کا موضوع یہ نہیں تھ ا اور اگرم یں اس بحث میں پڑ نا چا ہ و ں تو آپ ک ے سوال کا سلسل ہ چ ھ و ڑ نا پ ڑے گا ل یکن مقصد ثابت کرنے ک ے لئ ے مختصر طور پر چند نمونو ں ک ی طرف اشارہ کئ ے د یتا ہ و ں ۔

رویت باری تعالی کے بار ے م یں اہ ل سنت ک ی چند روایتیں

اگر آپ حلول واتحاد کے کفر آم یز روایات اور خدائے تعال ی کی جسمانیت اور رویت کا عقیدہ کہ و ہ باختلاف عقائد دن یا میں دیکھ ا جاتا ہے یا آخرت میں دیکھ ا جائے گا ۔ (ج یسا کہ جنبل ی اور اشعری سنیوں کا ایک گروہ اس کا قائل ہے )مطالع ہ کرنا چا ہیں تو اپنی معتبر کتابوں ک ی طرف رجوع کیجیئے خصوصا صحیح بخاری جلد اول "باب فضل السجود من کتاب الاذان "صفحہ 175 پر آپ کو کاف ی ذخیرہ ملے گا ۔ م یں نمونے ک ے طور پر ان ہیں ابواب میں سے دو روا یتیں آپ کے سامن ے پ یش کرتا ہ و ں ۔ ابو ہ ر یرہ سے روا یت کرتے ہیں "ان النّار تذف وتتقظ تقیظا شدیدا فلا تسکن حتی یضع الرب قدمہ ف یھ ا فتقول قظ قظ حسبی حسبی" ۔ ( یعنی جہ نم ک ے شعلو ں ک ی آواز اور جوش وخروش بڑھ تا جاتا ہے اور اس م یں سکون نہ ہ وگا یہ ا ں تک کہ خدا اس م یں اپنا پاؤں ڈ ال د ے گا تو ج ہ نم ک ہے گا بس بس م یرے لئے کاف ی ہے م یرے لئے ک افی ہے ۔

نیز ابوہ ر یرہ نے روا یت کی ہے ک ہ لوگو ں ک ی ایک جماعت نے رسو ل الل ہ س ے سوال ک یا "هل تری ربنا یوم القیمة قال نعم هل تضارون فی رو یة الشمس بالظههیرة صحوا لیس معها سحاب قالوا لا یا رسو ل الله وهل تضارون فی رویة القلم لیلة البدر صحوا لیس فیها سحاب قالوا لا یا رسول الله قال ما تضارون فی رویة الله یو م القیامة الا کما تضارون فی رویة احدهما اذا کان یو م القیامة اذن مؤذن لتبع کل امة ما کانت تعبد فلا یبقی احد کان یعبد غیر الله من الاصنام الانصاب الا یتسا فظون فی النار حتی اذا لم یبق الا من کان یعبد الله من برونا جر اتاهم رب العالمین فی ادنی صورة من التی را ‎‎ ؤه فیها فیقول انا ربّکم فیقولون نعوذ بالله منک لا نشرک با الله شیئا بینکم وبینه ایة فتعرفون فیها فیقول انا ربکم فیقولون نعم فیکشف الله عن ساق ثم یرفعون روؤسهم وقد تحول فی صورة التی راؤه فیها اول مرّة فقال انا ربکم فیقولون انت ربنا "

(یعنی کیا ہ م لوگ ق یامت کے روز اپن ے پرور دگار کو د یکھیں گے ؟ فرما یا ہ ا ں ،ک یا ظہ ر ک ے وقت جس روزآسمان پر ابر ن ہ

۶۶

ہ و آفتاب کو د یکھ ن ے سے تم کو کوئ ی نقصان پہ نچتا ہے ؟لوگو ں ن ے عرض ک یا نہیں ، فرمایا جن راتوں م یں آسمان پر بادل نہ ہ و ک یا ماہ کامل د یکھ ن ے سے تم ہ ا را کوئی ضرر ہ وتا ہے ۔ عرض ک یا نہیں ،فرمایا تو قیامت کے دن الل ہ کو د یکھ ن ے سے ب ھی تم کو کوئی ضرر نہیں پہ نچ ے گا ج یسا کہ ان دونو ں ک ے د یکھ ن ے سے تم ہ ارا کوئ ی نقصان نہیں ہ وتا ۔ جب ق یامت کا دن ہ وگا تو خدا ک ی طرف سے اعلان ہ وگا ک ہ ہ ر گرو ہ اپن ے معبود کی پیروی کرے ،پس الل ہ ک ے سوا بتو ں ک ی پرستش کرنے والا کوئ ی شخص ایسا باقی نہ ر ہے گا جو ج ہ نم م یں نہ ج ھ ونک د یا جائے ۔ یہ ا ں تک کہ ن یک و بد لوگوں م یں سے سوا ان افراد ک ے جن ہ و ں ن ے الل ہ ک ی پرستش کی ہ وگ ی اور کوئی جہ نم س ے با ہ ر ن ہیں رہے گا ، اس وقت پروردگار عالمین ایک خاص صورت میں ان کے پاس آئ ے گا ک ہ و ہ سب اس کو د یکھیں پھ ر فرمائ ے گا ک ہ م یں تمہ ارا خدا ہ و ں مومن ین عرض کریں گے ک ہ ہ م ت یری خدائی سے خدا ک ی طرف پناہ مانگت ے ہیں ۔ہ م و ہ لوگ ن ہیں ہیں جو خدا کے سوا کس ی اور کی عبادت کریں خدا کہے گا کہ آیا تمہ ار ے اور خدا ک ے درم یان کوئی ایسی نشانی ہے جس کو د یکھ کر تم اسے پ ہ چان لو ؟ و ہ ک ہیں گے ہ ا ں اس وقت الل ہ اپن ے پاؤ ں ک ی پنڈ ل ی کھ ول د ے گا( یعنی اپنے پاؤ ں کو عر یان کرکے نشان د ہی کے گا)اور مومن ین اپنے سر ا ٹھ ائ یں گے تو الل ہ کو اس ی صورت میں دکھیں گے جس میں پہ ل ی بار دیکھ ا تھ ا پ ھ ر و ہ ک ہے گا ک ہ م یں تمہ ارا پروردگار ہ و ں اور و ہ سب ب ھی اقرارکریں گے ک ہ تو ہ مارا خدا ہ و ۔

آپ کو خدا کا واسطہ انصاف ک یجئے کیا اس طرح کی باتیں کفر انگیز نہیں ہیں ۔ ک ہ خدا اپن ے کو مجسم اور عنصر ی صورت میں انسان کے سامن ے پ یش کرے اور اپن ی پنڈ ل ی کھ ول ے ؟ ہ مار ی گفتگو کے ثبوت م یں سب سے ب ڑی دلیل یہ ہے ک ہ مسلم ابن حجاج ن ے اپن ی صحیح میں رویت باری تعالی کے اثبات م یں ایسے با ب کا افتتاح کیا ہے ۔ اور ابو ہ ر یرہ ،زید ابن اسلم، سوید ابن سعید وغیرہ سے ا یسی گھڑی ہ وئ ی روائتیں نقل کی ہیں کہ آپ ک ے ب ڑے ب ڑے علماء ج یسے ذہ ب ی نے " م یڑ ان الاعتدال "میں ،سیوطی نے کتاب" اللئال ی المصنوعۃ فی احادیث الموضوعۃ ّ "میں ، سبط ابن جوزی نے "الموضوعات " م یں ان کے وضع ی ہ ون ے کو دلائل ک ے سات ھ ثابت ک یا ہے ۔ اگر ان لوگو ں ک ے روا یات کو باطل ثابت کرنے وال ی دلیلیں نہ ب ھی ہ وت یں ،تو قرآن مجید کی بکثرت آئتیں صریحی طور پر رویت کی نفی کر چکی ہیں مثلا سورہ 6 (انعام) آیت 103 میں ارشاد ہے "لا تدرکوا الابصار وهو یدرک الابصار وهو اللطیف الخبیر" ( یعنی اس کو کوئی آنکھ درک ن ہیں کرتی ہے اور و ہ سب آنک ھ و ں کا مشا ہ د ہ فرماتا ہے اور و ہ لط یف وغیرمرئی اور ہ رچ یز سے آگا ہ ہے ) ن یز سورہ 7(اعراف)آ یت 139 میں قصّہ موس ی علیہ السلام و بنی اسرائیل کے سلسل ے م یں نقل فرماتا ہے ک ہ جس وقت بن ی اسرائیل کے دباؤ س ے مجبور ہ وکر حضرت موس ی علیہ السلام نے مقام مناجات م یں عرض کیا "ربّ ارنی انظر الیک قال لن ترانی " (یعنی خداوندا اپنے کو م یرے سامنے تاک ہ ظا ہ ر فرما د ے تاک ہ م یں تجھ کو مشاہ د ہ کرو ں ، تو خدا ن ے جواب م یں ارشاد فرمایا کہ تم مج ھ کو ہ ر گز ابد تک ن ہیں دیکھ و گے ۔

۶۷

سید عبد الحی :- (امام جماعت اہ ل تسنن)ک یا مولا علی کرم اللہ وج ہ س ے منقول ن ہیں ہے ک ہ آپ ن ے فرما یا "لم اعبد ربا لم ارہ "( یعنی میں ایسے خدا کی عبادت نہیں کرتا ہ و ں جس کو د یکھ ا نہ ہ و، ل ہ ذا معلوم ہ وتا ہے ک ہ خدا د یکھ ن ے کے قابل ہے ک ہ عل ی ایسا فرما رہے ہیں ۔

اللہ تعالی کے عدم رو یت پر دلائل اخبار

خیر طلب:- جناب نے حد یث کے صرف ا یک جملے ک ی طرف اشارہ فرما یا ہے ، م یں آپ حضرات کی اجازت سے پور ی حدیث پڑھ ر ہ ا ہ و ں ۔ جس س ے آپ کو خود ہی اپنا جواب معلوی ہ وجائ ے گا ۔ اس حد یث کو شیخ بزرگ ثقۃ الاسلام محمد بن یعقوب کلینی نے "اصول کافی" کتاب توحید "باب ابطال الروئۃ ا للہ "م یں امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے اس طرح نقل ک یا ہے ک ہ آپ ن ے فرما یا ۔ "جاء حبر الی امیر المومنین فقال یا امیر المومنین هل رایت ربک حین عبدته ؟ فقال ماکنت اعبد ربا لم اره ،قال وکیف ریته؟ قال لا تدرکه العیور فی مشاهدة الابصار ولکن راته القلوب بحقائق الایمان " ( یعنی ایک(یہ ود ی)عالم نے ام یر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ یا امیر المومنین آیا عبادت کے وقت آپ ن ے خدا کو د یکھ ا ہے ؟ حضرت ن ے فرما یا میں ایسے خدا کی عبادت نہیں کرتا جس کو دیکھ ا نہ ہو۔ اس ن ے عرض ک یا آپ نے اس کو ک یون کر دیکھ ا ؟ فرمایا اس کو ظاہ ر ی اور مادی آنکھیں نہیں دیکھ ت ی ہیں دل اس کو حقائق ایمان کے نور س ے د یکھ ت ے ہیں ) چنانچہ ام یر المومنین کے اس جواب س ے ظا ہ ر ہ وتا ہے ک ہ عنصر ی اور جسمانی آنکھ س ے ن ہیں بلکہ ا یما ن قلبی کے نور س ے د یکھ نا مراد ہے اور یہی مطلب خود کلمہ "لن" س ے ظا ہ ر ہے ک یونکہ جیسا آپ کو معلوم ہے "لن" نف ی ابدی کے لئ ے استعمال ہ وتا ہے اور اس آ یہ شریفہ میں تاکید ہے ک ہ "لا تدرک ہ الابصار "ک ے سات ھ یعنی خدا ہ رگز د نیا و آخرت میں کسی صورت سے د یکھ ا نہیں جاتا ۔

اس مقصد پر اتنے عقل ی اور نقلی دلائل وبراہین قائم ہیں کہ علاو ہ علمائ ے محقق ین اور مفسرین شیعہ کے خود آپ ک ے اکابر علماء ج یسے قاضی بیضاوی اور جار اللہ زمخشر ی نے اپن ی تفسیر میں ثابت کیا ہے ک ہ الل ہ تعال ی کو دیکھ نا محال عقلی ہے ۔

اور جو شخص کیا وہ دن یا اور کیا آخرت میں خدا کی رویت کا معتقد ہ و اس ن ے قطعا خدا کو اپن ی نظر میں محدود قرار دیا اور

۶۸

اس کی ذات بابرکات کے لئ ے جسمان یت کا قائل ہ وا ک یونکہ جب تک جسم عنصری نہ ہ و ظا ہ ر ی اور عنصری آنکھ و ں س ے د یکھ ا نہیں جا سکتا اور اس طرح کا عقیدہ قطعی کفر ہے ج یسا کہ ہ مار ے اور آپ ک ے ب ڑے ب ڑے علماء ن ے اپن ی تفسیروں اور علمی کتابوں م یں ذکر کیا ہے ، ل یکن چونکہ اس وقت یہ ہ مار ی بحث کا موضوع نہیں لہ ذا بطور ثبوت چند جمل ے عرض کر دئ ے گئ ے ہیں ۔

البتہ ان ڈھیروں خرافات وموہ ومات ک ے سلسل ے م یں جو آپ کی معتبر کتابوں م یں درج ہیں میں نے نمون ے ک ے طور پر دو روا یتوں کا خلاصہ نقل کرتا ہ و ں تاک ہ آپ حضرات بعض واحد خبرو ں ک ے ذر یعے جو تشریح وتاویل کے قابل ہیں شیعوں کی کتابوں س ے ا یراد نہ فرمائ یں ۔

آپ کا خیال ہے ک ہ صحاح ست ہ اور بالخصوص صح یح بخاری اور صحیح مسلم کتاب وحی کے مانند ہیں لیکن میں التماس کرتا ہ و ں ک ہ آپ حضرات ت ھ و ڑی دیر کے لئ ے تعصب س ے ہٹ کر نگا ہ انصاف س ے ان ک ی احادیث وروایات پر غور فرمائیں تاکہ اس قدر غلو ک ی نوبت نہ آئ ے ۔

خرافات صحیحین کی طرف اشارہ

بخاری نے اپن ی صحیح کتاب غسل "باب من اغتسل عریانا "میں ،مسلم نے اپن ی صحیح جزء دوم "باب فضائل موسی "میں ،امام احمد بن حنبل نے اپن ی مستند جزء دوم صفحہ 315 م یں اور آپ کے دوسرے علماء ن ے ابو ہ ر یرہ سے نقل ک یا ہے ک ہ بن ی اسرائیل کے درم یان یہ رسم تھی کہ سب لوگ مل کر برہ ن ہ پان ی میں جاتے ت ھے اور اس حالت س ے ن ہ ات ے ت ھے ک ہ آپس م یں ایک دوسرے ک ی شرمگا ہ ک ی طرف بھی نظر کر تے ت ھے یہ عمل ان کے یہ ا ں معیوب نہ ت ھ ا البت ہ ان م یں صرف حضرت موسی علیہ السلام تن تنہ ا پان ی میں اترتے ت ھے تا ک ہ کوئ ی شخص ان کی شرمگاہ کو نہ د یکھے ۔ بن ی اسرائیل کہ ت ے ت ھے ک ہ موس ی اس وجہ س ے اک یلے نہ ان ے ک ے لئ ے جات ے ہیں اور ہ م لوگو ں س ے عل یحدہ رہ ت ے ہیں عکہ ان ک ے اندر نقص ہے او ر قطعی طور پر وہ فتق(فتق ،خص یہ بڑ ا ہ ون ے ک ی بیماری ۔ہ رن یا )کے عارض ے م یں مبتلا ہیں ،لہ ذا یہ نہیں چاہ ت ے ک ہ ہ م لوگ ان کو د یکھیں ایک روز حضرت موسی غسل کرنے ک ے لئ ے در یا کے کنار ے گئ ے کپ ڑے اتار کر ا یک پتھ ر پر رک ھ د یئے اور پانی میں اتر گئے "ففرّ الحجر بثوب ہ فجمع موس ی باثرہ یقول ثوبی حجر ،ثوبی حجر حتی نظر بنو اسرائیل الی سواۃ موسی فقالوا واللہ ما بمو سی من باس فقام الحجر بعد حتی نظر فاخذ موسی ثوبہ فطفق بالحجر ضربا فوالل ہ ان بالحجر ندبا ست ۃ او سبعۃ "(یعنی پتھ ر موس ی کے کپ ڑے ل ے ب ھ اگ ک ھڑ ا ہ وا ،موس ی اس کے پ یچھے جھ پ ٹے اور یہ کہ ت ے جار ہے ت ھے ا ے پت ھ ر م یرے کپڑے ،ا ے پت ھ ر م یرے کپڑے ( یعنی میرا لباس کہ ا ں لئ ے ب ھ اگا جاتا ہے ؟) و ہ پت ھ ر اتنا ب ھ اگا اور موس ی اس قدر برہ ن ہ دو ڑے ک ہ بن ی اسرائیل نے ان ک ی شرمگاہ د یکھ لی اور کہ ا خدا کا ک ی

۶۹

قسم موسی کے اندر کوئ ی عیب نہیں ہے یعنی فتق نہیں ہے اس ک ے بعد پت ھ ر ک ھڑ ا ہ وگ یا ، اور جناب موسی نے اپن ے کپڑے ل ے لئ ے پ ھ ر کو ڑے س ے اس کو انتا مارا ک ہ خدا ک ی قسم وہ چ ھے یا سات مرتبہ چ یخ چیخ کے رو یا ۔

آپ کو خدا کی قسم ذرا انصاف کیجئے کہ اگر اس ی طرح کا کوئی عمل آپ حضرات میں سے کس ی کے سات ھ پ یش آئے تو کس قدر ذلت ک ی بات ہے ک ہ آپ لوگو ں ک ے درم یان اس طرح سے بر ہ ن ہ اپن ے لباس ک ے پ یچھے دوڑیں کہ سب آپ ک ی شرمگاہ د یکھ لیں۔ فرض ک یجئے کہ اگر ا یسا اتفاق پیش آجائے تو آدمی کہیں کنارے ب یٹھ جاتا ہے تاک ہ لوگ جا کر اس کا لباس ل ے آئ یں نہ یہ کہ بغ یر کسی ستر پوش کے آدم یوں کے ب یچ میں گھ س پ ڑے تاک ہ سب اس ک ی شرمگاہ د یکھیں ۔ آ یا عقل باور کرتی ہے ک ہ موس ی کلیم اللہ ا یسے انسان سے ا یسی حرکت سرزد ہ وئ ی ہ و ۔ کیا یہ یقین آتا ہے ک ہ ک ہ ب ے زبان پت ھ ر حرکت کر ے اور موس ی کے کپ ڑے ل ے ب ھ اگ ے ؟

سید عبد الحی :- آیا پتھ ر ک ی حرکت زیادہ اہ م ہے یا عصا کا اژدہ ا ہ و جانا ؟ پت ھ ر ک ی حرکت بڑی چیز ہے یا وہ نو معجز ے جن ک ی خدا خبر دے ر ہ ا ہے ؟

خیر طلب :-مثل مشہ و ر ہے "خوب ورد ی آموختہ ا ید، لیک سوراخ دعا گم کردہ ا ید"(یعنی آپ نے ورد خوب س یکھ ا ہے ل یکن دعا کا سوراخ کھ و د یا ہے ) جناب محترم ! م یں معجزات انبیاء علیھ م السلام کا منکر نہیں ہ و ں بلک ہ قرآن مج ید کے حکم س ے معجزات او ر خرق عادت پر ا یمان رکھ تا ہ و ں ل یکن آپ تصدیق کریں گے ۔ ک ہ معجزات او رخرق عادات کا ظ ہ ور مقام تحد ی پر ہ وتا ہے تاک ہ اس مظا ہ ر ہ عمل ک ے مقابل ے م یں فریق مخالف کو عاجز اور حق کو ظاہ ر کرد یا جائے تو اس عمل م یں کون سی تحدی کا یاحق کا ظہ ور ت ھ ا ؟ سوا اس ک ے ک ہ رسوائ ی کا سامنا ہ وا اور خدا ک ے رسول ک ی شرمگاہ خلقت ک ے درم یان عریان ہ وئ ی ۔

سید عبد الحی :- اس سے ب ڑھ کر کون سا حق ت ھ ا ک ہ حضرت موس ی کی صفائی پیش کی جائے تاک ہ لوگ سمج ھ ل یں کہ آپ فتق ن ہیں ہے ۔

خیرطلب :-فرض کر لیا جائے ک ہ جناب موس ی علیہ السلام کو فتق ہی تھ ا اس س ے آپ ک ے منصب نبوت کو ک یا نقصان پہ نچ ر ہ ا ت ھ ا پ یغمبروں کے لئ ے جو چ یز عیب ہے و ہ ذات ی نقائص ہیں جیسے اندھ ا ،ب ہ ر ہ ،چ ھ انگل یوں والا،چار انگلیوں والا ، فحش گو ،مفلوج یا مادر زاد مثل ہ ونا وغ یرہ ورنہ جسمان ی نقائص جو عوارض کی وجہ س ے پ یدا ہ وت ے ہیں جیسے کثرت گریہ کے نت یجے میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کا نابینا ہ وجانا ،حضرت ا یوب علیہ السلام کے جسم پر زخم ، جنگ احد م یں حضرت خاتم الانبیاء (ص) کے سر ودندان ک ی شکستگی اور اس طرح کی دو سری چیزیں منصب نبوت کو کوئی ضرر نہیں پہ نچا ت ی ہیں ۔

فتق بھی ایک جسمانی مرض ہے جو بعد کو عارض ہ وتا ہے ل ھ ذا اس م یں کون سی اہ م یت تھی کہ کس ی ایسے معجز ے

۷۰

اور خرق عادات کے ذر یعہ اس سے برات ثابت ک ی جائے جو پ یغمبر کی ہ تک حرمت اور کشف عورت تک منجر ہ و،تا ک ہ بن ی اسرائیل ان کی شرمگاہ پر نظر کر یں۔ آیا ایسی روایات خرافات و موہ ومات م یں سے ن ہیں کہ جناب موس ی علیہ السلام بغیر ساتر عورتین کے لباس ک ے پ یچھے دوڑیں ، اس قدر غصّہ م یں بھ ر جائ یں اور پتھ ر کو اس طرح س ے مار یں کہ و ہ چ ھ یا سات مرتبہ فر یاد کرے ؟ کتن ے تعجب ک ی بات ہے ک ہ پ یغمبر خدا (ص) کو اتنا بھی نہ معلوم ہ و ک ہ پت ھ ر آنک ھ ، کان اور تاثر ک ی حس نہیں رکھ تا ہے ک ہ اس کو زد وکوب کر یں اور جما د سے نال ہ بلند کرآئ یں۔ نعوذ بالل ہ من ھ ذ ہ الخرافات

ملک الموت کے چ ہ ر ے پر موس ی علیہ السلام کا تھ پ ڑ مارنا

اس خیال سے ک ہ جناب مولو ی سید عبد الحی ابو ہ ر یرہ یا بخاری اور مسلم کی طرف سے جن ہ و ں ن ے اس طرح ک ی گھڑی ہ وئ ی مہ مل روا یتیں نقل کی ہیں ، دفاع اور صفائی کی کوشش نہ فرمائ یں ،ایک اس سے ز یادہ مضحکہ خ یز روایت کی طرف اشارہ کرتا ہ و ں تاک ہ آپ حضرات یقین کر لیں کہ صحاح ک ے بار ے م یں جس طرح غلو کیا گیا ہے و ہ ا یسی میں نہیں ۔

بخاری نے اپن ی صحیح جلد اول صفحہ 158 اور جلد دوم صفح ہ 163 پرا یک تو "باب من احب الدفن فی الارض المقدسۃ من ابواب الجنائز" میں دوسرے "باب وفات موس ی "جلد دوم میں اپنے عق یدے کیمطابق صحیح اسناد کے سات ھ ابو ہ ر یرہ سے ن یز مسلم نے اپن ی صحیح جلد دوم صفحہ 309 ابو ہ ر یرہ سے ا یک عجیب مہ مل خبر نقل ک ی ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "جاء ملک الموت ال ی مو سی علیہ السلام فقال لہ اجب ربک ،قال ابو ہ ر یرہ فلطم موسی عین ملک الموت فقفاھ ا ،فرجع الملک ال ی اللہ تعال ی فقال انک ارسلتنی الی عبد لک لا یرید الموت فقفا عینی ، قال فردّ اللہ ع ینہ و قال ارجع الی عبدی فقل الحیاۃ ترید فان کنت ترید الحیواۃ فضع یدک علی متن ثور فما توارت بیدک من شعرہ فانک تع یش بھ ا سن ۃ"۔ ( یعنی ملک اللموت موسی علیہ السلام کے پاس آئ ے اور ک ہ ا ک ہ اپن ے پروردگار ک ی دعوت قبول کیجئیے ! اس پر حضرت موسی نے ان ک ی آنکھ پر ا یسا تھ پ ڑ لگا یا کہ ان ک ی آنکھ پ ھ و ٹ ہی گئی اور وہ کا ن ے ہ وگئ ے ۔ چنانچ ہ ملک اللموت خدا ک ے پاس واپس گئ ے اور ک ہ ا ک ہ ت و نے مج ھ کو اپن ے ا یسے بندے ک ے پا س ب ھیجا جو مرنا ہی نہیں چاہ تا اور م یری آنکھ الگ پ ھ و ڑ د ی ۔ خدا ن ے ان ک ی آنکھ پ ھ ر پل ٹ ا د ی اور فرمایا کہ م یرے بندے ک ے پاس واپس جاؤ اور ک ہ و ک ہ اگر زندگ ی چاہ ت ے ہ و تو ب یل کی پیٹھ پر اپنا ہ ات ھ رک ھ و جتن ے بال تم ہ ار ے بات ھ م یں آجائیں گے ہ ر با ل ک ے عوض ا یک سال زندہ ر ہ وگ ے ۔)

۷۱

اور امام احمد بن حنبل نے اپن ی مسند جلد دوم صفحہ 315 م یں اور محمد ابن جریر طبری نے اپن ی تاریخ کی جلد اول "تذکرہ وفات موس ی " کے ضمن م یں ابو ہ ر یرہ سے یہی روایت اتنی زیادتی کے سات ھی نقل کی ہے ک ہ زمان ہ حضرت موس ی تک ملک الموت بندوں ک ی روح قبض کرنے کے لئے ظا ہ ر بظا ہ ر اور ک ھ لم ک ھ لا آت ے ت ھے ل یکن جب سے موس ی نے ان ک ے چ ہ ر ے پر ت ھ پ ڑ مارا اور ان ک ی ایک آنکھ پ ھ و ٹ گئ ی اس کے بعد س ے پوش یدہ اور چھ پ کر ک ے آن ے لگ ے (غالبا اس خوف س ے ک ہ جا ہ ل لوگ ک ہیں ان کی دو آنکھیں نہ پ ھ و ڑ د یں ) اس پر مجمع کے اندر ب ہ ت س ے لوگ قہ ق ہ لگا کر ہ نس پ ڑے ۔

اب آپ حضرات سے انصاف چا ہ تا ہ و ں ک ہ ک یا یہ روایت خرافات اور موہ ومات م یں سے ن ہیں ہے ؟جس کو سن کر آپ ہ نس ر ہے ہیں مجھ کو تو ا یسی خبر کے لک ھ ن ے والو ں اور نقل کرن ے والو ں پر تعجب ہ وتا ہے جن ہ و ں ن ے بغ یر سوچے سمج ھے ان ب یہ ود ہ اور موہ وم مطالب کو سپرد قلم کیا ہے ۔

انصاف موجب معرفت اور سبب سعادت ہے

آیا کسی صاحب عقل یہ قبول کر تی ہے ک ہ موس ی کلیم اللہ ج یسا کوئی اولو العزم پیغمبر معاذا اللہ اس قدر ب ے معرفت او ر بد مزاج ہ و ک ہ حکم خدا ک ی اطا عت کے بد ل ے اس ک ے قاصد کو اتنا زور دار ت ھ پ ڑ لگائ ے ک ہ اس ک ی آنکھ ہی جاتی رہے ؟

خدا کے لئ ے بتائ یے کہ اگر کوئ ی شخص یہ کہے ک ہ جناب حافظ صاحب کو ا یک بزرگ شخص نے م ہ مان ی کی دعوت دی ہے اور ان ہ و ں ن ے بجائ ے دعوت قبول کرن ے ک ے پ یغام لا نے وال ے کو ت ھ پ ڑ مار ک ے اس ک ی آنکھ پ ھ و ڑ ڈ ال ی تو کیا آپ کو ہ نس ی نہیں آئیگی اور حافظ صاحب یہ نہیں فرمائیگے کہ ا یسا کہ نا م یری تو ہین ہے ک یونکہ تحصیل علم اور تزکیہ نفس میں ایک عمر صر کردینے کے بعد ک یا میرے اندر اتنا سمجھ ن ے ک ی صلاحیت بھی پیدا نہیں ہ وئ ی کہ پ یغام لا نے وال ے ک ی کوئی خطاء نہیں ہ وت ی ! بلکہ اس ن ے تو م یرا احترام کرتے ہ و ے ایک بزرگ شخصیت کی طرف سے دعوت نام ہ پ یش کیا ۔ جب کس ی کمینے جاہ ل اور سنگدل انسان س ے ب ھی ایسی حرکت سرزد نہیں ہ وت ی تو اولوالعزم پیغمبر کلیم اللہ ن ے جو معرفت ال ہی میں کہیں اولی اور اعلی تھے ک یونکر ممکن ہے ک ہ خدا ک ے طلب کو ناقابل توج ہ سمجھیں بلکہ پ یغام لا نے وال ے فرشت ے کو جس ک ی سوا اپنا فرض ادا کرنے کے اور کوئ ی خطا نہ ت ھی ،تھ پ ڑ مار یں اور کانا بنائیں ۔

پیغمبر وں کو مبعوث کرن ے کا مقصد تو یہ ہے ک ہ و ہ لوگو ں ک ی ہ دا یت کریں اور ان کو حیوانی حرکتوں س ے باز رک ھیں تاکہ و ہ نفس ب ہیمی کے قابو م یں نہ آجائ یں اور ان سے درندگ ی کے آثار ظا ہ ر ن ہ ہ و ں ظلم وتعد ی تو جانوروں پر ب ھی ایک جاہ ل اور ب یوقوف آدمی کی طرف سے ب ھی بری چیز ہے ۔ ن ہ ک ہ اولو العزم پ یغمبر کی طرف سے ا یک ملک مقرب پر جو خدا

۷۲

کا فرستادہ اور پ یام لانے والا ہ و ۔

ہ ر سننے والا سمج ھ ل ے گا ک ہ ا یسی روایت سراسر جھ و ٹ اور ب ہ تان ہے اور علا و ہ منصب نبوت ک ے عدم معرفت اور ا ہ انت ک ے یا انبیاء عظام کو سارے انسانو ں ک ی نظروں م یں حقیر وذلیل بنانے ک ے قطعا اس ک ے گ ھڑ ن ے والو ں ک ی اور کوئی غرض نہ ت ھی ۔

میں ابو ہ ر یرہ کے ا یسے لوگوں س ے تعجب ن ہیں کرتا ہ و ں ک یونکہ یہ وہ آدم ی تھے جن ک ے متعلق خود آپ ک ے علماء ن ے لک ھ ا ہے ک ہ معاو یۃ کے روغن ی اور لذیذ دسترخوان سے اپنا پ یٹ بھ رن ے ک ے لئ ے حد یثیں وضع کرتا تھ ا اور خل یفہ عمر نے اس ی طرز عمل پر ان کو ایسا تازیانہ لگایا کہ پ یٹھ لہ و ل ہ ان ہ وگئ ی لیکن مجھ کو ح یرت تو ان اشخاص پر ہے جو علم ودانش ک ی بلند منزل پر فائز تھے ک ہ ان ہ و ں ن ے بغ یر سوچے سمج ھے ک یونکر اس طرح کی بے تک ی رویتیں اپنی کتا بوں م یں درج کردیں ۔

اور پھ ر جناب حافظ صاحب ک ے ا یسے دوسرے علماء نس ان کتابو ں کوکلام خدا ک ے قدم ب ہ قدم قرارد یدیا اور بغیر غور و مطالعہ ک ے ک ہ ت ے ہیں "ھ ما اصح الکتب بعد القرآن " یہ دونوں یعنی صحیح بخاری و صحیح مسلم قرآن کے بعد سار ی کتابوں س ے ز یادہ صحیح ہیں (مترجم)) لہ ذا جب آپ ک ی سب سے اونچ ی کتابوں م یں ایسی مہ مل روا یتیں درج ہیں تو آپ کو شیعوں کی کتابوں اور ان اخبار ک ے متعلق جو ان م یں درج ہیں ،اور زیادہ تر توجہیہ و تاویل کے قابل ہیں زبان اعتراض کھ ولن ے کا کوئ ی حق نہیں ہے ۔

میں معذرت کرتا ہ و ں ک ہ ضمن ی باتو ں م یں کافی وقت لگ گیا کیونکہ "الکلام یجر الکلام" بات میں بات نکلتی ہے (مترجم )۔

اب پھ ر اصل مقصد ک ی طرف رجوع کرتا ہ و ں جو حد یث آپ نے نقل ک ی ہے اس ک ے بار ے م یں بحث کرتا ہ و ں اور د یکھ تا ہ و ں ک ہ آ یا یہ خبر قابل حل ہے یا نہیں ۔ بد یہی بات یہ ہے ک ہ اگر کوئ ی نیک اور منصف مزاج عالم اس طرح کی واحد اور مبھ م حد یثوں کو دیکھ تا ہے (جو ہ مار ی،آپ کی کتابوں م یں بکثرت ہیں) تو ہ زارو ں صح یح السند اور صریح خبروں ک ے پ یش نظر اگر یہ قابل اصلاح ہیں ،تو اصلاح کردیتا ہے ورن ہ رد کرد یتا ہے یا کم ازکم خاموشی ہی اختیار کر لیتا ہے ن ہ یا کہ ان کو تکف یر کاحربہ بنا کر اپن ے د ینی بھ ائ یوں پر حملہ ک رے۔

اب اس حدیث کے بار ے م یں چونکہ یہ ا ں تفسیر صافی موجود نہیں ہے ہ م اس ک ے سلسل ہ اسناد س ے ب ھی واقف نہیں ہیں ،نہ یہ معلوم ہے ک ہ کس مقام پر اور کس صورت س ے نقل ک یا ہے ، اور آ یا خود اس کے اوپر کوئ ی نوٹ د یا ہے یا نہیں ہ م کو غور کرنا چائیے کہ قا بل اصلاح ہے یا نہیں ؟ میں تو اپنی کمزور عقل کے مطابق اس حد یث کے لئ ے یہی سمجھ ر ہ ا ہ و ں ک ہ ان حضرات کا ارشاد یا تو متکلمین کے درم یان اس مشہ ور قائد ے پر محمول ہے ک ہ معلول کا پورا علم کو یا علّت کا پورا علم ہے ۔یعنی جب امام کو بحیثیت امام پہ چان ل یا گیا ۔ تو یقینا خدا کو بھی پہ چ ہ ان ل یا ۔

۷۳

یا مبالغے پر محمول ہے ج یسے کوئی شخص کہے ک ہ جو شخص وز یر اعظم کو پہ چان ل ے گو یا اس نے بادشا ہ کو پ ہ چان ل یا ۔

اور اس مبالغے ک ے لئ ے ا یک قرینہ سورہ توح ید ،ودیگر قرآنی آیات اور وہ اخبار کث یرہ میں جو خود حضرت امام حسین علیہ السلام اور دوسرے ائم ہ معصوم ین علیھ م السلام سے خالص توح ید کے اثبات م یں مروی ہیں لہ ذا ک ہ ا جاسکتا ہے ک ہ اس حد یث سے مراد یہ ہے ک ہ ام ام کی معرفت ان جلیل القدر عبادتوں م یں سے ہے جو جن و انس ک ی غرض خلقت ہیں اور ائمہ معصوم ین علیھ م السلام تے ماثور ز یارات جامعہ م یں "محال معرفۃ اللہ " ک ے یہی معنی ہیں ۔

ہ م ایک دوسرے طر یقے سے ب ھی اس کے معن ی کو بیان کرسکتے ہیں ،جیسا کہ محقق ین نے اس ی طرح کے امور م یں مطلب بیان کیا ہے ک ہ ہ ر فعل کا فاعل اور ہ ر بنا ک ے استحکام س ے پہ چانا جا سکتا ہے چنانچ ہ اس ک ی ہ ر بنا اور ہ ر اثر اسک ے حالات ک ے کس ی پہ لو ک ے لئ ے کامل دل یل ہے چونکہ رسو ل خدا(ص) اور آپ ک ی آل پاک صلوات اللہ عل یھ م اجمعین امکان کے سار ے بلند منازل پر فائز ت ھے ،ل ہ ذا ان س ے ز یادہ محکم اثر اور ان سے ز یادہ جامع مخلوق کوئی اور نہیں تھ ا ۔ نت یجہ یہ کہ معرفت ال ہی کے لئ ے ان س ے ز یادہ واضح اور جامع راستہ کوئ ی اور موجود نہ ت ھ ا ۔ ل ہ ذا محل معرفت خدا یعنی جن بندوں ک ے لئ ے معرفت ممکن ہے ،ان ک ے سوا کوئ ی دوسرا نہیں ہے ۔ اب جس شخص نس ان کو پ ہ چانا گو یا خدا کو پہ چانا ۔ چنانچ ہ ان حضرات ن ے خود فرما یا ۔ "بنا عرف الل ہ بنا عبد الل ہ " یعنی ہ مار ے ذر یعے سے خدا کو پ ہ چانا گ یا اور ہ مار ے ہی ذریعے سے اس ک ی عبادت کی گئی ہے ) یعنی حق تعالی کی معرفت وعبادت کا راستہ ہ مار ے قبض ہ م یں ہے خلاص ہ یہ ہے ک ہ خدا ئ ے تعال ی کی معرفت کے لئ ے واحد اور آخر ی ذریعہ یہی جلیل القدر خاندان ہے اگر بغ یر اس خانوادے ک ی رہ بر ی کے انسان کوئ ی راہ پ یدا کرے تو وادی ضلالت میں حیران و سرگرداں ہ وگا ۔ اور ب ہ ت دشوار ہے یہ بات کہ واد ی ضلالت و حیرت میں بھٹ کا ہ و شحص بغ یر ہ دا یت کے منزل سعادت تک پ ہ نچ جائ ے یہی وجہ ہے ک ہ فر یقین کی متفق علیہ حدیث میں وارد ہے ک ہ رسول اکرم(ص)ن ے فرما یا "یا ایھ ا النّاس انی تارک فیکم الثقلین ما ان اخذتم بھ ما لن تضلوا کتاب الل ہ عزو جل و عترت ی اھ ل ب یتی" (یعنی اے لوگو م یں تمہ ار ے درم یان دوچیزیں چھ و ڑ تا ہ و ں اگر ان دو نو ں س ے حاصل کروگ ے ( یعنی ضرورت کی باتیں) تو ہ رگز گمرا ہ ن ہ ہ وگ ے ،ا یک عزوجل کی کتاب اور ایک میری عترت اور اہ ل ب یت علھیم السلام ہیں)۔

حافظ :-کچھ اس ی حدیث پر انحصار نہیں ہے ک ہ آپ اس ک ی اصلاح کی کوشش کریں بلکہ آپ ک ی کتابوں وارد تمام دعاؤ ں ک ے اندر کفر وشرک ک ے نمون ے ملت ے ہیں جیسے بغیر ذات پرور دگار عالم یک طرف توجہ کئ ے ہ وئ ے امامو ں س ے حاجت یں طلب کرنا اور یہ غیرخدا ہے حاجت طلب کرنا خود ہی شرک کی ایک مکمل دلیل ہے ۔

خیرطلب :-آپ کی ذات سے یہ بات بہ ت بع ید تھی کہ اپنے اسلاف ک ی پیروی کرتے ہ وئ ے ا یسی فضول اور بے جا بات من ہ س ے نکال یں ،واقعی آپ بہ ت ب ے انصاف ی کرتے ہیں یا پھ ر اس پر توج ہ ن ہیں کرتے ہیں کہ ک یا فرما رہے

۷۴

ہیں یا بغیر شرک کے معن ی پر غور کئے ہ وئ ے ب یان کرتے ہیں میں متمنی ہ و ں پ ہ ل ے شرک اور مشرک ک ے معن ی بیان فرما یئے تا کہ حق یقت ظاہ ر ہ و ۔

شیعوں کی طرف شرک کی نسبت دینا

حافظ:- مطلب اتنا واضح ہے ک ہ م یرے خیال میں تشریح کی ضرورت ہی نہیں ، بدیہی چیز ہے ک ہ خدائ ے بزرگ کا اقرار کرت ے ہ وئ ے غ یر خدا کی طرف توجہ کرنا شرک ہے اور مشرک و ہ شخص ہے جو غ یر خدا کی طرف رخ کرے اور اس س ے حاجت طلب کر ے ۔

جماعت شیعہ جیسا کہ مشا ہ د ہ ہے کب ھی خدا کی طرف توجہ ن ہیں رکھ ت ی ہے اور بغ یر خدا کا نام لئے ہ وئ ے اپن ے سار ے مقاصد اپن ے امامو ں س ے عرض کرت ی ہے یہ ا ں تک کہ م یں دیکھ تا ہ و ں کہ ش یعہ فقراء گزرگاہ و ں اور دروازو ں ا ور دکانوں پر آت ے ہیں ، تو کہ ت ے ہیں ۔ یا علی ، یا امام حسین یا امام رضائے غر یب یا حضرت عباس اور ایک مرتبہ ب ھی نہیں سنا گیا کہ یا اللہ ک ہیں ۔یہ باتیں خود شرک کی دلیل ہیں کیونکہ جماعت شیعہ کبھی خدا کی طرف توجہ ن ہیں کرتی بلکہ اپن ی تمام تر توجہ غ یر خدا سے وابست ہ رک ھ ت ی ہے ۔

خیر طلب:- میری سمجھ م یں نہیں آتا کہ آپ ک ی اس طرح باتوں کا ک یا مقصد سمجھ و ں ،آ یا ان کو ہٹ د ھ رم ی کی دلیل سمجھ و ں ک ہ قصدا تجا ہ ل عارفان ہ کر ر ہے ہیں یا حقائق کی طرف توجہ ن ہ کرن ے کا نت یجہ ہے ؟ م یں امید کرتا ہ و ں ک ہ آپ ہٹ د ھ رم ی کرنے والو ں م یں سے ن ہ ہ و ں گ ے ۔

چونکہ ایک عالم باعمل کے شرائط م یں سے انصاف ب ھی ہے ل ہ ذا جو شخص حق س ے واقف ہ و اور اپن ی مطلب برآوری کے لئ ے حق کش ی کرے و ہ انصاف س ے دور ہے اور جس ک ے پاس انصاف ن ہیں وہ عالم بلا عمل ہے ، حد یث رسول میں ارشاد ہے "العالم بلا عمل کا الشجر بلا ثمر"( یعنی عالم بے عمل بغ یر میوے کے درخت ک ی مثل ہے )آپ جو بار بار اپن ے جملو ں م یں شرک اور مشرک کے الفاظ زبان پر جار ی کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اپن ے لغو اور ب ے مغز دلائل س ے موحد ش یعوں کو مشرک ثابت کریں تو ممکن ہے ک ہ آپ ک ے ب یانات بے خبر سن ی عوام پر اثر انداز ہ و جائ یں اور وہ ش یعوں کو مشرک سمجھ ل یں (جیسا کہ اب تک ان پر غلط اثر پ ڑ تا ر ہ ا ہے ۔ ) ل یکن یہ محترم حاضرین جلسہ ش یعہ حضرات آپ کی تقریر سے سخت ناراض اور ناخوش ہیں اور آپ کو ایک مطلب پرست اور افترا پرداز عالم سمجھ ر ہے ہیں کیونکہ یہ اپنے عقائ د سے واقف ہیں اورسمجھ ت ے ہیں کہ آپ ن ے ان الزامات م یں سے ا یک بھی ان کے اندر موجود ن ہیں ہے ۔ ل ہ ذا اپن ے الفاظ اور ب یانات میں ایسے جملے ادا ن ہ کرن ے ک ی کوشش فرمائیے کہ ان پر سچ ی بات واضح ہ و اور ان ک ے دل آپ ک ی طرف کشش محسوس کریں۔

۷۵

میں مجبو ر ہ و ں ک ہ آپ اجازت د یں تو حاضر و غائب بردران اہ ل سنت ک ے ساد ہ ذ ہ نو ں کو روشن کرن ے ک ے لئ ے وقت ک ے لحاظ س ے مختصر طور پر شرک اور مشرک ک ے بار ے م یں اسلام کے بزرگ محقق ین حکماء وفقہ اء اور علماء ج یسے علامہ حل ی ، محقق طوسی ،علامہ مجلس ی علیھ م الرحمۃ جو اکابر و مفاخر علمائے ش یعہ میں سے ہیں ،اور دوسرے حکماء اورصاحبان تحق یق جیسے صدر المتالہین شیرازی ،ملا نوروز علی طالقانی ،ملا ہ اد ی سبزواری اور جناب صدر کے دونو با عظمت خوش مرحوم ف یض کاشانی و فیاض لاہیجانی رحھ م الل ہ کا آ یات قرآنی اور ارشادات ائمہ طا ہرین علیھ م السلام کی روشنی میں جو کچھ عق یدہ ہے و ہ آپ ک ے سامن ے پ یش کروں تاک ہ حاضر ین جلسہ یہ نہ سمج ھ ل یں کہ شرک ک ے معن ی وہی ہیں جو آپ مغالطہ د ے کر ب یان کررہے ہیں ۔

حافظ:- غصے ک ے سات ھ فرمائ یے ۔

نواب :-قبلہ اس جلس ہ ک ی بنا چونکہ ب ے سواد لوگو ں ک ے سمج ھ ن ے ک ے لئ ے ہے ل ہ ذا پ ہ ل ے ب ھی عرض کر چکا ہ و ں ، متمن ی ہ و ں ک ہ اپن ے ارشادات م یں انتہ ائ ی سادگی کا لحاظ رکھ ئ ے آپ ک ی نظر صرف حضرات علماء اور ان کی عقل کے مطابق جواب د ینے پر نہ ر ہ نا چائ یے بلکہ ا ہ ل مجلس کی اکثیریت با الخصوص ہ ند اور پ یشاور کے باشندو ں ک ی رعایت ضروری ہے جو ا ہ ل زبان ن ہیں ہے گزارش ہے ک ہ پ یچیدہ اور مشکل مطالب بیان نہ فرمائ یے گا ۔

خیر طلب :- جناب نواب صاحب آپ کی یاد دھ ان یاں میرے پیش نظر ہیں ،اور کچھ اس ی صحبت پر منحصر نہیں ہے بلک ہ ج یسا کہ پ ہ ل ے عرض کرچکا ہ و ں م یری عادت ہی یہ ہے ک ہ جس مجمع م یں کچھ عوام اور ب ے خبر افراد موجود ہ وت ے ہیں وہ ا ں قطعا اپنا روئ ے سخن خواص پر موقو ف نہیں رکھ تا ہ و ں ،اس لئ ے ک ہ پ یغمبروں کی بعثت اور کتابوں ک ے نزول ک ی غرض بے خبر لوگو ں کو متنب ہ کرنا ت ھ ا اور یہ نظریہ ہ ر گز عمل ی جامہ ن ہیں پہ ن سکتا جب تک حقائق جس طرح س ے آپ ن ے فرما یا سادہ طور پر اور قوم ک ی زبان میں بیان نہ ہ و ں چنانچ ہ حد یث میں رسول اللہ (ص) کا ارشاد ہے ک ہ "نحن معاشر الا نب یاء نکلم النّاس علی قدر عقولھ م"( یعنی ہ م پ یغمبروں کی جماعت لوگوں س ے ان ک ے عقلو ں ک ے مطابق گفتگو کرت ی ہے ) یقینا آپ کی خواہ ش اصول ی اور برابر میرے پیش نظر ہے ۔ ام ید کرتا ہ و ں ک ہ آپ ک ی منشاء کے مطابق پ ہ ل ے س ے زیادہ عمل کرسکوں گا اور متمن ی ہ و ں ک ہ جس مقام پر س ہ وا غفلت ہ وجائ ے و ہ ا ں آپ حضرات توج ہ فرماد یجئے گا ۔

شرک کے اقسام

خیر طلب :- جہ ا ں تک آ یات قرآنی کے خلاص ے ، اخبار کث یرہ اور محققین علماء کی تحقیقات کا ملہ س ے اور بالخصوص ان ا ہ م تشر یحات سے جو صدر المتال ہین اور فاضل طالقانی نے فرمائ ی ہیں معلوم ہ وتا ہے شرک ک ی دو قسمیں ہیں اور دوسرے

۷۶

اقسام شرک ان ہیں دونوں قسمو ں م یں پوشیدہ ہیں ۔ اول جل ی اور آشکار ،دوسرے شرک خف ی و پو شیدہ ۔

شرک جلی

شرک در ذات

شرک جلی کا مطلب کا مطلب یہ ہے ک ہ آدم ی ذات یا صفات یا افعال یا عبادت میں خدائے تعال ی کا کوئی شریک قراردے۔ شرک در ذات یہ ہے ک ہ حق تعال ی کے مرتب ہ الو ہیت اور ذات میں شریک قرار دے اور زبان س ے اس کا اعتراف کر ے ج یسے (بت پرست)اور مجوس جو اصل ومبداء،نوروظلمت ،یزداں اوراہ رمن ک ے قائل ہیں اور نصاری جو اقانیم ثلاثہ ک ے قائل ہ وئ ے اور ذات خداوند ی کو تین اجزا یعنی باپ بیٹ ا اور روح القدس میں تقسیم کیا ،ان میں سے بعض کا عق یدہ یہ ہے ک ہ روح القدس ک ے عوض مر یم ہیں۔ ان ت ینوں میں سے ہ ر ا یک کے لئ ے ا یک خاصیت کے معتقد ہ وئ ے جو باق ی دو میں موجود نہیں ہے ۔ اور جب تک یہ تینوں اکھٹ ا ن ہ ہ و ں ذات خداوند ی کی حقیقت مکمل نہیں ہوتی جیسا کہ سور ہ نمبر 5(مائد ہ )آ یت نمبر77 میں خدا نے ان ک ے قول ک ی تردید اور اپنی وحدانیت کا اثبات فرمایا ہے "لقد کفر الذین قالوا ان الله ثالث ثلاثة وما من اله الا اله واحد" ( یعنی یقینا وہ لوگ کافر ہ وگئ ے جن ہ و ں ن ے خدا کو ت ین میں سے ا یک جانا (یعنی تین خدا کے قائل ہ وئ ے باپ ب یٹ ا ،روح القدس) حالانکہ سوائ ے خدا ئ ے واحد ک ے اور کوئ ی خدا نہیں)۔

عقائد نصاری

اس آیہ مبارکہ م یں نصاری کے فرقو ں م یں نسطوریہ ،ملکائیہ اور یعقوبیہ کا بیان کیا گیا ہے جن ہ و ں ن ے ثنو یہ اور بت پرستوں س ے یہ عقیدہ حاصل کیا (کتاب الوثنیہ فی الدیانیۃ النصرانیۃ ۔ مؤلف تنیر بیرونی کی طرف رجوع کیا جائے ) خلاص ہ یہ کہ نصار ی ثنویہ اور مجوس کی طرح مشرک ہیں کیونکہ اقانیم ثلاثہ ک ے قائل ہیں اس میں سے ز یادہ واضح الفاظ میں وہ لوگ ک ہ ت ے ہیں کہ الو ہیت خدا،مریم اور عیسی کے درم یان مشترک ہے ان م یں سے بعض کا عق یدہ ہے ک ہ خدا ،ع یسی اور روح میں سے ہ ر ا یک خدا ہے ۔ اور الل ہ جل جلا ل ہ ان ت ین میں سے ایک ہے ،و ہ ک ہ ت ے ہیں کہ پ ہ ل ے س ے خدا ت ین تھے ۔ اقنوم الاب ، اقنوم الابن ،روح القدس(سر یانی زبان میں اقنوم کے معن ی وجود ہ ست ی ہیں) اس کے بعد یہ تینوں اقنوم ایک ہ وگئ ے اور و ہ مس یح ہیں اس میں کوئی شبہ ن ہیں کہ عقل ی ،نقلی دلائل سے دلائل اتحاد کا باطل ہ و نا ثابت ہے ۔ اور اس معن ی سے اتحاد حق یقی محال ہے حت ی کہ غ یر ذات واجب الوجود میں بھی اسی وجہ س ے آخرت م یں فرماتا ہے ۔ "وما من ال ہ الا ال ہ واحد" ( یعنی کوئی ایسی ذات واجب جو عبادت کی مستحق ہ و سواخدا ئ ے

۷۷

یکتا کے موجود ن ہیں ہے جو وحدان یت محض سے موصوف ہے ۔ شرکت کے و ہ م س ے بالاتر ہے اور سار ے ممکن موجودات کا مبداء و ہی ذات وحدہ لا شر یک ہے ۔

شرک درصفات

شرک درصفات یہ ہے ک ہ خدائ ے تعال ی کے صفات ج یسے حکمت ،قدرت اورحیات وغیرہ کو قدیم لیکن زائد ذات سمجھیں جیسے اشعری جو ابو الحسن علی ابن اسماعیل اشعری بصری کے اصحاب م یں جیسا کہ آپ ک ے اکابر علماء مثلا عل ی ابن احمد بن حزم الظاہ ر ی نے کتاب فصل جزء چ ہ ارم صفحہ نمبر 207 میں اور مشہ ور فلسف ی ابن رشد محمد بن احمد اندلسی نے کتاب "الکشف من منا ہ ج الادق ۃ فی عقائد الملۃ"صفحہ نمبر 58 م یں نقل کیا ہے ک ہ یہ لوگ معتقد ہیں کہ الل ہ ک ے صفات زائد بر ذات اور قد یم ہیں ۔ چنانچ ہ جو شخص صفات خداوند ی کو حقیقتا اس کی ذات اجل پرزائد سمجھے یعنی اس کو صفت عالمیت ،وہ مشترک ہے ا س لئے ک ہ اس ن ے قدم م یں اس کے لئ ے کفو وقر ین اور ہ مسر ثابت ک یا حالانکہ سوا حق تعال ی کی ذات ازلی کے کائنات م یں کسی قدیم کا وجود نہیں ہے اور صفات خداوند ی اس کی عین ذات ہیں جیسے شیرینی اور چکنا ہٹ الگ ک ی کی چیزیں نہیں ہیں جو شکر اور روغن کی ذات پر وارد ہ وئ ی ہ و ں بلک ہ جس وقت خدا ن ے شکر اور روغن کو پ ید کیا ، تو پھ ر و ہ شکر اور روغن ہی نہ ر ہیں گے ۔ "تلک الامثال نضرب ھ ا للناس وما یعقلھ ا الا العالمون" یہ مثالیں ذہ نو ں کو ملتفت کرن ے ک ے لئے ہیں تاکہ ہ م جس وقت بو ل یں خدا یعنی عالم ،حی ،قادر، حکیم، وغیرہ تو یہ سمجھ ل یں کہ صفات خداوند ی اس کی ذات پر زائد نہیں ہیں۔

شرک در افعال

افعال میں شرک یہ ہے ک ہ خدا کو حق یقی طو رپر متوحد اور متفرد با لذات نہ سمج ھے ،اس صورت س ے ک ہ مخلوقات م یں سے کس ی ایک فرد یا افراد کو خدا کے افعال اور تدب یروں میں مؤثر یا مؤثر کا جزء سجھے یا یہ کہ خلقت ک ے بعد امور کو مخلوق ک ے سپرد جان ے جس ک ے یہ ود ی قائل تھے ک ہ خدان ے مخلوقات کو خلق ک یا اس کے بعد امور ک ی تدبیر سے بازر ہ ا ۔

۷۸

سارا کام خلق ک ے ذم ہ چ ھ و ڑ د یا اور خود علیحدگی اختیار کر لی ۔

چنانچہ ان لوگوں ک ی مذمت میں سورہ نمبر 5 (مائد ہ )آ یت نمبر26 میں ارشاد ہے "وقالت ال یھ ود یداللہ مغلولۃ غلت ایدیھ م ولعنوا بما قالوا بل یداہ مبسوطتان ینفق کیف یشاء"(یعنی یہ ود یوں نے ک ہ ا ک ہ خدا ک ے ہ ات ھ بند ھے ہ وئ ے ہیں( اب وہ خلقت م یں کوئی تغیر نہیں کرے گا او ر نہ کوئ ی چیز پید کرے گا اس ج ھ و ٹی بات کی وجہ س ے )ان ک ے ہ ات ھ بند ھ گئ ے اور و ہ خدا ک ی لعنت میں گرفتار ہ وئ ے ۔ بلک ہ خدا ک ے دونو ں ہ ات ھ ( یعنی اس کی قدرت اوررحمت)کھ ل ے ہ وئ ے ہیں وہ جس طرح چا ہ تا ہے نفق ہ د یتا ہے )

اور مشرکین غلات جن کو مفوضہ ب ھی کہ ت ے ہیں قائل ہیں کہ خدا ن ے امامو ں کو امور تفویض کردیئے ۔ و ہی پیدا کرتے ہیں اور روزی دیتے ہیں ۔یہ بدیہی چیزیں ہیں کہ جو شخص افعال خداوند ی میں کسی طریقے سے کس ی کودخیل سمجھے ،جز مؤثر ک ی صورت سے یا انبیاء یا امتوں یا اماموں کو تفویض امور کی حیثیت سے قطعا شرک ہے ۔

شرک در عبادت

اور شرک در عبادت یہ ہے ک ہ عبادت ک ے موقع پر ظا ہ ر ی توجہ یا دل کی نیت غیر حق کی طرف رکھے مثلا نماز م یں خلق کی طرف توجہ کر ے یا اگر نذر کرتا ہے تو خلق ک ے لئ ے کر ے اور اس طرح عبادتو ں م یں نیت کی ضرورت ہے اگر عمل ک ے وقت ن یت غیر خدا کے لئ ے ہ و تو و ہ مشرک ہے کیونکہ سورہ نمبر81(ک ہ ف)آ یت نمبر110 میں صریحی طور پر اس طرح کے عمل (شرک )س ے منع ک یا گیا ہے ۔ قول ہ "فمن کان یرجو لقاآربہ فل یعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا "( یعنی جو شخص لقائے رحمت پروردگار کا ام ید وار ہے اس کو چائ یے کہ و ہ ن یکو کار بنے ( یعنی پاک اور پسندیدہ عمل کرے )اور اپن ے خدا ک ی عبادت میں ہ رگز کس ی کو اس کا شریک نہ بنائ ے ۔

عمل اور عبادت کے وقت چائ یے ک ہ غیر خدا کی طرف توجہ ن ہ کر ے ،پ یغمبر یا امام یا مرشد کی صورت نظر کے سامن ے ن ہ رک ھے اس طر یقے سے ک ہ نماز ،روز ہ ، حج، خمس، زکا ۃ اور نذر وغیرہ ہ ر قسم ک ی واجب یامستحب عبادت کا ظاہ ر عمل خدا ک ے لئ ے ہ و ل یکن دل اور باطن میں توجہ غ یر خدا کی طرف رہ ے یعنی شہ رت اور لوگو ں کو اپن ی طرف مائل کرنے ک ے لئ ے یا کسی اور مقصد سے ۔

اس لئے ک ہ عمل م یں ریا حدیث کی زبان میں شرک اصغر کہ ا گ یا ہے جو ہ ر عامل کو برباد کرن ے والا ہے چنان چہ

۷۹

حضرت رسول(ص) الل ہ خدا س ے منقول ہے ک ہ "اتقوا الشرک الاصغر" یعنی پرہیز کرو چھ و ٹے شرک س ے لوگو ں ن ے عرض ک یا یا رسول اللہ چ ھ و ٹ ا شرک کون ہے ؟فرما یا "الریاء والسمعۃ"ریا اور سمعہ ( یعنی دکھ ان ے اور سنان ے ک ے لئ ے عبادت کرنا (مترجم) )شرک اصغر ہے ۔

نیزآنحضرت (ص)سے مرو ی ہے ک ہ فرما یا " ان اخوف ما اخاف علیکم الشرک الخفی ایا کم والشرک السر فان الشرک اخفی فی امتی من دبیب النمل علی الصفا فی اللیلة الظلماء" (یعنی بد ترین چیز جس سے م یں تمھ ار ے لئ ے ڈ رتا ہ و ں و ہ پوش یدہ شرک ہے ۔ ل ہ ذا مخف ی شرک سے دور ر ہ و ک یونکہ میری امت میں شرک اندھیری رات میں سخت پتھ ر پر چون ٹی کے ر ینگنے سے ب ھی زیادہ پو شیدہ ہے پ ھ ر فرما یا جو شخص ریا کے سات ھ نمازپ ڑھے و ہ مشرک ہے ۔ جو شخص ر یا سے روز ہ رک ھے یا ریا سے صدق ہ د ے یا ریا سے حج کر ے یا ریا سے غلام آزاد ک ے و ہ ب ھی شرک ہ وگا ۔ اور یہ آخری قسم چونکہ قلب ی امور سے متعلق ہے ل ہ ذا شرک خف ی میں شامل کی گئی ہے ۔

حافظ:- ہ م آپ ہی کے ب یان سے سند ل ے ر ہے ہیں کیونکہ آپ نے فرما یا ہے ک ہ اگر کوئ ی شخص خلق کے لئ ے نذر کر ے تو و ہ مشرک ہے ل ہ ذا ش یعہ بھی مشرک ہیں ،اس لئے ک ہ ہ م یشہ امام اور امام زادے ک ے لئ ے نذر کرت ے ہیں اور چونکہ یہ نذر غیر خدا کے لئ ے ہے ل ہ ذا یقینا شرک ہے ۔

نذر کے بار ے م یں

خیرطلب :- عقل اور علم منطق کا قاعدہ یہ ہے ک ہ اگر کس ی قوم وملت کے عقائد م یں فیصلہ کرنا چائیں تو جاہ ل اور ب ے خبر لوگو ں ک ے اقوال یا افعال پر فیصلہ نہیں کیا کرتے بلک ہ اس قوم ک ے قوان ین اور ان کی معتبر کتابوں پر پورا تبصر ہ کرت ے ہیں ۔

حضرات محترم اگر آپ شیعوں کے عقائد ک ی تہ تک پ ہ نچنا چا ہ ت ے ہیں تو بے خبر ش یعہ عوام کے اقوال وافعال پر توج ہ ن ہ کرنا چا ہ ئ یے کہ اگر ب ے پ ڑھے لک ھے فق یروں نے راستو ں م یں یا علی یا امام رضا کی صدا لگادی تو آپ ان الفاظ کو ان کے یا تمام شیعوں کے شرک ک ی دلیل قرار دیں یا اگر ایک جاہ ل محض نا واقف یت میں امام یا امام زادے ک ے لئ ے نذر کر ے تو آپ اس کو اپن ے مقابل کو ز یر کرنے ک ے لئ ے حرب ہ بنا ل یں ۔ اس لئ ے ک ہ جا ہ ل اور لا ابال ی افراد تو ہ ر قوم ک ے عوام م یں پیدا ہ وت ے ہیں ۔

البتہ آپ کی نیت خالص ہے ،ب ہ ان ہ ساز ی اور عیب جوئی کے درپ ے ن ہیں ہیں اور عقلمندی کے سات ھ سمج ھ نا چا ہ ت ے ہیں تو شیعوں کی فقہی کتابوں ک ی طرف رجوع کیجئیے جو عام طور پر دستیاب ہ وت ی ہیں اور ہ ر کتب

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369