پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310162 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

نوع بشر کے ہادی و رہنما تھے۔ نوح(ع) شیخ الانبیاء ابراہیم (ع) خلیل الرحمن، موسی (ع) کلیم اﷲ، عیسی(ع) روح اﷲ، اور پیغمبر آخرالزمان خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جن کا دین اور شریعت تا روز قیامت باقی اور برقرار ہے۔

جماعت شیعہ کا اعتقاد ہے کہ : "حلال محمّد حلال إلى يوم القيامة، و حرامه حرام إلى يوم القيامة و شريعته مستمرة الی يوم الق ي م ه "

( یعن ی حلال محمد(ص) حلال ہے روز قیامت تک اور حرام آں حضرت(ص) حرام ہے روز قیامت تک اور آپ کی شریعت باقی رہنے والی ہے روز قیامت تک۔)

خدائے تعالی نے سارے نیک و بد اعمال کے لیے ایک جزا اور سزا معین فرمائی ہے جو بہشت یا دوزخ میں بندوں کو دی جائے گی۔

اعمال کی سزا و جزا کے لیے جو دن مقرر ہوا ہے اس کو یوم الجزاء کہتے ہیں کیونکہ دنیا کی عمر ختم ہونے کے بعد خدا اولین و آخرین میں سے تمام نیک و بد مخلوقات کو اسی بدن عںصری جسمانی کیساتھ زندہ کر کے صحرائے محشر میں جمع کرے گا اور حساب و کتاب اور جانچ پڑتال کے بعد ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا۔

چنانچہ آسمانی کتابوں میں بالعموم اور توریت و انجیل و قرآن مجید میں بالخصوص خبر دی گئی ہے اور ہماری ثابت و محکم اور محقق سند یہی قرآن مجید ہے جو بغیر تحریف و ترمیم کے زمانہ رسول(ص) سے متواتر سند کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے ہم اس کے احکام پر حامل ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ عنداﷲ ماجور ہوں گے ہم ان تمام احکام واجبہ کے معتقد ہیں جو اس کتاب مقدس میں درج ہیں جیسے نماز روزہ، زکوة ، خمس اور جہاد وغیرہ۔

اسی طرح جو واجبات و فروعات اور مستحبات و ہدایات رسول خدا(ص) کے ذریعہ ہم کو پہنچے ہیں، ان کے معترف ہیں اور توفیقات الہی سے ان پر عمل کرنے کا عزم بالجزم رکھتے ہیں اور جملہ معاصی اور گناہاں کبیرہ وصغیرہ سے جیسے شراب نوشی، قمار بازی ، زنا ، لواط، سود خوری قتل اور ظلم وغیرہ جن سے قرآن مجید اور احادیث و اخبار میں منع کیا گیا ہے پرہیز کرتے ہیں۔

ہم سب شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس طرح خدائی احکام و ہدایات کا ایک لانے والا ہوتا ہے جس کو خدا نے منتخب کیا ہو اور آدمیوں کے درمیان پہنچایا ہو اسی طرح وصی و خلیفہ اور دین کا محافظ بھی خدا کی طرف سے منتخب ہونا چاہئیے جو پیغمبر (ص) کے ذریعہ امت میں پہچنوایا جائے چنانچہ سارے انبیاء نے خدائے تعالی کے حکم سے اپنے ؟؟؟؟؟ تعارف کرایا اور پیغمبر خاتم (ص) نے بھی جو ان سب سے زیادہ اکمل و افضل تھے فساد و اختلاف سے بچانے کے لیے امت کو اس حال پر نہیں چھوڑا بلکہ سنت جاریہ کے مطابق پروردگار کے حکم سے امت والوں کے درمیان اپنے اوصیاء کا اعلان فرما دیا۔

رسول اکرم(ص) کے ان منصوص اوصیاء کی تعداد جو خدا کی طرف سے معین ہوئے ، بارہ ہے۔

۶۱

یعنی ان میں اول سید الاوصیا علی ابن ابی طالب(ع) دوسرے حسن(ع) تیسرے حسین(ع) چوتھے علی زین العابدین(ع) پانچویں محمد باقر(ع) چھٹے جعفر صادق(ع) ساتویں موسی کاظم (ع) آٹھویں علی رضا(ع) نویں محمد تقی (ع) دسویں علی نقی(ع) گیارہویں حسن عسکری(ع) اور بارہویں محمد مہدی(عج) جو حجتہ قائم ہیں آپ نگاہوں سے غائب ہیں لیکن دنیا موجود ہیں اور اﷲ ان کے ذریعہ زمین کو اس طرح عدل و داد سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی۔(مترجم)

شیعہ امامیہ کا اعتقاد یہ ہے کہ یہ بارہ امام برحق خدا کی جانب سے پیغمبر(ص) کے ذریعہ ہم کو پہنچنوائے گئے ہیں جن سے بارہویں امام نے واضح اور متواتر اخبار کی بنا پر جو آپ کے علماء سے بھی بکثرت منقول ہیں۔ غیبت اختیار فرمائی جیسا کہ دوسرے انبیاء و اوصیاء کے زمانوں میں بھی غیبت واقع ہوتی رہی ہے۔ اس مقدس وجود کو خدا نے رفع ظلم اور اشاعت عدل کے لیے محفوظ رکھا ہے۔ یہ وہ مصلح کل ہے کہ سارے اہل عالم ایسے مصالح کے ظہور کا انتظار کر رہے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ جماعت شیعہ ان جملہ احکام کی جو قرآن مجید میں موجود ہیں اور ان اخبار صحیحہ کی معتقد ہے جو معتبر راویوں کے ذریعہ اہل بیت طہارت(ع) و عترت رسول(ص) اور آں حضرت کے نیک سیرت اور مومن اصحاب خاص کے سلسلے سے اس کو پہنچے ہیں اول باب طہارت سے لےکر آخر باب دیات تک میں خدائے تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھ کو اس کی توفیق عطا فرمائی کہ ماں باپ کی تقلید میں نہیں بلکہ تحقیق و منطق اور برہان کے ذریعہ ان مقدس عقائد کا معتقد ہوں اور اس دین و مذہب پر فخر کرتا ہوں جو شخص اس دین و مذہب میں کلام رکھتا ہو --- شک و شبہ اور فریب میں مبتلا ہو تو میں خدا کی مدد سے شبہات کو دور کرنے و حقائق کو ثابت کرنے کے لیے -- اتنےمیں موذن کی آواز بلند ہوئی اور نماز کا وقت آگیا نماز سے فراغت اور چائے نوشی کے بعد جناب حافظ صاحب نے سلسلہ کلام شروع کیا۔)

حافظ : قبلہ صاحب میں بہت ممنون ہوا کہ آپ نے شیعہ فرقوں کے حالات کی تشریح فرمائی لیکن آپ کی کتب اخبار و ادعیہ میں ایسے مطالب وارد ہوئے ہیں جو بظاہر آپ کی گفتگو کے بر خلاف خاص طور پر اثناء عشری شیعوں کے کفر و الحاد کو ثابت کرتے ہیں۔

۶۲

خیر طلب : بہتر ہے کہ وہ اخبار و ادعیہ اور اشکال کے مواقع بیان فرمائیے تاکہ حق ظاہر ہو جائے۔

حدیث معرفت پر اعتراض

حافظ :- میں نے ب ہ ت س ی حدیثیں دیکھی ہیں لیکن جو اس وقت پیش نظر ہے ک ہ و ہ یہ ہے ک ہ تفس یر صافی میں جو آپ کے ا یک جلیل القدر عالم اور مفسر فیض کاشانی کی لکھی ہ وئ ی ہے ۔ ا یک حدیث نقل کرتے ہیں کہ ا یک روز حضرت حسین شہید کربلا اپنے اصحاب ک ے سامن ے ک ھڑے ہ وئ ے اور فرما یا ۔ "ا یھ ا الناس ان اللہ تعال ی جل ذکرہ ما خلق العباد الا ل یعرفوہ فاذا عرفوہ عبدو ہ واذا عبدو ہ استغنو بعبا دت ہ عن عباد ۃ من سواہ قال رجل من اصحاب ہ باب ی انت واخی یابن رسول اللہ فما معرف ۃ اللہ ؟قال معرف ۃ اھ ل کل زمان امام ھ م الذ ی تجب علیھ م طاعتہ " ۔ ( یعنی اے لوگو خداوند عالم جلّ ذکرہ ن ے خلق ن ہیں کیا ہے بندو ں کو ل یکن اپنی معرفت کے لئ ے اور جب بندو ں ن ے اس کو پ ہ چان ل یا تو اس کی عبادت کی اور جب اس کی عبادت کی تو اس کی عبادت کی وجہ س ے اس ک ے ما سوا ک ی عبادت سے مستغن ی ہ وگئ ے آپ کے اصحاب م یں سے ا یک شخص نے عرض ک یا کہ م یرے باپ بھ ائ ی آپ پر فدا ہ و ں ا ے فرزند رسول (ص) ،معرفت ال ہی کی حقیقت کیا ہے ؟ فرما یا ہ ر زمان ے والو ں کا اپن ے اس امام کو پ ہ چاننا جس ک ی اطاعت ان پر فرض ہے ۔

اعترض کا جواب

خیر طلب:- سب سے پ ہ ل ے تو حد یث کے سلسل ہ اسناد ک ی طرف توجہ کرنا چائ یے کہ آ یا یہ حدیث صحیح ہے یا موثق ومعتبر ،حسن ہے یا ضعیف ،قابل توجہ ہے یا مردود ؟ اگر فرض کر لیا جائے ک ہ صح یح ہے تو توح ید کے بار ے م یں آیات قرآن مجید اورآل اطہ ار وائم ہ ہ د ی علیھ م السلام کے سلسل ے میں احادیث متواترہ ک ے نصوص صر یحہ کو خبر واحد کی وجہ س ے اپن ے ک ھ ل ے ہ وئ ے مطلب س ے پ ھیرا تو نہیں جاسکتا ۔

آپ توحید کے بار ے ان سار ے اخباروآحاد یث ،ائمہ د ین کے ارشادات اور ان ک ے مناظرو ں جو ہ مار ے بزرگان د ین اور ائمہ اثناعشر ن ے مناسب موقعو ں پر مادّ یین اور دہ ر یین سے فرمائ ے ہیں اور خالص توحید کو ثابت فرمایا ہے ک یونکہ نہیں دیکھ ت ے اور ان پر پرتوجہ ک یوں نہیں دیکھ ت ے ؟ اور ان پر توجہ ک یوں نہیں فرماتے ؟ درآنحال یکہ شیعوں کی تمام خاص خاص

۶۳

تفسریں اور کتب اخبار جیسے توحید مفضل وتو حید صدوق اوربحار الانوار علامہ مجلس ی علیہ الرحمۃ کی کتاب توحید اور دیگر بڑے ب ڑے علمائ ے ش یعہ امامیہ کی کتب توحید یہ اہ ل ب یت طاہ ر ین(ص)کی متواتر حدیثوں سے چ ھ لک ر ہی ہیں ۔

آپ چوتھی صدی کے مفاخر علمائ ے ش یعہ میں سے ابو عبد الل ہ محمد بن نعمان معروف ب ہ "مف ید" متوفی سنہ ۴۱۳ ھ کا رسال ہ "النّکت الاعتقاد یۃ"اور انہیں بزرگوار کی تالیف "اوائل المقالات فی المذاھ ب والمختاران"کا مطالع ہ ک یوں نہیں فرماتے ن یز ہ مار ے ش یخ اجل ابو منصور احمد بن علی ابن ابی طالب الطبرسی کی کتاب "احتجاج"کی طرف کیوں رجوع نہیں کرتے تاک ہ آپ کو پت ہ چل ے ک ہ امام برحق حضرت امام رضا عل یہ السلام نے مخالف ین ومنکرین توحید کے مقابل ے م یں کس طرح خالص توحید کو ثابت فرمایا ہے ن ہ ک ہ آپ اس ی فکر میں پڑے ہ وئ ے ہیں کہ کچ ھ واحدو متشابہ خبر یں ڈھ ون ڈ نکال یں اور انہیں کا سہ ارا ل ے کر ش یعوں پر لعن طعن کریں ۔

کیا خوب کہ تا ہے شاعر عرب :

اتبصر فی العین منی القذی ----- وفی عینک الجذع لاتبصر

(یعنی آیا میری آنکھ کاتنکا ڈھ ون ڈھ ت ے ہ و اور اپن ی آنکھ کا ش ہ ت یر نہیں دیکھ ت ے ؟کنایہ یہ ہے ک ہ م یرا چھ و ٹ ا ع یب دیکھ ت ے ہ و اور اپنا ب ڑ ا ع یب نظر نہیں آتا یہ مثل اس لئے پ یش کر رہ ا ہ و ں ک ہ آپ اپن ی کتابوں پر غور ن ہیں فرماتے تاک ہ ان ک ے اندر ا یسے خرافات ومو ہ وما ت بلکہ کفر یات نظر آئیں ۔ " یضحک بہ الثکل ی" (یعنی جس پر پسر مردہ عورت ب ھی ہ نس د ے :مترجم) اورپ ھ ر شرم ک ی وجہ س ے سر ن ہ ا ٹھ ائ یں یہ ا ں تک کہ آپ ک ی معتبر صحاح کے اندر ب ھی اس قدر مضحکہ خ یز روایتیں منقول ہیں کہ عقل مب ہ وت اور ح یران ہ وجات ی ہے ۔

حافظ:- مضحکہ خ یز در اصل آپ کے الفاظ ہیں کہ ا یسی کتابوں پر ع یب لگارہے ہیں جو عظمت وبزرگی میں اپنا جواب نہیں رکھ ت ی ہیں خصوصیت کیساتھ صحیح بخاری اور صحیح مسلم جن کے بار ے م یں عام طور سے ہ مار ے علماء کا اتفاق ہے ک ہ ان ک ے اندر جتن ی حدیثیں ہیں وہ سب قطعی طور پر صحیح ہیں ۔ اوراگر کوئ ی شخص ان دونوں کتابو ں کا اوران ک ے اندر مندرج ہ اخبار کا انکار کر ے اور ان کو غلط بتائ ے تو درحق یقت اس نے اصل مذ ھ ب سنت وجماعت کا انکار ک یا ،کیونکہ قرآن مجید کے بعد ا ہ ل سنت ک ے اعتبار کا دارومدار ان ہیں دونوں بزرگ کتابو ں پر ہے جیسا کہ اگر آپ ک ی نظرسے گزرا ہ و تو ابن حجر مک ی نے صواعق محرق ہ ک ے شروع م یں لکھ ا ہے ۔ "الفصل ف ی بیان کیفیتھ ا رای کیفیۃ خلافۃ ابی بکر روی الشیخان البخاری ومسلم فی صحیحھ ا الذین ھ ما اصح الکتب بعد القرآن اجماع من یعتد بہ "(فصل اس ک یفیت کے ب یان میں (یعنی کیفیت خلافت ابی بکر)شیخین یعنی بخاری ومسلم نے اپن ی صحیحین میں جو با اجماع امت قرآن کے بعد تمام کتابو ں م یں سے سب س ے ز یادہ صحیح ہیں کیونکہ امت نے ان ک ی قبولیت پر اجماع کیا ہے

۶۴

اور جس چ یز پر امت کا اجماع ہ و و ہ قطع ی ہے ل ہ ذا بخار ی اور صحیح مسلم میں جتنی حدیثیں درج ہیں وہ قطع ی طور پر صادر ہ وئ ی ہیں ۔ ل ہ ذا کوئ ی شخص یہ کہ ن ے ک ی جرات کیونکر کر سکتا ہے ک ہ ان دونو ں کتابو ں م یں کفریات اور خرافات وموہ ومات موجود ہیں ؟

صحیحین بخاری ومسلم میں خلاف عقل روایتیں

خیرطلب :- اول تو آپ کے ب یان میں اس جملے پر ک ہ دونو ں کتاب یں ساری امت کی نظر میں قابل قبول ہیں ،علمی اعتراضات قائم ہیں اور ابن حجر کے حوال ے س ے آپ کا یہ دعوی دس کروڑ صاحبان علم وعمل مسلمانو ں ک ے نزد یک علمی عملی ،منطقی طور سے بلکل ب ے وقعت ہے ل ہ ذا اس موقع پر امت کا اجماع ویسا ہی ہے اجماع ہے جس ک ے آپ صدر اسلام م ین امر خلافت کے لئ ے قائل ہیں ۔

دوسرے جو کچھ م یں کہہ ر ہ ا ہ و ں دل یل اور برہ ان ک ے سات ھ ہے ۔ آپ حضرات ب ھی اگر خوش عقیدگی کی آنکھ س ے ن ہیں بلکہ حق یقت ہیں نگاہ س ے ان کتابو ں کو ملاحض ہ فرمائ یں تو جو کچھ م یں دیکھ رہ ا ہ و ں و ہی آپ کو بھی نظر آئے گا ۔ اور ہ مار ے اور سار ے ا ہ ل عقل ک ی طرح ان کے مندرجات س ے متح یر ومتبسم ہ و ں گ ے ۔ ج یسا کہ آپ ک ے ب ہ ت س ے اکابر علماء ج یسے دار قطنی و ابن حزم اور شہ اب الد ین احمد بن محمد قسطلانی" ارشاد الساری"میں ، علامہ ابو الفضل جعفر بن ثعلب شافعی "کتاب الامتاع فی احکام السماع " میں ، شیخ عبد القادر بن محمد قریشی حنفی" جواہ ر المض یۃ فی طبقات الخفیہ " میں ،شیخ الاسلام ابو زکریا ئے نوو ی" شرح صحیح" میں شمس الدین علقمی" کوکب منیر شرح جامع الصغیر" میں اور ابن القیم "زاد المعاد فی ہ د ی خیر العباد " میں بلکہ سار ے حنف ی علماء اور دوسرے سن ی اکابر صحیحین کی بعض احادیث پر تنقید اور نکتہ چ ینی کر چکے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ صح یحین کے اندر ب ہ ت س ی ضعیف اور غیر صحیح حدیثیں موجود ہیں چونکہ بخار ی اور مسلم کا مطمع نظر حدیثوں کو جمع کرنا تھ ا ن ہ ک ہ ان ک ی صحت پر غور وخوص کرنا ۔ آپ ک ے ب عض محقق علماء جیسے کما ل الدین جعفری ثعلب نے صح یحین کی روائتوں ک ے فضائح و قبائح ب یان کرنے اور ان ک ے مثالب ومعائب ظا ہ ر کرن ے م یں سعی بلیغ کی ہے اور اس بار ے م یں روشن اور آشکار دلائل وبراہین قائم کئے ہیں ۔

لہ ذا تنہ ا ہ م ہی مطالب کی تحقیق نہیں کرتے ہیں بلکہ آپ ک ے نشان ہ ملامت ن ہیں بلکہ آپ ک ے اکابر علماء ن ے ب ھی جو حقیقتوں کی جانچ کرتے ہیں اسی طرح کے ب یانات دیئے ہیں۔

حافظ :- بہ تر ہے اپن ے دلائل وبرا ہین حاضرین جلسہ ک ے سامن ے ب یان کیجیئے تاکہ صح یح فیصلہ کر سکیں ۔

۶۵

خیر طلب :- اگر چہ اس وقت ہ مار ی بحث کا موضوع یہ نہیں تھ ا اور اگرم یں اس بحث میں پڑ نا چا ہ و ں تو آپ ک ے سوال کا سلسل ہ چ ھ و ڑ نا پ ڑے گا ل یکن مقصد ثابت کرنے ک ے لئ ے مختصر طور پر چند نمونو ں ک ی طرف اشارہ کئ ے د یتا ہ و ں ۔

رویت باری تعالی کے بار ے م یں اہ ل سنت ک ی چند روایتیں

اگر آپ حلول واتحاد کے کفر آم یز روایات اور خدائے تعال ی کی جسمانیت اور رویت کا عقیدہ کہ و ہ باختلاف عقائد دن یا میں دیکھ ا جاتا ہے یا آخرت میں دیکھ ا جائے گا ۔ (ج یسا کہ جنبل ی اور اشعری سنیوں کا ایک گروہ اس کا قائل ہے )مطالع ہ کرنا چا ہیں تو اپنی معتبر کتابوں ک ی طرف رجوع کیجیئے خصوصا صحیح بخاری جلد اول "باب فضل السجود من کتاب الاذان "صفحہ ۱۷۵ پر آپ کو کاف ی ذخیرہ ملے گا ۔ م یں نمونے ک ے طور پر ان ہیں ابواب میں سے دو روا یتیں آپ کے سامن ے پ یش کرتا ہ و ں ۔ ابو ہ ر یرہ سے روا یت کرتے ہیں "ان النّار تذف وتتقظ تقیظا شدیدا فلا تسکن حتی یضع الرب قدمہ ف یھ ا فتقول قظ قظ حسبی حسبی" ۔ ( یعنی جہ نم ک ے شعلو ں ک ی آواز اور جوش وخروش بڑھ تا جاتا ہے اور اس م یں سکون نہ ہ وگا یہ ا ں تک کہ خدا اس م یں اپنا پاؤں ڈ ال د ے گا تو ج ہ نم ک ہے گا بس بس م یرے لئے کاف ی ہے م یرے لئے ک افی ہے ۔

نیز ابوہ ر یرہ نے روا یت کی ہے ک ہ لوگو ں ک ی ایک جماعت نے رسو ل الل ہ س ے سوال ک یا "هل تری ربنا یوم القیمة قال نعم هل تضارون فی رو یة الشمس بالظههیرة صحوا لیس معها سحاب قالوا لا یا رسو ل الله وهل تضارون فی رویة القلم لیلة البدر صحوا لیس فیها سحاب قالوا لا یا رسول الله قال ما تضارون فی رویة الله یو م القیامة الا کما تضارون فی رویة احدهما اذا کان یو م القیامة اذن مؤذن لتبع کل امة ما کانت تعبد فلا یبقی احد کان یعبد غیر الله من الاصنام الانصاب الا یتسا فظون فی النار حتی اذا لم یبق الا من کان یعبد الله من برونا جر اتاهم رب العالمین فی ادنی صورة من التی را ‎‎ ؤه فیها فیقول انا ربّکم فیقولون نعوذ بالله منک لا نشرک با الله شیئا بینکم وبینه ایة فتعرفون فیها فیقول انا ربکم فیقولون نعم فیکشف الله عن ساق ثم یرفعون روؤسهم وقد تحول فی صورة التی راؤه فیها اول مرّة فقال انا ربکم فیقولون انت ربنا "

(یعنی کیا ہ م لوگ ق یامت کے روز اپن ے پرور دگار کو د یکھیں گے ؟ فرما یا ہ ا ں ،ک یا ظہ ر ک ے وقت جس روزآسمان پر ابر ن ہ

۶۶

ہ و آفتاب کو د یکھ ن ے سے تم کو کوئ ی نقصان پہ نچتا ہے ؟لوگو ں ن ے عرض ک یا نہیں ، فرمایا جن راتوں م یں آسمان پر بادل نہ ہ و ک یا ماہ کامل د یکھ ن ے سے تم ہ ا را کوئی ضرر ہ وتا ہے ۔ عرض ک یا نہیں ،فرمایا تو قیامت کے دن الل ہ کو د یکھ ن ے سے ب ھی تم کو کوئی ضرر نہیں پہ نچ ے گا ج یسا کہ ان دونو ں ک ے د یکھ ن ے سے تم ہ ارا کوئ ی نقصان نہیں ہ وتا ۔ جب ق یامت کا دن ہ وگا تو خدا ک ی طرف سے اعلان ہ وگا ک ہ ہ ر گرو ہ اپن ے معبود کی پیروی کرے ،پس الل ہ ک ے سوا بتو ں ک ی پرستش کرنے والا کوئ ی شخص ایسا باقی نہ ر ہے گا جو ج ہ نم م یں نہ ج ھ ونک د یا جائے ۔ یہ ا ں تک کہ ن یک و بد لوگوں م یں سے سوا ان افراد ک ے جن ہ و ں ن ے الل ہ ک ی پرستش کی ہ وگ ی اور کوئی جہ نم س ے با ہ ر ن ہیں رہے گا ، اس وقت پروردگار عالمین ایک خاص صورت میں ان کے پاس آئ ے گا ک ہ و ہ سب اس کو د یکھیں پھ ر فرمائ ے گا ک ہ م یں تمہ ارا خدا ہ و ں مومن ین عرض کریں گے ک ہ ہ م ت یری خدائی سے خدا ک ی طرف پناہ مانگت ے ہیں ۔ہ م و ہ لوگ ن ہیں ہیں جو خدا کے سوا کس ی اور کی عبادت کریں خدا کہے گا کہ آیا تمہ ار ے اور خدا ک ے درم یان کوئی ایسی نشانی ہے جس کو د یکھ کر تم اسے پ ہ چان لو ؟ و ہ ک ہیں گے ہ ا ں اس وقت الل ہ اپن ے پاؤ ں ک ی پنڈ ل ی کھ ول د ے گا( یعنی اپنے پاؤ ں کو عر یان کرکے نشان د ہی کے گا)اور مومن ین اپنے سر ا ٹھ ائ یں گے تو الل ہ کو اس ی صورت میں دکھیں گے جس میں پہ ل ی بار دیکھ ا تھ ا پ ھ ر و ہ ک ہے گا ک ہ م یں تمہ ارا پروردگار ہ و ں اور و ہ سب ب ھی اقرارکریں گے ک ہ تو ہ مارا خدا ہ و ۔

آپ کو خدا کا واسطہ انصاف ک یجئے کیا اس طرح کی باتیں کفر انگیز نہیں ہیں ۔ ک ہ خدا اپن ے کو مجسم اور عنصر ی صورت میں انسان کے سامن ے پ یش کرے اور اپن ی پنڈ ل ی کھ ول ے ؟ ہ مار ی گفتگو کے ثبوت م یں سب سے ب ڑی دلیل یہ ہے ک ہ مسلم ابن حجاج ن ے اپن ی صحیح میں رویت باری تعالی کے اثبات م یں ایسے با ب کا افتتاح کیا ہے ۔ اور ابو ہ ر یرہ ،زید ابن اسلم، سوید ابن سعید وغیرہ سے ا یسی گھڑی ہ وئ ی روائتیں نقل کی ہیں کہ آپ ک ے ب ڑے ب ڑے علماء ج یسے ذہ ب ی نے " م یڑ ان الاعتدال "میں ،سیوطی نے کتاب" اللئال ی المصنوعۃ فی احادیث الموضوعۃ ّ "میں ، سبط ابن جوزی نے "الموضوعات " م یں ان کے وضع ی ہ ون ے کو دلائل ک ے سات ھ ثابت ک یا ہے ۔ اگر ان لوگو ں ک ے روا یات کو باطل ثابت کرنے وال ی دلیلیں نہ ب ھی ہ وت یں ،تو قرآن مجید کی بکثرت آئتیں صریحی طور پر رویت کی نفی کر چکی ہیں مثلا سورہ ۶ (انعام) آیت ۱۰۳ میں ارشاد ہے "لا تدرکوا الابصار وهو یدرک الابصار وهو اللطیف الخبیر" ( یعنی اس کو کوئی آنکھ درک ن ہیں کرتی ہے اور و ہ سب آنک ھ و ں کا مشا ہ د ہ فرماتا ہے اور و ہ لط یف وغیرمرئی اور ہ رچ یز سے آگا ہ ہے ) ن یز سورہ ۷(اعراف)آ یت ۱۳۹ میں قصّہ موس ی علیہ السلام و بنی اسرائیل کے سلسل ے م یں نقل فرماتا ہے ک ہ جس وقت بن ی اسرائیل کے دباؤ س ے مجبور ہ وکر حضرت موس ی علیہ السلام نے مقام مناجات م یں عرض کیا "ربّ ارنی انظر الیک قال لن ترانی " (یعنی خداوندا اپنے کو م یرے سامنے تاک ہ ظا ہ ر فرما د ے تاک ہ م یں تجھ کو مشاہ د ہ کرو ں ، تو خدا ن ے جواب م یں ارشاد فرمایا کہ تم مج ھ کو ہ ر گز ابد تک ن ہیں دیکھ و گے ۔

۶۷

سید عبد الحی :- (امام جماعت اہ ل تسنن)ک یا مولا علی کرم اللہ وج ہ س ے منقول ن ہیں ہے ک ہ آپ ن ے فرما یا "لم اعبد ربا لم ارہ "( یعنی میں ایسے خدا کی عبادت نہیں کرتا ہ و ں جس کو د یکھ ا نہ ہ و، ل ہ ذا معلوم ہ وتا ہے ک ہ خدا د یکھ ن ے کے قابل ہے ک ہ عل ی ایسا فرما رہے ہیں ۔

اللہ تعالی کے عدم رو یت پر دلائل اخبار

خیر طلب:- جناب نے حد یث کے صرف ا یک جملے ک ی طرف اشارہ فرما یا ہے ، م یں آپ حضرات کی اجازت سے پور ی حدیث پڑھ ر ہ ا ہ و ں ۔ جس س ے آپ کو خود ہی اپنا جواب معلوی ہ وجائ ے گا ۔ اس حد یث کو شیخ بزرگ ثقۃ الاسلام محمد بن یعقوب کلینی نے "اصول کافی" کتاب توحید "باب ابطال الروئۃ ا للہ "م یں امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے اس طرح نقل ک یا ہے ک ہ آپ ن ے فرما یا ۔ "جاء حبر الی امیر المومنین فقال یا امیر المومنین هل رایت ربک حین عبدته ؟ فقال ماکنت اعبد ربا لم اره ،قال وکیف ریته؟ قال لا تدرکه العیور فی مشاهدة الابصار ولکن راته القلوب بحقائق الایمان " ( یعنی ایک(یہ ود ی)عالم نے ام یر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ یا امیر المومنین آیا عبادت کے وقت آپ ن ے خدا کو د یکھ ا ہے ؟ حضرت ن ے فرما یا میں ایسے خدا کی عبادت نہیں کرتا جس کو دیکھ ا نہ ہو۔ اس ن ے عرض ک یا آپ نے اس کو ک یون کر دیکھ ا ؟ فرمایا اس کو ظاہ ر ی اور مادی آنکھیں نہیں دیکھ ت ی ہیں دل اس کو حقائق ایمان کے نور س ے د یکھ ت ے ہیں ) چنانچہ ام یر المومنین کے اس جواب س ے ظا ہ ر ہ وتا ہے ک ہ عنصر ی اور جسمانی آنکھ س ے ن ہیں بلکہ ا یما ن قلبی کے نور س ے د یکھ نا مراد ہے اور یہی مطلب خود کلمہ "لن" س ے ظا ہ ر ہے ک یونکہ جیسا آپ کو معلوم ہے "لن" نف ی ابدی کے لئ ے استعمال ہ وتا ہے اور اس آ یہ شریفہ میں تاکید ہے ک ہ "لا تدرک ہ الابصار "ک ے سات ھ یعنی خدا ہ رگز د نیا و آخرت میں کسی صورت سے د یکھ ا نہیں جاتا ۔

اس مقصد پر اتنے عقل ی اور نقلی دلائل وبراہین قائم ہیں کہ علاو ہ علمائ ے محقق ین اور مفسرین شیعہ کے خود آپ ک ے اکابر علماء ج یسے قاضی بیضاوی اور جار اللہ زمخشر ی نے اپن ی تفسیر میں ثابت کیا ہے ک ہ الل ہ تعال ی کو دیکھ نا محال عقلی ہے ۔

اور جو شخص کیا وہ دن یا اور کیا آخرت میں خدا کی رویت کا معتقد ہ و اس ن ے قطعا خدا کو اپن ی نظر میں محدود قرار دیا اور

۶۸

اس کی ذات بابرکات کے لئ ے جسمان یت کا قائل ہ وا ک یونکہ جب تک جسم عنصری نہ ہ و ظا ہ ر ی اور عنصری آنکھ و ں س ے د یکھ ا نہیں جا سکتا اور اس طرح کا عقیدہ قطعی کفر ہے ج یسا کہ ہ مار ے اور آپ ک ے ب ڑے ب ڑے علماء ن ے اپن ی تفسیروں اور علمی کتابوں م یں ذکر کیا ہے ، ل یکن چونکہ اس وقت یہ ہ مار ی بحث کا موضوع نہیں لہ ذا بطور ثبوت چند جمل ے عرض کر دئ ے گئ ے ہیں ۔

البتہ ان ڈھیروں خرافات وموہ ومات ک ے سلسل ے م یں جو آپ کی معتبر کتابوں م یں درج ہیں میں نے نمون ے ک ے طور پر دو روا یتوں کا خلاصہ نقل کرتا ہ و ں تاک ہ آپ حضرات بعض واحد خبرو ں ک ے ذر یعے جو تشریح وتاویل کے قابل ہیں شیعوں کی کتابوں س ے ا یراد نہ فرمائ یں ۔

آپ کا خیال ہے ک ہ صحاح ست ہ اور بالخصوص صح یح بخاری اور صحیح مسلم کتاب وحی کے مانند ہیں لیکن میں التماس کرتا ہ و ں ک ہ آپ حضرات ت ھ و ڑی دیر کے لئ ے تعصب س ے ہٹ کر نگا ہ انصاف س ے ان ک ی احادیث وروایات پر غور فرمائیں تاکہ اس قدر غلو ک ی نوبت نہ آئ ے ۔

خرافات صحیحین کی طرف اشارہ

بخاری نے اپن ی صحیح کتاب غسل "باب من اغتسل عریانا "میں ،مسلم نے اپن ی صحیح جزء دوم "باب فضائل موسی "میں ،امام احمد بن حنبل نے اپن ی مستند جزء دوم صفحہ ۳۱۵ م یں اور آپ کے دوسرے علماء ن ے ابو ہ ر یرہ سے نقل ک یا ہے ک ہ بن ی اسرائیل کے درم یان یہ رسم تھی کہ سب لوگ مل کر برہ ن ہ پان ی میں جاتے ت ھے اور اس حالت س ے ن ہ ات ے ت ھے ک ہ آپس م یں ایک دوسرے ک ی شرمگا ہ ک ی طرف بھی نظر کر تے ت ھے یہ عمل ان کے یہ ا ں معیوب نہ ت ھ ا البت ہ ان م یں صرف حضرت موسی علیہ السلام تن تنہ ا پان ی میں اترتے ت ھے تا ک ہ کوئ ی شخص ان کی شرمگاہ کو نہ د یکھے ۔ بن ی اسرائیل کہ ت ے ت ھے ک ہ موس ی اس وجہ س ے اک یلے نہ ان ے ک ے لئ ے جات ے ہیں اور ہ م لوگو ں س ے عل یحدہ رہ ت ے ہیں عکہ ان ک ے اندر نقص ہے او ر قطعی طور پر وہ فتق(فتق ،خص یہ بڑ ا ہ ون ے ک ی بیماری ۔ہ رن یا )کے عارض ے م یں مبتلا ہیں ،لہ ذا یہ نہیں چاہ ت ے ک ہ ہ م لوگ ان کو د یکھیں ایک روز حضرت موسی غسل کرنے ک ے لئ ے در یا کے کنار ے گئ ے کپ ڑے اتار کر ا یک پتھ ر پر رک ھ د یئے اور پانی میں اتر گئے "ففرّ الحجر بثوب ہ فجمع موس ی باثرہ یقول ثوبی حجر ،ثوبی حجر حتی نظر بنو اسرائیل الی سواۃ موسی فقالوا واللہ ما بمو سی من باس فقام الحجر بعد حتی نظر فاخذ موسی ثوبہ فطفق بالحجر ضربا فوالل ہ ان بالحجر ندبا ست ۃ او سبعۃ "(یعنی پتھ ر موس ی کے کپ ڑے ل ے ب ھ اگ ک ھڑ ا ہ وا ،موس ی اس کے پ یچھے جھ پ ٹے اور یہ کہ ت ے جار ہے ت ھے ا ے پت ھ ر م یرے کپڑے ،ا ے پت ھ ر م یرے کپڑے ( یعنی میرا لباس کہ ا ں لئ ے ب ھ اگا جاتا ہے ؟) و ہ پت ھ ر اتنا ب ھ اگا اور موس ی اس قدر برہ ن ہ دو ڑے ک ہ بن ی اسرائیل نے ان ک ی شرمگاہ د یکھ لی اور کہ ا خدا کا ک ی

۶۹

قسم موسی کے اندر کوئ ی عیب نہیں ہے یعنی فتق نہیں ہے اس ک ے بعد پت ھ ر ک ھڑ ا ہ وگ یا ، اور جناب موسی نے اپن ے کپڑے ل ے لئ ے پ ھ ر کو ڑے س ے اس کو انتا مارا ک ہ خدا ک ی قسم وہ چ ھے یا سات مرتبہ چ یخ چیخ کے رو یا ۔

آپ کو خدا کی قسم ذرا انصاف کیجئے کہ اگر اس ی طرح کا کوئی عمل آپ حضرات میں سے کس ی کے سات ھ پ یش آئے تو کس قدر ذلت ک ی بات ہے ک ہ آپ لوگو ں ک ے درم یان اس طرح سے بر ہ ن ہ اپن ے لباس ک ے پ یچھے دوڑیں کہ سب آپ ک ی شرمگاہ د یکھ لیں۔ فرض ک یجئے کہ اگر ا یسا اتفاق پیش آجائے تو آدمی کہیں کنارے ب یٹھ جاتا ہے تاک ہ لوگ جا کر اس کا لباس ل ے آئ یں نہ یہ کہ بغ یر کسی ستر پوش کے آدم یوں کے ب یچ میں گھ س پ ڑے تاک ہ سب اس ک ی شرمگاہ د یکھیں ۔ آ یا عقل باور کرتی ہے ک ہ موس ی کلیم اللہ ا یسے انسان سے ا یسی حرکت سرزد ہ وئ ی ہ و ۔ کیا یہ یقین آتا ہے ک ہ ک ہ ب ے زبان پت ھ ر حرکت کر ے اور موس ی کے کپ ڑے ل ے ب ھ اگ ے ؟

سید عبد الحی :- آیا پتھ ر ک ی حرکت زیادہ اہ م ہے یا عصا کا اژدہ ا ہ و جانا ؟ پت ھ ر ک ی حرکت بڑی چیز ہے یا وہ نو معجز ے جن ک ی خدا خبر دے ر ہ ا ہے ؟

خیر طلب :-مثل مشہ و ر ہے "خوب ورد ی آموختہ ا ید، لیک سوراخ دعا گم کردہ ا ید"(یعنی آپ نے ورد خوب س یکھ ا ہے ل یکن دعا کا سوراخ کھ و د یا ہے ) جناب محترم ! م یں معجزات انبیاء علیھ م السلام کا منکر نہیں ہ و ں بلک ہ قرآن مج ید کے حکم س ے معجزات او ر خرق عادت پر ا یمان رکھ تا ہ و ں ل یکن آپ تصدیق کریں گے ۔ ک ہ معجزات او رخرق عادات کا ظ ہ ور مقام تحد ی پر ہ وتا ہے تاک ہ اس مظا ہ ر ہ عمل ک ے مقابل ے م یں فریق مخالف کو عاجز اور حق کو ظاہ ر کرد یا جائے تو اس عمل م یں کون سی تحدی کا یاحق کا ظہ ور ت ھ ا ؟ سوا اس ک ے ک ہ رسوائ ی کا سامنا ہ وا اور خدا ک ے رسول ک ی شرمگاہ خلقت ک ے درم یان عریان ہ وئ ی ۔

سید عبد الحی :- اس سے ب ڑھ کر کون سا حق ت ھ ا ک ہ حضرت موس ی کی صفائی پیش کی جائے تاک ہ لوگ سمج ھ ل یں کہ آپ فتق ن ہیں ہے ۔

خیرطلب :-فرض کر لیا جائے ک ہ جناب موس ی علیہ السلام کو فتق ہی تھ ا اس س ے آپ ک ے منصب نبوت کو ک یا نقصان پہ نچ ر ہ ا ت ھ ا پ یغمبروں کے لئ ے جو چ یز عیب ہے و ہ ذات ی نقائص ہیں جیسے اندھ ا ،ب ہ ر ہ ،چ ھ انگل یوں والا،چار انگلیوں والا ، فحش گو ،مفلوج یا مادر زاد مثل ہ ونا وغ یرہ ورنہ جسمان ی نقائص جو عوارض کی وجہ س ے پ یدا ہ وت ے ہیں جیسے کثرت گریہ کے نت یجے میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کا نابینا ہ وجانا ،حضرت ا یوب علیہ السلام کے جسم پر زخم ، جنگ احد م یں حضرت خاتم الانبیاء (ص) کے سر ودندان ک ی شکستگی اور اس طرح کی دو سری چیزیں منصب نبوت کو کوئی ضرر نہیں پہ نچا ت ی ہیں ۔

فتق بھی ایک جسمانی مرض ہے جو بعد کو عارض ہ وتا ہے ل ھ ذا اس م یں کون سی اہ م یت تھی کہ کس ی ایسے معجز ے

۷۰

اور خرق عادات کے ذر یعہ اس سے برات ثابت ک ی جائے جو پ یغمبر کی ہ تک حرمت اور کشف عورت تک منجر ہ و،تا ک ہ بن ی اسرائیل ان کی شرمگاہ پر نظر کر یں۔ آیا ایسی روایات خرافات و موہ ومات م یں سے ن ہیں کہ جناب موس ی علیہ السلام بغیر ساتر عورتین کے لباس ک ے پ یچھے دوڑیں ، اس قدر غصّہ م یں بھ ر جائ یں اور پتھ ر کو اس طرح س ے مار یں کہ و ہ چ ھ یا سات مرتبہ فر یاد کرے ؟ کتن ے تعجب ک ی بات ہے ک ہ پ یغمبر خدا (ص) کو اتنا بھی نہ معلوم ہ و ک ہ پت ھ ر آنک ھ ، کان اور تاثر ک ی حس نہیں رکھ تا ہے ک ہ اس کو زد وکوب کر یں اور جما د سے نال ہ بلند کرآئ یں۔ نعوذ بالل ہ من ھ ذ ہ الخرافات

ملک الموت کے چ ہ ر ے پر موس ی علیہ السلام کا تھ پ ڑ مارنا

اس خیال سے ک ہ جناب مولو ی سید عبد الحی ابو ہ ر یرہ یا بخاری اور مسلم کی طرف سے جن ہ و ں ن ے اس طرح ک ی گھڑی ہ وئ ی مہ مل روا یتیں نقل کی ہیں ، دفاع اور صفائی کی کوشش نہ فرمائ یں ،ایک اس سے ز یادہ مضحکہ خ یز روایت کی طرف اشارہ کرتا ہ و ں تاک ہ آپ حضرات یقین کر لیں کہ صحاح ک ے بار ے م یں جس طرح غلو کیا گیا ہے و ہ ا یسی میں نہیں ۔

بخاری نے اپن ی صحیح جلد اول صفحہ ۱۵۸ اور جلد دوم صفح ہ ۱۶۳ پرا یک تو "باب من احب الدفن فی الارض المقدسۃ من ابواب الجنائز" میں دوسرے "باب وفات موس ی "جلد دوم میں اپنے عق یدے کیمطابق صحیح اسناد کے سات ھ ابو ہ ر یرہ سے ن یز مسلم نے اپن ی صحیح جلد دوم صفحہ ۳۰۹ ابو ہ ر یرہ سے ا یک عجیب مہ مل خبر نقل ک ی ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "جاء ملک الموت ال ی مو سی علیہ السلام فقال لہ اجب ربک ،قال ابو ہ ر یرہ فلطم موسی عین ملک الموت فقفاھ ا ،فرجع الملک ال ی اللہ تعال ی فقال انک ارسلتنی الی عبد لک لا یرید الموت فقفا عینی ، قال فردّ اللہ ع ینہ و قال ارجع الی عبدی فقل الحیاۃ ترید فان کنت ترید الحیواۃ فضع یدک علی متن ثور فما توارت بیدک من شعرہ فانک تع یش بھ ا سن ۃ"۔ ( یعنی ملک اللموت موسی علیہ السلام کے پاس آئ ے اور ک ہ ا ک ہ اپن ے پروردگار ک ی دعوت قبول کیجئیے ! اس پر حضرت موسی نے ان ک ی آنکھ پر ا یسا تھ پ ڑ لگا یا کہ ان ک ی آنکھ پ ھ و ٹ ہی گئی اور وہ کا ن ے ہ وگئ ے ۔ چنانچ ہ ملک اللموت خدا ک ے پاس واپس گئ ے اور ک ہ ا ک ہ ت و نے مج ھ کو اپن ے ا یسے بندے ک ے پا س ب ھیجا جو مرنا ہی نہیں چاہ تا اور م یری آنکھ الگ پ ھ و ڑ د ی ۔ خدا ن ے ان ک ی آنکھ پ ھ ر پل ٹ ا د ی اور فرمایا کہ م یرے بندے ک ے پاس واپس جاؤ اور ک ہ و ک ہ اگر زندگ ی چاہ ت ے ہ و تو ب یل کی پیٹھ پر اپنا ہ ات ھ رک ھ و جتن ے بال تم ہ ار ے بات ھ م یں آجائیں گے ہ ر با ل ک ے عوض ا یک سال زندہ ر ہ وگ ے ۔)

۷۱

اور امام احمد بن حنبل نے اپن ی مسند جلد دوم صفحہ ۳۱۵ م یں اور محمد ابن جریر طبری نے اپن ی تاریخ کی جلد اول "تذکرہ وفات موس ی " کے ضمن م یں ابو ہ ر یرہ سے یہی روایت اتنی زیادتی کے سات ھی نقل کی ہے ک ہ زمان ہ حضرت موس ی تک ملک الموت بندوں ک ی روح قبض کرنے کے لئے ظا ہ ر بظا ہ ر اور ک ھ لم ک ھ لا آت ے ت ھے ل یکن جب سے موس ی نے ان ک ے چ ہ ر ے پر ت ھ پ ڑ مارا اور ان ک ی ایک آنکھ پ ھ و ٹ گئ ی اس کے بعد س ے پوش یدہ اور چھ پ کر ک ے آن ے لگ ے (غالبا اس خوف س ے ک ہ جا ہ ل لوگ ک ہیں ان کی دو آنکھیں نہ پ ھ و ڑ د یں ) اس پر مجمع کے اندر ب ہ ت س ے لوگ قہ ق ہ لگا کر ہ نس پ ڑے ۔

اب آپ حضرات سے انصاف چا ہ تا ہ و ں ک ہ ک یا یہ روایت خرافات اور موہ ومات م یں سے ن ہیں ہے ؟جس کو سن کر آپ ہ نس ر ہے ہیں مجھ کو تو ا یسی خبر کے لک ھ ن ے والو ں اور نقل کرن ے والو ں پر تعجب ہ وتا ہے جن ہ و ں ن ے بغ یر سوچے سمج ھے ان ب یہ ود ہ اور موہ وم مطالب کو سپرد قلم کیا ہے ۔

انصاف موجب معرفت اور سبب سعادت ہے

آیا کسی صاحب عقل یہ قبول کر تی ہے ک ہ موس ی کلیم اللہ ج یسا کوئی اولو العزم پیغمبر معاذا اللہ اس قدر ب ے معرفت او ر بد مزاج ہ و ک ہ حکم خدا ک ی اطا عت کے بد ل ے اس ک ے قاصد کو اتنا زور دار ت ھ پ ڑ لگائ ے ک ہ اس ک ی آنکھ ہی جاتی رہے ؟

خدا کے لئ ے بتائ یے کہ اگر کوئ ی شخص یہ کہے ک ہ جناب حافظ صاحب کو ا یک بزرگ شخص نے م ہ مان ی کی دعوت دی ہے اور ان ہ و ں ن ے بجائ ے دعوت قبول کرن ے ک ے پ یغام لا نے وال ے کو ت ھ پ ڑ مار ک ے اس ک ی آنکھ پ ھ و ڑ ڈ ال ی تو کیا آپ کو ہ نس ی نہیں آئیگی اور حافظ صاحب یہ نہیں فرمائیگے کہ ا یسا کہ نا م یری تو ہین ہے ک یونکہ تحصیل علم اور تزکیہ نفس میں ایک عمر صر کردینے کے بعد ک یا میرے اندر اتنا سمجھ ن ے ک ی صلاحیت بھی پیدا نہیں ہ وئ ی کہ پ یغام لا نے وال ے ک ی کوئی خطاء نہیں ہ وت ی ! بلکہ اس ن ے تو م یرا احترام کرتے ہ و ے ایک بزرگ شخصیت کی طرف سے دعوت نام ہ پ یش کیا ۔ جب کس ی کمینے جاہ ل اور سنگدل انسان س ے ب ھی ایسی حرکت سرزد نہیں ہ وت ی تو اولوالعزم پیغمبر کلیم اللہ ن ے جو معرفت ال ہی میں کہیں اولی اور اعلی تھے ک یونکر ممکن ہے ک ہ خدا ک ے طلب کو ناقابل توج ہ سمجھیں بلکہ پ یغام لا نے وال ے فرشت ے کو جس ک ی سوا اپنا فرض ادا کرنے کے اور کوئ ی خطا نہ ت ھی ،تھ پ ڑ مار یں اور کانا بنائیں ۔

پیغمبر وں کو مبعوث کرن ے کا مقصد تو یہ ہے ک ہ و ہ لوگو ں ک ی ہ دا یت کریں اور ان کو حیوانی حرکتوں س ے باز رک ھیں تاکہ و ہ نفس ب ہیمی کے قابو م یں نہ آجائ یں اور ان سے درندگ ی کے آثار ظا ہ ر ن ہ ہ و ں ظلم وتعد ی تو جانوروں پر ب ھی ایک جاہ ل اور ب یوقوف آدمی کی طرف سے ب ھی بری چیز ہے ۔ ن ہ ک ہ اولو العزم پ یغمبر کی طرف سے ا یک ملک مقرب پر جو خدا

۷۲

کا فرستادہ اور پ یام لانے والا ہ و ۔

ہ ر سننے والا سمج ھ ل ے گا ک ہ ا یسی روایت سراسر جھ و ٹ اور ب ہ تان ہے اور علا و ہ منصب نبوت ک ے عدم معرفت اور ا ہ انت ک ے یا انبیاء عظام کو سارے انسانو ں ک ی نظروں م یں حقیر وذلیل بنانے ک ے قطعا اس ک ے گ ھڑ ن ے والو ں ک ی اور کوئی غرض نہ ت ھی ۔

میں ابو ہ ر یرہ کے ا یسے لوگوں س ے تعجب ن ہیں کرتا ہ و ں ک یونکہ یہ وہ آدم ی تھے جن ک ے متعلق خود آپ ک ے علماء ن ے لک ھ ا ہے ک ہ معاو یۃ کے روغن ی اور لذیذ دسترخوان سے اپنا پ یٹ بھ رن ے ک ے لئ ے حد یثیں وضع کرتا تھ ا اور خل یفہ عمر نے اس ی طرز عمل پر ان کو ایسا تازیانہ لگایا کہ پ یٹھ لہ و ل ہ ان ہ وگئ ی لیکن مجھ کو ح یرت تو ان اشخاص پر ہے جو علم ودانش ک ی بلند منزل پر فائز تھے ک ہ ان ہ و ں ن ے بغ یر سوچے سمج ھے ک یونکر اس طرح کی بے تک ی رویتیں اپنی کتا بوں م یں درج کردیں ۔

اور پھ ر جناب حافظ صاحب ک ے ا یسے دوسرے علماء نس ان کتابو ں کوکلام خدا ک ے قدم ب ہ قدم قرارد یدیا اور بغیر غور و مطالعہ ک ے ک ہ ت ے ہیں "ھ ما اصح الکتب بعد القرآن " یہ دونوں یعنی صحیح بخاری و صحیح مسلم قرآن کے بعد سار ی کتابوں س ے ز یادہ صحیح ہیں (مترجم)) لہ ذا جب آپ ک ی سب سے اونچ ی کتابوں م یں ایسی مہ مل روا یتیں درج ہیں تو آپ کو شیعوں کی کتابوں اور ان اخبار ک ے متعلق جو ان م یں درج ہیں ،اور زیادہ تر توجہیہ و تاویل کے قابل ہیں زبان اعتراض کھ ولن ے کا کوئ ی حق نہیں ہے ۔

میں معذرت کرتا ہ و ں ک ہ ضمن ی باتو ں م یں کافی وقت لگ گیا کیونکہ "الکلام یجر الکلام" بات میں بات نکلتی ہے (مترجم )۔

اب پھ ر اصل مقصد ک ی طرف رجوع کرتا ہ و ں جو حد یث آپ نے نقل ک ی ہے اس ک ے بار ے م یں بحث کرتا ہ و ں اور د یکھ تا ہ و ں ک ہ آ یا یہ خبر قابل حل ہے یا نہیں ۔ بد یہی بات یہ ہے ک ہ اگر کوئ ی نیک اور منصف مزاج عالم اس طرح کی واحد اور مبھ م حد یثوں کو دیکھ تا ہے (جو ہ مار ی،آپ کی کتابوں م یں بکثرت ہیں) تو ہ زارو ں صح یح السند اور صریح خبروں ک ے پ یش نظر اگر یہ قابل اصلاح ہیں ،تو اصلاح کردیتا ہے ورن ہ رد کرد یتا ہے یا کم ازکم خاموشی ہی اختیار کر لیتا ہے ن ہ یا کہ ان کو تکف یر کاحربہ بنا کر اپن ے د ینی بھ ائ یوں پر حملہ ک رے۔

اب اس حدیث کے بار ے م یں چونکہ یہ ا ں تفسیر صافی موجود نہیں ہے ہ م اس ک ے سلسل ہ اسناد س ے ب ھی واقف نہیں ہیں ،نہ یہ معلوم ہے ک ہ کس مقام پر اور کس صورت س ے نقل ک یا ہے ، اور آ یا خود اس کے اوپر کوئ ی نوٹ د یا ہے یا نہیں ہ م کو غور کرنا چائیے کہ قا بل اصلاح ہے یا نہیں ؟ میں تو اپنی کمزور عقل کے مطابق اس حد یث کے لئ ے یہی سمجھ ر ہ ا ہ و ں ک ہ ان حضرات کا ارشاد یا تو متکلمین کے درم یان اس مشہ ور قائد ے پر محمول ہے ک ہ معلول کا پورا علم کو یا علّت کا پورا علم ہے ۔یعنی جب امام کو بحیثیت امام پہ چان ل یا گیا ۔ تو یقینا خدا کو بھی پہ چ ہ ان ل یا ۔

۷۳

یا مبالغے پر محمول ہے ج یسے کوئی شخص کہے ک ہ جو شخص وز یر اعظم کو پہ چان ل ے گو یا اس نے بادشا ہ کو پ ہ چان ل یا ۔

اور اس مبالغے ک ے لئ ے ا یک قرینہ سورہ توح ید ،ودیگر قرآنی آیات اور وہ اخبار کث یرہ میں جو خود حضرت امام حسین علیہ السلام اور دوسرے ائم ہ معصوم ین علیھ م السلام سے خالص توح ید کے اثبات م یں مروی ہیں لہ ذا ک ہ ا جاسکتا ہے ک ہ اس حد یث سے مراد یہ ہے ک ہ ام ام کی معرفت ان جلیل القدر عبادتوں م یں سے ہے جو جن و انس ک ی غرض خلقت ہیں اور ائمہ معصوم ین علیھ م السلام تے ماثور ز یارات جامعہ م یں "محال معرفۃ اللہ " ک ے یہی معنی ہیں ۔

ہ م ایک دوسرے طر یقے سے ب ھی اس کے معن ی کو بیان کرسکتے ہیں ،جیسا کہ محقق ین نے اس ی طرح کے امور م یں مطلب بیان کیا ہے ک ہ ہ ر فعل کا فاعل اور ہ ر بنا ک ے استحکام س ے پہ چانا جا سکتا ہے چنانچ ہ اس ک ی ہ ر بنا اور ہ ر اثر اسک ے حالات ک ے کس ی پہ لو ک ے لئ ے کامل دل یل ہے چونکہ رسو ل خدا(ص) اور آپ ک ی آل پاک صلوات اللہ عل یھ م اجمعین امکان کے سار ے بلند منازل پر فائز ت ھے ،ل ہ ذا ان س ے ز یادہ محکم اثر اور ان سے ز یادہ جامع مخلوق کوئی اور نہیں تھ ا ۔ نت یجہ یہ کہ معرفت ال ہی کے لئ ے ان س ے ز یادہ واضح اور جامع راستہ کوئ ی اور موجود نہ ت ھ ا ۔ ل ہ ذا محل معرفت خدا یعنی جن بندوں ک ے لئ ے معرفت ممکن ہے ،ان ک ے سوا کوئ ی دوسرا نہیں ہے ۔ اب جس شخص نس ان کو پ ہ چانا گو یا خدا کو پہ چانا ۔ چنانچ ہ ان حضرات ن ے خود فرما یا ۔ "بنا عرف الل ہ بنا عبد الل ہ " یعنی ہ مار ے ذر یعے سے خدا کو پ ہ چانا گ یا اور ہ مار ے ہی ذریعے سے اس ک ی عبادت کی گئی ہے ) یعنی حق تعالی کی معرفت وعبادت کا راستہ ہ مار ے قبض ہ م یں ہے خلاص ہ یہ ہے ک ہ خدا ئ ے تعال ی کی معرفت کے لئ ے واحد اور آخر ی ذریعہ یہی جلیل القدر خاندان ہے اگر بغ یر اس خانوادے ک ی رہ بر ی کے انسان کوئ ی راہ پ یدا کرے تو وادی ضلالت میں حیران و سرگرداں ہ وگا ۔ اور ب ہ ت دشوار ہے یہ بات کہ واد ی ضلالت و حیرت میں بھٹ کا ہ و شحص بغ یر ہ دا یت کے منزل سعادت تک پ ہ نچ جائ ے یہی وجہ ہے ک ہ فر یقین کی متفق علیہ حدیث میں وارد ہے ک ہ رسول اکرم(ص)ن ے فرما یا "یا ایھ ا النّاس انی تارک فیکم الثقلین ما ان اخذتم بھ ما لن تضلوا کتاب الل ہ عزو جل و عترت ی اھ ل ب یتی" (یعنی اے لوگو م یں تمہ ار ے درم یان دوچیزیں چھ و ڑ تا ہ و ں اگر ان دو نو ں س ے حاصل کروگ ے ( یعنی ضرورت کی باتیں) تو ہ رگز گمرا ہ ن ہ ہ وگ ے ،ا یک عزوجل کی کتاب اور ایک میری عترت اور اہ ل ب یت علھیم السلام ہیں)۔

حافظ :-کچھ اس ی حدیث پر انحصار نہیں ہے ک ہ آپ اس ک ی اصلاح کی کوشش کریں بلکہ آپ ک ی کتابوں وارد تمام دعاؤ ں ک ے اندر کفر وشرک ک ے نمون ے ملت ے ہیں جیسے بغیر ذات پرور دگار عالم یک طرف توجہ کئ ے ہ وئ ے امامو ں س ے حاجت یں طلب کرنا اور یہ غیرخدا ہے حاجت طلب کرنا خود ہی شرک کی ایک مکمل دلیل ہے ۔

خیرطلب :-آپ کی ذات سے یہ بات بہ ت بع ید تھی کہ اپنے اسلاف ک ی پیروی کرتے ہ وئ ے ا یسی فضول اور بے جا بات من ہ س ے نکال یں ،واقعی آپ بہ ت ب ے انصاف ی کرتے ہیں یا پھ ر اس پر توج ہ ن ہیں کرتے ہیں کہ ک یا فرما رہے

۷۴

ہیں یا بغیر شرک کے معن ی پر غور کئے ہ وئ ے ب یان کرتے ہیں میں متمنی ہ و ں پ ہ ل ے شرک اور مشرک ک ے معن ی بیان فرما یئے تا کہ حق یقت ظاہ ر ہ و ۔

شیعوں کی طرف شرک کی نسبت دینا

حافظ:- مطلب اتنا واضح ہے ک ہ م یرے خیال میں تشریح کی ضرورت ہی نہیں ، بدیہی چیز ہے ک ہ خدائ ے بزرگ کا اقرار کرت ے ہ وئ ے غ یر خدا کی طرف توجہ کرنا شرک ہے اور مشرک و ہ شخص ہے جو غ یر خدا کی طرف رخ کرے اور اس س ے حاجت طلب کر ے ۔

جماعت شیعہ جیسا کہ مشا ہ د ہ ہے کب ھی خدا کی طرف توجہ ن ہیں رکھ ت ی ہے اور بغ یر خدا کا نام لئے ہ وئ ے اپن ے سار ے مقاصد اپن ے امامو ں س ے عرض کرت ی ہے یہ ا ں تک کہ م یں دیکھ تا ہ و ں کہ ش یعہ فقراء گزرگاہ و ں اور دروازو ں ا ور دکانوں پر آت ے ہیں ، تو کہ ت ے ہیں ۔ یا علی ، یا امام حسین یا امام رضائے غر یب یا حضرت عباس اور ایک مرتبہ ب ھی نہیں سنا گیا کہ یا اللہ ک ہیں ۔یہ باتیں خود شرک کی دلیل ہیں کیونکہ جماعت شیعہ کبھی خدا کی طرف توجہ ن ہیں کرتی بلکہ اپن ی تمام تر توجہ غ یر خدا سے وابست ہ رک ھ ت ی ہے ۔

خیر طلب:- میری سمجھ م یں نہیں آتا کہ آپ ک ی اس طرح باتوں کا ک یا مقصد سمجھ و ں ،آ یا ان کو ہٹ د ھ رم ی کی دلیل سمجھ و ں ک ہ قصدا تجا ہ ل عارفان ہ کر ر ہے ہیں یا حقائق کی طرف توجہ ن ہ کرن ے کا نت یجہ ہے ؟ م یں امید کرتا ہ و ں ک ہ آپ ہٹ د ھ رم ی کرنے والو ں م یں سے ن ہ ہ و ں گ ے ۔

چونکہ ایک عالم باعمل کے شرائط م یں سے انصاف ب ھی ہے ل ہ ذا جو شخص حق س ے واقف ہ و اور اپن ی مطلب برآوری کے لئ ے حق کش ی کرے و ہ انصاف س ے دور ہے اور جس ک ے پاس انصاف ن ہیں وہ عالم بلا عمل ہے ، حد یث رسول میں ارشاد ہے "العالم بلا عمل کا الشجر بلا ثمر"( یعنی عالم بے عمل بغ یر میوے کے درخت ک ی مثل ہے )آپ جو بار بار اپن ے جملو ں م یں شرک اور مشرک کے الفاظ زبان پر جار ی کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اپن ے لغو اور ب ے مغز دلائل س ے موحد ش یعوں کو مشرک ثابت کریں تو ممکن ہے ک ہ آپ ک ے ب یانات بے خبر سن ی عوام پر اثر انداز ہ و جائ یں اور وہ ش یعوں کو مشرک سمجھ ل یں (جیسا کہ اب تک ان پر غلط اثر پ ڑ تا ر ہ ا ہے ۔ ) ل یکن یہ محترم حاضرین جلسہ ش یعہ حضرات آپ کی تقریر سے سخت ناراض اور ناخوش ہیں اور آپ کو ایک مطلب پرست اور افترا پرداز عالم سمجھ ر ہے ہیں کیونکہ یہ اپنے عقائ د سے واقف ہیں اورسمجھ ت ے ہیں کہ آپ ن ے ان الزامات م یں سے ا یک بھی ان کے اندر موجود ن ہیں ہے ۔ ل ہ ذا اپن ے الفاظ اور ب یانات میں ایسے جملے ادا ن ہ کرن ے ک ی کوشش فرمائیے کہ ان پر سچ ی بات واضح ہ و اور ان ک ے دل آپ ک ی طرف کشش محسوس کریں۔

۷۵

میں مجبو ر ہ و ں ک ہ آپ اجازت د یں تو حاضر و غائب بردران اہ ل سنت ک ے ساد ہ ذ ہ نو ں کو روشن کرن ے ک ے لئ ے وقت ک ے لحاظ س ے مختصر طور پر شرک اور مشرک ک ے بار ے م یں اسلام کے بزرگ محقق ین حکماء وفقہ اء اور علماء ج یسے علامہ حل ی ، محقق طوسی ،علامہ مجلس ی علیھ م الرحمۃ جو اکابر و مفاخر علمائے ش یعہ میں سے ہیں ،اور دوسرے حکماء اورصاحبان تحق یق جیسے صدر المتالہین شیرازی ،ملا نوروز علی طالقانی ،ملا ہ اد ی سبزواری اور جناب صدر کے دونو با عظمت خوش مرحوم ف یض کاشانی و فیاض لاہیجانی رحھ م الل ہ کا آ یات قرآنی اور ارشادات ائمہ طا ہرین علیھ م السلام کی روشنی میں جو کچھ عق یدہ ہے و ہ آپ ک ے سامن ے پ یش کروں تاک ہ حاضر ین جلسہ یہ نہ سمج ھ ل یں کہ شرک ک ے معن ی وہی ہیں جو آپ مغالطہ د ے کر ب یان کررہے ہیں ۔

حافظ:- غصے ک ے سات ھ فرمائ یے ۔

نواب :-قبلہ اس جلس ہ ک ی بنا چونکہ ب ے سواد لوگو ں ک ے سمج ھ ن ے ک ے لئ ے ہے ل ہ ذا پ ہ ل ے ب ھی عرض کر چکا ہ و ں ، متمن ی ہ و ں ک ہ اپن ے ارشادات م یں انتہ ائ ی سادگی کا لحاظ رکھ ئ ے آپ ک ی نظر صرف حضرات علماء اور ان کی عقل کے مطابق جواب د ینے پر نہ ر ہ نا چائ یے بلکہ ا ہ ل مجلس کی اکثیریت با الخصوص ہ ند اور پ یشاور کے باشندو ں ک ی رعایت ضروری ہے جو ا ہ ل زبان ن ہیں ہے گزارش ہے ک ہ پ یچیدہ اور مشکل مطالب بیان نہ فرمائ یے گا ۔

خیر طلب :- جناب نواب صاحب آپ کی یاد دھ ان یاں میرے پیش نظر ہیں ،اور کچھ اس ی صحبت پر منحصر نہیں ہے بلک ہ ج یسا کہ پ ہ ل ے عرض کرچکا ہ و ں م یری عادت ہی یہ ہے ک ہ جس مجمع م یں کچھ عوام اور ب ے خبر افراد موجود ہ وت ے ہیں وہ ا ں قطعا اپنا روئ ے سخن خواص پر موقو ف نہیں رکھ تا ہ و ں ،اس لئ ے ک ہ پ یغمبروں کی بعثت اور کتابوں ک ے نزول ک ی غرض بے خبر لوگو ں کو متنب ہ کرنا ت ھ ا اور یہ نظریہ ہ ر گز عمل ی جامہ ن ہیں پہ ن سکتا جب تک حقائق جس طرح س ے آپ ن ے فرما یا سادہ طور پر اور قوم ک ی زبان میں بیان نہ ہ و ں چنانچ ہ حد یث میں رسول اللہ (ص) کا ارشاد ہے ک ہ "نحن معاشر الا نب یاء نکلم النّاس علی قدر عقولھ م"( یعنی ہ م پ یغمبروں کی جماعت لوگوں س ے ان ک ے عقلو ں ک ے مطابق گفتگو کرت ی ہے ) یقینا آپ کی خواہ ش اصول ی اور برابر میرے پیش نظر ہے ۔ ام ید کرتا ہ و ں ک ہ آپ ک ی منشاء کے مطابق پ ہ ل ے س ے زیادہ عمل کرسکوں گا اور متمن ی ہ و ں ک ہ جس مقام پر س ہ وا غفلت ہ وجائ ے و ہ ا ں آپ حضرات توج ہ فرماد یجئے گا ۔

شرک کے اقسام

خیر طلب :- جہ ا ں تک آ یات قرآنی کے خلاص ے ، اخبار کث یرہ اور محققین علماء کی تحقیقات کا ملہ س ے اور بالخصوص ان ا ہ م تشر یحات سے جو صدر المتال ہین اور فاضل طالقانی نے فرمائ ی ہیں معلوم ہ وتا ہے شرک ک ی دو قسمیں ہیں اور دوسرے

۷۶

اقسام شرک ان ہیں دونوں قسمو ں م یں پوشیدہ ہیں ۔ اول جل ی اور آشکار ،دوسرے شرک خف ی و پو شیدہ ۔

شرک جلی

شرک در ذات

شرک جلی کا مطلب کا مطلب یہ ہے ک ہ آدم ی ذات یا صفات یا افعال یا عبادت میں خدائے تعال ی کا کوئی شریک قراردے۔ شرک در ذات یہ ہے ک ہ حق تعال ی کے مرتب ہ الو ہیت اور ذات میں شریک قرار دے اور زبان س ے اس کا اعتراف کر ے ج یسے (بت پرست)اور مجوس جو اصل ومبداء،نوروظلمت ،یزداں اوراہ رمن ک ے قائل ہیں اور نصاری جو اقانیم ثلاثہ ک ے قائل ہ وئ ے اور ذات خداوند ی کو تین اجزا یعنی باپ بیٹ ا اور روح القدس میں تقسیم کیا ،ان میں سے بعض کا عق یدہ یہ ہے ک ہ روح القدس ک ے عوض مر یم ہیں۔ ان ت ینوں میں سے ہ ر ا یک کے لئ ے ا یک خاصیت کے معتقد ہ وئ ے جو باق ی دو میں موجود نہیں ہے ۔ اور جب تک یہ تینوں اکھٹ ا ن ہ ہ و ں ذات خداوند ی کی حقیقت مکمل نہیں ہوتی جیسا کہ سور ہ نمبر ۵(مائد ہ )آ یت نمبر۷۷ میں خدا نے ان ک ے قول ک ی تردید اور اپنی وحدانیت کا اثبات فرمایا ہے "لقد کفر الذین قالوا ان الله ثالث ثلاثة وما من اله الا اله واحد" ( یعنی یقینا وہ لوگ کافر ہ وگئ ے جن ہ و ں ن ے خدا کو ت ین میں سے ا یک جانا (یعنی تین خدا کے قائل ہ وئ ے باپ ب یٹ ا ،روح القدس) حالانکہ سوائ ے خدا ئ ے واحد ک ے اور کوئ ی خدا نہیں)۔

عقائد نصاری

اس آیہ مبارکہ م یں نصاری کے فرقو ں م یں نسطوریہ ،ملکائیہ اور یعقوبیہ کا بیان کیا گیا ہے جن ہ و ں ن ے ثنو یہ اور بت پرستوں س ے یہ عقیدہ حاصل کیا (کتاب الوثنیہ فی الدیانیۃ النصرانیۃ ۔ مؤلف تنیر بیرونی کی طرف رجوع کیا جائے ) خلاص ہ یہ کہ نصار ی ثنویہ اور مجوس کی طرح مشرک ہیں کیونکہ اقانیم ثلاثہ ک ے قائل ہیں اس میں سے ز یادہ واضح الفاظ میں وہ لوگ ک ہ ت ے ہیں کہ الو ہیت خدا،مریم اور عیسی کے درم یان مشترک ہے ان م یں سے بعض کا عق یدہ ہے ک ہ خدا ،ع یسی اور روح میں سے ہ ر ا یک خدا ہے ۔ اور الل ہ جل جلا ل ہ ان ت ین میں سے ایک ہے ،و ہ ک ہ ت ے ہیں کہ پ ہ ل ے س ے خدا ت ین تھے ۔ اقنوم الاب ، اقنوم الابن ،روح القدس(سر یانی زبان میں اقنوم کے معن ی وجود ہ ست ی ہیں) اس کے بعد یہ تینوں اقنوم ایک ہ وگئ ے اور و ہ مس یح ہیں اس میں کوئی شبہ ن ہیں کہ عقل ی ،نقلی دلائل سے دلائل اتحاد کا باطل ہ و نا ثابت ہے ۔ اور اس معن ی سے اتحاد حق یقی محال ہے حت ی کہ غ یر ذات واجب الوجود میں بھی اسی وجہ س ے آخرت م یں فرماتا ہے ۔ "وما من ال ہ الا ال ہ واحد" ( یعنی کوئی ایسی ذات واجب جو عبادت کی مستحق ہ و سواخدا ئ ے

۷۷

یکتا کے موجود ن ہیں ہے جو وحدان یت محض سے موصوف ہے ۔ شرکت کے و ہ م س ے بالاتر ہے اور سار ے ممکن موجودات کا مبداء و ہی ذات وحدہ لا شر یک ہے ۔

شرک درصفات

شرک درصفات یہ ہے ک ہ خدائ ے تعال ی کے صفات ج یسے حکمت ،قدرت اورحیات وغیرہ کو قدیم لیکن زائد ذات سمجھیں جیسے اشعری جو ابو الحسن علی ابن اسماعیل اشعری بصری کے اصحاب م یں جیسا کہ آپ ک ے اکابر علماء مثلا عل ی ابن احمد بن حزم الظاہ ر ی نے کتاب فصل جزء چ ہ ارم صفحہ نمبر ۲۰۷ میں اور مشہ ور فلسف ی ابن رشد محمد بن احمد اندلسی نے کتاب "الکشف من منا ہ ج الادق ۃ فی عقائد الملۃ"صفحہ نمبر ۵۸ م یں نقل کیا ہے ک ہ یہ لوگ معتقد ہیں کہ الل ہ ک ے صفات زائد بر ذات اور قد یم ہیں ۔ چنانچ ہ جو شخص صفات خداوند ی کو حقیقتا اس کی ذات اجل پرزائد سمجھے یعنی اس کو صفت عالمیت ،وہ مشترک ہے ا س لئے ک ہ اس ن ے قدم م یں اس کے لئ ے کفو وقر ین اور ہ مسر ثابت ک یا حالانکہ سوا حق تعال ی کی ذات ازلی کے کائنات م یں کسی قدیم کا وجود نہیں ہے اور صفات خداوند ی اس کی عین ذات ہیں جیسے شیرینی اور چکنا ہٹ الگ ک ی کی چیزیں نہیں ہیں جو شکر اور روغن کی ذات پر وارد ہ وئ ی ہ و ں بلک ہ جس وقت خدا ن ے شکر اور روغن کو پ ید کیا ، تو پھ ر و ہ شکر اور روغن ہی نہ ر ہیں گے ۔ "تلک الامثال نضرب ھ ا للناس وما یعقلھ ا الا العالمون" یہ مثالیں ذہ نو ں کو ملتفت کرن ے ک ے لئے ہیں تاکہ ہ م جس وقت بو ل یں خدا یعنی عالم ،حی ،قادر، حکیم، وغیرہ تو یہ سمجھ ل یں کہ صفات خداوند ی اس کی ذات پر زائد نہیں ہیں۔

شرک در افعال

افعال میں شرک یہ ہے ک ہ خدا کو حق یقی طو رپر متوحد اور متفرد با لذات نہ سمج ھے ،اس صورت س ے ک ہ مخلوقات م یں سے کس ی ایک فرد یا افراد کو خدا کے افعال اور تدب یروں میں مؤثر یا مؤثر کا جزء سجھے یا یہ کہ خلقت ک ے بعد امور کو مخلوق ک ے سپرد جان ے جس ک ے یہ ود ی قائل تھے ک ہ خدان ے مخلوقات کو خلق ک یا اس کے بعد امور ک ی تدبیر سے بازر ہ ا ۔

۷۸

سارا کام خلق ک ے ذم ہ چ ھ و ڑ د یا اور خود علیحدگی اختیار کر لی ۔

چنانچہ ان لوگوں ک ی مذمت میں سورہ نمبر ۵ (مائد ہ )آ یت نمبر۲۶ میں ارشاد ہے "وقالت ال یھ ود یداللہ مغلولۃ غلت ایدیھ م ولعنوا بما قالوا بل یداہ مبسوطتان ینفق کیف یشاء"(یعنی یہ ود یوں نے ک ہ ا ک ہ خدا ک ے ہ ات ھ بند ھے ہ وئ ے ہیں( اب وہ خلقت م یں کوئی تغیر نہیں کرے گا او ر نہ کوئ ی چیز پید کرے گا اس ج ھ و ٹی بات کی وجہ س ے )ان ک ے ہ ات ھ بند ھ گئ ے اور و ہ خدا ک ی لعنت میں گرفتار ہ وئ ے ۔ بلک ہ خدا ک ے دونو ں ہ ات ھ ( یعنی اس کی قدرت اوررحمت)کھ ل ے ہ وئ ے ہیں وہ جس طرح چا ہ تا ہے نفق ہ د یتا ہے )

اور مشرکین غلات جن کو مفوضہ ب ھی کہ ت ے ہیں قائل ہیں کہ خدا ن ے امامو ں کو امور تفویض کردیئے ۔ و ہی پیدا کرتے ہیں اور روزی دیتے ہیں ۔یہ بدیہی چیزیں ہیں کہ جو شخص افعال خداوند ی میں کسی طریقے سے کس ی کودخیل سمجھے ،جز مؤثر ک ی صورت سے یا انبیاء یا امتوں یا اماموں کو تفویض امور کی حیثیت سے قطعا شرک ہے ۔

شرک در عبادت

اور شرک در عبادت یہ ہے ک ہ عبادت ک ے موقع پر ظا ہ ر ی توجہ یا دل کی نیت غیر حق کی طرف رکھے مثلا نماز م یں خلق کی طرف توجہ کر ے یا اگر نذر کرتا ہے تو خلق ک ے لئ ے کر ے اور اس طرح عبادتو ں م یں نیت کی ضرورت ہے اگر عمل ک ے وقت ن یت غیر خدا کے لئ ے ہ و تو و ہ مشرک ہے کیونکہ سورہ نمبر۸۱(ک ہ ف)آ یت نمبر۱۱۰ میں صریحی طور پر اس طرح کے عمل (شرک )س ے منع ک یا گیا ہے ۔ قول ہ "فمن کان یرجو لقاآربہ فل یعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا "( یعنی جو شخص لقائے رحمت پروردگار کا ام ید وار ہے اس کو چائ یے کہ و ہ ن یکو کار بنے ( یعنی پاک اور پسندیدہ عمل کرے )اور اپن ے خدا ک ی عبادت میں ہ رگز کس ی کو اس کا شریک نہ بنائ ے ۔

عمل اور عبادت کے وقت چائ یے ک ہ غیر خدا کی طرف توجہ ن ہ کر ے ،پ یغمبر یا امام یا مرشد کی صورت نظر کے سامن ے ن ہ رک ھے اس طر یقے سے ک ہ نماز ،روز ہ ، حج، خمس، زکا ۃ اور نذر وغیرہ ہ ر قسم ک ی واجب یامستحب عبادت کا ظاہ ر عمل خدا ک ے لئ ے ہ و ل یکن دل اور باطن میں توجہ غ یر خدا کی طرف رہ ے یعنی شہ رت اور لوگو ں کو اپن ی طرف مائل کرنے ک ے لئ ے یا کسی اور مقصد سے ۔

اس لئے ک ہ عمل م یں ریا حدیث کی زبان میں شرک اصغر کہ ا گ یا ہے جو ہ ر عامل کو برباد کرن ے والا ہے چنان چہ

۷۹

حضرت رسول(ص) الل ہ خدا س ے منقول ہے ک ہ "اتقوا الشرک الاصغر" یعنی پرہیز کرو چھ و ٹے شرک س ے لوگو ں ن ے عرض ک یا یا رسول اللہ چ ھ و ٹ ا شرک کون ہے ؟فرما یا "الریاء والسمعۃ"ریا اور سمعہ ( یعنی دکھ ان ے اور سنان ے ک ے لئ ے عبادت کرنا (مترجم) )شرک اصغر ہے ۔

نیزآنحضرت (ص)سے مرو ی ہے ک ہ فرما یا " ان اخوف ما اخاف علیکم الشرک الخفی ایا کم والشرک السر فان الشرک اخفی فی امتی من دبیب النمل علی الصفا فی اللیلة الظلماء" (یعنی بد ترین چیز جس سے م یں تمھ ار ے لئ ے ڈ رتا ہ و ں و ہ پوش یدہ شرک ہے ۔ ل ہ ذا مخف ی شرک سے دور ر ہ و ک یونکہ میری امت میں شرک اندھیری رات میں سخت پتھ ر پر چون ٹی کے ر ینگنے سے ب ھی زیادہ پو شیدہ ہے پ ھ ر فرما یا جو شخص ریا کے سات ھ نمازپ ڑھے و ہ مشرک ہے ۔ جو شخص ر یا سے روز ہ رک ھے یا ریا سے صدق ہ د ے یا ریا سے حج کر ے یا ریا سے غلام آزاد ک ے و ہ ب ھی شرک ہ وگا ۔ اور یہ آخری قسم چونکہ قلب ی امور سے متعلق ہے ل ہ ذا شرک خف ی میں شامل کی گئی ہے ۔

حافظ:- ہ م آپ ہی کے ب یان سے سند ل ے ر ہے ہیں کیونکہ آپ نے فرما یا ہے ک ہ اگر کوئ ی شخص خلق کے لئ ے نذر کر ے تو و ہ مشرک ہے ل ہ ذا ش یعہ بھی مشرک ہیں ،اس لئے ک ہ ہ م یشہ امام اور امام زادے ک ے لئ ے نذر کرت ے ہیں اور چونکہ یہ نذر غیر خدا کے لئ ے ہے ل ہ ذا یقینا شرک ہے ۔

نذر کے بار ے م یں

خیرطلب :- عقل اور علم منطق کا قاعدہ یہ ہے ک ہ اگر کس ی قوم وملت کے عقائد م یں فیصلہ کرنا چائیں تو جاہ ل اور ب ے خبر لوگو ں ک ے اقوال یا افعال پر فیصلہ نہیں کیا کرتے بلک ہ اس قوم ک ے قوان ین اور ان کی معتبر کتابوں پر پورا تبصر ہ کرت ے ہیں ۔

حضرات محترم اگر آپ شیعوں کے عقائد ک ی تہ تک پ ہ نچنا چا ہ ت ے ہیں تو بے خبر ش یعہ عوام کے اقوال وافعال پر توج ہ ن ہ کرنا چا ہ ئ یے کہ اگر ب ے پ ڑھے لک ھے فق یروں نے راستو ں م یں یا علی یا امام رضا کی صدا لگادی تو آپ ان الفاظ کو ان کے یا تمام شیعوں کے شرک ک ی دلیل قرار دیں یا اگر ایک جاہ ل محض نا واقف یت میں امام یا امام زادے ک ے لئ ے نذر کر ے تو آپ اس کو اپن ے مقابل کو ز یر کرنے ک ے لئ ے حرب ہ بنا ل یں ۔ اس لئ ے ک ہ جا ہ ل اور لا ابال ی افراد تو ہ ر قوم ک ے عوام م یں پیدا ہ وت ے ہیں ۔

البتہ آپ کی نیت خالص ہے ،ب ہ ان ہ ساز ی اور عیب جوئی کے درپ ے ن ہیں ہیں اور عقلمندی کے سات ھ سمج ھ نا چا ہ ت ے ہیں تو شیعوں کی فقہی کتابوں ک ی طرف رجوع کیجئیے جو عام طور پر دستیاب ہ وت ی ہیں اور ہ ر کتب

۸۰

(۴۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند المسير إلى الشام قيل إنه خطب بها وهو بالنخيلة خارجا من الكوفة إلى صفين

الْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا وَقَبَ لَيْلٌ وغَسَقَ والْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا لَاحَ نَجْمٌ وخَفَقَ والْحَمْدُ لِلَّه غَيْرَ مَفْقُودِ الإِنْعَامِ ولَا مُكَافَإِ الإِفْضَالِ.

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَعَثْتُ مُقَدِّمَتِي وأَمَرْتُهُمْ بِلُزُومِ هَذَا الْمِلْطَاطِ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرِي - وقَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَقْطَعَ هَذِه النُّطْفَةَ إِلَى شِرْذِمَةٍ مِنْكُمْ - مُوَطِّنِينَ أَكْنَافَ دِجْلَةَ - فَأُنْهِضَهُمْ مَعَكُمْ إِلَى عَدُوِّكُمْ - وأَجْعَلَهُمْ مِنْ أَمْدَادِ الْقُوَّةِ لَكُمْ.

قال السيد الشريف أقول يعنيعليه‌السلام بالملطاط هاهنا السمت الذي أمرهم بلزومه وهو شاطئ الفرات ويقال ذلك أيضا لشاطئ البحر وأصله ما استوى من الأرض ويعني بالنطفة ماء الفرات وهو من غريب العبارات وعجيبها.

(۴۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو صفین کے لئے کوفہ سے نکلتے ہوئے مقام نخیلہ پر ارشاد فرمایا تھا)

پروردگار کی حمد ہے جب بھی رات آئے اورتاریکی چھائے یا ستارہ چمکے اورڈوب جائے۔پروردگار کی حمدوثنا ہے کہ اس کی نعمتیں ختم نہیں ہوتی ہیں اور اس کے احسانات کا بدلہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔

امابعد! میں نے اپنے لشکر کا ہر اول دستہ روانہ کردیا ہے اور انہیں حکم دے دیا ہے کہ اس نہر کے کنارے ٹھہر کر میرے حکم کا انتظار کریں۔میں چاہتا ہوں کہ اس دریائے دجلہ کو عبور کرکے تمہاری(۱) ایک مختصرجماعت تک پہنچ جائوں جو اطراف دجلہ میں مقیم ہیں تاکہ انہیں تمہارے ساتھ جہاد کے لئے آمادہ کر سکوں اور ان کے ذریعہ تمہاری قوت میں اضافہ کر سکوں۔

سید رضی : ملطاط سے مراد دریا کا کنار ہ ہے اور اصل میں یہ لفظ ہموار زمین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نطفہ سے مراد فرات کا پانی ہے اور یہ عجیب و غریب تعبیرات میں ہے۔

(۱)اس جماعت سے مراد اہل مدائن ہیں جنہیں حضرت اس جہاد میں شامل کرنا چاہتے تھے اور ان کے ذریعہ لشکر کی قوت میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔خطبہ کے آغاز میں رات اور ستاروں کاذکر اسامر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ لشکراسلام کو رات کی تاریکی اورستارہ کے غروب و زوال سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔نور مطلق اور ضیاء مکمل ساتھ ہے تو تاریکی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور ستاروں کا کیا بھروسہ ہے۔ستارے تو ڈوب بھی جاتے ہیں لیکن جو پروردگار قابل حمدو ثناء ہے اس کے لئے زوال و غروب نہیں ہے اور وہ ہمیشہ بندۂ مومن کے ساتھ رہتا ہے۔!

۸۱

(۴۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه جملة من صفات الربوبية والعلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي بَطَنَ خَفِيَّاتِ الأَمُوُرِ - ودَلَّتْ عَلَيْه أَعْلَامُ الظُّهُورِ - وامْتَنَعَ عَلَى عَيْنِ الْبَصِيرِ - فَلَا عَيْنُ مَنْ لَمْ يَرَه تُنْكِرُه - ولَا قَلْبُ مَنْ أَثْبَتَه يُبْصِرُه - سَبَقَ فِي الْعُلُوِّ فَلَا شَيْءَ أَعْلَى مِنْه - وقَرُبَ فِي الدُّنُوِّ فَلَا شَيْءَ أَقْرَبُ مِنْه - فَلَا اسْتِعْلَاؤُه بَاعَدَه عَنْ شَيْءٍ مِنْ خَلْقِه - ولَا قُرْبُه سَاوَاهُمْ فِي الْمَكَانِ بِه - لَمْ يُطْلِعِ الْعُقُولَ عَلَى تَحْدِيدِ صِفَتِه - ولَمْ يَحْجُبْهَا عَنْ وَاجِبِ مَعْرِفَتِه - فَهُوَ الَّذِي تَشْهَدُ لَه أَعْلَامُ الْوُجُودِ - عَلَى إِقْرَارِ قَلْبِ ذِي الْجُحُودِ - تَعَالَى اللَّه عَمَّا يَقُولُه الْمُشَبِّهُونَ بِه - والْجَاحِدُونَ لَه عُلُوّاً كَبِيراً!

(۴۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں پروردگار کے مختلف صفات اور اس کے علم کا تذکرہ کیا گیا ہے)

ساری تعریف اس خداکے لئے ہے جو مخفی امور کی گہرائیوں سے با خبر ہے اوراس کے وجود کی رہنمائی ظہور کی تمام نشانیاں کر رہی ہیں۔وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں آنے والا نہیں ہے لیکن نہ کسی نہ دیکھنے والے کی آنکھ اس کا انکار کر سکتی ہے۔اورنہ کسی اثبات کرنے والے کا دل اس کی حقیقت کو دیکھ سکتا ہے۔وہ بلندیوں میں اتنا آگے ہے کہ کوئی شے اس سے بلند تر نہیں ہے اور قربت میں اتنا قریب ہے کہ کوئی شے اس سے قریب تر نہیں ہے۔نہ اس کی بلندی اسے مخلوقات سے دور بنا سکتی ہے اور نہ اس کی قربت برابر کی جگہ پر لا سکتی ہے۔اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حدوں سے باخبر نہیں کیاہے اوربقدر واجب معرفت سے محروم بھی نہیں رکھا ہے۔وہ ایسی ہستی ہے کہ اس کے انکار کرن والے کے دل پر اس کے وجود کی نشانیاں شہادت دے رہی ہیں۔وہ مخلوقات سے تشبیہ دینے والے اور انکار کرنے والے دونوں کی باتوں سے بلند وبالاتر ہے۔

۸۲

(۵۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه بيان لما يخرب العالم به من الفتن وبيان هذه الفتن

إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وأَحْكَامٌ تُبْتَدَعُ - يُخَالَفُ فِيهَا كِتَابُ اللَّه - ويَتَوَلَّى عَلَيْهَا رِجَالٌ رِجَالًا عَلَى غَيْرِ دِينِ اللَّه - فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ - لَمْ يَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِينَ ولَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ - انْقَطَعَتْ عَنْه أَلْسُنُ الْمُعَانِدِينَ - ولَكِنْ يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ ومِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَيُمْزَجَانِ - فَهُنَالِكَ يَسْتَوْلِي الشَّيْطَانُ عَلَى أَوْلِيَائِه - ويَنْجُو( الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ ) مِنَ اللَّه( الْحُسْنى ).

(۵۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس میں ان فتنوں کا تذکرہ ہے جو لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ان کے اثرات کا بھی تذکرہ ہے)

فتنوں) ۱) کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جن کا اتباع کیا جاتا ہے اور ان جدید ترین احکام سے ہوتی ہے جوگڑھ لئے جاتے ہیں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور دین خدا سے الگ ہو جاتے ہیں کہ اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلب گاروں پرمخفی نہ ہو سکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں۔لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے ' اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے اورایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اورصرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہی جن کے لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے۔

(۱)اس ارشاد گرامی کا آغاز لفظ انما سے ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا کا ہرفتنہ خواہشات کی پیروی اور بدعتوں کی ایجاد سے شروع ہوتا ہے اور یہی تاریخی حقیقت ہے کہ اگر امت اسلامیہ نے روز اول کتاب خدا کے خلاف میراث کے احکام وضع نہ کئے ہوتے اور اگرمنصب و اقتدار کی خواہش میں ''من کنت مولاہ '' کا انکار نہ کیا ہوتااور کچھ لوگ کچھ لوگوں کے ہمدرد نہ ہوگئے ہوتے اور نص پیغمبر (ص) کے ساتھ سن و سال اورصحابیت و قرابت کے جھگڑے نہ شامل کردئیے ہوتے تو آج اسلام بالکل خالص اورصریح ہوتا اور امت میں کسی طرح کا فتنہ وفساد نہ ہوتا۔لیکن افسوس کہ یہ سب کچھ ہوگیا اور امت ایک دائمی فتنہ میں مبتلا ہوگئی جس کا سلسلہ چودہ صدیوں سے جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے گا۔

۸۳

(۵۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما غلب أصحاب معاوية أصحابهعليه‌السلام على شريعة الفرات بصفين ومنعوهم الماء

قَدِ اسْتَطْعَمُوكُمُ الْقِتَالَ فَأَقِرُّوا عَلَى مَذَلَّةٍ وتَأْخِيرِ مَحَلَّةٍ - أَوْ رَوُّوا السُّيُوفَ مِنَ الدِّمَاءِ تَرْوَوْا مِنَ الْمَاءِ فَالْمَوْتُ فِي حَيَاتِكُمْ مَقْهُورِينَ،والْحَيَاةُ فِي مَوْتِكُمْ قَاهِرِينَ - أَلَا وإِنَّ مُعَاوِيَةَ قَادَ لُمَةً مِنَ الْغُوَاةِ - وعَمَّسَ عَلَيْهِمُ الْخَبَرَ - حَتَّى جَعَلُوا نُحُورَهُمْ أَغْرَاضَ الْمَنِيَّةِ.

(۵۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في التزهيد في الدنيا وثواب الله للزاهد ونعم الله على الخالق

التزهيد في الدنيا

أَلَا وإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ تَصَرَّمَتْ وآذَنَتْ بِانْقِضَاءٍ - وتَنَكَّرَ مَعْرُوفُهَا وأَدْبَرَتْ حَذَّاءَ فَهِيَ تَحْفِزُ بِالْفَنَاءِ سُكَّانَهَا - وتَحْدُو بِالْمَوْتِ جِيرَانَهَا

(۵۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب معاویہ کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھیوں کو ہٹا کر صفین کے قریب فرات پرغلبہ حاصل کرلیا اور پانی بند کردیا)

دیکھو دشمنوں نے تم سے غذائے جنگ کا مطالبہ کردیا ہے اب یا تو تم ذلت اوراپنے مقام کی پستی پر قائم رہ جائو'یااپنی تلواروں کو خون سے سیراب کر دو اورخود پانی سے سیراب ہو جائو۔در حقیقت موت ذلت کی زندگی میں ہے اور زندگی عزت کی موت میں ہے۔آگاہ ہو جائو کہ معاویہ گمراہوں کی ایک جماعت کی قیادت کر رہا ہے جس پر تمام حقائق پوشیدہ ہیں اور انہوں نے جہالت کی بناپ ر اپنی گردنوں کو تیر اجل کا نشانہ بنادیا ہے۔

(۵۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا میں زہد کی ترغیب اور پیش پروردگاراس کے ثواب اور مخلوقات پر خالق کی نعمتوں کاتذکرہ کیا گیا ہے )

آگاہ ہو جائو دنیا جا رہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیا ہے اور اس کی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں۔وہ تیزی سے منہ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف سے جا رہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔

۸۴

وقَدْ أَمَرَّ فِيهَا مَا كَانَ حُلْواً وكَدِرَ مِنْهَا مَا كَانَ صَفْواً - فَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا سَمَلَةٌ كَسَمَلَةِ الإِدَاوَةِ أَوْ جُرْعَةٌ كَجُرْعَةِ الْمَقْلَةِ لَوْ تَمَزَّزَهَا الصَّدْيَانُ لَمْ يَنْقَعْ فَأَزْمِعُوا عِبَادَ اللَّه - الرَّحِيلَ عَنْ هَذِه الدَّارِ الْمَقْدُورِ عَلَى أَهْلِهَا الزَّوَالُ - ولَا يَغْلِبَنَّكُمْ فِيهَا الأَمَلُ - ولَا يَطُولَنَّ عَلَيْكُمْ فِيهَا الأَمَدُ.

ثواب الزهاد

فَوَاللَّه لَوْ حَنَنْتُمْ حَنِينَ الْوُلَّه الْعِجَالِودَعَوْتُمْ بِهَدِيلِ الْحَمَامِ وجَأَرْتُمْ جُؤَارَ مُتَبَتِّلِي الرُّهْبَانِ - وخَرَجْتُمْ إِلَى اللَّه مِنَ الأَمْوَالِ والأَوْلَادِ - الْتِمَاسَ الْقُرْبَةِ إِلَيْه فِي ارْتِفَاعِ دَرَجَةٍ عِنْدَه - أَوْ غُفْرَانِ سَيِّئَةٍ أَحْصَتْهَا كُتُبُه - وحَفِظَتْهَا رُسُلُه لَكَانَ قَلِيلًا فِيمَا أَرْجُو لَكُمْ مِنْ ثَوَابِه - وأَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ عِقَابِه.

اس کی شیرینی تلخ ہو چکی ہے اور اس کی صفائی مکدر ہو چکی ہے۔اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو تہہ میں بچا ہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیا سا پی بھی لے تو اس کی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے۔لہٰذا بندگان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جس کے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبر دار! تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا۔

خدا کی قسم اگر تم ان اونٹنیوں کی طرح بھی فریاد کرو جن کا بچہ گم ہوگیا ہو اور ان کبوتروں کی طرح نالہ و فغاں کرو جو اپنے جھنڈ سے الگ ہوگئے ہوں اور ان راہبوں کی طرح بھی گریہ و فریاد کرو جو اپنے گھر بار کو چھوڑ چکے ہیں اور مال و اولاد کو چھوڑ کر قربت خدا کی تلاش میں نکل پڑو تاکہ اس کی بارگاہ میں درجات بلند ہو جائیں یا وہ گناہ معاف ہو جائیں جو اس کے دفتر میں ثبت ہوگئے ہیں اور فرشتوں نے انہیں محفوظ کرلیا ہے تو بھی یہ سب اس ثواب سے کم ہوگا(۱) جس کی میں تمہارے بارے میں امید رکھتا ہوں یا جس عذاب کا تمہارے بارے میں خوف رکھتا ہوں۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ '' فکر ہر کس بقدر ہمت اوست'' دنیا کا انسان کتنا ہی بلند نظر اور عالی ہمت کیوں نہ ہو جائے مولائے کائنات کی بلندی فکر کو نہیں پا سکتا ہے اور اس درجہ علم پرفائز نہیں ہو سکتا ہے جس پر مالک کائنات نے باب مدینتہ العلم کوفائز کیا ہے۔آپ فرمانا چاہتے ہیں کہ تم لوگ میری اطاعت کرو اور میرے احکام پر عمل کرو۔اس کا اجروثواب تمہارے افکار کی رسائی کی حدوں سے بالاتر ہے۔میں تمہارے لئے بہترین ثواب کی امید رکھتا ہوں اور تمہیں بد ترین عذاب سے بچانا چاہتا ہوں لیکن اس راہ میں میرے احکام کی اطاعت کرنا ہوگی اور میرے راستہ پر چلنا ہوگا جو در حقیقت شہادت اورقربانی کا راستہ ہے اور انسان اسی راستہ پر قدم آگے بڑھانے سے گھبراتا ہے اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک دنیا دار انسان جس کی ساری فکر مال دنیا اورثروت دنیا ہے وہ بھی کسی ہلاکت کے خطرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اپنے کو ہلاکت سے بچانے کے لئے سارا مال و متاع قربان کردیتا ہے تو پھرآخر دیندار انسان میں یہ جذبہ کیوں نہیں پایا جاتا ہے؟ وہ جنت النعیم کو حاصل کرنے اور عذاب جہنم سے بچنے کے لئے اپنی دنیا کو قربان کیوں نہیں کرتا ہے؟ اس کا تو عقیدہ یہی ہے کہ دنیا چند روزہ اور فانی ہے اور آخرت ابدی اور دائمی ہے تو پھر فانی کوباقی کی راہ میں کیوں قربان نہیں کردیتا ؟''اف هذا الشی عجاب''

۸۵

نعم الله

وتَاللَّه لَوِ انْمَاثَتْ قُلُوبُكُمُ انْمِيَاثاً وسَالَتْ عُيُونُكُمْ مِنْ رَغْبَةٍ إِلَيْه أَوْ رَهْبَةٍ مِنْه دَماً - ثُمَّ عُمِّرْتُمْ فِي الدُّنْيَا مَا الدُّنْيَا بَاقِيَةٌ مَا جَزَتْ أَعْمَالُكُمْ عَنْكُمْ - ولَوْ لَمْ تُبْقُوا شَيْئاً مِنْ جُهْدِكُمْ - أَنْعُمَه عَلَيْكُمُ الْعِظَامَ وهُدَاه إِيَّاكُمْ لِلإِيمَانِ.

(۵۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكرى يوم النحر وصفة الأضحية

ومِنْ تَمَامِ الأُضْحِيَّةِ اسْتِشْرَافُ أُذُنِهَا وسَلَامَةُ عَيْنِهَا - فَإِذَا سَلِمَتِ الأُذُنُ والْعَيْنُ سَلِمَتِ الأُضْحِيَّةُ وتَمَّتْ - ولَوْ كَانَتْ عَضْبَاءَ الْقَرْنِ تَجُرُّ رِجْلَهَا إِلَى الْمَنْسَكِ

قال السيد الشريف والمنسك هاهنا المذبح.

(۵۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف أصحابه بصفين حين طال منعهم له من قتال أهل الشام

خدا کی قسم اگر تمہارے دل بالکل پگھل جائیں اور تمہاری آنکھوں سے آنسوئوں کے بجائے رغبت ثواب یا خوف عذاب میں خون جاری ہوجائے اور تمہیں دنیا میں آخر تک باقی رہنے کا موقع دے دیا جائے تو بھی تمہارے اعمال اس کی عظیم ترین نعمتوں اور ہدایت ایمان کا بدلہ نہیں ہو سکتے ہیں چاہے ان کی راہ میں تم کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھو۔

(۵۳)

(جس میں روز عید الضحیٰ کا تذکرہ ہے اورقربانی کے صفات کاذکر کیا گیا ہے)

قربانی کے جانور کا کمال یہ ہے کہ اس کے کان بلند ہوں اور آنکھیں سلامت ہوں کہ اگر کان اور آنکھ سلامت ہیں توگویا قربانی سالم اورمکمل ہے چاہے اس کی سینگ ٹوٹی ہوئی ہو اور وہ پیروں کو گھسیٹ کر اپنے کوقربان گاہ تک لے جائے۔

سید رضی : اس مقام پر منسلک سے مراد مذبح اورقربان گاہ ہے۔

(۵۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آپ نے اپنی بیعت کا تذکرہ کیا ہے)

۸۶

فَتَدَاكُّوا عَلَيَّ تَدَاكَّ الإِبِلِ الْهِيمِ يَوْمَ وِرْدِهَا وقَدْ أَرْسَلَهَا

رَاعِيهَا وخُلِعَتْ مَثَانِيهَا حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُمْ قَاتِلِيَّ أَوْ بَعْضُهُمْ قَاتِلُ بَعْضٍ لَدَيَّ - وقَدْ قَلَّبْتُ هَذَا الأَمْرَ بَطْنَه وظَهْرَه حَتَّى مَنَعَنِي النَّوْمَ - فَمَا وَجَدْتُنِي يَسَعُنِي إِلَّا قِتَالُهُمْ - أَوِ الْجُحُودُ بِمَا جَاءَ بِه مُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَكَانَتْ مُعَالَجَةُ الْقِتَالِ أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مُعَالَجَةِ الْعِقَابِ - ومَوْتَاتُ الدُّنْيَا أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مَوْتَاتِ الآخِرَةِ.

(۵۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد استبطأ أصحابه إذنه لهم في القتال بصفين

لوگ مجھ) ۱ ( پر یوں ٹوٹ پڑے جیسے وہ پیاسے اونٹ پانی پر ٹوٹ پڑتے ہیں جن کے نگرانوں نے انہیں آزاد چھوڑ دیا ہو اور ان کے پیروں کی رسیاں کھول دی ہوں یہاں تک کہ مجھے یہ احساس پیدا ہوگیا کہ یہ مجھے مار ہی ڈالیں گے یا ایک دوسرے کوقتل کردیں گے۔میں نے اس امرخلافت کو یوں الٹ پلٹ کردیکھاہے کہ میری نیند تک اڑ گئی ہے اور اب یہ محسوس کیا ہے کہ یا ان سے جہاد کرنا ہوگا یا پیغمبر (ص) کے احکام کا انکار کر دینا ہوگا۔ظاہر ہے کہ میرے لئے جنگ کی سختیوں کا برداشت کرنا عذاب کی سختی برداشت کرنے سے آسان تر ہے اور دنیا کی موت آخرت کی موت اورتباہی سے سبک تر ہے۔

(۵۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کے اصحاب نے یہ اظہار کیا کہ اہل صفین سے جہاد کی اجازت میں تاخیر سے کام لے رہے ہیں)

(۱)سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس اسلام میں روز اول سے بزور شمشیر بیعت لی جا رہی تھی اور انکار بیعت کرنے پر گھروں میں آگ لگائی جا رہی تھی یا لوگوں کو خنجر و شمشیر اورتازیانہ و درہ کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔اس میں یکبارگی یہ انقلاب کیسے آگیا کہ لوگ ایک انسان کی بیعت کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے اوریہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔کیا اس کا راز یہ تھا کہ لوگ اس ایک شخص کے علم و فضل ' زہد و تقویٰ اور شجاعت و کرم سے متاثر ہوگئے تھے۔ایسا ہوت تو یہ صورت حال بہت پہلے پیدا ہو جاتی اور لوگ اس شخص پر قربان ہو جاتے۔حالانکہ ایسا نہیں ہو سکا جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم نے شخصیت سے زیادہ حالات کو سمجھ لیا تھا۔اوریہ اندازہ کرلیا تھا کہ وہ شخص جو امت کے درمیان واقعی انصاف کر سکتا ہے اور جس کی زندگی ایک عام انسان کی زندگی کی طرح سادگی رکھتی ہے اور اس میں کسی طرح کی حرص و طمع کا گزر نہیں ہے وہ اس مرد مومن اور کل ایمان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی بیعت میں سبقت کرنا ایک انسانی اور ایمان فریضہ ہے اور در حقیقت مولائے کائنات نے اس پوری صورت حال کو ایک لفظ میں واضح کردیا ہے کہ یہ دن در حقیقت پیاسوں کے سیراب ہونے کادن تھا اور لوگ مدتوں سے تشنہ اورتشنہ کام تھے لہٰذا ان کاٹوٹ پڑنا حق بجانب تھا اس ایک تشبیہ سے ماضی اورحال دونوں کا مکمل اندازہ کیا جا سکتا ہے۔!

۸۷

أَمَّا قَوْلُكُمْ أَكُلَّ ذَلِكَ كَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ - فَوَاللَّه مَا أُبَالِي - دَخَلْتُ إِلَى الْمَوْتِ أَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ إِلَيَّ - وأَمَّا قَوْلُكُمْ شَكَّاً فِي أَهْلِ الشَّامِ - فَوَاللَّه مَا دَفَعْتُ الْحَرْبَ يَوْماً - إِلَّا وأَنَا أَطْمَعُ أَنْ تَلْحَقَ بِي طَائِفَةٌ فَتَهْتَدِيَ بِي - وتَعْشُوَ إِلَى ضَوْئِي - وذَلِكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقْتُلَهَا عَلَى ضَلَالِهَا - وإِنْ كَانَتْ تَبُوءُ بِآثَامِهَا.

(۵۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يصف أصحاب رسول الله وذلك يوم صفين حين أمر الناس بالصلح

ولَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - نَقْتُلُ آبَاءَنَا وأَبْنَاءَنَا وإِخْوَانَنَا وأَعْمَامَنَا - مَا يَزِيدُنَا ذَلِكَ إِلَّا إِيمَاناً وتَسْلِيماً -

تمہارا یہ سوال کہ کیا یہ تاخیر موت کی ناگواری سے ہے تو خدا کی قسم مجھے موت کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں اس کے پاس وارد ہو جائوں یا وہ میری طرف نکل کر آجائے۔اور تمہارا یہ خیال کہ مجھے اہل شام کے باطل کے بارے میں کوئی شک ہے۔تو خدا گواہ ہے کہ میں نے ایک دن بھی جنگ کو نہیں ٹالا ہے مگر اس خیال سے کہ شائد کوئی گروہ مجھ سے ملحق ہو جائے اور ہدایت پاجائے اورمیری روشنی میں اپنی کمزور آنکھوں کا علاج کرلے کہ یہ بات میرے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں اس کی گمراہی کی بنا پر اسے قتل کردوں اگرچہ اس قتل کا گناہ اسی کے ذمہ ہوگا۔

(۵۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اصحاب رسول (ص) کویاد کیا گیا ہے اس وقت جب صفین کے موقع پر آپنے لوگوں کو صلح کا حکم دیا تھا)

ہم(۱) رسول اکرم (ص) کے ساتھ اپنے خاندان کے بزرگ' بچے 'بھائی اور چچائوں کو بھی قتل کردیا کرتے تھے اوراس سے ہمارے ایمان اور جذبہ تسلیم میں اضافہ ہی ہوتا

(۱)حضرت محمد بن ابی بکر شہادت کے بعد معاویہ نے عبداللہ بن عامر حضرمی کو بصرہ میں دوبارہ فساد پھیلانے کے لئے بھیج دیا۔وہاں حضرت کے والی ابن عباس تھے اور وہ محمد کی تعریف کے لئے کوفہ آگئے تھے۔زیاد بن عبید ان کے نائب تھے۔انہوں نے حضرت کو اطلاع دی۔آپ نے بصرہ کے بنی تمیم کا عثمانی رجحان دیکھ کر کوفہ کے بنی تمیم کو مقابلہ پر بھیجنا چاہا لیکن ان لوگوں نے برادری سے جنگ کرنے سے انکار کردیا تو حضرت نے اپنے دور قدیم کا حوالہ دیا کہ اگر رسول اکرم (ص) کے ساتھ ہم لوگ بھی قبائلی تعصب کا شکار ہوگئے ہوتے تو آج اسلام کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔اسلام حق و صداقت کا مذہب ہے اس میں قومی اورقبائلی رجحانات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

۸۸

ومُضِيّاً عَلَى

اللَّقَمِ وصَبْراً عَلَى مَضَضِ الأَلَمِ وجِدّاً فِي جِهَادِ الْعَدُوِّ - ولَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا والآخَرُ مِنْ عَدُوِّنَا - يَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَيْنِ يَتَخَالَسَانِ أَنْفُسَهُمَا أَيُّهُمَا يَسْقِي صَاحِبَه كَأْسَ الْمَنُونِ - فَمَرَّةً لَنَا مِنْ عَدُوِّنَا ومَرَّةً لِعَدُوِّنَا مِنَّا - فَلَمَّا رَأَى اللَّه صِدْقَنَا أَنْزَلَ بِعَدُوِّنَا الْكَبْتَ وأَنْزَلَ عَلَيْنَا النَّصْرَ - حَتَّى اسْتَقَرَّ الإِسْلَامُ مُلْقِياً جِرَانَه ومُتَبَوِّئاً أَوْطَانَه - ولَعَمْرِي لَوْ كُنَّا نَأْتِي مَا أَتَيْتُمْ - مَا قَامَ لِلدِّينِ عَمُودٌ ولَا اخْضَرَّ لِلإِيمَانِ عُودٌ - وايْمُ اللَّه لَتَحْتَلِبُنَّهَا دَماً ولَتُتْبِعُنَّهَا نَدَماً!

(۵۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفة رجل مذموم ثم في فضله هوعليه‌السلام

أَمَّا إِنَّه سَيَظْهَرُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي رَجُلٌ رَحْبُ الْبُلْعُومِ مُنْدَحِقُ الْبَطْنِ يَأْكُلُ مَا يَجِدُ

تھا اور ہم برابر سیدھے راستہ پر بڑھتے ہی جا رہے تھے اور مصیبتوں کی سختیوں پر صبر ہی کرتے جا رہے تھے اور دشمن سے جہاد میں کوششیں ہی کرتے جا رہے تھے۔ہمارا سپاہی دشمن کے سپاہی سے اس طرح مقابلہ کرتا تھا جس طرح مردوں کا مقابلہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جائیں۔اور ہر ایک کو یہی فکر ہو کہ دوسرے کو موت کا جام پلادیں۔پھر کبھی ہم دشمن کو مار لیتے تھے اور کبھی دشمن کو ہم پر غلبہ ہوجاتا تھا۔اس کے بعد جب خدا نے ہماری صداقت(۱) کوآزما لیا تو ہمارے دشمن پر ذلت نازل کردی اورہماری اوپر نصرت کا نزول فرمادیا یہاں تک کہ اسلام سینہ ٹیک کر اپنی جگہ جم گیا اور اپنی منزل پر قائم ہوگیا۔ میری جان کی قسم اگر ہمارا کرداربھی تمہیں جیسا ہوتا تو نہ دین کا کوئی ستون قائم ہوتا اور نہ ایمان کی کوئی شاخ ہری ہوتی۔خدا کی قسم تم اپنے کرتوت سے دودھ کے بدلے خون دوھوگے اور آخرمیں پچھتائو گے۔

(۵۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایک قابل مذمت شخص کے بارے میں)

آگاہ ہو جائو کہ عنقریب تم پر ایک شخص مسلط ہو گا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ بڑا ہوگا۔جو پاجائے گا کھا جائے گا

(۱)ایک عظیم حقیقت کا اعلان ہےکہ پروردگار اپنے بندوں کی بہر حال مدد کرتا ہے۔اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ'' کان حقا علینا نصر المومنین '' (مومنین کی مدد ہماری ذمہ دری ہے )'' ان الله مع الصابرین '' ( اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) لیکن اس سلسلہ میں اس حقیقت کو بہرحال سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نصرت ایمان کے اظہار کے بعد اوریہ معیت صبر کیے بعد سامنے آتی ہے جب تک انسان اپنے ایمان و صبر کا ثبوت نہیں دیدیتا ہے خدائی امداد کا نزول نہیں ہوتا ہے۔'' ان تصنرو الله ینصر کم '' (اگرتم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔نصرت الٰہی تحفہ نہیں ہے مجاہدات کا انعام ہے۔پہلے مجاہدہ نفس اس کے بعد انعام۔!

۸۹

ويَطْلُبُ مَا لَا يَجِدُ - فَاقْتُلُوه ولَنْ تَقْتُلُوه - أَلَا وإِنَّه سَيَأْمُرُكُمْ بِسَبِّي والْبَرَاءَةِ مِنِّي - فَأَمَّا السَّبُّ فَسُبُّونِي فَإِنَّه لِي زَكَاةٌ ولَكُمْ نَجَاةٌ - وأَمَّا الْبَرَاءَةُ فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي - فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وسَبَقْتُ إِلَى الإِيمَانِ والْهِجْرَةِ.

(۵۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به الخوارج حين اعتزلوا الحكومة وتنادوا أن لا حكم إلا لله أَصَابَكُمْ حَاصِبٌ ولَا بَقِيَ مِنْكُمْ آثِرٌ أَبَعْدَ إِيمَانِي بِاللَّه،

وجِهَادِي مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - أَشْهَدُ عَلَى نَفْسِي بِالْكُفْرِ - لَالْكُفْرِ( قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وما أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ) - فَأُوبُوا شَرَّ مَآبٍ وارْجِعُوا عَلَى أَثَرِ الأَعْقَابِ أَمَا إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي ذُلاًّ شَامِلًا وسَيْفاً قَاطِعاً - وأَثَرَةً

اور جونہ پائے گا اس کی جستجو میں رہے گا۔تمہاری ذمہ داری ہوگی کہ اسے قتل کردو مگر تم ہر گز قتل نہ کرو گے۔ خیروہ عنقریب تمہیں' مجھے گالیاں دینے اور مجھ سے بیزاری کرنے کا بھی حکم دے گا۔تو اگر گالیوں کی بات ہو تو مجھے برا بھلا کہہ لینا کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سامان ہے اورتمہارے لئے دشمن سے نجات کا۔لیکن خبردار مجھ سے برائت نہ کرنا کہ میں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور میں نے ایمان اور ہجرت دونوں میں سبقت کی ہے۔

(۵۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کا مخاطب ان خوارج کو بنایا گیا ہے جو تحکیم سے کنارہ کش ہوگئے اور '' لاحکم الا اللہ '' کا نعرہ لگانے لگے)

خدا کرے۔تم پرسخت آندھیاں آئیں اور کوئی تمہارے حال کا اصلاح کرنے والا نہ رہ جائے۔کیا میں پروردگار پر ایمان لانے اور رسول اکرم (ص) کے ساتھ جہاد کرنے کے بعد اپنے بارے میں کفر کا اعلان کردوں۔ایسا کروں گا تو میں گمراہ ہو جائوں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہ جائوں گا۔جائو پلٹ جائو اپنی بدترین منزل کی طرف اور واپس چلے جائو اپنے نشانات قدم پر۔مگرآگاہ رہو کہ میرے بعد تمہیں ہمہ گیر ذلت اور کاٹنے والی تلوار کا سامنا کرنا ہوگا اور اس طریقۂ کار کا مقابلہ کرنا ہوگا

۹۰

يَتَّخِذُهَا الظَّالِمُونَ فِيكُمْ سُنَّةً.

قال الشريف قولهعليه‌السلام ولا بقي منكم آبر يروى على ثلاثة أوجه:

أحدها أن يكون كما ذكرناه آبر بالراء - من قولهم للذي يأبر النخل أي يصلحه -. ويروى آثر وهو الذي يأثر الحديث ويرويه - أي يحكيه وهو أصح الوجوه عندي - كأنهعليه‌السلام قال لا بقي منكم مخبر -. ويروى آبز بالزاي المعجمة وهو الواثب - والهالك أيضا يقال له آبز

(۵۹)

وقالعليه‌السلام

لما عزم على حرب الخوارج - وقيل له:

إن القوم عبروا جسر النهروان!

مَصَارِعُهُمْ دُونَ النُّطْفَةِ - واللَّه لَا يُفْلِتُ مِنْهُمْ عَشَرَةٌ ولَا يَهْلِكُ مِنْكُمْ عَشَرَةٌ.

جسے ظالم تمہارے بارے میں اپنی سنت بنالیں گے یعنی ہر چیز کو اپنے لئے مخصوص کرلینا۔

سید رضی : حضرت کا ارشاد 'لا بقی منکم آبر'' تین طریقوں سے نقل کیا گیا ہے:

آبر: وہ شخص جو درخت خرمہ کو کانٹ چھانٹ کر اس کی اصلاح کرتا ہے۔

آثر: روایت کرنے والا۔یعنی تمہاری خبر دینے والا بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔اوریہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

آبر: کودنے والا یا ہلاک ہونے والا کہ مزید ہلاکت کے لئے بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔

(۵۹)

آپ نے اس وقت ارشاد فرمایا

جب آپ نے خوارج سے جنگ کا عزم کرلیا اور نہر وان کے پل کو پار کرلیا

یادرکھو(۱) !دشمنوں کی قتل گاہ دریا کے اس طرف ہے۔خدا کی قسم نہ ان میں کے دس باقی بچیں گے اور نہ تمہارے دس ہلاک ہو سکیں گے ۔

(۱)جب امیر المومنین کو یہ خبردی گئی کہ خوارج نے سارے ملک میں فساد پھیلانا شروع کردیا ہے ۔جناب عبداللہ بن خباب بن الارت کو ان کے گھر کی عورتوں سمیت قتل کردیا ہے اور لوگوں میں مسلسل دہشت پھیلا رہے ہیں تو آپ نے ایک شخص کو سمجھانے کے لئے بھیجا۔ان ظالموں نے اسے بھی قتل کردیا۔اس کے بعد جب حضرت عبداللہ بن خباب کے قاتلوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو صاف کہہ دیا کہ ہم سب قاتل ہیں۔اس کے بعد حضرت نے بنفس نفیس توبہ کی دعوت دی لیکن ان لوگوں نے اسے بھی ٹھکرادیا۔آخر ایک دن وہ آگیا جب لوگ ایک لاش کو لے کرآئے اور سوال کیا کہ سرکار اب فرمائیں اب کیا حکم ہے؟ تو آپ نے نعرہ تکبیر بلندکرکے جہاد کا حکم دے دیا اور پروردگار کے دئیے ہوئے علم غیب کی بناپر انجام کار سے بھی با خبر کردیا جو بقول ابن الحدید صد فیصد صحیح ثابت ہوا اور خوارج کے صرف نو افراد بچے اور حضرت کے ساتھیوں میں صرف آٹھ افراد شہید ہوئے۔

۹۱

قال الشريف يعني بالنطفة ماء النهر - وهي أفصح كناية عن الماء وإن كان كثيرا جما - وقد أشرنا إلى ذلك فيما تقدم عند مضي ما أشبهه.

(۶۰)

وقالعليه‌السلام

لما قتل الخوارج فقيل له يا أمير المؤمنين هلك القوم بأجمعهم

كَلَّا واللَّه إِنَّهُمْ نُطَفٌ فِي أَصْلَابِ الرِّجَالِ وقَرَارَاتِ النِّسَاءِ،كُلَّمَا نَجَمَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ - حَتَّى يَكُونَ آخِرُهُمْ لُصُوصاً سَلَّابِينَ.

(۶۱)

وقالعليه‌السلام

لَا تُقَاتِلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِي - فَلَيْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَأَخْطَأَه - كَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَأَدْرَكَه.

قال الشريف - يعني معاوية وأصحابه.

(۶۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما خوف من الغيلة

وإِنَّ عَلَيَّ مِنَ اللَّه جُنَّةً حَصِينَةً -.

سید رضی : نطفہ سے مراد نہر کا شفاف پانی ہے۔جو بہترین کنایہ ہے پانی کے بارے میں چاہے اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو

(۶۰)

آپ نے فرمایا

(اس وقت جب خوارج کے قتل کے بعد لوگوں نے کہا کہ اب تو قوم کاخاتمہ ہوچکا ہے)

ہرگز نہیں۔خدا گواہ ہے کہ یہ ابھی مردوں کے صلب اورعورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں کوئی سر نکالے گا اسے کاٹ دیا جائے گا۔یہاں تک کہ آخرمیں صرف لٹیرے اورچور ہو کر رہ جائیں گے۔

(۶۱)

آپ نے فرمایا

خبر دار میرے بعد خروج کرنے والوں سے جنگ نہ کرنا کہ حق کی طلب میں نکل کر بہک جانے والا اس کا جیسا نہیں ہوتا ہے جو باطل کی تلاش میں نکلے اورحاصل بھی کرلے۔

سید شریف رضی نے فرمایا : یعنی معاویہ اور اس کے پیروکار

(۶۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کو اچانک قتل سے ڈرایا گیا )

یاد رکھو میرے لئے خداکی طرف سے ایک مضبوط و مستحکم سپر ہے

۹۲

فَإِذَا جَاءَ يَوْمِي انْفَرَجَتْ عَنِّي وأَسْلَمَتْنِي - فَحِينَئِذٍ لَا يَطِيشُ السَّهْمُ ولَا يَبْرَأُ الْكَلْمُ

(۶۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحذر من فتنة الدنيا

أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا دَارٌ لَا يُسْلَمُ مِنْهَا إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنْجَى بِشَيْءٍ كَانَ لَهَا - ابْتُلِيَ النَّاسُ بِهَا فِتْنَةً - فَمَا أَخَذُوه مِنْهَا لَهَا أُخْرِجُوا مِنْه وحُوسِبُوا عَلَيْه - ومَا أَخَذُوه مِنْهَا لِغَيْرِهَا قَدِمُوا عَلَيْه وأَقَامُوا فِيه - فَإِنَّهَا عِنْدَ ذَوِي الْعُقُولِ كَفَيْءِ الظِّلِّ - بَيْنَا تَرَاه سَابِغاً حَتَّى قَلَصَ وزَائِداً حَتَّى نَقَصَ.

(۶۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في المبادرة إلى صالح الأعمال

فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه وبَادِرُوا آجَالَكُمْ بِأَعْمَالِكُمْ وابْتَاعُوا

اس کے بعد جب میرا دن آجائے گا تو یہ سپر مجھ سے الگ ہوجائےگااور مجھے موت کے حوالے کردے گا۔اس وقت نہ تیر خطاکرےگا اورنہ زخم مندمل ہو سکے گا

(۶۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا کے فتنوں سے ڈرایا گیا ہے)

آگاہ ہوجائو کہ یہ دنیا ایساگھر ہےجس سےسلامتی کاسامان اسی کےاندرسےکیاجاسکتا ہےاورکوئی ایسی شےوسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہےجو دنیا ہی کےلئے ہولوگ اس دنیاکے ذریعہ آزمائےجاتے ہیں جولوگ دنیاکاسامان دنیا ہی کےلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسےچھوڑکرچلےجاتےہیں اورپھرحساب بھی دینا ہوتا ہےاورجولوگ یہاں سےوہاں کےلئےحاصل کرتےہیں وہ وہاں جاکرپالیتےہیں اوراسی میں مقیم ہو جاتے ہیں۔یہ دنیا درحقیقت صاحبان عقل کی نظرمیں ایک سایہ جیسی ہے جودیکھتے دیکھتےسمٹ جاتا ہے اورپھیلتے پھیلتے کم ہو جاتا ہے۔

(۶۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(نیک اعمال کی طرف سبقت کے بارے میں )

بندگان خدا! اللہ سے ڈرو اور اعمال کے ساتھ اجل(۱) کی طرف سبقت کرو۔اس دنیا کے فانی مال کے

(۱)انسان کے قدم موت کی طرف بلا اختیاربڑھتے جا رہے ہیں اور اسے اس امر کا احساس ا بھی نہیں ہوتا ہے نتیجہ یہ ہتا ہے کہ ایک دن موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور دائمی خسارہ اورعذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے لہٰذا تقاضائے عقل و دانش یہی ہے کہ اعمال کو ساتھ لے کر آگے بڑھے گاتا کہ جب موت کا سامانا ہوتواعمال کا سہارا رہے اورعذاب الیم سے نجات حاصل کرنے کا وسیلہ ہاتھ میں رہے۔

۹۳

مَا يَبْقَى لَكُمْ بِمَا يَزُولُ عَنْكُمْ وتَرَحَّلُوا فَقَدْ جُدَّ بِكُمْ واسْتَعِدُّوا لِلْمَوْتِ فَقَدْ أَظَلَّكُمْ وكُونُوا قَوْماً صِيحَ بِهِمْ فَانْتَبَهُوا - وعَلِمُوا أَنَّ الدُّنْيَا لَيْسَتْ لَهُمْ بِدَارٍ فَاسْتَبْدَلُوا - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً ولَمْ يَتْرُكْكُمْ سُدًى ومَا بَيْنَ أَحَدِكُمْ وبَيْنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ - إِلَّا الْمَوْتُ أَنْ يَنْزِلَ بِه - وإِنَّ غَايَةً تَنْقُصُهَا اللَّحْظَةُ وتَهْدِمُهَا السَّاعَةُ - لَجَدِيرَةٌ بِقِصَرِ الْمُدَّةِ - وإِنَّ غَائِباً يَحْدُوه الْجَدِيدَانِ - اللَّيْلُ والنَّهَارُ لَحَرِيٌّ بِسُرْعَةِ الأَوْبَةِ وإِنَّ قَادِماً يَقْدُمُ بِالْفَوْزِ أَوِ الشِّقْوَةِ - لَمُسْتَحِقٌّ لأَفْضَلِ الْعُدَّةِ - فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا - مَا تَحْرُزُونَ بِه أَنْفُسَكُمْ غَداً فَاتَّقَى عَبْدٌ رَبَّه نَصَحَ نَفْسَه وقَدَّمَ تَوْبَتَه وغَلَبَ شَهْوَتَه - فَإِنَّ أَجَلَه مَسْتُورٌ عَنْه وأَمَلَه خَادِعٌ لَه - والشَّيْطَانُ مُوَكَّلٌ بِه يُزَيِّنُ لَه الْمَعْصِيَةَ لِيَرْكَبَهَا - ويُمَنِّيه التَّوْبَةَ لِيُسَوِّفَهَا

ذریعہ باقی رہنے والی آخرت کو خرید لو اور یہاں سے کوچ کر جائو کہ تمہیں تیزی سے لیجا یا جا رہا ہے اور موت کے لئے آمادہ ہوجائو کہ وہ تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے اس قوم جیسے ہو جائو جیسے پکارا گیا تو فورا ہوشیار ہوگئی۔اوراس نے جان لیا کہ دنیا اس کی منزل نہیں ہے تو اسے آخرت سے بدل لیا۔اس لئے کہ پروردگار نے تمہیں بیکارنہیں پیداکیا اور نہ مہمل چھوڑ دیا ہے اور یاد رکھو کہ تمہارے اور جنت و جہنم کے درمیان اتنا ہی وقفہ ہے کہ موت نازل ہو جائے اور انجام سامنے آجائے اور وہ مدت حیات جیسے ہر لحظہ کم کر رہا ہو اور ہر ساعت اس کی عمارت کو منہدم کر رہی ہو وہ قصیر المدة ہی سمجھنے کا لائق ہے اور وہ موت جسے دن و رات ڈھکیل کر آگے لا رہے ہوں اسے بہت جلد آنے والا ہی خیال کرنا چاہیے اور وہ شخص جس کے سامنے کامیابی یا ناکامی اوربد بختی آنے والی ہے اسے بہترین سامان مہیا ہی کرنا چاہیے۔لہٰذا تم دنیا میں رہ کر دنیا سے زاد راہ حاصل کر لو جس سے کل اپنے نفس کاتحفظ کرس کو۔اس کا راستہ یہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار سے ڈرے۔اپنے نفس سے اخلاص رکھتے ' توبہ کو مقدم کرے۔خواہشات پر غلبہ حاصل کرے اس لئے کہ اس کی اجل اس سے پوشیدہ ہے اور اس کی خواہش اسے مسلسل دھوکہ دینے والی ہے اور شیطان اس کے سر پر سوار ہے جو معصیتوں کو آراستہ کر رہا ہے تاکہ انسان مرتکب ہو جائے اور توبہ کی امیدیں دلاتا ہے تاکہ اس میں تاخیر کرے یہاں تک کہ غفلت اور بے خبری کے عالم میں موت اس پر

۹۴

إِذَا هَجَمَتْ مَنِيَّتُه عَلَيْه أَغْفَلَ مَا يَكُونُ عَنْهَا - فَيَا لَهَا حَسْرَةً عَلَى كُلِّ ذِي غَفْلَةٍ أَنْ يَكُونَ عُمُرُه عَلَيْه حُجَّةً - وأَنْ تُؤَدِّيَه أَيَّامُه إِلَى الشِّقْوَةِ - نَسْأَلُ اللَّه سُبْحَانَه - أَنْ يَجْعَلَنَا وإِيَّاكُمْ مِمَّنْ لَا تُبْطِرُه نِعْمَةٌ ولَا تُقَصِّرُ بِه عَنْ طَاعَةِ رَبِّه غَايَةٌ - ولَا تَحُلُّ بِه بَعْدَ الْمَوْتِ نَدَامَةٌ ولَا كَآبَةٌ.

(۶۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها مباحث لطيفة من العلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَمْ تَسْبِقْ لَه حَالٌ حَالًا - فَيَكُونَ أَوَّلًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ آخِراً - ويَكُونَ ظَاهِراً قَبْلَ أَنْ يَكُونَ بَاطِناً - كُلُّ مُسَمًّى بِالْوَحْدَةِ غَيْرَه قَلِيلٌ - وكُلُّ عَزِيزٍ غَيْرَه ذَلِيلٌ وكُلُّ قَوِيٍّ غَيْرَه ضَعِيفٌ - وكُلُّ مَالِكٍ غَيْرَه مَمْلُوكٌ وكُلُّ عَالِمٍ غَيْرَه مُتَعَلِّمٌ - وكُلُّ قَادِرٍ غَيْرَه يَقْدِرُ ويَعْجَزُ - وكُلُّ سَمِيعٍ غَيْرَه يَصَمُّ

حملہ آور ہوجاتی ہے۔ ہائے کس قدر حسرت کا مقام ہے کہ انسان کی عمر ہی اس کے خلاف حجت بن جائے اور اس کا روز گار ہی اسے بدبختی تک پہنچادے۔پروردگار سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں قرار دے جنہیں نعمتیں مغرور نہیں بناتی ہیں اور کوئی مقصد اطاعت خدا میں کوتاہی پرآمادہ نہیں کرتا ہے اور موت کے بعد ان پر ندامت اور رنج و غم کا نزول نہیں ہوتا ہے۔

(۶۵)

(جس میں علم الٰہی کے لطیف ترین مباحث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے)

تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس کے صفات میں تقدم(۱) و تاخرنہیں ہوتا ہے کہ وہ آخر ہونے سے پہلے اول رہا ہو اور باطن بننے سے پہلے ظاہر رہا ہو۔اس کے علاوہ جسے بھی واحد کہا جاتا ہے اس کی وحدت قلت ہے اور جسے بھی عزیز سمجھا جاتا ہے ہے اس کی عزت ذلت ہے۔اس کے سامنے ہر قوی ضعیف ہے اور ہر مالک مملوک ہے' ہر عالم متعلم ہے اور ہر قادر عاجز ہے' ہر سننے والا لطیف آوازوں کے لئے بہرہ ہے اور اونچی آوازیں بھی اسے بہرہ بنا دیتی ہیں

(۱)یہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار کے صفات کمال عین ذات ہیں اور ذات سے الگ کوئی شے نہیں ہیں۔وہ علم کی وجہ سے عالم نہیں ہے۔بلکہ عین حقیقت علم ہے اور قدرت کے ذریعہ قادر نہیں ہے بلکہ عین قدرت کاملہ ہے اور جب یہ سارے صفات عین ذات ہیں تو ان میں تقدم و تاخر کا کوئی سوال ہی نہیں ہے وہ جس لحظہ اول ہے اسی لحظہ آخر بھی ہے اور جس اندازسے ظاہر ہے اسی اندازسے باطن بھی ہے۔اس کی ذات اقدس میں کسی طرح کا تغیر قابل تصور نہیں ہے حدیہ ہے کہ اس کی سماعت و بصارت بھی مخلوقات کی سماعت و بصارت سے بالکل الگ ہے۔دنیا کا ہر سمیع و بصیر کسی شے کو دیکھتا اور سنتا ہے اور کسی شے کے دیکھنے اورسننے سے قاصر رہتا ہے لیکن پروردگار کی ذات اقدس ایسی نہیں ہے وہ مخفی ترین مناظر ک دیکھ رہا ہے اور لطیف ترین آوازوں کو سن رہا ہے ۔وہ ایسا ظاہر ہے جو باطن نہیں ہے اور ایسا باطن ہے جو کسی عقل و فہم پرظاہر نہیں ہو سکتا ہے۔!

۹۵

عَنْ لَطِيفِ الأَصْوَاتِ - ويُصِمُّه كَبِيرُهَا ويَذْهَبُ عَنْه مَا بَعُدَ مِنْهَا - وكُلُّ بَصِيرٍ غَيْرَه يَعْمَى عَنْ خَفِيِّ الأَلْوَانِ ولَطِيفِ الأَجْسَامِ - وكُلُّ ظَاهِرٍ غَيْرَه بَاطِنٌ وكُلُّ بَاطِنٍ غَيْرَه غَيْرُ ظَاهِرٍ - لَمْ يَخْلُقْ مَا خَلَقَه لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ - ولَا تَخَوُّفٍ مِنْ عَوَاقِبِ زَمَانٍ - ولَا اسْتِعَانَةٍ عَلَى نِدٍّ مُثَاوِرٍ ولَا شَرِيكٍ مُكَاثِرٍ ولَا ضِدٍّ مُنَافِرٍ ولَكِنْ خَلَائِقُ مَرْبُوبُونَ وعِبَادٌ دَاخِرُونَلَمْ يَحْلُلْ فِي الأَشْيَاءِ فَيُقَالَ هُوَ كَائِنٌ - ولَمْ يَنْأَ عَنْهَا فَيُقَالَ هُوَ مِنْهَا بَائِنٌ لَمْ يَؤُدْه خَلْقُ مَا ابْتَدَأَ - ولَا تَدْبِيرُ مَا ذَرَأَ ولَا وَقَفَ بِه عَجْزٌ عَمَّا خَلَقَ - ولَا وَلَجَتْ عَلَيْه شُبْهَةٌ فِيمَا قَضَى وقَدَّرَ - بَلْ قَضَاءٌ مُتْقَنٌ وعِلْمٌ مُحْكَمٌ - وأَمْرٌ مُبْرَمٌ الْمَأْمُولُ مَعَ النِّقَمِ - الْمَرْهُوبُ مَعَ النِّعَمِ!

اور دور کی آوازیں بھی اس کی حد سے باہر نکل جاتی ہیں اور اس طرح اس کے علاوہ ہر دیکھنے والا مخفی رنگ اور لطیف جسم کو نہیں دیکھ سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہر ظاہر غیر باطن ہے اور ہر باطن غیر ظاہر ۔اس نے مخلوقات کو اپنی حکومت کے استحکام یا زمانہ کے نتائج کے خوف سے نہیں پیدا کیا ہے۔نہ اسے کسی برابر والے حملہ آور یا صاحب کثرت شریک یا ٹکرانیوالے مد مقابل کے مقابلہ میں مدد لینا تھی۔ یہ ساری مخلوق اسی کی پیدا کی ہوئی اورپالی ہوئی ہے اور یہ سارے بندے اسی کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔اس نے اشیاء میں حلول نہیں کیا ہے کہ اسے کسی کے اندر سمایا ہوا کہا جائے اور نہ اتنا دور ہوگیا ہے کہ الگ تھلگ خیال کیا جائے۔مخلوقات کی خلقت اورمصنوعات کی تدبیر اسے تھکا نہیں سکتی ہے اور نہ کوئی تخلیق اسے عاجز بنا سکتی ہے اور نہ کسی قضاو قدر میں اسے کوئی شبہ پیدا ہو سکتا ہے۔اس کا ہر فیصلہ محکم اوراس کا ہر علم متقن اور اس کا ہر حکم مستحکم ہے۔ناراضگی میں بھی اس سے امید وابستہ کی جاتی ہے اورنعمتوں میں بھی اس کا خوف لاحق رہتا ہے۔

۹۶

(۶۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في تعليم الحرب والمقاتلة

والمشهور أنه قاله لأصحابه ليلة الهرير أو أول اللقاء بصفين

مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِينَ اسْتَشْعِرُوا الْخَشْيَةَ وتَجَلْبَبُوا السَّكِينَةَ وعَضُّوا عَلَى النَّوَاجِذِ فَإِنَّه أَنْبَى لِلسُّيُوفِ عَنِ الْهَامِ وأَكْمِلُوا اللأْمَةَ وقَلْقِلُوا السُّيُوفَ فِي أَغْمَادِهَا قَبْلَ سَلِّهَا - والْحَظُوا الْخَزْرَ واطْعُنُوا الشَّزْرَ ونَافِحُوا بِالظُّبَى وصِلُوا السُّيُوفَ بِالْخُطَا واعْلَمُوا أَنَّكُمْ بِعَيْنِ اللَّه ومَعَ ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللَّه - فَعَاوِدُوا الْكَرَّ واسْتَحْيُوا مِنَ الْفَرِّ فَإِنَّه عَارٌ فِي الأَعْقَابِ ونَارٌ يَوْمَ الْحِسَابِ - وطِيبُوا عَنْ أَنْفُسِكُمْ نَفْساً - وامْشُوا إِلَى الْمَوْتِ مَشْياً سُجُحاً وعَلَيْكُمْ بِهَذَا السَّوَادِ الأَعْظَمِ والرِّوَاقِ الْمُطَنَّبِ فَاضْرِبُوا ثَبَجَه فَإِنَّ الشَّيْطَانَ كَامِنٌ فِي كِسْرِه

(۶۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(تعلیم جنگ کے بارے میں )

مسلمانو!خوف(۱) خداکو اپنا شعار بنائو۔سکون و وقار کی چادر اوڑھ لو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سروں سے اچٹ جاتی ہیں۔زرہ پوشی کو مکمل کرلو۔تلواروں کو نیام سے نکالنے سے پہلے نیام کے اندرحرکت دے لو۔دشمن کو ترچھی نظر سے دیکھتے رہو اور نیزوں سے دونوں طرف وار کرتے رہو۔اسے اپنی تلواروں کی باڑھ پر رکھو اور تلواروں کے حملے قدم آگے بڑھا کرکرو اوریہ یاد رکھو کہ تم پروردگار کی نگا ہ میں اور رسول اکرم (ص) کے ابن عم کے ساتھ ہو ۔دشمن پر مسلسل حملے کرتے رہو اور فرار سے شرم کرو کہ اس کا عار نسلوں میں رہ جاتا ہے اوراس کا انجام جہنم ہوتا ہے۔اپنے نفس کو ہنسی خوشی خدا کے حوالے کردو اور موت کی طرف نہایت درجہ سکون و اطمینان سے قدم آگے بڑھائو۔تمہارا نشانہ ایک دشمن کا عظیم لشکراورطناب دار خیمہ ہونا چاہیے کہ اسی کے وسط پرحملہ کرو کہ شیطان اسی کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا

(۱)ان تعلیمات پرسنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ایک مرد مسلم کے جہاد کا انداز کیا ہونا چاہیے اوراسے دشمن کے مقابلہ میں کس طرح جنگ آزما ہونا چاہیے۔ان تعلیمات کا مختصرخلاصہ یہ ہے:۔ ۱۔دل کے اندر خوف خدا ہو'۲۔باہر سکون و اطمینان کا مظاہر ہو' ۳۔دانتوں کو بھینچ لیا جائے'۴۔آلات جنگ کو مکمل طورپر ساتھ رکھا جائے' ۵۔تلوار کو نیام کے اندرحرکت دے لی جائے کہ بر وقت نکالنے میں زحمت نہ ہو'۶۔دشمن پر غیط آلود نگاہ کی جائے ' ۷۔نیزوں کے حملے ہر طرف ہوں'۸۔تلوار دشمن کے سامنے رہے '۹۔تلوار دشمن تک نہ پہنچے توقدم بڑھاکرحملہ کرے' ۱۰۔فرار کا ارادہ نہ کرے ' ۱۱۔موت کی طرف سکون کے ساتھ قدم بڑھائے'۱۲۔جان جان آفریں کے حوالے کردے' ۱۳۔ہدف اورنشانہ پرنگاہ رکھے '۱۴۔یہ اطمینان رکھے کہ خدا ہمارے اعمال کودیکھ رہا ہے اور پیغمبر (ص) کا بھائی ہماری نگاہ کے سامنے ہے۔

ظاہر ہے کہ ان آداب میں بعض آداب ' تقویٰ ' ایمان وغیرہ دائمی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض کا تعلق نیزہ و شمشیر کے دور سے ہے لیکن اسے بھی ہردور کے آلات حرب و ضرب پرمنطبق کیاجاسکتا ہے اور اس سے فادئہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

۹۷

وقَدْ قَدَّمَ لِلْوَثْبَةِ يَداً وأَخَّرَ لِلنُّكُوصِ رِجْلًا - فَصَمْداً صَمْداً حَتَّى يَنْجَلِيَ لَكُمْ عَمُودُ الْحَقِّ –( وأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ والله مَعَكُمْ ولَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ )

(۶۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قالوا لما انتهت إلى أمير المؤمنينعليه‌السلام أنباء السقيفة بعد وفاة رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قالعليه‌السلام :ما قالت الأنصار قالوا قالت منا أمير ومنكم أمير قالعليه‌السلام :

فَهَلَّا احْتَجَجْتُمْ عَلَيْهِمْ - بِأَنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَصَّى بِأَنْ يُحْسَنَ إِلَى مُحْسِنِهِمْ - ويُتَجَاوَزَ عَنْ مُسِيئِهِمْ؟

قَالُوا ومَا فِي هَذَا مِنَ الْحُجَّةِ عَلَيْهِمْ؟

ہے۔اس کا حال یہ ہے کہ اس نے ایک قدم حملہ کے لئے آگے بڑھا رکھا ہے۔اور ایک بھاگنے کے لئے پیچھے کر رکھا ہے لہٰذا تم مضبوطی سے اپنے ارادہ پرجمے رہو یہاں تک کہ حق صبح کے اجالے کی طرح واضح ہو جائے اور مطمئن ہو کر بلندی تمہارا حصہ ہے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کر سکتا ہے۔

(۶۷)

آپ کا ارشاد گرامی

جب رسول اکرم (ص)کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ(۱) کی خبریں پہنچیں اور آپ نے پوچھا کہ انصار نے کیا احتجاج کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہمارا ہوگا اور ایک تمہارا۔تو آپ نے فرمایا:۔

تم لوگوں نے ان کے خلاف یہ استدلال کیوں نہیں کیا کہ رسول اکرم (ص) نے تمہارے نیک کرداروں کے ساتھ حسن سلوک اور خطا کاروں سے در گزر کرنے کی وصیت فرمائی ہے ؟

لوگوں نے کہا کہ اس میں کیا استد لال ہے؟

(۱)استاد احمد حسن یعقوب نے کتاب نظریہ عدالت صحابہ میں ایک مفصل بحث کی ہے کہ سقیفہ میں کوئی قانونی اجتماع انتخاب خلیفہ کے لئے نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی اس کا ایجنڈہ تھا اورنہ سوا لاکھ صحابہ کی بستی میں سے دس بیس ہزار افراد جمع ہوئے تھے بلکہ سعد بن عبادہ کی بیماری کی بناپر انصارعیادت کے لئے جمع ہوئے تھے اوربعض مہاجرین نے اس اجتماع کودیکھ کر یہ محسوس کیا کہ کہیں خلافت کا فیصلہ نہ ہوجائے' تو بر وقت پہنچ کر اس قدر ہنگامہ کیا کہ انصار میں پھوٹ پڑ گئی اور فی الفور حضرت ابو بکر کی خلافت کا اعلان کردیا اور ساری کاروائی لمحوں میں یوں مکمل ہوگئی کہ سعد بن عبادہ کو پامال کردیا گیا اور حضرت ابو بکر ''تاج خلافت ''سر پر رکھے ہوئے سقیفہ سے برآمد ہوگئے۔اس شان سے کہ اس عظیم مہم کی بنا پرجنازۂ رسول میں شرکت سے بھی محروم ہوگئے اورخلافت کا پہلا اثر سامنے آگیا۔

۹۸

فَقَالَعليه‌السلام :

لَوْ كَانَ الإِمَامَةُ فِيهِمْ لَمْ تَكُنِ الْوَصِيَّةُ بِهِمْ.

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام :

فَمَا ذَا قَالَتْ قُرَيْشٌ - قَالُوا احْتَجَّتْ بِأَنَّهَا شَجَرَةُ الرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَقَالَعليه‌السلام احْتَجُّوا بِالشَّجَرَةِ وأَضَاعُوا الثَّمَرَةَ.

(۶۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما قلد محمد بن أبي بكر مصر فملكت عليه وقتل

وقَدْ أَرَدْتُ تَوْلِيَةَ مِصْرَ هَاشِمَ بْنَ عُتْبَةَ - ولَوْ وَلَّيْتُه إِيَّاهَا لَمَّا خَلَّى لَهُمُ الْعَرْصَةَولَا أَنْهَزَهُمُ الْفُرْصَةَ بِلَا ذَمٍّ لِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ - فَلَقَدْ كَانَ إِلَيَّ حَبِيباً وكَانَ لِي رَبِيباً.

فرمایاکہ اگر امارت ان کا حصہ ہوتی تو ان سے وصیت کی جاتی نہ کہ ان کے بارے میں وصیت کی جاتی ۔اس کے بعد آپ نے سوال کیا کہ قریش کی دلیل کیا تھی؟ لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے کو رسول اکرم (ص) کے شجرہ میں ثابت کر رہے تھے۔فرمایا کہ افسوس شجرہ سے استدلال کیا اورثمرہ کو ضائع کردیا

(۶۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے محمدبن ابی بکر کو مصر کی ذمہ داری حوالہ کی اور انہیں قتل کردیا گیا)

میرا ارادہ تھا کہ مصر کاحاکم ہاشم بن(۱) عتبہ کو بنائوں اور اگر انہیں بنا دیتا تو ہرگزمیدان کو مخالفین کے لئے خالی نہ چھوڑتے اور انہیں موقع سے فائدہ نہ اٹھانے دیتے ( لیکن حالات نے ایسا نہ کرنے دیا)

اس بیان کا مقصد محمد بن ابی بکر کی مذمت نہیں ہے اس لئے کہ وہ مجھے عزیز تھا اور میرا ہی پروردہ(۲) تھا۔

(۱)ہاشم بن عتبہ صفین میں عملدارلشکر امیر المومنین تھے۔مرقال ان کا لقب تھا کہ نہایت تیز رفتاری اورچابکدستی سے حملہ کرتے تھے۔

(۲)محمد بن ابی بکر اسما بنت عمیس کے بطن سے تھے۔جو پہلے جناب جعفر طیارکی زوجہ تھیں اور ان سے عبداللہ بن جعفر پیدا ہوئے تھے اس کے بعد ان کی شہادت کے بعد ابو بکر کی زوجیت میں آگئیں جن سے محمد پیدا ہوئے اور ان کی وفات کے بعد مولائے کائنات کی زوجیت میں آئیں اور محمد نے آپ کے زیر اثر تربیت پائی یہ اوربات ہے کہ جب عمرو عاص نے چار ہزار کے لشکرکے ساتھ مصر پرحملہ کیا تو اپنے آبائی اصول جنگ کی بنا پرمیدان سے فرار اختیار کیا اور بالآخر قتل ہوگئے اورلاش کو گدھے کی کھال میں رکھ کرجلا دیا گیا یا بروایتے زندہ ہی جلادئیے گئے اور معاویہ نے اس خبرکوسن کر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ (مروج الذہب)

امیر المومنین نے اس موقع پر ہاشم کو اسی لئے یاد کیاتھا کہ وہ میدان سے فرار نہ کر سکتے تھے اور کسی گھر کے اندر پناہ لینے کا ارادہ بھی نہیں کر سکتے تھے ۔

۹۹

(۶۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في توبيخ بعض أصحابه

كَمْ أُدَارِيكُمْ كَمَا تُدَارَى الْبِكَارُ الْعَمِدَةُ والثِّيَابُ الْمُتَدَاعِيَةُ !كُلَّمَا حِيصَتْ مِنْ جَانِبٍ تَهَتَّكَتْ مِنْ آخَرَ - كُلَّمَا أَطَلَّ عَلَيْكُمْ مَنْسِرٌ مِنْ مَنَاسِرِ أَهْلِ الشَّامِ - أَغْلَقَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بَابَه - وانْجَحَرَ انْجِحَارَ الضَّبَّةِ فِي جُحْرِهَا والضَّبُعِ فِي وِجَارِهَا الذَّلِيلُ واللَّه مَنْ نَصَرْتُمُوه - ومَنْ رُمِيَ بِكُمْ فَقَدْ رُمِيَ بِأَفْوَقَ نَاصِلٍ إِنَّكُمْ واللَّه لَكَثِيرٌ فِي الْبَاحَاتِ قَلِيلٌ تَحْتَ الرَّايَاتِ - وإِنِّي لَعَالِمٌ بِمَا يُصْلِحُكُمْ ويُقِيمُ أَوَدَكُمْ ولَكِنِّي لَا أَرَى إِصْلَاحَكُمْ بِإِفْسَادِ نَفْسِي - أَضْرَعَ اللَّه خُدُودَكُمْ وأَتْعَسَ جُدُودَكُمْ لَا تَعْرِفُونَ الْحَقَّ كَمَعْرِفَتِكُمُ الْبَاطِلَ - ولَا تُبْطِلُونَ الْبَاطِلَ كَإِبْطَالِكُمُ الْحَقَّ!

(۶۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب کو سر زنش کرتے ہوئے)

کب تک میں تمہارے ساتھ وہ نرمی کا برتائو کروں جو بیمار اونٹ کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کا کوہان اندر سے کھوکھلا ہوگیا ہو یا اس بوسیدہ کپڑے کے ساتھ کیا جاتا ہے جسے ایک طرف سے سیا جائے تو دوسری طرف سے پھٹ جاتا ہے۔ جب بھی شام کا کوئی دستہ تمہارے کسی دستہ کے سامنے آتا ہے تو تم میں س ے ہر شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیتاہے اور اس طرح چھپ جاتا ہے جیسے سوراخ میں گوہ یا بھٹ میں بجو۔ خدا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مدد گار ہوں گے اور جو تمہارے ذریعہ تیر اندازی کرے گا گویا وہ سو فار شکستہ اورپیکان نداشتہ تیرے نشانہ لگائے گا۔خدا کی قسم تم صحن خانہ میں بہت دکھائی دیتے ہواور پرچم لشکرکے زیر سایہ بہت کم نظرآتے ہو۔میں تمہاری اصلاح کا طریقہ جانتا ہوں اور تمہیں سیدھا کر سکتا ہوں لیکن کیا کروں اپنے دین کو برباد کرکے تمہاری اصلاح نہیں کرنا چاہتا ہوں۔خدا تمہارے چہروں کو ذلیل کرے اور تمہارے نصیب کو بد نصیب کرے۔تم حق کو اس طرح نہیں پہچانتے ہو جس طرح باطل کی معرفت رکھتے ہو اور باطل کو اس طرح باطل نہیں قراردیتے ہو جس طرح حق کو غلط ٹھہراتے ہو۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369