پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310266 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

نوع بشر کے ہادی و رہنما تھے۔ نوح(ع) شیخ الانبیاء ابراہیم (ع) خلیل الرحمن، موسی (ع) کلیم اﷲ، عیسی(ع) روح اﷲ، اور پیغمبر آخرالزمان خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جن کا دین اور شریعت تا روز قیامت باقی اور برقرار ہے۔

جماعت شیعہ کا اعتقاد ہے کہ : "حلال محمّد حلال إلى يوم القيامة، و حرامه حرام إلى يوم القيامة و شريعته مستمرة الی يوم الق ي م ه "

( یعن ی حلال محمد(ص) حلال ہے روز قیامت تک اور حرام آں حضرت(ص) حرام ہے روز قیامت تک اور آپ کی شریعت باقی رہنے والی ہے روز قیامت تک۔)

خدائے تعالی نے سارے نیک و بد اعمال کے لیے ایک جزا اور سزا معین فرمائی ہے جو بہشت یا دوزخ میں بندوں کو دی جائے گی۔

اعمال کی سزا و جزا کے لیے جو دن مقرر ہوا ہے اس کو یوم الجزاء کہتے ہیں کیونکہ دنیا کی عمر ختم ہونے کے بعد خدا اولین و آخرین میں سے تمام نیک و بد مخلوقات کو اسی بدن عںصری جسمانی کیساتھ زندہ کر کے صحرائے محشر میں جمع کرے گا اور حساب و کتاب اور جانچ پڑتال کے بعد ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا۔

چنانچہ آسمانی کتابوں میں بالعموم اور توریت و انجیل و قرآن مجید میں بالخصوص خبر دی گئی ہے اور ہماری ثابت و محکم اور محقق سند یہی قرآن مجید ہے جو بغیر تحریف و ترمیم کے زمانہ رسول(ص) سے متواتر سند کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے ہم اس کے احکام پر حامل ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ عنداﷲ ماجور ہوں گے ہم ان تمام احکام واجبہ کے معتقد ہیں جو اس کتاب مقدس میں درج ہیں جیسے نماز روزہ، زکوة ، خمس اور جہاد وغیرہ۔

اسی طرح جو واجبات و فروعات اور مستحبات و ہدایات رسول خدا(ص) کے ذریعہ ہم کو پہنچے ہیں، ان کے معترف ہیں اور توفیقات الہی سے ان پر عمل کرنے کا عزم بالجزم رکھتے ہیں اور جملہ معاصی اور گناہاں کبیرہ وصغیرہ سے جیسے شراب نوشی، قمار بازی ، زنا ، لواط، سود خوری قتل اور ظلم وغیرہ جن سے قرآن مجید اور احادیث و اخبار میں منع کیا گیا ہے پرہیز کرتے ہیں۔

ہم سب شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس طرح خدائی احکام و ہدایات کا ایک لانے والا ہوتا ہے جس کو خدا نے منتخب کیا ہو اور آدمیوں کے درمیان پہنچایا ہو اسی طرح وصی و خلیفہ اور دین کا محافظ بھی خدا کی طرف سے منتخب ہونا چاہئیے جو پیغمبر (ص) کے ذریعہ امت میں پہچنوایا جائے چنانچہ سارے انبیاء نے خدائے تعالی کے حکم سے اپنے ؟؟؟؟؟ تعارف کرایا اور پیغمبر خاتم (ص) نے بھی جو ان سب سے زیادہ اکمل و افضل تھے فساد و اختلاف سے بچانے کے لیے امت کو اس حال پر نہیں چھوڑا بلکہ سنت جاریہ کے مطابق پروردگار کے حکم سے امت والوں کے درمیان اپنے اوصیاء کا اعلان فرما دیا۔

رسول اکرم(ص) کے ان منصوص اوصیاء کی تعداد جو خدا کی طرف سے معین ہوئے ، بارہ ہے۔

۶۱

یعنی ان میں اول سید الاوصیا علی ابن ابی طالب(ع) دوسرے حسن(ع) تیسرے حسین(ع) چوتھے علی زین العابدین(ع) پانچویں محمد باقر(ع) چھٹے جعفر صادق(ع) ساتویں موسی کاظم (ع) آٹھویں علی رضا(ع) نویں محمد تقی (ع) دسویں علی نقی(ع) گیارہویں حسن عسکری(ع) اور بارہویں محمد مہدی(عج) جو حجتہ قائم ہیں آپ نگاہوں سے غائب ہیں لیکن دنیا موجود ہیں اور اﷲ ان کے ذریعہ زمین کو اس طرح عدل و داد سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی۔(مترجم)

شیعہ امامیہ کا اعتقاد یہ ہے کہ یہ بارہ امام برحق خدا کی جانب سے پیغمبر(ص) کے ذریعہ ہم کو پہنچنوائے گئے ہیں جن سے بارہویں امام نے واضح اور متواتر اخبار کی بنا پر جو آپ کے علماء سے بھی بکثرت منقول ہیں۔ غیبت اختیار فرمائی جیسا کہ دوسرے انبیاء و اوصیاء کے زمانوں میں بھی غیبت واقع ہوتی رہی ہے۔ اس مقدس وجود کو خدا نے رفع ظلم اور اشاعت عدل کے لیے محفوظ رکھا ہے۔ یہ وہ مصلح کل ہے کہ سارے اہل عالم ایسے مصالح کے ظہور کا انتظار کر رہے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ جماعت شیعہ ان جملہ احکام کی جو قرآن مجید میں موجود ہیں اور ان اخبار صحیحہ کی معتقد ہے جو معتبر راویوں کے ذریعہ اہل بیت طہارت(ع) و عترت رسول(ص) اور آں حضرت کے نیک سیرت اور مومن اصحاب خاص کے سلسلے سے اس کو پہنچے ہیں اول باب طہارت سے لےکر آخر باب دیات تک میں خدائے تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھ کو اس کی توفیق عطا فرمائی کہ ماں باپ کی تقلید میں نہیں بلکہ تحقیق و منطق اور برہان کے ذریعہ ان مقدس عقائد کا معتقد ہوں اور اس دین و مذہب پر فخر کرتا ہوں جو شخص اس دین و مذہب میں کلام رکھتا ہو --- شک و شبہ اور فریب میں مبتلا ہو تو میں خدا کی مدد سے شبہات کو دور کرنے و حقائق کو ثابت کرنے کے لیے -- اتنےمیں موذن کی آواز بلند ہوئی اور نماز کا وقت آگیا نماز سے فراغت اور چائے نوشی کے بعد جناب حافظ صاحب نے سلسلہ کلام شروع کیا۔)

حافظ : قبلہ صاحب میں بہت ممنون ہوا کہ آپ نے شیعہ فرقوں کے حالات کی تشریح فرمائی لیکن آپ کی کتب اخبار و ادعیہ میں ایسے مطالب وارد ہوئے ہیں جو بظاہر آپ کی گفتگو کے بر خلاف خاص طور پر اثناء عشری شیعوں کے کفر و الحاد کو ثابت کرتے ہیں۔

۶۲

خیر طلب : بہتر ہے کہ وہ اخبار و ادعیہ اور اشکال کے مواقع بیان فرمائیے تاکہ حق ظاہر ہو جائے۔

حدیث معرفت پر اعتراض

حافظ :- میں نے ب ہ ت س ی حدیثیں دیکھی ہیں لیکن جو اس وقت پیش نظر ہے ک ہ و ہ یہ ہے ک ہ تفس یر صافی میں جو آپ کے ا یک جلیل القدر عالم اور مفسر فیض کاشانی کی لکھی ہ وئ ی ہے ۔ ا یک حدیث نقل کرتے ہیں کہ ا یک روز حضرت حسین شہید کربلا اپنے اصحاب ک ے سامن ے ک ھڑے ہ وئ ے اور فرما یا ۔ "ا یھ ا الناس ان اللہ تعال ی جل ذکرہ ما خلق العباد الا ل یعرفوہ فاذا عرفوہ عبدو ہ واذا عبدو ہ استغنو بعبا دت ہ عن عباد ۃ من سواہ قال رجل من اصحاب ہ باب ی انت واخی یابن رسول اللہ فما معرف ۃ اللہ ؟قال معرف ۃ اھ ل کل زمان امام ھ م الذ ی تجب علیھ م طاعتہ " ۔ ( یعنی اے لوگو خداوند عالم جلّ ذکرہ ن ے خلق ن ہیں کیا ہے بندو ں کو ل یکن اپنی معرفت کے لئ ے اور جب بندو ں ن ے اس کو پ ہ چان ل یا تو اس کی عبادت کی اور جب اس کی عبادت کی تو اس کی عبادت کی وجہ س ے اس ک ے ما سوا ک ی عبادت سے مستغن ی ہ وگئ ے آپ کے اصحاب م یں سے ا یک شخص نے عرض ک یا کہ م یرے باپ بھ ائ ی آپ پر فدا ہ و ں ا ے فرزند رسول (ص) ،معرفت ال ہی کی حقیقت کیا ہے ؟ فرما یا ہ ر زمان ے والو ں کا اپن ے اس امام کو پ ہ چاننا جس ک ی اطاعت ان پر فرض ہے ۔

اعترض کا جواب

خیر طلب:- سب سے پ ہ ل ے تو حد یث کے سلسل ہ اسناد ک ی طرف توجہ کرنا چائ یے کہ آ یا یہ حدیث صحیح ہے یا موثق ومعتبر ،حسن ہے یا ضعیف ،قابل توجہ ہے یا مردود ؟ اگر فرض کر لیا جائے ک ہ صح یح ہے تو توح ید کے بار ے م یں آیات قرآن مجید اورآل اطہ ار وائم ہ ہ د ی علیھ م السلام کے سلسل ے میں احادیث متواترہ ک ے نصوص صر یحہ کو خبر واحد کی وجہ س ے اپن ے ک ھ ل ے ہ وئ ے مطلب س ے پ ھیرا تو نہیں جاسکتا ۔

آپ توحید کے بار ے ان سار ے اخباروآحاد یث ،ائمہ د ین کے ارشادات اور ان ک ے مناظرو ں جو ہ مار ے بزرگان د ین اور ائمہ اثناعشر ن ے مناسب موقعو ں پر مادّ یین اور دہ ر یین سے فرمائ ے ہیں اور خالص توحید کو ثابت فرمایا ہے ک یونکہ نہیں دیکھ ت ے اور ان پر پرتوجہ ک یوں نہیں دیکھ ت ے ؟ اور ان پر توجہ ک یوں نہیں فرماتے ؟ درآنحال یکہ شیعوں کی تمام خاص خاص

۶۳

تفسریں اور کتب اخبار جیسے توحید مفضل وتو حید صدوق اوربحار الانوار علامہ مجلس ی علیہ الرحمۃ کی کتاب توحید اور دیگر بڑے ب ڑے علمائ ے ش یعہ امامیہ کی کتب توحید یہ اہ ل ب یت طاہ ر ین(ص)کی متواتر حدیثوں سے چ ھ لک ر ہی ہیں ۔

آپ چوتھی صدی کے مفاخر علمائ ے ش یعہ میں سے ابو عبد الل ہ محمد بن نعمان معروف ب ہ "مف ید" متوفی سنہ ۴۱۳ ھ کا رسال ہ "النّکت الاعتقاد یۃ"اور انہیں بزرگوار کی تالیف "اوائل المقالات فی المذاھ ب والمختاران"کا مطالع ہ ک یوں نہیں فرماتے ن یز ہ مار ے ش یخ اجل ابو منصور احمد بن علی ابن ابی طالب الطبرسی کی کتاب "احتجاج"کی طرف کیوں رجوع نہیں کرتے تاک ہ آپ کو پت ہ چل ے ک ہ امام برحق حضرت امام رضا عل یہ السلام نے مخالف ین ومنکرین توحید کے مقابل ے م یں کس طرح خالص توحید کو ثابت فرمایا ہے ن ہ ک ہ آپ اس ی فکر میں پڑے ہ وئ ے ہیں کہ کچ ھ واحدو متشابہ خبر یں ڈھ ون ڈ نکال یں اور انہیں کا سہ ارا ل ے کر ش یعوں پر لعن طعن کریں ۔

کیا خوب کہ تا ہے شاعر عرب :

اتبصر فی العین منی القذی ----- وفی عینک الجذع لاتبصر

(یعنی آیا میری آنکھ کاتنکا ڈھ ون ڈھ ت ے ہ و اور اپن ی آنکھ کا ش ہ ت یر نہیں دیکھ ت ے ؟کنایہ یہ ہے ک ہ م یرا چھ و ٹ ا ع یب دیکھ ت ے ہ و اور اپنا ب ڑ ا ع یب نظر نہیں آتا یہ مثل اس لئے پ یش کر رہ ا ہ و ں ک ہ آپ اپن ی کتابوں پر غور ن ہیں فرماتے تاک ہ ان ک ے اندر ا یسے خرافات ومو ہ وما ت بلکہ کفر یات نظر آئیں ۔ " یضحک بہ الثکل ی" (یعنی جس پر پسر مردہ عورت ب ھی ہ نس د ے :مترجم) اورپ ھ ر شرم ک ی وجہ س ے سر ن ہ ا ٹھ ائ یں یہ ا ں تک کہ آپ ک ی معتبر صحاح کے اندر ب ھی اس قدر مضحکہ خ یز روایتیں منقول ہیں کہ عقل مب ہ وت اور ح یران ہ وجات ی ہے ۔

حافظ:- مضحکہ خ یز در اصل آپ کے الفاظ ہیں کہ ا یسی کتابوں پر ع یب لگارہے ہیں جو عظمت وبزرگی میں اپنا جواب نہیں رکھ ت ی ہیں خصوصیت کیساتھ صحیح بخاری اور صحیح مسلم جن کے بار ے م یں عام طور سے ہ مار ے علماء کا اتفاق ہے ک ہ ان ک ے اندر جتن ی حدیثیں ہیں وہ سب قطعی طور پر صحیح ہیں ۔ اوراگر کوئ ی شخص ان دونوں کتابو ں کا اوران ک ے اندر مندرج ہ اخبار کا انکار کر ے اور ان کو غلط بتائ ے تو درحق یقت اس نے اصل مذ ھ ب سنت وجماعت کا انکار ک یا ،کیونکہ قرآن مجید کے بعد ا ہ ل سنت ک ے اعتبار کا دارومدار ان ہیں دونوں بزرگ کتابو ں پر ہے جیسا کہ اگر آپ ک ی نظرسے گزرا ہ و تو ابن حجر مک ی نے صواعق محرق ہ ک ے شروع م یں لکھ ا ہے ۔ "الفصل ف ی بیان کیفیتھ ا رای کیفیۃ خلافۃ ابی بکر روی الشیخان البخاری ومسلم فی صحیحھ ا الذین ھ ما اصح الکتب بعد القرآن اجماع من یعتد بہ "(فصل اس ک یفیت کے ب یان میں (یعنی کیفیت خلافت ابی بکر)شیخین یعنی بخاری ومسلم نے اپن ی صحیحین میں جو با اجماع امت قرآن کے بعد تمام کتابو ں م یں سے سب س ے ز یادہ صحیح ہیں کیونکہ امت نے ان ک ی قبولیت پر اجماع کیا ہے

۶۴

اور جس چ یز پر امت کا اجماع ہ و و ہ قطع ی ہے ل ہ ذا بخار ی اور صحیح مسلم میں جتنی حدیثیں درج ہیں وہ قطع ی طور پر صادر ہ وئ ی ہیں ۔ ل ہ ذا کوئ ی شخص یہ کہ ن ے ک ی جرات کیونکر کر سکتا ہے ک ہ ان دونو ں کتابو ں م یں کفریات اور خرافات وموہ ومات موجود ہیں ؟

صحیحین بخاری ومسلم میں خلاف عقل روایتیں

خیرطلب :- اول تو آپ کے ب یان میں اس جملے پر ک ہ دونو ں کتاب یں ساری امت کی نظر میں قابل قبول ہیں ،علمی اعتراضات قائم ہیں اور ابن حجر کے حوال ے س ے آپ کا یہ دعوی دس کروڑ صاحبان علم وعمل مسلمانو ں ک ے نزد یک علمی عملی ،منطقی طور سے بلکل ب ے وقعت ہے ل ہ ذا اس موقع پر امت کا اجماع ویسا ہی ہے اجماع ہے جس ک ے آپ صدر اسلام م ین امر خلافت کے لئ ے قائل ہیں ۔

دوسرے جو کچھ م یں کہہ ر ہ ا ہ و ں دل یل اور برہ ان ک ے سات ھ ہے ۔ آپ حضرات ب ھی اگر خوش عقیدگی کی آنکھ س ے ن ہیں بلکہ حق یقت ہیں نگاہ س ے ان کتابو ں کو ملاحض ہ فرمائ یں تو جو کچھ م یں دیکھ رہ ا ہ و ں و ہی آپ کو بھی نظر آئے گا ۔ اور ہ مار ے اور سار ے ا ہ ل عقل ک ی طرح ان کے مندرجات س ے متح یر ومتبسم ہ و ں گ ے ۔ ج یسا کہ آپ ک ے ب ہ ت س ے اکابر علماء ج یسے دار قطنی و ابن حزم اور شہ اب الد ین احمد بن محمد قسطلانی" ارشاد الساری"میں ، علامہ ابو الفضل جعفر بن ثعلب شافعی "کتاب الامتاع فی احکام السماع " میں ، شیخ عبد القادر بن محمد قریشی حنفی" جواہ ر المض یۃ فی طبقات الخفیہ " میں ،شیخ الاسلام ابو زکریا ئے نوو ی" شرح صحیح" میں شمس الدین علقمی" کوکب منیر شرح جامع الصغیر" میں اور ابن القیم "زاد المعاد فی ہ د ی خیر العباد " میں بلکہ سار ے حنف ی علماء اور دوسرے سن ی اکابر صحیحین کی بعض احادیث پر تنقید اور نکتہ چ ینی کر چکے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ صح یحین کے اندر ب ہ ت س ی ضعیف اور غیر صحیح حدیثیں موجود ہیں چونکہ بخار ی اور مسلم کا مطمع نظر حدیثوں کو جمع کرنا تھ ا ن ہ ک ہ ان ک ی صحت پر غور وخوص کرنا ۔ آپ ک ے ب عض محقق علماء جیسے کما ل الدین جعفری ثعلب نے صح یحین کی روائتوں ک ے فضائح و قبائح ب یان کرنے اور ان ک ے مثالب ومعائب ظا ہ ر کرن ے م یں سعی بلیغ کی ہے اور اس بار ے م یں روشن اور آشکار دلائل وبراہین قائم کئے ہیں ۔

لہ ذا تنہ ا ہ م ہی مطالب کی تحقیق نہیں کرتے ہیں بلکہ آپ ک ے نشان ہ ملامت ن ہیں بلکہ آپ ک ے اکابر علماء ن ے ب ھی جو حقیقتوں کی جانچ کرتے ہیں اسی طرح کے ب یانات دیئے ہیں۔

حافظ :- بہ تر ہے اپن ے دلائل وبرا ہین حاضرین جلسہ ک ے سامن ے ب یان کیجیئے تاکہ صح یح فیصلہ کر سکیں ۔

۶۵

خیر طلب :- اگر چہ اس وقت ہ مار ی بحث کا موضوع یہ نہیں تھ ا اور اگرم یں اس بحث میں پڑ نا چا ہ و ں تو آپ ک ے سوال کا سلسل ہ چ ھ و ڑ نا پ ڑے گا ل یکن مقصد ثابت کرنے ک ے لئ ے مختصر طور پر چند نمونو ں ک ی طرف اشارہ کئ ے د یتا ہ و ں ۔

رویت باری تعالی کے بار ے م یں اہ ل سنت ک ی چند روایتیں

اگر آپ حلول واتحاد کے کفر آم یز روایات اور خدائے تعال ی کی جسمانیت اور رویت کا عقیدہ کہ و ہ باختلاف عقائد دن یا میں دیکھ ا جاتا ہے یا آخرت میں دیکھ ا جائے گا ۔ (ج یسا کہ جنبل ی اور اشعری سنیوں کا ایک گروہ اس کا قائل ہے )مطالع ہ کرنا چا ہیں تو اپنی معتبر کتابوں ک ی طرف رجوع کیجیئے خصوصا صحیح بخاری جلد اول "باب فضل السجود من کتاب الاذان "صفحہ ۱۷۵ پر آپ کو کاف ی ذخیرہ ملے گا ۔ م یں نمونے ک ے طور پر ان ہیں ابواب میں سے دو روا یتیں آپ کے سامن ے پ یش کرتا ہ و ں ۔ ابو ہ ر یرہ سے روا یت کرتے ہیں "ان النّار تذف وتتقظ تقیظا شدیدا فلا تسکن حتی یضع الرب قدمہ ف یھ ا فتقول قظ قظ حسبی حسبی" ۔ ( یعنی جہ نم ک ے شعلو ں ک ی آواز اور جوش وخروش بڑھ تا جاتا ہے اور اس م یں سکون نہ ہ وگا یہ ا ں تک کہ خدا اس م یں اپنا پاؤں ڈ ال د ے گا تو ج ہ نم ک ہے گا بس بس م یرے لئے کاف ی ہے م یرے لئے ک افی ہے ۔

نیز ابوہ ر یرہ نے روا یت کی ہے ک ہ لوگو ں ک ی ایک جماعت نے رسو ل الل ہ س ے سوال ک یا "هل تری ربنا یوم القیمة قال نعم هل تضارون فی رو یة الشمس بالظههیرة صحوا لیس معها سحاب قالوا لا یا رسو ل الله وهل تضارون فی رویة القلم لیلة البدر صحوا لیس فیها سحاب قالوا لا یا رسول الله قال ما تضارون فی رویة الله یو م القیامة الا کما تضارون فی رویة احدهما اذا کان یو م القیامة اذن مؤذن لتبع کل امة ما کانت تعبد فلا یبقی احد کان یعبد غیر الله من الاصنام الانصاب الا یتسا فظون فی النار حتی اذا لم یبق الا من کان یعبد الله من برونا جر اتاهم رب العالمین فی ادنی صورة من التی را ‎‎ ؤه فیها فیقول انا ربّکم فیقولون نعوذ بالله منک لا نشرک با الله شیئا بینکم وبینه ایة فتعرفون فیها فیقول انا ربکم فیقولون نعم فیکشف الله عن ساق ثم یرفعون روؤسهم وقد تحول فی صورة التی راؤه فیها اول مرّة فقال انا ربکم فیقولون انت ربنا "

(یعنی کیا ہ م لوگ ق یامت کے روز اپن ے پرور دگار کو د یکھیں گے ؟ فرما یا ہ ا ں ،ک یا ظہ ر ک ے وقت جس روزآسمان پر ابر ن ہ

۶۶

ہ و آفتاب کو د یکھ ن ے سے تم کو کوئ ی نقصان پہ نچتا ہے ؟لوگو ں ن ے عرض ک یا نہیں ، فرمایا جن راتوں م یں آسمان پر بادل نہ ہ و ک یا ماہ کامل د یکھ ن ے سے تم ہ ا را کوئی ضرر ہ وتا ہے ۔ عرض ک یا نہیں ،فرمایا تو قیامت کے دن الل ہ کو د یکھ ن ے سے ب ھی تم کو کوئی ضرر نہیں پہ نچ ے گا ج یسا کہ ان دونو ں ک ے د یکھ ن ے سے تم ہ ارا کوئ ی نقصان نہیں ہ وتا ۔ جب ق یامت کا دن ہ وگا تو خدا ک ی طرف سے اعلان ہ وگا ک ہ ہ ر گرو ہ اپن ے معبود کی پیروی کرے ،پس الل ہ ک ے سوا بتو ں ک ی پرستش کرنے والا کوئ ی شخص ایسا باقی نہ ر ہے گا جو ج ہ نم م یں نہ ج ھ ونک د یا جائے ۔ یہ ا ں تک کہ ن یک و بد لوگوں م یں سے سوا ان افراد ک ے جن ہ و ں ن ے الل ہ ک ی پرستش کی ہ وگ ی اور کوئی جہ نم س ے با ہ ر ن ہیں رہے گا ، اس وقت پروردگار عالمین ایک خاص صورت میں ان کے پاس آئ ے گا ک ہ و ہ سب اس کو د یکھیں پھ ر فرمائ ے گا ک ہ م یں تمہ ارا خدا ہ و ں مومن ین عرض کریں گے ک ہ ہ م ت یری خدائی سے خدا ک ی طرف پناہ مانگت ے ہیں ۔ہ م و ہ لوگ ن ہیں ہیں جو خدا کے سوا کس ی اور کی عبادت کریں خدا کہے گا کہ آیا تمہ ار ے اور خدا ک ے درم یان کوئی ایسی نشانی ہے جس کو د یکھ کر تم اسے پ ہ چان لو ؟ و ہ ک ہیں گے ہ ا ں اس وقت الل ہ اپن ے پاؤ ں ک ی پنڈ ل ی کھ ول د ے گا( یعنی اپنے پاؤ ں کو عر یان کرکے نشان د ہی کے گا)اور مومن ین اپنے سر ا ٹھ ائ یں گے تو الل ہ کو اس ی صورت میں دکھیں گے جس میں پہ ل ی بار دیکھ ا تھ ا پ ھ ر و ہ ک ہے گا ک ہ م یں تمہ ارا پروردگار ہ و ں اور و ہ سب ب ھی اقرارکریں گے ک ہ تو ہ مارا خدا ہ و ۔

آپ کو خدا کا واسطہ انصاف ک یجئے کیا اس طرح کی باتیں کفر انگیز نہیں ہیں ۔ ک ہ خدا اپن ے کو مجسم اور عنصر ی صورت میں انسان کے سامن ے پ یش کرے اور اپن ی پنڈ ل ی کھ ول ے ؟ ہ مار ی گفتگو کے ثبوت م یں سب سے ب ڑی دلیل یہ ہے ک ہ مسلم ابن حجاج ن ے اپن ی صحیح میں رویت باری تعالی کے اثبات م یں ایسے با ب کا افتتاح کیا ہے ۔ اور ابو ہ ر یرہ ،زید ابن اسلم، سوید ابن سعید وغیرہ سے ا یسی گھڑی ہ وئ ی روائتیں نقل کی ہیں کہ آپ ک ے ب ڑے ب ڑے علماء ج یسے ذہ ب ی نے " م یڑ ان الاعتدال "میں ،سیوطی نے کتاب" اللئال ی المصنوعۃ فی احادیث الموضوعۃ ّ "میں ، سبط ابن جوزی نے "الموضوعات " م یں ان کے وضع ی ہ ون ے کو دلائل ک ے سات ھ ثابت ک یا ہے ۔ اگر ان لوگو ں ک ے روا یات کو باطل ثابت کرنے وال ی دلیلیں نہ ب ھی ہ وت یں ،تو قرآن مجید کی بکثرت آئتیں صریحی طور پر رویت کی نفی کر چکی ہیں مثلا سورہ ۶ (انعام) آیت ۱۰۳ میں ارشاد ہے "لا تدرکوا الابصار وهو یدرک الابصار وهو اللطیف الخبیر" ( یعنی اس کو کوئی آنکھ درک ن ہیں کرتی ہے اور و ہ سب آنک ھ و ں کا مشا ہ د ہ فرماتا ہے اور و ہ لط یف وغیرمرئی اور ہ رچ یز سے آگا ہ ہے ) ن یز سورہ ۷(اعراف)آ یت ۱۳۹ میں قصّہ موس ی علیہ السلام و بنی اسرائیل کے سلسل ے م یں نقل فرماتا ہے ک ہ جس وقت بن ی اسرائیل کے دباؤ س ے مجبور ہ وکر حضرت موس ی علیہ السلام نے مقام مناجات م یں عرض کیا "ربّ ارنی انظر الیک قال لن ترانی " (یعنی خداوندا اپنے کو م یرے سامنے تاک ہ ظا ہ ر فرما د ے تاک ہ م یں تجھ کو مشاہ د ہ کرو ں ، تو خدا ن ے جواب م یں ارشاد فرمایا کہ تم مج ھ کو ہ ر گز ابد تک ن ہیں دیکھ و گے ۔

۶۷

سید عبد الحی :- (امام جماعت اہ ل تسنن)ک یا مولا علی کرم اللہ وج ہ س ے منقول ن ہیں ہے ک ہ آپ ن ے فرما یا "لم اعبد ربا لم ارہ "( یعنی میں ایسے خدا کی عبادت نہیں کرتا ہ و ں جس کو د یکھ ا نہ ہ و، ل ہ ذا معلوم ہ وتا ہے ک ہ خدا د یکھ ن ے کے قابل ہے ک ہ عل ی ایسا فرما رہے ہیں ۔

اللہ تعالی کے عدم رو یت پر دلائل اخبار

خیر طلب:- جناب نے حد یث کے صرف ا یک جملے ک ی طرف اشارہ فرما یا ہے ، م یں آپ حضرات کی اجازت سے پور ی حدیث پڑھ ر ہ ا ہ و ں ۔ جس س ے آپ کو خود ہی اپنا جواب معلوی ہ وجائ ے گا ۔ اس حد یث کو شیخ بزرگ ثقۃ الاسلام محمد بن یعقوب کلینی نے "اصول کافی" کتاب توحید "باب ابطال الروئۃ ا للہ "م یں امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے اس طرح نقل ک یا ہے ک ہ آپ ن ے فرما یا ۔ "جاء حبر الی امیر المومنین فقال یا امیر المومنین هل رایت ربک حین عبدته ؟ فقال ماکنت اعبد ربا لم اره ،قال وکیف ریته؟ قال لا تدرکه العیور فی مشاهدة الابصار ولکن راته القلوب بحقائق الایمان " ( یعنی ایک(یہ ود ی)عالم نے ام یر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ یا امیر المومنین آیا عبادت کے وقت آپ ن ے خدا کو د یکھ ا ہے ؟ حضرت ن ے فرما یا میں ایسے خدا کی عبادت نہیں کرتا جس کو دیکھ ا نہ ہو۔ اس ن ے عرض ک یا آپ نے اس کو ک یون کر دیکھ ا ؟ فرمایا اس کو ظاہ ر ی اور مادی آنکھیں نہیں دیکھ ت ی ہیں دل اس کو حقائق ایمان کے نور س ے د یکھ ت ے ہیں ) چنانچہ ام یر المومنین کے اس جواب س ے ظا ہ ر ہ وتا ہے ک ہ عنصر ی اور جسمانی آنکھ س ے ن ہیں بلکہ ا یما ن قلبی کے نور س ے د یکھ نا مراد ہے اور یہی مطلب خود کلمہ "لن" س ے ظا ہ ر ہے ک یونکہ جیسا آپ کو معلوم ہے "لن" نف ی ابدی کے لئ ے استعمال ہ وتا ہے اور اس آ یہ شریفہ میں تاکید ہے ک ہ "لا تدرک ہ الابصار "ک ے سات ھ یعنی خدا ہ رگز د نیا و آخرت میں کسی صورت سے د یکھ ا نہیں جاتا ۔

اس مقصد پر اتنے عقل ی اور نقلی دلائل وبراہین قائم ہیں کہ علاو ہ علمائ ے محقق ین اور مفسرین شیعہ کے خود آپ ک ے اکابر علماء ج یسے قاضی بیضاوی اور جار اللہ زمخشر ی نے اپن ی تفسیر میں ثابت کیا ہے ک ہ الل ہ تعال ی کو دیکھ نا محال عقلی ہے ۔

اور جو شخص کیا وہ دن یا اور کیا آخرت میں خدا کی رویت کا معتقد ہ و اس ن ے قطعا خدا کو اپن ی نظر میں محدود قرار دیا اور

۶۸

اس کی ذات بابرکات کے لئ ے جسمان یت کا قائل ہ وا ک یونکہ جب تک جسم عنصری نہ ہ و ظا ہ ر ی اور عنصری آنکھ و ں س ے د یکھ ا نہیں جا سکتا اور اس طرح کا عقیدہ قطعی کفر ہے ج یسا کہ ہ مار ے اور آپ ک ے ب ڑے ب ڑے علماء ن ے اپن ی تفسیروں اور علمی کتابوں م یں ذکر کیا ہے ، ل یکن چونکہ اس وقت یہ ہ مار ی بحث کا موضوع نہیں لہ ذا بطور ثبوت چند جمل ے عرض کر دئ ے گئ ے ہیں ۔

البتہ ان ڈھیروں خرافات وموہ ومات ک ے سلسل ے م یں جو آپ کی معتبر کتابوں م یں درج ہیں میں نے نمون ے ک ے طور پر دو روا یتوں کا خلاصہ نقل کرتا ہ و ں تاک ہ آپ حضرات بعض واحد خبرو ں ک ے ذر یعے جو تشریح وتاویل کے قابل ہیں شیعوں کی کتابوں س ے ا یراد نہ فرمائ یں ۔

آپ کا خیال ہے ک ہ صحاح ست ہ اور بالخصوص صح یح بخاری اور صحیح مسلم کتاب وحی کے مانند ہیں لیکن میں التماس کرتا ہ و ں ک ہ آپ حضرات ت ھ و ڑی دیر کے لئ ے تعصب س ے ہٹ کر نگا ہ انصاف س ے ان ک ی احادیث وروایات پر غور فرمائیں تاکہ اس قدر غلو ک ی نوبت نہ آئ ے ۔

خرافات صحیحین کی طرف اشارہ

بخاری نے اپن ی صحیح کتاب غسل "باب من اغتسل عریانا "میں ،مسلم نے اپن ی صحیح جزء دوم "باب فضائل موسی "میں ،امام احمد بن حنبل نے اپن ی مستند جزء دوم صفحہ ۳۱۵ م یں اور آپ کے دوسرے علماء ن ے ابو ہ ر یرہ سے نقل ک یا ہے ک ہ بن ی اسرائیل کے درم یان یہ رسم تھی کہ سب لوگ مل کر برہ ن ہ پان ی میں جاتے ت ھے اور اس حالت س ے ن ہ ات ے ت ھے ک ہ آپس م یں ایک دوسرے ک ی شرمگا ہ ک ی طرف بھی نظر کر تے ت ھے یہ عمل ان کے یہ ا ں معیوب نہ ت ھ ا البت ہ ان م یں صرف حضرت موسی علیہ السلام تن تنہ ا پان ی میں اترتے ت ھے تا ک ہ کوئ ی شخص ان کی شرمگاہ کو نہ د یکھے ۔ بن ی اسرائیل کہ ت ے ت ھے ک ہ موس ی اس وجہ س ے اک یلے نہ ان ے ک ے لئ ے جات ے ہیں اور ہ م لوگو ں س ے عل یحدہ رہ ت ے ہیں عکہ ان ک ے اندر نقص ہے او ر قطعی طور پر وہ فتق(فتق ،خص یہ بڑ ا ہ ون ے ک ی بیماری ۔ہ رن یا )کے عارض ے م یں مبتلا ہیں ،لہ ذا یہ نہیں چاہ ت ے ک ہ ہ م لوگ ان کو د یکھیں ایک روز حضرت موسی غسل کرنے ک ے لئ ے در یا کے کنار ے گئ ے کپ ڑے اتار کر ا یک پتھ ر پر رک ھ د یئے اور پانی میں اتر گئے "ففرّ الحجر بثوب ہ فجمع موس ی باثرہ یقول ثوبی حجر ،ثوبی حجر حتی نظر بنو اسرائیل الی سواۃ موسی فقالوا واللہ ما بمو سی من باس فقام الحجر بعد حتی نظر فاخذ موسی ثوبہ فطفق بالحجر ضربا فوالل ہ ان بالحجر ندبا ست ۃ او سبعۃ "(یعنی پتھ ر موس ی کے کپ ڑے ل ے ب ھ اگ ک ھڑ ا ہ وا ،موس ی اس کے پ یچھے جھ پ ٹے اور یہ کہ ت ے جار ہے ت ھے ا ے پت ھ ر م یرے کپڑے ،ا ے پت ھ ر م یرے کپڑے ( یعنی میرا لباس کہ ا ں لئ ے ب ھ اگا جاتا ہے ؟) و ہ پت ھ ر اتنا ب ھ اگا اور موس ی اس قدر برہ ن ہ دو ڑے ک ہ بن ی اسرائیل نے ان ک ی شرمگاہ د یکھ لی اور کہ ا خدا کا ک ی

۶۹

قسم موسی کے اندر کوئ ی عیب نہیں ہے یعنی فتق نہیں ہے اس ک ے بعد پت ھ ر ک ھڑ ا ہ وگ یا ، اور جناب موسی نے اپن ے کپڑے ل ے لئ ے پ ھ ر کو ڑے س ے اس کو انتا مارا ک ہ خدا ک ی قسم وہ چ ھے یا سات مرتبہ چ یخ چیخ کے رو یا ۔

آپ کو خدا کی قسم ذرا انصاف کیجئے کہ اگر اس ی طرح کا کوئی عمل آپ حضرات میں سے کس ی کے سات ھ پ یش آئے تو کس قدر ذلت ک ی بات ہے ک ہ آپ لوگو ں ک ے درم یان اس طرح سے بر ہ ن ہ اپن ے لباس ک ے پ یچھے دوڑیں کہ سب آپ ک ی شرمگاہ د یکھ لیں۔ فرض ک یجئے کہ اگر ا یسا اتفاق پیش آجائے تو آدمی کہیں کنارے ب یٹھ جاتا ہے تاک ہ لوگ جا کر اس کا لباس ل ے آئ یں نہ یہ کہ بغ یر کسی ستر پوش کے آدم یوں کے ب یچ میں گھ س پ ڑے تاک ہ سب اس ک ی شرمگاہ د یکھیں ۔ آ یا عقل باور کرتی ہے ک ہ موس ی کلیم اللہ ا یسے انسان سے ا یسی حرکت سرزد ہ وئ ی ہ و ۔ کیا یہ یقین آتا ہے ک ہ ک ہ ب ے زبان پت ھ ر حرکت کر ے اور موس ی کے کپ ڑے ل ے ب ھ اگ ے ؟

سید عبد الحی :- آیا پتھ ر ک ی حرکت زیادہ اہ م ہے یا عصا کا اژدہ ا ہ و جانا ؟ پت ھ ر ک ی حرکت بڑی چیز ہے یا وہ نو معجز ے جن ک ی خدا خبر دے ر ہ ا ہے ؟

خیر طلب :-مثل مشہ و ر ہے "خوب ورد ی آموختہ ا ید، لیک سوراخ دعا گم کردہ ا ید"(یعنی آپ نے ورد خوب س یکھ ا ہے ل یکن دعا کا سوراخ کھ و د یا ہے ) جناب محترم ! م یں معجزات انبیاء علیھ م السلام کا منکر نہیں ہ و ں بلک ہ قرآن مج ید کے حکم س ے معجزات او ر خرق عادت پر ا یمان رکھ تا ہ و ں ل یکن آپ تصدیق کریں گے ۔ ک ہ معجزات او رخرق عادات کا ظ ہ ور مقام تحد ی پر ہ وتا ہے تاک ہ اس مظا ہ ر ہ عمل ک ے مقابل ے م یں فریق مخالف کو عاجز اور حق کو ظاہ ر کرد یا جائے تو اس عمل م یں کون سی تحدی کا یاحق کا ظہ ور ت ھ ا ؟ سوا اس ک ے ک ہ رسوائ ی کا سامنا ہ وا اور خدا ک ے رسول ک ی شرمگاہ خلقت ک ے درم یان عریان ہ وئ ی ۔

سید عبد الحی :- اس سے ب ڑھ کر کون سا حق ت ھ ا ک ہ حضرت موس ی کی صفائی پیش کی جائے تاک ہ لوگ سمج ھ ل یں کہ آپ فتق ن ہیں ہے ۔

خیرطلب :-فرض کر لیا جائے ک ہ جناب موس ی علیہ السلام کو فتق ہی تھ ا اس س ے آپ ک ے منصب نبوت کو ک یا نقصان پہ نچ ر ہ ا ت ھ ا پ یغمبروں کے لئ ے جو چ یز عیب ہے و ہ ذات ی نقائص ہیں جیسے اندھ ا ،ب ہ ر ہ ،چ ھ انگل یوں والا،چار انگلیوں والا ، فحش گو ،مفلوج یا مادر زاد مثل ہ ونا وغ یرہ ورنہ جسمان ی نقائص جو عوارض کی وجہ س ے پ یدا ہ وت ے ہیں جیسے کثرت گریہ کے نت یجے میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کا نابینا ہ وجانا ،حضرت ا یوب علیہ السلام کے جسم پر زخم ، جنگ احد م یں حضرت خاتم الانبیاء (ص) کے سر ودندان ک ی شکستگی اور اس طرح کی دو سری چیزیں منصب نبوت کو کوئی ضرر نہیں پہ نچا ت ی ہیں ۔

فتق بھی ایک جسمانی مرض ہے جو بعد کو عارض ہ وتا ہے ل ھ ذا اس م یں کون سی اہ م یت تھی کہ کس ی ایسے معجز ے

۷۰

اور خرق عادات کے ذر یعہ اس سے برات ثابت ک ی جائے جو پ یغمبر کی ہ تک حرمت اور کشف عورت تک منجر ہ و،تا ک ہ بن ی اسرائیل ان کی شرمگاہ پر نظر کر یں۔ آیا ایسی روایات خرافات و موہ ومات م یں سے ن ہیں کہ جناب موس ی علیہ السلام بغیر ساتر عورتین کے لباس ک ے پ یچھے دوڑیں ، اس قدر غصّہ م یں بھ ر جائ یں اور پتھ ر کو اس طرح س ے مار یں کہ و ہ چ ھ یا سات مرتبہ فر یاد کرے ؟ کتن ے تعجب ک ی بات ہے ک ہ پ یغمبر خدا (ص) کو اتنا بھی نہ معلوم ہ و ک ہ پت ھ ر آنک ھ ، کان اور تاثر ک ی حس نہیں رکھ تا ہے ک ہ اس کو زد وکوب کر یں اور جما د سے نال ہ بلند کرآئ یں۔ نعوذ بالل ہ من ھ ذ ہ الخرافات

ملک الموت کے چ ہ ر ے پر موس ی علیہ السلام کا تھ پ ڑ مارنا

اس خیال سے ک ہ جناب مولو ی سید عبد الحی ابو ہ ر یرہ یا بخاری اور مسلم کی طرف سے جن ہ و ں ن ے اس طرح ک ی گھڑی ہ وئ ی مہ مل روا یتیں نقل کی ہیں ، دفاع اور صفائی کی کوشش نہ فرمائ یں ،ایک اس سے ز یادہ مضحکہ خ یز روایت کی طرف اشارہ کرتا ہ و ں تاک ہ آپ حضرات یقین کر لیں کہ صحاح ک ے بار ے م یں جس طرح غلو کیا گیا ہے و ہ ا یسی میں نہیں ۔

بخاری نے اپن ی صحیح جلد اول صفحہ ۱۵۸ اور جلد دوم صفح ہ ۱۶۳ پرا یک تو "باب من احب الدفن فی الارض المقدسۃ من ابواب الجنائز" میں دوسرے "باب وفات موس ی "جلد دوم میں اپنے عق یدے کیمطابق صحیح اسناد کے سات ھ ابو ہ ر یرہ سے ن یز مسلم نے اپن ی صحیح جلد دوم صفحہ ۳۰۹ ابو ہ ر یرہ سے ا یک عجیب مہ مل خبر نقل ک ی ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "جاء ملک الموت ال ی مو سی علیہ السلام فقال لہ اجب ربک ،قال ابو ہ ر یرہ فلطم موسی عین ملک الموت فقفاھ ا ،فرجع الملک ال ی اللہ تعال ی فقال انک ارسلتنی الی عبد لک لا یرید الموت فقفا عینی ، قال فردّ اللہ ع ینہ و قال ارجع الی عبدی فقل الحیاۃ ترید فان کنت ترید الحیواۃ فضع یدک علی متن ثور فما توارت بیدک من شعرہ فانک تع یش بھ ا سن ۃ"۔ ( یعنی ملک اللموت موسی علیہ السلام کے پاس آئ ے اور ک ہ ا ک ہ اپن ے پروردگار ک ی دعوت قبول کیجئیے ! اس پر حضرت موسی نے ان ک ی آنکھ پر ا یسا تھ پ ڑ لگا یا کہ ان ک ی آنکھ پ ھ و ٹ ہی گئی اور وہ کا ن ے ہ وگئ ے ۔ چنانچ ہ ملک اللموت خدا ک ے پاس واپس گئ ے اور ک ہ ا ک ہ ت و نے مج ھ کو اپن ے ا یسے بندے ک ے پا س ب ھیجا جو مرنا ہی نہیں چاہ تا اور م یری آنکھ الگ پ ھ و ڑ د ی ۔ خدا ن ے ان ک ی آنکھ پ ھ ر پل ٹ ا د ی اور فرمایا کہ م یرے بندے ک ے پاس واپس جاؤ اور ک ہ و ک ہ اگر زندگ ی چاہ ت ے ہ و تو ب یل کی پیٹھ پر اپنا ہ ات ھ رک ھ و جتن ے بال تم ہ ار ے بات ھ م یں آجائیں گے ہ ر با ل ک ے عوض ا یک سال زندہ ر ہ وگ ے ۔)

۷۱

اور امام احمد بن حنبل نے اپن ی مسند جلد دوم صفحہ ۳۱۵ م یں اور محمد ابن جریر طبری نے اپن ی تاریخ کی جلد اول "تذکرہ وفات موس ی " کے ضمن م یں ابو ہ ر یرہ سے یہی روایت اتنی زیادتی کے سات ھی نقل کی ہے ک ہ زمان ہ حضرت موس ی تک ملک الموت بندوں ک ی روح قبض کرنے کے لئے ظا ہ ر بظا ہ ر اور ک ھ لم ک ھ لا آت ے ت ھے ل یکن جب سے موس ی نے ان ک ے چ ہ ر ے پر ت ھ پ ڑ مارا اور ان ک ی ایک آنکھ پ ھ و ٹ گئ ی اس کے بعد س ے پوش یدہ اور چھ پ کر ک ے آن ے لگ ے (غالبا اس خوف س ے ک ہ جا ہ ل لوگ ک ہیں ان کی دو آنکھیں نہ پ ھ و ڑ د یں ) اس پر مجمع کے اندر ب ہ ت س ے لوگ قہ ق ہ لگا کر ہ نس پ ڑے ۔

اب آپ حضرات سے انصاف چا ہ تا ہ و ں ک ہ ک یا یہ روایت خرافات اور موہ ومات م یں سے ن ہیں ہے ؟جس کو سن کر آپ ہ نس ر ہے ہیں مجھ کو تو ا یسی خبر کے لک ھ ن ے والو ں اور نقل کرن ے والو ں پر تعجب ہ وتا ہے جن ہ و ں ن ے بغ یر سوچے سمج ھے ان ب یہ ود ہ اور موہ وم مطالب کو سپرد قلم کیا ہے ۔

انصاف موجب معرفت اور سبب سعادت ہے

آیا کسی صاحب عقل یہ قبول کر تی ہے ک ہ موس ی کلیم اللہ ج یسا کوئی اولو العزم پیغمبر معاذا اللہ اس قدر ب ے معرفت او ر بد مزاج ہ و ک ہ حکم خدا ک ی اطا عت کے بد ل ے اس ک ے قاصد کو اتنا زور دار ت ھ پ ڑ لگائ ے ک ہ اس ک ی آنکھ ہی جاتی رہے ؟

خدا کے لئ ے بتائ یے کہ اگر کوئ ی شخص یہ کہے ک ہ جناب حافظ صاحب کو ا یک بزرگ شخص نے م ہ مان ی کی دعوت دی ہے اور ان ہ و ں ن ے بجائ ے دعوت قبول کرن ے ک ے پ یغام لا نے وال ے کو ت ھ پ ڑ مار ک ے اس ک ی آنکھ پ ھ و ڑ ڈ ال ی تو کیا آپ کو ہ نس ی نہیں آئیگی اور حافظ صاحب یہ نہیں فرمائیگے کہ ا یسا کہ نا م یری تو ہین ہے ک یونکہ تحصیل علم اور تزکیہ نفس میں ایک عمر صر کردینے کے بعد ک یا میرے اندر اتنا سمجھ ن ے ک ی صلاحیت بھی پیدا نہیں ہ وئ ی کہ پ یغام لا نے وال ے ک ی کوئی خطاء نہیں ہ وت ی ! بلکہ اس ن ے تو م یرا احترام کرتے ہ و ے ایک بزرگ شخصیت کی طرف سے دعوت نام ہ پ یش کیا ۔ جب کس ی کمینے جاہ ل اور سنگدل انسان س ے ب ھی ایسی حرکت سرزد نہیں ہ وت ی تو اولوالعزم پیغمبر کلیم اللہ ن ے جو معرفت ال ہی میں کہیں اولی اور اعلی تھے ک یونکر ممکن ہے ک ہ خدا ک ے طلب کو ناقابل توج ہ سمجھیں بلکہ پ یغام لا نے وال ے فرشت ے کو جس ک ی سوا اپنا فرض ادا کرنے کے اور کوئ ی خطا نہ ت ھی ،تھ پ ڑ مار یں اور کانا بنائیں ۔

پیغمبر وں کو مبعوث کرن ے کا مقصد تو یہ ہے ک ہ و ہ لوگو ں ک ی ہ دا یت کریں اور ان کو حیوانی حرکتوں س ے باز رک ھیں تاکہ و ہ نفس ب ہیمی کے قابو م یں نہ آجائ یں اور ان سے درندگ ی کے آثار ظا ہ ر ن ہ ہ و ں ظلم وتعد ی تو جانوروں پر ب ھی ایک جاہ ل اور ب یوقوف آدمی کی طرف سے ب ھی بری چیز ہے ۔ ن ہ ک ہ اولو العزم پ یغمبر کی طرف سے ا یک ملک مقرب پر جو خدا

۷۲

کا فرستادہ اور پ یام لانے والا ہ و ۔

ہ ر سننے والا سمج ھ ل ے گا ک ہ ا یسی روایت سراسر جھ و ٹ اور ب ہ تان ہے اور علا و ہ منصب نبوت ک ے عدم معرفت اور ا ہ انت ک ے یا انبیاء عظام کو سارے انسانو ں ک ی نظروں م یں حقیر وذلیل بنانے ک ے قطعا اس ک ے گ ھڑ ن ے والو ں ک ی اور کوئی غرض نہ ت ھی ۔

میں ابو ہ ر یرہ کے ا یسے لوگوں س ے تعجب ن ہیں کرتا ہ و ں ک یونکہ یہ وہ آدم ی تھے جن ک ے متعلق خود آپ ک ے علماء ن ے لک ھ ا ہے ک ہ معاو یۃ کے روغن ی اور لذیذ دسترخوان سے اپنا پ یٹ بھ رن ے ک ے لئ ے حد یثیں وضع کرتا تھ ا اور خل یفہ عمر نے اس ی طرز عمل پر ان کو ایسا تازیانہ لگایا کہ پ یٹھ لہ و ل ہ ان ہ وگئ ی لیکن مجھ کو ح یرت تو ان اشخاص پر ہے جو علم ودانش ک ی بلند منزل پر فائز تھے ک ہ ان ہ و ں ن ے بغ یر سوچے سمج ھے ک یونکر اس طرح کی بے تک ی رویتیں اپنی کتا بوں م یں درج کردیں ۔

اور پھ ر جناب حافظ صاحب ک ے ا یسے دوسرے علماء نس ان کتابو ں کوکلام خدا ک ے قدم ب ہ قدم قرارد یدیا اور بغیر غور و مطالعہ ک ے ک ہ ت ے ہیں "ھ ما اصح الکتب بعد القرآن " یہ دونوں یعنی صحیح بخاری و صحیح مسلم قرآن کے بعد سار ی کتابوں س ے ز یادہ صحیح ہیں (مترجم)) لہ ذا جب آپ ک ی سب سے اونچ ی کتابوں م یں ایسی مہ مل روا یتیں درج ہیں تو آپ کو شیعوں کی کتابوں اور ان اخبار ک ے متعلق جو ان م یں درج ہیں ،اور زیادہ تر توجہیہ و تاویل کے قابل ہیں زبان اعتراض کھ ولن ے کا کوئ ی حق نہیں ہے ۔

میں معذرت کرتا ہ و ں ک ہ ضمن ی باتو ں م یں کافی وقت لگ گیا کیونکہ "الکلام یجر الکلام" بات میں بات نکلتی ہے (مترجم )۔

اب پھ ر اصل مقصد ک ی طرف رجوع کرتا ہ و ں جو حد یث آپ نے نقل ک ی ہے اس ک ے بار ے م یں بحث کرتا ہ و ں اور د یکھ تا ہ و ں ک ہ آ یا یہ خبر قابل حل ہے یا نہیں ۔ بد یہی بات یہ ہے ک ہ اگر کوئ ی نیک اور منصف مزاج عالم اس طرح کی واحد اور مبھ م حد یثوں کو دیکھ تا ہے (جو ہ مار ی،آپ کی کتابوں م یں بکثرت ہیں) تو ہ زارو ں صح یح السند اور صریح خبروں ک ے پ یش نظر اگر یہ قابل اصلاح ہیں ،تو اصلاح کردیتا ہے ورن ہ رد کرد یتا ہے یا کم ازکم خاموشی ہی اختیار کر لیتا ہے ن ہ یا کہ ان کو تکف یر کاحربہ بنا کر اپن ے د ینی بھ ائ یوں پر حملہ ک رے۔

اب اس حدیث کے بار ے م یں چونکہ یہ ا ں تفسیر صافی موجود نہیں ہے ہ م اس ک ے سلسل ہ اسناد س ے ب ھی واقف نہیں ہیں ،نہ یہ معلوم ہے ک ہ کس مقام پر اور کس صورت س ے نقل ک یا ہے ، اور آ یا خود اس کے اوپر کوئ ی نوٹ د یا ہے یا نہیں ہ م کو غور کرنا چائیے کہ قا بل اصلاح ہے یا نہیں ؟ میں تو اپنی کمزور عقل کے مطابق اس حد یث کے لئ ے یہی سمجھ ر ہ ا ہ و ں ک ہ ان حضرات کا ارشاد یا تو متکلمین کے درم یان اس مشہ ور قائد ے پر محمول ہے ک ہ معلول کا پورا علم کو یا علّت کا پورا علم ہے ۔یعنی جب امام کو بحیثیت امام پہ چان ل یا گیا ۔ تو یقینا خدا کو بھی پہ چ ہ ان ل یا ۔

۷۳

یا مبالغے پر محمول ہے ج یسے کوئی شخص کہے ک ہ جو شخص وز یر اعظم کو پہ چان ل ے گو یا اس نے بادشا ہ کو پ ہ چان ل یا ۔

اور اس مبالغے ک ے لئ ے ا یک قرینہ سورہ توح ید ،ودیگر قرآنی آیات اور وہ اخبار کث یرہ میں جو خود حضرت امام حسین علیہ السلام اور دوسرے ائم ہ معصوم ین علیھ م السلام سے خالص توح ید کے اثبات م یں مروی ہیں لہ ذا ک ہ ا جاسکتا ہے ک ہ اس حد یث سے مراد یہ ہے ک ہ ام ام کی معرفت ان جلیل القدر عبادتوں م یں سے ہے جو جن و انس ک ی غرض خلقت ہیں اور ائمہ معصوم ین علیھ م السلام تے ماثور ز یارات جامعہ م یں "محال معرفۃ اللہ " ک ے یہی معنی ہیں ۔

ہ م ایک دوسرے طر یقے سے ب ھی اس کے معن ی کو بیان کرسکتے ہیں ،جیسا کہ محقق ین نے اس ی طرح کے امور م یں مطلب بیان کیا ہے ک ہ ہ ر فعل کا فاعل اور ہ ر بنا ک ے استحکام س ے پہ چانا جا سکتا ہے چنانچ ہ اس ک ی ہ ر بنا اور ہ ر اثر اسک ے حالات ک ے کس ی پہ لو ک ے لئ ے کامل دل یل ہے چونکہ رسو ل خدا(ص) اور آپ ک ی آل پاک صلوات اللہ عل یھ م اجمعین امکان کے سار ے بلند منازل پر فائز ت ھے ،ل ہ ذا ان س ے ز یادہ محکم اثر اور ان سے ز یادہ جامع مخلوق کوئی اور نہیں تھ ا ۔ نت یجہ یہ کہ معرفت ال ہی کے لئ ے ان س ے ز یادہ واضح اور جامع راستہ کوئ ی اور موجود نہ ت ھ ا ۔ ل ہ ذا محل معرفت خدا یعنی جن بندوں ک ے لئ ے معرفت ممکن ہے ،ان ک ے سوا کوئ ی دوسرا نہیں ہے ۔ اب جس شخص نس ان کو پ ہ چانا گو یا خدا کو پہ چانا ۔ چنانچ ہ ان حضرات ن ے خود فرما یا ۔ "بنا عرف الل ہ بنا عبد الل ہ " یعنی ہ مار ے ذر یعے سے خدا کو پ ہ چانا گ یا اور ہ مار ے ہی ذریعے سے اس ک ی عبادت کی گئی ہے ) یعنی حق تعالی کی معرفت وعبادت کا راستہ ہ مار ے قبض ہ م یں ہے خلاص ہ یہ ہے ک ہ خدا ئ ے تعال ی کی معرفت کے لئ ے واحد اور آخر ی ذریعہ یہی جلیل القدر خاندان ہے اگر بغ یر اس خانوادے ک ی رہ بر ی کے انسان کوئ ی راہ پ یدا کرے تو وادی ضلالت میں حیران و سرگرداں ہ وگا ۔ اور ب ہ ت دشوار ہے یہ بات کہ واد ی ضلالت و حیرت میں بھٹ کا ہ و شحص بغ یر ہ دا یت کے منزل سعادت تک پ ہ نچ جائ ے یہی وجہ ہے ک ہ فر یقین کی متفق علیہ حدیث میں وارد ہے ک ہ رسول اکرم(ص)ن ے فرما یا "یا ایھ ا النّاس انی تارک فیکم الثقلین ما ان اخذتم بھ ما لن تضلوا کتاب الل ہ عزو جل و عترت ی اھ ل ب یتی" (یعنی اے لوگو م یں تمہ ار ے درم یان دوچیزیں چھ و ڑ تا ہ و ں اگر ان دو نو ں س ے حاصل کروگ ے ( یعنی ضرورت کی باتیں) تو ہ رگز گمرا ہ ن ہ ہ وگ ے ،ا یک عزوجل کی کتاب اور ایک میری عترت اور اہ ل ب یت علھیم السلام ہیں)۔

حافظ :-کچھ اس ی حدیث پر انحصار نہیں ہے ک ہ آپ اس ک ی اصلاح کی کوشش کریں بلکہ آپ ک ی کتابوں وارد تمام دعاؤ ں ک ے اندر کفر وشرک ک ے نمون ے ملت ے ہیں جیسے بغیر ذات پرور دگار عالم یک طرف توجہ کئ ے ہ وئ ے امامو ں س ے حاجت یں طلب کرنا اور یہ غیرخدا ہے حاجت طلب کرنا خود ہی شرک کی ایک مکمل دلیل ہے ۔

خیرطلب :-آپ کی ذات سے یہ بات بہ ت بع ید تھی کہ اپنے اسلاف ک ی پیروی کرتے ہ وئ ے ا یسی فضول اور بے جا بات من ہ س ے نکال یں ،واقعی آپ بہ ت ب ے انصاف ی کرتے ہیں یا پھ ر اس پر توج ہ ن ہیں کرتے ہیں کہ ک یا فرما رہے

۷۴

ہیں یا بغیر شرک کے معن ی پر غور کئے ہ وئ ے ب یان کرتے ہیں میں متمنی ہ و ں پ ہ ل ے شرک اور مشرک ک ے معن ی بیان فرما یئے تا کہ حق یقت ظاہ ر ہ و ۔

شیعوں کی طرف شرک کی نسبت دینا

حافظ:- مطلب اتنا واضح ہے ک ہ م یرے خیال میں تشریح کی ضرورت ہی نہیں ، بدیہی چیز ہے ک ہ خدائ ے بزرگ کا اقرار کرت ے ہ وئ ے غ یر خدا کی طرف توجہ کرنا شرک ہے اور مشرک و ہ شخص ہے جو غ یر خدا کی طرف رخ کرے اور اس س ے حاجت طلب کر ے ۔

جماعت شیعہ جیسا کہ مشا ہ د ہ ہے کب ھی خدا کی طرف توجہ ن ہیں رکھ ت ی ہے اور بغ یر خدا کا نام لئے ہ وئ ے اپن ے سار ے مقاصد اپن ے امامو ں س ے عرض کرت ی ہے یہ ا ں تک کہ م یں دیکھ تا ہ و ں کہ ش یعہ فقراء گزرگاہ و ں اور دروازو ں ا ور دکانوں پر آت ے ہیں ، تو کہ ت ے ہیں ۔ یا علی ، یا امام حسین یا امام رضائے غر یب یا حضرت عباس اور ایک مرتبہ ب ھی نہیں سنا گیا کہ یا اللہ ک ہیں ۔یہ باتیں خود شرک کی دلیل ہیں کیونکہ جماعت شیعہ کبھی خدا کی طرف توجہ ن ہیں کرتی بلکہ اپن ی تمام تر توجہ غ یر خدا سے وابست ہ رک ھ ت ی ہے ۔

خیر طلب:- میری سمجھ م یں نہیں آتا کہ آپ ک ی اس طرح باتوں کا ک یا مقصد سمجھ و ں ،آ یا ان کو ہٹ د ھ رم ی کی دلیل سمجھ و ں ک ہ قصدا تجا ہ ل عارفان ہ کر ر ہے ہیں یا حقائق کی طرف توجہ ن ہ کرن ے کا نت یجہ ہے ؟ م یں امید کرتا ہ و ں ک ہ آپ ہٹ د ھ رم ی کرنے والو ں م یں سے ن ہ ہ و ں گ ے ۔

چونکہ ایک عالم باعمل کے شرائط م یں سے انصاف ب ھی ہے ل ہ ذا جو شخص حق س ے واقف ہ و اور اپن ی مطلب برآوری کے لئ ے حق کش ی کرے و ہ انصاف س ے دور ہے اور جس ک ے پاس انصاف ن ہیں وہ عالم بلا عمل ہے ، حد یث رسول میں ارشاد ہے "العالم بلا عمل کا الشجر بلا ثمر"( یعنی عالم بے عمل بغ یر میوے کے درخت ک ی مثل ہے )آپ جو بار بار اپن ے جملو ں م یں شرک اور مشرک کے الفاظ زبان پر جار ی کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اپن ے لغو اور ب ے مغز دلائل س ے موحد ش یعوں کو مشرک ثابت کریں تو ممکن ہے ک ہ آپ ک ے ب یانات بے خبر سن ی عوام پر اثر انداز ہ و جائ یں اور وہ ش یعوں کو مشرک سمجھ ل یں (جیسا کہ اب تک ان پر غلط اثر پ ڑ تا ر ہ ا ہے ۔ ) ل یکن یہ محترم حاضرین جلسہ ش یعہ حضرات آپ کی تقریر سے سخت ناراض اور ناخوش ہیں اور آپ کو ایک مطلب پرست اور افترا پرداز عالم سمجھ ر ہے ہیں کیونکہ یہ اپنے عقائ د سے واقف ہیں اورسمجھ ت ے ہیں کہ آپ ن ے ان الزامات م یں سے ا یک بھی ان کے اندر موجود ن ہیں ہے ۔ ل ہ ذا اپن ے الفاظ اور ب یانات میں ایسے جملے ادا ن ہ کرن ے ک ی کوشش فرمائیے کہ ان پر سچ ی بات واضح ہ و اور ان ک ے دل آپ ک ی طرف کشش محسوس کریں۔

۷۵

میں مجبو ر ہ و ں ک ہ آپ اجازت د یں تو حاضر و غائب بردران اہ ل سنت ک ے ساد ہ ذ ہ نو ں کو روشن کرن ے ک ے لئ ے وقت ک ے لحاظ س ے مختصر طور پر شرک اور مشرک ک ے بار ے م یں اسلام کے بزرگ محقق ین حکماء وفقہ اء اور علماء ج یسے علامہ حل ی ، محقق طوسی ،علامہ مجلس ی علیھ م الرحمۃ جو اکابر و مفاخر علمائے ش یعہ میں سے ہیں ،اور دوسرے حکماء اورصاحبان تحق یق جیسے صدر المتالہین شیرازی ،ملا نوروز علی طالقانی ،ملا ہ اد ی سبزواری اور جناب صدر کے دونو با عظمت خوش مرحوم ف یض کاشانی و فیاض لاہیجانی رحھ م الل ہ کا آ یات قرآنی اور ارشادات ائمہ طا ہرین علیھ م السلام کی روشنی میں جو کچھ عق یدہ ہے و ہ آپ ک ے سامن ے پ یش کروں تاک ہ حاضر ین جلسہ یہ نہ سمج ھ ل یں کہ شرک ک ے معن ی وہی ہیں جو آپ مغالطہ د ے کر ب یان کررہے ہیں ۔

حافظ:- غصے ک ے سات ھ فرمائ یے ۔

نواب :-قبلہ اس جلس ہ ک ی بنا چونکہ ب ے سواد لوگو ں ک ے سمج ھ ن ے ک ے لئ ے ہے ل ہ ذا پ ہ ل ے ب ھی عرض کر چکا ہ و ں ، متمن ی ہ و ں ک ہ اپن ے ارشادات م یں انتہ ائ ی سادگی کا لحاظ رکھ ئ ے آپ ک ی نظر صرف حضرات علماء اور ان کی عقل کے مطابق جواب د ینے پر نہ ر ہ نا چائ یے بلکہ ا ہ ل مجلس کی اکثیریت با الخصوص ہ ند اور پ یشاور کے باشندو ں ک ی رعایت ضروری ہے جو ا ہ ل زبان ن ہیں ہے گزارش ہے ک ہ پ یچیدہ اور مشکل مطالب بیان نہ فرمائ یے گا ۔

خیر طلب :- جناب نواب صاحب آپ کی یاد دھ ان یاں میرے پیش نظر ہیں ،اور کچھ اس ی صحبت پر منحصر نہیں ہے بلک ہ ج یسا کہ پ ہ ل ے عرض کرچکا ہ و ں م یری عادت ہی یہ ہے ک ہ جس مجمع م یں کچھ عوام اور ب ے خبر افراد موجود ہ وت ے ہیں وہ ا ں قطعا اپنا روئ ے سخن خواص پر موقو ف نہیں رکھ تا ہ و ں ،اس لئ ے ک ہ پ یغمبروں کی بعثت اور کتابوں ک ے نزول ک ی غرض بے خبر لوگو ں کو متنب ہ کرنا ت ھ ا اور یہ نظریہ ہ ر گز عمل ی جامہ ن ہیں پہ ن سکتا جب تک حقائق جس طرح س ے آپ ن ے فرما یا سادہ طور پر اور قوم ک ی زبان میں بیان نہ ہ و ں چنانچ ہ حد یث میں رسول اللہ (ص) کا ارشاد ہے ک ہ "نحن معاشر الا نب یاء نکلم النّاس علی قدر عقولھ م"( یعنی ہ م پ یغمبروں کی جماعت لوگوں س ے ان ک ے عقلو ں ک ے مطابق گفتگو کرت ی ہے ) یقینا آپ کی خواہ ش اصول ی اور برابر میرے پیش نظر ہے ۔ ام ید کرتا ہ و ں ک ہ آپ ک ی منشاء کے مطابق پ ہ ل ے س ے زیادہ عمل کرسکوں گا اور متمن ی ہ و ں ک ہ جس مقام پر س ہ وا غفلت ہ وجائ ے و ہ ا ں آپ حضرات توج ہ فرماد یجئے گا ۔

شرک کے اقسام

خیر طلب :- جہ ا ں تک آ یات قرآنی کے خلاص ے ، اخبار کث یرہ اور محققین علماء کی تحقیقات کا ملہ س ے اور بالخصوص ان ا ہ م تشر یحات سے جو صدر المتال ہین اور فاضل طالقانی نے فرمائ ی ہیں معلوم ہ وتا ہے شرک ک ی دو قسمیں ہیں اور دوسرے

۷۶

اقسام شرک ان ہیں دونوں قسمو ں م یں پوشیدہ ہیں ۔ اول جل ی اور آشکار ،دوسرے شرک خف ی و پو شیدہ ۔

شرک جلی

شرک در ذات

شرک جلی کا مطلب کا مطلب یہ ہے ک ہ آدم ی ذات یا صفات یا افعال یا عبادت میں خدائے تعال ی کا کوئی شریک قراردے۔ شرک در ذات یہ ہے ک ہ حق تعال ی کے مرتب ہ الو ہیت اور ذات میں شریک قرار دے اور زبان س ے اس کا اعتراف کر ے ج یسے (بت پرست)اور مجوس جو اصل ومبداء،نوروظلمت ،یزداں اوراہ رمن ک ے قائل ہیں اور نصاری جو اقانیم ثلاثہ ک ے قائل ہ وئ ے اور ذات خداوند ی کو تین اجزا یعنی باپ بیٹ ا اور روح القدس میں تقسیم کیا ،ان میں سے بعض کا عق یدہ یہ ہے ک ہ روح القدس ک ے عوض مر یم ہیں۔ ان ت ینوں میں سے ہ ر ا یک کے لئ ے ا یک خاصیت کے معتقد ہ وئ ے جو باق ی دو میں موجود نہیں ہے ۔ اور جب تک یہ تینوں اکھٹ ا ن ہ ہ و ں ذات خداوند ی کی حقیقت مکمل نہیں ہوتی جیسا کہ سور ہ نمبر ۵(مائد ہ )آ یت نمبر۷۷ میں خدا نے ان ک ے قول ک ی تردید اور اپنی وحدانیت کا اثبات فرمایا ہے "لقد کفر الذین قالوا ان الله ثالث ثلاثة وما من اله الا اله واحد" ( یعنی یقینا وہ لوگ کافر ہ وگئ ے جن ہ و ں ن ے خدا کو ت ین میں سے ا یک جانا (یعنی تین خدا کے قائل ہ وئ ے باپ ب یٹ ا ،روح القدس) حالانکہ سوائ ے خدا ئ ے واحد ک ے اور کوئ ی خدا نہیں)۔

عقائد نصاری

اس آیہ مبارکہ م یں نصاری کے فرقو ں م یں نسطوریہ ،ملکائیہ اور یعقوبیہ کا بیان کیا گیا ہے جن ہ و ں ن ے ثنو یہ اور بت پرستوں س ے یہ عقیدہ حاصل کیا (کتاب الوثنیہ فی الدیانیۃ النصرانیۃ ۔ مؤلف تنیر بیرونی کی طرف رجوع کیا جائے ) خلاص ہ یہ کہ نصار ی ثنویہ اور مجوس کی طرح مشرک ہیں کیونکہ اقانیم ثلاثہ ک ے قائل ہیں اس میں سے ز یادہ واضح الفاظ میں وہ لوگ ک ہ ت ے ہیں کہ الو ہیت خدا،مریم اور عیسی کے درم یان مشترک ہے ان م یں سے بعض کا عق یدہ ہے ک ہ خدا ،ع یسی اور روح میں سے ہ ر ا یک خدا ہے ۔ اور الل ہ جل جلا ل ہ ان ت ین میں سے ایک ہے ،و ہ ک ہ ت ے ہیں کہ پ ہ ل ے س ے خدا ت ین تھے ۔ اقنوم الاب ، اقنوم الابن ،روح القدس(سر یانی زبان میں اقنوم کے معن ی وجود ہ ست ی ہیں) اس کے بعد یہ تینوں اقنوم ایک ہ وگئ ے اور و ہ مس یح ہیں اس میں کوئی شبہ ن ہیں کہ عقل ی ،نقلی دلائل سے دلائل اتحاد کا باطل ہ و نا ثابت ہے ۔ اور اس معن ی سے اتحاد حق یقی محال ہے حت ی کہ غ یر ذات واجب الوجود میں بھی اسی وجہ س ے آخرت م یں فرماتا ہے ۔ "وما من ال ہ الا ال ہ واحد" ( یعنی کوئی ایسی ذات واجب جو عبادت کی مستحق ہ و سواخدا ئ ے

۷۷

یکتا کے موجود ن ہیں ہے جو وحدان یت محض سے موصوف ہے ۔ شرکت کے و ہ م س ے بالاتر ہے اور سار ے ممکن موجودات کا مبداء و ہی ذات وحدہ لا شر یک ہے ۔

شرک درصفات

شرک درصفات یہ ہے ک ہ خدائ ے تعال ی کے صفات ج یسے حکمت ،قدرت اورحیات وغیرہ کو قدیم لیکن زائد ذات سمجھیں جیسے اشعری جو ابو الحسن علی ابن اسماعیل اشعری بصری کے اصحاب م یں جیسا کہ آپ ک ے اکابر علماء مثلا عل ی ابن احمد بن حزم الظاہ ر ی نے کتاب فصل جزء چ ہ ارم صفحہ نمبر ۲۰۷ میں اور مشہ ور فلسف ی ابن رشد محمد بن احمد اندلسی نے کتاب "الکشف من منا ہ ج الادق ۃ فی عقائد الملۃ"صفحہ نمبر ۵۸ م یں نقل کیا ہے ک ہ یہ لوگ معتقد ہیں کہ الل ہ ک ے صفات زائد بر ذات اور قد یم ہیں ۔ چنانچ ہ جو شخص صفات خداوند ی کو حقیقتا اس کی ذات اجل پرزائد سمجھے یعنی اس کو صفت عالمیت ،وہ مشترک ہے ا س لئے ک ہ اس ن ے قدم م یں اس کے لئ ے کفو وقر ین اور ہ مسر ثابت ک یا حالانکہ سوا حق تعال ی کی ذات ازلی کے کائنات م یں کسی قدیم کا وجود نہیں ہے اور صفات خداوند ی اس کی عین ذات ہیں جیسے شیرینی اور چکنا ہٹ الگ ک ی کی چیزیں نہیں ہیں جو شکر اور روغن کی ذات پر وارد ہ وئ ی ہ و ں بلک ہ جس وقت خدا ن ے شکر اور روغن کو پ ید کیا ، تو پھ ر و ہ شکر اور روغن ہی نہ ر ہیں گے ۔ "تلک الامثال نضرب ھ ا للناس وما یعقلھ ا الا العالمون" یہ مثالیں ذہ نو ں کو ملتفت کرن ے ک ے لئے ہیں تاکہ ہ م جس وقت بو ل یں خدا یعنی عالم ،حی ،قادر، حکیم، وغیرہ تو یہ سمجھ ل یں کہ صفات خداوند ی اس کی ذات پر زائد نہیں ہیں۔

شرک در افعال

افعال میں شرک یہ ہے ک ہ خدا کو حق یقی طو رپر متوحد اور متفرد با لذات نہ سمج ھے ،اس صورت س ے ک ہ مخلوقات م یں سے کس ی ایک فرد یا افراد کو خدا کے افعال اور تدب یروں میں مؤثر یا مؤثر کا جزء سجھے یا یہ کہ خلقت ک ے بعد امور کو مخلوق ک ے سپرد جان ے جس ک ے یہ ود ی قائل تھے ک ہ خدان ے مخلوقات کو خلق ک یا اس کے بعد امور ک ی تدبیر سے بازر ہ ا ۔

۷۸

سارا کام خلق ک ے ذم ہ چ ھ و ڑ د یا اور خود علیحدگی اختیار کر لی ۔

چنانچہ ان لوگوں ک ی مذمت میں سورہ نمبر ۵ (مائد ہ )آ یت نمبر۲۶ میں ارشاد ہے "وقالت ال یھ ود یداللہ مغلولۃ غلت ایدیھ م ولعنوا بما قالوا بل یداہ مبسوطتان ینفق کیف یشاء"(یعنی یہ ود یوں نے ک ہ ا ک ہ خدا ک ے ہ ات ھ بند ھے ہ وئ ے ہیں( اب وہ خلقت م یں کوئی تغیر نہیں کرے گا او ر نہ کوئ ی چیز پید کرے گا اس ج ھ و ٹی بات کی وجہ س ے )ان ک ے ہ ات ھ بند ھ گئ ے اور و ہ خدا ک ی لعنت میں گرفتار ہ وئ ے ۔ بلک ہ خدا ک ے دونو ں ہ ات ھ ( یعنی اس کی قدرت اوررحمت)کھ ل ے ہ وئ ے ہیں وہ جس طرح چا ہ تا ہے نفق ہ د یتا ہے )

اور مشرکین غلات جن کو مفوضہ ب ھی کہ ت ے ہیں قائل ہیں کہ خدا ن ے امامو ں کو امور تفویض کردیئے ۔ و ہی پیدا کرتے ہیں اور روزی دیتے ہیں ۔یہ بدیہی چیزیں ہیں کہ جو شخص افعال خداوند ی میں کسی طریقے سے کس ی کودخیل سمجھے ،جز مؤثر ک ی صورت سے یا انبیاء یا امتوں یا اماموں کو تفویض امور کی حیثیت سے قطعا شرک ہے ۔

شرک در عبادت

اور شرک در عبادت یہ ہے ک ہ عبادت ک ے موقع پر ظا ہ ر ی توجہ یا دل کی نیت غیر حق کی طرف رکھے مثلا نماز م یں خلق کی طرف توجہ کر ے یا اگر نذر کرتا ہے تو خلق ک ے لئ ے کر ے اور اس طرح عبادتو ں م یں نیت کی ضرورت ہے اگر عمل ک ے وقت ن یت غیر خدا کے لئ ے ہ و تو و ہ مشرک ہے کیونکہ سورہ نمبر۸۱(ک ہ ف)آ یت نمبر۱۱۰ میں صریحی طور پر اس طرح کے عمل (شرک )س ے منع ک یا گیا ہے ۔ قول ہ "فمن کان یرجو لقاآربہ فل یعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا "( یعنی جو شخص لقائے رحمت پروردگار کا ام ید وار ہے اس کو چائ یے کہ و ہ ن یکو کار بنے ( یعنی پاک اور پسندیدہ عمل کرے )اور اپن ے خدا ک ی عبادت میں ہ رگز کس ی کو اس کا شریک نہ بنائ ے ۔

عمل اور عبادت کے وقت چائ یے ک ہ غیر خدا کی طرف توجہ ن ہ کر ے ،پ یغمبر یا امام یا مرشد کی صورت نظر کے سامن ے ن ہ رک ھے اس طر یقے سے ک ہ نماز ،روز ہ ، حج، خمس، زکا ۃ اور نذر وغیرہ ہ ر قسم ک ی واجب یامستحب عبادت کا ظاہ ر عمل خدا ک ے لئ ے ہ و ل یکن دل اور باطن میں توجہ غ یر خدا کی طرف رہ ے یعنی شہ رت اور لوگو ں کو اپن ی طرف مائل کرنے ک ے لئ ے یا کسی اور مقصد سے ۔

اس لئے ک ہ عمل م یں ریا حدیث کی زبان میں شرک اصغر کہ ا گ یا ہے جو ہ ر عامل کو برباد کرن ے والا ہے چنان چہ

۷۹

حضرت رسول(ص) الل ہ خدا س ے منقول ہے ک ہ "اتقوا الشرک الاصغر" یعنی پرہیز کرو چھ و ٹے شرک س ے لوگو ں ن ے عرض ک یا یا رسول اللہ چ ھ و ٹ ا شرک کون ہے ؟فرما یا "الریاء والسمعۃ"ریا اور سمعہ ( یعنی دکھ ان ے اور سنان ے ک ے لئ ے عبادت کرنا (مترجم) )شرک اصغر ہے ۔

نیزآنحضرت (ص)سے مرو ی ہے ک ہ فرما یا " ان اخوف ما اخاف علیکم الشرک الخفی ایا کم والشرک السر فان الشرک اخفی فی امتی من دبیب النمل علی الصفا فی اللیلة الظلماء" (یعنی بد ترین چیز جس سے م یں تمھ ار ے لئ ے ڈ رتا ہ و ں و ہ پوش یدہ شرک ہے ۔ ل ہ ذا مخف ی شرک سے دور ر ہ و ک یونکہ میری امت میں شرک اندھیری رات میں سخت پتھ ر پر چون ٹی کے ر ینگنے سے ب ھی زیادہ پو شیدہ ہے پ ھ ر فرما یا جو شخص ریا کے سات ھ نمازپ ڑھے و ہ مشرک ہے ۔ جو شخص ر یا سے روز ہ رک ھے یا ریا سے صدق ہ د ے یا ریا سے حج کر ے یا ریا سے غلام آزاد ک ے و ہ ب ھی شرک ہ وگا ۔ اور یہ آخری قسم چونکہ قلب ی امور سے متعلق ہے ل ہ ذا شرک خف ی میں شامل کی گئی ہے ۔

حافظ:- ہ م آپ ہی کے ب یان سے سند ل ے ر ہے ہیں کیونکہ آپ نے فرما یا ہے ک ہ اگر کوئ ی شخص خلق کے لئ ے نذر کر ے تو و ہ مشرک ہے ل ہ ذا ش یعہ بھی مشرک ہیں ،اس لئے ک ہ ہ م یشہ امام اور امام زادے ک ے لئ ے نذر کرت ے ہیں اور چونکہ یہ نذر غیر خدا کے لئ ے ہے ل ہ ذا یقینا شرک ہے ۔

نذر کے بار ے م یں

خیرطلب :- عقل اور علم منطق کا قاعدہ یہ ہے ک ہ اگر کس ی قوم وملت کے عقائد م یں فیصلہ کرنا چائیں تو جاہ ل اور ب ے خبر لوگو ں ک ے اقوال یا افعال پر فیصلہ نہیں کیا کرتے بلک ہ اس قوم ک ے قوان ین اور ان کی معتبر کتابوں پر پورا تبصر ہ کرت ے ہیں ۔

حضرات محترم اگر آپ شیعوں کے عقائد ک ی تہ تک پ ہ نچنا چا ہ ت ے ہیں تو بے خبر ش یعہ عوام کے اقوال وافعال پر توج ہ ن ہ کرنا چا ہ ئ یے کہ اگر ب ے پ ڑھے لک ھے فق یروں نے راستو ں م یں یا علی یا امام رضا کی صدا لگادی تو آپ ان الفاظ کو ان کے یا تمام شیعوں کے شرک ک ی دلیل قرار دیں یا اگر ایک جاہ ل محض نا واقف یت میں امام یا امام زادے ک ے لئ ے نذر کر ے تو آپ اس کو اپن ے مقابل کو ز یر کرنے ک ے لئ ے حرب ہ بنا ل یں ۔ اس لئ ے ک ہ جا ہ ل اور لا ابال ی افراد تو ہ ر قوم ک ے عوام م یں پیدا ہ وت ے ہیں ۔

البتہ آپ کی نیت خالص ہے ،ب ہ ان ہ ساز ی اور عیب جوئی کے درپ ے ن ہیں ہیں اور عقلمندی کے سات ھ سمج ھ نا چا ہ ت ے ہیں تو شیعوں کی فقہی کتابوں ک ی طرف رجوع کیجئیے جو عام طور پر دستیاب ہ وت ی ہیں اور ہ ر کتب

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ان اشعار میں ظاہر کرتا ہے کہ جو کچھ ہے یہی دنیا ہے ، اس عالم کےسوا اور کوئی عالم نہیں ہے لہذا یہاں کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم نہ رہنا چاہیے ۔ یہ وہ اشعار ہیں جو اس کے دیوان میں درج ہیں اور ابوالفرج ابن جوزی نے کتاب الرد علی المتعصب الغلید میں ان کی شہادت دی ہے۔

من جملہ ان اشعار کے جو اس کے کفر و بے دینی اور الحاد پر گواہ ہیں وہ شعر بھی ہیں جو سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں ان کے جد ابو الفرج نے تفصیل سے درج کئے ہیں ۔ ان کے مطلع میں کہتا ہے۔

عليه هاتی ناول ي نی و ترنمی حد ي ثک انی لا احب التناج ي ا

اپنی معشوقہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے ، اے میری محبوبہ قریب آ اور مجھ کو اپنے دلی مطالب سے کھل کر آگاہ کر کیونکہ میں تیرے آہستہ بولنے کو پسند نہیں کرتا ( یہاں تک کہ کہتا ہے)

فان الذی حدثت عن ي وم بعثنا احاد ي ث زور تترک القلب ساه ي ا

یعنی جو شخص قیامت کے قصے سے ڈرتا ہے تو یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو دل کو سازو آواز کے لطف سے محروم کرتی ہیں۔

چنانچہ ابراہیم ابن اسحق معروف “ دیک الجن” نے جو جلیل القدر شیعہ فقہاء و علماء اور فضلاء و ادباء میں سے تھے خلیفہ ہارون الرشید عباسی کے سامنے یہ سارے اشعار پڑھے تو اس نے بے اختیار یزید پر لعنت کی اور کہا زندیق نے خدا اور حشر و نشر کا پورا انکار کیا ہے۔

منجملہ ان اشعار کے جو اس کے کفر و الحاد پر دلالت کرتے ہیں وہ بھی ہیں جو وہ اپنے عیش و ترنم کے موقع پر پڑھا کرتا تھا :

ي ا معشر الندمان قوموا واسمعوا صوت الاغانی

واشربوا کاس مدامواترکوا ذکر المعانی

شغلتنی نغمة الع ي دان عن صوت الاذان

و نغوضت عن الحور عجوزا فی الدنان

ماحصل معنی یہ ہیں کہ اپنے ہم مشرب اور ہم پیالہ لوگوں سے کہتا ہے کہ اٹھو اور سازو آواز پر کان لگاؤ اور شراب ناب کے جام پیو اور دینی خرافات کو چھوڑو ، کیونکہ سازو نغمہ نے مجھ کو اذان کی آواز سے ہٹا کر اپنی طرف جذب کر لیا ہے اور میں بہشت کی حوروں کے عوض بوڑھی مغینہ عورتوں کو قبول کرتا ہوں۔

کتب مقاتل میں ہرجگہ منقول ہے اور سبط ابن جوزی نے بھی تذکرہ ص148 پر لکھا کہ جب اہل بیت رسالت(ص) شام میں لائے گئے تو یزید پلید اپنے محل کے بالا خانے پر جو محلہ جیروں کے سامنے تھا، بیٹھا اور یہ دو شعر پڑھ کر اپنے کفر کو ثابت کیا :

۱۲۱

لما بدت تلك الحمول و اشرقت تلك الشموس على ربي جيرود

نعب الغراب فقتل نح او لا تنح فلقد قضيت من الغريم ديونى!

خلاصہ مطلب یہ کہ اسیران آل محمد(ص) کی محملیں ظاہر ہوئیں تو ایک کوے نے آواز دی ( کیونکہ عرب میں اس آواز کو شگونہ بد سمجھتے تھے) تو میں نے کہا ، اے کوئے تو بول یا نہ بول میں نے پیغمبر(ص) سے اپنے قرضے وصول کرلیے ۔

کنایہ اس بات کا ہے کہ پیغمبر(ص) نے میرے بزرگ اور اقارب کو بدر و احد اور حنین میں قتل کیا تھا لہذا میں نے بھی اس کا بدلہ لیا اور ان کی اولاد کو قتل کیا ۔ اور یزید کے کفر کی دلیلوں میں سے یہ بھی ہے کہ جب اس نے فرزند رسول(ص) کی شہادت پر جشن کی محفل منعقد کی تو مثالا اس نے عبداﷲ بن الزبعری کے کفر آمیز اشعار پڑھے یہاں تک کہ سبط ابن جوزی ابو ریحان بیرونی اور دوسرے لوگوں نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے اجداد میں سے ان لوگوں کی موجودگی اور حیات کی تمنا کی جو سب کے سب مشرک اور کافر محض تھے اور خدا و رسول(ص) کے حکم سے بدر کبرے کی جنگ میں مارے گئے تھے بظاہر ان میں سے دوسرا اور پانچواں شعر خود یزید ہی کا ہے جو اس نے مسلمانوں، یہودیوں اور نصرانیوں کے مجمع عام کے سامنے پڑھے۔

ليت أشياخي ببدر شهدوا جزع الخزرج من وقع الأسل

فأهلّوا و استهلّوا فرحاثمّ قالوا: يا يزيد لا تشل

قد قتلنا القرم من ساداتهم و عدلناه ببدر فاعتدل

لعبت هاشم بالملك فلاخبر جاء و لا وحي نزل

لست من خندف إن لم أنتقم من بني أحمد ما كان فعل

قد اخذنا من علی ثارنا و قتلنا الفارس الل ي ث البطل

یعنی اے کاش میرے وہ بزرگان قبیلہ جو بدر میں قتل کئے گئے اور قبیلہ خزرج والوں کا ( جنگ احد میں) نیزے لگنے کی وجہ سے گریہ و زاری دیکھنے والے موجود ہوتے تو خوشی سے چیختے اور کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں کیونکہ ہم نے ان کے بزرگان قوم اور سرداروں کو قتل کیا، اور یہ کام ہم نے بدر کے عوض میں کیا جو پورا ہوا۔ بنی ہاشم نےسلطنت کے ساتھ کھیل کھیلا ورنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی نہ وحی نازل ہوئی۔ میں خندق کے خاندان سے نہیں تھا، اگر فرزندانِ پیغمبر(ص) سے ان کے افعال کا انتقام نہ لیتا۔ ہم نے علی(ع) سے اپنے خون کا بدلہ لیا اور شہسوار بہادر شیر کو قتل کیا۔)

آپ کے بعض علماء جیسے ابو الفرج ، شیخ عبداﷲ بن محمد بن عامر شیرازی شافعی کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص18 میں ، خطیب خوارزمی مقتل الحسین(ع) جلد دوم میں اور دوسرے لوگ لکھتے ہیں کہ یزید لعین

۱۲۲

ان حضرات کے لب و دندان کے ساتھ چھڑی سے بے ادبی کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہا تھا۔

یزید پلید(لع) کی لعن پر علمائے اہل سنت کی اجازت

آپ کے اکثر علماء نے اس ملعون زندیق کو کافر سمجھا ہے یہاں تک امام احمد بن حنبل اور آپ کے بہت سے اکابر علماء نے اس پر لعنت کرنے کو جائز قرار دیا ہے ، خصوصا عبدالرحمن ابوالفرج ابن جوزی نے اس بارے میں ایک مستقل کتاب موسوم بہ “ کتاب الرد علی المتعصب الغلید المانع عن لعن یزید لعنہ اﷲ ” لکھی ہے اور ابوالعلاء مصری نے اس باب میں کہا ہے :

أرى الأيّام تفعل كلّ نكر فما أنا في العجائب مستزيد

أليس قريشكم قتلت حسينا و كان على خلافتكم يزيد

( حاصل معنی یہ ہے کہ زمانہ ، توحید و اہل توحید کی ضد میں برابر شیطانی نقشے بناتا ہے اور اس طرح کے عجائبات اور مکاریوں پر مجھ کو تعجب نہیں کیا ایسا نہیں ہے کہ تمہارے قریش نے حسین(ع) کو قتل کیا اور اپنے امور اور خلافت کی باگ ڈور یزید ملعون کے ہاتھ میں دے دی) صرف آپ کے چند متعصب علماء جیسے غزالی نے یزید کی طرفداری کی ہے اور اس ملعون کی صفائی میں مضحکہ خیز اور مہمل عذرات تراشے ہیں در آنحالیکہ عام طور پر آپ کے علماء نے اس کے کفر آمیز اعمال اور ظالمانہ اطوار کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ وہ ملسمانوں کی مسند ریاست پر بظاہر تو خلافت کے عنوان سے قابض تھا لیکن عملی طور پر کوشش کرتا تھا کہ وین و توحید کی بساط ہی الٹ دے اور بڑے افعال کو نیک اعمال کے عنوان سے عمل میں لاتا تھا ۔ چنانچہ دمیری نے حیواہ الحیوان میں اور مسعودی نے مروج الذہب میں لکھا ہے کہ وہ بہت سے بندر پالے ہوئے تھا جن کو عمدہ قسم کے ریشمی لباس اور گردنوں میں سونے کے طوق پہنا کر گھوڑوں پر سوار کراتا تھا اسی طرح بہت سے کتوں کو طوق پہنچائے ہوئے تھا۔ ان کو اپنے ہاتھسے نہلاتا دہلاتا تھا ، سونے کے برتنوں میں ان کو پانی دیتا تھا اور ان کا پس خوردہ خود استعمال کرتا تھا ، مکمل طور پر شراب کا عادی تھا اور ہمیشہ مست و مخمور رہتا تھا۔

مسعودی مروج الذہب جلد دوم میں کہتے ہیں کہ یزید کی سیرت فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون رعیت داری میں یزید سے زیادہ انصاف پرور تھا۔ اس کی سلطنت اسلام کے اندر انتہائی باعث ننگ تھی، کیونکہ اس کی بہت سی بداعمالیوں جیسے شراب نوشی، فرزند رسول(ص) کا قتل، وصی پیغمبر (ص) علی ابن ابی طالب(ع) پر لعنت

۱۲۳

کرنا، خانہ خدا ( مسجد الحرام ) کو جلانا اور برباد کرنا، کثرت کے ساتھ خونریزی ( خصوصا اہل مدینہ کا قتل عام) اور بے شمار فسق و فجور وغیرہ جس کا حساب نہیں ہوسکتا ، اس کی عدم مغفرت اور جہنمی ہونے کو ثابت کررہی ہیں۔

نواب : قبلہ صاحب ! یزید کے حکم سے مدینے کے قتل عام کا کیا معاملہ تھا؟ متمنی ہوں کہ اس کو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : عام طور پر مورخین اور بالخصوص سبط ابن جوزی تذکرہ صفحہ63 میں لکھتے ہیں کہ سنہ62ھ میں اہل مدینہ کی ایک جماعت شام کی طرف گئی ، جب وہاں ان لوگوں کو یزید کی بدکاریوں اور کفریات کا علم ہوا تو مدینہ واپس آکر اس کی بیعت توڑ دی ، بالاعلان اس پر لعنت کرنے لگے اور اس کے عامل عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو نکال کر باہر کیا۔ عبداﷲ بن حنظلہ ( غسیل الملائکہ) نے کہا اے لوگو ہم لوگ شام سے واپس نہیں ہوئے اور یزید پر خروج نہیں کیا لیکن اس وقت جب ہم نے دیکھا کہ :

" ه و رجل لا دين ل ه ينکح الام ه ات والبنات والاخوات و يشرب الخمر ويدع الصلوة و يقتل اولاد النبيين ۔"

(یعنی وہ ایسا بے دین شخص ہے جو ماؤں بیٹیوں اور بہنوں سے حرام کاری کرتا ہے ، شراب پیتا ہے ، نماز نہیں پڑھتا ہے اور اولاد انبیاء کو قتل کرتا ہے۔)

یزید کی بیعت توڑنے کے جرم میں اہل مدینہ کا قتل عام

جب یہ خبر یزید کو پہنچی تو اس نے اہل شام کے ایک بھاری لشکر کے ساتھ مسلم ابن عقبہ کو اہل مدینہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا، اور ان لوگوں نے تین شبانہ روز مسلسل اہل مدینہ کا قتل عام کیا ابن جوزی اور مسعودی وغیرہ لکھتے ہیں کہ اس قدر کشت و خون کیا گیا کہ راستوں میں خون بہہ نکلا

" وخاض الناس فی الدماء حتی وصلت الدماء قبر رسول اﷲ صلی اﷲ علي ه و آله وسلم وامتلات الروضة والمسجد "

یعنی مدینے کے کوچوں میں اس کثرت سے خون جاری ہوا کہ لوگ خون میں شرابور ہوگئے تھے، یہاں تک کہ خون رسول اﷲ(ص) کی قبر تک پہنچ گیا اور روضہ رسول(ص) اور مسجد خون سے بھر گئی۔

اشراف قریش اورمہاجرین و اںصار میں سے سات سو محترم اور سربرآوردہ افراد کو قتل کیا اور عام مسلمانوں میں سے دس ہزار اشخاص تہ تیغ ہوئے مسلمانوں کی ہتک حرمت اور بے آبروئی کے حالات بیان کرتے ہوئے مجھ کو شرم محسوس ہوتی ہے لہذا تذکرہ سبط ابن جوزی صفحہ163 کی عبارتوں

۱۲۴

میں سے صرف ایک کو نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں جس کو ابوالحسن مدائنی سے نقل کرتے ہیں کہ “ ولدت الف امراة بعد الحرة من غير زوج ” یعنی واقعہ حرہ ( مدینہ کے قتل عام) کے بعد ایک ہزار کنواری عورتوں کے یہاں بچے پیدا ہوئے ( کنایہ یہ کہ فاتح لشکر کی عصمت دری سے وہ عورتیں حاملہ ہوئیں)۔

میں اس سے زیادہ اہل بزم کا وقت لینا اور ان کو متاثر کرنا نہیں چاہتا ۔ خیالات کو صاف کرنے کے لیے اسی قدر کافی ہے۔

شیخ : آپ نے جو کچھ بیان کیا ، یہ سب یزید کے فسق و فجور پر دلالت کرتا ہے اور ہر فاسق و گنہگار انسان کا عمل معافی اور چشم پوشی کے قابل ہے یزید نےقطعا توبہ کر لی اور خدا بھی غفار الذنوب ہے اس نے بخش دیا ، پھر آپ کس وجہ سے برابر اس پر لعنت کرتے اور اس کو ملعون کہتے ہیں؟

خیر طلب : بعض دعویداروں کے وکیل اس غرض سے کہ ان کو فیس وغیرہ ملتی رہے چار و ناچار آخری وقت تک اپنے موکل کی طرف سے پیروی کرتے رہتے ہیں چاہتے حق بات ان پر ظاہرہو ہی جائے۔ لیکن مجھ کو نہیں معلوم کہ جناب عالی کن فوائد کے پیش نظر اس لعین پلید کی وکالت میں اس قدر ثابت قدمی دکھا رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یزدی نے توبہ کر لی ہے۔ حالانکہ یزدی کیکفر آمیز گفتگو، اولیائے خدا کی شہادت اور اہل مدینہ کا قتل عام وغیرہ درایت ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ اس نے توبہ کر لی روایت ہے جو ثابت نہیں ہوسکی اور درایت کے مقابلے میں نہیں آسکتی۔

آیا مبدا و معاد اور وحی و رسالت سے انکار اور دین سے مرتد ہونا آپ کی نظر میں لعنت کا مستحق نہیں بناتا ۔ آیا خدا نے قرآن مجید میں ظالمین پر کھلی ہوئی لعنت نہیں فرمائی ہے؟

آیا آپ یزید کو ظالم نہیں سمجھتے ؟

اگر آپ کے ایسے یزید ابن معاویہ کے خاندانی پیروکار وکیل ( حاضرین کا پر زور قہقہہ ) کی نگاہ میں یہ دلائل کافی نہیں ہیں تو میں آپ کی اجازت سے آپ کے بزرگ علماء کے منقولات سے دو حدیثیں بھی نقل کرتا ہوں اور اس کے بعد اپنی گذارش ختم کرتا ہوں۔

بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحیں میں ، علامہ سمہودی نے تاریخ المدینہ میں، ابن جوزی نے کتاب الرد علی المتعصب العنید میں، سبط ابن جوزی نے تذکرة خواص الامہ میں۔ امام احمد بن حنبل مسند میں اور دوسروں نے حضرت رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

"من أخاف أهل المدينة أخافه اللّه، و عليه لعنة اللّه و الملائكة و النّاس أجمعين لا يقبل اﷲ

۱۲۵

منه يوم القيمة صرفا ولا عدلا"

یعنی جو شخص ظلم سے اہل مدینہ کو خوف زدہ کرے خدائے تعالی، اس کو ( روز قیامت) خوف زدہ کرے گا ۔ اس پر خدا اور ملائکہ اور سارے انسانوں کی لعنت ہو۔ قیامت کے روز خدا ایسے شخص سے کوئی عمل قبول نہیں کرے گا۔

نیز فرمایا “ لعن اﷲ من اخاف مدینتی( ای اھل مدینتی) یعنی خدا کی ایسے شخص پر جو میرے شہر ( یعنی اہل مدینہ ) کو ڈرائے”

کیا مدینے کے اندر یہ سارا قتل عام ، ہتک حرمت او لوٹ مار وہاں کے باشندوں کے لیے ڈر اور خوف کا باعث نہیں تھا ؟ اور اگر تھا تو تصدیق کیجئے کہ وہ کمینہ اور پلید خدا و رسول(ص) ، ملائکہ اور تمام انسانوں کی زبان سے ملعون تھا اور قیامت تک رہے گا۔

آپ کے اکثر علماء یزید پلید پرلعنت کی ہے اور اس پر لعن کے جائز ہونے پر کتابیں لکھی ہیں من جملہ ان کے علامہ جلیل القدر عبداﷲ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص20 میں لعن یزید کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ جس وقت ملا سعد تفتازانی کے سامنے یزید کا نام لیا گیا تو انہوں نے کہا " فلعنة اﷲ عليه و علی انصاره و علی اعوانه" ( یعنی لعنت ہو خدا کی اس پر اور اس کے اعوان و اںصاری پر) اور جواہر العقدین علامہ سمہودی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا

"اتفق العلماء علی جواز لعن من قتل الحسين رضی اﷲ عنه او امر بقتله او اجازه اور رضی به من غير تعيين"

یعنی عام طور پر علماء نے اس شخص پر لعنت کے جائز ہونے پر اتفاق کیا ہے جس نے حسین رضی اﷲ کو قتل کیا یا ان کے قتل کا حکم دیا یا اس کی اجازت دی یا اس پر رضا مند ہوا بلا تخصیص۔

اور ابن جوزی ، ابو یعلی اور صالح ابن احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں کہ آیات قرآن وغیرہ کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہ حضرات لعن یزید کو ثابت کرتے ہیں لیکن جلسہ کا وقت اس سے زیادہ گفتگو کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

نشست کافی لمبی ہوچکی ہے اور آدھی رات سے بھی کئی گھنٹے زیادہ گزر چکے ہیں، ورنہ یہ معمہ حل ہونا بہت ضروری تھا تاکہ آپ حضرات ان مقدمات سے اس عظیم حق کا پتہ لگائیں جو حضرت امام حسین (ع) اسلام اکھاڑ پھینکایا اپنے اپل بیت کے خون سے لا الہ الا اﷲ کے شجرہ طیبہ کی آبیاری کی جو بنی امیہ اور بالخصوص یزید پلید کے ظلم سے خشک ہونے کے قریب تھا، اور اسلام و توحید کو ایک نئی زندگی عطا کی۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آپ بجائے اس کے کہ ان بزرگوار کے خدمات کی قدر کرتے

۱۲۶

ان کے زائرین کے زیارت کے لیے جانے پر اعتراض اور نکتہ چینی کرتے ہیں ، اس کا نام مردہ پرستی رکھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں کہ کس لیے کروڑوں انسان ہر سال ان حضرات کے مرقد مطہر کی زیارت کو جاتے ہیں، مجلس عزا برپا کرتے ہیں اور ان مظلوم کی غریبی پر گریہ کرتے ہیں۔

گمنام جاں نثار

ہم کتب و رسائل اور اخبارات میں پڑھتے ہیں اور سیاحت کرنے والے بتاتے ہیں کہ دنیا کے متمدن ممالک کے مرکزی مقامات جیسے پیرس، لندن، برلن اور واشنگٹن وغیرہ میں“ گمنام جاں نثار ” کے نام سے کچھ محترم مزارات موجود ہیں۔

کہتے ہیں کہ اس جوانمرد نے وطن کی حفاظت میں ظالموں کے ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی ہے۔ لیکن اس کے جسم و لباس میں کوئی ایسی واضح علامت نہیں پائی گئی جس سے معلوم ہوتا کہ یہ کس قوم و قبیلہ اور شہر کا باشندہ ہے۔

باوجودیکہ وہ ایک گمنام اور بے نام و نشان شخصیت ہے لیکن صرف اس خیال سے کہ اس نے ظلم و ظالم کے مقابلہ میں اپنے خون کی قربانی دی ہے جب کوئی بادشاہ صدر جمہوریہ، وزیر یا کسی طبقے کا کوئی شریف و بزرگ انسان ان شہروں میں وارد ہوتا ہے تو احتراما اس گمنام۔۔۔۔۔ جاں باز کی زیارت کو جاتا ہے او پھولوں کا تاج اس کی قبر پر رکھتا ہے۔

قدر دانی کے نام پر ایک غیر معروف سپاہی کا اس قدر احترام اس لیے کرتے ہیں کہ اقوام عالم کے سامنے اپنی قومی حیثیتوں کا تحفظ کرسکیں۔

لیکن صاحبان اںصاف کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ ہم مسلمان لوگ باوجودیکہ بہتر با نام و نشان سر فروش رکھتے ہیں جوسب کےسب عالم و عابد، صاحبان تقوی اور بعض ان میں سے قاری و حافظ قرآن تھے اور جنہوں نے دین و توحید ، حریم اسلام کے تحفظ اور عدل و انصاف کی راہ میں ظالموں کے ظلم کا مقابلہ کرتےہوئے جان دی اور ان میں سے زیادہ تر خدا و رسول (ص) اور عترت پیغمبر (ص) کی امانت تھے لیکن بجائے قدردانی اور لوگوں کو ان کی زیارت کا شوق دلانے اور ان کی قبروں کے احترام کا حکم دینے کے نکتہ چینی کی کوشش کرتے ہیں اور ایک دوسرے فرقے والے علاوہ عیب جوئی اور اعتراض کے اپنے متعصب علماء کے بھڑکانے سے ان کی قبروں کو برباد کرتے ہیں اور ان کے صندوق بالائے قبر کو

۱۲۷

جلا کر قہوہ بناتے ہیں۔

چنانچہ سنہ1216 ہجری میں عید غدیر کے روز جب کربلا کے سارے باشندے ( سوا تھوڑے افراد کے) زیارت کے لیے نجف اشرف گئے ہوئے تھے نجدی وہابیوں نے موقع غنیمت سمجھ کر حملہ کر دیا۔ ضعیف وغیر ضعیف شیعوں کے قتل و غارت میں مشغول ہوئے اور دین کے نام پر فدائیاں دین توحید ( یعنی سید شہداء حضرت امام حسین (ع) اور آپ کے انصار) کی مقدس قبروں کو برباد اور زمین کے برابر کردیا ( تقریبا پانچ ہزار) باشندگان کربلا علماء اور ناتوان ضعفاء یہاں تک کہ شیعوں کی عورتوں اور بے گناہ بچوں کو قتل کیا۔ حضرت سید شہداء (ع) کا خزانہ لوٹ لیا، جواہرات ، سونے کی قندیلیں، قیمتی اشیاء اور بڑے بڑے پیش بہا فرش اٹھا لےگئے قبر مطہر کے اوپر کا قیمتی صندوق جلا کر اس سے قہوہ بنایا اور ایک کثیر جماعت کو قید کر کے اپنے ہمراہ لے گئے انا ﷲ و انا ال يه راجعون ۔ ( افسوس ہے ایسے اسلام پر)۔

واقعی بہت افسوس ناک بات ہے کہ تمام متمدن مملاک ، علماء سلاطین اور دانش مندوں کی یہاں تک کہ اپنے گمنام سپاہی کی قبروں کا احترام کریں لیکن مسلمان جو اپنے مایہ ناز افراد کے قبور کی حفاظت میں سب سے زیادہ اولی اور احق ہیں وہ آدم خور وحشیوں کی طرح ان کے مزارات کو مسمار اور تباہ و بردباد کریں حتی کہ مکہ اور مدینہ میں حضرت حمزہ سید شہداء (ع) جیسے شہدائے احد، پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد جیسے جناب عبدالمطلب و عبداﷲ آں حضرت(ص) کے اعمام و اہل وقوم، فرزندان رسول خدا(ص) جیسے سبط اکبر حضرت امام حسن(ع) مسموم ، سید الساجدین حضرت امام زین العابدین (ع) ، باقر العلوم حضرت امام باقر(ع)، صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہم السلام ، دوسرے بنی ہاشم ، علمائے اعلام اور مفاخر اسلام کی قبروں کو زمین کے برابر کر دیں اور اس کے بعد بھی اپنے کو مسلمان کہیں۔ ہاں اپنے بزرگوں اور بادشاہوں کے مقبرے البتہ بہت شاندار طریقے سے تعمیر کریں۔ حالانکہ ہمارے اور آپ کے علماء نے قبور مومنین کی زیارت پر راغب کرنے کے لیے کس قدر کثرت سے حدیثیں نقل کی ہیں تاکہ اس ذریعے سے مومنین کی قبریں حوادث زمانہ کی دستبرد سے محفوظ رہیں۔

خود رسول اﷲ(ص) قبور مومنین کی زیارت کو تشریف لے جاتے تھے اور ان کے لیے مغفرت طلب فرماتے تھے مسئلہ یہ کہ کچھ خفیہ مقاصد کے ماتحت مذہب کے نام پر اپنے ہی ہاتھوں اپنی قابل فخر ہستیوں کی قبریں خراب اور خاک کے برابر کریں اور ان کا نشان بھی دنیا میں باقی نہ رہنے دیں بات ختم کرتا ہوں ورنہ دل میں ابھی بہت کچھ ہے۔

۱۲۸

شرح این ہجراں و ایں خون جگر ایں زمان بگزار تا وقت دگر

آل محمد(ص) شہدائے راہ خدا اور زندہ ہیں

آیا آپ اس جلیل القدر خانوادہ کو جس نے دین اور توحید کی راہ م ی ں جا نی ں دیں ، شہ ی د سمجھتے ہیں یا ن ہیں ؟ اگر کہئے کہ شہید نہیں ہیں تو اس پر آپ کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر شہید ہیں تو پھر آپ انہیں مردہ کیوں سمجھتے ہیں؟ حالانکہ قرآن مجید میں کھلا ہوا ارشاد ہے " احياء عند ربهم يرزقون " یعنی وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے پاس رزق پاتے ہیں۔ 12 مترجم) پس قرآنی آیات اور معتبر احادیث کی بنا پر مقدس ہستیاں زندہ ہیں، مردہ نہیں ہیں۔ چنانچہ ہم لوگ بھی مردہ پرست نہیں ہیں اور مردے پر سلام نہیں کرتے بلکہ زندوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔

علاوہ اس کے کوئی با سواد یا جاہل شیعہ ان حضرات کو حاجت روائی میں خود مختار نہیں سمجھتا بلکہ ان کو خدا کے نیک بندے اور معبود کی طرف ایک بلند مرتبہ واسطہ جانتا ہے ( جیسا کہ اسی کتاب کے صفحہ97 میں مذکور ہے)

ہم صرف اس لئے اپنی حاجتوں کو ان کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ برحق ائمہ اور عالی منزلت صالحین ، خدا سے دعا فرمائیں تاکہ وہ ہم نا اہل انسانوں پر کرم فرمائے۔ اور اگر زبان سے یہ کہتے ہیں کہ یا علی ادرکنی ، یا حسین ادرکنی تو اس کی مثال بعینہ اسی آدمی کی ایسی ہے جو کسی با اقتدار بادشاہ سے کوئی حاجت رکھتا ہے تو وزیر اعظم کے دروازے پر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب وزیر صاحب میری فریاد کو پہنچئے۔ لیکن یہ کہنے والا وزیر کو ہرگز بادشاہ اور اپنی حاجت روائی میں خود مختار نہیں مانتا ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ چونکہ بادشاہ کی نظر میں با عزت ہیں۔ لہذا میری سفارش کردیجئے تاکہ میرا کام بن جائے۔

شیعہ بھی آل محمد علیہم السلام کو خدا اور خدائی کاموں میں شریک نہیں جانتے ہیں بلکہ ان کو اﷲ کے صالح بندے سمجھتے ہیں جو علاوہ اپنی پاک فطرت کے عبادت و تقوی اور دینی خدمات کے نتیجہ میں حق تعالی کے منظور نظر قرار پائے لہذا دونوں عالم میں ان کو امامت و ولایت کے عہدے اور بلند و بالا درجات عطا کیئے تاکہ پروردگار کے حکم اور اجازت سے موجودات میں تصرف کرسکیں۔ چونکہ یہ حضرات خدائے ذوالجلال کے امانت دار اور نمائندے ہیں اس بنا پر حاجت مندوں کے ضروریات خدا کی بارگاہ میں پیش

۱۲۹

کرتے ہیں ، اگر سائل کی حاجت روائی مصلحت کے مطابق ہوتی ہے تو قبول فرماتا ہے ورنہ آخرت میں اس کا عوض دیتا ہے ۔ چنانچہ عملی طور پر ہم ایسا دیکھتے بھی ہیں اور نتائج بھی حاصل کرتے ہیں۔

یہ مشتے نمونہ از خود ؟؟؟؟؟؟؟؟ چند مختصر جملے تھے جو مجبورا آپ کی اس بات کے جواب میں عرض کئے گئے کہ مردے سے خطاب کیوں کرتے ہو اس مقام پر یہ نکتہ بھی بغیر کہے نہ رہ جائے کہ شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی منزل اس سے بالاتر سمجھتے ہیں کہ دوسرے شہدائے اسلام کی طرح ان کےلیے بھی صرف ایک زندگی ثابت کریں۔

حافظ : آپ کے بیان میں یہ فقرہ ایک معمہ ہے جس کے حل کی ضرورت ہے ۔ آخر آپ کے اماموں میں دوسرے اماموں سے کیا فرق ہے؟ صرف سیادت کی منزلت اور رسول اکرم(ص) سے ان کی نسبت نے ان کو دوسروں کے مقابلے میں ممتاز بنا دیا ہے۔

خیر طلب : اس میں کوئی معمہ قطعی نہیں ہے صرف اس مطلب کا تصور آپ کےلیے دشوار ہے کیونکہ ساری زندگی منزل امامت کی معرفت سے دور رہے ہیں۔ سب سے پہلے ضرورت اس کی ہے کہ اپنی عادت اور تعصب سے الگ ہو کر علم و عقل اور منطق و اںصاف کی نظر سے مقام امامت کا مطالعہ فرمائیے اس کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ شیعہ اعتقاد کے لحاظ سے منصب امامت اور آپ کے عقائد کے مطابق امامت کے درمیان ایک بین اور واضح فرق یہ۔ اگر میں اس مقصد کو ثابت کرنے بیٹھوں تو صبح تک انتظار کرنا ہوگا۔ اب یہ اہم موضوع ایک اطمیانی نشست کے لیے ملتوی کرتا ہوں جس میں گفتگو کا پورا وقت ہو انشاء اﷲ۔

( اس کے بعد ہم لوگوں نے جلسہ برخاست کیا ۔ چونکہ اذان صبح کا وقت قریب تھا اور سلسلہ گفتگو طولانی ہوچکا تھا لہذا لوگوں نے کہا کہ اب امامت کا موضوع کل رات پر رہا ہم نے خوش طبعی اور مزاح کے ساتھ ان حضرات کو کچھ دور چل کر رخصت کیا اور وہ بخیر و عافیت تشریف لے گئے۔)

۱۳۰

چوتھی نشست

شب دوشنبہ 26 رجب سنہ1345ھ

آپ نے حقیقت کا نکشاف کر کے ہم پر احسان کیا

مغرب کے اول وقت حضرات اہل سنت میں سے تین نفر تشریف لائے اور کہا کہ جلسہ شروع ہونے سے قبل ہم آپ کی اطلاع کے لیے عرض کرتے ہیں کہ آج غروب آفتاب تک مسجدوں ، مکانوں، دفتروں اور بازاروں میں ہر جگہ آپ ہی کا تذکرہ تھا جس جگہ کسی کے ہاتھ میں آج کا اخبار تھا وہاں چاروں طرف کثرت سے لوگ اکٹھا تھے اور آپ کی تقریروں کےبارے میں بحث کررہے تھے۔ ہم لوگوں کو آپ سے کافی تعلق خاطر پیدا ہوگیا ہے۔ ہم سب کے دلوں میں آپ نے گھر کر لیا ہے اور ہم پر آپ کا بہت بڑا حق ہے کیونکہ آپ ان شبہات کو حل کر رہے ہیں جن کو ہمارے پیشواؤں نے بچپن ہی سے ہم کو الٹے طریقے پر سمجھایا تھا۔ہم اس کے لیے تہ دل سے معذرت خواہ ہیں کہ ہم شیعہ جماعت کو مشرک سمجھتے تھے ہم کیا کریں ہم کو ہمیشہ سے تعلیم ہی یہی دی گئے ہے۔ امید ہے کہ خداوند غفور ہماری توبہ قبول کرے گا۔ ادھر چند روز سے ہر شب کی بحثیں رسالوں اور اخباروں میں شائع ہو رہی ہیں تو اکثر اخبارات کے خریداروں اور بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں، خصوصا ہم لوگ جو شریک جلسہ اور آپ کی لطیف گفتگو سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں بہت متاثر ہوئے ہیں خاص طور پر گذشتہ شب کیونکہ آپ نے خوب خوب پردے اٹھائے اور پوشیدہ حقائق کو ظاہر فرمایا امید ہے کہ مزید انکشافات ہوں گے اور اس سے زیادہ حقیقتیں بے نقاب ہوں گی۔

دوسری بات جس کی طرف ہم آپ کی توجہ منذول کرانا چاہتے ہیں یہ ہے کہ ہم پر اور ہماری جماعت پر جو چیز سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی ہے وہ جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں آپ کی واضح اور سادہ گفتگو ہے۔ کیونکہ آپ ہماری ہی زبان میں مطلب کو اس قدر مفصل اور عام فہم طریقے سے بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے تمام بے سواد افراد کو اپنی طرف جذب کر لیتے ہیں ، آپ قطعی طور پر یہ پہلو پیش نظر رکھیں کہ ساری جماعت میں فی صد پانچ نفر سے زیادہ صاحبان علم و خبر نہیں ہیں۔ کورکورانہ طور بچپن سے جو کچھ سن رکھا ہے اس نے ان کے

۱۳۱

قلب و دماغ میں جگہ پکڑ لی ہے اب تو انہیں صرف سادگی ہی کے ذریعے سمجھایا جاسکتا ہے ، چنانچہ آپ اسی بات پر عمل کر رہے ہیں اور امید ہے کہ پورا پورا نتیجہ حاصل ہوگا۔

اتنے میں حضرات علماء تشریف لے آئے اور ہم نے گرم جوشی اور خندہ پیشانی کےساتھ ان کو خوش آمدید کہا ۔ چائے نوشی اور معمولی خاطر تواضع کے بعد جلسے کی کاروائی شروع ہوئی۔

نواب : قبلہ صاحب گزشتہ رات طے پایا تھا کہ آج کی شب امامت کے بارے میں گفتگو ہوگی، ہم اس خاص موضوع کو سمجھنے کے لیے بہت مشتاق ہیں اور چونکہ اسی موضوع پر دوسرے مطالب کی بنیاد ہے لہذا ہماری تمنا ہے کہ صرف اسی مسئلے کو مورد بحث قرار دیں تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہمارے اور آپ کے درمیاں موضوع امامت میں کیا اختلاف ہے۔

خیر طلب : مجھ کو کوئی عذر نہیں ہے، چنانچہ اگر مولوی صاحبان اسی طرف مائل ہوں تو میں حاضر ہوں۔

حافظ : ( اڑے ہوئے رنگ اور اترے ہوئے چہرے کے ساتھ) ہماری طرف سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے آپ جس طرح سے مناسب سمجھیں بیان فرمائیں۔

امامت کے بارے میں بحث

خیر طلب : آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے کہ لغت اور اصطلاح کی حیثیت سے امام کے کئی معنی ہیں۔ لغت میں امام پیشوا کے معنی رکھتا ہے الامام هو المتقدم بالناس یعنی امام انسانوں کا پیشوا ہے۔ امام جماعت یعنی نماز جماعت میں لوگوں کا پیشوا۔ امام الناس یعنی امور سیاسی یا روحانی وغیرہ میں آدمیوں کا پیشوا۔ امام جمعہ یعنی جو شخص نماز جمعہ میں پیشوائی کرے۔

اہلسنت کے مذاہب اربعہ پر بحث اور کشف حقیقت

اس بنا پر جماعت اہل تسنن یعنی مذاہب اربعہ کے پیرو اپنے پیشواؤں کو امام کہتے ہیں جیسے امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل۔ یعنی وہ فقہاء و مجتہدین جو امر دین میں ان کے پیشوا ہیں اور جنہوں نے اپنی عقل و فکر کے ذریعہ اجتہاد یا قیاس کے ساتھ ان کے لیے حلال و حرام کے احکام معین کئے ہیں۔

۱۳۲

یہی وجہ سے کہ جب ہم آپ کے چاروں اماموں کی فقہی کتابون کا مطالعہ کرتے ہیں تو اصول و فروع کی حیثیت سے ان میں بہت اختلافات نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے ائمہ اور پشوا تمام ادیان و مذاہب کے اندر ہیں۔ یہاں تک کہ مذہب شیعہ میں بھی علماء فقہاء وہی درجہ رکھتے ہیں جس کے آپ اپنے اماموں کے لیے قائل ہیں۔ لہذا وہ حضرت امام عصر عجل اﷲ فرجہ کی غیبت میں ہر عہد اور زمانےمیں موازین علمی کی روسے کتاب و سنت اور عقل و اجماع کے ادلہ اربعہ کے ساتھ فتوے دیتے ہیں۔ پھر بھی ہم ان کو امام نہیں کہتے ہیں کیونکہ امامت عترت طاہرہ(ع) سے بارہ اوصیاء کے ساتھ مخصوص ہے۔ ایک فرق یہ ہے کہ آپ کے بزرگوں نے بعد کے لیے اجتہاد کا دروازہ بند رکھا ہے یعنی پانچویں صدی ہجری سے جب کہ بادشاہ کے حکم سے علماء و فقہاء کی ایجاد کردہ رائیں جمع کی گئیں، صرف چار کے اندر منحصر کر کے مذاہب اربعہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی کو رائج کیا گیا اور لوگوں کو مجبور کیا گیا ہے ان چاروں میں سے کسی ایک مذہب پر عمل کریں جیسا کہ اب تک رواج ہے معلوم نہیں کہ مقام تقلید میں ایک فرد کو دوسرے افراد پر کس دلیل و برہان سے ترجیح حاصل ہے۔ حنفیوں کے امام میں کیا خصوصیت ہے جو مالکیوں کو نہیں ملی اور شافعیوں کا امام کیا فضیلت رکھتا ہے جو حںبلیوں کے پاس نہیں۔

اگرملت اسلامی اس پر مجبور ہے کہ ان چاروں کے فتاوی سے باہر نہ جائے تو جماعت مسلمین بہت سخت جمود کے پنجے میں گرفتار ہوگئی ہے اور کبھی ان میں ترقی اور بلندی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ حالانکہ مقدس دین اسلام کے خصوصیات میں سے ایک یہی ہے کہ ہر دور اور زمانے میں قافلہ تمدن کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور یہ مقصد لازمی طور پر ایسے فقہاء و مجتہدین چاہتا ہے جو ہر عہد میں موازین شرعیہ کے تحفظ کے ساتھ کاروانِ تہذیب کے ہمراہ آگے بڑھیں اور مذہب کی مرکزیت کو محفوظ رکھیں۔

کیونکہ بہت سے امور ایسے ہیں ج کے تجدد کی وجہ سے ان میں تقلید میت کی گنجائش نہیں ہے ۔ بلکہ حتمی طور پر زندہ فقیہ اور مجتہد کی طرف رجوع کرنا ان کی دماغی کاوش سے فائدہ حاصل کرنا اورا ن کے فتوی کو اپنا لائحہ عمل بنانا ضروری ہوتا ہے۔ باوجودیکہ بعد کے زمانوں میں آپ کے یہاں ایسے عالی منزلت مجتہدین اور فقہاء پیدا ہوئے جو ان چاروں اماموں سے بدرجہا اعلم اور افقہ تھے لیکن معلوم نہیں یہ ترجیح بلا مرجح ، مقام اجتہاد کو ان چار نفر کے اندر محصور کر دینا اور دوسروں کے علمی افادات کو ضائع کرنا کس مصلحت کی بنا پر تھا۔ البتہ جماعت شیعہ کے اندر ظہور امام آخرالزمان عجل ا ﷲ فرجہ تک ہر دور اور ہر زمانے میں تمام فقہاء اور مجتہدین کو فتاوی کا حق حاصل ہے اور ہم مسائل جدیدہ میں ابتداء تقلید میت کو ہرگز جائز نہیں سمجھتے ۔

۱۳۳

مذاہب اربعہ کی پیروی پر کوئی دلیل نہیں ہے

تعجب ہے کہ آپ شیعہ فرقے کو تو بدعتی اور مردہ پرست کہتے ہیں جو اہل بیت رسول(ص) میں سے بارہ ائمہ(ع) کی ہدایتوں پر آں حضرت(ص) ہی کے حکم سے ( ان نصوص خاصہ کے ساتھ جو آپ کی کتابوں میں بھی تشریح کے ساتھ مندرج ہیں) عمل کرتے ہیں لیکن معلوم نہیں آپ حضرات کس دلیل سے مسلمانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ اصول میں اشعری یا معتزلی مذہب پر اور فروع میں لازمی طور پر مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک پر عمل پیرا ہوں۔ اور اگر ان باتوں پر جو آپ بغیر دلیل کے کہتے ہیں عمل نہ کریں۔ یعنی اشعری یا معتزلی مذہب یا مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کے پیرو نہ بنیں تو رافضی ، مشرک اور گردن زدنی قرار پائیں۔

اگر آپ پر ایراد کیا جائے کہ چونکہ ابو الحسن اشعری یا ابو حنیفہ ، مالک ابن انس، محمد ابن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل کی پیروی کے لیے پیغمبر(ص) کا کوئی فرمان نافذ نہیں ہوا ہے اور یہ بھی من جملہ اور اسلامی علماء و فقہاء کے تھے لہذا صرف انہیں کی تقلید پر اںحصار کرنا بدعت ہے تو کیا جواب دیجئیے گا؟

حافظ : ائمہ اربعہ چونکہ زہد و ورع تقوی و امانت اور عدالت کے ساتھ ساتھ فقاہت اور علم و اجتہاد کی منزل پر فائز تھے لہذا ان کی پیروی ہم پر لازمی ہوگئی۔

خیر طلب : اول تو جو کچھ آپ نے فرمایا یہ ایسے دلائل نہیں ہیں جو حصر کا سبب بن جائیں کہ روز قیامت تک مسلمان ان کے طریقے کی پیروی کرنے پر مجبور ہوں۔ اس لیے کہ آپ اپنے سارے علماء و فقہاء کے لیے ان صفات کے قائل ہیں اور ان چاروں کے اندر اںحصار کرنا بعد کے علماء کے توہین ہے۔ کسی ایک فرد یا افراد کی پیروی پر اسی وقت مجبور کیا جاسکتا ہے جب کہ خاتم الانبیاء(ص) سے کوئی ہدایت یا نص مروی ہو حالانکہ آپ کے ائمہ اربعہ کے بارے میں ایسا کوئی حکم یا نص آنحضرت(ص) سے منقول نہیں ہے لہذا آپ نے کیونکہ مذاہب کو چار کے اندر محدود کردیا اور ان چار اماموں میں سے ایک کی پیروی کا لازمی ہونا حق سمجھتے ہیں؟

یہ عجیب معاملہ صاحبان عقل و اںصاف کے لیے قابل غور ہے

بہت مضحکہ خیز بات ہے کہ چند شب پہلے آپ نے شیعہ مذہب کو سیاسی قرار دیا اور کہا کہ یہ مذہب چونکہ رسول اﷲ(ص) کے زمانے میں نہیں تھا اور خلافت عثمان میں پیدا ہوا ہے۔ لہذا اس کی پیروی

۱۳۴

جائز نہیں ہے۔ حالانکہ پرسوں شب میں نے عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کردیا کہ مذہب شیعہ کی بنیاد رسول اﷲ(ص) کے زمانے میں آں حضرت(ص) ہی کی ہدایت سے قائم ہوئی اور شیعوں کے سردار امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بچپن ہی سے دامن نبوت میں پرورش پائی۔ آں حضرت (ص) سے معالم دین کی تعلیم حاصل کی، ان روایات کے مطابق جو آپ کی معتبر کتابوں میں منقول ہیں آںحضرت(ص) نے آپ کو اپنے علم کا دروازہ فرمایا اور صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی مخالت میری مخالفت ہے، ستر ہزار مسلمانوں کے مجمع میں آپ کو امارت و خلافت کے عہدے پر منصوب فرمایا اور عام مسلمانوں کو یہاں تک کہ عمر اور ابوبکر کو بھی حکم دیا اور ان لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔

لیکن آپ کے چاروں مذاہب حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کس بنیاء پر قائم ہوئے ہیں؟ آپ کے ان چار اماموں میں سے کس نے رسول خدا(ص) سے ملاقات کی ہے یا کس کے بارے میں آںحضرت(ص) کی طرف سے کوئی ہدایت جاری ہوئی ہے تاکہ مسلمان آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی پر مجبور ہوں؟ جیسا کہ آپ بھی بغیر کسی دلیل کے اپنے اسلاف کے قدم بقدم چلتے ہوئے ان چار اماموں کی پیروی کر رہے ہیں جن کی امامت مطلقہ پر ایک دلیل بھی دلیل نہیں رکھتے سوا اس کے کہ آپ نے فرمایا وہ فقیہ، عالم، مجتہد، زاہد اور صاحبان تقوی تھے تو ہر ایک کے زمانے والوں کو صرف ان کی زندگی میں ان علماء کے فتاوی پر عمل کرنا چاہئیے تھا نہ یہ کہ ساری دنیا کے مسلمان روز قیامت تک ان کی اطاعت کے پابند بنا دیے جائیں۔

علاوہ ان باتوں کے اگر رسول اﷲ(ص) کے صریحی ارشادات کے ساتھ ساتھ یہ صفات بھی ہزاروں گنا زیادہ آں حضرت (ص) کی عترت میں جمع ہوگئی ہوں تو بدرجہ ادنی ان حضرات کا اتباع اور پیروی فرض ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جن کے بارے میں قطعا کوئی نص یا فرمان نافذ نہیں ہوا ہے۔ آیا وہ مذاہب جن کا رسول(ص) کے زمانے میں کوئی نشان نہیں تھا اور ائمہ اربعہ میں سے کوئی ایک بھی آں حضرت(ص) کے عہد میں موجود نہیں تھا نہ ان کے بارے میں آں حضرت (ص) سے کوئی حکم منقول ہے اور ایک صدی کے بعد دنیا میں رونما ہوئے ، ایجاد بندہ اور سیاسی ہیں؟ یا وہ مذہب جس کے بانی رسول خدا(ص) اور جس کا پیشوا آں حضرت(ص) کے ہاتھوں میں تربیت پایا ہوا تھا؟ اور اسی طرح باقی گیارہ امام جن سب کے لیے فردا فردا حدیثیں مروی ہیں، ان کو عدیل قرآن قرار دیا ہے اور حدیث ثقلین میں صاف ارشاد فرمایا ہے کہ :

" من تمسک بهما فقد نجی و من تخلف عنهما فقد هلک ۔" (1)

جس نے ان دونوں سے تمسک کیا وہ یقینا نجات یافتہ ہے اور جس نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ اسی کتاب کے صفحہ92 صفحہ93 میں اس کی اصل اور اسناد کی طرف اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۳۵

دونوں سے رو گردانی کی وہ یقینا ہلاک ہوا 12 مترجم) اور حدیث سفینہ میں فرمایا ہے کہ من تخلف عنهم فقد هلک (1) یعنی اور جس نے ان سے منہ موڑا پس وہ یقینا ہلاک میں گرفتار ہوا۔ 12 مترجم)

ابن حجر صواعق باب وحیتہ النبی صفحہ135 میں آن حضرت(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا “ قرآن اور میری عترت تمہارے درمیان میری امانت ہیں کہ اگر ان دوںوں سے ایک ساتھ تمسک اختیار کرو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے”

پھر ابن حجر کہتے ہیں کہ اس قول کی موید ایک دوسری حدیث ہے جو آں حضرت (ص) نے قرآن و عترت کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے۔" فلا تقدموهما فتهلكوا، و لا تعلموهما فإنهما أعلم منكم." ( یعنی قرآن اور میری عترت پر پیش قدمی نہ کرو۔ اور ان کی خدمت میں کوتاہی نہ کرو۔ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ اور میری عترت کو تعلیم نہ دو۔ کیونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔)

اس کے بعد ابن حجر نے تبصرہ کیا ہے کہ “ یہ” حدیث شریف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آں حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت(ع) مراتب علمیہ اور وظائف دینیہ میں دوسروں پر تقدم کا حق رکھتے ہیں۔” حیرت ہے کہ اس بات کا یقین رکھتے ہوئے بھی کہ عترت و اہل بیت رسول(ص) کو دوسروں پر مقدم ہونا چاہیئے بغیر کسی دلیل و برہان کے اصولی ہیں ابوالحسن اشعری کو اور فروع میں ان چاروں فقہا کو اس خاندان جلیلی پر مقدم قرار دیتے ہیں۔ در حقیقت فقیہ امام علم و ورع اور تقوی اور عدالت کی وجہ سے پیشوا قرار پائے تو ان میں سے ایک نے دوسرے پر فسق اور کفر کا فتوی کس لیے لگایا ہے؟

حافظ : آپ بہت زیادتی کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ کے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں، یہاں تک کہ ہمارے فقہا اور اماموں پر تہمت لگاتے ہیں کہ یہ لوگ ایک دوسرے کی تردید و توہین یا تفسیق و تکفیر پر اتر آئے ہیں۔ آپ کا یہ بیان قطعا کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ اگر ان کے بادے میں کوئی تردید یا تنقید کی گئی ہے تو وہ شیعہ علماء کی طرف سے ہے ورنہ ہمارے علماء کی جانب سے سوا تعظیم و تکریم کے جو ان حضرات کے شایان شان تھی ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔

خیر طلب : معلوم ہوتا ہے کہ جناب عالی کو اپنے علماء کی معتبر کتابوں کے مندرجات پر کوئی توجہ نہیں ہے یا جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں یعنی جانتے ہوئے مغالطہ دے رہے ہیں ، ورنہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے ان کی رد میں کتابیں لکھی ہیں یہاں تک کہ خود چاروں اماموں نے ایک دوسرے کو فاسق اور کافر بنایا ہے۔

--------------

1۔ اسی کتاب کے صفحہ92 صفحہ93 میں اس کی اصل اور اسناد کی طرف اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۳۶

حافظ : فرمائیے وہ علماء کون ہیں اور ان کی کتابوں کے اندراجات کیا ہیں؟ اگر آپ کی نظر میں ہو تو بیان کیجئے۔

خیر طلب : اصحاب ابو حنیفہ اور ابن حزم ( علی ابن احمد اندلسی متوفی سنہ456ھ) وغیرہ برابر امام مالک اور محمد بن ادریس شافعی پر طعن کرتے رہے ہیں اور اسی طرح اصحاب شافعی جیسے امام الحرمین اور امام غزالی وغیرہ ابو حنیفہ اور مالک پر طعن کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ میں جناب عالی سے پوچھتا ہوں کہ فرمائیے امام شافعی، ابو حامد محمد بن محمد عزالی اور جار اﷲ زمخشری کیسے اشخاص ہیں؟

حافظ : ہمارے بزرگ ترین فقہاء و علماء میں سے ، ثقہ اور اہل سنت واجماعت کے امام ہیں۔

اہل تسنن کے علماء اور اماموں کا ابوحنیفہ کو رد کرنا

خیر طلب : امام شافعی کہتے ہیں ما ولد فی الاسلام اشام من ابی حنیفہ۔ ( یعنی اسلام کے اندر کوئی شخص ابو حنیفہ سے زیادہ منحوس پیدا نہیں ہوا) نیز کہا ہے

" نظرت في كتب أصحاب أبي حنيفة فإذا فيها مائة و ثلاثون ورقة خلاف الكتاب و السنة."

یعنی میں نے اصحاب ابوحنیفہ کی کتابوں میں نظر کی تو ان میں مجھ کو ایک سو تیس ورق کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کے خلاف ملے۔)

ابو حامد غزالی کتاب متحول فی علم الاصول میں کہتے ہیں:

"فأمّا أبو حنيفة فقد قلب الشريعة ظهرا لبطن و شوّش مسلكها و غيّر نظامها، و أردف جميع قواعد الشريعة بأصل هدم به شرع محمّد المصطفى صلّى اللّه عليه و آله و سلم، و من فعل شيئا من هذا مستحلّا كفر، و من فعل غير مستحلّ فسق"

یعنی در حقیقت ابوحنیفہ نے شریعت کو پلٹ دیا، اس کے راستے کو مشتبہ بنا دیا، اس کے نظام کو بدل ڈالا اور قوانین شرع میں سے ہر ایک کو ایک ایسی اصل کے ساتھ جوڑ دیا جس کے ذریعے رسول اﷲ(ص) کی شرع کو برباد کر دیا۔ جو شخص عمدا ایسی حرکت کرے اور اس کو جائز سمجھے وہ کافر ہے اور جو شخص نا جائز سمجھتے ہوئے ایسا کرے وہ بدکار ہے۔ چنانچہ اس بزرگ عالم کے قول کے مطابق ابوحنیفہ یا کافر تھے یا فاسق۔ اس کے بعد اس باب میں ان کی طعن درد اور تفسیق میں بہت سی باتیں لکھی ہیں جن کا بیان میں ترک کرتا ہوں اور جار اﷲ زمخشری صاحب تفسیر کشاف نے جو آپ کے ثقات علماء میں سے ہیں ربیع الابرار میں لکھا ہے :

" قال يوسف بن اسباط رد ابو حنيفه علی رسول اﷲ اربعة مائة حديث او اکثر. "

یعنی یوسف بن اسباط نے کہا ہے کہ ابو حنیفہ نےرسول خدا(ص) پر چار سویا اس سے زیادہ حدیثیں روکیں۔ نیز یوسف کہتا ہے کہ ابو حنیفہ کہتا تھا لو ادرکنی

۱۳۷

رسول اﷲ لاخذ بکثیر من قولی۔ یعنی اگر رسول اﷲ مجھ کو پاتے تو میرے بہت سے اقوال اختیار کرتے یعنی میری باتوں کی پیروی کرتے) ۔ اسی طرح کے بکثرت مطاعن ابو حنیفہ اور باقی تین اماموں کے بارے میں آپ کے علماء سے منقول ہیں جو غزالی کی کتاب متحول، شافعی کی کتاب نکت الشریف زمخشری کی ربیع الابرار اور ابن جوزی کی منتظم وغیرہ دیکھنے سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ امام غزالی متحول میں کہتے ہیں :

" ان ابا حنيفه النعمان بن ثابت الکوفی يحق فی الکلام ولا يصرف اللغة والنحو ولا يعرف الاحاديث ۔"

( یعنی ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کوفی کے کلام میں غلطیاں بہت ہیں۔ ان کو لغت و نحو اور احادیث کا علم نہیں تھا) نیز لکھتے یں کہ یہ چونکہ علم حدیث سے ( جو قرآن کے بعد دین کا ستون اور بنیاد ہے) واقف نہیں تھے لہذا فقط قیاس رپ عمل کرتے تھے، حالانکہ اول من قاس ابلیس یعنی سب سے پہلے جس نے قیاس پر عمل کیا وہ شیطان تھا۔ ( چنانچہ جو شخص قیاس پر عمل کرے اس کا حشر ابلیس کے ساتھ ہوگا۔)

اور ابن جوزی منتظم میں کہتے ہیں اتفق الکل علی الطعن فیہ۔ یعنی سارے علماء ابو حنیفہ پر طعن کرنے میں متفق ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ طعن کرنے والے تین قسم کے ہیں۔ ایک گروہ نے ان کو اس لئے مورد طعن قرار دیا ہے کہ یہ اصول عقائد میں متزلزل تھے۔ دوسری جماعت نے کہا ہے کہ ان کے پاس حافظ اور ضبط روایات کی قوت نہیں تھی اور تیسری صنف کا اعتراض یہ ہے کہ یہ اپنی رائے اور قیاس سے کام لیتے تھے اور ان کی رائے ہمیشہ صحیح حدیثوں کی مخالفت ہوتی تھی۔

غرضیکہ آپ کے اماموں کے بارے میں آپ ہی کے علماء کی طرف سے اس طرح کی گفتگو اور مطاعن بہت ہیں۔ جن کے بیان کا فی الحال وقت نہیں ہے کیونکہ میں تردید اور انتقاد کی منزل میں نہیں تھا۔ آپ نے بات کا سلسلہ یہاں تک پہنچا دیا کہ فرمایا جو مطاعن منقول ہیں وہ صرف علمائے کی طرف سے ہیں اور جو کچھ تمہارے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہو لہذا میں نے یہ بتا دینا چاہا کہ آپ کا اعتراض بے جا ہے اور آپ محض گریز کا راستہ تلاش کرنے کے لیے بغیر عقل و منطق کے مقابلہ کر رہے ہیں ورنہ اصلیت اسکے خلاف ہے جو کچھ میری زبان پر جاری ہوتا ہے وہ علم و عقل اور منطق کے مطابق اور تعصب سے خالی ہوتا ہے علماء شیعہ نے آپ کے چاروں اماموں سے سوا ان باتوں کے جو خود آپ کے علماء نے لکھی ہیں کوئی نئی چیز منسوب نہیں کی ہے اور نہ ان کی توہین ہی کرتے ہیں۔ لیکن آپ کے علماء کے بر خلاف علمائے شیعہ امامیہ کے درمیان ہمارے بارہ ائمہ (ع) کے مقامات مقدسہ کی نسبت کسی طرح کا کوئی ایراد یا اعتراض موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم ائمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم

۱۳۸

اجمعین کو ایک ہی مدرسے کے شاگرد جانتے ہیں جن پر یکساں طور پر فیض خداوندی جارہی تھا اور یہ حضرات من اولہم الی آخرہم بالعموم قوانین الہیہ کے مطابق جو خاتم النبیین سے ان کو پہنچے تھے عمل فرماتے تھے۔ رائے و قیاس اور ایجاد بندہ پر کار بند نہیں تھے بلکہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ پیغمبر(ص) کی طرف سے تھا لہذا بارہ اماموں کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا( جیسے کہ آپ کے چاروں اماموں کے درمیان سارے عقائد و احکام میں اختلاف موجود ہیں) کیونکہ یہ حضرات امام تھے۔ لیکن امام لغوی نہیں جس کے معنی صرف آگے چلنے والے کے ہوں۔

امامت شیعوں کے عقیدے میں ریاست عالیہ الہیہ ہے

بلکہ علم کلام کی اصطلاح میں جیسا کہ محققین علماء نے بیان کیا ہے یہ امامت ریاست عالیہ الہیہ کے معنی میں اور اصول دین میں سے ایک اصل ہے اور ہم بھی اسی عقیدے پر ہیں کہ : “ الامامة ہی الریاسة العامة الہیة خلافة عن رسول اﷲ فی امور الدین و الدنیا بحیث یجب اتباعہ علی کافة الامة” یعن امامت سارے خلائق پر ایک عمومی ریاست الہی ہے بطریق خلافت رسول اﷲ(ص) کی طرف سے امور دین و دنیا میں اس صورت سے کہ اس کی متابعت سارے انسانوں پر واجب ہے۔”

شیخ : بہتر تھا کہ آپ قطعی اور حتمی طور سے یہ نہ فرماتے کہ امامت اصطلاحی اصول دین میں سے ہے کیونکہ بڑے بڑے علمائے اسلام کہتے ہیں کہ امامت اصول دین میں سے نہیں ہے بلکہ مسلمہ فروعات میں سے ہے، جس کو آپ کے علماء نے بغیر دلیل کے اصول دین کا جز بنا دیا۔

خیر طلب : میرا یہ بیان صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کے اکابر علماء بھی اسی عقیدے پر ہیں من جملہ ان کے آپ کے مشہور مفسر قاضی بیضاوی کتاب منہاج الاصول میں بسلسلہ بحث اخبار انتہائی صراحت کے ساتھ کہتے ہیں :

" أن الإمامة من أعظم مسائل أصول الدين التي مخالفتها توجب الكفر و البدعة "

یعنی حقیقتا امامت اصول دین کے عظیم ترین مسائل میں سے ہے جس کی مخالفت کفر و بدعت کا سبب ہے۔

ملا علی قوشجی شرح تجرید مبحث امامت میں کہتے ہیں :

" «الإمامة رئاسة عامّة في أمور الدين و الدنيا خلافة عن النبيّ "

یعنی امامت ایک ریاست عمومی ہے امور دین و دنیا میں بطریق خلافت پیغمبر(ص) کی طرف سے) اور قاضی روز بہان جیسے آپ کے انتہائی متعصب عالم نے بھی اسی مفہوم کو نقل کیا ہے کہ امامت ریاست براست اور نیابت و خلافت رسول(ص)

۱۳۹

ہے اس عبارت کے ساتھ کہ :" و الإمامة عند الأشاعرة: هي خلافة الرسول في إقامة الدين و حفظ حوزة الملّة، بحيث يجب اتّباعه على كافّة الأمّة."

یعنی امامت اشاعرہ کے نزدیک رسول اﷲ(ص) کی خلافت ہے دین کو قائم کرنے اور حلقہ ملت اسلام کی حفاظت کرنے میں، اس طرح سے کہ ساری امت پر اس کا اتباع واجب ہے۔

اگر امامت فروع دین میں سے ہوتی تو رسول اﷲ(ص) یہ نہ فرماتے کہ جو شخص بغیر امام کو پہچانے ہوئے مرے تو اس کی موت طریقہ جاہلیت پر ہے۔ چنانچہ آپ کے اکابر علماء جیسے حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، ملا سعد تفتازانی نے شرح عقائد نصفی میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

"من مات و هو لا يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية" (1)

بدیہی چیز ہے کہ فروع دین میں سے کسی ایک فرع کی معرفت نہ ہوتا دین کے تزلزل اور طریقہ جاہلیت پر مرنے کا سبب نہیں ہوسکتا جیسا کہ بیضاوی صریحی طور پر کہتے ہیں کہ اس کی مخالفت کفر و بدعت کا سبب قرار پائے۔ پس ثابت ہے کہ امامت اصول دین میں داخل اور مقام نبوت کا تتمہ ہے۔ لہذا امامت کے معنی میں بہت بڑا فرق ہے ، آپ جو اپنے علماء کو امام کہتے ہیں جیسے امام اعظم ، امام مالک ، امام شافعی، امام احمد حنبل، امام فخرالدین ، امام ثعلبی امام غزالی وغیرہ تو یہ لغوی معنی کے لحاظ سے ہے۔ ہم بھی امام جمعہ اور امام جماعت رکھتے ہیں ، اماموں کی اس نوع کا دامن وسیع ہے اور ممکن ہے کہ ایک وقت میں سیکڑوں امام موجود ہوں، لیکن اس معنی میں جو میں نے عرض کیا امام ریاست عامہ مسلمین کے عہدے پر ہے۔ یہ ہر زمانے میں صرف ایک ہوتا ہے، ایسا امام کہ اس کو حتمی طور پر سارے صفات حمیدہ و اخلاق پسندیدہ کا حامل ، علم وفضل ، شجاعت ، زہد، ورع اور تقوی میں سارے انسانوں سے بہتر اور منزل عصمت پر فائز ہونا چاہیئے۔ اور کبھی روز قیامت تک زمین ایسے امام کے وجود سے خالی نہ رہے گی۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا امام جو انسانیت کے تمام صفات حالیہ کا حامل ہو صفات روحانیت کے بلند ترین مقام پر ہوگا۔ اور یقینا ایسے امام کو خدائے تعالی کی طرف سے خصوص اور رسول اﷲ (ص) کی طرف سے منصوب ہونا چاہیئے کیونکہ یہ سارے ؟؟؟؟؟ حتی کہ انبیائے کرام سے بھی اعلی و ارفع ہوتا ہے۔

حافظ : ایک طرف تو آپ غالیوں کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف خود ہی امام کے بارے میں غلو کرتے ہیں اور اس کی منزل کو مقام بنوت سے بالاتر سمجھتے ہیں، حالانکہ عقلی دلائل کے علاوہ قرآن مجید نے بھی انبیاء کی منزل کو سب سے بلند قرار دیا ہے اور واجب و ممکن کے درمیان صرف انبیاء(ع) ہی کا مقام ہے آپ کا یہ دعوی چونکہ بلا دلیل ہے لہذا سراسر زبردستی اور نا قابل قبول چیز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ اپنے امام زمان کو نہ پہچانتا ہو تو وہ حقیقت میں جاہلیت کی موت مرا۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369