پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310264 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خان ے م یں ان کی کوئی نہ کوئ ی جلد او رنسخہ موجود ہے ۔

چنانچہ اگر فقہ ک ی استدلالی کتابوں اور عمل یہ رسائل کامطالعہ ک یجئے تو آپ دیکھیں گے ک ہ علاو ہ اس ک ے ک ہ کوئ ی شرک کاطریقہ موجود نہیں ہے ،احکام ب ھی مہ مل اور ب ے قاعد ہ ن ہیں ہیں بلکہ فق ہ جعفر ی کے باطن س ے توح ید کا لب لباب ظاہ ر و آشکار ہے ۔

شرح لمعہ اور شرائع الاسلام سار ے کتب خانو ں م یں موجود ہیں ان کامطالعہ ک یجیے تو اسی باب نذر میں نیز جملہ فق ہ ائ ے ش یعہ کے عمل یہ رسالوں م یں ملے گا ۔ نذر چونک ہ خدا ک ے لئ ے کس ی عمل کو اپنے اوپر لازم کرن ے ک ی وجہ س ے ابواب عبادت م یں سے ا یک باب ہے ل ہ ذا اس ک ے لئ ے حت می طور پر دو شرطوں کا لحاظ رک ھ نا ضرور ی ہے ۔ ک یونکہ اگر ان دونوں م یں سے کوئ ی مفقود ہ وگ ی تو نذر منعقد نہ ہ وگ ی ،اول:- نیت متصل بہ عمل ، اور دوسر ی :- صیغہ چاہے و ہ جس زبان م یں ہ و ۔

جب مسلمان یہ سمجھ ل ے گا ک ہ اس ک ی نذر بغیر ان دو شرطوں ک ے صح یح نہ ہ وگ ی تو کوشش کرے گا ک ہ پ ہ ل ے ان دونو ں کامطلب اور نوع یت سمجھ ل ے اس ک ے بعد نذر کر ے جس وقت کس ی فقیہ سے سوال کر ے گا یا کوئی رسالہ پ ڑھے گا تو اس کو معلوم ہ وگا ک ہ اولا سار ی عبادتوں م یں بالخصوص نذر میں نیت اللہ ک ے بار ے م یں اور اللہ ک ی خوشنودی حاصل کرنے ک ے لئ ے ہ ونا چا ہ ئ یے لہ ذا غ یر خدا کے لئ ے ن یت کا سوال یہ ختم ہ و جاتا ہے ۔

دوسری شرط جو پہ ل ی شرط کا تتمہ ہے اور اس کو مضبوط کرن ے وال ی ہے ، یہ ہے ک ہ نذر کن ے وال ے کو نذر ک ے وقت ص یغہ پڑھ نا لازم ی ہے اور ص یغہ میں جب تک خدا کا نا م نہ ہ و ص یغہ جاری نہیں ہ وتا ،مثلا روز ے ک ی نذر کرنا چاہ تا ہے ۔ تو ک ہے "لل ہ عل یّ ان اصوم"

یا شراب ترک کرنا چاہ تا ہے تو ک ہے "لل ہ عل یّ ان اترک شرب الخمر" اور اسی طریقے سے دوسر ی نذریں ہیں۔

اگر فارسی یا اردو وغیرہ بولنے وال ے ک ے لئ ے عرب ی صیغہ جاری کرنا آسان نہ ہ و تو ہ ر قوم والا اپن ی زبان میں صیغہ جاری کر سکتا ہے اس شرط س ے ک ہ ا س ک ے معن ی مذکورہ ص یغہ سے مطابق ہ و ں ، اور اگر ن یت میں غیر خدا ہ و یا کسی اور زندہ یا مردہ کو خدا ک ے نا م ک ے سات ھ شامل کر لے ۔ چ ہ ل ہے پ یغمبر یا امام یا امام زادے ہی کا نام ہ و تو قطعا و ہ نذر باطل ہے اور اگر عمدا جان بوج ھ کر ا یسا کرے تو مشرک ہے ک یونکہ مذکورہ آ یت میں کھ لا ہ و ا ارشاد ہے "ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا" البت ہ ا ہ ل علم پر لازم ہے ک ہ نا واقف لوگو ں کو سمج ھ ا ئ یں کہ ن ذر قطعا خدا کے نام پر اور خدا ہی کے لئ ے ہ ونا چا ہیئے ،چنانچہ واعظ ین اور مبلغین برابر اپنا فرض انجام دیتے رہ ت ے ہیں ۔ اور ش یعہ فقہ ا عموما ب یان کیا کرتے ہیں کہ نذر ہ ر زند ہ یا مردہ ک ے لئ ے چا ہے و ہ پ یغمبر یا امام ہی ہ و باطل ہے اور اگر سمج ھ ک ے عمدا ا یسا کرے ت و مشرک ہے ۔

۸۱

نذر صرف خدا کے لئ ے کر یں اس کے مصرف ک ے تع ین میں اختیار ہے ۔ مثلا نذر کر ے ک ہ خدا ک ے لئ ے کوئ ی گوسفند فلاں مکان یا عبادت خانے یا بقعہ امام وغ یرہ میں لے جا کر قربان ی کرے گا ۔یا کوئی رقم یا لباس خدا کے لئ ے فلا ں س یّد یا عالم یا یتیم یا فقیر کو دے گا تو کوئ ی حرج ن ہی ں ہے ،ل یکن اگر پیغمبر یا امام یا امام زادہ یا عالم یا یتیم یا محتاج وغیرہ کے لئ ے نذر کر ے تو حتما باطل ہے اور علم وقصد ک ے سات ھ قطعا شرک ہے ۔ ہ ر رسول ،فق یہ ،عالم، واعظ اور مبلغ کا فرض لکھ نا اور ب یان کرنا ہے "وما علی الرسول الا البلاغ" یعنی پیامبر پر سوا مکمل طریقے سے پ ہ نچا د ینے کے اور کوئ ی ذمہ دار ی نہیں ہے ۔ سور ہ نور آ یت ۵۴۔

اور لوگوں کا فرض سننا اور عمل کرنا ہے اگر کوئ ی شخص یا اشخاص احکام دین کے س یکھ ن ے اور سکھ ان ے ک ی کوشش نہ کر یں اور ہ دا یات کے مطابق اپن ے مذ ہ ب ی فرائض پر عمل نہ کر یں تو ان کے اصل عق یدے اور اصول وقواعد میں کوئی نقص نہیں پیدا ہ وتا ۔

میرا خیال ہے ک ہ اس ی قدر جواب سے حق یقت ظاہ ر ہ وگئ ی ہ وگ ی اور اس کے بعد آپ حضرات ش یعوں کو مشرک کہہ کر عوام کو غلط ف ہ م ی میں مبتلا نہ کر یں گے ۔

شرک خفی

بہ تر ہے ک ہ ہ م لوگ پ ہ ل ی گفتگو کی طرف رجوع کریں اور مطلب پورا کریں ۔ دوسر ی قسم شرک خفی و پوشیدہ ہے اور و ہ شرک در اعمال اور طاعات وعبادات میں رہ ا ہے اس قسم ک ے شرک اور شرک در عبادت ک ے درم یان جس کو ہ م ن ے شرک جل ی میں شمار کیا ہے فرق یہ ہے ک ہ بند ہ سرک عب ادت میں خدا کے لئ ے شر یک قرار دیتا ہے اور مقام عبادت م یں اس کی پر ستش کرتا ہے ،مثلا اگر نماز یمں غیر خدا کو مد نظر رکھے جیسے شیاطین کے ب ہ کان ے س ے مقام ولا یت کی صورت نگاہ م یں لائے یا کسی مرشد کو مر کز توجہ بنائ ے تو قطعا و ہ عمل باطل اور شرک خف ی ہے ، عبادت میں سوا ذات وحدہ لاشر یک کے انسان ک ے ذ ہ ن وفکر م یں اور کسی کو دخل نہ ہ ونا چا ہیئے ورنہ شرک جل ی میں داخل ہ وجاتا ہے ۔

حضرت رسول خدا(ص) سے مرو ی ہے ک ہ فرما یا "یقول الله تعالی من عمل عملا صالحا اشرک فیه غیری فهو له کله وانا منه برئ وانا اغنی الاعنیاء عن الشرک" یعنی خدائے تعال ی فرماتا ہے ک ہ جو شخص کوئ ی نیک عمل کرے اور اس م یں میرے غیر کو شریک کرلے تو سارا عمل اس ی کے لئ ے ہے اور م یں اس (عمل یا عامل) سے ب یزار ہ و ں اور م یں تمام اغنیا سے ز یادہ شک سے غن ی ہ و ں۔

۸۲

ن یز روایت میں ہے ک ہ ارشاد فرما یا جو شخص نماز پڑھے یا روزہ رک ھے یا حج کرے اور اس کا نظر یہ یہ ہ و ک ہ لوگ اس عمل پر اس ک ی مدح کریں "فقد اشرک فی عملہ "تو یقینا اس نے ا س عمل میں خدا کے لئ ے شر یک قرار دیا۔

نیز کاشف اسرار حقائق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ک ہ "لو ان عبدا عمل عملا یطلب به رحمة الله والدار الآخرة ثم ادخل فیه رضا احد من الناس کان مشرکا" (یعنی اگر کوئی بندہ رحمت خدا اور جزائ ے آخرت ک ی طلب میں کوئی عمل کرے اور اس م یں کسی انسان کی رضامندی کو شامل کرے تو و ہ عامل مشرک ہ و جائ ے گا) ۔

شرک خفی کا دامن بہ ت وس یع ہے ک یونکہ کسی عمل میں غیر خدا کی طرف ایک مختصر سی توجہ ب ھی مشرک بنا دیتی ہے ۔

شرک در اسباب

اس شرک کی قسموں م یں سے ا یک شرک در اسباب ہے ج یسا کہ اکثر لوگ صرف اسباب اور خلق پر ام ید وخوف کی نظر رکھ ت ے ہیں ، یہ بھی شرک ہے ل یکن شرک در اسباب سے مراد یہ ہے ک ہ اسباب ہی میں اثر سمجھے مثلا آفتاب اش یا کی تربیت میں اثر انداز ہ وتا ہے اگر اس اثر کو ب غیر مؤثر حقیقی کی طرف توجہ کئ ے ہ وئ ے خود آفتاب کی جانب سے سمج ھیں تو شرک ہے اور اگر اس کا مؤثر حک یم مطلق کو اور آفتاب کو فیض رسانی کا ذریعہ جانیں تو ہ رگز شرک ن ہیں ہے ،بلک ہ یہ تو ایک طرح کی عبادت ہے ک یونکہ حق کی نشانیوں پر توجہ کرنا خود حق ک ی طرف توجہ کرنے کا پ یش خیمہ ہے ؛ج یسا کہ قرآن مج ید کی بہ ت س ی آیتوں میں اس امر کی جانب اشارہ موجود ہے ک ہ آ یات الہی پر غور کرو اس لئے ک ہ فکر ونظر خود خدائ ے تعال ی کی طرف توجہ کا مقدم ہ ہے ۔

اسی طرح اسباب میں سے ہ ر سبب ک ی طرف جیسے تاجر کی تجارت کی طرف ،کاشتکار کی زراعت کی طرف ،باغبان کی باغبانی کی طرف ،پیشہ ور کی پیشہ ور کی طرف اور منتظم کی اپنے انتظام ک ی طرف یہ ا ں تک کہ کس ی قسم کا کام کرنے وال ے ک ی اپنے شغل اور عمل ک ی طرف مستقل اور خاص توجہ مشرک بناد یتی ہے اور اگر سبب و اسباب پر اس ک ی نظر اس نیت سے ہ و ک ہ "لا مؤثر ف ی الوجود الا اللہ " یعنی اثر دینے والا سوا خدا کے کوئ ی اور نہیں ہے تو کوئ ی قباحت نہیں ہے اور شرک ن ہ ہ وگا ۔

شیعہ کسی پہ لو س ے مشرک ن ہیں

اس مختص تمھید کے بعد جس س ے مطلب واضح ہ وگ یا ہے اور ہ م اصول شرک اور اس ک ے معان ی وآثار بیان کرچکے ہیں ، اب اجازت دیجئے کہ اپن ے ب یانات سے نت یجہ نکالیں اور دیکھیں کہ ہ م ن ے شرک جل ی و خفی کے جو طر یقے بیان

۸۳

کئے ہیں ان میں سے کس ک ے ماتحت آپ ش یعوں کو مشرک کہ ت ے ہیں ۔ آ یا کہ ا ں اور کس پ ڑھے لک ھے یا جاہ ل ش یعہ سے آپ ن ے سنا ہے ک ہ و ہ خدائ ے تعال ی کی ذات وصفات اور افعال میں کسی شریک کا قائل ہ و؟ یا پروردگار کی عبادت میں کسی دوسرے معبود کو پ یش نظر رکھ تا ہ و ؟ یا شیعوں کی کونسی کتب اور اخبار واحادیث میں دیکھ ا ہے ک ہ اصول وفروع اور عقائد ک ے بار ے م یں ان بزرگان دین اور ائمہ طا ہ ر ین سے کوئ ی ایسی بات یا حکم منقول ہ و جو شرک ک ے ان طر یقوں سے ملتا ہ و جو م یں نے عرض ک یئے ؟۔

اب رہ ا شرک خف ی اور اس کے اقسام ج یسے لوگوں کو دک ھ ان ے اور ان کو متاثر کرن ے ک ے لئ ے کوئ ی عمل کریں یا اسباب سے ربط او ر ام ید قائم کریں تو یہ بات تنہ ا ش یعوں سے مخصوص ن ہیں ہے بلک ہ ش یعہ اور سنی سبھی عالم اجسام میں گرفتار ہیں اور بہ ت س ے عقل ومعرف ت ،تزکیہ نفس اور کامل توجہ ن ہ ہ ون ے ک ی وجہ س ے کب ھی کبھی شیطان کے وسوسو ں م یں مبتلا ہ و کر ر یائی عمل کرتے ہیں ،یا سرتا پا اسباب میں محو ہ وجات ے ہیں اور حق کی اطاعت سے ہٹ کر اطاعت ش یطان کرنے لگت ے ہیں اور جیسا عرض کیا جاچکا ہے اگر چ ہ یہ طرز عمل شرک ک ے مف ہ وم م یں آجاتا ہے ل یکن شرک مغفور ہے اور یقینا معانی اور چشم پوشی کے قابل ہے ک یونکہ تھ و ڑی روحانی توجہ س ے اس ک ی تلافی ہ وجات ی ہے ۔ پ ھ ر آپ کس پ ہ لو س ے ش یعوں کو مشرک سمجھ ت ے ہیں ؟ اور عوام کو دھ وک ے م یں ڈ الت ے ہیں ،جیسا کہ ف ی الحال آپ نے اشار ہ ک یا ہے ۔

حافظ:- آپ کی ساری باتیں صحیح ہیں لیکن میں نے عرض ک یا کہ اگر آپ غور فرمائ یے تو خود تصدیق کیجئے گا کہ امامو ں س ے حاجت طلب کرنا اور ان کا وس یلہ اختیار کرنا شرک ہے چونک ہ ہ م ک و انسانی واسطے ک ی ضرورت نہیں ہے ل ہ ذا جب ب ھی خدا کی طرف توجہ کر یں گے نت یجہ حاصل ہ وجائ ے گا ۔

خیرطلب :- بڑے تعجب کا مقام ہے ک ہ آپ کا ا یسا منصف اور ہ وش یار عالم کیونکر بغیر تحقیق کے اپن ے اسلاف ک ی عادتوں ک ے ز یر اثر رہ کر ا یسے بیان دیتا ہے ،غالبا آپ سور ہے ت ھے یا میری گزارشوں ک ی طرف کوئی توجہ ن ہیں تھی کہ ان مقدمات کو ذکر کرن ے کا اور مطالب ک ی تشریح کردینے کے بعد ب ھی آپ یہ بات دہ را ر ہے ہیں کہ امامو ں س ے حاجت چا ہ نا شرک ہے ۔

جناب محترم! کیا مطلقا مخلوقات سے حاجت طلب کرنا شرک ہے ؟ اگر ایسا ہے تو سارا عالم مشرک ہے اور کب ھی کوئی موحد مل نہیں سکتا ۔ اگر خلق س ے حاجت چا ہ نا اور ان س ے مدد ک ی خواہ ش کرنا شرک ہے تو انب یاء کس لئے خلائق س ے امداد مانگت ے ت ھے ؟ ب ہ تر ہ و گا ک ہ آپ ح ضرات کسی قدر قرآن مجید کی آیتوں پر بھی غورفرمائیں تاکہ حق یقت واضح ہ وجائ ے ۔

۸۴

آصف بن برخیا کا سلیمان کے پاس تخت بلق یس لانا

ضرورت ہے ک ہ سور ہ نمبر۲۷(نمل)ک ی آیات نمبر ۳۸ تا ۴۰ پر توجہ فرمائ یے جن میں ارشاد ہے " قَالَ يَا أَيُّهَا المَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ٭ قَالَ عِفْريتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ ٭ قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرّاً عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ٭ "( یعنی جناب سلیمان نے حاضر ین مجلس سے ک ہ ا ک ہ تم م یں سے کون شخص بلق یس کا تخت میرے پاس لائے گا ، قبل اس ک ے ک ہ و ہ لوگ م یرے سامنے اطاعت گزار بن ک ے آئ یں ؟ جنا ت میں سے ا یک دیو بولا کہ م یں اس کا تخت لے آن ے پر ا یسا قادر اور امین ہ و ں ک ہ آپ ک ے دربار س ے ا ٹھ ن ے س ے پ ہ ل ے ہی لا کر حاضر کردوں گا ، اس شخص ن ے جس کو ت ھ و ڑ ا سا علم کتاب معلوم ت ھ ا ( یعنی آصف بن برخیا جو اسم اعظم جانتے ت ھے ) ک ہ ا ک ہ م یں آپ کی پلک جھ پکن ے سے قبل اس کو یہ ا ں لے آؤ ں گا ۔ جب سل یمان نے و ہ تخت اپن ے پاس د یکھ ا تو کہ ا ۔ یہ طاقت میرے پروردگار کے فضل س ے ہے ۔۔ ال ی آخر) بدیہی چیز ہے ک ہ بلق یس کا اتنا بڑ ا تخت اتن ی طویل مسافت سے پلک ج ھ پکن ے س ے قبل سل یمان کے پاس ل ے آنا عاجز مخلوق کا کام ن ہیں ہے اور مسلّم ہے ک ہ ا یک خلاف عادت امر ہے ل یکن حضرت سلیمان نے یہ سمجھ ت ے ہ وئ ے ب ھی کہ یہ کام خدائی قدرت چاہ تا ہے تخت منگوان ے ک ی درخواست خدا سے ن ہیں کی بلکہ ا یک عاجز مخلوق سے حاجت روائ ی اور امداد کی خواہ ش ک ی اور اہ ل دربار س ے فرمائش ک ی کہ و ہ ع ظیم الشان تخت میرے لئے منگوادو، ل ہ ذا خود جناب سل یمان کا عاجز بندوں س ے یہ تقاضا کرنا کہ تم م یں سے کون اپن ی خدا داد قوت سے یہ کام انجام دے سکتا ہے اور تخت بلق یس کو اس کے آن ے س ے پ ہ ل ے م یرے سامنے حاضر کرسکتا ہے ؟ اس بات کا ثبوت ہے ک ہ مخلوق س ے مطلق حاج ت چاہ نا شرک ن ہیں ہے ۔ خدا ن ے دن یا کو عالم اسباب قرار دیا ہے ۔ شرک ب ھی ایک قلبی امر ہے اگر اس شخص کو جس س ے حاجت طلب کر رہ ا ہے خدا یا خدا کا شریک نہ سمج ھے تو اس س ے مدد ل ینے میں کبھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ عام طور پر لوگو ں م یں رواج ہے ک ہ ہ م یشہ زید ،عمر وبکر کے درواز ے پر جاکر بغ یر خدا کا نام زبان پر جاری کئے ہ وئ ے امداد کا تقاضا کرت ے ہیں ۔

چنانچہ اگر کوئی مریض طبیب اورڈ اک ٹ ر ک ے درواز ے پر جاکر ک ہے ک ہ ڈ اک ٹ ر صاحب م یری فریاد کو پہ نچئ ے ،ب یماری مجھ کو مار ے ڈ الت ی ہے تو ک یا یہ مریض مشرک ہے ؟ ۔

اگر کوئی دریا میں ڈ وبن ے والا ہ و فر یاد کرے ک ہ لوگو م یری مدد کو پہ نچو اور مج ھ کو بچاؤ اور خدا کا نام ن ہ ل ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟ ۔

۸۵

اگر کسی ظالم نے کس ی بے گنا ہ مظلوم کا پ یچھ ا کیا اور اس نے وز یر اعظم کے در پر جا ک ے ک ہ ا جناب وز یر صاحب میری فریاد رسی کیجئے ۔ م یں آپ کا دامن نہ چ ھ و ڑ و ں گا ک یونکہ مجھ کو سوا آپ ک ے اور کس ی سے ام ید نہیں جو مجھ کو اس ظالم ک ے پنج ے س ے چ ھٹ کارا دلائ ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟ ۔

اگر کسی کے گ ھ ر کوئ ی چور جان یا مان یا عزت کے قصد س ے داخل ہ وا اور و ہ کو ٹھے پر چ ڑھ ک ے اپن ے پ ڑ وس یوں کو مدد کے لئ ے پکار ے اور رسما ک ہے ک ہ لوگو م یری مدد کو دوڑ و اور اس چور س ے بچاؤ ل یکن اس وقت خدا کا نا بالکل نہ ل ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟

قطعا جواب نفی میں ہ وگا اور کوئ ی عقلمند آدمی ایسے کو مشرک نہیں کہے گا بلک ہ جو لوگ مشرک ک ہیں وہ یا تو بیوقوف ہیں یا پھ ر ان ک ی کوئی غرض ہے ۔

محترم حضرات ! انصاف کیجئے اور غلط فہ م ی نہ پ ھیلائے ، بالعموم سارے ش یعہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئ ی شخص آل محمد کو خدا سمجھے یا ان کو خدائی ذات وصفات او رافعال میں شریک جانے تو و ہ قطع ی مشرک ہے ۔ اور ہ م لوگ اس س ے ب ے ب یزاری اختیار کرتے ہیں ۔ اگر آ پ نے مص یبتوں میں شیعوں کو" یا علی ادرکنی " یا حسین ادرکنی" کہ ت ے ہ وئ ے سنا ہے تو اس ک ے معن ی یہ نہیں ہیں کہ " یا علی اللہ ادرکن ی" یا حسین اللہ ادرکن ی" بلکہ دن یا چونکہ دار اسباب ہے ک یونکہ "ابی الله ان یجری الامور الا باسبابها" یعنی اللہ ن ے امور کو ب غیر ان کے اسباب نافذ کرن ے س ے انکار ک یا ہے (مترجم)۔ ل ہ ذا ش یعہ اس خاندان جلیل کو وسیلہ اور اسباب نجات سمجھ ت ے ہیں اور انہیں حضرات کے ذر یعے سے خدا تک رسائ ی کی کوشش کرتے ہیں ۔

حافظ:- مستقل طور پر خدا ہی سے ک یوں حاجت طلب نہیں کرتے ک ہ وس یلہ اور واسطہ ک ے پ یچھے دوڑ ر ہے ہیں ؟

خیر طلب :-طلب حاجات اور رنج وغم کے دف یعہ میں ہ مار ی مستقل توجہ پروردگار ہی کی یکتاذات سے مخصوص ہے ل یکن قرآن مجید جو ایک محکم آسمانی کتاب ہے ہ م کو ہ دا یت کررہ ا ہے ک ہ خدا ک ی جلیل بارگاہ م یں وسیلے کے سات ھ حاضر ہ ونا چا ہ ئ یے چنا نچہ سور ہ نمبر ۵ (مائد ہ )آ یت نمبر۳۶ میں ارشاد ہ وتا ہے "یا ایهاالذین آمنوا اتقوالله وابتغوه الیه الوسیلة" (یعنی اے ا یمان والو خدا سےڈ رو اور اس ک ی بارگاہ م یں پہ نچن ے ک ے لئ ے (اول یائے حق کا) وسیلہ اختیار کرو (تاکہ مطلب برآئ ے ) ۔

آل محمد (ع)فیض الہی کے ذر یعے ہیں

ہ م شیعہ اہ ل ب یت طاہ ر ین علیھ م السلام کو امور کے حل وعقد م یں قادر مطلق نہیں سمجھ ت ے بلک ہ ان حضرات کو خط ک ے صالح بند ے اور ف یض خداوندی کاواسطہ جانت ے ہیں اور اس جلیل القدر خاندان کے سات ھ ہ مارا توسل رسول الل ہ

۸۶

ک ے حکم س ے ہے ۔

حافظ:- کس مقام پر رسول اکرم (ص) نے ان س ے توسل اخت یار کرنے کا حکم د یا ہے اور ک ہ ا ں س ے معلوم ہ و ا ک ہ واسط ے س ے مراد آل محمد (ص) ہیں ؟ ۔

خیرطلب :-بکثرت حدیثوں میں حکم دیا ہے ک ہ خطرات اور م ہ لکو ں س ے نجات حاصل کرن ے ک ے لئ ے م یری عزت اور اہ ل ب یت سے متوسل ہ و ۔

حافظ:- یا یہ ممکن ہے ؟ اگر ا یسی حدیثیں آپ کی نظر میں ہیں تو ہ مار ے سامن ے ب ھی بیان فرما دیجیئے۔

خیرطلب :-آپ نے جو یہ فرمایا کہ ک ہ ا ں س ے معلوم ہ و ا ک ہ وس یلے سے مراد عترت اور ا ہ ل ب یت پیغمبر (ع) ہیں ؟ تو آپ کے اکابر علماء ج یسے حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی "نزول القرآن فی علی " میں حافظ ابو بکر شیرازی "ما نزل من القرآن فی علی "میں اور امام احمد ثعلبی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ آ یہ شریفہ میں وسیلہ سے مراد عترت و ا ہ ل ب یت رسول(ع)ہیں ۔ چنانچ ہ علماء م یں سے شرح ن ہ ج البلاغ ہ جلد چ ہ ارم صفح ہ ۷۹ م یں حضرت صدیقہ کبری فاطمہ ز ہ را سلام الل ہ عل یھ ا کا وہ خطب ہ نقل ک یا ہے جو جناب معصوم ہ ن ے قض یہ فدک کے سلسل ے م یں مہ اجر ین انصار کے سامن ے ارشاد فرما یا تھ ا چنانچ ہ خطب ے ک ے شروع ہی میں ان مظلومہ ن ے مندرج ہ ذ یل عبارت کے سات ھ اس آ یت کے معن ی کی طرف اشارہ فرما یا ہے "واحمدالل ہ الذ ی بعظمتہ ونور ہ یبتغی من فی السموات والارض الیہ الوسیلۃ ونحن وسیلتہ فی خلقہ "( یعنی میں حمد کرتی ہ و ں اس خدا ک ی جس کی عظمت اور نور کی وجہ س ے آسمانو ں اور زم ینوں کے ر ہ ن ے وال ے اس ک ی طرف وسیلہ تلاش کر تے ہیں ، اور ہ م ہیں اس کا وسیلہ مخلوقات کے اندر ۔

حدیث ثقلین

عترت رسول اور اہ لب یت طاہ ر ین علیھ م السلام سے تمسک و توسل اور ان ک ی پیروی کے جواز پر مضبوط دل یلوں میں سے ا یک حدیث ثقلین بھی ہے جو فر یقین کے نزد یک صحیح اسناد کے سات ھ توا تر ک ی حد تک پہ نچ ی ہ وئ ی ہے ک ہ رسول الل ہ (ص) س ے ارشاد فرمایا "ان تمسکتم بهما لن تضلوا بعدی" (یعنی اگر ان کے سات ھ تمسک رک ھ و گ ے تو م یرے بعد ہ رگز گمرا ہ ن ہ ہ وگ ے ) ۔

حافظ:- میرا خیا ل ہے ک ہ آپ ن ے د ھ وکا ک ھ ا یا ہے جو اس حد یث کو صحیح الاسناد اور متواتر کہہ د یا ہے ۔ اس لئ ے ک ہ یہ مقصد ہ مار ے اکابر علماء ک ے نزد یک غیر معلوم ہے اور اس بات پر دل یل یہ ہے ک ہ ہ مار ے ش یخ بزرگ اور مذہ ب

۸۷

سنت وجماعت ک ے قبل ہ وکعب ہ محمد بن اسماع یل بخاری نے اپن ی معتبر صحیح میں جو قرآن کریم کے بعد تمام کتابو ں س ے ز یادہ صحیح ہے اس کا ذکر ن ہیں کیا ہے ۔

خیر طلب :-اول تو یہ کہ م یں نے د ھ وکا ن ہیں کھ ا یا ہے بلک ہ اس حد یث مبارک کا صحیح اور معتبر ہ و نا آپ ک ے علماء ک ے نزد یک مسلم ہے یہ ا ں تک کہ ابن حجر مک ی نے اتن ے سخت تعصب ک ے بعد اس ک ی صحت کا اعتراف کیا ہے ۔ ضرورت ہے ک ہ اپن ے ذ ہ ن کو روشن کرن ے ک ے لئ ے صواعق محرق ہ فصل دوم با ب ۱۱ ذیل آیہ چہ ارم صفح ہ ۸۹-۹۰ ک ی طرف رجوع کیجئے جہ ا ں و ہ ترمذ ی ،امام احمد بن جنبل ،طبرانی ،اور مسلم سے روا یتیں نقل کرنے ک ے بعد ک ہ ت ے ہیں "اعلم ان لحدیث التمسک با الثقلین طرقا کثیرۃ و وردت من نیف و عشرین صحابیا "(یعنی جان لو کہ ثقل ین (عترت رسول اور قرآن مجید)سے تمسک کرن ے ک ی حدیث بہ ت طر یقوں سے مرو ی ہے یہ بیس سے ز یادہ اصحاب رسول (ص)سے نقل ہ وئ ی ہے ) ۔

پھ ر کہ ت ے ہیں کہ حد یث کے طرق م یں تھ و ڑ ا سا اختلاف ہے کس ی میں کہ ت ے ہیں کہ حج ۃ الوداع میں عرفات کے اندر ، کس ی میں مرض الموت کے عالم م یں مدینے کے اندر جب حجر ہ صحاب ہ س ے ب ھ را ہ وا ت ھ ا کس ی ،میں ملتا ہے غد یر خم کے اندر اور کس ی میں درج ہے ک ہ طائف س ے وا پسی کے بعد کا ذکر ہے اس ک ے بعد خود ہی تبصرہ کرت ے ہ وئ ے ک ہ ت ے ہیں کہ ان اختلافات م یں کوئی منافات نہیں ہے اور بلکل ممکن ہے ک ہ رسول اکرم (ص)نے قرآن کر یم اور عترت طاہ ر ہ ک ی عظمت وشان ثابت کرنے ک ے لئ ے ان سار ے مقامات پر بار بار اس حد یث کو ارشاد فرمایا ہ و ۔

بغیر تعصّب کے بار یک بینی سعادت کا سبب ہے

دوسرے آپ نے یہ فرمایا ہے ک ہ بخار ی کا اپنی صحیح میں نقل نہ کرنا اس حد یث کے صح یح نہ ہ ون ے ک ی دلیل ہے تو آپ کا یہ بیان بہ ت س ی وجہ و ں س ے قابل رد اور علماء ک ے نزد یک لائق نفرت ہے ک یونکہ یہ حدیث مبارک اگرچہ بخار ی نے اپن ی صحیح میں درج نہیں کی ہے ،ل یکن آپ کے اکابر علماءن ے بالعموم اس کو نقل ک یا ہے یہ ا ں تک کہ بخار ی کے ہ مسر مسلم بن حجاج اور سار ے ارباب صحاح ست ہ نس اپن ی معتبر کتابوں م یں تفصیل کے سات ھ ذکر ک یا ہے ۔

یا تو آپ حضرات کوچاہیئے کہ تمام صحاح اور اپن ے علماء ک ی معتبر کتابوں کو د ھ و کر دور پ ھینک دیجیئے اور اپنے سار ے عقائد کو صرف بخار ی تک محدود رکھیئے یا اگر دوسرے علماء ک ی عدالت اور علم ودانش کے معترف م یں جواپنے دور ا ہ ل سنت ک ے درم یان علم وفہ م او ر تقو ی میں ممتاز ت ھے خصوصا صحاح ست ہ ک ے مؤلف ین تو آپ کا فرض ہ وگا ک ہ اگر کس ی خبر کو اپنی مصلحتوں ک ی بنا پر بخاری نے ن ہیں لکھ ا ہے اور دوسرو ں ن ے نقل ک یا ہے تو اس کو قبول فرمائ یے ۔

۸۸

حافظ:- مصلحت کوئی بھی نہیں تھی صرف امام بخاری محتاط بہ ت ز یادہ تھے اور نقل اخبار م یں بہ ت جانچ پ ڑ تال کرت ے ت ھے چنانچ ہ جس روا یت کو سند یا عبارت کے لحاظ س ے مشکوک اور عقل ک یخلاف پایا اس کو نقل نہیں کیا ۔

خیر طلب :- قاعدہ "حب الشیء یعمی ویصم"(یعنی کسی چیز کی محبت آدمی کو اندھ ا اور ب ہ را بناد یتی ہے )ک ے مطابق اس مقام پر حضرات ا ہ ل سنت کو غلط ف ہ م ی ہ وئ ی ہے ک یوں کہ آپ ان ک ے بار ے م یں غلو رکھ ت ے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ امام بخار ی بہ ت بار یک بین تھے او ر جو روا یت انہ و ں ن ے اپن ی صحیح میں درج کی ہے و ہ انت ہ ائ ی معتبر اور وحی کی منزل کے مانند ہے حالانک ہ ا یسا ہے ن ہیں ، بخاری کے سلسل ہ اسناد م یں بکثرت مردود ،منفور کذاب اور جعال اشخاص موجو د ہیں۔

حافظ:- آپ کایہ بیان مردود ومنفور ہے اس لئ ے ک ہ آپ ن ے بخار ی کے مرتب ہ علم ودانش ک ی توہین کی ہے ( یعنی سارے ا ہ ل سنت وجماعت ک ی اہ انت ک ی ہے )-

خیرطلب :-اگر علمی تنقید اہ انت ہے تو آپ ک ے تمام ب ڑے ب ڑے علماء جن ہ و ں ن ے روا یات کی گہ ر ی تحقیق کی ہے اور آپ ک ی معتبر صحاح کی بلکہ مخصوص طور پر صح یح بخاری اور صحیح مسلم کی بہ ت س ی روایتوں کو ان کے سلسل ہ اسناد م یں مردود ،کذاب اور جعال شخص کے موجو د ہ ون ے ک ی وجہ س ے رد کرد یا ہے ، سب س ے مرتب ہ علم ودانش ک ی تو ہین کرنے وال ے اور مردود ت ھے۔

بہ تر ہ وگا آپ حضرات کتب اخبار م یں ذرا دقت نظر سے کام ل یں اور مطالعے ک ے وقت غلو ک ی نگاہ س ے ن ہ د یکھیں کہ چ ونکہ یہ بخاری یا مسلم ہیں لہ ذا جو کچ ھ نقل کرد یا ہے ہ ر ح یثیت سے صح یح اور یقینی ہے ۔

ضروری ہے ک ہ آپ ک ے و ہ علماء جو صحاح ست ہ اور بالخصوص صح یح بخاری اور صحیح مسلم کے بار ے م یں غلو کا عقیدہ رکھ ت ے ہیں پہ ل ے ان کتابو ں ک ی طرف رجوع فرما ئیں جو اخبار کی جرح وتعدیل میں لکھی گئی ہیں تا کہ امام بخار ی کی قدر منزلت اور نقل احادیث میں ان کی گہ ر ی تحقیق کی حقیقت معلوم ہ وجائ ے ۔ اگر آپ "اللئا ل ی المصنوعۃ فی احادیث الموضوعۃ" ،سیوطی "میزان الاعتدال" تلخیص المستدرک ذہ ب ی" تذکرۃ الموضوعات ابن جوزی " تاریخ بغدادمؤلفہ ابو بکر احمد ابن عل ی خطیب بغداد اور علم رجال میں اپنے دوسر ے بزرگ علماء ک ی ساری کتابیں پ ڑھیں تو پھ ر مج ھ پر اعتراض ن ہ کر یں اور یہ فرمائیں کہ تم ن ے حضرت بخار ی کی اہ انت ک ی ہے

۸۹

بخاری اور مسلم نے مردود اور جعل سازرجال س ے روا یتیں نقل کی ہیں

آخر میں نے کون س ی بات عرض کی کہ آپ اس قدر غ ھہ م یں بھ ر گئ ے ؟م یری گذارش تو صرف یہی تھی کہ آپ ک ی صحاح یہ ا ں تک کہ صح یحین ،بخاری ومسلم میں بھی مردود اور کذاب رجال سے ب ھی روایات اور احادیث مروی ہیں۔ اگر آپ کتب رجال کو پ یش نظر رکھ ت ے ہ وئ ے صح یح بخاری کی روایتوں کا غور سے مطالع ہ فرمائ یں تو نظر آجائے گا ک ہ ان ہ و ں ن ے بکثرت جعّال ،وضّاع اور مردود رجال س ے خبر یں نقل کی ہیں جیسے ابو ہ ر یرہ کذّاب ،عکرمہ خارج ی،محمد بن عبد سمر قندی محمد بن بیان ، ابراہیم بن مہ د ی ابلی بنوس بن احمد واسطی ،محمد بن خالد حنبلی،محمد بن محمد یمانی،عبد اللہ بن واقد حرّان ی ابوداؤد سلیمان بن عمر کذّاب ،عمران بن حطّان اور ان کے علاو ہ دوسر ے مردود راو ی جن کی پوری فہ رست پ یش کرنے کا ن ہ وقت ہے ن ہ سب م یرے حافظہ م یں محفوظ ہے اگر آپ رجال ک ی کتابیں ملاحظہ فرمائ یں تو حقیقت امر ظاہ ر ہ وجائ ے گ ی کہ حضرت بخار ی ویسے نہیں ہیں جیسے آپ کی نگاہ و ں م یں پھ ر ر ہے ہیں ،یعنی غیر معمولی طور پر تحقیق اور احتیاط سے کام ن ہیں لیتے تھے بلک ہ نقل اخبار م یں اشخاص کے صرف ظا ہ ر ی حالات پر توجہ رک ھ ت ے ت ھے ۔ہ مار ی اصطلاح میں اپنی جگہ پر ب ہ ت خوش ف ہ م اور خوش عق یدہ تھے اور جس شخص سے ب ھی کوئی ایسی روایت سن لی جو بظاہ ر ٹھیک ہ و اس ک ی درج کر لیا۔

اس مطلب پر خود آپ کے علماء ک ی کتب رجالیہ گواہ ہیں جن میں سے بعض ک ی طرف میں اشارہ کرچکا ہ و ں ک ہ ان ہ و ں ن ے موضوع اور مردود روا یات کی چھ ان ٹ ک ے الگ کرد یا ہے اور بخار ی و مسلم کے سلسلہ روا یات میں محققانہ وقت نظر س ے کام ل یتے ہ وئ ے ان م یں سے ب ہ تو ں کا پرد ہ فاش کردیا ہے تاک ہ ہ مار ی اور آپ کی توجہ مبذول ہ و اور ان کتابو ں پر نظر رک ھ ت ے ہ وئ ے آج رات کو یہ نہ فرمائ یے کہ حد یث ثقلین اور عترت طاہ ر ہ ہے تمسک کو بخار ی نے اپن ی احتیاط کی وجہ س ے نقل ن ہیں کیا ۔ آ یا عقل باور کرتی ہے ک ہ ا یک محقق اور محتاط عالم غیرمؤثق ،کذّاب او ر وضّاع روایوں سے ا یسی فرضی روایتیں نقل کرے جو ا ہ ل علم اور ارباب عقل ودانش ک ے نزد یک مضحکہ بن ک ے ر ہ جائ یں کیاکلیم اللہ کا ملک الموت ک ے من ہ پر طمانچ ہ مارک ے ان کو اندھ ا بنا د ینا یا آپ کا پا برہ ن ہ بغ یر ساتر عورتین کے بن ی اسرائیل کے درم یان دوڑ نا جس ک ا تذکرہ م یں نے پ ہ ل ے کرچکا ہ و ں ،خرافات اور مو ہ ومات م یں سے ن ہیں ہے ؟

کیا قیامت کے روز خدا ک ی رویت یا اس کے زخم ی پاؤں یا اپنی پنڈ ل ی کھ ولن ے ک ی حدیثیں جو انہ و ں ن ے صح یح کے اندر نقل ک ی ہیں اور ان میں سے بعض ک ی طرف میں اشارہ ب ھی کر چکا ہ و ں کفر یات میں سے ن ہیں ہیں۔ ؟

۹۰

صحیحین بخاری ومسلم میں مضحک روایت اور رسو ل(ص)کی اہ انت

کیا یہ بخاری کی سخت علمی اور عملی احتیاط ہی کا نتیجہ ہے ک ہ اپن ی صحیح جلد دوم "باب اللہ و با الحراب "صفحہ ۱۲۰ م یں اسی طرح مسلم جلد اول "باب الرخصۃ فی اللعب الذی ما معصیۃ فیہ فی ایام السعید" میں ابو ہ ر یرہ سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ ع ید کے روز کچ ھ حبش ی سیّاح مسجد رسول (ص) میں جمع ہ وئ ے ت ھے اور ناچ کود ک ے فن س ے لوگو ں کو خوش کر ر ہے ت ھے رسو ل الل ہ (ص) ن ے عائش ہ س ے فرما یا کیا تم بھی دیکھ نا چاہ ت ی ہ و؟ ان ہ و ں ن ے عرض ک یا ہ ا ں یا رسول اللہ (ص) ۔ حضرت ن ے ان کو اپن ی پیٹھ پر اس طریقہ سے سوال ک یا کہ ان ہ و ں ن ے اپنا سر آن حضرت (ص)کے کاند ھے ک ے اوپ ر سے نکالا اور چ ہ ر ہ آپ ک ے چ ہ ر ہ مبارک پر رک ھ ل یا۔ آنحضرت(ص) عائش ہ کو محفوظ کرن ے ک ے لئ ے ان لوگو ں کو ترغ یب دے ر ہے ت ھے ک ہ اس س ے ب ہ تر نا چ دک ھ ائ یں ،یہ ا ں تک عائشہ ت ھ ک گئ یں تو ان کو زمین پر اتار دیا ۔

خدا کے لئ ے انصاف ک یجئے کہ اگر آپ حضرات م یں سے کس ی کی طرف ایسی بات منسوب کی جائے تو ک یا آپ ناراض نہ ہ و ں گ ے اور اس کو اپن ی توہین نہ سمج ھیں گے ؟ اگر کوئ ی جناب حافظ صاحب سے ک ہے ک ہ مج ھ س ے ا یک راوی نے ب یان کیا ہے ک ہ کل شب م یں جب حافظ صاحب کے مکان ک ی پشت پر بازی گروں کا ا یک دستہ سازندگ ی او ربازیگری میں مشغول تھ ا تو میں نے د یکھ ا جلیل القدر عالم جناب حافظ صاحب اپنی بیوی کو پیٹھ پر اٹھ ائ ے تماش ہ د یکھ ار ہے تھے بلک ہ باز یگروں سے یہ بھی کہہ ر ہے ت ھے ک ہ خوب ناچ ے جاؤ تاک ہ م یری بیوی اور لطف اندوز ہ و ۔ تو للل ہ سچ ک ہ ئ یے گا کہ یہ بات سن کر حافظ صاحب متاثر اور شرمندہ تو ن ہ ہ و ں گ ے ؟ اور اس کو ا یک مخلص خادم ہ ون ے ک ے بعد اگر کس ی شخص سے ا یسی خبر سنوں چا ہے و ہ بظا ہ ر معتبر ہی ہ و تو ک یا میرے لئے اس کونقل کرنا مناسب ہے ؟ اور اگر م یں بیان کردوں تو عقلمند لوگ یہ نہ سمج ھیں گے ک ہ فلاں جاہ ل ن ے ا یک بات کہ د ی تو آپ نے ہ وش یار ہ وکر ک یوں اس کو نقل کیا؟۔

اب ذرا بخاری کی روایتوں پر فیصلہ دیجئے کہ اگر و ہ واقع ی محقق اور اخبار کی چھ ان ب ین کرنے وال ے ت ھے تو فرض ک یجئے ایسی روایت انہ و ں سن ی تھی تو کیا مناسب تھ ا ک ہ اس کو اپن ی کتاب میں نقل بھی کریں اور پھ ر مولو ی صاحبان اس کتاب کو "اصح الکتب بعد القرآن "بتائیں ؟

لیکن حدیث ثقلین کو جس میں رسول اللہ (ص) اپن ی امت کو حکم دے ر ہے ہیں کہ م یرے بعد قرآن مجید اور میرے اہ ل ب یت طاہ ر ین علیھ م السلام سے تمسک کرو، نقل ن ہ کر یں (کیونکہ عترت کا نام بیچ میں ہے ) البتہ فرض ی گھڑی ہ وئ ی روایتیں جن کی پو ری تفصیل کا وقت نہیں اپنی کتابوں ک ے ابواب م یں درج کریں۔

۹۱

ہ ا ں ایک پہ لو س ے م یں ضرور آپ کی تصدیق کرتا ہ و ں ک ہ علماء ا ہ ل سنت ک ے درم یان بخاری صاحب یقینا اس حیثیت سے ب ہ ت محتاط ت ھے ک ہ جس روا یت میں یہ نظر آیا کہ عنوان امامت و ولا یت کے لحاظ س ے ولا یت علی ابن ابی طالب علیھ ما السلام او ر حرمت اہ لب یت طاہ ر ین علیھ م السلام کے ثبوت م یں کوئی راہ نکل ر ہی ہے تو احت یاطا اس کو نقل نہیں کیا کہ ا یسا نہ ہ و کس ی روز عقلمندوں ک ے ہ ات ھ کا حرب ہ بن جائ ے اور و ہ حق و حق یقت کو ظاہ ر کرد یں ۔ چنانچ ہ جب ہ م صحاح ک ی جلدوں کا صح یح بخاری سے مقابل ہ کرت ے ہیں تو اس نتیجے تک پہ نچت ے ہیں ۔ کہ اس روشن موضوع پر کوئی روایت چاہے و ہ متواتر ،ضرور ی اور قرآن وآیات الہی کی تائید سے مضبوط ہی ہ و ان ہ و ں ن ے نقل ن ہیں کی ہے ج یسے آیات مبارکہ "یا ایها الرّسول بلغ ما انزل الیک من ربّک " ، "انما ولیکم الله و رسو له و الذین آمنو الذین یقیمون الصلواة و یوتون الزکا ة و هم راکعون"،"و انذر عشیرتک الاقربین" وغ یرہ کی شان میں بکثرت حدیثیں ،حدیث ولایت یوم الغدیر ، حدیث انذار ، حدیث مواخات ، حدیث، حدیث سفینہ ،حدیث با ب الحطہ اور دوسر ی حدیثیں جو اہ لب یت طہ ارت عل یھ م السلام کی حرمت وولایت کے اثبات س ے نسب ت رکھ ت ی تھیں انہ و ں ن ے احت یاطا نقل نہیں کیں ۔ ل یکن ہ ر و ہ حد یث جو انبیاء کرام او ر با لخصوص حضرت خاتم الا نبیاء (ص) کے وجود اقدس اور آنحضرت (ص) ک ی عترت طاہ ر ہ ک ے مقامات ومدارج عال یہ کی اہ انت کا کوئ ی پہ لو رک ھ ت ی تھی وہ (چا ہے کس ی جعّال ،کذّاب اور وضّاع ہی سے م نقول ہ و)بغ یر احتیاط کے نقل کرد ی جن میں بعض کی طرف اشارہ ہ و چکا ہے ۔

حدیث ثقلین کے اسناد

اب میں مجبور ہ و ں ک ہ آپ ک ی بعض کتابوں ک ی طرف اشارہ کرو ں تاک ہ آپ ب ھی جان لیں کہ حد یث مبارکہ ثقل ین کو اگر بخاری صاحب نے درج ن ہیں کیا ہے تو آپ ک ے دوسر ے اکابر وموثق ین علماء یہ ا ں تک کہ بخار ی کے ہ م پل ہ (ج یسا کہ آپ ب ھی مانتے ہیں )مسلم بن حجاج نے ب ھی نقل کیا ہے ۔

مسلم بن حجاج نے "صح یح مسلم"جلد ہ فتم صفح ہ ۱۲۲ م یں ،ترمذی نے " صح یح " میں ، ابو داؤد نے "سنن "جزء دوم صفح ہ ۲۰۷ م یں نسائی نے " خصائص "صفح ہ ۳۰ م یں ، امام احمد بن جنبل نے "مسند "جلد سوم صفح ہ ۱۴-۱۷ وجلد پنجم صفح ہ ۱۸۲-۱۸۹ م یں ،حاکم نے مستدرک"جلد سوم صفح ہ ۱۰۹ -۱۴۸ میں ،حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی نے "حل یۃ الاولیا " جلد اول صفحہ ۳۵۵ م یں ،سبط ابن جوزی نے تذکر ۃ صفحہ ۱۸۶ م یں ، ابن اثیر جوزی نے اسد الغاب ہ جلد دوم صفح ہ ۱۲ وجلد سوم صفح ہ ۱۴۷ م یں حمیدی نے جمع ب ین الصحیصین میں ، رزین نس "جمع بین الصحاح الستہ "م یں ، طبرانی نے "کبیر" میں ،ذہ ب ی نے " تلخیص مستدرک" میں ، ابن عبد ربہ ن ے "عقد الفر ید" میں محمد ابن طلحہ شافع ی نے "مطالب السئول" م یں ، خطیب خوارزمی نے " مناقب" م یں سلیمان بلخی

۹۲

حنفی نے " ینابیع المودۃ"باب ۴ میں ، میر سید علی ہ مدان ی نے "مود ۃ القربی " کی مودۃ دوم میں ، ابن ابی الحدید نے " شرح ن ہ ج البلاغ ۃ " میں ، شبلنجی نے " نور الابصار" صفح ہ ۹۹ م یں ،نورالدین بن صباغ مالکی نے " فصول الم ہ م ہ "صفح ہ ۲۵م یں ، حموینی نے فرائد السبط ین میں ،امام ثعلبی نے "مناقب "م یں ، محمد بن یوسف کنجی شافعی نے "کفا یت الطالب"باب اول بیان صحت خطبہ غد یر خم وضمن باب ۶۲صفحہ ۱۳۰ م یں ، محمد بن سعد کاتب نے " طبقات" جلد چ ہ ارم صفح ہ ۸ م یں ، فخر الدین رازی نے " تفس یر کبیر "جلد سوم ضمن آیہ اعتصام صفحہ ۱۸ م یں ابن کثیر دمشقی نے " تفس یر" جلد چہ ارم ضمن آ یہ مودت صفحہ ۱۱۳ م یں ،ابن عبد ربہ ن ے "عقد الفر ید" جلد دوم صفحہ ۱۵۸ ،۳۴۶ میں ، ابن ابی الحدید نے " شرح ن ہ ج البلا غ ہ " جزء ششم صفح ہ ۱۳۰ ،سل یمان حنفی نے ینابیع المودۃ صفحات۱۱۵،۹۵،۳۴،۳۲،۳۱،۳۰،۲۹،۲۵،۱۸، ۲۳۰،۱۹۹،۱۲۶، میں مختلف عبارتوں ک ے سات ھ ،ابن حجر مک ی نے صواعق محرق ہ صفحات ۱۳۶،۹۹،۹۰،۸۷،۷۵، م یں مختلف عبارتوں ک ے سات ھ اور آپ کے دوسرے اکابر علماء ن ے جن ک ے سار ے اقوال کرنا اس مختصر جلس ہ م یں دشوار ہے الفاظ وعبارات ک ے مختصر اختلاف ک ے سات ھ اس حد یث مبارک کو جو نقل اقوال خاصہ وعام ہ ہے تواتر ک ی حد تک پہ نچ ی ہ وئ ی ہے رسول اکرم(ص) س ے نقل ک یا ہے ک ہ آپ(ص) ن ے فرما یا "انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی اهلبیتی لن یفترقا حتی یردا علی الحوض من توسل(تمسک) بهما فقد نجی ومن تخلف عنها فقد هلک ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا ابدا " ( یعنی بہ تحق یق میں تمہ ار ے درم یان دو گرانقدر چیزیں چھ و ڑ ر ہ ا ہ و ں ،الل ہ ک ی کتاب(قرآن مجید) اور میری عترت و اہ ل بیت یہ دونوں آپس م یں ایک دوسرے س ے جدا ن ہ ہ و ں گ ے یہ ا ں تک کہ حوض کوثر ک ے کنار ے م یرے پاس پہ نچ جائ یں جو شخص ان دونوں س ے توسل وتمسک رک ھے گا و ہ یقینا نجات یافتہ ہے اور جو شخص ان دونو ں س ے من ہ مو ڑے گا تو و ہ یقینا ہ لاک شد ہ ہے جب تک ان دونو ں س ے تمسک کروگ ے ہ رگز کبھی گمراہ ن ہ ہ و ں گ ے ) ۔

یہ ہ مار ی ایک محکم دلیل ہے ک ہ ہ م رسو ل (ص)ک ے حکم س ے قرآن کر یم اور اہ ل ب یت طاہ ر ین(ص) سے تمسک وتوسل رک ھ ن ے پر مجبور ہیں۔

شیخ:- اس حدیث کو صالح بن موسی بن عبداللہ بن اسحق بن طلح ہ بن عبدالل ہ القرش ی التیمی،الطلحی نے اپن ی سند کے سات ھ ابو ہ ر یرہ سے اس طرح نقل ک یا ہے ک ہ ۔ "انی قد خلفت فیکم ثنتین کتاب الله و سنتی الی آخر"

خیر طلب :- آپ نے پ ھ ر ا یک طرفہ ا یک بدکار ،متروک ، ضعیف اور ارباب جرح وتعدیل ، جیسے ذہ ب ی ،یحیی ،امام نسائی ،بخاری ،اور ابن عبد ربہ وغ یرہ کے نزد یک مردود فرد سے حد یث نقل کرکے وقت ضائع ک یا ۔

جناب من!

کیا آپ ہی کے اکابر علماء س ے اس قدر معتبر روا یتوں کا نقل کرنا آپ کے لئ ے کاف ی نہیں ہ وا جو آپ اپن ے نقاد

۹۳

علماء ک ے نزد یک ایسی ناقابل قبول حدیث کا سہ ارا ڈھ ون ڈھ ا ؟ حالانک ہ فر یقین (سنی ،شیعہ)کا اس پر اتفاق ہے ک ہ رسول اکرم ن ے کتاب الل ہ و عترت ی فرمایا ہے ن ہ کہ سنت ی کیونکہ کتاب وسنت دونوں اپن ے لئ ے شارح چا ہ ت ی ہیں۔ اور جب سنت خود شارح ک ی محتاج ہے تو قرآن ک ی پوری شارح نہیں بن سکتی لہ ذا عد یل قرآن ،عترت اور اہ ل ب یت ہیں جو قرآن کی تفسیر کرنے وال ے بھی ہیں اور سنت رسول(ص)ظاہ ر کرن ے وال ے ب ھی ۔

حدیث سفینہ

اہ ل بیت رسول (ص) کے توسل پر ہ مار ی دلیلوں میں سے معتبر حد یث سفینہ بھی ہے جس کو آپ ک ے ب ہ ت ب ڑے ب ڑے علماء ن ے تقر یبا تواتر کی حد تک نقل کیا ہے ۔ جس قدر م یرے پیش نظر ہے آپ ک ے سو۱۰۰ نفر س ے ز یادہ اکابر علماء نے اپن ی کتابوں م یں درج کیا ہے ،مثلا مسلم بن حجاج نے اپن ی "صحیح "میں ، امام احمد بن حنبل نے "مسند" م یں ،حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی نے "حل یۃ الاولیاء" میں ، ابن عبد البر نے " است یعاب" میں ، ابو بکر خطیب بغدادی نے " تار یخ بغداد" میں ، محمد ابن طلحہ شافع ی نے " مطالب السئول" م یں ، ابن اثیر نے "ن ہ ا یہ" میں ، سبط ابن جوزی نے " تذکر ہ "م یں ، ابن صباغ مالکی نے "فصول الم ہ م ہ " م یں ،علامہ نورالد ین سمہ ود ی نے "تار یخ المدینہ" میں ، سید مومن شبلنجی نے "نور الابصار"م یں ، امام فخر الدین رازی نے "تفس یر مفا تیح الغیب"میں ، جلال الدین سیوطی نے "در المنثور "م یں امام ثعلبی نے "تفس یر کشف البیان" میں ، طبرانی نے "اوسط"م یں ،حاکم نے " مستدرک " م یں جلد سوم صفحہ ۱۵۱ م یں ،سلیمان بلخی حنفی نے " ینابیع المودۃ" باب ۴ میں ،میر سید علی ہ مدان ی نے "مودت القرب ی " مودت دوم میں ، ابن حجر مکی نے " صواعق محرق ہ " ذ یل آیت ہ شتم م یں ۔ طبر ی نے اپن ی "تفسیر اور تاریخ"میں ، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے "کفا یت المطالب "باب ۲۳۳ اور آپ کے دوسر ے ب ڑے ب ڑے علماء ن ے نقل ک یا ہے ک ہ حضرت خاتم الانب یاء نے فرما یا " انما مثل اہ لب یتی کمثل سفینۃ نوح من رکب نجی ومن تخلف عنھ ا ھ لک"( یعنی سوا اس کے ن ہیں ہے ک ہ تم ہ ار ے درم یان میرے اہ ل ب یت کی مثال کشتی نوح کے مثل ہے ک ہ جو شخص پر سوار ہ و ا اس ن ے نجات پائ ی ۔ اور جس شخص ن ے اس س ے روگردان ی کی ہ لاک ہ وگ یا)۔

نیز امام محمد بن ادریس شافعی نے اپن ے اشعار م یں اس حدیث کی صحت کی طرف اشارہ ک یا ہے ۔ چنانچ ہ علام ہ فاضل عج یلی نے "ذخ یرۃ المال میں ان کو اسطرح سے نقل ک یا ہے ۔

ولمّا رایت النّاس قد ذهبت بهم ------ مذاهب هم فی ابحر الغیّ والجهل

رکبت علی اسم الله فی سفن النجاة ------ وهم اهل بیت المصطفی خاتم الرّسل

وامسکت حبل الله وهو ولاؤهم ------ کما قد امرنا بالتمسک بالحبل

اذا افترقت فی الدین سبعون فرقة ------ وینفا علی ما جاء فی اصح النقل

ولم یک ناج منهم غیر فرقة ------ فقل لی بها یا ذا الرجائة ولعقل

۹۴

انی الفرقة الهلاک آل محمد ------ ام الفرقة اللاتی نجت منهم لی قل

فان قلت فی النّاجین فالقول واحد ------ وان قلت فی الهلاک حفت عن العدل

اذا کان مولی القوم منهم فاننی ------ رضیت بهم لا زال فی ظلّهم ظلّ

رضیت علیا لی اماما و نسله ------ وانت من الباقین فی اوسع الحل (۱)

اگر آپ ان کھ ل ے ہ و ئ ے اور و ہ ب ھی اہ ل سنت و جماعت ک ے پ یشوائے بزرگ امام شافعی کے اشعار پر پور ی توجہ فرمائ یں تو دیکھیں گے ک ہ و ہ ک یونک کر اس کا اقرار کر رہے ہیں کہ اس س ے سف ینے کی سواری اور اس پاک خاندان سے تمسک اور تو سل ذر یعہ نجات ہے ک یونکہ امت مرحومہ ک ے ب ہ تر فرقو ں م یں سے ناج ی فرقہ صرف و ہی ہے جو آل محمد (ع) ک ے دامن س ے متمسک اور متوسل ہے اور ادربس چنانچ ہ ش یعہ خود رسول اللہ (ص) ک ے حسب الحکم خدا کی طرف اسی خاندان جلیل کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ایک بات اور یاد آگئی کہ اگر آپ کے قول کے مطابق انسان واسط ے اور وس یلے کا محتاج نہیں ہے اور بارگا ہ خداوند ی میں اگر وسیلے کے سات ھ فر یاد و استغاثہ بلند کر ے تو گن ہ گار اور مشرک ہ وگا ۔ تو پ ھ ر خل یفہ عمر الخطاب کس لئے احت یاج اور اضطرار کے موقع پر واسط ے ک ے سات ھ خدا ک ی طرف رجوع کرتے ت ھے ا ور اس طرح استغاثہ کر ک ے کام یابی حاصل کرتے ت ھے ؟

حافظ:- ہ رگز خل یفہ عمر رضی اللہ عن ہ ن ے واسط ے ک ے سات ھ کوئ ی عمل انجام نہیں دیا اور یہ پہ لا موقع ہے جب م یں ایسے الفاظ سن رہ ا ہ و ں گزارش ہے ک ہ اس کا مجمل ب یان فرمائیے ۔

خیرطلب:- خلیفہ احتیاج کے مواقع پر بار بار ا ہ ل ب یت رسالت (ع) اور آنحضرت کی عترت طاہ ر ہ کا وس یلہ ڈھ ون ڈ ھ ت ے ر ہ ت ے ت ھے اور ان ہیں کے توسل س ے خدا ک ی طرف رجوع کرکے مطلب حاصل کرت ے ت ھے وقت کا لحاظ رکھ ت ے ہ وئ ے صرف دو موقع ے نمون ے ک ے طور پر پ یش کرتا ہ و ں ۔

(پہ لا)ابن حجر مک ی ،صواعق محرقہ م یں آیۃ نمبر۱۴ کے بعد تار یخ دمشق سے نقل کرت ے ہیں کہ سن ہ ۱۷ ہ جر ی میں دعائے بارش ک ے لئ ے لوگ کئ ی مرتبہ نکل ے ل یکن کوئی نتیجہ نہیں ہ و ا سب ب ہ ت متاثر اور پر یشان ہ وئ ے تو عمر ابن الخطاب ن ے ک ہ ا ک ہ اب م یں کل ضرور بالضرور اس شخص کے وس یلے سے طلب باران کرو ں گا جس ک ے واسط ے س ے حتم ی

--------------

(۱):- (جب میں نے لوگوں کو جہل گمراہی کے دریا میں غرق دیکھا تو خدا کے نام پر نجات کی کشتیوں میں بیٹھا جو خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفی کے اہل بیت ہیں ۔میں نے جہل خدا سے تمسک کیا جو اسی خاندان کی دوستی ہے جیسا کہ ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ اس حبل سے متمسک رہیں ۔جس وقت دین کے اندر ستر سے زیادہ فرقے پیدا ہوگئے جیسا کہ حدیث میں واضح طور پر آیا ہے اور ان میں سواایک کے کوئی ناجی نہیں ہے تو مجھے سے کہو کہ اے صاحب عقل ودانش ! کہ آیا خاندان رسالت اور آل محمد علیھم السلام کسی فرقہ میں سے ہیں؟یا نجات کی پانے والے حق فرقے کے افراد ہیں؟اگر یہ کہو کہ فرقہ ناجیہ میں ہیں تو ہمارا اور تمہارا قول ایک ہے اور اگر کہو کہ باطل ہونے والے فرقوں کے ساتھ ہیں تو تم صراط مستقیم سے منحرف ہو گئے ۔ اگر قوم کا سردار ان حضرات(ع) میں سے ہو تو میں بخوشی ان کی اطاعت کے لئے آمادہ ہو رہا ہوں ۔ان کا سایہ ہمیشہ سروں پر قائم ہے ۔میں علی اور ان کی اولاد علیھم السلام کی امامت پر راضی ہوں ۔ جو حق پر ہے اور تم باطل فرقوں میں رہو اس روز تک جب حقیقت ظاہر ہو جائے )

۹۵

طور پر خدا ہ م کو پان ی دے گا ۔ دوسر ے دن صبح کو خل یفہ عمر آن حضرت صلعم کے چچا عباس ک ے پاس گئ ے اور ک ہ ا "اخرج بنا حت ی نستسقی اللہ بک " (ہ مار ے سات ھ با ہ ر چلو تا ک ہ ہ م بارگا ہ ال ہی میں تمہ ار ے وس یلے سے پان ی طلب کریں۔

جناب عباس نے فرما یا تھ و ڑی دیر بیٹھ جاؤ تاکہ م یں وسیلہ مہیا کر لوں ،پ ھ ر کس ی کو بھیج کر بنی ہ اشم کو اطلاع د ی کہ اور پاک لباس پ ہ ن ک ے خوشبو لگا ک ے اس صورت س ے با ہ ر آئ ے ک ہ عل ی علیہ السلام عباس کے آگ ے امام حسن عل یہ السلام داہ ن ی طرف، امام حسین علیہ السلام بائیں طرف اور دوسرے بن ی ہ اشم پ یچھے پیچھے تھے اس وقت فرما یا کہ ا ے عمر کس ی اور شخص کو ہ مار ے سات ھ شامل ن ہ کر ۔ چنانچ ہ اس ی حالت سے مصل ے تک پ ہ نچ ے اور جناب عباس ن ے مناجات ک ے لئ ے ہ ات ھ کو بلند کر ک ے عرض ک یا ۔ پروردگار ا ! تو ن ے ہ م کم خلق فرما یا اور جو کچھ ہ م عمل کرت ے ہیں تو اس سے واقف ہے پ ھ ر عرض ک یا کہ "الل ھ م کما تفضلت عل ینا فی اولہ فتفضل عل ینا فی آخرہ " ( یعنی پر وردگار جس طرح تو نے ابتدا م یں ہ م پر فضل ک یا ہے اس ی طرح آخر میں ہ مار ے اوپر تفضل فرما)جابر ک ہ ت ے ہیں ان کی دعا تمام نہ ہ وئ ی تھی کہ بادل آنا شروع ہ وئ ے اور پان ی برسنے لگا ۔ اب ھی ہ م لوگ گ ھ رو ں تک ن ہیں پہ نچ ے ت ھے ک ہ بارش س ے ب ھیگ گئے ۔

نیز بخاری سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ قحط ک ے زمان ہ م یں عمر ابن خطاب عباس ابن عبد المطلب کے وس یلے سے بارگا ہ خداوند ی میں پانی کے لئ ے دعا کر ر ہے ت ھے اور ک ہ ت ے ت ھے "الل ھ م انا نتوسل ال یک بعم نبینا فاسقنا فیسقون" یعنی خداوندا ہ م ت یری طرف عم رسول (ص) کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ہ م کو سیراب کردے ،چنانچ ہ ان لوگو ں پر نزول بارا ں ہ وا )

(دوسرا)ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہ ج البلاغ ہ (مطبوع ہ مصر) جلد دوم صفح ہ ۲۵۶ م یں نقل کرتے ہیں کہ خل یفہ عمر جناب عباس عم رسول(ص) کے ہ مرا ہ استسقاء ک ے لئ ے گئ ے اور اس طرح دعا ک ی "اللھ م انا نتقرب ال یک بعم نبیک وبقیۃ آبا ئہ وکبر رجال ہ فاحفظ الل ھ م نب یک فی عمہ فقد ولونا ب ہ ال یک مستشفعین ومستغفرین "(یعنی خداندا ! ہ م ت یری طرف وسیلہ ڈھ ون ڈ ت ے ہیں تیرے پیغمبر کے چچا اور ان ک ے آباء اور بزرگ مردو ں م یں سے باق ی ماندہ ک ے ذر یعے سے ، پس اپن ے پ یغمبر کی منزل ان کے چچا ک ے بار ے م یں محفوظ رکھ ک یونکہ ہ م ن ے ان ک ی وجہ سے تیری طرف ہ دا یت پائی تاکہ شفاعت طلب کر یں اور اسغفار کریں۔

۹۶

حضرات اہ ل سنت اور پ یروان خلیفہ عمر کے حالات تو اس مش ہ ور مثل ک ے مطابق ہیں کہ "کاس ہ گرم تر از آش " " یعنی شوربے س ے ز یادہ پیالہ گرم " کیونکہ خلیفہ عمر دعا اور احتیاج واضطرار کے وقت عترت و ا ہ ل ب یت رسول(ص) کو اپنا شفیع قرار دیتے ہیں اور ان کے وس یلے سے بارگاہ ال ہی میں طلب حاجت کرتے ت ھے تو ان پر کوئ ی اعتراض نہیں ۔ ل یکن جس وقت ہ م ش یعہ اس برگزیدہ خاندان کو شفیع بناتے اور ان کا توسل اخت یار کرتے ہیں تو ہ م کو سخت اعتراض ک ے سات ھ کافر ومشرک ک ہ ا جاتا ہے ۔ اگر آل محمد (ص)اور عترت طا ہ ر ہ کو خدا ک ی طرف شفیع قرار دینا شرک ہے تو آپ ہی کے علماء ک ی روایتوں کے مطابق خل یفہ عمر ابن خطاب قطعا سب سے پ ہ ل ے مشرک ٹھہ رت ے ہیں اور اگر خلیفہ کا وہ عمل شرک ن ہیں تھ ا بلک ہ ب ہ تر ین کام تھ ا ۔ (ک یونکہ خلیفہ نے اس کاانتخاب ک یا تھ ا)تو یقینا شیعوں کے اعمال اور آل محمد عل یھ م السلام سے ان کا توسل ہ رگز شرک ن ہیں ہ و سکتا ۔

لہ ذا آپ حضرات کو چاہیے کہ قطع ی طور پر اپنی یہ باتیں چھ و ڑیں بلکہ استغفار کر یں (کیونکہ بے لوث اور موحد ش یعوں کی طرف ایسی غلط نسبت دی ہے )تاک ہ غضب ال ہی کے مستحق ن ہ بن یں اس لئے ک ہ جب خل یفہ عمربزرگان صحابہ ک ی ہ مرا ہی میں بھی چا ہے جس قدر دعا کر یں لیکن بغیر اہ ل ب یت رسول کے وس یلے کے کوئ ی نتیجہ برآمد نہ ہ وا تو آپ ک یونکر امید رکھ ت ے ہیں کہ ہ م بغ یر واسطے اور س ہ ار ے ک ے دعا کرک ے کام یاب ہ و جائ یں گے ۔

پس آل محمد سلام اللہ عل یھ م اجمعین عہ د رسول (ص) س ے ل ے کر ہ مار ے موجود ہ زمان ے تک ہ ر دور م یں خدا کی طرف بندوں ک ے وس یلے تھے اور ہیں اور ہ م لوگ ب ھی حاجت روائی میں ان کی خود مختاری کے قائل ن ہیں ہیں لیکن یہ ضرور ہے ک ہ ان کو خدا ک ے صالح بند ے برحق امام او ر درگاہ خدا م یں مقرب سمجھ ت ے ہیں لہ ذا اپن ے اور خدا ک ے درم یان واسطہ قرار د یتے ہیں۔

اس مقصد پر سب سے ب ڑی دلیل ہ مار ی دعاوؤں ک ی کتابیں ہیں کیونکہ ائمہ معصوم ین علیھم السلام سے تمام ماثور ہ اور دعاوؤ ں م یں ہ م جو کچ ھ م یں نے عرض ک یا ہے اس ک ے علاو ہ کوئ ی اور ہ دا یت ہی نہیں دی گئی ہے اور ہ م ن ے ب ھی اس طریقے کے خلاف ن ہ کوئ ی عمل کیا ہے ا ور نہ کر یں گے ۔

حافظ :- آپ کے یہ بیانات ہ مار ی سنی ہ و ی باتوں ک ے خلاف ہیں ۔

خیر طلب :- اپنی سنی ہ وئ ی باتوں کو چ ھ و ڑیئے اور مشاہ دات کا ذکر ک یجیئے ۔ ک یا آپ نے ہ مار ے ب ڑے علماء ک ی کچھ معتبر کتب ادع یہ کا مطالعہ ک یا ہے ؟

حافظ :- نہیں مجھ کو موقع ن ہیں ملا ۔

خیر طلب:-مناسب یہ تھ ا ک ہ پ ہ ل ے آپ اس قسم ک ی کتابیں ملاحظہ فرما ل یتے اس کے بعد اعتراض فرماتے اس وقت دعا وز یارت کی دو کتابیں میرے ہ مرا ہ ہیں ۔ ا یک علامہ مجلس ی علیہ الرحمہ ک ی تالیف ، زاد المعاد ،اور

۹۷

دوسری "ہ د یۃ الزائرین " مؤلفہ فاضل محدّث وعال م متبحر آقائی حاج شیخ عباس قمی دامت برکاتہ یہ مطالعے ک ے لئ ے حاضر ہیں (میں نے دونو ں جلد یں مولوی صاحبان کی خدمت میں پیش کریں ۔ اور ان ہ و ں ن ے د یکھ نا شروع کیا ،ادعیہ توسل کو پڑھ ا اور غور ک یا لیکن کسی مقام پر خاندان رسالت کے لئ ے خود مختار ی کا ذکر نہیں کیا بلکہ ہ ر جگ ہ ان کو واسط ہ ک ہ ا گ یا ہے اس وقت مولو ی سید عبد الحیی نے دعائ ے تو سل کو جو علام ہ مجلس ی علیہ الرحمہ ن ے بسلسل ہ محمد ابن بابو یہ قمی علیہ الرحمہ ائم ہ طا ہ ر ین سلام اللہ عل یھ م اجمعین نے نقل ک ی ہے نمون ے ک ے طور پر آخر تک پ ڑھی جس کا شروع یہ ہے ۔

دعائے توسل

اللهم انّی اسئلک و اتوجه الیک بنبیک نبی الرحمة محمد صلی الله علیه وآله یا ابا القاسم یا رسول الله یا امام الرحمة یا سیدنا ومولانا انّا توجهنا و استشفعنا وتوسلنا بک الی الله وقد مناک بین یدی حاجاتنا یا وجیها عند الله اشفع لنا عند الله ٭ یا ابا الحسن یا امیر المومنین یا علی ابن ابی طالب یا حجة الله علی خلقه یا سیدنا و مولانا انّا توجهنا واستشفعنا و توسلنا بک الی الله وقدمناک بین یدی حاجاتنا یا وجیها عندالله اشفع لنا عند الله

جس نوعیت سے ام یر المومنین علیہ السلام کو خطاب کیا گیا ہے اس ک ے بعد اس ی طرح سے کل ائم ہ معصوم ین علیھ م السلام کے لئ ے ب ھی ہے اور خطاب م یں ان کو یا حجۃ اللہ عل ی خلقہ ک ہ ا جاتا ہے یعنی اے حجت خدا خلق خدا پر ۔۔۔۔ آخر دعا تک ائم ہ طا ہ ر ین میں سے ا یک ایک کا نام لے کر توسل اخت یار کیا گیا ہے اور اس طر یقے سے مخاطب ک یا گیا ہے ک ہ ا ے ہ مار ے س ید مولا ہ م آپ ک ے وس یلے سے خدا ک ی طرف توجہ وتوسل اور طلب شفاعت کرت ے ہیں ،اے خدائ ے تعال ی کے نزد یک صاحب عزت بارگاہ ال ہی میں ہ مار ی سفارش فرمائیے ۔یہ ا ں تک کہ آخر دع امیں سارے خاندان رسالت کو مخاطب کرک ے ک ہ ا ہے ۔

"یا ساداتی وموالی انی توجهت بکم ائمتی وعدتی لیوم فقری وحاجتی الی الله وتوسلت بکم الی الله واستشفعت بکم الی الله فاشفعوا لی عندالله و استنقذونی من ذنوبی عند الله فانّکم وسیلتی الی الله وبحبکم وبقربکم ارجو نجاة من الله فکونوا عند الله رجائی یا ساداتی یا اولیاء الله"

جس وقت وہ حضرات یہ دعائیں پڑھ ر ہے ت ھے بعض م ہ ذب اور محترم سن ی حضرات ہ ات ھ مارت ے ت ھے

۹۸

اور باربار ک ہ ت ے ت ھے "لا ال ہ الا الل ہ سبحان الل ہ " کس طرح س ے غلط ف ہ م ی پھیلاتے ہیں۔

(میں نے ک ہ ا)م یں آپ حضرات سے انصاف چا ہ تا ہ و ں ۔ ان دعاو ؤ ں ک ی عبارتوں م یں کس مقام پر شرک کے آثار پائ ے جات ے ہیں ؟کیاہ ر جگہ خدائ ے تعال ی کامقدس نام موجود نہیں ہے ؟ ہ م ن ے دعا ک ی کون سی عبارت میں ان حضرات کو باری تعالی کا شریک قراردیا ہے ؟ آخر کس ل ئے آپ ہ م لوگو ں پر ت ہ مت لگات ے ہیں کس وجہ س ے موحد مسلمانو ں کو غال ی اور مشرک کہ ت ے ہیں ؟ کس غرض سے مسلمانو ں ک ے دلو ں م یں بغض وعداوت کا بیج بوتے ہیں ؟کس مقصد سے ناواقف لوگو ں ک ی نظر میں حقیقت کو مشتبہ بنات ے ہیں ؟تاکہ و ہ اپن ے د ینی ایمانی بھ ا یئوں کو کافر سمجھیں ۔ آپ ک ے کتن ے ناواقف اور متعصب عوام ب یچارے شیعوں کو اسی خیال سے قتل کرت ے ہیں کہ ہ م ا یک کافر کو قتل کیا لہ ذا جتن ی ہ وگئ ے ا یسے امور کا مظلمہ آپ ہی جیسے علماء کی گردنوں پر ہے ۔

بات یہ ہے ک ہ ش یعہ علماء او رمبلغین زہ ر ن ہیں پھیلاتے ۔ ش یعہ اور سنی کے درم یان عداوت کا بیج نہیں بوتے اور قتل نفس کو گنا ہ عظ یم سمجھ ت ے ہیں ،ہ م ش یعہ اور سنی کے درم یان ما بہ اختلاف مسائل کو علم ومنطق ک ی روشنی مین بیان کرکے ان کو حق یقت مذہ ب س ے با خبر کرتے ہیں لیکن گفتگو کے ضمن م یں ان کو یہ بھی سمجھ ا د یتے ہین کہ سن ی ہ مار ے مسلمان ب ھ ائ ی ہیں لہ ذا ش یعہ جماعت کو ان کی طرف کینے اوردشمنی کی نظر سے ن ہ د یکھ نا چاہیئے بلکہ برادران ہ طر یقے سے آپس م یں متحد رہ نا چا ہیئے تاکہ ہ م سب مل کر لا الہ الا الل ہ کاپرچم بلند کر یں۔

لیکن اس کے برعکس متعصب سنّ ی علماء کے طرز عمل س ے ہ م کو افسوس ہ وتا ہے ک ہ ابو حن یفہ ،مالک ابن انس، محمد ابن ادریس شافعی اور احمد ابن حنبل کے پ یروؤں کو باوجود یکہ ان کے درم یان کثیر اصولی اور فروعی اختلافات ہیں ہ ر مقام پر آزاد ی دیتے ہیں اور مسلمان بھ ائ ی کہ ت ے ہیں لیکن علی ابن ابی طالب اور امام صادق آل محمد علیھ ما السلام جو عترت و اہ ل ب یت رسالت ہیں ،ان کے پ یروؤں کو غالی ،مشرک اور کافر نامزد کرتے ہیں اور ان کی آزادی سلب کرتے ہیں تاکہ سن ی ممالک کے اندر ان ک ی جان ومال محفوظ نہ ر ہے ،کتن ے ز یادہ ہیں کہ ا یسے صاحبان علم وتقوی شیعہ جو سنی علماء کے فتو ے س ے ش ہید کئے گئ ے ل یکن اس کے برعکس ا یسا عمل شیعہ علماء کی طرف سے ک یا بلکہ عوام ش یعہ کی جانب سے ب ھی جن سے اس کا انجام پانا ز یادہ سہ ل ہے کس ی جاہ ل سن ی کے لئ ے ب ھی صادر نہیں ہ وا ہے آپ ک ے علماء بالعموم ش یعوں پر لعنت کرتے ہیں لیکن شیعہ علماء کی کسی کتاب میں یہ نہیں دیکھ ا گیا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ا ہ ل تسنن لعن ھ م الل ہ لک ھ ا ہ و ۔

حافظ:- آپ زیادتی کر رہے ہیں ،کون سا صاحب علم وتقوی شیعہ ہ مار ے علماء ک ے فتو ے س ے قتل ہ وا ہے ک ہ

۹۹

آپ بلا وج ہ جو ش دلا ر ہے ہیں ؟اور کس نے ہ مار ے علماء م یں سے ش یعوں پر لعنت کی ہے ۔

خیرطلب :- اگر آپ کے علماء اور عوام کے حرکات تفص یل سے ب یان کرنا چاہ و ں تو ا یک نشست نہیں بلکہ کئ ی مہینے درکار ہ و ں گ ے ل یکن نمونے اور اثبات ک ے لئ ے ان ک ے بعض اعمال اور اطوار ک ی طرف جو تاریخ کے صفات پر نقش ہیں کئے د یتا ہ و ں تاک ہ آپ کو معلوم ہ وجائ ے ک ہ جوش نہیں دلاتا ہ و ں بلک ہ حق یقت پیش کرتا ہ و ں ۔

اگر آپ بڑے ب ڑے متعصب علماء ک ی کتابیں غور سے مطالع ہ ک یجئے تو لعنت کے مواقع خود ہی نظر آجائیں گے نمون ے ک ے طور پر تفس یر امام فخر الدین رازی کی جلدیں ملاحظہ فرمائ یے کہ جس جگ ہ ان کو موقع ہ ات ھ آ یا ہے ج یسے" آیت ولایت و اکمال الدین" وغیرہ کے ذ یل میں مکرر ومکرر لکھ ت ے ہیں۔

"و اما الرافضة لعنهم الله هؤلاء الرافضة لعنهم ----اما قول الروافض لعنهم الله " ل یکن کسی شیعہ عالم کے قلم س ے عام بردران ا ہ ل سنت ک ے لئ ے بلک ہ خاص صورت م یں بھی ان کے لئ ے ا یسی عبارتیں نہیں نکلی ہیں۔

اس جماعت کے فتو ے س ے ش ہید اول کی شہ ادت

شیعہ ارباب علم کے سات ھ آپ ک ے علماء ک ی دردناک بدسلوکیوں میں سے ا یک وہ عج یب وغریب فتوی ہے جو ا یک بہ ت ب ڑے ش یعہ فقیہ کے واسط ے شام ک ے دوب ڑے قاض یوں (برہ ان الد ین مالکی و عباد بن الجماعۃ الشافعی) کی طرف سے صادر ہ وا ت ھ ا و ہ بزرگ فق یہ جو زہ د وورع ،تقوی اور علم وتفقہ م یں سارے ا ہ ل زمان ہ ک ے سردار ت ھے ۔ ابواب فق ہ پر احاط ہ رک ھ ن ے م یں اپنے دور ک ے اندر جواب ن ہیں رکھ ت ے ت ھے ان ک ی فقہی مہ ارت کا ا یک نمونہ کتاب لمع ہ ہے جو (بغ یر اس کے ک ہ سوا "مختصر نافع" ک ے اور کوئ ی فقہی کتاب آپ کے پاس موجود ر ہی ہ و) صر ف سات روز کے اندر تصنیف فرمائی اور حنفی ، مالکی ،شافعی اور جنبلی چاروں مذ ہ ب ک ے علماء ان ک ے حلق ہ تلامذ ہ م یں داخل ہ و کر ف یض علم سے س یراب ہ وت ے ت ھے جناب ابو عبدالل ہ محمد بن جمال الد ین مکو عاملی رحمۃ اللہ عل یہ تھے۔

باوجودیکہ سنیوں کی سخت گیری کی وجہ س ے آپ ز یادہ تر تقیہ میں رہ ت ے ت ھے ۔ اور با الاعلان تش یع کا اظہ ار ن ہیں فرماتے ت ھے ل یکن پھ ر ب ھی شام کے ب ڑے قاض ی "عباد بن الجماعۃ" نے ا یسے عالم ربانی سے حسد کابرتاؤ کرت ے ہ وئ ے وال ی شام (بید مر) کے پاس ان ک ی چغلی کھ ا ئی اور رفض و تشیع کا الزام لگا کر اس فقیہ عالم کوگرفتارکروایا ۔ ا یک سال تک قید خانہ م یں سخت تکلیفیں دینے کے بعد ۹ یا ۱۹ جمادی الاولی سنہ ۷۸۶ م یں انہیں دو بڑے سن ی قاضیوں (ابن الجماعۃ وبرہ ان الد ین )کے فتو ے س ے پ ہ ل ے آپ کو تلوار س ے قتل ک یا پھ ر آپ کا جسم

۱۰۰

سول ی پر چڑھ ا یا گیا اس کے بعد ان ہیں دونوں ک ی تحریک سے (1) اس نام پر ا یک رافضی مشرک سولی کے اوپر ہے عوام ن ے آپ ک ے بدن کوسنگ سار ک یا ۔ پ ھ ر ن یچے اتار کر آگ سے جلا یا اور خاکستر ہ وا م یں اڑ اد ی۔

-------------

(1):-ان قابل ذکر واقعات میں سے جنہوں نے مجھ پر ان تاریخی وقائع کو ثابت کردیا ایک دفعہ یہ بھی ہے جسکو میں اختصار کے ساتھ ذیل میں درج کرتا ہوں ۔

19جمادی الثا نیۃ سنہ 1371ھ میں جب میں زیارت بیت المقدس سے واپس ہو کر دمشق جارہا تھا ۔ ابتدائے شب میں شرق اردن کی مسجد جامع عمان میں (جو بہت خوبصورت مسجد ہے) نماز پڑھنے پہنچا ،اہل سنت مسلمانوں کی جماعت نماز ختم کرچکی تھی ۔کچھ لوگ جارہے تھے اور بعض لوگ ابھی نوافل پڑھنے میں مشغول تھے ، میں بھی مسجد کے ایک گوشہ میں جاکر فریضہ مغرب وعشاء اداکرنے میں مصروف ہوا ۔فریضہ اور نوافل سے فارغ ہونے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ان میں سے بعض لوگ مجھ پر غضبناک ہیں خصوصا وہ عالم جوچند اشخاص کے ساتھقراءت قرآن میں مشغول تھے اور میری طرف شدید غصہ کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے میں تعقیبات ختم کرکے مسجد سے باہر نکل آیا اور گیراج میں جاکر موٹرچھو ٹنے کا انتظار کرنے لگا کھانا کھانے کے بعد جب مسجد میں نماز عشاءکی آذان شروع ہوئی تو مجھ کو خیال ہوا کہ روانہ ہونے کے بعد ممکن ہے موٹر راستہ میں نہ ٹھہرے اور نوافل شب پڑھنے کاموقع نہ ملے لہذا بہتر ہے کہ ابھی فراغت ہے مسجد میں جا کر نافلے ادا کرلوں پھر اطمینان سے سفر کی تیاری کروں ،چنانچہ تجدید وضو کرکے مسجد گیا اور عام بڑے پھاٹک سے داخل نہیں ہوا بلکہ عمارت کے آخری مغربی گوشے کے دروازے سے جاکر ایک بڑے ستون کے پہلو میں جو ایک اندھیری جگہ تھی وہاں جاکر مصروف نماز ہوا میں نے دیکھا کہ وہ عالم جو ایک گھنٹہ پہلے قراءت میں مشغول تھے اور غصے سے مجھ کو گور رہے تھے۔نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو جمع کئے ہوئے اور ان کے بیچ میں کھڑے ہوئے شرک اور مشرک کے بارے میں تقریر کر رہے ہیں ۔مقدمات کے بعد سلسلہ کلام اس مقام تک پہنچا کہ انتہائی جو ش اور سخن کے ساتھ کہا کہ تم سب مسلمانوں کو قیامت کے روز بازپرس کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اور جواب دینا پڑے گا ۔اس لئے کہ خدا نے فرمایا ہے مشرکین نجس ہیں ان کو مسجد میں نہ آنے دو لیکن ابھی ایک گھنٹہ پہلے ایک مشرک بت پرست نجس مسجد میں گھس آیا ہمارے سامنے بت کا سجدہ کیا اور تم لوگوں نے اس کو سزا نہیں دی میں قراءت میں مشغول تھا مگر تو لوگ کیامرگئے تھے ؟ کیا تمہارا فرض نہیں تھا کہ شرک کی نجاست کو مسجد سے دور کرتے اور بت پرست مشرک رافضی کو دفع کرتے یا اس کو قتل کردیتے کیونکہ اگر مشرک مسلمانوں کی مسجد میں بت پرستی کرے تو اس کو قتل کردینا واجب ہے ،بہر حال اپنی پر جوش تقریر سے ناواقف لوگوں کے جذبات اس طرح سے ابھارے کہ اگر میں اس جگہ موجود ہوتا تو یقینا قتل کردیا جاتا ۔تقری ختم ہونے کے بعد آدھے لوگ باہر جانے کے لئے عمارت کے آخری دروازے کے پاس آئے ، میں نماز وتر پڑھ رہا تھا چنانچہ بیٹھ گیا تاکہ ان لوگوں توجہ نہ ہو ،لیکن دفعتا میرے اوپر ان کی نظر پڑگئی ،فورا حملہ کرکے چاروں طرف سے گھیر لیا، بے شمار لاتیں اور گھونسے مجھ پر پڑرہے تھے اور برابر کہتے جاتے تھے کہ اٹھ اے مشرک !نکل اے مشرک! میں اپنی زندگی سے باکل مایوس ہو چکا تھا یہاں تک تشہد کا موقع آیا اور میں نے کہا" اشھد ان لا الہ الاّ اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ " اب ان کے درمیان اختلاف پید ا ہوگیا آپس میں کہنے لگے کہ یہ کیسا مشرک ہے جو وحدانیت خدا اور رسالت خاتم الانبیاء کی شہادت دے رہا ہے ؟ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم نہیں جانتے قاضی کہتا تھا کہ یہ رافضی ہے اور مشرک ہے اور قاضی کی بات غلط ہوسکتی ہے وہ لوگ بحث اور اختلاف میں مصروف تھے اتنے میں میں نس سلام پڑھ کر کے نماز ختم کی کچھ جان میں جان آئی ،ہمت کرکے دفاع کے لئے آمادہ ہوا اور عربی زبان میں ایک مفصل تقریر کرکے جس کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ان کو قائل اور لاجواب کیا اور اپنا ہمدرد بنایا اور اس ناخداشناس قاضی کو ایک جاسوس ثابت کیا جو مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر ظالم بیگانوں کو اہل اسلام پر غالب ،حاکم بنانے کے اسباب مہیا کرنا چاہتا ہے ۔خلاصہ یہ کہ ان لوگوں نے مجھ سے معذرت کی یہاں تک مجھ کو مہمان کرنے کیلئے سخت اصرار کیا لیکن میں نے یہ عذر کر کے سفر کے لئے بلکل تیار ہوں ان سے رخصت لی اور روانہ ہوا ۔یہ تھا ایک نمونہ علمائے اہل سنت کے ان سینکڑوں اقدامات میں سے جس میں انہوں نس ہمارے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے معاملہ کو الٹ کے پیش کیا ہے اور مظلوم مسلمانوں کے قتل و اہانت کا بھی باعث ہوتا ہے ۔)))

۱۰۱

"قاضی صیدا" کی بد گوئی سے ش ہید ثانی کی شہ ادت

دسویں صدی ہ ج ری میں بلاد شام کے اندر ش یعہ علماء اور مفاخر فقہ اء م یں سے ش یخ اجل فقیہ بے نظ یر" زین الدین ابن نور الدین علی ابن احمد بن عاملی قد سّ سرّہ " ت ھے جو علم و فضل وز ہ د و روع اور تقو ی میں دوست دشمن سبھی کے مرکز توج ہ اور کاف ی شہ رت ک ے مالک ت ھے ۔ ب اوجودیکہ شب و روز تالیف وتصنیف میں مصروف رہ ت ے ت ھے ۔ اور ہ م یشہ گوشہ نش ینی کی زندگی بسر کر تے ت ھے آپ ن ے مختلف علوم م یں اپنے قلم س ے دو سو س ے ز یادہ کتابیں چھ و ڑ د یں لیکن لوگوں س ے اس کنار ہ کش ی کے بعد ب ھی علمائے ا ہ ل سنت کو عداوت پ یدا ہ وئ ی اور آپ کی مقبولیت سے ان ک ے دلو ں م یں حسد کی آگ بھڑ ک ا ٹھی خصوصا بڑے قاض ی" صیدا "نے بادشا ہ آل عثمان "سلطان سل یم" کے پاس ا یک شکایت نامہ اس عنوان ک ے سات ھ لک ھ ا ک ہ "ان ہ قد وجد ببلاد الشام رجل مبدء خارج من المذا ھ ب الاربع ۃ "(یعنی یقینی طور پر ثابت ہ وا ہے ک ہ بلاد شام ک ے اندر ایک بدعتی شخص موجود ہے جوچارو ں مذ ہ بو ں س ے خارج ہے ) ۔

"سلطان سلیم" کی طرف سے ان عالم ،فق یہ کے لئ ے حکم صادر ہ وا ک ہ پ یشی کے لئ ے اسلامبول م یں حاضر کئے جائ یں ۔ چنانچ ہ مسجد الحرام ک ے اندر ان جناب کو گرفتار کرک ے چال یس روزتک مکہ معظم ہ م یں قید رکھ ا اس ک ے ب عد دریائی راستہ س ے دار السلطنت "اسلامبول "ک ی طرف روانہ کیا لیکن دربار تک پہ نچن ے س ے پ ہ ل ے ہی ساحل دریا پر آپ کا سر مبارک کاٹ ک ے جسم کو در یا میں پھینک دیا اور سر بادشاہ ک ے پاس ب ھیج دیا۔

۱۰۲

محترم حضرات !

آپ کو خدا کی قسم انصاف کیجئے او رعادلانہ ف یصلہ کیجئے ! بھ لا کس ی تاریخ میں آپ نے پ ڑھ ا ہے یا سنا ہے ک ہ علمائ ے ش یعہ کی جانب سے ک ھ ب ی کسی سنی عالم بلکہ عام انسان ک ے لئ ے ب ھی ایسی بدنیتی اور بد کرداری کا مظاہ ر ہ ہ وا ہ و اور اس جرم م یں کہ و ہ ش یعہ مذہ ب س ے الگ ہے تو اس کو قتل کرد یا ہ و؟ خدا ک ے لئ ے بتائ یے یہ بھی جرم وگناہ ہ وگ یا کہ و ہ چارو ں مذا ہ ب س ے خارج ہے آپ ک ے پاس ک یا دلیل ہے ک ہ اگر کوئ ی شخص چاروں مذ ہ بو ں (حنف ی،مالکی، شافعی،حنبلی)سے انحراف کر ے تو کافر ہے اور اس کاقتل واجب ہے ؟آ یا جو مذاہ ب صد یوں کے بع د رائج ہ وئ ے ان ک ی اطاعت واجب ہے ل یکن جو مذہ ب رسول خدا (ص)کے زمان ے س ے مرکز توج ہ ت ھ ا و ہ باعث کفر اور اس ک ے پ یروؤں کاخون بہ انا جائز ہے ؟

انصاف پسند لوگوں کی توجہ کیلئے عمدہ بحث

خدا کے لئ ے سچ بتائ یے کہ ابو حن یفہ یا مالک ابن انس یا شافعی یا امام احمد بن حنبل کیا رسول اللہ (ص)ک ے زمان ے م یں تھے ؟اور اپن ے مذ ہ ب ک ے اصول وفروع بلاواسط ہ آنحضرت (ص) س ے اخذ کئ ے ت ھے ؟ ۔

حافظ:- ایسا دعوی تو کسی نے ن ہیں کیا کہ ائم ہ اربع ہ ن ے آ ں حضرت(ص) ک ی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ہ و ۔

خیرطلب:- آیا امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیھ ما السلام صحبت میں بیٹھے اور آں حضرت کے علم کا درواز ہ ت ھے یا نہیں ؟

حافظ:- یہ تو بدیہی بات ہے ک ہ کبار صحاب ہ م یں سے بلک ہ بعض ح یثیتوں میں ان سے افضل ت ھے ۔

خیرطلب:-تو اس قاعدے ک ی رو سے اگر ہ م ک ہیں کہ عل ی ابن ابی طالب علیہ السلام کی پیروی اس لحاظ سے واجب ہے ک ہ پ یعمبر (ص)نے فرما یا علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے اور آپ آ ں حضرت (ص)باب علم ت ھے ،آن حضرت (ص)ن ے امت کو حکم د یا ہے ک ہ جو شخص م یرے علم سے ب ہ ر ہ اندوز ہ ون ا چاہ تا ہے اس کو چا ہیئے کہ عل ی (ع) کے درواز ے پر چل ے جائ ے۔ تو ہ مار ہ یہ دعوی سچا ہ وگا ۔ اور اگر ہ م ک ہیں کہ مذ ہ ب ش یعہ جو عین محمدی مذہ ب ہے ،اس لئ ے ک ہ خاتم الانب یاء نے اس ک ے پ یشواؤں کو عدیل قرآن فرمایا ہے اور ان س ے روگردان ی کو موجب ہ لاکت قرار د یا جیسا کہ حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ سے جو متفق عل یہ فرقین(شیعہ وسنی) ہیں ، سے ثابت ہے ۔ چنانچ ہ اس س ے قبل ان ک ی طرف اشارہ ک یا جاچکا ہے اس س ے انحراف بدبخت ی کا باعث ہے تو ہ م حق پر ہ و ں گ ے اور ہ م دل یل کے سات ھ یہ کہہ سکت ے ہیں۔ ک ہ عزت طا ہ ر ہ ک ی نافرمانی گویا حکم رسول(ص) سے سرکش ی ،صراط مستقیم سے عل یحدگی اور حبل المتین سے جدائ ی ہے ۔

اس کے باوجود علماء ش یعہ کی طرف سے کس ی جاہ ل ا ہ ل س نت کی نسبت بھی ایسے حرکات سرزد نہیں

۱۰۳

ہ وئ ے ن ہ ک ہ ان ک ے عالمو ں ک ے لئ ے ہ م ن ے جماعت ش یعہ کو ہ م یشہ یہی تعلیم دی ہے ک ہ ا ہ ل سنت ہ مار ے مسلمان ب ھ ائ ی ہیں ۔ ل ہ ذا ہ م سب کو آپس م یں متحد او ر متفق رہ نا چا ہ ئ یے ، لیکن اس کے خلاف آپ ک ے علماء برابر مومن و موحد پاک دامن اور اہ ل ب یت رسالت کے پ یروشیعوں کو اہ ل بدعت،رافض،غال ی،یہ ودبلک ہ کافر ومشرک کہ ت ے ر ہ ت ے ہیں اور اس جرم میں فقہ ا ئ ے اربع ہ ابو حن یفہ ،مالک ابن انس ،محمد ابن ادریس شافعی ،احمد ابن حنبل میں سے کس ی ایک کی تقلید کیوں نہیں کرتے ان کو کافر او ر رافض ی بناتے ہیں ۔ اور ان ک ے پاس کوئ ی دلیل بھی موجود نہیں ہے ک ہ مسلمان لازم ی طور پر ان چار وں م یں سے کس ی ایک کی پیرو ی کرنے پر مجبور ہیں ،حالانکہ اس ک ے برعکس جو لوگ حکم رسول س ے ا ہ ل ب یت رسالت اور عترت طاہ ر ہ ک ی پیروں کرتے ہیں اور حقیقت میں وہی نجات پانے وال ے ہیں۔

انہی بے جا فتاو ی اور بیہ ود ہ قسم کی گفتگو سے ان ہ و ں ن ے اپن ے عوام ک ے ہ ات ھ و ں م یں ایک بہ ان ہ د ے د یا کہ جب ب ھی موقع ہ ات ھ آئ ے و ہ سار ی حرکتیں جو کفار کے سات ھ ہ ونا چا ہیے بلکہ ان س ے ب ھی بد تر مومن و موحد شیعوں کے سات ھ عمل م یں لائی جائیں جیسے قتل وغارت اور ناموس اور ناموس کی ہ تک حرمت وغ یرہ ۔

ایرانیوں کے ساتھ ترکیوں ، خوارزمیوں ، ازبکوں اور افغانوں کا شرمناک رویہ

حافظ : آپ سے مجھ کو یہ امید نہیں تھی کہ ایسے جھوٹے اور غلط مطالب کے ذریعے جن کا کبھی دنیا میں وجود ہی نہیں رہا ہے جذبات کو ابھارئیے گا۔

خیرطلب :- آپ کو غلط فہمی ہوئی آپ یہ سجھتے ہیں کہ میں بغیر دلیل کے اور وہ بھی ایسے محترم جلسے میں اپنے مسلمان بھائیوں کو غلط الزام دے رہاں ہوں حالانکہ نمونے کے طور پر بزرگ شیعہ فقیہوں کے ساتھ سنی قاضیوں اور عالموں کا جو برتاؤ میں نے پیش کیا ہے اس سے قطع نظر اگر تاریخ میں ترکوں ، خوارزمیوں ، ازبکوں اور افغانوں کے حالات اور ایران پر ان کے مکرر حملوں کے واقعات کا مطالعہ کیجئے تو سمجھ میں آجائے گا کہ میں صحیح عرض کررہا ہوں بلکہ شیعہ جماعت کے ساتھ ان کا طرزعمل دیکھ کے آپ کو خجالت ہوگی کیونکہ جب بھی ان سے ممکن ہوا اور خارجی لڑائیوں یا اندرونی معاملات کے اثر سے ایرانیون کے حالاتدگرگوں دیکھے تو شمالی شرقی ایرانپر شدید حملے کئیےاور کبھی کبھی خراساں ، نیشاپور اور سبزدار حتی کہ شاہ سلطان حسین صفوی کے زمانے میں تو ایک مرتبہ اصفہان تک آگئے ، اس کے گردونواح میں کافی تاخت وتاراج کی اور کسی طرح کے عفت وانسانیت اور اسلام

۱۰۴

منافی طرز عمل سےدریع نہیں کیاقتل وغارت ، مجبور شیعوں کے اموال کو نذر آتش کردینے اور ان کے ناموس کی ہتک حرمت کرنے کے بعد ایک کثیر تعداد کو اسیر کرکے لئے گئے اور کافر قیدیوں کی طرح دنیا کے بازاروں مین فروخت کردیا

چنانچہ ارباب تاریخ لکھتے ہیں کہ ترکستان کے شہروں میں ایک لاکھ سے زیادہ شیعہ فروخت کئے گئے اور کافر غلاموں بلکہ ان سے بھی بدتر اشخاص کی مانند ان کے ساتھ سخت رویہ برتا جاتا تھا ، اس طرح کے اقداماتوہ صرف اپنے علماء کے حکم اور فتوے سے عمل میں لاتے تھے

ایران مین خان خیوہ کے مظالم اور شیعوں کے قتل وغارت کے لئے علمائے اہل سنت کے فتوے

حافظ :-اس طرح کی جنگیں اور حملے سیاسی تھے اورمذہبی پیشواؤں کے فتاوے سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا ،

خیرطلب:- نہیں ایسا نہیکن ہےبلکہ اس قسم کے حملے قتل وغارت اور ہتک حرمت علمائے اہل تسسنن کے فتاوی اور فیصلوں ہی کا نتیجہ تھے چنانچہ مرحوم ناصرالدین شاہ قاجار کے اوائل سلطنت اور میرزا تقی خاں امیرنظام کی وزارت مین جب ایران کی فوج خراسان کے ہنگامے اور سالار کے فتنےمیں پھنسی ہوئی تھی امیر خوارزم محمد امین خاں ازبک معروف بہ خان خیوہ (خوارزم ) کو موقع ہاتھ آیا اس نے مرو اور خراسان پر ایک کثیر لشکر کے ساتھ حملہ کردیا ۔اور قتل وغارت اور کافی تباہ کاری کے بعد بہت بڑے جمع کو قید کرکے لے گیا ۔ سالار کا معاملہ ختم ہونے کے بعد حکومت خان خیوہ اور اس کی سرکوبی کی متوجہ ہوئیایرانکے مقتدر اور مدبر وزیر اعظم مرحوم امیرنظام کی تدبیر سے پہلے نرمی اور مدارات سے کام لیا گیا ، مرحوم رضاقلی خاں بزارجیریی متخلص بہ ہدایت کو جو ایرانی دربار کے بڑے عقلمندوں مین سے تھے سفیر بناکر خان خیونہ کے پاس بھیجا جس کی تفصیل بہت طولانی ہے اور یہاں اس کے ذکر کی گنجائش نہیںالبتہ جو میریگزارش ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جس وقت مرحوم ہدایت خاں خیوہ کے پاس پہنچے توگفتگو کے سلسلے میں کہا تعجب ہے کہ ایران باشندے جب روم ، روس ہند اور فرنگ وغیرہ بیرونی ممالک میں جاتے ہیں تو وہاں عزت کے ساتھ رہتے ہیں اور امن وعافیت کے ساتھ واپس آتے ہیں لیکن آپ کے حدود سلطنت میں معاملہ برعکس ہے کیونکہ آپ کے آدمی کو لوٹنے پھونکنے ، قتل وغارت اور

۱۰۵

ان کو قید کرکے فروخت کرنے میں کافر غلاموں کا ایسا سلوک کرتے ہیں اور طرح طرح کی ذلتیں پہنچاتے ہیں حالانکہ سب کے سب مسلماں ایک قبلہ ، ایک کتاب (قرآن مجید) ایک پیغمبر اور ایک خدا کے ماننے والے ہیںپھر بھی معلوم نہیں ایسے برتاؤ کا کیا سبب ہے ؟

اس نے جواب دیا کہ اس میں ہماریکوئی سیاسی غلطی نہیں ہے بلکہ مذہبی حیثیت سے بخارا اور خوارزم کے علماء مفتی اور قاضی صاحبان فتوی دیتے ہیں اور کہتے ہیں شیعہ چونکہ رافضی ، کافر اور اہلبدعتہین لھذا ان کی سزا یہی ہے چنانچہ کفار کی حیثیت سے ان کو قتل کرناان کے اموال غصب کرلینا ان کو لوٹنا اور قیدی بنانا واجب ولازم ہےجیسا کہ ان واقعات کی مفصل شرح تاریخ روضتہ الصفائے ناصری اور سفارت نامہ خوارزم مطبوعہ طہران مولفہ مرحوم رضا قلی خاں ہدایت میں درج ہے

شیعوں کے قتل وغارت پر علمائے اہل سنت کے فتوے اور خراسان پر عبداللہ خاں ازبککے حملے

نیز جس زمانے میں عبداللہ خاں ازبک نے شہر خراسان کا محاصرہ کیا تھا علمائے خراساں نے عبداللہ خان کو ایک مفصل تحریر لکھی اور اس کے حرکات پر اعتراض کئے کہ تم آخر کس لئے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے والوں اور قرآن وعترت رسول کےپیروں کے قتل وغارت اورہتک حرمت پر آمادہ ہوئے ہو در آنحالیکہاسلام نے تم کو کفار کے ساتھ بھی ایسا سلوک کرنے کی اجازت نہیں دی ہے

عبداللہ خاں نے مشہد کے علماء اور باشندوں کا یہ خط جواب کے لئے سنی عالموں اور قاضیوں کے سپرد کیا جو اس کے ہمراہ تھے ان لوگوں نے تفصیلی جواب لکھاپھر علمائے مشہد نے اس کا جواب الجواب دیا اور ان کو لاجواب کیاان خطوط کی تشریح ناسخ التواریخ میں درج ہے جو بہت طولانی ہےمیرے مطلب کا ثبوت یہ ہے کہ سنی علمائے ازبک نے اپنی تحریر میں لکھا تھا کہ شیعہ چونکہ رافضی اور کافر ہیں لہذا ان کا خون اور مال وحرمت مسلمانوں کے لئے مباح ہے ۔

افغانستان کے شیعوں سے افعانی امیروں کا سلوک

زمانہ ماضی میں اور بالخصوص میر دوست محمد خاں کہندل خاں ، شاہ شجاع الملک ، عبدالمومن خاں امیر عبدالرحمان خاں اور امیر حبیب اللہ خاں کی ریاست وحکومت کے زمانے میں کابل قندھار، ہرات اور ان

۱۰۶

کے اطراف میں شیعہ جماعت کے ساتھ سنی افغانیوں نے جو سلوک کئے اور خاص وعام بلکہ بے گناہ بچوں کا بھی جو قتل عام کیا اگر ہم صرف اسی کا تذکرہ کرنا چاہیں تو انتہائی شرمناک اور اہل جلسہ کے لئے ناقابل برداشت ہوگا میرا خیال ہے کہ خود آپ حضرات نے بھی تاریخ کے سلسلے میں ان لوگوں کے لرزہ انگیز مظالم کا بخوبی مطالعہ کیا ہوگا اور محترمبا ہمت قزلباش حضرات ہندوستان میں بالخصوص پنجاب کے اندر افغانوں کے اثار ظلم کا ایک کھلا ہوا نمونہ ہیں جو مجبور راجلاوطنی اختیار کرکے یہاں پناہ گیر اور سکونت پذیر ہوئے

ارباب تواریخ نے ان سارے واقعات کو درج کیا ہےاور آنے والی نسلوں کو موقع دیا ہے کہ صحیح فیصلہ تک پہنچ سکیں

چنانچہ ان میں سے ایک دل سوز واقعہ سنہ 1267 ھ کا ہے عاشورہ محرمکو جمعہ کے روز قندھار کے شیعہ امام باڑوں میں جمع ہو کر عزاداری سید شہداء وعترت رسول میں سرگرم تھے ، دفعتا بہت سے متعصب اہل سنت طرح طرح کے اسلحے لئے ہوئے امام باڑے میں گھس پڑے اور نہتے شیعوں کے ایک کثیر مجمع کو یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی انتہائی دردناک طریقے سے قتل کیا اور ان کے اموال لوٹ لئے برسوں گزرگئے کہ شیعہ ذلت وحقارت کی زندگی بسر کررہے تھے اور آزادی عمل سے محروم تھے یہاں تککہ ایام عاشورہ میں دو دو تین تین افراد تہ خانوں کے اندر جاکر فرزند رسول اور شہدائے کربلا کی عزاداری کرتے تھے (یہاں پر مصنف دام مجدھم نے میرامان اللہ خاں کی رواداری اور انصاف پروردی کی تعریف فرمائی ہے جس کو بنظر اختصار حذف کرتا ہوں (مترجم) آپ حضراتتاریخ پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ اسی ہندوستان کے اندر مخالفین کی تحریک سے سنی وشیعہ آویزش کے نتیجہ میں کس قدر خون بہائے گئے اور کتنے صاحبان فضل وتقوی اورپاکدامن مومنین جاہلوں کی ہوسناکیوں کی بھینٹ چڑھ گئے

شہید ثالث کی شہ ادت

ان منحوس واقعات کے غم انگ یز خطوں م یں سے آگر ے کا قبرستان ب ھی ہے اس ی سفر کے سلسل ہ م یں جس وقت میں وہ ا ں پ ہ نچا تو خدا ہی جانتا ہے ک ہ متعصب لوگو ں ک ی حماقتوں اور ج ہ التو ں س ے کس قدر متاثر ہ و ا خصوصا جس وقت صاحب علم وتقو ی بے نظ یر فقیہ وعالم اور رسول اللہ (ص )کے پار ہ تن "قاض ی سید نوراللہ شوستر ی قدس سرّہ " ک ی زیارت سے مشرف ہ و ا ک یونکہ آپ بھی ملت اسلامی کے تعصب وعناد ک ی قربانیوں میں سے ا یک ہیں جنہ و ں ن ے سن ہ 1019 ھ م یں اس زمانے ک ے ب ڑے ب ڑے عالمو ں ک ی مخالفانہ کوششو ں ک ے نت یجے میں ہ ندوستان ک ے جا ہ ل ومتعصب مغل با شاہ "جہ انگ یر"کے حکم س ے رفض اور تش یع کے الزام پر خود سن ی علماء کے ہ ات ھ و ں 70 سال ک ے سن م یں شربت شہ ادت نوش فرما یا ۔

۱۰۷

آپ کو خود معلوم ہے ک ہ آگر ے م یں ان بزرگوار سید جلیل القدر عالم کی قبر پر آج تک شیعہ مسلمانوں ک ی زیارت گاہ ہے ۔

ان کے سنگ قبر پر "جومرمر س ے بنا ہ وا ہے " م یں نے د یکھ ا کہ سنگ س یاہ سے نقش ک یا ہ وا ہے ۔

ظالمی جفائے نورالل ہ کرد-------قر ۃ العین نبی را سر برید

سال قتلش حضرت ضامن علی-------گفت نوراللہ شد ش ہید

حافظ:- آپ بلاوجہ ہ م کو مورد الزام قرارد یتے ہیں کیوں کہ ج ہ ال اور عوام ک ی زیادتیوں اور جفاکاریوں اور ان لوگوں ک ے افعال س ے جن کا آپ ن ے ذکر ک یا درحقیقت میں خود بہ ت متاثر ہ و ں ل یکن شیعوں کے اعمال ب ھی تو اس کے لئ ے معاون ہ وت ے ہیں ۔ اور ان کو ا یسی حرکتوں پر ابھ ارت ے ہیں۔

خیرطلب :- شیعوں کے کون س ے ا یسے اعمال سرزد ہ وت ے ہیں جو ان کے قتل وغارت اور ہ تک عزت ک ے باعث ہ و سک یں ؟

حافظ:- ایک ایک دن میں ہ زارو ں افراد مردو ں ک ی قبروں ک ے سامن ے ک ھڑے ہ وکر ان س ے حاجت یں طلب کرتے ہیں ، کیا شیعوں کا طریقہ مردہ پرست ی نہیں ہے ؟ علما ، آخر کس لئ ے ان کو منع ن ہیں کرتے ک ہ مردو ں ک ی زیارت لے نام پر کرو ڑ و ں اشخاص ان ک ی قبروں ک ے سامن ے چ ہ ر ہ خاک پ ر رکھ ک ے اور سجد ہ کرک ے مرد ہ پرست ی کرتے ہیں ۔ اور پاک نفس لوگو ں ک ے ہ ات ھ و ں م یں ایک بہ ان ہ د ے د یتے ہیں تاکہ وہ ز یادتیاں کریں اور تعجب تو یہ ہے ک ہ آپ ان اعمال کا نام توح ید کہ ت ے ہیں اور اس قسم کے اشخاص کو موحد ک ہ ت ے ہیں ۔

جب ہ م لوگ مشغول اور سرگرم گفتگو ت ھے تو حنف ی فقیہ مولوی شیخ عبدا لسلام کتاب ہ د یۃ الزائرین کے جو ان ک ے سامن ے رک ھی ہ وئ ی تھی اس طرح ورق الٹ ر ہے ت ھے اور مطالع ہ کر ر ہے ت ھے جس س ے ظا ہ ر ہ وتا ت ھ ا ک ہ و ہ کوئ ی اعتراض کا پہ لو پ یدا کرنے ک ی کوشش میں ہیں ،جب حافظ صاحب کا کلام یہ ا ں تک پہ نچا تو ان ہ و ں ن ے سر ا ٹھ ا یا اور ایک بھ ر پور وار کرت ے ہ وئ ے ج یسے کوئی بڑ ا س ہ ارا ڈھ ون ڈ ل یا ہ و مج ھ س ے فرما یا :-

شیخ کا اقدام، شبہہ ک ی ایجاد حملے ک ے لئ ے وس یلے کی تیاری-----اور---- اس کا دفاع

شیخ :- بسم اللہ د یکھ ئ ے اسی جگہ (کتاب ک ی طرف اشارہ )آپ ک ے علماء اور پ یشوا ہ دا یت دے ر ہے ہیں

۱۰۸

کہ امامو ں ک ے حرم م یں زیارت ختم ہ ون ے ک ے بعد زائر ین دو رکعت نماز زیارت پڑھیں تو کیا نماز میں قصد قربت شرط نہیں ہے ؟ ورن ہ نماز ز یارت چہ معن ی دارد؟ آیا امام کے لئے نماز پڑھ نا شرک ن ہیں ہے ؟ زائر ین کے یہی اعمال کہ امام ک ی قبر کی طرف رخ کرکے ک ھڑے ہ وت ے ہیں ۔ اور نماز پ ڑھ ت ے ہیں ان کے شرک پر سب س ے ب ڑی دلیل ہیں اب اس موقع پر آپ کے پاس ک یاجواب ہے ؟ یہ سند صحیح ثابت اور خود آپ ہی کی معتبر کتاب ہے ۔

خیرطلب :- چونکہ وقت کاف ی گزر چکا ہے حضرات کسل مند اور پر یشان ہ ور ہے ہیں ۔ ل ہ ذا مناسب سمج ھ ئ ے تو آپ ک ے اور جناب حافظ صاحب ک ے ب یانات کاجواب کل پر رکھ ا جائ ے۔۔ (تمام ش یعہ ،سنی حاضرین جلسہ ن ے آواز یں دینا شروع کیں کہ جب تک جناب ش یخ صاحب کاجواب نہ د ے د یا جائے ا ور مردہ پرست ی کے معن ی نہ واضح ہ وجائ یں ہ م لوگ یہ ا ں سے ن ہ جائ یں گے ہ م کو بالکل تکان اور پر یشانی نہیں ہے ) ۔۔

(میں ہ نست ے ہ وئ ے حافظ صاحب ک ی طرف رخ کیا اور کہ ا ک ہ جناب ش یخ کا جوش چونکہ ب ہ ت زور پر ہے اور ان ہ و ں ن ے ا یک بہ ت ب ڑ ا حرب ہ ت یار کیا ہے ۔ ل ہ ذا اجازت د یجئیے کہ پ ہ ل ے ان کاجواب د ے دو ں پ ھ ر آپ کا جواب عرض کرو ں ) ۔

حافظ :- فرمائیے ہ م سنن ے ک ے لئ ے حاضر ہیں ۔

خیر طلب :- جناب شیخ صاحب ! واقعی آپ بچوں ک ی طرح بہ ان ے ڈھ ون ڈ ر ہے ہیں ۔ ک یا آپ زیارت کے لئ ے گئ ے ہیں اور زائرین کے عمل یات کو قریب سے د یکھ ا ہے ؟

شیخ :- نہیں ،نہ م یں گیا ہ و ں اور ن ہ م یں نے د یکھ ا ہے ۔

خیرطلب :- پھ ر آپ ک ہ ا ں س ے فرمار ہے ہیں کہ زائر ین قبر امام کی طرف رخ کرکے نماز پ ڑھ ت ے ہیں جس سے اس نماز وز یارت کو آپ نے مومن وموحد ش یعوں کے لئ ے شرک ک ی علامت قرار دیا ہے ۔

شیخ:- آپ کی اسی کتاب کی رو سے ،جس م یں لکھ ت ے ہیں کہ امام ک ے لئ ے نماز ز یارت پڑھ و ۔

خیرطلب :- مرحمت فرمائیے دیکھ و ں کس طرح سے لک ھ ا ہ وا ہے ۔ (جب کتاب ل یکے دیکھی تو اتفاق سے حضرت ام یر المومنین علیہ السلام کی زیارت کا طریقہ تھ ا )-

خیرطلب :- عجب حسن اتفاق ہے ک ہ آپ ن ے خود ہی اپنے خلاف ا یک تیز دھ ار کا حرب ہ م ہیا فرمالیا چونکہ خدا ہ م یشہ ہ مارا مدد گار ہے ۔ ل ہ ذا ہ ر مقام پر ہ مار ی کمک اور حمایت کے اسباب ووسائل اک ٹھ ا کرد یتا ہے ۔

اولا بہ تر ہے ک ہ اس کتاب م یں جو طریقہ زیارت درج ہے اس ک ے شروع ہے اس ک ے شروع س ے بلا امت یاز ہ ر حص ے ک ے چند جمل ے وقت ک ے لحاظ س ے پ ڑھ جاؤ ں یہ ا ں تک کہ نماز ک ی منزل تک پہ نچ جاؤ ں جو آپ کا موضوع بحث ہے تاک ہ حضرات حاضر ین جلسہ خود ہی فیصلہ فرمالیں اور جس مقام پر شرک کی علامت ملاحظہ فرمائ یں فورا ٹ وک د یں اور اگر اول

۱۰۹

سے آخر تک ز یارت نامے م یں صرف توحید ہی کی علامت نظر آئے تو آپ شرمند ہ ن ہ ہ و ں بلک ہ یہ سمجھ ل یں کہ غلط ف ہ م ی ہ وگئ ی ۔ کتاب د یکھ آپ کے سامن ے ہے پ ھ ر آپ بغ یر دیکھ بال کے اور جانچ پ ڑ تال ک یے ہ وئ ے حمل ے کر ر ہے ہیں چنانچہ اس ی جگہ س ے حضرات ا ہ ل جلس ہ سمج ھ ل یں کہ آپ حضرات ک ے باق ی اعتراضات بھی اسی پھ س پ ھ س ے اعتراض ک ے مانند صرف د ھ وکا ہی دھ وکا ہے ۔

زیارت کے آداب

ملاحظہ فرمائیے ،قاعدہ یہ ہے ک ہ مولا ام یر المومنین علیہ السلام کا زائر جب کوفہ ک ی خندق پر پہ نچ ے تو ک ھڑ ا ہ وکر ک ہے "الله اکبر الله اکبر اهل الکبریاء والحمد والعظمة الله اکبر اهل التکبیر والتقدیس والتسبیح ووالا لا اله الا الله اکبر مما اخاف و احذر الله اکبر عمادی علیه اتوکل الله اکبر رجائی و الیه انیب الی آخر" جب درواز ہ نجف پر پ ہ نچ ے تو ک ہے " الحمد لله الذی هدانا لهذا و ما کنا لنهتدی لولا ان هدانا الله الی آخر " ۔ جب صحن ک ے دواز ے پر پ ہ نچ ے تو حمد بار ی تعالی کے بعد ک ہے "اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شریک له و اشهد ان محمد ا عبده ورسوله جاء بالحق من عند الله و اشهد ان علیا عبدالله واخو رسول الله ،الله اکبر الله اکبر الله اکبر لا الهه الا الله والله اکبر والحمد لله علی هدایته و تو فیقه لما دعاا لیه من سبیله الی آخر" جب در حرم و بقع ہ مبارک ہ پر پہ نچ ے تو ک ہے "اشهد ال لا اله الا الله وحده لا شریک له الی آخر" پ ھ ر خدا اور رسول اور ائم ہ طا ہ ر ین سے اذن و اجازت حاصل کرن ے ک ے بعد جب زائر حرم مط ہ ر ک ے اندر داخل ہ و تو مختلف ز یارتیں جو پیعمبر اور امیر المومنین علیھ ما الصلواۃ و السلام کے لئ ے س لام پر مشتمل ہیں پڑھے ۔ اور ز یارت سے فارغ ہ ون ے ک ے بعد حکم ہے ک ہ چ ھ رکعت نماز پ ڑھے دو رکعت ہ د یہ امیر المومنین علیہ السلام کے لئ ے اور چار رکعت ہ د یہ آدم ابو البشر اور نوح شیخ الانبیاء علیھ ما السلام کے لئ ے جو آن حضرت ک ے پاس مد فون ہیں ۔

نماز زیارت اور دعائے بعد از نماز

آیا نماز ہ د یہ شرک ہے ؟ آ یا ہ مار ے یہ ا ں والدین اور ارواح مومنین کے لئ ے نماز ہ د یہ کا دستو ر نہیں ہے ؟

۱۱۰

تو ک یا یہ تمام قاعدے شرک ہیں ؟ اوراگر زائر امیر المو منین علیہ السلام کے لئ ے د ہ رکعت نماز ہ د یہ قربتا الی اللہ بجالائ ے تو ک یا یہ شرک ہے ؟

یہ ہ ر انسان ک ی انسانیت کا جز ہے ک ہ جب کوئ ی دوست کی ملاقات کو جاتا ہے ہے تو اس کے لئ ے کوئ ی تحفہ ل ے جاتا ہے ہے ج یسا کہ فر یقین کی ساری کتب احادیث میں مومن کو ہ د یہ کے ثواب م یں رسول اللہ (ص) س ے پورا ا یک باب موجود ہے جب زائر ین اپنے محبوب آقا ک ی قبر کے سامنے ک ھڑ ا ہ وجاتا ہے تو یہ سمجھ تا ہے ک ہ و ہ ب ہ تر ین چیز جو حضرت اپنی ساری زندگی میں زیادہ پسند فرماتے ت ھے ۔ نماز ت ھی ، لہ ذا ہ دا یت کی گئی ہے ک ہ زائر قرب ۃ الی اللہ دو رکعت نماز پ ڑھے اس ک ے بعد اس کا ثواب آن حضرت ک ی روح پر فتوح کو ہ د یہ کرے تو ک یا یہ عمل آپ کی نظر میں شرک ہے ؟ آپ ن ے نماز کا طر یقہ پڑھ ا ہے ؟ تو دعائ ے بع د از نماز کو بھی دیکھ لینا چاہیئے تا کہ آپ کو آپ ک ے شب ہے کا جواب مل جائ ے ۔ اگر آپ ن ے پ ڑھ ل یا ہ وتا تو قطعا ا یراد نہ کرت ے ؟ ۔ اب م یں آپ کی اجازت سے حاضر ین جلسہ ک ی توجہ ک ے لئ ے وہ دعا پڑھ تا ہ و ں تا ک ہ ش یعوں کے اعمال کو انصاف ک ی نگاہ س ے د یکھ ئ ے اور جان لیجئے ۔ ک ہ ہ م موحد ہیں مشرک نہیں ہیں اور کسی حالت میں خدا کو فراموش نہیں کرتے عل ی علیہ السلام کو بھی ہ م اس ی سبب سے دوست رک ھ ت ے ہیں کہ آپ خدا ک ے بند ہ صالح اور رسول الل ہ (ص) ک ے وص ی وخلیفہ ہیں ۔

دعا کادستور یہ ہے ک ہ نماز س ے فارغ ہ ون ے ک ے بعد ان حضرات ک ے سر ہ ان ے (برخلاف اس ک ے ک ہ جو ش یخ صاحب نے فرما یا کہ قبر ک ی طرف رخ کرکے پ ڑھ ت ے ہیں) رو بہ قبل ہ اس صورت م یں کہ قبر مبارک بائ یں بازو کی طرف ہ و یہ دعا پڑھے " اللهم انی صلیت ها تین الرکعتین هدیة منی الی سیدی ومولای ولیک واخی رسولک امیر المومنین وسید الوصیین علی ابن ابی طالب صلوات الله علیه وعلی اله اللهم فصلی علی محمد و آل محمد وتقبلها منی و اجزنی علی ذالک جزاء المحسنین اللهم لک صلیت ولک ورکعت ولک سجدت وحدک لا شریک لک الا انت تجوز الصلواة الرکوع و السجود الا لک لانک انت الله لا اله الا انت "

ما حصل مطلب یہ ہے ک ہ پروردگار ! اس دو رکعت نماز کو م یں نے ہ د یہ کیا اپنے س ید و مولا تیرے ولی اور تیرے رسول کے ب ھ ائ ی امیر المومنین و سید الوصیین علی ابن ابی طالب علیھ ما السلام کی طرف ،خدا وند محمد و آل محمد پر اپنی رحمت بھیج ۔ اس دو رکعت نماز کو میری طرف سے قبول فرما اور اس عمل پر مج ھ کو ن یکو کاروں ک ی جزا مرحمت فرما ۔ پروردگارا! م یں نے ت یرے لئے نماز پ ڑھی ،تیرے لئے رکوع و سجود ک یا ،تو ہی خدائے واحد ہے جس کا کوئ ی شریک نہیں کیونکہ نماز اور رکوع وسجود ،سواتیرے کسی اور کے لئ ے جائز ن ہیں ہے اور تو ہی وہ خدا ا یسے بزرگ ہے جس ک ے سوا

۱۱۱

کوئ ی اور خدا نہیں ۔

حضرات محترم ! خدا کے لئ ے انصاف س ے کام ل یجئیے ۔ ا یسا زائر جو خاک نجف پہ لا قدم رک ھ ت ے ک ے بعد نماز ز یارت سے فارغ ہ ون ے ک ی آخری ساعت تک برابر یاد حق میں مشغول رہے ۔ نام خدا زبان پر جار ی رکھے عظمت و وحدان یت کے سات ھ اس کا ذکر کر ے عل ی کو بندہ صالح اور رسو ل اللہ کا ب ھ ائ ی اور وصی کہے اور زبان حال وقال س ے ان مطالب کا اعتراف کر ے ک یاوہ مشرک ہے ؟ پس اگر نماز پ ڑھ نا اور واحدان یت خدا کی گواہی دینا شرک ہے تو برا ہ کرم توح ید کا طریقہ بتا دیجئیے تاکہ ک ہ ہ م لوگ خدااور رسول خدا(ص) کا مذ ہ ب چ ھ و ڑ کر آپ ک ے راست ہ پ ر آجائیں ۔

شیخ :- تعجب ہے آپ د یکھ ت ے نہیں کہ اس جگ ہ لک ھ ا ہ وا ہے آستان ہ کو بو س ہ د ے کر حرم ک ے اندر داخل ہ و اس ی وجہ س ے ہ م ن ے سنا ہے ک ہ زائر ین جب اپنے امامو ں ک ے حرم ک ے دروازو ں پر پ ہ نچت ے ہیں تو سجدہ کرت ے ہیں ۔ آ یا یہ سجدہ عل ی کے لئ ے ن ہیں ہے ؟آ یا خدا کے کے بار ے م یں شرک نہیں ہے ؟ ک ہ اس ک ے غ یر کا سجدہ کر یں ؟۔

خیرطلب :- میں اگر جناب عالی کہ جگ ہ پر ہ وتا ت و صحیح او ر معقول جواب سن لینے کے بعد سار ی رات بلکہ اس مناظر ے کا سلسل ہ ختم ہ ون ے تک دوبار ہ بحث ن ہ کرتا اور خاموش ر ہ تا ل یکن تعجب تو آپ سے ہے ک ہ پ ھ ر ب ھی گفتگو کر رہے ہیں لیکن ایسی گفتگو کہ ہ ر سنن ے وال ے کو ہ ن سی آجائے (حاضر ین کا زوردار قہ ق ہہ)

ائمہ علیھ م السلام کے روضو ں پر آستان ہ بوس ی شرک نہیں ہے

میں مجبور ہ و ں ک ہ پ ھ ر ا یک مختصر جواب پیش کروں تاک ہ معلوم ہ وجائ ے ک ہ ائم ہ معصوم ین کے مقدس آستانو ں کا چومنا شرک ن ہیں وا کرتا اور آپ ن ے ب ھی مغالطہ د ینے کی کوشش کی ہے ک ہ چومن ے کو سجد ہ قرارد ے د یا ۔ جب آپ خود ہ مار ے سامن ے اس طرح س ے کتاب ک ی عبارت پڑھ ن ے کے بعد تحر یف کرسکتے ہیں تو معلو م نہیں جس وقت بے پ ڑھے لک ھے عوام ک ے پاس تشر یف لے جات ے ہ و ں گ ے تو ہ م پر ک یا کیا تمہ مت یں لگاتے ہ و ں گ ے ۔

اس کتاب اور دوسری کتب ادعیہ و زیارات میں ہ م کو جو ہ دا یت دی گئی ہے وہ یہ ہے ک ہ ج یسا آپ ملاحظہ فرمار ہے ہیں ۔ زائر اظ ہ ار ادب ک ے لئ ے آستان ہ پر بو س ہ د ے ن ہ یہ کہ سجد ہ کر ے ۔

پہ ل ی چیز تو یہ ہے ک ہ آپ ن ے کس قاعد ے ک ی رو سے چومن ے کو سجد ہ کرنا سمج ھ ل یا؟ دوسرے آپ ن ے قرآن مج ید اور اخبار واحادیث میں کہ ا ں د یکھ ا کہ پ یغمبر یا کسی امام علیہ م السلام کی درگاہ ک ی چوکھٹ کو چومن ے س ے منع ک یا گیا ہ و یا بو سہ د ینے

۱۱۲

کو شرک کی علامت قرار دیا گیا ہ و؟ تو حاضر ین کا وقت ضائع نہ فرمائ یے ۔

لیکن جو آپ نے فرما یا کہ م یں نے سنا ہے ک ہ زائر ین سجدہ کرت ے ہیں تو یہ بلکل جھ و ٹ ہے

بسے فرق است ودیدن تاشنیدن ۔۔۔۔۔۔۔ شن یدن کے بود مانند د یدن

کیا خدا ئے تعال ی سورہ نمبر 94 (حجرات)آ یہ 6 میں ارشاد نہیں فرماتا؟ "ان جاءکم فاسق بنباء فتبینوا ان تصیبوا قوما بجهالة فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین" (یعنی جس وقت کوئی فاسق تمہ ار ے پاس کوئ ی خبر لائے تو (تصد یق کرنے س ے پ ہ ل ے )اس ک ی تحقیق کر لو ایسا نہ ہ و کہ نادان ی میں تم کسی قوم کم اس فاسق کی بات پر کوئی تکلیف پہ نچادو پ ھ ر اپن ے کئ ے پر پش یمان ہ ونا پ ڑے ) ۔ قرآن مج ید کے اس فرمان ک ے مطابق کلام فاسق پر عمل کرنا مناسب ن ہیں ہے تاک ہ ندامت ،خجالت کا باعث ن ہ ہ و ۔ بلک ہ تحق یق اور کشف حقیقت کی کوشش کرنا چاہیئے ۔ زحمت سفر برداشت کرک ے جائ یے اور دیکھ ئ ے اس کے بعد ا یراد و اشکال فرمایئے چنانچہ م یں جس وقت بغداد میں" ابو حنیفہ اور شیخ عبد القادر جیلانی " کی قبروں پر گ یا اور ان قبروں ک ے لئ ے عوام کر طرز عمل د یکھ ا (جو بدرجہ ا اس س ے ز یادہ سخت ہے جس ک ی آپ نے شیعوں پر تہ مت لگائ ی ہے ) تو ک ھ ب ی اس کو کسی مجلس یامحفل میں دہ را یا بھی نہیں ۔ خدائ ے بزرگ شا ہ د ہے چوک ھٹ ک ے بار بار زم ین کوچوم چوم رہے ت ھے اور خاک پر لو ٹ ت ے ت ھے ل یکن چونکہ م یں کینے اور عداوت کی نظر نہیں رکھ ن ا تھ ا ۔ اور اس عمل ک ی حرمت پر کوئی دلیل بھی نہیں دیکھی ہے ل ہ ذا اب تک اس کو ب یان کرنے ک ی بھی ضرورت نہیں سمجھی کیونکہ میں سمجھ تا ہ و ں ک ہ و ہ ازروئ ے محبت ا یسا عمل کررہے ت ھے ن ہ ک ہ ازروئ ے بندگ ی ۔

جناب محترم ! آپ یقین کیجیئے کہ کس ی (عارف یا جاہ ل )ش یعہ زائر نے ہ رگز سجد ہ ن ہیں کیا ہے اور ن ہ کرتا ہے ل یکن صرف خدا کے لئ ے اور آپ کا یہ فرمانا بالکل تہ مت و افترا اور ک ھ لا ج ھ و ٹ ہے ۔

ایسی صورت میں اگر سجدے ک ے ہی طرز پر ہ و جس کامطلب خاک پر گرنا اور چ ہ ر ہ و پ یشانی کو زمین پر ملنا ہے (بغ یر قصد بندگی کے ) تو کوئ ی حرج نہیں ہے اس لئ ے ک ہ کس ی بزرگ ذات کے سامن ے تعظ یم و تکریم کے خ یال سے (ن ہ ک ہ اس ک ی خدائی کی نیت سے خدا ک ے لئ ے شر یک قراردینے کے لئے ج ھ کنا ،)زم ین پر گرنا اور خاک پر منہ رک ھ نا ک ھ ب ی شرک نہیں ہ وتا بلک ہ محبوب س ے شد ید رابطہ تعظ یم خاک پر چہ ر ہ رک ھے اور بو س ہ د ینے کا سبب ہے ۔

شیخ:- یہ کیونکر ممکن ہے ک ہ خاک پر گر یں اور پیشانی زمین پر رکھیں پھ ر ب ھی سجدہ ن ہ ہ و؟ ۔

خیرطلب :-آپ سمجھ ت ے ہیں کہ سجد ے کا تعلق ن یت سے ہے ۔ اور ن یت ایک قلبی چیز ہے اور دلو ں اور

۱۱۳

دل ک ی نیتوں کا جاننے والا صرف خد ا ہے ۔ بظا ہ ر ہ م د یکھ ت ے ہیں کہ کوئ ی شخص یا اشخاص سجدے ک ی نوعیت سے زم ین پر پڑے ہ وئ ے ہیں ۔ (اور یہ ٹھیک ہے ک ہ ا یسے انداز میں جو خدا ئے تعالی سے مخصوص ہے اس ک ے غ یر کے سامن ے حاضر ہ ونا مناسب ن ہیں ہے چا ہے بغ یر نیت ہی کے ہ و ں ،ل یکن چونکہ ہ م اس ک ی دلی نیت سے آگا ہ ن ہیں ہیں لہ ذا اس کو سجد ے پر محمول ن ہیں کرسکتے سوا مخصوص سجد ے ک ے اوقات ک ے جب ک ہ ظا ہ ر ی صورت کوبھی ہ م سجد ہ ک ہ ت ے ہیں ۔

بھائیوں کا یوسف(ع) کے لیے خاک پر گرنا اور سجدہ کرنا

پس تعظیم و تکریم کے عنوان سے سجدے کے طرز بغیر نیت سجدہ کے) خاک پر گرنا کفر و شرک نہیں ہے چنانچہ برادرانِ یوسف(ع) نے حضرت یوسف(ع) کے سامنے اسی طرح کا سجدہ کیا اور دو پیغمبر ( یعقوب و یوسف(ع)) موجود تھے لیکن ان کو منع نہیں کیا جیسا کہ سورہ نمبر12 یوسف آیت نمبر101 سے ظاہر ہے ارشاد ہے

" وَ رَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَ خَرُّوا لَهُ سُجَّداً وَ قالَ: يا أَبَتِ هذا تَأْوِيلُ رُءْيايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَها رَبِّي حَقًّا "

(یعنی انہوں نے اپنے ماں باپ کے تخت پر بٹھایا اور وہ لوگ یوسف(ع) کے سامنے سجدے میں گر پڑے تب انہوں نے کہا اے بابا یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں پہلے دیکھ چکا ہوں ، واقعی خدا نے اس کوسچ کر دکھایا ۔ (1) نیز کئی مقامات پر کیا قرآن کریم آدم ابوالبشر کو فرشتوں کے سجدہ کرنے کی خبر نہیں دے رہا ہے؟ چنانچہ اگر آپ کا بیان صحیح ماں لیا جائے کہ سجدے کے طرز پر ( بغیر نیت عبودیت کے) خاک پر گرنا شرک ہے تو چاہئیے کہ ( معاذ اﷲ) برادران یوسف(ع) اور ملائکہ مقربین سب کے سب مشرک رہے ہوں اور صرف ابلیس ملعون موحد ہو جس نے سجدے سے انکار کیا۔ حالانکہ ( ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سب موحد اور خدا پرست تھے۔

میری گذاش ہے کہ آپ حضرات جاہلانہ اعتراضات اور بے بنیاد سنی سنائی باتوں کہ جنہیں امویوں ، باقی ماندہ خارجیوں، ناصبیوں اور متعصب اشخاص نے نقل کیا ہے ایسی محترم بزم میں جو مخصوص طور پر حق کی گفتگو اور انکشاف حقیقت کے لیے منعقد ہوئی ہے موضوع بحث نہ بنائیں تاکہ باعث ندامت و تضییع وقت نہ ہو اور اپنے بھید کو ظاہر نہ کریں کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ شیعوں کے اوپر آپ کے ایرادات و اعتراضات ہمیشہ اسی قسم کے ہوا کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ یہ خواب وہ ہے جس کی اسی سورے کے شروع میں خبر دیتا ہے کہ یوسف(ع) نے اپنے باپ سے عرض کیا کہ میں نے آفتاب و ماہتاب اور گیارہ ستاروں کو خواب میں دیکھا کہ مجھ کوسجدہ کر رہے ہیں اور حضرت یعقوب(ع) نے تعبیر دی کہ تم جلد ایک بلند منزل پر پہنچو گے اور تمہارے باپ ماں اور گیارہ بھائی تمہاری تعظیم کریں گے۔

۱۱۴

اب ضروری ہے کہ جناب حافظ صاحب کا بھی ایک مختصر جواب دیدوں چونکہ وقت کافی گذر چکا ہے لہذا طولانی بحث کا موقع نہیں ہے۔

جسم کی فنا کے بعد روح کی بقا

آپ حضرات چونکہ صاحبان علم ہیں لہذا بہتر ہے کہ غور و فکر کیساتھ بات کہا کریں نہ کہ عادات ، خیالات، جذبات اور اسلاف کی گفتگو کے ماتحت جیسا کہ آپ فرمارہے ہیں کہ شیعہ قبور اموات کے سامنے کس لیے حاجت طلب کرتے ہیں تو کہیں آپ مادہ پرست اور نیچری لوگں سے ہم عقیدہ تو نہیں ہوگئےہیں جو مرنے کے بعد زندگی کے قائل نہیں ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اذا مات فات ، کیونکہ خداوند عالم سورہ نمبر23 ( مومنون) آیت نمبر39 میں ان کے اقوال نقل فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں :

" إِنْ هِيَ إِلاَّ حَياتُنَا الدُّنْيا نَمُوتُ وَ نَحْيا وَ ما نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ "

یعنی سوا ہماری دنیاوی زندگی کے اور کوئی حیات نہیں ہے جس میں ہم مرتے ہیں اور زندہ رہتے ہیں اور ہم دو بارہ خاک سے نہیں اٹھائے جائیں گے۔

حضرات آپ بخوبی جانتے واقف ہیں کہ خدا پرستوں کے مضبوط عقائد میں سے ایک عقیدہ حیات بعد الموت بھی ہے کہ آدمی کی موت حیوانات کیخلاف ہوتی ہے جسم عنصری بے کار ہوجاتا ہے لیکن اس کی روح اور نفس ناطقہ باقی و پائدار ہے اور انہیں اجسام سے ملتے جلتے انتہائی لطیف جسموں کیساتھ عالم برزخ میں زندہ اور منتعم یا معذب رہیگا۔

خصوصا شہداء اور مقتولین راہ خدا، کیونکہ وہ حضرات اس سے کہیں زیادہ اضافوں کیساتھ زندہ، خدا کی نعمتوں سے متنعم اور اپنی جزا پر شاد و مسرور رہتے ہیں چنانچہ سورہ نمبر3 ( آل عمران) آیت نمبر169۔170 میں ارشاد ہے۔

"وَ لَا تحَْسَبنَ َّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فىِ سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتَا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِمَا ءَاتَئهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَ يَسْتَبْشرُِونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بهِِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيهِْمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُون "

( یعنی یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ شہیدان راہِ خدا مردہ ہیں بلکہ وہ ہمیشہ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے پاس نعمات اور روزی پاتے ہیں خدا نے ان پر اپنا جو فضل و کرم نازل کیا ہے اس سے خوش و خرم ہیں اور جو مومنین ابھی ان سے ملحق نہیں ہوئے ہیں اور بعد کو ان کے پیچھے پیچھے پہنچیں گے ان کے لیے خوش خبری دیتے ہیں کہ نہ ان کے لیے کسی قسم کا خوف ہے نہ وہ رنجیدہ ہوں گے ۔)

آیا روزی حاصل کرنا ، سرور و شادمانی اور پروردگار کے فضل و کرم سے مستفید ہونا مردوں کے لوازم میں سے ہیں۔ یا زندوں کے ؟ علاوہ اس کے صریحی طور پر فرماتا ہے ۔“ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ ” یعنی وہ لوگ زندہ ہیں اور قرب الہی میں روزی پارہے ہیں۔ آخر یہ اشخاص کیونکر زندہ ہیں اور روزی کس طرح سے کھاتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ جب رزق کھانے کے لیے منہ رکھتے ہیں۔ تو باتیں سننے کے لیے کان بھی رکھتے ہیں۔ اور جواب بھی دیتے ہیں ۔ لیکن ہمارے کانوں پر مادی پردے پڑٕے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ اسی وجہ سے ہم ان کی آواز نہیں سننتے ۔

۱۱۵

بقائے روح میں اشکال اور اس کا جواب

اہل سنت میں سے ایک جدت پسند جوان معروف بہ داؤو پوری نے جو جلسہ کے ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے گفتگو سن رہے تھے اجازت لے کے سوال کے نام سے اس عبارت کے ساتھ ایک شبہ وارد کیا۔

داؤد پوری : مولانا صاحب آپ کا یہ بیان آج کے محیرا لعقول علمی انکشافات سے میل نہیں کھاتا البتہ گذشتہ زمانوں میں جب علوم طبیعی نے ترقی نہیں کی تھی۔ کچھ لوگ جہالت کی وجہ سے ایک پوشیدہ قوت کے معتقد تھے جس کا نام روح رکھتے تھے لیکن آج جب کہ علم و دانش کا زریں دور ہے۔ اور علوم طبیعی اپنی پوری ترقی پر ہیں اس قسم کے عقائد کا لبادہ بوسیدہ ہوچکا ہے خصوصا یورپ کے ممالک میں جو علمی ترقیوں کا گہوارہ ہیں۔ ارباب دانش جیسے انگلینڈ کے “ ڈارون” اور جرمنی کے “ تبخر” وغیرہ نے ایسے سڑے ہوئے عقائد اور مخصوص طور پر روح کے وجود اور اس کے بقا کے عقیدے کا باطل ہونا ثابت کردیا ہے۔

خیر طلب : عزیز من ! اس قسم کے اقوال نئے نہیں ہیں اور بقول آپ کے زریں دور سے مخصوص نہیں بلکہ تقریبا دو ہزار چار سو سال ہوگئے ارباب مادہ و طبیعت کے حلقہ عمل سے ان کا ظہور ہورہا ہے۔

اہل مادہ طبیعت کا ظہور اور حکیم سقراط سے ویمقراطیس کا مقابلہ

یعنی جس زمانے میں ویمقراطیس اور اس کے پیرووں نے یونان میں سقراط ، افلاطون، ارسطو اور اسی طرح کے دوسرے حکمائے الہی سے مقابلہ کیا مادے اور طبیعت کے قائل ہوئے صاحب علم و ارادہ و قدرت و شعور خدا کا انکار کیا اور کہا کہ بغیر میڑ یعنی مادہ و مادیات کے جو حواس خمسہ میں سے کسی ایک سے محسوس ہوسکے کوئی دوسری چیز عالم میں موجود نہیں ہے۔ اور سارے ضروری تاثیرات مادوں کی طبیعت سے پیدا ہیں تو اسی وجہ سے یہ لوگ طبیعی اور مادی کے نام سے مشہور ہوئے جن کا خلاصہ اورجوہر اصلی آج کمیونسٹ کے نام سے دنیا میں نمایاں ہے اسی طرح کے فاسد عقیدے جو با علم و ارادہ قدرت و شعور خالق کے وجود سے انکار کے لوازم

۱۱۶

میں سے ہیں اسی کو تاہ نظر فرقے کے اندر ظاہر ہوئے اور علماء و فلاسفہ الہی نے زمانے کے ہر دور میں ان کے علمی منطقی جوابات دیئے ہیں۔ لیکن چونکہ آپ نے یورپ اور ڈروں ونجر کے نام لیے ہیں۔ لہذا میں مجبور ہوں کہ آپ جیسے تجدد پسند حضرات کو برادرانہ نصیحت کرتے ہوئے متوجہ کروں کہ علم و عقل اور منطق کا لازمہ یہ ہے کہ ہر کلام پر آنکھ بند کر کے ایمان نہ لے آئیے۔

اگر آپ نے ڈارون کے فلسفہ کا ( جو فرضیات ہیں نہ کہ فلسفہ) مطالعہ کیا ہے۔ تو ضروری ہے کہ اس کتاب اور اقوال و عقائد پر جو انتقادات اور تبصرے لکھے گئے ہیں ان کو بھی پڑھئیے اس کے بعد دانشمندانہ فیصلہ کر کے بہتر کا انتخاب کیجئے۔

چونکہ یورپ والوں کا علمی و عملی غلبہ اور سلطنت آپ لوگوں پر زیادہ رہی ہے لہذا جس وقت ڈارون اور نجز وغیرہ کی کوئی کتاب آپ لوگوں کے ہاتھ میں آتی ہے تو بہت بزرگ و شاندار نظر آتی ہے ۔ اور یہ سمجھ میں آتا ہے کہ در حقیقت سارا یورپ انہیں کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ اور یہ کتاب تمام فلاسفہ یورپ کے عقائد کا نمونہ ہے ۔ در آںحالیکہ ایسا نہیں ہے ( اب اگر ایسا ہو بھی جائے تو اس کی کوئی عملی قدر و قیمت نہ ہوگی۔)

یورپ میں علمائے الہی کے اقوال

جس طرح سے آپ طبیعی ڈارون کا فلسفہ پڑھتے ہیں اسی طرح الہی فلاسفہ کی کتابیں بھی پڑھئیے جو عام طور پر دستیاب ہوتی ہیں جیسے فرانسیسی “ کامیل فلاماریون” کی کتابیں جو یورپ کے مشہور ریاضی علماء میں سے ہے اور اسی نے برسوں معرفت نفس میں غور کرنے کے بعد حق تعالی کی وحدانیت کے اثبات ، عظمت روح اور موت کے بعد اس کی بقا پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں جیسے “ دیوان لاناتور” یعنی “ خدا اور طبیعت” اور مرگ و اسرار آں” کی جلدیں جن کا ایرانی اور مصری علماء نے فارسی اور عربی میں ترجمہ کیا ہے۔

ان کتابوں میں موت کے بارے میں تفصیلی کے ساتھ قلم فرسائی کی ہے اور صریحی طور پر کہتے ہیں کہ موت حقیقی کا فنا و نیستی کے معنی مین کوئی وجود نہیں ہے موت مراد ہے ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہونے کا ۔ آدمی صرف اپنا قالب بدلتا ہے یعنی اس عنصر جسم سے نکل کر ایک اس سے زیادہ لطیف پیکر اور صورت میں چلا جاتا ہے کیونکہ روح ( سرمایہ حیات) کے لیے کبھی نہیں بلکہ یہ باقی اور پائیدار ہے یہ نظر یہ سالہا سال کے قطعی تجربات کے بعد قائم ہوا ہے کہ روح اس بدن کے علاوہ ایک چیز ہے جو خود معنوی طور پر استقلال رکھتی ہے جسم کے فنا ہونے کے بعد باقی رہتی ہے اور دیکھ بھال کرتی ہے۔

۱۱۷

اس طرح کے علماء اور فلاسفہ الہی مثلا ہمعصر فیلسوف ، بروکسوں فرانسیسی “ فرانس کے مشہور دانش مند شاعر “ دیکتور ہوگو” جرمنی محقق “ نرمال” اور مشہور فرانسیسی فیلسوف “ دکارت” وغیرہ جن کے سارے اقوال نقل کرنا بلکہ ان سب کے ناموں کا تذکرہ کرنا بھی اس موقع پر ممکن نہیں بہت ہیں دانشمندان یوروپ ان کے وجود پر فخر کرتے ہیں نہ کہ طبیعی و مادی ڈارون اور نجز کے وجود پر۔

اولا چونکہ آپ جیسے روشن خیال جوان حضرات اہل مغرب کے اثرات کے ماتحت ان کی باتیں سننے پر مجبور ہیں لہذا کم از کم یہی کیجئے کہ صرف انگلینڈ کے ڈارون اور جرمنی کے نجز ہی کی کتابیں نہ دیکھئے بلکہ دوسرے فلاسفہ اور دانشمندان یورپ کی کتابیں پر بھی توجہ کیجئے۔

دوسرے دوںوں فرقے (الہی و طبیعی) کے عقائد پر غور و فکر کیجئے اور ان کی کتبون پر جو تبصرے اور انتقادات لکھے گئے ہیں۔ ان کو پڑھیئے تاکہ بہتر کا انتخاب کرسکے ۔ اگر آپ از روئے انصاف اور علم و عقل اور منطق کی نظر سے کتب فریقین ( الہی و طبیعی) کا مطالعہ کیجئے تو قطعی اور یقینی طور پر تصدیق کیجئے گا کہ انسان کا جسم چونکہ عالم خلق کے عناصر سے پیدا ہوا ہے) لہذا فنا ہوجاتا ہے اور روح عالم امر کی مخلوق ہے اس لیے زندہ ہے اور پائیدار ہے۔ یہ نہ مری ہے اور نہ مرے گی خصوصا شہدا اور حق و حقیقت توحید کی راہ میں نقل ہونے والے جو کتب آسمانی اور تعلیمات ربانی کے حکم کے علاوہ روحانی جنبے کے جسمانی حیثیت سے بھی زندہ اور گوش شنوا اور چشم بینا کے مالک ہوتے ہیں۔

چنانچہ زیارت حضرت سید شہدا علیہ الصلوة و السلام میں وارد ہے۔ اشہدانک تسمع کلامی و ترد جوابی یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ میرا کلام سنتے ہیں اور مجھ کو جواب دیتے ہیں۔ آیا آپ نے نہج البلاغہ کا خطبہ 83 نہیں پڑھا ہے جس میں رسول اکرم(ص) کی عترت طاہرہ(ع) کا تعارف کرایا گیا ہے ! فرماتے ہیں :

" أَيُّهَا النَّاسُ! خُذُوهَا مِنْ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ إِنَّهُ يَمُوتُ مَنْ يَمُوتُ مِنَّا وَ لَيْسَ بِمَيِّتٍ وَ يَبْلَى مَنْ بَلِيَ مِنَّا وَ لَيْسَ بِبَالٍ "

(یعنی اے لوگو ، اس مطلب کا خاتم النبیین (ص) سے حاصل کرو ( یعنی آںحضرت(ص) کا ارشاد ہے) کہ ہم میں سے جس کو موت آتی ہے ( در حقیقت وہ مردہ نہیں ہے اور وہ ہم میں سے سے جو بظاہر بوسیدہ ہوتا ہے وہ در حقیقت ) بوسیدہ نہیں ہے۔ یعنی ہم عالم انوار و ارواح میں ہمیشہ زندہ اور قائم رہتے ہیں ۔ جیسا کہ ابن ابی الحدید اور میثمی اور دیار مصر کے مشہور و معروف مفتی شیخ محمد عبدہ ان کلمات کی شرح میں کہتے ہیں کہ اہل بیت پیغمبر(ص) دوسروں کی طرح در حقیقت مردہ نہیں ہیں۔

چنانچہ اگر ہم بظاہر قبور ائمہ معصومین علیہم السلام کی سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو مردوں کی قبروں کے سامنے نہیں کھڑے ہوتے اور مردوں سے باتیں نہیں کرتے بلکہ ہم زندہ اور صاحبان حیات کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور زندوں ہی سے گفتگو کرتے ہیں پس ہم مردہ پرست نہیں ہیں بلکہ خدا پرست ہیں۔ کیونکہ خدا ہی ان حضرات کی روحوں اور جسموں کو زندہ اور محفوظ رکھتا ہے۔

۱۱۸

آیا آپ حضرات امیرالمومنین علی ابن ابی طالبا(ع) یا سید الشہدا حضرت امام حسین علیہما السلام یا بدر و احد اور کربلا کے شہیدوں کو دین حق کے فدائی اور راہ خدا کے جانباز نہیں سمجھتے ؟ جنہوں نے قریش و بنی امیہ ، یزید اور یزیدیوں کے ( جن کا سب سے برا مقصد حقائق دین کا انکار اور اس کے آثار کا مٹانا تھا) خانماں سوز ظلم کا مقابلہ کیا اور مقدس دین اسلام اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ کی راہ میں اپنی جاںیں قربان کردیں۔ جس طرح سے صحابہ رسول(ص) کی مقاومت اور شہدائے بدر واحد و حنین کی جانبازیاں کفر و شرک کی شکست اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ کی بلندی کا سبب بنیں اسی طرح حضرت امام حسین علیہ السلام کے عزم و فداکاری نے دین حق کی تقویت میں پورا اثر دکھایا اگر حضرت (ع) مقابلہ نہ کرتے تو یزید پلید لع دین کی جڑکاٹ کے اپنے کفریات باطن اورعقائد فاسدہ کو جماعت مسلمین کے اندر جامہ عمل پہنا دیتا۔

معاویہ و یزید کی خلافت اور ان کے کفر کی طرف سے مخالفین کا دفاع اور اس کا جواب

شیخ : آپ سے سخت تعجب ہے کہ خلیفتہ المسلمین یزید ابن معاویہ کو کافر اور فاسد العقیدہ کہتے ہیں حالانکہ اتنا نہیں جانتے کہ یزید کو خلیفہ امیرالمومنین اور خال المومنین معاویہ بن ابی سفیان نے منصب خلافت پر قائم کیا اور معاویہ کو خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب اور خلیفہ ثالث عثمان مظلوم رضی اﷲ عنہما نے بلاد شام میں امارت مسلمین کے عہدے پر ںصب کیا اور ان کی لیاقت و قابلیت کی وجہ سے لوگوں نے ان کو رضا اور رغبت کیساتھ مقام خلافت کے لیے قبول کیا پس آپ جو خلیفتہ المسلمین کی طرف کفر اور ارتداد کی نسبت دے رہے ہیں تو علاوہ اس کے کہ آپ نے تمام مسلمانوں کی اہانت کی جنہوں نے ان کی خلافت کو تسلیم کیا ! بہت بڑی توہین ان پچھلے خلفاء کی بھی ہے جنہوں نے عہدہ امارت اور حقیقتہ ان کی خلافت کی منظوری دی ان سے فقط ایک لغزش و خطا اور ایک ترک اولی صادر ہوا کہ ان کے زمانہ خلافت میں ریحانہ رسول اﷲ کو لوگوں نے قتل کردیا اوریہ عمل چونکہ عفو اور چشم پوشی کے قابل تھا لہذا انہوں نے توبہ کر لی اور خداوند غفور نے بھی اس کو معاف کردیا چنانچہ امام غزالی اور دمیری نے اس مطلب کو تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے ۔ اور یزید کی طہارت و پاکدامنی کو ثابت کردیا ہے۔

خیر طلب : مجھ کو بالکل اس کی توقع نہیں تھی کہ جناب کا درجہ تعصب اس حد تک ہوگا کہ یزید عنید پلید کے وکیل صفائی بن جائیں گے آپ نےجو یہ فرمایا ہے کہ ان کے اسلاف نے ان لوگوں کی امارت کو درست سمجھا لہذا لا محالہ

۱۱۹

مسلمانون کا فرض ہے کہ کورانہ اس کو تسلیم کریں اور ان کی اطاعت کریں تو آپ کا یہ بیان بہت کمزور ہے اور صاحبان عقل کے لیے مخصوص طور پر جمہوریت کے اس ( نام و نہاد) علم و حکمت کے دور ہیں قابل قبول نہیں اور ہمارے دلائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم کہتے ہیں خلیفہ کو معصوم اور من جانب اﷲ ہونا چاہیئے تاکہ ہم ان دشواریوں سے دوچار نہ ہوں دوسرے آپ کا یہ فرماں کہ امام غزالی یا دمیری وغیرہ نے یزید کے اعمال کی صفائی پیش کی ہے ۔ تو وہ بھی آپ ہی کے ایسے تھے جیسا کہ آپ کا تعصب آپ کے علم وعقل پر غالب آگیا ہے ورنہ کوئی عقلمند انسان اس پر تیار نہیں ہوسکتا کہ یزید پلید کا وکیل صفائی بنے کیونکہ بچاؤ کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔

تیسرے آپ کا یہ قول کہ فقط ایک لغزش اور خطا اس سے صادر ہوئی اور وہ شہادت حضرت سید الشہدا سلام اﷲ علیہ تھی تو پہلی بات یہ ہے کہ رسول اﷲ(ص) کے پارہ جگر کو ستر چھوٹے بڑے افراد کے ساتھ بغیر کسی قصور کے شہید کرنا اور اسلام کے نوامیس بزرگ رسول اﷲ(ص) کی بیٹیوں کو روم و فرنگ کے قیدیوں کے مانند کھلم کھلا اسیر کرنا لغزش اور غلطی نہیں تھی بلکہ گناہاں کبیرہ میں سے ہے دوسرے اس کی بد اعمالیاں اور کفریات تنہا ان حضرات کی شہادت ہے سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ اس کے کفر و ارتداد کے ثبوت میں مختلف نظیریں موجود ہیں۔

نواب : قبلہ صاحب ! میری گذارش ہے کہ اگر یزید کے کفر و ارتداد پر کچھ واضح دلیلیں موجود ہیں تو ہم کو بھی آگاہ فرمائیے ممنون ہوں گے۔

یزید کے کفر ارتداد پر دلائل

خیر طلب : یزید کے کفر و ارتداد پر دلیلیں بہت روشن اور واضح ہیں۔ چنانچہ اپنے کلمات نظم و نثر میں وہ خود برابر اپنے باطنی کفریات کا اظہار کرتا رہتا تھا خصوصا اس کے اشعار خمریہ میں کھلے ہوئے دلائلی پائے جاتے ہیں ۔

وہ کہتا ہے۔

شمسية عدم بوجها فغر دنها فمشرقها الساقی و مغربها فمی

فان حرمت ي وما علی د ي ن احمدفخذها علی د ي ن المس ي ح ابن مر ي م

خلاصہ مطلب یہ کہ کہتا ہے ، انگوری شربت دست ساقی کے مشرق سے طالع ہوتی ہے اور میرے دہن کے مغرب میں غروب ہوتی ہے پس اگر شراب دین محمدی(ص) میں حرام ہے تو اس کو دین مسیح ابن مریم پر لے لو ( یعنی مسیح ابن مریم کے دین کی پیروی کرو ۔ نیز کہتا ہے:

اقول لصحب ضمّت الكاس شملهم و داعى صبابات الهوى يترنّم

خذوه بنص ي ب من ؟؟؟ ولذة فکل وان طال الهدی ي تصرم

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369