پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310276 / ڈاؤنلوڈ: 9438
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خان ے م یں ان کی کوئی نہ کوئ ی جلد او رنسخہ موجود ہے ۔

چنانچہ اگر فقہ ک ی استدلالی کتابوں اور عمل یہ رسائل کامطالعہ ک یجئے تو آپ دیکھیں گے ک ہ علاو ہ اس ک ے ک ہ کوئ ی شرک کاطریقہ موجود نہیں ہے ،احکام ب ھی مہ مل اور ب ے قاعد ہ ن ہیں ہیں بلکہ فق ہ جعفر ی کے باطن س ے توح ید کا لب لباب ظاہ ر و آشکار ہے ۔

شرح لمعہ اور شرائع الاسلام سار ے کتب خانو ں م یں موجود ہیں ان کامطالعہ ک یجیے تو اسی باب نذر میں نیز جملہ فق ہ ائ ے ش یعہ کے عمل یہ رسالوں م یں ملے گا ۔ نذر چونک ہ خدا ک ے لئ ے کس ی عمل کو اپنے اوپر لازم کرن ے ک ی وجہ س ے ابواب عبادت م یں سے ا یک باب ہے ل ہ ذا اس ک ے لئ ے حت می طور پر دو شرطوں کا لحاظ رک ھ نا ضرور ی ہے ۔ ک یونکہ اگر ان دونوں م یں سے کوئ ی مفقود ہ وگ ی تو نذر منعقد نہ ہ وگ ی ،اول:- نیت متصل بہ عمل ، اور دوسر ی :- صیغہ چاہے و ہ جس زبان م یں ہ و ۔

جب مسلمان یہ سمجھ ل ے گا ک ہ اس ک ی نذر بغیر ان دو شرطوں ک ے صح یح نہ ہ وگ ی تو کوشش کرے گا ک ہ پ ہ ل ے ان دونو ں کامطلب اور نوع یت سمجھ ل ے اس ک ے بعد نذر کر ے جس وقت کس ی فقیہ سے سوال کر ے گا یا کوئی رسالہ پ ڑھے گا تو اس کو معلوم ہ وگا ک ہ اولا سار ی عبادتوں م یں بالخصوص نذر میں نیت اللہ ک ے بار ے م یں اور اللہ ک ی خوشنودی حاصل کرنے ک ے لئ ے ہ ونا چا ہ ئ یے لہ ذا غ یر خدا کے لئ ے ن یت کا سوال یہ ختم ہ و جاتا ہے ۔

دوسری شرط جو پہ ل ی شرط کا تتمہ ہے اور اس کو مضبوط کرن ے وال ی ہے ، یہ ہے ک ہ نذر کن ے وال ے کو نذر ک ے وقت ص یغہ پڑھ نا لازم ی ہے اور ص یغہ میں جب تک خدا کا نا م نہ ہ و ص یغہ جاری نہیں ہ وتا ،مثلا روز ے ک ی نذر کرنا چاہ تا ہے ۔ تو ک ہے "لل ہ عل یّ ان اصوم"

یا شراب ترک کرنا چاہ تا ہے تو ک ہے "لل ہ عل یّ ان اترک شرب الخمر" اور اسی طریقے سے دوسر ی نذریں ہیں۔

اگر فارسی یا اردو وغیرہ بولنے وال ے ک ے لئ ے عرب ی صیغہ جاری کرنا آسان نہ ہ و تو ہ ر قوم والا اپن ی زبان میں صیغہ جاری کر سکتا ہے اس شرط س ے ک ہ ا س ک ے معن ی مذکورہ ص یغہ سے مطابق ہ و ں ، اور اگر ن یت میں غیر خدا ہ و یا کسی اور زندہ یا مردہ کو خدا ک ے نا م ک ے سات ھ شامل کر لے ۔ چ ہ ل ہے پ یغمبر یا امام یا امام زادے ہی کا نام ہ و تو قطعا و ہ نذر باطل ہے اور اگر عمدا جان بوج ھ کر ا یسا کرے تو مشرک ہے ک یونکہ مذکورہ آ یت میں کھ لا ہ و ا ارشاد ہے "ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا" البت ہ ا ہ ل علم پر لازم ہے ک ہ نا واقف لوگو ں کو سمج ھ ا ئ یں کہ ن ذر قطعا خدا کے نام پر اور خدا ہی کے لئ ے ہ ونا چا ہیئے ،چنانچہ واعظ ین اور مبلغین برابر اپنا فرض انجام دیتے رہ ت ے ہیں ۔ اور ش یعہ فقہ ا عموما ب یان کیا کرتے ہیں کہ نذر ہ ر زند ہ یا مردہ ک ے لئ ے چا ہے و ہ پ یغمبر یا امام ہی ہ و باطل ہے اور اگر سمج ھ ک ے عمدا ا یسا کرے ت و مشرک ہے ۔

۸۱

نذر صرف خدا کے لئ ے کر یں اس کے مصرف ک ے تع ین میں اختیار ہے ۔ مثلا نذر کر ے ک ہ خدا ک ے لئ ے کوئ ی گوسفند فلاں مکان یا عبادت خانے یا بقعہ امام وغ یرہ میں لے جا کر قربان ی کرے گا ۔یا کوئی رقم یا لباس خدا کے لئ ے فلا ں س یّد یا عالم یا یتیم یا فقیر کو دے گا تو کوئ ی حرج ن ہی ں ہے ،ل یکن اگر پیغمبر یا امام یا امام زادہ یا عالم یا یتیم یا محتاج وغیرہ کے لئ ے نذر کر ے تو حتما باطل ہے اور علم وقصد ک ے سات ھ قطعا شرک ہے ۔ ہ ر رسول ،فق یہ ،عالم، واعظ اور مبلغ کا فرض لکھ نا اور ب یان کرنا ہے "وما علی الرسول الا البلاغ" یعنی پیامبر پر سوا مکمل طریقے سے پ ہ نچا د ینے کے اور کوئ ی ذمہ دار ی نہیں ہے ۔ سور ہ نور آ یت ۵۴۔

اور لوگوں کا فرض سننا اور عمل کرنا ہے اگر کوئ ی شخص یا اشخاص احکام دین کے س یکھ ن ے اور سکھ ان ے ک ی کوشش نہ کر یں اور ہ دا یات کے مطابق اپن ے مذ ہ ب ی فرائض پر عمل نہ کر یں تو ان کے اصل عق یدے اور اصول وقواعد میں کوئی نقص نہیں پیدا ہ وتا ۔

میرا خیال ہے ک ہ اس ی قدر جواب سے حق یقت ظاہ ر ہ وگئ ی ہ وگ ی اور اس کے بعد آپ حضرات ش یعوں کو مشرک کہہ کر عوام کو غلط ف ہ م ی میں مبتلا نہ کر یں گے ۔

شرک خفی

بہ تر ہے ک ہ ہ م لوگ پ ہ ل ی گفتگو کی طرف رجوع کریں اور مطلب پورا کریں ۔ دوسر ی قسم شرک خفی و پوشیدہ ہے اور و ہ شرک در اعمال اور طاعات وعبادات میں رہ ا ہے اس قسم ک ے شرک اور شرک در عبادت ک ے درم یان جس کو ہ م ن ے شرک جل ی میں شمار کیا ہے فرق یہ ہے ک ہ بند ہ سرک عب ادت میں خدا کے لئ ے شر یک قرار دیتا ہے اور مقام عبادت م یں اس کی پر ستش کرتا ہے ،مثلا اگر نماز یمں غیر خدا کو مد نظر رکھے جیسے شیاطین کے ب ہ کان ے س ے مقام ولا یت کی صورت نگاہ م یں لائے یا کسی مرشد کو مر کز توجہ بنائ ے تو قطعا و ہ عمل باطل اور شرک خف ی ہے ، عبادت میں سوا ذات وحدہ لاشر یک کے انسان ک ے ذ ہ ن وفکر م یں اور کسی کو دخل نہ ہ ونا چا ہیئے ورنہ شرک جل ی میں داخل ہ وجاتا ہے ۔

حضرت رسول خدا(ص) سے مرو ی ہے ک ہ فرما یا "یقول الله تعالی من عمل عملا صالحا اشرک فیه غیری فهو له کله وانا منه برئ وانا اغنی الاعنیاء عن الشرک" یعنی خدائے تعال ی فرماتا ہے ک ہ جو شخص کوئ ی نیک عمل کرے اور اس م یں میرے غیر کو شریک کرلے تو سارا عمل اس ی کے لئ ے ہے اور م یں اس (عمل یا عامل) سے ب یزار ہ و ں اور م یں تمام اغنیا سے ز یادہ شک سے غن ی ہ و ں۔

۸۲

ن یز روایت میں ہے ک ہ ارشاد فرما یا جو شخص نماز پڑھے یا روزہ رک ھے یا حج کرے اور اس کا نظر یہ یہ ہ و ک ہ لوگ اس عمل پر اس ک ی مدح کریں "فقد اشرک فی عملہ "تو یقینا اس نے ا س عمل میں خدا کے لئ ے شر یک قرار دیا۔

نیز کاشف اسرار حقائق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ک ہ "لو ان عبدا عمل عملا یطلب به رحمة الله والدار الآخرة ثم ادخل فیه رضا احد من الناس کان مشرکا" (یعنی اگر کوئی بندہ رحمت خدا اور جزائ ے آخرت ک ی طلب میں کوئی عمل کرے اور اس م یں کسی انسان کی رضامندی کو شامل کرے تو و ہ عامل مشرک ہ و جائ ے گا) ۔

شرک خفی کا دامن بہ ت وس یع ہے ک یونکہ کسی عمل میں غیر خدا کی طرف ایک مختصر سی توجہ ب ھی مشرک بنا دیتی ہے ۔

شرک در اسباب

اس شرک کی قسموں م یں سے ا یک شرک در اسباب ہے ج یسا کہ اکثر لوگ صرف اسباب اور خلق پر ام ید وخوف کی نظر رکھ ت ے ہیں ، یہ بھی شرک ہے ل یکن شرک در اسباب سے مراد یہ ہے ک ہ اسباب ہی میں اثر سمجھے مثلا آفتاب اش یا کی تربیت میں اثر انداز ہ وتا ہے اگر اس اثر کو ب غیر مؤثر حقیقی کی طرف توجہ کئ ے ہ وئ ے خود آفتاب کی جانب سے سمج ھیں تو شرک ہے اور اگر اس کا مؤثر حک یم مطلق کو اور آفتاب کو فیض رسانی کا ذریعہ جانیں تو ہ رگز شرک ن ہیں ہے ،بلک ہ یہ تو ایک طرح کی عبادت ہے ک یونکہ حق کی نشانیوں پر توجہ کرنا خود حق ک ی طرف توجہ کرنے کا پ یش خیمہ ہے ؛ج یسا کہ قرآن مج ید کی بہ ت س ی آیتوں میں اس امر کی جانب اشارہ موجود ہے ک ہ آ یات الہی پر غور کرو اس لئے ک ہ فکر ونظر خود خدائ ے تعال ی کی طرف توجہ کا مقدم ہ ہے ۔

اسی طرح اسباب میں سے ہ ر سبب ک ی طرف جیسے تاجر کی تجارت کی طرف ،کاشتکار کی زراعت کی طرف ،باغبان کی باغبانی کی طرف ،پیشہ ور کی پیشہ ور کی طرف اور منتظم کی اپنے انتظام ک ی طرف یہ ا ں تک کہ کس ی قسم کا کام کرنے وال ے ک ی اپنے شغل اور عمل ک ی طرف مستقل اور خاص توجہ مشرک بناد یتی ہے اور اگر سبب و اسباب پر اس ک ی نظر اس نیت سے ہ و ک ہ "لا مؤثر ف ی الوجود الا اللہ " یعنی اثر دینے والا سوا خدا کے کوئ ی اور نہیں ہے تو کوئ ی قباحت نہیں ہے اور شرک ن ہ ہ وگا ۔

شیعہ کسی پہ لو س ے مشرک ن ہیں

اس مختص تمھید کے بعد جس س ے مطلب واضح ہ وگ یا ہے اور ہ م اصول شرک اور اس ک ے معان ی وآثار بیان کرچکے ہیں ، اب اجازت دیجئے کہ اپن ے ب یانات سے نت یجہ نکالیں اور دیکھیں کہ ہ م ن ے شرک جل ی و خفی کے جو طر یقے بیان

۸۳

کئے ہیں ان میں سے کس ک ے ماتحت آپ ش یعوں کو مشرک کہ ت ے ہیں ۔ آ یا کہ ا ں اور کس پ ڑھے لک ھے یا جاہ ل ش یعہ سے آپ ن ے سنا ہے ک ہ و ہ خدائ ے تعال ی کی ذات وصفات اور افعال میں کسی شریک کا قائل ہ و؟ یا پروردگار کی عبادت میں کسی دوسرے معبود کو پ یش نظر رکھ تا ہ و ؟ یا شیعوں کی کونسی کتب اور اخبار واحادیث میں دیکھ ا ہے ک ہ اصول وفروع اور عقائد ک ے بار ے م یں ان بزرگان دین اور ائمہ طا ہ ر ین سے کوئ ی ایسی بات یا حکم منقول ہ و جو شرک ک ے ان طر یقوں سے ملتا ہ و جو م یں نے عرض ک یئے ؟۔

اب رہ ا شرک خف ی اور اس کے اقسام ج یسے لوگوں کو دک ھ ان ے اور ان کو متاثر کرن ے ک ے لئ ے کوئ ی عمل کریں یا اسباب سے ربط او ر ام ید قائم کریں تو یہ بات تنہ ا ش یعوں سے مخصوص ن ہیں ہے بلک ہ ش یعہ اور سنی سبھی عالم اجسام میں گرفتار ہیں اور بہ ت س ے عقل ومعرف ت ،تزکیہ نفس اور کامل توجہ ن ہ ہ ون ے ک ی وجہ س ے کب ھی کبھی شیطان کے وسوسو ں م یں مبتلا ہ و کر ر یائی عمل کرتے ہیں ،یا سرتا پا اسباب میں محو ہ وجات ے ہیں اور حق کی اطاعت سے ہٹ کر اطاعت ش یطان کرنے لگت ے ہیں اور جیسا عرض کیا جاچکا ہے اگر چ ہ یہ طرز عمل شرک ک ے مف ہ وم م یں آجاتا ہے ل یکن شرک مغفور ہے اور یقینا معانی اور چشم پوشی کے قابل ہے ک یونکہ تھ و ڑی روحانی توجہ س ے اس ک ی تلافی ہ وجات ی ہے ۔ پ ھ ر آپ کس پ ہ لو س ے ش یعوں کو مشرک سمجھ ت ے ہیں ؟ اور عوام کو دھ وک ے م یں ڈ الت ے ہیں ،جیسا کہ ف ی الحال آپ نے اشار ہ ک یا ہے ۔

حافظ:- آپ کی ساری باتیں صحیح ہیں لیکن میں نے عرض ک یا کہ اگر آپ غور فرمائ یے تو خود تصدیق کیجئے گا کہ امامو ں س ے حاجت طلب کرنا اور ان کا وس یلہ اختیار کرنا شرک ہے چونک ہ ہ م ک و انسانی واسطے ک ی ضرورت نہیں ہے ل ہ ذا جب ب ھی خدا کی طرف توجہ کر یں گے نت یجہ حاصل ہ وجائ ے گا ۔

خیرطلب :- بڑے تعجب کا مقام ہے ک ہ آپ کا ا یسا منصف اور ہ وش یار عالم کیونکر بغیر تحقیق کے اپن ے اسلاف ک ی عادتوں ک ے ز یر اثر رہ کر ا یسے بیان دیتا ہے ،غالبا آپ سور ہے ت ھے یا میری گزارشوں ک ی طرف کوئی توجہ ن ہیں تھی کہ ان مقدمات کو ذکر کرن ے کا اور مطالب ک ی تشریح کردینے کے بعد ب ھی آپ یہ بات دہ را ر ہے ہیں کہ امامو ں س ے حاجت چا ہ نا شرک ہے ۔

جناب محترم! کیا مطلقا مخلوقات سے حاجت طلب کرنا شرک ہے ؟ اگر ایسا ہے تو سارا عالم مشرک ہے اور کب ھی کوئی موحد مل نہیں سکتا ۔ اگر خلق س ے حاجت چا ہ نا اور ان س ے مدد ک ی خواہ ش کرنا شرک ہے تو انب یاء کس لئے خلائق س ے امداد مانگت ے ت ھے ؟ ب ہ تر ہ و گا ک ہ آپ ح ضرات کسی قدر قرآن مجید کی آیتوں پر بھی غورفرمائیں تاکہ حق یقت واضح ہ وجائ ے ۔

۸۴

آصف بن برخیا کا سلیمان کے پاس تخت بلق یس لانا

ضرورت ہے ک ہ سور ہ نمبر۲۷(نمل)ک ی آیات نمبر ۳۸ تا ۴۰ پر توجہ فرمائ یے جن میں ارشاد ہے " قَالَ يَا أَيُّهَا المَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ٭ قَالَ عِفْريتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ ٭ قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرّاً عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ٭ "( یعنی جناب سلیمان نے حاضر ین مجلس سے ک ہ ا ک ہ تم م یں سے کون شخص بلق یس کا تخت میرے پاس لائے گا ، قبل اس ک ے ک ہ و ہ لوگ م یرے سامنے اطاعت گزار بن ک ے آئ یں ؟ جنا ت میں سے ا یک دیو بولا کہ م یں اس کا تخت لے آن ے پر ا یسا قادر اور امین ہ و ں ک ہ آپ ک ے دربار س ے ا ٹھ ن ے س ے پ ہ ل ے ہی لا کر حاضر کردوں گا ، اس شخص ن ے جس کو ت ھ و ڑ ا سا علم کتاب معلوم ت ھ ا ( یعنی آصف بن برخیا جو اسم اعظم جانتے ت ھے ) ک ہ ا ک ہ م یں آپ کی پلک جھ پکن ے سے قبل اس کو یہ ا ں لے آؤ ں گا ۔ جب سل یمان نے و ہ تخت اپن ے پاس د یکھ ا تو کہ ا ۔ یہ طاقت میرے پروردگار کے فضل س ے ہے ۔۔ ال ی آخر) بدیہی چیز ہے ک ہ بلق یس کا اتنا بڑ ا تخت اتن ی طویل مسافت سے پلک ج ھ پکن ے س ے قبل سل یمان کے پاس ل ے آنا عاجز مخلوق کا کام ن ہیں ہے اور مسلّم ہے ک ہ ا یک خلاف عادت امر ہے ل یکن حضرت سلیمان نے یہ سمجھ ت ے ہ وئ ے ب ھی کہ یہ کام خدائی قدرت چاہ تا ہے تخت منگوان ے ک ی درخواست خدا سے ن ہیں کی بلکہ ا یک عاجز مخلوق سے حاجت روائ ی اور امداد کی خواہ ش ک ی اور اہ ل دربار س ے فرمائش ک ی کہ و ہ ع ظیم الشان تخت میرے لئے منگوادو، ل ہ ذا خود جناب سل یمان کا عاجز بندوں س ے یہ تقاضا کرنا کہ تم م یں سے کون اپن ی خدا داد قوت سے یہ کام انجام دے سکتا ہے اور تخت بلق یس کو اس کے آن ے س ے پ ہ ل ے م یرے سامنے حاضر کرسکتا ہے ؟ اس بات کا ثبوت ہے ک ہ مخلوق س ے مطلق حاج ت چاہ نا شرک ن ہیں ہے ۔ خدا ن ے دن یا کو عالم اسباب قرار دیا ہے ۔ شرک ب ھی ایک قلبی امر ہے اگر اس شخص کو جس س ے حاجت طلب کر رہ ا ہے خدا یا خدا کا شریک نہ سمج ھے تو اس س ے مدد ل ینے میں کبھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ عام طور پر لوگو ں م یں رواج ہے ک ہ ہ م یشہ زید ،عمر وبکر کے درواز ے پر جاکر بغ یر خدا کا نام زبان پر جاری کئے ہ وئ ے امداد کا تقاضا کرت ے ہیں ۔

چنانچہ اگر کوئی مریض طبیب اورڈ اک ٹ ر ک ے درواز ے پر جاکر ک ہے ک ہ ڈ اک ٹ ر صاحب م یری فریاد کو پہ نچئ ے ،ب یماری مجھ کو مار ے ڈ الت ی ہے تو ک یا یہ مریض مشرک ہے ؟ ۔

اگر کوئی دریا میں ڈ وبن ے والا ہ و فر یاد کرے ک ہ لوگو م یری مدد کو پہ نچو اور مج ھ کو بچاؤ اور خدا کا نام ن ہ ل ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟ ۔

۸۵

اگر کسی ظالم نے کس ی بے گنا ہ مظلوم کا پ یچھ ا کیا اور اس نے وز یر اعظم کے در پر جا ک ے ک ہ ا جناب وز یر صاحب میری فریاد رسی کیجئے ۔ م یں آپ کا دامن نہ چ ھ و ڑ و ں گا ک یونکہ مجھ کو سوا آپ ک ے اور کس ی سے ام ید نہیں جو مجھ کو اس ظالم ک ے پنج ے س ے چ ھٹ کارا دلائ ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟ ۔

اگر کسی کے گ ھ ر کوئ ی چور جان یا مان یا عزت کے قصد س ے داخل ہ وا اور و ہ کو ٹھے پر چ ڑھ ک ے اپن ے پ ڑ وس یوں کو مدد کے لئ ے پکار ے اور رسما ک ہے ک ہ لوگو م یری مدد کو دوڑ و اور اس چور س ے بچاؤ ل یکن اس وقت خدا کا نا بالکل نہ ل ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟

قطعا جواب نفی میں ہ وگا اور کوئ ی عقلمند آدمی ایسے کو مشرک نہیں کہے گا بلک ہ جو لوگ مشرک ک ہیں وہ یا تو بیوقوف ہیں یا پھ ر ان ک ی کوئی غرض ہے ۔

محترم حضرات ! انصاف کیجئے اور غلط فہ م ی نہ پ ھیلائے ، بالعموم سارے ش یعہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئ ی شخص آل محمد کو خدا سمجھے یا ان کو خدائی ذات وصفات او رافعال میں شریک جانے تو و ہ قطع ی مشرک ہے ۔ اور ہ م لوگ اس س ے ب ے ب یزاری اختیار کرتے ہیں ۔ اگر آ پ نے مص یبتوں میں شیعوں کو" یا علی ادرکنی " یا حسین ادرکنی" کہ ت ے ہ وئ ے سنا ہے تو اس ک ے معن ی یہ نہیں ہیں کہ " یا علی اللہ ادرکن ی" یا حسین اللہ ادرکن ی" بلکہ دن یا چونکہ دار اسباب ہے ک یونکہ "ابی الله ان یجری الامور الا باسبابها" یعنی اللہ ن ے امور کو ب غیر ان کے اسباب نافذ کرن ے س ے انکار ک یا ہے (مترجم)۔ ل ہ ذا ش یعہ اس خاندان جلیل کو وسیلہ اور اسباب نجات سمجھ ت ے ہیں اور انہیں حضرات کے ذر یعے سے خدا تک رسائ ی کی کوشش کرتے ہیں ۔

حافظ:- مستقل طور پر خدا ہی سے ک یوں حاجت طلب نہیں کرتے ک ہ وس یلہ اور واسطہ ک ے پ یچھے دوڑ ر ہے ہیں ؟

خیر طلب :-طلب حاجات اور رنج وغم کے دف یعہ میں ہ مار ی مستقل توجہ پروردگار ہی کی یکتاذات سے مخصوص ہے ل یکن قرآن مجید جو ایک محکم آسمانی کتاب ہے ہ م کو ہ دا یت کررہ ا ہے ک ہ خدا ک ی جلیل بارگاہ م یں وسیلے کے سات ھ حاضر ہ ونا چا ہ ئ یے چنا نچہ سور ہ نمبر ۵ (مائد ہ )آ یت نمبر۳۶ میں ارشاد ہ وتا ہے "یا ایهاالذین آمنوا اتقوالله وابتغوه الیه الوسیلة" (یعنی اے ا یمان والو خدا سےڈ رو اور اس ک ی بارگاہ م یں پہ نچن ے ک ے لئ ے (اول یائے حق کا) وسیلہ اختیار کرو (تاکہ مطلب برآئ ے ) ۔

آل محمد (ع)فیض الہی کے ذر یعے ہیں

ہ م شیعہ اہ ل ب یت طاہ ر ین علیھ م السلام کو امور کے حل وعقد م یں قادر مطلق نہیں سمجھ ت ے بلک ہ ان حضرات کو خط ک ے صالح بند ے اور ف یض خداوندی کاواسطہ جانت ے ہیں اور اس جلیل القدر خاندان کے سات ھ ہ مارا توسل رسول الل ہ

۸۶

ک ے حکم س ے ہے ۔

حافظ:- کس مقام پر رسول اکرم (ص) نے ان س ے توسل اخت یار کرنے کا حکم د یا ہے اور ک ہ ا ں س ے معلوم ہ و ا ک ہ واسط ے س ے مراد آل محمد (ص) ہیں ؟ ۔

خیرطلب :-بکثرت حدیثوں میں حکم دیا ہے ک ہ خطرات اور م ہ لکو ں س ے نجات حاصل کرن ے ک ے لئ ے م یری عزت اور اہ ل ب یت سے متوسل ہ و ۔

حافظ:- یا یہ ممکن ہے ؟ اگر ا یسی حدیثیں آپ کی نظر میں ہیں تو ہ مار ے سامن ے ب ھی بیان فرما دیجیئے۔

خیرطلب :-آپ نے جو یہ فرمایا کہ ک ہ ا ں س ے معلوم ہ و ا ک ہ وس یلے سے مراد عترت اور ا ہ ل ب یت پیغمبر (ع) ہیں ؟ تو آپ کے اکابر علماء ج یسے حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی "نزول القرآن فی علی " میں حافظ ابو بکر شیرازی "ما نزل من القرآن فی علی "میں اور امام احمد ثعلبی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ آ یہ شریفہ میں وسیلہ سے مراد عترت و ا ہ ل ب یت رسول(ع)ہیں ۔ چنانچ ہ علماء م یں سے شرح ن ہ ج البلاغ ہ جلد چ ہ ارم صفح ہ ۷۹ م یں حضرت صدیقہ کبری فاطمہ ز ہ را سلام الل ہ عل یھ ا کا وہ خطب ہ نقل ک یا ہے جو جناب معصوم ہ ن ے قض یہ فدک کے سلسل ے م یں مہ اجر ین انصار کے سامن ے ارشاد فرما یا تھ ا چنانچ ہ خطب ے ک ے شروع ہی میں ان مظلومہ ن ے مندرج ہ ذ یل عبارت کے سات ھ اس آ یت کے معن ی کی طرف اشارہ فرما یا ہے "واحمدالل ہ الذ ی بعظمتہ ونور ہ یبتغی من فی السموات والارض الیہ الوسیلۃ ونحن وسیلتہ فی خلقہ "( یعنی میں حمد کرتی ہ و ں اس خدا ک ی جس کی عظمت اور نور کی وجہ س ے آسمانو ں اور زم ینوں کے ر ہ ن ے وال ے اس ک ی طرف وسیلہ تلاش کر تے ہیں ، اور ہ م ہیں اس کا وسیلہ مخلوقات کے اندر ۔

حدیث ثقلین

عترت رسول اور اہ لب یت طاہ ر ین علیھ م السلام سے تمسک و توسل اور ان ک ی پیروی کے جواز پر مضبوط دل یلوں میں سے ا یک حدیث ثقلین بھی ہے جو فر یقین کے نزد یک صحیح اسناد کے سات ھ توا تر ک ی حد تک پہ نچ ی ہ وئ ی ہے ک ہ رسول الل ہ (ص) س ے ارشاد فرمایا "ان تمسکتم بهما لن تضلوا بعدی" (یعنی اگر ان کے سات ھ تمسک رک ھ و گ ے تو م یرے بعد ہ رگز گمرا ہ ن ہ ہ وگ ے ) ۔

حافظ:- میرا خیا ل ہے ک ہ آپ ن ے د ھ وکا ک ھ ا یا ہے جو اس حد یث کو صحیح الاسناد اور متواتر کہہ د یا ہے ۔ اس لئ ے ک ہ یہ مقصد ہ مار ے اکابر علماء ک ے نزد یک غیر معلوم ہے اور اس بات پر دل یل یہ ہے ک ہ ہ مار ے ش یخ بزرگ اور مذہ ب

۸۷

سنت وجماعت ک ے قبل ہ وکعب ہ محمد بن اسماع یل بخاری نے اپن ی معتبر صحیح میں جو قرآن کریم کے بعد تمام کتابو ں س ے ز یادہ صحیح ہے اس کا ذکر ن ہیں کیا ہے ۔

خیر طلب :-اول تو یہ کہ م یں نے د ھ وکا ن ہیں کھ ا یا ہے بلک ہ اس حد یث مبارک کا صحیح اور معتبر ہ و نا آپ ک ے علماء ک ے نزد یک مسلم ہے یہ ا ں تک کہ ابن حجر مک ی نے اتن ے سخت تعصب ک ے بعد اس ک ی صحت کا اعتراف کیا ہے ۔ ضرورت ہے ک ہ اپن ے ذ ہ ن کو روشن کرن ے ک ے لئ ے صواعق محرق ہ فصل دوم با ب ۱۱ ذیل آیہ چہ ارم صفح ہ ۸۹-۹۰ ک ی طرف رجوع کیجئے جہ ا ں و ہ ترمذ ی ،امام احمد بن جنبل ،طبرانی ،اور مسلم سے روا یتیں نقل کرنے ک ے بعد ک ہ ت ے ہیں "اعلم ان لحدیث التمسک با الثقلین طرقا کثیرۃ و وردت من نیف و عشرین صحابیا "(یعنی جان لو کہ ثقل ین (عترت رسول اور قرآن مجید)سے تمسک کرن ے ک ی حدیث بہ ت طر یقوں سے مرو ی ہے یہ بیس سے ز یادہ اصحاب رسول (ص)سے نقل ہ وئ ی ہے ) ۔

پھ ر کہ ت ے ہیں کہ حد یث کے طرق م یں تھ و ڑ ا سا اختلاف ہے کس ی میں کہ ت ے ہیں کہ حج ۃ الوداع میں عرفات کے اندر ، کس ی میں مرض الموت کے عالم م یں مدینے کے اندر جب حجر ہ صحاب ہ س ے ب ھ را ہ وا ت ھ ا کس ی ،میں ملتا ہے غد یر خم کے اندر اور کس ی میں درج ہے ک ہ طائف س ے وا پسی کے بعد کا ذکر ہے اس ک ے بعد خود ہی تبصرہ کرت ے ہ وئ ے ک ہ ت ے ہیں کہ ان اختلافات م یں کوئی منافات نہیں ہے اور بلکل ممکن ہے ک ہ رسول اکرم (ص)نے قرآن کر یم اور عترت طاہ ر ہ ک ی عظمت وشان ثابت کرنے ک ے لئ ے ان سار ے مقامات پر بار بار اس حد یث کو ارشاد فرمایا ہ و ۔

بغیر تعصّب کے بار یک بینی سعادت کا سبب ہے

دوسرے آپ نے یہ فرمایا ہے ک ہ بخار ی کا اپنی صحیح میں نقل نہ کرنا اس حد یث کے صح یح نہ ہ ون ے ک ی دلیل ہے تو آپ کا یہ بیان بہ ت س ی وجہ و ں س ے قابل رد اور علماء ک ے نزد یک لائق نفرت ہے ک یونکہ یہ حدیث مبارک اگرچہ بخار ی نے اپن ی صحیح میں درج نہیں کی ہے ،ل یکن آپ کے اکابر علماءن ے بالعموم اس کو نقل ک یا ہے یہ ا ں تک کہ بخار ی کے ہ مسر مسلم بن حجاج اور سار ے ارباب صحاح ست ہ نس اپن ی معتبر کتابوں م یں تفصیل کے سات ھ ذکر ک یا ہے ۔

یا تو آپ حضرات کوچاہیئے کہ تمام صحاح اور اپن ے علماء ک ی معتبر کتابوں کو د ھ و کر دور پ ھینک دیجیئے اور اپنے سار ے عقائد کو صرف بخار ی تک محدود رکھیئے یا اگر دوسرے علماء ک ی عدالت اور علم ودانش کے معترف م یں جواپنے دور ا ہ ل سنت ک ے درم یان علم وفہ م او ر تقو ی میں ممتاز ت ھے خصوصا صحاح ست ہ ک ے مؤلف ین تو آپ کا فرض ہ وگا ک ہ اگر کس ی خبر کو اپنی مصلحتوں ک ی بنا پر بخاری نے ن ہیں لکھ ا ہے اور دوسرو ں ن ے نقل ک یا ہے تو اس کو قبول فرمائ یے ۔

۸۸

حافظ:- مصلحت کوئی بھی نہیں تھی صرف امام بخاری محتاط بہ ت ز یادہ تھے اور نقل اخبار م یں بہ ت جانچ پ ڑ تال کرت ے ت ھے چنانچ ہ جس روا یت کو سند یا عبارت کے لحاظ س ے مشکوک اور عقل ک یخلاف پایا اس کو نقل نہیں کیا ۔

خیر طلب :- قاعدہ "حب الشیء یعمی ویصم"(یعنی کسی چیز کی محبت آدمی کو اندھ ا اور ب ہ را بناد یتی ہے )ک ے مطابق اس مقام پر حضرات ا ہ ل سنت کو غلط ف ہ م ی ہ وئ ی ہے ک یوں کہ آپ ان ک ے بار ے م یں غلو رکھ ت ے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ امام بخار ی بہ ت بار یک بین تھے او ر جو روا یت انہ و ں ن ے اپن ی صحیح میں درج کی ہے و ہ انت ہ ائ ی معتبر اور وحی کی منزل کے مانند ہے حالانک ہ ا یسا ہے ن ہیں ، بخاری کے سلسل ہ اسناد م یں بکثرت مردود ،منفور کذاب اور جعال اشخاص موجو د ہیں۔

حافظ:- آپ کایہ بیان مردود ومنفور ہے اس لئ ے ک ہ آپ ن ے بخار ی کے مرتب ہ علم ودانش ک ی توہین کی ہے ( یعنی سارے ا ہ ل سنت وجماعت ک ی اہ انت ک ی ہے )-

خیرطلب :-اگر علمی تنقید اہ انت ہے تو آپ ک ے تمام ب ڑے ب ڑے علماء جن ہ و ں ن ے روا یات کی گہ ر ی تحقیق کی ہے اور آپ ک ی معتبر صحاح کی بلکہ مخصوص طور پر صح یح بخاری اور صحیح مسلم کی بہ ت س ی روایتوں کو ان کے سلسل ہ اسناد م یں مردود ،کذاب اور جعال شخص کے موجو د ہ ون ے ک ی وجہ س ے رد کرد یا ہے ، سب س ے مرتب ہ علم ودانش ک ی تو ہین کرنے وال ے اور مردود ت ھے۔

بہ تر ہ وگا آپ حضرات کتب اخبار م یں ذرا دقت نظر سے کام ل یں اور مطالعے ک ے وقت غلو ک ی نگاہ س ے ن ہ د یکھیں کہ چ ونکہ یہ بخاری یا مسلم ہیں لہ ذا جو کچ ھ نقل کرد یا ہے ہ ر ح یثیت سے صح یح اور یقینی ہے ۔

ضروری ہے ک ہ آپ ک ے و ہ علماء جو صحاح ست ہ اور بالخصوص صح یح بخاری اور صحیح مسلم کے بار ے م یں غلو کا عقیدہ رکھ ت ے ہیں پہ ل ے ان کتابو ں ک ی طرف رجوع فرما ئیں جو اخبار کی جرح وتعدیل میں لکھی گئی ہیں تا کہ امام بخار ی کی قدر منزلت اور نقل احادیث میں ان کی گہ ر ی تحقیق کی حقیقت معلوم ہ وجائ ے ۔ اگر آپ "اللئا ل ی المصنوعۃ فی احادیث الموضوعۃ" ،سیوطی "میزان الاعتدال" تلخیص المستدرک ذہ ب ی" تذکرۃ الموضوعات ابن جوزی " تاریخ بغدادمؤلفہ ابو بکر احمد ابن عل ی خطیب بغداد اور علم رجال میں اپنے دوسر ے بزرگ علماء ک ی ساری کتابیں پ ڑھیں تو پھ ر مج ھ پر اعتراض ن ہ کر یں اور یہ فرمائیں کہ تم ن ے حضرت بخار ی کی اہ انت ک ی ہے

۸۹

بخاری اور مسلم نے مردود اور جعل سازرجال س ے روا یتیں نقل کی ہیں

آخر میں نے کون س ی بات عرض کی کہ آپ اس قدر غ ھہ م یں بھ ر گئ ے ؟م یری گذارش تو صرف یہی تھی کہ آپ ک ی صحاح یہ ا ں تک کہ صح یحین ،بخاری ومسلم میں بھی مردود اور کذاب رجال سے ب ھی روایات اور احادیث مروی ہیں۔ اگر آپ کتب رجال کو پ یش نظر رکھ ت ے ہ وئ ے صح یح بخاری کی روایتوں کا غور سے مطالع ہ فرمائ یں تو نظر آجائے گا ک ہ ان ہ و ں ن ے بکثرت جعّال ،وضّاع اور مردود رجال س ے خبر یں نقل کی ہیں جیسے ابو ہ ر یرہ کذّاب ،عکرمہ خارج ی،محمد بن عبد سمر قندی محمد بن بیان ، ابراہیم بن مہ د ی ابلی بنوس بن احمد واسطی ،محمد بن خالد حنبلی،محمد بن محمد یمانی،عبد اللہ بن واقد حرّان ی ابوداؤد سلیمان بن عمر کذّاب ،عمران بن حطّان اور ان کے علاو ہ دوسر ے مردود راو ی جن کی پوری فہ رست پ یش کرنے کا ن ہ وقت ہے ن ہ سب م یرے حافظہ م یں محفوظ ہے اگر آپ رجال ک ی کتابیں ملاحظہ فرمائ یں تو حقیقت امر ظاہ ر ہ وجائ ے گ ی کہ حضرت بخار ی ویسے نہیں ہیں جیسے آپ کی نگاہ و ں م یں پھ ر ر ہے ہیں ،یعنی غیر معمولی طور پر تحقیق اور احتیاط سے کام ن ہیں لیتے تھے بلک ہ نقل اخبار م یں اشخاص کے صرف ظا ہ ر ی حالات پر توجہ رک ھ ت ے ت ھے ۔ہ مار ی اصطلاح میں اپنی جگہ پر ب ہ ت خوش ف ہ م اور خوش عق یدہ تھے اور جس شخص سے ب ھی کوئی ایسی روایت سن لی جو بظاہ ر ٹھیک ہ و اس ک ی درج کر لیا۔

اس مطلب پر خود آپ کے علماء ک ی کتب رجالیہ گواہ ہیں جن میں سے بعض ک ی طرف میں اشارہ کرچکا ہ و ں ک ہ ان ہ و ں ن ے موضوع اور مردود روا یات کی چھ ان ٹ ک ے الگ کرد یا ہے اور بخار ی و مسلم کے سلسلہ روا یات میں محققانہ وقت نظر س ے کام ل یتے ہ وئ ے ان م یں سے ب ہ تو ں کا پرد ہ فاش کردیا ہے تاک ہ ہ مار ی اور آپ کی توجہ مبذول ہ و اور ان کتابو ں پر نظر رک ھ ت ے ہ وئ ے آج رات کو یہ نہ فرمائ یے کہ حد یث ثقلین اور عترت طاہ ر ہ ہے تمسک کو بخار ی نے اپن ی احتیاط کی وجہ س ے نقل ن ہیں کیا ۔ آ یا عقل باور کرتی ہے ک ہ ا یک محقق اور محتاط عالم غیرمؤثق ،کذّاب او ر وضّاع روایوں سے ا یسی فرضی روایتیں نقل کرے جو ا ہ ل علم اور ارباب عقل ودانش ک ے نزد یک مضحکہ بن ک ے ر ہ جائ یں کیاکلیم اللہ کا ملک الموت ک ے من ہ پر طمانچ ہ مارک ے ان کو اندھ ا بنا د ینا یا آپ کا پا برہ ن ہ بغ یر ساتر عورتین کے بن ی اسرائیل کے درم یان دوڑ نا جس ک ا تذکرہ م یں نے پ ہ ل ے کرچکا ہ و ں ،خرافات اور مو ہ ومات م یں سے ن ہیں ہے ؟

کیا قیامت کے روز خدا ک ی رویت یا اس کے زخم ی پاؤں یا اپنی پنڈ ل ی کھ ولن ے ک ی حدیثیں جو انہ و ں ن ے صح یح کے اندر نقل ک ی ہیں اور ان میں سے بعض ک ی طرف میں اشارہ ب ھی کر چکا ہ و ں کفر یات میں سے ن ہیں ہیں۔ ؟

۹۰

صحیحین بخاری ومسلم میں مضحک روایت اور رسو ل(ص)کی اہ انت

کیا یہ بخاری کی سخت علمی اور عملی احتیاط ہی کا نتیجہ ہے ک ہ اپن ی صحیح جلد دوم "باب اللہ و با الحراب "صفحہ ۱۲۰ م یں اسی طرح مسلم جلد اول "باب الرخصۃ فی اللعب الذی ما معصیۃ فیہ فی ایام السعید" میں ابو ہ ر یرہ سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ ع ید کے روز کچ ھ حبش ی سیّاح مسجد رسول (ص) میں جمع ہ وئ ے ت ھے اور ناچ کود ک ے فن س ے لوگو ں کو خوش کر ر ہے ت ھے رسو ل الل ہ (ص) ن ے عائش ہ س ے فرما یا کیا تم بھی دیکھ نا چاہ ت ی ہ و؟ ان ہ و ں ن ے عرض ک یا ہ ا ں یا رسول اللہ (ص) ۔ حضرت ن ے ان کو اپن ی پیٹھ پر اس طریقہ سے سوال ک یا کہ ان ہ و ں ن ے اپنا سر آن حضرت (ص)کے کاند ھے ک ے اوپ ر سے نکالا اور چ ہ ر ہ آپ ک ے چ ہ ر ہ مبارک پر رک ھ ل یا۔ آنحضرت(ص) عائش ہ کو محفوظ کرن ے ک ے لئ ے ان لوگو ں کو ترغ یب دے ر ہے ت ھے ک ہ اس س ے ب ہ تر نا چ دک ھ ائ یں ،یہ ا ں تک عائشہ ت ھ ک گئ یں تو ان کو زمین پر اتار دیا ۔

خدا کے لئ ے انصاف ک یجئے کہ اگر آپ حضرات م یں سے کس ی کی طرف ایسی بات منسوب کی جائے تو ک یا آپ ناراض نہ ہ و ں گ ے اور اس کو اپن ی توہین نہ سمج ھیں گے ؟ اگر کوئ ی جناب حافظ صاحب سے ک ہے ک ہ مج ھ س ے ا یک راوی نے ب یان کیا ہے ک ہ کل شب م یں جب حافظ صاحب کے مکان ک ی پشت پر بازی گروں کا ا یک دستہ سازندگ ی او ربازیگری میں مشغول تھ ا تو میں نے د یکھ ا جلیل القدر عالم جناب حافظ صاحب اپنی بیوی کو پیٹھ پر اٹھ ائ ے تماش ہ د یکھ ار ہے تھے بلک ہ باز یگروں سے یہ بھی کہہ ر ہے ت ھے ک ہ خوب ناچ ے جاؤ تاک ہ م یری بیوی اور لطف اندوز ہ و ۔ تو للل ہ سچ ک ہ ئ یے گا کہ یہ بات سن کر حافظ صاحب متاثر اور شرمندہ تو ن ہ ہ و ں گ ے ؟ اور اس کو ا یک مخلص خادم ہ ون ے ک ے بعد اگر کس ی شخص سے ا یسی خبر سنوں چا ہے و ہ بظا ہ ر معتبر ہی ہ و تو ک یا میرے لئے اس کونقل کرنا مناسب ہے ؟ اور اگر م یں بیان کردوں تو عقلمند لوگ یہ نہ سمج ھیں گے ک ہ فلاں جاہ ل ن ے ا یک بات کہ د ی تو آپ نے ہ وش یار ہ وکر ک یوں اس کو نقل کیا؟۔

اب ذرا بخاری کی روایتوں پر فیصلہ دیجئے کہ اگر و ہ واقع ی محقق اور اخبار کی چھ ان ب ین کرنے وال ے ت ھے تو فرض ک یجئے ایسی روایت انہ و ں سن ی تھی تو کیا مناسب تھ ا ک ہ اس کو اپن ی کتاب میں نقل بھی کریں اور پھ ر مولو ی صاحبان اس کتاب کو "اصح الکتب بعد القرآن "بتائیں ؟

لیکن حدیث ثقلین کو جس میں رسول اللہ (ص) اپن ی امت کو حکم دے ر ہے ہیں کہ م یرے بعد قرآن مجید اور میرے اہ ل ب یت طاہ ر ین علیھ م السلام سے تمسک کرو، نقل ن ہ کر یں (کیونکہ عترت کا نام بیچ میں ہے ) البتہ فرض ی گھڑی ہ وئ ی روایتیں جن کی پو ری تفصیل کا وقت نہیں اپنی کتابوں ک ے ابواب م یں درج کریں۔

۹۱

ہ ا ں ایک پہ لو س ے م یں ضرور آپ کی تصدیق کرتا ہ و ں ک ہ علماء ا ہ ل سنت ک ے درم یان بخاری صاحب یقینا اس حیثیت سے ب ہ ت محتاط ت ھے ک ہ جس روا یت میں یہ نظر آیا کہ عنوان امامت و ولا یت کے لحاظ س ے ولا یت علی ابن ابی طالب علیھ ما السلام او ر حرمت اہ لب یت طاہ ر ین علیھ م السلام کے ثبوت م یں کوئی راہ نکل ر ہی ہے تو احت یاطا اس کو نقل نہیں کیا کہ ا یسا نہ ہ و کس ی روز عقلمندوں ک ے ہ ات ھ کا حرب ہ بن جائ ے اور و ہ حق و حق یقت کو ظاہ ر کرد یں ۔ چنانچ ہ جب ہ م صحاح ک ی جلدوں کا صح یح بخاری سے مقابل ہ کرت ے ہیں تو اس نتیجے تک پہ نچت ے ہیں ۔ کہ اس روشن موضوع پر کوئی روایت چاہے و ہ متواتر ،ضرور ی اور قرآن وآیات الہی کی تائید سے مضبوط ہی ہ و ان ہ و ں ن ے نقل ن ہیں کی ہے ج یسے آیات مبارکہ "یا ایها الرّسول بلغ ما انزل الیک من ربّک " ، "انما ولیکم الله و رسو له و الذین آمنو الذین یقیمون الصلواة و یوتون الزکا ة و هم راکعون"،"و انذر عشیرتک الاقربین" وغ یرہ کی شان میں بکثرت حدیثیں ،حدیث ولایت یوم الغدیر ، حدیث انذار ، حدیث مواخات ، حدیث، حدیث سفینہ ،حدیث با ب الحطہ اور دوسر ی حدیثیں جو اہ لب یت طہ ارت عل یھ م السلام کی حرمت وولایت کے اثبات س ے نسب ت رکھ ت ی تھیں انہ و ں ن ے احت یاطا نقل نہیں کیں ۔ ل یکن ہ ر و ہ حد یث جو انبیاء کرام او ر با لخصوص حضرت خاتم الا نبیاء (ص) کے وجود اقدس اور آنحضرت (ص) ک ی عترت طاہ ر ہ ک ے مقامات ومدارج عال یہ کی اہ انت کا کوئ ی پہ لو رک ھ ت ی تھی وہ (چا ہے کس ی جعّال ،کذّاب اور وضّاع ہی سے م نقول ہ و)بغ یر احتیاط کے نقل کرد ی جن میں بعض کی طرف اشارہ ہ و چکا ہے ۔

حدیث ثقلین کے اسناد

اب میں مجبور ہ و ں ک ہ آپ ک ی بعض کتابوں ک ی طرف اشارہ کرو ں تاک ہ آپ ب ھی جان لیں کہ حد یث مبارکہ ثقل ین کو اگر بخاری صاحب نے درج ن ہیں کیا ہے تو آپ ک ے دوسر ے اکابر وموثق ین علماء یہ ا ں تک کہ بخار ی کے ہ م پل ہ (ج یسا کہ آپ ب ھی مانتے ہیں )مسلم بن حجاج نے ب ھی نقل کیا ہے ۔

مسلم بن حجاج نے "صح یح مسلم"جلد ہ فتم صفح ہ ۱۲۲ م یں ،ترمذی نے " صح یح " میں ، ابو داؤد نے "سنن "جزء دوم صفح ہ ۲۰۷ م یں نسائی نے " خصائص "صفح ہ ۳۰ م یں ، امام احمد بن جنبل نے "مسند "جلد سوم صفح ہ ۱۴-۱۷ وجلد پنجم صفح ہ ۱۸۲-۱۸۹ م یں ،حاکم نے مستدرک"جلد سوم صفح ہ ۱۰۹ -۱۴۸ میں ،حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی نے "حل یۃ الاولیا " جلد اول صفحہ ۳۵۵ م یں ،سبط ابن جوزی نے تذکر ۃ صفحہ ۱۸۶ م یں ، ابن اثیر جوزی نے اسد الغاب ہ جلد دوم صفح ہ ۱۲ وجلد سوم صفح ہ ۱۴۷ م یں حمیدی نے جمع ب ین الصحیصین میں ، رزین نس "جمع بین الصحاح الستہ "م یں ، طبرانی نے "کبیر" میں ،ذہ ب ی نے " تلخیص مستدرک" میں ، ابن عبد ربہ ن ے "عقد الفر ید" میں محمد ابن طلحہ شافع ی نے "مطالب السئول" م یں ، خطیب خوارزمی نے " مناقب" م یں سلیمان بلخی

۹۲

حنفی نے " ینابیع المودۃ"باب ۴ میں ، میر سید علی ہ مدان ی نے "مود ۃ القربی " کی مودۃ دوم میں ، ابن ابی الحدید نے " شرح ن ہ ج البلاغ ۃ " میں ، شبلنجی نے " نور الابصار" صفح ہ ۹۹ م یں ،نورالدین بن صباغ مالکی نے " فصول الم ہ م ہ "صفح ہ ۲۵م یں ، حموینی نے فرائد السبط ین میں ،امام ثعلبی نے "مناقب "م یں ، محمد بن یوسف کنجی شافعی نے "کفا یت الطالب"باب اول بیان صحت خطبہ غد یر خم وضمن باب ۶۲صفحہ ۱۳۰ م یں ، محمد بن سعد کاتب نے " طبقات" جلد چ ہ ارم صفح ہ ۸ م یں ، فخر الدین رازی نے " تفس یر کبیر "جلد سوم ضمن آیہ اعتصام صفحہ ۱۸ م یں ابن کثیر دمشقی نے " تفس یر" جلد چہ ارم ضمن آ یہ مودت صفحہ ۱۱۳ م یں ،ابن عبد ربہ ن ے "عقد الفر ید" جلد دوم صفحہ ۱۵۸ ،۳۴۶ میں ، ابن ابی الحدید نے " شرح ن ہ ج البلا غ ہ " جزء ششم صفح ہ ۱۳۰ ،سل یمان حنفی نے ینابیع المودۃ صفحات۱۱۵،۹۵،۳۴،۳۲،۳۱،۳۰،۲۹،۲۵،۱۸، ۲۳۰،۱۹۹،۱۲۶، میں مختلف عبارتوں ک ے سات ھ ،ابن حجر مک ی نے صواعق محرق ہ صفحات ۱۳۶،۹۹،۹۰،۸۷،۷۵، م یں مختلف عبارتوں ک ے سات ھ اور آپ کے دوسرے اکابر علماء ن ے جن ک ے سار ے اقوال کرنا اس مختصر جلس ہ م یں دشوار ہے الفاظ وعبارات ک ے مختصر اختلاف ک ے سات ھ اس حد یث مبارک کو جو نقل اقوال خاصہ وعام ہ ہے تواتر ک ی حد تک پہ نچ ی ہ وئ ی ہے رسول اکرم(ص) س ے نقل ک یا ہے ک ہ آپ(ص) ن ے فرما یا "انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی اهلبیتی لن یفترقا حتی یردا علی الحوض من توسل(تمسک) بهما فقد نجی ومن تخلف عنها فقد هلک ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا ابدا " ( یعنی بہ تحق یق میں تمہ ار ے درم یان دو گرانقدر چیزیں چھ و ڑ ر ہ ا ہ و ں ،الل ہ ک ی کتاب(قرآن مجید) اور میری عترت و اہ ل بیت یہ دونوں آپس م یں ایک دوسرے س ے جدا ن ہ ہ و ں گ ے یہ ا ں تک کہ حوض کوثر ک ے کنار ے م یرے پاس پہ نچ جائ یں جو شخص ان دونوں س ے توسل وتمسک رک ھے گا و ہ یقینا نجات یافتہ ہے اور جو شخص ان دونو ں س ے من ہ مو ڑے گا تو و ہ یقینا ہ لاک شد ہ ہے جب تک ان دونو ں س ے تمسک کروگ ے ہ رگز کبھی گمراہ ن ہ ہ و ں گ ے ) ۔

یہ ہ مار ی ایک محکم دلیل ہے ک ہ ہ م رسو ل (ص)ک ے حکم س ے قرآن کر یم اور اہ ل ب یت طاہ ر ین(ص) سے تمسک وتوسل رک ھ ن ے پر مجبور ہیں۔

شیخ:- اس حدیث کو صالح بن موسی بن عبداللہ بن اسحق بن طلح ہ بن عبدالل ہ القرش ی التیمی،الطلحی نے اپن ی سند کے سات ھ ابو ہ ر یرہ سے اس طرح نقل ک یا ہے ک ہ ۔ "انی قد خلفت فیکم ثنتین کتاب الله و سنتی الی آخر"

خیر طلب :- آپ نے پ ھ ر ا یک طرفہ ا یک بدکار ،متروک ، ضعیف اور ارباب جرح وتعدیل ، جیسے ذہ ب ی ،یحیی ،امام نسائی ،بخاری ،اور ابن عبد ربہ وغ یرہ کے نزد یک مردود فرد سے حد یث نقل کرکے وقت ضائع ک یا ۔

جناب من!

کیا آپ ہی کے اکابر علماء س ے اس قدر معتبر روا یتوں کا نقل کرنا آپ کے لئ ے کاف ی نہیں ہ وا جو آپ اپن ے نقاد

۹۳

علماء ک ے نزد یک ایسی ناقابل قبول حدیث کا سہ ارا ڈھ ون ڈھ ا ؟ حالانک ہ فر یقین (سنی ،شیعہ)کا اس پر اتفاق ہے ک ہ رسول اکرم ن ے کتاب الل ہ و عترت ی فرمایا ہے ن ہ کہ سنت ی کیونکہ کتاب وسنت دونوں اپن ے لئ ے شارح چا ہ ت ی ہیں۔ اور جب سنت خود شارح ک ی محتاج ہے تو قرآن ک ی پوری شارح نہیں بن سکتی لہ ذا عد یل قرآن ،عترت اور اہ ل ب یت ہیں جو قرآن کی تفسیر کرنے وال ے بھی ہیں اور سنت رسول(ص)ظاہ ر کرن ے وال ے ب ھی ۔

حدیث سفینہ

اہ ل بیت رسول (ص) کے توسل پر ہ مار ی دلیلوں میں سے معتبر حد یث سفینہ بھی ہے جس کو آپ ک ے ب ہ ت ب ڑے ب ڑے علماء ن ے تقر یبا تواتر کی حد تک نقل کیا ہے ۔ جس قدر م یرے پیش نظر ہے آپ ک ے سو۱۰۰ نفر س ے ز یادہ اکابر علماء نے اپن ی کتابوں م یں درج کیا ہے ،مثلا مسلم بن حجاج نے اپن ی "صحیح "میں ، امام احمد بن حنبل نے "مسند" م یں ،حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی نے "حل یۃ الاولیاء" میں ، ابن عبد البر نے " است یعاب" میں ، ابو بکر خطیب بغدادی نے " تار یخ بغداد" میں ، محمد ابن طلحہ شافع ی نے " مطالب السئول" م یں ، ابن اثیر نے "ن ہ ا یہ" میں ، سبط ابن جوزی نے " تذکر ہ "م یں ، ابن صباغ مالکی نے "فصول الم ہ م ہ " م یں ،علامہ نورالد ین سمہ ود ی نے "تار یخ المدینہ" میں ، سید مومن شبلنجی نے "نور الابصار"م یں ، امام فخر الدین رازی نے "تفس یر مفا تیح الغیب"میں ، جلال الدین سیوطی نے "در المنثور "م یں امام ثعلبی نے "تفس یر کشف البیان" میں ، طبرانی نے "اوسط"م یں ،حاکم نے " مستدرک " م یں جلد سوم صفحہ ۱۵۱ م یں ،سلیمان بلخی حنفی نے " ینابیع المودۃ" باب ۴ میں ،میر سید علی ہ مدان ی نے "مودت القرب ی " مودت دوم میں ، ابن حجر مکی نے " صواعق محرق ہ " ذ یل آیت ہ شتم م یں ۔ طبر ی نے اپن ی "تفسیر اور تاریخ"میں ، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے "کفا یت المطالب "باب ۲۳۳ اور آپ کے دوسر ے ب ڑے ب ڑے علماء ن ے نقل ک یا ہے ک ہ حضرت خاتم الانب یاء نے فرما یا " انما مثل اہ لب یتی کمثل سفینۃ نوح من رکب نجی ومن تخلف عنھ ا ھ لک"( یعنی سوا اس کے ن ہیں ہے ک ہ تم ہ ار ے درم یان میرے اہ ل ب یت کی مثال کشتی نوح کے مثل ہے ک ہ جو شخص پر سوار ہ و ا اس ن ے نجات پائ ی ۔ اور جس شخص ن ے اس س ے روگردان ی کی ہ لاک ہ وگ یا)۔

نیز امام محمد بن ادریس شافعی نے اپن ے اشعار م یں اس حدیث کی صحت کی طرف اشارہ ک یا ہے ۔ چنانچ ہ علام ہ فاضل عج یلی نے "ذخ یرۃ المال میں ان کو اسطرح سے نقل ک یا ہے ۔

ولمّا رایت النّاس قد ذهبت بهم ------ مذاهب هم فی ابحر الغیّ والجهل

رکبت علی اسم الله فی سفن النجاة ------ وهم اهل بیت المصطفی خاتم الرّسل

وامسکت حبل الله وهو ولاؤهم ------ کما قد امرنا بالتمسک بالحبل

اذا افترقت فی الدین سبعون فرقة ------ وینفا علی ما جاء فی اصح النقل

ولم یک ناج منهم غیر فرقة ------ فقل لی بها یا ذا الرجائة ولعقل

۹۴

انی الفرقة الهلاک آل محمد ------ ام الفرقة اللاتی نجت منهم لی قل

فان قلت فی النّاجین فالقول واحد ------ وان قلت فی الهلاک حفت عن العدل

اذا کان مولی القوم منهم فاننی ------ رضیت بهم لا زال فی ظلّهم ظلّ

رضیت علیا لی اماما و نسله ------ وانت من الباقین فی اوسع الحل (۱)

اگر آپ ان کھ ل ے ہ و ئ ے اور و ہ ب ھی اہ ل سنت و جماعت ک ے پ یشوائے بزرگ امام شافعی کے اشعار پر پور ی توجہ فرمائ یں تو دیکھیں گے ک ہ و ہ ک یونک کر اس کا اقرار کر رہے ہیں کہ اس س ے سف ینے کی سواری اور اس پاک خاندان سے تمسک اور تو سل ذر یعہ نجات ہے ک یونکہ امت مرحومہ ک ے ب ہ تر فرقو ں م یں سے ناج ی فرقہ صرف و ہی ہے جو آل محمد (ع) ک ے دامن س ے متمسک اور متوسل ہے اور ادربس چنانچ ہ ش یعہ خود رسول اللہ (ص) ک ے حسب الحکم خدا کی طرف اسی خاندان جلیل کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ایک بات اور یاد آگئی کہ اگر آپ کے قول کے مطابق انسان واسط ے اور وس یلے کا محتاج نہیں ہے اور بارگا ہ خداوند ی میں اگر وسیلے کے سات ھ فر یاد و استغاثہ بلند کر ے تو گن ہ گار اور مشرک ہ وگا ۔ تو پ ھ ر خل یفہ عمر الخطاب کس لئے احت یاج اور اضطرار کے موقع پر واسط ے ک ے سات ھ خدا ک ی طرف رجوع کرتے ت ھے ا ور اس طرح استغاثہ کر ک ے کام یابی حاصل کرتے ت ھے ؟

حافظ:- ہ رگز خل یفہ عمر رضی اللہ عن ہ ن ے واسط ے ک ے سات ھ کوئ ی عمل انجام نہیں دیا اور یہ پہ لا موقع ہے جب م یں ایسے الفاظ سن رہ ا ہ و ں گزارش ہے ک ہ اس کا مجمل ب یان فرمائیے ۔

خیرطلب:- خلیفہ احتیاج کے مواقع پر بار بار ا ہ ل ب یت رسالت (ع) اور آنحضرت کی عترت طاہ ر ہ کا وس یلہ ڈھ ون ڈ ھ ت ے ر ہ ت ے ت ھے اور ان ہیں کے توسل س ے خدا ک ی طرف رجوع کرکے مطلب حاصل کرت ے ت ھے وقت کا لحاظ رکھ ت ے ہ وئ ے صرف دو موقع ے نمون ے ک ے طور پر پ یش کرتا ہ و ں ۔

(پہ لا)ابن حجر مک ی ،صواعق محرقہ م یں آیۃ نمبر۱۴ کے بعد تار یخ دمشق سے نقل کرت ے ہیں کہ سن ہ ۱۷ ہ جر ی میں دعائے بارش ک ے لئ ے لوگ کئ ی مرتبہ نکل ے ل یکن کوئی نتیجہ نہیں ہ و ا سب ب ہ ت متاثر اور پر یشان ہ وئ ے تو عمر ابن الخطاب ن ے ک ہ ا ک ہ اب م یں کل ضرور بالضرور اس شخص کے وس یلے سے طلب باران کرو ں گا جس ک ے واسط ے س ے حتم ی

--------------

(۱):- (جب میں نے لوگوں کو جہل گمراہی کے دریا میں غرق دیکھا تو خدا کے نام پر نجات کی کشتیوں میں بیٹھا جو خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفی کے اہل بیت ہیں ۔میں نے جہل خدا سے تمسک کیا جو اسی خاندان کی دوستی ہے جیسا کہ ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ اس حبل سے متمسک رہیں ۔جس وقت دین کے اندر ستر سے زیادہ فرقے پیدا ہوگئے جیسا کہ حدیث میں واضح طور پر آیا ہے اور ان میں سواایک کے کوئی ناجی نہیں ہے تو مجھے سے کہو کہ اے صاحب عقل ودانش ! کہ آیا خاندان رسالت اور آل محمد علیھم السلام کسی فرقہ میں سے ہیں؟یا نجات کی پانے والے حق فرقے کے افراد ہیں؟اگر یہ کہو کہ فرقہ ناجیہ میں ہیں تو ہمارا اور تمہارا قول ایک ہے اور اگر کہو کہ باطل ہونے والے فرقوں کے ساتھ ہیں تو تم صراط مستقیم سے منحرف ہو گئے ۔ اگر قوم کا سردار ان حضرات(ع) میں سے ہو تو میں بخوشی ان کی اطاعت کے لئے آمادہ ہو رہا ہوں ۔ان کا سایہ ہمیشہ سروں پر قائم ہے ۔میں علی اور ان کی اولاد علیھم السلام کی امامت پر راضی ہوں ۔ جو حق پر ہے اور تم باطل فرقوں میں رہو اس روز تک جب حقیقت ظاہر ہو جائے )

۹۵

طور پر خدا ہ م کو پان ی دے گا ۔ دوسر ے دن صبح کو خل یفہ عمر آن حضرت صلعم کے چچا عباس ک ے پاس گئ ے اور ک ہ ا "اخرج بنا حت ی نستسقی اللہ بک " (ہ مار ے سات ھ با ہ ر چلو تا ک ہ ہ م بارگا ہ ال ہی میں تمہ ار ے وس یلے سے پان ی طلب کریں۔

جناب عباس نے فرما یا تھ و ڑی دیر بیٹھ جاؤ تاکہ م یں وسیلہ مہیا کر لوں ،پ ھ ر کس ی کو بھیج کر بنی ہ اشم کو اطلاع د ی کہ اور پاک لباس پ ہ ن ک ے خوشبو لگا ک ے اس صورت س ے با ہ ر آئ ے ک ہ عل ی علیہ السلام عباس کے آگ ے امام حسن عل یہ السلام داہ ن ی طرف، امام حسین علیہ السلام بائیں طرف اور دوسرے بن ی ہ اشم پ یچھے پیچھے تھے اس وقت فرما یا کہ ا ے عمر کس ی اور شخص کو ہ مار ے سات ھ شامل ن ہ کر ۔ چنانچ ہ اس ی حالت سے مصل ے تک پ ہ نچ ے اور جناب عباس ن ے مناجات ک ے لئ ے ہ ات ھ کو بلند کر ک ے عرض ک یا ۔ پروردگار ا ! تو ن ے ہ م کم خلق فرما یا اور جو کچھ ہ م عمل کرت ے ہیں تو اس سے واقف ہے پ ھ ر عرض ک یا کہ "الل ھ م کما تفضلت عل ینا فی اولہ فتفضل عل ینا فی آخرہ " ( یعنی پر وردگار جس طرح تو نے ابتدا م یں ہ م پر فضل ک یا ہے اس ی طرح آخر میں ہ مار ے اوپر تفضل فرما)جابر ک ہ ت ے ہیں ان کی دعا تمام نہ ہ وئ ی تھی کہ بادل آنا شروع ہ وئ ے اور پان ی برسنے لگا ۔ اب ھی ہ م لوگ گ ھ رو ں تک ن ہیں پہ نچ ے ت ھے ک ہ بارش س ے ب ھیگ گئے ۔

نیز بخاری سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ قحط ک ے زمان ہ م یں عمر ابن خطاب عباس ابن عبد المطلب کے وس یلے سے بارگا ہ خداوند ی میں پانی کے لئ ے دعا کر ر ہے ت ھے اور ک ہ ت ے ت ھے "الل ھ م انا نتوسل ال یک بعم نبینا فاسقنا فیسقون" یعنی خداوندا ہ م ت یری طرف عم رسول (ص) کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ہ م کو سیراب کردے ،چنانچ ہ ان لوگو ں پر نزول بارا ں ہ وا )

(دوسرا)ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہ ج البلاغ ہ (مطبوع ہ مصر) جلد دوم صفح ہ ۲۵۶ م یں نقل کرتے ہیں کہ خل یفہ عمر جناب عباس عم رسول(ص) کے ہ مرا ہ استسقاء ک ے لئ ے گئ ے اور اس طرح دعا ک ی "اللھ م انا نتقرب ال یک بعم نبیک وبقیۃ آبا ئہ وکبر رجال ہ فاحفظ الل ھ م نب یک فی عمہ فقد ولونا ب ہ ال یک مستشفعین ومستغفرین "(یعنی خداندا ! ہ م ت یری طرف وسیلہ ڈھ ون ڈ ت ے ہیں تیرے پیغمبر کے چچا اور ان ک ے آباء اور بزرگ مردو ں م یں سے باق ی ماندہ ک ے ذر یعے سے ، پس اپن ے پ یغمبر کی منزل ان کے چچا ک ے بار ے م یں محفوظ رکھ ک یونکہ ہ م ن ے ان ک ی وجہ سے تیری طرف ہ دا یت پائی تاکہ شفاعت طلب کر یں اور اسغفار کریں۔

۹۶

حضرات اہ ل سنت اور پ یروان خلیفہ عمر کے حالات تو اس مش ہ ور مثل ک ے مطابق ہیں کہ "کاس ہ گرم تر از آش " " یعنی شوربے س ے ز یادہ پیالہ گرم " کیونکہ خلیفہ عمر دعا اور احتیاج واضطرار کے وقت عترت و ا ہ ل ب یت رسول(ص) کو اپنا شفیع قرار دیتے ہیں اور ان کے وس یلے سے بارگاہ ال ہی میں طلب حاجت کرتے ت ھے تو ان پر کوئ ی اعتراض نہیں ۔ ل یکن جس وقت ہ م ش یعہ اس برگزیدہ خاندان کو شفیع بناتے اور ان کا توسل اخت یار کرتے ہیں تو ہ م کو سخت اعتراض ک ے سات ھ کافر ومشرک ک ہ ا جاتا ہے ۔ اگر آل محمد (ص)اور عترت طا ہ ر ہ کو خدا ک ی طرف شفیع قرار دینا شرک ہے تو آپ ہی کے علماء ک ی روایتوں کے مطابق خل یفہ عمر ابن خطاب قطعا سب سے پ ہ ل ے مشرک ٹھہ رت ے ہیں اور اگر خلیفہ کا وہ عمل شرک ن ہیں تھ ا بلک ہ ب ہ تر ین کام تھ ا ۔ (ک یونکہ خلیفہ نے اس کاانتخاب ک یا تھ ا)تو یقینا شیعوں کے اعمال اور آل محمد عل یھ م السلام سے ان کا توسل ہ رگز شرک ن ہیں ہ و سکتا ۔

لہ ذا آپ حضرات کو چاہیے کہ قطع ی طور پر اپنی یہ باتیں چھ و ڑیں بلکہ استغفار کر یں (کیونکہ بے لوث اور موحد ش یعوں کی طرف ایسی غلط نسبت دی ہے )تاک ہ غضب ال ہی کے مستحق ن ہ بن یں اس لئے ک ہ جب خل یفہ عمربزرگان صحابہ ک ی ہ مرا ہی میں بھی چا ہے جس قدر دعا کر یں لیکن بغیر اہ ل ب یت رسول کے وس یلے کے کوئ ی نتیجہ برآمد نہ ہ وا تو آپ ک یونکر امید رکھ ت ے ہیں کہ ہ م بغ یر واسطے اور س ہ ار ے ک ے دعا کرک ے کام یاب ہ و جائ یں گے ۔

پس آل محمد سلام اللہ عل یھ م اجمعین عہ د رسول (ص) س ے ل ے کر ہ مار ے موجود ہ زمان ے تک ہ ر دور م یں خدا کی طرف بندوں ک ے وس یلے تھے اور ہیں اور ہ م لوگ ب ھی حاجت روائی میں ان کی خود مختاری کے قائل ن ہیں ہیں لیکن یہ ضرور ہے ک ہ ان کو خدا ک ے صالح بند ے برحق امام او ر درگاہ خدا م یں مقرب سمجھ ت ے ہیں لہ ذا اپن ے اور خدا ک ے درم یان واسطہ قرار د یتے ہیں۔

اس مقصد پر سب سے ب ڑی دلیل ہ مار ی دعاوؤں ک ی کتابیں ہیں کیونکہ ائمہ معصوم ین علیھم السلام سے تمام ماثور ہ اور دعاوؤ ں م یں ہ م جو کچ ھ م یں نے عرض ک یا ہے اس ک ے علاو ہ کوئ ی اور ہ دا یت ہی نہیں دی گئی ہے اور ہ م ن ے ب ھی اس طریقے کے خلاف ن ہ کوئ ی عمل کیا ہے ا ور نہ کر یں گے ۔

حافظ :- آپ کے یہ بیانات ہ مار ی سنی ہ و ی باتوں ک ے خلاف ہیں ۔

خیر طلب :- اپنی سنی ہ وئ ی باتوں کو چ ھ و ڑیئے اور مشاہ دات کا ذکر ک یجیئے ۔ ک یا آپ نے ہ مار ے ب ڑے علماء ک ی کچھ معتبر کتب ادع یہ کا مطالعہ ک یا ہے ؟

حافظ :- نہیں مجھ کو موقع ن ہیں ملا ۔

خیر طلب:-مناسب یہ تھ ا ک ہ پ ہ ل ے آپ اس قسم ک ی کتابیں ملاحظہ فرما ل یتے اس کے بعد اعتراض فرماتے اس وقت دعا وز یارت کی دو کتابیں میرے ہ مرا ہ ہیں ۔ ا یک علامہ مجلس ی علیہ الرحمہ ک ی تالیف ، زاد المعاد ،اور

۹۷

دوسری "ہ د یۃ الزائرین " مؤلفہ فاضل محدّث وعال م متبحر آقائی حاج شیخ عباس قمی دامت برکاتہ یہ مطالعے ک ے لئ ے حاضر ہیں (میں نے دونو ں جلد یں مولوی صاحبان کی خدمت میں پیش کریں ۔ اور ان ہ و ں ن ے د یکھ نا شروع کیا ،ادعیہ توسل کو پڑھ ا اور غور ک یا لیکن کسی مقام پر خاندان رسالت کے لئ ے خود مختار ی کا ذکر نہیں کیا بلکہ ہ ر جگ ہ ان کو واسط ہ ک ہ ا گ یا ہے اس وقت مولو ی سید عبد الحیی نے دعائ ے تو سل کو جو علام ہ مجلس ی علیہ الرحمہ ن ے بسلسل ہ محمد ابن بابو یہ قمی علیہ الرحمہ ائم ہ طا ہ ر ین سلام اللہ عل یھ م اجمعین نے نقل ک ی ہے نمون ے ک ے طور پر آخر تک پ ڑھی جس کا شروع یہ ہے ۔

دعائے توسل

اللهم انّی اسئلک و اتوجه الیک بنبیک نبی الرحمة محمد صلی الله علیه وآله یا ابا القاسم یا رسول الله یا امام الرحمة یا سیدنا ومولانا انّا توجهنا و استشفعنا وتوسلنا بک الی الله وقد مناک بین یدی حاجاتنا یا وجیها عند الله اشفع لنا عند الله ٭ یا ابا الحسن یا امیر المومنین یا علی ابن ابی طالب یا حجة الله علی خلقه یا سیدنا و مولانا انّا توجهنا واستشفعنا و توسلنا بک الی الله وقدمناک بین یدی حاجاتنا یا وجیها عندالله اشفع لنا عند الله

جس نوعیت سے ام یر المومنین علیہ السلام کو خطاب کیا گیا ہے اس ک ے بعد اس ی طرح سے کل ائم ہ معصوم ین علیھ م السلام کے لئ ے ب ھی ہے اور خطاب م یں ان کو یا حجۃ اللہ عل ی خلقہ ک ہ ا جاتا ہے یعنی اے حجت خدا خلق خدا پر ۔۔۔۔ آخر دعا تک ائم ہ طا ہ ر ین میں سے ا یک ایک کا نام لے کر توسل اخت یار کیا گیا ہے اور اس طر یقے سے مخاطب ک یا گیا ہے ک ہ ا ے ہ مار ے س ید مولا ہ م آپ ک ے وس یلے سے خدا ک ی طرف توجہ وتوسل اور طلب شفاعت کرت ے ہیں ،اے خدائ ے تعال ی کے نزد یک صاحب عزت بارگاہ ال ہی میں ہ مار ی سفارش فرمائیے ۔یہ ا ں تک کہ آخر دع امیں سارے خاندان رسالت کو مخاطب کرک ے ک ہ ا ہے ۔

"یا ساداتی وموالی انی توجهت بکم ائمتی وعدتی لیوم فقری وحاجتی الی الله وتوسلت بکم الی الله واستشفعت بکم الی الله فاشفعوا لی عندالله و استنقذونی من ذنوبی عند الله فانّکم وسیلتی الی الله وبحبکم وبقربکم ارجو نجاة من الله فکونوا عند الله رجائی یا ساداتی یا اولیاء الله"

جس وقت وہ حضرات یہ دعائیں پڑھ ر ہے ت ھے بعض م ہ ذب اور محترم سن ی حضرات ہ ات ھ مارت ے ت ھے

۹۸

اور باربار ک ہ ت ے ت ھے "لا ال ہ الا الل ہ سبحان الل ہ " کس طرح س ے غلط ف ہ م ی پھیلاتے ہیں۔

(میں نے ک ہ ا)م یں آپ حضرات سے انصاف چا ہ تا ہ و ں ۔ ان دعاو ؤ ں ک ی عبارتوں م یں کس مقام پر شرک کے آثار پائ ے جات ے ہیں ؟کیاہ ر جگہ خدائ ے تعال ی کامقدس نام موجود نہیں ہے ؟ ہ م ن ے دعا ک ی کون سی عبارت میں ان حضرات کو باری تعالی کا شریک قراردیا ہے ؟ آخر کس ل ئے آپ ہ م لوگو ں پر ت ہ مت لگات ے ہیں کس وجہ س ے موحد مسلمانو ں کو غال ی اور مشرک کہ ت ے ہیں ؟ کس غرض سے مسلمانو ں ک ے دلو ں م یں بغض وعداوت کا بیج بوتے ہیں ؟کس مقصد سے ناواقف لوگو ں ک ی نظر میں حقیقت کو مشتبہ بنات ے ہیں ؟تاکہ و ہ اپن ے د ینی ایمانی بھ ا یئوں کو کافر سمجھیں ۔ آپ ک ے کتن ے ناواقف اور متعصب عوام ب یچارے شیعوں کو اسی خیال سے قتل کرت ے ہیں کہ ہ م ا یک کافر کو قتل کیا لہ ذا جتن ی ہ وگئ ے ا یسے امور کا مظلمہ آپ ہی جیسے علماء کی گردنوں پر ہے ۔

بات یہ ہے ک ہ ش یعہ علماء او رمبلغین زہ ر ن ہیں پھیلاتے ۔ ش یعہ اور سنی کے درم یان عداوت کا بیج نہیں بوتے اور قتل نفس کو گنا ہ عظ یم سمجھ ت ے ہیں ،ہ م ش یعہ اور سنی کے درم یان ما بہ اختلاف مسائل کو علم ومنطق ک ی روشنی مین بیان کرکے ان کو حق یقت مذہ ب س ے با خبر کرتے ہیں لیکن گفتگو کے ضمن م یں ان کو یہ بھی سمجھ ا د یتے ہین کہ سن ی ہ مار ے مسلمان ب ھ ائ ی ہیں لہ ذا ش یعہ جماعت کو ان کی طرف کینے اوردشمنی کی نظر سے ن ہ د یکھ نا چاہیئے بلکہ برادران ہ طر یقے سے آپس م یں متحد رہ نا چا ہیئے تاکہ ہ م سب مل کر لا الہ الا الل ہ کاپرچم بلند کر یں۔

لیکن اس کے برعکس متعصب سنّ ی علماء کے طرز عمل س ے ہ م کو افسوس ہ وتا ہے ک ہ ابو حن یفہ ،مالک ابن انس، محمد ابن ادریس شافعی اور احمد ابن حنبل کے پ یروؤں کو باوجود یکہ ان کے درم یان کثیر اصولی اور فروعی اختلافات ہیں ہ ر مقام پر آزاد ی دیتے ہیں اور مسلمان بھ ائ ی کہ ت ے ہیں لیکن علی ابن ابی طالب اور امام صادق آل محمد علیھ ما السلام جو عترت و اہ ل ب یت رسالت ہیں ،ان کے پ یروؤں کو غالی ،مشرک اور کافر نامزد کرتے ہیں اور ان کی آزادی سلب کرتے ہیں تاکہ سن ی ممالک کے اندر ان ک ی جان ومال محفوظ نہ ر ہے ،کتن ے ز یادہ ہیں کہ ا یسے صاحبان علم وتقوی شیعہ جو سنی علماء کے فتو ے س ے ش ہید کئے گئ ے ل یکن اس کے برعکس ا یسا عمل شیعہ علماء کی طرف سے ک یا بلکہ عوام ش یعہ کی جانب سے ب ھی جن سے اس کا انجام پانا ز یادہ سہ ل ہے کس ی جاہ ل سن ی کے لئ ے ب ھی صادر نہیں ہ وا ہے آپ ک ے علماء بالعموم ش یعوں پر لعنت کرتے ہیں لیکن شیعہ علماء کی کسی کتاب میں یہ نہیں دیکھ ا گیا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ا ہ ل تسنن لعن ھ م الل ہ لک ھ ا ہ و ۔

حافظ:- آپ زیادتی کر رہے ہیں ،کون سا صاحب علم وتقوی شیعہ ہ مار ے علماء ک ے فتو ے س ے قتل ہ وا ہے ک ہ

۹۹

آپ بلا وج ہ جو ش دلا ر ہے ہیں ؟اور کس نے ہ مار ے علماء م یں سے ش یعوں پر لعنت کی ہے ۔

خیرطلب :- اگر آپ کے علماء اور عوام کے حرکات تفص یل سے ب یان کرنا چاہ و ں تو ا یک نشست نہیں بلکہ کئ ی مہینے درکار ہ و ں گ ے ل یکن نمونے اور اثبات ک ے لئ ے ان ک ے بعض اعمال اور اطوار ک ی طرف جو تاریخ کے صفات پر نقش ہیں کئے د یتا ہ و ں تاک ہ آپ کو معلوم ہ وجائ ے ک ہ جوش نہیں دلاتا ہ و ں بلک ہ حق یقت پیش کرتا ہ و ں ۔

اگر آپ بڑے ب ڑے متعصب علماء ک ی کتابیں غور سے مطالع ہ ک یجئے تو لعنت کے مواقع خود ہی نظر آجائیں گے نمون ے ک ے طور پر تفس یر امام فخر الدین رازی کی جلدیں ملاحظہ فرمائ یے کہ جس جگ ہ ان کو موقع ہ ات ھ آ یا ہے ج یسے" آیت ولایت و اکمال الدین" وغیرہ کے ذ یل میں مکرر ومکرر لکھ ت ے ہیں۔

"و اما الرافضة لعنهم الله هؤلاء الرافضة لعنهم ----اما قول الروافض لعنهم الله " ل یکن کسی شیعہ عالم کے قلم س ے عام بردران ا ہ ل سنت ک ے لئ ے بلک ہ خاص صورت م یں بھی ان کے لئ ے ا یسی عبارتیں نہیں نکلی ہیں۔

اس جماعت کے فتو ے س ے ش ہید اول کی شہ ادت

شیعہ ارباب علم کے سات ھ آپ ک ے علماء ک ی دردناک بدسلوکیوں میں سے ا یک وہ عج یب وغریب فتوی ہے جو ا یک بہ ت ب ڑے ش یعہ فقیہ کے واسط ے شام ک ے دوب ڑے قاض یوں (برہ ان الد ین مالکی و عباد بن الجماعۃ الشافعی) کی طرف سے صادر ہ وا ت ھ ا و ہ بزرگ فق یہ جو زہ د وورع ،تقوی اور علم وتفقہ م یں سارے ا ہ ل زمان ہ ک ے سردار ت ھے ۔ ابواب فق ہ پر احاط ہ رک ھ ن ے م یں اپنے دور ک ے اندر جواب ن ہیں رکھ ت ے ت ھے ان ک ی فقہی مہ ارت کا ا یک نمونہ کتاب لمع ہ ہے جو (بغ یر اس کے ک ہ سوا "مختصر نافع" ک ے اور کوئ ی فقہی کتاب آپ کے پاس موجود ر ہی ہ و) صر ف سات روز کے اندر تصنیف فرمائی اور حنفی ، مالکی ،شافعی اور جنبلی چاروں مذ ہ ب ک ے علماء ان ک ے حلق ہ تلامذ ہ م یں داخل ہ و کر ف یض علم سے س یراب ہ وت ے ت ھے جناب ابو عبدالل ہ محمد بن جمال الد ین مکو عاملی رحمۃ اللہ عل یہ تھے۔

باوجودیکہ سنیوں کی سخت گیری کی وجہ س ے آپ ز یادہ تر تقیہ میں رہ ت ے ت ھے ۔ اور با الاعلان تش یع کا اظہ ار ن ہیں فرماتے ت ھے ل یکن پھ ر ب ھی شام کے ب ڑے قاض ی "عباد بن الجماعۃ" نے ا یسے عالم ربانی سے حسد کابرتاؤ کرت ے ہ وئ ے وال ی شام (بید مر) کے پاس ان ک ی چغلی کھ ا ئی اور رفض و تشیع کا الزام لگا کر اس فقیہ عالم کوگرفتارکروایا ۔ ا یک سال تک قید خانہ م یں سخت تکلیفیں دینے کے بعد ۹ یا ۱۹ جمادی الاولی سنہ ۷۸۶ م یں انہیں دو بڑے سن ی قاضیوں (ابن الجماعۃ وبرہ ان الد ین )کے فتو ے س ے پ ہ ل ے آپ کو تلوار س ے قتل ک یا پھ ر آپ کا جسم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

نفسانی خواہش کی بناء پر دنیاوی ریاست و حکومت حاصل کرنے کی مذمت میں رسول خدا(ص) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے کافی حدیثیں مروی ہیں۔ یہاں تک کہ پیغمبر(ص) کا ارشاد ہے۔" حب الدنيارأس كل خطيئة" (یعنی دنیا کی محبت و رغبت ہر بدی کی سردار ہے) پس قطعا ابو عبداللہ علیہ السلام دنیاوی جاہ و ریاست کے طالب نہیں تھے اور نہ ایسی فانی حکومت کے لیے جانبازی کی تھی اور اپنے اہلبیت (ع) کی اسیری گوارا کی تھی۔اگر کوئی شخص اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے ان حضرات کو دنیا طلب کہے تو وہ یقینا قرآن مجید کا منکر ہے۔

امام حسین(ع) کا قیام ریاست اور خلافت ظاہری کے لیے نہیں تھا

رہا دوسرا فرقہ جس میں وہ لوگ ہیں جو حسی دلائل چاہتے ہیں۔ ان کے لیے محسوس دلائل بہت ہیں جن کو اس تنگ وقت میں مکمل طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ نمونتہ چند چیزوں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔

اول ۔ یزید پلید کے مقابلے میں حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام کا قیام اگر جاہ طلبی اور حکومت کے شوق میں ہوتا تو رسول اللہ(ص) ان حضرت کی نصرت کا حکم دیتے چنانچہ آپ کے سلسلوں سے اس بارے میں بکثرت روایتیں مروی ہیں جن میں سے صرف ایک پر اکتفا کرتا ہوں۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب60 میں تاریخ بخاری و بغوی و ابن السکین و ذخائر العقبی امام الحرم شافعی سے سیرۃ ملا وغیرہ سے بروایت انس بن حارث بن بعیہ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ(ص) سے سنا کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

"إِنَ ابْنِي هَذَايَعْنِي الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِأَرْضٍ يُقالُ لها کَربَلا فَمَنْ شهد ذالک مِنْكُمْ فَلْيَنْصُرْهُ فخرج انس ابن الحارث الی کربلا فَقُتِلَ أَنَسٌ مَعَ الْحُسَيْن ِرَضِی الله عنه معهه"

یعنی بتحقیق میرا یہ فرزند حسین(ع) زمین کربلا پر قتل کیا جائے گا۔ پس تم میں سے جو شخص اس وقت موجود ہو وہ حسین(ع) کی مدد کرے ۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ انس بن حارث کربلا پہنچے اور حکم رسول(ص) پر عمل کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ قتل ہوئے۔

پس معلوم ہوا کہ حضرت کربلا میں حق کے لیے کھڑے ہوئے تھے نہ کہ دنیاوی ریاست کی محبت میں۔

ان چیزوں سے قطع نظر اگر معترصین غور کریں تو خود حضرت کی روانگی سے لے کر شہادت اور اسیری اہلبیت (ع) تک حق اور حقیقت برابر نمایاں ہے، اس لیے کہ اگر کسی ملک میں کوئی شخص ریاست کو خواہش رکھتا ہے اور حکومت وقت کے خلاف خروج کرنا چاہتا ہے تو اپنے عیال و اطفال کو لے کر نہیں نکلتا ہے ، چھوٹ چھوٹے اور شیر خوار بچوں اور حاملہ عورتوں کو ہمراہ نہیں لے جاتا بلکہ بذات خود ایک لچنی ہوئی فوج لے کر بڑھتا ہے اور جب دشمن پر غالب آجاتا ہے حالات قابو میں آجاتے ہیں اور انتظامات درست ہوجاتے ہیں۔ اس وقت بال بچوں کو بلواتا ہے۔

۳۴۱

حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کا اپنی عورتوں اور خورد سال بچوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا قافلہ لے کر سفر کرنا خود اس کی مکمل دلیل ہے کہ حضرت ریاست و خلافت ظاہری اور دشمن کو شکست دینے کے خیال سے تشریف نہیں لائے تھے اگر ایسا ارادہ ہوتا تو آپ یقینا یمن کی طرف جاتے جہاں سب آپ کے اور آپ کے پدر بزرگوار کے دوست اور پختہ عقیدت رکھنے والے تھے، اور اس کو اپنا مرکزی مقام قرار دے کر پورے ساز و سامان کے ساتھ بنفس بفیس حملے شروع کرتے چنانچہ حضرت کے بنی دوستوں اور بھائیوں نے بار بار یہی مشہورہ دیا ور ان کو مایوس ہونا پڑا کیوں کہ وہ لوگ حضرت کے اصلی نقطہ نظر اور مقصد سے واقف نہیں تھے۔

امام حسین (ع) کا قیام شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی حفاظت کے لیے تھا

لیکن خود حضرت جانتے تھے کہ ظاہری غلبے کے اسباب فراہم نہ ہوں گے لہذا مع عورتوں بچوں کے چوراسی افراد کے ہمراہ حضرت کا سفر ایک آخری اور بنیادی نتیجے کے لیے تھا کیوںکہ امام دیکھ رہے تھے کہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو ان کے جد بزرگوار خاتم الانبیاء نے اپنے خون جگر اور شہدائے بدر و احد و حنین کے لہو سے سینچا تھا اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسے باغبان کے سپرد کیا تھا تاکہ یہ اس کی نگہداشت کریں لیکن اس ماہر فن اور واقفکار باغبان کو ظلم و تعدی ، تلوار اور قتل و آتشزنی کا دبائو دال کر الگ کردیا گیا تھا۔ اور شجرہ طیبہ کی آبیاری سے روک دیا گیا جس سے توحید و نبوت کی بہار خزاں کی صورت اختیار کر رہی تھی۔ پھر بھی باغبان اصلی کی توجہ سے کبھی کبھی حقیقی اور کامل طاقت نہ سہی لیکن تھوڑی بہت تقویت پہنچ جاتی تھی یہاں تک باغ کے کل اختیارات جاہل ہٹ دھرم اور کینہ پرور باغبانوں ( یعنی بنی امیہ) کے ہاتھوں میں پہنچ گئے۔

خلیفہ سوم عثمان ابن عفان کے زمانہ خلافت سے جب بنی امیہ کےہاتھ پائوں کھلے اور یہی حکومت کے کرتا و دھرتا بنے، ابوسفیان کو جو اس وقت اندھا ہوچکا تھا۔ ہاتھ پکڑ کے دربار میں لائے اور اس نے بآواز بلند کہا۔" يابني أميةتداولوا الخلاف ة فانه لا جنةولانار" ( یعنی اے بنی امیہ اب دولت خلافت کو گھما کر اپنے ہی خاندان میں رکھو کیوںکہ جنت اور دوزخ کچھ بھی نہیں ہے۔ ( یعنی سب ڈھونگ ہے)

نیز کہا " يابني أميّةتلقّفوهاتلقّفالكرة،والذي يحلف به أبوسفيان مازلت أرجوهالكم ولتصيرنّ الىصبيانكم وراثة"

یعنی ابنی امیہ کوشش کر کے خلافت کے گیند کی طرح دبوچ لو۔ قسم اس چیز کی جس کی میں قسم کھاتا ہوں( اس سے مراویت ہیں جن کی یہ لوگ قسم کھاتے تھے) کہ میں ہمیشہ تمہارے لیے ایسی حکومت کا متمنی تھا اور تم بھی اس کی حفاظت کرو تاکہ تمہاری اولاد اس کی وارث ہو۔اس رسوائے زمانہ بد عقیدہ قوم نے تمام راستے

۳۴۲

مسدود کردئیے، حقیقی اور معنوی باغبانوں کی باغ سے بالکل بے دخل کردیا اور آب حیات پر پہرے بٹھادیئے۔ شجرہ طیبہ دھیرے دھیرے پژمردہ ہونے لگا یہاں تک کہ یزید پلید کے دور خلافت میں درخت شریعت کو کاٹ دیا گیا اور قریب تھا کہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ بالکل خشک ہوجائے۔ خدا کا نام فراموش ہو جائے اور دین کی حقیقت مٹ جائے۔

بدیہی چیز ہے کہ کوئی ہوشیار باغبان جب دیکھے کہ اس کے باغ پر ہر طرف سے آفتیں نازل ہو رہی ہیں تو اس کو فورا حفاظتی تدابیر اور علاج کی فکر کرنا چاہئیے ورنہ اس کے منافع اور پھلوں سے بالکل ہی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اس موقع پر بھی--گلستان توحید و رسالت ک باغبانی حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام جیسے عالم دین باغبان کے سپرد تھی جب آپ نے دیکھا کہ بنی امیہ کی ہٹ دھرمی اور الحاد و عناد نے بات کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ عنقریب توحید کا درخت خشک ہونے والا ہے بلکی وہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں تو آپ مردانہ وار اٹھ کھڑے ہوئے اور محض اور صرف محض باغ رسالت کی جڑوں کی آبیاری اور تقویت شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کے لیے کربلا کی طرف سفر اختیار کیا۔ کیونکہ آپ بخوبی جانتے تھے کہ درخت کی جڑوں میں خشکی دوڑ چکی ہے اور معمولی آب پاشی سے کوئی نتیجہ نہ ہوگا۔ جب تک اس کو پوری طاقت نہ پہنچائی جائے۔

جیسا کہ فلاحت کے علم عملی میں طریقہ ہے کہ جس وقت ہوشیار باغبان اور فلاح دیکھتے ہیں کہ کوئی درخت بالکل کمزور ہوگیا ہے اور اس کو زیادہ طاقت پہنچانے کی ضرورت ہے تو اس کا علاج قربانی سے کرتے ہیں یعنی کوئی گوسفند یا دوسرا جانور اس کے پاس ذبح کر کے اس کا خون اور گوشت و پوست درخت کی جڑ میں دفن کر دیتے ہیں تاکہ اس میں سرنو قوت اور نشو و نما پیدا ہوجائے۔ ریحانہ رسول حضرت سید الشہداء (ع) بھی ایک ماہر و عالم باغبان تھے۔ آپ نے دیکھا کہ شجرہ طیبہ کو سیرابی سے اس قدر محروم رکھا ہے ( بالخصوص اخیری برسوں اور بنی امیہ کے اقتدار میں) کہ معمولی سی آبیاری اور علمی خدمت سے شادابی نہ آئے گی جب تک فداکاری سے کام نہ لیا جائے۔ شجرہ طیبہ اور درخت شریعت کی سر سبزی قطعا قومی خونابے کی محتاج ہے۔ لہذا اپنے بہترین جوانوں ، خورد سال بچوں اور اصحاب کو لے کر قربانی اور شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو سیراب کرنے کے لیے کربلا کی طرف روانہ ہوگئے۔ بعض کوتاہ نظر لوگ کہتے ہیں کہ مدینے سے نکلے ہی کیوں؟ وہیں رہ کر علم مخالفت بلند کرتے اور قربانیاں دیتے لیکن وہ نہیں جانتے کہ اگر آپ مدینے میں رہتے تو آپ کا مقصد دانشمندان عالم سے پوشیدہ رہتا اور ان کو پتا نہ لگتا کہ حضرت کی مخالفت کس بنیاد پر تھی جس طرح اور ہزاروں حامیان دین کسی شہر میں حمایت حق کے لیے کھڑے ہوئے اور قتل ہوگئے لیکن کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ ان کا مقصد اور نقطہ نظر کیا تھا اور کیوں قتل ہوئے

۳۴۳

نیز دشمنوں نے بھی معاملہ کو دبا دینے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس امام حسین علیہ السلام جیسے یکتا دور اندیش مرد میدان حق و صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے ماہ رجب میں جس موقع پر لوگ عمرے کے لیے مکہ معظمہ میں جمع ہوتے ہیں تشریف لے گئے اور روز عرفہ تک خانہ خدا میں اکٹھا ہونے والے لاکھوں انسانوں کے سامنے اپنے خطبوں اور تقریروں کے ذریعے حق اور سچائی کو بے نقاب کیا اور سب کو بتایا کہ یزید پلید شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی جڑیں کاٹ رہا ہے اور یہ حقیقت عام مسلمانوں کے گوش گزار کردی کہ جو یزید اسلامی خلافت کا دعوے کرتا ہے وہ اپنے عمل سے دین کو ملیامٹ کر رہا ہے۔ شراب پیتا ہے ، جوا کھیلتا ہے،کتے اور بندر سے دل بہلاتا ہے احکام دین کو پامال کرتا ہے اور میرے نانا رسول خدا(ص) کی محنتوں کو برباد کر رہا ہے۔ میں اپنے جد بزرگوار کا دین مٹنے نہ دوں گا۔ مجھ پر واجب ہے کہ قربانی دے کر اور جان نثار کر کے اس کی حفاظت کروں۔ پس حضرت کا قیام اور مدینے سے مکے اور مکے سے کوفے اور عراق کی طرف خروج شعائر دین کی حفاظت اور بنی نوع انسان کو دین یزید پلید کے اطوار و کردار ، مفاسد اخلاق، بیہودہ عقائد اور نفرت انگیز جابرانہ حرکات سے روشناس کرانے کے لیے تھا۔ آپ کے بنی اعمام بھائی اور دوست جو منع کرنے کے لیے آتے تھے وہ عرض کرتے تھے کہ جن کوفے والوں نے آپ کا خیر مقدم کرنا چاہا ہے اور دعوت نامے بھیجے ہیں۔ وہ بے وفائی میں مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ یزید کی سلطنت اور بنی امیہ کے اقتدار سے جنہوں نے سالہا سال سے اس ملک کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں۔ آپ مقابلہ نہیں کرسکتے ، چونکہ اہل حق کم ہیں، لوگ دنیا کےبندے ہیں اور بنی امیہ کے پاس ان کو دنیاوی خوشحالی ملتی ہے۔ لہذا ان کے گرد جمع ہیں اور آپ کو کوئی نفع یا غلبہ نہیں ہوسکتا ۔ پس اس سفر کو ملتوی کیجئے اور اگر حجاز میں ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھتے تو یمن چلے جائیں کیونکہ وہاں آپ کے ماننے والے بہت ہیں ، وہ لوگ غیرت مند ہیں آپ کوتنہا نہ چھوڑیں گے اور آپ ان اطراف میں آرام سے زندگی بسر کرسکیں گے لیکن حضرت سب کے سامنے پوری وضاحت نہیں کر سکتے تھے لہذا ہر ایک کو مختصر جوابات سے خاموش فرماتے تھے البتہ بعض ہمراز اور خاص اعزہ جیسے اپنے بھائی محمد حنفیہ اور ان عباس سے فرماتے تھے کہ تم سچ کہتے ہو میں بھی جانتا ہوں کہ مجھ کو ظاہری غلبہ نہ ہوگا اور نہ میں فتح اور غلبہ ظاہری کے لیے جا رہا ہوں بلکہ قتل ہونے جاتا ہوں یعنی مظلومیت کی طاقت سے ظلم و فساد کی بنیاد ہلانا چاہتا ہوں۔

بعض کی تسکین قلب کے لیے اصلیت کو ظاہر کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ میں نے اپنے نانا رسول خدا(ص) کو خواب میں دیکھا کہ مجھ سے فرما رہے ہیں۔" اخرج إلى العراق فإنّ اللّه قدشاءأن يراك قتيلا" (یعنی عراق کی طرف سفر کرو کیوں کہ در اصل خدا تم کو شہید دیکھنا چاہتا ہے۔

محمد ابن حنفیہ اور ابن عباس نے عرض کیا کہ اگر یہ بات ہے تو آپ عورتوں کو کیوں لیے جارہے ہیں؟ فرمایا

۳۴۴

میرے جد کا ارشاد ہے کہ " إنّ اللّه قدشاءأن يراهنّ سبايا" ( یعنی در حقیقت اللہ نے ان کو اسیر دیکھنا چاہا ہے۔) بحکم رسول (ص) میں ان کو اسیری کے واسطے لیے جارہا ہوں یعنی میری شہادت اور اہل بیت (ع) کی اسیری میں یہ رموز اسرار پوشیدہ ہیں کہ عورتوں کی اسیری میری شہادت کا تتمہ ہو جو مظلومیت کا علم اپنے کاندھوں پر لے کر یزید کے مرکز خلافت و اقتدار کی طرف جائیں گی وہاں اس کی بنیادیں ہلائیں گی اور اس کے ظلم وکفر کا پرچم سرنگوں کریں گی۔

چنانچہ عقیلہ بنی ہاشم صدیقہ صغری جناب زینب کبری سلام اللہ علیہا نے یزید کے بھرے ہوئے دربار اور جشن فتح میں اشراف قوم، بزرگان بنی امیہ ، غیر ممالک کے سفراء اور اور رئوسا، یہود و نصاری کے سامنے جو تقریر کی اور سید الساجدین امام چہارم زین العابدین علی ابن الحسین علیہ السلام نے شام کی مسجد اموی میں بالائے منبر یزید کے مقابل جو مشہور و معروف خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس نے اس کے اقتدار کی طاقت کو زیر کر دیا، عظمت بنی امیہ کا پرچم سرنگوں کردیا۔ اور خواب غفلت سے لوگوں کی انکھیں کھول دیں۔

حضرت نے حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا :

"ايّهاالناس! اعطيناستّاوفضّلنابسبع،اعطيناالعلم والحلم والسّماحةوالفصاحةوالشّجاعةوالمحبّةفي قلوب المؤمنين،وفضّلنابأنّ منّاالنّبىّ المختارمحمّدا صلی الله عليه و آله وسلم،ومنّاالصّدّيق،ومنّاالطيّار،ومنّااسداللَّه واسدرسوله،ومنّاسبطاهذه الامّة و منا مهدی هذه الامة"

یعنی اے لوگو ہم کو ( یعنی آل محمد(ص) کو خدائے تعالی کی طرف سے ) چھ خصلتیں عطاکی گئی ہیں اور سات فضیلتوں کے ذریعے ہم کو ساری مخلوق پر ترجیح دی گئی ہے۔ ہم کو علم ، بردباری، جوانمردی، خوشروئی، فصاحت، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں محبت عطا ہوئی ہے کہ رسول مختار محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں سے ہین ، اسد اللہ اور اسد رسول (ص) ہم میں سے ہیں۔ اس امت کے و وسبط ( حسن و حسین(ع) ) ہم میں سے ہیں اور اس امت کے مہدی(عج) ( حضرت حجتہ ابن امام حسن العسکری عجل اللہ فرجہ ) ہم میں سے ہیں اس کے بعد اپنے کو پہچنواتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص مجھ کو پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ اب میرا حسب و نسب جان لے کہ میں صاحب صفات و فضائل مخصوصہ ( یہاں ان صفات کا طولانی بیان ہے جس کو مکمل طور سے بیان کرنے کا وقت نہیں) خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرزند ہوں۔ اس کے بعد اس منبر پر جہاں معاویہ کے زمانے سے شب و روز حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام پر کھلم کھلا لعنت اور سب وشتم کا سلسلہ قائم تھا اور حضرت پر جھوٹے الزامات عائد کئےجاتے تھے خود یزید اور رئوسائے بنی امیہ کے سے دشمن مجمع کے سامنے اپنے جدبزرگوار امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل و مناقب ( جن کو سننے کا اب تک شام والوں کو موقع ہی نہیں دیا گیا تھا) بیان کئے اور فرمایا ۔

"" أنا ابن من ضرب خراطين الخلق حتى قالوا: لا إله إلا الله.أنا أبن من ضرب بين يدي

۳۴۵

رسول الله نقرتين لعرض الصورة في صفحة مستقلة بسيفين وطعن برمحين، وهاجر الهجرتين، وبايع البيعتين، وقاتل ببدر وحنين، ولم يكفر بالله طرفة عين.

أنا أبن صالح المؤمنين، ووارث النبيين، وقامع الملحدين، ويعسوب المسلمين، ونور المجاهدين، وزين العابدين، وتاج البكائين، وأصبر الصابرين، وأفضل القائمين من آل ياسين، رسول رب العالمين.

أنا ابن المؤيد بجبرائيل، المنصور بميكائيل.

أنا ابن المحامي عن حرم المسلمين، وقاتل المارقين والناكثين والقاسطين والمجاهدين أعداءه الناصبين، وأفخر من مشى من قريش أجمعين، وأول من أجاب واستجاب لله ولرسوله من المؤمنين، وأول السابقين، وقاصم المعتدين، ومبيد المشركين، وسهم من مرامي الله على المنافقين، ولسكان حكمة العابدين، وناصر دين الله وولي أمر الله، وبستان حكمة الله، وعيبة علمه.

سمح، سخي بهي، بهلول، زكي، أبطحي، رضي، مقدام، همام، صابر، صوام، مهذب، قوام، قاطع الأصلاب، مفرق الأحزاب، أربطهم عناناً وأثبتهم جناناً، وأمضاهم عزيمة، وأشدهم شكيمة، أسد باسل، يطحنهم في الحروب إذا ازدلف الأسنة، وقربت الأعنة، طحن الرحا، ويذرهم فيها ذرو الريح الهشيم، ليث الحجاز وكبش العراق، مكي، مدني، خيفي، عقبي، بدري أحدي، شجري، مهاجري، من العرب سيدها، ومن الوغى ليثها، وارث المشعرين، وأبو السبطين: الحسن والحسين، ذك جدي علي بن أبي طالب (ع) " یعنی اس کا فرزند ہوں جس نے لوگوں کی ناکوں پر ضربیں لگائیں یہاں تک کہ انہوں نے لا الہ اللہ کہا میں اس کا فرزند ہوں جس نے رسول اللہ(ص) کے سامنے دو تلواروں سے جنگ کی ( یعنی ایک زمانے تک معمولی تلوار سے اور ایک مدت تک ذوالفقار سے ) دو نیزے چلائے، دو ہجرتیں کیں اور دوسری بیعتیں کیں، بدر وحنین میں کافروں سے جہاد کیا اور چشم زدن کے لیے بھی خدا سے کفر اختیار نہیں کیا۔ میں صالح المومنین انبیاء کے وارث، ملحدین کے سر توڑنے والے ، مسلمانوں کے بادشاہ جہاد کرنے والے کے نور اور عبادت کرنے والوں کی رونق و خوف خدا میں رونے والوں کے سرتاج، صبر کرنے والوں کے سردار اور اہلبیت(ع) رسول اللہ(ص) کے نماز گزاروں میں سب سے بہتر کا فرزند ہوں جس کی جبرئیل نے تائید کی اور میکائیل نے نصرت کی۔ میں فرزند ہوں مسلمانوں کی عزت بچانے والے، دین سے پھر جانے والوں (یعنی اہل نہروان) بیعت توڑنے والوں( یعنی اصحاب جمل) اور ظالموں اور باغیوں ( یعنی صفین والوں) کے قاتل اپنے ناصبی دشمنوں سے جہاد کرنے والے، طائفہ قریش کے سارے چلنے پھرنے والوں سے زیادہ صاحب فخر، سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول(ص) کی دعوت قبول کرنے والے ، ایمان کی طرف سبقت کرنے والوں کے پیش رو ظالمین کو توڑنے والے، مشرکین کو ہلاک کرنے والے

۳۴۶

منافقین پر خدا کے تیروں میں سے ایک تیر، پروردگار عالم کی زبان حکمت دین خدا کے مددگار ، امر الہی کے کفیل، حکمت خدا کے باغ، اس کے علم کے خزانے ، جوانمرد ، صاحب سخاوت ، کشادہ رو، نیک و پاکیزہ بطحا کے ساکن ، پسندیدہ صفات، میدان جنگ میں پیش قدمی کرنے والے، بزرگ سردار صبر کرنے والے، بلند اخلاق ، کثیر القیام، پشتوں کے قطع کرنے والے اور گمراہ گروہوں کے پراگندہ کرنے والے کا جس نے مستقل طور پر اپنے نفس کو ان سب سے زیادہ قابو میں رکھا جس کا دل سب سے زیادہ مضبوط اور جس کا شکم سب سے زیادہ محکم تھا ( یعنی مظلوموں کا حق ثابت کرنے میں جملہ افراد بشر سے زیادہ ثابت قدم تھا) میدان جنگ میں شیر زیاں تھا جو سواروں اور پیادوں کے اپنے نیزوں کے ساتھ قریب ہونے کے وقت مخالفین کو پیس کر رکھ دیتا تھا اور ان کو اس طرح ریزہ ریزہ اور متفرق کر دیتا تھا جیسے طوفانی آندھی خس و خاشاک کو منتشر کردیتی ہے ، حجاز والوں کا شیر، عراق والوں کا قائد، مکی، مدنی ، دین میں پاکیزہ ترین مسلم، عقبہ میں بیعت کرنے والا بدر و احد کا شہسوار ۔ بیعت شجرہ کا جوانمردہجرت کا یکتا فداکار ، عرب کا سید وسردار ، شیر پیشہ رہیجا۔ مشعرین کا وارث اور دو سبط پیغمبر حسن و حسین(ع) کا باپ، یہ ہیں میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل اس کے بعد فرمایا۔

"أناابن خديجةالكبرى ،أناابن فاطمةالزهراء،أناابن المزرحمن القفا،أناابن العطشان حتّى قضى،أناابن من منعه من الماء و احلوه علی سائر الوری. انا ابن من لا يغسل له و لا کفن يری. انا ابن من وقع راسه علی القنا. انا ابن من هتک حريمه بارضكربلا، انا ابن من جمه بارض و راسه باخری انا ابن من سبيت حريمه الی الشام تهدی. ثم انه صلوات الله عليه انتحب و بکی فلم يزل يقول انا انا حتی ضبع الناس بالبکاء والنحيب."

یعنی میں ہوں فرزند خدیجہ کبری(ع) کا، میں ہوں فرزند فاطمہ زہرا(ع) کا میں ہوں فرزند اس کا جو پشت گردن سے مذبوح ہوا۔ میں ہوں فرزند اس کا جو پیاسا دنیا سے اٹھا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس پر پانی بند کردیا گیا اور ساری مخلوق پر مباح رکھا گیا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کو نہ غسل دیا گیا نہ کفن ملا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کا سر مطہر نیزے پر بلند کیا گیا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کے حرم کو اسیر کر کے شام کی طرف لایا گیا۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے بہ آواز بلند گریہ فرمایا اور برابر انا انا فرماتے رہے یعنی یونہی مسلسل اپنے آبا و اجداد کے فضائل و مناقب اور پدر بزرگوار و اہلبیت (ع) کے مصائب بیان فرماتے رہے یہاں تک کہ لوگ چیخین مار مار کے روئے اور فریاد کرنے لگے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کے بعد بیان مصائب کی جو پہلی مجلس منعقد ہوئی وہ یہیں شام کی مسجد جامع اموی کے اندر تھی جس میں سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے جد بزرگوار امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل و مناقب نقل کرنے کے بعد دشمنوں کے مجمع میں اپنے پدر عالی قدر کے اس قدر مصائب بیان فرمائے کہ یزید پلید کی موجودگی میں شام والوں کی صدائے نالہ و بکا اس طرح بلند ہوئی جس سے یزید ڈر گیا اور وہاں بیٹھ نہیں سکا بلکہ گھبرا کر مسجد سے چلا گیا۔

اسی مسجد اور حضرت کی تقریر سے بنی امیہ کے خلاف لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہونے لگا ( جس سے مجبور ہو کر یزید نے سیاسی رنگ میں ندامت کا اظہار کیا اور عبید اللہ ابن مرجانہ ملعون پر لعنت کی کہ اس نے ایسی افسوسناک حرکت کی۔ آخر کار بنی امیہ کے کفر و ظلم اور الحاد کے

۳۴۷

محل کے اینٹ سے اینٹ بچ گئی۔ یہاں تک کہ آج اس نابکار قوم کے پایہ تخت شام کے اندر بنی امیہ قبر بھی موجود نہیں ہے البتہ بنی ہاشم کا قبرستان شامیوں کا مرکز توجہ ہے اور عترت و اہلبیت رسول(ص) کی کافی قبریں شیعہ و سنی عوام و خواص کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہیں۔

غرضیکہ تمام ارباب مقاتل اور تواریخ نے لکھا ہے کہ حضرت مدینے سے مکے اور کربلا تک برابر کنایہ اور صراحتا اپنی شہادت کی خبر دیتے رہے اور لوگوں کو سمجھاتے رہے کہ میں قتل ہونے کے لیے جا رہا ہوں۔

من جملہ اور خطبوں کے ایک تفصیلی خطبہ ہے جو حضرت نے روز ترویہ مکہ معظمہ میں تمام مسلمانوں کے سامنے ارشاد فرمایا اور جس میں صاف صاف اپنی شہادت کی خبر دی ۔ چنانچہ حمد الہی اور خاتم الانبیاء پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا :

" خط الموت على ولد آدم مخط القلادة على جيد الفتاة وما أولهني إلى أسلافي اشتياق يعقوب إلى يوسف ، وخير لي مصرع انا لاقيه ، كأني بأوصالي تقطعها عسلان الفلوات بين النواويس " (1)

یعنی اولاد آدم(ع) کے موت اس طرح گلوگیر ہے جیسے جوان عورت کی گردن میں گلو بند ہیں اپنے اسلاف سے جاملنے کا کس قدر مشتاق ہوں جیسے کہ یعقوب یوسف(ع) کے لیے بیچین تھے اور میرے

گرنے کے لیے وہ زمین منتخب کی گئی ہے جہاں مجھ کو پہنچنا ہے، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ صحرائی بھیڑئیے نواویس و کربلا کے درمیان میرے جسم کا بند بند جدا کررہے ہیں، حضرت اس قسم کے جملوں سے لوگوں کو سمجھاتے تھے کہ میں کوفے اور مقام خلافت تک پہنچوں گا بلکہ نواویس اور کربلا کے درمیان خونخوار بھیڑیوں کے ہاتھوں قتل ہوجائوں گا ۔ بھیڑیوں سے مراد آپ کے قاتل اور بنی امیہ وغیرہ ہیں اور وہ خونخوار بھیڑیوں کے مانند مجھ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے قتل کریں گے۔

اس قسم کی باتوں اور روایتوں سے آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے شہادت کے قصد سے سفر فرمایا تھا نہ کہ ریاست و خلافت کے خیال سے۔ آپ راستے بھر مختلف طریقوں سے اپنی موت کی خبر دیتے تھے اور برابر ہر منزل پر اپنے اصحاب و اعزہ کو جمع کر کے فرماتے تھے کہ دینا کی پستی اور بے وقعتی کے لیے یہی واقعہ کافی ہے کہ حضرت یحی (ع) کا سر قلم کر کے ایک زنا کار عورت کے سامنے ہدیہ لے گئے تھے اور عنقریب مجھ مظلوم کا سر بھی بدن سے جدا کر کے یزید شراب خوار کے پاس لے جاییں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ جلیل القدر محدث ثقہ الاسلام حاجی شیخ عباس قمی طاب ثراہ نفس المہموم میں کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ محدث نوری رحمتہ اللہ نے کتاب نفس الرحمن میں کہا ہے کہ نواویس عیسائیوں کا قبرستان ۔ چنانچہ حواشی کفعمی میں لکھا ہے اور ہم نے سنا ہے کہ یہ قبرستان اس مقام پر واقع تھا جہان اب حر ابن یزید ریاحی کا مزار ہے یعنی شہر کربلا کے شمال جنوب میں اور کربلا جو لوگوں میں معروف ہے اور اس نہر کے کنارے ایک خطہ زمین ہے جو جنوب سے شہر کی طرف جارہی ہے اور مزار معروف بہ ابن حمزہ سے گزرتی ہے اس کے ایک حصے پر کھیت ہیں اور شہر کربلا ان دونوں کے درمیان ہے۔

۳۴۸

حضرات ذرا غور کیجئے کہ جس وقت کوفے سے دس فرسخ پر حر ابن یزید ریاحی نے ایک ہزار سواروں کے ساتھ حضرت کی راہ روکی اور عرض کیا کہ عبید اللہ ابن زیادکے حکم سے میں آپ کا نگران مقرر ہوا ہوں، نہ آپ کو کوفے جانے دوں گا اور نہ تا حکم ثانی ساتھ چھوڑوں گا تو حضرت کہنا مان کر کیوں اتر پڑَ اور اپنے کو حر کے قابو میں دے دیا۔

اگر حضرت امارت و خلافت کے خیال میں ہوتے تو لشکر حر کی خواہش ہرگز قبول نہ کرتے در آنحالیکہ حر کے ساتھ ایک ہزار سے زیادہ سپاہی نہیں تھے اور حضرت کے ہمراہ تیرہ سو سوار اور پیاے تھے جن میں قمر بنی ہاشم جناب عباس(ع) اور علی اکبر(ع) جیسے ہاشمی جوان بھی تھے جن میں سے ایک ایک فرد ایک ہزار سپاہیوں کو زیر کرنے کے لیے کافی تھا اور کوفے تک بھی دس فرسخ کچھ زیادہ نہیں تھے۔ قاعدے کے مطابق چاہئیے تو یہ تھا کہ ان کو شکست دے کر اپنے کو مرکز حکومت ( کوفہ) تک پہنچا دیتے جہاں لوگ آپ کے منتظر بھی تھے ۔ وہاں سازو سامان سے مضبوط ہو کر مقابلہ کرتے ۔۔۔۔ تاکہ غلبہ حاصل ہوتا ، نہ یہ کہ حر کی باتیں مان کے فورا ٹھہر جائیں اور اپنے کو ایک بیابیان میں دشمنوں کے اندر محصور کر لیں، کہ چار روز کے بعد جب دشمن کی کمک پہنچ جائے تو فرزند رسول (ص) کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑے ۔ حضرات اگر اس واقعے کے قرائن پر گہری نظر ڈالیے تو آپ کو خود ہی جواب مل جائے گا اور سمجھ میں آجائے گا کہ حضرت نے کسی اور ہی نیت سے یہ مسافت طے کی تھی ۔ اس لیے کہ اگر ریاست کی خواہش ہوتی تو جس وقت دشمنوں کا محاصرہ انتہائی شدت پر تھا اور چاروں طرف کوسوں تک دشمن کی فوجیں پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ ایسے طریقے اختیار نہ فرماتے کہ اپنی چھوٹی سی جماعت اور موجودہ طاقت کو بھی منتشر کردیں۔

عاشورا کی شب میں حضرت کا خطبہ ہمارے دعوے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ اس لیے کہ شب عاشور تک حضرت کی خدمت میں تیرہ سو سپاہی موجود تھے جو لڑنے مرنے پر آمادہ تھے لیکن اسی رات کو نماز مغربین کے بعد حضرت کرسی پر تشریف لے گئے اور ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں صاف صاف ایسے کلمات بیان فرمائے کہ اس لشکر اور جاہ طلب اشخاص پر خوف طاری ہوگیا ، تمام ارباب مقاتل نے لکھا ہے کہ حضرت نے فرمایا جو لوگ دنیاوی ریاست و حکومت کے خیال میں آئے ہیں وہ جان لیں کہ کل جو شخص اس سر زمین پر رہے گا وہ قتل ہوجائے گا۔ یہ لوگ سوا میرے کسی اور کو نہیں چاہتے ۔ میں تمہاری گردنوں سے اپنی بیعت اٹھائے لیتا ہوں، رات کا وقت ہے اٹھو اور چلے جائو ۔ ابھی حضرت کی تقریر ختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ ساری جماعت روانہ ہوگئی اور صرف بیالیس نفر باقی رہ گئے ، جن میں اٹھارہ بنی ہاشم اور چوبیس اصحاب تھے۔ آدھی رات کے بعد دشمن کے لشکر سے تیس بہادر سپاہی شبخوں کے ارادے سے نکل کے آئے لیکن جب حضرت کے تلاوت قرآن کی آواز سنی تو وجد کے عالم میں آکر امام کی خدا پرست فوج سے مل گئے۔ چنانچہ بناء بر مشہور یہی کل بہتر افراد روز عاشور حق پر قربان ہوئے جن میں سے اکثر زہاد و عباد اور قاریان قرآن تھے۔

یہ سب ایسے واضح دلائل اور قرائن ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ حضرت نے دنیاوی انقلاب کے قصد سے اور جاہ و سلطنت کی محبت میں مسند خلافت تک پہنچنے کے لیے سفر نہیں فرمایا تھا بلکہ آپ کا واحد مقصد ترویج دین حمایت حق اور حریم اسلام سے دفاع کرنا تھا۔ اور وہ بھی اس طریقے سے کہ جان نثار کر کے لا الہ الا اللہ کا پرچم بلند کریں اور کفر و فساد کا علم سر نگوں کردیں۔ کیونکہ دین

۳۴۹

کی نصرت و حمایت کبھی تو قتل کرنے سے ہوتی ہے اور کبھی قتل ہونے سے ۔ چنانچہ حضرت کمر باندھے مردانہ وار اٹھ کھڑے ہوئے اور مظلومیت کی قوت سے نیز احباب و اعزاء بالخصوص چھوٹے چھوٹے بچوں کی قربانیوں کی طاقت سے بنی امیہ کے ظلم و فساد کی جڑ اس طرح اکھاڑی کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو بلند کرنے اور شجرہ مقدسہ اصلہا ثابت کو سیراب کرنے میں آپ کی جلیل القدر خدمات کا آج ہر دوست و دشمن کو اعتراف ہے کہ یہاں تک کہ دیں سے بیگانہ افراد بھی دلیل و برہان کے روسے اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں۔

امام حسین (ع) کی مظلومیت پر انگلینڈ کی خاتون کا مقالہ

فرانس کے انیسویں صدی کے دائرۃ المعارف میں تین شہید کے عنوان سے انگلینڈ کی ایک ذی علم خاتون کا مقالہ ہے جو بہت تفصیلی ہے لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے کہ لکھتی ہیں تاریخ انسانیت میں اعلائے کلمہ حق کے لیے تین شخصیتوں نے ایسی جانبازی اور فداکاری دکھائی کہ سارے جانبازوں اور فداکاروں سے گوئے سبقت لے گئیں۔

اول یونان کے حکیم سقراط نے ایتھنس میں دوسرے حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام نے فلسطین میں ( یہ عقیدہ موصوفہ کا ہے جو عیسائی ہیں ۔ ورنہ ہم مسلمانوں کا اعتقاد تو یہ ے کہ حضرت مسیح مصلوب و مقتول نہیں ہوئے جیسا کہ سورہ نمبر4 ( نساء) آیت نمبر156 میں صریحی ارشاد ہے۔

"وَماقَتَلُوهُ وَماصَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِين َاخْتَلَفُوافِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّااتِّباعَ الظَّنّ ِوَماقَتَلُوه يَقِيناًبَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ"

یعنی عیسی بن مریم کو نہ قتل کیا نہ سولی دی بلکہ حقیقت ان پر مشتبہ ہوگئی اور جن لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیا وہ در حقیقت شک و شبہ میں مبتلا ہوگئے۔ ان کو سوا اپنے گمان کی پیروی کے کوئی علم حاصل نہیں تھا اور یقینی طور پر مسیح کو انہوں نے قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔

تیسرے مسلمانوں کے پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ ) کے فرزند حضرت حسین علیہ السلام ، نے اس کے بعد لکھا ہے کہ جب ان تینوں بزرگ شہیدوں میں سے ہر ایک شہادت و جانبازی کی کیفیت اور تاریخی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ حضرت حسین (ع) کی جانبازی اور فداکاری ان دو ہستیوں ( یعنی سقراط و عیسی(ع)) سے کہیں وزنی اور اہم تحی اور اسی وجہ سے آپ کو سید الشہداء کا لقب حاصل ہوا کیوں کہ سقراط اور حضرت مسیح نے خدا کی راہ میں صرف اپنی اپنی جانیں قربان کیں، لیکن حضرت حسین علیہ السلام نے سفر غربت اختیار کر کے اپنی جماعت سے دور ایک بیابان میں دشمنوں کے محاصرے کے اندر اپنے ایسے عزیزترین اعزہ کو حق پر قربان کیا اور ان کو اپنے ہاتھوں دشمن کے سامنے بھیج کے دین خدا پر نثار کیا جن میں سے ایک ایک کو ہاتھ سے دینا خود اپنا سر دینے سے زیادہ سخت تھا۔

مظلومیت حسین (ع) کی سب سے بڑی دلیل مسلمانوں کے سامنے آپ کا اپنے شیر خوار کی قربانی دینا ہے۔ اس لیے کہ کسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ ایک شیر خوار بچے کو بے قدر و قیمت پانی طلب کرنے کے لیے لایا جائے اور مکار و غاباز قوم پانی دینے کے عوض اس کو تیر جفا کا نشانہ بنادے۔

۳۵۰

دشمن کے اس عمل نے حسین(ع) کی مظلومیت کو ثابت کردیا اور اسی مظلومیت کی طاقت نے بنی امیہ کے مقتدر خاندان کی بساط عزت پلٹ کے اس کو رسوائے زمانہ بنا دیا۔ آپ کی اور آپ کے محترم اہلبیت (ع) ہی کی جانبازیوں کا نتیجہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دین کو از سر نو زندگی حاصل ہوئی۔ ( انتہی)

ڈاکٹر ماربین جرمنی، ڈاکٹر جوزف فرانسیسی اور دوسرے یورپین مورخین سب کے سب اپنی تاریخوں میں تصدیق کرتے ہیں کہ حضرت سید الشہداء علیہ السلام کا کردار اور ان بزرگوار کی فداکاری ہی مقدس دین اسلام کے لیے سبب حیات بنیں۔ یعنی آپ نے بنی امیہ کے ظلم و کفر کی رگیں کاٹ دیں، ورنہ اگر حضرت کے یہ خدمات اور نصرت حق میں ایسا ثابت قدم نہ ہوتا تو بنی امیہ دین توحید کی جڑیں بالکل ہی کاٹ دیتے اور خدا و رسول(ص) اور دین و شریعت کا نام ہی دنیا سے مٹا دیتے۔

نتیجہ مطلوب اور انکشاف حقیقت

پس میرے معروضات کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت سید الشہداء ارواحنا لہ الفداء کی مقاوست اور جنگ صرف دین کے لیے تھی جس کے انصاف پسند دوست و دشمن بھی معترف ہیں۔

لہذا حضرت کے زوار و عزادار اور دوستدار شیعہ جس وقت سنتے ہیں کہ آپ نے یزید سے اس لیے مقابلہ کیا کہ وہ حرام اور ناجائز افعال کا مرتکب تھا تو ان کو توجہ ہوجاتی ہے کہ بد اعمالیاں حضرت کی ناراضگی کا باعث ہیں اور پھر و محرمات و منکرات سے الگ رہنے کی کوشش کرتے ہیں جو امام کو ناگوار ہیں، اور واجبات پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جب وہ سنتے ہیں اور کتب مقاتل و تواریخ میں پڑھتے ہیں کہ حضرت نے روز عاشورا بلائوں کے اس ہجوم اور مصائب کی اس شدت میں جس کی مثال پیش کرنے سے تاریخ عالم قاصر ہے اپنی نماز ترک نہیں کی بلکہ نماز ظہر با جامعت ادا فرمائی تو ادائے واجبات بلکہ نوافل و مستحبات میں بھی سعی بلیغ سے کام لیتے ہیں تاکہ حضرت کے نزدیک محبوب اور لائق توجہ قرار پائیں۔ اس لیے کہ حضرت کا محبوب یقینا خدائے تعالی کا محبوب ہے لہذا جو تصور آپ یا دوسرے لوگوں نے قائم کیا ہے وہ خلاف حقیقت اور مغالطہ بازی ہے۔ آپ دھوکے میں ہیں اور مطلب غلط نکالا ہے بلکہ آپ حضرات کے قول کے بر خلاف اس طرح کی حدیثیں شیعوں کی روحانی قوت کو بیدار کر کے ان کو اور زیادہ عمل پر آمادہ کرتی ہیں۔ خصوصا جب علماء و ذاکرین مطالب کی تشریح کرتے ہیں اور حضرت کے فلسفہ شہادت کو کما حقہ بیان کرتے ہیں تو بہت ہی اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے خود برابر ان حقائق کامشاہدہ کیا ہے کہ ہر سال محرم میں حضرت کے طفیل اور ان مجلسوں کی برکت سے جو آپ کے نام منعقد ہوتی ہیں اور لوگ ان میں اکٹھا ہوتے ہیں۔ اکثر بہکے ہوئے نوجوان واعظین کرام اور مبلغین عظام کے تبلیغی بیانات سے متاثر ہو کر راہ راست اور صراط مستقیم پر آگئے اور جملہ افعال بد سے توبہ کر کے سچے شیعوں کی صف میں شامل ہوگئے۔

( جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو اکثر حضرات اشکبار آنکھوں کے ساتھ سکوت کے عالم میں ںظر آئے اور ہم نے ارادہ کیا کہ اب جلسہ برخاست کریں۔)

۳۵۱

نواب : قبلہ صاحب باوجودیکہ وقت کافی گزرا لیکن آپ نے ہم لوگوں کو حد سے زیادہ متاثر فرمایا اور اس بزرگ و فداکار شخصیت کو جو ریحانہ رسول(ص) تھی اپنے اس مختصر بیان سے بخوبی پہچنواکر ہم سب کو ممنون کیا۔ آپ کے جد رسول خدا(ص) آپ کو اس کا صلہ عنایت فرمائیں۔ میں ہیں سمجھتا کہ آج کی شب اس جلسے میں کوئی ایسا شخص ہو جس پر جناب کا اثر نہ پڑا ہو۔ خدا آپ سے راضی رہے اور اپنا لطف و کرم آپ کے شامل حال رکھے ہم کو اس طرح مستفیض فرمایا۔ در حقیقت بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہم اب تک لوگوں کی باتوں میں آکر ان کی اندھی تقلید کرتے رہے اور ان مظلوم آقا کی زیارت اور مجالس عزا کی شرکت کے فیوض و برکات سے محروم رہے یہ محض اس غلط پروپیگینڈے کا اثر تھا جو وہ تعصب کی بناء پر ہمارے درمیان کرتے رہے اور کہتے رہے کہ زیارت امام حسین(ع) اور مجالس عزا میں جانا بدعت ہے۔ واقعی کیا اچھی بدعت ہے جو انسان کو بیدار اور صاحب معرفت بناتی ہے اور اہلبیت(ع) رسول(ص) و خدمت گزاران دین و شریعت کی حقیت سے روشناس کرتی ہے۔

زیارت کا ثواب اور اس کے فوائد

خیر طلب : یہ جو آپ نے اہلبیت و عترت رسول (ع) کی عزاداری اور ان کی زیارت قبور کے متعلق بدعت کا جملہ فرمایا تو اس کا سرچشمہ قطعی طور پر نواصب و خوارج کے عقائد ہیں اور علماء اہلسنت نے بھی بغیر اس پر غور کئے ہوئے کہ بدعت وہ چیز ہے جس کے بارے میں خدا و رسول(ص) یا اہلبیت رسول(ع) کی جانب سے جو عدیل قرآن ہیں کوئی ہدایت نہ ملی ہو۔ بر بنائے عادت ان کی پیروی کی ہے حالانکہ امام حسین علیہ السلام کے لیے رونے اور ان کی زیارت کے بارے میں علاوہ اس کے کہ شیعوں کی معتبر کتابوں میں تواتر کےساتھ وارد ہوا ہے۔ خود آپ کی معتبر کتب اور مقاتل میں بھی تمام بڑے بڑے علماء نے کافی روایتیں نقل کی ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں اس سے قبل اشارہ کرچکا ہوں۔ اس وقت تنگی وقت کے لحاظ سے زیارت کے متعلق ایک مشہور روایت پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں جو تمام مقاتل اور حدیث کی کتابوں میں درج ہے۔ ایک روز رسول خدا(ص) ام المومنین عائشہ کے حجرے میں تشریف رکھتے تھے کہ حسین علیہ السلام حاضر ہوئے پیغمبر(ص) نے ان کو آغوش محبت میں لے کر کثرت سے بوسے دیئے اور سونگھا۔ عائشہ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ(ص) حسین(ع) کو کس قدر چاہتے ہیں؟ آںحضرت (ص) نے فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتی ہو کہ یہ میرا پارہ جگر اور میرا پھول ہے؟ اس کے بعد آنحضرت(ص) رونے لگے۔ عائشہ نے گریے کا سبب پوچھا تو فرمایا میں تلواروں اور نیزوں کے مقامات چومتا ہوں جو بنی امیہ میرے حسین(ع) پ؛ر لگائیں گے۔ عائشہ نے عرض کای کیا ان کو قتل کرینگے؟ فرمایا ہاں ان کو بھوکا اور پیاسا شہید کریں گے۔ ان لوگوں کو ہرگز میری شفاعت نصیب نہیں نہ ہوگی خوشا حال اس شخص کا جو بعد شہادت ان کی زیارت کرے۔ عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) ان کے زائر کو کیا ثواب ملے گا؟ فرمایا میرے ایک حج کا ثواب۔ عائشہ نے تعجب سے کہا کہ آپ کا ایک حج؟ فرمایا میرے دو حج کا۔ عائشہ نے اور زیادہ تعجب کیا تو فرمایا میرے چار حج کا۔ عائشہ برابر تعجب ظاہر کرتی جاتی تھیں اور آنحضرت(ص) ثواب میں اضافہ فرماتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ فرمایا عائشہ جو شخص میرے حسین(ع) کی زیارت کرے خدا اس کے نامہ اعمال میں میرے نوے حج اور نوے عمروں کا ثواب درج فرمائیگا۔ اس کے بعد عائشہ چپ ہوگئیں۔ خدا کے لیے آپ حضرات انصاف

۳۵۲

کیجئے کہ کیا ایسی زیارت بدعت ہے جو رسول اللہ (ص) کی سفارش اور توجہ کی مرکز ہو؟ حضرت کی زیارت اور مجالس عزا میں شرکت کی مخالفت اور اس کو بدعت سے تعبیر کرنا یقینا آںحضرت(ص) اور اہلبیت طاہرین(ع) کی دشمنی ہے۔

زیارت قبور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے اثرات

باطنی فوائد اور اخروی اجر کے علاوہ قبور ائمہ طاہرین(ع) کی زیارت میں جو ظاہری منافع ملحوظ ہیں۔ وہ ہر عقل مند انسان کو اس بزرگ عبادت کی طرف راغب کرتے ہیں جو اور بہت سی عبادتوں کی باعث ہوتی ہے۔

آپ اگر ان عتبات عالیات سے مشرف ہوں تو کھلا ہوا مشاہدہ کریں گے کہ (رات کے درمیان چند گھنٹوں کے علاوہ جب کہ خدام کے آرام اور صفائی کے لیے حرم بند رہتا ہے طلوع صبح کے دو گھنٹے قبل سے تقریبا آدھی رات تک روز و شب وہ حرم اور قبروں کے پاس کی مسجدیں زائرین اور مجاورین اور خواص و عوام سے بھری رہتی ہیں اور یہ سب لوگ مختلف عبادتوں، واجب و مستحب نمازوں، تلاوت قرآن درورد و اداء وظائف می سرگرم رہتے ہیں۔ جو لوگ اپنے گھروں اور وطنوں میں سوا واجبات ادا کرنے کے زیادہ عبادتوں کی توفیق نہیں رکھتے وہ بھی ان مقدس مقامات میں زیارت اور قربت محبوب کے شوق میں طلوع صبح سے دو گھنٹے پہلے مشرف ہو کر تہجد اور اپنے پروردگار سے مناجات میں مصروف رہتے ہیں اور تلاوت قرآن اور خوف خدا سے گریہ و زاری ان کی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے۔ چنانچہ وہاں سے واپسی کے بعد بھی عبادات میں مشغول اور گناہوں سے الگ رہتے ہیں اور بڑے اشتیاق کے ساتھ نوافل اور قضا نمازیں بجالاتے ہیں۔

آیا یہ عمل جو دوسرے بہت سے اعمال کا سبب بنتا ہے اور لوگ اس کے ذریعے توفیق حاصل کر کے طرح طرح کی عبادتوں میں منہمک ہوتے ہیں اور رات دن میں کم از کم صبح سے پہر اور رات کو دو تین گھنٹے نماز و دعا و تلاوت قرآن اور ورد وظائف میں مشغول رہ کر اپنے کو پروردگار کی رحمت و عنایت کا مستحق بناتے ہیں بدعت ہے؟

اگر زیارت مزارات ائمہ اطہار(ع) کا اور کوئی نتیجہ نہ ہوتا تو صرف یہی عبادتوں کی توفیق اور سرگرمی ہی اس کا شوق دلانے کے لیے کافی تھی تاکہ ان وسائل سے اپنے معبود کے ساتھ رابطہ مضبوط کر کے روحانی طہارت حاصل کریں جو تمام نیک بختیوں کی جڑ ہے۔( کیونکہ اپنے شہروں اور گھروں میں رہ کے دنیاوی مشاغل کی وجہ سے پورا میلان پیدا نہیں ہوتا۔)

کیا آپ بلاد اہل تسنن میں ہم کو کوئی ایسا مقدس مقام بتاسکتے ہیں جہاں عالم و جاہل اور عوام وخواص چوبیس گھنٹے عبادات میں مشغول رہتے ہوں سوا مسجدوں کے جہاں فقط نماز پڑھ کے فورا متفرق ہوجاتے ہیں؟ بغداد اور معظم میں جہاں شیخ عبدالقادر جیلانی اور امام ابوحنیفہ کی قبریں ہیں۔ ہمیشہ ان کے دروازے بند رہتے ہیں ، صرف نماز کے وقت ان مزاروں کی مسجدیں کھولی جاتی ہیں اور چند مخصوص آدمی آکر نماز پڑھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ شہر سامراء میں جہاں شیعوں کے دو برحق امام حضرت ہادی علی نقی علیہ السلام ( امام دہم)

۳۵۳

اور حضرت حسن عسکری علیہ السلام ( امام یازدہم) مدفون ہیں تمام شہر کے باشندے یہاں تک کہ آستانہ مقدس کے خدام بھی جو برادران اہل سنت میں سے ہیں، طلوع فجر کے قریب بڑی زحمت سے جب شیعہ زائرین و مجاورین اور اہل علم چیخ پکار مچاتے ہیں۔ تب حرم کا پھاٹک کھولتے ہیں لیکن ہم کو ایک بھی بوڑھا جوان عالم و جاہل سنی ایسا نظر نہیں آتا جو اس مسجد کے کسی گوشے میں مشغول عبادت ہو۔ یہاں تک کہ خدام بھی دروازہ کھولنے کے بعد جا کر سوجاتے ہیں۔ البتہ شیعہ لوگ حرم کے اندر پورے ذوق و شوق کے ساتھ عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ہیں وہ اثرات اور برکات جو ان مقدس مزارات سے شیعوں کو نصیب ہوتے ہیں۔ خدا آپ کو مشرف ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ عراق عرب میں آپ کو دو شہر ایک دوسرے کے پہلو میں صرف دو فرسخ کے فاصلے سے نظر آئیں گے یعنی کاظمین اور بغداد ۔ اول الذکر شیعوں کا مرکز ہے جس میں امام ہفتم حضرت ابو ابراہیم موسی بن جعفر اور امام نہم ابو جعفر محمد ابن علی الجواد علیہم السلام کا مزار مبارک ہے اور دوسرا اہل سنت کا مرکز ہے جس میں شیخ عبدالقادر جیلانی اور آپ کے امام اعظم ابوحنیفہ کی قبریں ہیں۔ اگر اگر آپ غور کیجئے تو شیعوں کے برحق پیشوائوں اور اماموں کے بلند تعلیمات کا اندازہ ہوجائے گا اور بچشم خود دیکھئے گا کہ ان دونوں مقدس قبروں اور ان کی زیارت کے برکات سے کاظمین کے باشندے اور زوار شب میں جلد سوجاتے ہیں اور طلوع فجر سے دو گھنٹے قبل بیدار ہو کر پورے ذوق و شوق سے عبادت وتہجد کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے شیعہ تجار بھی جن کی دکانیں اور تجارتیں بغداد میں ہیں لیکن مکانات کاظمین میں ہیں سحر کے وقت حرم مطہر کے اندر عبادت الہی میں مشغول رہتے ہیں۔

لیکن اہ بغداد کس قدر گناہوں میں غرق، عیاشی اور شہوت پرستی کے دلدادہ اور خواب غفلت میں مدہوش ہیں۔

نواب : واقعی اس وقت اپنے اوپر لعنت کرنے کا موقع ہے کہ ہم لوگ بغیر تحقیق کئے کس لیے اںکھیں بند کر کے بہکانے والوں کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ چند سال قبل ایک قافلہ یہاں سے روانہ ہوا جس میں بدقسمتی سے میں بھی شامل تھا۔ ہم لوگ امام اعظم ابوحنیفہ اور جناب عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہما کی زیارت کے لیے بغداد گئے لیکن ایک روز میں گھومنے کے لیے کاظمین چلا گیا جب واپس ہوا تو میرے رفیقوں نے مجھ کو کچھ سخت و سست کہا۔ بڑے تعجب کا مقام ہے کہ معظم میں امام اعظم کی، بغداد میں شیخ عبدالقادر کی، ہندوستان میں خواجہ نظام الدین کی اور مصر میں شیخ اکبر مقبل الدین کی زیارتیں تو جائز اور موجب ثواب ہوں جن کے لیے ہر سال ہم لوگوں میں سے کافی اشخاص جاتے رہتے ہیں حالاکہ ان کے بارے میں رسول اللہ(ص) سے قطعا کوئی روایت بھی مروی نہیں ہے لیکن راہ خدا کے فدا کار مجاہد اور ریحانہ رسول(ص) کی زیارت جس کے لیے پیغمبر(ص) نے اس قدر ثواب بیان فرمایا ہے اور عقلا بھی یہ ایک مستحسن کام ہے بدعت ہوجائے۔ اس وقت میں نے قطعی اور پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ انشاء اللہ اگر زندہ رہا تو اس سال قربتہ الی اللہ اور خوشنودی خدا کے لیے رسول خدا(ص) کے فرزند عزیز جناب حسین شہید(ع) کی زیارت کے لیے جائوں گا اور خدا سے دعا کروں گا کہ میری پچھلی غلطیوں کو معاف فرمائے۔

اب آج کی شب میں دلی تاثر کے ساتھ انشاء اللہ کل رات تک کے لیے رخصت ہوتا ہوں۔

ختم شد

۳۵۴

فہرست

من لم یشکر الناس لم یشکر اﷲ 2

اشارہ 3

بسم اﷲ الرحمن الرحیم 4

آغازِ سفر 4

مجلسِ مناظرہ 6

پہلی نشست 6

شب جمعہ 23 رجب سنہ 1345 ہج 6

ذریت رسول (ص)کے بارے میں بارون رشید اور امام موسی کاظم (ع)کا سوال وجواب 9

اس بات پر کافی دلائل کہ اولاد فاطمہ (س)اولاد رسول(ص)ہیں 11

پیغمبر(ص)نماز ظہ ر ین و مغربین جمع وتفریق دونوں طرح س ے پ ڑھ ت ے ت ھے 13

بنی امیہ کے دلدوز حرکات 19

واقعہ شہادت زیدبن علی علیہ السلام 20

شہادت جناب یحیٰ 21

قبر علی علیہ السلام کا ظہور 22

مدفن امیرالمومنین علیہ السلام میں اختلاف 23

دوسری نشست 25

۳۵۵

شب شبنہ 24 رجب سنہ 1345 ھ 25

مذہب شیعہ پر اشکال پیدا کرنا 26

مخالفین کی اشکال تراشیوں کا جواب 27

شیعہ اور حقیقت تشیع کے معنی 29

مقام تشیع کی تشریح میں آیات و روایات 31

سلمان و ابوذر اور مقداد و عمار کی منزل 36

خلفاء دیالمہ اور غازاں خان اور شاہ خدا بندہ کے زمانہ میں 37

ایرانیوں کی توجہ اور تشیع کا سبب 37

مغلوں کے دور میں تشیع کا ظہور 40

قاضی القضاة کے ساتھ علامہ حلی کا مناظرہ 40

اسلام نے نسلی تفاخرات کو جڑ سے کاٹ دیا 43

سارے فسادات اور لڑائیاں نسلی تفاخرات کی بنا پر ہوتی ہیں 44

غالیوں کے عقائد، ان کی مذمت اور لعن بر عبد اﷲ ابن سبا 45

آل محمد علیھ م السلام پر سلام اور صلوات بھیجنے کے بار ے م یں مناظرہ 50

"یس "کے معن ی اور یہ کہ "س"پ یغمبر صلّی اللہ عل یہ وآلہ کا نام مبارک ہے 51

آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں 52

آل محمد(ص) پر صلوات بھیجنا سنت اور تشہ د نماز م یں واجب ہے 54

۳۵۶

تیسری نشست 56

شب یک شنبہ 25 رجب سنہ1345ھ 56

عقائد زیدیہ 57

عقائد کیسانیہ 58

عقائد قداحیہ 59

عقائد غلات 59

عقائد شیعہ امامیہ اثنا عشریہ 60

حدیث معرفت پر اعتراض 63

اعترض کا جواب 63

صحیحین بخاری ومسلم میں خلاف عقل روایتیں 65

رویت باری تعالی کے بار ے م یں اہ ل سنت ک ی چند روایتیں 66

اللہ تعالی کے عدم رو یت پر دلائل اخبار 68

خرافات صحیحین کی طرف اشارہ 69

ملک الموت کے چ ہ ر ے پر موس ی علیہ السلام کا تھ پ ڑ مارنا 71

انصاف موجب معرفت اور سبب سعادت ہے 72

شیعوں کی طرف شرک کی نسبت دینا 75

شرک کے اقسام 76

۳۵۷

شرک جلی 77

شرک در ذات 77

عقائد نصاری 77

شرک درصفات 78

شرک در افعال 78

شرک در عبادت 79

نذر کے بار ے م یں 80

شرک خفی 82

شرک در اسباب 83

شیعہ کسی پہ لو س ے مشرک ن ہیں 83

آصف بن برخیا کا سلیمان کے پاس تخت بلق یس لانا 85

آل محمد (ع)فیض الہی کے ذر یعے ہیں 86

حدیث ثقلین 87

بغیر تعصّب کے بار یک بینی سعادت کا سبب ہے 88

بخاری اور مسلم نے مردود اور جعل سازرجال س ے روا یتیں نقل کی ہیں 90

صحیحین بخاری ومسلم میں مضحک روایت اور رسو ل(ص)کی اہ انت 91

حدیث ثقلین کے اسناد 92

۳۵۸

حدیث سفینہ 94

دعائے توسل 98

اس جماعت کے فتو ے س ے ش ہید اول کی شہ ادت 100

"قاضی صیدا" کی بد گوئی سے ش ہید ثانی کی شہ ادت 102

انصاف پسند لوگوں کی توجہ کیلئے عمدہ بحث 103

ایرانیوں کے ساتھ ترکیوں ، خوارزمیوں ، ازبکوں اور افغانوں کا شرمناک رویہ 104

ایران مین خان خیوہ کے مظالم اور شیعوں کے قتل وغارت کے لئے علمائے اہل سنت کے فتوے 105

شیعوں کے قتل وغارت پر علمائے اہل سنت کے فتوے اور خراسان پر عبداللہ خاں ازبککے حملے 106

افغانستان کے شیعوں سے افعانی امیروں کا سلوک 106

شہید ثالث کی شہ ادت 107

شیخ کا اقدام، شبہہ ک ی ایجاد حملے ک ے لئ ے وس یلے کی تیاری-----اور---- اس کا دفاع 108

زیارت کے آداب 110

نماز زیارت اور دعائے بعد از نماز 110

ائمہ علیھ م السلام کے روضو ں پر آستان ہ بوس ی شرک نہیں ہے 112

بھائیوں کا یوسف(ع) کے لیے خاک پر گرنا اور سجدہ کرنا 114

جسم کی فنا کے بعد روح کی بقا 115

بقائے روح میں اشکال اور اس کا جواب 116

۳۵۹

اہل مادہ طبیعت کا ظہور اور حکیم سقراط سے ویمقراطیس کا مقابلہ 116

یورپ میں علمائے الہی کے اقوال 117

معاویہ و یزید کی خلافت اور ان کے کفر کی طرف سے مخالفین کا دفاع اور اس کا جواب 119

یزید کے کفر ارتداد پر دلائل 120

یزید پلید(لع) کی لعن پر علمائے اہل سنت کی اجازت 123

یزید کی بیعت توڑنے کے جرم میں اہل مدینہ کا قتل عام 124

گمنام جاں نثار 127

آل محمد(ص) شہدائے راہ خدا اور زندہ ہیں 129

چوتھی نشست 131

شب دوشنبہ 26 رجب سنہ 1345 ھ 131

آپ نے حقیقت کا نکشاف کر کے ہم پر احسان کیا 131

امامت کے بارے میں بحث 132

اہلسنت کے مذاہب اربعہ پر بحث اور کشف حقیقت 132

مذاہب اربعہ کی پیروی پر کوئی دلیل نہیں ہے 134

یہ عجیب معاملہ صاحبان عقل و اںصاف کے لیے قابل غور ہے 134

اہل تسنن کے علماء اور اماموں کا ابوحنیفہ کو رد کرنا 137

امامت شیعوں کے عقیدے میں ریاست عالیہ الہیہ ہے 139

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369