امام زین العابدین کی سوانح حیات

امام زین العابدین کی سوانح حیات  0%

امام زین العابدین کی سوانح حیات  مؤلف:
زمرہ جات: امام علی بن حسین(علیہ السلام)
صفحے: 113

امام زین العابدین کی سوانح حیات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: الشیعہ ڈاٹ او آر جی
زمرہ جات: صفحے: 113
مشاہدے: 25063
ڈاؤنلوڈ: 3240

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 113 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25063 / ڈاؤنلوڈ: 3240
سائز سائز سائز
امام زین العابدین کی سوانح حیات

امام زین العابدین کی سوانح حیات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عدول اختیار کر لیا اور اپنی ہوا و ہوس کی پیروی شروع کر دی ۔روشن و واضح نصوص کو ڻہکرا دیا ۔

لوگوں نے دیکہا حکام وقت سے ڻکر لینے کی نسبت یہ زندگی آرام دہ بھی ہے ۔

  اور ہر طرح کی درد سری سے خالی بھی ،لہٰذا اسی راحت طلبی میں لگ گئے اور ائمہ جور کی پیری اختیار کر لی ۔

لہٰذا وہ بھی مشرک قرار پاتے ہیں ۔

  ان حالات میں ،اگر ائمہ علیہم السلام شرک کے بارے میں کچہ بیان کرنا چاہیں تو یہ دربار خلافت سے ایک طرح کا تعرض ہوگا اور یہ چیز امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی اور حضرت (ع) کے کلمات میں موجود ہے ۔

  اس تعرض و مخالفت کا ایک اور نمونہ ہم امام علیہ السلام اور جابر و قدرت مند اموی حاکم عبدالملک کے درمیان ہونے والی بعض خط و کتابت میں مشاہدہ کرتے ہیں جس کے دو روشن نمونوں کی طرف یہاں اشارہ مقصود ہے ۔

  1۔ ا یک دفعہ عبدالملک بن مروان نے امام سجاد علیہ السلام کو خط لکھا اور اس میں حضرت (ع) کو اپنی ہی آزاد کردہ کنیز کے ساتھ ازدواج کر لینے کے سلسلے میں مورد ملامت قرار دیا ۔

  اصل میں حضرت (ع) کے پاس ایک کنیز تھی جس کو آپ نے پہلے آزاد کر دیا اس کے بعد اسی آزاد شدہ کنیز سے نکاح کر لیا ۔

۱۰۱

  عبد الملک نے خط لکھ کر امام) ع) کے اس عمل کو مورد شماتت قرار دیا ۔

ظاہر ہے امام (ع) کا عمل نہ صرف انسانیبلکہ ہر اعتبار سے اسلامی تھا کیوں کہ ایک کنیز کو کنیز ی اور غلامی کی زنجیر سے آزاد ی دینا اور پھر عزت و شرافت کا تاج پہناکر اسی کنیز کو رشتھ ازدواج سے منسلک کر لینا یقینا انسانیت کا اعلیٰ شاہکار ہے ۔

  اگر چہ عبد الملک کے خط لکھنے کا مقصد کچہ اور ہی تھا ،وہ امام کے اس مستحسن عمل کو تنقید کا نشانہ بنا کر حضرت (ع) کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ ہم آپ کے داخلی مسائل سے بھی آگاہی رکہتے ہیں گویا اس کے ضمن میں اصل مقصد حضرت(ع) کو ذاتی سرگرمیوں کے سلسلے میں متنبہ کرنا تھا ۔

  امام سجاد علیہ السلام جواب میں ایک خط تحریر فرماتے ہیں جس میں مقدمہ کے طور پر لکھتے ہیں: یہ عمل کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں قرار دیا جا سکتا بزرگوں نے بھی اس طرح کا عمل انجام دیا ہے حتیٰ کہ پیغمبر اسلام (ص) کے یہاں بھی اسی طرح کا عمل ملتا ہے چنانچہ اس سلسلے میں میرے لئے کوئی ملامت نہیں ہے ۔

  ”فلا لوٴم علیٰ امری : مسلم انما اللوٴم لوٴم الجاهلیة “ یعنی ایک مسلمان کے لئے کسی طرح کی ذلت و خواری نہیں پائی جاتی ہاں ذلت و پستی تو وہی جہالت کی ذلت و پستی ہے ۔

  عبد الملک کے لئے اسجملہ میں بڑا ہی لطیف طنز اور نصیحت مضمر ہے کتنے حسین انداز میں اسے اس کے آباء و اجداد کی حقیقت کی طرف متوجہ کر دیا گیا ہے

۱۰۲

  کہ یہ تم ہو جس کا خاندان جاہل و مشرک اور دشمن خدا رہا ہے اور جن کے صفات تم کو وراثت میں حاصل ہوئے ہیں !!اگر شرم ہی کی بات ہے تو تم کو اپنی حقیقت پر شرم کرنی چاہئے میں نے تو ایک مسلمان عورت سے شادی کی ہے اس میں شرم کی کیا بات ہے ؟ جس وقت یہ خط عبد الملک کے پاس پہنچا ،سلیمان عبد الملک کا دوسرابیڻا ،باپ کے پاس موجود تھا ،خط پڑہا گیا تو اس نے بھی سنا اور امام (ع) کی طنز آمیز نصیحت کو باپ کی طرح اس نے بھی محسوس کیا ۔

وہ باپ سے مخاطب ہوا اور کہا: اے امیر المومنین دیکہا ، علی ابن الحسین علیہ السلام نے آپ پر کس طرح مفاخرت کا اظہار کیا ہے ؟ وہ اس خط میں آپ کوسمجھ انا چاہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا تو تمام مومن باللہ رہے ہیں اور تیرے باپ دادا کافر و مشرک رہے ہیں ۔

  وہ باپ کو بہڑکانا چاہتا تھا تاکہ اس خط کے سلسلے میں عبد الملک کوئی سخت اقدام کرے لیکن عبد الملک بیڻے سے زیادہسمجھ دار تھا ۔

وہ جانتا تھا کہ اس نازک مسئلہ میں امام سجاد علیہ السلام سے الجہنا درست نہیں ہے لہٰذا اس نے بیڻے کوسمجھ اتے ہوئے کہا :میرے بیڻے : کچہ نہ کہو ،تم نہیں جانتے یہ بنی ہاشم کی زبان ہے جو پتھر وں میں شگاف پیدا کر دیتی ہے ،یعنی ان کا استدلال ہمیشہ قوی اور لہجہ سخت ہوتاہے ۔

  2۔ دوسرا نمونہ امام عل یہ السلام کا ایک دوسرا خط ہے جو عبد الملک کی ایک فرمائش رد کرنے کی بنا پر عبد الملک کی جانب سے تھدید و فہمائش کے جواب میں آپ (ع) نے تحریر فرمایا ہے ۔

۱۰۳

  واقعہ کچہ یوں پیش آتا ہے ۔

  عبد الملک کو معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلام (ص (کی تلوار امام سجاد علیہ السلام کی تحویل میں ہے اور یہ ایک قابل توجہ چیز تھی کیوں کہ وہ نبی (ص) کی یاد گار اور فخر کا ذریعہ تھی ،اور اب اس کا امام سجاد علیہ السلام کی تحویل میں چہوڑ دینا عبد الملک کے لئے خطر ناک تھا کیوں کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف کہینچتی تھی ۔

لہٰذا اس نے جو خط امام سجاد علیہ السلام کو لکھا اس میں درخواست کی کہ حضرت تلوار اس کے لئے بھیج دیں اور ذیل میں یہ بھی تحریر کر دیا تھا کہ اگر آپ (ع) کو کوئی کام ہو تو میں حاضر ہوں آپ کا کام ہو جائے گا مطلب یہ تھا آپ کے اس ہبہ کا عوض میں دینے کو تیار ہوں ۔

  امام علیہ السلام کا جواب انکار میں تھا لہٰذا دوبارہ اس نے ایک تھدید آمیز خط لکھا کہ اگر تلوار نہ بھیجی تو میں بیت المال سے آپ کا وظیفہ بند کردوں گا ۔ (6) امام اس دہمکی کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: اما بعد ،خداوند عالم نے ذمہ داری لی ہے کہ وہ اپنے پرہیز گا ربندوں کو جو چیز انہیں ناگوار ہے اس سے نجات عطا کرے گا اور جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکیں ایسی جگہ سے روزی بخشے گا اور قرآن میں ارشاد فرمادیا ہے: ”ان اللّٰه لا یحب کل خوان کفور“ ”یقیناًخدا کسی نا شکرے خیانت کارکودوست نہیں رکہتا ۔ “ اب دیکہو ہم دونوں میں سے کس پر یہ آیت منطبق ہوتی ہے

--------------

( 6)- یہ وہ زمانہ تھا جب تمام لوگوں کو بیت المال سے وظیفہ ملتا تھا اور امام علیہ ( السلام بھی تمام افراد کی طرح معین وظیفہ لیتے تھے ۔

۱۰۴

  ایک خلیفہ وقت کے مقابل میں یہ لہجہ بہت زیادہ سخت تھا،کیونکہ یہ خط جس کسی کے ہاتھ لگا وہ خود فیصلہ کرلے گا کہ امام اولاً:خود کو خائن اور نا شکرا نہیں سمجھتے ،ثانیاً:کوئی دوسرا شخص بھی اس عظیم ہستی کے بارے میں ایسا رکیک تصور نہیں رکہتا ،کیونکہ حضرت کا خاندان نبوت کے منتخب اور شائستھ ترین عظیم شخصیتوں میں شمار ہوتا تھا اور ہرگز اس آیت کے مستحق نہیں قرار دئے جا سکتے تھے چنانچہ امام سجاد علیہ السلام کی نظر میں عبد الملک خائن اور ناشکرا ہے ۔

  دیکھئے !کس شدیدانداز میں امام سجاد علیہ السلام عبد الملک کی دہمکی کا جواب دیتے ہیں اس سے حضرت (ع) کے فیصلہ کن عمل کی حدود کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

بہر حال یہ اموی سرکار کی نسبت امام کے مزاحمت آمیز طرز عمل کے دو روشن نمونے تھے ۔

  3۔ اگر اس م یں کسی دوسرے نمونے کا اور اضافہ کرنا چاہیں تو یہاں وہ اشعار پیش کئے جا سکتے ہیں جو خود امام زین العابدین علیہ السلام سے یا آپ (ع) کے دوستوں سے نقل ہوئے ہیں یہ بھی اپنی مخالفت کے اظہار کا ایک انداز ہے کیوں کہ اگر ہم یہ مان کر چلیں کہ خود حضرت (ع) نے کوئی اعتراض نہیں کیا تو بھی آپ کے قریبی افراد معترض رہے ہیں اور یہ خود ایک طرح سے امام کی مزاحمت میں شمار کیا جائے گا۔

۱۰۵

  فرزدق اور یحییٰ کے اعتراضات

  اگر چہ حضرت (ع) کے اشعار فی الحال میں کہیں پیدا نہیں کر سکا ہوں پھر بھی حضرت (ع) کے اشعار کا ہونا قطعی ہے ۔

  چند شعر حضرت (ع) کے ہیں جو بہت ہی تلخ اور انقلابی ہیں ۔

  فرزدق کے اشعار بھی ایک دوسرا نمونہ ہیں ۔

فرزدق کے واقعہ کو مورخین و محدثین دونوں نے نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ۔

  ہشام ، عبد الملک کا بیڻا ،اپنے دور خلافت سے قبل مکہ گیا ،طواف کے دوران حجر اسود کو بوسہ دینا چاہا ،کیوں کہ طواف میں حجر اسود کا استلام مستحب ہے حجر اسود کے قریب مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے ہزار کوشش کے باوجود خود کو حجر اسود کے قریب نہ پہنچا سکا حالانکہ وہ خلیفہ وقت کا فرزند ،ولی عہد ،رفیقوں اور محافظوں کے ایک پورے دستے کے ہمراہ حکومتی انتظام کے ساتھ آیا تھا ۔

پھر بھی لوگوں نے اس کی حیثیت اور شاہی کرو فر کی پرواہ کئے بغیر اس کو دہکوں میں لے لیا ۔

  یہ نازو نعم کا پروردہ ان افراد سے تو تھا نہیں کہ انسانوں کے ہجوم میں دہکے کہاتا ہوا حجر اسود کو بوسہ دے ۔

۱۰۶

چنانچہ حجر اسود کے استلام سے مایوس ہوکر مسجد الحرام کی ایک بلندی پر پہنچ گیا اور وہیں بیڻہ کر مجمع کا تماشہ کرنے کی ڻہہری ۔ اس کے ارد گرد بھی کچہ لوگ بیڻہے ہوئے تھے ۔

  اسی درمیان ایک شخص ،وقار و متانت کا مرقع ملکوتی زہد و ورع کے ساتھ طواف کرنے والوں کے درمیان ظاہر ہوا اور حجر اسود کی طرف قدم بڑھایا مجمع نے فطری طور پر اس کو راستھ دے دیا اور کسی قسم کی زحمت کے بغیر اس نے باطمینان حجر اسود کو استلام کیا ،بوسہ دیا اور پھر واپس ہو کر طواف میں مشغول ہو گیا۔

  یہ منظر ہشام بن عبد الملک کے لئے نہایت ہی سخت تھا ،وہ خلیفہ وقت کا فرزند ارجمند !! اور کوئی اس کے احترام و ارجمندی کا قائل نہیںہے !اس کو مجمع کے مکّے اور لات سہکر واپس ہونا پڑجاتا ہے ۔

استلام کرنے کے لئے اس کو راہ نہیں ملتی ! دوسری طرف ایک شخص آتا ہے جو بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ حجر اسود کو استلام کر لیتا ہے ۔

آتش حسد سے لال ہو کر سوال کر بیڻہتا ہے ،یہ کون شخص ہے ؟ ارد گرد بیڻہے ہوئے افراد حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام کو اچھی طرح پہچانتے ہیں لیکن صرف اس لئےخاموش ہیں کہ کہیں ہشام ان کی طرف سے مشتبہ نہ ہو جائے کیوں کہ ہشام کے خاندان کے ساتھ امام سجاد علیہ السلام کے خاندان کے اختلاف کسی سے ڈہکا چہپا نہیں تھا ،ہمیشہ بنی امیہ اور بنی ہاشم کے درمیان اختلاف کی آگ روشن رہی ہے ۔

۱۰۷

  وہ یہ کہنے کی جراتنہ کر سکے کہ یہ شخص تیرے دشمن خاندان کا قائد ہے ،جس کے لئے لوگ اس قدر عقیدت و احترام کے قائل ہیں ۔

  ظاہر ہے یہ بات ایک طرح سے ہشام کی اہانت میں شمار ہوتی۔

  مشہور شاعر فرزدق جو اہلبیت (ع)سے خلوص و محبت رکہتا تھا وہیں موجود تھا ،اس نے جب محسوس کیا کہ لوگ تجاہل سے کام لے رہے ہیں اور یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم علی ابن الحسین علیہ السلام کو نہیں پہچانتے

،آگے بڑھا اور آواز دی : اے امیر! اگر اجازت دے تو میں اس شخص کا تعارف کرا دوں ؟ ہشام نے کہا: ہاںہاں بتاؤ کون ہے ؟ اس وقت فرزدق نے وہیں ایک برجستہ قصیدہ پڑہنا شروع کر دیا جو شعرائے اہلبیت (ع) کے معروف ترین قصیدوں سے ہے اور شروع سے آخر تک امام زین العابدین علیہ السلام کی شاندار مدح سے معمور ہے مطلع یوں شروع ہوتا ہے ۔

  هذا الذی تعرف البطحاء و طاٴ ته والبیت یعرفه والحل و الحرم اگر تم اس کو نہیں پہچانتے ہو ( تو نہ پہچانو) یہ وہ ہے کہ سر زمین بطحی اس کے قدموں کے نشان پہچانتی ہے یہ وہ شخص ہے کہ حل و حرم اس کو پہچانتے ۔

۱۰۸

اورپھر یہ وہ ہے ،زمزم و صفا جس کو پہچانتے ہیں یہ پیغمبر اسلام (ص) کا فرزند ہے یہ بہترین انسان کا فرزند ہے مدح کے موتی لڻانے پر آیا تو ایک قصیدہ  غرار میں اس طرح امام سجاد علیہ السلام کے خصوصیات کا ذکر کر نا شروع کر دیا کہ ہر ہر مصرع ہشام کے سینے میں خنجر کی طرح چہبتا چلا گیا ۔

اور اس کے بعد ہشام کے غضب کا نشانہ بھی بننا پڑا ،ہشام نے بزم سے نکال باہر کیا لیکن امام سجاد علیہ السلام نے اس کے لئے انعام کی تھیلی روانہ کی جس کو فرزدق نے اس معذرت کے ساتھ واپس کر دیا کہ : میں نے یہ اشعار خدا کی خوشنودی کے لئے کہے ہیں ،آپ (ع) سے پیسہ لینا نہیں چاہتا ۔ اس طرح کے انداز مزاحمت ،امام کے اصحاب کے یہاں مشاہدہ کئے جاسکتے ہیں جس کا ایک اور نمونہ یحیٰ بن ام الطویل کا طرز عمل ہے ۔

البتہ یہ ذکر شعر و شاعری کے ضمن میں نہیں آتا ۔

  یحیٰ بن ام الطویل بیت سے وابستہ نہایت ہی مخلص اور شجاع جوانوں میں سے ہے جس کا معمول یہ ہے کہ وہ کوفہ جاتا ہے لوگوں کو جمع کرتا ہے اور آواز دیتا ہے : اے لوگو( مخاطب حکومت بنی امیہ کے آگے پیچھے بہاگنے والے افراد ہیں ) ہم تمہارے ( اور تمہارے آقاؤں کے ) منکر ہیں جب تک تم لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے،ہم تم کو قبول نہیں کر تے ۔

اس گفتگو سے ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگوں کو مشرک سمجھتا ہے اور ان کو کافر و مشرک کے الفاظ سے خطاب کرتا ہے ۔

۱۰۹

  بنی امیہ سرکار کا امام سجاد (ع)کے ساتھ تعرض

یہ امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی کا ایک مختصر سا خاکہ ہے۔البتہ یہاں پھر اشارہ کردوں کہ امام اپنے 3 4 برس کے طویل دورامامت میں ،ارباب حکومت کے ساتھ کہل کر کبھی کوئی تعرض اور مخالفت نہ کی پھر بھی اپنی امامت کے اس عظیم دسترخوان کو وسیع سے وسیع تر کرتے رہے اور تعلیم و تربیت کی ایمانی غذاؤں سے بہت سے مومن و مخلص افراد پیدا کئے دعوت اہلبیت (ع) کو وسعت حاصل ہوتی رہی اور یہی وہ چیز تھی جس کی وجہ سے اموی سرکار حضرت (ع) کے سلسلے میں بد بین و فکر مند رہنے لگی یہاں تک کہ حضرت (ع (کی راہ میں رکاوٹ اور روک ڻوک بھی کی گئی اور کم از کم ایک مرتبہ حضرت (ع) کو طوق و زنجیر میں کس کر مدینہ سے شام بھی لے جایا گیا ۔ حادث ہ کربلا میں امام زین العابدین علیہ السلام کا طوق و زنجیر میں جگڑ کر شام لے جایا جانا مشہور ہے لیکن کربلا کی اسیری میں اگر حضرت (ع) کا گلو ئے مبارک نہ بھی جگڑ ا گیا ہو تو بھی اس موقع پر یہ بات یقینی ہے یعنی حضرت (ع) کو مدینہ سے اونٹ پر سوار کیا گیا اور طوق و زنجیر میں جگڑ کر شام لے جایا گیا ۔ اس کے علاوہ بھی کئی دوسرے موارد پیش آئے جب آپ (ع) کو مخالفین کی طرف سے آزارو شکنجے کا سامنا کرنا پڑا اور آخر کار ولید بن عبد الملک) ملعون خدااس کو واصل جہنم کرے ) کے دور خلافت 9 5 ہء میں خلافت بنی امیہ کے سرکار ی کارگزاروں کے ہاتھوں زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔

۱۱۰

فہرست

حادثات زندگی میں ائمہ علیہم السلام کا بنیادی موقف 2

حکومت اسلامی کی تشکیل ائمہ (ع)کا بنیادی ہدف رہا ہے 9

امام زین العابدین (ع) کی زندگی کا ایک مجموعی خاکہ 10

رہائی کے بعد 17

ماحول 21

خفیہ تنظیمیں 23

واقعہ حرہ 28

اس دور میں امام علیہ السلام کا موقف 33

امام علیہ السلام کے مقاصد 38

پہلا کام 46

۱۱۱

دوسرا کام 47

تیسرا کام 47

ہم فکر جماعت کی تشکیل 62

فلسفہ امامت ،امام علیہ السلام کی نظر میں 68

تنظیم کی ضرورت 72

درباری علماء پر امام سجاد علیہ السلام کی سخت تنقید 78

حدیث گڑھنا ظالموں کی ایک ضرورت 80

حدیث گڑھنے کے کچہ نمونے 82

محمد زہری کی چند جعلی حدیثیں 84

ائمہ علیہم السلام کی تحریک کے تیسرے مرحلہ کے آغاز کی حکمت عملی 96

ائمہ علیہم السلام کی طرف سے مزاحمت کے چند نمونہ 98

۱۱۲

بت کسے کہتے ہیں اور کون بت پرست ہے ۔ 99

فرزدق اور یحییٰ کے اعتراضات 106

بنی امیہ سرکار کا امام سجاد (ع)کے ساتھ تعرض 110

۱۱۳