امام زین العابدین کی سوانح حیات

امام زین العابدین کی سوانح حیات  0%

امام زین العابدین کی سوانح حیات  مؤلف:
زمرہ جات: امام علی بن حسین(علیہ السلام)
صفحے: 113

امام زین العابدین کی سوانح حیات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: الشیعہ ڈاٹ او آر جی
زمرہ جات: صفحے: 113
مشاہدے: 24924
ڈاؤنلوڈ: 3196

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 113 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24924 / ڈاؤنلوڈ: 3196
سائز سائز سائز
امام زین العابدین کی سوانح حیات

امام زین العابدین کی سوانح حیات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اوربعد اس کے حضرت (ع) کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات کی خصوصیات پر روشنی ڈالی جائے گی (البتہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کس حد تک تفصیل میں جانا ہمارے لئے ممکن ہوگا)

  ماحول

جب عاشور کا المناک حادثہ رو نما ہوا ،پوری اسلامی دنیا میں جہاں جہاں بھی یہ خبر پہنچی خصوصا عراق اور حجاز میں مقیم ائمہ علیہم السلام کے شیعوں اور طرفداروں میں ایک عجیب رعب و دحشت کی فضا پیدا ہو گئی کیوں کہ یہ محسوس کیا جانے لگا کہ یزیدی حکومت اپنی حاکمیت کو مسلط کرنے کے لئے کچہ بھی کر سکتی ہے

حتیٰ اس کو عالم اسلام کی جانی پہچانی عظیم ،مقدس اور معتبر ترین ہستی فرزند رسول(ص)حسین ابن علی علیہما السلام کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنے میں بھی کسی طرح کا کوئی دریغ نہیں ہے ۔

اور اس رعب و وحشت میں جس کے آثار کو فہ و مدینہ میں کچہ زیادہ ہی نمایاں تھے ، جو کچہ کمی رہ گئی تھی وہ بھی اس وقت پوری ہو گئی جب کچہ ہی عرصہ بعد بعض دوسرے لرزہ خیز حوادث رو نما ہوئے جن میں سر فہرست حادثہ “ حرہ” ہے ۔

۲۱

اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے زیر اثر علاقوں یعنی حجاز (خصوصا مدینہ) اور عراق ( خصوصا کوفہ) میں بڑا ہی گہڻن کا ماحول پیدا ہو گیا تھا تعلقات و ارتباطات کافی کمزور ہو چکے تھے ۔

  وہ لوگ جو ائمہ طاہرین علیہم السلام کے طرفدار تھے اور بنو امیہ کے خلافت و حکومت کے زبردست مخالفین میں شمار ہوتے تھے بڑی ہی کس مپرسی اور شک و شبہ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے ۔

  امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت منقول ہے کہ حضرت (ع) گزشتھ ائمہ کے دور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ارتدالناس بعد الحسین (ع)الا ثلاثة “ یعنی امام حسین علیہ السلام کے بعد تین افراد کے علاوہ سارے لوگ مرتد ہو گئے ،

ایک روایت میں پانچ افراد اور بعض دوسری روایتوں میں سات افراد تک کا ذکر ملتا ہے ۔

  ایک روایت جو خود امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے اور جس کے راوی ابو عمر مہدی ہیں امام علیہ السلام فرماتے ہیں : “ما بمکة والمدینة عشرین رجلا یحبنا ” (1) پورے مکہ و مدینہ میں بیس افراد بھی ایسے نہیں ہیں جو ہم سے محبت کرتے ہوں ۔

--------------

(1)۔ بحار الانوار ج/ 46 ص/ 1 4 3 ۔

۲۲

ہم نے یہ دونوں حدیثیں اس لئے نقل کی ہیں کہ اہلبیت طاہرین علیہم السلام اوران کے طرفداروں کے بارہ میں عالم اسلام کی مجموعی صورت حال کااندازہ لگایاجاسکے ۔

دراصل اس وقت ایسی خوف وہراس کی فضاپیداہوگی تھی کہ ائمہ (ع)کے طرفدارمتفرق وپراگندہ مایوس ومرعوب زندگی گزاررہے تھے اور کسی طرح کی اجتماعی تحریک ممکن نہ تھی ۔

  البتہ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام مذکورہ بالا روایات میں ارشاد فرماتے ہیں : ”ثم ان الناس لحقوا و کثروا “ پھر آہستھ آہستھ لوگ اہل بیت علیہم السلام سے ملحق ہوتے گئے اور تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔

  خفیہ تنظیمیں

  اگر یہی مسئلہ جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے ذرا تفصیل کی ساتھ بیان کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ : کربلا کا عظیم سانحہ رو نما ہونے کے بعد اگر چہ لوگوں کی خاصی تعداد رعب و وحشت میں گرفتار ہو گئی تھی پھر بھی خوف و ہراس اتنا غالب نہ تھا کہ شیعیان اہلبیت علیہم السلام کی پوری تنظیم یکسر درہم برہم ہو کر رہ گئی ہو جس کا واضح ثبوت یہ ہے

۲۳

کہ ہم دیکہتے ہیں کہ جس وقت اسیران کربلا کا لڻا ہو ا قافلہ کوفہ میں وارد ہوتا ہے کچہ ایسے واقعات رو نما ہوتے ہیں جو شیعہ تنظیموں کے وجود کا پتھ دیتے ہیں ۔

البتہ یہاں ہم نے جو شیعوں کی خفیہ تنظیم، کا لفظ استعمال کیا ہے اس سے یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہونی چاہئے کہ یہاں ہماری مراد موجودہ زمانہ کی طرح سیاسی تنظیموں کی کوئی باقاعدہ منظم شکل ہےبلکہ ہمارا مقصد وہ اعتقادی روابط ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر ایک مضبوط شکل دہاگے میں پرو دیتے ہیں اور پھر لوگوں میں جذبہ فدا کاری پیدا کرکے خفیہ سر گرمی پر اکساتی ہے اور نتیجہ کے طور پر انسانی ذہن میں ایک ہم فکر جماعت کا تصور پیدا ہو جاتا ہے ۔

  ان ہی دنوں جب کہ پیغمبر اسلام (ص) کی ذریت کو فہ میں اسیر تھی

ایک رات اسی جگہ جہاں ان کو قید رکہا گیا تھا ، ایک پتھر آکر گرا ، اہلبیت (ع) اس پتھر کی طرف متوجہ ہوئے دیکہا تو ایک کاغذ کا ڻکڑا اس کے ساتھ منسلک تھا جس پر کچہ اس طرح کی عبارت تحریر تھی ، کوفہ کے حاکم نے ایک شخص کو یزید کے پاس (شام ) روانہ کیا ہے تاکہ آپ کے حالات سے اس کو باخبر کرے نیز آئندہ کے بارہ میں اس کا فیصلہ معلوم کرے اب اگر کل رات تک (مثلا ) آپ کو تکبیر کی آواز سنائی دے توسمجھ لیجئے کہ آپ کویہیں قتل کر دینے کا فیصلہ ہوا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو سمجھئے گا کہ حالات کچہ بہتر ہیں ۔ (2)

--------------

(2)- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج/ 4 ص/ 10 4   یہ واقعہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ الکامل میں نقل کیا ہے ۔

۲۴

جس وقت ہم یہ واقعہ سنتے ہیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس تنظیم کے دوستوں یا ممبروں میں سے کوئی شخص ابن زیاد کے دربار میں موجود رہا ہوگا جس کو تمام حالات کی خبر تھی اور قید خانہ تک رسائی بھی رکہتا تھا حتی کہ اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ قیدیوں کے سلسلہ میں کیا فیصلہ اور منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں اور صدائے تکبیر کے ذریعہ اہلبیت علیہم السلام کو حالات سے باخبر کر سکتا ہے ۔

  چنانچہ اس شدت عمل کے ساتھ ساتھ جو وجود میں آچکی تھی اس طرح کی چیزیں بھی دیکہی جا سکتی تھیں ۔

  اس طرح کی ایک مثال عبداللہ بن عفیف ازدی کی ہے جو ایک مرد نابینا ہیں اور اسیران کربلا کے کوفہ میں ورود کے موقع پر ہی شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر انہیں بھی جام شہادت نوش کرنا پڑتا ہے ۔

  یہی نہیں بلکہ اس قسم کے افراد کیا کوفہ اور کیا شام ہر جگہ مل جاتے ہیں جو قیدیوں کی حالت دیکہ کر ان سے محبت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور صرف آنسو بہانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کی نسبت ملامت کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں ( حتی کہ اس قسم کے واقعات دربار یزید اور ابن زیاد کی بزم میں پیش آتے رہے ہیں)

۲۵

لہٰذا اگرچہ حادثہ کربلا کے بعد نہایت ہی شدید قسم کا خوف عوام و خواص پر طاری ہو چکا تھا پھر بھی ابھی اس نے وہ نوعیت اختیار نہیں کی تھی کہ شیعیان آل محمد (ص) کی تمام سر گرمیاں بالکل ہی مفلوج ہو گئی ہوں اور وہ ضعف و پراگندگی کا شکار ہو گئے ہوں لیکن کچہ ہی دنوں بعد ایک دوسرا حادثہ کچہ اس قسم کا رو نما ہوا جس نے ماحول میں کچہ اور گہڻن کا اضافہ کر دیا ۔

  اور یہیں سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث “ ارتدالناس بعد الحسین (ع)” کا مفہومسمجھ میں آتا ہے امام علیہ السلام نے غالبا اسی حادثہ کے دوران یا اس کے بعد کے حالات کی طرف اشارہ فرمایا ہے یا ممکن ہے یہ بات اس درمیانی وقفہ سے متعلق ارشاد فرمائی ہو جو ان کے ما بین گزرا ہے۔

ان چند برسوں کے دوران -- اس عظیم حادثہ کے رو نما ہونے کے پہلے -- شیعہ اپنے امور کو منظم کرنے اور اپنے درمیان پہلی سی ہم آہنگی دوبارہ واپس لانے میں لگے ہوئے تھے ۔

  اس مقام پر طبری اپنے تاثرات کا یوں اظہار کرتا ہے : “ فلم یزل القوم فی جمع الة الحرب والاستعداد للقتال“ یعنی وہ لوگ ( مراد گروہ شیعہ ( جنگی سازو سامان اکڻہا کرنے نیز خود کو جنگ کے لئے آمادہ کرنے میں لگے ہوئے تھے چپکے چپکے شیعوں اور غیر شیعوں کو حسین ابن علی علیہما السلام کے خون کا انتقام لینے پر تیار کر رہے تھے اور لوگ گروہ در گروہ ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ان میں شمولیت اختیار کر رہے تھے

۲۶

اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا یہاں تک کہ یزید ابن معاویہ واصل جہنم ہو گیا ۔

چنانچہ ہم دیکہتے ہیں با وجود اس کے کہ ماحول میں گہڻن اور سراسیمگی بہت زیادہ پائی جاتی تھی پھر بھی اس طرح کی سر گرمیاں اپنی جگہ پر جاری تھیں (جیسا کہ طبری کی عبارت سے پتھ چلتا ہے ) اور شاید یہی وہ وجہ تھی جس کی بنیاد پر “ جہاد الشیعہ” کا مولف اگر چہ شیعہ نہیں ہے اور امام زین العابدین علیہ السلام کے سلسلہ میں صحیح اور مطابق واقع نظریات نہیں رکہتا پھر بھی وہ اس حقیقت کو درک کر لیتا ہے اور اپنے احساسات کو ان الفاظ میں پیش کرتا ہے کہ: ”گروہ شیعہ نے حسین (ع) کی شہادت کے بعد خود کو باقاعدہ تنظیم کی صورت میں منظم کر لیا ،ان کے اعتقادات اور سیاسی روابط انہیں آپس میں مربوط کرتے تھے ۔

ان کی جماعتیں اور قائد تھے ۔

  اسی طرح وہ فوجی طاقت کے بھی مالک تھے چنانچہ توابین کی جماعت اس تنظیم کی سب سے پہلی مظہر ہے “ ان حقائق کے پیش نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عاشور کے عظیم حادثہ کے زیر اثر اگر چہ بڑی حد تک شیعہ تنظیمیں ضعف و کمزور ی کا شکار ہو گئی تھیں پھر بھی اس دوران شیعہ تحریکیں اپنی ناتوانی کے باوجود مصروف عمل رہیں جس کے نتیجہ میں پہلے کی طرح دوبارہ خود کو منظم کرنے میں کامیاب ہو گئیں ۔یہاں تک کہ واقعہ حرہ پیش آیا ۔ اور میں سمجھتا ہوں واقعہ حرہ تاریخ تشیع میں نہایت اہم موڑ ہے ۔

در اصل یہی وہ واقعہ ہے جس نے شیعہ تحریک پر بڑی کاری ضرب لگائی ہے ۔

۲۷

واقعہ حرہ

حرہ کا حادثہ تقریبا 6 3ہجری م یں پیش آیا ۔

  مختصر طور پر اس حادثہ کی تفصیلات کچہ اس طرح ہےں کہ 6 3 ہجری میں بنو امیہ کا کم تجربہ نوجوان مدینہ کا حَکم مقرر ہوا اس نے خیال کیا کہ شیعیان مدینہ کا دل جیتنے کے لئے بہتر ہوگا کہ ان میں سے کچہ لوگوں کو شام جاکر یزید سے ملاقات کرنے کی دعوت دی جائے چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا مدینہ کے چند سربرآوردہ افراد ، اصحاب نیز دیگر معزز ین سے منتخب کئے

جس میں اکثریت امام زین العابدین علیہ السلام کے عقیدت مندوں میں شمار ہوتی تھیں ان لوگوں کو شام جانے کی دعوت دی گئی کہ وہ جائیں اور یزید کے لطف و کرم دیکہ کر اس سے مانوس ہو جائیں اور اس طرح اختلافات میں کمی واقع ہو جائے ۔

یہ لوگ شام گئے اور یزید سے ملاقات کی چند دن اس کے مہمان رہے ان لوگوں کی خوب پذیرائی کی گئی اور رخصت ہوتے وقت یزید نے ہر ایک کو کافی بڑی رقم ( تقریبا پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکہ درہم تک )سے نوازا لیکن ۔

۲۸

جیسے ہی یہ لوگ مدینہ واپس پہنچے ، چوں کہ یزیدی در بار میں پیش آنے والے المیئے انہوں نے اپنی نظروں سے خود دیکہ لئے تھے لہٰذا خوب کہل کر یزید کو مورد تنقید قرار دیا اور نتیجہ بالکل ہی بر عکس ظاہر ہوا ان لوگوں نے یزید کی تعریف و توصیف کرنے کے بجائے ہر خاص و عام کو اس کے جرائم سے آگاہ کرنا شروع کر دیا ۔

  لوگوں سے کہا: یزید کو کس بنیاد پر خلیفہ تسلیم کیا جا سکتا ہے جب کہ شراب و کباب میں غرق رہنا اور کتوں سے کہیلنا اس کا بہترین مشغلہ ہے ۔ کوئی فسق و فجور ایسا نہیں ہے جو اس کے یہاں نہ پایا جاتا ہو ۔ لہٰذا ہم اس کو خلافت سے معزول کرتے ہیں ۔

    عبداللہ بن حنظلہ (3) جو مدینہ کی نمایاں اور محبوب شخصیتوں میں سے تھے - یزید کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں پیش پیش تھے ان لوگوں نے یزید کو معزول کرکے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دینی شروع کر دی۔

--------------

(3)- حنظلہ ہی وہ نو جوان ہیں جو قبل اس کے کہ ان کی شب عروسی تمام ہو ( پیغمبر اسلام (ص) کی فوج میں آکر شامل ہو گئے اور میدان احد میں شہادت کا جام نوش فرمایا اور ملائکہ نے ان کو غسل دیا اسی لئے یہ حنظلہ غسیل الملائکہ کے نام سے معروف ہوئے ۔

۲۹

اس اقدام کا نتیجہ یزید کی طرف سے براہ راست رد عمل کی صورت میں ظاہر ہوا اس نے اپنے ایک تجربہ کار پیر فرتوت سردار ، مسلم بن عقبہ کو چند مخصوص لشکر یوں کے ساتھ مدینہ روانہ کیا کہ وہ اس فتنہ کو خاموش کر دے ۔

سلم بن عقبہ مدینہ آیا اور چند روز تک اہل مدینہ کی قوت مقابلہ کو پست کرنے کے لئے شہر کا محاصرہ کئے رہا یہاں تک کہ ایک دن شہر میں داخل ہوا اور اس قدر قتل و غارت گری مچائی اور اس قدر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا کہ تاریخ اسلام میں وہ آپ اپنی مثال ہے ۔

  اس نے مدینہ میں کچہ ایسا ہی قتل و غارت گری اور ظلم و زیادتی کا بازار گرم کیاتھا کہ اس حادثہ کے بعد اس کا لقب ہی مسرف پڑگیا اور لوگ اس کو “ مسرف بن عقبہ ” کے نام سے پکارنے لگے ۔ حادثہ حرہ سے متعلق واقعات کی فہرست کا فی طویل ہے اور میں زیادہ تشریح میں جانا نہیں چاہتا صرف اتنا عرض کر دینا کافی ہے

کہ یہ واقعہ تمام مسلمانوں خصوصا اہلبیت علیہم السلام کے دوستوں اور ہمنواؤں میں بے پناہ خوف و ہراس پیدا کرنے کا سبب بنا ، خاص طور پر مدینہ تقریبا خالی ہو گیا کچہ لوگ بہاگ گئے کچہ لوگ مار ڈالے گئے اہلبیت ) ع) کے کچہ مخلص و ہمدرد مثال کے طور پر عبداللہ ابن حنظلہ جیسے لوگ شہید کر دیئے گئے

۳۰

اور ان کی جگہ خالی ہو گئی ۔ اس حادثہ کی خبر پوری اسلامی دنیا میں پہیل گئی اور سبسمجھ گئے کہ اس قسم کی ہر تحریک کا سد باب کرنے کے لئے حکومت پوری طرح آمادہ ہے اور کسی طرح کے اقدام کی اجازت دینے کو ہرگز تیار نہیں ہے ۔ اس کے بعد ایک اور حادثہ -- جو مزید شیعوں کی سر کوبی اور ضعف کا سبب بنا -- جناب مختار ثقفی کی کوفہ میں شہادت اور پورے عالم اسلام پر عبد الملک بن مروان کے تسلط کی صورت میں ظاہر ہوا ۔

  یزید کی موت کے بعد جو خلفاء آئے ہیں ان میں اس کا بیڻا معاویہ ابن یزید ہے جو تین ماہ سے زیادہ حکومت نہ کر سکا ۔ اس کے بعد مروان بن حکم کے ہاتھ میں اقتدار آیا اور تقریبا دو سال یا اس سے کچہ کم اس نے حکومت کی اور پھر خلافت کی باگ ڈور عبد الملک بن مروان کے ہاتھ میں آگئی جس کے لئے مورخین کا خیال ہے کہ وہ خلفا ئے بنو امیہ میںزیرک ترین خلیفہ رہا ہے ۔ چنانچہ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ: ”کان عبد الملک اشد ہم شکیبہ و اقساہم عزیمہ“ عبد الملک پورے عالم اسلام کو اپنی مڻہی میں جکڑ لینے میں کامیاب ہو گیا اور خوف و دہشت سے معمور عامرانہ حکومت قائم کر دی۔ حکومت پر مکمل تسلط حاصل کرنے کے لئے عبد الملک کے سامنے صرف ایک راہ تھی اور وہ یہ کہ اپنے تمام رقیبوں کا صفایا کر دے مختار جو شیعیت کی علامت تھے ، مصعب بن زبیر کے ہاتھوں پہلے ہی جام شہادت نوش فرما چکے تھے

۳۱

لیکن عبد الملک شیعہ تحریک کا نام و نشان مڻا ڈالنا چاہتا تھا اور اس نے یہی کیا بھی ۔اس کے دور میں عراق خصوصا کوفہ جو اس وقت شیعوں کا ایک گڑہ شمار کیا جاتا تھا ،مکمل جمود اور خاموشی کی نذر ہو گیا۔ بہر حال یہ حوادث کربلا کے عظیم سانحہ سے شروع ہوئے اور پھر یکے بعد دیگرے واقعہ حرہ میں اہل مدینہ کے قتل و غارت ، عراق میں تو ابین (4)

----------

( 4)- توبین کی تحریک واقعہ کربلا کا سب سے پہلا رد عمل ہے جو کوفہ میں ظاہر ہوا ( ۔

  امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد بعض شیعوں نے ایک دوسرے کو مورد الزام ڻہہراتے ہوئے مواخذہ و عتاب کا مستحق قرار دیا کہ انہوں نے امام کی دعوت پر لبیک کیوں نہ کہی اور مدد کے لئے میدان میں نکلنے سے کیوں گریز کیا چنانچہ انہوں نے محسوس کیا اس گناہ سے اپنے دامن کو پاک کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ امام کے دشمنوں او ر قاتلوں سے حضرت کے خون کا انتقام لیا جائے ، لہٰذا وہ لوگ کوفہ آئے اور اکابرین شیعہ میں سے پانچ افراد کو جمع کرکے ان سے اس سلسلہ میں گفتگو کی اور نتیجہ کے طور پر سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں کہلے طور پر مسلحانہ تحریک کا آغاز کر دیا ۔

  شب جمعہ 2 5 / ربیع الثانی 65 ء ہجری کو امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک پر زیارت کے لئے جمع ہوئے اس طرح فریاد و گریہ کرنا شروع کیا کہ آج تک اس گریہ و زاری کی مثال نہیں ملتی ۔ اس کے بعد قبر امام کو وداع کہہ کر شامی حکومت سے نبرد آزما ئی کے لئے شام کا رخ کیا اور پھر لشکر بنو امیہ سے جم کر جنگ ہوئی اور سب کے سب مارے گئے ۔ توابین کی تحریک کاایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ لوگ با وجود اس کے کہ کوفہ میں تھے پھر بھی شام گئے اور بر سراقتدار حکومت سے جنگ کی تاکہ یہ ثابت کر دیں کہ امام حسین علیہ السلام کا قاتل کوئی ایک شخص یا چند اشخاص نہیں ہیں بلکہ یہ حکومت ہے جس نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا ہے ۔

۳۲

  کی بیخ کنی ،جناب مختار ثقفی اور ابراہیم بن مالک اشتر نخعی نیز دیگر اکابرین شیعہ کی شہادت کا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے حصول کی غرض سے ہر تحریک چاہے وہ مدنیہ ہو یا کوفہ( کیوں کہ اس وقت یہ دونوں شیعوں کے اہم ترین مراکز تھے ( کچل کر رکہ دی گئی ، شیعیت سے متعلق پورے عالم اسلام میں ایک عجیب خوف و ہراس پیدا ہوگیا ۔

  اس کے بعد بھی جو لوگ ائمہ طاہرین علیہم السلام سےوابستہ رہ گئے تھے اپنی زندگی نہایت ہی غربت و کس مپرسی میں بسر کر رہے تھے ۔

اس دور میں امام علیہ السلام کا موقف

  بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر امام زین العابدین علیہ السلام بھی بنو امیہ کے نظام حکومت کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتے ہوتے تو وہ بھی علم بغاوت بلند کر دیتے یا کم از کم ( مثال کے طور پر ) عبد اللہ بن حنظلہ یا مختار ثقفی سے ملحق ہو جاتے یا یہ کہ آپ (ع) ان لوگوں کی رہبری قبول کر لیتے اور کہل کر مسلحانہ مقابلہ کرتے ۔

  لیکن اگر اس دور کے حالات ہمارے پیش نظر ہوں جس میں امام سجاد علیہ السلام زندگی بسر کر رہے تھے تو ہمارے لئےسمجھ نا مشکل نہ ہوگا کہ اس طرح کی فکر ائمہ علیہم السلام کے مقصد سے ( جسے ہم بعد میں بیان کریں گے ) قطعی میل نہیں کہاتی ۔

۳۳

  ان حالات میں اگر امام زین العابدین علیہ السلام یا ائمہ علیہم السلام میں سے کوئی بھی ہوتا اور کہل کے کسی مخالف تحریک میں شامل ہو جاتا یا تلوار لے کے سامنے آگیا ہوتا تو یقینی طور پر شیعیت کی جڑیں ہمیشہ کے لئے کٹ جاتیں ۔

اور پھر آئندہ کسی زمانہ میں مکتب اہلبیت علیہم السلام کے نشو نما اور ولایت و امامت کے قیام کی کوئی امید باقی نہ رہ جاتی سب کچہ ختم او ر نیست و نابود ہوکر رہ جاتا ۔

  بظاہر یہی وجہ نظر آتی ہے کہ امام سجاد علیہ السلام مختار ثقفی کے معاملہ میں ان سے کہل کر کسی طرح کی ہم آہنگی کا اعلان نہیں کرتے اگر چہ بعض روایتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ آپ (ع) کا مختار ثقفی سے مخفی طور پر رابطہ قائم تھا چنانچہ یہ ایک کہلی ہوئی حقیقت ہے کہ امام نے علی الاعلان ان سے کبھی کسی طرح کا رابطہ نہ رکہابلکہ بعض روایتیں تو کہتی ہیں کہ حضرت عام نشستوں میں مختار سے اپنی ناراضیگی کا اظہار بھی کرتے تھے اور یہ چیزبالکل فطری ہے ظاہر ہے آپ(ع) اس سلسلہ میں تقیہ سے کام لے رہے تھے تاکہ دشمن کو ان کے درمیان کسی خفیہ رابطہ کا شک بھی نہ ہونے پائے ۔

  اگر مختار کو کامیابی نصیب ہو جاتی تو حکومت اہلبیت (ع)کے سپرد کر دیتے لیکن شکست کی صورت میں جیسا کہ ہوا ۔

۳۴

امام زین العابدین علیہ السلام اور مختار کے درمیان رابطہ کا علم ہو جانے کے بعد خود امام علیہ السلام اور آپ کے دوستوں اور ہمنواؤں کو بھی اس کی سخت قیمت چکانی پڑتی اور شاید شیعیت کا قلع و قمع ہو گیا ہوتا لہٰذا حضرت امام سجاد علیہ السلام ان سے کہل کر کسی طرح کا رابطہ بر قرار کرنا کسی طرح اپنے موقف کے لئے مفید نہیں سمجھتے ۔

  روایت میں ہے جس وقت حرہ کے موقع پر مسلم ابن عقبہ مدینہ منورہ پہنچ رہا تھا کسی کو شک نہ تھا کہ سب سے پہلی شخصیت جو اس کے ظلم و جور کا نشانہ بنے گی وہ امام زین العابدین علیہ السلام کی ذات مبارک ہے لیکن حضرت (ع) نے اپنی تدبیر و فراست سے کام لیتے ہوئے ایسی حکیمانہ روش اختیار کی کہ یہ بلا آپ (ع (سے دور ہو گئی چنانچہ امام (ع) کا وجود باقی رہا اور اس طرح شیعیت کا اصل محور اپنے مقام پر محفوظ رہ گیا ۔

  البتہ وہ روایتیں جو بعض کتب منجملہ ان کے خود بحار الانوار میں بھی نقل کی گئی ہیں کہ امام علیہ السلام نے مسلم بن عقبہ کے سامنے اپنی حقارت و عاجزی کا اظہار فرمایا، اس کو بھی میں کسی صورت قبول کرنے پر تیار نہیں ہوںبلکہ میری نظر میں یہ قطعی امام (ع) پر جہوٹ اور افترا باندہا گیا ہے کیوں کہ: ۔

۳۵

  اولاً۔ یہ کہ ان میںسے کوئی روایت صحیح اسناد پر منتھی نہیں ہوتی ۔

  ثانیاً۔ یہ کہ ان کے بالمقابل دوسری روایتیں موجود ہیں جو مضمون کے اعتبار سے ان کا جہوڻا ہونا ثابت کرتی ہیں۔

  امام زین العابدین علیہ السلام اور مسلم بن عقبہ کی ملاقات کے ذیل میں متعدد روایتیں ملتی ہیں اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے میل نہیں کہاتی لیکن چوں کہ ان میں سے بعض روایات ائمہ علیہم السلام کی شخصیت اور ان کے کردار سے زیادہ قریب ہیں لہٰذا ہم ان کو قبول کرتے ہیں اور طبیعی طور پر قبول کرتے ہیں پھر ان کے بالمقابل بہت سی دوسری روایتیں خود بخود غلط قرار پاجاتی ہیں اور میرے نزدیک ان کے غلط ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا ۔

  بہر حال وہ اعمال جو بعض روایتوں میں بیان کئے گئے ہیں امام علیہ السلام سے بعید ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت (ع) نے مسلم بن عقبہ کے مقابلہ میں کسی معاندانہ رویہ کا اظہار نہیں ہونے دیا کیوں کہ اگر کوئی ایسا طریقہ کا ر آپ (ع) اپناتے تو قتل کر دیئے جاتے اور یہ چیز امام حسین علیہ السلام کی اس تحریک کے حق میں ایک ناقابل تلافی نقصان ثابت ہو سکتی تھی جس کو زندہ رکہنا امام سجاد علیہ السلام کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ تھا لہٰذا ضروری تھا کہ امام سجاد علیہ السلام زندہ رہیں اور اسی طرح جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول روایت میں کہا گیا ہے ۔

۳۶

  رفتہ  رفتہ  لوگ آپ (ع) سے ملحق ہوتے رہیں اور ان کی تعداد بڑھتی رہے ۔

  در اصل امام زین العابدین علیہ السلام کا کام ایسے سخت اور نا مساعد حالات میں شروع ہوتا ہے جس کا جاری رکہنا عام افراد کے لئے تقریبا ناممکن تھا۔

  عبد الملک کا دور جس میں حضرت (ع) کی امامت کا بیشترین حصہ یعنی تقریبا 30 ۔

  32سال گزرابڑا ہ ی دشوار دور تھا۔

عبد الملک کی پوری مشینری مکمل طور پر آپ کی نگرانی پر لگی ہوئی تھی اس نے ایسے جاسوس مقرر کر رکہے تھے جو امام علیہ السلام کی زندگی کے ایک ایک پل حتی کہ خانگی اور خصوصی مسائل کی بھی خبر اس تک پہنچاتے رہتے تھے ۔

  امام زین العابدین کے پاس ایک کنیز تھی جس کو آزاد کرنے کے بعد آپ نے اس سے شادی کرلی ۔

یہ خبر عبدالملک کو معلوم ہوئی تو اس نے حضرت کے نام ایک خط روانہ کیا اور اس میں اس موضوع پر طنز و سرزنش کی وہ اس طرح باور کرانے کی کوشش کررہاتھا کہ ہم کوآپ کے تمام امور کی خبر ملتی رہتی ہے اور تمام معاملات زندگی کی خبر رکہتے ہیں اور ضمنی طور پر ہم خون اور ہم قبیلہ ہونے کی بنیاد پر بحث و مناظرہ بھی کرنا چاہتا تھا ۔

۳۷

وہ خط میں لکھتا ہے کہ آپ کا یہ کام قریش کی روش کے خلاف ہے اور آپ چونکہ قریش کی ہی ایک فرد ہیں لہٰذا آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا ۔

چنانچہ حضرت (ع) نے بھی اس کا جواب بہت ہی تندو سخت لب و لہجہ میں دیتے ہیں جو قابل توجہ ہے ۔آپ نے اپنے خط سے عبد الملک پر یہ واضح کردیا کہ تیرا نیم دوستی اور نیم دشمنی پر محمول یہ خط کسی طرح بھی میرے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔

  یہ واقعہ اس دور کا ہے جب حضرت (ع) کسی حد تک اپنی جدو جہد کا آغاز کرچکے تھے ۔

  امام علیہ السلام کے مقاصد

  امام سجاد (ع) کن حالات میں کام کیا ہے یہ بات واضح ہوگئی ،تو امام علیہ السلام ایسے حالات میں اپنی تحریک کا آغاز کرنا چاہتے ہیں اس منزل میں ائمہ علیہم السلام کے مقصد اور طریقہ کار کے سلسلہ میں مختصرطور پر اشارہ کردیناضروری سمجھتا ہوں اس کے بعد اس روش اور طریقہ کار کی روشنی میں امام (ع)کی جزئیات زندگی پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرونگا ۔

  اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جناب امام سجاد (ع)کا آخری مقصد ،اسلامی حکومت قائم کرنا ہے چنانچہ صادق آل محمد علیہ السلام کی اس روایت کے مطابق ،جس کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں

۳۸

،خداوند عالم کی طرف سے7 0 ہجری ،اسلامی حکومت کی تاسیس کا سال قرار دیا گیاتھا مگر 6 1 ء ہجری میں ہی امام حسین (ع) کی شہادت واقع ہوگئی جس کے نتیجہ میں یہ کام سن 1 4 7 ۔

  1 4 8تک کے لئے موقوف کردیا گیا ۔

  یہ چیز کامل طور پر اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ جناب امام سجاد (ع) نیز دیگر تمام ائمہ علیہم السلام کا آخری مقصد اسلامی حکومت قائم کرنا ہی رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان حالات میں حکومت اسلامی کس طرح قائم ہو سکتی ہے ۔

اس کے لئے چند چیزیں بہت ضروری ہیں ۔

  1۔ صح یح اسلامی طرز فکر ، جو واقعی طور پر ائمہ علیہم السلام کے پاس تھی ۔

مدون و مرتب ہو اور درس و تبلیغ کے ذریعہ عام کی جائے کیوں کہ یہی طرز فکر ہے جس کو اسلامی حکومت کی بنیاد و اساس قرار دیا جا سکتا ہے ۔

  اس حقیقت کے پیش نظر کہ مسلسل طور پر ایک لمبے عرصے تک اسلامی معاشرہ صحیح اسلامی طرز فکر سے دور ی اختیار کئے رہا بہلا کس طرح ممکن ہو سکتا تھا کہ لوگوں کے ذہنوں پر اسلامی افکار کا نقش قائم کئے بغیر اسلامی نظریات پر مبنی ایک حکومت قائم کر دی جائے جب کہ ابھی حکومت کے حقیقی احکام کی تدوین و ترتیب بھی باقاعدہ عمل میں نہ آسکی ہو۔

۳۹

  امام زین العابدین علیہ السلام کا عظیم ترین کارنامہ یہی ہے کہ آپ (ع) نے اسلام کے بنیادی افکار و نظریات توحید ، نبوت،انسان کی معنوی حیثیت ، خدا اور بندہ کے درمیان رابط نیز دیگر اہم موضوعات کو مدون و مرتب کر دیا ہے چنانچہ زبور آل محمد (ص) یعنی صحیفہ سجادیہ کی اہم ترین خصوصیت یہی ہے ۔

  اگرآپ صحیفہ سجادیہ کا مطالعہ کریں اور اس کے بعد اس زمانے کی عام اسلامی فکر کا جائزہ لیں تو آپ دیکہیں گے کہ دونوں کے درمیان کتنا عمیق فاصلہ نظر آتا ہے ۔

  جس وقت پورا عالم اسلام مادیت میں گرفتار اپنی مادی ضروریات و خواہشات کی تکمیل میں سر گردان و منہمک ہے ، خلیفہ وقت ( عبد الملک بن مروان) سے لے کر اس کے ارد گرد بیڻہنے والے علماء تک (مثال کے طور پر محمد بن شہاب زہری جیسے درباری علماء ، جن کا کا ذکر عنقریب آئے گا) سب کے سب مفاد پرستی و دنیا طلبی میں غرق نظر آتے ہیں ۔

  امام سجاد علیہ السلام لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے ان کی اسلامی حمیت کو للکارتے ہیں: ”اولا حریدع ہذہ للماظة لا ہلہا“ آیا (تم میں) کوئی ایسا آزاد مرد نہیں ہے جو اس دریدہ دہن حریص کتے کا بچا کہچا اس کے اہل کے لئے چہوڑ دے ۔

  یہاں اسلامی طرز فکر سے مراد ۔ معنویات کو اصل ہدف قرار دے کر صحیح اسلامی و معنوی بلندیوں تک پہنچنے کی جد و جہد کرنا اور انسان کا اپنے معبود نیز اس کی طرف سے عائد شدہ ذمہ داریوں کے تئیں متوجہ رہنا ہے ۔

۴۰