فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 118282
ڈاؤنلوڈ: 5312


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118282 / ڈاؤنلوڈ: 5312
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نہیں پکڑی گئی۔(1)

38۔ابوعبیدہ بن جراح نے شام میں مندرجہ ذیل لوگوں کو شراب کے نشے کی حالت میں دیکھا ابوجندل بن سہیل بن عمرو و ضرار بن خطاب محاربی اور ابواز یہ تینوں حضرات صحابی تھے۔(2)

39۔روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے ابومحجن ثقفی کو شراب خواری کی وجہ سے چار بار کوڑے لگوائے(3) حالانکہ ابومحجن صحابی تھے ابن جریح سے روایت ہے کہ شراب کی علت میں ابومحجن بن عمرو بن عمیر ثقفی کو عمر نے سات بار کوڑوں کی سزادی۔(4)

قبیصہ بن زویب کہتے ہیں آٹھ بار سزادی(5) عمر بن سیرین کہتے ہیں کہ ابومحجن کو بار بار کوڑے پڑتے تھے جب بہت زیادہ کوڑے پڑچکے تو آخر لوگوں نے انہیں قید کردیا اور اطمینان سے بیٹھ گئے کہ اب ان تک شراب نہیں پہنچےگی۔( 6 )

ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ انہیں شراب کی لت پڑگئی تھی اور چھوٹے نہیں چھوٹتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الاصابۃ ج:5ص:425،حالات قدمۃ بن مظنون میں،المصنف لعبد الرزاق،ج:9ص:240،کتاب الاشرابۃ،باب من حد من اصحاب النبیؐ،الاستیعاب ج:3ص:250۔251،حالات قدمۃ بن مظنون بن حبیب میں،تفسیر قرطبی،ج:6ص:299،آیت(لیس علی الذین آمنوا....)جناح کی تفسیر میں۔

(2)المصنف لعبد الرزاق ج:9ص:244،کتاب الشرابۃ،باب من حد من اصحاب النبیؐ،الاصابۃ ،ج:7ص:11حالات ابی الازوار میں،الاستیعاب ج:4ص:34،حالات ابی جندل بن سھیل بن عمرو میں۔

(3)فتح الباری،ج:12ص:81

(4)المصنف لعبد الرزاق ج:9ص:247،کتاب الاشرابۃ،باب من حد من اصحاب النبیؐ،الاصابۃ،ج:7ص:263،حالات ابی محجن الثقفی میں،الاستیعاب،ج:4ص:183،حالات ابی محجن ثقفی

(5)المصنف لعبد الرزاق،ج:7ص:381،باب حد الخمر،ج:9ص:247،کتاب الاشرابۃ،باب من حد من اصحاب النبیؐ،الاستیعاب،ج:4ص:183،حالات ابی محجن الثقفی المحلی میں،ج:11ص:369،پر،فتح الباری،ج:12،ص:80پر۔

(6)المصنف لعبد الرزاق،ج:9ص:243،کتاب الاشرابۃ،باب من حد اصحاب النبیؐ،الاصابۃ ج:7ص:362،حالات ابی محجن ثقفی میں،الاستیعاب ج:4ص:184،حالات ابی محجن ثقفی،التوابین لابن قدامۃ،ص:131۔

۱۰۱

ان پر نہ حد کا اثر ہوتا تھا نہ ملامت کا عمر بن خطاب نے ان پر کئی مرتبہ حد جاری کی آخر انہیں ایک جزیرے میں بھیج دیا ساتھ میں ایک نگران بھی لگادیا یہ حضرت وہاں سے بھی بھاگ لئے اور سعد بن ابی وقاص سے قادسیہ میں ملاقات کی اور انہوں نے ارادہ کیا کہ اپنے نگراں ہی کو قتل کردیں اس آدمی کو معلوم ہوگیا وہ بیچارا بھاگ کر عمر کے پاس واپس آیا۔(1)

ابن سیرین سے روایت ہے کہ جنگ قادسیہ میں ابومحجن سعد کے ساتھ تھے لیکن انھیں شراب نوشی کی وجہ سے قید میں رکھا گیا تھا ابومحجن نے دیکھا کہ مشرکین مسلمان کے لئے مصیبت بنتے جارہے ہیں ابومحجن نے سعد کی بوی کی خوشامد کی کہ وہ انہیں قید سے رہا کردے کہ وہ جنگ میں شریک ہوجائیں اور وعدہ کیا کہ اگر مارے نہیں گئے تو پھر وہ قید میں واپس آجائیں گے بہرحال اس عورت نے ان کو آزاد کرادیا اور وہ میدان جنگ میں کود پڑے سعد بن ابی وقاص ان کے جنگی کارنامے دیکھنے لگے لیکن پہچان نہیں پارہے تھے کہ یہ کون جوان مرد ہے شام کو ان کی بیوی نے جب پوری بات بتائی تو وہ ابومحجن کے شکرگذار ہوئے اور انہیں بلا بھیجا اور انہیں قید سے آزاد کردیا۔اور کہنے لگے کہ اب تمہاری شراب خواری کی وجہ سے ہرگز تمہیں کوڑے نہیں ماروں گا،ابومحجن نے کہا کہ میں نے آج سے شراب خواری بھی ترک کردی اس لئے کہ اب کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آئے گا کہ ابومحجن نے تازیوں کے خوف سے شراب چھوڑی۔(2) شاید علامہ اقبالؒ نے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:زاہد دلیل لائے جو مئے کے جواز میں۔۔۔اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑدے(مترجم)

40۔عبدالرحمٰن ابن عمر ابن خطاب اور ابوسروعہ عقبہ ابن حارث نے شراب پی یہ دونوں حضرات صحابی تھے عمر بن عاص نے عمر بن خطاب کے دور خلافت میں ان دونوں کو کوڑے لگائے پھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الاستیعاب ج:4ص:182،ابی محجن الثقفی کے حالات میں

(2)مصنف عبدالرزاق ج:9ص:243۔244،کتاب الاشرابۃ،باب من حد من اصحاب النبیؐ اور اسی طرح الاصابۃ ج:7ص:362،ابی محجن ثقفی کے حالات میں،الاستیعاب ج:4ص:184۔185،ابی محجن ثقفی کے حالات میں،التوابین بن قدامۃ ص:131۔132،باب ثوبۃ محجن ابی ثقفی میں۔

۱۰۲

عمر کو معلوم ہوا تو انہوں نے عمرعاص کو لکھا کہ عبدالرحمٰن ابن عمر کو فوراً بھیجے عمروعاص نے عبدالرحمٰن کو عمر کے پاس بھیج دیا عمر نے عبدالرحمٰن کو پھر کوڑے لگائے اور سزادی جس کے بعد وہ کچھ دنوں تک زندہ رہے پھر مرگئے۔(1)

42۔اور انہیں بھی پہچانئے یہ معاویہ ابن ابوسفیان ہیں اپنے ایام خلافت میں شراب بیچتے بھی تھے(4) اور پیتے بھی تھے۔(5)

43۔مغیرہ ابن شعیہ جو ایک مشہور صحابی ہیں ان کے خلاف ابوبکر جو خود صحابی تھے اور ان کے دو بھائیوں نے زنا کی گواہی دی لیکن چونکہ گواہ تین تھے اور زنا کے لئے چار گواہ ہونے چاہئے اس لئے عمر نےمغیرہ کو تو چھوڑدیا البتہ ان تینوں گواہوں کے زنا کا بہتان لگانے کی سزادی۔(6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سنن کبریٰ بیہقی ج:8ص:312،کتاب الاشرابۃ و الحد فیھا،باب ما جاء فی وجوب الحد....،المصنف لعبدلرزاق ج:9ص:232،کتاب الاشرابۃ،باب الشراب فی رمضان و حلق الراس،تاریخ بغداد ج:5ص:455،حالات محمد بن عبداللہ بن مغفرلی لمزنی میں اور ابن حجر نے اشارہ کیا اصابۃ،ج:4ص:44،حالات عبدالرحمٰن بن عمر بن الخطاب میں اور اسی طرح عبداللہ نے الاستیعاب میں،ج:2ص:395،حالات عبدالرحمٰن الاکبر بن عمر بن خطاب میں۔

(2)تہذیب التہذیب،ج:11ص:126،حالات ولید بن عقبہ بن ابی محیط میں،تہذیب الکمال،ج:31ص:58،حالات ولید بن عقبہ بن ابی محیط میں،استیعاب،ج:3ص:598،حالات ولید بن عقبہ بن ابی محیط میں،الوقوف،ص:19حالات ولید بن عقبہ بن ابی محیط میں

(3)تہذیب الکمال ج:31ص:58،حالات ولید بن عقبہ بن ابی محیط میں

(4)مسند احمد،ج:5ص:347،تاریخ دمشق ج:127،حالات عبداللہ بن برید الاسلمی میں

(5)سیرہ اعلام النبلاءج:2ص:10،تاریخ دمشق ج:26ص:198،حالات عبادۃ بن صامت میں

(6)سنن کبریٰ بیہقی ج:8ص:235،کتاب الحدود،باب شھود الزنا،تاریخ دمشق ج:26ص:198،حالات مغیرہ بن شعبۃ میں

۱۰۳

44۔ابوالسیر بدری مجاہدین میں ہیں(1) وہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت مجھ سے خرمہ خریدنے آئی، میں نے کہا میرے گھر میں اس سے بہتر ہے،وہ میرے ساتھ کمرے میں چلی آئی میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور خود سے چمٹا لیا،پھر بوسہ لیا اور ابوبکر کے پاس آیا اور اپنی حرکت بتائی،ابوبکر نے کہا خاموش رہو اور ٹال جاؤ،لیکن مجھے صبر نہ آیا اور میں حضور کی خدمت میں آیا اور حضور سے پوار ماجرا عرض کیا آپ نے فرمایا تم نے ایک غازی کی ناموس کے ساتھ ایسا کیا؟یہاں تک کہ میں سوچنے لگا کاش میں اسی وقت اسلام کا تقاضے کو پورا کرتا پھر سوچا،لگتا ہے میں جہنمی ہوں میری کہانی سن کے حضورؐ نے سر جھکا لیا بہت دیر تک خاموش رہے یہاں تک کہ مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی۔

(اقم الصلوٰة طرفی النهار و زلفامن الیل...)(2)

ترجمہ:دن کے دونوں کناروں پر نماز قائم کرو....

45۔یحییٰ بن جعدہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی جو نبی کا صحابی تھا نبی کے پاس بیٹھ کے ایک عورت کے بارے میں تبا رہاتھا پھر وہ نبی کے پاس سے کسی کا بہانہ کرکے اٹھا اور اس عورت کو تلاش کرتا ہوا باہر نکلا لیکن اس کو نہیں پایا پھر وہ نبی کو بارش کی خوش خبری دینے کے لئے آپ کی طرف چلا تو اس عورت کو ایک چشمہ کے پاس بیٹھے دیکھا اس نے اس عورت کے سینہ پر ہاتھ مار کے اس کو گرادیا اور اس کے دونوں پیروں کے درمیاں بیٹھ گیا لیکن اس کا آلہ تناسل ایک گھنڈی کی طرح ہوکے رہ گیا۔

(یعنی استادگی نہیں ہوئی)وہ پچھتاتا ہوا اٹھا اور نبی سے اس بات کا تذکرہ کیا حضورؐ نے فرمایا اپنے رب سے معافی مانگ اور چار رکعت نماز پڑھو اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:(اقم الصلوٰة طرفی النهار و زلفامن اللیل....) (3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)المعجم الکبیر، ج:19،ص:163،فیما رواہ عمار بن ابی الیسر عن ابیہ،ص:167،روایت حنظلہ ابن قیس ابی الیسر سے

(2)معجم الکبیرج:19ص:165،اسی طرح تفسیر ابن کثیرج:2ص:464،آیت کی تفسیر میں

(3)تفسیر ابن کثیرج:2ص:464،آیت کی تفسیر میں،تفسیر طبری،ج:12ص:136،آیت کی تفسیر میں،المصنف لعبدالرزاق،ج:7ص:447،باب التعدی فی الحرمات الفطام

۱۰۴

ترجمہ:دن کے دونوں کناروں پر نماز قائم کرو....اصحاب پیغمبرؐ کے بارے میں اس طرح کی رنگیں روایتیں اور بھی ہیں۔(1)

46۔عائشہ اور حفصہ نے نبی اکرمؐ کے خلاف پارٹی بنالی،سورہ تحریم میں خدا نے ان کی سرزنش کی۔(2)

(ان تتوبا الی الله فقد صغت قلوبکما و ان تظاهرا علیه فان الله هو مولاه و جبریل صالح المومنین و لملائکة بعد ذلک ظهیر)(3)

ترجمہ:اگر تم اللہ سے توبہ کروگی ٹھیک ہے ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہوگئے ہیں اور اگر تم نبی کی مخالف میں ایک دوسرے کی مدد کروگی تو نبی کو اس کی پرواہ نہیں ہے اس لئے کہ اللہ ان کا سرپرست ہے،ساتھ ہی جبرئیل امین اور نیک کردار مومن اور سارے فرشتے نبی کے مددگار ہیں،زاغت قلوبکما سے مراد مالت قلوبکما ہے یعنی تمہارے دل مائل بہ کجی ہوگئے ہیں ابن عباس اور قتادہ نے اس کی یہی تفسیر کی ہے۔(4)

اسی سورہ تحریم میں اللہ نے دونوں عورتوں کی مثال،دو عظیم عورتوں سے دی ہے اور فرمایا تم دونوں، جناب نوح اور جناب لوط کی بیویوں کی طرح ہو جنھوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی یہ مثال اس لئے دی کہ یہ زوجیت پیغمبر کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی اگر نبیؐ کی نافرمانی کی جائے۔(5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تفسیر ابن کسیر،ج:2ص:464،تفسیر آیت،مجمع الزوائد،ج:7ص:38،سورہ ھود کی آیت کی تفسیر میں،تفسیر طبری،ج:12،ص:134،آیت کی تفسیر میں،فتح الباری،ج:8ص:356،

(2)صحیح بخاری،ج:4ص:1886،کتاب التفسیر،باب ان اسرالنبی...،و فی باب قولہ،(ان تتوبا الی اللہ)ج:2ص:871،کتاب المظالم،باب اماطۃ الاذی،صحیح مسلم،ج:2ص:1110،کتاب اطلاق،باب فی الایلاء و اعتزال النساء....

(3)سورہ تحریم آیت:4

(4)تفسیر طبری ج:28ص:161،تفسیر آیت(ان تتبوبا الی اللہ...)

(5)تفسیر قرطبی،ج:18،ص:202،آیت(ضرب اللہ مثلاً للذین کفروا...)کی تفسیر میں فتح القدیر،ج:5ص:255۔256،مذکورہ آیت کی تفسیر میں،زادالمسیر،لابن جوزی،ج:8ص:315،اور دیگر کتابوں میں

۱۰۵

47۔جونیہ کی شادی جب نبی کے ساتھ ہوئی تو ان بزرگ خواتین نے مکاری کی حد کردی،جونیہ کی تزویج کا سارا انتظام ان لوگوں نے اپنے ہاتھ میں رکھا اور جونیہ کا سب سے بڑا ہمدردخو نے شوہر کا دل ہاتھ میں لینے کے کچھ گربتائے اور کہا کہ نبی اس کلمہ سے بہت خوش ہوتے ہیں۔((اعوذ باللہ منک))میں آپ سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں))جب نبی تمہارے پاس آئیں تو یہی کہنا وہ بیچاری معصوم ان کے جال میں پھنس گئی نبی جیسے ہی آئے اس نے یہ جملہ اپنی زبان پر جاری کردیا نبی نے اس سے ہاتھ کھینچ لیا اور اس کو اس گھر والوں کو واپس کردیا اور پھر طلاق دے دی۔(1)

48۔عائشہ خود کہتی ہیں کہ نبی کی عورتوں میں دوپارٹی تھی ام سلمہ ایک اور دوسری بیویوں کی الگ پارٹی تھی حضصہ،صفیہ،سودہ،میری پارٹی میں تھیں۔(2)

49۔پارٹی بندی کی بنیاد مولائے کائنات کی ذات اقدس تھی اس کے قبل بھی عائشہ کے خیالات پر روشنی ڈال جاچکی ہے کہ وہ امیرالمومنینؑ سے کتنی دشمنی رکھتی تھیں،جب امیرالمومنینؑ کی شجاعت کی خبر ملی تو عائشہ نے ترنگ میں آکر یہ شعر پڑھا۔

((پس اس نے اپنا عصا رکھ دیا تو وہ منزل پہنچ گیا جیسے کہ مسافر کے واپس آنے پر آنکھ کو ٹھنڈک ملتی ہے۔

پھر پوچھا علی کو قتل کس نے کیا جواب ملا قبیلہ نبی مراد کے ایک شخص نے اگر مرنے والا دور تھا تو کیا ہوا اس کی موت کی خبر تو اس جوان نے دی ہے کہ جس کے منھ میں خاک نہ ہو))یہ اشعار سن کے زینب بنت ابوسلمہ نے کہا کیا آپ یہ اشعار علیؑ کے لئے پڑھ رہی ہیں تو چونک گئیں اور کہا کبھی میں بھول جاتی ہوں جب میں بھول جاؤں تو یاد دلا دیا کرو۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الطبقات الکبری ج:8ص:146،فی ذکر من تزوج رسول اللہؐ من النساء الاصابۃ ج:7ص:495،حالات اسماء بنت نعمان بن حارث،مستدرک علی صحیحین ج:4ص:39،کتاب المعرفۃ الصحابۃ،تلخیص الجبیرج:3ص:132،ومن خصائصہ فی محرمات النکاح

(2)صحیح بخاری ج:2ص:911،کتاب الھبہ و فضلھا،باب من اہدیٰ الی صاحب..

(3)تاریخ طبری ج:3ص:159،فی اعشم دخلت سنۃ اربعین اور اسی طرح الکامل فی التاریخ ج:2ص:394،اور اسی جیسا طبقات الکبریٰ ج:3ص:40،عبدالرحمٰن بن ملجم مراد کے ذکر میں

۱۰۶

50۔ایک کارنامہ اور ملاحظہ ہو ام المومنین ماریہ پیغمبرؐ کی خدمت میں ایک ہدیہ کے طور پر بھیجیں گئیں ان کے ساتھ ان کے چچازاد بھائی بھی تھے بہرحال پیغمبرؐ کی خدمت میں آئیں اور آپ کو استقرار حمل ہوگیا اس لئے نبی نے ان کے چچازاد بھائی کے پاس ان کو چھوڑ دیا،اب بہتان طرازوں اور افترپرداز لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ جو اولاد کا حاجت مند ہو وہ دوسرے کے بچے پر دعوی کردے۔

بہرحال ولادت ہوئی ماریہ کو دودھ بہت کم ہوتا تھ اس لئے ایک دودھ بکری خرید گئی تا کہ نبی کے بیٹے کو دودھ کی کمی نہ ہو اس دودھ کے اثر سے ان پر خوب گوشت بڑھا۔

عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن نبیؐ انہیں لے کر میرے پاس آئے اور پوچھا عائشہ میرا بیٹا کیسا لگتا ہے میں نے کہا جو بکری کا دودھ پئےگا وہ موٹا اور اس پر گوشت ہوگا ہی،آپؐ نے فرمایا اور میری مشا بہت نہٰں پائی جاتی عائشہ کہتی ہیں کہ مجھے غیرت آئی اس لئے میں وہ سب باتیں نبی کو نہیں بتائیں لیکن ہادی اعظمؐ تک وہ باتیں پہنچ گئیں اور یہ بھی کہ لوگوں کا خیال ہے کہ ماریہ کا بیٹا ان کے ابن عم کا نطفہ ہے اعوذ باللہ بہرحال جب نبیؐ نے سنا تو آپ نے مولائے کائنات کو بلا کر تلوار دی اور کہا کہ ماریہ کے ابن عم کی گردن قلم کردو،مولا علیؑ تلوار لےکر اس کو ڈھونڈھتے ہوئے چلے وہ ایک خرمے کے باغ میں دیوار پر چڑھا ہوا خرمے توڑ رہا تھا مولا علیؑ کو جو آتے دیکھا تو مارے ڈر کےکانپنےلگا اور اس کا پیراہن نیچے گرگیا پتہ چلا کے اس کے پاس عضو تناسل ہی نہیں تھا۔(1)

51۔اسامہ بن زید نے اپنے بعض اصحاب سے انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ عائشہ اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ کاش میں پیدا نہیں ہوئی ہوتی یا میں ایک درخت ہوتی جو تسبیح کرتی رہتی اور مجھ پر جو واجب تھا اس کو ادا کرتی رہتی۔(2)

عیسی بن دینار نے کہا میں نے ابوجعفر سے عائشہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا ان کے لئے استغفار کرو تم کو معلوم نہیں ہے وہ کیا کہتی ہے وہ کیا کہتی تھیں میں نے کہا کیا کہتی تھیں کہا کہتی تھیں کاش

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مستدرک علی صحیحین ج:4ص:41،کتاب معرصفۃ الصحابۃ فی ذکر سراری رسول اللہؐ

(2)طبقات الکبریٰ ج:8ص:74،عند حدیث(عائشہ بنت ابی بکر)

۱۰۷

میں درخت ہوتی کاش میں پتھر ہوتی،کاش میں کنکر ہوتی تو میں نے پوچھا اس کا کیا مطلب؟کہا توبہ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔(1)

ذکوان جو عائشہ کے حجاب کا انتظام کرتا تھا کہتا ہے کہ ابن عباس عائشہ کے مرنے کے وقت ان کے پاس گئے اور ان کی تعریف کی عائشہ نے کہا اے ابن عباس مجھے چھوڑ دو کاش میں بھولی بچھری چیز ہوتی۔(2) قیس کہتے ہیں کہ عائشہ نے مرنے کے عقت وصیت کہ کہ میں پیغمبرؐ کے بعد بہت سی نازیبا حرکتیں کی ہیں مجھے نبی اکرمؐ کی بیویوں کے ساتھ دفن کرو۔(3)

52۔مسلم سے روایت ہے کہ سرکار ایک بار گرمی میں سفر کررہے تھے آپ نے فرمایا کہ پانی کم ہے مجھ سے پہلے اسے کوئی استعمال نہیں کرےگا جب پانی تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ اس کو پہلے ہی ختم کرچکے ہیں پس آپ نے ان لوگوں پر لعنت کی۔(4)

53۔جس طرح سرکار نے حکم بن عاص پر لعنت کی(5) وہ آپ کی نقل کرتا تھا اور انگلیوں سے اشارہ کرکے آپ کا مذاق اڑاتا تھا۔(6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)طبقات الکبریٰ ج:8ص:74،عند حدیث(عائشہ بنت ابی بکر)

(2)طبقات الکبریٰ ج:8ص:75،ذکر ازواج رسول اللہؐ میں اور اسی طرح صحیح بخاری ج:4ص:1779،کتاب تفسیر،باب ولولا اذا سمعتم...مسند احمدج:1ص:276،مسند عبداللہ بن عباس،فتح الباری ج:8ص:484،سیر اعلام النبلائ ج:2ص:180،ام المومنین عائشہ کے حالات میں

(3)طبقات الکبریٰ ج:8ص:74،ازواج رسول کے ذکر میں،مصنف ابی ابی شیبۃ،ج:7ص:536،کتاب الجمل

(4)طبقات الکبریٰ ج:8ص:73،عند حدیث(عائشہ بنت ابی بکر)

(5)طبقات الکبری ج:8ص:75،ذکر ازواج رسول اللہ میں اور اسی طرح صحیح بخاری ج:4ص:1779،کتاب تفسیر،باب ولولا ازا سمعتم...مسند احمد ج:1ص:276،مسند عبداللہ بن عباس،فتح الباری ج:8ص:484،سیر اعلام النبلائ ج:2ص:180،ام المومنین عائشہ کے حالات میں

(6)الاصابۃ ج:6ص:558،حالات ھند بن ھند بن ابی ھالۃ میں اسی طرح ج:2ص:105،پر حالات الحکم بن ابی العاص میں اور تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ،الاستیعاب ج:3ص:570،حالات ھند بن ابی ھالۃ میں اور معجم الصحابۃ،ج:3ص:196،حالات ھند بن ابی ھالہ میں مجمع الزوائد ج:5ص:243،کتاب الخلافۃ،باب ائمۃ الظلم و الجور و ائمہ الضلالۃ

۱۰۸

آپ نے اس کے لئےبد دعا کی تو اس کو راعشہ کا مرض ہوگیا۔(1)

ایک حدیث میں ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو نبی کے پاس لایا جاتا اور آپ اس کے لئے دعائے خیر کرتے جب مروان بن حکم لایا گیا تو آپ نے فرمایا، وہ ذلیل بن ذلیل اور ملعون ابن ملعون ہے۔(3)

54۔انس بن مالک کہتے ہیں،اصحاب پیغمبرؐ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دفن کرتے ہی منکر ہوگئے(4) فتح باری میں اس جملہ کی تشریح یوں کی ہے کہ وہ لوگ اس عہد وفا کو بھول گئے جو آپسی محبت،صفا قلب اور نرمی دل کے بارے میں پیغمبرؐ سے باندھا تھا اس لئے اس تعلیم و تادیب کا فقدان تھا اور معلم اخلاق منومٹی کے نیچے سورہا تھا۔(5)

55۔عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ وفات پیغمبر کے بعد ہمیں ڈر ہوگیا کہ ہماری خوبیاں اسی دنیا میں نہ ختم ہوجائیں(6) اور یہ بھی کہتے تھے کہ ہمیں مصیبتوں سے آزمایا گیا تو ہم نے صبر کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)طبقات الکبریٰ ج:8ص:74،ازواج رسول کے ذکر میں،مصنف ابی ابی شیبۃ،ج:7ص:536،کتاب الجمل

(2)معجم الکبری ج:12ص:148،مجمع الزوائد ج:8ص:43،کتاب الادب،باب فی الاستند ان و فیمن اطلع فی دار بغیر اذن،الاصابۃ،ج:2ص:104،حالات الحکم بن ابی العاص میں

(3)المستدرک علی صحیحین ج:4ص:526،کتاب الفتن و الملاحم اور اسی طرح کتاب الفتن (نعیم بن حماد)ج:1ص:131

(4)الاحادیث المختارۃ،ج:4ص:419،فیمارواہ(جعفر بن سلیمان الضبعی عن ثابت)سنن بن ماجہ،ج:1ص:522،کتاب الجنائز،باب ذکر وفاتہ و دفنہ،مصنف بن ابی شیبۃ،ج:7ص:133،کتاب الزھد،کلام بن مالک،مسند احمد ج:3ص:221،مسند انس بن مالک،ص:268،سنن ترمذی،ج:5ص:588،کتاب المناقب،باب فی فضل النبیؐ،صحیح بن حبان،ج:14،ص:601،ذکر انکار(الصحابۃ قلوبھم عند دفن صفی اللہؐ)

(5)فتح الباری،ج:8ص:149

(6)حلیۃ الاولیائ،ج:1ص:100،حالات عبدالرحمٰن بن عوف میں،صحیح بخاری،ج:1ص:428،کتاب الجنائز باب الکفن،صحیح بن حبان،ج:15،ص:485،کتاب اخبارہ عن مناقب الصحابہ،مصنف بن شیبہ،ج:4ص:216،کتاب الجھاد،سیر اعلام النبلاء،ج:1ص:1411،حالات مصعب بن عمیر میں

۱۰۹

لیکن جب مسرتیں دے کے آزمایا گیا تو ہم صبر نہیں کرسکے۔(1)

56۔ابوبکر نے مرنے کے پہلے عمر بن خطاب کو خلیفہ بنادیا جب عبدالرحمٰن بن عوف ان کے مرنے کے وقت ان کے پاس پہونچے اور سرزنش کی تو ابوبکر نے کہا میں نے تم پر ایسے کو ولی بنایا ہے جو میرے علم میں تم سب سے بہتر ہے اب میں دیکھ رہا ہوں کہ سب کی ناک سوجی ہوئی ہے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ خلافت عمر کے بجائے اس کے پاس آجاتی اصل میں تم دنیا کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہو،حالانکہ ابھی دنیا تمہاری طرف آئی نہیں ہے،ابھی تو یہ آتی رہے گی یہاں تک کہ تم حریر و دیبا کے کپڑے پہننے لگوگے خدا کی قسم اگر تم میں سے کوئی آگے بڑھا تو یہ سمجھ لے کہ دنیا کے چکر میں بہتر یہ ہے کہ اس کی گردن بغیر کسی جرم کے ماردی جائے کل آنے والے وقتوں میں تم لوگ عوام کو گمراہ کروگے اور صراط مستقیم میں رکاوٹ پیدا کرکے داہنے بائیں بھٹکادوگے،اے ہادی راستہ دکھا راستہ یا تو صحیح ہے یا سیرابی۔(2)

57۔ایک دن ابوبردہ بن موسیٰ اشعری سے عمر کے صاحب زادے نےپوچھا کہ تمہیں معلوم ہے ہمارے ابا تمہارے ابا سے کیا کہتے تھے،میں نے کہا نہیں بولے ایک دن میرے والد ماجد آپ کے والد ماجد سے پوچھنے لگے اے ابوموسیٰ کیا تم اسی بات پر خوش ہو کہ ہم لوگ نبی کے ہاتھوں مسلمان ہوئے اور آپ کے ساتھ ہجرت کی اور جہاد کیا تو یہ بات تو ہمارے لئے ثابت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جو حرکتیں ہم نے نبی کے بعد کیں کیا تمہیں یقین ہے کہ ان کی سزا سے ہاتھ پاؤں بچا کے نجات پاجائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)حلیۃ الاولیاءج:1ص:100،حالات عبدالرحمٰن بن عوف میں،الاحادیث المختارۃ ج:3ص:121۔122،مسند عبدالرحمٰن بن عوف،مسند الشاشی ج:1ص:280

(2)تاریخ طبری ج:2ص:353،الضعفا للعقیلی ج:3ص:420،حالات عوان بن داؤد الجبلی،لسان المیزان،ج:4ص:189،حالات عوان بن داؤد الجبلی میں،مجمع الزوائد ج:5ص:202،کتاب الخلافۃ باب کراھۃ الولایۃ،الاحادیث المختارۃ ج:1ص:89،معجم الکبیر،ج:1ص:62

۱۱۰

ابوموسیٰ نے کہا خدا کی قسم مجھے تو پیغمبرؐ کے بعد بھی اپنا کوئی برا عمل نہیں دکھائی دیتا ہے ہم نے نبی کے بعد بھی جہاد کئے،نمازیں پڑھیں،روزے رکھے بہت سے عمل خیر انجام دئیے اور بہت سے لوگوں کو مسلمان بنایا،عمر نے کہا لیکن اس کی قسم جس کے قبضہ میں عمر کی جان ہے میری تمنا ہے کہ صحابیت پیغمبرؐ سے مجھے بچائے اور نبی کے بعد ہن نے جو کچھ کیا ہے اس کی سزا سے ہاتھ پاؤں بچا کے نکل جائیں یہ سن کے ابوموسیٰ نے کہا تمہارے باپ بخدا میرے باپ سے بہتر تھے۔(1)

58۔جب عمر زخمی ہوئے تو کہنے لگے کاش میرے پاس زمین کے برابر سونا ہوتا جس کودے کے میں عذاب سے بچ جاتا(2) اور میرے پاس ساری زمین کی دولت ہوتی تو میں اسے صدقہ میں دے کے قیامت کے ہول سے بچ جاتا(3) اور یہ بھی کہا کہ کاش میں خلافت سے اس طرح باہر نکلوں جیسا داخل ہوا تھا یعنی بالکل صاف پاک، نہ مزدوری لی اور نہ بوجھ اٹھایا۔(4)

کبھی کہا میں چاہتا ہوں کہ خلافت میں جسے داخل ہوا تھا ویسے ہی نکل آؤں سورج جن چیزوں پر چمکتا ہے اگر ان کے برابر بھی سونا ہوتا تو میں اس کو قیامت کا فدیہ قرار دیتا(5) کبھی کہا میں چاہتا ہوں خلافت جب چھوڑوں تو میرا ہاتھ صاف رہے،نہ میرا فائدہ ہو نہ نقصان اور صحبت پیغمبر سلامت رہے۔(6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:3ص:1425،کتاب فضائل الصحابۃ،باب ہجرۃ النبی،واصحابہ،الی المدینۃ،اور اسی طرح سنن الکبری بیھقی ج:6ص:359،کتاب القسم و الفئۃ و الغنیمۃ،جماع ابواب تفریق...،باب الاختیار فی التعجیل...

(2)صحیح بخاری،ج:3ص:1350،کتاب الفضائل الصحابۃ،باب مناقب عمر بن خطاب ابی حفص القرشی

(3)طبقات الکبریٰ،ج:3ص:355،ذکر(استخلاف عمر)میں اسی طرح مجمع الزوائد،ج:9ص:75،کتاب المناقب،باب وفاۃ عمر،مصنف ابی شیبۃ،ج:7ص:100،کتاب الزھد(کلام عمر بن خطاب)میں،المستدرک علی صحیحین،ج:3ص:98کتاب معرفۃ الصحابۃ،مقتل عمر علی الاختصار

(4)سنن کبریٰ بیہقی ج:10ص:97،کتاب آداب القاضی:باب کراھیۃ الامارۃ،حلیۃ الاولیاء،ج:1ص:52،کلمات عمر میں اور اسی طرح طبقات الکبریٰ ج:3ص:351

(5)طبقات الکبریٰ،ج:3ص:355

(6)مجمع الزوائد ج:9ص:77،کتاب المناقب:باب وفاۃ عمر،صحیح بن حبان ج:15،ص:332،ذکر(مصطفیٰؐ رضا عن عمر)میں،مسند ابی یعلی،ج:5ص:116،اول مسند ابن عباس میں اور اسی طرح مسند الطیائسی ج:2ص:6

۱۱۱

59۔جب عمر زخمی ہوئے تو صحابہ اس بات پر تیار نہیں تھے کہ وہ خلافت سے استیفا دیں لیکن عمر نے اس پوچھا اور پھر کہا تمہاری ہی رائے اور مشورہ پر تو عمل کرنے سے مجھ پر یہ مصیبت آئی ہے تو صحابہ نے اس بات سے اظہار برائت کیا اور حلف اٹھایا کہ ایسا نہیں ہے۔(1)

60۔ابوبکر کے دور خلافت میں کچھ لوگ یمن آئے اور قرآن کی تلاوت سن کر رونے لگے،ابوبکر نے کہا ہم لوگ بھی پہلے ایسے ہی تھے پھر سخت دل ہوگئے۔(2) 61۔سعد نے عمار سے تعلقات منقطع کر لئے،واقعہ یوں ہے کہ ایک دن سعد نے عمار سے کہا کہ میری نظر میں تم اصحاب میں فاضل ترین لوگوں میں سے تھے اب تمہاری زندگی میں سے گدھے کی سیرابی کے برابر دن باقی رہ گئے ہیں(یعنی بہت ٹھوڑے دن)تو تم نے اپنی گردن سے اسلام کا قلادہ اتار پھینکا پھر پوچھا تم کیا پسند کرتے ہو؟قلبی محبت یا خوبصورتی سے تعلقات کا منقطع کرنا عمار نے کہا:قطع تعلق ہی بہتر ہے سعد نے کہا میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ تم سے کبھی نہیں بولوں گا۔(3) 62۔اسی طرح عائشہ نے حفصہ سے قطع تعلق کرلیا تھا جو موت کے وقت باقی رہا۔(4) 63۔خالد بن ولید اور عمر میں بول چال نہیں تھی آخر تک قطع تعلق رہا۔(5) 64۔معاویہ نے سعد کو سلام کیا تو انھوں نے جواب سلام نہیں دیا۔6) 65۔یہ بات پہلے ہی گذرچکی ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف اور عثمان میں قطع تعلق ہوچکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مصنف عبدالرزاق ج:10ص:357،باب ھل یدخل المشرک فی الحرم،الاستیعاب ج:2ص:461،حالات عمر بن خطاب میں،طبقات الکبریٰ ج:3ص:348۔341،تاریخ طبری ج:2ص:560،مصنف ابن ابی شیبۃ،ج:7ص:440،کتاب المغازی،حلیۃ الاولیاء،ج:4ص:151،فضائل الصحابہ،ج:1ص:263،فضائل عمر بن خطاب میں

(2)حلیۃ الاولیاءج:1ص:34،حالات ابی بکر میں،تاریخ الخلفاءص:98،جس میں ابوبکر صدیق سے روایت ہوئی ہے۔

(3)المعارف لابن قتیبہ ص:550،المتھاجرین میں

(4)المعارف لابن قتیبہ ص:550،المہاجرین میں

(5)العقد الفریدج:3ص:235،کتاب الدرۃ فی النوادب

(6)التاریخ الکبیر للبخاری ج:4ص:285،حالات صالح بن عبدالرحمٰن بن مسعود میں

۱۱۲

66۔ابوردائ کہتے تھے کہ ہمیں امت محمد میں سوائے نماز جماعت کے کوئی خوبی نہیں دکھائی دیتی(1) دوسری حدیث میں ہے کہ خدا کی قسم میں سیرت پیغمبر کی کوئی جھلک آپ کی امت میں نہیں دیکھتا مگر یہ کہ نماز جماعت سے ادا کر لیتے ہیں۔(2) ایک اور حدیث میں ہے کہ امر محمد میں سوائے نماز کے کچھ نہیں دیکھتا۔(3)

67۔انس کہتے ہیں کہ اے مسلمان دور رسول کی کوئی چیز تم میں باقی نہیں لوگوں نے کہا کیوں؟نماز تو ہے انس نے کہا اسے بھی تو تم سے جتنا ہوسکا ضائع کرچکے ہو۔(4)

68۔ابھی حذیفہ سے ایک حدیث آئے گی کہ مسلمان مبتلا ہوئے یہاں تک کہ لوگ چھپ چھپ کر نماز پڑھنے لگے۔

69۔ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ علی نے ہمیں وہ نماز یاد دلائی جو ہم نبی کے ساتھ پڑھتے تھے اور جس کو ہم بھول گئے تھے یا جان بوجھ کر چھوڑ دیا تھا۔(5)

70۔مسیّب کی حدیث میں ہے کہ براء بن عازب سے ملا اور کہا کہ آپ کو مبارک ہو آپ کو نبی کی صحبت ملی اور آپ نے شجرہ کے نیچے نبی کی بیعت کی،کہنے لگے بھیجتے...اس کے بعد ہم لوگوں نے کیا کیا کہا تم نہیں جانتے۔(6)

71۔دوسری حدیث ابوسعید سے ہے کہ انھوں نے براء بن عازب سے کہا کہ آپ کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:1ص:232،کتاب الجماعۃ و الامامۃ،اب فضل صلوٰۃ الفجر فی جماعۃ

(2)مسند احمدج:5،ص:195حدیث ابی الدردا

(3)مسند احمدج:6ص:443،من حدیث ابی الدردا

(4)صحیح بخاری ج:1ص:197،کتاب مواقیت الصلوٰۃ تضییع الصلوٰۃ عن وقتھا

(5)مسند احمدج:4ص:392۔411۔415،حدیث موسیٰ میں،مصنف ابی ابی شیبۃ ج:1ص:217،کتاب الصلوٰۃ،شرح معانی الآثارج:1ص:221،کتاب الصلوٰۃ،فتح الباری ج:2ص:270وغیر

(6)صحیح بخاری ج:4ص:1529،کتاب المغازی،باب غزوۃ الحدیبیۃ

۱۱۳

مبارک ہو کہ آپ نے نبی کو دیکھا اور ان کی صحبت میں رہے کہنے لگےکہ اس کے بعد ہم نے کہا کیا؟تم کو نہیں معلوم ہے۔(1)

72۔محمد کی حدیث ہے کہ نبیؐ کے اصحاب میں سے ایک صاحب کہنے لگے کہ ہم میں سے کسی کو فتنہ نے گرفتار نہیں کیا۔اگر تم کہو کہ میرا خیال صحیح نہیں ہے تو میں کہوں گا کہ سوائے عبداللہ بن عمر کے کوئی مفتون نہیں ہوا۔(2)

73۔حذیفہ کی حدیث ہے کہ منافقین کی شرارت آج کل عروج پر ہے،اس لئے کہ عہد نبوی میں ہو پوشیدہ تھے اب کھل کر سامنے آگئے ہیں،(3) دوسری حدیث میں ہے کہ حذیفہ نے کہا:نفاق تو نبی کے دور میں تھا،آج تو ایمان کے بعد صرف کفر ہے۔(4)

74۔تاریخ میں غزوہ تبوک کی واپسی کا واقعہ بہت مشہور ہے جب منافقین نے کوشش کی تھی کہ نبی کے ناقے کو بھڑکاکر آپ کو پہاڑ سے وادی میں گرادیں۔(5)

مجمع زوائد میں ابوطفیل سے اس کی تفصیل نقل کی گئی ہے،ابوطفیل کہتے ہیں کہ نبی تبوک کی طرف جارہے تھے یہاں تک کہ ایک وادی میں پہونچے پس آپ نے اپنے منادی کو حکم دیا کہ اعلان کردو کہ وادی میں کوئی بھی داخل نہ ہو پیغمبر وادی میں سفر کررہے ہیں حذیفہ آپ کے اونٹ کو ہنکار ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الاصابۃ ج:3ص:79،حالات سعد بن مالک میں،تاریخ دمشق ج:20،ص:391،حالات سعد بن مالک میں،(ابی سعید الخدری)

(2)مصنف ابن ابی شیبۃ ج:7ص:468،کتاب الفتن،طبقاب الکبریٰ ج:4ص:144،و من بنی عدی بن کعب

(3)صحیح بخاری ج:6ص:2604،کتاب الفتن،باب اذا قال عند مقوم شیاً

(4)صحیح بخاری ج:6ص:2604،کتاب الفتن،باب اذا قال عند مقوم شیاً

(5)مجمع الزوائد ج:1ص:110،کتاب الایمان،باب منہ فی المنافقین،مسند احمدج:5ص:453،حدیث ابی الطفیل عامر بن وائلہ،الاحادیث المختارۃ ج:8ص:221۔222،البدایۃ و النھایۃ،ج:5ص:19۔20۔21،فضائل غزوہ تبوک،در منثور،ج:3ص:259۔260،آیت(یحلفون اللہ ما قالوا)کی تفسیر میں،تفسیر بن مسعود،ج:4ص:84،سورہ توبہ،آیت74کی تفسیر میں،تفسیر بن کثیر،ج:2ص:372۔274،آیت(و ھموابمالم ینالو)کی تفسیر میں،معجم الکبیر،ج:3ص:165،

۱۱۴

تھےاور عمار کھینچ رہے تھے کہ وادی میں کچھ لوگ نقاب پہنے ہوئے تھے اور انھوں نے نبیؐ کو چاروں طرف سے گھیر لیا وہ لوگ اپنی سواریوں پر تھے عمار پلٹ کر ان کے ناقوں کے پر منھ مارا،نبیؐ نے حذیفہ سے فرمایا کہ میرے ناقےکو آگے بڑھاؤ اور عمار سے کہا کہ تم اس کو کھینچو یہاں تک کہ عمار نے ناقہ کو بھڑکا دیا،آپؐ نے عمار سے کہا کہ کیا تم ان نقاب پوشوں کو پہچانتے ہو،عمار نے کہا یا رسول اللہ ان کے چہروں پر نقابیں ہیں میں انھیں نہیں پہچانتا،ہاں البتہ سواریوں کو پہچانتا ہوں آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ پیغمبرؐ کے بارے میں ان کے کیا ارادے ہیں میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول جانتا ہے آپ نے فرمایا کہ ان کا ارادہ ہے کہ وہ ناقے کو بھڑکا دیں تا کہ رسول وادی میں گرجائے اور قصہ ختم ہوجائے۔

بات ختم ہوگئی لیکن اس واقعہ کے بعد عمار اور کسی آدمی میں کچھ بحث ہوگئی اس شخص نے کہا کہ میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ اصحاب عقبہ کتنے تھے؟جنہوں نے پیغمبرؐ سے مکر کرنا چاہا تھا عمار نے کہا میرا خیال ہے کہ وہ چودہ تھے اس نے کہا کہ اگر میں بھی ان میں ہوتا تو پندرہواں ہوتا،عمار اس بات کےگواہ ہیں ان میں سے بارہ تو وہ تھے جو دنیا میں پیغمبرؐ سے لڑتے ہی رہے آخرت میں بھی پیغمبرؐ کے دشمن ہوں گے طبرانی نے کبیر میں اس روایت کو ثقہ روایوں کے سلسلے سے لکھا ہے۔(1)

بہت سی حدیثوں میں عقبہ کی کہانی بیان کی گئی ہے کہ سرکار دوعالم نے اس رات اپنے ساتھیوں کو حکم دیا تھا کہ نقاب پوشوں کے نام راز میں رکھیں گے،اگر چہ اس میں اختلاف ہے کہ انھیں پہچانتا کون تھا؟حذیفہ اور عمار یا صرف حذیفہ،بہرحال صورت حال چاہے جو بھی ہو نبی نے ان کے نام پوشیدہ رکھنے کی ہادیت کی تھی اس لئے کہ وہ لوگ یا ان میں سے کچھ لوگ مسلمانوں کے درمیان منافق نہیں سمجھے جاتے تھے،بلکہ اس لئے بھی کہ مسلمانوں کے درمیان جو کچھ ان کا احترام ہے وہ ختم ہوجائےگا،اس کے علاوہ ان کے نام کے اعلان سے ملت اسلامیہ میں کچھ ایسی مشکلیں آجاتیں جن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع الزوائدج:1ص:110کتاب الایمان:باب منہ فی المنافقین

۱۱۵

سے اس دور میں پرہیز کرنا اچھا تھا اس لئے کہ عروہ ان لوگوں کو منافق نہیں مانتے تھے بلکہ صحابہ مانتے تھے جیسا کہ عروہ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حضرات منافق نہیں صحابہ تھے۔(1)

75۔بعض حدیثوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض صاحبان مرتبہ صحابہ،کچھ عزت دار صحابہ کے حالات سے واقف تو تھے لیکن چونکہ ان کی عوام میں ایک عزت تھی اس لئے ان کی عزت کو بچانے کے لئے ان کے حالات پر پردہ نہ ڈالتے تو عوام میں ایک طوفان کھڑا ہوجاتا۔

جیسا ابی بن کعب کی اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے اور ابوطفیل کا یہ بیان بھی شاہد ہے،ابوطفیل کہتے ہیں کہ میں اور عمر بن صلیع محاربی حذیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا حدیث بیان کرو انہوں نے کہا خدا کی قسم اگر میں تم سے ہر مخفی بات بتادوں تو تم مجھے قتل کردوگے،یا یہ کہا کہ تم ہماری تصدیق نہیں کروگے۔

انھوں نے کہا کہ کیا یہ حق ہے،حذیفہ نے کہا کہ ہاں یہی سچ ہے،انھوں نے کہا آپ ہم سے وہ مخفی باتیں بتایئے جو ہمیں فائدہ پہونچائیں اور آپ کو نقصان بھی نہ ہو،ہمیں ایسا سچ نہیں چاہئے جس کو سننے کے بعد ہم آپ کو قتل کردیں،حدیفہ نے کہا اچھا اگر میں یہ کہوں کہ تمہاری ماؤں نے ہی تمہیں پیدا کیا ہے تو تم ہماری تصدیق کروگے،انھوں نے کہا ہاں یہ سچ ہے۔(2)

76۔ابن حزم کہتے ہیں اور زید بن وہب سے بھی بخاری شریف کے طریق سے روایت ہے کہ حذیفہ نے کہا:اصحاب محمد میں مندرجہ ذیل آیت کے مصداق صرف تین آدمی باقی رہ گئے ہیں،آیت یہ ہے کہ:

(و ان نّکثوا ایمانهم من بعد عهدهم و طعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمّة الکفر انّهم لاایمان لهم لعلّهم ینتهون)(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سنن کبری للبیھقی ج:9ص:33،کتاب السیر:باب من لیس للامام من یغرو..،درّ منثور ج:3ص:259،آیت(یحلفون باللہ ما قالوا)کی تفسیر میں

(2)جامع اذدی ج:11ص:52۔53،باب القبائل

(3)سورہ توبہ آیت:12

۱۱۶

ترجمہ:اگر یہ لوگ اپنے عہدہ کو توڑیں اور تمہارے دین پر حملہ کریں تو کفر کے اماموں کو مار ڈالو ان کے لئے کوئی عہد و پیمان نہیں ہے تا کہ وہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز رہیں۔

حذیفہ نے فرمایا کہ اب صرف چار منافقین باقی رہ گئے ہیں،ایک عرب نے کہا کہ آپ لوگ اصحاب محمد ہیں ہمیں وہ باتیں جو ہم نہیں جانتے وہ کون لوگ ہیں جو ہمارے گھروں میں نقب لگاتے ہیں اور ہمارا سامان چرالے تے ہیں؟

حذیفہ نے کہا وہ فاسق لوگ ہیں منافق نہیں،اس لئے کہ اب تو منافقین میں سے چار ہی بچے ہیں ایک بڈھا ہے اگر پانی پی لیتا تو ٹھنڈا پڑجاتا(1) (یعنی ایک بڈھا منافق ہے اگر اس کو موت آجاتی تو فساد ختم ہوجاتا)(مترجم)

صورت حال جو بھی رہی ہو اصحاب عقبہ کے نام بہرحال پوشیدہ رہے ہاں کبھی کبھی اشاروں اور کنایوں میں کسی کی طرف نظر اٹھ گئی تو وہ دوسری بات ہے سب سے واضح اشارہ ابوموسی نے مولائے کائناتؑ کو واقعہ تحکیم میں خلافت سے الگ کردیا تو پھر وہ مولائے کائناتؑ کے مخالفین میں شامل ہوگئے یہاں تک کہ حذیفہ کے بارے میں بھی وہ بکواس کرنے لگے جواب میں حذیفہ نے بھی ان کے بارے میں ایسی باتیں کہیں جس کا ذکر کرنا بھی مکروہ ہے اللہ انھیں بخشے۔(2)

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ ابوعمر بن عبدالبر نے جس بات کی طرف اشارہ کیا ہے اور جس بات کا تذکرہ مکروہ سمجھ کر نہیں کیا وہ یہ ہے کہ حذیفہ نے اس شخص(ابوموسیٰ)کے دین کے بارے میں کہا تھا،حذیفہ نے کہا جہاں تک تم لوگوں کا سوال ہے تو تم لوگ اس کے بارے میں جو چاہو عقیدہ رکھو لیکن جہاں تک میرا خیال ہے تو ابوموسیٰ وہ ہے جو خدا کا دشمن خدا کے رسول کا دشمن ہے اس کی میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اس دنیا میں بھی،آخرت میں بھی اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والا ہے قیامت کے دن بھی وہ خدا اور اس کے رسول کا دشمن ہوگا جس دن ظالموں کو کوئی بہانہ کام نہ آئےگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)المحلی،ج:11ص:222(فی مسئلۃ من المنافقین و..)

(2)الاستیعاب ج:2ص:364،عبداللہ بن قیس بن سلیم کے حالات میں

۱۱۷

ان کے لئے لعنت اور اٹھکانہ ہے اور حذیفہ منافقین کے نام جانتے تھے،پیغمبرؐ نے اس بارے میں انھیں رازدار بنایا تھا اور ان کے ناموں کی نشان دہی کی تھی۔روایت ہے کہ عمار سے ابوموسیٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے کہا میں نے اس آدمی کے بارے میں حذیفہ سے بہت بڑی بات سنی ہے وہ فرماتے تھے کہ یہ کالی ٹوپی والا ہے اور پھر انھوں نے ایسا منھ بنایا کہ میں سمجھ گیا کہ عقبہ والی پارٹی سے لگاؤ رکھتا ہے۔(1) حکیم کی حدیث میں ہے کہ میں عمار یاسر کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ابوموسیٰ آئے عمار نے کہا ابوموسی مجھے تم سے کوئی مطلب نہیں،ابوموسیٰ نے کہا کیا میں تمہارا بھائیی نہیں ہوں عمار نے کہا کہ یہ تو میں نہیں جانتا لیکن یہ جانتا ہوں کہ ہادی اعظم نے تم پر پہاڑ والی رات وادی عقبہ میں لعنت بھیجی تھی،موسیٰ نے کہا اور استغفار بھی تو کیا تھا،عمار نے کہا اور استغفار بھی تو کیا تھا،عمار نے کہا میں لعنت کا گواہ ہوں استغفار کا نہیں۔(2)

اسی طرح کی دوسری حدیث ہے ابوطفیل کی حدیث ملاحظہ کریں(3)

حذیفہ سے ایک ایسے آدمی کا جھگڑا ہوگیا جو وادی عقب میں شریک تھا اس نےکہا حذیفہ میں آپ کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں اصحاب عقبہ کتنےتھے حذیفہ خاموش تھے کہ لوگوں نےکہا حذیفہ آپ سے وہ سوال کررہا ہے اس کا جواب دیجئے،ابوموسیٰ بول پڑے ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ وہ چودہ تھے،حذیفہ نے کہا اور اگر تم بھی ان میں شامل تھے تو پندرہویں ہوئے،میں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ان میں بارہ تو وہ تھے جو خدا اور خدا کے رسول کے دشمن تھے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور تین نے اپنی معذوری ظاہر کردی تھی اور کہہ دیا تھا کہ ہم نے پیغمبرؐ کی منادی نہیں سنی تھی اور ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ان لوگوں کے کیا ارادے ہیں۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:13ص:314،(فضل فی نسب ابی موسیٰ..)

(2)کنز العمال ج:13ص:608

(3)الکامل فی الضعفاء ج:2ص:362،حالات حسین بن حسن الاشقر میں،تاریخ دمشق ج:32ص:93،حالات عبداللہ بن قیس میں

(4)مصنف ابی شیبہ ج:7ص:445،کتاب المغازی،کنز العمال ج:14ص:86،حدیث:38011

۱۱۸

شفیق کی حدیث ملاحظہ وہ ہو کہتا ہے کہ ہم مسجد نبوی میں حذیفہ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ عبداللہ اور ابوموسی مسجد میں داخل ہوئے،حذیفہ نے کہا ان میں سے ایک منافق ہے اور بیشک چلنے پھرنے میں اور دلیلیں دینے میں اور سمت معین کرنے میں عبداللہ،پیغمبر برحق سے بہت مشابہ ہیں۔(1)

اس سلسلے میں تو ابن جزم نے ان خبروں کا بھی ذکر کیا ہے جس میں منافقین کے ناموں کی صراحت ہے(2) لیکن ابن جزم نے خود ہی انھیں ناگوار خاطر بتایا ہے۔اور ان کے متن کا تذکرہ نہیں کیا ہے نہ یہ بتایا ہے کہ یہ روایتیں کہاں سے لی گئی ہیں جیسا کہ سیوطی،طبرانی اور ابن کثیر نے دوسری حدیثوں میں تذکرہ کیا ہے(3) جس کی خواہش مزید تحقیق کی ہے وہ مذکورہ بالا مصنفین کی کتابوں کی طرف رجوع کرے اور پھر اچھی طرح سے موضوع پر جان کاری حاصل کرے تا کہ اس کو تسلی بخش جواب مل جائے،میں اس موضوع پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا،اس لئے کہ میرا مقصد منافقین کی نقاب کشائی نہیں ہے،میں تو صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جن صحابہ کو دنیا اتنا محرم سمجھتی ہے اور جن کے تقدس کی قسم کھاتی ہے وہی صحابہ شب عقبہ میں پیغمبرؐ کے قتل کی سازش کرتے ہیں اور اس جرم عظیم پر پچھتاتے تک نہیں ہیں نامعلوم کر کے کیا کروگے؟بڑے بڑے لوگ ہیں۔

77۔قیس بن عبادہ،ابی بن کعب سے بیان کرتے ہیں کہ پھر حضور نے قبلہ کی طرف رخ فرمایا اور تین مرتبہ کہا کہ کعبہ پروردگار کی قسم کہ اہل عقد ہلاک ہوگئے،خدا کی قسم مجھے اس کا افسوس نہیں ہے بلکہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ کس چیز پر گمراہ ہوئے راوی کہتا ہے کہ میں نے حضور سے پوچھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سیر اعلام النبلاءج:2ص:393۔394،حالات ابی موسیٰ اشعری میں،تاریخ دمشق ج:32ص:93،عبداللہ بن قیس سلیم کے حالات میں(ابوموسیٰ اشعری)

(2)المحلی،ج:11ص:224،مسئلہ منافقین و المرتدین میں

(3)معجم الکبیر،ج:3ص:165،فی تسمیہ اصحاب العقبۃ،تفسیر بن کثیر،ج:2ص:374،سورہ توبہ کی آیت،74۔73کی تفسیر میں،در منثور،ج:3ص:259،آیت(یحلفون باللہ)کی تفسیر میں

۱۱۹

اہل عقد سے آپ کی کیا مراد ہے؟فرمایا امرا۔(1)

اسی کے قریب المعنی ایک دوسری حدیث ہے،جس میں راوی پوچھتا ہے،اے ابویعقوب،اہل عقد سے کیا مراد ہے،کہا:امرا۔(2)

اسی معنی میں ایک اور دوسری حدیثیں بھی ہیں(3) اس کے علاوہ ایک حدیث میں جندب بن عبداللہ بجلی،ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا:کعبہ پروردگار کی قسم اصحاب عقدہ ہلاک ہوگئے اور مجھے ان سے ہمدردی بھی نہیں ہے،راوی کہتا ہے کہ میرا خیال ہے کہ انھوں نے یہ جملہ کئی مرتبہ کہا،پھر کہنے لگے پالنے والے اگر میں جمعہ کے دن تک زندہ رہا تو باتیں ضرور کہوں گا جو میں نے پیغمبرؐ سے سنی ہیں،مجھے کسی ملامت کا خوف نہیں اور جمعہ کا انتظار کرتا رہا جب جمعرات کا دن آیا تو میں کسی کام سے باہر نکلا تو میں نے یہ دیکھا کہ تمام گلیاں لوگوں سے بھری ہوئی ہیں سوائے اس گلی کے جس سے میں لوگوں تک پہنچ سکتا تھا میں نے پوچھا اتنا مجمع کیوں ہے؟لوگ گھروں سے باہر کیوں نکل پڑے ہیں،لوگوں نے کہا لگتا ہے تم پرائے ہو،میں نے کہا ہاں،لوگوں نے کہا سیدالمسلمین اُبی ابن کعب کا انتقال ہوگیا۔(4) عُتی ابن ضمرہ کی حدیث میں ہے کہ اُبی ابن کعب نے کہا بخدا اگر میں جمعہ تک زندہ رہا تو کچھ باتیں کہوں گا،اس کے بعد لوگ مجھے زندہ رہنے دیں یا ماردیں،ابھی جمعہ میں کچھ دن باقی ہی تھا کہ میں نے دیکھا کہ لوگ عمارتوں سے نکل پڑے ہیں اور گلیوں میں کاندھے سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)المستدرک علی صحیحین ج:1ص:334،کتاب الصلوٰۃ،ومن کتاب الامامۃ و صلوٰۃ الجماعۃ

(2)سنن کبریٰ للنسائی ج:1ص:287،کتاب الامامۃ و الجماعۃ

(3)الاحادیث المختارۃ،ج:4ص:30۔31،فیما رواۃ قیس بن عباد البصری،المستدرک علی صحیحین،ج:4ص:571،کتاب الفتن و الملاحم،مسند ابن الجعد،ص:197،حلیۃ الاولیاء،ج:1ص:252،حالات ابی بن کعب میں

(4)طبقات الکبریٰ ج:3ص:1501،حالات ابی بن کعب میں،حادیث المختارۃ ج:3ص:347،346،(جندب المنہ بن عبداللہ وھو صحابی)تاریخ دمشق ج:7ص:341،حالات ابی بن کعب بن قیس میں

۱۲۰