فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ20%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130289 / ڈاؤنلوڈ: 6754
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

کاندھا چھل رہا ہے میں نے پوچھا لوگوں کو کیا ہوا ہے؟کہنے لگے مسلمانوں کے سردار ابی بن کعب کا انتقال ہوگیا۔(۱)

یہ وہ حالات تھے جو صحابہ کے بارے میں عرض کئے گئے ہیں،اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کے آپس میں کیسے تعلقات تھے اور انھوں نے کیا کیا حرکتیں انجام دی ہیں اور خود اپنے بارے میں ان کا کیا نظریہ تھا یہ شواہد بہت جلدی میں پیش کئے گئے ہیں اور مناسب موقعہ پر کچھ اور حالات آپ کی نگاہوں کے سامنے آئیں گے،اس لئے کہ یہاں پر بعض شواہد اس لئے بھی چھوڑ دیئے گئے ہیں کہ ان کے بیان کی کوئی گنجائش نہیں تھی یا پھر ان کا تذکرہ مناسب نہیں تھا۔

ان تمام حالات سے ایک بات بہرحال ثابت ہے کہ وضع طبعی کے لحاظ سے جو باتیں چھوٹ گئی ہیں وہ بیان کی وئی باتوں سےزیادہ ہیں اس لئے کہ صحابی کی عام تعریف یہ ہے کہ جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھے اور آپ سے حدیث سنے تو ایسے لوگ تو بہت سے ہیں اور انہوں نے نبی کے بعد ایک طویل زمانہ اس دنیا میں گذارا ہے اور بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں تاریخ کی کتابیں احادیث و واقعات سے بھری پڑی ہیں جن میں ان حضرات نے شرکت کی بلکہ بعض واقعات میں تو انھیں قیادت حاصل ہے۔

یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ تاریخ نے تمام واقعات کو بیان بھی نہیں کیا ہے اس لئے کہ اصحاب پیغمبر کی تعداد محدود نہیں ہے اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی صحابی کے حالات کچھ دنوں تک تاریخ بیان کرتی رہی پھر اس کی گرفت سے وہ حالات ہی نکل گئے ہوں یا جان بوجھ کر انہیں ضائع کردیا گیا ہو یا حقیقت میں تحریف کردی گئی ہو جیسا کہ ایک تلاش حق کا ذمہ دار عام انسانوں کے حالات میں محسوس کرتا ہے اس کے علاوہ ہم اس بات کے بھی دعویدار نہیں ہیں کہ جتنے حالات اور جو کچھ بیان کئے ہیں وہ سب کے سب حرف بہ حرف صحیح ہیں اس لئے کہ ہم نے جو نہیں بیان کیا ہے ممکن ہے وہ بیان کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)طبقات الکبریٰ ج:۳ص:۵۰۱،۵۰۰،حالات ابی بن کعب میں،سیر اعلام النبلاءج:۱ص:۳۹۹،حالات ابی بن کعب میں تہذیب الکمال ج:۲ص:۲۷۰،حالات ابی بن کعب میں،تاریخ دمشق ج:۷ص:۳۴۰،حالات ابی بن کعب میں

۱۲۱

ہوئی باتوں سے زیادہ ہوں،مثلاً ہم نے دو صحابہ کا جھگڑا تو دکھا دیا لیکن یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون ہے؟

یا حق پر کون ہے اور باطل پر کون ہے؟اس کا فیصلہ تو صاحبان فکر و نظر کریں گے ہم تو صرف اور صرف یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کی صحابہ صرف انسان ہیں جیسے کے عام انسان ہوئے ہیں کبھی صالح کبھی حق پر،کبھی باطل،ایک عام انسان کی طرح ان کے اعمال جذبات و افکار کا نتیجہ ہوتے ہیں اور وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہیں کہ انہیں بہت توپ سمجھا جائے۔

صحابہ کے بارے میں تابعین اور تبع تابعین کے خیالات اور نظریئے

صحابہ کے بعد جو مسلمان تھےان کے درمیان صحابہ کے بارے میں جو خیالات باقی رہے اگر انسان غفلت سے کام نہ لے تو پتہ چلےگا کہ صحابہ کے درمیان جو اختلاف تھا اور ان کے آپس میں ایک دوسرے کے بارے میں جو نظریہ تھے وہ تابعین کی نظر میں تھے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بنوامیہ کے دور میں لوگوں کی عظمت کا معیار عثمان کا معاملہ تھا،بلکہ ابوبکر اور عمر کو بھی معیار بنایا گیا تھا تا کہ ان کے خلاف حجت قائم کی جائے اور ان کو سزا دی جائے یعنی جو ابوبکر،عمر،عثمان کا معترف تھا وہ قابل انعام تھا اور جو ان کا مخالف تھا وہ قابل سزا تھا۔

لوگ امیرالمومنین علیؑ اور آپ کے اہل بیت بلکہ شیعوں کی دشمنی پر فخر کرتے تھے اور ان کی عداوت پر ناز کرتے تھے اس سے یہ بات بہرحال ثابت ہوجاتی ہے کہ اس دور کے لوگ بھی تمام صحابہ کے عادل ہونے پر متفق نہیں تھے اور سب کو مقدس اور محترم نہیں سمجھتے تھے بلکہ بہت سےگروہ تو کچھ صحابہ کو اعلانیہ برا بھلا کہتے تھے،جیسے امامی شیعہ،زیدی،خوارج اور اس کے تمام فرقے اور معتزلہ بلکہ فرقہ نظامیہ تو بڑے بڑے صحابہ پر لعن،طعن کیا کرتا تھا(۱) اور صحابہ کی اکثریت ان کی نظر میں مطعون تھی۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الفرق بین الفرق ص:۱۶۲،ملل و نحل ج:۱ص:۷۲،الباب الاول الفصل الاول فی الحدیث عن الفرقہ..

(۲)الفرق بین الفرق ص:۳۰۴

۱۲۲

اس طرح کے کچھ شواہد مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔کلثوم بن جبر کی حدیث ابوالغادیہ کے بارے میں گذرچکی ہے۔

۲۔طلحہ اور زبیر کے بارے میں حسن بصری کی حدیث بھی گذرچکی ہے۔

۳۔حسن بصری کہتے تھے کہ معاویہ کے اندر چار خرابیاں ایسی تھیں کہ ان میں سے ایک اس امت پر بیوقوف لوگوں کو مسلط کرنا اور امت کے امور کا فیصلہ بغیر مشورے کے جاری کرنا جب مشورہ کرنے کے لئے صحابہ اور صاحبان فضل موجود تھے،دوسرے اپنے بیٹے کو اپنے بعد خلیفہ بنانا جب کہ وہ نشہ کرتا تھا،شرابی بھی تھا اور حریر و دیبا پہنتا تھا اور طنبور بجاتا تھا۔

تیسرے زیاد کو اپنے باپ کا بیٹا کہہ دینا جب کہ سرکار کی حدیث ہے کہ لڑکا صاحب فراش کا ہوتا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہے اور چوتھے جناب حجر بن عدی کو شہید کرنا۔((حجر کے بارے میں اس پر وائے ہو))یہ جملہ خواجہ حسن بصری نے دو مرتبہ کہا۔(۱)

۴۔اور یہ جناب عروہ بن زبیر ہیں جو فرماتے ہیں کہ حسان بن ثابت عائشہ پر بہت زیادہ اعتراض کرتے تھے تو میں نے انہیں گالی دے دی،عائشہ نے کہا میرے بھانجے اس کو چھوڑ دو یہ پیغمبرؐ کا سر چڑھایا ہوا ہے۔(۲)

۵۔کہا جاتا ہے کہ حریز بن عثمان جس کو اک جماعت ثقہ سمجھتی تھی اور انہیں لوگوں میں امام احمد بن حنبل بھی تھے(۳) یہ شخص مولائے کائنات سے بغض رکھتا تھا اور آپ کے اوپر طعن کرتا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۳ص:۲۳۲،مختصر طور پر بدایۃ النہایہ ج:۸ص:۱۳۰،حالات معاویہ میں ذکر ہوا ہے۔

(۲)صحیح مسلم ج:۴ص:۱۹۳۳،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل حسان بن ثابت اور اسی طرح صحیح بخاری ج:۴ص:۱۵۲۳،کتاب المغازی،باب حدیث الافک اور اسی طرح،ج:۵ص:۲۲۷۸،کتاب الادب،باب ھجائ المشرکین،مستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۵۵۵،مناقب حسان بن ثابت میں،الادب المفرد للبخاری ص:۲۹۹،باب(من الشعر حکمۃ)میں

(۳)تہذیب التہذیب ج:۲ص:حالات حریز بن عثمان بن جبر میں

۱۲۳

آپ کو بہت گالیاں دیتا تھا اور کہتا تھا کہ اس شخص(علی)نے میرے باپ داد کے سروں کو کاٹا ہے۔(۱)

۶۔کہتے ہیں کہ یحییٰ بن عبدالحمید کہتے تھے کہ معاویہ ملت اسلام کے خلاف مرا ہے۔(۲)

۷۔اور یہ عبدالرزاق صنعانی ہیں،اہل حدیث کی نظر میں ان کا مرتبہ بہت بلند ہے اور بہت جلیل القدر ہیں،اتنے سچے کہ یحیٰ بن معین کہتے ہیں اگر عبدالرزاق اسلام سے مرتد بھی ہوجائیں تو میں ان سے حدیثیں لینا نہیں چھوڑوں گا۔(۳)

ان تمام باتوں کے سامنے رکھتے ہوئے اب واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔

مالک بن اوس بن حدثان کے حوالے سے عبدالرزاق وہ واقعہ بیان کرتے ہیں جس میں عمر سے عباس بن عبدالمطلب اور مولائے کائناتؑ نے میراث پیغمبرؐ کا مطالبہ کیا تھا،عمر کہتے ہیں کہ یہ شخص یعنی عباس اپنے بھتیجے کی میراث لینے آیا ہے اور تم علی اپنی بیوی کی میراث مانگ رہے ہو،پھر عبدالرزاق کہتے ہیں ذرا اس احمق کو دیکھو یہ کہہ رہا ہے کہ تم اپنے بھتیجے کی میراث مانگتے ہو اور یہ اپنے خسر کی طرف سے اپنی بیوی کی میراث مانگتے ہیں دونوں ہی جملوں میں حوالہ پیغمبر کا ہے لیکن یہ اپنے منہ نہیں پھوٹ رہا ہے کہ تم رسول خدا کی میراث لینے آئے ہو۔(۴)

ذہبی کہتے ہیں عبدالرزاق کو ایک سے زیادہ لوگوں نے ثقہ قرار دیا ہے ان کی حدیثیں صحاح میں لی گئی ہیں اور کچھ حدیثیں ایسی ہیں جو صرف ان سے روایت کی گئی ہیں،لیکن لوگوں نے ان پر تشیع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تہذیب التہذیب ج:۲ص:۲۰۹،حالات حریز بن عثمان بن جبر میں،المجر وحین ج:۱ص:۲۶۸،حالات حریز بن عثمان میں

(۲)تاریخ بغدادج:۱۴ص:۱۷۶،حالات یحییٰ بن ھمام میں،میزان الاعتدال ج:۴ص:۳۴۴،حالات عبد الرزاق بن ھمام میں،الکامل فی الضعفاء الرجال ج:۵ص:۳۱۱،حالات عبدالرزاق بن ھمام میں معرفۃ علوم حدیث ص:۱۳۹،ذکر النوع الثانی و الثلاثین

(۴)سیر اعلام النبلاء ج:۹ص:۵۷۲،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں،الضعفاء للعقیلی ج:۳ص:۱۱۰،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں،میزان الاعتدال ج:۴ص:۳۴۴،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں

۱۲۴

کے ساتھ ساتھ غلو کا بھی الزام لگایا ہے وہ مولا علی سے محبت کرتے تھے اور آپ کے قاتل کو ملعون کہتے تھے۔(۱)

۸۔جب عبدالرزاق کی مجلس میں معاویہ کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا میری مجلس کو ابوسفیان کے بیٹوں کا ذکر کر کے گندی مت کرو۔(۲)۹۔جو لوگ امیرالمومنین علیہ السالم کے ساتھ تھے ان کے خیالات طلحہ،زبیر،عثمان،عائشہ اور ان کے حمایتی اصحاب کے بارے میں سب کو معلوم ہیں، اس طرح جو لوگ علی کے ساتھ تھے معاویہ اور اصحاب معاویہ ان کے بارے میں کتنے گندے خیالات رکھتے تھے سب کو معلوم ہے جیسے جناب عمار بن یاسر۔

۱۰۔انس ابن مالک جو مذہب مالکی کے بانی ہیں کہتے تھے کہ عثمان،علی،طلحہ اور زبیر کے درمیان صرف حلوے پر اٹھے کی لڑائی تھی۔(۳) ۱۱۔سدی ابوبکر اور عمر کو گالیاں دیا کرتے تھے۔(۴)

۱۲۔صالح جزرہ سے روایت ہے کہ عباد عثمان کو گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ کے عدل کا تقاضا ہے کہ وہ طلحہ اور زبیر کو جنت میں نہ داخل کرے انہوں علی سے بیعت کی پھر انھیں سے قتال بھی کیا۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تذکرۃ الحفاظ ج:۱ص:۳۶۴،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں

(۲)سیر اعلام النبلاءج:۹ص:۵۷۰،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں،الضعفاءللعقیلی ج:۳ص:۱۰۹،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں،معجم البلدان ج:۳ص:۴۲۹،میزان الاعتدال ج:۴ص:۳۴۳،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں

(۳)العقد الفرید ج:۲ص:۲۳۵،کتاب الیاقوت فی العلم و الادب،باب من اخبار العلماء و الادباء

(۴)احوال الرجال ص:۵۴،حالات محمد بسائب الکلبی میں،الضعفاءللعقیلی ج:۱ص:۸۷،حالات اسمٰعیل بن عبدالرحمٰن اسدی،معرفۃ علوم حدیث ص:۱۳۷،فی ذکر نوع النوع الثانی و الثلاثین،فی معرفۃ مذاہب المحدثین

(۵)سیر اعلام النبلاء ج:۱۱ص:۵۳۷،حالات عباد بن یعقوب الرواجنی میں اور اسی طرح:ج:۱۴ص:۲۹،تھذیب التھذیب ج:۵ص:۹۵،حالات عباد بن ابی یزید میں،تھذیب الکمال ج:۱۴ص:۱۷۸،حالات عباد بن ابی یزید میں،میزان الاعتدال ج:۴ص:۴۴،حالات عباد بن یعقوب میں

۱۲۵

۱۳۔شداد،ابوعمار کہتے ہیں کہ میں کچھ لوگوں کے پاس گیا تو ان کے درمیان علی کا تذکرہ ہوا تو لوگوں نے انہیں گالیاں دیں تو میں نے بھی ان کے ساتھ علی کو گالیاں دیں۔(۱)

۱۴۔یونس ابن جناب اسدی جو کو ابن معین و غیرہ نے ثقہ کہا ہے وہ عثمان کو گالیاں دیتے تھے۔(۲)

۱۵۔ابوالحسن احمد بن علی غزنوی صحابہ سے چڑھتے تھے۔(۳)

۱۶۔ابواسرائیل ملائی عثمان کو گالیاں دیتے تھے(۴) اور بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ان کو کافر کہتے تھے۔(۵)

۱۷۔الزہر حرانی اور اسد بن وادعۃ جنہیں امام نسائی و غیرہ نے ثقہ کہا ہے وہ علی کو گالیاں دیتے تھے۔(۶)

۱۸۔ابوسلیمان تلید بن سلیمان محاربی کوفی عثمان کو گالی دیتے تھے،ابوداؤد کہتے ہیں کہ وہ ابوبکر اور عمر کو بھی گالی دیتے تھے۔(۸)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مصنف ابن ابی شیبۃ ج:۶ص:۳۷۰،کتاب الفضائل:فضائل علی بن ابی طالبؑ میں،فضائل الصحابہ ج:۲ص:۵۷۸،فضائل حضرت علی بن ابی طالبؑ میں،مجمع الزوائدج:۹ص:۱۶۷،کتاب المناقب،باب فی فضل اہل بیتؑ

(۲)تہذیب التہذیب ج:۱۱ص:۳۸۵،حالات یونس بن خباب

(۳)لسان المیزان ج:۱ص:۲۳۲،حالات احمد بن علی غزنوی میں،میزان الاعتدال ج:۱ص:۲۶۵،حالات احمد بن علی غزنوی میں،المغنی فی الضعفاء و المتروکین ج:۱ص:۱۱۶،حالات اسمٰعیل بن ابی اسحاق میں

(۵)الضعفا للعقیلی،ج:۱ص:۷۶،حالات اسمٰعیل بن ابی اسحاق ابواسرائیل میں،الضعفا المتروکین،ج:۱ص:۱۱۶،حالات اسمٰعیل بن ابی اسحٰق میں

(۶)لسان المیزان ج:۱ص:۳۸۵،حالات اسد بن وداعۃ میں،الضعفاءللعقیلی ج:۱ص:۲۶،حالات اس بن وداعۃ میں

(۷)تہذیب التہذیب ج:۱ص:۴۴۷،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں،الکشف الحثیث حلّی ص:۸۰،تحالات رلید بن سلمان المحاربی میں،ھذیب الکمال ج:۴ص:۳۲۲،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں تاریخ بغداد ج:۷ص:۱۳۷،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں،

(۸)تہذیب التھذیب ج:۱ص:۴۴۷،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں

۱۲۶

۱۹۔ابوعثمان بصری عمرو بن عبید بن باب صحابہ کو گالیاں دیتے تھے۔(۱)

۲۰۔ابن حبان نے لکھا ہے کہ حکم بن ظہیر فزاری بن ابی لیلی کوفی صحابہ کو گالیاں دیتے تھے۔(۲)

۲۱۔ربیعہ بن یزید سلمی ناصبی تھا اور مولائے کائنات کو گالیاں دیتا تھا۔(۳)

۲۲۔یہ جعفر بن سلیمان ہیں جن کی توثیق ابن حبان کرتے ہیں،جعفر بن سلمان سے پوچھا گیا کہ سنا ہے تم ابوبکر اور عمر کو گالی دیتے ہو انہوں نے کہا گالی والی بات تو خیر جھوٹ ہے لیکن میں ان سے شدید بغض رکھتا ہوں۔آزدری کہتے ہیں کہ جعفر بعض بزرگوں پر الزام تراشی کرتے تھے لیکن حدیث میں جھوٹ نہیں بولتے تھے،بلکہ یہ زہد و تقوی اور رقت قلب کا نمونہ تھے،دوری کہتے ہیں کہ جب ان کے سامنے معاویہ کا ذکر آتا تو وہ اس کو گالی بکتے اور جب علی کا ذکر آتا تو صدمہ سے بیٹھ جاتے اور رونے لگتے۔(۴)

۲۳۔یہ سالم بن ابوحفصہ ہیں ان سےعمر بن ذر نے کہا تم نے عثمان کو قتل کیا تھا؟تو اس نے انکار کیا،انھوں نے پھر پوچھا تو قتل عثمان پر راضی تھا،کہنے لگا نعثل کے قاتل کو خوش آمدید بنوامیہ کی ہلاکت کو خوش آمدید۔خلف بن جوشب کہتے ہیں کہ جو لوگ ابوبکر اور عمر کی خامیاں بیان کرتے ہیں ان کے سردار سالم تھے۔(۵)

۲۴۔ابن حجر نے اسفندیار ابن موفق کے بارے میں کہا ہے کہ بےشمار ابن نجار نے ان سے روایت کی،وہ کہتا ہے اسفندیار بہترین ادیب تھے،شافعی فقہ پر عمل کرتے تھے اور شیعہ تھے۔منکسر مزاج،عبادت گذار اور تلاوت شعار تھے ابن جوزی کہتا ہے بغداد کے ایک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تہذیب التہذیب ج:۸ص:۶۴،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں،الضعفاء و المتروکین ج:۱ص:۲۲۹،حالات مذکورہ میں

(۲)تہذیب التہذیب ج:۲ص:۳۶۸،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں

(۳)الاصابہ ج:۲ص:۴۷۷،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں،الاستیعاب ج:۱ص:۴۹۸،حالات ربیعہ بن عمر الجرشی میں

(۴)تہذیب التہذیب ج:۲ص:۸۲،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں

(۵)تہذیب التہذیب ج:۳ص:۳۷۴،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں،تہذیب الکمال ج:۱۰ص:۱۳۶،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں،ضعفاءللعقیلی ج:۲ص:۱۵۳،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں

۱۲۷

عادل شخص نے ان کے بارے میں کہا کہ ہم لوگ ان کے پاس بیٹھے تھے اور وہ کہہ رہے تھے کہ جب سرکار دو عالم نے فرمایا:جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے تو ابوبکر اور عمر کے چہرے اتر گئے۔اس کی حکایت کرتی ہوئی یہ آیت اتری:(فلمّاہ راوہ زلفۃ سیئت وجوہ الّذین کفروا)ترجمہ:جب انہوں نے اس کو قریب ہوتے دیکھا تو کافروں کے چہرے اتر گئے۔یہ ان کی شیعیت میں غلو کی علامت ہے،ابن بابویہ نے کہا ہے کہ اسفندیار صالح آدمی تھے اور ان کا لقب صائن الدین تھا۔(۱)

۲۵۔ابن تیمیہ جس کی امامت پر امت کا اتفاق ہے اس کا زیادہ تر کلام مولائے کائناتؑ کی تنقیص کرتا ہے،جیسا کہ ابھی ابن حجر کے حوالہ آٹھویں سوال کے جواب میں عرض کیا جائےگا۔

۲۶۔جب بنوعباس کا انقلاب آیا اور عباسی لشکروں نے فتح حاصل کی،بنوعباس کے پہلے خلیفہ ابوعباس سفع کی بیعت لی گئی اور لشکر کوفہ داخل ہوا تو داؤد بن علی بن عبداللہ بن عباس نے منبر کوفہ پر ایک خطبہ دیا اس وقت وہ سفاح کے تین زینہ نیچے بیٹھا تھا،اس نے خدا کی حمد و ثنا اور نبی پر درود پڑھنے کہ بعد کہا اے لوگو!خدا کی قسم تمہارے اور نبی کے درمیان صرف دو ہی خلیفہ ہیں ایک مولائے کائنات علی بن ابی طالب اور دوسرے وہ امیرالمومنینؑ جو میرے پیچھے ہے۔(۲)

۲۷۔جب مامون سربراہ سلطنت ہوا اور شام کی طرف جانے لگا تو متعہ کی حلیت کا اعلان کردیا گیا،ایک دن ابوعینا اور محمد بن منصور اس کی خدمت میں پہنچے اس وقت وہ مسواک کررہا تھا اور غصہ میں تھا ان دونوں کو دیکھتے ہی اس نے(عمر کی نقل کی)کہا دو متعہ نبی کے دور اور ابوبکر کے دور میں رائج تھے،لیکن میں ان دونوں سے روکتا ہوں،پھر بولا اے کانے تو کون ہوتا ہے روکنے والا؟جب ایک کام کو نبیؐ اور ابوبکر نے نہیں روکا۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)لسان المیزان ج:۱ص:۳۸۷،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں

(۲)تاریخ طبری ج:۴ص:۳۵۰،فی(ذکر بقیۃ الخبر عما کان من الاحداث..)

(۳)تاریخ بغداد ج:۴ص:۱۹۹،حالات یحییٰ بن اکثم میں،طبقات الحنابلہ،ج:۱ص:۴۱۳،حالات یحی بن اکثم میں،تہذیب الکمال ج:۳۱ص:۲۱۴حالات مذکورہ میں،تاریخ دمشق،ج:۶۴،ص:۷۱،حالات مذکورہ میں

۱۲۸

۲۸۔مہدی بن منصور عباسی ابوعون عبدالملک بن یزید کی عیادت میں گیا تو ابوعون کی باتیں سن کے بہت خوش ہوا،ابوجعفر طبری کہتے ہیں کہ مہدی نے ابوعون سے کہا آپ مجھ سے کچھ کہئے کچھ مانگئے اور مجھے اپنا ذمہ دار بنادیجئے زندگی اور موت دونوں معاملے میں تو ابوعون نے اس کا شکریہ ادا کیا اور دعا کی اور بولے اے امیرالمومنینؑ میری ھاجت یہ ہے کہ آپ عبداللہ بن ابوعون سے راضی ہوجائیں اور اس کو اپنےپاس بلالیں بہت دنوں سے،وہ شہر بدر ہے ہے۔

مہدی نے کہا ابوعون!وہ شخص تو غیرمذہب پر ہے ہمارے اور آپ کے مذہب پر تو نہیں اور شیخین یعنی ابوبکر اور عمر کے بارے میں بری باتیں کہتا ہے،ابوعون نے کہا اے امیرالمومنین خدا کی قسم وہ اس راستے پر ہے جس سے ہم نکل چکے ہیں اور اسی طرف ہمیں بلایا گیا تھا اگر آپ کی سمجھ میں آئے تو آپ بھی اسی راستے پر واپس چلے جائیں اور ہم بھی آپ کی اطاعت کریں گے۔(۱)

اور بہت سی باتیں ہیں جنک ے بیان کی گنجائش نہیں ہے۔

صحابہ کرام کے بارے میں قرآن مجید کا نظریہ

صحابہ کرام میں جو مشہور نظریہ ہے وہ یہ ہے کہ سارے صحابہ عادل نہیں اور نہ سب صحابہ قابل اقتدا ہیں وہ لوگ عام انسانوں سے مختلف نہیں ہیں اور نہ کوئی بہت اونچی چیز ہیں یہی مشہور نظریہ ہے اور اسی کی قرآن مجید بھی تائید کرتا ہے۔(۱)

قرآن مجید صحابہ کے بارے میں یہ قطعی فیصلہ نہیں کرتا کہ وہ نجات ہی پاجائیں گے اور جہنم کی آگ سے سلامت رہیں گے بلکہ قرآن ان کی عدالت اور تقدیس کا بھی قائل نہیں ہے بلکہ اکثر مقامات پر تو قرآن صحابہ کو ڈانٹ دیتا ہے اور ان کی نصیحت کرتا ہے ان پر عتاب والا انھیں جب غور سے دیکھتا ہے تو اس مزاج کی بہت سی آیتیں نظر آتی ہیں ملاحظہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۴ص:۵۸۹۔۵۹۰،فی ذکر بعض سیر الہدی و اخبارہ...تاریخ دمشق ج:۷ص:۱۸۰۔۱۸۱،حالات عبدالملک بن یزید ابی عون الازدی میں

۱۲۹

(الم یان للذین امنوا ان تخشع)الی آخر(۱)

ترجمہ:کیا صاحبان ایمان کے لئے اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر خدا کے وقت ڈریں اور قرآن جو حق کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کی تلاوت سے خشوع حاصل کریں اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجائیں جو ان سے پہلے تھے کہ ان پر جب کچھ مدت گذر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے لوگ فاسق ہوگئے۔اور ارشاد ہوتا ہے کہ:

(الم تر الی الذّین قیل لهم کفّوا ایدیکم و اقیموا الصّلاة)الی آخر(۲)

ترجمہ:اے رسول کیا تم نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کی جن کو(جہاد کی)آرزو تھی اور ان کو حخم دیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رہو اور پابندی سے نماز پڑھو اور زکات دیئے جاؤ مگر جب جہاد ان پر واجب کیا گیا تو جیسے کوئی خد اسے ڈرے بلکہ اس سے کہیں زیادہ اور گھبرا کر کہنے لگے خدایا تو نے ہم پر جہاد کیوں واجب کردیا ہم کو کچھ دنوں کی اور مہلت کیوں نہ دی اے رسول ان سے کہہ دو دنیا کی آسائش بہت تھوڑی سی ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے اس کی آخرت اس سے کہیں بہتر ہے اور وہاں تو تم پر بال برابر بھی ظلم نہیں کیا جائےگا۔پھر دوسری آیت میں ارشاد ہوا:

(ولقد کنتم تمنّون الموت من قبل ان تلقوه فقد رایتموه و انتم تنظرون)(۳)

ترجمہ:اور تم موت کے آنے سے پہلے لڑائی میں مرنے کی تمنا کرتے تھے پس اب تم نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور تم اب دیکھ رہے ہو(پھر لڑائی سے جی کیوں چراتے ہو)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ حدید آیت:۱۶

(۲)سورہ نساء آیت:۷۷

(۳)سورہ آل عمران آیت:۱۴۳

۱۳۰

سورہ صف میں ارشاد ہوتا ہے:

(یاایها الذین آمنوا لم تقولون ما لاتفعلون-کبر مقتا عند الله ان تقولوا ما لاتفعلون)(۱)

ترجمہ:اے ایمان لانے والو!ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں خدا کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم ایسی باتیں کہو جو تم نہیں کرتے۔

بلکہ بہت سے موقع پر اس نے انھیں سختی سے ڈانٹا سورہ نور میں ارشاد ہوتا ہے کہ:

(ویقولون آمنّا بالله و بالرّسول و اطعنا ثمّ یتولّی فریق منهم مّن بعد)الی آخر(۲)

ترجمہ:اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا ور اس کے رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت قبول کی پھر اس کے بعد ان میں سے کچھ لوگ(خدا کے حکم سے منہ پھیر لیتے ہیں)اور(سچ تو یہ ہے کہ)یہ لوگ ایمان دار تھےہی نہیں اور جب وہ لوگ خدا اور اس کےرسول کی طرف بلائے جاتے ہیں تا کہ رسول ان کے آپسی جھگڑے کا فیصلہ کردیں تو ان کی طرف ہوتا تو گردن جھکائے ہوئے رسول کے پاس دوڑئے ہوئے آئے کیا ان کے دل میں کفر کا مرض باقی ہے(؟)یا شک میں پڑے ہوئے ہیں؟یا اس بات سے ڈرتے ہیں کہ(مبادا)خدا اور اس کے رسول ان پر ظلم کر بیٹھیں؟(یہ سب کچھ نہیں)بلکہ یہی لوگ ظالم ہیں ایمان داروں کا قول تو بس یہ ہے کہ جب ان کو خدا اور اس کے رسول کے پاس بلایا جاتا کہ ان کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کردیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے حکم سنا اور دل سے مان لیا اور یہی لوگ(آخرت میں)کامیاب ہونے والے ہیں۔

اور بہت سی آیتوں میں تو قرآن مجید صراحۃً کہہ رہا ہے کہ بعض صحابہ ایمان کے دائرے سے نکل چکے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ صف آیت:۳،۲

(۲)سورہ نور آیت:۵۱،۴۷

۱۳۱

(یاایها الذین آمنوا لاتتّخذوا الیهود و النّصاری اولیائ)الی آخر(۱)

ترجمہ:اے ایمان لانے والو یہودیوں اور نصرانیوں کو اپنا سرپرست نہ بناؤ کیوں کے یہ لوگ تمہارے مخالف ہیں مگر باہم ایک دوسرے کےدوست ہیں اور یاد رہے کہ تم میں سے جس نے ان کو اپنا سرپرست بنایا پس پھر وہ بھی انہیں لوگوں میں سے ہوگیا،بیشک خدا ظالم لوگوں کو راہ راست پر نہیں لاتا تو اے رسول جن لوگوں کے دلوں میں(نفاق)ہے تم انہیں دیکھوگے کہ ان میں دوڑتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے نہ ملنے سے زمانہ کی گردش میں مبتلا ہوجائیں تو عنقریب ہی خدا مسلمان کی فتح یا کوئی اور بات اپنی طرف سے ظاہر کرےگا،تب یہ لوگ اس بدگمانی پر جو اپنے دل میں چھپاتے تھے شرمائیں گےاور مومنین(جب ان پر نفاق ظاہر ہوجائےگا تو)کہیں گے کیا یہ وہی لوگ ہیں جو سخت سے سخت قسمیں کھا کر ہم سے کہتے تھے کہ ہم ضرور تمہارے ساتھ ہیں ان کا سارا کیا دھرا اکارت ہوا اور سخت گھاٹے میں ہوگئے۔

اور سورہ توبہ جو منافقین کی مذمت سے مخصوص ہے اور منافقین کے مکروہ کارناموں کو کھل کر بیان کرتا ہے یہاں تک کہ اس کا نام ہی سورہ فاضحہ(فضیحت کرنے والا سورہ)رکھ دیا گیا۔(۲)

اس طرح سورہ آل عمران بھی ان کے کارناموں کو بیان کررہا ہے۔

یہ لوگ غزوہ احد میں کیا کہہ رہے تھے،اگر چہ احد میں بھاگنے والوں کو معاف کردیا گیا ہے لیکن یہ بات بھی بتادی گئی ہے کہ صحابہ میں سے کچھ وہ لوگ بھی تھے جو دنیا کو چاہتے تھے اور وہ منافقین بھی تھے،جو اللہ کے بارے میں ایام جاہلیت کی طرح سوچتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ مائدہ آیت:۵۳،۵۱

(۲)صحیح بخاری ج:۴ص:۱۸۵۲،کتاب التفسیر،باب تفسیر سورہ حشر،صحیح مسلم ج:۴ص:۲۳۲۲،کتاب التفسیر،باب فی سورۃ براۃ،و انفال و الحشر،تفسیر ابن کثیرج:۲ص:۳۶۸،آیت(تحذر المنافقون)کی تفسیر میں،سنن سعید بن منصور،ج:۵ص:۲۳۲،باب تفسیر سورہ توبہ،تفسیر طبری،ج:۱۰،ص:۱۷۱،(تحذر المنافقون)کی تفسیر میں،تفسیر قرطبی،ج:۸ص:۶۱،سورہ توبہ کی تفسیر میں

۱۳۲

سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

(حتی اذا فشلتم و تنازعتم فی الامر و عصیتم)الی آخر (۱) ترجمہ:یہاں تک کہ تمہارے پسند کی چیز(فتح)تمہیں دکھادی اس کے بعد بھی تم نے(مال غنیمت دیکھ کر)بزدلانہ عمل کیا اور حکم رسول میں باہم جھگڑا کیا اور رسول کی نافرمانی کی تم میں سے کچھ تو طالب دنیا ہیں جو مال غنیمت کی طرف جھک پڑے اور کچھ طالب آخرت کہ جس نے رسول پر اپنی جان فدا کردی۔اور ابن مسعود کی حدیث میں یہ گذرچکا ہے کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اصحاب پیغمبرؐ بھی دنیا کے خواہاں ہیں مگر اس آیت نے آکے ڈھول کی پول کھول دی۔(۲) آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:(ثم انزل علیکم من بعد الغم امنة نعاساً یغشی طائفة منکم و طائفة قد اهمتهم انفسهم یظّنون)الی آخر (۳) ترجمہ:پھر خدا نے اس رنج کے بعد تم پر اطمینان کی حالت طاری کی کہ تم سے ایک گروہ کو(جو نیچے ایمان دار تھے)خوب گہری نیند آگئی اور ایک گروہ جن کو اس وقت بھی(بھاگنے کی شرم سے)جان کے لالے پڑے تھے خدا کے ساتھ زمانہ جاہلیت جیسی بدگمانیاں کرنے گے اور کہنے لگے بھلا کیا یہ فتح کچھ بھی ہمارے اختیار میں ہے اے رسول کہہ دو کہ ہر امر کا اختیار خدا ہی کو ہے،زبان سے تو کتے ہی نہیں یہ اپنے لوں میں ایسی باتیں چھپائے ہوئے ہیں جو تم سے ظاہر نہیں کرتے ب سنو کہتے ہیں کہ اس امر(فتح)میں ہمارا کچھ بھی اختیار ہوتا تو ہم یہاں مارے نہ جاتے اے رسول تم ان سے کہہ دو کہ تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی تقدیر میں لڑ کے مرجانا لکھا تھا وہ اپنے گھروں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۲)سورہ آل عمران آیت:۱۵۲

(۲)تفسیر ابن کثیرج:۱ص:۴۱۴،آیت(منکم من یرید الدنیا)کی تفسیر میں،مجمع الزوائدج:۶ص:۳۲۷۔۳۲۸،تفسیر طبری ج:۴ص:۱۳۰،کتاب اکتفسیر،سورہ آل عمران کی تفسیر میں،تفسیر قرطبی،ج:۴ص:۲۳۷،سورہ آل عمران کی تفسیر میں

(۳)سورہ آل عمران آیت:۱۵۴

۱۳۳

سے نکل نکل کے اپنے مرنے کی جگہ ضرور آجاتے اور یہ اس واسطے کیا گیا ہے کہ جو کچھ تمہارے دل میں ہے اس کا امتحان کر لے(اور لوگ دیکھ لیں)تا کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے صاف کردے اور خدا تو دلوں کے راز کو خوب جانتا ہے۔

جنگ خندق میں اصحاب پیغمبر کے حالات کی عکاسی کرتا ہوا قرآن سورہ احزاب میں انہیں تین حصوں میں تقسیم کررہا ہے۔

۱۔ثابت قدم مومنین جو صاحبان بصیرت ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جو ذرا بھی نہیں بدلے اور ان کی حالت میں تغیر نہیں ہوا۔

۲۔منافقین جو زبانوں سے اسلام اظہار کرتے ہیں لیکن ان کے دل گواہی نہیں دیتے۔

۳۔وہ لوگ جن کے دل بیمار ہیں جن کے ایمان کمزور ہیں ہدایت اور گمراہی کے درمیان پھنسے ہوئےہیں اور قوت ظاہری کی پیروی کرتے ہیں اور ہوا کے جھونکے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

ارشاد ہوتا ہے:

(ولما رای المومنون الاحزاب قالوا هذا ما وعدنا الله و رسوله و صدق الله و رسوله و مازادهم الا ایماناً و تسلیماً-من المومنین رجال صدقوا ما عاهدوا الله علیه فمنهم من قضٰی نحبه و منهم مّن ینتظر و ما بدّلوا تبدیلا)(۱)

ترجمہ:جب مومنین نے کفار کے گروہ دیکھے تو کہنے لگے اسی کا وعدہ اللہ اور اللہ کے رسول نے ہم سے کیا تھا،اللہ اور اس کے رسول سچے یں ان کے ایمان میں اضافہ ہوا اور جذبہ تسلیم میں اضافہ ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ احزاب آیت:۲۲۔۲۳

۱۳۴

یہ لوگ ان صاحبان ایمان میں سے ہیں جنہوں نے للہ سے جو عہد کیا تھا اسے پورا کردکھایا،ان میں سےکچھ نے اپنی زندگی کی مدت پوری کرلی اور کچھ وہ ہیں جو انتظار کررہےہیں ان میں کچھ بھی تبدیلی نہیں آئی۔

پھر ارشاد ہوتا ہے:(اذ جاؤوکم من فوقکم و من اسفل منکم و اذ زراعت) الی آخر(۱)

ترجمہ:جب تمہارے اوپر نیچے سے فوجوں نے تمہیں گھیرلیا اور جب آنکھیں پھٹی سی ہوگئیں اور دل اچھل کے حلق میں آگئے اور تم اللہ کے بارے میں بدگمانیوں میں مبتلا ہوگئے یہی وہ جگہ ہےجہاں مومنین مقام ابتدا میں تھے،جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری تھی کہنے لگے کہ ہم سے اللہ اور اللہ کے رسول نے جو بھی وعدہ کیا تھا وہ جھوٹا تھا۔

سورہ انفال میں خدا نے واقعہ بدر کو پیش کیا ہے،یہ وہ جنگ ہے جس میں مسلمانوں کو واضح فتح حاصل ہوئی تھی اور جنگ کا پانسہ پلٹ گیا تھا،اللہ نے متوجہ کیا یہ سمجھانے کے لئے کہ اس جنگ میں فتح اللہ کی طرف سے ایک معجزہ تھی اور ارشاد ہوا:(لیهلک من هلک عن بیّنة و یحی من حی عن بینة) (۲)

ترجمہ:جو ہلاک ہوتا ہے وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہوا اور جو زندگی پاتا ہے وہ دلیل کے ساتھ زندگی پائےگا۔

حالانکہ جنگ بدر میں اکثر مسلمان نفس کے بندے تھے اور بہت سی غلطیاں کرچکے تھے،ان کا ہدف آسانی اور کسب مال تھا اور ان کے اعمال ایسے نہیں تھے کہ انہیں نصرت اور فتح دلاسکیں اگر اللہ کی مدد شامل حال نہ ہوتی تو نصرت و فتح کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔سورہ انفال میں ارشاد ہوتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ احزاب آیت:۱۲،۱۱،۱۰

(۲)سورہ انفال آیت:۴۲

۱۳۵

(کما اخرجک ربک من بیتک بالحق و انّ فریقاً) الی آخر(۱)

ترجمہ:اور جس طرح تمہارے پروردگار نے تمہیں بالکل ٹھیک مصلحت سے تمہارے گھر سے نکالا اور مومنین کا ایک گروہ اس سے ناخوش تھا،وہ لوگ حق کے ظاہر ہونے کے بعد بھی خواہ مخواہ سچی بات میں تم سے جھگڑتے تھے اور اس طرح کرنے گے گویا کہ وہ زبردستی موت کے منہ میں ڈھکیلے جارہے ہوں اور اس کو اپنی آنکھوں سے یکھ رہے وں یہ وہ وقت تھا جب خدا تم سے وعدہ کررہا تھا کہ کفار مکہ کی دو جماعتوں میں سے ایک جماعت تمہارے لئے ضروری ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ کمزور جماعت تمہارے ہاتھ لگے اور خدا یہ چاہتا تھا کہ اپنی باتوں کو حق ثابت کرے اور باطل کو ملیا میٹ کردے،اگر چہ گنہگار کفار اس سے ناخوش ہی کیوں نہ ہوں؟جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کررہے تھے اس نے تمہاری سن لی اور جواب دیا کہ میں تمہاری لگاتار ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا،یہ امداد غیبی خدا نے صرف تمہاری خاموشی کے لئے کی تھی اور یاد رکھو مدد سوائے خدا کے اور کے یہاں سے ہرگز نہیں ہوتی اور خدا غالب،حکمت والا ہے۔

اور سورہ انفال ہی میں ارشاد ہوتا ہے:(اذ یریکهم الله فی منامک قلیلاً و لو) الی آخر(۲)

ترجمہ:جب خدا نے تمہیں خواب میں کفار کو کم کرکے دکھلایا تھا اور ان کو تمہیں زیادہ کرکے دکھلاتا تو تم یقیناً ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے بارے میں آپس میں جھگڑ نے لگتے مگر خدا نے اس(بدنامی)سے بچایا اس میں تو شک نہیں کہ وہ دل کے خیالات سے واقف ہے۔اللہ نے مشرکین کے دلوں کو مرعوب کردیا تھا جس کا فائدہ مسلمانوں نے اٹھایا نتیجہ میں مقتولوں سے زیادہ اسیروں کی تعداد تھی،مسلمانوں نے کافروں کو زیادہ قیدی اس لئے بنایا کہ وہ ان کے وارثوں سے خوب فدیہ اور مال وصول کرسکیں یہاں تک کہ مارے گئے تو ستر ہی اور کچھ اسیر بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انفال آیت:۱۰،۹،۸،۷،۶،۵

(۲)سورہ انفال آیت:۴۳

۱۳۶

ہوئے،انہیں واقعات کے سلسلے میں ملتا ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف نے مال غنیمت میں بہت سی زر ہیں لوٹی تھیں جب وہ امیہ ابن خلف اور اس کے بیٹے علی کے پاس سے گذرے امیہ بن خلف نے کہا کہ مجھے اسیر کرنے سے تمہیں کچھ فائدہ ہوگا،عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو پس انہوں نے زر ہیں چھوڑ دیں اور امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے علی کا ہاتھ پکڑ لیا عبدالرحمٰن کہتے ہیں میں ان دونوں باپ بیٹوں کو گرفتار کرکے لے جارہا تھا کہ راستے میں بلال ملے امیہ بن خلف نے مکہ میں جب بلال تھے تو ان پر بڑی سختیاں کی تھیں اور انہیں بہت ستاتا تھا کہ وہ اسلام چھوڑ دیں اکثر انہیں پکڑ کے مکہ کے ریگستانوں میں لےجاتا اور پیٹھ کے بل لٹا کے ان کے سینہ پر ایک بڑا پتھر رکھوا دیتا صورت حال یہ تھی کہ ریگستان تپ رہا تھا اور بلال کے سینے پر گرم پتھر رکھا رہتا اور امیہ ان سے کہتا یا تو اسلام چھوڑ دو یا یہی سزا جھیلتے رہو لیکن بلال کی زبان پر ایک ہی کلمہ ہوتا،احد،احد بہرحال جب بلال نے امیہ ابن خلف کو اسیر کی حالت میں دیکھا تو چیخ اٹھےکہ لوگوں اس کفر کی جڑ امیہ ابن خلف ہے اگر یہ بچ گیا تو میں نہیں بچوں گا،عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں میں نے پوچھا بلال کیا میرے اسیر ہونے کے لئے کہہ رہے ہو؟فرمایا ہاں اگر یہ بچ گیا تو میں نہیں بچوں گا۔

میں نے امیہ بن خلف سے پوچھا کے اے کالی عورت کے بیٹے تو سن رہا ہے؟پھر بلال نے ایک چیخ ماری اور پکارکے کہا اے اللہ کے مددگاروں یہ کفر کی جڑ امیہ ابن خلف ہے اگر یہ بچ گیا تو میں نہیں بچوں گا،پس لوگوں نے ہمیں گھیرلیا اور میں امیہ ابن خلف کی حفاظت کررہا تھا کہ ایک آدمی نے تلوار کھینچ کے اس کے بیٹے پر حملہ کردیا اس کا بیٹا گرگیا اور امیہ نے ایک دردناک چیخ ماری میں نےکہا امیہ اپنی فکر کرو،تمہاری کوئی پناہ گاہ نہیں میں تم کو بالکل بھی نہیں بچاسکتا اتنے میں لوگ دونوں باپ بیٹوں پر تلوار لےکے ٹوٹ پڑے اور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا،یہاں تک کہ ان کا کام تمام کردیا۔عبدالرحمٰن بن عوف کہنے لگے خدا بلال پر رحم کرے میرے ہاتھ سے زر ہیں بھی نکل گئیں اور میں اپنے قیدی کے فدید سے محروم رہا۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سیرہ نبویہ ابن ہشام ج:۳ص:۱۷۹۔۱۸۱،تاریخ طبری ج:۲ص:۳۵،واقع بدر میں،الثقات لابن حبان ج:۱ص:۱۷۲،۱۷۳،ذکر السنۃ الثانیہ من الہجرۃ میں

۱۳۷

بخاری کے الفاظ میں یہ واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے عبدالرحمٰن بن عوف نے بتایا کہ بدر کے دن میں امیہ بن خلف کو لےکے یہاڑوں کی طرف نکل گیا تا کہ میں اس کو بچاؤں اس وقت لوگ سو رہے تھے لیکن بلال کو پتہ چل گیا پس بلال باہر نکلے اور انصار کی ایک جماعت کے پاس آئے آکے کہنے لگے کہ امیہ بن خلف گرفتار ہوا ہے،اگر ہو بچ گیا تو میں نہیں بچوں گا پس بلال کے ساتھ انصار کا ایک گروہ نکلا تو جب مجھے یہ خوف ہوا کہ وہ لوگ امیہ بن خلف کو قتل کرنے کے لئے ہم کو گھیرلیں گے تو میں نے اس کے بیٹے کو پیچھے چھوڑدیا تا کہ وہ لوگ آئیں اور اس میں مصروف ہوجائیں،لیکن انھوں نے اسے قتل کردیا اور پھر ہمارے پیچھے لگ گئے،امیہ بھاری بھر کم تھا،جب وہ ہمارے پاس پہونچے تو میں نے اس سے کہا کہ جھک جاپس وہ جھک گیا اور میں اس پر چھا گیا تا کہ اس کو بچاسکین لیکن لوگوں نے تلوار سے کونچ کونچ کر اس کو میرے نیچے سے نکال لیا اور قتل کرڈالا ایک تلوار سے میرا پیر بھی زخمی ہوگیا۔(۱)

مختصر یہ کہ خونزریزی اور سفا کی جنگ بدر کے بعد اسیروں کے ساتھ ہوگئی یہاں تک کہ سعد بن معاذ کو یہ بات ناگوار خاطر گذری سرکار دو عالم نے سعد کے چہرے پر آثار کراہت دیکھے تو آپ نے پوچھا سعد کیا مسلمانوں کی خون ریزی تمہیں بری لگ رہی ہے سعد نے بہت معقول جواب دیا کہ یا رسول اللہ مشرک تو پہلی مرتبہ گرفتار بلا ہوئے ہیں میرا خیال ہے کہ ان کی جان بخشی ان کی خونزیزی سے زیادہ بہتر ہے قرآن مجید نے بھی ان کی تائید کی اور یہ آیت نازل ہوئی۔(۲)

(ما کان لنبیّ ان یکون له اسری حتّی یثخن فی الارض) (۳)

ترجمہ:نبی کے شایان نہیں کہ وہ اپنے لئے اسیروں کو رکھےتا کہ ان کا خون زمین پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)صحیح بخاری ج:۲ص:۸۰۷،کتاب الولایۃ،باب اذا و کل المسلم حریباً..

(۲)الثقات لابن حبان ج:۱ص:۱۶۹،اسی طرح سیرہ نبویہ لابن ہشام ج:۳ص:۱۷۶،تاریخ طبری ج:۲ص:۳۴واقعہ بدر میں

(۳)سورہ انفال آیت:۶۸،۶۷

۱۳۸

بہایا جائے تم لوگ عوارض دنیا کو دوست رکھتے ہو اور اللہ آخرت کو چاہتا ہے اور اللہ حکمت و قوت والا ہے اگر جو کچھ گذرچکا(یعنی فتح،مقتولین کی تعداد)وہ تقدیر میں لکھا نہیں ہوتا تو تم عذاب عظیم سے دوچار ہوتے۔

خداوند عالم نے اصحاب پیغمبر اور تمام مسلمانوں کو سمجھانے کے لئےقرآن مجید میں سابقہ امتوں کے کارنامے مقام مثال میں پیش کئے ہیں خاص طور سے بنی اسرائیل کو پیش کیا ہے ان کی وہ کارستانیاں کے طور پر مثال میں آتی ہیں جو انھوں نے اپنے انبیا کے ساتھ انجام دیں(انبیا کی مخالفت،ان کو اذیت دینا)اور کتاب خدا آنے کے بعد ان کے درمیان اختلافات اس مضمون کی بہت سی آیتیں نازل ہوئی ہیں۔

(ومااختلف فیه الا الّذین اوتوه من بعد ما جائتهم البیّنات..) الی آخر(۱)

ترجمہ:اس میں اختلاف وہی لوگ کرتے ہیں جو لوگ دلیلیں آنے کے باوجود پہلے بھی اختلاف کرچکے ہیں آپس کی بغاوت کی بناپر اور اللہ صاحبان ایمان کو ہدایت کا راستہ دکھا دیتا ہے اور ان چیزوں کے بارے میں مقام اختلاف کی وضاحت کردیتا ہےتو اس کی اجازت سے حق کا اعلان کرتے ہیں،اللہ جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔

پھر اللہ انہیں گذشتہ امتوں کے بڑے اعمال دکھاکے ڈراتا ہے۔

(ولا تکونوا کالّذین تفرّقوا و اختلفوا من بعد ما...) الی آخر(۲)

ترجمہ:اے مسلمانوں ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو گروہ در گروہ بٹ گئے حب ان کے پاس دلیلیں آئیں ان کے لئے تو بہت بڑی سزا ہے۔جس دن کچھ چہرے چمک رہے ہونگے اور کچھ چہرے سیاہ پڑچکے ہونگے ان سے پوچھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ بقری آیت:۲۱۳

(۲)سورہ آل عمران آیت:۱۰۷،۱۰۶،۱۰۵

۱۳۹

جائےگا کیا تم نے ایمان کے بعد کفر اختیار کرلیا،اب اپنے کفر کی وجہ سے عذاب کا مزہ چکھو لیکن جن کے چہرے آبدار ہوں گے وہ خدا کی رحمت میں ہوں گے اور ہمیشہ اسی حال میں ہوں گے۔

اور ارشاد ہوا:(یاایها الذین آمنوا لاتکونوا کالّذین اذوا موسی فبرّاه الله ممّا قالوا و کان عندالله وجیهاً) (۱)

ترجمہ:اے ایمان لانے والو!ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے موسیٰ کو اذیت دی،تو خدا نے ان کی تہمتوں سے موسیٰ کو بری کردیا موسی تو اللہ کے نزدیک صاحب منزلت ہیں اور دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وما کان لکم ان توذوا رسول اللہ و لا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابداً)(۲)

ترجمہ:تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تم نبی کو اذیت دو اور ان کی ازواج سے نبی کے بعد نکاح کرلو۔

پھر ارشاد ہوا:(انّ الّذین یوذون الله و رسوله لعنهم الله فی الدّنیا و الآخرة و اعدّ لهم عذاباً مهیناً)

ترجمہ:بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں تو اللہ ان پر لعنت کرتا ہے اور آخرت میں ان کے لئے ہمیشہ کے لئے سخت عذاب ہے۔

اور اللہ نے نبی کے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:(یمنّون علیک ان اسلموا قل لا تمنّوا علیّ اسلامکم بل الله یمنّ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ احزاب آیت:۶۹

(۲)سورہ احزاب آیت:۵۳

(۳)سورہ احزاب آیت:۵۷

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296