فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 118197
ڈاؤنلوڈ: 5307


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118197 / ڈاؤنلوڈ: 5307
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کاندھا چھل رہا ہے میں نے پوچھا لوگوں کو کیا ہوا ہے؟کہنے لگے مسلمانوں کے سردار ابی بن کعب کا انتقال ہوگیا۔(1)

یہ وہ حالات تھے جو صحابہ کے بارے میں عرض کئے گئے ہیں،اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کے آپس میں کیسے تعلقات تھے اور انھوں نے کیا کیا حرکتیں انجام دی ہیں اور خود اپنے بارے میں ان کا کیا نظریہ تھا یہ شواہد بہت جلدی میں پیش کئے گئے ہیں اور مناسب موقعہ پر کچھ اور حالات آپ کی نگاہوں کے سامنے آئیں گے،اس لئے کہ یہاں پر بعض شواہد اس لئے بھی چھوڑ دیئے گئے ہیں کہ ان کے بیان کی کوئی گنجائش نہیں تھی یا پھر ان کا تذکرہ مناسب نہیں تھا۔

ان تمام حالات سے ایک بات بہرحال ثابت ہے کہ وضع طبعی کے لحاظ سے جو باتیں چھوٹ گئی ہیں وہ بیان کی وئی باتوں سےزیادہ ہیں اس لئے کہ صحابی کی عام تعریف یہ ہے کہ جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھے اور آپ سے حدیث سنے تو ایسے لوگ تو بہت سے ہیں اور انہوں نے نبی کے بعد ایک طویل زمانہ اس دنیا میں گذارا ہے اور بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں تاریخ کی کتابیں احادیث و واقعات سے بھری پڑی ہیں جن میں ان حضرات نے شرکت کی بلکہ بعض واقعات میں تو انھیں قیادت حاصل ہے۔

یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ تاریخ نے تمام واقعات کو بیان بھی نہیں کیا ہے اس لئے کہ اصحاب پیغمبر کی تعداد محدود نہیں ہے اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی صحابی کے حالات کچھ دنوں تک تاریخ بیان کرتی رہی پھر اس کی گرفت سے وہ حالات ہی نکل گئے ہوں یا جان بوجھ کر انہیں ضائع کردیا گیا ہو یا حقیقت میں تحریف کردی گئی ہو جیسا کہ ایک تلاش حق کا ذمہ دار عام انسانوں کے حالات میں محسوس کرتا ہے اس کے علاوہ ہم اس بات کے بھی دعویدار نہیں ہیں کہ جتنے حالات اور جو کچھ بیان کئے ہیں وہ سب کے سب حرف بہ حرف صحیح ہیں اس لئے کہ ہم نے جو نہیں بیان کیا ہے ممکن ہے وہ بیان کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)طبقات الکبریٰ ج:3ص:501،500،حالات ابی بن کعب میں،سیر اعلام النبلاءج:1ص:399،حالات ابی بن کعب میں تہذیب الکمال ج:2ص:270،حالات ابی بن کعب میں،تاریخ دمشق ج:7ص:340،حالات ابی بن کعب میں

۱۲۱

ہوئی باتوں سے زیادہ ہوں،مثلاً ہم نے دو صحابہ کا جھگڑا تو دکھا دیا لیکن یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون ہے؟

یا حق پر کون ہے اور باطل پر کون ہے؟اس کا فیصلہ تو صاحبان فکر و نظر کریں گے ہم تو صرف اور صرف یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کی صحابہ صرف انسان ہیں جیسے کے عام انسان ہوئے ہیں کبھی صالح کبھی حق پر،کبھی باطل،ایک عام انسان کی طرح ان کے اعمال جذبات و افکار کا نتیجہ ہوتے ہیں اور وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہیں کہ انہیں بہت توپ سمجھا جائے۔

صحابہ کے بارے میں تابعین اور تبع تابعین کے خیالات اور نظریئے

صحابہ کے بعد جو مسلمان تھےان کے درمیان صحابہ کے بارے میں جو خیالات باقی رہے اگر انسان غفلت سے کام نہ لے تو پتہ چلےگا کہ صحابہ کے درمیان جو اختلاف تھا اور ان کے آپس میں ایک دوسرے کے بارے میں جو نظریہ تھے وہ تابعین کی نظر میں تھے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بنوامیہ کے دور میں لوگوں کی عظمت کا معیار عثمان کا معاملہ تھا،بلکہ ابوبکر اور عمر کو بھی معیار بنایا گیا تھا تا کہ ان کے خلاف حجت قائم کی جائے اور ان کو سزا دی جائے یعنی جو ابوبکر،عمر،عثمان کا معترف تھا وہ قابل انعام تھا اور جو ان کا مخالف تھا وہ قابل سزا تھا۔

لوگ امیرالمومنین علیؑ اور آپ کے اہل بیت بلکہ شیعوں کی دشمنی پر فخر کرتے تھے اور ان کی عداوت پر ناز کرتے تھے اس سے یہ بات بہرحال ثابت ہوجاتی ہے کہ اس دور کے لوگ بھی تمام صحابہ کے عادل ہونے پر متفق نہیں تھے اور سب کو مقدس اور محترم نہیں سمجھتے تھے بلکہ بہت سےگروہ تو کچھ صحابہ کو اعلانیہ برا بھلا کہتے تھے،جیسے امامی شیعہ،زیدی،خوارج اور اس کے تمام فرقے اور معتزلہ بلکہ فرقہ نظامیہ تو بڑے بڑے صحابہ پر لعن،طعن کیا کرتا تھا(1) اور صحابہ کی اکثریت ان کی نظر میں مطعون تھی۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الفرق بین الفرق ص:162،ملل و نحل ج:1ص:72،الباب الاول الفصل الاول فی الحدیث عن الفرقہ..

(2)الفرق بین الفرق ص:304

۱۲۲

اس طرح کے کچھ شواہد مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔کلثوم بن جبر کی حدیث ابوالغادیہ کے بارے میں گذرچکی ہے۔

2۔طلحہ اور زبیر کے بارے میں حسن بصری کی حدیث بھی گذرچکی ہے۔

3۔حسن بصری کہتے تھے کہ معاویہ کے اندر چار خرابیاں ایسی تھیں کہ ان میں سے ایک اس امت پر بیوقوف لوگوں کو مسلط کرنا اور امت کے امور کا فیصلہ بغیر مشورے کے جاری کرنا جب مشورہ کرنے کے لئے صحابہ اور صاحبان فضل موجود تھے،دوسرے اپنے بیٹے کو اپنے بعد خلیفہ بنانا جب کہ وہ نشہ کرتا تھا،شرابی بھی تھا اور حریر و دیبا پہنتا تھا اور طنبور بجاتا تھا۔

تیسرے زیاد کو اپنے باپ کا بیٹا کہہ دینا جب کہ سرکار کی حدیث ہے کہ لڑکا صاحب فراش کا ہوتا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہے اور چوتھے جناب حجر بن عدی کو شہید کرنا۔((حجر کے بارے میں اس پر وائے ہو))یہ جملہ خواجہ حسن بصری نے دو مرتبہ کہا۔(1)

4۔اور یہ جناب عروہ بن زبیر ہیں جو فرماتے ہیں کہ حسان بن ثابت عائشہ پر بہت زیادہ اعتراض کرتے تھے تو میں نے انہیں گالی دے دی،عائشہ نے کہا میرے بھانجے اس کو چھوڑ دو یہ پیغمبرؐ کا سر چڑھایا ہوا ہے۔(2)

5۔کہا جاتا ہے کہ حریز بن عثمان جس کو اک جماعت ثقہ سمجھتی تھی اور انہیں لوگوں میں امام احمد بن حنبل بھی تھے(3) یہ شخص مولائے کائنات سے بغض رکھتا تھا اور آپ کے اوپر طعن کرتا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:3ص:232،مختصر طور پر بدایۃ النہایہ ج:8ص:130،حالات معاویہ میں ذکر ہوا ہے۔

(2)صحیح مسلم ج:4ص:1933،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل حسان بن ثابت اور اسی طرح صحیح بخاری ج:4ص:1523،کتاب المغازی،باب حدیث الافک اور اسی طرح،ج:5ص:2278،کتاب الادب،باب ھجائ المشرکین،مستدرک علی صحیحین ج:3ص:555،مناقب حسان بن ثابت میں،الادب المفرد للبخاری ص:299،باب(من الشعر حکمۃ)میں

(3)تہذیب التہذیب ج:2ص:حالات حریز بن عثمان بن جبر میں

۱۲۳

آپ کو بہت گالیاں دیتا تھا اور کہتا تھا کہ اس شخص(علی)نے میرے باپ داد کے سروں کو کاٹا ہے۔(1)

6۔کہتے ہیں کہ یحییٰ بن عبدالحمید کہتے تھے کہ معاویہ ملت اسلام کے خلاف مرا ہے۔(2)

7۔اور یہ عبدالرزاق صنعانی ہیں،اہل حدیث کی نظر میں ان کا مرتبہ بہت بلند ہے اور بہت جلیل القدر ہیں،اتنے سچے کہ یحیٰ بن معین کہتے ہیں اگر عبدالرزاق اسلام سے مرتد بھی ہوجائیں تو میں ان سے حدیثیں لینا نہیں چھوڑوں گا۔(3)

ان تمام باتوں کے سامنے رکھتے ہوئے اب واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔

مالک بن اوس بن حدثان کے حوالے سے عبدالرزاق وہ واقعہ بیان کرتے ہیں جس میں عمر سے عباس بن عبدالمطلب اور مولائے کائناتؑ نے میراث پیغمبرؐ کا مطالبہ کیا تھا،عمر کہتے ہیں کہ یہ شخص یعنی عباس اپنے بھتیجے کی میراث لینے آیا ہے اور تم علی اپنی بیوی کی میراث مانگ رہے ہو،پھر عبدالرزاق کہتے ہیں ذرا اس احمق کو دیکھو یہ کہہ رہا ہے کہ تم اپنے بھتیجے کی میراث مانگتے ہو اور یہ اپنے خسر کی طرف سے اپنی بیوی کی میراث مانگتے ہیں دونوں ہی جملوں میں حوالہ پیغمبر کا ہے لیکن یہ اپنے منہ نہیں پھوٹ رہا ہے کہ تم رسول خدا کی میراث لینے آئے ہو۔(4)

ذہبی کہتے ہیں عبدالرزاق کو ایک سے زیادہ لوگوں نے ثقہ قرار دیا ہے ان کی حدیثیں صحاح میں لی گئی ہیں اور کچھ حدیثیں ایسی ہیں جو صرف ان سے روایت کی گئی ہیں،لیکن لوگوں نے ان پر تشیع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تہذیب التہذیب ج:2ص:209،حالات حریز بن عثمان بن جبر میں،المجر وحین ج:1ص:268،حالات حریز بن عثمان میں

(2)تاریخ بغدادج:14ص:176،حالات یحییٰ بن ھمام میں،میزان الاعتدال ج:4ص:344،حالات عبد الرزاق بن ھمام میں،الکامل فی الضعفاء الرجال ج:5ص:311،حالات عبدالرزاق بن ھمام میں معرفۃ علوم حدیث ص:139،ذکر النوع الثانی و الثلاثین

(4)سیر اعلام النبلاء ج:9ص:572،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں،الضعفاء للعقیلی ج:3ص:110،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں،میزان الاعتدال ج:4ص:344،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں

۱۲۴

کے ساتھ ساتھ غلو کا بھی الزام لگایا ہے وہ مولا علی سے محبت کرتے تھے اور آپ کے قاتل کو ملعون کہتے تھے۔(1)

8۔جب عبدالرزاق کی مجلس میں معاویہ کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا میری مجلس کو ابوسفیان کے بیٹوں کا ذکر کر کے گندی مت کرو۔(2)9۔جو لوگ امیرالمومنین علیہ السالم کے ساتھ تھے ان کے خیالات طلحہ،زبیر،عثمان،عائشہ اور ان کے حمایتی اصحاب کے بارے میں سب کو معلوم ہیں، اس طرح جو لوگ علی کے ساتھ تھے معاویہ اور اصحاب معاویہ ان کے بارے میں کتنے گندے خیالات رکھتے تھے سب کو معلوم ہے جیسے جناب عمار بن یاسر۔

10۔انس ابن مالک جو مذہب مالکی کے بانی ہیں کہتے تھے کہ عثمان،علی،طلحہ اور زبیر کے درمیان صرف حلوے پر اٹھے کی لڑائی تھی۔(3) 11۔سدی ابوبکر اور عمر کو گالیاں دیا کرتے تھے۔(4)

12۔صالح جزرہ سے روایت ہے کہ عباد عثمان کو گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ کے عدل کا تقاضا ہے کہ وہ طلحہ اور زبیر کو جنت میں نہ داخل کرے انہوں علی سے بیعت کی پھر انھیں سے قتال بھی کیا۔(5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تذکرۃ الحفاظ ج:1ص:364،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں

(2)سیر اعلام النبلاءج:9ص:570،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں،الضعفاءللعقیلی ج:3ص:109،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں،معجم البلدان ج:3ص:429،میزان الاعتدال ج:4ص:343،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں

(3)العقد الفرید ج:2ص:235،کتاب الیاقوت فی العلم و الادب،باب من اخبار العلماء و الادباء

(4)احوال الرجال ص:54،حالات محمد بسائب الکلبی میں،الضعفاءللعقیلی ج:1ص:87،حالات اسمٰعیل بن عبدالرحمٰن اسدی،معرفۃ علوم حدیث ص:137،فی ذکر نوع النوع الثانی و الثلاثین،فی معرفۃ مذاہب المحدثین

(5)سیر اعلام النبلاء ج:11ص:537،حالات عباد بن یعقوب الرواجنی میں اور اسی طرح:ج:14ص:29،تھذیب التھذیب ج:5ص:95،حالات عباد بن ابی یزید میں،تھذیب الکمال ج:14ص:178،حالات عباد بن ابی یزید میں،میزان الاعتدال ج:4ص:44،حالات عباد بن یعقوب میں

۱۲۵

13۔شداد،ابوعمار کہتے ہیں کہ میں کچھ لوگوں کے پاس گیا تو ان کے درمیان علی کا تذکرہ ہوا تو لوگوں نے انہیں گالیاں دیں تو میں نے بھی ان کے ساتھ علی کو گالیاں دیں۔(1)

14۔یونس ابن جناب اسدی جو کو ابن معین و غیرہ نے ثقہ کہا ہے وہ عثمان کو گالیاں دیتے تھے۔(2)

15۔ابوالحسن احمد بن علی غزنوی صحابہ سے چڑھتے تھے۔(3)

16۔ابواسرائیل ملائی عثمان کو گالیاں دیتے تھے(4) اور بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ان کو کافر کہتے تھے۔(5)

17۔الزہر حرانی اور اسد بن وادعۃ جنہیں امام نسائی و غیرہ نے ثقہ کہا ہے وہ علی کو گالیاں دیتے تھے۔(6)

18۔ابوسلیمان تلید بن سلیمان محاربی کوفی عثمان کو گالی دیتے تھے،ابوداؤد کہتے ہیں کہ وہ ابوبکر اور عمر کو بھی گالی دیتے تھے۔(8)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مصنف ابن ابی شیبۃ ج:6ص:370،کتاب الفضائل:فضائل علی بن ابی طالبؑ میں،فضائل الصحابہ ج:2ص:578،فضائل حضرت علی بن ابی طالبؑ میں،مجمع الزوائدج:9ص:167،کتاب المناقب،باب فی فضل اہل بیتؑ

(2)تہذیب التہذیب ج:11ص:385،حالات یونس بن خباب

(3)لسان المیزان ج:1ص:232،حالات احمد بن علی غزنوی میں،میزان الاعتدال ج:1ص:265،حالات احمد بن علی غزنوی میں،المغنی فی الضعفاء و المتروکین ج:1ص:116،حالات اسمٰعیل بن ابی اسحاق میں

(5)الضعفا للعقیلی،ج:1ص:76،حالات اسمٰعیل بن ابی اسحاق ابواسرائیل میں،الضعفا المتروکین،ج:1ص:116،حالات اسمٰعیل بن ابی اسحٰق میں

(6)لسان المیزان ج:1ص:385،حالات اسد بن وداعۃ میں،الضعفاءللعقیلی ج:1ص:26،حالات اس بن وداعۃ میں

(7)تہذیب التہذیب ج:1ص:447،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں،الکشف الحثیث حلّی ص:80،تحالات رلید بن سلمان المحاربی میں،ھذیب الکمال ج:4ص:322،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں تاریخ بغداد ج:7ص:137،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں،

(8)تہذیب التھذیب ج:1ص:447،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں

۱۲۶

19۔ابوعثمان بصری عمرو بن عبید بن باب صحابہ کو گالیاں دیتے تھے۔(1)

20۔ابن حبان نے لکھا ہے کہ حکم بن ظہیر فزاری بن ابی لیلی کوفی صحابہ کو گالیاں دیتے تھے۔(2)

21۔ربیعہ بن یزید سلمی ناصبی تھا اور مولائے کائنات کو گالیاں دیتا تھا۔(3)

22۔یہ جعفر بن سلیمان ہیں جن کی توثیق ابن حبان کرتے ہیں،جعفر بن سلمان سے پوچھا گیا کہ سنا ہے تم ابوبکر اور عمر کو گالی دیتے ہو انہوں نے کہا گالی والی بات تو خیر جھوٹ ہے لیکن میں ان سے شدید بغض رکھتا ہوں۔آزدری کہتے ہیں کہ جعفر بعض بزرگوں پر الزام تراشی کرتے تھے لیکن حدیث میں جھوٹ نہیں بولتے تھے،بلکہ یہ زہد و تقوی اور رقت قلب کا نمونہ تھے،دوری کہتے ہیں کہ جب ان کے سامنے معاویہ کا ذکر آتا تو وہ اس کو گالی بکتے اور جب علی کا ذکر آتا تو صدمہ سے بیٹھ جاتے اور رونے لگتے۔(4)

23۔یہ سالم بن ابوحفصہ ہیں ان سےعمر بن ذر نے کہا تم نے عثمان کو قتل کیا تھا؟تو اس نے انکار کیا،انھوں نے پھر پوچھا تو قتل عثمان پر راضی تھا،کہنے لگا نعثل کے قاتل کو خوش آمدید بنوامیہ کی ہلاکت کو خوش آمدید۔خلف بن جوشب کہتے ہیں کہ جو لوگ ابوبکر اور عمر کی خامیاں بیان کرتے ہیں ان کے سردار سالم تھے۔(5)

24۔ابن حجر نے اسفندیار ابن موفق کے بارے میں کہا ہے کہ بےشمار ابن نجار نے ان سے روایت کی،وہ کہتا ہے اسفندیار بہترین ادیب تھے،شافعی فقہ پر عمل کرتے تھے اور شیعہ تھے۔منکسر مزاج،عبادت گذار اور تلاوت شعار تھے ابن جوزی کہتا ہے بغداد کے ایک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تہذیب التہذیب ج:8ص:64،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں،الضعفاء و المتروکین ج:1ص:229،حالات مذکورہ میں

(2)تہذیب التہذیب ج:2ص:368،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں

(3)الاصابہ ج:2ص:477،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں،الاستیعاب ج:1ص:498،حالات ربیعہ بن عمر الجرشی میں

(4)تہذیب التہذیب ج:2ص:82،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں

(5)تہذیب التہذیب ج:3ص:374،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں،تہذیب الکمال ج:10ص:136،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں،ضعفاءللعقیلی ج:2ص:153،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں

۱۲۷

عادل شخص نے ان کے بارے میں کہا کہ ہم لوگ ان کے پاس بیٹھے تھے اور وہ کہہ رہے تھے کہ جب سرکار دو عالم نے فرمایا:جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے تو ابوبکر اور عمر کے چہرے اتر گئے۔اس کی حکایت کرتی ہوئی یہ آیت اتری:(فلمّاہ راوہ زلفۃ سیئت وجوہ الّذین کفروا)ترجمہ:جب انہوں نے اس کو قریب ہوتے دیکھا تو کافروں کے چہرے اتر گئے۔یہ ان کی شیعیت میں غلو کی علامت ہے،ابن بابویہ نے کہا ہے کہ اسفندیار صالح آدمی تھے اور ان کا لقب صائن الدین تھا۔(1)

25۔ابن تیمیہ جس کی امامت پر امت کا اتفاق ہے اس کا زیادہ تر کلام مولائے کائناتؑ کی تنقیص کرتا ہے،جیسا کہ ابھی ابن حجر کے حوالہ آٹھویں سوال کے جواب میں عرض کیا جائےگا۔

26۔جب بنوعباس کا انقلاب آیا اور عباسی لشکروں نے فتح حاصل کی،بنوعباس کے پہلے خلیفہ ابوعباس سفع کی بیعت لی گئی اور لشکر کوفہ داخل ہوا تو داؤد بن علی بن عبداللہ بن عباس نے منبر کوفہ پر ایک خطبہ دیا اس وقت وہ سفاح کے تین زینہ نیچے بیٹھا تھا،اس نے خدا کی حمد و ثنا اور نبی پر درود پڑھنے کہ بعد کہا اے لوگو!خدا کی قسم تمہارے اور نبی کے درمیان صرف دو ہی خلیفہ ہیں ایک مولائے کائنات علی بن ابی طالب اور دوسرے وہ امیرالمومنینؑ جو میرے پیچھے ہے۔(2)

27۔جب مامون سربراہ سلطنت ہوا اور شام کی طرف جانے لگا تو متعہ کی حلیت کا اعلان کردیا گیا،ایک دن ابوعینا اور محمد بن منصور اس کی خدمت میں پہنچے اس وقت وہ مسواک کررہا تھا اور غصہ میں تھا ان دونوں کو دیکھتے ہی اس نے(عمر کی نقل کی)کہا دو متعہ نبی کے دور اور ابوبکر کے دور میں رائج تھے،لیکن میں ان دونوں سے روکتا ہوں،پھر بولا اے کانے تو کون ہوتا ہے روکنے والا؟جب ایک کام کو نبیؐ اور ابوبکر نے نہیں روکا۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)لسان المیزان ج:1ص:387،حالات تلید بن سلمان المحاربی میں

(2)تاریخ طبری ج:4ص:350،فی(ذکر بقیۃ الخبر عما کان من الاحداث..)

(3)تاریخ بغداد ج:4ص:199،حالات یحییٰ بن اکثم میں،طبقات الحنابلہ،ج:1ص:413،حالات یحی بن اکثم میں،تہذیب الکمال ج:31ص:214حالات مذکورہ میں،تاریخ دمشق،ج:64،ص:71،حالات مذکورہ میں

۱۲۸

28۔مہدی بن منصور عباسی ابوعون عبدالملک بن یزید کی عیادت میں گیا تو ابوعون کی باتیں سن کے بہت خوش ہوا،ابوجعفر طبری کہتے ہیں کہ مہدی نے ابوعون سے کہا آپ مجھ سے کچھ کہئے کچھ مانگئے اور مجھے اپنا ذمہ دار بنادیجئے زندگی اور موت دونوں معاملے میں تو ابوعون نے اس کا شکریہ ادا کیا اور دعا کی اور بولے اے امیرالمومنینؑ میری ھاجت یہ ہے کہ آپ عبداللہ بن ابوعون سے راضی ہوجائیں اور اس کو اپنےپاس بلالیں بہت دنوں سے،وہ شہر بدر ہے ہے۔

مہدی نے کہا ابوعون!وہ شخص تو غیرمذہب پر ہے ہمارے اور آپ کے مذہب پر تو نہیں اور شیخین یعنی ابوبکر اور عمر کے بارے میں بری باتیں کہتا ہے،ابوعون نے کہا اے امیرالمومنین خدا کی قسم وہ اس راستے پر ہے جس سے ہم نکل چکے ہیں اور اسی طرف ہمیں بلایا گیا تھا اگر آپ کی سمجھ میں آئے تو آپ بھی اسی راستے پر واپس چلے جائیں اور ہم بھی آپ کی اطاعت کریں گے۔(1)

اور بہت سی باتیں ہیں جنک ے بیان کی گنجائش نہیں ہے۔

صحابہ کرام کے بارے میں قرآن مجید کا نظریہ

صحابہ کرام میں جو مشہور نظریہ ہے وہ یہ ہے کہ سارے صحابہ عادل نہیں اور نہ سب صحابہ قابل اقتدا ہیں وہ لوگ عام انسانوں سے مختلف نہیں ہیں اور نہ کوئی بہت اونچی چیز ہیں یہی مشہور نظریہ ہے اور اسی کی قرآن مجید بھی تائید کرتا ہے۔(1)

قرآن مجید صحابہ کے بارے میں یہ قطعی فیصلہ نہیں کرتا کہ وہ نجات ہی پاجائیں گے اور جہنم کی آگ سے سلامت رہیں گے بلکہ قرآن ان کی عدالت اور تقدیس کا بھی قائل نہیں ہے بلکہ اکثر مقامات پر تو قرآن صحابہ کو ڈانٹ دیتا ہے اور ان کی نصیحت کرتا ہے ان پر عتاب والا انھیں جب غور سے دیکھتا ہے تو اس مزاج کی بہت سی آیتیں نظر آتی ہیں ملاحظہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:4ص:589۔590،فی ذکر بعض سیر الہدی و اخبارہ...تاریخ دمشق ج:7ص:180۔181،حالات عبدالملک بن یزید ابی عون الازدی میں

۱۲۹

(الم یان للذین امنوا ان تخشع)الی آخر(1)

ترجمہ:کیا صاحبان ایمان کے لئے اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر خدا کے وقت ڈریں اور قرآن جو حق کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کی تلاوت سے خشوع حاصل کریں اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجائیں جو ان سے پہلے تھے کہ ان پر جب کچھ مدت گذر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے لوگ فاسق ہوگئے۔اور ارشاد ہوتا ہے کہ:

(الم تر الی الذّین قیل لهم کفّوا ایدیکم و اقیموا الصّلاة)الی آخر(2)

ترجمہ:اے رسول کیا تم نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کی جن کو(جہاد کی)آرزو تھی اور ان کو حخم دیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رہو اور پابندی سے نماز پڑھو اور زکات دیئے جاؤ مگر جب جہاد ان پر واجب کیا گیا تو جیسے کوئی خد اسے ڈرے بلکہ اس سے کہیں زیادہ اور گھبرا کر کہنے لگے خدایا تو نے ہم پر جہاد کیوں واجب کردیا ہم کو کچھ دنوں کی اور مہلت کیوں نہ دی اے رسول ان سے کہہ دو دنیا کی آسائش بہت تھوڑی سی ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے اس کی آخرت اس سے کہیں بہتر ہے اور وہاں تو تم پر بال برابر بھی ظلم نہیں کیا جائےگا۔پھر دوسری آیت میں ارشاد ہوا:

(ولقد کنتم تمنّون الموت من قبل ان تلقوه فقد رایتموه و انتم تنظرون)(3)

ترجمہ:اور تم موت کے آنے سے پہلے لڑائی میں مرنے کی تمنا کرتے تھے پس اب تم نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور تم اب دیکھ رہے ہو(پھر لڑائی سے جی کیوں چراتے ہو)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ حدید آیت:16

(2)سورہ نساء آیت:77

(3)سورہ آل عمران آیت:143

۱۳۰

سورہ صف میں ارشاد ہوتا ہے:

(یاایها الذین آمنوا لم تقولون ما لاتفعلون-کبر مقتا عند الله ان تقولوا ما لاتفعلون)(1)

ترجمہ:اے ایمان لانے والو!ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں خدا کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم ایسی باتیں کہو جو تم نہیں کرتے۔

بلکہ بہت سے موقع پر اس نے انھیں سختی سے ڈانٹا سورہ نور میں ارشاد ہوتا ہے کہ:

(ویقولون آمنّا بالله و بالرّسول و اطعنا ثمّ یتولّی فریق منهم مّن بعد)الی آخر(2)

ترجمہ:اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا ور اس کے رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت قبول کی پھر اس کے بعد ان میں سے کچھ لوگ(خدا کے حکم سے منہ پھیر لیتے ہیں)اور(سچ تو یہ ہے کہ)یہ لوگ ایمان دار تھےہی نہیں اور جب وہ لوگ خدا اور اس کےرسول کی طرف بلائے جاتے ہیں تا کہ رسول ان کے آپسی جھگڑے کا فیصلہ کردیں تو ان کی طرف ہوتا تو گردن جھکائے ہوئے رسول کے پاس دوڑئے ہوئے آئے کیا ان کے دل میں کفر کا مرض باقی ہے(؟)یا شک میں پڑے ہوئے ہیں؟یا اس بات سے ڈرتے ہیں کہ(مبادا)خدا اور اس کے رسول ان پر ظلم کر بیٹھیں؟(یہ سب کچھ نہیں)بلکہ یہی لوگ ظالم ہیں ایمان داروں کا قول تو بس یہ ہے کہ جب ان کو خدا اور اس کے رسول کے پاس بلایا جاتا کہ ان کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کردیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے حکم سنا اور دل سے مان لیا اور یہی لوگ(آخرت میں)کامیاب ہونے والے ہیں۔

اور بہت سی آیتوں میں تو قرآن مجید صراحۃً کہہ رہا ہے کہ بعض صحابہ ایمان کے دائرے سے نکل چکے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ صف آیت:3،2

(2)سورہ نور آیت:51،47

۱۳۱

(یاایها الذین آمنوا لاتتّخذوا الیهود و النّصاری اولیائ)الی آخر(1)

ترجمہ:اے ایمان لانے والو یہودیوں اور نصرانیوں کو اپنا سرپرست نہ بناؤ کیوں کے یہ لوگ تمہارے مخالف ہیں مگر باہم ایک دوسرے کےدوست ہیں اور یاد رہے کہ تم میں سے جس نے ان کو اپنا سرپرست بنایا پس پھر وہ بھی انہیں لوگوں میں سے ہوگیا،بیشک خدا ظالم لوگوں کو راہ راست پر نہیں لاتا تو اے رسول جن لوگوں کے دلوں میں(نفاق)ہے تم انہیں دیکھوگے کہ ان میں دوڑتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے نہ ملنے سے زمانہ کی گردش میں مبتلا ہوجائیں تو عنقریب ہی خدا مسلمان کی فتح یا کوئی اور بات اپنی طرف سے ظاہر کرےگا،تب یہ لوگ اس بدگمانی پر جو اپنے دل میں چھپاتے تھے شرمائیں گےاور مومنین(جب ان پر نفاق ظاہر ہوجائےگا تو)کہیں گے کیا یہ وہی لوگ ہیں جو سخت سے سخت قسمیں کھا کر ہم سے کہتے تھے کہ ہم ضرور تمہارے ساتھ ہیں ان کا سارا کیا دھرا اکارت ہوا اور سخت گھاٹے میں ہوگئے۔

اور سورہ توبہ جو منافقین کی مذمت سے مخصوص ہے اور منافقین کے مکروہ کارناموں کو کھل کر بیان کرتا ہے یہاں تک کہ اس کا نام ہی سورہ فاضحہ(فضیحت کرنے والا سورہ)رکھ دیا گیا۔(2)

اس طرح سورہ آل عمران بھی ان کے کارناموں کو بیان کررہا ہے۔

یہ لوگ غزوہ احد میں کیا کہہ رہے تھے،اگر چہ احد میں بھاگنے والوں کو معاف کردیا گیا ہے لیکن یہ بات بھی بتادی گئی ہے کہ صحابہ میں سے کچھ وہ لوگ بھی تھے جو دنیا کو چاہتے تھے اور وہ منافقین بھی تھے،جو اللہ کے بارے میں ایام جاہلیت کی طرح سوچتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ مائدہ آیت:53،51

(2)صحیح بخاری ج:4ص:1852،کتاب التفسیر،باب تفسیر سورہ حشر،صحیح مسلم ج:4ص:2322،کتاب التفسیر،باب فی سورۃ براۃ،و انفال و الحشر،تفسیر ابن کثیرج:2ص:368،آیت(تحذر المنافقون)کی تفسیر میں،سنن سعید بن منصور،ج:5ص:232،باب تفسیر سورہ توبہ،تفسیر طبری،ج:10،ص:171،(تحذر المنافقون)کی تفسیر میں،تفسیر قرطبی،ج:8ص:61،سورہ توبہ کی تفسیر میں

۱۳۲

سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

(حتی اذا فشلتم و تنازعتم فی الامر و عصیتم)الی آخر (1) ترجمہ:یہاں تک کہ تمہارے پسند کی چیز(فتح)تمہیں دکھادی اس کے بعد بھی تم نے(مال غنیمت دیکھ کر)بزدلانہ عمل کیا اور حکم رسول میں باہم جھگڑا کیا اور رسول کی نافرمانی کی تم میں سے کچھ تو طالب دنیا ہیں جو مال غنیمت کی طرف جھک پڑے اور کچھ طالب آخرت کہ جس نے رسول پر اپنی جان فدا کردی۔اور ابن مسعود کی حدیث میں یہ گذرچکا ہے کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اصحاب پیغمبرؐ بھی دنیا کے خواہاں ہیں مگر اس آیت نے آکے ڈھول کی پول کھول دی۔(2) آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:(ثم انزل علیکم من بعد الغم امنة نعاساً یغشی طائفة منکم و طائفة قد اهمتهم انفسهم یظّنون)الی آخر (3) ترجمہ:پھر خدا نے اس رنج کے بعد تم پر اطمینان کی حالت طاری کی کہ تم سے ایک گروہ کو(جو نیچے ایمان دار تھے)خوب گہری نیند آگئی اور ایک گروہ جن کو اس وقت بھی(بھاگنے کی شرم سے)جان کے لالے پڑے تھے خدا کے ساتھ زمانہ جاہلیت جیسی بدگمانیاں کرنے گے اور کہنے لگے بھلا کیا یہ فتح کچھ بھی ہمارے اختیار میں ہے اے رسول کہہ دو کہ ہر امر کا اختیار خدا ہی کو ہے،زبان سے تو کتے ہی نہیں یہ اپنے لوں میں ایسی باتیں چھپائے ہوئے ہیں جو تم سے ظاہر نہیں کرتے ب سنو کہتے ہیں کہ اس امر(فتح)میں ہمارا کچھ بھی اختیار ہوتا تو ہم یہاں مارے نہ جاتے اے رسول تم ان سے کہہ دو کہ تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی تقدیر میں لڑ کے مرجانا لکھا تھا وہ اپنے گھروں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(2)سورہ آل عمران آیت:152

(2)تفسیر ابن کثیرج:1ص:414،آیت(منکم من یرید الدنیا)کی تفسیر میں،مجمع الزوائدج:6ص:327۔328،تفسیر طبری ج:4ص:130،کتاب اکتفسیر،سورہ آل عمران کی تفسیر میں،تفسیر قرطبی،ج:4ص:237،سورہ آل عمران کی تفسیر میں

(3)سورہ آل عمران آیت:154

۱۳۳

سے نکل نکل کے اپنے مرنے کی جگہ ضرور آجاتے اور یہ اس واسطے کیا گیا ہے کہ جو کچھ تمہارے دل میں ہے اس کا امتحان کر لے(اور لوگ دیکھ لیں)تا کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے صاف کردے اور خدا تو دلوں کے راز کو خوب جانتا ہے۔

جنگ خندق میں اصحاب پیغمبر کے حالات کی عکاسی کرتا ہوا قرآن سورہ احزاب میں انہیں تین حصوں میں تقسیم کررہا ہے۔

1۔ثابت قدم مومنین جو صاحبان بصیرت ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جو ذرا بھی نہیں بدلے اور ان کی حالت میں تغیر نہیں ہوا۔

2۔منافقین جو زبانوں سے اسلام اظہار کرتے ہیں لیکن ان کے دل گواہی نہیں دیتے۔

3۔وہ لوگ جن کے دل بیمار ہیں جن کے ایمان کمزور ہیں ہدایت اور گمراہی کے درمیان پھنسے ہوئےہیں اور قوت ظاہری کی پیروی کرتے ہیں اور ہوا کے جھونکے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

ارشاد ہوتا ہے:

(ولما رای المومنون الاحزاب قالوا هذا ما وعدنا الله و رسوله و صدق الله و رسوله و مازادهم الا ایماناً و تسلیماً-من المومنین رجال صدقوا ما عاهدوا الله علیه فمنهم من قضٰی نحبه و منهم مّن ینتظر و ما بدّلوا تبدیلا)(1)

ترجمہ:جب مومنین نے کفار کے گروہ دیکھے تو کہنے لگے اسی کا وعدہ اللہ اور اللہ کے رسول نے ہم سے کیا تھا،اللہ اور اس کے رسول سچے یں ان کے ایمان میں اضافہ ہوا اور جذبہ تسلیم میں اضافہ ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ احزاب آیت:22۔23

۱۳۴

یہ لوگ ان صاحبان ایمان میں سے ہیں جنہوں نے للہ سے جو عہد کیا تھا اسے پورا کردکھایا،ان میں سےکچھ نے اپنی زندگی کی مدت پوری کرلی اور کچھ وہ ہیں جو انتظار کررہےہیں ان میں کچھ بھی تبدیلی نہیں آئی۔

پھر ارشاد ہوتا ہے:(اذ جاؤوکم من فوقکم و من اسفل منکم و اذ زراعت) الی آخر(1)

ترجمہ:جب تمہارے اوپر نیچے سے فوجوں نے تمہیں گھیرلیا اور جب آنکھیں پھٹی سی ہوگئیں اور دل اچھل کے حلق میں آگئے اور تم اللہ کے بارے میں بدگمانیوں میں مبتلا ہوگئے یہی وہ جگہ ہےجہاں مومنین مقام ابتدا میں تھے،جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری تھی کہنے لگے کہ ہم سے اللہ اور اللہ کے رسول نے جو بھی وعدہ کیا تھا وہ جھوٹا تھا۔

سورہ انفال میں خدا نے واقعہ بدر کو پیش کیا ہے،یہ وہ جنگ ہے جس میں مسلمانوں کو واضح فتح حاصل ہوئی تھی اور جنگ کا پانسہ پلٹ گیا تھا،اللہ نے متوجہ کیا یہ سمجھانے کے لئے کہ اس جنگ میں فتح اللہ کی طرف سے ایک معجزہ تھی اور ارشاد ہوا:(لیهلک من هلک عن بیّنة و یحی من حی عن بینة) (2)

ترجمہ:جو ہلاک ہوتا ہے وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہوا اور جو زندگی پاتا ہے وہ دلیل کے ساتھ زندگی پائےگا۔

حالانکہ جنگ بدر میں اکثر مسلمان نفس کے بندے تھے اور بہت سی غلطیاں کرچکے تھے،ان کا ہدف آسانی اور کسب مال تھا اور ان کے اعمال ایسے نہیں تھے کہ انہیں نصرت اور فتح دلاسکیں اگر اللہ کی مدد شامل حال نہ ہوتی تو نصرت و فتح کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔سورہ انفال میں ارشاد ہوتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ احزاب آیت:12،11،10

(2)سورہ انفال آیت:42

۱۳۵

(کما اخرجک ربک من بیتک بالحق و انّ فریقاً) الی آخر(1)

ترجمہ:اور جس طرح تمہارے پروردگار نے تمہیں بالکل ٹھیک مصلحت سے تمہارے گھر سے نکالا اور مومنین کا ایک گروہ اس سے ناخوش تھا،وہ لوگ حق کے ظاہر ہونے کے بعد بھی خواہ مخواہ سچی بات میں تم سے جھگڑتے تھے اور اس طرح کرنے گے گویا کہ وہ زبردستی موت کے منہ میں ڈھکیلے جارہے ہوں اور اس کو اپنی آنکھوں سے یکھ رہے وں یہ وہ وقت تھا جب خدا تم سے وعدہ کررہا تھا کہ کفار مکہ کی دو جماعتوں میں سے ایک جماعت تمہارے لئے ضروری ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ کمزور جماعت تمہارے ہاتھ لگے اور خدا یہ چاہتا تھا کہ اپنی باتوں کو حق ثابت کرے اور باطل کو ملیا میٹ کردے،اگر چہ گنہگار کفار اس سے ناخوش ہی کیوں نہ ہوں؟جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کررہے تھے اس نے تمہاری سن لی اور جواب دیا کہ میں تمہاری لگاتار ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا،یہ امداد غیبی خدا نے صرف تمہاری خاموشی کے لئے کی تھی اور یاد رکھو مدد سوائے خدا کے اور کے یہاں سے ہرگز نہیں ہوتی اور خدا غالب،حکمت والا ہے۔

اور سورہ انفال ہی میں ارشاد ہوتا ہے:(اذ یریکهم الله فی منامک قلیلاً و لو) الی آخر(2)

ترجمہ:جب خدا نے تمہیں خواب میں کفار کو کم کرکے دکھلایا تھا اور ان کو تمہیں زیادہ کرکے دکھلاتا تو تم یقیناً ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے بارے میں آپس میں جھگڑ نے لگتے مگر خدا نے اس(بدنامی)سے بچایا اس میں تو شک نہیں کہ وہ دل کے خیالات سے واقف ہے۔اللہ نے مشرکین کے دلوں کو مرعوب کردیا تھا جس کا فائدہ مسلمانوں نے اٹھایا نتیجہ میں مقتولوں سے زیادہ اسیروں کی تعداد تھی،مسلمانوں نے کافروں کو زیادہ قیدی اس لئے بنایا کہ وہ ان کے وارثوں سے خوب فدیہ اور مال وصول کرسکیں یہاں تک کہ مارے گئے تو ستر ہی اور کچھ اسیر بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ انفال آیت:10،9،8،7،6،5

(2)سورہ انفال آیت:43

۱۳۶

ہوئے،انہیں واقعات کے سلسلے میں ملتا ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف نے مال غنیمت میں بہت سی زر ہیں لوٹی تھیں جب وہ امیہ ابن خلف اور اس کے بیٹے علی کے پاس سے گذرے امیہ بن خلف نے کہا کہ مجھے اسیر کرنے سے تمہیں کچھ فائدہ ہوگا،عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو پس انہوں نے زر ہیں چھوڑ دیں اور امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے علی کا ہاتھ پکڑ لیا عبدالرحمٰن کہتے ہیں میں ان دونوں باپ بیٹوں کو گرفتار کرکے لے جارہا تھا کہ راستے میں بلال ملے امیہ بن خلف نے مکہ میں جب بلال تھے تو ان پر بڑی سختیاں کی تھیں اور انہیں بہت ستاتا تھا کہ وہ اسلام چھوڑ دیں اکثر انہیں پکڑ کے مکہ کے ریگستانوں میں لےجاتا اور پیٹھ کے بل لٹا کے ان کے سینہ پر ایک بڑا پتھر رکھوا دیتا صورت حال یہ تھی کہ ریگستان تپ رہا تھا اور بلال کے سینے پر گرم پتھر رکھا رہتا اور امیہ ان سے کہتا یا تو اسلام چھوڑ دو یا یہی سزا جھیلتے رہو لیکن بلال کی زبان پر ایک ہی کلمہ ہوتا،احد،احد بہرحال جب بلال نے امیہ ابن خلف کو اسیر کی حالت میں دیکھا تو چیخ اٹھےکہ لوگوں اس کفر کی جڑ امیہ ابن خلف ہے اگر یہ بچ گیا تو میں نہیں بچوں گا،عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں میں نے پوچھا بلال کیا میرے اسیر ہونے کے لئے کہہ رہے ہو؟فرمایا ہاں اگر یہ بچ گیا تو میں نہیں بچوں گا۔

میں نے امیہ بن خلف سے پوچھا کے اے کالی عورت کے بیٹے تو سن رہا ہے؟پھر بلال نے ایک چیخ ماری اور پکارکے کہا اے اللہ کے مددگاروں یہ کفر کی جڑ امیہ ابن خلف ہے اگر یہ بچ گیا تو میں نہیں بچوں گا،پس لوگوں نے ہمیں گھیرلیا اور میں امیہ ابن خلف کی حفاظت کررہا تھا کہ ایک آدمی نے تلوار کھینچ کے اس کے بیٹے پر حملہ کردیا اس کا بیٹا گرگیا اور امیہ نے ایک دردناک چیخ ماری میں نےکہا امیہ اپنی فکر کرو،تمہاری کوئی پناہ گاہ نہیں میں تم کو بالکل بھی نہیں بچاسکتا اتنے میں لوگ دونوں باپ بیٹوں پر تلوار لےکے ٹوٹ پڑے اور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا،یہاں تک کہ ان کا کام تمام کردیا۔عبدالرحمٰن بن عوف کہنے لگے خدا بلال پر رحم کرے میرے ہاتھ سے زر ہیں بھی نکل گئیں اور میں اپنے قیدی کے فدید سے محروم رہا۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سیرہ نبویہ ابن ہشام ج:3ص:179۔181،تاریخ طبری ج:2ص:35،واقع بدر میں،الثقات لابن حبان ج:1ص:172،173،ذکر السنۃ الثانیہ من الہجرۃ میں

۱۳۷

بخاری کے الفاظ میں یہ واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے عبدالرحمٰن بن عوف نے بتایا کہ بدر کے دن میں امیہ بن خلف کو لےکے یہاڑوں کی طرف نکل گیا تا کہ میں اس کو بچاؤں اس وقت لوگ سو رہے تھے لیکن بلال کو پتہ چل گیا پس بلال باہر نکلے اور انصار کی ایک جماعت کے پاس آئے آکے کہنے لگے کہ امیہ بن خلف گرفتار ہوا ہے،اگر ہو بچ گیا تو میں نہیں بچوں گا پس بلال کے ساتھ انصار کا ایک گروہ نکلا تو جب مجھے یہ خوف ہوا کہ وہ لوگ امیہ بن خلف کو قتل کرنے کے لئے ہم کو گھیرلیں گے تو میں نے اس کے بیٹے کو پیچھے چھوڑدیا تا کہ وہ لوگ آئیں اور اس میں مصروف ہوجائیں،لیکن انھوں نے اسے قتل کردیا اور پھر ہمارے پیچھے لگ گئے،امیہ بھاری بھر کم تھا،جب وہ ہمارے پاس پہونچے تو میں نے اس سے کہا کہ جھک جاپس وہ جھک گیا اور میں اس پر چھا گیا تا کہ اس کو بچاسکین لیکن لوگوں نے تلوار سے کونچ کونچ کر اس کو میرے نیچے سے نکال لیا اور قتل کرڈالا ایک تلوار سے میرا پیر بھی زخمی ہوگیا۔(1)

مختصر یہ کہ خونزریزی اور سفا کی جنگ بدر کے بعد اسیروں کے ساتھ ہوگئی یہاں تک کہ سعد بن معاذ کو یہ بات ناگوار خاطر گذری سرکار دو عالم نے سعد کے چہرے پر آثار کراہت دیکھے تو آپ نے پوچھا سعد کیا مسلمانوں کی خون ریزی تمہیں بری لگ رہی ہے سعد نے بہت معقول جواب دیا کہ یا رسول اللہ مشرک تو پہلی مرتبہ گرفتار بلا ہوئے ہیں میرا خیال ہے کہ ان کی جان بخشی ان کی خونزیزی سے زیادہ بہتر ہے قرآن مجید نے بھی ان کی تائید کی اور یہ آیت نازل ہوئی۔(2)

(ما کان لنبیّ ان یکون له اسری حتّی یثخن فی الارض) (3)

ترجمہ:نبی کے شایان نہیں کہ وہ اپنے لئے اسیروں کو رکھےتا کہ ان کا خون زمین پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:2ص:807،کتاب الولایۃ،باب اذا و کل المسلم حریباً..

(2)الثقات لابن حبان ج:1ص:169،اسی طرح سیرہ نبویہ لابن ہشام ج:3ص:176،تاریخ طبری ج:2ص:34واقعہ بدر میں

(3)سورہ انفال آیت:68،67

۱۳۸

بہایا جائے تم لوگ عوارض دنیا کو دوست رکھتے ہو اور اللہ آخرت کو چاہتا ہے اور اللہ حکمت و قوت والا ہے اگر جو کچھ گذرچکا(یعنی فتح،مقتولین کی تعداد)وہ تقدیر میں لکھا نہیں ہوتا تو تم عذاب عظیم سے دوچار ہوتے۔

خداوند عالم نے اصحاب پیغمبر اور تمام مسلمانوں کو سمجھانے کے لئےقرآن مجید میں سابقہ امتوں کے کارنامے مقام مثال میں پیش کئے ہیں خاص طور سے بنی اسرائیل کو پیش کیا ہے ان کی وہ کارستانیاں کے طور پر مثال میں آتی ہیں جو انھوں نے اپنے انبیا کے ساتھ انجام دیں(انبیا کی مخالفت،ان کو اذیت دینا)اور کتاب خدا آنے کے بعد ان کے درمیان اختلافات اس مضمون کی بہت سی آیتیں نازل ہوئی ہیں۔

(ومااختلف فیه الا الّذین اوتوه من بعد ما جائتهم البیّنات..) الی آخر(1)

ترجمہ:اس میں اختلاف وہی لوگ کرتے ہیں جو لوگ دلیلیں آنے کے باوجود پہلے بھی اختلاف کرچکے ہیں آپس کی بغاوت کی بناپر اور اللہ صاحبان ایمان کو ہدایت کا راستہ دکھا دیتا ہے اور ان چیزوں کے بارے میں مقام اختلاف کی وضاحت کردیتا ہےتو اس کی اجازت سے حق کا اعلان کرتے ہیں،اللہ جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔

پھر اللہ انہیں گذشتہ امتوں کے بڑے اعمال دکھاکے ڈراتا ہے۔

(ولا تکونوا کالّذین تفرّقوا و اختلفوا من بعد ما...) الی آخر(2)

ترجمہ:اے مسلمانوں ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو گروہ در گروہ بٹ گئے حب ان کے پاس دلیلیں آئیں ان کے لئے تو بہت بڑی سزا ہے۔جس دن کچھ چہرے چمک رہے ہونگے اور کچھ چہرے سیاہ پڑچکے ہونگے ان سے پوچھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ بقری آیت:213

(2)سورہ آل عمران آیت:107،106،105

۱۳۹

جائےگا کیا تم نے ایمان کے بعد کفر اختیار کرلیا،اب اپنے کفر کی وجہ سے عذاب کا مزہ چکھو لیکن جن کے چہرے آبدار ہوں گے وہ خدا کی رحمت میں ہوں گے اور ہمیشہ اسی حال میں ہوں گے۔

اور ارشاد ہوا:(یاایها الذین آمنوا لاتکونوا کالّذین اذوا موسی فبرّاه الله ممّا قالوا و کان عندالله وجیهاً) (1)

ترجمہ:اے ایمان لانے والو!ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے موسیٰ کو اذیت دی،تو خدا نے ان کی تہمتوں سے موسیٰ کو بری کردیا موسی تو اللہ کے نزدیک صاحب منزلت ہیں اور دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وما کان لکم ان توذوا رسول اللہ و لا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابداً)(2)

ترجمہ:تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تم نبی کو اذیت دو اور ان کی ازواج سے نبی کے بعد نکاح کرلو۔

پھر ارشاد ہوا:(انّ الّذین یوذون الله و رسوله لعنهم الله فی الدّنیا و الآخرة و اعدّ لهم عذاباً مهیناً)

ترجمہ:بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں تو اللہ ان پر لعنت کرتا ہے اور آخرت میں ان کے لئے ہمیشہ کے لئے سخت عذاب ہے۔

اور اللہ نے نبی کے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:(یمنّون علیک ان اسلموا قل لا تمنّوا علیّ اسلامکم بل الله یمنّ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ احزاب آیت:69

(2)سورہ احزاب آیت:53

(3)سورہ احزاب آیت:57

۱۴۰