فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ20%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130295 / ڈاؤنلوڈ: 6754
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

علیکم ان هداکم للایمان ان کنتم صادقین) (۱)

ترجمہ:اے نبی!یہ لوگ آپ پر احسان رکھتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے آپ ان سے کہہ دیں مجھ پر اپنے مسلمان ہونے کا احسان مت رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہاری ایمان کی طرف رہنمائی کی اگر تم سچے دل سے مسلمان ہوئے ہو۔

ارشاد ہوا:(واعلموا انّ فیکم رسول الله لو یطیعکم فی کثیر من الامر لعنتّم )(۲)

ترجمہ:مسلمانوں تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بہت سی باتوں میں تمہاری اطاعت کرے پھر تو تم بکھر جاؤگے۔

اور دوسری جگہ ارشاد ہوا:(الم تر الی الّذین نهوا عن النّجوی) الی آخر(۳)

ترجمہ:آپ ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جنہیں راز کی گفتگو کرنے سے روکا گیا لیکن وہ باز نہیں آئے اور اب بھی کانا پھوسی کرتے رہتے ہیں ان کی یہ راز کی گفتگو گناہ سرکشی اور پیغمبر کی نافرمانی کے لئے ہے جب آپ کو سلام کرتے ہیں تو اللہ نے جن الفاظ سے سلام کیا ہے ان الفاظ کا استعمال نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہماری باتوں پر الللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا؟ان کے لئے جہنم کافی ہے جس میں وہ جھونکے جائیں گے اور وو(جہنم)ٹھکانہ ہے اے ایمان لانے والو!اگر آپس میں راز کی باتیں کرنا ہی ہیں تو گناہ عدوان اور معصیت پیغمبر کے لئے رازداری کی بات مت کرو بلکہنیکی اور تقویٰ کے لئے کرو اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف واپس جاکے تم سب کو ہمیشہ رہنا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ حجرات آیت:۱۷

(۲)سورہ حجرات آیت:۷

(۳)سورہ مجادلہ آیت:۹،۸

۱۴۱

اللہ نے یہ کہہ کر پیغبر کی حوصلہ افزائی کی ہے:(یاایها الرّسول لا یحزنک الّذین یسارعون فی الکفر من الّذین قالوا آمنّا بافواههم ولم تومن قلوبهم) (۱)

ترجمہ:اے رسول جن لوگوں نے صرف اپنی زبان سے ایمان کا اقرار کیا ہے اور جلدی جلدی پھر کافر ہورہے ہیں ان کو دیکھ کے آپ کو رنجیدہ خاطر نہیں ہونا چاہئے اصل میں ان کے دل میں ایمان نہیں لائے تھے۔

جیسا کہ اللہ نے ان لوگوں کو پیغمبرؐ کی اذیت رسانی پر ڈرایا ہے اور آپ کی مخالفت پر تنبیہ کی ہے:(یاایّها الّذین آمنوا استجیبوا لله و للرّسول اذا دعاکم لما یحییکم واعلموا...) الی آخر(۲)

ترجمہ:اے ایمان لانے والو!جب اللہ اور اس کا رسول تمہیں پکارتے تو ان کی آواز پر لبیک کہو،اس لئے کہ انہوں نے تمہیں حیات ایمان بخشی ہے اور یہ جان لو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حاءل ہوجاتا ہے اور تم اسی کی طرف واپس جانے والے ہو اور اس فتنہ سے ڈرو جو خاص ظالموں کے لئے مصیبت بنےگا اور یہ جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

عون بن قتادہ کہتے ہیں کہ زبیر بن عوام نے کہا ہمیں پیغمبرؐ نے ایسے فتنے سے ڈرایا جو ہم دیکھ کر نہ تو سمجھتے تھے اور نہ ہی دیکھتے تھے کہ ہم اسی فتنہ کے لئے پیدا ہوئے ہیں ارشاد ہوا۔

(واتّقوا فتنةً لاتصیبنّ الّذین ظلموا منکم خاصّةً)

ترجمہ:ایسا فتنہ جو خاص ظالموں کو پہنچےگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ مائدہ آیت:۴۱

(۲)سورہ انفال آیت:۲۵،۲۴

۱۴۲

ہم بہت مدت تک اس آیت کو پڑھتے رہے بعد میں پتہ چلا کہ جنگ جمل کے لئے کہنے لگے تجھ پروائےہو ہم سب جانتے تھے مگر صبر نہیں کرسکے۔(۱)

اسی طرح خدا سورہ نور میں ارشاد فرماتا ہے:(لاتجعلوا دعاء الرّسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً قد) الی آخر(۲)

ترجمہ:اے ایمان دارو!جس طرح سے تم سے ایک دوسرے کو نام لے کر بلایا کرتے ہو اس طرح آپس میں رسول کو بلایا نہ کرو خدا ان لوگوں کو خراب جانتا ہے جو تم میں سے آنکھ بچاکے(پیغمبرؐ کے پاس سے)کھسک جاتے ہیں اور جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو اس بات سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ مبادا ان پر کوئی مصیبت یا ان پر کوئی دردناک عذاب نازل ہو۔

پھر اس بھی اکتفا نہیں کی بلکہ انہیں دھمکایا کہ تم آزمائے جاؤگے بغیر آزمایش کے ہم ایمان کی سند نہیں دیتے۔

سورہ عنکبوت میں ارشاد ہوا:(أحسب النّاس ان یترکوا ان یقولوا آمنّا و هم لایفتنون-ولقد فتنّا الّذین من قبلهم فلیعلمنّ الله الّذین صدقوا ولیعلمنّ الکاذبین) (۳)

ترجمہ:کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف یہ کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لائے ان کو چھوڑ دیا جائےگا اور آزمایا نہیں جائےگا پھر ہم نے تو ان لوگوں سے پہلے جو امتیں تھیں انہیں آزمایا اور کون جھوٹے اور سچے ہیں ان کا بھی پتہ لگا۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)السنن الواردۃ فی الفتن ج:۱ص:۲۰۴،باب قول اللہ عزّ و جل(واتّقوا فتنةً لاتصیبنّ الّذین) تفسیر ابن کثیرج:۲ص:۳۰۰،آیت کی تفسیر میں

(۲)سورہ نور آیت:۶۳

(۳)سورہ عنکبوت آیت:۳،۲

۱۴۳

(ام حسب الّذین فی قلوبهم مّرض ان لم یخرج الله اضغانهم-ولو نشاء لارینا کهم فلعرفتهم...) الی آخر(۱)

ترجمہ:کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا دل کے کینوں کو کبھی ظاہر نہیں کرےگا اور اگر ہم چاہتے تو ہم تمہیں ان لوگوں کو دکھا دیتے تو تم ان کی پیشانی سے ہی ان کو پہچان لیتے اور تم انہیں ان کے انداز گفتگو سے ہی ضرور پہچان لوگے اور خدا تو تمہارے اعمال سے واقف ہے اور ہم تم لوگوں کو ضرور آزمائیں گےتا کہ تم میں جو لوگ جہاد کرنے والے اور تکلیف جھیلنے والے ہیں ان کو دیکھ لیں اور تمہارے حالات جانچ لیں۔

اور اللہ نے بتادیا کہ وہ مقام امتحان میں بہت کمزور ہیں اور مال خرچ کرنے میں بہت بخیل ہیں،دوسری جگہوں کو چھوڑ کے صرف نجوی ہی کے معاملے کو لے لیجئے اللہ نے انہیں حکم دیا کہ جب نبی سے کچھ راز کی بات کہنا چاہین تو کچھ صدقہ نکال دیں اس حکم کا آنا تھا کہ بھیڑ چھٹ گئی اور سوائے امیرالمومنین علیؑ کے نبیؐ سے راز کی بات کہنے کے لئے کوئی آگے نہیں بڑھا۔(۲)

اس لئے کہ اب مال خرچ ہورہا تھا قرآن مجید نے مسلمانوں کی اس حرکت پر انہیں بری طرح ذلیل کیا ہے(یاایّها الّذین آمنوا ازا ناجیتم الرّسول فقدّموا بین یدی نجواکم صدقةً ذلک خیر لّکم و اطهر فان لّم تجدوا فانّ الله غفور رّحیم-ءاشفقتمان تقدّموا بین یدی نجواکم صدقات فاذلم تفعلوا و تاب الله علیکم فاقیموا الصّلوة و آتوا الزّکوة و اطیعوا الله و رسوله و الله خبیر بما تعملون) (۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ محمد آیت:۳۱،۳۰،۲۹

(۲)المستدرک علی صحیحین ج:۲ص:۵۲۴،کتاب التفسیر سورہ مجادلہ کی تفسیر میں،تفسیر ابن کثیرج:۴ص:۳۲۸،سورہ مجادلہ کی آیت نجوی کی تفسیر میں،تفسیر قرطبی ج:۱۷ص:۳۲۰ اس آیت نجوی کی تفسیر میں

(۳)سورہ مجادلہ آیت:۱۳،۱۲

۱۴۴

ترجمہ:اے ایمان دارو!جب پیغمبر سے کوئی بات کان میں کہنی چاہو تو کچھ خیرات اپنی سر گوشی سے پہلے دےدیا کرو یہی تمہارے واسطے بہتر اور پاکیزہ بات ہے پس اگر تم اس پر مقدور نہ ہو تو بیشک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے(مسلمانوں)کیا تم اس بات سے ڈرگئے کہ(رسول کے)کان میں بات کہنے سے پہلے خیرات کرلو تو جب تم لوگ(اتنا)نہ کرسکے اور خدا نے تمہیں معاف کردیا تو پابندی سے نماز پڑھو اور زکوۃ دیتے رہو اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے باخبر ہے۔

بلکہ اللہ نے سورہ محمد میں ان کی کنجوسی کے اوپر بہت ذلیل ہے اور صاف صاف یہ کہہ دیا کہ اصحاب پیغمبرؐ بہت کنجوس ہیں،سورہ محمد میں ارشاد ہوتا ہے۔

إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ-إِن يَسْأَلْكُمُوهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا وَيُخْرِجْ أَضْغَانَكُمْ-هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنكُم مَّن يَبْخَلُ وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِوَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُوَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم(۱)

ترجمہ:دنیاوی زندگی تو بس کھیل تماشہ ہے اور اگر تم(خدا پر)ایمان رکھو گے اور پرہیزگاری کروگے تو وہ تم کو تمہارا اجر عنایت کرےگا اور تم سے تمہارا مال طلب نہیں کرےگا اور وہ تم سے مال طلب،رحم سے چمٹ کے مانگے بھی تو(ضرور)بخیل لگو اور خدا تو تمہارے کینہ کو ضرور ظاہر کرکے رہےگا،دیکھو تم لوگ وہی تو ہو کہ خدا کی راہ میں خرچ کے لئے بلائے جاتے ہو تو بعض تم میں ایسے بھی ہیں جو بخل کرتے ہیں اور(یاد رہے کہ)جو بخل کرتا ہے تو خود اپنے ہی سے بخل کرتا ہے اور خدا تو بے نیاز ہے اور تم(اس کے)محتاج ہو اور اگر تم(خدا کے حکم سے)منہ پھیروگے تو خدا(تمہارے سوا)دوسروں کو بدل دےگا اور وہ تمہارے ایسے(بخیل)نہ ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ محمد آیت:۳۸،۳۷،۳۶

۱۴۵

اور اللہ نے اصحاب پیغمبر کے انقلاب،ارتداد اور بدکرداری پر صاف اعتراض کیا ہے چنانچہ سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے۔﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُأَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْوَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًاوَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ﴾ (۱)

ترجمہ:محمد تو صرف رسول ہیں ان سے پہلے اور بھی بہتر پیغمبر گذرچکے ہیں پھر کیا اگر محمد اپنی موت سے مرجائیں یا مارڈالیں تو تم الٹے پاؤں اپنے کفر کی طرف پلٹ جاؤگے اور جو الٹے پاؤں پھرےگا بھی تو ہرگز خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑےگا اور اللہ عنقریب شکر کرنےوالوں کو اچھا بدلہ دےگا۔

اور سورہ حج میں ارشاد ہوا- ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ﴾ (۲)

ترجمہ:لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو ایک کنارے پر کھڑے ہوکے اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو اگر ان کو کوئی فائدہ پہنچ گیا تو اس کی وجہ سے وہ مطمئن ہوگئے اور کہیں ان کو کوئی مصیبت چھوبھی گئی تو فوراً منھ پھیر کے کفر کی طرف پلٹ پڑے انہوں نے گھاٹا اٹھایا دنیا و آخرت میں(صریح گھاٹا)

سورہ محمد میں ارشاد ہوا۔فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ آل عمران آیت:۱۴۴

(۲)سورہ حج آیت:۱۱

۱۴۶

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ) (۱)

ترجمہ:کیا تم سے کچھ دور ہے کہ اگر تم حاکم ہوتے تو روئے زمین مٰں فساد پھیلانے اور اپنے رشتہ ناتوں کو توڑنے لگو یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور اللہ نے ان کے کانوں کو بہرا اور آنکھوں کو اندھا کردیا۔

اللہ نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ صراحت سے بتادیا کہ اصحاب پیغمبرؐ میں کچھ لوگ طیب ہیں اور کچھ خبیث اور تمام چہرے جانے پہچانے ہیں کسی شک و شبیہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

(مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ)(۲)

ترجمہ:(منافقو)خدا ایسا نہیں کہ برے بھلے کی تمیز کئے بغیر جس حالت میں تم ہو اسی حالت پر مومنوں کو بھی چھوڑ دے اور خدا ایسا بھی نہیں غیب کی باتیں بتادے مگر ہاں خدا اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے غیب کی باتیں بتانے کے لئے چن لیتا ہے۔

ظاہر ہے کہ اللہ نے جنہیں غیب کی باتیں بتانے کے لئے چنا ہے وہ منافقین نہیں ہیں اس لئے منافقین تو اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے پہچانے جاچکے ہیں۔

صالح بندے بہت کم ہیں کہ جن کی طرف متنبہ کیا گیا ہے:

ارشاد ہوا:(وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ) (۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ محمد آیت:۲۲/۲۳

(۲)سورہ آل عمران آیت:۱۷۹

(۳)سورہ سبا آیت:۱۳

۱۴۷

میرے شکرگذار بندے بہت کم ہیں

سورہ واقعہ میں ارشاد ہوا: (ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ-وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ) (۱)

ترجمہ:بے شک صالح لوگ کچھ گذشتہ امتوں سے تھے اور کچھ آنے والی امتوں میں اسی طرح اللہ نے متوجہ کیا ہے کہ مقام امتحان میں ثابت قدم رہنے والے بھی بہت کم ہیں سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے: (وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْوَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا) (۲)

ترجمہ:اگر ان پر ہم واجب کردیں کہ اپنے نفسوں کو قتل کرڈالو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو یہ لوگ ایسا نہیں کریں گے سوائے چند افراد کے حالانکہ جن باتوں کو کرنے کے لئے ان سے کہا جارہا ہے ان میں انھیں کی بھلائی ہے اور شدید ثابت قدمی کا ثبوت ہے۔

کتاب عزیز میں اللہ نے منافقین کے بارے میں اور مریض دلوں کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے کبھی ان کی مذمت کی ہے کبھی انھیں برا کہا ہے،کبھی انہیں عذاب شدید سے ڈرایا ہے کبھی دنیا کی ذلت اور آخرت کے عذاب کی پیشین گوئی کی ہے ظاہر ہے کہ اس مختصر سے کتابچہ میں ان تمام باتوں کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

عام اصحاب کے بارے میں نبی کریمؐ کا نظریہ

وہ حدیثیں جو اصحاب کے بارے میں نبیؐ سے مروی ہیں ان آیتوں سے تعداد میں کم نہیں ہیں روایت ہے کہ سرکار دو عالم نے انھیں خطاب کرکے فرمایا تم ضرور گذشتہ امتوں کی پیروی کروگے،ہر قدم پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ واقعہ آیت:۱۴،۱۳

(۲)سورہ نساءآیت:۶۶

۱۴۸

پیروی کروگے ان کے قدموں سے قدم ملا کر چلوگے،یہاں تک کہ اگر وہ بچھو کے سوراخ میں بھی داخل ہوئے ہوں تو تم ان کے پیچھے پیچھے چلے جاؤگے،مجمع نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا گذشتہ امتوں سے مراد یہود و نصاری ہیں،آپ نے فرمایا پھر کون ہے؟(۱) اسی طرح جناب حذیف کا قول ہے کہ تم بنواسرائیل کی قدم بقدم پیروی کروگے البتہ میں یہ نہیں جانتا کہ تم بنواسرائیل کی طرح بچھڑے کو پوجوگے یا نہیں؟(۲) اور مام مالک کی موطا میں یہ حدیث ہے کہ امام مالک ابونضر سے جو عبداللہ ابن عمر کے غلام تھے یہ بات سنی کہ عبیداللہ ابن عمر کو بتایا کہ سرکارؐ نے فرمایا میں احد کے شہیدوں پر گواہ ہوں تو ابوبکر نے پوچھا یا رسول اللہؐ کیا ہم لوگ ان میں شامل نہیں ہیں ہم بھی انھیں کی طرح اسلام لائے اور ہم نے بھی انھیں کی طرح جہاد کیا حضورؐ نے فرمایا یقیناً تم اسلام لائے اور تم نے جہاد کیا لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میرے بعد تم کیا حرکتیں انجام دوگے؟ین سن کے ابوبکر رونے لگے اور بہت دیر تک روتے رہے پھر کہنے لگے کیا آپ کے بعد ہم کچھ برے کام کرنے والے ہیں؟(۳)

حدیث حسن میں ہے کہ سرکار دو عالمؐ جنت البقیع کے قبرستان میں کھڑے ہوئے اور فرمایا اے قبروں میں سونے والے مومنو اور مسلمانوں تم پر سلام ہو کاش تم جان سکتے کہ اللہ نے تمہیں کن فتنوں سے نجات دی جو تمہارے بعد اٹھنے والے ہیں پھر آپ نے اپنے اصحاب کی طرف دیکھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)صحیح بخاری ج:۶ص:۲۶۶۹،کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ،نبی کا قول کے اپنے سے پہلےوالوں کے اتباع کے بارے میں،اسی طرح ج:۳ص:۱۲۷۴،کتاب الانبیاء:باب ما ذکر عن بنی اسرائیل،سنن بن ماجہ ج:۲ص:۱۳۲۲،کتاب الفتن،افتراق امم کے باب میں مجمع الزوائدج:۷ص:۲۶۱،کتاب الفتن،ماضی کے سنتوں پر عمل کرنے کے باب میں۔المستدرک علی صحیحین ج:۱ص:۹۲۔۹۳کتاب الایمان،صحیح بن جبان ج:۱۵ص:۹۵،اس حدیث کے ذیل میں کہ جس میں کہا گیا ہے کہ امت فتن و حوادث کا شکار ہوگی،مسند احمدج:۲ص:۳۲۷،مسند ابی ھریرہ ج:۳ص:۸۹مسند سعید الخدری،مسند الطالسی ج:۲ص:۲۸۹جس میں ابوسعید خدری نے نبیؐ سے روایت کی ہے

(۲)مصنف ابن ابی شیبہ ج:۷ص:۴۸۱،کتاب الفتن،جو فتنہ سے بھاگتے ہیں اور پناہ مانگتے ہیں

(۳)موطا مالک ج:۲ص:۴۶۱۔کتاب الجھاد:باب الشہداء فی سبیل اللہ،التمھید بن عبدالبرج:۲۱ص:۲۲۸

۱۴۹

اور فرمایا قبروں میں سونے والے تم سے اچھے ہیں اصحاب کہنے لگے خدا کے رسولؐ وہ ہم سے اچھے کس وجہ سے ہوگئے ہماری طرح وہ بھی مسلمان ہوئے ہماری طرح انہوں نے بھی ہجرت کی اور ہماری طرح انہوں نے بھی راہ خدا میں خرچ کیا پھر وہ ہم سے اچھے کس طرح ہوگئے آپ نے فرمایا کہ انھوں نے محنت کی لیکن مزدوری میں سے کچھ کھایا نہیں میں ان پر گواہ ہوں اور تم نے جو محنت کی تو اس کی مزدوری کھارہے ہو اور مجھے نہیں معلوم کہ میرے بعد تم کیا کروگے۔(۱)

اس طرح ہادی برحق نے آنےوالے فتنوں کے خطرے سے اپنے اصحاب کو آگاہ کردیا اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ سرکارؐ مدینہ کے ایک ٹیلے پر چڑھے اور فرمایا مسلمانوں کیا تم بھی وہ دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں میں تو تمہارے گھروں میں فتنوں کو گرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں جیسے بارش کے قطرے گرتے ہیں۔(۲)

اور عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبرؐ عائشہ کے گھر سے نکلے اور کہا فتنہ کی جڑ یہاں ہے اور یہیں سے شیطان کی سینگ نکلےگی۔(۳)

عبداللہ ابن عمر ہی کہتے ہیں کہ ایک دن سرکارؐ عائشہ کے حجرہ کا سہارا لےکر کھڑے تھے اور فرمارہے تھے فتنہ یہاں پر ہے فتنہ یہاں پر ہے یہیں سے شیطان کی سینگ نکلیں گے(۴) پھر ان عمر ہی سے روایت ہے کہ حضرت نے منبر کی طرف بڑھتے ہوئے فرمایا فتنہ یہاں ہے اور یہیں سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ مدینہ منورہ ج:۱ص:۹۴،اسی طرح الزہد لابن مبارک ص:۱۷۱،المصنف عبدالرزاق ج:۳ص:۵۷۵،کتاب الجنائز،قبروں پر سلام کے باب میں،تفسیر ثعلبی ج:۴ص:۱۵۴

(۲)صحیح بخاری ج:۲ص:۸۷۱،کتاب المظالم:باب اماطۃ الاذی،صحیح مسلم ج:۴ص:۲۲۱۱،کتاب الفتن و اشتراط الساعۃ:باب نزوالفتن کمواقع القطر،المستدرک علی صحیحین ج:۴ص:۵۵۳،کتاب الفتن و الملاحم،مسند احمدج:۲ص:۲۰۰،حدیث اسامہ بن زید

(۳)مسند احمدج:۲ص:۲۳،اور اسی طرح مسند عبداللہ بن عمر بن خطاب میں ص:۲۶

(۴)السنن الواردہ فی الفتن ج:۱ص:۲۳۵،نبی کے قول کے باب میں،فتنہ شرق کی طرف سے ہوگا

۱۵۰

شیطان کے سینگ نکلیں گے۔(۱)

نافع نے عبداللہ سے روایت کی ہے کہ پیغمبر ممنبر سے خطبہ دے رہے تھے کہ آپ نے عائشہ کے گھر کی طرف اشارہ کیا اور تین مرتبہ فرمایا کہ وہاں فتنہ ہے وہیں سے شیطان کے سینگ نکلیں گے۔(۲)

ابی مویہبہ جو پیغمبرؐ کے غلام تھے کہتے ہیں کہ ایک دن سرکار جنت البقیع کے قبرستان میں داخل ہوئے اور فرمایا اے قبر میں سونےوالو تم پر سلام ہو جس حال میں تم ہو وہ زندہ لوگوں سے بہت بہتر ہے کاش تم جان سکتے کہ اللہ نے کن برے حالات سے تمہیں نجات دی ہے فتنے بڑھے چلے آرہے ہیں جیسے اندھیری رات آتی ہے،جس میں ایک فتنہ کے بعد دوسرا فتنہ آرہاہے اور دسرا فتنہ پہلے فتنہ سے بڑا ہے۔(۳)

کعب بن عجرہ انصاری کہتے ہیں کہ ہم مسجد نبوی میں بیٹھے تھے اور ہم نو آدمی تھے کہ پیغمبرؐ مسجد میں داخل ہوئے اور تین بار فرمایا کہ کیا تم سن رہے ہو تمہارے اوپر کچھ لوگ امام ہونےوالے ہیں پس جوان کے جھوٹ کی تصدیق اور ان کے ظلم کی تائید کرےگا وہ مجھ سے نہیں ہے نہ میں اس سے ہوں وہ حوض کوثر پر مجھ سے نہیں ملےگا اورجوان کے پاس جاکر ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کرےگا اور ان کے ظلم میں اعانت نہیں کرےگا وہ مجھ سے اور میں اس سے ہوں وہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرےگا۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)فوائد للیث بن سعدص:۷۰،گیارویں حدیث

(۲)صحیح بخاری ج:۳ص:۱۱۳۰،ازواج نبی کے بیوت کے باب میں

(۳)مسند احمدج:۳ص:۴۸۹،حدیث ابی مویہبہ مولی رسول اللہ،المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۵۷،کتاب المغازی،مجمع الزوائدج:۹ص:۲۴،کتاب علامات النبوۃ،باب تخّیر بین الدنیا والآخرۃ،المعجم الکبیرج:۲۲ص:۳۴۶،اور اسی طرح سنن الدارمی ج:۱ص:۵۰،باب وفات النبیؐ طبقات الکبریٰ ج:۲ص:۲۰۴،فی ذکر خروج رسول اللہ

(۴)السنن الکبریٰ بیہقی ج:۸ص:۱۶۵،کتاب قتال اہل البغی:جماع ابواب العاۃ...،مجمع الزوائدج:۵ص:۲۴۷،کتاب الخلافۃ:باب فیمن یصدق الامراء،المعجم الکبیرج:۱۹ص:۱۴۱،شعب الایمان ج:۷ص:۴۶،السادس و الستون من باب الایمان

۱۵۱

اور اسی طرح اس کے علاوہ بھی حدیث ہے(۱)

ابومریم کی حدیث ہے کہ میں نے عماریاسر کو کہتے سنا کہ انہوں نے ابوموسیٰ سے کہا اے ابوموسی میں تمہیں خدا کی قسم دے کے پوچھ رہاہوں کہ پیغمبرؐ نے خاص کر تمہاری طرف متوجہ ہوکے نہیں کہا تھا کہ ہماری امت میں عنقریب فتنہ اٹھنےوالا ہے اے ابوموسیٰ اس وقت تم سوجاؤگے جب کہ اٹھ بیٹھنےوالا تم سے بہتر ہوگا اور تم بیٹھے ہوگے جب کہ کھڑا رہنےوالا تم سے بہتر ہوگا اور تم کھڑے ہوگے جب کہ چلنے والا تم سے بہتر ہوگا ابوموسیٰ پیغمبرؐ نے خاص تمہیں مراد لیا تھا اور لوگوں کو شامل نہیں کیا تھا،راوی کہتا ہے کہ یہ سن کے ابوموسیٰ بہت خاموشی سے کھسک گئے اور عمار کا کوئی جواب نہیں دیا۔(۲)

حذیفہ کہتے ہیں ہم پیغمبرؐ کی خدمت میں تھے کہ آپ نے فرمایا جو لوگ اسلام کا اقرار کرتے ہیں انہیں شمار تو کرو ہم نے خدا کے رسول ہم لوگ چھ یا سات سال سو ہیں آپ کو ہمارے بارے میں کوئی خوف ہے کیا؟آپ نے فرمایا تمہیں معلوم نہیں ہے تم لوگ آزمائے جاؤگے حذیفہ کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی اور ہم لوگ ایسے آزمائش میں پڑے کہ چھپ کے نماز پڑھی پڑی(۳) اور پیغمبرؐ کے دور کی نماز کو چھپاکے پڑھنا ہمیں ضروری ہوگیا ورنہ نمازیں ہمارے یہاں جماعت سے پڑھی جاتی تھیں لیکن نبی والی نماز نہیں تھی(ختم حدیث)مناسب معلوم ہوتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)السنن الکبریٰ بیھقی ج:۸ص:۱۶۵،کتاب قتال اہل البغی:جماع ابواب الرعاۃ،سنن الترمذی ج:۴ص:۵۲۵،کتاب الفتن،المستدرک علی صحیحین ج:۱ص:۱۵۱،کتاب الایمان،صحیح ابن حبان ج:۱ص:۵۱۳ اسی طرح،ص:۵۱۷،کتاب البر و الاحسان:باب الصدق و الامر بالمعروف،اور ص:۵۱۹،مسند احمدج:۴ص:۲۴۳،المعجم الکبیرج:۱۹ص:۱۳۵،۱۳۴،اور اسی مضمون میں ص:۴۱

(۲)مجمع الزوائدج:۷ص:۲۴۶،کتاب الفتن:باب فی الحکمین،الکامل فی الضعفاءج:۵ص:۱۸۶حالات علی بن فیروز میں،تاریخ دمشق ج:۳۲ص:۹۲،حالات عبدالبر بن قیس بن سلیم میں

(۳)مصنف بن ابی شیبہ ج:۷ص:۴۶۸،کتاب الفتن:باب من کرہ الخروج فی الفتنۃ...،صحیح ابن حبان ج:۱۴ص:۱۷۱کتاب التاریخ،باب

۱۵۲

ابتداءاسلام میں اسلام کا دعویٰ کرنےوالے،سنن للنسائی ج:۵ص:۲۶۷،الایمان لابن مسندہ ج:۱ص:۵۳۶،ایسی روایت کا ذکر جس میں پہلے اسلام لانےوالوں کو مقدم کیا گیا ہے

ہے کہ ایک بار پھر آپ کے گوش گذار کروں کہ انس کے بیان کے مطابق یا تو وہ نماز جو رسول کے ساتھ پڑھتے تھے بھول گئے یا جان بوجھ کے وہ نماز چھوڑ دی تھی۔

سرکار دو عالمؐ نے تو بعض صحابہ کے گمراہ ہونے کی یا منافق ہونے کی یا اسلام سے کل جانے کی صراحت کردی تھی،مثلاً آپ نے فرمایا تھا کہ عمار کو قتل کرنے والا آپ کا لباس چھیننےوالا جہنمی ہوگا۔(۱)

یا یہ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرےگا۔(۲)

اور آپ نے حکم دیا تھا کہ جب معاویہ کو منبر یا اس کی لکڑیوں پر دیکھنا تو اس کو قتل کردینا۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الطبقاب الکبریٰ ج:۳ص:۲۶۱،فی ذکر(و من خلفاء بنی مخزوم(عمار بن یاسر)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۴۳۷،کتاب معرفۃ الصحابہ(عمار بن یاسر)کے مناقب میں،سیر اعلام نبلاءج:۴۲۶،۴۲۵،حالات عمار بن یاسر میں،الاصابۃ ج:۷ص:۳۱۲،حالات ابی الفادیہ جہنی میں،مجمع الزوائدج:۷ص:۲۴۴،کتاب الفتن:باب فما کان بینھم فی الصفین،مسند احمدج:۴ص:۱۹۸،عمر بن عاص نے رسولؐ سے حدیث نقل کی

(۲)صحیح بخاری ج:۱ص:۱۷۲،کتاب الصلوٰۃ:باب المساجد،اور ج:۳ص:۱۰۳۵،کتاب الجہاد و السیر:باب مسح الغبار عن الناس فی السبیل،صحیح مسلم ج:۴ص:۲۲۳۶،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل..

(۳)سیر اعلام النبلاء ج:۳ص:۱۴۹،حالات معاویہ میں اورج:۶ص:۱۰۵،حالات عمر بن عبید میں،تھذیب التھذیب ج:۲ص:۳۶۸،حالات الحکم بن ظہیر الفزاری میں،ج:۵ص:۹۵،حالات عباد بن یعقوب میں،ج:۸ص:۶۴،حالات عمر بن عبید میں،ج:۷ص:۲۸۴،حالات علی بن زید بن جدعان میں،الکافی فی الضعفاءج:۲ص:۱۴۶حالات جعفر بن سلیمان الضعبی میں،ص:۲۰۹،حالات حکم بن ظہیر میں ج:۵ص:۹۸۔۱۰۱۔۱۰۳،حالات عمر بن عبید میں ص:۲۰۰،حالات علی بن زید بن جدعان میں،ص:۳۱۴،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں،ج:۶ص:۴۲۲،حالات مجالد بن سعید بن عمیر میں،ج:۷ص:۸۳،حالات الولید بن قاسم بن الولید میں المجروحین لابن حبان ج:۱ص:۱۶۲،حالات احمد بن محمد بن مصعب میں،ص:۲۵۰،حالات حکم بن ظھیر میں،ج:۲ص:۱۷۲،حالات عبادہ بن یعقوب میں،الضعفاءللعقیلی ج:۳ص:۲۸۰،حالات عمروبن عبید بن باب میں،العلل و معرفۃ الرجال ج:۱ص:۴۰۶،تاریخ دمشق ج:۵۹ص:۱۵۷،۱۵۶،۱۵۵،حالات معاویہ بن صخر ابی سفیان میں

۱۵۳

عبداللہ ابن زبیر کے بارے میں فرمایا تھا کہ مکہ میں ایک منیڈھا الحاد کرےگا جو قریشی ہوگا اور اس کا نام عبداللہ ہوگا وہ ساری دنیا کے گناہوں کے مقابلے میں اس کا آدھا گناہ ہوگا یا یہ مکہ کے حرم کو قریش کا ایک شخص حل سے بدل دےگا،اگر اس کے گناہوں کو تولا جائے تو ثقلین کے گناہوں سے بھاری پڑےگا۔(۱) اور حضرت نے ناکثین قاسطین اور مارقین سے لڑنے کا حکم دیا تھا۔(۲)

چنانچہ مخنف بن سلیم سے روایت ہے کہ ہم لوگ ابوایوب انصاری کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ ضعا میں اپنےکچھ گھوڑوں کو چرارہے تھے تو ہم نے کہا ابوایوب آپ نے پیغمبرؐ کی قیادت میں تو مشرکوں سے جنگ کی اب آپ مسلمانوں سے لڑنے نکلے ہیں ابوایوب نے فرمایا ہمیں پیغمبرؐ نے ناکثین،قاسطین اور مارقین سے لڑنے کا حکم دیا تھا ہم قاسطین اور ناکثین سے تو لڑچکے اور انشااللہ اب ہم مارقین سے نہروان میں لڑیں گے اور نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں۔(۳) جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ میں نے سرکار سے پوچھا کہ حضورؐ کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمیں مکہ میں رہنے کی وجہ سے اجر نہیں ملےگا حضورؐ نے فرمایا ضرور اپنا اجر پاؤگے چاہے تم سخت پتھروں کے درمیان رہو وہ کہتا ہے کہ یہ سن کرکے میں آپؐ کی طرف جھکا آپؐ نے فرمایا میرے اصحاب کچھ منافق ہیں(۴)اور ابومسعود کہتے ہیں کہ ایک دن سرکارؐ نے خطبہ میں خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مجمع الزوائدج:۳ص:۲۸۴۔۲۸۵،کتاب الحج:باب فی حرم مکۃ و النھی عن استحلالھا،اور اسی طرح تاریخ دمشق ج:۲۸ص:۲۱۸۔۲۱۹،حالات عبدالبر بن الزبیر میں

(۲)المستدرک علی صحیحین ج:۴ص:۱۵۰،کتاب معرفۃ الصحابہ،مجمع الزوائدج:۵ص:۱۸۶،کتاب الخلافۃ:باب الخلفاءوالاربعۃ،کتاب خلافت چاروں خلیفہ کے باب میں ج:۷ص:۲۳۸،کتاب الفتن:باب فیما کان بینھم فی صفین،مسند ابی یعلی ج:۱ص:۳۷۹،مسند علی بن ابی طالب میں،مسند البرازج:۲ص:۲۱۵ج:۳ص:۲۷،مسند شاشی ج:۲ص:۳۴۲،المعجم الکبیرج:۴ص:۹۱

(۳)مجمع الزوائدج:۶ص:۲۳۵،کتاب قتال اہل البغی:باب ما جاء فی ذی الثدیۃ اور اسی طرح معجم الکبیرج:۴ص:۱۷۲،الکامل فی الضعفاءج:۲ص:۱۸۷،حالات الحارث بن حصیرۃ الازدی میں

(۴)مجمع الزوائدج:۵ص:۲۵۲،کتاب الجہاد:باب ہجرۃ الباثہ و البادیۃ اور اسی طرح مسند احمدج:۴ص:۸۳،جبیر بن مطعم کی حدیث میں،مسند الطیاسی ج:۲ص:۱۲۸،جبیر بن مطعم کی حدیث میں

۱۵۴

مسلمانو!تمہارے درمیان بیٹھے ہیں تو میں جس کا نام لوں وہ کھڑا ہوجائے اس کے بعد آپ نے فرمایا اے فلان اٹھ جا،اے فلان اٹھ جا،اے فلان اٹھ جا،اس طرح آپ نے چھتیس آدمیوں کو اٹھایا پھر فرمایا تمہارے ہی اندر ہے ہاں تم ہی میں سے ہے،پس خدا سے ڈرو۔(۱)

مسلم اپنی سند کے ساتھ حذیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا ہمارے اصحاب میں بارہ منافق ہیں ان میں تو آٹھ جنت میں داخل ہی نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ سوئی کے ناکے میں اونٹ داخل ہو۔(۲)

مسلم کہتے ہیں کہ سرکار دو عالمؐ نے فرمایا میں اس آدمی جیسا ہوں جس نے آگ روشن کی اور جب آگ روشن ہوگئی تو اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے لیکن آگ میں اس کا سامان جل رہاہے یہی مثال ہماری اور تمہاری ہے میں نے تمہارے کمربند کو پکڑ رکھا ہے تا کہ آگ سے باہر کھینچ لوں پس آگ سے بچو آگ سے بچو،اگر تم مجھ سے بھاری پڑے تو آگ میں گرجاؤگے(۳) اس طرح کی روایت جناب جابر سے ہے حضور نے فرمایا میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی تو آگ نے اس کا بستر اور ساز و سامان پکڑلیا وہ اپنے سامان کو بچا تو رہا ہے مگر میں نے تمہیں آگ سے بچانے کے لئے پکڑ رکھا ہے اور تم میرے ہاتھوں سے پھسلے جارہےہو۔(۴)

زبیر بن عوام کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تمہارے جسم میں گذشتہ امتوں کی بیماریاں داخل ہوگئی ہیں یعنی حسد اور بغض اور بغض کو کاٹنےوالی ہیں سر کے بال کاٹنے والی نہیں دین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مسند احمدج:۵ص:۲۷۳،حدیث ابی سعود عقبہ،مسند عبدبن حمیدص:۱۰۶،المعجم الکبیرج:۱۷ص:۲۴۶،حدیث عیاض بن عیاص

(۲)صحیح مسلم ج:۴ص:۲۱۴۳،کتاب صفات المنافقین،سنن کبریٰ بیھقی ج:۸ص:۱۹۸،کتاب المرتد:باب ما یحرم بہ الدم،مسند احمدج:۵ص:۳۹۰،حدیث حذیفۃ بن الیمان

(۳)صحیح مسلم ج:۴ص:۱۷۸۹،کتاب الفضائل:باب شفقۃ،صحیح بخاری ج:۵ص:۲۳۷۹،کتاب الرقاق:باب الانتھاءعن المعاصی،مسند احمدج:۲ص:۳۱۲،مسند ابی ہریرہ میں

(۴)صحیح مسلم ج:۴ص:۱۷۹۰،کتاب الفضائل:شفقتہ علی امتہ،تفسیر قرطبی ج:۲۰ص:۱۶۵،الترغیب و الترھیب ج:۴ص:۲۴۵، ،کتاب صفۃ الجنۃ و النار

۱۵۵

کا گلا اتارنےوالی،ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے جب تک تم آپس میں محبت نہیں کروگے اس وقت تک تمہارا ایمان ثابت نہیں ہوگا۔(۱) ام سلمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں سرکارؐ نے کہا میرے اصحاب میں کچھ ایسے بھی اصحاب ہیں جو مجھے مرنے کے بعد نہیں دیکھیں گے اور نہ میں ان کو دیکھوں گا۔(۲) عقبہ کہتے ہیں ایک دن سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی کی نماز جنازہ پڑھانے نکلے نماز کے بعد آپ منبر پر گئے اور آپ نے فرمایا مسلمانوں میں تم سے پہلے مرنےوالا ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں خدا کی قسم اس وقت میں اپنے حوض کو دیکھ رہاہوں مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں خدا کی قسم میں اس سے نہیں ڈرتا کہ میرے بعد شرک اختیار کروگے بلکہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا میں الجھ جاؤگے۔(۳) انس کہتے ہیں سرکارؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر میرے دو صحابی لائے جائیں گے۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مسند احمدج:۱ص:۱۶۳،مسند الذبیر بن العوام،سنن ترمذی ج:۴ص:۶۶۴،۶۶۳،کتاب صفۃ القیامۃ و الرقائق:باب لم یعنونہ،مجمع الزوائدج:۸ص:۳۰،کتاب الادد:باب ماجاء فی الاسلام سنن الکبری بیھقی ج:۱۰ص:۲۳۲،کتاب الشہادات:جماع ابواب من تجوز شہادتہ..،مسند البرازج:۶ص:۱۹۲،مسند شناشی ج:۱ص:۱۱۴،فیما رواۃ یعیش بن الولید مولی ابن الزبیر عنہ،مسند الطیالسی ج:۱ص:۱۲۷،احادیث الزبیر بن عوام میں

(۳)صحیح بخاری ج:۵ص:۲۴۰۸،کتاب الرقاق:باب فہ الحوض،صحیح مسلم ج:۴ص:۱۷۹۵،کتاب الفضائل:باب اثبات حوض نبینا ص وصفاتہ،سنن الکبریٰ بیہقی ج:۴ص:۱۴،جماع ابواب الشہید...،مسند احمدج:۴ص:۱۴۹،حدیث عقبۃ بن عامر الجہنی،صحیح ابن حبان ج:۸ص:۱۸،کتاب الزکوٰۃ:باب جمع المال من حلہ...،مسند رویانی ج:۱ص:۱۵۷،مسند مرثد بن عبداللہ،سیر اعلام النبلاءج:۶ص:۳۳،حالات یزید بن ابی حبیب

(۴)مسند احمدج:۳ص:۱۴۰،مسند انس بن مالک میں

۱۵۶

ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے یہ کہتے ہیں پیغمبرؐ کے بعد پیغمبرؐ سے رشتہ داری لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچائےگی خدا کی قسم مجھ سے رشتہ داری دنیا اور آخرت دونوں جگہ فائدہ دےگی۔

اے لوگو!میں تم سے پہلے حوض پر پہنچوں گا،جب تم آؤگے تو تم میں سے ایک کہےگا اے خدا کے رسولؐ میں فلاں ہوں اور فلاں کا بیٹا ہوں میں کہوں گا جہاں تک خاندان کا سوال ہے وہ تو میں جانتا ہی ہوں لیکن تم نے میرے بعد بھی کچھ کارنامے انجام دیئے ہیں اور اپنے پچھلے مذہب پر پلٹ گئے۔(۱)

ابوہریرہ کہتے ہیں حضور نے فرمایا کے میرے اصحاب میں سے کچھ لوگ قیامت کے دن میرے پاس آتئیں گے لیکن انہیں حوض کے پاس سے بھگا دیا جائےگا میں آواز دوں گا مالک یہ تو میرے اصحاب ہیں جواب ملےگا وہ تو ہیں لیکن انھوں نے آپ کے بعد بھی کچھ کانامے انجام دیئے ہیں جو آپ کو معلوم نہیں ہیں یہ لوگ اپنے پچھلے مذہب پر پلٹ گئے تھے۔(۲)

دوسری حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا میں قیامت میں حوض کے کنارے کھڑا ہوں گا کہ اس وقت ایک گروہ میرے سامنے سے گذرےگا جس کو میں پہچانتا ہوں گا کہ میرے بعد ان کے درمیان ایک آدمی آکے کھڑا ہوجاےگا اور ان سے کہے چلو،میں پوچھوں گا کہاں جواب ملےگا جہنم میں پوچھوں گا ان کا قصور کیا ہے؟جواب ملےگا انہوں آپ کے بعد بہت سے کارنامے انجام دیئےہیں اور اپنےپچھلے مذہب پر واپس پلٹ گئے تھے پھر ایک گروہ آئےگا جن کو میں پہچان رہا ہوں گا کہ ایک آدمی میرے بعد ان کے درمیان آکے کہےگا چلو میں پوچھوں گا کہاں جواب ملےگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مجمع الزوائدج:۱۰ص:۳۶۴،کتاب البعثت:باب ماجاءفی حوض النبیؐ اور اسی طرح مسند ابی یعلی ج:۲ص:۴۳۳،مسند ابی سعید خدری میں،مسند عبد بن حمیدج:۱ص:۳۰۴،مسند ابی سعید خدری میں،فتح الباری ج:۱۱ص:۳۸۶

(۲)صحیح بخاری ج:۵ص:۲۴۰۷،کتاب الرقاق:باب فی الحوض،تفسیر قرطبی ج:۴ص:۱۶۸،مسند عمر بن خطاب ص:۸۶،تغلیق تعلیق ج:۵ص:۱۸۶،کتاب الرقاق:باب فی الحوض

۱۵۷

جہنم میں پوچھوں گا انہوں نے کیا کیا ہے؟جواب ملےگا آپ کے بعد اپنے پچھلے مذہب پر رجعت قہقری کی ہے تو میں ان میں سے کسی کو نجات یافتہ نہیں دیکھتا مگر جیسے بھولا بھٹکا کوئی اونٹ۔(۱)

جابر بن عبداللہ انصاریؒ سے روایت ہے کہ پیغمبرؐ نے اپنی مسجد سے بہت سے لوگوں کو نکال دیا اور کہا مسجد میں سویا نہ کرو لوگ نکلنے لگے تو علیؑ بھی ان کے ساتھ نکلے آپ نے علیؑ سے کہا تم مسجد میں واپس جاؤ اس میں جو میرے لئے حلال ہے وہ تمہارے لئے بھی حلال ہے گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں تم ان لوگوں کو حوض کوثر سے ہٹا رہے ہو اور تمہارے ہاتھ میں ایک عصا اور عوسج ہے۔(۲)

میں نے حدیثوں کے سمندر سے کچھ قطرے آپ کی خدمت میں پیش کردیئے ہیں اس لئے کہ گنجائش بہت کم تھی،ہم نے شیعوں کی دلیلں نہیں پیش کیں نہ ان کے نظریات پیش کئے اس لئے کہ ہم وہ نہیں چاہتے تھے۔اب ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ رضائے حق کا طالب ہو اور خدا کے غضب سے ڈرے اس کی سزا سے بچے اور خلوص کے ساتھ اپنی تحقیق کو مکمل کرے تا کہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہے ارشاد ہوتا ہے۔

(و من جاهد فانّما یجاهد لنفسه انّ الله لغنی عن العالمین)(۳)

ترجمہ:جو کوشش کرتا ہے وہ اپنے نفس ہی کے لئے کوشش کرتا ہے اللہ تو تمام عالم سے بےنیاز ہے۔

جب خدا اس کے جذبہ خلوص اور تلاش و جستجو کے ارادوں کو جان جاےگا تو اس کی طرف سے مدد بھی ہوگی اور وہ حق کے راستے کی ہدایت بھی کردےگا ارشاد ہوتا ہے: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)صحیح بخاری ج:۵ص:۲۴۰۸،۲۴۰۷،۲۴۰۶،۲۴۰۴،کتاب رقاق،باب حوض میں

(۲)تاریخ المدینۃ المنورہ ج:۱ص:۳۸

(۳)سورہ عنکبوت:آیت۶

(۴)سورہ عنکبوت آیت۶۹

۱۵۸

ترجمہ:جو ہماری راہ میں کوشش کرتا ہے ہم اسے اسے اپنے راستے کی ہدایت بھی کردیتے ہیں اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

ایک تنبیہ اس بات کے لئے کہ صحابہ طبیعت بشری پر تھے اور اس کے تقاضون کو پورا کرنے پر مجبور تھے

یہ بات زیادہ قابل توجہ ہے کہ صحابہ بہرحال انسان تھے اور انسانی طبیعت کے تقاضون کو پورا کرنے پر مجبور تھے،ایک انسان کے اندر خیر و شر کے دواعی موجود رہتے ہیں اور اس کا نفس خیر و شر کے درمیان الجھا رہتا ہے اس طرح صحابہ نے اپنی زندگی کے بہت سے سال ایام جاہلیت میں گذارے اور جاہلیت کی عادتیں ان کے اندر جڑ پکڑچکی تھیں اور اسلام بھی ایک اصلاحی دعوت ہے جس کے ذریعہ انہیں بلایا گیا اور اصلاح کی کوشش کی گئی پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ محض کلمہ پڑھ لینے سے اچانک ان کی طبیعتیں بدل گئیں اور نفس صاف ہوگئے جب کہ اسلام میں داخل ہونے کے وقت پر مسلمانوں کے حالات جدا جدا تھے،کوئی رغبت کے ساتھ مسلمان ہوا،کوئی خوف سے ان کے اسلام لانے کی بنیاد تک کہ اسلام کی طرف متوجہ کرنے کے لئے حضور کو ان کی تالیف قلب کرنی پڑی اور مال کے ذریعہ ان کو اپنی طرف راغب کرنا بڑا،حسن اخلاق کے ذریعہ اور کبھی تال میل اور غلطیوں سے چشم پوشی کرکے سرکارؐ نے انہیں مسلمان بنائے رکھا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

(فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْوَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ)(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ آل عمران آیت۱۵۹

۱۵۹

ترجمہ:آپ خدا کی رحمت کی وجہ سے ان کے لئے بہت نرم ہیں اگر آپ بداخلاق اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے چلے جاتے پس آپ انہیں معاف کرتے رہیں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کے ساتھ ہی امور میں مشورہ بھی کرتے رہیں۔

بلکہ جو لوگ اسلام پر اعتماد کرکے یا بصیرت قلب کی بنیاد پر اسلام کو قبول کرچکے تھے ان کے بارے میں بھی یہ فرض نہیں کہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہ جائیں اور فتنوں کے دور میں استقامت سے کام لیں،اس لئے کہ نفس انسانی برائی کی طرف کھینچتا ہے اور شیطان اپنے ہاتھ سے موقع جانے نہیں دیتا،ہمارے لئے سامری کے واقعہ میں ایک بڑا مقام عبرت ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ایمان کے باوجود موسی کے اصحاب کس طرح راہ حق سے ہٹ گئے اور فتنہ میں گرفتار ہوگئے،قرآن مجید حکایت کرتا ہے: ( قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي) (۱)

ترجمہ:سامری نے کہا میں نے وہ بات دیکھی جو آپ کے صحابہ نہ نہیں دیکھی تھی تو میں نے جبرائیل کے نشان قدم سے ایک مٹھی خاک اٹھائیپس میں نے اس کو ذخیرہ کرلیا اور میرے نفس نے مجھ سے یہی سوال کیا تھا۔

بلعم باعور کا واقعہ کم عبرت ناک نہیں جس کی تفصیل قرآن بیان کرتا ہے: (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ-وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ) (۲)

-----------------

(۱)سورہ طہ آیت:۲۳

(۲)سورہ اعراف ۱۷۵،۱۷۶

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296