فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ26%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130358 / ڈاؤنلوڈ: 6767
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ترجمہ:اور اس کی خبر بھی بتادیجیے جس کو ہم نے اپنی نشانی دی تھی وہ اس کے ہاتھ سے نکل گئی اور شیطان اس کے پیچھے پڑگیا،پس وہ گمراہ ہوگیا اور ہم چاہتے تو اس کو اس کے ساتھ لیتے لیکن ہم نے اسے ہمیشہ کے لئے زمین ہی میں رہنے یا تو وہ اپنے خواہش نفس کی پیروی کرنےلگا،وہ تو کتّے جیسا ہوگیا کہ اس پر بار لادو جب بھی زبان نکالےگا اور چھوڑ دو جب بھی زبان نکالےگا،جیسے وہ قوم جو ہماری نشانیاں جھٹلاتی ہے تو آپ اسکے قصے بیان کردیں تا کہ یہ لوگ سوچیں۔یاد رکھئے مخلوقات کے سلسلے میں اللہ کی سنت ایک ہی ہے-(وَلَنتَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا) (۱) ترجمہ:اور کبھی تم اللہ کی سنت کو تبدیل ہوتا ہوا نہیں پاؤگے۔

میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں گمراہ کن فتنوں سے اور برے نتیجوں سے سوائے خدا کے کوئی بچانے والا بھی نہیں ہے اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنےوالا ہے۔صحابہ کے موضوع پر اہل سنت اور شیعوں کے درمیان ہر دور میں بحث ہوتی رہی ہے۔سب کا تذکرہ کرنے کی اس خط میں گنجائش نہیں ہے،اگر مزید معلومات چاہئے تو ان کتابوں کا مطالعہ کیجئے جو ساتویں صدی کے بعض علما نے لکھی ہیں اور ان کی تفصیل ابن ابی الحدید نے لکھی ہے(۲) اس موضوع پر وہ کتاب بہت فائدہ بخش ہوگی،لیکن ہم اس بات کی ذمہ داری نہیں لیتے کہ اس کتاب کی سب باتیں آپ کی خدمت میں پیش کردیں گے۔

گذشتہ بیانات کی روشنی میں شیعوں کا صحابہ کے بارے میں نظریہ

گذشتہ بیانات کو دیکھتے ہوئے شیعہ اس معاملے میں حق بجانب ہیں کہ وہ تمام صحابہ کو مقدس اور محترم نہیں سمجھتے اور صحابہ کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ قابل تنقید بات کرتے ہیں اور ان کے بارے میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فتح آیت:۲۳

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۲ص:۱۰،اور اس کے بعد

۱۶۱

ان کے اعمال اور سلوک کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں صحابہ کے بارے میں بولنے سے پہلے انہیں شریعت اور عقل کے ضابطوں پر پرکھتے ہیں تا کہ جو کچھ بولیں دلیل کے ساتھ بولیں اس لئے شیعوں کی نظر میں صرف وہی صحابہ قابل تعظیم ہیں جنہوں نے حق کو لازم سمجھا عقیدہ اور سلوک میں ثابت قدم رہے اور اپنے پروردگار کے امر کو کج فہمی کا شکار نہ بنایا بلکہ وجائے عہد کرتے رہے یہ وہ صحابہ ہین جن کی شیعہ تعظیم بھی کرتے ہیں تقدیس بھی کرتے ہیں اور ان پر فخر بھی کرتے ہیں،اس لئے کہ یہی لوگ وہ ہیں جن کے سہارے اسلام کی چکی چلتی ہے اور دین کا ستون کھڑا ہے،یہ لوگ موالات کے قابل ہیں بلکہ حق تو یہ ہے کہ یہی لوگ اللہ کے ولی ہیں،جیسا کہ خداوند عالم ان کی تعریف میں ارشاد ہوتا ہے: ( إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ-نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ-نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ) (۱) ترجمہ:بیشک وہ لوگ جنہوں نے یہ کہہ دیا کہ ہمارا پروردگار تو بس اللہ ہے اور اسی بار پر قائم رہے ان کے یہاں فرشتے نازل ہوتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ڈرو نہیں گھبراؤ نہیں اور اس جنّت کی بشارت حاصل کرو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ہم دنیا اور آخرت میں تمہارے سرپرست ہیں جنّت میں تم جو چاہوگے تمہیں ملےگا اور جو مانگوگے پاؤگے فرشتوں کا نزول خدائے غفور و رحیم کی طرف سے ہوتا ہے۔

اور جس نے عہد کو توڑا حق سے جدا ہوگیا عقیدہ بدلا پچھلے مذہب پر پلٹا وہ سزا وبال اور لعنت کا مستحق ہے چاہے وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ سورہ فتح میں ارشاد ہوتا: (فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فصلت آیت۳۲،۳۱،۳۰

۱۶۲

فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا)(۱)

ترجمہ:پس جو اپنے عہد کو توڑدے اس نے اپنے نفس ہی کے عہد کو توڑا ہے اور جو اللہ سے کئے ہوئے وعدے کو وفا کرتا ہے اس کو اللہ اجر عظیم دیتا ہے۔

سورہ رعد میں ارشاد ہوتا ہے:( وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِأُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ) (۲)

ترجمہ:جو لوگ اللہ سے عہد باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جہاں اللہ نے ملنے کا حکم دیا ہے وہ قطع تعلق کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے رہتے ہیں ان پر لعنت ہے اور ان کا بڑا ٹھکانہ ہے۔

خدا کی راہ میں محبت خدا کی راہ میں روشنی

قرآن مجید نے ان سے محبت کرنے کی بہت سخت تاکید کی ہے جو اللہ سے محبت کرتے ہیں اور ان کو دشمن رکھتے ہیں،حدیث نبوی اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ارشادات بھی اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ خدا کی راہ میں محبت کی جائے اور خدا ہی کی راہ میں دشمنی کی جائے۔

چنانچہ سورہ مجادلہ میں ارشاد ہوتا ہے: (لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْأُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ) (۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فتح آیت۱۰

(۲)سورہ رعد آیت۲۵

(۳)سورہ مجادلہ آیت:۲۲

۱۶۳

ترجمہ:جو لوگ اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں انہیں تم اللہ اور اللہ کے رسول کے دشمنوں سے محبت کرتا ہوا نہیں پاؤگے چاہے وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے ہوں ان کے بھائی ہوں،ان کے خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان بیٹھ گیا ہے اور ایمان کی روح ان کی تائید کرتی رہتی ہے۔

اور سورہ ہود میں ارشاد ہوتا ہے کہ:فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلاَ تَطْغَوْاْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌوَلاَ تَرْكَنُواْ إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ أَوْلِيَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ (۱)

ترجمہ:آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس پر قائم رہئے اور وہ بھی قائم رہیں جو آپ کے ساتھ توبہ کرتے ہیں اور تم لوگ طغیانی مت کرنا اس لئے کہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور ظالموں کا سہارا تو لینا ہی نہیں ورنہ آگ تم کو چھولےگی،یاد رکھو خدا کے علاوہ کوئی تمہارا ولی نہیں(اگر تم نے ظالموں کا سہارا لیا)تو پھر تمہاری مدد نہیں کی جائےگی۔

عمروبن مدرک طائی امام صادق علیہ السلام سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ سرکار نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ ایمان کے لئے سب سےزیادہ قابل اعتماد کیا پہچان ہے؟لوگوں نے کہا اللہ اور اللہ کا رسول بہتر جانتا ہے بعض لوگوں نے کہا کہ مومن نماز سے پہچانا جاتا ہے کسی نے کہا زکوٰۃ سے،کسی نے کہا روزے سے،کسی نے کہا حج اور عمرہ سے اور کسی نے کہا جہاد سے آپ نے فرمایا تم نے جن اعمال کا بھی ذکر کیا سب کی فضیلت اپنی جگہ پر ہے،لیکن یہ چیزیں ایمان کی قابل اعتماد نشانی نہیں بن سکتیں،البتہ قابل اعتماد سہارا ایمان کا اللہ کی راہ میں محبت اور اللہ کی راہ میں بغض ہے اور اللہ کے دوستوں سے محبت کرنا اور اللہ کے دشمنوں سے الگ رہنا۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ ہود آیت۱۱۲۔۱۱۳

(۲)الکافی ج:۲ص:۱۲۵۔۱۲۶کتاب الایمان و الکفر باب الحب فی اللہ و البغض فی اللہ چھٹی حدیث

۱۶۴

عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ سرکار نے کہا اے عبداللہ سب سے زیادہ قابل اعتماد سہارا اسلام کا کیا ہے؟میں نے کہا اللہ اور اللہ کا رسول بہتر جانتا ہے،آپ نے فرمایا خدا کی راہ میں ولا،خدا کی راہ میں محبت اور خدا کی راہ میں بغض۔(۱)

ابن عمر کی حدیث ہے کہ حضرت فرمایا خدا کی راہ میں محبت کرو خدا ہی کی راہ میں بغض کرو خدا کی راہ میں دوستی کرو خدا ہی کی راہ میں دشمنی کرو،تم اسی کے ذریعہ خدا کی ولایت کو پاسکتے ہو انسان ایمان کا مزہ پا ہی نہٰں سکتا جب تک محبت اور عداوت کا معیار خدا کی ذات کو نہ بنائے چاہے کتنا ہی روزہ دار ہو چاہے کتنا ہی نمازی ہو۔(۲)

اسحاق ابن عمار کی حدیث امام صادق علیہ السلام سے ہے حضرت نے فرمایا جو دین کی بنیاد پر محبت نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں(۳) اور اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جنھیں اہل سنت نے بھی روایت کی ہیں اور شیعوں نے بھی۔(۴)

شیعوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ کی آواز پر لبیک کہیں اس کے حکم کی پیروی کریں اور اس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)السنن الکبریٰ بیہقی ج:۱۰ص:۲۳۳۔کتاب الشہادت،اہل عصبیہ کے شہادات کے باب میں اور یہ روایت حدیث براد ابن عباس اور عائشہ سے بھی منقول ہے،مجمع الزوائدج:۱ص:۱۶۲کتاب العلم اس باب میں کہ سب سے زیادہ کون اعلم ہے،معجم الاوسط ج:۴ص:۳۷۶،اس کے علاوہ بھی کتابوں میں ہے

(۲)مجمع الزوائدج:۱ص:۹۰،کتاب الایمان اللہ کے لئے دوستی اور اللہ کے لئے دشمنی کے باب میں

(۳)الکافی ج:۲ص:۱۲۷کتاب الایمان و الکفر حب فی اللہ بغض فی اللہ کے باب میں حدیث۱۶

(۴)الکافی ج:۲ص:۱۲۴،کتاب الایمان و الکفر حب فی اللہ بغض فی اللہ کے باب میں،وسائل الشیعہ ج:۱۱ص:۴۳۱باب ۱۵ امر و نہی کے لئے جو مناسب ہے اس کے باب میں،اور یہ تمام کی تمام کتاب امر و نہی میں موجود ہے اس کے لئے دوسرے بھی بہت سارے مصادر شیعہ موجود ہیں،سنن کبریٰ نسائی ج:۶ص:۵۲۷،کتاب الایمان و شرائعہ،سنن کبری بیھقی ج:۱۰ص:۲۳۳کتاب الشہادات،مصنف بن شیبہ ج:۶ص:۱۶۴،کتاب الایمان،چھٹا باب،:ج:۷ص:۱۳۴،کتاب الزھد،سنن ابی داؤدج:۴ص:۱۹۸،کتاب الدیات،مجمع الزوائدج:۱ص:۸۹۔۹۰،کتاب الایمان،باب الایمان حب فی اللہ و البغض فی اللہ،تمھیدج:۱۷ص:۴۲۹۔۴۳۰۔۴۳۱

۱۶۵

کے فیصلہ پر سر جھکائیں اللہ کہتا ہے۔

(وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا)(۱)

ترجمہ:مومن اور مومنہ کے شایان شان ہرگز نہیں کہ جب اللہ اور اللہ کا رسول کوئی فیصلہ کردے تو پھر وہ خود کو بھی صاحب اختیار سمجھیں جو اللہ اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے وہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے۔

صحبت کا اثر اور اس کی اہمیت

جہاں تک صحبت پیغمبرؐ کا سوال ہے تو اگر صحابی نے حق صحبت کو ادا کیا ہے تو یقیناً صحبت پیغمبرؐ انسان کی رفعت و شاناور اس کے تقدس میں اضافہ ہی کرےگی اس لئے کہ پیغمبر کے اصحاب نے حرمت رسول کا خیال کیا ہے حق صحبت کی رعایت کی اور اللہ کا اس کی اس نعمت پر شکریہ ادا کیا ہے ہمارے لئے تو اصحاب پیغمبرؐ یوں بھی قابل احترام ہیں کہ وہ حضرات سابق الایمان ہیں اللہ کی دعوت کو انہیں نے ہم تک پہنچایا ہے اور یہی صحابہ ہمارے لئے ہدایت اور نجات کا سبب ہیں۔

ارشاد ہوتا ہے: (وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ) (۲)

ترجمہ آیت:اور وہ لوگ جو بعد میں آئے کہتے ہیں پالنے والے ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں کینہ مت چھوڑنا بیشک تو مہربان اور رحیم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ احزاب آیت:۳۶

(۲)سورہ حشر آیت:۱۰

۱۶۶

جیسا کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ان اصحاب کی تعریف کی ہے اور نبی کریمؐ اور آپ کے اہل بیت طاہرین علیہم السلام نے بھی حدیثوں کے ذریعہ ان حضرات کو سراہا ہے اگرچہ اس مختصر کتاب میں ان آیتوں اور حدیثوں کے بیان کی گنجائش نہیں ہے۔

البتہ اصحاب کی دوسری قسم وہ ہے جنہیں صحبت پیغمبرؐ کے غرور نے سرکش،مجرم،ملعون اور قابل سزا بنادیا ہے اس لئے کہ وہ صحبت پیغمبرؐ سے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھاسکے ان کے سامنے حجت ظاہر ترتھی جس کی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں زیادہ تھیں لیکن وہ مستقبل کے لوگوں کی گمراہی کا سبب بن گئے اور انہوں حق صحبت کو ضائع کردیا۔

ارشاد ہوتا ہے: ( أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ-جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَاوَبِئْسَ الْقَرَارُ) (۱)

ترجمہ آیت:آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمتوں کو کفر ان میں بدل دیا اور اپنی قوم کو سزا کے ٹھکانے پر لے گئے،وہ جہنم جس میں انہوں نے اپنی قوم کو پہنچادیا اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا: (إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ) (۲)

ترجمہ آیت:بیشک وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئی ان نشانیوں اور ہدایتوں کو چھپاتے ہیں جنہیں ہم نے قرآن میں واضح کردیا ہے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ ابراہیم:آیت:۲۸۔۲۹

(۲)سورہ بقرہ:آیت:۱۵۹

۱۶۷

سرکار دو عالم کے دور میں جو مرد اور عورتیں تھیں ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں اسی لئے خداوند عالم نے نبی کی عورتوں سے فرمایا: (يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ - وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا-يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ - إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا) (۱)

ترجمہ آیت:اے نبی کی عورتو!تم میں سے جو فاحشہ مبینہ(زنا)کی مرتکب ہوئیں اس کو دو گنا عذاب ملےگا اور اللہ کے لئے یہ آسان بات ہے جو اللہ اور اللہ کے رسول کی نافرماں برداری کرےگی اور نیک کام انجام دےگی ہم اس کو دہرا اجر دیں گے اور اس کے لئے عزت دار حلال رزق کا انتظام کردیں گے۔

پھر فرمایا اے شقر ان اچھائی تو کسی کی طرف سے بھی ہوا چھائی ہی ہوتی ہے،لیکن تم نیک کام کروگے تو زیادہ اچھا ہوگا،اس طرح برائی تو برائی ہے چاہے جو کرے لیکن لیکن اگر تم برائی کروگے تو زیادہ برا ہوگا اس لئے کہ شقر ان سرکار دو عالم کے غلاموں کی اولاد میں تھا اور بہت شراب پیتا تھا۔(۲)

صحابہ کو پرکھنے کے لئے ضروری ہے کہ دو باتوں کا لحاظ کیا جائے پہلی بات تو یہ ہے کہ عقلی دلیلوں اور شرعی دلیلوں کے مطابق استقامت کی ایک حد معین کی جائے جو صحیح راستے پر پہنچاسکے اور جب صحابہ کو پرکھا اور پہچانا جائے تو جذبات اور احساسات کے آئینے میں نہ پہچانا جائے۔

دوسرے یہ کہ یہ دیکھا جائے کہ اچھے اور پاک باز صحابہ کی جو حدیں معین کی گئی ہیں ان تمام باتوں کے بعد مناسب نظریے معین کئے جائیں ارادہ اور شجاعت کے سلسلے میں تا کہ کوئی نتیجہ سامنے آئے کیونکہ حق سے بلند و بالا کوئی چیز نہیں ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ احزاب:آیت:۳۰۔۳۱

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۸ص:۲۰۵،اسی طرح بحارالانوارج:۴ص:۳۴۹،العدد القویہ علامہ حلی:ص:۱۵۲

۱۶۸

(وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ)(۱)

صحابہ یا غیرصحابہ کے احترام کے لئے شیعوں کا یہی طرز فکر ہے اور شروع سے یہی طرز فکر رہاہے اس میں شیعہ کہیں سے کمزور نہیں پڑتا اور نہ کبھی کمزور پڑےگا انشاءاللہ،حالانکہ اس طرز فکر اور نظریہ پر قائم رہنے کے لئے شیعوں کو ہر دور میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے سخت مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور بڑے مشکل حالات سے گذرنا پڑا ہے لیکن ان پر جو بھی مصیبتیں اس سلسلے میں آئی ہیں سب سے خدا واقف ہے اور شیعوں نے ان حالات کو ابتلا سمجھ کے خوشی سےقبول کیا ہے۔

غیر شیعہ افراد کا شیعوں کے بارے میں مناسب نظریہ

میں نے شیعہ نظریات آپ کی خدمت میں پیش کردیئے،اگر یہ نظریات آپ کو اور آپ کے ہم مذہب بھائیوں کو اچھے لگیں تو کیا کہنا،الحمد اللہ ہم آپ ایک دوسرے سے متفق ہیں لیکن یہ نظریات آپ کو پسند نہیں آتے جب بھی آپ کو چاہئیے کہ شیعوں کو معذور سمجھ کے ان کے متعلق احترام و عزت کا اظہار کریں،اس لئے کہ ان کا نظریہ جو کچھ بھی ہے وہ بےدلیل نہیں ہےور دلیل کےاتھ بات کرنےوالے یہ کہہ کے معاف کیا جاسکتا ہے کہ اس نے کوشش تو کی لیکن اجتہاد میں غلطی کی ظاہر ہے کہ شیعوں کا نظریہ کسی تعصب،دشمنی یا بغض و عناد کا نتیجہ نہیں ہے کہ ان کی حرمت کو پامال کردیا جائے اور انہیں چاروں طرف بدنام کیا جائے یا ان کے اوپر طعن و تشنیع کیا جائے۔

مجھے نہیں معلوم کے دوسرے فرقے کے لوگ شیعوں کو ان کے نظریات و عقائد کی بنیاد پر کس دلیل سے برا بھلا کہتے ہیں جب کہ نظریاتی اختلاف کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ شیعوں کو برا بھلا کہا جائے اور مخالف کا نظریہ نہیں ماننے کی وجہ سے شیعوں کی حرمت پامال کردی جائے ان پر طعن و تشنیع کی جائے اور انہیں طرح طرح کی سزائیں دی جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورہ احزاب:آیت:۴

۱۶۹

دوسرے فرقوں سے شیعوں کا حسن معاشرت

خصوصاً شیعہ فرقہ دوسرے مسلمانوں سے معاشرت کرنے میں اپنے نبیؐ اور آئمہ اطہارؑ کی تعلیم پر عمل کرتا ہے انہوں نے شیعوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ ہر حال میں اپنے عقیدے کی حفاظت کرو اور ذاتی طور پر اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرتے رہو۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم دوسروں کے جذبات کو ٹھیں پہنچاؤ اور ان سے رواداری کرنا چھوڑ دو بلکہ تمہیں چاہئیے کہ غیروں سے حسن معاشرت کا اہتمام کرو خوش اخلاقی سے ملو اور ان کے حقوق کو ادا کردتا کہ قوم ہوشیار رہے اور نفاق کی برائی پیدا نہ ہو۔

سکونی کی حدیث ملاحظہ ہو:امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں سرکار دوعالمؐ نے فرمایا:جس کے اندر تین باتیں نہیں اس کا عمل مکمل نہیں۔

۱۔ورع:جو انسان کو خدا کی نافرمانی سے روکتا ہے۔

۲۔اخلاق:جس کے ذریعہ دوسرےلوگوں سے ملا جلا جاتا ہے۔

۳۔علم:جس کے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دیا جاتا ہے۔(۱)

مرازم چھٹے امامؑ سے روایت کرتے ہیں کہ تم پر واجب ہے کہ مسجدوں میں نماز پڑھو لوگوں کے ساتھ اچھے پڑوسیوں کی طرح رہو،شہادت قائم کرو اور جنازوں میں شرکت کرو اس لئے کہ جب تک انسان زندہ ہے دوسرے انسان سے بےنیاز نہیں ہوسکتا سماج کا ہر آدمی ایک دوسرے کے لئے ضروری ہے۔(۲)

اس سلسلہ آخری حدیث میں ملاحظہ ہو،معاویہ بن وہب کہتے ہیں کہ میں نے امام سے پوچھا کہ ہمارا سلوک ان لوگوں کے ساتھ کیا ہونا چاہئیے جو ہمارے آس پاس رہتے ہیں لیکن ہماری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الکافی ج:۲ص:۱۱۶،کتاب ایمان و کفر،باب مدارات حدیث۱

(۲)کافی ج:۲ص:۶۳۵،کتاب معاشرت جو چیز معاشرت میں محبوب ہے کے باب میں،حدیث:۱

۱۷۰

طرح شیعہ نہیں ہیں،آپ نے فرمایا تم اپنے اماموں کی سیرت پہ غور کرو جن کی تم اقتدا کرتے ہو،پس جیسے وہ کرتے ہیں تم بھی کرو،خدا کی قسم وہ غیروں کے مریضوں کی عیادت کرتے ہیں،ان کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں،ان کے لئے گواہیاں دیتے ہیں اور ان کی امانت کو ادا کرتے ہیں(۱) اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جن کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔

کتنا اچھا ہوتا کہ تمام مسلمان انہیں حدیثوں پر عمل کرتے اپنے عقیدوں کی حفاظت کے ساتھ بہترین طریقے سے لوگوں کو دعوت بھی دیتے رہتے اور دوسروں سے میل جول کے ساتھ اچھا سلوک اور محبت کا برتاؤ کرتے تا کہ مسلمان متحد رہیں بات ایک جگہ رہے اور آپس کی محبت دلوں میں باقی رہے پھر ہم سب مل جل کر عالم انسانیت کو اسلام عظیم کی طرف بلائیں اسلام کی آواز لوگوں کو سنائیں کلمہ طیبہ کو بلند کریں اور ظالموں کو منہ توڑ جواب دیں اور ایک مشترک ہدف کی خدمت کریں،نویں سوال کے جواب میں ہو باتیں پیش کروں گا جو وہاں پر نفع بخش ہوں،اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری مدد کرے اور ہمیں توفیق دے وہ سب سے زیادہ رحم کرنےوالا ہے مومنین کا سرپرست ہے وہ میرے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے،

والحمد اللہ رب العلمین

-----------

(۱)فی ج:۲ ص ۶۳۶ ،کتاب معاشرۃ حدیث ۴

۱۷۱

۱۷۲

سوال نمبر۔۳

کچھ اہل سنت حضرات یہ الزام لگاتے ہیں کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں،شیعوں پر الزام صحیح ہے؟حالانکہ میں نے علامہ شیخ محمد ابوزہرہ کتاب(الامام جعفر الصادقؑ)میں پڑھا ہے کہ محقق طوسیؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ قول صحیح نہیں ہے،آپ کی اس سلسلے میں کیا رائے ہے؟خداوند عالم آپ کی عمر میں اضافہ کرے۔

جواب:اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل امور آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

۱۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ہر سنی عالم تحریف قرآن کی نسبت شیعوں کی طرف دیتا ہے،بلکہ بعض علمائے سنت نے تو شیعوں کی طرف سے خود ہی صفائی پیش کی ہے یہاں شیعہ سے مراد امامیہ عدلیہ ہے۔

ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری متوفی۳۳۰؁ فرماتے ہیں،قرآن میں کمی اور زیادتی کے بارے میں رافضیوں کے درمیان اختلاف ہے،اس سلسلے میں تین فرقے ہیں ایک فرقہ کہتا ہے کہ قرآن میں کچھ کمی ہے زیادتی کا وہ بھی قائل نہیں،اس طرح وہ یہ بھی نہیں مانتا کہ قرآن کے اندر کچھ تبدیلی کی گئی ہے،لیکن اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن میں سے کچھ ضائع ہوگیا ہے اس کو صرف امام جانتے ہیں،شیعوں کا تیسرا فرقہ جو اعتزال اور امامت کا قائل ہے اس کا خیال ہے کہ نہ قرآن میں کچھ کمی ہوئی نہ کوئی زیادتی اللہ نے جیسا ہمارے نبی پہ اتارا تھا ویسا ہی ہے نہ بدلا گیا ہے نہ کوئی لفظ اپنی جگہ سے ہٹایا گیا ہے اور ہمیشہ قرآن ایسا رہےگا۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مقالات الاسلامیین ج:۱ص:۱۱۴۔۱۱۵

۱۷۳

شیخ رحمۃ اللہ ہندی اپنی کتاب اظہار الحق میں لکھتے ہیں کہ شیعہ اثنا عشری کے جمہور علما کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید تغییر و تبدیل سے محفوظ ہے قرآن میں وقوع نقصان کا قول مردود ہے۔(۱) اور شیعہ علما اسے قبول نہیں کرتے پھر شیخ نے شیعوں کے بعض اقوال کو مقام شہادت میں پیش کیا ہے۔

ہاں بعض سنی علما تحریف کو شیعوں کی طرف منسوب کرتے ہیں،جیسے ابن حزم ظاہری اپنی کتاب الفصل فی الملل و الںحل میں اور ایک جماعت متاخرین کی ہے،ان لوگوں نے اپنے قلم کو شیعوں کو بدنام کرنے کے لئے اور ان پر حملے کرنے کے لئے وقف کردیا ہے،سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے شیوں پر بہت سے بہتان باندھے ہیں،ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے،تاریخ کے ذمہ ہے اور ہر ذوق جستجو رکھنےوالا اگر منصف ہے تو وہ بھی ان کا حساب کرےگا۔

اہل سنت اور شیعوں کا عدم تحریف قرآن پر عملی اجماع

۲۔شیعہ ہوں یا سنی تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ دو دفتیوں کے درمیان مصحف ہے وہ پورا قرآن مجید ہے وہی قرآن تمام اسلامی ملکوں میں پھیلا ہوا ہے اور تمام مسلمانوں کے درمیان تلاوت کیا جاتا ہے جب اس قرآن کو مسلمان ختم کرلیتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس نے پورا قرآن پڑھ لیا،جس طرح جب ایک سورہ پڑھتا ہے جو سورہ اس قرآن میں موجود ہے تو اس میں نہ کسی ایک کلمہ کی زیادتی کرتا ہے نہ کمی اور اس کو پڑھ نے کے بعد کہتا ہے کہ ہم نے فلاں سورہ پڑھ لیا،یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ مسلمان چاہے سنی ہو یا شیعہ تحریف قرآن کا قائل بہرحال نہیں ہے یہ بات تمام مسلمانوں کی سیرت اور ان کے فقہا کے کلمات سے ظاہر ہے۔جب علما یہ کہتے ہیں کہ نماز میں سورہ کا کچھ حصہ یا فلاں سورہ پڑھنا مستحب ہے تو ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ سورہ جو مصحف پاک میں لکھا ہوا ہے بغیر کسی کمی و زیادی کے وہ یہ نہیں کہتے کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)اظہارالحق ص:۳۵۴،چوتھی فصل میں جو احادیث پر شبہوں کے جواب ہیں،اور یہ شبھہ اول کے جواب کے باب میں ہے

۱۷۴

اس سورہ کو پڑھنے کے وقت فلاں کلمہ کو زیادہ یا فلاں کلمہ کو کم کرلینا چاہئیے جب کہ اگر قرآن میں وہ کلمہ زیادہ ہوتا تو علما ضرور متنبہ کرتے کہ اس کلمہ کو حذف کردینا اس لئے کہ آدمی کا کلام نماز کے درمیان پڑھنا نماز کو باطل قرار دینا ہے اور اگر اس سورہ میں کچھ کم ہوتا تو علما ضرور ہدایت کرتے کہ سورہ کو مکمل کرنے کے لئے فلاں کلمہ ملا لینا اس لئے کہ خصوصا فرقہ امامیہ کے یہاں مشہور ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد ایک مکمل سورہ پڑھنا واجب ہے،علما کا سورہ پڑھنے پر خاموش ہنا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جو قرآن ہمارے سامنے ہے اسی کو وہ قرآن سمجھتے ہیں اور جو سورہ قرآن میں لکھے ہیں وہ سب کے سب مکمل سورہ ہیں۔

البتہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے معاملے میں سنی،شیعہ کے درمیان اختلافات ہے شیعہ کہتے ہیں کہ سورہ توبہ کے علاوہ بسم اللہ..ہر سورہ کا جز ہے لہذا وہ نماز میں تلاوت سورہ کے وقت بسم اللہ کہتے ہیں،لیکن بسم اللہ کے علاوہ کسی چیز میں بھی عملاً اختلاف نہیں ہے۔یہی اجماع عملی ہے جو تمام مسلمانوں کو قرآن مجید کے بارے میں ایک نظریہ پر قائم رکھتا ہے چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ کا یہ کہنا ہے کہ قرآن اپنی اصل صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے اور اس کے مقابلے میں یعنی اس کے خلاف کسی مسلمان کا کوئی نظریہ نہیں ہے اس لئے قرآن مجید کے حقیقت کی دلیل ہے اور قرآن اپنی حقیقت کو خود ثابت کرتا ہے تمام عالم اسلام نے اس حقیقت کو مانا ہے اور اس پر عمل کیا ہے اور ان شبہات کو قوت مل ہی نہیں سکتی ہے جن کی وجہ سے ملت اسلامیہ میں کوئی ٹیڑھاپن یا کجی پیدا ہو یا قرآن مجید کی حقانیت میں کسی شک کی گنجائش ہو۔

شیعہ علما عدم تحریف کے قائل ہیں

۳۔جن شیعہ علما نے صراحت فرمائی ہے کہ مصحف کی دودفتیوں کے درمیان جو(کچھ موجود ہے وہ کل کا کل قرآن ہے وہ حضرات شیعوں کے بڑے علما ہیں ار ہر دور میں شیعوں کے علما نے تحریف کا انکار کیا ہے صرف شیخ طوسی ہی پر یہ بات منحصر نہیں ہے بلکہ ان کے پہلے اور بعد کے تمام علما نے عدم

۱۷۵

تحریف کی تائید کی ہے۔

الف:شیخ صدوق محمد بن بابویہ قمی جن کی نیت ابوجعفر ہے اور آپ کے والد علی بن الحسن ہیں آپ شیعوں کے قدیم علما میں ہیں مدرسہ قم کے زعیم اور اہل حدیث کے استاد ہیں آپ کی کتاب اعتقادات کا تذکرہ مصادر شیعہ کے ذیل میں آچکا ہے،اسی کتاب میں آپ لکھتے ہیں۔

((ہمارا عقیدہ ہے کہ جو قرآن اللہ نے ہمارے نبی محمدؐ پر نازل کیا تھا وہ دودفتیوں کے درمیان موجود ہے یہ وہی قرآن ہے جو لوگوں کے پاس ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے اس میں(۱۱۴)ایک سو چودہ سورہ ہیں ہمارے نزدیک((الم نشرح)) اور((الضحی)) ایک ہی سورہ ہے اور((لایلاف)) اور((الم تر کیف)) بھی ایک ہی سورہ ہے اور جو ہماری یہ قول منسوب کرتا ہے کہ ہم قرآن مجید کو اس سے زیادہ مانتے ہیں وہ جھوٹا اور ہمارے یہاں جو روایتیں پائی جاتی ہیں جیسے ہر سورہ قرآن پڑھنے کے ثواب کے بارے میں ختم کرنے کے بارے میں نماز نافلہ میں دو سوروں کے پڑھنے کے بارے میں اور نماز میں دو سوروں کے درمیان نبی کے بارے میں یہ روایتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ ہم اسے قرآن سمجھتے ہیں جو لوگوں کے پاس موجود ہے اسی طرح ہمارے یہاں یہ روایتیں بھی ملتی ہیں جن میں ایک رات میں قرآن ختم کرنے کو منع کیا گیا ہے کم سے کم تین رات میں قرآن ختم کرنے کے ہدایت کی گئی ہے یہ روایتیں بھی قرآن کے بارے میں ہمارے عقیدے کی تصدیق کرتی ہیں بلکہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ جو کچھ وحی نازل ہوئی اگر سب کو قرآن میں شامل کرلیا جاتا تو قرآن میں کم سے کم۱۷،ہزار آیتیں ہوتیں۔

غیرقرآنی وحی کی مثال جیسے جبرئیل کا سرکار سے کہنا کہ اے محمد ہماری مخلوق کی مدارات کردیا لوگوں کی کینہ پروری اور ان کی عداوت سے پرہیز کرو یا یہ کہ جتنا ہے جی لو تم بہرحال میت ہو جس سے چاہو دل لگاؤ بہرحال اس سے جدا ہوجاؤگے،جو عمل چاہے انجام دو اپنے عمل سے تمہاری ملاقات ہوگی،مومن کا شرف نماز شب ہے اور اس کی عزت لوگوں کو تکلیف نہیں دینا ہے یا سرکار دوعالم کا یہ قول کہ جبرئیل مجھ کو مسواک کی ہدایت کرتے رہے قریب تھا کہ میں اپنے دانت توڑ لوں یا دانتوں کی

۱۷۶

جڑوں میں گڈھے کرلوں اور پڑوسی کے بارے میں اتنی حدیثں ہیں کہ میں سمجھا اب وہ پڑوسی کو میراث بھی دےدیں گے،عورت کے بارے میں اتنی حدیثیں ہیں کہ میں سمجھا اس کو طلاق دینا ہی نہیں چاہئے اور غلاموں کے بارے میں اتنی حدیثیں ہیں کہ میں سمجھا اب وہ ایک مدت معین کردیں گے جو اس کی آزادی کا وقت ہوگا۔

یا غزوہ خندق سے فارغ ہونے کے بعد جبرئیل کا یہ پیغام لانا کہ اے محمدؐ اللہ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ نماز عصر بن قریظہ ہی میں ادا کریں یا سرکار کا یہ کہنا میرا پروردگار مجھے حکم دیتا ہے کہ میں لوگوں سے حسن اخلاق برتوں ان کی عقلوں کے مطابق جیسا کہ اللہ نے مجھے فرائض کے ادا کرنے کا حکم دیا ہے سرکار کا یہ قول کہ میرے پروردگار کی طرف سے جبرئیل ایسا حکم لے کےآئے جس سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں اور میرا سینہ اور دل خوش ہوگیا پیغام یہ ہے کہ اللہ کہتا ہے بیشک علی امیرالمومنین ہیں اور روشن پیشانی والوں کے قائد ہیں۔

یا سرکار کا یہ کہنا کہ جبرئیل مجھ پر یہ پیغام لےکے نازل ہوئے ہیں کہ اے محمد اللہ نے علی سے فاطمہ کی تزویج عرش پر کردی ہے اور اس پر اپنے بہترین فرشتوں کو گواہ بنایا ہے آپ اس نیک کام کو زمین پر انجام دے کے اپنی مات کے بہترین اصحاب کو گواہ بنادیں،اس طرح کی بہت سی خبریں اور پیغامات ہیں جو وحی تو ہیں مگر قرآن نہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ جملے اگر قرآن ہوتے تو قرآن میں ملادیئے جاتے اور اس سے الگ نہ رکھے جاتے۔

جیسا امیرالمومنین نے قرآن کو جمع کیا اور مسلمانوں کے پاس لےکے آئے فرمایا:یہ تمہارے پروردگار کی کتاب ہے ٹھیک اس طرح جمع کی گئی ہے جیسی نازل ہوئی ہے اس میں نہ کمی ہے نہ زیادتی ایک حرف بھی زیادہ یا کم نہیں ہے مسلمانوں نے کہا ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے ویسا ہی قرآن ہمارے پاس بھی ہے آپ یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کہ انہوں نے اس کو پس پشت ڈال دیا اور چھوٹی قیمت پر اس کو خرید لیا،پس بری چیز خریدی ہے۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الاعتقادات:ص:۸۳۔۸۶

۱۷۷

ہم نے اس گفتگو کو طویل دیا اس لئے کہ اس میں دو خاص باتیں ہیں

۱۔پہلی بات تو یہ ہے کہ عدم تحریف کے اوپر میں نے تمام مسلمانوں کے اجماع عملی کا دعوی کیا لیکن دلیلیں شیعوں کی طرف سے پیش کیں مثلا ختم قرآن اور قرات سورہ و غیرہ کے مسائل میں میں نے صرف شیعہ علما کی طرف سے پیش کرکے مسلمانوں کے اجماع عملی پر صرف شیعوں کی طرف سے دلیل دی ہے۔

۲۔دوسری بات یہ ہے کہ میں نے ان روایتوں کی تاویل پیش کی ہے جس سے تحریف کا وہم پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ عرض کیا ہے کہ ہر وحی قرآن انہیں ہوتی لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ میں نے یہ تاویل اپنی طرف سے نہیں پیش کی ہے بلکہ جناب شیخ صدوق جیسے علما کا قول نقل کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں حو ائمہ ۃدی علیہم الصلوۃ و السلام کے زمانے سے بہت قریب تھے اور اہل حدیث کے شیخ اور استاد تھے جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے اس سے یہ بات ثابت ہے کہ اس طرح کی تاویلیں شیعوں کے یہاں زمانہ شروع میں پائی جاتی تھیں۔یعنی یہ تاویلیں متاخرین کی ایجاد نہیں ہیں اور شادی یہی وجہ ہے کہ قدیم علما ان روایتوں کی بنا پر تحریف اور نقص کے قائل نہیں تھے۔

ب:شیخ محمد بن لغمان آپ کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے

آپ قدیم علما میں ہیں بغداد کے مدرسہ کے زعیم ہیں اور اہل اجتہاد و نظر کے استاد ہیں شیخ مفید کے نام سے مشہور ہیں آپ اپنی کتاب(اوائل المقالات)میں فرماتےیں امامیہ فرقے کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ قرآن میں سے کوئی کلمہ کوئی آیت اور کوئی سورہ کم نہیں ہے لیکن مصحف امیرالمومنین میں آیتوں کی جو تاویل پیش کی گئی تھی اور حقیقت تنزیل کی بنیاد پر معانی کی جو تفسیریں پیش کی گئی تھیں وہ قرآن سے حذف کردیا گیا ہے۔

حالانکہ میرے نزدیک یہ قول نفس قرآن میں نقص کے قول سے زیادہ مشتبہ اور کمزور ہے میں ڈوند عالم سے دعا کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو اللہ حق و حقیقت کی توفیق عنایت فرمائے۔

۱۷۸

لیکن جہان تک قرآن میں زیادتی کا سوال ہے تو یہ قول میرے نزدیک ایک رخ سے تو بالکل ہی غلط ہے اور ایک رخ سے صحیح بھی ہے میں جس رخ سے اس کے غلط ہونے کا یقین رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ مخلوق کے لئے ممکن نہیں ہے کہ ایک سورہ کے برابر اضافہ کردے اور فصحا کے سامنے یہ بات ثابت نہ ہوسکے اس لئے کہ قرآن کا اپنا ایک لہجہ اور ایک انداز ہے جس کی نقل مخلوق کے بس کاروگ نہیں،جس رخ سے زیادتی جائز سمجھی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک کلمہ یا دو کلمہ ایک لفظ یا دو لفظ یا ایک دو حروف کلمات سے مشابہ ہو جس کی وجہ سے فصیحوں کے نزدیک تمیز نہ ہوسکی ہے حلانکہ اس میں بھی یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ اللہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ رہبری کردے کہ قرآن میں فلاں زیادتی ہے میرا کلام نہیں ہے مجھے اس طرح کی زیادتی کا یقین بھی نہیں ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ قول بھی مشتبہ ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اس طرح کی زیادتی قرآن میں سرے سے واقع نہیں ہوئی اس کے ساتھ ہی میرے پاس امام جعفر صادق علیہ السلام سے عدم تحڑیف کی حدیثیں ہیں۔(۱)

((اس کے علاوہ جناب شیخ نے اس سلسلے میں بہت سی باتیں کی ہیں۔))

ج:سید مرتضی علی بن الحسن الموسوی آپ اپنے استاد شیخ مفید کے جانشین تھے اور شیخ کی جہ مدرسہ بغداد کے زعیم تھے،اہل نظر و اجتہاد کے استاد تھے آپ نے اپنی کتاب مجمع البیان میں تحریف کے سلسلے میں کلام پیش کرنے کے بعد کہا،یہ وہ نظریہ ہے جس می مرتضی تائید کرتے ہیں اور یہ مکمل گفتگو انھوں نے مسائل طرابلس یات کے جواب میں لکھی ہے کہ نقل قرآن کی صحت کا علم اس طرح ہے جیسے کہ شہروں کے بارے میں بڑے بڑے واقعات کے بارے میں،عظیم حادثوں کے بارے میں،مشہور کتابوں کے بارے میں عرب کے اشعار کے بارے میں جاننا ہے،اس طرح کی چیزیں لکھنے کے وقت انسان بہت شدت سے توجہ دیتا ہے اور اپنے قلم کو بہت محتاط کرلیتا ہے اس طرح قرآن کو نقل کرنے میں قرآن جمع کرنےوالوں نے بہت احتیاط سے کام لیا ہے اس لئے نبوت کا معجزہ علوم شرعیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)اوائل المقالات ص:۸۱۔۸۲،تالیف قرآن کے اقوال کے بارے میں

۱۷۹

اور احکام دین کا ماخذ ہے اور مسلمان علما نے اس کو نقل کرنے میں تا حد امکان احتیاط سے کام لیا ہے یہاں تک کہ انہوں نے وہ اختلافات بھی نقل کردیئے ہیں جو قرآن کے اعراب،قرات حروف اور آیتوں کے سلسلے میں ہوتے ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نظر کے ساتھ اور کامل توجہ کے ساتھ جمع کیا ہوا کلام مغیر یا منقوص ہو،سید فرماتے ہیں کہ تفسیر قرآن یا لفظ قرآن کے نقل کی صحت کا علم ایسا ہی ہے جیسے من جملہ قرآن کا علم اس کے نقل کرنے میں وہی طریقہ اپنایا گیا ہے جو طریقہ کسی مصنف کی تصنیفات کو نقل کرنے میں استعمال ہوا ہے،جیسے سیبویہ اور مزنی کی کتابیں۔

صاحبان نظر جس طرح ان کتابوں کی تفصیل سے واقف ہیں اس طرح ان کتابوں کے اجمال سے بھی واقف ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی داخل کرنےوالا کوئی ایسا باب سیبویہ کی کتاب میں داخل کردیتا ہے،جو اس کی اصل کتاب میں نہ ہو تو صاحبان نظر و اجتہاد فوراً اس کو پہچان لیتے ہیں اور جان جاتے ہیں کہ یہ الحاق ہے اور اصل کتاب میں نہیں پایا جاتا ہے یہی بات کتاب مزنی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے ظاہر ہے کہ جب مسلمان کتاب سیبویہ اور شعرا کے دیوان کو نقل کرنے میں اتنی احتیاط اور دقت نظر سے کام لیتا ہے تو قرآن مجید کے بارے میں بےاحتیاطی کیسے کرےگا۔

جناب سید تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ قرآن تو دور پیغمبرؐ میں ہی جمع ہوچکا تھا ارو تالیف پاچکا تھا،وہی قرآن آج ہمارے سمانے ہے سید مقام استدلال میں فرماتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں عہد پیغمبرؐ میں قرآن پڑھا جاتا تھا اور لوگ قرآن کو حفظ کیا کرتے تھے،یہاں تک صحابہ کی ایک جماعت کو حفظ قرآن پر معین کیا گیا تھا،جنہیں پیغمبرؐ کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور یہ لوگ آپ کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے تھے کچھ صحابہ نے مثلاً عبداللہ بن مسعود اور ابی بن کعب نے تو پیغمبرؐ کے حضور میں کئی مرتبہ قرآن ختم کیا تھا۔

ان تصریحات کو دیکھتے ہوئے ہم تھوڑی سی توجہ دیں تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ درود پیغمبرؐ میں قرآن مجموعی طور پر موجود اور مرتب تھا نہ کہ بکھرا ہوا اور منتشر۔

سید فرماتے ہیں کہ امامیہ اور حشویہ میں جن لوگوں نے اس نظریہ کی مخالفت کی ہے ان کی تعداد

۱۸۰

” واخرج الحکیم الترمذی والطبرانی وابن مردویه وابونعیم والبیهقی معاً فی الدلائل عن ابن عباس رضی الله عنهما قال رسول الله -( ص) - انّ اللّه قسّم الخلاق قسمیں فجعلنی فی خیرهما قسماً، فذلک قوله( واصحاب الیمین ) (۱) ( واصحاب الشمال ) (۲) فاٴنامن اٴصحاب الیمین واٴناخبراٴصحاب الیمین ثمّ جعل القسمین اٴثلاثاً،فجعلنی فی خیرها ثلثاً،فذلک قوله :( واٴصحاب المیمنة مااٴصحاب المیمنةواٴصحاب المشئمة مااٴصحاب المشئمةالسابقون ) (۳) فاٴنامن السابقین واٴناخیرالسابقین، ثمّ جعل الاٴثلاث قبائل،فجعلنی فی خیرها قبیلة،وذلک قوله:( وجعلنا کم شعوباًوقبائل لتعارفواإنّ اٴکرمکم عنداللّٰه اٴتقاکم ) (۴) واٴنااٴتقی ولدآدم واٴکرمهم عنداللّٰه تعالی ولافخر،ثمّ جعل القبائل بیوتاًوجعلنی فی خیرها بیتاً،فذلک قوله: ا( ٕنّما یریداللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهیراً ) (۵) فاٴناواٴهل بیتی مطهّرون من الذنوب“(۶)

____________________

۱۔سورئہ واقعہ/۲۷ ۲۔سورئہ واقعہ/۴۱ ۳۔سورئہ واقعہ/۸۔۱۰ ۴۔سورئہ حجرات/۱۳ ۵۔سورئہ/احزاب/۳۳

۶۔الدرالمنثور، ج ۵، ص ۳۷۸، دارالکتاب، العلمیہ، بیروت، فتح، القدیر، شوکافی، ج ۴، ص ۳۵۰ دارالکتاب العلمیہ، بیروت۔المعروفہ و التاریخ، ج ۱، ص ۲۹۸

۱۸۱

”حکیم ترمذی،طبرانی،ابن مردویہ،ابو نعیم اور بیہقی نے کتاب”الدلائل‘میں ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا:خداوندمتعال نے اپنی مخلوقات کودو حصوں میں تقسیم کیا ہے اور مجھ کوان میں سے برترقراردیاہے اورخداوندمتعال کاقول یہ ہے:( و اصحاب الیمین ) ( واصحاب الشمال ) اور میں اصحاب یمین میں سے سب سے افضل ہوں۔اس کے بعدمذکورہ دوقسموں)اصحاب یمین اوراصحاب شمال)کوپھرسے تین حصوں میں تقسیم کیااورمجھ کوان میں افضل ترین لو گوں میں قرار دیا اور یہ ہے خدا وند کریم کا قول:( واٴصحاب المیمنةمااٴصحاب المیمنة واٴصحاب المشئمة مااٴصحاب المسئمةوالسابقون السابقون ) اورمیں سابقین اور افضل ترین لو گوں میں سے ہوں۔اس کے بعدان تینوں گروہوں کوکئی قبیلوں میں تقسیم کردیا،چنانچہ فر ما یا:

( وجعلناکم شعوباًوقبائل لتعارفواإنّ اکرمکم عنداللّه اٴتقاکم )

”اورپھرتم کو خاندان اور قبائل میں بانٹ دیاتاکہ آپس میں ایک دوسرے کوپہچان سکوبیشک تم میں سے خداکے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جوزیادہ پرہیزگارہے“ اورمیں فرزندان آدم میں پرہیزگار ترین اور خدا کے نزدیک محترم ترین بندہ ہوں اورفخرنہیں کرتاہوں۔

”اس کے بعدقبیلوں کوگھرانوں میں تقسیم کر دیااورمیرے گھرانے کوبہترین گھرانہ قرار دیااورفرمایا( انمّا یرید اللّه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهّرکم تطهیراً ) ”بس اللّہ کاارادہ یہ ہے اے اہل بیت!تم سے ہر طرح کی آلودگی وبرائی کودوررکھے اور اس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کاحق ہے“پس مجھے اورمیرے اہل بیت کو )برائیوں) گناہوں سے پاک قراردیاگیاہے۔“

۱۸۲

۲ ” حدثني الحسن بن زید، عن عمربن علي، عن اٴبیه عليّ بن الحسین قال خطب الحسن بن علي الناس حین قتل عليّ فحمداللّه و اٴثنی علیه ثمّ قال:لقد قبض في هذه اللیلة رجل لایسبقه الاٴوّلون بعمل و لایدرکه الآخرون، و قدکان رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یعطیه رایته فیقاتل وجبرئیل عن یمینه ومیکائیل عن یساره حتی یفتح اللّه علیه، وما ترک علی اٴهل الاٴرض صفراء ولابیضاء إلّا سبع مائة درهم فضلت عن عطایاه اٴراد اٴن یبتاع بهاخادماً لاٴهله

ثمّ قال: اٴیّها الناس! من عرفني فقد عرفني ومن ُلم یعرفنيفاٴنا الحسن بن علي واٴنا ابن النبيّ واٴنا ابن الوصيّ واٴناابن البشیر، واٴنا ابن النذیر، واٴناابن الداعي إلی اللّه باذنه، واٴنا ابن السراج المنیر، و اٴنا من اٴهل البیت الّذی کان جبرئیل ینزل إلیناویصعدمن عندنا، و اٴنامن اٴهل البیت الّذی کان جبرئیل ینزل إلینا و یصعدمن عندنا، واٴنا من اٴهل البیت الّذی اٴذهب اللّه عنهم الرجس وطهّرهم تطهیراً و اٴنا من اٴهل البیت الّذی افترض اللّه مودّتهم علی کلّ مسلم، فقال تبارک و تعالی لنبیة:( قل لااٴسئلکم علیه اٴجراً،إلّاالمودّة فی ا لقربی و من یقترف حسنة نزدله فیهاحسناً ) (۱) فاقتراف الحسنة مودّتنااٴهل البیت(۲)

____________________

۱۔ سورہ شوریٰ/۲۳

۲۔مستدرک الصحیحین، ج۳،ص۱۷۲، دارالکتب العلمیہ، بیروت

۱۸۳

”عمربن علی نے اپنے باپ علی بن حسین (علیہ السلام)سے روایت کی ہے انہوں نے کہا: حسن بن علی (علیہ السلام)نے)اپنے والدگرامی)حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعدلوگوں کے در میان ایک خطبہ دیا جس میں ۔حمدوثنائے الہی کے بعدفرمایا:

آج کی شب ایک ایساشخص اس دنیا سے رحلت کرگیاکہ گزشتہ انسانوں میں سے کسی نے ان پرسبقت حاصل نہیں کی اورنہ ہی مستقبل میں کوئی ا س کے مراتب و مدا رج تک پہو نچنے والا ہے۔

پیغمبراسلام (ص)اسلامی جنگوں میں ان کے ہاتھ پرچم اسلام تھما کر انہیں جنگ کے لئے روانہ کر تے تھے، جبکہ اس طرح سے کہ جبرئیل)امورتشریعی میں فیض الہٰی کے وسیلہ)ان کی دائیں جانب اورمیکائیل)امورارزاق میں فیض الہٰی کے ذریعہ)ان کی بائیں جانب ہوا کرتے تھے۔او روہ جنگ سے فتح کامرانی کے حاصل ہو نے تک واپس نہیں لوٹتے تھے۔

انھوں نے اپنے بعد زر وجواہرات میں سے صرف سات سودرہم بہ طور ”تر کہ“ چھوڑے جو صدقہ و خیرات کے بعد باقی بچ گئے تھے اور وہ اس سے اپنے اہل بیت کے لئے ایک خادم خریدناچاہئے تھے۔

اس کے بعدفرمایا:اے لوگو!جو مجھے پہچانتا ہے، وہ پہنچاتا ہے اورجونہیں پہچانتاوہ پہچان لے کہ میں حسن بن علی (ع) ہوں، میں پیغمبر کافرزندہوں، ان کے جانشین کا فرزند، بشیر)بشارت دینے والے)ونذیر)ڈرانے والے)کافرزندہوں،جوخداکے حکم سے لوگوں کوخداکی طرف دعوت دیتاتھا،میں شمع فروزان الٰہی کا بیٹاہوں، اس خاندان کی فرد ہوں کہ جہاں ملائکہ نزول اور جبرئیل رفت وآمد کر تے تھے۔میں اس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں کہ خدائے متعال نے ان سے برائی کودورکیاہے اورانھیں خاص طور سے پاک وپاکیزہ بنایاہے۔میں ان اہل بیت میں سے ہوں کہ خداوندمتعال نے ان کی دوستی کوہرمسلمان پرواجب قراردیاہے اورخدا وندمتعال نے اپنے پیغمبرسے فرمایا:” اے پیغمبر!کہدیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کے بد لے کسی اجرت کا مطا لبہ نہیں کر تا ہوں سواء اس کے کہ میرے قرابتداروں سے محبت کرواورجوشخص بھی کوئی نیکی دے گا ہم اس کی نیکیوں کی جزامیں اضافہ کردیں گے ”لہذانیک عمل کاکام انجام دینا ہی ہم اہل بیت(ع)کی دوستی ہے۔“

۱۸۴

ان دواحادیث سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں خداکی مخصوص طہارت کے خارج میں متحقق ہو نے سے مرادان کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔اور یہ بیان واضح طور پر اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آیہء شریفہ میں ارادہ سے مراد ارادہ،تکوینی ہے۔

آیہء تطہیر میں اہل بیت علیہم السلام

اس آیہء شریفہ کی بحث کاتیسراپہلویہ ہے کہ آیہء کریمہ میں ”اہل البیت“سے مراد“کون ہیں؟اس بحث میں دوزاویوں سے توجہ مبذول کرناضروری ہے:

۱ ۔اہل بیت کا مفہوم کیاہے؟

۲ ۔اہل بیت کے مصادیق کون ہیں؟

اگرلفظ”اہل“کا استعمال تنہاہوتویہ مستحق اورشائستہ ہو نے کامعنی دیتاہے اوراگراس لفظ کی کسی چیز کی طرف اضافت ونسبت دی جائے توا س اضا فت کے لحاظ سے اس کے معنی ہوں گے۔مثلاً”اہل علم“اس سے مرادوہ لوگ ہیں جن میں علم ومعرفت موجودہے اور”اہل شہروقریہ“سے مرادوہ لوگ ہیں جواس شہریاقریہ میں زندگی بسرکرتے ہیں،اہل خانہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس گھر میں سکونت پذیر ہیں،مختصریہ کہ:”اہل“کامفہوم اضافت کی صورت میں مزید اس شی کی خصوصیت پردلالت کرتاہے کہ جس کی طرف اس کی نسبت دی گئی ہے۔۔۔

۱۸۵

لفظ”بیت“میں ایک احتمال یہ ہے کہ بیت سے مراد مسکن اور گھرہواور دوسرااحتمال یہ ہے کہ بیت سے مراد حسب ونَسَب ہوکہ اس صورت میں ”اہل بیت“کامعنی خاندان کے ہوں گے۔ایک اوراحتمال یہ ہے کہ” اہل بیت “میں ”بیت“سے مراد،خا نہ نبوت ہواور یہاں پر قابل مقبول احتمال یہی موخرالذکراحتمال ہے،اس کی وضاحت انشاء اللہ آیندہ چل کر آئے گی۔

ان صفات کے پیش نظر”اہل بیت“سے مرادوہ افراد ہیں جواس گھرکے محرم اسرار ہوں اورجوکچھ نبی (ص)کے گھرمیں واقع ہوتاہے اس سے واقف ہوں۔

اب جبکہ”اہل بیت“کامفہوم واضح اورمعلوم ہوگیا توہم دیکھتے ہیں کہ خارج میں اس کے مصادیق کون لوگ ہیں اور یہ عنوان کن افرادپر صادق آتاہے؟

اس سلسلہ میں تین قول پائے جاتے ہیں:

۱ ۔”اہل بیت“سے مرادصرف پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں ہیں۔(۱)

۲ ۔”اہل بیت“سے مراد خودپیغمبر،علی وفاطمہ،حسن وحسین )علیہم السلام)نیزپیغمبر (ص)کی بیویاں ہیں۔(۲)

۳ ۔شیعہ امامیہ کانظریہ یہ ہے کہ”اہل بیت“سے مرادپیغمبر (ص)آپکی دختر گرامی حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)اوربارہ ائمہ معصومین) علیہم السلام)ہیں۔

بعض سنی علماء جیسے:طحاوی نے”مشکل ا لآثار“میں اورحاکم نیشابوری نے”المستدرک“میں ”اہل بیت“سے صرف پنجتن پاک )علہیم السلام )کو مراد لیاہے۔

”اہل بیت“کوواضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس سلسلہ میں دوجہات سے

____________________

۱۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۲۹۱

۲۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۲

۱۸۶

بحث کریں:

۱ ۔آیہء شریفہ کے مفاد کے بارے میں بحث۔

۲ ۔آیہء شریفہ کے ضمن میں نقل کی گئی احادیث اورروایات کے بارے بحث۔

آیت کے مفاد کے بارے میں بحث

آیت کے مفہوم پر بحث کے سلسلہ میں درج ذیل چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

اول یہ کہ:لغوی اور عرفی لحاظ سے”اہل بیت“کا مفہوم پنجتن پاک کے عنوان کوشامل ہے۔

دوسرے یہ کہ آیہء شریفہ میں ضمیر”عنکم)جوجمع مذکر کے لئے ہے)کی وجہ سے اہل بیت کے مفہوم میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں شامل نہیں ہیں۔

تیسرے یہ کہ:بہت سی ایسی روایتیں مو جودہیں جن میں ”اہل بیت“کے مرادسے پنجتن پاک)علیہم السلام)کو لیاگیاہے۔لہذایہ قول کہ اہل بیت سے مرادصرف پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں ہیں،ایک بے بنیاد بلکہ برخلاف دلیل قول ہے۔یہ قول عکرمہ سے نقل کیا گیا ہے وہ کہتاتھا:

”جوچاہتا ہے،میں اس کے ساتھ اس بابت مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ آیہ شریفہ میں ”اہل بیت کا مفہوم“پیغمبر (ص)کی بیویوں سے مختص ہے(۱)“

اے کاش کہ اس نے)اس قول کی نسبت اس کی طرف صحیح ہونے کی صورت میں )مباہلہ کیاہوتا اورعذاب الہٰی میں گرفتار ہواہوتا!کیونکہ اس نے پنجتن پاک(ع)کی شان میں نقل کی گئی ان تمام احادیث سے چشم بستہ انکار کیا ہے جن میں آیہء تطہیرکی شان نزول بیان کی گئی ہے۔

____________________

۱۔روح المعانی ،ج۲۲،ص۱۳،داراحیائ التراث العربی،بیروت

۱۸۷

لیکن دوسرے قول کہ جس کے مطابق”اہل بیت کے مفہوم“میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں نیزعلی،فاطمہ،حسن اورحسین)علیہم السلام)شامل ہیں کوبہت سے اہل سنت،بلکہ ان کی اکثریت نے قبول کیا۔

اور انھوں نے،اس نظریہ کو ثابت کر نے کے لئے آیات کے سیاق سے استدلال کیا ہے۔اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ آیہء تطہیرسے پہلے والی آیتیں اور آیت تطہیر کے بعد والی آیتیں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں سے متعلق ہیں۔چونکہ آیہء تطہیر ان کے درمیان میں واقع ہے،اس لئے مفہوم اہل بیت کی صلا حیت اورقرینہء سیاق کے لحاظ سے،اس میں پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں شامل ہیں۔

ابن کثیر نے اپنی تفسیر،قرینہء سیاق کے پیش نظر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کو یقینی طو رپر اہل بیت کی فہرست میں شامل جاناہے۔

سیاق آیہء تطہیر

کیا آیہء تطہیر کے سیاق کے بارے میں کیا گیا دعویٰ قابل انعقادہے؟اورپیغمبر (ص)کی بیویوں کے اہل بیت کے زمرے میں شامل ہونے کو ثابت کرسکتاہے؟مطلب کوواضح کرنے کے لئے درج ذیل چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

اول یہ کہ:چند آیات کے بعد صرف ایک آیت کا واقع ہو نا سیاق کے واقع ہو نے کا سبب نہیں بن سکتا ہے اوردوسری طرف سے یہ یقین پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ آیتیں ایک ساتھ ایک مر تبہ نازل ہوئی ہیں،کیونکہ سیاق کے واقع ہو نے کے سلسلہ میں شر ط یہ ہے کہ آیات کا نزول ایک دوسرے کے ساتھ انجام پایا ہو۔لہذاہم شک کرتے ہیں اورممکن نہیں ہے کہ ہم سیاق کو احراز)متعین)کر سکیں جبکہ موجودہ قرآن مجیدکی تر تیب نزول قرآن کی ترتیب کے متفاوت ہے،اس لئے اس مسئلہ پرکبھی اطمینان پیدانہیں کیا جا سکتا ہے کہ آیہء تطہیر کا نزول پیغمبر (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات کے بعد واقع ہواہے۔

۱۸۸

اگریہ کہا جائے کہ:اگرچہ یہ آیتیں ایک ساتھ نازل نہیں ہوئی ہیں،لیکن ہرآیہ اورسورئہ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مو جودگی میں ان کی نظروں کے سامنے ایک خاص جگہ پرانھیں رکھا گیا ہے،اس لئے آیات کا ایک دوسرے کے ساتھ معنوی رابطہ کے پیش نظران آیات میں سیاق واقع ہو اہے لہذاپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں پنجتن پاک علیہم السلام کے ساتھ اہل بیت کے زمرے میں شامل ہوں گی۔

اس کا جواب یہ ہے کہ:اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ آیہء تطہیر کا اس خاص جگہ پرواقع ہو ناآیات کے معنوی پیوند کے لحاظ سے ہے اور وہ چیز کہ جس پر دلیل قائم ہے صرف یہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی مصلحت کے پیش نظر اس آیت کواپنی بیویوں سے مربوط آیات کے درمیان قراردیا ہے،لیکن یہ کہ مصلحت صرف آیات کے درمیان معنوی رابطہ کی وجہ سے ہے اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ممکن ہے اس کی مصلحت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کے لئے ایک انتباہ ہوکہ تمہارااہل بیت“کے ساتھ ایک رابطہ اور ہے ،اس لئے اپنے اعمال کے بارے میں ہوشیار رہنا،نہ یہ کہ وہ خود”اہل بیت“کی مصداق ہیں۔

دوسرے یہ کہ:آیہء کریمہ میں کئی جہتوں سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ آیہء تطہیر کا سیاق اس کی قبل اور بعد والی آیات کے سیاق سے متفاوت ہے اوریہ دو الگ الگ سیاق ہیں اور ان میں سے ہر ایک ،ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے جس کا دوسرے سے کوئی ربط نہیں ہے۔وہ جہتیں حسب ذیل ہیں:

پہلی جہت:پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیوں سے مربوط آیات کا سیاق سرزنش کے ساتھ ہے)چنانچہ آیت ۲۸ کے بعدغورکرنے سے معلوم ہو تا ہے)اوران آیات میں پیغمبراکرم (ص)کی بیویوں کی کسی قسم کی ستائش اور تعریف نہیں کی گئی ہے،جبکہ آیہء تطہیر کے سیاق میں فضیلت وبزرگی اورمدح و ستا ئش ہے اورآیہ تطہیر کے ذیل میں ذکر ہو نے والی احادیث سے یہ مطلب اور بھی زیادہ روشن و نمایاں ہو جا تا ہے۔

دوسری جہت:یہ کہ آیہء تطہیر کی شان نزول مستقل ہے اورآنحضرت (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات کی شان نزول بھی مستقل ہے چنانچہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں نے اپنے حق سے زیادہ نفقہ کاتقاضا کیا تھا لہذا مذکورہ آیتیں اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہیں۔اس شان نزول کے بارے میں مزیدآگاہی حاصل کرنے کے لئے شیعہ وسنی تفسیروں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں پہلے ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں سے مربوط آیات کی طرف اشارہ کر تے ہیں کہ اور اس کے بعد اس حدیث کا ترجمہ پیش کریں گے جسے ابن کثیر نے ان آیات کی شان نزول کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے:

۱۸۹

( یااٴیّهاالنبیّ قل لازواجک ان کنتنّ تردن الحیوةالدنیا وزینتها فتعالین اٴُمّتعکنّ واٴُسرّحکنّ سراحاًجمیلاًوإن کنتنّتردن اللّٰه ورسوله والدار الآخرة فإنّ اللّٰه اٴعدّ للمحسنات منکنّ اٴجراً عظیماًیانساء النبیّ من یاٴت منکنّ بفاحشة مبیّنة یضاعف لها العذاب ضعفین وکان ذلک علی اللّٰه یسیراًً ومن یقنت منکنّ للّٰه ورسوله وتعمل صالحاً نؤتهااجرهامرّتین واٴعتد نا لهارزقاً کریماًیانساء النبیّ لستنّ کاٴحد من النساء إن اتقیتنّ فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبه مرض وقلن قولاً معروفاًوقرن فی بیوتکنّ ولا تبرّجن الجا هلیة الاُولی واٴقمن الصلوة وء اتین الزکوة واٴطعن اللّٰه ورسوله إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهیراًواذکرن مایتلی فی بیوتکنّ من آیات اللّٰه والحکمةإنّ اللّٰه کان لطیفاًخبیرا ) (احزاب/ ۲۸ ۔ ۳۴)

”پیغمبر!آپ اپنی بیویوں سے کہد جئے کہ اگر تم سب زندگانی دنیااوراس کی زینت کی طلبگارہوتوآؤمیں تمہارامہرتمھیں دیدوں اورخوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں اوراگراللہ اور رسول اورآخرت کی طلبگار ہو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے اجر عظیم قرار دیا ہے ۔اے زنان پیغمبرجو بھی تم میں سے کھلی ہوئی برائیوں کاارتکاب کرے گااس کو دھرا عذاب کر دیا جائے گا اوریہ بات خد اکے لئے بہت آسان ہے۔اورجوبھی تم میں سے خدااوررسول کی اطاعت کرے اورنیک عمل انجام دے اسے دہرا اجر عطا کیا جائے گا اورہم نے اس کے لئے بہترین رزق فراہم کیا ہے ۔اے زنان پیغمبر!تم اگر تقویٰ اختیار کرو تو تمھارامرتبہ عام عورتوں کے جیسا نہیں ہے،لہذا کسی آدمی سے نازکی)دل لبھانے والی کیفیت) سے بات نہ کرو کہ بیمار دل افراد کوتمہاری طمع پیدا ہو اور ہمیشہ شائستہ و نیک باتیں کیا کرواور اپنے گھروں میں بیٹھی رہواور جاہلیت کے زما نہ کی طرح بناؤ سنگار نہ کرواور نماز قائم کرو اورزکوةادا کرو اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو۔بس اللہ کا ارادہ ہے اے اہل بیت!کہ تم سے ہر طرح کی برائی کو دور رکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔اورازواج پیغمبر!تمھارے گھروں میں جن آیات الہٰی اور حکمت کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انھیں یادرکھو خدا لطیف اور ہرشے سے آگاہ ہے۔“

۱۹۰

ابن کثیر نے ابی الزبیر سے اوراس نے جابر سے روایت کی ہے:

”لوگ پیغمبر (ص)کے گھر کے سامنے بیٹھے تھے،اسی حالت میں ابوبکراورعمرآگئے اورداخل خا نہ ہونے کی اجازت چاہی۔پہلے انھیں اجازت نہیں دی گئی۔جب انھیں اجازت ملی اور وہ خا نہ رسول میں ہوئے توانہوں نے کیادیکھاکہ آنحضرت (ص)بیٹھے ہوئے ہیں اورآپ کی بیویاں بھی آپکے گردبیٹھی ہوئی ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،خاموش تھے۔عمر نے آنحضرت (ص)کو ہنسا نے کے قصد سے کہا:یارسول اللہ!اگرآپ دیکھتے کہ بنت زید) اس سے مراد عمر کی زوجہ ہے) نے جب مجھ سے نفقہ کا تقاضا کیا تو میں نے کیسی اس کی پٹائی کی!یہ سن کرپیغمبراکرم (ص)ایسا ہنسے کہ آپکے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔پیغمبر (ص)نے فرمایا:یہ )میری بیویاں)میرے گردجمع ہوئی ہیں ا ور مجھ سے)بیشتر)نفقہ کا تقاضا کرتی ہیں۔اس وقت ابوبکرعائشہ کو مار نے کے لئے آگے بڑھے اور عمر بھی اٹھے اوردونوں نے اپنی اپنی بیٹیوں سے نصیحت کر تے ہو ئے کہا:تم پیغمبر (ص)سے ایسی چیزکامطالبہ کرتی ہوجوپیغمبر کے پا س نہیں ہے؟آنحضرت (ص)نے انھیں مار نے سے منع فرمایا۔اس قضیہ کے بعد آنحضرت (ص)کی بیویوں نے کہا:ہم آج کے بعد سے پیغمبر (ص)سے کبھی ایسی چیز کا تقاضا نہیں کریں گے،جوان کے پاس موجود نہ ہو۔خدا وند متعال نے مذکورہ آیات کو نازل فرمایا جس میں آنحضرت (ص)کی بیویوں کو پیغمبر کی زوجیت میں باقی رہنے یا انھیں طلاق کے ذریعہ آنحضرت کو چھوڑ کے جا نے کا اختیار دیا گیاہے۔(۱)

یہ تھی،آنحضرت (ص)کی ازواج سے مربوط آیات کی شان نزول۔جبکہ آیہء تطہیر کی شان نزول پنجتن آل عبا اورائمہ معصومین (علیہم السلام) سے متعلق ہے۔اس سلسلہ میں شیعہ وسنی تفسیر اورحدیث کی کتا بوں میں کافی تعداد میں روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔ہم ان میں سے چند ایک کا ذکر احادیث کے باب میں کریں گے۔

____________________

۱۔تفسیر ابن کثیر،ج۳،ص۴۹۱

۱۹۱

اس شان نزول اورپیغمبراکرم (ص)کی ازواج سے مربوط آیات کی شان نزول میں احتمالاً کئی سالوں کا فاصلہ ہے۔اب کیسے ان آیا ت کے در میان وحدت سیاق کے قول کو تسلیم کیا جا سکتا ہے اورکیاان دو مختلف واقعات کو ایک سیاق میں ضم کرکے آیت کے معنی کی توجیہ کی جاسکتی ہے؟

تیسری جہت:یہ کہ سیاق کے انعقادکو مختل کرنے کاایک اورسبب پیغمبراکرم (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات اور آیہء تطہیر کے ضمیروں میں پا یا جا نے والا اختلاف ہے۔مجموعی طورپر مذکورہ آیات میں جمع مونث مخاطب کی ۲۲ ضمیریں ہیں۔ان میں سے ۲۰ ضمیریں ایہء تطہیرسے پہلے اوردوضمیریں ایہء تطہیر کے بعداستعمال ہوئی ہیں،جبکہ آیہء تطہیر میں مخاطب کی دوضمیریں ہیں اوردونوں مذکر ہیں۔اس اختلاف کے پیش نظر کیسے سیاق محقق ہوسکتا ہے؟

اعتراض:آیہء تطہیرمیں ”عنکم“اور”یطھّرکم“سے مراد صرف مرد نہیں ہیں،کیونکہ عورتوں کے علاوہ خود پیغمبر (ص)علی ،حسن وحسین (علیہم السلام) بھی اس میں داخل تھے۔اس لئے”کم“کی ضمیر آئی ہے اورعربی ادبیات میں اس قسم کے استعمال کو ”تغلیب“کہتے ہیں اوراس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کسی حکم کا ذکرکرنا چاہیں اوراس میں دوجنس کے افراد شامل ہوں،تو مذکر کو مونث پر غلبہ دے کر لفظ مذکر کو ذکر کریں گے اوراس سے دونوں جنسوں کا ارادہ کریں گے۔

اس کے علاوہ،مذکرکی ضمیرکا استعمال ایسی جگہ پر کہ جہاں مونث کا بھی ارادہ کیا گیا ہے قرآن مجید میں اور بھی جگہوں پر دیکھنے میں آیا ہے،جیسے درج ذیل آیات میں( قالو ااٴتعجبین من اٴمراللهرحمت اللهوبرکاته عليکم اٴهل البیت ) (۱) کہ حضرت ابراھیم) علیہ السلام) کی زوجہ سے خطاب کے بعد جمع مذکر حاضر کی ضمیر اور اہل بیت کا عنوان ذکر ہوا ہے۔

( قال لاهله امکثوا ) (۲) کہ حضرت موسی علیہ اسلام کے اہل خاندان )کہ جس سے

____________________

۱۔ ہود/۷۳

۲۔قصص/۲۹

۱۹۲

مرادان کی زوجہ ہے) کے ذکرکے بعد ضمیرجمع مذکر حاضر کے ذریعہ خطاب کیا گیا ہے۔

جواب: ہر کلام کا اصول یہ ہے کہ الفاظ کو اس کے حقیقی معنی پر حمل کیا جائے اور”اصالة الحقیقة“ایک ایسا عقلائی قاعدہ ہے کہ جس کے ذریعہ ہر لغت وزبان کے محاورات و مکالمات میں استناد کیا جاتاہے۔

اس عقلائی قاعدے کی بنیاد پر جس لفظ کے بارے میں یہ شک پیدا ہو کہ وہ اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے یا نہیں، اسے اس کے حقیقی معنی پر حمل کرنا چاہے۔ اس لحاظ سے آیہء تطہیر میں دو جگہ پراستعمال ہوئی”کم“کی ضمیرسے مراد اس کے حقیقی معنی ہیں اور یہ کہ آ یہ شریفہء مذکور میں تمام افراد اہلبیت مذکر تھے، صرف قرینہ خارجی اور آیت کی ذیل میں روآیت کی گئی احادیث کی وجہ سے قطعی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت کی فہرست میں حضرت فاطمہ زہراسلام الله علیہابھی شامل ہیں، اور ان کے علاوہ کوئی مونث فرد اہل بیت میں شامل نہیں ہے۔ اور آیہ شریفہ میں قاعدئہ”اقرب المجازات“جاری ہوگا۔

لیکن شواہدکے طور پر پیش کی گئی آیات میں قرینہ کی وجہ سے مونث کی جگہ ضمیر مذکر کا استعمال ہوا ہے اوریہ استعمال مجازی ہے اور ایک لفظ کا مجازی استعمال قرینہ کے ساتھ دلیل نہیں بن سکتا ہے کہ قرینہ کے بغیر بھی یہ عمل انجام دیا جائے اور جیسا کہ کہا گیاکہ اصل استعمال یہ ہے کہ لفظ اس کے حقیقی معنی میں استعمال ہواور ایسا نہ ہونے کی صورت میں قاعدہ”اقرب المجازات“کی رعآیت کی جانی چاہئے۔

آیہ تطہیر کے بارے میں احادیث

ش یعہ اور اہل سنت کے منابع میں بڑی تعداد میں ذکر ہونے والی احادیث سے واضح طور پریہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آیہ تطہیر میں ”اہل بیت“سے مراد صرف پنجتن پاک) علیہم السلام) ہیں اور ان میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں کسی جہت سے شامل نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں مذکورہ

۱۹۳

منابع میں اتنی زیادہ حدیثیں نقل ہوئی ہیں کہ حاکم حسکانی(۱) نے اپنی کتاب”شواہد التنزیل“ کے صفحہ ۱۸ سے لیکر ۱۴۰ تک انہی احادیث سے مخصوص کیا ہے۔(۲) ہم ذیل )حاشیہ) میں اہل سنت

____________________

۱۔ذہبی،تذکرةالحافظ،ج۲،ص۱۲۰۰پر کہتا ہے:حاکم حسکانی علم حدیث کے کامل عنایت رکھنے والاایک محکم اورمتقن سند ہے۔

۲۔ اسدالغابة/ج۵ص۵۲۱/داراحیائ التراث العربی ،بیروت، الاصابة/ج۲/ص۵۰۹/دارالفکر، اضوائ البیان /ج۶/ص۵۷۸/عالم الکتب بیروت، انساب الاشراف/ج۲/ص۳۵۴/دارالفکر، بحار الانوار،ج۳۵،ازص۲۰۶،باب آیة تطہیر تاص۲۳۲ مؤسسة الوفائ بیروت، تاریخ بغداد /ج۹/ص۱۲۶/ وج۱۰/ص۲۷۸/دارالفکر، تاریخ مدینہ دمشق/ج۱۳/ص۲۰۳و ۲۰۶و۲۰۷وج۱۴/ ص۱۴۱و۱۴۵، تفسیر ابن ابی حاتم /ج۹/ص۳۱۲۹/المکتبة المصربة بیروت، تفسیر ابی السعود/ ج۷/ ص۱۰۳/دارالحیائ التراث العربی بیروت، تفسیر البیضاوی/ج۲۳/ص ۳۸۲/دارالکتاب العلمیة، تفسیر فرات الکوفی/ج۱/ص۳۳۲ تا۳۴۲/مؤسسة النعمان، تفسیر القرآن العظیم ابن کثیر/ج۳/ص۵۴۸/دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیر اللباب ابن عادل دمشقی/ج۱۵/ص۵۴۸/ دارالکتاب العلمیة بیروت، تفسیر الماوردی/ج۴/ص۴۰۱/دارالمعرفة بیروت، التفسیر المنبر/ج۲۳/ص۱۴/دارالفکرالمعاصر، تھذیب التھذیب/ج۲/ص۲۵۸/دارالفکر، جامع البیان/ طبری/ج۲۲/ص۵/دارالمعرفة بیروت، جامع احکام القرآن/ قرطبی/ج۱۴/ص۱۸۳/دارالفکر، الدار المنثور/ج۶/ص۶۰۴/دارالفکر، ذخائر العقبی/ص۲۱تا۲۴، روح البیان/ج۷/ص۱۷۱/داراحیائ التراث العربی، روح المعانی/ آلوسی/ج۲۲/ص۱۴/دار احیائ التراث العربی/الریاض النضرة/ج۲)۴-۴)/ص۱۳۵/دار الندوة الجدیدة بیروت، زاد المسیر/ ابن جوزی/ج۶/ص۱۹۸/ دارالفکر، سنن الترمذی/ج۵/ص۳۲۸-۳۲۷و ۶۵۶/ دارالفکر، السنن الکبری / بیھقی/ ج۲ / ص۱۴۹/ دارالمعرفة بیروت، سیر اعلام النبلاء/ ذہبی/ج۳/ص۲۵۴و ۲۸۳/ مؤسسة الرسالة بیروت، شرح السنة بغوی/ج۱۴/ص۱۱۶/المکتب الاسلامی بیروت، شواہد التنزبل/ج۲/ص۸۱-۱۴۰/ موسسة الطبع و النشر لوزرارة الارشاد، صحیح ابن حبان/ج۱۵/ص۴۴۲ الٰی ۴۴۳/موسسة الی سالة بیروت، صحیح مسلم/ج۵/ص۳۷/ کتاب الفضائل باب فضائل / مؤسسة عزالدین بیروت، فتح القدیر/ شوکانی/ج۴/ص۳۴۹تا۳۵۰/ دار الکتاب العلمیة بیروت، فرائد السمطین/ جوینی/ج۱/ص۳۶۷/مؤسسة المحمودی بیروت، کفایة الطالب/ص۳۷۱تا۳۷۷/داراحیاء تراث اہل البیت، مجمع الزوائد/ج۹/ص۱۶۶-۱۶۹/دارالکتب العربی بیروت، المستدرک علی الصحیحین /ج۲/ص۴۱۶وج۳/ص۱۴۷/دارالمعرفة بیروت، مسند ابی یعلی/ج۱۲/ ص۳۴۴و۴۵۶/ دار الہامون للتراث، مسند احمد/ج۴/ص۱۰۷وج۶/ص۲۹۲/دارصادر بیروت، مسند اسحاق بن راہویہ/ ج۳/ص۶۷۸/مکتبة الایمان مدینة المنورة، مسندطیالسی/ص۲۷۴/ دارالکتب اللبنانی، مشکل الآثار/ طحاوی/ج۱/ص۳۳۵/دارالباز، المعجم الصغیر/طبرانی/ج۱/ص ۱۳۵/ دارالفکر، المعجم الاوسط/طبرانی/ج۲/ص۴۹۱/ مکتبة المعارف ریاض، المعجم لکبیر/طبرانی/ ج۲۳/ ص۲۴۵و۲۸۱و ۲۸۶و ۳۰۸و۳۲۷و۳۳۰و۳۳۳و۳۳۴و۳۳۷و۳۵۷و۳۹۳و۳۹۶، المعرفة و التاریخ بسوی/ ج۱/۳۹۸، المنتخب من مسند عبد بن حمید/ص۱۷۳ و ۳۶۷/عالم الکتب قاہرہ مناقب ابن مغازلی/ص۳۰۱-۳۰۲/ المکتبةالاسلامیة

۱۹۴

کے بعض منابع کا ذکرکرتے ہیں کہ جن میں مذکورہ احادیث یا درج ہو ئی ہے یاان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

ان احادیث کے رادیوں کا سلسلہ جن اصحاب پرمنتہی ہو تا ہے وہ حسب ذیل ہیں:

۱ ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام

۲ ۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام الله علیہا

۳ ۔ حسن بن علی علیہ السلام

۴ ۔ انس بن مالک

۵ ۔ براء بن عازب انصاری

۶ ۔ جابربن عبد الله انصاری

۷ ۔ سعد بن ابی وقاص

۸ ۔ سید بن مالک)ابو سعید خدومی)

۹ ۔ عبد اللهبن عباس

۱۰ ۔ عبدالله بن جعفرطیار

۱۱ ۔ عائشہ

۲۱ ۔ ام سلمہ

۱۳ ۔ عمربن ابی سلم

۱۴ ۔ واثلة بن اسقع

۱۵ ۔ ابی الحمرائ

اس کے علاوہ شیعوں کی حدیث اور تفسیر کی کتابوں اور بعض اہل سنت منابع میں درج کی گئی احادیث اور روایتوں سے استفادہ ہو تا ہے کہ ” اہل بیت “سے مراد پیغمبر اسلام (ص)علی، فاطمہ نیز شیعوں کے گیارہ ائمہ معصومین )علیہم السلام )ہیں۔

۱۹۵

آیہ تطہیر کے بارے میں احادیث کی طبقہ بندی

آیہ تطہیر سے مربوط احادیث کو اہل سنت کے مصادر میں مطالعہ کرنے اور شیعوں کے منابع میں موجود ان احادیث کا سرسری جائزہ لینے کے بعد انھیں چند طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

۱ ۔ وہ حدیثیں جن میں ” اہل بیت “ کی تفسیر علی و فاطمہ، حسن وحسین علیہم السلام کے ذریعہ کی گئی ہے۔

۲ ۔ وہ حدیثیں جن کا مضمون یہ ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی، وفاطمہ،حسن و حسین علیہم السلام کو کساء کے نیچے قرار دیا پھر آیہ تطہر نازل ہوئی ، اور یہ واقعہ ” حدیث کساء “ کے نام سے مشہور ہے ۔ ان میں سے بعض احادیث میں آیا ہے کہ ام سلمہ یا عائشہ نے سوال کیا کہ : کیا ہم بھی اہل بیت میں شامل ہیں؟

۳ ۔ وہ حدیثیں جن میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرروز صبح کو یا روزانہ پانچوں وقت حضرت علی و فاطمہ علیہماالسلام کے کھرکے دروازے پر تشریف لے جاتے تھے اور سلام کر تے تھے نیز آیہ تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے۔

۴ ۔ وہ حدیثیں جواس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آیہ تطہیر پنجتن پاک علیہم السلام یا پنجتن پاک علیہم السلام نیز جبرئیل ومیکائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

یہاں پرمناسب ہے کہ احادیث کے مذکورہ چارطبقات میں سے چند نمونوں کی طرف اشارہ کیا جاے:

۱۹۶

۱ ۔ ”اہل بیت“کی پنجتن پاک سے تفسیر

ذیل میں چند ایسی احادیث بیان کی جاتی ہیں جن میں آیہء تطہیر میں ”اہل بیت“کی تفسیرپنجتن پاک) علیہم السلام )سے کی گئی ہے:

الف:کتاب”المستدرک علی الصحیحین“میں عبداللہ بن جعفر سے روایت کی گئی ہے:

لمّا نظر رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إلی الرحمة هابطة قال: اٴُدعوالی، اٴُدعوالی فقالت صفیة: من یا رسول اللّٰه؟ قال:اٴهل بیتی:علیاً وفاطمه والحسن و الحسین - علیهم السلام - فجیئی بهم،فاٴلقی علیهم النبییّ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کساء ه ثم رفع یدیه ثمّ قال: ”اللّهمّ هؤلاء آلی فصل علی محمد و علی آل محمد“ و اٴنزل اللّٰه عزّوجلّ ( : إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) هذا حدیث صحیح الاسناد ۔(۱)

”جب پیغمبر خدا (ص)نے رحمت الہی )جو آسمان سے نازل ہوئی تھی) کا مشاہدہ کیا تو فرمایا: میرے پاس بلاؤ!میرے پاس بلاؤ!صفیہ نے کہا:یارسول اللہ کس کو بلاؤں؟آپ نے فرمایا:میرے اہل بیت،علی وفاطمہ، حسن وحسین )علیہم السلام)کو۔

جب ان کو بلایا گیا،تو پیغمبراکرم (ص)نے اپنی کساء )ردا)کوان پر ڈال دیااوراپنے ہاتھ پھیلاکر یہ دعا کی:خدایا!”یہ میرے اہل بیت ہیں۔محمد اور ان کے اہل بیت پر دورد ورحمت نازل کر۔“اس وقت خدا وند متعال نے آیہء شریفہ إنمّا یرید اللہ۔۔۔ نازل فرمائی۔

اس حدیث کے بارے میں حاکم نیشاپوری کا کہنا ہے:

هذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاه ۔“

”اس حدیث کی سند صحیح ہے اگرچہ بخاری اورمسلم نے اپنی صحیحین میں سے نقل نہیں

_____________________

۱۔المستدرک علی الصحیحین،ج۳،ص۱۴۸

۱۹۷

کیا ہے۔“(۱)

قابل غوربات ہے کہ حاکم نیشاپوری کا خود اہل سنت کے حدیث ورجال کے بزرگ علماء اور امام میں شمار کیا جاتا ہے ۔

ب:عن ابی سعید الخدری عن اٴُم سلمة قالت: ”نزلت هذه الآیة فی بیتی: ( إنّما یرید اللّهٰ لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) قلت: یا رسول اللّٰه، اٴلست من اٴهل البیت؟ قال: إنّک إلی خیر، إنّک من اٴزواج رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قالت: و اٴهل البیت رسول اللّٰه و علیّ و فاطمة والحسن والحسن(۲)

”ابی سعیدخدری نے ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا:یہ آیت:

( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الّرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیرا ) میرے گھر میں نازل ہوئی میں نے عرض کی یارسول اللہ!کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟فرمایا:تمھارا انجام بخیر ہے،تم رسولکی بیوی ہوپھرام سلمہ نے کہا:”اہل بیت“رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی و فاطمہ، حسن وحسین (علیہم السلام) ہیں۔

____________________

۱۔حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین“میں ان ا حادیث کودرج کیا ہے جو بخاری کے نزدیک صحیح ہو نے کی شرط رکھتی تھیں،لیکن انہوں نے انھیں اپنی کتابوں میں درج نہیں کیا ہے۔جو کچھ ذہبی اس حدیث کے خلاصہ کے ذیل میں ۔ اس کے ایک راوی ۔ملیکی کے بارے میں کہتا ہیں کہ:”قلت: الملیکی ذاھب الحدیث“اس کے عدم اعتماد کی دلیل نہیں ہو سکتی ہے۔کیونکہ اس کے بارے میں جیسا کہ ابن حجر نے”تہذیب التہذیب“ج۶،ص۱۳۲ پر”ساجی“سے نقل کر کے”صدوق“ کی تعبیرکی ہے۔ اس کی صداقت اور سچ کہنے کی دلیل ہے۔اوراس کی مدح میں جوتعبیرات نقل کی گئی ہے وہ اس کی حدیث کے بارے میں ہے اورخود صحیح بخاری ومسلم میں بھی ہم بہت سے ابواب میں ان کے راویوں کوپاتے ہیں کہ بہت سی تعرفیں کی گئی ہیں۔

۲۔تاریخ مدینة دمشق،ج۱۳،ص۲۰۶

۱۹۸

۲ ۔آیہء تطہیر کی تفسیرمیں حدیث کساء کی تعبیر

ش یعہ اور اہل سنت کی تفاسیر و احادیث کی کتابوں میں اس مضمون کی فراون حدیثیں موجود ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت علیہم السلام کو ایک کساء کے نیچے جمع کیا اور اس کے بعد ان کے بارے میں آیہ تطہیر نازل ہوئی۔ ہم اس کتاب میں ان احادیث میں سے چند ایک کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

قابل توجہ بات ہے کہ ش یعہ امامیہ کے نزدیک حدیث کساء ایک خاص اہمیت و منزلت کی حامل ہے۔ یہ حدیث مرحوم بحرانی(۱) کی کتاب،”عوالم العلوم“میں حضرت فاطمہ زہرا )سلام الله علیہا) سے روآیت کی گئی ہے اور مختلف زمانوں میں ش یعوں کے نا مور علماء اور فقہا کے نام سے مزّین اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ نیز یہ حدیث ش یعوں کی مجلسوں اور محفلوں میں پڑھی جاتی ہے اور توسّل اور تبّرک کا ذریعہ قرار دی گئی ہے۔

احادیث کے اس گروہ میں درجہ ذیل تعبیر یں توجہ کا باعث ہیں اور ان تعبیروں میں سے ہر ایک ”اہل بیت “ کے دائرے کو پنجتن پاک )علیہم اسلام) کی ذات میں متعین کرتی ہیں:

۱ ۔”إنّک الی خیر “ یا جملہء”انّک من ازواج النبّی “ سے ضمیمہ کے ساتھ(۲)

۲ ۔”تنحّی، فإنّک علی خیر ۔“(۳)

۳ ۔”فجذبه من یدی ۔“(۴)

۴ ۔”ماقال إنّک من ٍهل البیت ۔“(۵)

۵ ۔”لا،واٴنت علی خیر ۔“(۶)

____________________

۱۔ عوام العوم، جلد حضرت زہراء علیہماسلام۔ ج۱۱،ص ۶۳۸موسسہ الامامم مھدی علیہ اسلام

۲۔الدر المنثور،ج۶،ص۶۳۸،موسسة الامام مھدی

۳۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۳

۴۔الدر المنثور،ج۶،ص۱۶۰۴۔المعجم الکبیرج،۲۳،ص۳۳۶ ۵۔تاریخ مدینةدمشق ج۱۴،ص۱۴۵

۶۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۳،ص۰۶ ۲

۱۹۹

۶ ۔”فواللّٰه مااٴنعم ۔“(۱)

۷ ۔”مکانک،اٴنت علی خیر ۔“(۲)

۸ ۔”فوددت اٴنّه قال:نعم ۔۔۔“(۳)

۹ ۔”تنحیّ لی عن اٴهل بیتی ۔“(۴)

۱۰ ۔”إنّک لعلی خیر،ولم ید خلنی معهم ۔“(۵)

۱۱ ۔”فواللّٰه ماقال:اٴنت معهم ۔“(۶)

۱۲ ۔”اجلسی مکا نک،فانک علی خیر ۔“(۷)

۱۳ ۔”إنّک لعلی خیر،وهؤلائ اٴهل بیتی ۔“(۸)

۱ ۔”إنک إلی خیر “کی تعبیر

”اٴخرج ابن جریر و ابن حاتم و الطبرانی و ابن مردویه عن اٴمّ سلمة زوج النبیّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إنّ رسول اللّٰه( ص) کان ببیتها علی منامة له علیه کساء خیبریّ! فجا ء ت فاطمة - رضی اللّٰه عنها - ببرمة فیها خزیره فقال رسول اللّه( ص) : اُدعی زوجک و ابنیک حسناً و حسیناً فدعتهم، فبینما هم یاٴکلون إذنزلت علی رسول اللّٰه( ص) :( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) فاٴخذ النبیّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بفضلة ازاراه فشّاهم إیاّها، ثمّ اٴخرج یده من الکساء و اٴومابها إلی السماء ثمّ قال: ”اللّهمَّ هؤلاء

____________________

۱۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۲،تفسیر طبری ج،۲۲ص،۵

۲۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۴،ص۱۴۱ ۳۔مشکلا آثار،ج۱،ص۳۳۶

۴۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۳،ص۲۰۳

۵۔شواہدالتنزیل،ج۲،ص۶۱

۶۔شواہد التنزیل،ج۲،ص۱۳۴

۷۔شواہدالتنزیل،ج۲،ص۱۹

۸۔المستدرک علی الصحیحین،ج۲،ص۴۱۶

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296