فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 118264
ڈاؤنلوڈ: 5312


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118264 / ڈاؤنلوڈ: 5312
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ترجمہ:اور اس کی خبر بھی بتادیجیے جس کو ہم نے اپنی نشانی دی تھی وہ اس کے ہاتھ سے نکل گئی اور شیطان اس کے پیچھے پڑگیا،پس وہ گمراہ ہوگیا اور ہم چاہتے تو اس کو اس کے ساتھ لیتے لیکن ہم نے اسے ہمیشہ کے لئے زمین ہی میں رہنے یا تو وہ اپنے خواہش نفس کی پیروی کرنےلگا،وہ تو کتّے جیسا ہوگیا کہ اس پر بار لادو جب بھی زبان نکالےگا اور چھوڑ دو جب بھی زبان نکالےگا،جیسے وہ قوم جو ہماری نشانیاں جھٹلاتی ہے تو آپ اسکے قصے بیان کردیں تا کہ یہ لوگ سوچیں۔یاد رکھئے مخلوقات کے سلسلے میں اللہ کی سنت ایک ہی ہے-(وَلَنتَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا) (1) ترجمہ:اور کبھی تم اللہ کی سنت کو تبدیل ہوتا ہوا نہیں پاؤگے۔

میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں گمراہ کن فتنوں سے اور برے نتیجوں سے سوائے خدا کے کوئی بچانے والا بھی نہیں ہے اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنےوالا ہے۔صحابہ کے موضوع پر اہل سنت اور شیعوں کے درمیان ہر دور میں بحث ہوتی رہی ہے۔سب کا تذکرہ کرنے کی اس خط میں گنجائش نہیں ہے،اگر مزید معلومات چاہئے تو ان کتابوں کا مطالعہ کیجئے جو ساتویں صدی کے بعض علما نے لکھی ہیں اور ان کی تفصیل ابن ابی الحدید نے لکھی ہے(2) اس موضوع پر وہ کتاب بہت فائدہ بخش ہوگی،لیکن ہم اس بات کی ذمہ داری نہیں لیتے کہ اس کتاب کی سب باتیں آپ کی خدمت میں پیش کردیں گے۔

گذشتہ بیانات کی روشنی میں شیعوں کا صحابہ کے بارے میں نظریہ

گذشتہ بیانات کو دیکھتے ہوئے شیعہ اس معاملے میں حق بجانب ہیں کہ وہ تمام صحابہ کو مقدس اور محترم نہیں سمجھتے اور صحابہ کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ قابل تنقید بات کرتے ہیں اور ان کے بارے میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ فتح آیت:23

(2)شرح نہج البلاغہ ج:2ص:10،اور اس کے بعد

۱۶۱

ان کے اعمال اور سلوک کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں صحابہ کے بارے میں بولنے سے پہلے انہیں شریعت اور عقل کے ضابطوں پر پرکھتے ہیں تا کہ جو کچھ بولیں دلیل کے ساتھ بولیں اس لئے شیعوں کی نظر میں صرف وہی صحابہ قابل تعظیم ہیں جنہوں نے حق کو لازم سمجھا عقیدہ اور سلوک میں ثابت قدم رہے اور اپنے پروردگار کے امر کو کج فہمی کا شکار نہ بنایا بلکہ وجائے عہد کرتے رہے یہ وہ صحابہ ہین جن کی شیعہ تعظیم بھی کرتے ہیں تقدیس بھی کرتے ہیں اور ان پر فخر بھی کرتے ہیں،اس لئے کہ یہی لوگ وہ ہیں جن کے سہارے اسلام کی چکی چلتی ہے اور دین کا ستون کھڑا ہے،یہ لوگ موالات کے قابل ہیں بلکہ حق تو یہ ہے کہ یہی لوگ اللہ کے ولی ہیں،جیسا کہ خداوند عالم ان کی تعریف میں ارشاد ہوتا ہے: ( إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ-نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ-نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ) (1) ترجمہ:بیشک وہ لوگ جنہوں نے یہ کہہ دیا کہ ہمارا پروردگار تو بس اللہ ہے اور اسی بار پر قائم رہے ان کے یہاں فرشتے نازل ہوتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ڈرو نہیں گھبراؤ نہیں اور اس جنّت کی بشارت حاصل کرو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ہم دنیا اور آخرت میں تمہارے سرپرست ہیں جنّت میں تم جو چاہوگے تمہیں ملےگا اور جو مانگوگے پاؤگے فرشتوں کا نزول خدائے غفور و رحیم کی طرف سے ہوتا ہے۔

اور جس نے عہد کو توڑا حق سے جدا ہوگیا عقیدہ بدلا پچھلے مذہب پر پلٹا وہ سزا وبال اور لعنت کا مستحق ہے چاہے وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ سورہ فتح میں ارشاد ہوتا: (فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ فصلت آیت32،31،30

۱۶۲

فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا)(1)

ترجمہ:پس جو اپنے عہد کو توڑدے اس نے اپنے نفس ہی کے عہد کو توڑا ہے اور جو اللہ سے کئے ہوئے وعدے کو وفا کرتا ہے اس کو اللہ اجر عظیم دیتا ہے۔

سورہ رعد میں ارشاد ہوتا ہے:( وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِأُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ) (2)

ترجمہ:جو لوگ اللہ سے عہد باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جہاں اللہ نے ملنے کا حکم دیا ہے وہ قطع تعلق کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے رہتے ہیں ان پر لعنت ہے اور ان کا بڑا ٹھکانہ ہے۔

خدا کی راہ میں محبت خدا کی راہ میں روشنی

قرآن مجید نے ان سے محبت کرنے کی بہت سخت تاکید کی ہے جو اللہ سے محبت کرتے ہیں اور ان کو دشمن رکھتے ہیں،حدیث نبوی اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ارشادات بھی اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ خدا کی راہ میں محبت کی جائے اور خدا ہی کی راہ میں دشمنی کی جائے۔

چنانچہ سورہ مجادلہ میں ارشاد ہوتا ہے: (لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْأُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ) (3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ فتح آیت10

(2)سورہ رعد آیت25

(3)سورہ مجادلہ آیت:22

۱۶۳

ترجمہ:جو لوگ اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں انہیں تم اللہ اور اللہ کے رسول کے دشمنوں سے محبت کرتا ہوا نہیں پاؤگے چاہے وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے ہوں ان کے بھائی ہوں،ان کے خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان بیٹھ گیا ہے اور ایمان کی روح ان کی تائید کرتی رہتی ہے۔

اور سورہ ہود میں ارشاد ہوتا ہے کہ:فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلاَ تَطْغَوْاْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌوَلاَ تَرْكَنُواْ إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ أَوْلِيَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ (1)

ترجمہ:آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس پر قائم رہئے اور وہ بھی قائم رہیں جو آپ کے ساتھ توبہ کرتے ہیں اور تم لوگ طغیانی مت کرنا اس لئے کہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور ظالموں کا سہارا تو لینا ہی نہیں ورنہ آگ تم کو چھولےگی،یاد رکھو خدا کے علاوہ کوئی تمہارا ولی نہیں(اگر تم نے ظالموں کا سہارا لیا)تو پھر تمہاری مدد نہیں کی جائےگی۔

عمروبن مدرک طائی امام صادق علیہ السلام سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ سرکار نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ ایمان کے لئے سب سےزیادہ قابل اعتماد کیا پہچان ہے؟لوگوں نے کہا اللہ اور اللہ کا رسول بہتر جانتا ہے بعض لوگوں نے کہا کہ مومن نماز سے پہچانا جاتا ہے کسی نے کہا زکوٰۃ سے،کسی نے کہا روزے سے،کسی نے کہا حج اور عمرہ سے اور کسی نے کہا جہاد سے آپ نے فرمایا تم نے جن اعمال کا بھی ذکر کیا سب کی فضیلت اپنی جگہ پر ہے،لیکن یہ چیزیں ایمان کی قابل اعتماد نشانی نہیں بن سکتیں،البتہ قابل اعتماد سہارا ایمان کا اللہ کی راہ میں محبت اور اللہ کی راہ میں بغض ہے اور اللہ کے دوستوں سے محبت کرنا اور اللہ کے دشمنوں سے الگ رہنا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ ہود آیت112۔113

(2)الکافی ج:2ص:125۔126کتاب الایمان و الکفر باب الحب فی اللہ و البغض فی اللہ چھٹی حدیث

۱۶۴

عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ سرکار نے کہا اے عبداللہ سب سے زیادہ قابل اعتماد سہارا اسلام کا کیا ہے؟میں نے کہا اللہ اور اللہ کا رسول بہتر جانتا ہے،آپ نے فرمایا خدا کی راہ میں ولا،خدا کی راہ میں محبت اور خدا کی راہ میں بغض۔(1)

ابن عمر کی حدیث ہے کہ حضرت فرمایا خدا کی راہ میں محبت کرو خدا ہی کی راہ میں بغض کرو خدا کی راہ میں دوستی کرو خدا ہی کی راہ میں دشمنی کرو،تم اسی کے ذریعہ خدا کی ولایت کو پاسکتے ہو انسان ایمان کا مزہ پا ہی نہٰں سکتا جب تک محبت اور عداوت کا معیار خدا کی ذات کو نہ بنائے چاہے کتنا ہی روزہ دار ہو چاہے کتنا ہی نمازی ہو۔(2)

اسحاق ابن عمار کی حدیث امام صادق علیہ السلام سے ہے حضرت نے فرمایا جو دین کی بنیاد پر محبت نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں(3) اور اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جنھیں اہل سنت نے بھی روایت کی ہیں اور شیعوں نے بھی۔(4)

شیعوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ کی آواز پر لبیک کہیں اس کے حکم کی پیروی کریں اور اس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)السنن الکبریٰ بیہقی ج:10ص:233۔کتاب الشہادت،اہل عصبیہ کے شہادات کے باب میں اور یہ روایت حدیث براد ابن عباس اور عائشہ سے بھی منقول ہے،مجمع الزوائدج:1ص:162کتاب العلم اس باب میں کہ سب سے زیادہ کون اعلم ہے،معجم الاوسط ج:4ص:376،اس کے علاوہ بھی کتابوں میں ہے

(2)مجمع الزوائدج:1ص:90،کتاب الایمان اللہ کے لئے دوستی اور اللہ کے لئے دشمنی کے باب میں

(3)الکافی ج:2ص:127کتاب الایمان و الکفر حب فی اللہ بغض فی اللہ کے باب میں حدیث16

(4)الکافی ج:2ص:124،کتاب الایمان و الکفر حب فی اللہ بغض فی اللہ کے باب میں،وسائل الشیعہ ج:11ص:431باب 15 امر و نہی کے لئے جو مناسب ہے اس کے باب میں،اور یہ تمام کی تمام کتاب امر و نہی میں موجود ہے اس کے لئے دوسرے بھی بہت سارے مصادر شیعہ موجود ہیں،سنن کبریٰ نسائی ج:6ص:527،کتاب الایمان و شرائعہ،سنن کبری بیھقی ج:10ص:233کتاب الشہادات،مصنف بن شیبہ ج:6ص:164،کتاب الایمان،چھٹا باب،:ج:7ص:134،کتاب الزھد،سنن ابی داؤدج:4ص:198،کتاب الدیات،مجمع الزوائدج:1ص:89۔90،کتاب الایمان،باب الایمان حب فی اللہ و البغض فی اللہ،تمھیدج:17ص:429۔430۔431

۱۶۵

کے فیصلہ پر سر جھکائیں اللہ کہتا ہے۔

(وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا)(1)

ترجمہ:مومن اور مومنہ کے شایان شان ہرگز نہیں کہ جب اللہ اور اللہ کا رسول کوئی فیصلہ کردے تو پھر وہ خود کو بھی صاحب اختیار سمجھیں جو اللہ اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے وہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے۔

صحبت کا اثر اور اس کی اہمیت

جہاں تک صحبت پیغمبرؐ کا سوال ہے تو اگر صحابی نے حق صحبت کو ادا کیا ہے تو یقیناً صحبت پیغمبرؐ انسان کی رفعت و شاناور اس کے تقدس میں اضافہ ہی کرےگی اس لئے کہ پیغمبر کے اصحاب نے حرمت رسول کا خیال کیا ہے حق صحبت کی رعایت کی اور اللہ کا اس کی اس نعمت پر شکریہ ادا کیا ہے ہمارے لئے تو اصحاب پیغمبرؐ یوں بھی قابل احترام ہیں کہ وہ حضرات سابق الایمان ہیں اللہ کی دعوت کو انہیں نے ہم تک پہنچایا ہے اور یہی صحابہ ہمارے لئے ہدایت اور نجات کا سبب ہیں۔

ارشاد ہوتا ہے: (وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ) (2)

ترجمہ آیت:اور وہ لوگ جو بعد میں آئے کہتے ہیں پالنے والے ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں کینہ مت چھوڑنا بیشک تو مہربان اور رحیم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ احزاب آیت:36

(2)سورہ حشر آیت:10

۱۶۶

جیسا کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ان اصحاب کی تعریف کی ہے اور نبی کریمؐ اور آپ کے اہل بیت طاہرین علیہم السلام نے بھی حدیثوں کے ذریعہ ان حضرات کو سراہا ہے اگرچہ اس مختصر کتاب میں ان آیتوں اور حدیثوں کے بیان کی گنجائش نہیں ہے۔

البتہ اصحاب کی دوسری قسم وہ ہے جنہیں صحبت پیغمبرؐ کے غرور نے سرکش،مجرم،ملعون اور قابل سزا بنادیا ہے اس لئے کہ وہ صحبت پیغمبرؐ سے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھاسکے ان کے سامنے حجت ظاہر ترتھی جس کی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں زیادہ تھیں لیکن وہ مستقبل کے لوگوں کی گمراہی کا سبب بن گئے اور انہوں حق صحبت کو ضائع کردیا۔

ارشاد ہوتا ہے: ( أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ-جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَاوَبِئْسَ الْقَرَارُ) (1)

ترجمہ آیت:آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمتوں کو کفر ان میں بدل دیا اور اپنی قوم کو سزا کے ٹھکانے پر لے گئے،وہ جہنم جس میں انہوں نے اپنی قوم کو پہنچادیا اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا: (إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ) (2)

ترجمہ آیت:بیشک وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئی ان نشانیوں اور ہدایتوں کو چھپاتے ہیں جنہیں ہم نے قرآن میں واضح کردیا ہے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ ابراہیم:آیت:28۔29

(2)سورہ بقرہ:آیت:159

۱۶۷

سرکار دو عالم کے دور میں جو مرد اور عورتیں تھیں ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں اسی لئے خداوند عالم نے نبی کی عورتوں سے فرمایا: (يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ - وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا-يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ - إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا) (1)

ترجمہ آیت:اے نبی کی عورتو!تم میں سے جو فاحشہ مبینہ(زنا)کی مرتکب ہوئیں اس کو دو گنا عذاب ملےگا اور اللہ کے لئے یہ آسان بات ہے جو اللہ اور اللہ کے رسول کی نافرماں برداری کرےگی اور نیک کام انجام دےگی ہم اس کو دہرا اجر دیں گے اور اس کے لئے عزت دار حلال رزق کا انتظام کردیں گے۔

پھر فرمایا اے شقر ان اچھائی تو کسی کی طرف سے بھی ہوا چھائی ہی ہوتی ہے،لیکن تم نیک کام کروگے تو زیادہ اچھا ہوگا،اس طرح برائی تو برائی ہے چاہے جو کرے لیکن لیکن اگر تم برائی کروگے تو زیادہ برا ہوگا اس لئے کہ شقر ان سرکار دو عالم کے غلاموں کی اولاد میں تھا اور بہت شراب پیتا تھا۔(2)

صحابہ کو پرکھنے کے لئے ضروری ہے کہ دو باتوں کا لحاظ کیا جائے پہلی بات تو یہ ہے کہ عقلی دلیلوں اور شرعی دلیلوں کے مطابق استقامت کی ایک حد معین کی جائے جو صحیح راستے پر پہنچاسکے اور جب صحابہ کو پرکھا اور پہچانا جائے تو جذبات اور احساسات کے آئینے میں نہ پہچانا جائے۔

دوسرے یہ کہ یہ دیکھا جائے کہ اچھے اور پاک باز صحابہ کی جو حدیں معین کی گئی ہیں ان تمام باتوں کے بعد مناسب نظریے معین کئے جائیں ارادہ اور شجاعت کے سلسلے میں تا کہ کوئی نتیجہ سامنے آئے کیونکہ حق سے بلند و بالا کوئی چیز نہیں ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ احزاب:آیت:30۔31

(2)شرح نہج البلاغہ ج:8ص:205،اسی طرح بحارالانوارج:4ص:349،العدد القویہ علامہ حلی:ص:152

۱۶۸

(وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ)(1)

صحابہ یا غیرصحابہ کے احترام کے لئے شیعوں کا یہی طرز فکر ہے اور شروع سے یہی طرز فکر رہاہے اس میں شیعہ کہیں سے کمزور نہیں پڑتا اور نہ کبھی کمزور پڑےگا انشاءاللہ،حالانکہ اس طرز فکر اور نظریہ پر قائم رہنے کے لئے شیعوں کو ہر دور میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے سخت مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور بڑے مشکل حالات سے گذرنا پڑا ہے لیکن ان پر جو بھی مصیبتیں اس سلسلے میں آئی ہیں سب سے خدا واقف ہے اور شیعوں نے ان حالات کو ابتلا سمجھ کے خوشی سےقبول کیا ہے۔

غیر شیعہ افراد کا شیعوں کے بارے میں مناسب نظریہ

میں نے شیعہ نظریات آپ کی خدمت میں پیش کردیئے،اگر یہ نظریات آپ کو اور آپ کے ہم مذہب بھائیوں کو اچھے لگیں تو کیا کہنا،الحمد اللہ ہم آپ ایک دوسرے سے متفق ہیں لیکن یہ نظریات آپ کو پسند نہیں آتے جب بھی آپ کو چاہئیے کہ شیعوں کو معذور سمجھ کے ان کے متعلق احترام و عزت کا اظہار کریں،اس لئے کہ ان کا نظریہ جو کچھ بھی ہے وہ بےدلیل نہیں ہےور دلیل کےاتھ بات کرنےوالے یہ کہہ کے معاف کیا جاسکتا ہے کہ اس نے کوشش تو کی لیکن اجتہاد میں غلطی کی ظاہر ہے کہ شیعوں کا نظریہ کسی تعصب،دشمنی یا بغض و عناد کا نتیجہ نہیں ہے کہ ان کی حرمت کو پامال کردیا جائے اور انہیں چاروں طرف بدنام کیا جائے یا ان کے اوپر طعن و تشنیع کیا جائے۔

مجھے نہیں معلوم کے دوسرے فرقے کے لوگ شیعوں کو ان کے نظریات و عقائد کی بنیاد پر کس دلیل سے برا بھلا کہتے ہیں جب کہ نظریاتی اختلاف کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ شیعوں کو برا بھلا کہا جائے اور مخالف کا نظریہ نہیں ماننے کی وجہ سے شیعوں کی حرمت پامال کردی جائے ان پر طعن و تشنیع کی جائے اور انہیں طرح طرح کی سزائیں دی جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورہ احزاب:آیت:4

۱۶۹

دوسرے فرقوں سے شیعوں کا حسن معاشرت

خصوصاً شیعہ فرقہ دوسرے مسلمانوں سے معاشرت کرنے میں اپنے نبیؐ اور آئمہ اطہارؑ کی تعلیم پر عمل کرتا ہے انہوں نے شیعوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ ہر حال میں اپنے عقیدے کی حفاظت کرو اور ذاتی طور پر اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرتے رہو۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم دوسروں کے جذبات کو ٹھیں پہنچاؤ اور ان سے رواداری کرنا چھوڑ دو بلکہ تمہیں چاہئیے کہ غیروں سے حسن معاشرت کا اہتمام کرو خوش اخلاقی سے ملو اور ان کے حقوق کو ادا کردتا کہ قوم ہوشیار رہے اور نفاق کی برائی پیدا نہ ہو۔

سکونی کی حدیث ملاحظہ ہو:امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں سرکار دوعالمؐ نے فرمایا:جس کے اندر تین باتیں نہیں اس کا عمل مکمل نہیں۔

1۔ورع:جو انسان کو خدا کی نافرمانی سے روکتا ہے۔

2۔اخلاق:جس کے ذریعہ دوسرےلوگوں سے ملا جلا جاتا ہے۔

3۔علم:جس کے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دیا جاتا ہے۔(1)

مرازم چھٹے امامؑ سے روایت کرتے ہیں کہ تم پر واجب ہے کہ مسجدوں میں نماز پڑھو لوگوں کے ساتھ اچھے پڑوسیوں کی طرح رہو،شہادت قائم کرو اور جنازوں میں شرکت کرو اس لئے کہ جب تک انسان زندہ ہے دوسرے انسان سے بےنیاز نہیں ہوسکتا سماج کا ہر آدمی ایک دوسرے کے لئے ضروری ہے۔(2)

اس سلسلہ آخری حدیث میں ملاحظہ ہو،معاویہ بن وہب کہتے ہیں کہ میں نے امام سے پوچھا کہ ہمارا سلوک ان لوگوں کے ساتھ کیا ہونا چاہئیے جو ہمارے آس پاس رہتے ہیں لیکن ہماری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الکافی ج:2ص:116،کتاب ایمان و کفر،باب مدارات حدیث1

(2)کافی ج:2ص:635،کتاب معاشرت جو چیز معاشرت میں محبوب ہے کے باب میں،حدیث:1

۱۷۰

طرح شیعہ نہیں ہیں،آپ نے فرمایا تم اپنے اماموں کی سیرت پہ غور کرو جن کی تم اقتدا کرتے ہو،پس جیسے وہ کرتے ہیں تم بھی کرو،خدا کی قسم وہ غیروں کے مریضوں کی عیادت کرتے ہیں،ان کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں،ان کے لئے گواہیاں دیتے ہیں اور ان کی امانت کو ادا کرتے ہیں(1) اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جن کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔

کتنا اچھا ہوتا کہ تمام مسلمان انہیں حدیثوں پر عمل کرتے اپنے عقیدوں کی حفاظت کے ساتھ بہترین طریقے سے لوگوں کو دعوت بھی دیتے رہتے اور دوسروں سے میل جول کے ساتھ اچھا سلوک اور محبت کا برتاؤ کرتے تا کہ مسلمان متحد رہیں بات ایک جگہ رہے اور آپس کی محبت دلوں میں باقی رہے پھر ہم سب مل جل کر عالم انسانیت کو اسلام عظیم کی طرف بلائیں اسلام کی آواز لوگوں کو سنائیں کلمہ طیبہ کو بلند کریں اور ظالموں کو منہ توڑ جواب دیں اور ایک مشترک ہدف کی خدمت کریں،نویں سوال کے جواب میں ہو باتیں پیش کروں گا جو وہاں پر نفع بخش ہوں،اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری مدد کرے اور ہمیں توفیق دے وہ سب سے زیادہ رحم کرنےوالا ہے مومنین کا سرپرست ہے وہ میرے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے،

والحمد اللہ رب العلمین

-----------

(1)فی ج:2 ص 636 ،کتاب معاشرۃ حدیث 4

۱۷۱

۱۷۲

سوال نمبر۔3

کچھ اہل سنت حضرات یہ الزام لگاتے ہیں کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں،شیعوں پر الزام صحیح ہے؟حالانکہ میں نے علامہ شیخ محمد ابوزہرہ کتاب(الامام جعفر الصادقؑ)میں پڑھا ہے کہ محقق طوسیؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ قول صحیح نہیں ہے،آپ کی اس سلسلے میں کیا رائے ہے؟خداوند عالم آپ کی عمر میں اضافہ کرے۔

جواب:اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل امور آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

1۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ہر سنی عالم تحریف قرآن کی نسبت شیعوں کی طرف دیتا ہے،بلکہ بعض علمائے سنت نے تو شیعوں کی طرف سے خود ہی صفائی پیش کی ہے یہاں شیعہ سے مراد امامیہ عدلیہ ہے۔

ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری متوفی330؁ فرماتے ہیں،قرآن میں کمی اور زیادتی کے بارے میں رافضیوں کے درمیان اختلاف ہے،اس سلسلے میں تین فرقے ہیں ایک فرقہ کہتا ہے کہ قرآن میں کچھ کمی ہے زیادتی کا وہ بھی قائل نہیں،اس طرح وہ یہ بھی نہیں مانتا کہ قرآن کے اندر کچھ تبدیلی کی گئی ہے،لیکن اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن میں سے کچھ ضائع ہوگیا ہے اس کو صرف امام جانتے ہیں،شیعوں کا تیسرا فرقہ جو اعتزال اور امامت کا قائل ہے اس کا خیال ہے کہ نہ قرآن میں کچھ کمی ہوئی نہ کوئی زیادتی اللہ نے جیسا ہمارے نبی پہ اتارا تھا ویسا ہی ہے نہ بدلا گیا ہے نہ کوئی لفظ اپنی جگہ سے ہٹایا گیا ہے اور ہمیشہ قرآن ایسا رہےگا۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مقالات الاسلامیین ج:1ص:114۔115

۱۷۳

شیخ رحمۃ اللہ ہندی اپنی کتاب اظہار الحق میں لکھتے ہیں کہ شیعہ اثنا عشری کے جمہور علما کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید تغییر و تبدیل سے محفوظ ہے قرآن میں وقوع نقصان کا قول مردود ہے۔(1) اور شیعہ علما اسے قبول نہیں کرتے پھر شیخ نے شیعوں کے بعض اقوال کو مقام شہادت میں پیش کیا ہے۔

ہاں بعض سنی علما تحریف کو شیعوں کی طرف منسوب کرتے ہیں،جیسے ابن حزم ظاہری اپنی کتاب الفصل فی الملل و الںحل میں اور ایک جماعت متاخرین کی ہے،ان لوگوں نے اپنے قلم کو شیعوں کو بدنام کرنے کے لئے اور ان پر حملے کرنے کے لئے وقف کردیا ہے،سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے شیوں پر بہت سے بہتان باندھے ہیں،ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے،تاریخ کے ذمہ ہے اور ہر ذوق جستجو رکھنےوالا اگر منصف ہے تو وہ بھی ان کا حساب کرےگا۔

اہل سنت اور شیعوں کا عدم تحریف قرآن پر عملی اجماع

2۔شیعہ ہوں یا سنی تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ دو دفتیوں کے درمیان مصحف ہے وہ پورا قرآن مجید ہے وہی قرآن تمام اسلامی ملکوں میں پھیلا ہوا ہے اور تمام مسلمانوں کے درمیان تلاوت کیا جاتا ہے جب اس قرآن کو مسلمان ختم کرلیتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس نے پورا قرآن پڑھ لیا،جس طرح جب ایک سورہ پڑھتا ہے جو سورہ اس قرآن میں موجود ہے تو اس میں نہ کسی ایک کلمہ کی زیادتی کرتا ہے نہ کمی اور اس کو پڑھ نے کے بعد کہتا ہے کہ ہم نے فلاں سورہ پڑھ لیا،یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ مسلمان چاہے سنی ہو یا شیعہ تحریف قرآن کا قائل بہرحال نہیں ہے یہ بات تمام مسلمانوں کی سیرت اور ان کے فقہا کے کلمات سے ظاہر ہے۔جب علما یہ کہتے ہیں کہ نماز میں سورہ کا کچھ حصہ یا فلاں سورہ پڑھنا مستحب ہے تو ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ سورہ جو مصحف پاک میں لکھا ہوا ہے بغیر کسی کمی و زیادی کے وہ یہ نہیں کہتے کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)اظہارالحق ص:354،چوتھی فصل میں جو احادیث پر شبہوں کے جواب ہیں،اور یہ شبھہ اول کے جواب کے باب میں ہے

۱۷۴

اس سورہ کو پڑھنے کے وقت فلاں کلمہ کو زیادہ یا فلاں کلمہ کو کم کرلینا چاہئیے جب کہ اگر قرآن میں وہ کلمہ زیادہ ہوتا تو علما ضرور متنبہ کرتے کہ اس کلمہ کو حذف کردینا اس لئے کہ آدمی کا کلام نماز کے درمیان پڑھنا نماز کو باطل قرار دینا ہے اور اگر اس سورہ میں کچھ کم ہوتا تو علما ضرور ہدایت کرتے کہ سورہ کو مکمل کرنے کے لئے فلاں کلمہ ملا لینا اس لئے کہ خصوصا فرقہ امامیہ کے یہاں مشہور ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد ایک مکمل سورہ پڑھنا واجب ہے،علما کا سورہ پڑھنے پر خاموش ہنا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جو قرآن ہمارے سامنے ہے اسی کو وہ قرآن سمجھتے ہیں اور جو سورہ قرآن میں لکھے ہیں وہ سب کے سب مکمل سورہ ہیں۔

البتہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے معاملے میں سنی،شیعہ کے درمیان اختلافات ہے شیعہ کہتے ہیں کہ سورہ توبہ کے علاوہ بسم اللہ..ہر سورہ کا جز ہے لہذا وہ نماز میں تلاوت سورہ کے وقت بسم اللہ کہتے ہیں،لیکن بسم اللہ کے علاوہ کسی چیز میں بھی عملاً اختلاف نہیں ہے۔یہی اجماع عملی ہے جو تمام مسلمانوں کو قرآن مجید کے بارے میں ایک نظریہ پر قائم رکھتا ہے چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ کا یہ کہنا ہے کہ قرآن اپنی اصل صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے اور اس کے مقابلے میں یعنی اس کے خلاف کسی مسلمان کا کوئی نظریہ نہیں ہے اس لئے قرآن مجید کے حقیقت کی دلیل ہے اور قرآن اپنی حقیقت کو خود ثابت کرتا ہے تمام عالم اسلام نے اس حقیقت کو مانا ہے اور اس پر عمل کیا ہے اور ان شبہات کو قوت مل ہی نہیں سکتی ہے جن کی وجہ سے ملت اسلامیہ میں کوئی ٹیڑھاپن یا کجی پیدا ہو یا قرآن مجید کی حقانیت میں کسی شک کی گنجائش ہو۔

شیعہ علما عدم تحریف کے قائل ہیں

3۔جن شیعہ علما نے صراحت فرمائی ہے کہ مصحف کی دودفتیوں کے درمیان جو(کچھ موجود ہے وہ کل کا کل قرآن ہے وہ حضرات شیعوں کے بڑے علما ہیں ار ہر دور میں شیعوں کے علما نے تحریف کا انکار کیا ہے صرف شیخ طوسی ہی پر یہ بات منحصر نہیں ہے بلکہ ان کے پہلے اور بعد کے تمام علما نے عدم

۱۷۵

تحریف کی تائید کی ہے۔

الف:شیخ صدوق محمد بن بابویہ قمی جن کی نیت ابوجعفر ہے اور آپ کے والد علی بن الحسن ہیں آپ شیعوں کے قدیم علما میں ہیں مدرسہ قم کے زعیم اور اہل حدیث کے استاد ہیں آپ کی کتاب اعتقادات کا تذکرہ مصادر شیعہ کے ذیل میں آچکا ہے،اسی کتاب میں آپ لکھتے ہیں۔

((ہمارا عقیدہ ہے کہ جو قرآن اللہ نے ہمارے نبی محمدؐ پر نازل کیا تھا وہ دودفتیوں کے درمیان موجود ہے یہ وہی قرآن ہے جو لوگوں کے پاس ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے اس میں(114)ایک سو چودہ سورہ ہیں ہمارے نزدیک((الم نشرح)) اور((الضحی)) ایک ہی سورہ ہے اور((لایلاف)) اور((الم تر کیف)) بھی ایک ہی سورہ ہے اور جو ہماری یہ قول منسوب کرتا ہے کہ ہم قرآن مجید کو اس سے زیادہ مانتے ہیں وہ جھوٹا اور ہمارے یہاں جو روایتیں پائی جاتی ہیں جیسے ہر سورہ قرآن پڑھنے کے ثواب کے بارے میں ختم کرنے کے بارے میں نماز نافلہ میں دو سوروں کے پڑھنے کے بارے میں اور نماز میں دو سوروں کے درمیان نبی کے بارے میں یہ روایتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ ہم اسے قرآن سمجھتے ہیں جو لوگوں کے پاس موجود ہے اسی طرح ہمارے یہاں یہ روایتیں بھی ملتی ہیں جن میں ایک رات میں قرآن ختم کرنے کو منع کیا گیا ہے کم سے کم تین رات میں قرآن ختم کرنے کے ہدایت کی گئی ہے یہ روایتیں بھی قرآن کے بارے میں ہمارے عقیدے کی تصدیق کرتی ہیں بلکہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ جو کچھ وحی نازل ہوئی اگر سب کو قرآن میں شامل کرلیا جاتا تو قرآن میں کم سے کم17،ہزار آیتیں ہوتیں۔

غیرقرآنی وحی کی مثال جیسے جبرئیل کا سرکار سے کہنا کہ اے محمد ہماری مخلوق کی مدارات کردیا لوگوں کی کینہ پروری اور ان کی عداوت سے پرہیز کرو یا یہ کہ جتنا ہے جی لو تم بہرحال میت ہو جس سے چاہو دل لگاؤ بہرحال اس سے جدا ہوجاؤگے،جو عمل چاہے انجام دو اپنے عمل سے تمہاری ملاقات ہوگی،مومن کا شرف نماز شب ہے اور اس کی عزت لوگوں کو تکلیف نہیں دینا ہے یا سرکار دوعالم کا یہ قول کہ جبرئیل مجھ کو مسواک کی ہدایت کرتے رہے قریب تھا کہ میں اپنے دانت توڑ لوں یا دانتوں کی

۱۷۶

جڑوں میں گڈھے کرلوں اور پڑوسی کے بارے میں اتنی حدیثں ہیں کہ میں سمجھا اب وہ پڑوسی کو میراث بھی دےدیں گے،عورت کے بارے میں اتنی حدیثیں ہیں کہ میں سمجھا اس کو طلاق دینا ہی نہیں چاہئے اور غلاموں کے بارے میں اتنی حدیثیں ہیں کہ میں سمجھا اب وہ ایک مدت معین کردیں گے جو اس کی آزادی کا وقت ہوگا۔

یا غزوہ خندق سے فارغ ہونے کے بعد جبرئیل کا یہ پیغام لانا کہ اے محمدؐ اللہ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ نماز عصر بن قریظہ ہی میں ادا کریں یا سرکار کا یہ کہنا میرا پروردگار مجھے حکم دیتا ہے کہ میں لوگوں سے حسن اخلاق برتوں ان کی عقلوں کے مطابق جیسا کہ اللہ نے مجھے فرائض کے ادا کرنے کا حکم دیا ہے سرکار کا یہ قول کہ میرے پروردگار کی طرف سے جبرئیل ایسا حکم لے کےآئے جس سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں اور میرا سینہ اور دل خوش ہوگیا پیغام یہ ہے کہ اللہ کہتا ہے بیشک علی امیرالمومنین ہیں اور روشن پیشانی والوں کے قائد ہیں۔

یا سرکار کا یہ کہنا کہ جبرئیل مجھ پر یہ پیغام لےکے نازل ہوئے ہیں کہ اے محمد اللہ نے علی سے فاطمہ کی تزویج عرش پر کردی ہے اور اس پر اپنے بہترین فرشتوں کو گواہ بنایا ہے آپ اس نیک کام کو زمین پر انجام دے کے اپنی مات کے بہترین اصحاب کو گواہ بنادیں،اس طرح کی بہت سی خبریں اور پیغامات ہیں جو وحی تو ہیں مگر قرآن نہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ جملے اگر قرآن ہوتے تو قرآن میں ملادیئے جاتے اور اس سے الگ نہ رکھے جاتے۔

جیسا امیرالمومنین نے قرآن کو جمع کیا اور مسلمانوں کے پاس لےکے آئے فرمایا:یہ تمہارے پروردگار کی کتاب ہے ٹھیک اس طرح جمع کی گئی ہے جیسی نازل ہوئی ہے اس میں نہ کمی ہے نہ زیادتی ایک حرف بھی زیادہ یا کم نہیں ہے مسلمانوں نے کہا ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے ویسا ہی قرآن ہمارے پاس بھی ہے آپ یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کہ انہوں نے اس کو پس پشت ڈال دیا اور چھوٹی قیمت پر اس کو خرید لیا،پس بری چیز خریدی ہے۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الاعتقادات:ص:83۔86

۱۷۷

ہم نے اس گفتگو کو طویل دیا اس لئے کہ اس میں دو خاص باتیں ہیں

1۔پہلی بات تو یہ ہے کہ عدم تحریف کے اوپر میں نے تمام مسلمانوں کے اجماع عملی کا دعوی کیا لیکن دلیلیں شیعوں کی طرف سے پیش کیں مثلا ختم قرآن اور قرات سورہ و غیرہ کے مسائل میں میں نے صرف شیعہ علما کی طرف سے پیش کرکے مسلمانوں کے اجماع عملی پر صرف شیعوں کی طرف سے دلیل دی ہے۔

2۔دوسری بات یہ ہے کہ میں نے ان روایتوں کی تاویل پیش کی ہے جس سے تحریف کا وہم پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ عرض کیا ہے کہ ہر وحی قرآن انہیں ہوتی لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ میں نے یہ تاویل اپنی طرف سے نہیں پیش کی ہے بلکہ جناب شیخ صدوق جیسے علما کا قول نقل کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں حو ائمہ ۃدی علیہم الصلوۃ و السلام کے زمانے سے بہت قریب تھے اور اہل حدیث کے شیخ اور استاد تھے جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے اس سے یہ بات ثابت ہے کہ اس طرح کی تاویلیں شیعوں کے یہاں زمانہ شروع میں پائی جاتی تھیں۔یعنی یہ تاویلیں متاخرین کی ایجاد نہیں ہیں اور شادی یہی وجہ ہے کہ قدیم علما ان روایتوں کی بنا پر تحریف اور نقص کے قائل نہیں تھے۔

ب:شیخ محمد بن لغمان آپ کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے

آپ قدیم علما میں ہیں بغداد کے مدرسہ کے زعیم ہیں اور اہل اجتہاد و نظر کے استاد ہیں شیخ مفید کے نام سے مشہور ہیں آپ اپنی کتاب(اوائل المقالات)میں فرماتےیں امامیہ فرقے کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ قرآن میں سے کوئی کلمہ کوئی آیت اور کوئی سورہ کم نہیں ہے لیکن مصحف امیرالمومنین میں آیتوں کی جو تاویل پیش کی گئی تھی اور حقیقت تنزیل کی بنیاد پر معانی کی جو تفسیریں پیش کی گئی تھیں وہ قرآن سے حذف کردیا گیا ہے۔

حالانکہ میرے نزدیک یہ قول نفس قرآن میں نقص کے قول سے زیادہ مشتبہ اور کمزور ہے میں ڈوند عالم سے دعا کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو اللہ حق و حقیقت کی توفیق عنایت فرمائے۔

۱۷۸

لیکن جہان تک قرآن میں زیادتی کا سوال ہے تو یہ قول میرے نزدیک ایک رخ سے تو بالکل ہی غلط ہے اور ایک رخ سے صحیح بھی ہے میں جس رخ سے اس کے غلط ہونے کا یقین رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ مخلوق کے لئے ممکن نہیں ہے کہ ایک سورہ کے برابر اضافہ کردے اور فصحا کے سامنے یہ بات ثابت نہ ہوسکے اس لئے کہ قرآن کا اپنا ایک لہجہ اور ایک انداز ہے جس کی نقل مخلوق کے بس کاروگ نہیں،جس رخ سے زیادتی جائز سمجھی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک کلمہ یا دو کلمہ ایک لفظ یا دو لفظ یا ایک دو حروف کلمات سے مشابہ ہو جس کی وجہ سے فصیحوں کے نزدیک تمیز نہ ہوسکی ہے حلانکہ اس میں بھی یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ اللہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ رہبری کردے کہ قرآن میں فلاں زیادتی ہے میرا کلام نہیں ہے مجھے اس طرح کی زیادتی کا یقین بھی نہیں ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ قول بھی مشتبہ ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اس طرح کی زیادتی قرآن میں سرے سے واقع نہیں ہوئی اس کے ساتھ ہی میرے پاس امام جعفر صادق علیہ السلام سے عدم تحڑیف کی حدیثیں ہیں۔(1)

((اس کے علاوہ جناب شیخ نے اس سلسلے میں بہت سی باتیں کی ہیں۔))

ج:سید مرتضی علی بن الحسن الموسوی آپ اپنے استاد شیخ مفید کے جانشین تھے اور شیخ کی جہ مدرسہ بغداد کے زعیم تھے،اہل نظر و اجتہاد کے استاد تھے آپ نے اپنی کتاب مجمع البیان میں تحریف کے سلسلے میں کلام پیش کرنے کے بعد کہا،یہ وہ نظریہ ہے جس می مرتضی تائید کرتے ہیں اور یہ مکمل گفتگو انھوں نے مسائل طرابلس یات کے جواب میں لکھی ہے کہ نقل قرآن کی صحت کا علم اس طرح ہے جیسے کہ شہروں کے بارے میں بڑے بڑے واقعات کے بارے میں،عظیم حادثوں کے بارے میں،مشہور کتابوں کے بارے میں عرب کے اشعار کے بارے میں جاننا ہے،اس طرح کی چیزیں لکھنے کے وقت انسان بہت شدت سے توجہ دیتا ہے اور اپنے قلم کو بہت محتاط کرلیتا ہے اس طرح قرآن کو نقل کرنے میں قرآن جمع کرنےوالوں نے بہت احتیاط سے کام لیا ہے اس لئے نبوت کا معجزہ علوم شرعیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)اوائل المقالات ص:81۔82،تالیف قرآن کے اقوال کے بارے میں

۱۷۹

اور احکام دین کا ماخذ ہے اور مسلمان علما نے اس کو نقل کرنے میں تا حد امکان احتیاط سے کام لیا ہے یہاں تک کہ انہوں نے وہ اختلافات بھی نقل کردیئے ہیں جو قرآن کے اعراب،قرات حروف اور آیتوں کے سلسلے میں ہوتے ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نظر کے ساتھ اور کامل توجہ کے ساتھ جمع کیا ہوا کلام مغیر یا منقوص ہو،سید فرماتے ہیں کہ تفسیر قرآن یا لفظ قرآن کے نقل کی صحت کا علم ایسا ہی ہے جیسے من جملہ قرآن کا علم اس کے نقل کرنے میں وہی طریقہ اپنایا گیا ہے جو طریقہ کسی مصنف کی تصنیفات کو نقل کرنے میں استعمال ہوا ہے،جیسے سیبویہ اور مزنی کی کتابیں۔

صاحبان نظر جس طرح ان کتابوں کی تفصیل سے واقف ہیں اس طرح ان کتابوں کے اجمال سے بھی واقف ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی داخل کرنےوالا کوئی ایسا باب سیبویہ کی کتاب میں داخل کردیتا ہے،جو اس کی اصل کتاب میں نہ ہو تو صاحبان نظر و اجتہاد فوراً اس کو پہچان لیتے ہیں اور جان جاتے ہیں کہ یہ الحاق ہے اور اصل کتاب میں نہیں پایا جاتا ہے یہی بات کتاب مزنی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے ظاہر ہے کہ جب مسلمان کتاب سیبویہ اور شعرا کے دیوان کو نقل کرنے میں اتنی احتیاط اور دقت نظر سے کام لیتا ہے تو قرآن مجید کے بارے میں بےاحتیاطی کیسے کرےگا۔

جناب سید تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ قرآن تو دور پیغمبرؐ میں ہی جمع ہوچکا تھا ارو تالیف پاچکا تھا،وہی قرآن آج ہمارے سمانے ہے سید مقام استدلال میں فرماتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں عہد پیغمبرؐ میں قرآن پڑھا جاتا تھا اور لوگ قرآن کو حفظ کیا کرتے تھے،یہاں تک صحابہ کی ایک جماعت کو حفظ قرآن پر معین کیا گیا تھا،جنہیں پیغمبرؐ کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور یہ لوگ آپ کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے تھے کچھ صحابہ نے مثلاً عبداللہ بن مسعود اور ابی بن کعب نے تو پیغمبرؐ کے حضور میں کئی مرتبہ قرآن ختم کیا تھا۔

ان تصریحات کو دیکھتے ہوئے ہم تھوڑی سی توجہ دیں تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ درود پیغمبرؐ میں قرآن مجموعی طور پر موجود اور مرتب تھا نہ کہ بکھرا ہوا اور منتشر۔

سید فرماتے ہیں کہ امامیہ اور حشویہ میں جن لوگوں نے اس نظریہ کی مخالفت کی ہے ان کی تعداد

۱۸۰